Wednesday, March 31, 2010

واہ شعیب ملک ، آہ ثانیہ مرزا

تین دن سے دیکھ رہی ہوں کہ پاکستانی نوجوان لڑکے ایکدم ہائپر ہوگئے ہیں۔ بلکہ صحیح معنوں میں کملے، دیوانے اور بملے نظر آرہے ہیں۔  روزانہ شام کو گھر کے اندر آتی ہوئ گیندوں کو انٹر کام کے ذریعے واپس کرتے ہوئے آج میں نے سوچا ذرا کچھ سن گن لینے کی کوشش تو کروں۔
کیا ہوا بھئ۔ یہ کس دنیا میں گم ہیں آپ لوگ۔ پتہ چلا کہ ثانیہ مرزا کی منگنی پاکستانی کرکٹر شعیب ملک سے ہو گئ ہے۔ سنا تھا کہ محبت اندھی ہوتی ہے لیکن یہ پوری قوم با جماعت اس مرض میں کیسے مبتلا ہو گئ۔ اب ہم تو سمجھتے تھے کہ محبت کے لئے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں۔ مگر یہ نہیں معلوم تھا کہ محبت کی وباء کچھ ایسے پھیلے گی کہ شادی وہ کرنے ادھرجا رہے ہون گے اور دل لاکھوں کے ادھر دھڑک رہے ہہونگے۔
ہندءووں کے یہاں ایک ذات پانڈءووں کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پانڈو پانچ بھائ تھے۔ راجہ کی بیٹی کے لئے سوئمبر رچایا جا رہا تھآ۔ یہ پانچوں بھائ بھی وہاں پہنچ گئے۔ ان میں سے ایک  کا نام ارجن تھا، جو بہترین نشانے باز تھا۔ مقابلے میں ایک گھومتی ہوئ مچھلی کا عکس دیکھ کر اسکی آنکھ پہ نشانہ لگانا تھا۔ ارجن وہ مقابلہ جیتا۔ دلہن کو لیکر جب گھر لوٹے تو گھر کی دہلیز پہ قدم رکھتے ہی ایک بھائ نے خوشی سے نعرہ لگایا 'دیکھو ماں، ہم کیا جیت کر لائے' اسے ذرا وحید مراد کے انداز میں پڑھئے گا۔ ماں نے 'چیز' دیکھے بغیر وہیں سے جواب دیا۔ جو بھی لائے ہو، آپس میں مل بانٹ کر استعمال کرنا۔ پانڈءووں کی اپنی ماں سے فرمانبرداری ضرب المثل تھی۔ چنانچہ اس دن سے وہ خاتون پانچوں بھائیوں کی بیوی بن کر رہنے لگی۔
 اب اپنے نوجوان 'بھائیوں' کی خوشی کی وجہ سے انجان اپنی نوجوان  کنواری بہنوں کی طرف دیکھتی ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ہم میں کیا کمی ہے جو اس موئ ثانیہ مرزا پہ جا کر نظر ٹہری۔ ہمارے لئے تو یہ راگ الاپتے الاپتے گلا نہیں دکھتا کہ دوپٹہ سر سے پہنو، گھر کی چار دیواری میں رہو، خبردار جو کسی نامحرم سے بات کی۔ اب اس  حیدرآبادی چلتر باز لڑکی کو جو ابھی کچھ دن پہلے ہی اپنی ایک منگنی توڑ چکی ہے۔ کیسے بھنگڑے ڈال کر لا رہے ہیں۔ ٹینس کی اسٹار ہے۔ اسے کیوں نہیں کہتے کہ اییسے کپڑے پہنتی ہے، دوپٹہ تو ندارد کپڑے ہی پورے پہن لے تو بات ہے۔ آخر ہمارے ساتھ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ ہمیں گھروں میں بند کر کے صرف ٹی وی چینل اور شاپنگ کے کھیل میں الجھا کر رکھا ہوا ہے، ہمیں بھی ٹینس کھیلنا پسند ہے۔ ہمیں بھی شعیب ملک پسند ہے۔  اور جب شادی کی باری آتی ہے تو غیروں میں جا کر فخر سے ان لڑکیوں کو لے آتے ہیں۔ کبھی اس بہانے سے کبھی اس بہانے سے۔ انڈیا سے نفرت ہے مگر انڈین لڑکیوں سے محبت۔ منافق، دھوکے باز۔
سمجھتے ہیں ثانیہ یہاں آکر سیالکوٹ میں بیٹھ کر کھانے پکائے گی اور بھینس کو چارہ ڈالے گی۔ یہاں میں لقمہ دیتی ہون، نہیں وہ یہ بھی کہے گی' ہاہائے شعیب، یہ تمہارا پاکستان کیسا ہے'۔ اسے زرا ٹھیٹھ پنجابی انداز میں لہرا کر پڑھئیے گا
تو اے میرے پیارے نوجوانوں یہ بات میں نہیں کہہ رہی۔ یہ تو ایک دل جلی کی بات ہے۔ مجھے تو اچھی طرح معلوم ہے دل آنے کی بات ہے جب جو لگ جائے پیارا۔یہ الگ بات کے دل آنے کی رفتار دل دھڑکنے کی رفتار سے مل جائے تو حادثہ ایکدم بھی ہوجاتا ہے۔ یہ تو سہراب مرزا سے پوچھیں۔ لعنت بھیجیں اس سہراب پہ، خوشی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کچھ کہیں سے جیت کر تولا رہا ہے۔ اگر ثانیہ نہ کر دیتی تو ہم کس کو منہ دکھاتے۔ اور قوم میں مزید کرکٹ کھیلنے کی چنگاری کیسے بھڑکتی۔   شعیب کے اس فیصلے سے انکی دور اندیشی جھلکتی ہے۔ مجھے یقین ہے اس سے ملک میں کرکٹ کے کھیل کو مزید فروغ ملے گا۔
چونکہ پنجاب میں قاف کو کاف کے برابر ہی سمجھا اور بولا جاتا ہے تو ہمیں یہ اندیشہ نہیں رہیگا کہ شعیب حیدر آبادیوں کی طرح قاف کو خ بولنے لگیں گے ۔ امید ہے کہ قورمہ، کورمہ ہی رہیگا خورمہ نہیں بنے گا۔ اگرچہ کہ ہمیشہ ایسائچ نہیں ہوتا لیکن امید پہ دنیا قائم ہے۔ البتہ حیدرآبادی کھٹے کھانے شوق سے کھاتے ہیں تو کیا خبر سیالکوٹ میں اب املی کے باغات لگ جائیں۔ اور سیالکوٹی لڑکیاں یہ گانا گائیں کہ


کھٹے لیموں کھٹے،  کبھی تو میٹھے ہونگے

چھوٹے سیاں چھوٹے،  کبھی تو بڑے ہونگے



پیارے شعیب دیکھو کہیں بیوی کے غلام نہ بن جانا کو ہم سبکی زمانے بھر میں تھو تھو ہو جائے۔ اے کاش کسی کو صحیح وقت پہ ہوش آجائے اور وہ بر وقت شعیب کو بیوی کو پہلے دن سے قابو میں رکھنے کے گر بتا دے۔ ہمارا لڑکا تو ایسا سیدھا ہے کہ کوئ بھی انڈین حیدر آبادی لڑکی اسے الو بنا لیتی ہے۔ 
پیاری بہنوں ایک کے بعد ایک اس قسم کے واقعات سے گذرنے کے بعد اب آپکو اندازہ ہو جانا چاہئیے کہ یہ کبوتر کس چھجے پہ بیٹھنا چاہتے ہیں۔ سو تم میں ہمت ہے تو دنیا سے بغاوت کر لو ورنہ ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کر لو۔
 

Monday, March 29, 2010

بچوں کے لئے ایک تحفہ


پچھلا سارا ہفتہ میں نے ایک چھوٹی سی فلم کی تیاری میں گذارا۔

اسکے لئیے میں نے پہلے فوٹو شاپ کے بنیادی اسباق سیکھے۔ غلطیاں کیں۔ پھر ان غلطیوں کو بار بار صحیح کیا۔

لیکن بالآخر اب وہ چیز مل گئ۔ جو مجھے یقین ہے کہ آپکے بچوں کواردو حروف تہجی کم وقت میں آسانی سے سیکھنے میں مدد دے گی۔ روزانہ نہیں تو ایکدن چھوڑ کر یہ ویڈیو انہیں دکھائیں۔ وقت ملے تو انکے ساتھ دہرائیں۔ اور آپ دیکھیں گے کچھ دنوں میں انہیں بآسانی الف سے لیکر ی تک تمام حروف یاد ہو جائیں گے۔۔ اور ہاں اس پہ اپنی رائے دینا نہ بھولئیے گا۔

Thursday, March 25, 2010

ٹیکنا لوجی اور اجنتا کے غار

آخر کیسے پتہ چلتا ہے کہ آج اتوار ہے اور چھٹی ہے۔ اسکول بسوں کی آوازیں نہیں ہوتیں۔ صبح سے ڈور بیل بار بار نہیں بجتی۔کوئ خواب درمیان سے نہیں ٹوٹتا۔ لیکن ایک اہم علامت بچپن سے  اس دن کے اخبار سے پتہ چلتی تھی۔ جس میں میگزین ہوتا تھا۔  جو صبح پہلے جاگتا تھا اخبار سب سے پہلے اسکے حصے میں آجاتا تھا۔ شاید میری سحر خیزی کی عادت میں یہ چیز بھی شامل ہو۔  میں سب سے پہلے اخبار پڑھ کرختم کرنا چاہتی تھی۔ اب تو اخبار والا اتنی دیر سے اخبار دیکر جاتا ہے کہ میں انٹر نیٹ پہ ایک تفصیلی چکر لگا لیتی ہوں۔
اس اتوار کو ہم سب نے اس تجویز پہ غور کیا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ اخبارات کو بند کر دیا جائے۔ ہمارے ہر روز آنیوالے اخبارات کی تعداد اب سے کچھ عرصے پہلے تک  تین اخباراورچھٹی والے دن کو خاص رعایت دیتے ہوئے دو انگریزی کے اور دو اردو کے اخبار تھے۔ پھر یوں ہوا کہ اتنے چینل آتے ہیں پل پل کی خبر تو ان سے ہی مل جاتی ہے۔تو روز کا ایک اخبار مقرر ہوا اور چھٹی والے دن تین۔ 
لیکن اب کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ اخبار کی چھٹی کر دینی چاہئیے کیونکہ جب ہر کسی کہ پاس اسکا اپنا کمپیوٹر ہے اور وہ الیکٹرونک اخبار پڑھ سکتا ہے تو اسکی کیا ضرورت ہے۔ میں اس تجویز کے حامیوں میں سے نہیں ہوں۔ اس طرح سے اس معاملے میں انتہائ قدامت پسند ہوں۔
میرا موقف یہ ہے کہ اخبار اپنی جسمانی حیثیت میں جب موجود ہوتا ہے تو ایک اخلاقی دباءو رہتا ہے کہ ایک نظر ہی سہی پڑھ لینا چاہئیے۔ دوسرا یہ کہ دن میں کسی بھی وقت کسی بھی جگہ پڑھ سکتے ہیں حتی کہ کسی قطار میں انتظار کرتے ہوئے یا چلتی گاڑی میں بھی پڑھ سکتے ہیں اور تھک جائیں تو تکئے کے نیچے دبا کر وہیں کچھ دیر کے لئے آنکھین موند لیں۔ گرمی ہو تو ہلا کر پنکھا بنا لیں، برسات میں مکھیاں اڑا لیں، کسی بات پہ سب سے چھپ کر مسکرانا ہو تو اخبار منہ کے آگے کر لیں، اور کچھ نہیں تو کباڑئے سے ہر مہینے الجھنے کا آسان بہانہ،  ماچس ختم ہو گئ تو ایک چولہے سے دوسرے تک آگ لیجانے کا آسان طریقہ، کسی کو پیار سے چپت لگا نے کا دل ہو لیکن محرمیت آڑے آتی ہو تو اخبار سے جھاڑ دیں، کیا یہ رومانیت الیکٹرنک اخبار کیساتھ میسر ہے؟
 کچھ انہی وجوہات کی بناء پہ مجھے ڈیجیٹل کیمرے انتہائ ناپسند ہیں۔ پہلے کیمروں میں رول ہوا کرتے تھے۔ ایک اخلاقی دباءو رہتا تھا کہ انکو ڈیویلپ کروا لیا جائے ورنہ خراب ہو جائیں گے۔ پھر انکو البم میں سجایا جاتا اور پھر سب لوگوں کو یہ دکھائے جاتے اور ان پہ سیر حاصل گفگتو ہوتی۔ ہائے کیا زمانہ تھا۔ کسی کی تصویر پسند آئ تو اڑالی اور پھر مدتوں پہلو میں دبا کر دیکھتے رہنا اور ان سے باتیں کرنا ۔اسی لئے تو یہ گانا بنا کہ جو بات تجھ میں ہے تیری تصویر میں نہیں۔ تصویر میں نہیں۔
اب ڈیجیٹل کیمرے کی وجہ سے تصویریں کمپیوٹر میں ہی پڑی رہ جاتی ہیں۔ اس وقت میرے پاس پانچ سو کے قریب تصاویر ہیں جنکے بارے میں ہر تھوڑے دن بعد سوچتی ہوں کہ ان کو بیٹھ کر چھانوں اور کسی چیز میں محفوظ کر کے تصاویر نکلوا لوں۔ تاکہ کسی البم میں سج جائیں لیکن وہی بات آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔
ان تصویروں کی تعداد بڑھے چلی جارہی ہے۔ اور یقیناً کچھ عرصے بعد انکو بنوانا جیب پہ خاصہ بھاری پڑیگا۔ لیکن ایک عجیب نا مکمل سا اطمینان رہتا ہے کہ کمپیوٹر میں تو ہیں۔ جب چاہیں گے جا کر بنوا لیں گے۔
سوچتی ہوں خدانخواستہ اگر کسی وجہ سے یہ دنیا اس وقت  کسی بھی وجہ سے ایکدم ختم ہو جائے تو بچ رہنے والے اس حساب سے کتنے غریب ہونگے انکے پاس کچھ بھی نہ ہوگا جس سے وہ اپنا ماضی دوبارہ نکال سکیں۔ جیسے اجنتا کے غار اور الف لیلی کی کہانیاں۔


اجنتا کے غاروں میں زمانہ قبل از مسیح کی بنی ہوئ یہ تصویر، اب تک موجود ہے)۔)

پاکستان ، امریکہ اور استواری ء تعلقات

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ ایک معمے کی صورت رہے ہیں۔ اور عالم یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں۔ لیکن کبھی بھی حالات اس طرح کے نہیں ہو پاتے کہ تمہیں اپنوں سے کب فرصت، ہم اپنے غم سے کب خالی۔ چلو بس ہو چکا ملنا نہ تم خالی نہ ہم خالی۔ 
البتہ عوام کا ایک طبقہ جو یہ سمجھتا ہے کہ ہمارے تمام مسائل کی جڑ امریکہ کا ہمارے اندر مصروف رہنا ہے وہ کہتے ہیں کہ
خیر اس موقع پہ میں عوام کا تذکرہ کر کے آپکے منہ کا ذائقہ خراب نہیں کرنا چاہتی۔ آخر وہ خوامخواہ ہوتے ہی  کیوں ہیں۔
چلیں پھر خواص کی باتیں کریں۔ ماضی ء قریب میں موجودہ صدر صاحب کے سارا پالن سے ہاتھ ملالینے اور معانقے کرنے کی خواہش  کا اظہار کرنے
پہ ان لوگوں نے وہ ہلہ بولا کہ کچھ تاریخی شاہکار وجود میں آگئے۔

یہ دیکھئے یہ ہے انکے دشمنوں کے تخیل کی پرواز۔ گھٹیا حرکت۔ ایسے ہی کسی موقع پہ شاید چڑ کر غالب نے کہا کہ خواہش کو احمقون نے پرستش دیا قرار۔ کیا پوجتا ہوں اس بت بیداد گر کو میں۔ میری ہمدردیاں اپنے محبوب صدر کے ساتھ رہیں۔

آج ہم سبکی محبوب امریکن وزیر ہلیری کلینٹن نے اعلی سطح کی امریکن اور پاکستانی اسٹریٹجک میٹنگ کے بعد اسے نئے تعلقات کی استواری کا نیا دن قرار دیاہے۔ نئے تعلقات کی استواری کے اس نئے دن پہ  آپ سب کے تخیل کی بلند پرواز کے لئیے یہ تصویر حاضر ہے۔


نہیں معلوم شاہ محمود قریشی  نے کیا سوچا۔ ہم اگر شاعر ہوتے تو کہتے کہ
اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر
بے پئیے بھی تیرا چہرہ تھا گلستاں جاناں

Tuesday, March 23, 2010

اقتدار کی جنگ

میں اور میری بیٹی جب بھی غسلخانے کا رخ کرتے ہیں تو میری صاحبزادی بہت اچھلتی کودتی اندر جاتی ہیں۔ نہانے اور پھر اس بہانے پانی بہانے کی خوشی انکے روئیں روئیں سے ٹپکتی ہیں۔ لیکن ہم دونوں کو اندر گئے کچھ ہی لمحے گذرتے ہیں کہ ایک افراتفری اور ہڑبونگ کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ باہر والوں کو یوں لگتا ہے کہ اندر ایک شیر اور ہاتھی کو بند کر دیا گیا ہے۔
ایک دن میری رشتے دار خاتون نے اسکی وجہ پوچھنے کی ہمت کر ڈالی۔ انہوں نے سوچا کہ ویسے تو یہ مارتی پیٹتی  دکھائ نہیں دیتیں لیکن غسلخانے میں ضرور  جا کر دن بھر کے چماٹ رسید کرتی ہونگی۔ آخر مہمانوں کے سامنے بھرم بھی تو رکھنا ہوتا ہے۔ 
تو انہوں نے اپنے لہجے میں ایک تجاہل عارفانہ پیدا کرتے ہوئے کہا۔ یہ تم دونوں آخر اندر کیا کرتی ہو کہ پورا گھر ہل جاتا ہے۔ میں نے انہیں انتہائ تحمل سے جواب دیا۔ کچھ ایسا خاص نہیں کرتے۔ اقتدار کی جنگ میں اتنا شور شرابہ تو ہوتا ہی ہے۔ ایکدم سنجیدہ ہوئیں اور کہنے لگیں کیا مطلب غسل خانے کے اندر کونسی اقتدار کی جنگ ہو سکتی ہے۔ میں نے  ان سے کہا کہ اگر عقابی روح سینوں میں بیدار ہو تو غسل خانے کے اندر کیا مردہ خانے کے اندر بھی شور شرابہ ہو سکتا ہے۔
کہنے لگیں، چلو اچھا اب باتیں نہ بناءو۔ میں تو بالکل دہل کر رہ جاتی ہوں۔ تم دونوں اندر اتنا چنگھاڑتی ہو۔ آخر غسل خانے میں کس چیز پہ جھگڑا ہوتا ہے۔ میں انکی طرف مڑی اور کہا آپکو یقین نہیں آرہا یہ اقتدار کی جنگ ہوتی ہے۔ جب ہم نہانے کے لئے اندر داخل ہوتے ہیں تو آپکو پتہ ہے سب سے اہم چیز پانی ہوتا ہے۔ وہ اللہ کا شکر ہے کہ ابھی تک وافر مقدار میں دستیاب ہے۔ دوسری اہم چیز اسکا منبع ہے۔ چونکہ لیڈ پوزیشن میری ہے تو ہینڈ شاور میرے ہاتھ میں ہوتا ہے  یہ صورتحال میری صاحبزادی کے حق میں نہیں جاتی کیونکہ اس طرح وہ اسے حسب منشاء استعمال نہیں کر پاتیں۔ وہ اسکے لئے جنگ کرتی ہیں اور میں اسے ہر قیمت پہ اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہوں اس طرح میری رٹ قائم ہوتی ہے۔   اگر ایسا نہ ہو تو پورا ٹینک پانی خرچ ہونے کے بعد ہمارے غسل خانے کی ہر چیز غسل کر لے گی سوائے انکے کیونکہ اس عمل کے دوران انہیں خود نہانے کی فرصت نہیں ملے گی۔ تو یہ اقتدار کی جنگ اس پورے عمل کے دوران چلتی ہے اور پچھلے دو سال چار مہینے سے ایسے ہی چل رہی ہے۔ پہلے میں خود  بھی ساری بھیگ جاتی تھی اب میں نے اپنے بچاءو کے طریقے ڈھونڈھ لئے ہیں۔
ارے تم لوگوں سے تو اب ایک بچہ قابو میں نہیں آتا۔ ہم سے پوچھودس دس بچے پیدا کئے اور اکیلے پالے پوسے-------------------------۔  سوچتی ہوں کہ اگر ماضی کی روایات کو جاری رکھتے ہوئے دو ہینڈ شاور ایکدن اپنی بیٹی کی پیٹھ پہ رسید کر دوں تو معاملہ اسی دن نبٹ ہو جائے گا۔ لیکن یہ تو بادشاہت کے زمانے کا طریقہ ہے۔ کیا جمہوری دور میں ایسا ممکن ہے۔ 
میں وہاں سے فوراً اٹھتی ہوں، اس سے پہلے کہ میری بیٹی پانی میں شرابور، میرے بستر پہ چڑھ کر اچھل کود مچائیں اور مجھے انکو کپڑے پہانے کے لئیے  بیڈ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک منتیں سماجتیں کرنی پڑیں صورتحال میرے قابو میں رہنی چاہئیے۔ آپکو معلوم ہے اقتدار کی اس جنگ میں وقت کی بھی بڑی اہمیت ہے۔

Saturday, March 20, 2010

نئے افکار انکا حصول اور ترویج-۸

تقریباً ڈیڑھ ہزار سال قبل از مسیح میں، آریاءووں کی آمد،ہندوستان کی تہذیب میں نمایاں تبدیلیوں کا باعث بنی۔ اس سے پہلے یہاں دراوڑی تہذیب کا اثر تھا جس نے وادی سندھ میں جنم لیا اور جو دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں شامل ہے۔ آریا وسطی ایشیا سے آئے تھے۔ انکی زبان پہ یورپی زبانوں کا اثر تھا، آریہ بنیادی طور پہ جنگجو تھے، انکے مزاج میں آوارہ خرامی اور اضطراب تھا۔وہ سفید فام تھے اور دراوڑی گہرے رنگ کے۔ آریا اپنے آپکو اور اپنی تہذیب کو  دراوڑوں سے بہتر جانتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے دراوڑوں کو حقارت سے داس کہا جسکا مطلب ہے غلام۔ دی گئ دو تصویروں میں آپ بآسانی اندازہ کر سکتے ہیں کہ کون آریائ نسل سے ہے اور کون دراوڑی نسل سے۔



 اسکے ساتھ ہی ایک طبقاتی تقسیم نے جنم لیا۔ طبقاتی تقسیم اگرچہ آریاءووں کی آمد سے پہلے موجود تھی۔ لیکن نئ پیدا ہونے والی تقسیم خالص نسلی اثرات کے تحفظ کا نتیجہ تھی۔ کیونکہ ساتھ رہنے سے سفید فام آریاءووں کو  سیاہ فام مقامی باشندوں سے اختلاط کا اندیشہ تھا۔۔ چنانچہ مذہبی فرائض کی انجام دہی برہمنوں کو ملی، ملک کی حفاظت کشتریوں کے ہاتھ آئ، عوام ویش کہلائے اور کاروباری امور انکے حوالے ہوئے۔ سب سے نیچ ذات شودر تھے۔ جنکا کام برتر طبقات کی خدمت سر انجام دینا تھا۔ آریاءووں نے اس ساری تقسیم کو اس طرح منظم کیا کہ خود برہمن کا منصب سنبھال لیا اور اس طرح سےمذہبی امور کے ذریعے معاشرے کی رہ نمائ جیسا مضبوط ادارہ انکے پاس آگیا۔۔یہ تقسیم اتنے مضبوط اثرات رکھتی تھی کہ بر صغیر پاک و ہند میں وطن، نسل، ذات، مذہب،  اورپیشے کے لحاظ سے چھوٹی چھوٹی اکائیاں آج بھی موجود ہیں۔
آریاءووں نے اپنی داخلی جذبات کا اطہار اپنشدوں میں کیا۔ رگ وید انکی تصنیف کردہ مذہبی کتاب ہے۔  انہوں نے  فنا و بقا کے تصورات کو اہمیت دی۔ اس میں حقیقت اولی کی وحدت کی بات کی گئ۔ چنانچہ روح کو اہمیت دی گئ اور فرد کو جسم سے بلند ہونے کا سبق دیا گیا۔ یوں صورت حال یہ بنی کہ اعلی سطح پہ آریائ اثرات اور زیریں سطح پہ دراوڑی اثرات سرگرم ہونے لگے۔ اور دو مزاج سامنے آئے۔ آریائ اور دراوڑی مزاج۔
اس عہد کی دو کتابیں جو کہ ہندو دیو مالا میں شامل ہیں رامائن اور مہا بھارت ہیں۔ رامائن میں رام ، سیتا اور راون کے کرداروں سے کہانی بنی گئ۔ اور اس میں ہندو فلسفے کے بنیادی عناصر مثلاً نظریہ ء وحدت اور تیاگ وغیرہ بھی سما گئے۔ رام ایک اعلی ذات سے تعلق رکھنے والافرد ہے اور شمالی ہندوستان میں اسکی حکومت قائم ہے۔ وہ مزاجاً آریہ ہے۔ اسکے بر عکس راون راکشس ہے، برا ہے، اور جنوب سے تعلق رکھتا ہے۔ یوں شمالی ہندوستان آریہ کے مزاج میں آگیا
جبکہ جنوبی ہندوستان میں دراوڑی تہذیب کے آثار آگئے۔ چنانچہ راون کا سیتا کو اغوا کرنا دراصل دراوڑوں کا آریہ سماج کے خلاف ایک رد عمل بھی ہے۔


آریا اپنے ساتھ جو زبان لائے تھے اس نے سنسکرت کو جنم دیا۔ جبکہ دراوڑی زبان کے اثرات جنوب کی زبان میں نظر آتے ہیں جیسے تامل، تیلگو، کناڈا، بروہی، ملیالم زبانیں۔ اس تہذیب سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر لوگ پاکستان ، بنگلہ دیش، افغانستان،  ایران  سری لنکا، اور انڈیا میں پائے جاتے ہیں۔
دراوڑی اور آریائ تضاد کا کا نتیجہ برصغیر کے مذہبی تصورات میں بھی تبدیلی لایا۔ دراوڑ کثرت کی طرف مائل تھے اور آریاءووں نے وحدت کی طرف توجہ دلائ۔ دراوڑ اپنی زمین سے جڑے رہنا پسند کرتے تھے جبکہ آریہ آزاد ہونے کے آرزومند تھے۔ چنانچہ برصغیر میں چلنے والی تحریکوں کے پیچھے اس نفسیات نے بھی کام کیا۔
دراوڑی تہذیب نے خود کو اونچی پرواز پر مائل کرنے کے بجائے اپنے اندر سمٹ جانے کی تلقین کی اور سماجی رسوم قیود کا پختہ نظام قائم کیا۔ برصغیر میں برہمنیت کو فروغ انکے اس رد عمل کی وجہ سےبھی  ملا۔

جاری ہے

حوالہ جات؛

اردو ادب کی تحریکیں، مصنف ڈاکٹر انور سدید، انجمن ترقی اردو پاکستان۔

Wednesday, March 17, 2010

مولانا رومی کی شاعری

تمہیں تو پروں کیساتھ پیدا کیا گیا ہے تم کیوں رینگنا چاہتے ہو۔
یہ الفاظ عظیم صوفی شاعر جلال الدین محمد رومی کے ہیں۔ انکا نام صوفی شاعری کے حوالے سے جس بلندی پہ نظر آتا ہے اسکی کوئ مثال نہیں ملتی۔ مثنوی مولانا رومی  اس شاعری کی معراج ہے اور انکے عشق کا اظہار۔ عشق افراد ، اشیاء، مظاہر قوت، معقولات و مجردات کا ہو سکتا ہے اور خدا سے بھی۔ مگر خدا سے عشق کی شدت کو انسان الفاظ میں ادا کرنے سے قاصر ہے۔ اور اس لئیے مجازی اشارے استعمال کرنا پڑ جاتے ہیں۔

رومی کے اوپر کچھ تحاریر سے گذرتے ہوئے خیال ہوا کہ انکی شاعری کے کچھ حصوں میں آپکو بھی شامل کر لیا جائے۔ 
مولانا چونکہ خیال کرتے ہیں کہ روح انسانی کی اصل خدا ہے۔ اور اس سلسلے میںمرد  وعورت کی کوئ تخصیص نہیں۔ اس وجہ سے اپنے زمانے میں مولانا رومی صوفی ازم کی تاریخ  میں ان معدودے شخصیات میں شامل ہوتے ہیں جنکے مریدوں میں خواتین بھی شامل تھیں۔ مثنوی میں ایک جگہ وہ فرماتے ہیں کہ

Mohammed said,
'women prevails over the wise and intelligent. While the ignorant dominate her'. They lack tenderness and affection because their animality prevail. Love and gentleness are human qualities, aggressiveness and lust are bestical.
 یعنی، محمد صلعم نے کہا کہ عورتیں عقلمند اور ذہین مردوں پہ چھا جاتی ہیں جبکہ جاہل مرد ان پہ حکمرانی کرتے ہیں۔ ان میں شفقت اور محبت کی کمی ہوتی ہے کیونکہ ان میں حیوانیت غالب ہوتی ہے۔ محبت اور شائستگی انسانی خواص ہیں اور جارحیت پسندی اور ہوس حیوانی خواص۔
ایک اور جگہ پہ وہ کہتے ہیں،
Women is a ray of God. She is not earthy beloved. You could say; She is creative, not created
یعنی، عورت خدا کی ایک کرن ہے۔ عورت کوئ زمینی محبوب نہیں ہے۔ تم کہہ سکتے ہو کہ وہ تخلیق کار ہے تخلیق نہیں۔
vol I, 2433-2437
Mathnavi Jalaluddin Rumi.
Translated by Kabir and Camilla Helminski
Shambhala, Boston and London, 2008.

ایک اور جگہ وہ انسانی ارتقاء کی بات کرتے ہیں۔ انسان نے نہ صرف جسمانی ارتقاء حاصل کیا ہے بلکہ شعوری ارتقاء سے بھی گذرا ہے۔اور حقیقت تک رسائ حاصل کرنے کے لئیے ذہن کا پورا سہارا لیا۔ اور حسیات اور خرد سے حاصل اس معلومات نے کئ متضاد خیالات کو جنم دیا ہے۔ اور تضاد کی صورت ایسی بنتی ہے کہ
کائنات فی الواقع موجود ہے۔ فی الواقع موجود نہیں ہے محض التباس ہے۔ حقیقت غیر متغیر ہے۔ حقیقت تغیر پذیر ہے۔ اشیاء کا تغیر ذہن کی کرشمہ سازی ہے۔ فرد تمام اشیاء کا معیار ہے۔ فطرت انسانی حامل صداقت ہے۔ روح فانی ہے۔ روح غیر فانی ہے۔ کائنات میں تناسخ ارواح  کا سلسلہ جاری ہے۔ خدا ایک ہے۔ خدا بہت سے ہیں۔ خدا ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔
رومی اپنے وجدان کو استعمال کرتے ہیں اور جذبہ ء عشق سے ایک ارتقائ حالت کو اس طرح کھوجتے ہیں۔

از جمادی مُردم و نامی شدم — وز نما مُردم بحیوان سرزدم
مُردم از حیوانی و آدم شدم — پس چه ترسم کی ز مردن کم شدم
حملهء دیگر بمیرم از بشر — تا برآرم از ملایک بال و پر
وز ملک هم بایدم جستن ز جو — کل شییء هالک الاوجهه
بار دیگر از ملک پران شوم — آنچه اندر وهم ناید آن شوم
  پس عدم گردم عدم چو ارغنون — گویدم کانا الیه راجعون
ترجمہ؛
میں پہلے پہل جماد یعنی پتھرتھا پھر فنا ہو کریعنی ترقی کر کے نبات یعنی شجر ہو گیا، پھر فنا ہوا یعنی ترقی کی اور حیوان کی صورت نمودار ہوا۔
اسکے بعد میری حیوانیت بھی فنا ہو گئ یعنی میں نے مزید ترقی کی اور مجھے انسانی صفات عطا ہوئے۔ مجھے فنا ہونے کا خوف نہیں۔ کیونکہ فنا سے مجھ میں کوئ کمی نہیں پیدا ہوتی۔
حیات مادی کے بعد مجھ پر پھر فنا کا حملہ ہوتا ہے۔ میری بشریت یعنی انسانی خصوصیات معدوم ہوتی ہیں اور فرشتوں کی مانند مجھے بال و پر عطا کئے جاتے ہیں
عالم ملکوت سے میں پرواز کر کے ایسے مقام پہ پہنچ جاتا ہوں، جہاں وہم و قیاس کا گذر نہیں ہو سکتا۔
میں آخر میں عدم ہی عدم ہو جاتا ہوں اور ساز کی طرح 'ہمیں اسی کی طرف لوٹنا ہے' میرا ورد ہو جاتا ہے۔

اگرچہ  رومی اس خیال تک اپنے وجدان کی قوت سے پہنچے مگر جدید سائنس میں ایک تحقیق داں اسے اپنے علم اور تفکر  اور مشاہدے کی قوت سے حاصل کرتا ہے تفکر اور مشاہدہ جب اپنی انتہاء پہ پہنچتے ہیں تو وجدان بن جاتے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ ڈارون کے ارتقاء کا نظریہ سامنے آتا ہے۔  اس سے ایک بات ہمیں محسوس ہوتی ہے کہ وجدان ہو یا تحقیق ہمیشہ کھلے ذہن پہ ہی اپنا نزول کرتے ہیں۔
 اللہ انکی مغفرت کرے۔  جب ہمیں بال و پر دئے گئے ہیں تو ہم کیوں رینگنا چاہتے ہیں۔

حوالہ جات؛
مثنوی مولانا روم میں خواتین کا تذکرہ
کتاب، تصوف اور سریت، پروفیسر  لطیف اللہ، ادارہء ثقافت اسلامیہ

Tuesday, March 16, 2010

ٹرن ٹرن

میرا موبائل فون بجے جا رہا ہے۔ اسکی وجہ میرا اتنا بیمار ہونا نہیں ہے کہ میں فون تک نہ اٹھا سکوں۔ اسکی وجہ-----۔ لیکن ٹہریں پہلے میں اس ساری بات کی تفصیلات بتاتی ہوں۔
ابھی دس دن پہلے صبح نو بجے کے قریب فون آیا کہ میں ٹیلی نار کے آفس سے بول رہا ہوں۔ اتنے میں مشعل نے آکر اپنے ایک سنگین مسئلے سے آگاہ کیا کہ وہ لان میں جانا چاہتی ہیں۔ میں نے اقرار میں سر ہلایا کہ وہ جا سکتی ہیں۔ لیکن گرل بند ہے ماما، ساتھ میں ایک چوں چوں۔ میں نے اشارے سے کہا کہ رابعہ سے کہو کھول دے گی۔ ادھر ٹیلی نار والے صاحب نے
جھلائے
ہوئے لہجے میں کہا کہ آپ ذرا بچوں کو ادھر کر دیں آپکو ایک اہم بات بتانی ہے۔ خیر اتنی دیر میں گرل کھلی اور وہ
روانہ ہوئیں۔
حالات ایسے ہوئے کہ اہم امور پہ بات کی جا سکے۔ سو، میں نے ان موصوف سے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے؟ کہنے لگے کہ میں اسلام آباد سے ٹیلی نار کے ہیڈ کواٹر سے بات کر رہا ہوں جی۔ آپکا سم نمبر ہمارے پاس موجود تھا جی اور ہم نے ایک قرعہ اندازی کی تھی، جی، جس میں آپکے نمبر کو پہلا انعام ملا ہے جی۔ یہ دس لاکھ کا انعام ہے ، ہیں جی۔ مجھے اسکی آواز اور انداز گفگتگو سے احساس ہوا کہ کوئ خاصہ کم پڑھا لکھا شخص ہے۔  کسی کمیونیکشن محکمے کا شخص ایسے غیر پیشہ ورانہ انداز میں بات نہیں کریگا جی ۔ یہ تو کوئ فراڈ ہے، ہیں جی۔ 
میں نے بات ٹآلنے کے لئے کہا 'اچھا تو اب مجھے کیا کرنا ہوگا'۔ جواب ملا۔ آپکو جی، اب میں جیسے ہی نمبر اپکا بند کرونگا جی، تو یہ کرنا ہوگا کے کہ اپنی سم نکال کر اسکا نمبر دیکھیں، ہیں جی۔ پھر انہوں نے مجھے ایک نمبر لکھوایا کہ یہ آپکا نمبر ہوگا۔ آپ کے پاس ہمارا کنٹیکٹ نمبر تو آگیا  ہوگا جی، اسی نمبر پہ پندرہ منٹ کے اندر  فون کر کےسم  نمبر کے صحیح ہونے کی اطلاع دیں، ہیں جی۔ انعام حاصل کرنے کا طریقہ آپکو بتا دیا جائیگا جی۔ یاد رکھیں پندرہ منٹ کے اندر فون کرنا ہے ورنہ پھر آپکو مشکل ہوگی، جی۔
مشکل ہوگی میری بلا سے، میں نے انکے احکامات پہ عمل کرنا وقت کا زیاں سمجھا۔ اور سمجھا کہ ایک چپ ہزار بلا ٹالتی ہے۔ اب دس دن بعد آج پھر ایک فون آیا۔ اوجی میں ٹیلی نار کے آفس سے بات کر رہاہوں، جی۔ اچھا اور میرا کوئ انعام نکل آیا ہے، میں نے ایک کامیاب اندزہ لگایا۔ جی، آپکا پانچ لاکھ کا انعام نکل آیا ہے، جی۔ اچھا تو، مجھے نہیں لینا یہ انعام اپنے پاس رکھیں۔  انکے ارمانوں پہ لٹرز کے حساب سے اوس ڈالتے ہوئے، میں نے بھنا کر لائن کاٹ دی۔ بیس سیکنڈ بعد پھر موبائل فون بجا۔ میں نے سوچا اب اس دفعہ کچھ تفصیلات لے لیتی ہوں شاید اس طرح جان چھٹ جائے۔ لیکن اب یہ کوئ اور صاحب تھے، البتہ نمبر وہی تھا۔ انہوں نے نہایت دلبرانہ انداز میں کہا۔ کیہ حال ایہہ۔، کیا کر رہے ہو آپ۔ آپ کو کس سے بات کرنی ہے یہ بتائیے۔ جی آپ ہی سے بات کرنی ہے، پوچھنا تھا ایسی کیا مصروفیت ہے، جناب۔ اب کیا کہوں الو کے پٹھے، تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں۔ لیکن نہیں الو کے پٹھے کہنا تو غیر مہذب ہونے کی علامت ہے۔ میں اپنے مہذب ہونے کا ثبوت دیتی ہوں اور خاموشی سے لائن کاٹ دیتی ہوں۔ یہ فون اب بھی بج رہا ہے۔ ٹرن ٹرن۔ اسکی وجہ تو آپ جان چکے ہونگے۔ 

Friday, March 12, 2010

جابر بن حیان، الکندی اور نالاں چچا جان

اس کے باوجود دورِ حاضر ميں تھوڑی سی موجود تاریخ کا ہی مطالعہ کيا جائے تو يہ حقيقت عياں ہو جاتی ہے کہ اعلٰی سطح کا پہلا مسلمان فلسفی يعقوب ابن اسحاق الکندی [800ء تا 873ء] نہيں تھے بلکہ ابو موسٰی جابر ابن حيّان تھے جو وسط آٹھويں صدی عيسوی ميں پيدا ہوئے اور 803ء ميں وفات پائی ۔ ان کا فلسفہ جديد علمِ کيمياء کی بنياد بنا ۔ دوسرے نامور فلسفی ابو عبداللہ محمد ابن موسٰی الخوازمی [780ء تا 850ء] ہيں جنہوں نے لوگرتھم اور ايلوگرتھم ۔ الجبراء اور عربی کے ہندسوں کا استعمال کرتے ہوئے اعشاریہ نظام کے نئے علم دريافت کئے ۔ مزيد يہ کہ صفر کو قيمت عطا کی ۔ يہی وہ فلسفہ اور عِلم ہے جو عصرِ حاضر کی کمپيوٹر اور ڈيجيٹل ٹيکنالوجی کی بنياد بنا ۔ اگر يہ علوم نہ ہوتے تو آج نہ کمپيوٹر ہوتا اور نہ ڈيجيٹل ٹيکنالوجی
يعقوب ابن اسحاق الکندی کا نام تيسرے نمبر پر آتا ہے
یہ ہے اس تحریر کا کچھ حصہ  جو غالباً میری اس تحریر کو غلط ثابت کرنے کے لئیے لکھی گئ ہے۔ جس میں، میں نے کندی کو دنیائے اسلام کا پہلا فلسفی لکھا۔ جذبات کے زور مِں جابر بن حیان کو کندی سے بڑھکر ثابت کرنے میں تین باتوں کا خیال نہیں رکھا گیا۔ اول یہ کہ کسی بھی شخص کے پہلے پیدا ہوجانے کا مطلب یہ نہیں لیا جا سکتا کہ وہی اب ہر چیز میں پہلا کہلائے گا۔  دوسرے یہ کہ دنیا میں دھند میں لپٹی ہوئ جابر بن حیان کی شہرت  بنیادی طور پہ ایک فلاسفر کے نہیں بلکہ کیمیاداں کی حیثیت سے ہے۔ انہیں کیمیاء کی دنیا میں کئے گئے انکی عظیم خدمات کی وجہ سے بابائے کیمیا کہا گیا کیونکہ انہوں نے کیمیا میں تجرباتی سائینس کی بنیاد رکھی۔  یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ کیمیا کا شمار فطری  یا نیچرل سائینس میں ہوتا ہے ۔ تو تیسری بات یہ بنی کہ فلسفہ خالص بنیادوں میں سائینس نہیں ہوتا اور نہ علم ریاضی کہ ریاضی کی مہارت رکھنے والے شخص کو ایک بلند فلسفی تصور کر لیا جائے۔ فلسفے کا بنیادی تعلق انسان اور کائنات کے مابین رشتے کو انسان کی ماہیت، ذہن اور اسکی استعداد، انسانی اقدار اور انکی وجوہات اور زبان کی ماہیت سے معلوم کرنا ہے۔
  فلسفے کی دنیا میں، یونانی فلسفے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ مسلمانوں نے یونانی فلسفے سے استفادہ حاصل کیا۔ فلسفہ لفظ بھی یونانی زبان سے ہی نکلا ہے۔  ارسطو کو اس میدان میں استاد تسلیم کیا جاتا ہے اور کتاب تاریخ فلاسفۃ الاسلام میں کندی کو  نہ صرف مسلمانوں میں پہلا فلسفی کہا گیا ہے بلکہ وہ پہلے مسلمان  عرب فلسفی ہیں جنہوں نے ارسطو کی تصنیفات پہ شرحیں لکھیں اور وہ پہلے عرب فلسفی ہیں جو اسکی تصنیفات کے شارح ہیں۔ لیکن ہمارے محترم بلاگر نے اس تمام چیز کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بیک جنبش انگلی اس بات کو غلط کہہ دیا کیونکہ انکی خواہش صرف مجھ ناچیز کوغلط کہنے کی ہوتی  ہے اور اپنی اس تسکین میں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جو حوالے میں اپنی تحریروں کیساتھ دیتی ہوں انکی بھی اہمیت ہوتی ہے۔ اب یہ کتاب تاریخ فلاسفۃ الاسلام بس یونہی سی کتاب نہیں جسکا ترجمہ کرنیکی صعوبت ایک پی ایچ ڈی استاد نے اٹھائ۔ لیکن بہر حال زمانہ ء ہذا کے پی ایچ ڈیز کس گنتی میں ہیں۔  محترم بلاگر صرف قرون وسطی کے مسلمان سائینسدانوں کو ہی اس سند کا حقدار سمجھتے ہیں جو اس زمانے کا رواج نہ تھا۔ یا ان لوگوں کو جو نظریاتی طور پہ ان جیسے ہیں جیسے ڈاکٹر عافیہ صدیقی، ایک عظیم پی ایچ ڈی خاتون۔ اگر عافیہ نے یہ کہا ہوتا کہ کندی پہلا عرب فلسفی ہے تو پھر کوئ پریشانی نہ ہوتی، انکا کہا سر آنکھوں پہ۔ لیکن افسوس، وہ اس وقت تاریخ کے زیادہ اہم کام میں مصروف ہیں۔ اور اس طرح کے بے کار کے کام میرے جیسے نا ہنجار لوگ کر کےتاریخ کو ، خاص طور پہ مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کر رہے ہیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ وقت کسی عظیم انسان کا انتظار نہیں کرتا، کہ وہ فارغ ہو توایسے چھوٹے چھوٹے کاموں کو بھی وہی کرے۔
 خیر، اس کتاب  میں سلیمان ابن حسان کا بیان ہے کہ مسلمانوں میں کندی کے سوائے کوئ فلسفی نہ تھآ۔ اس سے مصنف نے یہ مراد لی کہ وہ مسلمان فلسفیوں میں پہلے تھے۔ یاد رہے کہ اس کتاب کے عرب مصنف ہمارے ان بلاگر ساتھی سے زیادہ استعداد اور مہارت رکھتے ہیں اس میدان میں اس لئیے انہوں نے اس پہ کتاب کو لکھنے کی جراءت کی اورانکی اس جراءت کی افادیت کو دیکھتے ہوئے اسکا عربی سے اردو میں ترجمہ کیا گیا۔
اسی کتاب کے مطابق، ارسطو کا شارح ہونے کی حیثیت سے کندی کو شرف تقدم حاصل ہے۔ کندی کی تالیفات مختلف علوم مثلاً فلسفہ، علم، سیاسیات، اخلاق، ارثما طیقی، علم کرویات، موسیقی، فلکیات، جغرافیہ، ہندسہ، نظام الکون، نجوم، طب، نفسیات العادیات پہ مشتمل ہے۔ مزید حوالہ جات حاضر ہیں جن میں کندی کی پہلے عرب فلسفی کی حیثیت کو واضح کیا گیا ہے۔ اور انہیں بابائے عرب فلاسفی بھی کہا گیا ہے۔


اس کتاب  تاریخ فلاسفۃ الاسلام میں جن اہم مسلمان فلسفیوں کا تذکرہ کیا گا ہے وہ مصنف کے نزدیک وہ نہیں جو ہمارے محترم بلاگر سمجھتے ہیں۔ اس میں ان عرب عالم کی ان علماء سے ذاتی بغض یا انکی کم علمی شامل ہوگی۔ جسے میں نے مستند جان کر اخذ کیا۔ یہ میری سب سے بڑی غلطی تھی کہ میں نے اپنے محترم بلاگر سے اس تحریر کو اپنے بلاگ پہ ڈالنے سے پہلے انکی مستند  رائے نہ لی۔
اگر میں نے یہ لکھا کہ امام غزالی کے بعد زوال کا دور شروع ہوا تو یہ میری ذاتی رائے نہیں ہے۔ اس پہ مجھ سے پہلے اس میدان کے ماہرین نے یہ رائے دی کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ امام غزالی تھے جنہوں نے اجتہاد کا دروازہ بند کر کے تقلید پسندی کو رواج دیا۔ کوئ بھی تحریک یا نظریہ اچانک ہی زوال پذیر نہیں ہو جاتا ایسے ہی جیسے عروج اچانک حاصل نہیں ہوجاتا۔ امام غزالی نے اسلامی فکر پہ سے یونانی فلسفے کی چھاپ کو ختم کرنے کی کوشش کی اور فلسفے کو ناپسندیدہ بنا دیا۔ انکے مقلدین نے اس طرز کو جاری رکھا۔ ہر نظرئے کے اثرات کچھ عرصے بعد ہی سامنے آتے ہیں۔ ابن رشد نے انکی اس انتہا پسندی کی رد میں لکھا۔ لیکن بہر حال مختلف وجوہ کی بناء پہ ابن رشد کی کتابیں اس طرف نہیں بلکہ مغرب میں پہنچیں۔ امام غزالی کا اثر چلتا رہا اس دوران سائینس یعنی تجرباتی سائینس پہ لوگوں نے اپنے تئیں کام کیا لیکن یہ  اس رو کا اثر تھا جو ایک دفعہ شروع ہوئ تو حالات ناسازگار ہونے پہ بھی اپنے ثمرات دیتی رہی۔ ابن رشد کے تقریباً سو سال بعد ابن خلدون نے تاریخ کے سفر سے فلسفے کی طرف قدم رکھا اور فلسفہ ء تاریخ وجود میں آیا۔ یہ اس زمانے کے لحاظ سے ایک نئ سوچ تھی اس لئیے ابن خلدون کو زوال کے زمانے کا فلسفی کہا گیا۔ اور میرے محترم بلاگر ساتھی  یہ بھول گئے کہ یہ  بھی میری ذاتی رائے نہیں تھی بلکہ یہ نہ صرف تاریخ فلاسفۃ السلام کے عرب مصنف کا خیال ہے بلکہ ڈاکٹر انور سدید صاحب بھی اسی خیال کی تائید کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے فاضل ساتھی کو تو پی ایچ ڈیز پسند نہیں تو اب ڈاکٹر انور سدید کا کیا کریں۔
 یہ کہنا کہ مسلمان سائینسدانوں نے یہ کیا اور وہ کیا۔ میں نے اپنی ان تحریروں میں یہی کہنے کی کوشش کی ہے کہ علم کسی کی جاگیر نہیں ہوتا اسی کا ہوتا ہے جو اسے حاصل کرتا ہے۔ مسلمانوں نے کسی وحی یا کرامت کے ذریعے یہ علم حاصل نہیں کیا تھا بلکہ اس وقت تمام اقوام عالم کے پاس جو بھی علم تھا پہلے اسے حاصل کیا اور پھر اس پہ کام شروع کیا۔ جیسےریاضی کا صفر ہندوءوں سے لیا گیا تھا۔
کاغذ، چینیوں نے تیار کیا تھآ، عرب پہنچا تو عربوں نے اسے بنانے کا طریقہ آسان کیا اور کوالٹی بہتر کی، گن پاءوڈر، چینیوں کی ایجاد ہے جسے مزید ترقی اور پھیلاءو عربوں کی وجہ سے ہوا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو چین، اپنے علمی ذخیرے کی بنیاد پہ دنیا کی سب سے قدیم تہذیبوں میں ہوگا۔
 فاضل مصنف نے ایک جگہ لکھا کہ بہادری اپنی غلطی تسلیم کرنے میں ہے کیا مجھے توقع رکھنی چاہئیے کہ وہ اس بہادری کا مظاہرہ کریں گے۔
 یہ تمام معلومات ان لوگوں کے لئیے ہیں جنکے ذہن مِں اس سلسلے میں شبہات پیدا کئیے گئے۔ باقی یہ کہ جو حوالے میں اپنی تحریروں کیساتھ دیتی ہوں اگر پڑھنے والے ان پہ سے ایک نظر گذر جائیں تو حقائق زیادہ واضح ہو جائیں گے۔ کیونکہ بلاگ جیسی محدود جگہ پہ بہت زیادہ تفصیل سے بات ممکن نہیں۔

حوالہ جات؛
جابر بن حیان


Thursday, March 11, 2010

سرینگر ، کشمیر سے ایک تحریر

امتیاز خان کا تعارف مجھے ان تحریروں سے حاصل ہوا جو انہوں نے مجھے ازراہ مہربانی ای میل کیں۔ انکی سرگرمیاں دلچسپ ہیں کیونکہ وہ رپورٹنگ اور اسکے میڈیا کے لئے کام کرتے رہے ہیں۔  انکی یہ تحریر مجھے خاصی دلچسپ لگی۔ اگرچہ اسکے کچھ حصوں سے مجھے اختلاف ہے بہت سارے سوالات ہیں۔  آپ میں سے بیشتر علم رکھتے ہونگے کہ خواتین کو لاحق مسائل میری دلچسپی کا زیادہ عنصر ہیں۔ اس لئےآج میرے بلاگ پہ امتیاز خان کو پڑھیں۔ انکے سلسلے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئیے دئے گئے لنک پہ جائیے۔

کشمیری لڑکی غیر روایتی میدانوں کی تلاش میں

فردوسہ(نام تبدیل کیا گیا ) سرینگر میں ایک دکان پہ بطور سیلز گرل کام کرتی ہے۔اس نے اپنے لیے یہ کام کیوں چن لیا‘اس سوال کے جواب میں وہ کہتی ہیں”میں یہ کام شوق سے نہیں کرتی ہوں۔میں بارہویں جماعت میں پڑھتی تھی لیکن حالات ہی ایسے پیدا ہوگئے کہ مجھے پڑھائی کو خیرباد کہنا پڑا۔باپ کی معمولی پنشن سے گھر کی ضرورتیں پوری نہیں ہوتی ہیں اور میرا کوئی بھائی نہیں ہے ،چار چھوٹی چھوٹی بہنیں ہیں جن کی تعلیم جاری رکھنے کیلئے میں پچھلے دس سال سے یہ کام کررہی ہوں“۔اسی طرح18 سالہ شنو بھی ایک دکان پر سیلز گرل کے طور پر تعینات ہے ۔شنو نے اپنے ایک الگ انداز میں کہا”بھائی یہ کوئی سیر سپاٹا نہیں ہے۔اگر عزت محفوظ ہے تب کام کرنے میں حرج ہی کیاہے“۔
وادی میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے نتیجے میں نوجوان لڑکیوں نے روزگار کمانے کیلئے مختلف نوعیت کے ایسے غیرروایتی کام کرنا شروع کئے ہیں جو ابھی تک مردوں کے لیے مخصوص سمجھے جاتے رہے ہیں۔ وادی میں بے روزگار نوجوانوں کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے اور اس وقت اندازے کے مطابق پوسٹ گریجویٹ،گریجویٹ،میٹرک پاس،تربیت یافتہ انجینئر اور دیگر شعبہ جات میںتربیت حاصل کرنے کے بعد تین لاکھ کے قریب بے روزگار افراد روزگار کے متلاشی ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں نوجوان عمر کی حدیں پار بھی کرگئے ہیں ۔اِن تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ بے روزگاروں میں ہزاروں لڑکیاں بھی شامل ہیں۔
وادی میں ایسی سینکڑوں بے روزگار پڑھی لکھی لڑکیاں ہیں جو اپنے گھروں میں والدین کا واحد سہارا ہیں ۔معاشی اور معاشرتی مجبوریوں کے سبب یہ لڑ کیاں روز گار کے حصول کے لیے نئی راہوں کی تلاش میں چل پڑی ہیں۔سرینگر کے ایک پٹرول پمپ پہ ایسی ہی کچھ لڑکیاں اب گاڑیوں میں پٹرول اور ڈیزل ڈالنے سے لیکر روپے وصول کرنے اور حساب وکتاب رکھنے کے جیسے کام پر مامور ہیں، حالانکہ اس سے قبل وادی میں کبھی بھی خواتین پٹرول پمپوں پہ کام نہیں کرتی تھیں۔
کشمیر یونیورسٹی سے فارغ اردو کی ایک طالبہ عاصمہ اس ضمن میں کہتی ہیں” حکومت کے پاس نوجوانوں کی معاشی بحالی کے لیے کوئی پروگرام نہیں ہے۔اگر ملازمتیں نہیں ہیں تو صنعت اور تجارت بھی کہاں ہے؟یہی حالات لڑکیوں کو غیر روایتی میدونوں کی طرف دھکیل رہے ہیں“۔
یہ حالات کیوں کر پیدا ہوئے ‘یہی سوال ہم نے ماہرِ سماجیات ڈاکٹر خورشیدالاسلام سے پوچھا تو انہوں نے کہا ”مغربی افکار اورمیڈیا کے زیرِ اثر ہماری نئی پوداور خصوصاًخواتین کی سوچ ناقابلِ یقین حد تک متاثر ہورہی ہے،سماجی اور تہذیبی اقدارتبدیل ہورہی ہیں،مادیت رگ رگ میں سرایت کررہی ہے،اور مادی دوڑ نوجوانوں کو کچھ بھی کرنے پر اُکسارہی ہے“۔ایک مقامی صحافی اور تجزیہ نگار اشفاق ملک اسی تناظر میں کہتے ہیں ”جدید طرز معاشرت،اور معاشی مجبوریاں آگے چل کر بنت حوا کو کہاں کہاں لے چلیں گی،شاید آج کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا،لیکن عورتوں کی نسوانیت اور نسوانی تقاضوں کو ملحوظ اور محفوظ رکھنے کے لیے معاشرے پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں،جن کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا جا رہا ہے ۔ لڑکیاں معاشی اور سماجی مجبوریوں کے باعث ان غیر روایتی میدانوں میں قدم رکھنے پر مجبور ہیں۔سماج اپنے کمزور طبقوں کی حالت زار سے لاتعلق ہے،لیکن جب کوئی مجبور لڑکی اس طرح کا کام کرکے اپنی اور اپنے لواحقین کی روزی روٹی کا انتظام کرتی ہے تو سماج تلملا اٹھتا ہے‘جسکا کوئی جواز نہیں ہے“۔
لیکن کیا غیر روایتی میدانوں میں لڑکیوں کی موجودگی کو یہ معاشرہ برداشت کرے گا‘ اس بارے میں ایک مقامی کالج کی خاتون پروفیسر نے کہا”برداشت کرنا ہی پڑے گا۔ابتدا میں تحفظات ہوتے ہیں،لیکن آہستہ آہستہ یہ تحفظات دور ہو جاتے ہیں۔شروع شروع میں تو لڑکیوں کی تعلیم پر بھی کچھ لوگ اعتراض کرتے تھے۔آج ایسی کوئی بات نہیں ہے“۔

حوالہ؛
امتیاز خان اور انکی تحریر

Wednesday, March 10, 2010

اختلاف نظر

اس اتوار کو 'ڈان' اخبار میں دو ملتے جلتے مضامین آئے۔ ملتے جلتے اس لئے کہ دونوں میں پاکستانی سیاست کے رجحانات پہ ایک جیسے حوالے سے بات کی گئ ہے۔
 پہلا مضمون ھما یوسف نے لکھا ہے جو کہ ایڈیٹوریل صفحے پہ موجود ہے۔ جہاں ایک طرف انکا کہنا ہے کہ پاکستانی قوم کو شدت سے ایک ہیرو کی ضروورت ہے وہاں انہوں نے بلوچستان کی مائ جوری کی مثال دیتے ہوئے انہیں پاکستانی سیاست مین تبدیلی کی نشانی قرار دیا ،  انکا کہنا ہے کہ پاکستانی سیاست میں اب یہ تبدیلی آرہی ہے کہ لوگ مسائل کو لیکر چلنے والی سیاست کی طرف جا رہے ہیں۔
 اس سلسلے میں مجھے اس وقت مایوسی ہوئ جب انہوں نے مسلم  لیگ نون، جماعت اسلامی اور عمران خان کی سیاست کو مسائل کو سامنے والی سیاست میں شامل کیا۔ دوسری طرف انہیں لگا کہ ایم کیو ایم نے پچھلے چند مہینوں میں یہی پالسی اپنائ ہے اور اسکا ثبوت یہ ہے کہ سندھ کے شہری علاقون سے ایم کیو ایم ملک کے دہگر حصوں کی طرف متوجہ ہوئ ہے۔
مسلم لیگ نون، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف انکے کریڈٹ پہ عدلیہ کی جنگ ڈال دینا اور اسے ایشو بیسڈ سیاست کی طرف جانیوالا قدم قرار دینا کہاں تک صحیح ہے۔ اس طرح تو بھٹو کے دور میں اسلامی حکومت کا نفاذ اس وقت کی حزب اختلاف کا نعرہ بن گیا تھا جو جنرل ضیا الحق کی حکومت کی شکل میں منتج ہوا۔ اگر اسے معیار بنا لیا جائے تو تو پاکستان میں ہمیشہ ایشو بیسڈ سیاست ہوئ ہے یہ الگ بات کہ یہ وہ ایشوز ہوتے ہیں جو ان سیاسی جماعتوں کو وقتی طور پہ سہارا دے رہے ہوتے ہیں۔
جہاں تک ایم کیو ایم کی پالیسی تبدیلی کا تعلق ہے ایم کیو ایم اسکی کوششیں پچھلے کافی سالوں سے کر رہی ہے۔ اور وہ اس سلسلے میں مختلف مواقع پہ کام کرتے رہے ہیں یہ دراصل پچھلے چند مہینوں کا کام نہیں ہے اسی وجہ سے سے کئ سال پہلے ایم کیو ایم نے اپنا نام مہاجر قومی مومنٹ کے بجائے متحدہ قومی مومنٹ رکھ لیا تھا۔
انکی ایک بات سے ہر پاکستانی اتفاق کریگا کہ فاٹا کہ علاقے میں سیاسی لیڈران کو کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے روائتی نظام سے نکل کر قومی دھارے میں آ سکیں اور اسکے لئے وہاں تعلیم، صحت اور انفرا اسٹرکچر پہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ 
دوسرا مضمون ندیم ایف پراچہ کا ہے جس میں انہوں نے پنڈی کے حلقہ پچپن کے نتائج سے اس روئیے کو اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔  ان میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں میں، مسلم لیگ نون اور شیخ رشید کی عوامی لیگ دونوں ہی دائیں بازو کی جماعتیں ہیں۔ انکے مقابل جماعت اسلامی اور تحریک انصاف وہ جماعتیں ہیں جو امریکہ کے اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے خلاف اور مشتبہ غیر ملکی سیکیوریٹی ایجنسیز کے افراد کی پاکستان کی موجودگی کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے ان الیکشنز میں سیاسی وجوہات کی بناء پہ حصہ نہیں لیا۔
 ان الیکشنز میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف دونوں کو شکست ہوئ۔ پراچہ صاحب کے خیال میں جماعت اسلامی اپنے طور پہ کبھی بھی دو سے تین فی صد سے زیادہ ووٹ حاصل نہیں کر سکی۔ انکی پالیسی مجموعہ ہے اسلامی راسخ العقیدہ نظریات، امریکہ کے خلاف ہونا اور طالبان کا حامی ہونا۔
 انکے کہنے کے مطابق اگرچہ پاکستانی ووٹرز کے نزدیک  جماعتوں کے نظریات اہمیت رکھتے ہیں لیکن یہ بات با بار مشاہدے میں آچکی ہے کہ وہ ایسے امیدوار چاہتے ہیں جو بے روزگاری، جرائم، ہنگامہ آرائ اور ملکی ترقی جیسے معاملات کو حل کرنے کی طرف بھی توجہ دینا چاہتے ہیں۔
انکے خیال میں وہ جماعتیں جو اس طرف توجہ دے رہی ہیں وہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون، ایم کیو ایم اور اے این پی ہیں۔
جبکہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف اس سلسلے میں ناکام رہی ہیں۔
ایک مزے کی بات جو پراچہ صاحب کہتے ہیں  وہ یہ کہ ایک سیاستدانوں کی کرپشن، عدلیہ کی آزادی اور طالبان کے خلاف جاری جنگ پہ ٹی وی کے اینکر پرسن زیادہ اچھی طرح بول سکتے ہیں مگر کیا وہ ان بنیادوں پہ الیکشن جیت سکتے ہیں۔
 دیکھا آپ نے دو مختلف افراد ایک ہی موضوع پہ بات کرتے ہیں مگر ایک کو جو جماعت ایک چیز کرتی نظر آرہی ہے دوسرے کو وہی جماعت وہی چیز کرتی نہیں نظر آ رہی۔
تمہی کچھ بتلاءو اسکو کیا کہتے ہیں؟

 حوالہ؛

Monday, March 8, 2010

نئے افکار انکا حصول اور ترویج-۷

اسلام کی ابتدا سے اسکے موجودہ زوال تک ایک رو جو ہمیشہ جاری رہی اور جس نے عمل اور رد عمل کی تحریکوں کو یکساں متائثر کیا وہ تصوف کی رو تھی۔ نویں صدی عیسوی سے قبل تصوف محض ایک ذہنی  رویہ تھا۔ جو ظاہری شان و شکوہ، مادی آسودگی اور ظاہری  جاہ و جلال کے خلاف پیدا ہوا۔  اسکے بعد تصوف نے باقاعدہ ما بعد الطبیعیات مرتب کر لی ایک منظم خانقاہی نظام کو فروغ دیا اور ایک فعال تحریک کی صورت میں اسلام کی عظیم تحریک پر اثر انداز ہونے لگی۔ معتزلہ اور امام غزالی کے فلسفے کی بحث نے زندگی کے بہت سے شعبوں کو متاثر کیا۔ اور تصوف کی تحریک دو دبستانوں میں تقسیم ہو گئ۔ ایک تصوف کو شریعت کے تحت رکھنا چاہتا تھا اور دوسرا طریقت کو افضل قرار دیکر قلندری طریق رائج کرنے کا دعویدار.
 پہلا طبقہ مذہبی رسوم میں راسخ الاعتقاد اور موخر الذکر آزادی فکر اور آزادہ عمل تھا۔ قرون وسطی کے شعراء ، ادباء اور فلسفی مثلاً عمر خیام، المعری، فارابی اور ابن سینا وغیرہ جو عجمی روایت سے زیادہ متائثر تھے دوسرے دبستان سے تعلق رکھتے تھے۔
تصوف کی تحریک، فکر کے مقابلے میں باطنی وجدان اور روحانی احساس کی تحریک تھی۔ تتاہم اسکے ماخذات قرآن و سنت میں بھی تلاش کئے گئے۔ چونکہ احکام خداوندی ایک ان دیکھے وسیلے سے نازل ہوئے تھے اس لئے صوفیاء نے رسول اللہ کو بھی صوفی قرار دیا۔ اسلام کے ابتدائ دور میں قرآن پاک کی تلاوت تسلسل سے کی جاتی تھی اور بار بار دہرانے کے نتیجے میں انکے معنی کشف کے ذریعے واضح ہوجاتے تھے۔  لوگ اس کشف سے اپنے اعمال اور افعال کو صحیح کرتے تھے یہ اہل کشف کہلائے جانے لگے۔ کچھ عرصے بعد قرب خداوندی اور تعمیل احکام کے لئے ذکر، فقر اور توکل کے نظریات بھی تصوف میں شامل ہوگئے۔
نو افلاطونی نظریات نے دنیا سے نفرت پیدا کی چنانچہ ترک خواہش کو بھی تصوف میں جگہ دے دی گئ۔ اور نتیجتاً تصوف کی رسوم مذہبی فرائض پہ فوقیت پانے لگیں اور مرشد کی ذات قرب خداوندی کا وسیلہ بن گئ۔
تصوف کے اس روئے کے خلاف راسخ العتقاد حلقے میں رد عمل ظاہر ہوا اور منصور حلاج کو چند غیر محتاط جملوں  کے ادا کرنے پر دار پہ لتکا دیا گیا۔
دسویں صدی میں تصوف پہ شیعیت کے اثرات آ گئے اور نظریہ ء وحدت الوجود پہ وحدت الشہود کو فوقیت ملنے لگی۔ ایک دفعہ پھر صوفی تقسیم ہوئے اور ان میں سے جنیدی، محاسبی اور ملامتی فرقے زیادہ معروف ہوئے۔ بات آگے چلی اور ابو سعید نے فنا اور بقا کی توضیح تصوف کے نکتے سے کی اور اس طرح انتہا پسند صوفیاء منظر عام پہ آگئے۔ جنہوں نے حلول، امتزاج اور نسخ ارواح کے عقائد کو جزو ایمان بنا دیا۔ اور تصوف کی آزاد روی، قید اور پابند ہو گئ۔
راسخ العقیدہ علماء نے جنہیں حکومت وقت کی اعانت حاصل تھی اسلام کی سادگی کو قید کرنے کی کوشش کی اور شخصی حکومت کو جاہ و حشم کی نمائش کا وسیلہ بنا دیا۔ تصوف کی تحریک نے اسکے خلاف رد عمل کا اظہار کیا اور بندہ ء آقا کے درمیان حائل پردوں کو ہتا کر براہ راست قرب الہی  حاصل کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ تصوف میں ریاضت نے مذہب کی جگہ لینا شروع کی۔ محبت خالص جزبہ قرار پایا، رقص و نغمات عبادت کا درجہ پا گئے۔ مطرب و ساقی، ہجر وصال، عشق و عاشقی وغیرہ مشاہدہ ء حق کی اصطلاح بن گئیں۔ اس طرح تصوف میں حرکت و عمل کم اور غنودگی و خود فراموشی کی کیفیت زیادہ تھی۔ چنانچہ مشرقی ممالک میں جہاں فنا اور بقا کے تصورات بدھ، جین اور ہندو مذہب کے زیر اثر پہلے سے موجود تھے تصوف کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوئ اور عقلیت کی تحریک جو جذبے کی ماہیت کو بھی تحلیل و تجزیہ سے معلوم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ مغرب میں زیادہ پھیلی۔


نوٹ؛ اس سلسلے کی تمام تحریریں، میری ذاتی فکر کا نتیجہ نہیں ہیں۔ان تمام افکار کو میں نے مختلف کتابوں سے اخذ کر کے ایک ترتیب میں، ایک نئے موضوع کے تحت  رکھنے کی کوشش کی۔ سو،  اس سلسلے میں میرے علم کو چیلینج کرنے کے بجائے انہیں ہمارے دانشوروں کی فکر سے منسوب کرنا چاہئیے۔
حوالہ؛
یہ تحریر کلیتاً ڈاکٹر انور سدید کی کتاب 'اردو ادب کی تحریکیں' سے اخذ کی گئ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب انکا پی ایچ ڈی کا تھیسس ہے۔ انکی عمر اس وقت اسی سال سے زائد ہے اور وہ اس وقت لاہور میں رہائش پذیر ہیں۔

Saturday, March 6, 2010

ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا

بہانہ بنانا آنا ایک خدا داد صلاحیت ہی نہیں اسکا تعلق ضرورت سے بھی ہے۔ ورنہ ایسا کیوں ہوتا کہ شوہر بیوی سے، شاگرد استاد سے، عاشق معشوق سے ، حزب اقتدار حزب اختلاف سے زیادہ اچھے بہانے بناتی ہے۔
جو لوگ محنت کرنے کے عادی ہوتے ہیں وہ بہانوں پہ بھی بڑی محنت کرتے ہیں۔ غالب کو دیکھئیے بہانے سے ملاقات کے لئے مصوری تک سیکھنے کو تیار تھے
سیکھے ہیں مہ رخوں کے لئیے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہئیے۔
زمانے کے چلن بدلے گئے۔ لا حول ولا قوت۔ مصوری جائز نہیں کہہ کر ایک بہانہ حاصل کیا اور دوسرا بہانہ کیا بناتے سر پہ ٹوپی جمائ اور دست دعا دراز کیا
خدا کرے کہ حسینوں کے نانا مر جائیں
بہانہ موت کا ہو ہم بھی انکے گھر جائیں
جنہیں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے سے بھی کاہلی آتی ہے انکے لئے اہل کفار نے جگہ جگہ اپنے فرنچائز ریسٹورنٹس کھول دئیے  ہیں۔ کے ایف سی کی ڈیل، تین گھنٹے تک ایک ٹیبل پہ بیٹھ کر باتیں بنانے کے لئے، تین سو روپے میں سودا برا نہیں۔ لیکن اس قدر بھیڑ میں ہوتی ہے ملاقات کہاں۔ اوپر سے اکثر محبوب کو اپنی گلی سے نکلنے کے لئیے کوئ ساتھی بھی چاہئیے ہوتا ہے۔ یوں روز ملتے ہیں مگر بات نہیں ہوتی ہے۔  ایسی ہی خواہشوں کے لئیے کہا گیا کہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دُم نکلے۔ لیکن جب ڈارون کا نظریہ ء ارتقا پڑھا تو دل چاہا کہ صفحہ ء ہستی سے اسکا نام ہی مٹادیں۔ بد بخت کہتا ہے کہ پہلے دم تھی آہستہ آہستہ غائب ہو گئ۔ جبکہ ہم کہتے ہیں کہ پہلے نہیں تھی خواہشوں کے اسیر ہوئے تو ہو گئ۔  اور عالم یہ ہوا کہ
ہزاروں لڑکیاں ایسی کہ ہر لڑکی پہ دُم نکلے
مگر خدا بھلا کرے ہمارے یہاں دُمیں عام نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس لڑکی پہ دُم نکلے وہ اپنے گھر سے کم نکلے۔ دم کے نقصان تو کچھ  اتنے زیادہ نہیں جب بھی دیکھے فائدے ہی دیکھے لیکن ایک تو اسے اسمارٹ رکھنے کے لئیے، ہمہ وقت ہلانا پڑتا ہے کیونکہ قدرت نے اسے رکھنے کے لئے دماغ کی طرح ایک کاسہ نہیں دیا جہاں وہ محفوظ رہ سکے۔  اور دوسرے یہ کہ جب کبھی بھاگنے کا ارادہ کریں تو اسےساتھ  دبا کر بھاگنا پڑتا ہے۔ پھر یہ کہ دم ہو تو چھلہ بھی ضرور ہوتا ہے۔ یوں  جو کام رستم سے نہ ہوا وہ آپ کر بھی ڈالیں یعنی انکے آنگن میں دھم سے کود بھی جائیں تو بعد کے حالات سے نبٹنے کے ساتھ ساتھ اسکی فکر بھی کرنی پڑ جاتی ہے۔
یوں محبت میں صوفیت کے قائل احباب اب اپنے آگے بالٹی بھر پانی لیکر بیٹھے رہتے ہیں
بالٹی کے پانی میں تیرا عکس دیکھتے ہیں
پھر اسکو ہلا کر تیرا رقص دیکھتے ہیں۔
دیکھا آپ نے رند رند کے رہے ہاتھ سے جنت بھی نہ گئ۔ لوگ سمجھتے ہیں وضو کی تیاری ہے یہ نہیں معلوم کہ عشق کی بیماری ہے۔ لیکن ہوا یوں کہ پہلے تو پانی کی کمی کا رونا تھا مگر بروز ابر مل بھی جاتا تو مہنگائ اتنی کہ بالٹی ہی نہ رہی۔ بس ادھر ادھر پھسلنے کے بہانے بنتے رہتے۔
بھلا ہو کمیونیکشن میں تیز رفتار ترقی کا، اب اپنوں سے بات ساری ساری رات۔ پہلے تکیوں کے نیچے
تصویر یار یا حسینوں کے خطوط ملتے تھے۔ اب موبائل فون ہوتا ہے۔ وہ بھی وائبریشن موڈ میں۔ اور ہلکی سی تھر تھراہٹ پہ بھی گماں ہوتا ہے کہ یہ پڑوسیوں کے خراٹے ہیں، پنکھے کی ہوا سے اڑنے والا کیلینڈر ہے کہ وہ ہیں۔ نہ میں عشق کے خلاف ہوں، نہ بہانوں کے اور نہ موبائل فون کے بس جھک کے دیکھتا ہوں جوانی کدھر گئ۔



Thursday, March 4, 2010

رقیب سے

بارے کچھ اپنی تعلیمی قابلیت کا تذکرہ ہو جائے کہ اس سے اردو بلاگنگ کی دنیا میں کچھ لوگوں کو 'کچھ کچھ' ہوتا ہے۔ اور عالم یہ ہو گیا ہے کہ
ذکر میری پی ایچ ڈی کا، اور پھر بیاں انکا
بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا
تو ان سب رقیبوں کو نئے راستے دیتی ہوں۔ دل کے بہلانے کو کچھ نہ کچھ تبدیلی لاتے رہنا چاہئیے کہ یہ دل مانگے مور۔  اسکی وجہ یہ ہے کہ سب کے پاس جو اطلاعات ہیں وہ خاصی ادھوری ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ لوگ میری پی ایچ ڈی کو اپنے لئیے ایک تازیانہ سمجھتے ہیں۔ لیکن چونکہ یہ کارنامہ میں نے بلاگنگ کی دنیا میں آنے سے پہلے کیا تھآ اس لئے اس میں میرا قصور اتنا نہیں جتنا کہ لوگوں کی نیت میں فتور ہے۔
میں نے بیچلرز آنرز، کراچی یونیورسٹی سے کیا اور پھر وہیں سے نامیاتی کیمیاء میں ماسٹرز کیا۔ اور ابھی ہمارے ماسٹرز کا آخری سمسٹر ختم بھی نہ ہوا تھآ کہ یونیورسٹی میں واقع تھرڈ ورلڈ کے سینٹر آف ایکسیلینس کے اینٹرنس ٹیسٹ اور انٹرویو میں جا پہنچے۔ خدا کا کرنا یوں ہوا کہ دونوں مرحلوں سے بخیر و عافیت گذر گئے۔ اور بس ماسٹرز کے آخری پیپر کے بعد تمام تر مخالفتوں اور نا مساعد زمینی حالات  کے باجود ریسرچ شروع کر دی۔
پی ایچ ڈی کا مطلب ہے ڈاکٹر آف فلاسفی۔ اگر آپ اسکی تمام شرائط کو پورا کریں تو یہ محض ایک کاغذ کی ڈگری نہیں ہوتی بلکہ یہ آپکے روئیے، نظریات اور زندگی کی طرف دیکھنے کی صلاحیتوں میں واضح تبدیلیاں لے آتی ہے۔ اگر میں ماسٹرز کرنے کے بعد اس راہ پہ قدم نہ رکھتی تو آج کی نسبت بہت مختلف ہوتی۔ اسکی وجہ ریسرچ کے مطالبات ہیں۔۔ 
 چونکہ دراصل پی ایچ ڈی فلسفے کی طرف لیجاتی ہے جو اپنے ارد گرد کی دنیا کو عقل کی عینک سے دیکھنے کا نام ہے۔ اسکا بنیادی مقصد کسی انسان میں آزاد سوچ کو پیدا کرنا ہوتا ہے۔ ماسٹرز تک کی سطح پہ ہم ایک کورس پہ عمل کرتے ہیں اسی میں سے ہمارا امتحان ہوتا ہے۔ لیکن پی ایچ ڈی کی سطح پہ اس بات کی تربیت ہوتی ہے کہ ہم اپنے طور پہ مسائل پہ قابو پانے اور انکے حل کی طرف اپنی صلاحیتیں خود سے استعمال کرنے کے قابل ہوں اور اس سے بھی ایک قدم آگے کہ ہم مسائل کے پیدا ہونے سے قبل یہ کامیاب اندازہ لگانے کے قابل ہو جائیں کہ آنیوالے مسائل یہ ہونگے۔ انگریزی میں اسے ویژن کا پیدا ہونا کہتے ہیں۔ ویژن کا اردو ترجمہ مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت  کر سکتے ہیں۔ ایک زمانے میں جب اس طرح کی اسناد نہیں ہوتی تھیں لوگ اپنے تجربے، مشاہدے اور علم سے یہ قوت حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ ایک مشکل بات ہوتی تھی کہ ہر شخص اپنے محدود ذرائع کی وجہ سے صحیح بات تک پہنچنے کے قابل نہ ہو پاتا تھا۔ وقت کے ساتھ آسانیاں آئیں، یونیورسٹیز کی صورت میں ان تمام طریق ہائے کو ایک جگہ کر دیا گیا۔ اور سکھانے کے طریقے نکالے گئے اور یوں اب اہل طلب کے لئے مشکلات پہلے سے کم ہیں۔
لیکن سیکھنے کا عمل اتنا ہی وقت لیتا ہے جتنا آج سے ہزار سال پہلے لیتا تھا۔ اب زندگی اس لئے مشکل ہو گئ کہ مجھے اپنے کسی تحقیقی مضمون پہ تحقیق کرتے وقت گذشتہ ہزار سال میں جو کچھ ہوا اسے بھِی نظر میں رکھنا پڑتا ہے ۔ جبکہ آج سے ہزرا سال پہلے کسی شخص کی الجھنیں یہ نہیں کچھ اور تھیں۔
 اب سائینسی سطح پہ پی ایچ ڈی کرنے کے دوران مختلف مرحلے ہوتے ہیں۔ پہلا مرحلہ ریسرچ پروجیکٹ تیار کرنا ہوتا ہے، اس میں ایک سپر وائزر یہ مدد کر سکتا ہے کہ وہ مختلف موضوعات بتا دے جسکے تحت اس ادارے میں سہولیات موجود ہوں اور وہ خود بھی اسے کرانے کی اہلیت رکھتا ہو۔ اس پروجیکٹ پہ کام کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ اب تک کی ریکارڈڈ تاریخ میں اس پہ کس نوعیت کا کام ہوا ہے۔ اس ساری تاریخ کو مختلف جرنلز سے کھنگالا جاتا ہے اور اس مِں ذرا سی غلطی یا صرف نظر کی گنجائش نہیں ہوتی کیونکہ اس صورت میں آپکا کام نقل کہلائے گا اور کوئ بھی اچھا ادارہ اس پہ یہ سند نہیں دیگا۔
 دوسرے مرحلے پہ اس تمام پروجیکٹ کو تجرباتی سطح پہ کر کے ایسے نتیجے نکالنے ہوتے ہیں جو آپ سے پہلے کبھی کسی نے نہ نکالے ہوں، آپکا نتیجہ بالکل نیا نکور ہونا چاہئیے۔ تیسرے مرحلے پہ آپ ان تمام نتائج کو جو آپ نے اخذ کئے ہوتے ہیں انکے لئیے دلیلیں تلاش کرنی ہوتی ہیں اور ان پہ جو کام پہلے کیا گیا تھا۔ چاہے وہ سو سال پہلے ہی کیوں نہ کیا گیا ہو۔ اپنی دلیلی کو ان تمام نتائج کی رو سے ثابت کرنا ہوتا ہے۔ اچھا، یہ تمام کام تو چلتا رہتا ہے۔ لیکن اسکے ساتھ ہی ساتھ کورسز ہوتے ہیں اور انکے امتحانات بھی جنہیں پاس کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ نظریات طور پہ بھی اپنے میدان کے علاوہ بھی باقی چیزوں کی معلومات رہے۔ وہ تمام نتائج جو آپ نے انپے تجربات کے دوران حاصل کئے انہیں چھوٹے چھوٹے تحقیقی مضامین کی شکل میں شائع کرانا ضروری ہوتا ہے۔ ان مضامین کو تحقیقی مقالہ کہتے ہیں۔ ان مقالوں میں  کسی نئ معلومات کو بیان کیا جاتا ہے، اسکے ثبوت اور اس پہ موجود حقائق کی داستان دی جاتی ہے۔ کسی بھی سائینسی جریدے میں چھپنے سے پہلے انکا تفصیلی مطالعہ ریفریز کرتے ہیں۔ جہاں سے میں نے پی ایچ ڈی کیا تھا۔ وہاں کی شرط غیر ملکی سائینسی جریدے تھے۔ انکے ریفریز بھی غیر ملکی ہوتے ہیں ایک پی ایچ ڈی کے لئیے کم سے کم شائع ہونے والےتحقیقی مقالوں کی تعداد مقرر ہوتی ہے۔
اسکے ساتھ ہی ساتھ، ہر پی ایچ ڈی کرنے والے کو اپنی تمام تربیت کے دوران سیمینارز کی ایک مخصوص تعداد دینی ہوتی ہے۔  جس میں تمام فیکلٹی اور ادارے کے تمام طالب علم اور اگر باہر سے کوئ مہمان سائنسداں موجود ہو سب شریک ہوتے ہیں اور ہر ایک سوال کرنے کا حق رکھتا ہے جسکا تشفی جواب دینا ضروری ہوتا ہے۔ ہر سیمینار کی طوالت ایک گھنٹہ ہوتی ہے۔ اسکی تیاری کسی طرح ایک تحقیقی مقالے سے کم نہیں ہوتی البتہ اس میں آپکی کوئ نئ تحقیق نہیں بلکہ پرانے کام کو استعمال کیا گیا ہوتا ہے۔ پرانے کام سے میری مراد  وہ کام ہے جو تحریری سطح پہ  دنیا میں کہیں بھی موجود ہے۔
اسکے علاوہ گروپ میٹنگز اور گروپ ڈسکشنز ہر ہفتے ہوتے ہیں، کانفرنسز میں شرکت اور ورکشاپس میں تربیت بھی شامل ہیں۔ اگر ہم باہر کے کسی سائنسداں کے ساتھ مل کر کسی پروجیکٹ پہ کام کر رہے ہوں تو اسے بھی رپورٹ دینی ہوتی ہے۔ اور اپنے روزانہ کے کام کی رپورٹ بھی تیار کرنا ہوتی ہے۔
پی ایچ ڈی کے آخری مرحلے میں ایک پینل کے سامنے آپ نے جو کچھ دوران پی ایچ ڈی کیا اسکا دفاع کرنا ہوتا ہے۔ اسکا ایک اور اہم مرحلہ، اپنے تمام نتائج اس پہ گفتگو، اسکی پچھلی تاریخ اور اسے تیار کرنے کے لئیے جتنے بھی حوالے آپ نے استعمال کئیے، جنکی تعداد کءی سو تک جا پہنچتی ہے سب اس تھیسس میں جمع کرنے ہوتے ہیں۔  جس پہ سند ملتی ہے۔
یہ تھیسس ، اس ادارے سے جہاں سے میں نے پی ایچ ڈی کیا وہاں سے پاکستان سے باہر کسی بھی کیمسٹری کے اعلی ادارے میں کام کرنے والے  دو مختلف تحقیق دانوں کو بھیجا جاتا ہے جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ تحریر اس قابل ہے کہ اس کو پی ایچ ڈی کی سند دی جا سکے۔
 تو محترم قارئین، چاول کے دانے پہ تحریر لکھنے والا یقیناً بہت بڑا آرٹسٹ ہے، میرے کمپیوٹر کے ہارڈ وئیر پہ کام کرنے والا اپنے کام کا بے حد ماہر ہے، حتی کہ وہ میکینک جس  سے میں اپنی گاڑی صحیح کراتی ہوں وہ اس سلسلے میں مجھ سے کہیں زیادہ بہتر معلومات رکھتا ہے، شیف ذاکر مجھ سے اچھا کھانا پکاتے ہونگے، طاہرہ سید، مجھ سے اچھا گا تی ہیں ۔ ریما مجھ سے کہیں بہتر ڈانس کر سکتی ہیں۔  ایشوریا رائے مجھ سے زیادہ خوبصورت ہے۔ لیکن ان سب نے وہ نہیں کیا جو میں نے کیا ہے۔ 
مزے کی بات یہ ہے کہ میں تو کسی پہ اپنا علم جتاتی بھی نہیں نہ کسی بھی شخص کے بارے میں یہ جاننے کی کوشش کرتی ہوں کہ اسکی تعلیمی استطاعت کیا ہے۔ آج تک میں نے کسی کے بلاگ پہ اسکا پروفائل نہیں چیک کیا۔ میں تو لوگوں کو انکے لکھے ہوئے سے سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں۔  اب کسی کا اس بات پہ اپنا دل جلانے کا کیا فائدہ۔ کیا فائدہ کہ آپ ہر وقت اس چیز پہ اپنی انگلیاں تھکاتے رہیں کہ دراصل پی ایچ ڈی کی کوئ اہمیت نہیں اور اس چیز کی اہمیت ہے اور اس چیز کی ہے۔ اس سے صرف ایک بات مجھے پتہ چلتی ہے اور وہ یہ کہ آپ کو اپنے اوپر اعتماد نہیں۔  ایسا کہنے والا مجھے اس ٹین ایجر بچے کی طرح لگتا ہے جو اپنے ارد گرد کی دنیا سے ہر صورت بغاوت کرنا چاہتا ہے۔ بغیر اپنی صلاحیتوں کو آزمائے۔
آپ میری بیان کی ہوئ کسی چیز میں غلطی نکالنا چاہتے ہیں بصد شوق۔ مگر میری پی ایچ ڈی پہ تبرہ بھیجنے سے آپکے الفاظ کی اہمیت میں کوئ اضافہ نہیں ہوگا۔ اگر آپ میری کسی دی ہوئ معلومات کو غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں تو کسی مستند لکھنے والے کا حوالہ دیجئیے اور پھر اپنی بات کریں۔ میری پی ایچ ڈی کی تربیت مجھ سے یہی کہتی ہے۔ کسی سنی سنائ بات پہ یقین نہ کریں جب تک اسے ایسے تجربے کی کسوٹی پہ پرکھ نہ لیں جوکوئ دوسرا کرے تو اسے بھی وہی نتیجہ ملے جو آپکو ملا ہے۔ یا اگر ایسا نہ کر سکیں تو کسی مستند ذریعے سے اسکی تصدیق نہ کر لیں۔ اور یہ مستند ذریعہ لکھے ہوئے الفاظ ہوتے ہیں۔ اس لئیے ہم اپنی مذہبی کتاب کو اتنی اہمیت دیتے ہیں۔ اب اعتماد سے بات کرنی ہے تو یہی طریقہ لگانا ہوگا۔ ورنہ دوسری صورت یہی ہوگی کہ آپ کسی کی علمی قابلیت کے بارے میں جان لیں گے تو اپنی سطح بلند کرنے کے بجائے اس میں خامیاں نکالتے رہیں گے۔ جو لوگ اپنی عمر گذار چکے انہیں چھوڑ کر باقی سب  تو ابھی عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں انہیں ہر لحظہ کچھ نئے کی امنگ سے بھرا رہنا چاہئیے۔ پھر یہ رویہ کیوں؟
میری باتوں پہ آپکا عمل کرنا بالکل ضروری نہیں۔ کیونکہ آپ  کہہ  سکتے ہیں کہ  آپکی بات پہ کیوں عمل کیا جائے آپ تو کتاب لئیے گھڑے میں بٹھی ہیں اور لوگ بالائ چاٹ چاٹ کرایک گھڑے سے نکل کر دوسرے میں جا چکے ہیں۔

دوستی ایسا ناطہ

رابعہ، ایک پندرہ سول سال کی لڑکی ہے۔ ڈیڑھ سال پہلےوہ میرے گھر میں جب آئ تو مشعل ڈیڑھ سال کی تھی۔  اور  یہ وہ وقت تھا جب مشعل کو میری توجہ ہمہ وقت چاہئیے ہوتی تھی۔ اور اکثر جب میں کھانا بنا رہی ہوتی تھی تو مصالحہ بھونتے بھونتے مجھے ایک زوردار چیخ پہ بھاگ کر یہ دیکھنے جانا پڑتا کہ کیا ہوا ہے اور ادھر وہ مصالحہ جل بھن کر ختم ہوجاتا ۔ ایک طرف ٹی سی ایس والا ڈور بیل بجا کر گھر ہلا رہا ہوتا، دوسری طرف فون بج رہا ہوتا اور تیسری طرف میں مشعل کو پکڑدھکڑ کر نہلانے میں مصروف ہوتی۔ گھر کے بزرگان کیساتھ صحت کے علیحدہ مسائل۔ طے ہوا کہ گھر میں صبح سے شام تک کے لئیےکسی مددگار کو رکھ لیا جائے۔ تاکہ ہر وقت کی افراتفری کچھ قابو میں آئے۔
رابعہ کی طبیعت میں کافی بچپنا ہے اور مشعل  سماجی تعلقات بنانے کے فن سے واقف ،  سو دو دیوانوں کی جلد ہی خوب گذرنے لگی۔ جس میں ہم گھر والے کبھی کبھی رقیب کا کردار ادا کرتے تھے۔  مجھے یہ خدشہ بھی لاحق کہ کہیں مشعل اسکے چکر میں نخریلی نہ ہو جائیں۔  اس لئیے اسے نہ صرف مشعل کا کوئ بھی کام کرنے کی منادی تھی بلکہ مشعل کو مکھن لگانے سے بھی باز رکھا جاتا جیسے گود میں اٹھا کر پھرنا۔
رابعہ کو زیادہ کام تو ہوتا نہ تھا اور دونوں دوستیں اکثر ساتھ بیٹھ کر کارٹّونز دیکھتیں اور مختلف کھیل کھیلا کرتیں۔ مشعل اسکے ساتھ اپنی ہر چیز شیئر کرتی چاہے وہ کھلونے ہوں یا چاکلیٹ یا کوئ اچھی بری خبر۔ کھانے کی کوئ بھی چیز رابعہ کو دئیے بغیر مشعل نہیں لے سکتی تھی، چاہے وہ ڈانٹ ہی کیوں نہ ہو۔
یوں بھی ہوتا کہ میں مشعل کی مرضی کیخلاف کوئ کام رابعہ کو کرنے کو کہتی اور وہ رضامندی کے لئے مشعل کی طرف دیکھتی۔ ایسے وقتوں میں مجھے رابعہ کو یہ یاد دلانا پڑتا کہ یہ میں ہوں جس نے پہلے دن اسکو ملازمت پہ رکھنے سے پہلے اسکا انٹرویو کیا تھا۔ لیکن اسکی یاد داشت مشعل سے زیادہ بہتر نہ تھی۔
کچھ عرصے میں گھر میں یہ کسی کے لئیے ممکن نہ رہا کہ وہ مشعل کے سامنے رابعہ کو اسکی کسی بھی غلطی پہ سرزنش کرے۔ کیونکہ وہ اسکے سامنے اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر دیوار چین بن جاتی۔ 'لابیہ میری دوست ہے اسے مت ڈانٹیں'۔ یہ خواب کہ میں اب مشعل کے ساتھ زیادہ آرام سے وقت گذاروں گی خواب ہی رہا۔ البتہ اب  مصالحہ بھونتے ہوئے نہیں جلتا تھا۔کیونکہ ان دونوں کا انہماک دیکھ کر میں اسکے حصے کے بھی کام کرتی رہتی۔ کبھی کبھی اسکی ان لاپرواہیوں کی وجہ سے جو وہ مشعل کے بہانے سے کرتی غصہ بھی آتا، مگررانی کی چہیتی کو کیا کہیں۔ 
پھر ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں نے دن کے کھانے کے لئیےپلاءو بنایا اسے دم پہ چھوڑ کر رابعہ کو اسکی نگرانی پہ معمور کیا  کہ پانچ منٹ میں چولہا بند کر دینا اور گھڑی کی طرف اشارہ کر کے یہ بھی بتا دیا کہ پانچ منٹ کب ہونگے۔ اور خود واش روم کی صفائ پہ لگ گئ۔    جلنے کی  تیز بو پہ باورچی خانے میں گئ تو کھانا اتنا جل چکا تھآ کہ قابل کھا نہیںرہا۔ دیکھا تو مشعل اور رابعہ ٹی وی پہ کارٹون دیکھ رہی تھیں۔
میں نے رابعہ کو کچن میں بلا کر ڈانٹنے کے لئیے ابھی منہ کھولا ہی تھا کہ انکی گاڈ فیری موقع کی ننزاکت کو دیکھتے ہوئے فوراً  نازل ہو گئیں اور حسب عادت اسکے آگے اپنے دونوں ہاتھ پھیلا دئیے۔ میں نے رابعہ پہ گرجنے سے پہلے ایک دھاڑ مشعل کو دینا ضروری سمجھا۔ متوقع طور پہ  وہ روتی ہوئ منظر سے روانہ ہو گئیں کہ ایسا لہجہ انکے ساتھ شاید ہی رکھا گیا ہو۔
تھوڑی دیر بعد، یہ طے کر کے کہ اب کیا کھایا جائے گا۔ میں جا کر لاءونج میں بیٹھی تھی کہ مشعل میرے پاس آگئ ۔'اماں، میں رو رہی ہوں'۔ میں نےتجاہل عارفانہ سے  پوچھا 'کیوں کیا ہوا؟'۔  جواب ملا 'آپ نے مجھے ڈانٹا تھا۔ اس لئیے رو رہی ہوں'۔ میں نے انکی طرف دیکھا اور آنیوالی مسکراہٹ کو چھپاتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔'سوری بیٹا، لیکن رابعہ نے غلطی کی تھی۔ اس وقت آپکو نہیں بولنا چاہئیے تھا'۔ پھر میں نے انکو اپنے سے قریب کر لیا۔ انہوں نے سسکتے ہوئے  مزید کہا' اماں، آپ نے رابعہ کو بھی ڈانٹا تھا'۔ یعنی مجھے رابعہ  سے بھی سوری کہنا چاہئیے۔ میں نےیکدم اپنی بیٹی کو حیرانی سے دیکھا۔محض  ڈھائ سال کی عمر میں اسے معلوم تھا کہ
دوست کسی کی زندگی میں اس وقت آتا ہے جب کوئ ساتھ نہیں ہوتا۔

Monday, March 1, 2010

نئے افکار انکا حصول اور ترویج-۶

وولٹیئر نے کہا، 'توہم پرستی کو کچل ڈالو'۔ وولٹیئر انیسویں صدی میں فرانس میں کلیسائ طاقتوں کے خلاف اٹھنے والی مضبوط آواز تھا۔ اسکے بغیر انقلاب فرانس کی کہانی ادھوری رہے گی۔ اور  اٹھارویں صدی کے انقلاب فرانس کے تذکرے کے بغیر یوروپ کی تبدیلی کی کہانی نا مکمل رہے گی۔ اس تاریخ کے کردار اتنے حقیقی ہیں کہ آج اکیسویں صدی میں بھی تلاش کئیے جا سکتے ہیں ۔خاص بات یہ ہے کہ  اس انقلاب کی بنیاد فرانس کے دانشوروں اور قلمکاروں  نے رکھی۔
فرانس میں اس وقت اہل کلیسا اور دو مذہبی جماعتوںیسوعی جماعت اور یان سینی جماعت کا اقتدار میں حصہ تھا۔ امراء اور عدلیہ ان جماعتوں کے زیر اثر تھے اور یہ سب ملکر یہ تاثر پھیلاتے تھے کہ عقلی علوم، فلسفہ اور سائینس ، بادشاہت کے لئے خطرہ ہیں۔
کلیسا کے لئیے فرانسیسی ادیب ویدیرو کا یہ جملہ بھی مسیحیت کے خلاف تھا کہ 'بہت سے لوگوں ادب کو اسی طرح قابل  احترام سمجھتے ہیں جس طرح مذہب کو یعنی نہ ادب کی حقیقت سمجھتے ہیں، نہ اس سے محبت کرتے ہیں، نہ اس پہ عمل کرتے ہیں۔'
 یہ  ایسی بات تھی جس پہ کسی کو مسیحیت کے دائرے سے باہر کر دینا ایک معمول کی کارروائ ہوا کرتی تھی۔ نتیجے میں لوگ تنگ آ کر ملحد ہوجاتے۔ ۔ویدیرو نے تین کتابیں لکھیں جن میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئ کہ اہل کلیسا، عیسائ مذہب کی ایسی تاویلیں کر رہے ہیں جو تعلیم یافتہ طبقے کو عیسائیت سے متنفر کر رہی ہیں۔ اس کی ایک کتاب 'خدا کو وسیع کرو' کو اہل کلیسا اور عدالتوں نے ملکر نذر آتش کر دیا۔ ویدیرو کو قید تنہائ سے گذرنا پڑا۔
 اسی عرصے میں بادشاہ پہ ایک مذہبی جنونی کے حملے کے بعد مذہبی جماعتوں نے اس پہ زور ڈالا کہ وہ ملکی قوانین اور حکمت عملی کو مسیحی قوانین کے تابع کرے۔ اس طرح سے امور مملکت سے متعلق فیصلوں میں پادریوں اور یسوعی جماعت کا عمل دخل بڑھا۔ فرانسیسی قوم کے مسیحی تشخص کو ابھارنے کی مہم شروع ہوئ لیکن کوئ اہم تبدیلی عمل میں نہ آسکی کیونکہ حضرت عیسی کی تعلیمات کے نتیجے میں شاہی شان و شوکت، جاگیردارانہ جاہ و چشم، سرمایہ دارانہ مفعت، انکی کوئ گنجائش نہ تھی۔
حالات اس نہج پہ پہنچے کہ وولٹیئر کے بقول وہ قوم جو شعر و شاعری، ناول، ڈرامہ نگاری، رومانی تاریخ، اخلاقی پند و نصئح اور اولیائ کرامات کی کہنیوں میں مگن تھی وہ اب بحث کرتے تھے کہ روٹی مہنگی کیوں ہوگئ ہے، بندء مزدور کے اوقات اتنے سخت کیوں ہیں، ٹیکس کا نظام اتنا ناقص کیوں ہے، زمین کے مالئیے میں یکسانیت کیوں نہیں ہے۔
ولٹیئر نےایک جگہ لکھا کہ'یہ رائے ابھر رہی ہے اور تقویت پکڑتی جا رہی ہے اور ممکن ہے کہ ایک قومی انقلاب کا باعث بن جائے۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگوں کے ذہن احتجاج اور بغاوت کی طرف مائل ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہر شے ایک ایسے عظیم انقلاب کی طرف جاتی محسوس ہو رہی ہےجو مذہب میں بھی آئیگا اور حکومت میں بھی۔
اہل کلیسا میں نا اتفاقیاں شروع ہو گئیں اور کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کے درمیان فرقہ وارانہ اختلافات اتنے بڑھے  کہ فرانس کے ضلع تولوس میں میں کوئ وکیل اور ڈاکٹر پروٹسٹنٹ نہیں ہو سکتا تھا۔ پروٹسنٹ کتابیں نہیں بیچ سکتا تھا۔ ایک عورت کو محض اس بات پہ جرمانہ کیا گیا کہ اس نے وضع حمل کے لئیے پروٹسٹنٹ دایہ کی خدمات لی تھیں۔
ان سب حالات میں بھی یونانی اور مسلمانوں کے عقلی علوم کا چرچا تھا۔ اور ایک مصنف الوتیس کے خلاف اس بات پہ مقدمہ چلانا چاہا  کہ اس نے لکھا کہ کیا ترکوں میں ہم سے زیادہ مذہبی رواداری نہیں، پیرس میں ایک بھی مسجد نہیں اور قسطنطنیہ میں کئ گرجا گھر ہیں۔ اس بات پہ اسکے خلاف پہ الزام لگایا گیا کہ وہ پیرس میں مسجد بنانا چاہتا ہے۔
 الوتیس نے مزید لکھا کہ کہ یہ ضروری نہیں کہ صرف وہی قوانین نافذ کئ جائیں جنکا ذکر انجیل میں ہے اگر اس پہ اصرار کیا جائے تو ملک کا نظام چلانا مشکل ہوجائے گا مثلاً رسل و رسائل کے ضابطے جو فرانس میں نافذ ہیں انکے بارے میں کوئ حکم انجیلی مقدس میں نہیں ہے۔
لہذا مفاد عامہ کو معیار بنانا چاہئیے۔ایلوتیس کو اپنے ایسے تمام بیانات پہ ایک معذرت نامہ لکھنا پڑا۔
اور اس بات کو ڈاکٹر آغا افتخار حسین سے اس طرح لکھا کہ۔
 جب معاشرے میں اعتدال باقی نہیں رہتا تو نیکی بدی کے سامنے معذرت خواہ ہوتی ہے، صداقت کذب کے سامنے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علم جہل کے سامنے معذرت خواہ ہوتا ہے حقیقت سراب کے سامنے معذرت خواہ ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معاشرے میں آگہی ایک جرم ہوتی ہے اور دانشور ایک مجرم بن جاتا ہے ایک اقبالی مجرم'۔
 فرانس میں مذہب کے نام پہ دہشت گردی کار ثواب تھی۔  لیکن لکھنے والے اسکے خلاف سینہ سپر ہوئے۔  ایلوتیس ، اپنے معذرت نامے سے پھرا۔ جلاوطن ہو جانیوالے وولٹیئر نے پھر وطن کا رخ کیا اور یہ نعرہ بلند کیا کہ اندرونی دشمنوں نے اپنا حربہ مسیحیت بنا لیا ہے۔ اور انہوں نے دین کو توہم پرستی میں تبدیل کر دیا ہے اور ہر واہمے کو سمجھنے اور سمجھانے کی ذمہ داری خود اٹھا لی ہے۔ لہذا توہم پرستی کو کچل دو۔
اس نے کہا اہل فکر کو متحد ہو جانا چاہئیے۔ وہ خود نہ ملحد تھا اور نہ مسیحیت کا مخالف اس نے ایک ملحد کو لکھا کہ آپ کہتے ہیں کہ مذہب دنیا میں متعدد مصائب اکا سبب بنا ہوا ہے اسکے بجائے یہ کہئیے کہ اسکا سبب توہم پرستی ہے۔۔۔۔یہ توہم پرستی

رب العزت کی عبادت کی نہایت بے رحم دشمن ہے۔ ہمیں چاہئیے کہ اس عفریت سے نفرت کریں'۔
وولٹیئر نے اپنی مہم کتابوں کے ذریعے نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے پمفلٹ، رسالے، اشتہارات وغیرہ ہزاروں کی تعداد میں شائع کئیے۔تاریخ میں قلم کے ذریعے غالباً اس سے موئثر تحریک نہیں چلائ گئ۔بعد ازاں  ۔یسوعی جماعت کے اراکین کیخلاف ثبوت اکٹھا کئیے گئے جو انکی زر اندوزی، دولت آفرینی اور حصول اقتدار سے محبت کو ظاہر کرتے تھے
آخر کار نومبر ۱۷۷۳ میں بادشاہ نے یسوعی جماعت پہ پابندی لگا دی۔ پوپ نے اس جماعت کی مذمت کی۔
انسان کو قتل کیا جا سکتا ہے اسکی فکر کو نہیں۔
حوالہ؛
حریت فکر کے مجاہد، مصنف وارث میر، جنگ پبلشرز