Friday, September 30, 2011

وہ دیکھو

کبھی کبھی موضوعات میں قرعہ اندازی کرنی پڑتی ہے۔ آج تین موضوع ذہن میں تھے۔ لیکن فال آل پارٹیز کانفرنس کے نام نکلی۔ ایک شاعر نے کہا تھا کہ اسکا چہرہ ہے کہ حافظ کی بیاض، ایسے چہرے سے کوئ فال نکالی جائے۔  سو جس کانفرنس میں ہماری پیاری وزیر خارجہ حنا ربانی کھر موجود ہوں۔ اسی سے کوئ فال نکالنی چاہئیے تھی۔  سب منتظر بھی رہے۔ سنتے ہیں کہ چھ گھنٹے سے زائد کا ٹائم لگا اس فال کو نکالنے میں۔
اسکی وجہ باخبر ذرائع کے مطابق یہ تھی کہ تقریباً ساٹھ رکنی اس کانفرنس میں جب بھی کوئ فال نکالی جاتی۔ اس پہ مندوبین کا متفق ہونا مشکل ہوتا۔ اس میں ہمارے فارسی شاعرحافظ صاحب یا حنا ربانی کھر کا کوئ قصور نہیں، نہ ہی شرکاء کا۔ اصل میں خستہ حال بیاض کا پرنٹ صحیح نہ تھا۔ جیسے ہی صفحہ پلٹو،ٹوٹنے لگتا۔ ارادہ انہیں جہنم رسید کرنے کا، صفحہ دیوان کا۔ اس لئے یہ دقّت پیدا ہوئ۔
اب جو فال نکلی ہے اسکا مطلب بھی لوگ ایکدوسرے سے پوچھتے پھر رہے ہیں۔ حافظ صاحب تو آکر بتانے سے رہے۔ یہ الگ بات کہ کوئ روحانی شخصیت ان سے یہ راز اگلوا لے۔  مردوں کو بلانے کے روحانی طریقے بھی ہوتے ہیں جس میں وہ خاموشی سے اٹھ آتے ہیں ہمیشہ گڑا مردہ کھود کر نہیں نکالتے۔ شرط یہ ہوتی ہے کہ مردے کو واپس بھیجنے کا وظیفہ بھی آنا چاہئیے۔ توقع ہے کہ یا تو ہمارے امریکی مہربان یہ وظیفہ جانتے ہونگے یا پھر ہمارے سالار۔ واپس کس کا مردہ جائے گا، وہی جو آیا تھا۔ آپ سمجھے حافظ صاحب کا، نہیں انکا صرف دیوان کام کا ہے۔
حافظ صاحب کو مرے ہوئے سات سو سال ہو رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہیں اپنا دیوان اب یاد بھی ہوگا کہ نہیں۔ ہو سکتا ہے وہ یہ سن کر ہی بھونچکا رہ جائیں کہ حسین چہروں کو چھوڑ کر لوگ انکے دیوان سے یہ کام لیتے ہیں۔ حافظ صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں رکتی ہوں، ہم دراصل آل پارٹیز کانفرنس پہ بات کر رہے تھے۔ یہ حافظ صاحب خدا جانے کیوں آگئے۔
قوم کو اس کانفرنس سے بڑی امیدیں تھیں۔ خود ہم بھی کچن کی چھریاں تیز کر کے بیٹھے تھے۔ جبکہ ادھر لاکھوں سیلاب زدگان کہہ رہے تھے کہ ان چھریوں کی میخیں بنوا لو جن میں ہمارے خیمے گڑ جائیں گے۔ لیکن ہم نے کہا نہیں۔ ہم اس موقع پہ فوج کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ اور سارا دن اقبال اور فیض کو حفظ کرتے رہے۔ جنگ کے دنوں میں قوم کے عظیم سپوت سامنے آتے ہیں اور امن کے دنوں میں بدترین۔ اگر عظیم بننے کا ایک موقعہ ہاتھ لگ رہا ہے تو بہتی گنگا میں ہاتھ کیوں نہ ڈالیں۔
ادھر  دائیں بازو والے بھی نعرہ ء تکبیر کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے۔ مرگ انبوہ جشنے دارد۔ سنا ہے پرنٹنگ پریس میں کفار سے جنگ کے نعرے تک پرنٹ ہو چکے تھے کہ اس دفعہ تو ہوا ہی ہوا۔ ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق۔


لیکن کانفرنس ختم ہو گئ۔ اب سب ایکدوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ کانفرنس کی متفقہ قرارداد کا مطلب کیا ہے؟ آیا اس سے امریکہ خوفزدہ ہوگا یا نہیں۔  اپنا اپنا ہوتا  ہے۔ کیا طالبان کو منایا جارہا ہے یا امریکہ کو۔  یہ کیا بات ہوئ، کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ۔ اگر امریکہ سے جنگ نہ کی تو پھر کیا جیا۔ خوشحال پاکستانی کیسے جنگ لڑنے کی ہمت کر سکتے ہیں، فوج کو بس اتنا ہی ڈرامہ مقصود تھا، اب ڈالرز صراط مستقیم پہ چلیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔
کوئ میری رائے جاننا چاہتا ہے۔ غالب کہہ گئے ہیں کہ آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں۔ اور میر کی تقلید میں یہ کہنے کو دل چاہتا ہے کہ پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے، جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔ شعر کی تشریح سے پہلے سارے استعارے سمجھنا ضروری ہیں۔ اس میں باغ سے غالباً امریکہ  مراد ہے اور گل سے کون ہے۔ یہ مجھے نہیں معلوم۔ یوں تشریح کا سبق تو بند ہوا۔
  گھر کے ایک  پرانے کیسٹ پلیئر سے بچ رہ جانے والی واحد کیسٹ بر آمد ہوئ۔ لگا کر دیکھا تو بج بھی رہی تھی۔ رفیع کے گانے ہیں۔ ایک پرانا گانا بھی ہے۔ کچھ گانے جب بھی بجتے ہیں انکی آب و تاب میں کمی نہیں آتی۔ تال ایسا میل کرتا ہے کہ ہر زمانے کے لئے زندہ، ہر نسل کے لئے کار آمد۔ بعض سیاسی گانے بھی یہی تاثیر رکھتے ہیں۔ جب بجتے ہیں نئ امید اور پرانے نتائج لاتے ہیں۔ یہ گانا انکی نذر جو اعلان جنگ کے منتظر رہے۔


 

Wednesday, September 28, 2011

روحانی تجربہ

اگر میں آپ سے پوچھوں کہ کیا کبھی آپکو کوئ روحانی تجربہ ہوا ہے تو ایک پاکستانی مسلمان ہونے کے ناطے آپ میں سے اکثر فورا اپنے ماضِی کو کھنگالیں گے  اور کچھ اس طرح کے خیال ذہن میں آئیں گے کہ کسی بابا، مجذوب یا اللہ والے سے کوئ ایسی ملاقات ہوئ جس میں اس نے کوئ پیشن گوئ کی اور وہ پوری ہو گئ۔ یا اس نے کوئ بات بتائ جو بالکل درست نکلی۔ کیا یہ روحانی تجربہ ہوتا ہے؟
یہ خیال مجھے اس وقت آیا جب میں عمران خان کی کتاب کے اقتباسات پڑھ رہی تھی جو اس اتوار کے روزنامہ ایکسپریس کے میگزین میں موجود ہے۔ جس میں عمران خان کے روحانی تجربات کے عنوان سے ایک تحریر موجود ہے اس میں انہوں نے ایک پیرنی، ایک جھلے بابا اور ایک دو اور شخصیات کا تذکرہ کیا ہے۔ کچھ ایسی پیشنگوئیوں کا جنہیں میں روحانی پیشنگوئ کم اور زندگی کا مشاہدہ زیادہ سمجھتی ہوں۔
مشاہدے کی قوت اگر زندگی کے تجربات کے ساتھ مل جائے تو یہ وجدان کا روپ دھار لیتی ہے جیسے میری والدہ، جنکے بارے میں ہم سب متفق ہیں کہ وہ جو کہہ رہی ہیں وہ ہوجائے گا۔ لیکن اسکے باوجود ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ روحانی شخصیت ہرگز نہیں ہیں۔ یہ انکی مختلف معاملات سے وابستگی، زندگی کا حاصل اور خاصی مشاہداتی نظر ہے جو انکی باتوں کو صحیح ثابت کر دیتی ہے۔ ورنہ وہ ایک عام خاتون ہیں جو عام لوگوں سے زیادہ محنتی اور معاملہ فہم ہیں۔
یہ روحانی تجربات ہر مذہب  کے ماننے والے کو حاصل ہوتے ہیں۔ عیسائ ، ہندو حتی کہ افریقہ کے جنگلوں میں رہنے والے نیم وحشی قبائل کو بھی۔ اور اس وجہ سے نفسیات میں ایک میدان ان روحانی تجربات کے لئے بھی کھلا ہے بلکہ نفسیات مذہب اسکے عقائد اور سرگرمیوں کو بھی سائینس کی نظر کھنگالتی ہے۔
البتہ حیرت سے مجھے اس وقت گذرنا پڑتا ہے جب دنیا کی مایہ ناز یونورسٹیز سے پڑھے لکھے اشخاص کو ایسی باتیں کرتے سنتی ہوں۔ مثلاً آکسفورڈ یونیورسٹی سے پڑھے ہوئے بے نظیر بھٹو اور عمران خان۔
میرے گھر کی ماسیاں بھی کچھ ایسی روحانی شخصیات کا تذکرہ کرتی ہیں۔ اور اپنی زندگی میں تبدیلی کے لئے انکی طرف دیکھتی ہیں۔ بے نظیر بھٹو ، اقتدار کے دوام کے لئے ڈنڈے کھانے ایک پیر کے پاس جایا کرتی تھیں، بازو پہ بندھے امام ضامن، بکروں۔ مرغیوں، گائے کے صدقے۔ لیکن جس دن انکو قتل ہونا تھا اس دن کوئ امام ضامن بند نہ باندھ سکا۔


عمران خان کی زندگی میں بقول انکے تبدیلی کا باعث بھی کچھ ایسی شخصیات بن گئیں۔ انکی زندگی میں کس تبدیلی کا باعث بن گئیں۔ یہ مجھے نہیں معلوم۔ کیا یہ تبدیلی کہ وہ خوبصورت خواتین کے ساتھ وقت گذارنے والے پلے بوائے سے بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ ایک ذمہ دار شخص بن گئے۔  انہوں نے اپنی شہرت اور دولت کو بہتر طور پہ عقل کے ساتھ استعمال کیا۔ ایسا ہر سمجھ دار شخص کرتا ہے خاص طور پہ گلیمر کی دنیا کا وہ  شخص جو اپنے بڑھاپے کو بھی اپنے شخصی سحر میں مبتلا دیکھتا ہے۔  لیکن کیا انکی بنیادی خصوصیات میں کوئ تبدیلی آئ۔ میرا خیال ہے کہ بنیادی شخصی خواص وہی رہے بس انکی سمت تبدیل ہوئ۔انجلینا جولی اور بل گیٹس یہ سب کچھ بلکہ اس سے زیادہ بغیر کسی روحانی تجربے کے کر رہے ہیں۔ ادھر جنید جمشید بھی کچھ ایسی ہی باتیں کرتے ہیں۔ کیا یہ انکی روحانی تبدیلی ہے؟







طبقہ ء امراء اور طبقہ ء غرباء میں کافی باتیں ملتی جلتی ہوتی ہیں، کم از کم روئیے میں بڑی مماثلت ہوتی ہے۔ میں اپنے طور پہ یہ نتیجہ اخذ کرتی ہوں۔
لیکن ایک سوال جو میرے ذہن میں اکثر ابھرتا ہےاور جو میں آپ سے بھی پوچھنا چاہونگی  کہ مافوق الفطرت واقعات کے پیش آئے بغیرکیا کوئ روحانی تجربہ یا کیفیت ممکن نہیں؟ لیکن پہلا سوال وہی ہے کیا آپکو اپنی زندگی میں کوئ روحانی تجربہ ہوا ہے؟

Tuesday, September 27, 2011

اوسٹیو پوریسس-۳

 گزشتہ سے پیوستہ

ہم وہ ہوتے ہیں جو ہم کھاتے ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اوسٹیوپوریسس سے بچاءو میں سب سے اہم چیز غذا ہے اور دوسری اہم چیز جسمانی طور پہ مصروف رہنا۔ یہ دونوں چیزیں طرز زندگی میں آتی ہیں۔
ہم یہ نہیں کھاتے، ہم اس طرح نہیں کھاتے، ہم اس وقت اور اس موسم میں یہ چیزیں کھاتے ہیں اور یہ چیزیں نہیں کھاتے۔ ان سب سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم وہ سب کھاتے ہیں جو جسم کو صحت مند رکھنے میں مدد دے۔
یہ بات ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہماری غذا کو صحت بخش ہونا چاہئیے اس میں وہ تمام بنیادی غذائ اجزاء ہونے چاہئیں جنکی  ہمارے جسم کو روزانہ ضرورت ہوتی ہے، یعنی پروٹین یا لحمیات، کاربو ہائیڈریٹس یانشاستہ، معدنیات اور وٹامنز یا حیاتین۔ ایک متوازن یا صحت بخش غذا کا اہرام دن بھر میں ہماری مختلف غذائ اجزا کی مقدار ضرورت کے مطابق اس طرح بنے گا۔

ہماری آبادی کی بیشتر آبادی خراب غذائ اہمیت رکھنے والی غذا کھاتی ہے۔ اسکی ایک وجہ اگر غربت ہے تو دوسری جہالت۔
غربت ایک عورت کے لئے زیادہ سخت ثابت ہوتی ہےاسکی وجہ یہ ہے کہ ابھی بھی بہت سے گھرانوں میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو کم غذا ملتی ہے۔ اس بات کو دھیان میں رکھے بغیر کے ایک عورت اگر صحت مند ہوگی تو خاندان مضبوط اور خوشحال ہوگا۔
دنیا کے زیادہ تر حصوں میں لوگ ہر کھانے میں ایک بنیادی غذا ایسی رکھتے ہیں جو سستی ہوتی ہے۔ مثلاً گندم، چاول، آلو  یا مکئ۔ یہ بنیادی غذا جسم کی روزانہ کی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ لیکن یہ ایک فرد کو صحت مند رکھنے کے لئے کافی نہیں۔ لحمیات جو جسم کی نشو ونما میں حصہ لیتے ہیں، چکنائ اور نشاستہ توانائ دیتے ہیں حیاتین  اور معدنیات جسم کی حفاظت اور ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرتے ہیں۔
عورت کو بالخصوص حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو پانچ اہم حیاتین اور معدنیات چاہئیے ہوتے ہیں۔جو یہ ہیں، لوہا، فولک ایسڈ، کیلشیئم، آئیوڈین اور وٹامن اے۔
بر سبیل تذکرہ، آئرن کی کمی یعنی انیمیا کی بیشتر پاکستانی خواتین شکار ہوتی ہیں۔ آئرن یا لوہا ان اشیاء میں زیادہ ہوتا ہے۔ گوشت، انڈے، مچھلی، مٹر، پھلیاں مثلاً سیم اور لوبیا۔
سبزیوں میں بند گوبھی، سبز پتوں والی سبزیاں، آلو، شکر قند، پھول گوبھی، شلجم، مسور۔
پھل اور بیج میں، سورج مکھی کے بیج، کدو کے بیج، انناس، ، خشک پھل مثلاً چھوہارے، خوبانیاں، اسٹرابیری۔
غریب یا ایسے علاقوں میں جہاں زیادہ غذائ اشیاء دستیاب نہیں ہوتیں آئرن حاصل کرنے کے آسان طریقے استعمال کئیے جا سکتے ہیں۔  لوہے کے برتنوں میںکھانا پکائیں اور پکاتے ہوئے اس میں ٹماٹریا لیموں کا رس شامل کر لیں۔ تو برتن کا آئرن کھانے میں شامل ہو جائے گا۔
لوہے کا صاف ستھرا ٹکڑا جو خالص لوہے کا ہو۔ کھانا پکاتے ہوئے اس میں ڈال دیں۔
لیموں کے رس میں لوہے خالص لوہے کی بنی ہوئ کوئ چیز دال دیں جیسے لوہے کی کیل اسے تھوڑی دیر اس میں پڑا رہنے دیں اور پھر اسکا لیمونیڈ بنا کر پی لیں۔
اوسٹیوپوریسس کے حوالے سے کیلشیئم ایک اہم جز ہے ہم اس پہ تفصیل سے بات کرتے ہیں۔ خواتین کے لئے کیلشیئم اہم ہے کیونکہ بچپن میں یہ ایک لڑکی کو صحیح طور پہ بڑا ہونے میں مدد دیتا ہے۔ اسکے کولہوں کو اتنا چوڑا ہونے میں مدد دیتا ہے کہ بڑے ہو کر وہ بچے کو محفوظ طریقے سے جنم دے سکے۔
حمل کے زمانے میں کیلشیئم نہ صرف بچے کی ہڈیوں کے لئے ضروری ہوتا ہے بلکہ اس کی وجہ سے ماں کی ہڈیاں اور دانت محفوظ رہتے ہیں۔ بڑھاپے میں یہ خواتین کو اوسٹیوپوریسس سے بچاتا ہے۔  صرف اوسٹیوپوریسس ہی نہیں تحقیقات اس خیال کی بھی حامی ہیں کہ کیلشیئم بعض اقسام کے کینسر سے بھی تحفظ دیتا ہے۔
کیلشیئم حاصل کرنے کے لئے دودھ یا اسکی مصنوعات مثلاً کھویا،  پنیر اور دہی استعمال کریں۔ دودھ کی خوشبو یا دہی کا ذائقہ پسند نہ ہو تو اس میں پھل شامل کر لیں یہ کیشیئم جذب ہونے کی صلاحیت کو بھی بڑھاتے ہیں۔
انڈے میں کیلشیئم ہی نہیں وٹامن ڈی بھی بڑی مقدار میں ہوتا ہے۔ روزانہ ہر شخص ایک انڈہ بالکل آرام سے کھا سکتا ہے زردی سمیت۔ سوائے اسکے کہ ڈاکٹر نے کسی وجہ سے منع کیا ہ۔ ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ خواتین کو انڈہ نہیں کھانا چاہئیے یا یہ کہ انڈہ گرم ہوتا ہے۔ یہ دونوں بے بنیاد ہیں۔ 
سمندری غذا، مثلاً شیل فش، سیمن مچھلی، سارڈین مچھلی ہڈیوں سمیت۔
پھلیاں خصوصا سویا پھلی جس سے ٹافو  بنتا ہے۔ جو چایئینز کھانوں میں کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ ٹافو میں ایسٹروجن بھی اچھی مقدار میں پایا جاتا ہے۔اگر آپ  کو دودھ میں موجود لیکٹوز کی وجہ سے اسے ہضم کرنے میں مسئلہ ہوتا ہے تو ٹافو یا دہی استعمال کر لیں۔
ٹافو کیک



سبز پتوں والی سبزیاں , بروکلی،انجیر، بادام، تل اور  اورنجز۔
ہڈیوں کا گودا اگر آپکو کولیسٹرول کا مسئلہ نہیں ہے تو آرام سے لے سکتے ہیں  بالخصوص نوجوان بڑے مزے سے کھا سکتے ہیں۔
اور یہ بات تو آپ اکثر سوچتے ہونگے کہ پرانے زمانے کی خواتین میں اوسٹیوپوریسس اتنا عام کیوں نہیں تھا؟
جناب ایک تو پان کھانے کی عادت، جس میں چونا استعمال ہوتا تھا اور دوسرا گھروں میں صحن۔ جہاں سے دھوپ سارا دن ملتی تھی۔ جی ہاں چونا ، کیلشیئم حاصل کرنے کا ایک آسان ذریعہ ہے۔ اور کھلے صحن وٹامن ڈی کا ذخیرہ۔
کیلشیئم حاصل کرنے کے اور آسان،  سستے ذریعے بھی ہیں۔ 
ہڈیوں یا انڈے کے چھلکوں کو کچھ دیر کے لئے سرکہ یا لیموں کے رس میں بھگو دیں پھر اس ماٰئع کو کسی بھی قسم کے کھانے کی تیاری میں استعمال کریں۔
جب ہڈیوں کا سوپ تیار کریں تو اس میں تھورا سا لیموں ، یا سرکہ یا ٹماٹر شامل کر دیں۔ ہڈیوں سے کیلشیئم نکل کر آپکے سوپ میں شامل ہو جائے گا۔
انڈے کے چھلکے کو بالکل باریک سفوف میں پیس لیں۔ اور پکاتے وقت کھانے میں ملا لیں، دوبارہ وہی بات کہ  اگر اس میں سرکہ، لیموں کا رس یا ٹماٹر ڈال لیں گے تو یہ کیلشیئم آسانی سے جذب ہو جائے گا۔
ایک خاتون کو عمر کی چوتھی داہئ میں داخل ہونے سے پہلے اپنی کیلشیئم کی مقدار کو نظر میں رکھنا چاہئیے۔ کیلشیئم کی یہ مقدار اندزاً بارہ سو ملی گرام ہے۔ جو کہ ہم دودھ ، پھلوں، میووں ، گوشت اور سبزی ہر ذریعے سے حاصل کر سکتے ہیں۔ خوراک سے کیلشیئم کے ملی گرام کا اندازہ لگانے کے لئے نیچے ایک ٹیبل موجود ہے۔ چیک کیجئیے کہ آپکی روزانہ کی خوراک میں کتنا کیلشیئم موجود ہوتا ہے۔

کیلشیئم ملی گرام خوراک
300 ایک کپ دودھ
350  چھ اونس دہی
240 ایک اونس چیڈر چیزیا پنیر
265 دو سلائیس پراسسڈ پنیر
120 چوتھائ کپ کاٹیج پنیر
85 آدھا کپ آئس کریم
370 آٹھ سارڈین مچھلی کین والی
285 آدھا کپ ٹافو
40 آدھا کپ بھیگے ہوئے بھیگے ہوئے  چنے
95 چوتھائ کپ بادام
43 ایک کھانے کا چمچ بادام کا مکھن

اس سے آگے بات آتی ہے ورزش کی ۔ سو یہ تحریر ابھی جاری ہے۔

نوٹ؛ اس تحریر کی تیاری میں دیگر ذرائع کے علاوہجس کتاب سے مدد لی گئ ہے اسکا نام ہے۔ جہاں عورتوں کے لئے ڈاکٹر نہ ہو۔ یہ کتاب پاکستان نیشنل فورم آن ویمینز ہیلتھ کے زیر اہتمام شائع ہوئ ۔

Sunday, September 25, 2011

قصہ ایک گرم دن کا

ابھی ہمیں وہاں پہنچے کچھ دن  ہوئے تھے کہ ٹورنٹو میں ایسی گرمی پڑی کہ کہ ڈاءون ٹاءون یعنی وہاں کا آئ آئ چندریگر روڈ سنسان ہو گیا۔ نہ بندہ نہ بندے کی ذات۔ یہ سناٹا اس خوف کی وجہ سے تھا جو وہاں کے محکمہء موسمیات نے پھیلایا تھا۔ اس میں چنداں حیرت نہیں ہونی چاہئیے کہ وہاں یہ کام محکمہ ء موسمیات کرتا ہے۔  نہ معلوم کیوں وہاں کے محکمہء موسمیات کی موسم کے بارے میں خبریں ایک دم درست نکل آتی ہیں۔ لگتا ہے کوئ بڑا پہنچا ہوا پیر پکڑ رکھا ہے انہوں نے۔
خوف کے طاری ہونے کی وجہ یہ  ہے کہ مسلسل آسائیشوں میں رہنے  اور خوف سے پاک زندگی گذارنے کی وجہ سے ان مغربی ممالک کے لوگوں کے دل بہت چھوٹے اور ہمت بچپن سے ہی بوڑھی ہوتی ہے۔ جب شاہینوں کے بجائے ممولے پیدا ہوں تو یہی ہوا کرتا ہے۔ کندن تو بھٹی میں تپنے کے بعد ہی بنتا ہے۔ جبکہ یہاں لوگوں کی اکثریت مر کر ہی بھٹی کا منہ دیکھ پاتی ہے۔ اس حالت میں جب تمام اعضاء جواب دے چکے ہوتے ہیں۔ یہ دیکھنا بھی کوئ دیکھنا ہے۔
لیکن رکئِے، ہمارا شاعر کہتا  ہے کہ ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر، ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئ۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں آج تک کوئ ایسی بیسٹ سیلر بک نہیں دیکھی جو مرنے کے بعد لکھی گئ ہو۔ اس کا اعزاز بھی صرف ہمیں حاصل ہوا کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا جیسی تہلکہ آمیز کتاب ہمارے ہی لوگوں نے پیش کی۔ مغرب دیکھ لے روحانیت میں کون بڑھا ہوا ہے وہ کہ ہم۔
اپنے فخر کے قصے دوہرانے کو کئ نسلیں باقی ہیں، اس لئےمیں خلاف طبیعت قصہ مختصر کرتی ہوں۔ ایک ایسی گرمی میں جبکہ ٹورنٹو میں چیلیں تک اپنے گھونسلوں میں ایئر کنڈیشنڈ لگوا چکی تھیں کہ کینیڈا میں بجلی کی بڑی فراوانی ہے اسکی بہتات کی وجہ سے کئ بجلی پیدا کرنے والے اسٹیشنز بند پڑے ہوئے ہیں۔ جب شام کو لُو چلنا بند ہوئ۔ میں نے کچن کا کچرا سمیٹا اور اسے گھر کے باہر موجود ڈرم میں ڈالنے کے لئے آئ۔ 
ان ڈرمز میں پورے ہفتے کچرا جمع کرنا پڑتا ہے۔  کھانے پینے کی چیزیں ایک  الگ ڈرم میں اور کاغذ گلاس قماش کی چیزیں دوسرے ڈرم میں۔ ہر علاقے کی ایک تاریخ ہوتی ہے اس تاریخ کو وہاں سے کچرا اٹھایا جاتا ہے۔ مکینوں کو یہ کچرے کا ڈرم روڈ کے ساتھ فٹ پاتھ پہ رکھنا ہوتا ہے تاکہ کوڑا اٹھانے والا ٹرک بآسانی اسے اٹھا لے۔ مایا کے تین روپ جبکہ کاہلی کے سو روپ ہوتے ہیں جو ایسے ہی ترقی یافتہ ممالک میں نظر آتے ہیں۔ دوسرے لوگوں کے اوپر کام کا زیادہ سے زیادہ بوجھ ڈال کر انتظامیہ آرام سے پڑی مکھیاں مارتی ہیں اور مکھیاں مارنے میں اپنی ان کوششوں کو بیان کرنے سے نہیں چوکتی۔ ڈھٹائ کی بھی حد ہوتی ہے۔ مگرنہیں صاحب، یہاں  بے حیائ ہی نہیں ڈھٹائ کی بھی ساری حدیں پار ہو چکی ہیں۔ اسی لئے تو کمبخت مارے اپنا ویزہ آسانی سے نہیں دیتے کہ ہماری ساری پول پٹی کھل کر دنیا کے سامنے آجائے گی۔
اچھا انکی غیبت ایک طرف۔ میں نے پہلا ڈرم کھولا تو اس میں کاغذ  اور گتے موجود تھے۔ سوچا اسی میں ڈالدوں۔ کاہل قوم کچھ تو کیا کرے اور کچھ نہیں تو کھانے پینے کی چیزوں سے کاغذ، گتے اور ٹن الگ کیا کرے۔ پھر ان بھتّوں کا خیال آِیا جو ایسی تمام سبز سوچوں پہ پابندی لگانے کے لئے موجود ہیں انہیں یہاں فائن کہتے ہیں۔ سو دوسرے ڈرم کو کھولا اور ابھی اس میں ڈالنے کا قصد کیا ہی تھا کہ اعصاب منعکسہ نے ایک زور کا جھٹکا دیا اور ہاتھ کیا میں خود ایک فٹ پیچھے ہٹ گئ۔ ڈرم میں تو کوئ عجیب ساجانور دبک کر بیٹھا ہوا تھا۔


یہاں گلہریاں بڑی چھلانگیں لگاتی پھرتی ہیں وہ بھی خوب بڑی بڑی۔ لیکن یہ جانور گلہری سے بڑا تھا۔ بلی یہ ہو نہیں سکتی کیونکہ یہاں بلی اور کتے  کو وہ آزادی نہیں جو ہم نے انہیں دے رکھی ہے۔ بعضے حاسدی تو کہتے ہیں کہ ہم نے انہیں ایوان حکومت تک میں بٹھا رکھا ہے۔ ویسے یہ قومیں ان جانوروں سے محبت کے بڑے دعوے کرتی ہیں۔ اب کیا کہیں ایسے کھُلے جھوٹ پہ تو تُف بھیجنے کو بھی دل نہیں چاہتا۔
اچھا تو وہ جانور بلی بھی نہیں تھا، پھر دھیان آیا کہ رات ہی کوئ بتا رہا تھا کہ جلا ہوئے پزا  ڈرم کے اوپر رکھ دیں یہاں ایک رکون آتا ہے رات کو وہ کھالے گا۔ یہ رکون تھا اور اسی چکر میں آیا، اس کا شاید توازن خراب ہوا اور وہ اس میں گر گیا۔ ڈرم خاصہ بڑا تھا اس لئے وہ باہر نکلنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ میں نے کینیڈا میں بیٹھ کر اپنی سازشی فطرت کو تسکین دینے کے لئے  پوری پاکستانی ذہانت اس واقعے کو سمجھنے میں لگائ۔ امریکہ کا ہاتھ اس میں ہو تو ہو طالبان کا نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اس واقعے میں نہ اب تک کوئ مرا نہ اسکی ذمہ داری انہوں نے لی ۔ امریکہ کے پڑوس میں رہتے ہوئے امریکہ مخالف جذبات کو کچلا تو ہمیں صرف ایک ہی بات سمجھ میں آئ کہ رکون کو ان حالات سے نبٹنے کی تربیت کما حقہ نہیں دی گئ۔ 
اس سے اچھے تو ہمارے آزاد کتے بلیاں ہیں۔ ایسی تربیت ہے کہ اول تو دن کے وقت روڈ کراس نہیں کرتے رات کو کرتے ہیں۔ اور رات کو بھی خاصی احتیاط سے کام لیتے ہیں یوں وہ بھی اسی رفتار سے بڑھ رہے ہیں جس رفتار سے ہم۔ سڑک پہ ہفتہ دس دن میں کسی بلی یا کتے کی سو بار کی کچلی لاش نظر آئے تو ہم اسے ایکسیڈنٹ کہتے ہیں۔ حادثہ نہیں۔ حادثے کی پرورش میں وقت برسوں لگاتا ہے جبکہ ایکسیڈنٹ فی الفور ہو جاتا ہے۔ یہاں کیمسٹری کا ایک قانون یاد آرہا ہے۔ لیکن ہم اسے نظر انداز کرتے ہیں۔ رکون کی تربیت کیمسٹری پڑھانے سے نہیں شروع ہو سکتی۔
ہم نے فوراً گھر کے اندر داخل ہو کر ڈرم میں رکون کی موجودگی کا اسی طرح اعلان کیا جس طرح مسجد سے  گمشدہ بچہ ملنے کی اطلاع دی جاتی ہے یعنی گلا پھاڑ کر۔ اندر موجود، پہلے کے پاکستانی اور اب کے کینیڈیئنز میں ایک سراسیمگی پھیل گئ۔ اب کیا ہوگا؟
اب تو آپ سمجھ گئے ہونگے کہ خمار گندم ہی نہیں ہوتا ہر جگہ کی گندم کے اور بھی اثرات ہوتے ہیں جو طبیعتوں پہ انداز ہوتے ہیں اور اس ادا سے کہ گویا ہمیشہ سے ایسے ہی تھے۔ دروازہ بند کر دیا آپ نے، رکون جارحیت پسند ہوتے ہیں؟ خاتون خانہ نے ہمیں  اطلاع دی یعنی کہ ایک پاکستانی کو۔ اسے ہم نے اپنے اوپر یعنی پاکستان پہ حملہ سمجھا۔   'ڈرم کا دروازہ؟ نہیں کیا، رکون بہت بد حال ہو رہا  تھا، میرا تو خیال ہے کی چالیس ڈگری میں ڈرم کے اندر بیک ہو چکا ہے اس نے توایک مسکین سی نظر کی یہ بتانے کو کہ وہ زندہ ہے اور دوبارہ منہ دبا لیا'۔ ہو سکتا ہے کہ اپنے سامنے ایک پاکستانی جارح کو دیکھ کراسکا  یہ حشر ہوا ہو۔ کیونکہ صحیح بات تو یہ ہے کہ رکون کو اپنا سبز پاسپورٹ دکھانے کا ہمیں ذرا خیال تک نہیں آیا تھا۔
نہیں گھر کا دروازہ؟ 'گھر کا دروازہ، کیوں نہ کھلا چھوڑ دیں ہمیں معلوم ہے اس وقت رکون امریکہ بنا ہوا ہے۔ اس کے پاس نہ طاقت ہے نہ وقت  کہ وہ کھلے دروازوں کو جھانکنے کی زحمت کرے۔ قیامت،  سمجھتی ہیں آپ، قیامت کا دن۔ آج ٹورنٹو میں اڑتیس ڈگری درجہ ء حرارت تھا وہ بھی اڑتالیس سال کے بعد۔ اور آج ہر کینیڈیئن نے جو ٹورنٹو میں رہتا ہے کم از کم اڑتیس دفعہ یہ جملہ کہا ہوگا، کتنی گرمی ہے، اٹس ٹو ہاٹ۔ یہ ہے تو اڑتیس ڈگری لیکن محکمہ ء موسمیات نے کہا ہے کہ مرطوب نہ ہونے کی وجہ اڑتالیس ڈگری محسوس ہو گا'۔ میں نے ایک کراچی والے نے اس میں جتنی حقارت ڈال سکتا تھا ڈال کر کہا۔ 
ہم نے آج تک گرمی کو یا تو درجہ ء حرارت میں ناپا یا محسوس کیا۔ کبھی بیان کوبڑھاوا دینے کے لئے ان دونوں کا اختلاط نہیں کروایا۔ ہمیشہ ہر سال تاریخی گرمیوں سے نبٹنے کے بعد ہم نے فخر کیا کہ دیکھا اسے بھی گذار آئے۔ یہ نہیں کہ پہلے سے بے سدھ پڑ گئے محکمہ ء موسمیات پہ۔
طے یہ پایا کہ صاحب خانہ کے آنے کا انتظار کیا جائے۔ اگر اس وقت تک رکون نکلنے میں کامیاب نہ ہوا تو صاحب خانہ کو معلوم ہے کہ گھر میں ایک بڑا ڈنڈا کہاں ہے وہ اس سے ڈرم کو ٹیڑھا کر دیں گے اور اس طرح رکون کے بھاگنے کی کچھ سبیل پیدا ہو گی۔
کچھ منٹ گذرے ہونگے کہ وہ آگئے۔ ڈرم ٹیڑھا ہوا اور رکون اس میں سے اس طرح نکل بھاگا کہ تمام تماشائ یہ منظر دیکھنے کی کوشش ہی کرتے رہ گئے۔
گھر میں کچھ سکون ہوا۔ پورے ٹورنٹو میں یہ واحد گھر تھا جہان ایک دن میں دو مصیبتیں نازل ہوئیں۔ ایک گرمی اور دوسرے رکون۔
اب ہم جادو ٹی و ی پہ بیٹھے وطن عزیز میں اینکرز کی پھیلائ گرمی کا زور دیکھ رہے تھے کہ ایک عزیزہ کی آمد ہوئ۔ بچوں نے انہیں دروازے پہ ہی آج کے دلچسپ قصے کی رننگ کمنٹری سنا ڈالی۔ جائے ایکسیڈنٹ کا معائینہ بھی کر وا ڈالا۔ واقعات کی ترتیب اور گہرائ کو جان کر جب وہ گھر میں داخل ہوئ تو پھٹ پڑیں۔
یہ آپ لوگوں نے کیا کیا؟ رکون کو بھگا دیا؟ تو پھر ہم کیا کرتے؟ میں نے انہیں سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ '۹۱۱ پہ اطلاع کرتے ناں اور ٹی وی والوں کو فون کر دیتے۔ وہ آتے اس سارے واقعے کی فوٹیج بنتی اور اس وقت ہم یہ جادو دیکھنے کے بجائے' انہوں نے  ٹی وی پہ نظر آنے والے پاکستانی چہروں کو بغض سے دیکھتے ہوئے کہا۔ 'ہم اس وقت ٹی وی پہ اپنی فوٹیج دیکھ رہے ہوتے ۔ ہم کیا اس وقت پورا ٹورنٹو اسے دیکھ رہا ہوتا کہ ہم نے کس ذمہ داری سے ایک رکون کی جان بچائ. لوکل میڈیا پہ تاریخی گرمی کے بعد یہ دوسری سب سے بڑی خبر ہوتی جو مسلسل دوہرائ جارہی ہوتی'۔
ہاں، ہم نے سوچا بات تو ٹھیک ہے۔ اس رکون کو تو اب تک یاد بھی نہ ہوگا کہ کہ ہم نے اسکی جان بچائ۔ رکون تو رکون ہاتھی بھی ایسی انسانی نوازشیں یاد نہیں رکھتا جبکہ کہتے ہیں کہ ہاتھی کی یادداشت بڑی اچھی ہوتی ہے۔ ہمارے سیاستداں تک یاد نہیں رکھتے کہ کون انہیں مسند اقتدار پہ لے کر آیا۔ یہ فوٹیج بنتی تو کم از کم لوگوں کو تو یاد رہتا، کینیڈا کے لوگوں کو۔
پھر یہاں وطن میں چینلز کی بھرمار ہے مگر آج تک کسی پہ بھولے سے بھی ہماری باری نہیں آئ۔ مرنے والوں کی ہی باری آتی ہے یا مارنے والوں کی ہم چونکہ کسی میں شامل نہیں اس لئے محروم ہیں۔ آنکھ ایک نہیں کجلوٹیاں نو نو۔
لیکن عین اسی لمحے ہمیں کینیڈیئن میڈیا کی غربت اور عسرت پہ افسوس ہوا۔ انکے نظام  اور سیاستدانوں کی کاہلی  اور عاقبت نا اندیشی پہ حیرت بھی ہوئ۔ میڈیا، ریاست کے پانچویں ستون کو انہوں نے رکونزکے متعلق خبریں بنانے پہ لگایا ہوا ہے۔ چھی چھی۔ استغفراللہ۔
ان سے تو ہم ہی اچھے انسانوں  کو انسانوں کے پیچھے اور حیوانوں کو حیوانوں کے پیچھے ہی لگایا ہوا ہے کبھی کبھی حیوان انسان کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ تو یہ انکا پاگل پن ہوتا ہے میرا مطلب انسان کا کہ وہ حیوان کے سامنے آتا کیوں ہے۔ لیکن کیا  کبھی ایسا سنا کہ انسان حیوان کے پیچھے۔ ایک انسان کی یہ تذلیل صرف انہی ملکوں میں ممکن ہے۔ بس یہ سر زمین ایسے ہی اوٹ پٹانگ واقعات کی زمین ہے اس لئے لوگ کہتے ہیں کہ ایک بار دیکھا ہے دوبارہ دیکھنے کی ہوس ہے۔   

Thursday, September 22, 2011

تکون سے چوکور تک

صرف چھ سال پہلے ابتدائ جنوری کے ایک سرد دن جو کراچی والوں کو کوئٹہ سے پہنچنے والی سربیائ ہواءووں کے طفیل  مل جاتے ہیں۔ میں کراچی میں ہوٹل پرل کانٹی نینٹل کے لاءونج میں اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ لاءونج میں کھڑی اپنے دیگر ساتھیوں کا انتظار کر رہی تھی کہ سامنے اوپر سے آنے والی لفٹ کا دروازہ کھلا۔ ایک چھریرے بدن کا شخص تیزی سے برآمد ہوا۔ اس نے ہم رنگ ٹراءوژرز اور شرٹ پہنے ہوئے تھے۔ بال کچھ گھنگھریالے سے چہرے کی تفصیل میں جانے سے پہلے میری نظر اسکی کمر کے گرد پٹکے پر پڑ گئ۔ اس میں ایک پستول اپنے غلاف میں  لٹک رہا تھا۔ 
اسلحہ نجانے کیوں مجھے سحر زدہ کر دیتا ہے۔ وہ شخص میرے سامنے سے نکلا، ہوٹل کے داخلی دروازے پہ پہنچا وہاں موجود دربان نے ایستادہ ہو کر ماتھے پہ ہاتھ لے جا کر سلام  کا اشارہ کیا۔ وہ اسی بے نیازی سے گذرتا ہوا باہر موجود ایک قیمتی گاڑی میں بیٹھ کر اوجھل ہو گیا۔
میری نظر میں اسکا پستول جھولتا رہا ایسے ہی جیسے عاشق کی نظر میں محبوب کے کان کا بالا ہلتا رہے۔ کسی نے میرے کان میں سرگوشی کی،  'عمران خان کو دیکھا'۔ 'آں'۔ میرا منہ کھل کر بند ہوا۔ یاد آیا، میں نے کیوں اسکے چہرے کی تفصیلات پہ نظر نہیں کی۔ وہ عمران خان تھے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین۔ لعنت ہو مجھ پہ ایک پستول نے مجھے اتنا بے خود کر ڈالا۔ ایک پورے قد کے شخص کو دیکھنے سے محروم رہ گئ۔ جبکہ وہ میرے اتنے قریب سے گذرا۔
ابھی چند دن پہلے ٹی وی سرفنگ کے دوران میں ایک چینل پہ رکی، عمران خان سے مجاہد بریلوی اپنی مشہور زیر لب مسکراہٹ سجائے پوچھ رہے تھے کہ اب جبکہ آپ سیاست میں ہیں اور کراچی کی سیاست میں ہر سیاسی جماعت کے پاس اسلحہ بردار گروپ موجود ہے آپ جب یہاں سیاست کریں گے تو اسلحہ استعمال  نہیں کریں گے۔ عمران نے اپنی روائیتی مسکراہٹ سے اس طرح کا جواب دیا کہ میں کراچی میں اپنے ساتھیوں کو اسلحہ استعمال کرنے کی اجازت بالکل نہیں دونگا۔ میں نے انکی بات سنی اور مسکرا کر آگے بڑھ گئ۔ جدید دنیا میں ایک فائدہ ہے ناں۔ بٹن دباءو، اور آگے نکل جاءو۔ کوئ منظر، جھوٹ، سچ، فریب، بیان، ادا،  تفریح نگاہ میں زیادہ دیر نہیں رہ سکتی۔ یہاں بہت سی دوکانیں ہیں اور انکے اپنے لبھانے والے انداز۔
اسلحے کی بات آگے چلی تو  ذکر ہمارے ہمارے ایک ساتھی کا    جنکا خیال ہے کہ میڈیا سے بچے ہتھیار چلانا سیکھ رہے ہیں۔ پاکستانی بچوں کے متعلق  یہ کہنا صحیح ہے کیا؟  وہ پاکستان جہاں گذشتہ تیس سال سے جنگ جاری ہے۔
میں نے تو پہلی دفعہ اخبار میں دیکھا کہ کلاشنکوف کوئ ہتھیار ہوتا ہے۔ اس میں اخبار کا کیا قصورپھر سنا کہ افغان جہاد میں کون کون سے ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں پھر خودکار ہتھیاروں کے استعمال کی عینی گواہ بنی۔ پھر آپریشن کلین اپ کے دوران پتہ چلا کہ کون کون سے ہتھیار کہاں کہاں سے برآمد ہوئے۔ پھر اخبارات سے اسلحہ اسمگلنگ کی رپورٹس سے پتہ چلا کہ کس کس قسم کے ہتھیار کی اسمگلنگ ہوتی ہے۔ یہ ملک کے کس رخ سے کس رخ کی طرف ہوتی ہے۔ 
عمران خان کی متائثر کن تصاویر جن میں وہ گولیوں کی بیلٹ لگائے شمالی علاقہ جات میں کہیں بیٹھے ہیں یا پھر پرویز مشرف اپنے کمانڈو کے یونفارم میں ایک پستول کو جانچ پرکھ رہے ہیں۔ ان تصاویر کو دیکھ کر اور اپنے نام نہاد دشمنوں کی سازشیں جان جان کر میرے اندر بڑی شدت سے یہ خواہش جنم لیتی کہ اے کاش میں بھی دشمن کو ان ہتھیاروں سے تہس نہس کر ڈالوں۔ پھر جیسے جیسے ہم جہاد اور جنگ میں آگے بڑھےمیری ہتھیاروں کے متعلق معلومات میں بھی ماشاءاللہ کافی اضافہ ہوا حالانکہ خدا شاہد ہے کہ میں نے کبھی بھی انکے متعلق سرچ کرنے کی شمہ برابر بھی کوشش نہ کی تھی۔ 
ایک عرصے تک یہی سمجھ میں آیا  کہ پسماندہ معاشرے، قبائلی نظام اور اسلحہ ایک تکون تشکیل دیتے ہیں۔ لیکن آج  روزنامہ ڈان میں ایک دلچسپ خبر پہ نظر پڑی۔ خبر کے مطابق صومالیہ جو کہ اس وقت دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے وہاں قرآن شریف کی تلاوت کے ایک مقابلے میں بچوں کو انعام میں ہتھیار دئیے گئے۔ پہلا انعام اے کے ۴۷ اور جی بی پی ۴۵۰، دوسرے نمبر پہ آنے والے کو اے کے ۴۷ اور جی بی پی ۳۲۰ دئیے گئے۔ تیسرے نمبر پہ آنے والے کو دو ایف ون ہینڈ گرینیڈ دئیے گئے۔ 
جنوبی صومالیہ کا بڑا حصہ الشہاب گروہ کے کنٹرول میں ہے۔  یہ گروہ اپنے علاقے میں میوزیکل رنگ ٹونز، فلموں، فٹبال براڈ کاسٹ ، شادیوں کے موقع پہ ناچ گانے پہ پابندی لگا چکا ہے۔ اسکے علاوہ علاقے میں عربی کے علاوہ کوئ اور زبان دوکانوں کے سائن کے لئے نہیں لکھی جا سکتی۔ سزائووں میں ہاتھ پاءووں کاٹنا یا سنگساری شامل ہیں۔
شاعر نے کہا تھا کہ عشق نے ہم کو تکونا کر دیا، ورنہ ہم بھی آدمی چوکور تھے۔ میں، پسماندہ معاشرے، قبائلی نظام اور اسلحے کی تکون کو سوچتی ہوں چوکور کر دوں پھر خیال آتا ہے کہ چوکور کو تکونا تو عشق نے کر دیا۔ اس تکون کو چوکور کون سا جذبہ کر رہا ہے۔

Wednesday, September 21, 2011

اوسٹیوپوریسس-۲

گذشتہ سے پیوستہ

اب جبکہ ہم اوسٹیو پوریسس کی  ممکنہ وجوہات پہ ایک نظر ڈال چکے ہیں تو یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ یہ وہ مرض ہے جو آہستہ آہستہ جڑیں پکڑتا ہے اور انسان کو دیمک کی طرح کھا لیتا ہے۔ ابتداء میں اسکی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ اور جب ظاہر ہوتی ہیں تو مرض خاصی شدت اختیار کر چکا ہوتا ہے۔
اگر یہ کسی دوا یا مرض کی پیچیدگی سے  ہو ا ہو تو معالج کو پہلے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اوسٹیوپوریسس ہونے کے امکانات کتنے ہیں اور اسکے لئے کیا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن خواتین کے معاملے میں ایسا ہو نہیں پاتا۔ وہ سمجھتی ہیں کہ جب تک وہ چل پھر رہی ہیں سب ٹھیک ہے۔ لیکن ہڈیوں یا عضلات میں رہنے والا دھیما دھیما درد آہستہ آہستہ اسی طرف لے جاتا ہے۔
اکثر ہم لوگوں سے سنتے ہیں کہ ہوا تو کچھ بھی نہیں تھا معمولی سی چوٹ تھی اور ہڈی ٹوٹ گئ۔ کبھی کبھی فرد متعلقہ خود حیران ہوتا ہے۔ اسکے ذہن میں کوئ چوٹ ، کوئ حادثہ نہیں ہوتا لیکن ایکسرے بتاتا ہے کہ ہڈی میں فریکچر ہے۔ یہ اوسٹیوپوریسس کی طرف اہم اشارہ ہے۔ خواتین میں کولہے کی ہڈی کا ٹوٹنا بھی عموماً اوسٹیوپوریسس کی وجہ سے ہوتا ہے۔
اوسٹیوپوریسس کی شناخت کے لئے ڈاکٹر آپکے خاندان میں اس قسم کے حادثات کے بارے میں معلومات کرتا ہے اور کچھ ٹیسٹ کرواتا ہے جس میں خون کے بنیادی ٹیسٹ ہوتے ہیں۔ اسکے علاوہ سب سے اہم ٹیسٹ بون منرل ڈینسیٹی ٹیسٹ ہوتا ہے۔ جس سے ہڈیوں کی مضبوطی پتہ چلتی ہے۔ خواتین کے لئے انکی عمر اور سن یاس سے پہلے ظاہر ہونے والی علامتیں اہمیت رکھتی ہیں۔ سن یاس کے بارے میں ہم آئیندہ کسی تحریرمیں تفصیل سے لکھیں گے۔
بون منرل ڈینسیٹی ٹیسٹ  ایک طرح کا ایکسرے ہوتا ہے۔ بعض اوقات کچھ مخصوص ہڈیوں کا ہوتا ہے اور بعض اوقات جسم کی تقریباً سبھی ہڈیوں کو چیک کرتے ہیں۔  ان ایکسرے کو پھر دوسرے ایکسریزکے تقابل  سے جانچا جاتا ہے۔ ایک ایکسرے وہ ہوتا ہے جس میں آپکی جنس، عمر اور جسامت کے انسان ہوتا ہے دوسرا ایکسرے وہ ہوتا ہے جس میں ایک نوجوان شخص ہوتا ہے جو کہ آپکی جنس اور جسامت کا ہوتا ہے اس طرح سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ایک نوجوان کے مقابلے میں ہڈیاں کتنے نقصان سے دو چار ہیں۔  آپکی ہڈیوں کو اس عمر میں کیسا ہونا چاہئے تھا اور اب یہ اس سے کتنی زیادہ خراب ہیں۔ اس طریقے میں خامی یہ ہے کہ یہ پہلے سے پیشنگوئ نہیں کر سکتا۔ ہڈیوں کو نقصان پہنچ جانے کے بعد ہی بتا سکتا ہے کہ کتنا نقصان پہنچ چکا ہے۔ ڈاکٹر اسکی مدد سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ آئیندہ ںے والے سالوں میں یہ چیز کتنی بڑھ سکتی ہے۔
اوسٹیوپوریسس کی شناخت کے لئے الٹرا ساءونڈ کو بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسکے علاوہ کچھ بائیو مارکرز جنکی شناخت سے پتہ چلتا ہے کہ آپکی ہڈیوں کی حالت اب کیا ہے۔
ایک دفعہ یہ حقیقت معلوم کر لی جائے کہ ایک فرد اوسٹیو پوریسس کا شکار ہے تو اگلا مرحلہ علاج کا آتا ہے۔ اگر اوسٹیو پوریسس زیادہ بڑھ چکا ہے اور اسکی وجہ سے مستقل تکلیف رہنے لگی ہے تو درد  کم کرنے کی دوائیں دی جاتی ہیں۔ درد کم کرنے والی ادویات کے اپنے ضمنی اثرات ہوتے ہیں۔ کچھ دوائیں معدے کی اندرونی جھلی کومتائثر کرتی ہیں۔ اور ایک لمبے عرصے تک انہیں استعمال کرنے سے نظام انہضام کے مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ جدید تحقیقات ایسی دوائیں سامنے لے آئ ہیں جو اس تکلیف کو پیدا نہیں کرتیں۔ لیکن درد کو کم کرنے والی یہ ادویات آہستہ آہستہ اپنا اثر کھو دیتی ہیں۔ ادھر اوسٹیوپوریسس بھی آہستگی سے بڑھتا رہتا ہے۔
اوسٹیوپوریسس کی رفتار کو قابو میں رکھنے کے لئے دواءووں کی سطح پہ دو اسٹریٹجیز اپنائ جاتی ہیں۔ ایک ہڈی کو اندرونی طور پہ مضبوط کرنے کی دوائیں اور دوسرا اسے گھلنے سے بچانے کی دوائیں۔
ہڈی کی مضبوط تعمیر کے لئے، کیلشیئم کے سپلیمنٹس استعمال کروائے جاتے ہیں جو عموماً وٹامن ڈی کے ساتھ ہوتے ہیں۔ کیلشیئم کے یہ سپلیمنٹس، کاربونیٹس، سٹریٹس، لیکٹیٹس یا گلوکونیٹس  کی شکل میں دستیاب ہوتے ہیں۔ کیلشیئم سٹریٹس، لیکٹیٹس اور گلوکونیٹس پانی میں حل پذیر ہوتے ہیں اور آسانی سے جذب ہوجاتے ہیں۔ کیلشیئم کاربونیٹس کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہ پانی میں حل نہیں ہوتے۔ انہیں حل ہونے کے لئے تھوڑا سا تیزابی ماحول چاہئیے ہوتا ہے اس لئے کیلشیئم کاربونیٹس لیتے ہوئے وٹامن سی یا کوئ پھل ساتھ میں لے لیا جائے تو بہتر ہے۔
اوسٹیوپوریسس کے بہت زیادہ بڑھ جانے کی وجہ سے یا ہڈی کے زیادہ کمزور ہونے کی صورت میں ایک اور دوا پیری ٹیراٹائڈز تجویز کی جاتی ہے جو کہ پیراتھائرائیڈ غدود کے ہارمون کی طرح عمل کرتا ہے۔
مخصوص حالتوں میں سوڈیئم فلورائیڈ یا اسٹرانشیئم رینیلیٹ بھی تجویز کئے جاتے ہیں۔
دوسرا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ہڈی گھلنے کے عمل کو کم کیا جائے اور اسکے لئے ہڈی کی بیرونی تہہ کو امداد دی جائے۔ اس سلسلے میں بائیو فاسفونیٹس استعمال کروائے جاتے ہیں۔ یہ آسانی سے جذب نہیں ہوتے اس لئے اسے ایکدم  خالی پیٹ لینا ہوتا ہے۔ اس لئے صبح سویرے کا وقت اچھا ہوتا ہے۔ پورے ایک گلاس پانی کے ساتھ کیونکہ یہ خاصے تیزابی ہوتے ہیں اور حلق یا غذا کی اوپری نالی میں جلن پیدا کر سکتے ہیں۔ اسے کھڑے ہو کر لینا چاہئیے۔ اسے کھانے کے ایک گھنٹے بعد تک لیٹنا نہیں چاہئیے۔ تاکہ یہ جلد سے جلد معدہ میں پہنچ جائے۔ اور غزائی کی نالی جلن سے محفوظ رہے۔
بائیو فوسفونیٹس اب مختلف پیکنگ میں دستیاب ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں  جو روزانہ کے بجائے، ہفتے میں صرف ایک دفعہ لینا ہوتا ہے مثلاً فوسا میکس، دوسری طرح کی دوا بون ویوا، جسے مہینے میں ایک دفعہ لینا ہوتا ہے۔ وہ لوگ جنہیں منہ سے کھانے میں مسائل ہیں انکے لئے یہ ایک اور شکل میں دستیاب ہے اور اسے سال میں صرف ایک دفعہ لینا پڑتا ہے۔
خواتین کے سلسلے میں ہارمون تھراپی استعمال کی جا سکتی ہے۔ یہ جسم سے ختم ہو جانے والے ہارمون ایسٹروجن کو توازن میں رکھنے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ اس سے نہ صرف سن یاس کی علامتوں کو آرام ملتا ہے بلکہ ہڈیوں کے گھلنے کے عمل کو بھی قابو میں لایا جا سکتا ہے۔ ہارمون تھراپی علاج میں خاصی احتیاط کی ضروت ہوتی ہے اور اسے صرف ایک ڈاکٹر ہی تجویز کر سکتا ہے۔  اس طریقہ ء علاج میں جسمانی صحت کے کچھ پیرا میٹرز کو ہر تھوڑے عرصے میں چیک کروانا لازمی ہوتا ہے تاکہ یہ مشاہدہ کیا جاتا رہے کہ اس طریقہ ء علاج سے کوئ نقصان تو نہیں پہنچ رہا۔
اوپر بیان کی گئ دواءووں میں سے کوئ بھی دوا ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر ہرگز استعمال نہیں کرنی چاہئے۔ کیونکہ وہی بتا سکتا ہے کہ آپکی انفرادی حالت کو دیکھتے ہوئے کیا ہونا چاہئیے۔ اسکے علم میں مریض کی صحت کے تمام ایشوز ہوتے ہیں۔
یہ ساری دوائیں یا سپلیمنٹس اوسٹیوپوریسس کی رفتار کو کم کر سکتے ہیں لیکن اسے مکمل طور پہ روک نہیں سکتے۔
اس میں مزید بہتری لانے کے لئے طرز زندگی میں تبدیلی لانا ضروری ہے اور صحت بخش غذا بھی۔ بلکہ اوسٹیوپوریسس سے بچنے کے لئے ابتدائی عمر سے ہی غذا اور طرز زندگی پہ توجہ دینا ضروری ہے۔
اوسٹیو پوریسس کے حوالے سے ایک صحت مند طرز زندگی کیا ہوتا ہے اور کون سی غذائیں جسم کو مضبوط بناتی ہیں۔ اپنے اندازے اور تجربے  بتائیے۔ اس موضوع پہ اس سلسلے کی اگلی تحریر پڑھنا نہ بھولئیے۔

Monday, September 19, 2011

اوسٹیو پوریسس-۱

 ہسپتال میں  ایک لڑکی لنگڑاتی ہوئ آئ اور میرے برابر  بیٹھ گئی۔  عمر یہی کوئ ستائیس اٹھائیس سال۔ ہم دونوں میں وقت گذاری کے لئے بات چیت شروع ہوگئ۔ تب میں نے اس سے پوچھا کہ اسے کیا تکلیف ہے۔ کہنے لگی میرا خیال ہے کہ مجھے کیلشیئم کی کمی ہو گئ ہے۔ اچھا، اس خیال کی کیا وجہ ہے؟ میں نے دلچسپی لی۔
میری شادی کو تین سال ہوئے ہیں۔ دو بچے ہیں۔ پہلا بچہ ابھی چار مہینے کا بمشکل تھا کہ دوسرے بچے نے اپنی آمد کا اعلان کر دیا۔ میں اسے اپنا دودھ بھی پلاتی تھی۔  چھ مہینے کی عمر میں پہلے بچے کا  دودھ چھڑانا پڑا۔ 
 دوسرے بچے کو میں نے چھ مہینے تک دودھ پلایا کہ میرے پیر میں تکلیف شروع ہو گئ۔ پہلے یہ کم تھی آہستہ آہستہ یہ اتنی بڑھ چکی ہے کہ میں چل نہیں سکتی۔ سب لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کیا ہوگیا ہے۔ 
میں نے پہلے بچے سے لے کر اب تک اس بات کا خیال نہیں رکھا کہ مجھے کیلشیئم زیادہ چاہئیے ہوگا۔ اب ہڈیوں کے ایکسرے کرائے ہیں ڈاکٹر دیکھیں کیا کہتا ہے۔ میں نے ایک نظر اسکی رپورٹس پہ ڈالی۔ ہر چیز صحیح تھی۔ ایکسرے بھی صحیح تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ ڈاکٹر کے پاس سے واپس ہو تو مجھے ضرور بتانا کہ اس نے کیا کہا۔ ڈاکٹر کے پاس سے واپس ہوتے ہوئے اس نے کہا کہ اسکا اندازہ صحیح تھا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ اسے کیلشیئم کی کمی ہو گئ ہے۔
یہ تو ایک نوجوان خاتون کی کہانی تھی۔
دوسری طرف ہم اپنے ارد گرد بہت ساری زیادہ عمر کی خواتین کو دیکھتے ہیں جو چلنے پھرنے سے معذور ہوتی جا رہی ہیں اور اسکی وجہ ہڈیوں کی  کمزوری  یا جوڑوں کی خرابی بتاتی ہیں۔ بعض افراد کی پیٹھ پہ عمر کے ساتھ کھُب نکل آتا ہے۔
پیٹھ پہ نکل آنے والا کھب
ہڈیوں میں یہ کمزوری زیادہ تر اوسٹیوپوریسس کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اوسٹیو پوریسس یعنی سوراخدار ہڈیاں۔  اگر آپ نے جانوروں کی ہڈیاں دیکھی ہیں تومشاہدہ کیا  ہوگا کہ ان میں باریک باریک سوراخ پائے جاتے ہیں اگر یہ باریک سوراخ بڑے ہو جائیں تو ہڈیاں بھربھری ہو جاتی ہیں۔ انکی دیواریں پتلی ہو جاتی ہیں اور وہ نرم پڑ جاتی ہیں۔ معمولی سی ٹھیس انہیں توڑ سکتی ہے۔ انسان زیادہ نقل و حرکت کے قابل نہیں رہتا۔ اور یہ چیز اسکی مدت زندگی میں کمی کا بڑا سبب بن جاتی ہے۔

اوپر کی ہڈی صحت مند ہے جبکہ نیچے والی اوسٹیو پوریسس کا شکار ہے

ذہن میں اس طرح کے سوالات آتے ہیں کہ وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بناء پہ اوسٹریو پوریسس شروع ہوتا ہے، اسکا کیا علا ج ہے کیا اس سے بچاءو ممکن ہے، کن لوگوں کے اس میں مبتلا ہونے کا امکان زیادہ ہے۔ ہم باری باری ان سب پہ ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔
زیادہ تر یہ خاندانی سلسلے سے جڑا ہوتا ہے لیکن ماحول، غذا اور بعض دوائیں اسکا باعث بن جاتی ہیں۔ ہڈیوں کی ساخت میں کیلشئم سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے اور پھر فاسفورس۔ اس لئے اگر کیلشیئم کی کمی ہو جائے تو ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں۔ ہڈیوں کی کمزوری اور مضبوطی کا پیمانہ ہڈیوں میں دھاتوں کی  کثافت یا مقدار ہے یعنی بون منرل ڈینسٹی۔ اگر یہ زیادہ ہے تو ہڈی مضبوط اور اگر یہ کم ہے تو ہڈی کمزور ہو گی۔
کون لوگ زیادہ شکار ہوتے ہیں؟
جنکے خاندان میں انکے امکان زیادہ ہوتے ہیں۔ تمام دنیا میں دیکھا جائے تو یوروپی اور ایشیئن لوگ زیادہ متائثر ہوتے ہیں۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین، موٹے لوگوں کے مقابلے میں دبلے افراد، کولڈ ڈرنکس حد سے زیادہ استعمال کرنے والے، بعض دوائیں استعمال کرنے والے مثلاً خون کو پتلا کرنے والی دوا ہیپارن، اعصاب کی دوا فینا بارباٹول اور بعض اسٹیرائڈز ۔  وہ لوگ جو چلنے پھرنے سے گھبراتے ہوں، سستی برتتے ہوں  یا کسی بیماری کے نتیجے میں یا اسکے بعد ایک طویل عرصے تک چلنے پھرنے سے قاصر ہوں۔
نوجوان خواتین میں اسکی وجہ مستقل حمل کی یا بچوں کو دودھ پلانے کی حالت میں رہنا ایک بڑی وجہ ہے۔ بچہ جب ماں کے جسم میں پرورش پاتا ہے تو وہ ماں کے کیلشیئم کے ذخائر کو بہت زیادہ استعمال کرتا ہے۔ اسے اس سے غرض نہیں ہوتی کہ ماں کی خوراک میں زائد کیلشیئم شامل ہے یا نہیں۔ اگر ماں اپنی خوراک کے ذریعے زائد کیلشیئم حاصل نہیں کرتی تو وہ یہ کیلشیئم ماں کی ہڈیوں سے لینا شروع کر دیتا ہے۔ یہی قانون قدرت ہے۔ جسکے نتیجے میں ماں کی ہڈیاں گھلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ہڈیوں کی اس کمزوری پہ خوراک اور اضافی کیلشیئم سے قابو پایا جا سکتا ہے۔
دودھ  کا ایک اہم جز کیلشیئم ہوتا ہے اس لئے دودھ پلانے والی مائیں اگر اپنی خوراک میں کیلشیئم کی مقدار کا خیال نہ رکھیں تو اس دودھ کے لئے بھی ہڈیاں قربانی دیتی ہیں اور یہ  زچگی کے بعد انہیں مزید کمزور بنا دیتا ہے۔
خواتین میں اوسٹیو پوریسس کی دوسری اہم وجہ مینو پاز یا سن یاس ہے۔ جسکے نتیجے میں انکا ماہانہ نظام بند ہو جاتا ہے۔ خواتین کا تولیدی نظام ایک ہارمون ایسٹروجن پہ انحصار کرتا ہے۔ یہ خواتین کے ماہانہ نظام سے لے کر حمل قرار پانے اور بچے کی تولید تک ہر مرحلے میںشامل ہوتا ہے۔ یہ خواتین کے جسم کے ہر حصے میں پایا جاتا ہے۔ یہ انکی جلد کو خوبصورتی دیتا ہے اور جسم کو تناسب۔ اسکے ساتھ ہی یہ انکے جسم میں کیلشیئم کے جذب ہونے کے عمل میں بھی مدد کرتا ہے۔
عمر کے ساتھ ایک مرحلے میں آکر یہ ہارمون ختم ہونا شروع ہوتا ہے تو یہ نظام بھی اپنے خاتمے پہ پہنچتا ہے۔  اس سے جہاں اور مسائل جنم لیتے ہیں وہاں کیلشیئم کا کم یا نہ جذب ہونا بھی ہے جس سے ہڈیوں کی کمزوری کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔
وہ نوجوان خواتین جنکا ماہانہ نظام ہر ماہ نہیں ہوتا بلکہ کسی خامی کی وجہ سے اس میں دو دو تین مہینوں بلکہ بعض اوقات سال کا بھی وقفہ آجاتا ہے انکی ہڈیاں بھی اسی وجہ سے جلد کمزور ہو سکتی ہیں۔ خواتین کے ہارمونل نظام کی یہ خامی عام طور پہ قابل علاج ہوتی ہے۔
کینسر کے لئے ہونے والی کیمو تھراپی کی وجہ سے بھی مینوپاز ہو سکتا ہے اور بعض طبی حالتیں ایسی ہوتی ہیں جنکی وجہ سے خواتین کی بچہ دانی نکال دی جاتی ہے نتیجتاً ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں۔
ہارمون کی کمی ہونے کے بعد بعض اوقات کیلشیئم کے سپلیمنٹ لینے  یا کیلشیئم والی خوراک وافر مقدار میں لینے سے بھی کوئ فرق نہیں پڑتا اور ہڈیوں کی یہ کمزوری اپنی رفتار سے جاری رہتی ہے۔ مینو پاز کے بعد خواتین کی ہڈیوں کی کثافت میں دو سے چار فیصد سالانہ کے حساب  سے کمی آسکتی ہے۔
اوسٹیو پوریسس کی دیگر وجوہات میں سگریٹ نوشی، شراب نوشی، ورزش نہ کرنا، ، کیلشیئم والی غذائیں کم استعمال کرنا، کم غذائیت کی حامل خوراک لینا، نظام انہضام میں خرابی کی وجہ سے غذا ئ اجزاء کا صحیح طور پہ جذب نہ ہونا، مردوں میں مردانہ ہارمون ٹیسٹو اسٹرون میں کمی جوعموماً عمر کے ساتھ آتی ہے۔ مختلف غدود کے افعال میں خرابی مثلاً تھائرائڈ گلینڈ کے افعال میں خرابی جسکے نتیجے میں یہ تھائرائڈ ہارمون زیادہ پیدا کرتا ہے یا کم پیدا کرتا ہے۔ ماحول میں بھاری دھاتوں کی آلودگی مثلاً کیڈمیئم سے بھی ہڈیاں کمزور ہونے لگتی ہیں۔ روماٹائڈ ارتھرائٹس کی وجہ سے بھی یہ ہو سکتا ہے جس میں ہاتھوں اور پیروں کی ہڈیاں مڑ جاتی ہیں، اور گردوں کی خرابی کی وجہ سے بھی۔ خون میں خرابی کی وجہ سے بھی مثلاً لیوکیمیا ، ہیموفیلیا اور تھیلیسمیا کی وجہ سے بھی لاحق ہو سکتی ہے۔
ایک اور اہم وجہ وٹامن ڈی کی کمی ہے۔ وٹامن ڈی، جسم میں کیلشیئم کے جذب ہونے کے لئے ضروری ہے۔ وٹامن ڈی کی کمی ان سرد ممالک میں زیادہ ہوتی جہاں دھوپ کم نکلتی ہے اسکے علاوہ اگر نظام انہضام میں خرابی ہو تو اسکا مناسب انجذاب نہیں ہو پاتا۔

اسکے علاج اور بچاءو کے حوالے سے یہ تحریر ابھی جاری ہے۔ 

Friday, September 16, 2011

دھتکارا ہوا شاعر

وارننگ؛ یہ تحریر خاصی حد تک ناشائستہ مواد پہ مشتمل ہے۔ صرف شائستہ تحاریر پڑھنے والے اگر اسے پڑھتے ہیں تو مزاج میں پیدا ہونے والی کراہت کے ذمہ دار وہ خود ہونگے۔  حساس طبیعت رکھنے والے اس سے گریز کریں۔

اس وارننگ کے بعد میں خود کو اخلاقی طور پہ آزاد سمجھتی ہوں اور موضوع کی طرف آتی ہوں ۔ یہ ایک ایسے شاعر کے متعلق ہے جس نے اپنی شاعری کے لئے ایک نہایت دھتکارا ہوا موضوع چنا، جس پہ شاعر تو کجا عام افراد بھی اشاروں کنایوں میں ہی بات کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا کے معیاری ادب میں اسکے لئے کوئ جگہ نہیں، اور یہی وجہ ہے کہ اردو کے اس شاعر کو شاعرانہ خوبیاں رکھنے کے باوجود آج شاید ہی کوئ جانتا ہو۔ انکے اشعار زیادہ تر سینہ بہ سینہ چلے آنے والے اشعار ہیں۔
  جب ، میں نے جاننا چاہا کہ انکا کوئ  دیوان موجود ہے تو معلوم ہوا کہ امریکہ کی واشنگٹن ڈی سی کی لائبریری میں اسکا ایک نسخہ موجود ہے۔ یہ جان کر کہ امریکہ کی ایک لائبریری میں انکے دیوان کا ایک  نسخہ موجود ہے آتش شوق بھڑک اٹھی۔ میں نے کوشش کی کہ کوئ اس نسخے کی نقل کروا کر وہاں سے لے آئے۔ لیکن ہوا یوں کہ مجھے کراچی میں ہی انکے دو مختلف دیوان مل گئے۔ جو کہ بھارت میں شائع ہوئے۔
برازیات کا یہ شاعر شیخ باقر علی یا جعفر علی قصبہ رودلی کا رہنے والا چرکین تخلص کرتا تھا اور اسی نام سے مشہور ہوا۔ چرکین کا کیا مطلب ہے اسکے لئے اردو کی کوئ بہتر لغت دیکھئیے۔
 اس سے آپکی وسعت الفاظ بہتر ہوگی۔
:)
مرزا قادر بخش صابر انکے بارے میں لکھتے ہیں کہ 
چرکین تخلص ایک شخص ظریف، شوخ مزاج، ساکن لکھنوء کا۔ وہ ہمیشہ سخن پاکیزہ کا دامن نجاست معنوی سے آلودہ رکھتا ۔ یعنی مضامین بول و بزار  اس طرح شعر میں باندھتا کہ زمین سخن کو گُوہ گڑھیا بنا دیتا۔ اسکی قوت شامہ یک قلم باطل ہو گئ تھی کہ اس غلاظت سے بے دماغ نہ ہوتا تھا۔ انصاف تو یہ ہے کہ ابیات میں ہر چند گوہ اچھالتا اور کاغذ کے ہر گوشے میں پیشاب کی نالی بہاتا تھا لیکن کوئ لطیف مزاج اس سے دماغ بند نہ کرتا تھا اور کوئ پاکیزہ طبع اس سے گھن نہ کھاتا تھا۔ گویا بحر شعر نے اس نجاست کو بہا دیا تھا۔
شرط سلیقہ ہے ہراک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئیے

انکے بارے میں خاصی کہانیاں مشہورہیں۔ کہا جاتا ہے کہ میاں چرکین بہت بلند پایہ شاعر تھے۔ کلام بہت عمدہ اور پاکیزہ ہوتا تھا۔ مگر لوگ آپکا کلام چرا کر اپنے نام سے پڑھا کرتے تھے۔ جسکی وجہ سے میاں چرکین نے عاجز آ کر اپنی شاعری کا رنگ بدل دیا اور ایسے اشعار کہنے لگے جس میں گندگی کا ذکر ضرور ہوتا۔ لیکن اس کلام میں بھی تمام شاعرانہ صفات بدرجہ ء اتم موجود ہوتی تھیں۔ یہ بہرحال ایک کہانی ہی ہے مکمل صداقت نہیں۔ شاعرانہ خوبیوں کے لئے کچھ نمونہ ء کلام حاضر ہے۔

سلسل البول کی مانند رہے ڈاک رواں
اتنے خط لکھوں زمانے سے ہو کاغذ عنقا

رو زو شب ہگنے سے تم اسکے خفا رہتے تھے
مہترو خوش رہو، چرکیں نے وطن چھوڑا ہے

روک کر گھوڑے کو اس نے مری تربت پہ کہا
لید کرنی ہو تو کرلے تُو یہی تھوڑی سی

قبر پہ آکے بھی اس بت نے نہ مُوتا افسوس
کام کچھ اپنے  نہ مرگ شب ہجراں آئ

اپنے ہی سڑے ٹکڑوں پہ کی ہم نے قناعت
چکھا نہ متنجن کسی نواب کے خواں کا

مقصود عالم مقصود جو کہ ایک طرح سے غالب کے شاگرد تھے انہیں چرکین کی نادر ترکیبوں ، الفاظ، فقرے اور محاوروں نے کھینچا ہوگا جو اب نہیں بولی جاتی اور انہوں نے چرکین کے مرنے کے پچیس سال بعد انکا کلام ایک جگہ اکٹھا کر کے اسے دیوان کی شکل دی۔ یوں یہ محفوظ ہوا مگر لوگوں کی لائبریریوں میں نمایاں جگہ نہ پا سکا۔
انکی بولی دیوان خانے یا شائستہ آنگن کی نہیں نالی، کوڑا گھر، سنڈاس، بول و بزار وغیرہ کی ہے۔ بول و بزار کے علاقے کے الفاظ جنکے سلسلے میں لوگ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ انکو چرکین نے اپنے کلام میں محفوظ کیا اور بیت الخلاء کے آداب کی ایک اہم دستاویز چھوڑی۔
چرکین نے بول و بزار کے مضامین کے لئے سوقیانہ یا کوئ خراب زبان نہیں لکھی۔انکا کلام معیاری اردو میں ہے۔ یہ وہی زبان ہے جو اس زمانے میں آتش، ناسخ اور مصحفی وغیرہ کی تھی۔ایک ایک مصرعہ تراشا ہوا، شعر میں چستی اور زائد یا بھرتی کے الفاظ سے پاک مضامین آلودہ لیکن کلام میں غضب کی روانی ہے۔ چرکین کے کلام کو بلا تعصب، صبر اور برداشت سے پڑھے بغیر انکے فن کی قدر نہیں جانی سکتی۔ 
بقول اردو کے مایہ ناز ادیب شمس الرحمن فاروقی، اگر کلام کے ذریعے جنسی لذت پیدا کرنے یا حاصل کرنے کی شرط کو اہم قرار دیں تو چرکین کا کوئ شعر مشکل سے فحش کہلائے گا۔خلاف تہذیب ہونا اور بات لیکن کوئ شعر ایسا نہیں کہ اسے بچوں یا بہو بیٹیوں کے سامنے پڑھایا نہ جا سکے یا انکے سامنے پڑھا نہ جا سکے۔
لیکن ہمیں پھر بھی کلام کی اس نوعیت پہ حیرت یا تعجب ہوتا ہے۔ کچھ اور لوگوں کو کچھ اور باتوں پہ ہوتا ہے مثلاً بائرن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ نوالہ منہ میں ڈالنے، چبانے اور حلق سے اتارنے کو اس قدر غیر نفیس فعل سمجھتا تھا کہ کسی عورت کو کچھ کھاتے پیتے نہ دیکھ سکتا تھا۔ جبکہ جرمن ناول نگار پیٹرک سسکنڈ لکھتے ہیں کہ 
میں اپنے بچپن میں یہ سوچ سوچ کر حیران رہ جاتا تھا کہ ناولوں کے کرداروں کو کبھی بیت الخلاء جاتے کیوں نہیں دکھایا جاتا۔ اسی طرح پریوں کے قصے ہوں یا اوپرا، ڈراما ہو یا فلمیں یا پھر بصری آرٹ کی مختلف شکلیں ان میں کسی کو بھی رفع حاجت کی ضرورت کیوں نہیں پیش آتی۔ انسان کی زندگی میں پیشاب یا پاخانے کا عمل جو زندگی کا سب اہم اور انتہائ ضروری معمول ہے وہ آخر آرٹ کی دنیا میں اپنی جگہ کیوں نہیں بنا سکا۔
قادر بخش صابر مزید لکھتے ہیں کہ
اوائل حال میں تو اس نے یہ وضع ہزل سمجھ کر اختیار کی یعنی مذاق میں۔ لیکن رفتہ رفتہ اس قال کو حال بنا لیامدام لباس چرک پہنتا اور ایسی میلی کچیلی وضع رکھتا کہ اجنبی اس کو سچ مچ کا حلال خور سمجھتے۔حق یہ ہے کہ جو ابتداء میں کہتا تھا وہ آخر میں کر دکھایا۔ آخر الامر لال بیگ کی صحبت اور گوگا پیر کی ہم نشینی کے شوق میں شہر کے پاکیزہ مقامات سے بھاگ کر صد ہا آرزو کا ٹوکرا سر پر رکھے ہوئے بہ طریق پا تراب کے جنگل کے کسی کوڑے پر اول منزل کی۔

مزید شعر حاضر ہیں
خیال زلف بتاں میں جو پیچ کھاتے ہیں
مروڑے ہو ہو کے پیچش کے دست آتے ہیں

کسی کے پاد سے اڑتے نہ کنکری دیکھی
اڑائے دیتا ہے چرکیں پہاڑ پھسکی سے

وہ جنتی ہے مرے جو مرض سے دستوں کے
ہے یہ ثواب تو باز آئے اس صواب سے ہم

عبث بدنامیوں کا ٹوکرہ سر پر اٹھانا ہے 
لگانا دل کا بس جھک مارنا اور گُو کا کھانا ہے

چرکین سے کسی نے ایک دفعہ کہا کہ دنیا کے ہر موضوع کوبول و بزار کی زبان میں بیان کر سکتے ہو تو ذرا حضرت علی کی بہادری کو بیان کر دکھاءو۔ شعر ملا۔
رن میں جس دم تیغ کھینچی حیدر کرّار نے 
ہگ دیا دہشت کے مارے لشکر کفار نے
یہ مصرعہ اس طرح بھی ملتا ہے،  ہڑبڑا کر ہگ دیا ، لشکر کفار نے۔

نوٹ اس تحریر کا ماخذ ابرار الحق شاطر گورکھپوری کا مرتب کردہ دیوان چرکین ہے جس میں انہوں نےچرکین کا ادبی پس منظر اور تاریخ بھی دی ہے اور جس کا مقدمہ شمس الرحمن فاروقی نے لکھا ۔

Wednesday, September 14, 2011

میں مر گئیاں

کراچی جغرافیائ لحاظ سے صحرا کا حصہ ہے۔  سمندر کی قربت اور شہر بننے کے عمل نے اسکی صحرائ حالت کو خاصی حد تک چھپا دیا مگر موسم میں ایک ثبات ہے جو اسکے اس پس منظر کی چغلی کھاتا ہے۔ یہاں ایک ہی موسم غالب رہتا ہے اور وہ ہے گرمی کا۔ بقول یوسفی کراچی میں اگر تینتیس ڈگری درجہ ء حرارت جون میں ہو تو گرمی اور اگر یہی ٹمپریچر دسمبر میں ہو تو سردی۔
اس لئے کراچی میں نہ محکمہ ء موسمیات پہ کسی کی توجہ ہوتی ہے اور نہ کسی موسم کی خاص تیاری۔ بس کیلینڈر دیکھ کر ہم سوچتے ہیں کہ اب کون سا موسم منانا چاہئیے۔ سو لان کے کپڑے پہن کر اخروٹ، چلغوزے اور مونگ پھلیاں صرف اس لئے کھانے پڑتے ہیں کہ دسمبر شروع ہو چکا ہے۔
اسی طرح آسمان پہ اگر بادل کی چار ٹکڑیاں  اکٹھا ہو جائیں تو فوراً بیسن میں پانی ملا لیتے ہیں اور کڑہائ چولہے پہ چڑھ جاتی ہے۔ مبادا تیز ہوا کے چلنے سے بادل بکھر جائیں۔ اور یہ مناسب موقع ہاتھ سے نکل جائے۔
اس لئے کسی کو حیرت نہیں ہونا چاہئیے کہ اس شاعری کے تخلیق کار کا تعلق بھی کراچی سے ہے جس نے لکھا وہ میرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں۔ اس لحاظ سے کراچی والے خوش نصیب ہیں کہ امریکہ کے بعد انہیں بعض معاملات میں نصیب کی کارفرمائ بھی نظر آتی ہے۔
شاید اس کی وجہ بہادر شاہ ظفر سے متائثر ہونا ہو انہوں نے بھی اپنی جلا وطنی کی واضح وجہ کمپنی نہیں نصیب پہ ڈالی۔ کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لئے، دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں۔ ہم کراچی والوں نے اس دو گز زمین کا بھی حل ڈھونڈھ نکالا ہے۔ اور سوا گز کی بوری اچھی طرح اسکا متبادل ثابت ہوئی ہے۔ ایک جلا وطنی کا خرچہ بچتا ہے جس سے زر مبادلہ محفوظ رہتا ہے دوسرا بوری کی شکل میں مقامی اشیاء کی کھپت میں اضافہ ہونے سے معیشت مستحکم ہونے کے امکان بڑھ جاتے ہیں۔
صحرائ خطے سے تعلق کی وجہ سے کراچی والوں کو بارش سے وہی والہانہ لگاءو ہوتا ہے جو صحرا کے رہنے والے ہی محسوس کر سکتے ہیں۔ سردی کی نسبت ساون ہمارے یہاں ہر دو چار سال میں حاضری دے دیتا ہے۔  بس اتنی کہ بعض موقع پرست کہتے رہ جاتے ہیں کہ اے ابر کرم آج اتنا برس، اتنا برس کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ موقع پرست دوکان پہ بیٹھا سوداگر بھی ہوتا ہے اور وہ بھی جنکی سوداگری حسن و عشق کے معاملات میں ہوتی ہے یعنی دل دے دے دل لے کر۔ 
لیکن جیسا کہ ہماری حکومتوں کا انداز رہا ہے وہی لڑکیوں کی مشرقی ماءووں والا، وہ ہماری خوشیوں کو ایک حد سے آگے بڑھنے نہیں دیتیں۔ اگلے گھر جائیں گی تو گذارا کیسے ہوگا سختیوں کی عادت ہونی چاہئیے۔ اس کے لئے ان  کی منصوبہ بندی ہمیشہ تیار ہوتی ہے  ایسے ہی حکومت کی بھی ہوتی ہے یعنی نہیں ہوتی۔


ہم سوچیں کہ بارش میں ذرا فلاں رشتے دار کے یہاں محفل جما لی جائے وہاں وہ بھی ہونگے یا ہونگیں تو گھر سے باہر نکلتے ہی سڑکوں پہ حکومت اور قدرت کے گٹھ جوڑ سے اتنا پانی ہوتا ہے جتنا کہ چناب میں سوہنی کے کچے گھڑے پہ تیرتے وقت تھا۔ ہم تاریخ سے عبرت پکڑتے ہوئے فوراً واپس ہو لیتے ہیں آخر گاڑی کی محبت بھی کوئ چیز ہے۔ وا حسرتا، ہم ان سے فون پہ عشق بگھارنے کی کوشش کر لیں گے۔ گھر آکر پتہ چلتا ہے فون میں ڈائل ٹون نہیں وہ مر چکا ہے۔
ہم سوچتے ہیں کہ کوئ بات نہیں اے محبت زندہ باد ، موبائل فون کے سستے پیکیج آخر کس دن کام آئیں گے۔ معلوم ہوتا ہے لائن پہ اتنا رش ہے کہ  بات نہیں ہو سکتی۔ اتنی دیر میں اطلاع ملتی ہے کہ گھر کے باہر بجلی کا تار گر پڑا ہے یا فلاں کی بیرونی دیوار گر پڑی ہے یا فلاں درخت زمین پہ آرہا۔ دل چاہتا ہے کہ ٹی وی پہ شہر کی خیر خبر معلوم کر لیں کیبل والے کا تار ٹوٹ چکا ہے، فون لائین میں خرابی کی وجہ سے انٹر نیٹ نہیں چل سکتا۔ اسکے بعد؟
یہ ایک اہم سوال ہے اسکے بعد؟ یہ چاہتے ہو ساکنان شہر عشق میں رہو بسو، نہ راس آ سکی تمہیں وہاں کی آب و ہوا تو پھر۔ اوروں کا نہیں پتہ ہم بیٹھے چھوٹی پرچیوں پہ لکھ رہے ہیں قاف قاف آسمان صاف۔ ہماری ساس صاحبہ کا کہنا ہے کہ ادھر بھوپال میں جہاں انکا بچپن گذرا، جب بارش تھمنے کا نام نہیں لیتی تھی تو وہاں لوگ یہ پرچیاں لکھ کر درختوں پہ ٹانگ دیتے تھے۔ 
آہ صحرائ محبت، کہاں تو ریت کے بگولے دیوانہ وار اٹھتے ہیں اور باریک باریک ذرے نشتر کی طرح روح  کو اس طرح چھلنی کر ڈالتے ہیں کہ سب ملیا میٹ۔ اس عالم میں سوائے یہ کہنے کے اور کچھ باقی نہیں رہتا ، تیرے عشق نچایا کر کے تھیّا تھیّا، چھیتی آویں وے طبیبا نئیں تے میں مر گئیاں اور کہاں پانی کے چند چھینٹے پڑے  یہ ریت ایسی بیٹھتی ہیں , اس میں وہ گل و گلزارپھوٹ پڑتے ہیں جو وہم و گمان میں نہیں ہوتے۔ آہ صحرائ محبت، آہوئے بے اختیار۔ لیکن ایک بات مجھے سمجھ نہیں آتی یہ جس جگہ کوئ بس نہیں چلتا وہاں تعویذ ٹوٹکے کیسے کام کر جاتے ہیں۔ خیر، یہ میری آخری پرچی ہے قاف قاف آسمان صاف۔ اب دیکھئیے ,  آسمان کیسے صاف ہوگا۔

 

Monday, September 12, 2011

پاکستانی سینی میں چین کی چینی

کل صبح بارہ بجے تک میری چائینیز کی کلاس ہے جو بھی کام ہوگا اسکے بعد ہی ہو سکتا ہے۔ میرے ایک دوست نے اطلاع دی۔ زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم۔ کیا ہوا کسی چائینیز کو اپنا محبوب بنا لیا ہے۔ کیونکہ ہمارے خطے میں مادری زبان کے علاوہ اگر کسی زبان کو لوگ دل سے سیکھنا چاہتے ہیں تو وہ انگریزی ہے نہ کہ چائینیز۔  جواب ملا نہیں چین جا کر کچھ کاروبار کرنے کا ارادہ ہے۔
سو میں  نے ان سے کچھ ابتدائ معلومات لیں۔ کراچی میں چند ایک ادارے ہیں جہاں یہ سکھائ جاتی ہے۔ پانچ چھ استاد ہیں جنہوں نے یہ فریضہ اٹھایا ہوا ہے۔ اور وہ آجکل بڑے مصروف ہیں۔ ان کی زیادہ تعداد چین سے تعلق رکھتی ہے۔
پھر اس کے بعد کسی اور سے بات ہو رہی تھی۔ پتہ چلا کہ وہ اپنے بچے کو کالج کی تعلیم کے لئے ہانگ کانگ بھیج رہے ہیں۔ ایک دفعہ پھر حیرانی سے گذرنا پڑا۔ لوگ لندن، کینیڈا، امریکہ بھیجتے ہیں آپ ہانگ کانگ بھیج رہے ہیں۔ جواب ملا، وہ زمانہ گیا جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے آجکل انہوں نے فاختائیں آزاد کر کے اس خطے میں ڈیرہ ڈال لیا ہے۔  چین ، ہانگ کانگ۔
نائن الیون کے بعد امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے میں اپنا سرمایہ لگایا، ذہن لگایا۔ لیکن کہنے والے اسے ستم گر کہتے رہے۔ مغربی ممالک نے دہشت سے نبٹنے کے لئے دہشت زدہ پالیسیز بنائیں۔  یوں آج اس واقعے کے دس سال بعد دنیا میں سرمائے  اور اعتماد کے سفر میں ایک واضح تبدیلی نظر آتی ہے۔ یہ مغرب سے مشرق کی طرف چل پڑا ہے۔ مغرب کا عالم یہ ہے کہ یہ اڑی اڑی سی رنگت، یہ کھلے کھلے سے گیسو، تری صبح کہہ رہی ہے تیری رات کا فسانہ اور مشرق آخر مشرق ہے۔
ان مشرقی ممالک میں اسلامی ممالک شامل نہیں۔ اگر ہم بہت کوشش کریں تو ترکی، ملائیشیا یا انڈونیشیا کا نام لے سکتے ہیں۔ جنکی معیشت بہتر حالت میں ہے۔ ان میں سے ترکی نسبتاً  مضبوط ہے اور بہتر مستقبل کی طرف دیکھتا ہے۔
پاکستان کے دگرگوں سیاسی حالات اور حکمرانوں کی عدم دلچسپی نے سرمایہ کاروں کا اعتماد ختم کیا ہے۔ ایک طرف بجلی کی کمی ہے دوسری طرف شفاف نظام کا رونا۔ بالخصوص کراچی میں کاروبار کو چلانے کے لئے جس اعتماد اور تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے وہ پچھلے تین سال میں ناپید ہو گیا ہے۔
 ہمارے سرمایہ کار اپنا سرمایہ تیزی سے ملک سے باہر منتقل کر رہے ہیں جیسے ملائیشیا ۔ سرمائے کی اس منتقلی سے ہمارے ملک میں روزگار کے مواقع کم ہونگے اور مہنگائ مزید بڑھے گی۔ جس سے ایک عام انسان جس کا جینا مرنا اسی زمین سے وابستہ ہے متائثر ہوگا بلکہ ہو رہا ہے۔ اس لئے جب کراچی میں کاروباری استحکام کی بات ہوتی ہے تو یہ دراصل ہر گروہ کی بقاء کی بات ہوتی ہے۔
عالمی کساد بازاری میں، امید کی ایک کرن چین میں سرمایہ کاری ہے۔ چین اس وقت معاشی طور پہ مستحکم ہے ایک ابھرتی ہوئ نئ معاشی طاقت۔  میں نگینہ گلی، صدر میں موجود تھی۔ وہاں ایک نگینہ فروش نے بتایا کہ وہ آجکل چین سے نگینے لے کر آ رہا ہے پہلے وہ بنکاک جاتا تھا۔  اس وقت جو چین سے کاروبار کرے وہ فائدے میں ہےاس نے ایک راز مجھ سے شیئر کیا۔ چین چھا رہا ہے۔ انکی تجارتی اور سرمایہ کاری کی پالیسیاں حوصلہ افزاء ہیں۔ ویزہ بھی آسانی سے مل جاتا ہے۔ آپکا پاسپورٹ مہینوں قطار میں نہیں پڑا رہتا۔ چند دن لگتے ہیں۔ آپ وہاں آفس لے سکتے ہیں۔ کمپنی کھول سکتے ہیں۔ بس صرف ایک خرابی ہے پاکستانیوں کو چینی زبان نہیں آتی اور چینی کوئ اور زبان نہیں بول سکتے۔ چینی نہ صرف کاروباری ذہانت رکھتے ہیں بلکہ وہ اس میں خاصے چالاک ہیں۔ اس چالاکی سے نبٹنے کے لئے زبان آنا ضروری ہے۔
آپکو بچپن میں سنی ہوئ وہ کہانیاں یاد ہیں جس کا مرکزی خیال اس نکتے کے گرد گھومتا  ہے کہ زمین کے نیچے دفن خزانے کسی ایک جگہ نہیں رہتے یہ چلتے رہتے ہیں اور آواز دیتے ہیں ہم یہاں ہیں۔ انکی آواز پہ  دھیان دینے والا اور انہیں سمجھنے والا انہیں حاصل کر لیتا ہے۔ یہی حال زمین کے اوپر موجود خزانوں کا ہے۔ سرمایہ وہاں جاتا ہے جہاں مزید سرمایہ ہوتا ہے اور جہاں یہ گردش کی حالت میں رہے۔ مایا کو مایا ملے کر کے لمبے ہاتھ، حرکت میں برکت ہے۔
اب اس سارے قصے سے کیا ہم یہ سمجھیں کہ پاکستان کے صوبے سندھ میں اسی مستقبل کا ویژن رکھتے ہوئے اسے تمام اسکولوں میں سال دو ہزار تیرہ سے چھٹی کلاس سے لازمی مضمون کے طور پہ پڑھایا جائے گا۔ یاد رہے اسی کی دہائ میں مرد مومن کے ویژن پہ اسکولوں میں عربی زبان بھی پڑھانے کی کوشش کی گئ تھی۔
  اس حکومتی فیصلے کے بارے میں لوگوں کی رائے مختلف ہے۔ سب سے پہلے یہ کہ  کیا اسے بھی اسی طرح سکھایا جائے گا جس طرح صوبے میں اردو، انگریزی یا سندھی زبانیں سکھائ جاتی ہیں۔ جو اول تو سکھائ نہیں جاتیں بلکہ پڑھائ جاتی ہیں۔ دوئم جہاں جہاں پڑھائ جاتی ہیں وہاں مقصد امتحان پاس کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے ساری زندگی اردو پڑھنے والوں کو اردو لکھنا پڑھنا نہیں آتی، انگریزی کے چند مضامین اور خطوط یاد ہوتے ہیں اور سندھی رسم الخط سے نقطوں کی وجہ سے آشنائ ہو جاتی ہے۔ یہ سندھی زبان، صوبے کے اسکولوں میں پانچ سال تک لازمی پڑھائ جاتی ہے۔
پھر یہ کہ چینی زبان سکھانے کے لئے اساتذہ کہاں سے آئیں گے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کے لئے چین سے اساتذہ لئے جائیں گے۔ اور پاکستان میں بھی اساتذہ کو تربیت دی جائے گی۔ یقیناً ان چینی اساتذہ کوجان کا تحفظ دینے پہ بھی حکومت کو  وسائل خرچ کرنا پڑیں گے۔ ادھرسال بھر کے عرصے میں کیا تربیت کے بعد ایسے ماہر اساتذہ تیار کر لئے جائیں گے جو دوسروں کو زبان سکھانے کے قابل ہوں۔ یہاں کچھ لوگ ہو سکتا ہے کہ کچھ اس قسم کے ڈائیلاگ بولنا چاہیں کہ ہمت کرے انسان تو کیا کام ہے مشکل۔ جس سے میں اپنے ہم وطنوں کی حد تک اتفاق نہیں کرتی۔ جو محض ڈائلاگز بول کر ہر پیچیدہ صورت حال سے باہر نکلنا چاہتے ہیں۔ یوں مسائل اپنی جگہ رہتے ہیں اور کاغذ کے پلندے وزن حاصل کرتے رہتے ہیں۔ یہاں ڈائیلاگز نہیں ٹھوس عمل چاہئیے۔
مزید یہ کہ کیا تمام طالب علموں کے لئے چینی زبان سیکھنے کا کوئ فائدہ واقعی  ہے بھی یا نہیں۔ اسکا جواب میں آپ پہ چھوڑتی ہوں۔
میں اپنے پالیسی سازوں کے شر پسند ذہن سے سوچوں  تو یہ کہتا ہے کہ اس میں بھی سرمائے کی منتقلی کا چکر ہے۔ بس یہ کہ مشرق یا مغرب میں جانے کے بجائے یہ کچھ حکومتی اراکین کی جیب کا رخ کرے گا۔ اور وہ یہ کہہ کر فارغ ہونگے، ٹک دیکھ لیا، دل شاد کیا، خوش وقت ہوئے اور چل نکلے۔

Saturday, September 10, 2011

محب وطن پاکستانی کے نام

جہاز کے لمبے سفر اکثر سوتے ہوئے گذارتے ہیں۔ رات کا وقت ہو تو باہر دیکھنے کے لئے ہوتا ہی کیا ہے۔ اس لئے اندر دیکھنے کے لئے خاصہ وقت ہوتا ہے۔ وہ بھی اگر آپ جہازی سفر میں نہ سونے کے عارضے میں مبتلا ہوں  تو پھر وقت بچھآ رہتا ہے۔  
میں نے جب سفر شروع کیا تو ذوالفقار مرزا جنہیں کھلبل مرزا کہنا زیادہ مناسب لگتا ہے اپنے نئے بیانات سے نہ صرف خود رو کر فارغ ہو چکے تھے بلکہ  پاکستان جیسی ایک بکھری ہوئ قوم کو سمٹ چکے تھے۔ اور اسے ایک نکتہ ء اتحاد دے چکے تھے۔ اس لئے جب کراچی واپس پہنچ کر لوگوں سے ملنے کی فرصت ملی تو ایک کے بعد ایک مریضِ جنگ انہی کا فسانہ سناتا رہا۔
یہ وہی مرزا صاحب ہیں جنہوں نے محض تین چار مہینے پہلے کراچی کے مہاجروں کو بھوکے ننگے کہہ کر ایک بڑے حلقے کی طرف سے داد پائ تھی پھر متحدہ کے احتجاج پہ انکی معذرتی ویڈیو آئ۔ انکی شہرت صرف پاکستان کے متعصب ماحول  کے پسندیدہ جاندار ڈائلاگ اور ان پہ بے مثال ایکٹنگ ہی نہیں۔ بلکہ یہ  بھی ہے کہ وہ اپنی پسماندہ قوم کو با عزت ذریعہ روزگار، دنیا سے لڑنے کے لئے علم یا ہنر دینے کے بجائے اسلحہ دیتے ہیں۔ تین سال میں تین لاکھ اسلحے کے لائسنس انہوں نے شاید انڈیا یا امریکہ سے جنگ کے لئے کراچی میں  عنایت فرمائے۔ کچھ لوگ تو یہ کہتے ہوئے ملے کہ ذوالفقار  بھٹو نے پہلی دفعہ پاکستان توڑنے میں اپنا بہترین حصہ ڈالا اور ذوالفقار مرزا دوسری دفعہ پاکستان کو توڑنے کی طرف کامیابی سے لے جارہے ہیں۔
ایسے میں میری نظر سے ایک اسٹیٹس گذرا کہ کراچی میں لبرل اور سیکولر جماعتوں نے یہ حشر کیا ہے اس وجہ سے قوم لبرلزم اور سیکولیرزم سے نفرت کرتی ہے۔ کراچی ملک کے جنوب میں واقع ہے اور ملک کے شمال میں مذہب پرست جماعتوں نے جو بہشت قائم کی ہے وہ ہمارے بھولے ساتھی کی نظر سے پوشیدہ ہے۔ شاید اس لئے کہ انہوں نے ابھی بہشت جانے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔
کون ہے پاکستان میں لبرل اور سیکولر۔  عوامی نیشنل پارٹی یا پیپلز پارٹی ؟
پاکستان میں جناب صرف دو طاقتیں ہیں ایک قبائلی نظام کی پروردہ اور دوسری غیر قبائلی نظام کی پروردہ۔ ان میں سے اول الذکر اکثریت میں ہے اور موءخر الذکر اپنا ایک بہت کمزور وجود رکھتی ہے۔ جس پہ کبھی لبرلزم کی مہر لگائ جاتی اور کبھی سیکولیرزم کی۔ پاکستان کے ٹوٹ جانے کے بعد یعنی بنگلہ دیش بن جانے کے بعد باقی کے پاکستان کا نام بدلنا چاہئیے تھا۔ لیکن بہر حال اسے ایسے ہی رہنا دیا گیا۔ اس موجودہ پاکستان کی حدوں میں رہنے والی اقوام ایک قبائلی مزاج رکھتی ہیں۔ اسے کبھی مذہبی جماعتیں استعمال کرتی ہیں اور کبھی ان کی سیاسی جماعتیں۔ ان مذہبی جماعتوں یا ان سیاسی جماعتوں کے درپردہ مقاصد ہمیشہ ایک رہتے ہیں اور وہ یہ  کہنظام چند ہاتھوں اور خاندانوں  کے سامنے سر نگوں رہے۔ اور اسکی فلاح کے لئے انہیں کسی کے سامنے جوابدہ نہ ہونا پڑا۔ اس لئے اپنے روئیے میں اے این پی، پیپلز پارٹی یا جمعیت علمائے اسلام کچھ مختلف نہیں۔
کراچی باقی ماندہ ملک سے الگ کیوں لگتا ہے۔ اس لئے کہ یہاں لوگوں کی کثیر تعداد اس طبقے سے تعلق رکھتی ہے جو اس قبائلی نظام پہ یقین نہیں رکھتی بلکہ اس پہ  تنقید کرتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو تقسیم ہندوستان کے بعد سنٹرل انڈیا سے یہاں آکر آباد ہوئے۔ آباد اس لئے ہوئے کہ انہوں نے حدود پاکستان سے باہر آزادی کی جنگ لڑ کر حدود پاکستان کے اندر رہنے والی اقوام کو آزاد ملک کا تحفہ دیا۔ اور اسکے بعد یہ سمجھا کہ اب اس ملک پہ ہمارا بھی حق ہے۔  اپنے اس حق کی راہ ہموار کرنے کے لئے انہوں نے بھی مذہب کا سہارا لیا۔  اسلام ہمارے درمیان تعلق کی  مضبوط وجہ ہے انہوں نے بیان کیا۔ وہ اسلام جو حدود پاکستان میں رہنے والی اقوام کی ترجیح اس وقت نہیں تھا۔ وہ تو اپنے چند سرداروں کی پسند نا پسند دیکھتے تھے۔ جب نیت درست نہ ہو تو کبھی اچھا نتیجہ نہیں نکلتا۔ کم سے کم تریسٹھ سال کے بعد اتنا تو تسلیم کرنا چاہئیے۔

کراچی کا مسئلہ لبرل ، سیکولر یا مذہب نہیں۔ قبائلی اور غیر قبائلی نظام کا ٹکراءو ہے۔
یہ بات عجیب لگتی ہے کہ کراچی سے باہر کے لوگ اپنے تجزئیے کو درست قرار دیتے رہیں اور وہ کبھی کراچی کے اندر رہنے والے اردو اسپیکنگ لوگوں کی بات پہ غور کرنے کو تیار نہ ہو۔ اسکی دو دلچسپ مثالیں میں نے حال میں دیکھیں۔ ایک جاوید چوہدری صاحب کا ایک مضمون کراچی کے بارے میں جو انہوں نے کراچی سے سینکڑوں میل دور بیٹھ کر لکھا جس میں فراہم کی گئ معلومات ایک ایسے ایس ایچ او کی تھیں جو ملتان سے تعلق رکھنے والا محب وطن شخص تھا۔ یہ معلومات اگر کراچی کے اورنگی ٹاءون سے تعلق رکھنے والا اردو اسپیکنگ شخص فراہم کرتا تو انہیں شاید یقین نہیں آتا۔ یا پھر انہوں نے اس قوم کی نفسیات ستعمال کرتے ہوئے ایک ملتانی شخص کی معلومات دیں کہ اگر غیر کراچی ، غیر اردو اسپیکنگ ہوگا تو لوگ اسکی بات پہ زیادہ دھیان دیں گے اور یوں اس پہ میں نے ایک تبصرہ پڑھا جو کچھ اس طرح تھا کہ یقین نہیں آتا مگر کرنا پڑتا ہے۔ یہ تبصرہ کرنے والے بھی بڑے صوبے سے تھے۔ انہیں یقین کی اس منزل تک جاوید چوہدری ہی پہنچا سکتے تھے۔ عنیقہ ناز کراچی والا نہیں۔
جاوید چوہدری صاحب نے اس میں راز یہ کھولا تھا کہ کراچی میں اس وقت اے این پی، پی پی اور ایم کیو ایم کی مافیاز طاقت کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ میں اس میں کچھ اور چیزیں اپنے سینیئر صحافی کی معلومات کے لئے ڈالنا پسند کرتی مگر مسئلہ وہی کہ میں ملتان سے تعلق نہیں رکھتی۔
اسکی دوسری دلچسپ مثال میں نے اس وقت دیکھی جب ٹی وی پہ پاکستان میں انسانی حقوق  تنظیم کے چیئر مین جناب اقبال حیدر نے اکشاف کیا کہ کہ ایم کیو ایم روز اول سے ایک فاشسٹ جماعت ہے۔ میں تناءو کے اس ماحول میں ایسے شخص سے ایسے غیر ذمہ دارانہ بیان کی امید نہیں رکھتی جبکہ پاکستان کے بڑے شہر کو لاحق خطرات ملک کی سلامتی کا مسئلہ بن گئے ہوں۔
 تاریخ تو کہتی ہے کہ انیس اسی کی دہائ کے آخیر میں جب ایم کیو ایم کا جنم ہوا تو اس وقت مہاجروں کے طبقے کے بڑے جید دانشوروں ، ادباء ، شعراء اور علماء نے اس میں حصہ لیا اور اسکے لئے کام کیا تو کیا وہ سب فاشزم کے لئے کام کر رہے تھے یعنی اس میں رئیس امروہوی جیسے نام بھی آتے ہیں۔  تو ان سب لوگوں کو کیا اچانک یہ خناس بھا گیا تھآ کہ انکی ایک علیحدہ سیاسی جماعت ہونی چاہئِے۔ وہ سب فاشسٹ بن گئے تھے اور ان میں اگر کوئ محب وطن بچا تو وہ اقبال حیدر جیسے لوگ تھے۔
  اب جاوید چوہدری صاحب پھر کسی نان کراچی ذریعے کو استعمال کرتے ہوئے یہ لکھیں کہ در اصل ایم کیو ایم کو اس وقت زبردست عوامی طاقت حاصل تھی تو پھر کچھ صاحبان کو یقین نہ کرتے ہوئے بھی یقین کرنا پڑے گا۔
سو جاوید چوہدری صاحب ایک نظر اس طرف بھی۔
ایک پروپیگینڈہ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ہم یعنی کراچی سے بنیادی تعلق نہ رکھنے والے کراچی میں امن اور استحکام چاہتے ہیں۔ میں اسے پروپیگینڈہ ہی سمجھتی ہوں۔ اس میں کوئ سچائ نظر نہیں آتی۔ اس لئے کہ جب مرزا صاحب یہاں کے مہاجروں کو بھوکے ننگے آنے والے لوگ قرار دیتے ہیں تو ان میں سے کوئ انکی تصحیح نہیں کرتا کہ ان بھوکے ننگے لوگوں نے آپکی ابتدائ اکنامکس چلائ تھی ، جب مرزا صاحب امن کمیٹی والوں کو اپنے بچے قرار دیتے ہیں اور انکے یہ لاڈلے شیر شاہ میں جا کر نہتے لوگوں کو فائرنگ کا نشانہ بنا کر زندگی سے محروم کر دیتے ہیں تو بھی وہ فاشسٹ قرار نہیں پاتے۔ حتی کہ خود انکی پارٹی کے نبیل گبول صاحب ایک ٹی وی انٹرویو میں کہتے ہیں کہ اس وقت لیاری میں کم از کم دو ہزار گھروں میں اسلحہ بڑی تعداد میں موجود ہے تب بھی انہیں پاکستان توڑنے کی سازش کرنے والوں میں شامل نہیں سمجھا جاتا۔ بلکہ ایک داد و تحسین کا سلسلہ ہے کہ تھمنے میں نہیں رہا۔ کیوں ایسا ہوتا ہے کہ پشتون رہ نما شاہی سید جب زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ فرماتے ہیں کہ کراچی کا تالا کسی کے پاس بھی ہو اسکی چابی ہمارے پاس ہے۔  کوئ اسکی مذمت نہیں کرتا کہ یہ پاکستان کی توڑنے کی سازش ہے۔ انیس سو چھیاسی اور دو سو گیارہ میں علی گڑھ کالونی اور قصبہ کالونی پہ حملہ کرنے والے فاشسٹ نہیں کہلاتے۔
ایسا فرق کیوں ہے؟
جب ایک زمین کو اپنا ساجھا سمجھنے والے  قبائلی ایک  دوسری زمین سے تعلق رکھنے والےغیر قبائلی سے ٹکراتا ہے تو ایک قبائلی کی ہمدردی دوسرے قبائلی کے لئے ہوتی ہے۔ ایک قبائلی اپنے آپکو اپنی زمین کا زیادہ وفادار سمجھتا ہے، وہ اپنے آپکو زیادہ زمین کا حاکم سمجھتا ہے۔ اس وقت وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اسے کس طرح بنیادی انسانی حقوق سے اسکے رہنما محروم رکھ رہے ہیں۔  اس زمین کے کسی گوشے کی اسے حاکمیت نصیب نہیں ۔ بلکہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ کہیں اس کا قبیلہ طاقت کی اس جنگ میں کم نہ ثابت ہو۔ اس لئے کراچی میں سیکولر کہلانے والی اے این پی کے زیر سایہ مزہبی شدت پسند تحریک طالبان والے بھی ہنسی خوشی رہتے ہیں۔ اس لئے کراچی میں پنجاب کے رہنے والے اپنے قبائلی ساتھی پشتونوں کی ہر کمزوری سے صرف نظر کرتے ہیں، اسی لئے کراچی میں نہ صرف پنجابی پختون اتحاد نامی سیاسی جماعتیں بنتی ہیں بلکہ دہشت کی فضا کو ہموار رکھنے کے لئے پی پی اور اے این پی اتحاد بھی سامنے آتا ہے۔ یعنی بلوچ ، سندھی اور پٹھان اتحاد۔
پھر اسکے بعد لبرل اور سیکولر اور مذہب کا نکتہ اٹھانا کس کھاتے میں۔  ایک قبائلی ملک کے شمالی علاقوں میں مذہبی شدت پسندوں کے فاشزم کو پسندیدگی سے دیکھتا ہے۔ مگر وہی قبائلی ملک کے جنوبی حصوں می نام نہاد سیاسی فاشزم کا شور مچاتا ہے۔
نیت درست نہ ہو تو انجام درست نہیں ہوتا۔ ملک بننے کے تریسٹھ سال بعد بھی اس ملک کی حدوں میں رہنے والی اقوام یہ نہیں سیکھ سکیں۔ اس پہ دعوی ہے حب الوطنی اور غیرت مند ہونے کا۔ جو اپنی شکست سے نہ سیکھ سکے اسے بے غیرت کہا جاتا ہے۔ یقین نہ ہو تو کسی بھی لغت میں اٹھا کر دیکھ لیجئیے۔
جاوید چوہدری یہ بھی کہتے ہیں کہ کراچی بیروت بننے جا رہا ہے۔ ایک دفعہ پھر ان سے معذرت۔ پاکستان ایک لمبے عرصے سے بیروت بن چکا ہے تو کراچی کے بیروت بننے میں کیا مسئلہ۔
کیا کراچی کے حالات درست ہو پائیں گے۔ مستقبل قریب میں اس کا جواب ہے نہیں۔ قبائلی جنگیں سینکڑوں سال جاری رہتی ہیں۔ جب تک اسلحہ سرد نہ پڑ جائے اور لڑنے والے ہاتھ ختم نہ ہو جائیں یا کوئ اور بیرونی طاقت اس سے فائدہ نہ اٹھالے۔
جب تک اسلحہ کچھ قوموں کا زیور قرار پاتا رہے گا۔ ان حالات میں کوئ بہتری نہیں آنے والی۔ اسلحے پہ کون پابندی لگائے گا۔ مذہبی جماعتیں جو جہاد کی پرچاری ہیں یا پی پی اور اے این پی جیسی جماعتیں جنکے ثقافتی پس منظر میں اسلحے کی اہمیت آکسیجن جیسی ہے۔
آج ہی میں نے سنا کہ ٹی وی کے ایک اینکر پرسن نے ایم کیو ایم کے لوگوں کو نتھ بریگیڈ قرار دیا۔ پھر مجھے کسی اور نے یہ قصہ سنایا کہ انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں جہاں اور جنگی ترانے مشہور ہوئے وہاں ایک اور گانا بڑا چلا پاکستان میں اور وہ تھا جنگ کھیل نہیں زنانیاں دا۔ معاہدہ ء تاشقند کے وقت ہندوستانی وزیر اعظم شاستری نے اس گانے کو نا پسند قرار دیتے ہوئے اس پہ پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔
نصرت جاوید کے اس کمنٹ پہ پاکستان ہی میں لوگوں نے بڑا جراءت مندانہ فعل کہا۔ کیا آپ نے کبھی ببول میں انگور لگے دیکھے ہیں۔ ایسے  غیر ذمہ دار اور چھچھورے لوگ جب حب الوطنی کا نعرہ لگاتے ہیں تو کس قدر جعلی لگتے ہیں۔ یہ پاکستان کے استحکام کی دعائیں بھی مانگتے ہیں مگر کچھ اور تو چھوڑیں اپنے آپکو نسلی تعصب کے اظہار سے نہیں روک پاتے۔ یہ اس ملک کے باسی ہیں جو اپنی آزادی کے محض پچیس سال بعد دو ٹکڑے ہوا۔ اور اندرا گاندھی نے اس دن کہا کہ آج نظریہ ء پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا گیا۔
اگر کوئ واقعی کراچی کے حالات بہتر کرنا چاہتا ہے تو اسے سب سے پہلے اپنے اوپر پابندی لگانی ہو گی۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اس ملک کے  معاشی استحکام کے لئے کام کریں۔ موجودہ حالات میں اگر ہوش کے ساتھ دیکھیں تو کراچی میں سب سے زیادہ کس کا نقسان ہوا ہے۔ سندھی اور بلوچ اقوام تو ابھی اپنے ہونے نہ ہونے سے واقف نہیں۔ کراچی میں بسنے والے ان چالیس لاکھ پشتونوں کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ جو تعلیمی سطح پہ کم ترین ہیں، اور معاشی لحاظ سے کمزور۔ وہ یہاں سبزی بیچتے ہیں، چوکیداری کرتے ہیں، مالی بنتے ہیں ، ڈرائیوری کرتے ہیں ان مکی اکثریت روزانہ کی تنخواہ پہ کام کرتی ہے۔ جب کراچی بند ہوتا ہے، جب تندور بند رہتا ہے ، جب بازار میں کاروبار نہیں ہوتا تو سب سے زیادہ اس کمیونٹی کو نقصان ہوتا ہے۔ نسلی تعصب نے ان لوگوں کو کیا دیا ہے۔  ذوالفقار مرزا نے اگر تین سال میں تین لاکھ اسلحے کے لائیسنس دئیے تو کیا یہ لائیسنس سندھی اور بلوچی عوام کی تمام زندگی کا آسرا بن گئے۔ کیا یہ انکی نسلوں کی بقاء کی ضمانت بن گئے۔ یہاں میں ایم کیو ایم کا تذکرہ نہیں کر رہی کہ اسکے ووٹ بینک میں شامل لوگ ایک دفعہ نہیں کئ دفعہ تبدیلی کے عمل سے گذر چکے ہیں۔
اگر نسلی تعصب کو اسی طرح جواں رکھنا ہے تو استحکام پاکستان کو بھول جائیے۔ اور اپنے آپکو محب وطن کہنے سے گریز کریں۔
دوسری طرف یہ کیسے ممکن ہے  کہ ایک سیاسی جماعت کے دہشت گرد تو آپ سے شاباش حاصل کریں اور دوسری جماعت کے دہشت گرد کو آپ فاشسٹ کہیں۔ اگر ایک قوم پہ آپکی پسندیدہ اقوام راکٹ لانچر لے کر حملہ آور ہو جائیں تو لازمی طور پہ وہ قوم مڑ کر کسی فاشسٹ سے ہی مدد لے گی یا آپکی منتیں سماجتیں کرے گی۔ آپ جو کسی ایسے واقعے کے ظہور پانے کے ہی قائل نہیں ہوتے۔
یہ کہنا بھی اب بےکار لگتا ہے کہ یہ سب سیاسی جماعتوں کا کیا دھرا ہے۔  ذوالفقار مرزا یا نصرت جاوید کو شاباش دینے والا منہ ایک عام آدمی کا ہے کسی سیاستداں کا نہیں۔
 یہ کیسے ہو سکتا ہے  کہ وزیرستان میں اسلحہ بنانے کی فیکٹریاں قائم ہوں اور کراچی میں ایک سیاسی جماعت کو فاشسٹ قرار دیا جاتا رہے۔
اگر کوئ شخص اپنے آپکو محب وطن کہتا یا سمجھتا ہے تو اسے غیر قانونی اسلحے کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہئیے۔ اسلحہ رکھنے کا حق صرف فوج کو ہے یا پولیس کو اسکے علاوہ کسی کو نہیں۔
لیکن  میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ کم از کم میری زندگی میں کوئ ایسا قانون بننے والا نہیں اور اگر بن جائے تو کاغذ کی حدوں سے باہر نکلنے والا نہیں۔ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ حب الوطنی کے دعوے کرنے والوں میں سے کوئ اسکے لئے نہیں اٹھ کھڑا ہوگا۔
میں نصیحت کرنے کے عمل میں نہیں، نہ خواہش کرنے کی حالت میں۔  میں صبر سے بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرتی ہوں، اس میدان میں جہاں کھیل ، کھلاڑی اور تماش بینوں کے درمیان کچھ زیادہ فرق نہیں۔ اس افراتفری میں، میں احساس خوف سے باہر ہوں۔ اس لئے نہیں کہ میں افتخار عارف کی نظم بارہویں کھلاڑی کا بارہواں کھلاڑی ہوں۔ بلکہ اس لئے کہ اس کھیل کا اختتام میرے کہیں بعد ہے۔ قبائلی جنگیں بڑا خون بہا لیتی ہیں۔ ان میں صرف کسی نامعلوم کا نہیں میرا اور آپکا خون بھی شامل ہوگا۔