Monday, August 27, 2012

مسیار نکاح

اپنے پہلے شوہر کے انتقال کے فوراً بعد وہ سعودی عرب میں ایک طویل عرصہ گذار کر پاکستان واپس آگئیں۔ جب گفتگو کے دوران مجھے پتہ چلا کہ انکی دوسری شادی کو بھی پانچ چھ سال کا عرصہ گذر چکا ہے لیکن انکے شوہر انکے ساتھ نہیں رہتے بلکہ اپنی پہلی مرحوم بیوی کے بچوں کے ساتھ اپنے گھر میں رہتے ہیں اور وہ اپنے پہلے شوہر کے بچوں کے ساتھ اپنے گھر میں رہتی ہیں تو مجھے نہایت اچنبھا ہوا۔
 یہ کیسا میاں بیوی کا تعلق ہے؟ میں نے بالکل پاکستانی ذہن سے سوچا۔ ایک تو یہی بات قابل اعتراض ہے کہ پچاس سال سے اوپر کی خاتون دوسری شادی کرے وہ بھی وہ جسکے پانچ بچے ہوں۔ بڑی بیٹی کی شادی ہو چکی ہو۔  اور دونوں ساتھ بھی نہ رہیں۔ کیونکہ اگرہمارے  یہاں کوئ خاتون دوسری شادی کرتی ہے تو بنیادی مقصد تحفظ اور پیسہ ہوتا ہے۔
لیکن گھر واپس آ کر میں نے سوچا، کیا شادی محض معاشرتی تحفظ اور معاشی حالات کو مستحکم رکھنے کے لئے کی جاتی ہے؟
 اسکے چند دنوں بعد ایک محفل میں ادھر ادھر کی باتیں ہو رہی تھیں کہ کسی نے تذکرہ چھیڑ دیا کہ یہ جو سنّی، شیعوں کو متعہ نکاح پہ اتنا برا بھلا کہتے ہیں  یہ اپنے سنّی مسیار نکاح کی بابت کیوں نہیں بات کرتے۔ ایک دفعہ پھر میں نے ہونّق ہو کر پوچھا کہ یہ مسیار نکاح کیا ہوتا ہے؟
 جواب ملا یہ بھی متعہ سے ملتی جلتی چیز ہوتی ہے آپ جا کر نیٹ پہ دیکھ لیں یا اپنے کسی اسکالر سے پوچھیں۔ تس پہ کسی اور نے بتایا کہ ایک صاحب نے کئ اسلامی مدرسوں کو مسیار نکاح کی بابت لکھا کہ انہیں معلومات بہم پہنچائ جائیں لیکن انہیں کہیں سے جواب نہیں ملا۔ اس لئے وہ نہیں جانتے کہ مسیار نکاح کیا ہوتا ہے البتہ یہ معلوم ہے کہ یہ سنّی نکاح کی ایک قسم ہے جو کچھ شیعہ متعہ نکاح سے مشابہت رکھتی ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ اس سارے کے بعد میں نے رات گھر واپس آکر نیٹ گردی کی۔ جناب، تو یہ اسلامی نکاح کی ایک قسم ہے۔
 تمام تر مطالعے کے بعد یہ بات سامنے آئ کہ مسیار نکاح اسلام میں حلال ہے۔ نہ صرف مسلمان آپس میں بلکہ اہل کتاب سے بھی کر سکتے ہیں۔ یہ عام نکاح سے کس طرح مختلف ہوتا ہے؟ یہ متعہ نکاح سے کیسے مختلف ہوتا ہے؟
نکاح مسیار، ایسا اسلامی معاہدہء نکاح ہے جس میں ایک خاتون اپنی مرضی سے اپنے بہت سارے حقوق سے دستبردار ہو جاتی ہے۔ مثلاً شوہر کے ساتھ رہنا، اگر اسکی ایک سے زائد بیویاں ہیں تو اوقات کی برابر تقسیم، نان نفقہ یعنی شوہر اسے گذر بسر کے لئے کوئ خرچہ نہیں دے گا اگرچہ کہ اسے بھی دونوں فریقین کی مرضی سے معاہدے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اور نہ ہی وہ رہائش مہیا کرے گا۔ 
 مہر کی رقم فریقین کی مرضی سے طے کی جاتی ہے۔ مہر اسلامی نکاح میں وہ رقم ہے جو لڑکی کو ادا کی جاتی ہے چاہے نکاح کے وقت یا نکاح کے بعد کسی بھی وقت لڑکی کے طلب کرنے پہ۔
یعنی عورت، اپنے والدین کے گھر یا اپنے ذاتی گھر میں رہتی ہے۔ شوہر اس سے ملنے کے لئے جاتا ہے جیسا وقت دونوں فریقین چاہیں منتخب کریں۔
شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے عام طور پہ عورت پالتی ہے۔ مجھے یہ نہیں پتہ چل سکا کہ آیا ان بچوں کا باپ کی وراثت پہ حق ہوتا ہے یا نہیں۔
 نکاح کے بعد بیوی اگر ان سب چیزوں کے لئے دعوی کرے تو اسکا دعوی صحیح ہوگا۔ اب اسکا انحصار شوہر پہ ہے کہ وہ اسے نتیجے میں یہ تمام اشیاء دے یا طلاق دے کر چھٹی پائے۔
اس ضمن میں اسلامی علماء کے درمیان اختلاف ہے کچھ اسے اخلاقی طور پہ اچھا نہیں سمجھتے اگرچہ حلال سمجھتے ہیں۔ الالبانی کے نزدیک یہ نکاح اسلامی روح سے متصادم ہے اس لئے ناجائز ہے۔ اسلامی شادی کی روح یہ بیان کی جاتی ہے کہ فریقین ایک دوسرے سے محبت کریں اور ایکدوسرے سے روحانی خوشی حاصل کریں۔  اگرچہ عملی سطح پہ ہم دیکھتے ہیں کہ محبت کی شادی ہمارے یہاں ایک لعنت سے کم نہیں اور ہم بنیادی طور پہ یہی سمجھتے ہیں کہ اسلامی شادی کا مقصد ایک مرد کی جنسی ضروریات کا حلال طریقے سے پورا ہونا ہے اور عورت محض جنس کا ایک ذریعہ ہے۔ 
 الالبانی کے نزدیک اسکے نتیجے میں ایک خاندان تشکیل نہیں پاتا اور نہ ہی عورت کو تحفظ مل پاتا ہے اور نہ ہی بچے ایک مستحکم خاندان سے آگاہ ہو پاتے ہیں۔ 
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ یہ شادیاں طلاق پہ ختم ہوتی ہیں کیونکہ مرد عام طور پہ یہ شادی اپنی جنسی ضرورت کے لئے کرتا ہے۔
متعہ اور مسیار نکاح میں صرف ایک فرق نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ متعہ ایک مقررہ مدت کے لئے کیا جاتا ہے مدت کے اختتام پہ معاہدے کی تجدید کی جا سکتی ہے۔
 اب فقہے سے ہٹ کر ہم دیکھنا چاہیں گے مسیار نکاح کی ضرورت کیسے وجود میں آئ۔ آج کے زمانے میں یہ عرب ریاستوں بالخصوص سعودی عرب اور مصر میں عام ہے۔ جہاں امیر مرد وقت گذاری کے لئے یہ شادیاں کرتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ بتائ جاتی ہے کہ یہاں عام اسلامی نکاح کے لئے مرد پہ بہت زیادہ معاشی دباءو ہوتا ہے۔
وہ عورتیں جنکی  شادی اس وجہ سے نہیں ہو پارہی ہو کہ کوئ مرد انکی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں مثلاً  بوڑھی یا بیوہ عورتیں یا وہ عورتیں جن پہ اپنے والدین یا بہن بھائیوں کی ذمہ داریاں ہیں۔ یہ سب مسیار نکاح سے مستفید ہو سکتی ہیں۔ اگرچہ اس بات کے امکان زیادہ ہیں کہ یہ مردوں کی زیادہ جنسی آزادی کا باعث بنیں گی اور معاشرے میں خآندانی استحکام کو نقصان پہنچائیں گی۔
یہ عین ممکن ہے کہ یہ نکاح اسلام سے پہلے بھی رائج ہو۔ اسلامی قوانین کی اکثریت عرب کے قبائلی معاشرے سے تعلق رکھتی ہے۔ ان میں سے بیشتر کو اصطلاحی طور پہ تبدیل کیا گیا ہے۔ 
 پاکستان، ہندوستان کے بر عکس عرب میں شادی کے بعد بیوی کو الگ گھر میں رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں مشترکہ خاندانی نظام ہندءووں کے زرعی معاشرے کی وجہ سے آیا جسکا عرب میں کوئ خاص تصور نہیں۔ اگر کوئ پاکستانی، مشترکہ خاندانی نظام کو بہتر سمجھتا ہے تو اسے جان لینا چاہئیے کہ یہ عرب میں نہیں ہوتا۔ اس لئے اسلامی ثقافت کا حصہ نہیں ہے۔
چونکہ اس نکاح کا بنیادی مقصد صرف جنسی ضرورت کو پورا کرنا ہی نظر آتا ہے اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں جنس کی بڑی اہمیت ہے اور اسے بنیادی انسانی ضرورت سمجھا جاتا ہے۔ یوں عام اسلامی نکاح کے ساتھ اس قسم کے نکاح کی بھی گنجائش رکھی گئ ہے۔   یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ عرب معاشرہ جنس کے معاملے میں اتنا ہی کھلا ہے جتنا کہ مغربی معاشرہ جس کی بے حیائ پہ ہم ہر وقت لعن طعن کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ عرب میں یہ باہر گلیوں میں نظر نہِں آتا۔ لیکن گھروں میں یہ اس سے کہیں زیادہ شدید حالت میں موجود ہے۔
قرآن پڑھتے ہوئے بھی میں اکثر سوچتی ہوں کہ جب ایک چھ سال کا عرب بچہ اسے پڑھتا ہوگا تو کیا وہ اسکے معنی نہیں سمجھتا ہوگا قرآن ایک ایسی کتاب جس میں جنس اور شادی کے معاملات کو کافی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
اسکے ساتھ ہی یہ خیال بھی آتا ہے کہ جب بھی ہمارے یہاں یہ مسئلہ سر اٹھاتا ہے کہ ہائ اسکول یا کالج کی سطح پہ بچوں کو جنس سے آگہی دینا ضروری ہے تو سب سے زیادہ مذہبی حلقے اسکے خلاف شور مچاتے ہیں۔ آخر یہ تضاد کیوں؟
آخر ایسا کیوں ہے کہ ویسے تو ہمارے یہاں عرب معاشرتی اقدار کو اسلامی معاشرتی اقدار کہہ کر پیش کیا جاتا ہے۔ عرب ثقافت کو اسلامی ثقافت کا متبادل سمجھا جاتا ہے۔  لیکن جب ان اقدار کی باری آتی ہے جو عرب کے ایک کھلے معاشرے کو پیش کرتے ہیں تو ہم صم بکم ہوجاتے ہیں ۔ اس وقت ہم عرب معاشرے کو پاکستانی معاشرے سے الگ کیوں سمجھتے ہیں؟

Tuesday, August 21, 2012

دلیل کے دشمن

انہیں اور ہیں کون  بہکانے والے
یہی آنے والے، یہی جانے والے
 لیکن بات جب اندیشے کی حد سے نکلتی ہے تو جادو کی حدوں میں داخل ہوجاتی ہے شاید اسی لئے کہتے ہیں جادو وہ جو سر چڑھ کے بولے۔ یعنی جادو جب بولتا ہے تو دنیا میں کچھ بھی باقی رہے اگلے کا سر باقی نہیں رہتا۔ جی ، میرا شارہ عقل ہی کی طرف ہے۔ ایک شخص جسے گمان ہو گیا ہو کہ اس پہ جادو کیا گیا ہے۔ اس کو کوئ بھی عقل کی بات سمجھاوی جاوے ہرگز اسکی عقل میں سما نہ پاوے۔
لوگ کہتے ہیں جادو برحق ہے اسکا نہ ماننے والا کافر ہے۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ اس قول کی ترویج کرنے والا یقیناً جادو کا توڑ جانتا ہے جبھی اپنے قول میں اتنا اٹل ہے۔
علم کی کمی سے اس کا تعلق نہیں۔  اچھے اچھے با شعور لوگ اس مرض میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ اس لئے نہ صرف یہ کہ جادو کا توڑ کرنے والوں کا کاروبار خوب پھل پھول رہا ہے بلکہ اب تو مختلف چینلز پہ بھی اسکے اثرات دور کرنے کے طریقے بتاءے جاتے ہیں۔
لیکن جب اخبار کے ایڈِٹوریل صفحے پہ ایسے مضامین ملیں جیسا کہ ابھی دو ہفتے پہلے کے ایکسپریس اخبار میں ایک ایڈوکیٹ اعوان صاحب کا مضمون تھا تو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔  شاید وہ عاملوں وغیرہ کی برائ میں لکھنا چاہ رہے تھے لیکن اس سے پہلے انہوں نے، انہی پرانے فرسودہ خیالات کی تصدیق میں لکھا جو کہ جنات کے لئے رائج ہیں۔ یعنی جنات ہوتے ہیں وہ گھوڑے کی لید، گوبر یا ہڈی وغیرہ کھاتے ہیں۔ وہ مسلمان بھی ہوتے ہیں تو ہندو بھی۔ انکا بھی یوم حساب ہوگا ، مسلمان جن چھتوں پہ رہتے ہیں اور غیر مسلم جنات سنسان مقامات پہ۔ ان سب حقائق پہ آمنا و صدقنا کہنے کے بعد انہوں نے جب عاملوں اور تعویذ کرنے والوں کو برا بھلا کہنا شروع کیا تو یہ بات ایک دم مذاق لگی۔
جب ایک شخص جادو اور جنات پہ یقین رکھتا ہے تو اسی کے بعد اس پہ یہ نوبت بھی آتی ہے کہ وہ ان عاملوں سے جو جنات پہ قابو پا لینے کا ہنر جانتے ہیں اور جادو کا توڑ کرتے ہیں، ان کی خدمات کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔
رسول اللہ نے جادو کا توڑ بتایا اور وہ ہے معوذتین سورتیں۔ ایک آسان  اور سادہ سا حل۔ یہ ذہن میں رکھنا چاہئیے کہ ڈیڑھ ہزار سال پہلے جب یہ جادو کا مرض بالکل عام تھا۔ معاشرے کو اس وباء سے نکالنے کے لئے یہ حل نفسیاتی لحاظ سے چنا گیا ہوگا۔ لیکن جیسا کہ ہم عملی سطح پہ دیکھتے ہیں کہ جو دماغ جادو کو بر حق جانتا ہے اسکی تسلی اس باب میں محض ان سورتوں سے نہیں ہوتی۔  وہ کسی پہنچے ہوئے عامل کی تلاش میں رہتا ہے۔ جادو جیسی اسرارکے رس  سے بھری چیز کی  کسی غیر اسراری عمل سے کیسے تسلی ہو سکتی ہے۔ حالانکہ یہ اسرار بھی کم نہیں کہ کیسے چند الفاظ کے بولنےسے جادو ٹوٹ جاتا ہے لیکن جب تک الو کا خون، بکرے کے شانے کی ہڈی، قبر کی مٹی، آدھی رات کا سناٹا، سیہ کا کانٹا، کالے رنگ کا کپڑا اور اس قماش کی دیگر اشیاء شامل نہ ہوں سچ پوچھیں تو اسرار کا اصرار بڑھے جاتا ہے۔
جادو کی کہانی بہت پرانی ہے۔  جب انسان نے پہلے پہل اپنے ماحول میں دلچسپی لینا شروع کیا۔ اس نے بولنا سیکھا، اس نے اپنے خیالات دوسروں تک پہنچانا سیکھا تو اس نے اپنے طور پہ یہ فرض کیا کہ اسکے اردگرد کے ماحول کو غیر مرئ طاقتیں کنٹرول کرتی ہیں۔ کیونکہ اسے کوئ بارش برساتا نظر نہیں آتا۔ اسے معلوم نہیں ہوا کہ زلزلے کیسے آتے ہیں۔ وہ نہیں جانتا کہ کیسے شکار کی فراوانی ہوتی ہے اور کیسے قحط آجاتے ہے۔ 
چونکہ وہ سوچ سکتا تھا  اس لئے اس نے جانا کہ ان طاقتوں کی توجہ کا مرکز وہ خود یعنی انسان ہے۔  اس نے یہ بھی فرض کیا کہ اسکے مصائب اور اسکی خوشیاں سب انہی کے مرہون منت ہیں وہ بارش بھی لاتے ہیں اور طوفان بھی۔ اس نے یہ بھی فرض کیا کہ جب یہ طاقتیں اس سے خوش ہوتی ہیں توکھانے کو اچھا ملتا ہے، زندگی سہولتوں سے بھرپور رہتی ہے، شکار ملتا ہے ، بہتر پناہ ملتی ہے   اور جب ناراض ہوتی ہیں تو بادل گرجتے ہیں، سیلاب آتے ہیں ، زلزلے آتے ہیں، آندھیاں چلتی ہیں، بیماریاں آتی ہیں، کھانے کو نہیں ملتا۔
یہاں پہنچ کر اس نے یہ بھی فرض کیا کہ اگر وہ چاہے تو ان طاقتوں کو اپنے قابو میں لا سکتا ہے تب وہ اس کے فائدے کے کام کریں گی اور اسکے نقصان میں جانے والے کام نہیں ہونگے۔ ان ماورائ طاقتوں کو قابو میں لانے کی سوچ نے جادو کو جنم دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی سوچ نے دوسری طرف سائینس کو بھی جنم دیا۔  جادو اور سائینس دو جڑواں لیکن متضاد خیالات کے ساتھ وجود میں آئے۔ لیکن سائینس نے اپنی بنیاد دلیل پہ رکھی, کسی ماورائ طاقت سے الگ دلیل جو قدرتی قوانین کو ایک دوسرے سے جوڑے۔ یعنی اگر ہم کسی عمل کے ہونے کے طریقے کو جان لیں تو اس پہ قابو پا سکتے ہیں۔ اگر ہم جان لیں سیلاب اور قحط کیسے آتے ہیں تو ہم ان پہ قابو پا لیں گے۔ اگر ہم جان لیں کہ ہم بیمار کیوں ہوتے ہیں تو بیماری پہ قابو پا لیں گے۔
دلیل کے ساتھ چلنے میں ایک بظاہر نقصان اسرار کے ٹوٹ جانے کا ہوتا ہے۔ اسرار، جو ہم پہ حکومت کرتا ہے اور جب یہ ٹوٹ جاتا ہے تو ہم اس پہ حکومت کرتے ہیں۔ اس مرحلے پہ پہنچ کر کیا آپکو یہ نہیں لگتا کہ ہم میں سے کچھ لوگ اسرار کے غلام بنے رہنے میں لذت پاتے ہیں اور کچھ لوگ اسرار کو محمود غزنوی کی طرح ڈھا دینے میں۔
آئیے ایک ویڈیو دیکھتے ہیں۔ دلیل کے دشمن۔


 

Tuesday, August 14, 2012

جن پہ ناز ہے

یہ پوسٹ میں نہیں آپ لکھ رہے ہیں۔ میں ایک حصے دار ہوں۔ کرنا یہ ہے کہ آپ اس میں وہ نام ڈالیں جنہیں آپ سمجھتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی سطح پہ اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے پاکستان کے لئے وجہ ء افتخار ہیں۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ میم۔
میم سے آتے ہیں محمد علی جناح۔
عبدالستار ایدھی
حکیم محمد سعید
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی
گاما پہلوان
نورجہاں
مہدی حسن
جہانگیر خان
صادقین
گل جی
عمران خان
اس وقت جلدی میں یہ نام یاد آئے۔ باقی آپ شامل کریں۔

Thursday, August 9, 2012

سموسہ انصاف سے فحاشی انصاف تک

چلیں جناب، چیف جسٹس صاحب نے جماعت اسلامی  کے سابق امیر جناب قاضی حسین احمد صاحب کی درخواست پہ ٹی وی چنلز کی بے حیائ کا نوٹس لے لیا ہے اور پیمرا کو فی الفور فحش چینلز بند کرنے کی ہدایت کی گئ ہے۔ میں نے ایک نظر جلدی سے چینلز دیکھے کہ فحش والے کو بند ہونے سے پہلے دیکھ لوں۔ لیکن یہ سب تقریباً وہی ہیں جو کافی عرصے سے چل رہے ہیں۔ ان میں بھی غیر ملکی اب خاصے کم ہیں جبکہ دیسی کافی زیادہ ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دیسی چینلز میں سے کوئ فحش ہے۔
میرا تو خیال ہے کہ ملک میں اب تمام اداروں کو ختم کر کے بس چیف جسٹس صاحب کی صوابدید پہ چھوڑ دینا چاہئیے۔ کیونکہ سپریم کورٹ نے پچھلے دنوں پنجاب میں سموسوں کی قیمتوں میں استحکام لانے کا نوٹس لیا۔ جس سے عوام کے سنگین مسائل میں اچانک کمی واقع ہوئ۔ اور سموسہ انصاف کی اصطلاح سے کان روشناس ہوئے۔
 فحاشی کے خلاف اس عدالتی حکم کے بعد اب وہ دن دور نہیں جب انڈونیشیا کی طرح ہمارے یہاں بھی حلال ٹی وی شوز ہوا کریں گے۔ اس وقت تو چند ایک ہی شوز ایسے ہیں جنہیں حلال کہا جا سکتا ہے۔ ان میں سے سر فہرست عامر لیاقت حسین اور مایاخان کے شوز ہی ہونگے۔
مزید یہ بھی سنا گیا کہ چونکہ چیف جسٹس صاحب کو معلوم نہیں کہ کون کون سے پروگرام فحش ہیں اس لئے جناب انصار عباسی اور جناب اوریا مقبول جان کو اس چیز کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اگر یہ اطلاع درست ہے تو پھر ہر ایسا پروگرام فحش زد میں آ سکتا ہے جس میں خواتین سر پہ دوپٹہ نہ لئے ہوئے ہیں۔ خواتین ایک بار پھر ہشیار باش ہوں۔
ایک مبصر کا کہنا ہے کہ خواتین کے سینیٹری پیڈز کے اشتہارات دراصل فحش ہوتے ہیں اور انہیں فیملی کے ساتھ نہیں دیکھا جا سکتا۔ ایک مدت تک میرا خیال بھی یہی تھا۔ پھر ایک دن مجھے پتہ چلا کہ پاکستانی خواتین کی ایک بڑی تعداد کو یہی نہیں پتہ کہ ناپاکی کے دنوں میں اپنے آپکو صاف ستھرا کیسے رکھا جائے؟  اور اس وجہ سے وہ ایسے جنسی امراض کا شکار ہوجاتی ہیں جس کا نتیجہ بانجھ پن بھی ہو سکتا ہے۔ آخر انہیں اس بارے میں کیسے آگاہ کیا جائے؟
فحاشی کا تصور کتنا باریک ہو سکتا ہے۔ اس کا اندازہ مجھے اس وقت بھی ہوا جب فسچولا سے متعلق ایک دستاویزی فلم کی ایڈیٹنگ ہو رہی تھی اور اس میں ایک خاتون کو دکھایا گیا جو کہ کھڑی ہوئ تھی لیکن زمین پہ اس کا پیشاب پھیل رہا تھا۔ اعتراض ہوا کہ یہ منظر نامناسب ہے۔ اسے کاٹ دیا جائے۔ ذہن میں رہے کہ فسچولا ایک ایسا مرض ہے جس سے خاص طور پہ دیہی علاقوں کی خواتین دو چار ہوتی ہیں کیونکہ یہ بچے کی پیدائش میں دیر ہونے کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ نتیجے میں کسی خاتون کو اپنے بول بزار پہ اختیار نہیں رہتا اور یہ اسکے جسم سے مسلسل بہتے رہتے ہیں۔ لیکن حیاء کا تقاضہ ہے کہ اسے زمین پہ بہتے ہوئے نہ دکھایا جائے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ٹی وی پہ ڈرامہ آرہا تھا امجد اسلام امجد کا لکھا ہوا۔ شاید پہلا ڈرامہ تھا  جس میں ہیروئِن کو چھاتی کا کینسر ہوجاتا ہے۔ میری ایک استاد نے دوسری استاد سے اس وقت گفتگو کرتے ہوئے کہا ٹی وی پہ کس قدر بے حیائ پھیل گئ ہے۔ ہیروئین کو مرض بھی دکھایا تو بریسٹ کینسر کا۔ حالانکہ یہی بریسٹ کینسر اب پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کی ہلاکت کا بڑا باعث ہے۔
سوال یہ درپیش ہوتا ہے کہ وہ کون سا سستا ترین ذریعہ ہو سکتا ہے جس سے آبادی کے بڑے حصے کو معلومات پہنچائ جا سکتی ہوں۔ یقیناً الیکٹرونک میڈیا۔
جب میں بلوچستان کے ایک چھوٹے سے ساحلی قصبے ارمارہ میں جسکی آبادی بمشکل دس ہزار ہوگی۔ لوگوں کو جھونپڑا ہوٹل میں ڈش کے ذریعے انڈیئن فلمیں دیکھتے ہوئے دیکھتی ہوں تو میرے ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ الیکٹرونک میڈیا کی پہنچ کتنی دور افتادہ جگہوں تک ہے۔
پھر ایک اور سوال ابھرتا ہے۔ فحاشی اور بے حیائ کی ایک مستقل تعریف کیا ہو گی؟
ٹی وی ڈرامے میں بریسٹ کینسر کا بیان کسی زمانے میں فحاشی ہو سکتا ہے جبکہ آج ہمیں یہ معلومات عام کرنے کی ضرورت ہے کہ خواتین اس مہلک مرض سے کیسے بچاءو کر سکتی ہیں۔
ایک اور اہم سوال، بے حیائ کا نشانہ خواتین ہی کیوں بنتی ہیں۔ سر سے دوپٹہ اترا نہیں کہ بے حیائ کا لیبل نازل۔  جو خاتون بغیر آستین کا لباس پہن لے وہ مہا بے حیاء۔ اپنی شلواروں کو کھجانے والے مرد ، ہونٹوں پہ زبان پھیرنے والے مرد، خواتین کو گھورنے والے مرد، خواتین پہ آوازیں کسنے والے مرد، انکے جسمانی خد و خال کا چٹخارے لے کر تذکرہ کرنے والے مرد،  یہ سب بے حیاء کیوں نہیں کہلاتے۔ یہ سب مرد کیا معاشرے میں فحاشی نہیں پھیلا رہے ہیں۔ حتی کہ روڈ پہ کسی جھگڑے کے دوران جب مرد ایکدوسرے کی ماءووں اور بہنوں کے چیتھڑے اڑا رہے ہوتے ہیں تو بھی کسی کو ذرا توفیق نہیں ہوتی کہ انہیں روکے۔ در حقیقت قاضی صاحب ، عامر لیاقت حسین جیسے بے حیاء شخص کے ٹی وی پہ آنے کے خلاف کوئ درخواست دائر نہیں کرتے لیکن انہیں کسی خاتون کے بے حیاء لباس میں آنے پہ اعتراض ہوگا۔  بے حیائ کے یہ عملی مناظر ہمارے معاشرے میں عام ہیں۔ انکا خیال قاضی حسین صاحب کو کب آئے گا۔ اوریا مقبول جان اور انصار عباسی اسکے بارے میں کب لکھیں گے تاکہ میری نظر میں بھی معتبر بنیں۔
خیر، ایک دورِ حکومت، جماعت اسلامی کا فوج کے زیر سایہ گذرا اور اب شاید جماعت اسلامی عدلیہ کے ذریعے حکومت کرنا چاہے گی۔

نوٹ؛ چند دنوں کے لئے خاکسار ایسے علاقوں میں رہے گی جہاں انٹر نیٹ کی سہولت موجود نہیں ہے اس لئے اس تحریر کے تبصرے اشاعت میں کچھ وقت لیں گے۔  

Friday, August 3, 2012

سائینس کا بحران

پاکستان میں کوئ سیاسی یا معاشرتی انقلاب آئے یا نہ آئے، سائینسی انقلاب دستک دے چکا ہے۔  ایک کے بعد ایک نوجوان سائینسداں اور انکی ایجادیں ایسے سامنے آرہی ہیں جیسے  بغیر دانت والے منہ سے پان کی پیک نکلتی ہے۔ ایک ایجاد  ابھی ابھی سامنے آئ ہے۔ ملاحظہ کریں۔ 
   اس حیرت ناک ایجاد کے ساتھ ہی ایک اور نوجوان سائینسدان کے خیالات سننے کو ملے۔ جسے ہمارے ایک فیس بک کے ساتھی  نے شیئر کیا۔ جس سے ہم بیک وقت رنجیدہ بھی ہوتے ہیں اور تفریح بھی لیتے ہیں۔ اگر مذہب میں عامر لیاقت ایک نئ علامت ہیں تو سائینس میں بھی عامر لیاقتوں کی کمی نہیں ہے۔  دل کو ایک اندیشہ سا لگا ہوا ہے کہ ہو نا ہو یہ وینا ملک کو استغفار سے روکنے کا نتیجہ ہے کہ سائینس کا دجال ہمارے یہاں نازل ہو گیا۔ آئیے یہ ویڈیوز باری باری دیکھتے ہیں۔
پہلی ویڈیو میں ہمارے بوٹنسٹ بارش لانے کا ایک نسخہ بتا رہے ہیں اور اینکر خاتون اس بات کی تصدیق کر رہی ہیں کہ بادل آجانے کے بعد اگر خواتین گھروں میں جھاڑو پھیریں تو بارش برس کر رہتی ہے۔ تو سنئیے کہ بارش کس طرح جھاڑو دینے سےلائ جا سکتی ہے۔


ہمارے نوجوان بوٹنسٹ یہیں پہ بس نہیں کرتے بلکہ اپنے تفکر پہ نیوٹن کے کشش ثقل کے قانون کو بھی نشانہ بنا ڈالتے ہیں۔ ہیں جناب، یہ بھی کوئ سمجھ میں آنے والی بات ہوئ کہ  ایک ہزار کلو گرام کا جسم اور ایک کلوگرام کا جسم ایک ہی رفتار سے زمین پہ گرے۔ نیوٹن کے اس قانون کو اب تک کیسے لوگ صحیح تسلیم کرتے آرہے ہیں؟ آئینسٹائین نے ایسوں کے لئےکہا تھا کہ
“A clever person solves a problem. A wise person avoids it.”
ایک چالاک شخص ایک مسئلے کو حل کرتا ہے لیکن عقل مند اس سے دور رہنا پسند کرتا ہے۔



جس طرح سلاد کی سیزننگ چاہئیے ہوتی ہے اس طرح ہمارے یہاں اب کوئ بھی چیز مذہب کی سیزننگ کے بغیر نہیں ہو سکتی اسکا نمونہ ہمارے یہی بوٹنسٹ پیش کرتے ہیں اور اپنے خیالات میں برکت کے لئے آخیر میں ایک مذہبی تائثر بھی جمع کرتے ہیں۔


 
اہم سوال یہ ہے کہ اب اس وقت جبکہ بجلی کا بحران اپنے عروج پہ ہے۔ پاکستانیوں کی توجہ سائینس کی طرف کیوں مبذول ہو گئ ہے؟ سائینس کا بحران پیدا کیا گیا ہے یا یہ مکافات عمل ہے ؟ سائینس نے انتقام لیا ہے؟
یا کیا انہوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ سائینس ہی انکے مسائل کو حل کر سکتی ہے۔ شاید وہ آئیسٹائین کے ایک اور مقولے پہ عمل کرنا چاہتے ہیں جس میں اس نے کہا کہ اگر آپ اپنے بچوں کو ذہین بنانا چاہتے ہیں تو انہیں پریوں کی کہانیاں سنائیں اور اگر اور زیادہ بنانا چاہتے ہیں تو اور زیادہ کہانیاں سنائیں۔
“If you want your children to be intelligent, read them fairy tales. If you want them to be more intelligent, read them more fairy tales.
اور سائینس انکے لئے پریوں کی کہانیوں سے کم نہیں۔ ایک تضادات سے بھرپور تعلیمی نظام رکھنے کے بعد تو سائینس پریوں ہی کی کہانی لگتی ہے۔ جس میں پری ہاتھ میں جادو کی چھڑی لئے ہوتی اور خبیث جادوگرنی جھاڑو پہ گھومتی پھرتی ہے۔ یہ جھاڑو آج نجانے کیوں بار بار ذکر میں داخل ہو رہی ہے۔ شاید جھاڑو واقعی بارش کا شگن ہو۔ یہاں تو سائینسداں یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو شاید قحط سالی کا سامنا کرنا پڑے۔
کچھ لوگوں کے خیال میں عوامی سطح پہ اس قدر زیادہ محرومی کا احساس بڑھ چکا ہے کہ لوگ ہر اس تماشہ دکھانے والے کے گرد جمع ہو جاتے ہیں جس سے انہیں ذرا بھی توقع ہوتی ہے کہ وہ انکا مسیحا بن سکتا ہے۔ یہ بھی ایک عبرت کا مقام ہے کہ ہم ہر تماشہ دکھانے والے کو پذیرائ دینے کو تیار ہیں۔ یعنی
تیرے انتظار میں کس کس سے پیار میں نے کیا
پانی سے چلنے والی کار کے قصے میں آغا وقار ہی کا نام نہیں آتا بلکہ عبدالقدیر خان صاحب بھی میڈیا میں کچھ زیادہ مثبت انداز سے سامنے نہیں آ سکے۔ ایک متوقع مسیحا نے دوسرے تسلیم شدہ مسیحا کو ٹھکانے لگانے کا بند و بست کر ڈالا۔
 عبد القدیر خان صاحب کا نام اگر چہ کہ سدرۃ المنتہی کا درجہ رکھتا ہے جس سے آگے جانے کی جراءت پرویز مشرف نے ہی کی۔ لیکن اب ان کا سحر بھی ٹوٹتا دکھائ دیتا ہے۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تھا۔ اس وقت خان صاحب کا نام پیچھے ڈال کر ڈاکٹر ثمر مبارک کا نام اخبارات کی زینت بن گیا تھا۔ نواز شریف نے ڈاکٹر ثمر مبارک کو مبارک باد دی۔ نوے کی دہائ میں جب ایسا ہوا تو کراچی کے عوام کی اکثریت نے اسے نواز شریف کی کراچی سے تعلق رکھنے والے اس سائینسدان سے لسانی عصبیت کو وجہ جانا۔
اس وقت کچھ دوستوں نے دبے لفظوں میں کہا کہ دراصل خان صاحب اتنے نیک نہیں جتنے جانے جاتے ہیں اور نہ ہی اتنے بڑے سائینسداں۔ جو لوگ انکے قریب رہتے ہیں وہ انکی شخصی سطحیت کے واقعات سناتے ہیں۔ لیکن اسے انکے خلاف بنی جانے والی سازشوں کا جال سمجھا گیا۔
پھر اسکے کافی عرصے بعد مجھے ایک بلاگ کا لنک ملا۔ جس میں اے کیو خان پہ خاصہ عجیب الزام لگایا گیا تھا۔ سالوں پہلے بھیجے گئے اس لنک کو مجھے تلاش کرنا پڑا۔ اس وقت تو میں نے اسے ہونہہ کہہ کر ایک طرف ڈال دیا تھا۔ یہ ہے اسکا لنک۔ ان لوگوں کے لئے جن کے لئے ڈاکٹر عبد القدیر خان ایک انسپیریشن کی حیثیئت رکھتے ہیں۔ ان سے بے حد معذرت۔
 خیر آئیسٹائین ایک اور مزے کی بات کہتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دنیا جیسی ہم بناتے ہیں ہمارے تخیل کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اسے اپنے خیالات کو تبدیل کئے بغیر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔  
The world as we have created it is a process of our thinking. It cannot be changed without changing our thinking.”
میں سوچ رہی تھی کہ اگر ہم یہ سوچ لیں کہ ہمیں تبدیل ہونا ہے، ہمیں اپنی دنیا تبدیل کرنی ہے تو ہم تبدیلی کا آغاز کس نکتے سے کریں گے؟

Wednesday, August 1, 2012

ہود بھائ کی سازش

کہتے ہیں ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے۔  لیکن ضرورت کی مجبوری دماغی خلل  بھی پیدا کرتی ہے۔ اس سے ایجاد میں  شوخی ء تمنا  ہوتی ہے اور اگر مناسب تعداد میں ہم نوا مل جائیں تو دھمال ڈالنے کا لطف سوا ہوتا ہے۔ میرے جیسے مجبور بھی سر اٹھا کر دیکھنے لگتے ہیں کہ ایجاد کی ماں اب کیا جنم دیں گی۔ فی الحال تو ہفتہ بھر سے زائد ہو گیا اور ایک دفعہ پھر ٹاک شوز کو رواں رکھنے کے لئے ایک کے بعد ایک ڈرامہ ہونے کے علاوہ لیبر روم سے کچھ بر آمد نہیں ہو رہا۔ ایک دفعہ پھر میڈیا اینکرز بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے کھڑے ہیں اور ایک دفعہ پھر کچھ بڑے لوگوں کو آمنے سامنے پہنچا دیا گیا ہے۔ مثلاً ڈاکٹر عبد القدیر اور پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمن۔
 سواس دفعہ لپیٹے میں ہمارے ایٹمی سائینسداں بھی نہ بچ سکے ۔  لگتا ہے ان سب کو پرویز ہود بھائ کی بد دعا لگی ہے۔ یوں مجھے شبہ ہے کہ آغا قادر نامی ڈپلومہ انجینیئر کو شہہ دینے والے حامد میر یا عبد القدیر خان نہیں بلکہ پرویز ہود بھائ ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ آغا قادر کی اس متوقع نوبل ایجاد پہ سب سے پہلے انہی کا اعتراض میں نے پڑھا۔ انہوں نے یہ ٹریپ تیار کیا ہے۔ ملک کے سائینسدانوں  کو لنگڑی دینے کا۔ خیر یہ کانسپیرینسی تھیوری ایک مذاق ہے۔ شوخی ایجاد تمنا کا کانسپیرینسی تھیوری سے بڑا گہرا تعلق ہے۔
اس ایجاد کی خبر سامنے آتے ہی  فخر و انبساط کے نعرے اٹھے۔ نعروں کی اس گونج میں جس نے بھی اپنی آواز بلند کی منہ کی کھائ۔ لوگوں کو اس پہ ہی ملک دشمن عنصر ہونے کا شبہ اٹھا۔ جہاں لکچھ لوگ بگڑ بیٹھے کہ یہ کیا پاکستانی کوئ بھی کارنامہ انجام دیں لوگ اس میں کیڑے نکالنے لگ جاتے ہیں دوسری طرف فزکس کے قوانین کی بقاء کی جنگ لڑنے والے اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ تو تھرمو ڈائنامکس کے پہلے قانون سے متصادم ہے۔ حامیوں نے یہ نہیں کہا کہ تو کیا ہوا آئینسٹائین کے قوانین نیوٹن کے قوانین سے متصادم تھے۔   فزکس کا یہ قانون فزکس کے لئے صحیح ہوگا۔ ہم میٹا فزکس پہ ، فزکس سے زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ مجھے تو درحقیقت یہ جاننے میں دلچسپی ہے کہ انہوں نے کس کے دئیے ہوئے وظیفے سے چمتکار کر دکھایا۔ 

دنیا میں پانی سے کار چلانے کا یہ پہلا دعوی نہیں۔ پہلے جتنے مدعی گذرے ان میں سے زیادہ تر لوگ فراڈ نکلے۔ مغرب میں فراڈ نکلنے پہ کسی کو قومیت کا جذباتی دھچکا نہیں لگتا۔ اس لئے فراڈ کی نشاندہی کرنا کار ثواب کی جگہ کار علم ٹہرتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا فراڈ پاکستان میں ہونا مشکل ہے۔ اس لئے ہم اس سے انکار نہیں کر سکتے البتہ یہ کہ معصوم لوگوں کی ہمارے یہاں کمی نہیں۔ جیسے ایک معصوم حامد میر ہیں جنہوں نے پچھلے تمام مدعیوں کو فراڈ کہنے کے بجائے اپنے انٹرویو میں انکے خلاف سازشوں کا ماحول تیار کرنے کو ترجیح دی۔
 اب تک اس سلسلے میں جو سائینس بیان کی گئ ہے اس میں پانی کوبجلی سے توڑ کر ہائڈروجن گیس تیار کی جاتی ہے۔ یہ عمل الیکٹرولیسس یا برق پاشیدگی کہلاتا ہے۔ پانی کی اس تحلیل سے ہائڈروجن گیس اور آکسیجن  گیس کاآمیزہ پیدا ہوتا ہے جو آکسی ہائڈروجن کہلاتا ہے۔ جسے براءون گیس یا ایچ ایچ او بھی کہتے ہیں۔
 آغا وقار صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک ایسا نظام بنا لیا ہے جس میں نہ صرف پانی ٹوٹ کر ہائڈروجن اور آکسیجن گیسز بنائے گا بلکہ یہ دونوں گیسز توانائ پیدا کرنے کے عمل سے گذر کر دوبارہ پانی میں تبدیل ہوجائیں گی۔  یہاں یہ یہ نکتہ قابل غور ہے کہ پانی ٹوٹتے وقت جتنی توانائ لیتا ہے اتنی ہی توانائ پانی کو ان گیسز کو ملا کر بنانے کے لئے چاہئیے ہوتی یعنی مجموعی تعامل اس طرح ہوگا۔

 
 پانی کے مالیکیول کو بنیادی اجزاء میں توڑنے کے لئے جو توانائ درکار ہوگی وہ الگ ہے جو کہ آغا وقار کی ایجاد میں بیٹری سے حاصل کی جارہی ہے اور بقول انکے بیٹری کی توانائ جنریٹر سے حاصل ہوگی ابتداء میں بعد میں جب کیمیائ تعامل چل پڑے گا تو نہیں چاہئیے ہوگی۔ واضح رہے  کہ پیٹرولیئم مرکبات کی صورت میں زنجیری تعامل چلتا ہے اور توانائ کی زیادہ مقدار تعامل کی ابتداء میں چاہئیے ہوتی ہے جب ایک دفہ تعامل چل پڑتا ہے تو وہ زنجیر کی شکل جاری رہتا ہے۔
چونکہ پانی توڑنے کے لئے توانائ بیٹری سے حاصل کی جارہی ہے اس لئے سامنے جو نظر آرہا ہے وہ یہ کہ گاڑی ایک ان ڈائریکٹ ذریعےسے  دراصل بیٹری کی بجلی سے چل رہی نہ کہ پانی سے۔
لیکن آغا وقار اسے سامنے کی بات قرار نہیں دیتے بلکہ انکا دعوی ہے کہ اس میں ایک راز ہے جو وہ اگر کھول دیں تو پھر پروڈکٹ انکے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ 
 یہاں فیئول سیلز ہوتے ہیں جن میں ہائڈروجن استعمال کی جاتی ہے۔ یہ فیئول سیلز گاڑیوں میں استعمال ہو رہے ہیں۔ ہائڈروجن حاصل کرنے کا کمرشل ذریعہ عام طور سے قدرتی گیس یا پیٹرول مرکبات ہوتے ہیں۔ انہیں توڑ کر ہائڈروجن حاصل کی جاتی ہے۔ اس طرح فیئول سیلز کا بنیادی فائدہ کم آلودہ فضا نظر آتی ہے۔ کیونکہ ہائدروجن جلنے سے کاربن کے آکسائیڈز پیدا نہیں ہوتے جوکہ فضائ آلودگی کا بنیادی سبب ہوتے ہیں۔ فیئول سیلز پہ چلنے والی گاڑیوں کے انجن میں تبدیلی لانی پڑتی ہے۔ پانی کو سورج کی شعاعوں کی مدد سے بھی توڑآ جا سکتا ہے اس سلسلے میں تجربات جاری ہیں ۔ سمندری پودے یہ کام انجام دیتے ہیں لیکن کمرشل سطح پہ اس وقت کوئ سستا طریقہ موجود نہیں۔
آغا وقار صاحب کا ایک انٹرویو اور حامد میر صاحب کے ساتھ انکی سیر دیکھی، پانی سے چلانے کے لئے اس گاڑی کو کرائے پہ حاصل کیا گیا۔ نہ حامد میر صاحب نے اپنی گاڑی پیش کی نہ ان صاحب نے اپنی گاڑی استعمال کی نہ ہی انکے کسی دوست یا قائل شخص نے انہیں اپنی گاڑی دی۔ انٹرویو میں وہ بے دھڑک ایک کے بعد ایک پیچیدہ سائینسی اصطلاحات استعمال کرتے رہے جن سے عام لوگ واقف نہیں۔ یعنی ایک مبصر کا یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ بس نیوکلیئر فیوژن کی اصطلاح باقی بچ گئ۔ ڈپلومہ ہولڈر انجینیئر آغا وقار اپنی 'ایجاد؛ کے بارے میں اتنے زیادہ پر اعتماد ہیں کہ انہوں نے ہمارے محترم استاد پروفیسر ڈاکٹر عطاالرحمن کا بھی ٹیسٹ لے ڈالا۔ 'کیا آپکو معلوم ہے کہ ہائڈروجن گیس کہاں سے آتی ہے؟ مجھے معلوم ہے کہ استاد محترم کا حس مزاح بڑا اچھا ہے اور وہ یقیناً اس سے محظوظ ہوئے ہونگے۔
انٹرویو کے دوران مسلسل زور اس بات پہ رہا کہ حکومت اس سلسلے میں فنڈنگ کرے۔ بقول آغا وقار ، وہ اس پراجیکٹ پہ سوا کروڑ روپے خرچ کر چکے ہیں۔ میرا تو خیال ہے کہ انہیں اسکی تشہیر سے پہلے کم از کم دو گاڑیوں کو مستقل پانی پہ کر دینا چاہئیے۔ سوا کروڑ روپے خرچ کرنے والے شخص کے لئے دو سیکنڈ ہینڈ گاڑیاں ایک ، ڈیڑھ لاکھ کی خریدنا مشکل نہیں۔
وہ لوگ جو ان کی اس 'ایجاد' کے قائل ہو چکے ہیں کم ازکم انہیں تو اپنی گاڑیاں پانی  پہ کر دینی چاہئیں۔ خاص طور پہ حامد میر صاحب۔ وہ کم از کم اپنی گاڑی کے لئے تو فنڈنگ کر ہی سکتے ہیں۔ تاکہ لوگ اس کے قائل ہو کر اسے خریدنا شروع کریں اسکے بعد ہی کمرشل سطح پہ اسکی پیداوار کا سوال اٹھتا ہے۔


  میرا تو آغا وقار سے اس سارے موضوع سے ہٹ کر ایک معصوم سا سوال ہے کہ انکے بقول ڈسٹلڈ واٹر کی بوتل تو دس روپے کی مل جائے گی یہ کم بخت پینے کے پانی کی بوتل اتنی مہنگی کیوں ملتی ہے؟
خیال یہ آرہا ہے کہ اس سے آگے کیا ہوگا؟ کیا آغا وقار میڈیا سے باہر کچھ ثابت کر پائیں گے۔ اگر وہ ثابت نہ کر پائے تو ڈاکٹر عبد القدیر خان جیسے پائے کے سائینسدانوں کا کیا ہوگا۔ پی سی آئ آر کے چیئرمین کس گنتی میں گنے جائیں گے؟ ہود بھائ کی مسکراتی تصویر میں انکی مسکراہٹ کتنی بڑھ جائے گی؟ کیا پروفیسر ڈاکٹر عطاالرحمن ، آغا وقار کو یاد رکھیں گے؟
اور عام لوگ ، کیا عام لوگ تھرمو ڈائنامکس کا پہلا قانون، قانون بقائے توانائ بھول پائیں گے۔ توانائ نہ پیدا کی جا سکتی ہے نہ فنا کی جا سکتی ہے یہ بس ایک شکل سے دوسری شکل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔