Sunday, October 30, 2011

کرائے کے ٹٹّو

ہمارے ملک میں جیسے ریلیوں کا وبائ مرض پھوٹ پڑا ہے۔ جمعے کے با برکت  دن جناب نواز شریف نے اس سلسلے میں پہلی علامت ظاہر کی۔ یہ با برکت دن منتخب کرنے کی وجہ سے صاحبان کشف نے انکی اگلی منزل جدہ بتائ ہے۔  سبحان اللہ۔
آج عمران خان  ریلیز کا چالیس سالہ ریکارڈ توڑنا چاہتے ہیں ویسے تو اللہ میاں نے انہیں چاندی کا چمچ منہ میں دے کر پیدا کیا ہے اور نزاکت نازنینوں کے بنانے سے نہیں بنتی، خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آہی جاتی ہے۔ ایسے ہی بادشاہ بننے کی خواہش بھی کسی جگر رکھنے والے شخص کے ذہن میں ہی پیدا ہو سکتی ہے۔ ہمارے ہر دلعزیز شہزادے پہ اس وقت بادشاہت کا نور اترا ہوا ہے۔ ایسا نور جس میں لوگ ان سے یہ تک پوچھنے سے قاصر ہیں کہ زمام اقتدار سنبھالنے کے بعد آپ کریں گے کیا۔ آپکے منصوبوں کی کچھ تفصیل۔ واللہ علیم و خبیر۔
ادھر الطاف حسین جنہیں ذوالفقار مرزا کے ڈنڈے سے جناب صدر نے ایسا سُدھایا ہے کہ وہ انکے لئے ہر خدمت انجام دینے کو تیار ہیں چاہے انکا ووٹ بینک اسکے خلاف ہو۔ ان کو بھی بر وقت یہ خیال باور کرایا گیا کہ انکی فی الفور 'حکمت عملی' کیا ہونی چاہئیے۔یہ دونوں ریلیز جمہوریت یعنی صدر صاحب کے خلاف سازش ہیں اس لئے ایک ضد ریلی کا بند وبست انکی طرف سے بھی ہے جس میں انہوں نے دینی جماعتوں سے بھی شرکت کی دعوت کی ہے۔ نیکی کے کاموں میں باہم ہو جاءو۔
دینی جماعتیں ابھی ممتاز قادری غازی کو رہا کرانے کی ریلیوں میں مصروف ہیں۔ انکی ریلی کا موضوع ہمیشہ کی طرح ایک ہی ہے نفاذ شریعت۔ یہ جملہ اتنا پر اثر ہے کہ ڈنگی کے مچھر ہوں یا سیلاب، وال اسٹڑیٹ پہ قبضہ ہو یا شعیب ملک کی شادی ہر جگہ کام کرتا ہے۔  اطیعواللہ و اطیعوالرسول۔
ہر ریلی کے مریض کے منہ سے ایک ہی آواز برآمد ہو رہی ہے 'ہاکستان بچاءو۔ جبکہ پاکستان آہستہ آہستہ بدبدا رہا ہے مجھے میرے دوستوں سے بچاءو۔ 
ریلیوں کے جراثیم کس نے پھیلائے ہیں؟ اسکا کیا تدارک ہے؟ اسکا کون سا مریض بچے گا؟ بچ جانے والا مریض ہمارے کسی کام کا ہوگا یا اپنے ڈاکٹر کے اشارے پہ ناچے گا؟
ان تمام سوالوں کے جواب جاننے کے لئے، ایک چالیس روزہ چلّہ کاٹنے کی ضرورت ہے جسکے لئے ایک سنسان جگہ کی چاہئِے۔ اٹھارہ کروڑ آبادی والے ملک میں یہ جگہ کہاں ملے گی۔ اگر لوگوں کے ذہن سے کوئ جگہ اتری ہوئ ہے تو اس پہ، سیلاب، ڈنگی کے مچھر،  مجاہدین یا بیرونی طاقتوں کا قبضہ ہے؟ ہم کیا کریں، کیا ہم بھی کوئ ریلی نکالیں؟ 
ہم عوام کے پاس ریلیاں نکالنے کے ہزار بہانے ہیں مگر ہر دفعہ روپے کا مسئلہ سامنے آجاتا ہے۔ 
جو طاقتیں ان ریلیوں کو منعقد کرانے میں دلچسپی لے رہی ہیں ان سے صرف اتنا کہنا  ہے کہ ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں۔ اجی ، آزما کر تو دیکھئیے ہم بھی جاندار ڈائیلاگز بول سکتے ہیں، آپکی ڈگڈگی پہ آئیٹم رقص پیش کر سکتے ہیں۔ ریلی کیا ریلہ لا سکتے ہیں۔ خدا گواہ ہے ہم بھی قرآن پہ ہاتھ رکھ کر قسم کھا سکتے ہیں کہ کبھی ایک روپئیے کی بھی کرپشن نہیں کی۔ اگر کی تو مرے پہ سو درے۔ ہم بھی پاکستان کو بچانا چاہتے ہیں اگرچہ کہ اب تک اپنا مال، جان، عزت، گھر، شرافت، علم اور دوسری بے شمار اشیاء بچانے میں ناکام رہے ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہم پاکستان بچانے میں کامیاب ہونگے۔ انشاءللہ۔
گو کہ ہمیں اکثر یہ بھی خیال آتا ہے کہ ہم کون سا پاکستان بچائیں گے وہ جو قائد اعظم نے بنایا، وہ جو انیس سو اکہتر میں دو ٹکڑے ہوا پھر بھی پاکستان کہلایا، وہ جس نے ایک فلاحی ریاست بننے کے بجائے جہاد کو اپنی معیشت بنایا۔ سر، آپ تو جانتے ہیں کہ یاد ماضی عذاب ہوتا ہے اور اسکا حل حافظہ چھین لینے میں ہی ہے جس میں سنا ہے کہ آپ ماہر ہیں۔
 
یقین کریں عزت مآب، ان سب کرائے کے ٹٹءووں سے ہم کہیں بہتر ٹٹو ثابت ہونگے۔ ہم تعداد میں زیادہ ہیں تو کیا اتنے ہی بے ضرر ہیں جتنی درخت کی چڑیاں یا آنگن کی گئیاں۔ جہاں باندھ دیں گے بندھ جائیں گے اور جدھر کو اڑا دیں اڑ جائیں گے۔ بخدا ہمیں دانہ پانی، ایک چھوٹا سا آسمان اور صحن کے کھونٹے کے علاوہ بس ایک چیز اور چاہئیے۔ آپکے ان چہیتے ٹٹءووں کے لئے ایک اصطبل اتنی دور جہاں سے یہ ہمیں نظر نہ آسکیں۔ و تعز من تشاء تزلّ من تشاء۔