Tuesday, July 24, 2012

پولیو کے خلاف جہاد

ہر دفعہ پولیو مہم کے ساتھ ہی خبروں  اور اعتراضات کا ایک سلسلہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ کیوں؟
خبر یہ ہے کہ کراچی میں پولیو مہم سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر کو مار دیا گیا۔  یہ واقعہ سہراب گوٹھ کے علاقے میں موجود الآصف اسکوائرکے نزدیک  پیش آیا جہاں افغان مہاجرین اور پشتونوں کی آبادی زیادہ ہے۔ کراچی میں جن لوگوں نے ان قطروں کو پلانے سے انکار کیا ، وہ بھی عام طور پہ انہی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ خیبر پختونخواہ میں ہی پولیو کی مہم کو سب سے زیادہ خطرات لا حق ہوتے ہیں۔ اسکی بنیادی وجہ ان گروہوں میں آگہی اور تعلیم کی کمی ہے۔
دوسری طرف اس مہم کو نہایت سنگدلی کے ساتھ مذہب اور جہاد سے جوڑ دیا گیا ہے۔  برین واشنگ اس طرح ہوتی ہے کہ چونکہ ہم کافروں کے خلاف جہاد کر رہے ہیں اس لئے وہ اس ویکسین کے ذریعے ہمیں ختم کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ویکسین کے مقابلے میں سر درد کی گولیوں سے یہ کام کرنا زیادہ آسان ہوگا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ دوسری کسی بھی دوا کو چھوڑ کر محض اس ویکسین کو پکڑ لیا گیا ہے۔ شاید یہ کہ عام طور پہ اس ویکسین کی مہم چلانے کے لئے تعلیم یافتہ لوگوں کو استعمال کیا جاتا ہے اور مخصوص عناصر نہیں چاہتے کہ تعلیم کا کوئ بھی مثبت پہلو سامنے آئے۔ 
 آج ہم اس تحریر میں ویکسین ہی پہ بات کریں گے۔

ویکسین کیا ہوتی ہے؟
ویکسین ایک ایسا مرکب ہوتا ہے جو انسانی جسم کے دفاعی نظام کو مختلف بیماریوں کے لئے بہتر بناتا ہے۔ یہ مرکب جن مختلف طریقوں سے تیار کیا جا سکتا ہے وہ حسب ذیل ہیں۔
نمبر ایک؛ 
جس بیماری کے خلاف دفاع حاصل کرنا ہو اسی کے کمزور یا مردہ جراثیم سے۔ جراثیم کو مردہ  یا کمزور کرنے کے لئے کیمیکلز، حرارت، تابکاری یا اینٹی بائیوٹکس استعمال کی جاتی ہیں۔ پولیو کی ویکسین اسی طریقے سے تیار ہوتی ہے۔
نمبر دو؛
وہ جراثیم جو زہر خارج کرتے ہیں اس زہر سے مشابہت رکھنے والے کسی مرکب سے تیار کی جاتی ہیں۔ ٹیٹنس اور کالی کھانسی کی ویکسین اسی طریقے سے تیار کی جاتی ہے۔
نمبر تین؛
 جراثیم کی بیرونی سطح پہ پائ جانے والی پروٹینز کی ساخت سے مشابہت رکھنے والے مرکبات کی مدد سے۔ ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین اس طریقے سے تیار ہوتی ہے۔
 ویکسین بنانے کے دیگر طریقے بھی استعمال میں آ رہے ہیں جنکی تفصیل میں ہم اس وقت نہیں جا رہے۔

ویکسین انسانی جسم میں کیسے کام کرتی ہے؟
انسانی جسم میں بیماریوں کے خلاف دفاع کے لئے ایک مربوط نظام موجود ہے جسے ہم امیون سسٹم کہتے ہیں۔ یہ نظام اپنے جسمانی خلیوں کو پہچانتا ہے  لیکن جیسے ہی کوئ اور ایجنٹ جسم میں داخل ہوتا ہے جو کہ اس جسم کا نہیں ہوتا وہ اسکے خلاف حرکت میں آجاتا ہے۔ اگر جراثیم طاقتور ہوتے ہیں تو وہ اس نظام پہ حاوی ہو جاتے ہیں اور انسان کو بیمار کر دیتے ہیں اگر ان جراثیم کی تعداد ایک مخصوص مقدار سے کم ہوتی ہے یا انکا زہریلا پن کم ہوتا ہے تو جسم کا دفاعی نظام اسے زیر کر لیتا ہے اور انسان کو بیماری سے بچا لیتا ہے۔
زیادہ تر حالات میں انسان کا یہ دفاعی نظام اس ایجنٹ کو برباد کرنے کے ساتھ اسکی ساخت یاد کر لیتا ہے۔ اس طرح جب وہ جراثیم دوبارہ جسم میں داخل ہوتے ہیں تو انسانی جسم کا یہ دفاعی نظام تیزی سے ایکشن میں آتا ہے اور انہیں فی الفور ختم کر دیتا ہے۔
جب انسان نے جراثیم کے بارے میں جانا اور اسے انسانی جسم کے اس دفاعی نظام کے کام کرنے کے طریقے کے بارے میں پتہ چلا تو اس نے اس سے فائدہ اٹھانے کا سوچا۔ یوں ویکسین وجود میں آئ۔ ویکسین انسانی جسم کو بیمار ہونے سے پہلے ہی تحفظ دیتی ہے اس طرح یہ دیگر ادویات کے مقابلے میں کہیں موءثر ہوتی ہیں۔ محض معمولی سی مقدار زیادہ تر حالات میں تا عمر تحفظ دیتی ہے یا پھر ایک مخصوص عرصے کے لئے تحفظ دیتی ہے۔ زیادہ تر ویکسین سستی ہوتی ہیں۔ چونکہ ترقی یافتہ ممالک میں ہی اتنے فنڈز ہوتے ہیں کہ لوگوں کی صحت پہ خرچ کئ جا سکیں تو عام طور پہ تحقیقاتی ادارے بھی ان ملکوں میں پھیلی ہوئ بیماریوں پہ توجہ کرتے ہیں اور غریب ملکوں میں عام بیماریوں کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ اس وجہ سے غریب ملکوں کی بیماریوں کے خلاف سستا علاج ڈھونڈھنا مشکل ہوتا ہے۔

 انیس سو چھتیس میں فارملڈی ہائیڈ کے ذریعے پولیو جراثیم کو مردہ کر کے ویکسین بنائ گئ۔ اسے بنانے والے سائینسدان نے اسے اپنے اوپر اپنے کچھ ساتھیوں اور تین ہزار بچوں پہ آزمایا۔ ان میں سے کچھ بچوں کو اس سے الرجی ہو گئ، لیکن کسی بچے کو پولیو نہیں ہوا۔ اس لئے یہ ویکسین کامیاب نہ کہلائ جا سکی۔ کچھ اور تجربات کئے گئے جو کامیاب نہ ہوئے۔
ایک اور گروپ  نے جان اینڈر کی سربراہی میں تحقیقات کی اور اسکے نتیجے میں وہ پولیو کے جراثیم کاشت کرنے میں کامیاب ہوئے۔ جان اینڈر کو اس سلسلے میں نوبل پرائز بھی ملا۔
انیس سو باون  اور تریپن میں امریکہ میں تقریبا نوے ہزار لوگ پولیو سے متائثر ہوئے۔ جسکی وجہ سے اسکی ویکسین کی تیاری کی طرف خصوصی توجہ کی گئ۔ جو ویکسین ملی اسے پہلی دفعہ انیس سو پچاس میں ایک آٹھ سالہ لڑکے پہ آزمایا گیا۔ کامیابی کے بعد مزید انیس بچوں کو دی گئ۔  انیس سو پچپن میں اسکا اعلان کیا گیا۔

جوناس ساک، سائینسدان جس نے پہلی دفعہ انجیکشن والی پولیو ویکسین بنائ، بے غرض والدین کی بچی جس نے اپنا بازو پیش کیا نئ ویکسین کی آزمائش کے لئے

اور اب اس بیماری کا امریکہ سے خاتمہ ہوچکا ہے۔ سن دو ہزار میں چین اور آسٹریلیا سے اسکے خاتمے کا اعلان ہوا اور دو ہزار دو میں یوروپ میں اسکے خاتمے کا اعلان ہوا۔ اس کے باوجود ان تمام علاقوں میں بچوں کو پولیو کی ویکسین دی جاتی ہے۔ دنیا میں اس وقت صرف چار ملک ایسے ہیں جہاں پولیو موجود ہے ان ملکوں میں نائجیریا، افغانستان، انڈیا اور ہمارا ملک پاکستان بھی شامل ہے۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں چند عناصر اسے ختم کرنے کی راہ میں حائل ہیں اور نہیں چاہتے کہ بچوں کو اس ویکسین کے قطرے ملیں۔ 
 پولیو ویکسین دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک  انجکشن کے ذریعے دی جاتی ہے اور اس میں پولیو کے مردہ جراثیم استعمال ہوتے ہیں۔ پولیو ویکسین کی دوسری صورت قطروں کی شکل میں استعمال ہوتی ہے یہ کمزور کئے گئے جراثیم سے تیار ہوتی ہے۔ اس دوسری ویکسین کو ایسے علاقوں میں دیا جاتا ہے جہاں پولیو کا وبائ مرض بننے کا امکان ہوتا ہے۔ چونکہ یہ منہ کے ذریعے دی جاتی ہے اصل بیماری پیدا کرنے والے جراثیم بھی منہ کے ذریعے داخل ہوتے ہیں اس لئے زیادہ مءوثر ہوتی ہے۔ جسم سے جب فضلہ خارج ہوتا ہے تو یہ اس فضلے میں بھی خارج ہوتے ہیں جہاں سے یہ دوسرے انسانوں کو بھی پہنچ سکتے ہیں۔ اس طرح سے انہیں بغیر ویکسینیشن کے ہی تحفظ حاصل ہو سکتا ہے۔
پولیو ویسکین کےاجزاء کیا ہوتے ہیں؟
قطروں والی ویکسین کے اجزاء اس طرح ہیں۔ بیماری کے جراثیم کی مختلف اقسام  اور ان کے علاوہ بہت کم مقدار میں اینٹی بائیوٹکس ہوتی ہیں جو عام طور پہ نیو مائسین یا اسٹرپٹو مائسین ہوتی ہیں اس میں کوئ اور محفوظ کرنے والا کیمیکل استعمال نہیں ہوتا۔
OPV is usually provided in vials containing 10-20 doses of vaccine. A single dose of oral polio vaccine (usually two drops) contains 1,000,000 infectious units of Sabin 1 (effective against PV1), 100,000 infectious units of the Sabin 2 strain, and 600,000 infectious units of Sabin 3. The vaccine contains small traces of antibioticsneomycin and streptomycin—but does not contain preservatives.
قطروں والی ویکسین میں چند قباحتیں ہیں۔ سب سے پہلی تو یہ کہ پولیو کے نیم مردہ جراثیم اتنی طاقت حاصل کر لیں کہ تندرست جراثیم کے برابر ہو جائیں اس طرح وہ بیماری پھیلانے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ خوش قسمتی سے ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ یعنی اندازاً ساڑھے سات لاکھ میں سے ایک بچہ اس کا شکار ہو سکتا ہے  اور یہ بھی ان بچوں میں ہوتا ہے جن کا دفاعی نظام کمزور ہوتا ہے یا اس میں اس بیماری کے جراثیم کے خلاف ایجنٹس بنانے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔
دوسرا سب سے اہم مسئلہ اس ویکسین کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا ہوتا ہے۔ گرم ملکوں میں یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ نیم مردہ جراثیم کی وجہ سے ویکسین کا درجہ ء حرارت کم رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ 

کیا ویکسین دینے کے باوجود بچے اس بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں؟
بعض صورتوں میں ویکسین بہت موءثر ثابت نہیں ہوتی۔ مثلاً بعض افراد میں بیماری کے جراثیم کے خلاف اینٹی باڈیز بنانے کی صلاحیت نہیں ہوتی اس لئے وہ ویکسینیشن کے باوجود بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ دوسری اہم وجہ ٹیکوں کے لگانے کے وقت یعنی ٹائم ٹیبل کا دھیان نہ رکھنا، تیسری اہم وجہ ویکسین کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے وقت انہیں ٹھنڈا رکھنے میں ناکام رہنا۔

کیا پولیو ویکسین سے بانجھ پن پیدا ہوتا ہے؟
جی نہیں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اس سلسلے میں نہ صرف سرٹیفیکیٹ جاری کر چکی ہے بلکہ پمفلٹس تقسیم کرا چکی ہے کہ پولیو ویکسین نہ صرف معیاری ہے بلکہ اس طرح کے کوئ امکانات نہیں ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ تمام ترقی یافتہ ممالک میں یہ ویکسین بچوں کو دی جاتی ہے کیا یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو بانجھ کر رہے ہوں دوسری طرف یہ ویکسین انیس سو پچاس کی دہائ سے دی جارہی ہیں۔ آج ساٹھ سال بعد بھی ایسی کوئ تحقیق یا مشاہدہ سامنے نہیں آ سکا۔
بانجھ پن کی دیگر متعدد وجوہات ہیں جنکی طرف یہ عناصر کام کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور ان میں سب سے پہلی وجہ ماحولیاتی آلودگی ہے۔ کاشتکاری کے لئے فرٹیلائزرز کا استعمال، کیڑے مار ادویات یہ سب بھی تو بانجھ پن پیدا کر سکتی ہیں حتی کہ ذہنی تناءو بھی بانجھ پن پیدا کر سکتا ہے۔ انکے خلاف کیوں نہیں کوششیں ہوتیں۔

کیا پولیو ویکسین کے لئے بچوں کا خون چاہئیے ہوتا ہے؟
جی نہیں ، پاکستان میں جو ویکسین دی جاتی ہے یہ قطروں کی صورت میں ہوتی ہے اور اس کے لئے کسی بھی قسم کے انجکشن یا خون کے سیمپل کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔

  پاکستان میں بچوں کی ویکسینیشن کے لئے دو سال کی عمر تک مندرجہ ذیل چارٹ پہ عمل کیا جاتا ہے۔  پانچ سال کی عمر تک ڈی پی ٹی اور پولیو کے قطروں کا ایک بوسٹر دیا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ بچوں کو ٹائیفائڈ کے بوسٹر بھی دئے جاتے ہیں جو ہر تین سال کے وقفے سے لگتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس اے کے بھی ٹیکے میسر ہیں جو لگوانے چاہئیں۔

  اینٹی جن
عمر
 بی سی جی کا ٹیکہ دائیں ہاتھ پہ اوپر کی جانب جلد کے نیچے لگے گا۔ پولیو کے دو قطرے پلائے جائیں گے اور ہیپاٹائیٹس بی سے بچاءو کے انجکش بائیں ران کے گوشت میں لگیں گے۔

 پیدائش کے فوراً بعد
 پانچ بیماریوں کے خلاف ٹیکے لگیں جو اس طرح ہیں، ڈی پی ٹی کا ٹیکہ، ہیپاٹاٹئیس بی کا ٹیکہ اور ایچ آئ بی،  اسکے علاوہ پولیو ویکسین کے دو قطرے۔

 چھ ہفتوں پہ
 وہی پانچ بیماریوں کے ٹیکے جو چھ ہفتوں پہ لگائے گئے اور پولیو ویکسین کے دو قطرے۔

 دس ہفتوں پہ
 وہی پانچ بیماریوں کے ٹیکے جو پہلے لگے تھے اور پولیو ویکسین کے دو قطرے

 چودہ ہفتوں پہ
 نمونیا کا ٹیکہ جو کہ دائیں ران میں لگے گا

 چھ ہفتوں پہ

 نمونیا کا ٹیکہ بائیں ران میں لگے گا
 دس ہفتوں پہ
 نمونیا کا ٹیکہ بائیں ران میں لگے گا

 چودہ ہفتوں پہ
   خسرہ کا ٹیکہ جو الٹے ہاتھ پہ لگے گا

 نو مہینے پہ
 خسرہ کا ٹیکہ اور چکن پاکس کا ٹیکہ
 
 پندرہ مہینے پہ

پولیو کے جراثیم بیمار شخص کے فضلے کے ذریعے ایک شخص سے دوسرے شخص کو پھیل سکتے ہیں۔ بالخصوص ہمارے ملک میں جہاں لوگ ہاتھ دھونے یا صفائ رکھنے سے نا آشنا ہوتے ہیں اور جہاں ایک بڑے علاقے میں بیت الخلاء کا یا سیوریج نظام کا کوئ تصور نہیں ہوتا۔ اس بیماری کے تیزی سے پھیلنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ 
یاد رکھیں پولیو کی بیماری میں اگر بچہ مرنے سے بچ جائے تو بھی اسکے معذور ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ معذوری،  دماغی معذوری سے جسمانی معذوری تک کوئ بھی شکل لے سکتی ہے۔ بچہ ایسی حالت میں بھی جا سکتا ہے کہ بستر پہ کروٹ نہ لے سکے اور اپنا ہاتھ ہلا کر اپنے جسم پہ سے ایک مکھی بھی نہ ہٹا سکے۔ ایسا معذور انسان ایک خاندان کی معیشت پہ نہ صرف بوجھ ہوتا ہے بلکہ چونکہ وہ اپنی کفالت کے لئے کچھ نہیں کر سکتا تو دیگر رشتے دار بھی اس میں دلچسپی نہیں لیتے۔ یہ میں آنکھوں دیکھی بتا رہی ہوں کہ کس طرح والدین بلک بلک کر دعا کرتے ہیں کہ ذہنی طور پہ معذور اولاد کو انکی زندگی ہی میں موت آجائے۔ خاص طور پہ اگر یہ اولاد لڑکی ہو تو دیگر ہزار طرح کی پیچیدگیاں کھڑی ہوتی ہیں۔



پھر کیوں نہ ہم اپنی ساری کوششیں اس بات کی طرف مرکوز رکھیں کہ ہمارے بچے صحت مند رہیں۔
بچوں کو پیدا کرنے کا فریضہ تو جانور بھی انجام دیتے ہیں لیکن انہیں صحت مند زندگی حاصل کرنے میں مدد دینا اور انکے لئے اپنے معاشرے کو محفوظ بنانا یہ عمل ایک ذمہ دار انسان ہی انجام دے سکتا ہے۔

1 comment:

  1. بہت اچھے طریقے سے لکھا گیا مضمون ہے. اگر ایک بھی فرد یہ سب پڑھ کے پولیو کے خلاف جہاد میں حصہ بن جائے تو سمجھیے آپ کی لکھائی کا حق ادا ہو گیا-

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ