tag:blogger.com,1999:blog-4569983599424252816.post7074397163486231130..comments2023-07-20T17:07:41.792+05:00Comments on شوخی ءتحریر: ایک سڑک اور بہت سے خوابعنیقہ نازhttp://www.blogger.com/profile/11189785018959059024noreply@blogger.comBlogger10125tag:blogger.com,1999:blog-4569983599424252816.post-58533042432270277462012-06-17T21:15:47.437+05:002012-06-17T21:15:47.437+05:00کچھ عرصہ قبل ایک مضمون پڑھا تھا کہ جاپان میں اسلام...کچھ عرصہ قبل ایک مضمون پڑھا تھا کہ جاپان میں اسلام کے بارے اتنی دلچسپی پیدا ہو چکی تھی کہ ایک طرح سے ماس کنورژن کا امکان پیدا ہونے لگ گیا تھا۔ اس کے بعد طالبان نے بامیان میں بدھا کے مجسمے مسمار کئے اور نو دو گیارہ یعنی نائن الیون بھی ہوا تو اس کے بعد چل سو چل :)Anonymoushttps://www.blogger.com/profile/02534703583281354998noreply@blogger.comtag:blogger.com,1999:blog-4569983599424252816.post-37257972289144091042009-09-02T21:58:30.691+06:002009-09-02T21:58:30.691+06:00عنیقہ میری دعا ہے کہ کاش آپ کا لکھا ہوا رائیگاں ن...عنیقہ میری دعا ہے کہ کاش آپ کا لکھا ہوا رائیگاں نہ جائے اور لوگوں کے دلوں میں اتر جائے ،اگر ایک شخص بھی آپکی تحریر کو پڑھ کر اپنا اندر سدھار لیتا ہے تو سمجھیئے آپ کامیاب ہوئیں،<br />گوکہ اس کی امید تو کم ہے کہ جن کے گلے جامعہ حفصہ اور 12 مئی پر چلا چلا کر سوکھے جارہے تھے اور قلم سے تحریروں کا سیل رواں بہہ رہاتھاانہیں کراچی حیدر آباد میں ہونے والے مظالم پر سانپ سونگھ گیا ہے،اور اگر قلم چلتا ہے تو صرف اس مقصد کے لیئے کہ کسی طرح اس سچ کو جھوٹ ثابت کیا جاسکے،بس اللہ ہی ہدایت دینے والا ہےAbdullahhttps://www.blogger.com/profile/03638134557340453995noreply@blogger.comtag:blogger.com,1999:blog-4569983599424252816.post-29126351603906995632009-09-02T09:25:01.557+06:002009-09-02T09:25:01.557+06:00لال مسجد کا واقعہ جہاں ایک طرف ہمارے میڈیا کے سازش...لال مسجد کا واقعہ جہاں ایک طرف ہمارے میڈیا کے سازشی کردار کو نمایاں کرتا ہے وہاں اس چیز کو بھی سامنے لاتا ہے کہ کسطرح ہمارے یہاں لوگ مذہب کے نام پر ہر زیادتی کرنے کے لیءے تیار ہو جاتے ہیں۔ شجاعت صاحب چھ مہینے سے زائد عرصے تک ان سے مذاکرات کرتے رہے۔ لیکن مسجد والے تو انوکھا لاڈلا بنے ہوئے تھے کیونکہ انہیں استعمال کرنے کے لءے اتنا چڑھا دیا گیا تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ بس اب انک مرضی کی شریعت نافذ ہو کر رہے گی ۔ شجاعت صاحب کے یہ مذاکرات آپریشن کے آخری دن تک چلتے رہے۔<br /> میں نے اس دس گیارہ دن کے عرصے میں کسی چینل کی کوئ خبر مس نہیں کی۔ اگر انکو ایک دفعہ پھر چلا کر دیکھا جائے تو پتہ چلے گا کہ میڈیا پہلے دن جس شدو مد سے چاہ رہا تھا کہ یہ آپریشن ہو وہی میڈیا آخریدن ان لوگوں کو پاکستان کی تاریخ کے مظلوم ترین لوگ قرار دے طکا تھا۔ یہان یہ ذہن میں رہے کہ اس دوران کوئ اور نہیں خود رشید غازی یہ فرما رہے تھے اور بابار فرما رہے تھے کہ ہمارے پاس حکومت سے لڑنے کے لئے ایک مہینہ تک کا اسلحہ ہے۔ اور مدرسے کے لڑکوں کا اسلحہ لیکر اندھا دھند چلانے کی فوٹیج آپ کسی بھی چینل کے پاس سے حاصل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے برین واشڈ کواتین اور بچوں کو ڈھال بنا لیا۔ یہ سب چیزِیں جائز تھیں۔ کیونکہ یہ سب مذہب کے نام پتر ہو رہا تھا۔ اگر یہی چیزیں کراچی میں ہوتیں تو یقیناً رد عمل مختلف ہوتا۔ یہاآں میرا مقصد کسی بھی قسم کے اسلحے کے استعمال کو جائز قرار دینا نہیں ہے۔ لیکن طالبانی عناصر کو کسی شہر کی تنظیم سے ملا دینا اسے میں تو طابان کی حمایت اور اس شہر سے زیادتی سمجھتی ہوں۔ طالبانی سازش پوری دنیا کے مسلمانوں کے خلاف سازش ہے اور اسے اسی طرح لیا جانا چاہئیے۔ اس طالبانی عنصر کو کیوں حمایت ملتی ہے اور کہاں کہاں انکی حمایت زیادہ ہے اور کیوں ہے اس وقت یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ اس چیز نے ایک بات ثابت کی ہے اور یہ کہ ہزارون سال پرانا نظریہ کہ ریاست کی قوت حکومت، فوج اور مذہبی عناصر کے درمیان محاذ جنگ ہوتی ہے۔یہی آجکے پاکستان میں ہو رہا ہے۔<br />جن لوگوں نے اس ملک سے انسانیت ختم کردی انکے خلاف آپریشن نہ ہو بلکہ ان سے بھ مذاکرات کئے جائیں۔ یہ کس طرز فکر کی طرف لے جا جاتا ہے۔ جس شخص نے خود کش حملہ آوروں کے ذریعے ہزاروں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور باقی لوگوں کو دیشت میں لپیٹ دیا جس نے اس ملک کی سالمیت کو داءوو پر لگا دیا۔ اسکی مذمت کے لئے بولنا والا تو کوئ نہیں البتہ اسے ہیرو کے طور پر سراہنے والے بہت ہیں۔ یہ ذہنی طور پر بیمار ہونے کی علامت نہیں تو اور کیا ہے۔<br />بگتی، جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے اسی طرح انکی سفاکیت کی داستانیں سنتے رہے ہیں۔ انکی پیدائش شاید انیس سو تیس کی دھائ میں ہوئ۔ تقریباً تین نسلوں نے انکے عذاب کو سہا۔ انکے مرنے کے بعد بھی انکے حصے میں کوئ ایسا کام نہیں جسے فخر کے ساتھ انسان دوستی کے نام پر پیش کیا جا سکے۔ دراصل اگر بلوچ قوم اس سحر سے باہر نکل آئے کہ وہ بلوچی تھے اور ہمارے سردار تھے تو ان سے محبت کرنے کا کوئ جواز باقی نہیں رہتا۔ انہوں نے بلوچوں کے حقوق کی کوء جنگ نہیں لڑی صرف اپنی حق طاقت کی جنگ لڑی۔ <br /> وہ حق غاصب کرنے والوں میں سے تھے جنہوں نے شاید ہی کبھی کسی کو کچھ دیا ہو۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہمیشہ انکے حکومت سے مذاکرات ہوتے رہے۔ پاکستان کے دیگر کرپٹ لیڈران کے مقابلے میں وہ خاصے خود غرض تھے۔ باقی لوگ تو پھر اپنے شہر اپنے ارد گرد کے لوگوں کو کچھ نواز دیتے ہیں کہ وہ بھی کسی حد تک زندگی گذارتے رہیں اور بالکل مر نہ جائیں۔ انہوں نے اسکی زحمت بھی نہ کی۔ مجھے حیرت ہوتی ہے اگر پھر بھی لوگ اسکی توقع رکھتے ہوں کہ وہ مذاکرات پر تیار ہو جائیں گے۔ ایسے لوگوں کو ضرور دستووسکی کا ناول کرائم اینڈ پنشمنٹ پڑھنی چاہئیے۔<br />ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئیے کہ ایسے لوگوں کہ لئے ہم یہ مقولہ کیوں دہرانے لگتے ہیں کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔ اگر ان لاکھوں لوگوں کی مدد کے لئے کوئ اٹھ کر نہیں آتا اور انہیں ایسے بے حس لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے تو پھر ہمیں اپنے معاشرے میں خیر اور برکت کے لئے کوئ امید خدا سے نہیں رکھنی چاہئے۔ جس معاشرے میں ظلم کو دیکھ کر لوگ خاموش رہیں وہاں ایسی ہی افراتفری قدرت پھیلا دیتی ہے جیسی آج ہمیں میسر ہے۔جو عرصہ ء دراز سے چلے آنیوالے ظلم کو سہتے ہوئے لوگوں کی شاید بد دعاءووں کا نتیجہ ہے۔<br />خدا تو اس بات پر ہنستا ہوگا کہ لوگ مجھے مسجد کی حفاظت میں حاصل کر رہے ہیں اور میں یہاں اس ویرانے میں کسی کیڑے کی طرح مرنے والے شخص کے سرہانے بیٹھا ہوں کوئ ہے جو اسے ہسپتال لے جائے۔عنیقہ نازhttps://www.blogger.com/profile/11189785018959059024noreply@blogger.comtag:blogger.com,1999:blog-4569983599424252816.post-7937418717665795852009-09-01T09:40:17.185+06:002009-09-01T09:40:17.185+06:00یہ میں کہنا چاہ رہی تھی کہ دو ہزار ایک کے اخبارات ...یہ میں کہنا چاہ رہی تھی کہ دو ہزار ایک کے اخبارات دیکھیں ان میں زمین بیچنے کے اشتہارات ہیں جبکہ اس وقت سڑک بننا شروع ہوئ تھی۔ اورہاں، پاکستان کی جتنی بھی ساحلی پٹی ہے اس میں سب سے اچھے اور اہم مقامات پاکستان نیوی کے پاس ہیں۔ یہ چیز تو آپ کراچی میں اور مضافات کے ساحلی مقامات پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں گوادر کوئ ایکسیپشن نہیں ہے۔عنیقہ نازhttps://www.blogger.com/profile/11189785018959059024noreply@blogger.comtag:blogger.com,1999:blog-4569983599424252816.post-38003177944917296092009-09-01T09:33:53.421+06:002009-09-01T09:33:53.421+06:00سب سے پہلے دوست، شاید آپ بھول رہے ہیں کہ میں وہاں ...سب سے پہلے دوست، شاید آپ بھول رہے ہیں کہ میں وہاں خود ہو کر آچکی ہوں۔ یہ میں کسی کا لکھا ہوا اسکرپٹ آپکو نہیں دے رہی۔ بندرگاہ کی وہ تعمیر ابھی مکمل ہو چکی ہے جو کہ اگلے پانچ سالوں کے لئے پلان کی گئ تھی۔ اب یہاں سے صرف ایک چھوٹی سی سڑک نکال کر اسے ایک قصبے سے ملانا ہے یہ اتنی سی سڑک پچھلے ڈیڑھ سال سے نہیں بن پا رہی ہے۔ جبکہ یہ پوری ہائ وے اور بندرگاہ کی توسیع جس میں مزید گودیاں شامل ہیں شاید ڈھائ سال میں تیار ہو گئ تھی۔ اسکے مکمل آپریشنل ہونے میں امریکہ بہادر بھی ایک رکاوٹ ہیں ۔ کیونکہ اس پورے پلان کو چین کی مدد سے مکمل کیا گیا ہے۔ اور انکل نہیں چاہتے کہ اس علاقے میں چین کا اثر بڑھے۔ انڈیا انکا ہم خیال ہے۔ کیونکہ چین شاید امریکہ کے لئے سب سے بڑآ خطرہ ہے۔ اسی لئے اس بندرگاہ کی توسیع کے دنوں میں انہوں نے بار بار مداخلت کی۔ حالانکہ اسکا جواز نہیں بنتا یہ ہمارے ساحل ہیں ہم ان سے فائدہ اٹھانے کے لئے جو چاہیں کریں تو اب اس چیز کو اس طرح کور اپ کیا جا رہا ہے کہ ان علیحدگی پسندوں کو جنکے ضمیر ہمیشہ بکے رہے ہیں۔فنڈ فراہم کر کے یہاں غیر یقینی صورت حال پیدا کی جائے۔<br />آپ فیصل آباد میں بیٹھ کر یہ بات کہہ رہے ہیں میں ہر تین مہینے پر وہاں جاتی ہوں اور پندرہ بیس دن رہ کر آتی ہوں۔ زمینوں کی خرید فروخت سڑکیں بننے کے بعد نہیں اس کہیں پہلے شروع ہو چکی تھی۔ اسکے لئے آپکو سن دو ہزار کے اخبارات چھاننے پڑیں گے۔ اگر آپ نے دو ہزار ایک میں گوادر دیکھا ہوتا تو وہاں ریت مٹی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ اس وقت مقامی لوگوں نے اس زمین کو جو انہوں نے کبھی بھی قیمتاً نہیں خریدی۔ بلکہ اپنی قبائلی طاقت پر اپنے پاس رکھی۔ خوب مہنگے داموں بغیر کسی حکومتی دباءو کے بیچا۔ میں نے یہاں خانہ بدوش نظر آنیوالے لوگوں کو مہینوں میں ایسے بدلتے دیکھا۔ کیونکہ انہوں نے یہ منہ مانگے بیچی۔ اس سلسلے میں خاصے فراڈ بھی ہوئے۔ یہ الگ بات کہ اسے خریدنے والے آج بہٹھے صورت تک رہے ہیں کہ اب کیا ہوگا۔ آپکی یہ بات صحیح نہیں کہ مقامیوں سے کوڑیوں کے مول خرید کر کروڑوں میں بیچی۔ یہ کراچی میں بھی ہوا ہے۔ جس زمین کو پہلے کچرا سمجھا جاتا تھا وہ کسی پروجیکٹ کی وجہ سے سونا بن گئ۔ لوگوں ے جو زمین دس سال پہلے لاکھوں میں لی تھی وہ اب کروڑوں میں ہوگئ۔ گوادر میں جس وقت کافی زمین بکی اس وقت یہاں ماسٹر پلان بھی نہیں بنا تھا۔ نقشہ منظور ہونے کے بعد جن لوگوں کو سوئے اتفاق اچھی جگہ مل گئ انہیں فائدہ ہوا۔ بعض لوگوں کی زمین مختلف پروجیکٹس میں کٹ گئ اور انہیں نقصان اٹھانا پڑا۔ تو ایسا تو ہوتا ہے جب کوئ نیا شہر آباد ہوتا ہے۔ یا تو مقامی لوگوں پر پابندی لگنی چاہئیے کہ وہ اپنی زمین نہ بیچیں، یہ ہونا تو ناممکن ہے۔ ہزارون ایکڑ زمین ایک میر اپنے پاس رکھ کر کیا کرے گا۔ اسے تو یہ یاد نہیں کہ اسکی زمین کا رقبہ کہاں تک پھیلا ہوا ہے۔ دوسری پابنندی یہ لگا دیں کہ غیر مقامیوں کو نہ بیچی جائے۔تو پھر اس زمینکو کون خریدےگا۔ کیونکی پورے بلوچستان میں اگر زمین کا حق ملیکت نکالنے کھڑے ہوں تو شاید چند گھرانوں کے پاس یہ سارا صوبہ رکھا ہوا ہوگا ۔اب وہ آپس میں تو لین دین نہیں کرسکتے۔پورا گوادر شاید تین چار لوگوں کی ملکیت ہوگا۔ دوسری طرف اس زمین کو خریدنے والوں میں مقامی لوگ بھی ہیں جنہوں ے اپنے میر سے یہ زمین خریدی۔ پھر اہم مقامات کی زمینیں اپنے پاس رکھیں اور باقی کی آگے کسی اور کو بیچ دیں، زیادہ منافع پر۔ ایسے بہت سے لوگوں سے میں وہاں پر واقف ہوں۔ اب سے تین چار سال پہلے کراچی میں بہت کم لوگ ہونگے جنکے سٹیلائٹ فون ہو۔ جبکہ یہ اسوقت گوادر میں عام نظر آتا تھا۔ یہ وہ دولت تھی جو مقامی لوگوں نے زمین بیچ کر حاصل کی۔ خریدنے والے نے تو اپنے سرمائے پر بڑا رسک لیا۔ کیونکہ آپ خود کہہ رہے ہیں کہ ابھی تو اسے آپریشنل ہونے میں بڑا وقت لگے گا۔ہماری اس حکومت میں تو اتنا دم خم نظر نہیں آتا کہ وہ امریک کی مخالفت کے باوجود اس پروجیکٹ کو اس رفتار سے لے جائے جیسا یہ پہلے چل رہا تھا۔ اور یہ جو ریل کی بات کر رہے ہیں آپ یہ لائن اس زمانے میں منظور بھی ہو چکی تھی۔ میں نے خود اسکے تجویز شدہ پلان کو دیکھا۔ اب میری یادادشت میں صحیح سے نہیں ہے۔ لیکن اس پر کام شروع ہو رہا تھا۔ فی الحال کچحھ نہیں ہو رہا۔ زمین کی قیمت جو ایک زمانے میں خوب چڑھی تھی وہ بھی خوب گر گئ ہے۔ <br />باقی لوگوں کےلئے ایک لمبا جواب لکھا تھا مگر سب اڑ گیا۔ میں بہت بور ہوئ۔ اب کچھ دیر بعد موڈ بناءوونگی اسے دوبارہ لکھنے کا۔<br />بلوچی ہر دس بارہ سال بعد اس لئے کھڑے ہوجوتے ہیں کہ انکے بزعم خود نیشنلسٹ رہنما نہیں چاہتے کہ انکے صوبے کی حالت تبدیل ہو۔ وہ اس موقع کو استعمال کر سکتے تھے کہ انکی قوم آگے بڑھے لیکن وہ ہر فیوڈل کی طرح یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح عوامی سطح پر تبدیلی نظر آنے سے انکے اثر رسوخ میں فرق پڑے گا اور یہ انہیں گوارا نہیں۔ یہ البتہ انہیں گوارا ہے کہ انڈیا کے ساتھ ملکر اپنی جڑوں کو کھوکھلا کریںعنیقہ نازhttps://www.blogger.com/profile/11189785018959059024noreply@blogger.comtag:blogger.com,1999:blog-4569983599424252816.post-72071773564829417452009-09-01T05:36:08.508+06:002009-09-01T05:36:08.508+06:00محترمہ ایک کوسٹل ہائی وے بن جانے سے کچھ بھی نہیں ہ...محترمہ ایک کوسٹل ہائی وے بن جانے سے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ گوادر کو ریل اور سڑک کے راستے چین اور وسطی ایشیا سے ملانے کی ضرورت ہے ورنہ اس کی قدر دو ٹکے کی بھی نہیں۔ یہاں آنے والا مال پاکستان کو کراچی کی بندرگاہ پر آنے والے مال سے زیادہ لاگت میں پڑتا ہے بلکہ اسے ایک حساب سے واپس لانا پڑتا ہے کراچی ملک میں ترسیل کے لیے۔ گوادر کی بندرگاہ بھی ابھی زیر تعمیر ہے اور اس کا ڈیوٹی فری زون بحریہ کے زیر استعمال زمین خالی ہونے کا منتظر ہے۔ گوادر پر آج سے پانچ سال پہلے جو بھنگڑے ڈالے گئے تھے یہ شاید مکمل آپریشنل ہونے میں اتنے سال ہی اور لے جائے۔<br />بلوچیوں کا اعتراض جائز ہے۔ ایک سڑک بن گئی اور پراپرٹی مافیا نے سڑکیں بنا کر، جی ہاں صرف سڑکیں بنا کر پراپرٹی کوڑیوں کے مول مقامیوں سے خرید کر کروڑوں تک میں بیچی اور اب پھر اس پراپرٹی کی کوئی قدر نہیں۔ بلوچی ہر دس بارہ سال بعد کیوں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں؟ مجھے نہیں پتا مجھے تو اتنا پتا ہے کہ میں ایک پنجابی فیصل آباد میں بیٹھا اس گیس کا زیادہ ماما لگتا ہوں جو سوئی سے نکلتی ہے اور میرے شہر میں ہر ایک کلومیٹر پر ایک سی این جی سٹیشن ہے۔ جبکہ پورے کوئٹہ میں ایک سی این جی سٹیشن ہے۔ یہ تو حالات ہیں وہاں۔ ان مسائل کو کبھی حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ زرداری حکومت نے آکر معافی مانگ لی، ایک قوم پرست کو جیل سے آزاد کردیا اور پھر؟ ابھی تک کوئی بھی آئینی اصلاحات نہیں ہوسکیں، کمیٹی کے جوڑوں میں دو چار اور کمیٹیاں بیٹھ گئی ہونگی۔دوستhttp://awaz-e-dost.blogspot.comnoreply@blogger.comtag:blogger.com,1999:blog-4569983599424252816.post-2113187021743608432009-09-01T01:09:00.966+06:002009-09-01T01:09:00.966+06:00عنیقہ آپ کہاں مشرف کی تعریف لے کر بیٹھ گئیں اس وقت...عنیقہ آپ کہاں مشرف کی تعریف لے کر بیٹھ گئیں اس وقت تو مشرف کو ذلیل کرنے کا وقت ہے اس کے کیئے کوئی اچھے کام کسی کو یاد نہیں آئیں گے جو لوگ 12 مئی اور جامعہ حفصہ کورویا کرتے ہیں انہین 88 اور 92 کا ٹھٹھا اڑانے سے فرصت نہیں ہے،مومن لوگ ہیں کافروں کے مرنے اور دفع ہونے پر خوشیاں نہ منائیں بغلیں نہ بجائیں تو اور کیا کریں؟Abdullahhttps://www.blogger.com/profile/03638134557340453995noreply@blogger.comtag:blogger.com,1999:blog-4569983599424252816.post-43008094623728124682009-09-01T00:38:55.269+06:002009-09-01T00:38:55.269+06:00خرم الطاف کو بگٹی اور فضل ا للہ کے ساتھ ٹانک کر آپ...خرم الطاف کو بگٹی اور فضل ا للہ کے ساتھ ٹانک کر آپنے اپنے دل کی بھڑاس تو نکال لی مگر آپ یہ بتانا بھول گئے کہ نواز اور شہباز کو بھی کوئی انجیکشن لگنا چاہیئے یا نہیں،اور آپکے سو کالڈ ایکس سروس مینز کو؟<br />اور اپنی قوم کو آپ یہ اسباق کب پڑھانا شروع کرنے والے ہیںAbdullahhttps://www.blogger.com/profile/03638134557340453995noreply@blogger.comtag:blogger.com,1999:blog-4569983599424252816.post-62034804629949026782009-08-31T21:55:31.744+06:002009-08-31T21:55:31.744+06:00شجاعت صاحب کے مذاکرات کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پ...شجاعت صاحب کے مذاکرات کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ہوتے ہیں جس میں سٹیٹس کو کے برقرار رہنے کی ضمانت دی جاتی ہے۔ ایسے مذاکرات سے کیا تبدیلی آسکتی ہے بھلا؟ اس قوم کو اپنے حکمران طبقے سے سوال پوچھنے کی عادت ڈالنا ہوگی اگر زندہ رہنا ہے تو۔ اکیسویں صدی میں پندرہویں صدی والی بے لوث غلامی نہیں چل سکتی۔ بلوچستان سمیت پاکستان کے تمام علاقوں میں جھگڑا بادشاہی کا ہے اور اس ہوس کا علاج کلام نرم و نازک سے کم ہی ہوا ہے۔ الطاف ہو کہ بگٹی کہ فضل اللہ۔ جب تک انہیں انجیکشن نہ دیا جائے انہیں سمجھ نہیں آتی۔خرمhttp://www.letsbuildpakistan.org/blognoreply@blogger.comtag:blogger.com,1999:blog-4569983599424252816.post-44573544506095920302009-08-31T14:00:46.380+06:002009-08-31T14:00:46.380+06:00دے رہے ہیں تمہیں جو لوگ رفاقت کا فریب
ان کی تاریخ ...دے رہے ہیں تمہیں جو لوگ رفاقت کا فریب<br />ان کی تاریخ پڑھو گے تو دہل جاؤ گے<br /><br />بالکل صحیح کہا آپ نے۔ پر کیا کیجے کہ وہاں کے لوگ اب بھی بُگٹی کو ہی بہت کچھ سمجھتے ہیں۔ پھر ہم لوگوں کا تو المیہ ہی یہ کے جو بھی شخص مرجائے اُس کے سارے گناہ ہم لوگ بڑی فراخ دلی سے معاف کردیتے ہیں بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر وہ شخص چاہے اس کا کردار کیسا بھی رہا ہو شہید بھی ہوجاتا ہے اور آئند کچھ سالوں میں مرشد سائیں بھی بن جاتے ہیں۔ <br /><br />لال مسجد کے واقعے اور بلوچستان کے زیرِ بحث آپریشن میں بقول چوہدری شجاعت کے تمام معاملات مذاکرات کے تحت طے ہوگئے تھے لیکن اُس کے باوجود مشرف نے آپریشن کو ترجیح دی۔ لال مسجد کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات سے تو میڈیا کے ذریعے پبلک بھی تقریباً باخبر تھی لیکن یہاں بھی مذاکرات کے باوجود آپریشن ہی کو ترجیح دی گئی۔ یقیناً یہ دونوں اوپریشن بڑے سرکار کی ایما پر ہوئے اس لئے مذاکرات کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ <br /><br />میں سمجھتا ہوں کہ اگر مشرف صاحب کا فیصلہ درست بھی تھا تب بھی اس کا طریقہ کار ہرگز درست نہیں تھا، اس آپریشن اور اس سے پیشتر کی پالیسیز کے باعث عام لوگوں کی اکثریت پاکستان کی مخالف ہوگئی ۔<br /><br />عام آدمی یوں بھی ان سرداروں (بگٹی وغیرہ) کو عقیدت کا چشمہ لگا کر دیکھتا رہا ہے اس عمل سے اب وہ کہیں زیادہ پوٓتر ہو گئے ہیں۔محمد احمدhttps://www.blogger.com/profile/13540629570548898656noreply@blogger.com