Tuesday, October 27, 2009

ایک بغیر سوچی سمجھی سازش

اگرچہ سازش کو میں  ہمیشہ کچھ ایسے اقوال و افعال کا مجموعہ سمجھتی رہی ہوں جسے انتہائ تفکر اور سوچ بچار کے بعد ترتیب دیا جاتا ہے۔ لیکن بہر حال کچھ لوگ اسکے ساتھ سوچی سمجھی کا لاحقہ استعمال کر نا چاہتے ہیں۔ ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے جم جم کریں، ویسے بھی ہمارے ماحول کی تربیت نے ایک چیز ہم میں پیدا کرنے کی کوشش کی اور وہ یہ کہ چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی۔ اس میں آسانی یہ ہوتی ہے کہ خود کچھ نہیں کرنا پڑتا۔ جو کچھ کرتی ہے ہوا کرتی ہے۔ اب اگر کچھ غلط بھی ہو جائے تو قصور ہوا کا ہی ہو سکتا ہے ہمارا نہیں۔ اور اگر موسم حبس کا ہو اور ہوا کا دور دور تک نشان نہ ہو تو ہمارے اس طرح بے دست وپا ہونے میں یقینا کسی کی سازش اور وہ بھی سوچی سمجھی سازش ہی شامل ہوسکتی ہے۔
اگرچہ کہ یہ نہیں معلوم کہ سوچی سمجھی سازش کی علامات کیا ہوتی ہیں اور اسے کیسے پکڑا جاتا ہے لیکن ہم اپنی فطری ذہانت سے اسکا پتہ چلا لیتے ہیں۔ قدرت نے ہمیں ایسے جواہر سے بغیر کسی جانبداری کےمالا مال کیا ہے اورایسے دیدہ وروں کے لئیے ہماری زمیں بہت زرخیز ہے۔   خدا جانے علامہ نے یہ شعر کس ترنگ میں کہا کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ہمارے یہاں بہت کم لوگ ہی ایسے ہیں جنہیں قدرت نے دیدہ ور پیدا نہیں کیا۔ اور خیال ہے کہ ایسا صرف نرگس کے ساتھ ہی ہوا ہوگا۔ ہزاروں سال سے لگتا ہے کہ نرگس کوئ انسان نہیں جناتی مخلوق ہے۔ معلوم نہیں کہ حضرت علامہ کو جنات پہ کوئ دسترس حاصل تھی یا نہیں۔ یا کسی سوچی سمجھی سازش کے نتیجے میں انکی زندگی کا یہ باب اوجھل کر دیا گیا ہے۔
آخیر میں مجھے ایک خیال آتا ہے کہ جہاں ہم حالات حاضرہ کی الجھی لٹوں میں سے اتنے تواتر سے سازشی جوءوں کو نکالتے رہتے ہیں وہاں تاریخ کی سر کی کھجلی کو بھی کم کرنے کا بندو بست کیوں نہیں کرتے۔ مثلا میں سوچ رہی تھی کہ اس میں تو کوئ سوچی سمجھی سازش شامل نہیں کہ پاکستان کا قیام قائد اعظم جیسے بے عمل سیکولر مسلمان کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ آخر یہ کس کی سازش تھی۔





قائد اعظم کی یہ یادگار تصویر کسی سوچی سمجھی سازش کا حصہ تو نہیں۔


حلفنامہ
میں یہ حلف دیتی ہوں کہ میری یہ تحریر بغیر سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے۔ اور کسی دیدہ ور کی دیدہ وری کے بغیر شائع کی جا رہی ہے۔


Monday, October 26, 2009

ملازمتی انٹرویو کی تیاری ضروری ہے

ہاں تو جناب ہم بات کر رہے تھے جاب انٹرویوکی تیاری کی اور بیچ میں سلسلہ رک گیا تو لوٹتے ہیں اپنے اس موضوع کی طرف۔ شیکسپیئر نے کہا تھا کہ دنیا ایک اسٹیج ہے اور ہر شخص اپنا کردار ادا کر کے چلا جاتا ہے۔ انٹرویو بھی ایک ایسا ہی اسٹیج ہےدیکھتے ہیں کہ یہاں آپ اپنا کردار کیسے نبھاتے ہیں۔
 بہتر تو یہ ہے کہ انٹرویو میں پوچھے جانیوالے ممکنہ سوالات کے جوابات سوچ کر کسی دوست یا بہن بھائ کے ساتھ بیٹھ کر پریکٹس کر لیں یعنی ریہرسل کر لیجئیے۔ اگر کوئ نہ ملے تو آئینے کی خدمات حاصل کر لیں یا پھر ٹیپ ریکارڈر میں ریکارڈ کر کے سنیں۔
سب سے پہلے تو یہ کہ انٹرویو کال ملنے کے بعد متعلقہ کمپنی یا جگہ جہاں آپ نے درخواست دی تھی اسکے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کر لیں۔ آج کی نیٹ کی دنیا میں ایسا کرنے میں آپکو کوئ پریشانی نہ ہوگی۔ وہ لوگ جنہیں یہ سہولت میسر نہیں وہ اپنے جاننے والوں اور دیگر ذرائع کو استعمال کر سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ انٹرویو لینے والے اشخاص کے بارے میں جان سکیں تو اور بھی اچھا ہے۔ اس جگہ کی تاریخ، انکی پروڈکٹس، انکے کام کرنے کا طریقہ ءکار، مستقبل کے لئے انکے پرجیکٹس، انکے حریف، سالانہ ترقی اور انکے ہدف، اسکے علاوہ اس عہدے کی ذمہ داریان اور ضروریات جسے آپ حاصل کرنا چاہ رہے ہیں۔ ان سب کے بارے میں آپکو جتنا زیادہ علم ہو اچھا ہے۔
اگرچہ آپ اپنا ریسیومہ انہیں بھیج چکے ہیں۔ لیکن اس دوران جو بھی اہلیت آپ نے حاصل کی ہے وہ بھی اس میں شامل کر کے اسے اپ ٹو ڈیٹ کر لیں۔ اسے اچھی طرھ دیکھ لیں جو چیزیں آپ نے اس میں شامل کی ہیں انکا دفاع اچھی طرح کر سکتے ہیں یا نہیں۔
انٹرویو کے مقام کے بارے میں اچھی طرح معلوم کر لیں اور وہاں تک پہنچے کا راستہ بھی۔ انکےرابطہ نمبر اپنے پاس رکھیں۔ اس سلسلے میں ٹرانسپورٹ کا بندوبست بھی ذہن میں رکھیں۔
انٹرویو کی بھی مختلف قسمیں ہوتی ہیں اگر یہ ذہن میں رہیں تو اسے ہینڈل کرنے میں آسانی رہے گی۔
ہیومن ریسورس کے ذریعے ہونے والے انٹویوز؛
ان انٹرویوز میں آپکا ایمپلائر عام طور پر موجود نہیں ہوتا بلکہ یہ کسی اور کمپنی کے توسط سے کرائے جاتے ہیں۔ ان انٹرویوز میں آپکی تعلیمی قابلیت،  آئ کیو اور ایموشنل کوشنٹ وغیرہ چیک کرنے کے لئیے تحریری یٹیسٹ بھی ہو سکتے ہیں۔
پینل انٹرویو؛
اس میں کافی سارے ماہرین موجود ہوتے ہیں جو اس کمپنی کے تجربے کار افراد بھی ہو سکتے ہیں اور مختلف میدانوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین بھی۔
اسٹریس انٹرویو؛
ان انٹرویوز میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ آپ اسٹریس میں کسطرح کام کرتے ہیں۔ اسکے لئیے آپ سے ماہرین کا ایک پینل تابڑ توڑ سوالات کرنا شروع کر دیتا ہے جنکے جوابات سے زیادہ اس بات کو دیکھا جاتا ہے کہ آپ کس طرح اپنے آپکو ٹحنڈی سطح پہ رکھتے ہیں۔ بعض اوقات آپ کے جواب پہ ایسا ظاہر کیا جاتا ہے جیسے یہ اتنا صحیح نہیں اور بعض اوقات بہت اوٹ پٹانگ سوالات کئیے جاتے ہیں۔ جیسے اس وقت آپ کتنی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آئے ہیں۔ آپ کہیں گے لعنت ہو میں انٹرویو دینے آیا تھا یا سیڑھیاں گننے۔ یا بوکھلا کر یہ سوچیں گے کہ میں کتنا نالائق ہوں آتے ہوئے سیڑھیاں نہیں گنیں۔ گھبرائیے نہیں انہیں خود بھی نہیں پتہ ہوگا۔

آپکی تعلیمی قابلیت اور آپکے سابقہ تجربے سے متعلق جو چیز ضروری ہے وہ یہ کہ آپ ان دونوں چیزوں کو اس جاب سے متعلق بنانے میں کامیاب ہوں۔ یعنی آپکی تعلیم اور تجربہ کس طرح اس
جاب میں کام آئے گا۔

اب آتے ہیں انٹرویو میں پوچھے جانیوالے ممکنہ سوالات کی طرف۔ وہ یہ ہو سکتے ہیں۔

اپنے بارے میں بتائیے
 اپنے کیریئر میں آپ کس چیز کو اہمیت دیتے ہیں۔
اس ملازمت کو کیوں اختیار کرنا چاہتے ہیں
ہم آپکو کیوں یہ ملازمت دیں۔
اگر آپکے ٹیم ممبر معاونت کرنے پر تیار نہ ہوں تو آپ کیا کریں گے۔
اپنی  بہترین خوبیوں کے بارے میں بتائیے۔
آپکی کمزوریاں کیا ہیں جن سے آپ پریشان رہتے ہیں
آئندہ پانچ  یا دس سالوں میں آپ اپنے آپکو کہاں دیکھتے ہیں۔
پچھلی جاب کو چھوڑنے کی وجہ کیا تھی۔
انٹرویو کے دوران جب تک وہ خود نہ پوچھیں۔ تنخواہ کا تذکرہ نہ چھیڑیں اور نہ ہی جاب سے حاصل  ہونے والی سہولیات کا۔
جب وہ آپ سے اس بارے میں پوچھیں تو اپنا مطالبہ اتنا زیادہ بھی نہ رکھیں کہ وہ بدک جائیں اور نہ یہ ظاہر کریں کہ آپ ہر قیمت پہ یہ کام کرنا چاہتے ہیں۔
اپنی مارکیٹ ویلیو کے بارے میں اندازہ ضرور لگاتے رہیں اور انٹرویو سے پہلے اسے ذہن میں رکھیں۔ اگر وہ آپکو موجودہ تنخواہ سے زیادہ یا برابر نہیں دے رہے تو بھی اس چیز کا جائزہ ضرور لیں کہ کیا اس ملازمت کو حاصل کرنے کے بعد آپ کے سیکھنے کے مواقع بڑھ جائیں گے یا نہیں۔  اگر وہ آپکو کم تنخواہ آفر کر رہے ہوں تو پھر ضرور معلوم کریں کہ دیگر فوائد کیا ہونگے اور آپکو اپنی صلاحیتیں بڑھانے کے لئیے کیا مواقع حاصل ہونگے اور پھر اس پہ رضامندی دیتے ہوئے اس چیز کو واضح کردیں کہ آپ اپنی پیشہ ورانہ گرومنگ کو بیحد اہمیت دیتے ہیں۔
انٹرویو کے دوران ضروری نہیں کہ آپ صرف سوالوں کے جواب دیتے رہیں آپ بھی ان سے سوالات کر سکتےہیں اور اس سے آپکی ملازمت حاصل کرنے میں دلچسپی ظاہر ہوگی۔ وہ سوالات یہ ہو سکتے ہیں۔
آپکے خیال میں مجھے اس جاب کے بارے میں اور کیا معلومات ہونی چاہئیں۔
آپکی کمپنی میں مجھے کیا نئ چیزیں سیکھنے کو ملیں گی۔
مزید میرے بارے میں آپ کیا جاننا چاہتے ہیں۔
کیا میری ٹریننگ آپ کریں گے یا کوئ اور یہ کام کریگا۔
انٹرویو کہ وقت اپنی ظاہری شخصیت پہ توجہ دیں۔ اچھا فارمل لباس پہنئیے تاکہ آپ ذمہ دار نظر آئیں۔ بالوں میں جیل لگا کر اسپائکس نہ بنائیں اور نہ ہی برمودا پہن کر نکل کھڑے ہوں۔ خواتین سادے سوتی یا غیر چمکدار کپڑے پہنیں جس میں وہ اپنے آپکو با اعتماد محسوس کرتی ہوں۔ بالوں کی غیر ضروری لٹیں چہرے پہ نہ ڈالیں، بہت زیادہ آرائشی زیور، بجنے والے زیور یا کانچ کی بھری ہوئ چوڑیاں پہننے سے اجتناب کریں، گہرے میک اپ سے گریز کریں۔
کپڑے ایکدن پہلے استری کر کے رکھ لیں تمام ضروری کاغذات کو ایک لفافے میں ایک دن پہلے  ڈال کر رکھ لیں۔ دئیے ہوئے وقت سے پہلے پہنچنے کی کوشش کریں۔ انٹرویو کے وقت انتظار کرتے ہوئے کسی چیز کا رٹا لگانے نہ بیٹھ جائیں یہ اب اسکا وقت نہیں۔
 اگر آپکی جاب کی ضرورت میں ڈرائیونگ کا جاننا ضروری ہے تو اپنا ڈرائیوبگ لائسنس ضرور رکھ لیں۔ اگر تدریسی عہدے کے لئیے جا رہے ہوں تو ایک چھوٹا سا لیکچر ضرور تیار کر لیں اوراسے یاد بھی کر لیں، کسی اچھے ادارے کی صورت میں ٹرانسپیرینسیز یا سلائیدز بھی بنا لیجئیے۔ ریفرنس کے دو یا تین خطوط یا اگر آپ سےمخصوص تعداد انٹرویو کے وقت لانے کو کہا گیا ہے تو وہ ساتھ میں رکھیں۔ متعلقہ لوگوں سے یہ خطوط حاصل کرنے کے بعد انہیں مطلع رکھیں کہ آپ نے انہیں استعمال کیا ہے۔
کسی بھی پیشہ ورانہ جگہ پر رشتے داریاں بنانے سے گریز کریں۔ کسی کو انکل، آنٹی، باجی اور بھائ نہ بنائیں۔ انٹرویو لینے والوں سے بات کرتے وقت ان سے آنکھ ملا کر بات کریں۔ اپنے چہرے اور انداز میں بشاشت رکھیں۔
اپنی قابلیت، تجربے کے بارے میں جتنا بولیں اور مختلف واقعات سے اسےجتنا سپورٹ کریں کہ کیسے آپ نے مختلف مسائل کے حل تلاش کئیے، لیکن اپنی ذاتی زندگی کو بیچ میں ڈالنے سے گریز کریں۔
اور ہاں انٹرویو کے کمرے میں داخل ہونے کے بعد سلام کرنا اور ہاتھ ملانا نہ بھولیں۔ انتظار کیجئیے جب آپ سے بیٹھنے کو کہا جائے تو بیٹھ جائیے۔

نکلتے وقت سب کا شکریہ ادا کریں۔ ان سے معلوم کر لیں کے نتیجے کے بارے میں آپکو کیسے پتہ چلیگا یا اب آگے کیا ہوگا۔ چاہیں تو بعد میں خط یا ای میل کے ذریعے نتیجہ معلوم کر لیں۔

جاب نہ ملنے کی صورت میں دل چھوٹا نہ کریں۔ ہو سکتا ہے کہ آپکو زیادہ انٹرویو دینا پڑیں۔ ہر دفعہ اپنے ہر انٹرویو کا تجزیہ ضرور کریں۔ اس سے اپنے آپکو بہتر کرنے میں آسانی ہوگی۔ خدا آپکی قسمت میں ایسی آسانی دے جس سے آپ میں آگے بڑھنے کی لگن پیدا ہو اور دوسروں کا بھی بھلا ہو۔


ریفرنس؛

Saturday, October 24, 2009

ب سے برف، چ سے چاول

اب جبکہ میرے بلاگ پہ مستقل آنیوالے قارئین کے علم میں آچکا ہے کہ میں پاکستان سے باہر ہوں تو اس تحریر پہ نظر پڑنے کے بعد آپ دھوکا مت کھائیے گا میں اب بھی پاک سر زمین سے ہزاروں میل کے فاصلے پہ ہوں۔  نہیں ابھی مجھے اتنا عرصہ نہیں ہوا کہ طالبان بھی خدا کی پیاری مخلوق لگنے لگیں اور انکے ہر دھماکے کے بعد زور زور سے انکی مظلومیت کا نوحہ پڑھنے لگوں اور امریکہ پہ تبرہ بھیجنے لگوں۔ قصہ مختصر سب کچھ ویسا ہی ہے بس فی الحال ہمارے کسی خود کش حملے میں جاں سے گذر جانے کے امکانات کم ہو گئے ہیں۔ تھائ لینڈ کی سرزمین پہ مزید کچھ پیسے خرچ کرنے کے بعد اب میرا کمپیوٹر بھی مردہ خانے سے باہر آگیا ہے۔ کون کہتا ہے کہ پیسے میں اعجاز مسیحائ نہیں۔ بس پیسے کم ہوں تو اعجاز صاحب دور رہتے ہیں۔
یہاں روٹی نہیں کھائ جاتی ہر چیز کے ساتھ چاول ملتے ہیں اور چاول بھی وہ جو ایکدوسرے سے چپکے ہوتے ہیں۔ ایسے چاول ہمارے دیس میں ہوں تو پکانے والے کے پھوہڑ پن پر ہزار لعنتیں بھیجی جائیں۔ ایک ہوٹل میں ہم نے کھانے کا آرڈر دیا ۔ یہ میٹ بال قسم کی چیز تھی اس سے ملتی جلتی چیز کو ترکی میں کباب اور ملائیشیا میں ساٹے کہا جاتا ہے۔ تھائ زبان میں نہیں معلوم کیا کہتے ہیں۔ اسکے ساتھ یہی ابلے چاول منگا لئیے۔ تھوڑی دیر بعد اس نے سامنے ساٹے کی یا کباب کی پلیٹ اور ایک گلاس میں برف رکھ دی۔ اب ہم نے غور کیا کہ یہ برف بھائ صاحب نے کس سلسلے میں لا کر رکھی ہے۔ نہیں اب آپ میں سے کچھ لوگ یہ نہ سوچنے لگیں کہ یہ کسی محفل ناءو نوش کی تیاری تھی کہ آئے کچھ ابر ، کچھ شراب آئے۔ اور پھر وہاں ہمارے کسی دیندار ساتھی کے پہنچنے پہ ہمارا وہ حال ہو کہ
کسی کے آنے پہ ساقی کے ایسے ہوش اڑے
شراب سیخ پہ ڈالی، کباب شیشے میں۔
ہوا یہ تھا کہ ہم نے ان سے رائس منگوائے تھے اور وہ آئس لے آئے۔


نتیجہ؛
تھائ لینڈ میں رہنے کے لئے تھوڑی بہت تھائ زبان بولنا آنا چاہئیے۔ تو اب میں ایک فہرست تیار کر رہی ہوں ضروری الفاظ کی۔ آپ مجھے مشورہ دیں کہ یہ ضروری الفاظ کون سے ہونے چاہئیں۔

Friday, October 23, 2009

Kosher food is halal

Kosher is the term used for Jewish dietary laws.  Yesterday, I saw a restaurant here (Phuket, Thailand)  with the symbol of star of david and thought it must be some jew's restaurant. My companion told me that muslims can eat kosher food and in fact, in western countries a large number of muslims eat it without any hesitation. I have known this earlier but never thought to face it. I went through many web  sites to know its details but again found many different views. What do you think if it is halal or not?
I will  love it if you can write in urdu. Hope most of you know my problem why I am not writing in urdu these days.

Reference:
Kosher food

Tuesday, October 20, 2009

a note to my readers

For my friends, everything is ok with me.   I just forget the charger of my laptop in Pakistan :). As soon as I get a new one you will be able to read more from me. Till then Khuda Hafiz. Miltey hein aik break ke baad. See you soon :).

Its me Aniqa.

Saturday, October 10, 2009

جوتوں کے بھوت

لجئیے جناب ایک کے بعد ایک تواتر سے اتنی ساری چیزیں سامنے آکر کھڑی ہوگئیں۔ ابھی تو بلیک

واٹر اپنی جگہیں سنبھالنے بھی نہ پائے تھے کہ کیری لوگر بل سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔۔ خیال کیا جا

رہا تھا کہ اس میں کچھ امریکن نواز عناصر نے سیکیورٹی فورسز کو لگامیں ڈالنے کے لئیے ایسی شقیں ڈالدی ہیں جن سے پاکستانی افواج کو اپنی حدیں پتہ رہیں۔ہم نے سوچا کہ چلیں اب قوم اس مسئلے میں کافی دن لگی رہے گی۔ اور دیکھیں یہ معاملہ کیسے نبٹتا ہے کہ امریکہ میں ایکدفعہ جو بل پاس ہو گیا وہ اسی طرح نافذالعمل ہوتا ہے۔ یہ شقیں ڈالنے کے ضمن میں رحمان ملک کا نام لینے کی بھی کچھ لوگوں نے جرءات کر ڈالی۔ اب ہمیں خیال آیا کہ ایک کے بعد ایک صدر صاحب کے عزیز رفقاء کی باری آرہی ہے۔ شاید اس طرح انکو ایک کونے میں نمائشی طور پر رکھنے میں کامیابی ہو۔
لیکن ابھی ہم اس بل کے مطالعے میں مصروف ہی تھے کہ پتہ چلا کہ ہماری یونیورسٹی کہ محمد حسین نامی طالب علم نے ایک امریکی اسکالر کو جو پاکستان اور دہشتگردی سے متعلق کسی تعلق پر لیکچر دے رہے تھے انہیں ایک جوتا دے مارا۔ نہیں معلوم کہ یہ محمد حسین کا اپنا جوتا تھا یا کسی کا فراہم کردہ۔ بتایا جاتا ہے کہ اس لیکچر کی یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے منظوری نہ تھی۔ پھر بھی کچھ سر پھروں نے انکی بابرکت شخصیت سے یونیورسٹی کو متعارف کرانے کی ٹھان لی۔ اگرچہ ڈپارٹمنٹ کا دیگر اسٹاف اس سے الگ رہا لیکن پھر بھی یہ تقریب منعقد ہوئ۔
جوتا مارنے والے طالبعلم کے بقول انہوں نے پاکستانیوں کو شدت پسند کہا تو انہیں بڑا غصہ آیا اور یہ غصہ اسوقت عروج پر پہنچ گیا جب اس میں ایران کا نام آیا۔ پاکستانیوں کو ہمیشہ اپنے برادر ممالک کی عزت اور وقار پہ حرف اٹھانے پر زیادہ غصہ آتا ہے۔ محمد حسین سے یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ برادر خورد اتنے سالوں میں پاکستان میں رہتے ہوئے کسی اور پاکستانی کو جوتا مارنے کا خیال کیوں نہیں آیا۔ جو کہتے ہیں کہ پاکستان میں شدت پسندی بڑھ رہی ہے۔ اس بات پہ ایک اور ناراض صاحب کا کہنا ہے کہ  یہ بات کسی امریکی کو کہنے کا حق حاصل نہیں۔وہ بھی ہمارے یہاں آکر۔ اور اس سینہ زوری پہ وہ اسی قابل ہیں کہ انہیں جوتا مارا جائے۔ حالانکہ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ سینے اور جوتے کا آپس میں کیا تعلق ہے۔ امید ہے امریکی بہت جلد یہ تعلق معلوم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
ابھی ہم اس پہیلی کی سلجھن دور کر رہے تھے کہ آخر یہ کون لوگ تھے جو اسکالر موصوف کو گھسیٹ کر جامعہ کراچی تک لے گئے اور زبردستی انکا لیکچر رکھنے میں کامیاب ہو گئے۔ پھر وہ کون لوگ تھے جو محمد حسین جیسے قابل طالب علم کو اس سیمینار میں شرکت کر کے وقت ضائع کرنے پر اکسا سکے۔ کہ پشاور میں دھماکے کی اطلاع آگئ جس میں چالیس کے قریب لوگ مارے گئے۔ اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ یہ چالیس لوگ بس ایسے ہی عام سے لوگ تھے اور انکی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ آٹے کی لائنوں یا کسی اور خود کش حملہ آور کے دھماکے میں مرنے سے بچ گئے تھے۔
  آج پتہ چلا کہ جناب، اسلام آباد میں جی ایچ کیو پر مسلح حملہ ہو گیا۔ حملے کی تفصیلات تو نہیں معلوم لیکن کہا یہ جارہا ہے کہ اس حملے میں دہشت گردوں سمیت مسلح افواج کے لوگ بھی مارے گئےجبکہ ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ وہ دو افراد کو اغوا کر کے بھی لے گئے ہیں۔ یہ وہ خبر ہے جسکا کافی دنوں سے لوگ انتظار کر رہے تھے۔ حالات جس نہج پہ جا رہے ہیں اس سے اس قسم کے واقعات کا پیش آنا قرین از قیاس تو نہیں۔
اندازہ لگانے والوں کا کہنا ہے کہ چونکہ پاکستانی فوج وزیرستان میں کارروائ نہیں کرنا چاہ رہی اس لئیے یہ سب کچھ فوج کو دباءو میں لانے کے لئے کیا جارہا ہے۔ کیا یہ واقعی صحیح ہے اور کیا واقعی پاکستان کے خلاف کچھ برا ہونے جا رہا ہے۔ اور کیا ہم یہ جنگ جوتوں سے جیت لیں گے۔ میں نے یہ سوچ کر اپنے پرانے جوتے روک لئے ہیں کہ کیا جانے کب انکی ضرورت پڑ جائے۔ اتنے امریکی جو دھڑا دھڑ ہمارے یہاں گھسے چلے آرہے ہیں انکے لئیے ایک جوتا تو کافی نہ ہوگا یا ہوگا۔


Friday, October 9, 2009

مشت غبار صحرا

  آگ ایک فسوں ہے، ہر فرق کو مٹا دینے والی ہے۔   جب یہ انسانی وجود میں ڈھل جائے تو محبت ہے، جنون ہے، اور جب یہ تخلیق کار کے اندر سما جائے تو کُن کے بعد گایا جانے والا الوہی نغمہ ہے۔  اگر آپ تخلیق کی آتش کو ریت کے ذرات کے ساتھ رقص کرتا دیکھنا چاہتے ہیں،  تو ضرور اس ویڈیو کو دیکھیں۔



بشکریہ، عرفان احمد خان۔

Wednesday, October 7, 2009

سیلف برانڈنگ، مجھے لیجئیے، میں ہی اچھا ہوں

اگرچہ میں ان لوگوں میں سے نہیں جو برانڈ کے پیچھے جان دیتے ہیں اور کپڑوں سے لیکر گھر کی چھوٹی چھوٹی چیزوں تک کسی مخصوص برانڈ کی استعمال کرنا چاہتے ہیں لیکن کبھی کبھی یہ بہت ضروری ہو جاتا ہےجیسے ڈسپوزیبل انجکشن یا پینے کا پانی خریدنا ہو تو میں کسی مخصوص برانڈ کو ہی ترجیح دیتی ہوں۔
کیوں؟
اس لئے کہ برانڈ ایک وعدہ ہے جو پروڈکٹ کو کسٹمر سے جوڑتا ہے۔ یہ کہتا ہے کہ ہم وہ ہیں جو سچ ہے۔  یہ ایک وعدہ ہے کہ ہم اس طرح کی دیگر تمام پروڈکٹ سے بہتر ہیں اور ہم ایسی منفرد خصوصیات کے حامل ہیں کہ آپ کو ہم پر خرچ کرکے مایوسی نہیں ہوگی۔  اگر ہم کہتے ہیں کہ یہ خالص پانی ہے تو یہ ہے اور اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ انجکشن پہلے کبھی استعمال نہیں ہوئے تو یقین جانیں یہ ایسا ہی ہے میں اس برانڈ کی اس بات کو سچ سمجھتی ہوں اور اسکی جو بھی قیمت ہو وہ ادا کرتی ہوں۔ برانڈکی کامیابی اس میں بھی ہے کہ اسکا یہ پیغام بالکل صحیح سے اپنے کسٹمر تک پہنچ بھی جائے۔
لیکن اگر میں یہ کہوں کہ آپکو اپنے آپکو برانڈ کرنا چاہئیے اگر آپ ملازمت کی تلاش میں ہیں یا اپنے لئے مزید اچھے مواقع حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ خاموش ہو جائیں گے ایک انسان خود کو کیسے برانڈ کر سکتا ہے؟
جب آپ ملازمت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو دراصل آپ اپنا علم اور اپنی مہارت کو بیچنے کے لئے نکلے ہوتے ہیں۔ اب بتائیے کیا ایسے موقع پر آپ ایک پروڈکٹ میں تبدیل نہیں ہو گئے۔ آپکا ایمپلائر آپکے ریسیومے پر سے گذرتا ہے اور آپ سے انٹرویو کے وقت بالمشافہ گفتگو کرتا ہے۔ یہ سب کلفت اس لئے اٹھائ جاتی ہے کہ وہ اندازہ کر لے کہ وہ جس چیز کے پیسے دینا چاہتے ہیں آیا آپ اتنی قیمت کے ہیں یا نہیں۔ وہ اس ساری مشق سے آپکو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ انہیں جو نظر آرہے ہیں وہ اسکے مطابق آپکو لیں گے۔ کیا انہیں آپکی صورت میں جو پروڈکٹ مل رہی ہے وہ ایک سچا وعدہ لگتی ہے، اور کیا آپ اپنے برانڈ کی تمام خوبیاں اور وعدے اس تک پہنچا پا رہے ہیں؟
 تو اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ دوسروں کو کیسے نظر آتے ہیں۔ لیکن ٹہریں دوسروں سے پہلے آپ کو تو معلوم ہو کہ آپ کیا ہیں۔ اس پر ہم پہلے بھی گفتگو کر چکے ہیں کہ خود کو جاننا ہی ہر عمل سے پہلے ضروری ہے۔ چلیں ایک کاغذ قلم لیں اور اس پر اپنی خوبیاں لکھ لیں جو آپ سمجھتے ہیں کہ آپ میں موجود ہیں۔ اسی میں ایک دوسرا خانہ بنائیں اور اسپر اپنی کمزوریاں لکھ لیں جو آپ خیال کرتے ہیں کہ آپ میں ہیں۔
اب ایک علیحدہ کاغذ لیں اور اس پر اپنے قریبی رشت داروں، دوستون اور جاننے والوں کے نام لکھیں۔ انکے ساتھ اپنا تعلق بھی تحریر فرما دیں۔ اب ان میں سے ہر ایک سے معلوم کریں کہ وہ آپ میں کون کون سی خامیاں اور کمزوریاں دیکھتا ہے، چاہیں تو انکی تعداد متعین کر لیں کہ اتنی خوبیاں اور خامیاں بتا دیں۔ یہ ایک سروے آپکے بارے میں تیار ہو گیا۔ لیکن اسکا نقص یہ ہے کہ یہ سب لوگ آپکو جانتے ہیں اس لئے ہو سکتا ہے کہ کچھ جانبداری ہو۔ چلیں کسی پارک میں جا کر بیٹھیں اور موقع محل اور حالات دیکھ کر اپنے قریب بیٹھے ہوئے لوگوں سے، یا اپنے کلاس فیلوز سے یا اپنے ساتھیوں سے یہ سوال کر کے دیکھیں کہ وہ آپکے متعلق کیا سوچتے ہیں یا پہلی دفعہ
آپ سے ملکر انہوں نے آپکے متعلق کیا سوچا۔

 اب آپ اپنی لسٹ سے اسے ملائیں جو خوبیاں آپ نے اپنے متعلق خیال کیں کیا وہ دوسروں کو بھی پتہ چلتی ہیں۔ اور اپنے متعلق جو کمزوریاں آپ نے سوچیں کیا وہ واقعی آپ میں موجود ہیں۔
یہ تو آپکو اندازہ ہوگا کہ اگر اپنے متعلق جاننا ہے تو کتنا سخت ہونا پڑیگا ان سوالوں کے جواب صحیح رکھنے کے لئے۔
اب ایک علیحدہ کاغذ پر اس طرح کے مشاہدات نوٹ کریں کہ جب آپ کسی محفل میں جاتے ہیں تو اس محفل کے ماحول پر آپکی شخصیت کا کیا اثر ہوتا ہے، کیا لوگ آپ سے اپنے آپ کو آسانی سے شیئر کر لیتے ہیں یعنی انکی آپ سے دوستی آسانی سے ہو جاتی ہے، آپکے ساتھ رہتے ہوئے انکے اندر کوئ مثبت طرز فکر پیدا ہوتی ہے، اگر آپ وہاں موجود نہ ہوں تو آپکی کمی محسوس کی جائے گی، کیا آپکی وجہ سے لوگ اپنی زندگی میں بہتر تبدیلی لا پاتے ہیں، جب آپ وہاں سے اٹھتے ہیں تو کیا وہاں آپکو یاد رکھا جاتا ہے، کیا آپ یا آپکی باتوں کو لوگ اپنے لئے فائدہ مند پاتے ہیں۔
میں اور میری دوست ایک بس اسٹاپ پر دوستی ہونے سے پہلے کافی دیر کھڑے رہ کر یونیورسٹی آنے کے لئے پوائنٹ کا انتظار کرتے تھے۔ پوائنٹ نہ لینے کی صورت میں ہمیں تین یا چار بسیں بدلنی پڑتی تھیں۔ اسکا خرچہ بہت زیادہ ہوتا تھا۔ تین چار مہینے بعد ہم دونوں کی لامحالہ دوستی ہوئ اور جم گئ۔ ایکدن میں نے اس سے کہا۔ جب آپ شروع میں میرے سے کچھ فاصلے پر کھڑی ہوتی تھیں تو انتہائ روکھی اور ترش رو لگتی تھیں۔ میں سوچتی تھی ایسی اکھڑ لڑکی سے کون بات کرے۔ انہوں نے کہا اور میں آپکو انتہائ مغرور اور اپنی دنیا میں گم سمجھتی تھی۔ یہ ہم دونوں کی غلطی تھی۔ جو ہم تھے وہ نظر نہیں آرہے تھے۔ معاشرتی سطح سے الگ،   یہ غلطی پیشہ ورانہ سطح پر تباہ کن ہو سکتی ہے۔
اپنے آپ کو برانڈ کریں جو آپ چاہتے ہیں دوسروں کو وہ نظر آئیں۔
 اب آئیے پروڈکٹ کے طور پر اپنی مارکٹنگ کی طرف۔ آپکی کامیابی کی رفتار سے دوسروں کو آگاہ ہونا چاہئیے، انہیں پتہ ہونا چاہئیے کہ آپ اپنا کام کتنی محنت اور جذبے سے کر سکتے ہیں، آپکو اپنے کام یا علم کے متعلقہ میدان میں کتنی مہارت حاصل ہے، مستقبل کے لئے آپکے کیا اردے ہیں اور آپ انکے لئے کتنے کو شاں ہیں۔
ٹیکنالوجی کے اس دور میں اپنی کامیابیوں کی کہانی کو ہر جگہ عام کر دیں۔ اسکے لئے آپ اپنا بلاگ، مختلف فورمز، فیس بک یا کوئ بھی کمیونٹی سائٹ استعال کر سکتے ہیں۔ ٹیوٹر کو بھی لوگوں کو اپنی سرگرمیوں سے آگاہ کرنے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن دھیان رہے یہاں میری مراد پیشہ ورانہ اور علمی سرگرمیاں ہیں۔ اس سے باقی لوگوں کو پتہ چلے گا کہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ مختلف جگہوں پر چاہے وہ کلاسز ہوں، بلاگ ہو، فورمز یا کانفرنسز اور سیمینارز اپنے تبصرے اپنے سوالات اپنے خیالات سب لوگوں کے  آگے رکھیں تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ آپ موجود ہیں۔ اپنی موجودگی کا اثر چھوڑتے جائیں جہاں جہاں آپ جاتے ہیں۔
جہاں آپ یہ سب کام کر رہے ہوں ، وہاں یہ یاد رکھیں کہ اپنی متعلقہ فیلڈ میں ہونے والی نئ پیش رفت سے آگاہ رہنے کی کوشش کریں اور اپنے ان دوستوں اور جاننے والوں سے ہمیشہ تعلق میں رہیں جو اس فیلڈ سے منسلک ہوں۔ اس طرح وقت ضرورت آپ مناسب رہنمائ اور مشورہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور علم کو بڑھانے کے لئیے سرکرداں رہیں تاکہ آپ سے لوگ استفادہ حاصل کرتے ہوئے با اعتماد رہیں۔
یہ سب تو پس منظر کے کام تھے اب آپنے آپ کو جب آپ پروڈکٹ کے طور پر لے رہے ہیں تو پروڈکٹ کی ظاہری خصوصیات کے بارے میں کیا خیال ہے۔ برانڈنگ کا تعلق آپکے ماضی کو آپکے مستقبل سے کامیابی کے ساتھ جوڑنا بھی ہوتا ہے۔ آپ کیا ہیں، کس کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں، کونسی مادری زبان بولتے ہیں آپکی ثقافتی اقدار کیا ہیں۔ جب آپ خود سے ان چیزوں کو طے کر لیں گے تو آپ اپنے کسٹمر کے پس منظر کو جان کر اس تک بہتر طور پر اپنے آپ کو پہنچا سکیں۔
یاد رکھیں برانڈنگ کا عمل جن تین چیزوں سے وابستہ ہے وہ آپکا نظر آنا ، یا نوٹس میں ہونا،، آپکی کمیونیکیشن، اور رویہ ہے۔
اسکا بنیادی مقصد بھی اپنے آپ میں ایسی مثبت خصوصیات پیدا کرنا ہیں جس سے لوگ آپکو توجہ دیں، آپکی ضرورت محسوس کریں اور آپکو اپنی انویسٹمنٹ کے لئے محفوظ خیال کریں۔
 خوش قسمتی چاہے کتنی بار بھی آپکے دروازے پر دستک دے اگر آپ اسکے لئے تیار نہیں ہیں تو کوئ فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ اسکی مثال ایسے ہے کہ آپکا علم جتنا اچھا ہو اور آپکے میڈیا کے اندر جتنے اچھے تعلقات ہوں اگر آپ صحیح طریقے سے بات کرنا نہیں جانتے تو کوئ بھی آپکو اپنے چینل پر اینکر پرسن کے طور پر نہیں رکھے گا۔ اپنے آپکو برانڈ کریں بتائیے کہ  آپ یہ کام  بہت بہتر

اور منفرد طریقے سے کر سکتے ہیں، اپنے آپکو مارکیٹ کریں اور اس پروڈکٹ کو بہتر بنانے کے عمل میں لگے رہیں۔
آپ سب کو اس عمل میں مصروف کرنے کے بعد اب میں گرین ٹی پیتی ہوں، اس سے دہی بنا ہوا دماغ دوبارہ سے اپنی اصلی حالت میں آجاتا ہے۔آپکو چاہئیے، خود بنائیے۔ اور ہاں ایک شعر پڑھتے جائیے
غالب خستہ کے بغیر کونسے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا، کیجئیے ہائے ہائے کیوں

اب آگے ملازمت کے انٹرویو کے لئے روانہ ہونا ہے۔


راشد کامران صاحب کا یہ مشورہ خاصہ کارآمد ہے اس لئے میں اسے یہاں ڈال رہی ہوں تاکہ وہ لوگ جو تبصرے نہیں پڑھنا چاہتے انکے علم میں بھی آجائے۔'تسلسل کے لیے ایک مشورہ کہ لنکڈان اس سلسلے میں ایک نہایت اچھا ٹول ہے۔ اپنے پیشے سے وابستہ تمام لوگوں سے نیٹ ورک استوار کریں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں سے درخواست کریں کے آپ کی مختلف صلاحیتوں‌پر رائے دیں؛ یہ ٹول نا صرف ان تمام چیزوں میں‌آپ کی مدد کرے گا جو اس بلاگ میں بتائی گئی ہیں بلکہ انڈسٹڑی میں اس کو سنجیدگی سے لیا بھی جاتا ہے چناچہ اس کو انتہائی فارمل رکھیں'۔

ایک ثقافت، ایک جواب

میرے ایک سینئیر بلاگر نے اپنے بلاگ پر میری ایک تحریر کے حوالے سے اپنے تائثرات تحریر کئے۔ میں نے اپنا تبصرہ وہاں ڈالا تو سوچا کہ آپ سب کو بھی اس میں شامل کر لوں۔
میرا تبصرہ؛
اب چونکہ آپ نے میرا نام لیکر یہ سب لکھ ڈالا ہے تو لازمی ہے کہ میں کچھ تحریر کروں۔ شاید آپکے علم میں نہ ہو کہ میں ذات کے حساب سے پٹھان ہوں۔ میرے والد صاحب کو شیر شاہ سوری سے بڑی عقیدت تھی اسکی ایک وجہ انکا پٹھان ہونا بھی تھا۔ وہ جب تک زندہ رہے انہیں اس بات پہ فخر رہا اور ہماری تربیت کے دوران بھی انہوں نے اس چیز کو ہمارے اندر داخل کرنے کی کوشش کی کہ ہم کتنی اعلی نسل سے تعلق رکھتے ہیں لیکن افسوس کہ ہم میں سے بیشتر اس سحر سے باہر نکل آئے۔ البتہ اس جینز کے جنگجویانہ عناصر کبھی کبھی سر اٹھا لیتے ہیں۔ اتنی تفصیل میں جا کر بتانے کا مقصد یہ تھا کہ میں نے دس سال کی عمر میں پہلی اور آخری دفعہ انڈیا کا رخ کیا۔ کیونکہ میرے والد صاھب کی خواہش تھی کہ ہمیں اپنے اجداد اور اپنے ماضی کے بارے میں ضرور پتہ ہونا چاہئیے۔ انکے علاقے کا نام پٹھان کبئ ہے۔ کیونکہ خدا جانے کئ نسلوں سے یہ علاقہ پٹھانوں سے آباد رہا ہے۔ یہ سارا قصہ اس لفظ ڈیرے کی وجہ سے اٹھانا پرا۔ تو میرے ابو کے گائووں میں انکے رہائشی گھر سے ہٹ کر ایک اور تھوڑا چھوٹا گھر تھا اسے وہاں ڈیرہ کہتے تھے۔ اس گھر میں وہ لوگ ٹہرا کرتے تھے جن سے کوئ رشتہ داری نہ ہوتی تھی۔ وہاں روزانہ رات کو گھر کے مردوں میں سے کوئ ضرور رکتا تھا۔ میرے دادا وہیں قیام کرتے تھے اسکی وجہ میری دادی سے کوئ جھگڑا نہ تھا۔ کیونکہ دن میں قیام اور کھانا وہ عام طور پر گھر پر کھاتے تھے۔ اسکی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ علاقہ یا گھر عملی طور پر میری دادی کی سلطنت تھا۔ تمام رشتے دار مرد اور عورت وہیں رکتے تھے اور رات گئے خوب گپ لگا کرتی تھی۔ جس میں سب دور پرے کے رشتے دار مرد خواتین موجود ہوتے تھے۔
وہ لوگ جو شہر میں اپنی ملازمتوں کی وجہ سے رہتے تھے جن میں میرے تایا اور چچا بھی شامل ہیں انکے یہاں ڈیرہ نہیں تھا۔ معاشی حالات بہتر ہونے کی وجہ سے گھر بڑے تھے اور ان میں ڈرائنگ و ڈائننگ روم ہونے کے ساتھ ایک مہمان خانہ بھی تھا۔ اس مہمان خانے میں ہم بھی ایک مہینہ تک قیام پذیر رہے۔ اکثر گائووں سے آنیوالے رشتےدار بھی وہیں قیام پذیر ہوتے تھے۔ یہ مہمان خانہ گھر کا ہی حصہ تھا اور اس میں بیرونی طرف اور گھر کے اندرونی طرف کھلنے والے دروازے موجود تھے۔ چونکہ میرے تایا وہاں کے میڈیکل کالج کے پرنسپل تھے اس لئے لوگوں کی ایک معقول تعداد ان سے ملنے آتی تھی۔ خاص طور پر تہواروں کے موقع پر خاصے لوگ ہوا کرتے تھے۔ وہ سب لوگ جنہیں گھر میں رات نہ گذارنی ہو انکے لئے ڈراءنگ روم تھا جہاں وہ کچھ وقت بیٹھکر گپ شپ یا ملنا جلنا کرلیں۔
یہاں میں یہ واضح کردوں کہ ایک ایسے پس منظر سے تعلق رکھنے کے باوجود جہاں ڈیرہ موجود تھا۔ میں انہیں انتہا پسند اور شدت پسند نہیں کہہ سکتی۔ کیوں؟ کیا میں ایسے لوگوں کو انتہا پسند کہہ سکتی ہوں جن کی لڑکیاں آج سے چالیس سال پہلے مخلوط تعلیمی اداروں میں پڑھا کرتی تھیں اور جنہیں آج سے چالیس سال پہلے بھی یہ آزادی حاصل تھی کہ وہ اپنی پسند کی شادی کر سکتی ہوں۔ جن کے گائووں میں تعلیمی استطاعت ستر فیصد سے زیادہ ہو۔ جہاں تعلیمی ادروں کو بم سے نہ اڑایا جا رہا ہو، جہاں لوگوں کو اپنی پسند کے اسلام پہ عمل پیرا نہ ہونے کی وجہ سے ذبح نہ کیا جارہا ہو، جہاں پولیو کے قطرے غیر اسلامی نہ قرار پاتے ہوں، جہاں آپکو یہ آزادی حاصل ہو کہ آپ کتنے بچے پیدا کرنا چاہتے ہیں، جہاں عورتوں کو بھی انسان ہی سمجھا جاتا ہو، کیا مجھے ان لوگوں کو انتہا پسند، شدت پسند اور دہشت گرد کہنا چاہئیے۔ وہاں پر بھی ڈیرہ ہے اور جینیاتی طور پر وہ انہی لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں جن سے یہ انتہا پسند جنکے یہاں ڈیرے ہوتے ہیں۔ مگر معاشرتی سطح پر انکے درمیان کتنا فرق ہے اسکی ایک مثال میں خود ہوں۔
قدامت پسندی یا روایت پسندی بہت محدود حد تک ہی بہتر کہی جا سکتی ہے۔ جب ساری کائنات آگے کی طرف بڑھ رہی ہے تو آپ قدامت پسندی کے کمزور بند سے اسے نہیں باندھ سکتے۔ اب بہتر طرز عمل یہ ہے کہ آنیوالی تبدیلیوں کی جگہ بناتے ہوئے نئ نسل کو اپنے ساتھ لیکر چلیں۔ یا پھر ایسے وقت کے لئے افسوس کرتے رہیں جو اب پلٹ کر نہیں آئیگا۔ چونکہ میں خود بھی اور دیگر افراد بھی عمر کے سفر میں آگے کی طرف رواں ہیں تو ایک حقیقت ہم سب کو قبول کرنی ہے اور وہ یہ کہ تبدیلی آ کر رہیگی ایسا نہیں ہو سکتا کہ باہر کی دنیا میں لوگ چاند پر جا کر تازہ بستیاں آباد کر رہے ہوں یا اپنےآپ کو ایڈز کے ٹیکے لگا رہے ہوں اور ہم حدود پاکستان کے اندر بیٹھے اس فتوی کا انتظار کر رہے ہوں کہ کیا چاند پر جا کر رہنا جائز ہے اور کیا اس سفر میں خواتین بھی ساتھ جا سکتی ہیں یا یہ کہ کیا ایڈز کے ٹیکے لگوانا جائز ہے جبکہ اس مرض کے پھیلنے میں کچھ غیر اسلامی عوامل بھی موجود ہوتے ہیں۔ فیصلہ اس بات کا کرنا ہے کہ اس تبدیلی کو آپ بردباری سے اپنی مرضی شامل کرتے ہوئے آنے دیں گے یا یہ کسی زلزلے کی طرح ہر اقدار اور روایت کو ختم کر کے آئیگی۔ اگر یہ دوسرے راستے سے آئ تو ظاہر ہے کہ اس میں معاشرے کو بہت شدید المیوں سے دوچار ہونا پڑیگا۔ اور اگر آپ اس میں اپنی مرضی اور مشوروں کو شامل رکھیں گے تو یہ ہر ایک کو اپنے اندر سمو لے گی۔

حوالہ؛
افتخار اجمل صاحب کا بلاگ


میری پوسٹ جس کے لئے انہوں نے اپنے قلم کو زحمت دی یہ ہے۔


گھر کی جڑیں

Sunday, October 4, 2009

روحانی کوشنٹ

روحانی کوشنٹ انسان کی اس سمجھ کے ساتھ منسوب ہے جو زندگی میں کسی مقصد کو دیکھتی اور اسکے لئے جدو جہد کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔یہ صرف ہمیں کائنات کی حیران کن دنیا کو سمجھنے میں مدد نہیں دیتی بلکہ اس میں اپنا ایسا مقام متعین کرنے پر بھی مجبور کرتی ہے جو اس میں بہتری لا سکے۔
انیس سو چوراسی میں ھاورڈ گارڈنر نے ہمہ جہتی ذہانت کا نظریہ پیش کیا۔ اس نے اپنی کتاب 'فریمز آف مائنڈ-ہمہ جہتی ذہانت کا نظریہ'  میں آئ کیو کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ زندگی کو سمجھنے کی  ذہانت کسی ایک قسم کی نہیں ہوتی بلکہ اسے سات مختلف اقسام میں تبدیل کیا جا سکتا ہے اسکا انحصار اسکے ذریعہ ء حصول پر ہے۔ گارڈنر کے مطابق یہ زہانتیں درج ذیل ہیں۔
حساب کتاب اور دلائل سے حاصل ہونے والی ذہانت؛ یہ مختلف حقائق کو اس طرح ترتیب دینے کا نام ہے جسے دلیل کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ جیسے سیب کا گرنا سب دیکھتے ہیں مگر اسکے لئے دلیل تلاش کرنا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اسے آپ کیسے حاصل کر سکتے ہیں ، ظاہر ہے اپنے اطراف میں ہونے والے مختلف مظاہر کی حقیقت پر غور کرکے، ایسے پزلز پر کام کر کے جن میں دلیل اور توجیہہ ہو۔
 زبان پر مہارت؛ زبان پہ مہارت اور مختلف الفاظ کو استعمال کرنا اور انہیں نئے معنی دینا، اسکے لئے آپکو پڑھنے اور لکھنے دونوں کی عادات اختیار کرنی پڑیں گی۔ کوئ موضوع منتخب کر کے اس پر بولیں اور اسے ریکارڈ کرکے سنیں۔ آپ گفتگو میں کتنے الفاظ  بولتے ہیں ایک ہی خیال کو کتنے مختلف الفاظ میں بیان کر سکتے ہیں۔ آپکی لغت کتنی وسیع ہے۔ شعر یاد کریں اور انہیں استعمال کریں۔
موسیقی کو سمجھنا؛ موسیقی مختلف آوازوں کا ایک ترتیباور آہنگ میں ہونا ہے۔ کارخانہ ءقدرت مین مختلف آوازوں کو پہچانیں اور انکی  ترتیب اور آہنگ کا مشاہدہ کریں۔
جسمانی نظم و ضبط سے آگاہ ہونا؛ اس سے ہمیں اپنے جسم کی نہ صرف آگہی ملتی ہے بلکہ انکو مختلف ضوابط میں استعمال کرنے کی تحریک بھی۔ رقص، کھیل مختلف ہنر جیسے سلائ، کڑھائ، حتی کہ لکڑیاں کاٹنا بھی۔
شخصی تعلقات؛
اس سے آپکی دوسرے لوگوں کو سمجھنے، اپنے آپکو ظاہر کرنے کی صلاحیت پتہ چلتی ہے۔ نئے لوگوں سے ملنے سے اور انکے بارے میں جاننے یا دوستی کرنے میں نہ گھبرائیں۔ بلکہ سوچ لیں کہ ہر ہفتے یا ہر مہینے کتنے نئے لوگوں سے ملنا چاہئیے۔
ان سے رابطے میں رہیں۔ اپنے دوستوں کی باتوں میں دلچسپی لیں۔
  تصور کرنے کی ذہانت؛ یہ آپکے دماغ کی چیزوں کو اپنے تصور میں لانے کی صلاحیت ہے۔ کسی مقام سے اٹھکر آنے کے بعد اسکی تفصیلات کو پھر سے یاد کریں۔ کون سی چیزیں کہاں  موجود تھیں، انکی ساخت، ترتیب اور رنگ  کو دہرائیں اور معلوم کریں کہ آپ کتنی اچھی طرح اسے کر پاتے
ہین۔ اب ذہن میں ان چیزوں کی ترتیب بدلیں اور تصور کریں کہ نئ ترتیب میں چیزیں کس طرح نظر آئیں گی۔ رنگوں کے بارے میں سوچیں کن رنگوں کو ملائیں تو کون سے رنگ وجود میں آ سکتے ہیں۔ اسی تیکنیک کو ادیب، شاعر، ڈیزائنر اور مختلف تخلیق کار استعمال کرتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کسی انسان میں مندرجہ ذیل خصوصیات ہیں تو وہ یقیناً ایک بہت اچھا روحانی کوشنٹ رکھتا ہے۔

طبیعت میں لچک
خود آگہی
برے حالات سے مقابلہ کرنے اور انہیں اپنے حق میں کرنے کی اہلیت
ایک ویژن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی اہلیت
اپنے اطراف میں پھیلی مختلف اشیاء اور حقائق کے درمیاں تعلق جاننے کی اہلیت
اپنے اطراف کے ماحول اور لوگوں کو کم سے کم نقصان پہنچانے کی خواہش کا موجود ہونا
بنیادی حقائق کو کھوجنے اور انکے بارے میں سوال کرنے کی صلاحیت
روایات کے بر خلاف جا کر کام کرنے کی اہلیت

یہاں پر کچھ چیزیں جو میں اپنے قارئین سے توقع کرتی ہوں کہ وہ اپنے جونئیر ساتھیوں کی رہنمائ کے لئے ضرور اپنے تبصروں میں بیان کریں۔ وہ ویژن، تخلیقی صلاحیت کی نمو، روایات سے ہٹنا اور انہیں چیلینج کرنا اور سوال کرنے اور تقلید کرنے میں فرق کو اپنے لئے مثبت طور پر استعمال کرنا۔
   اسکے بعد میں سیلف برانڈنگ پر بات کرنا چاہونگی۔

ریفرنس؛


Saturday, October 3, 2009

پھول نگر کے کانٹے

ویسے تو ہمارے یہاں انسان کو انسان تسلیم کیا جائے یہی کچھ کم نہیں کہ اس پر انسانی حقوق کا واویلہ بھی مچا دیا جاتا ہے خود ایسے انسان نما انسان بھی حیران ہوتے ہیں کہ وہ بھی انسان ہیں اور انکے بھی حقوق ہیں۔ باقی ہر رویہ روا رکھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ اس حقوق کی جنگ نے شاید ہر چیز میں بگاڑ ڈالا ہوا ہے۔
دنیا کے زیادہ ترغریب اور سماجی ناانصافی کے شکار معاشروں کی طرح ہمارے یہاں بھی خواتین کے ساتھ بد ترین مظالم کئے جاتے ہیں اور اس میں ایک شرمناک حرکت جو ہر تھڑے عرصے بعد تواتر سے کی جاتی ہے انہیں برہنہ سر بازار پھرانا، ایک ایسے معاشرے میں جہاں خواتین کے با عصمت ہونے کی نشانی انکے جسم کا کپڑوں سے زیادہ سے زیادہ ڈھکا ہونا سمجھا جاتا ہے وہاں سزاکے طور پر اسی عورت کو نہ صرف تن پر موجود کسی بھی کپڑے سے محروم کر دیا جاتا ہے بلکہ انہیں لوگوں کے سامنے  سر بازار تماشہ بنایا جاتا ہے۔
ریاستی قوانین ایسی تمام عورتوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہتے ہیں ، وہ عدلیہ جسے آزاد کرانے کے دعویداروں کے گلے خشک اور آنکھیں بند ہو چکی ہیں اب وہ عام شخص کیو انصاف دلانے سے معذور ہے۔ ان سب عناصر کو ابھی ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنے سے فرصت نہیں۔
مذہبی جماعتیں جن کے حامی دن رات خواتین کے حجاب کے متعلق بول بول کر اور لکھ لکھ کر تھکتے نہیں۔ وہ اس بات پہ کڑھتے رہتے ہیں کہ یہاں کچھ خواتین کیوں انکے بنائے ہوئے ضابطوں
کے مطابق زندگی نہیں گذارتیں۔ وہ بھی اسے کسی قسم کی زیادتی سمجھنے سے قاصر رہیں گے کیونکہ یہ واقعہ ان عورتوں کے ساتھ پیش آیا جنہیں جسم فروشی کے کاروبار سے منسلک سمجھا جاتا ہے۔
اگر چہ کہ جسم فروشی کا عمل کبھی بھی یکطرفہ نہیں ہوتا لیکن مرد تو ہم جانتے ہیں کہ ترغیب دینے میں آجاتے ہیں اس لئیے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قصور کس کا ہوتا ہے اور ایسی ذلیل کر دینے والی سزائیں کس کے حصے میں آنی چاہئیں۔
ہمارے باقی کے نظام کے پاس مسائل کا انبار ہے انہیں اسے مزید بڑھانے سے فرصت نہیں اور عوام اپنی آفات میں مبتلا ہیں۔ اب ان عورتوں کی دادرسی کون کریگا۔ ان جسم فروش عورتوں کے کیا کوئ انصاف کےحقوق نہیں ہوتے۔یہ بے حیائ کے واقعات آخر کب تک اسی طرح بار بار ہوتے رہیں گے۔ اسکا جواب سادہ ہے اور وہ یہ کہ جب تک اسکے مجرموں کو قابل عبرت سزا نہیں ملتی اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے۔ یا پھر اس معاشرے کو ان عورتوں کے اندر انتقام اور بدلے کی آگ بھڑکنے کا انتظار کرنا چاہئیے۔
میرے اور ساتھی بلاگر بھی اس پر لکھ چکے ہیں میں انکے رابطے یہاں دے رہی ہوں۔ قلم کی زکوات اسی طرح ادا کی جا سکتی ہے کہ ان لوگوں کے لئے بھی لکھا جائے جنکا کوئ پرسان حال نہیں۔ ہم انکی زندگی آسان نہیں کر سکتے لیکن یہ ممکن ہے کہ ہم دوبارہ ان واقعات کے رونما ہونے میں رکاوٹ بن جائیں۔








Friday, October 2, 2009

ایمو شنل کوشنٹ اور ایک سوالنامہ

نیچے دئیے گئے بیانیہ سوالنامے میں سے ہر سوال کے جوابات مندرجہ ذیل چھ جوابوں میں سے کوئ ایک دے سکتے ہیں۔ ہرجواب کے متعین نمبر اسکے آگے لکھے ہوئے ہیں۔
شاید ہی کبھی----0
بہت ہی کم----1
 بعض اوقات----2
کبھی کبھار----3
 اکثر وبیشتر----4
ہمیشہ----5
گروپ؛ الف
1
میں مہربان، محبت کرنے والا اور ہر ایک کو معاف کرنے والا ہوں، خاص طور پر ان لوگوں کو جو میرے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔
2
میں اپنی زندگی کے تمام پہلوءووں سے خوش ہوں اور میں جیسا ہوں اور جو ہوں اور جو بننے جا رہا ہوں اسے پسند کرتا ہوں۔
3
میں اپنی زندگی کے ہر پہلو میں بڑا تخلیقی اپچ رکھتا ہوں۔ میں ہر صورتحال میں اچھائ کا پہلو مد نظر رکھتا ہوں اور ہمیشہ مثبت طرز فکر رکھنا چاہتا ہوں۔
4
میں کم از کم بیس منٹ روزانہ اپنے ساتھ گذارتا ہوں اور خاموش رہ کر سوچتا ہوں جو میں نے اب تک کیا۔ میں زندگی میں بھلائ کے لئے دعا کرتا ہوں۔
5
میں نظم وضبط سے رہتا ہوں، ڈائری لکھتا ہوں، اور اپنے مسائل نہ صرفایک جگہ لکھتا ہوں بلکہ گاہے بگاہے ان پر ایک نظر بھی ڈالتا رہتا ہوں۔
6
میں اپنی زندگی میںان قدروں کو ترجیح دیتا ہوں جو عدل، انصاف، انسانی آزادی اور حق کے ساتھ جڑی ہوئ ہیں۔ میں ان پر عمل بھی کرتا ہوں۔
7
میں ترتیب کو پسند کرتا ہوں۔ میری چیزیں صاف اور مناسب ترتیب میں ہوتی ہیں اس لءیے میں افراتفری کا شکار نہیں ہوتا۔
گروپ؛ ب 
8
 مجھے نصیحت کرنا پسند ہے اور جب دوسرے پریشانی میں ہوں تو میں انکا حوصلہ بڑھاتا ہوں۔
9
مجھے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئیےلطیفے اور کہانیاں سنانا پسند ہیں۔
10
مجھے تفریحاً بحث کرنے میں مزہ آتاہے، دوسروں کو تنگ کرنا اور متنازعہ موضوعات پر بات کرنا میں ان سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔
11
میں سگریٹ پیتا ہوں، شراب ایک ممکنہ مقدار سے زیادہ پیتا ہوں، بہت زیادہ ٹی وی دیکھتا ہوں اور بہت زیادہ فکشن کتابیں پڑھتا ہوں۔ ایسی کہانیاں جن سے تصوراتی دنیا میں ہر وقت رہیں۔
12
میں ان منفی چیزوں کے بارے میں خاصہ فکرمند رہتا ہوں جو میرے ساتھ یا کسی اور کے ساتھ پیش آسکتی ہیں۔
13
میں اس بات پہ یقین رکھتا ہوں کہ بہت سارے اصول ایسے ہیں جنہیں کسی بھی حالت میں نہیں توڑنا چاہئیے۔
14
میں اپنی زندگی میں ہمیشہ اپنے لئیے بلند ترین مقاصد کو ہدف بناتا ہوں اگر چہ ان تک پہنچنا ناممکن ہو۔
اب ان سوالوں کے دو گروپ بنا لیں۔ سوال نمبر ایک سے سات تک ایک گروپ اور سوال نمبر آٹھ سےچودہ تک دوسرا گروپ۔ تمام سوالوں کے آگے جو جواب آپکو سمجھ میں آتا ہے اسے ٹک مارک کریں اور اسکا حاصل کردہ نمبر اسکے آگے لکھ دیں جو آپ کو سوالنامے کے شروع میں دیا گیا ہے۔ پہلے گروپ کے حاصل کردہ نمبروں کو جمع کر کے اسکے مجموعے کو الف نام دے دیں۔

1+2+3+4+5+6+7=مجموعہ الف 
اور دوسرے گروپ کے تمام نمبروں کو جمع کر کے اسکے مجموعے کو ب کا نام دے دیں۔

8+9+10+11+12+13+14= مجموعہ ب
اب اپنا ای کیو یا ایموشنل کوشنٹ معلوم کرنے کے لئے مجموعہ الف کو مجموعہ ب سے تقسیم کر دیں اور حاصل جمع کو سو سے ضرب دے دیں۔ لیجئیے آپکا ایک اندازاً حاصل شدہ ای کیو موجود ہے۔

لیکن یہ ساری مشق آپکا ای کیو معلوم کرنے کے لئیے نہیں کی گئ تھی۔ بلکہ اسکا مقصد آپکو یہ اندازہ دینا تھا کہ سیٹ الف میں موجود سوالات پر غور کریں اس سیٹ میں آپکے نمبر جتنے زیادہ ہونگے اتنا آپکا ای کیو زیادہ ہونے کا امکان ہو گا۔ اور سیٹ ب میں آپکےنمبر جتنے زیادہ ہونگے اتنا ہی آپکا ای کیو کم ہوتا جائے گا۔ ایک اوسط ای کیو پچاسی سے ایک سو پندرہ تک ہوتا ہے۔ اکثر کامیاب لوگوں کا ای کیو دو سو کی حد میں آتا ہے۔ ان سوالات پہ غور کیجئیے ایک اچھے ای کیو کے لئیے آپکو کیا کرنا ہوگا۔ اگر آپ اپنے روئیے میں تبدیلی لے آئیں تو ای کیو بھی تبدیل ہو جائے گا۔
اردو گرامر کی رو سے مذکر کا صیغہ مذکر مونث دونوں کے لئیے استعمال کیا گیا ہے۔ خواتین بھی اسے اسی طرح استعمال کرسکتی ہیں۔
اب ہمارا اگلا موضوع اس سیریز میں ایس کیو، اسپریچوئل یا روحانی کوشنٹ ہے جس کے بعد کم ازکم کوشنٹس کی میں چھٹی کر دونگی۔

نوٹ؛
اس سوالنامے کی تیاری میں مندرجہ ذیل لنک سے مدد لی گئ ہے۔ بلکہ یہ اسی کا ایک ترجمہ ہے جسے آسان بنانے کے لئیے متن میں بہت معمولی سی تبدیلیاں کی گئ ہے۔ آپ اسے اصل حالت میں یہاں دیکھ سکتے ہیں۔