Saturday, August 27, 2011

دوران پرواز

تمہیں اس سے کیا یہ میری زندگی ہے۔ یہ وہ جملہ ہے جو ہم چاہے کتنی ہی بے غرضی اور مہربانی سے زندگی گذاریں ہمیں ایکدن بولنا ہی پڑتا ہے۔ ہماری یہ زندگی جسے ہم یا دوسرے کامیاب سمجھیں یا ناکام۔ 
ناکام زندگی گذارنے کے طریقوں پہ نجانے کیوں توجہ نہیں دی جاتی۔ کامیاب زندگی گذارنے کے طریقوں پہ دنیا میں خدا جانے کتنی کتابیں اور تحاریر لکھی گئیں۔ زیادہ تر ہاتھوں ہاتھ لی گئیں۔ پُر جوش قارئین انہیں پڑھ کر کہتے ہیں۔ یہ کیا بکواس ہے یہ تو ہمیں پہلے سے معلوم تھا۔ انہیں پہلے سے معلوم ہوتا ہے مگر پھر بھی وہ حسب خواہش کامیابی حاصل نہیں کر پاتے ۔ لکھنے والے کو بھی پہلے سے معلوم ہوتا ہے مگر پھر بھی وہ خاصہ کامیاب رہتا ہے۔ اپنے بتائے ہوئے گروں پہ عمل کر کے نہیں، انہیں لکھ کر۔
خیر۔ میں آجکی ڈیل کارنیگی نہیں ہوں۔ اس لئے آگے چند باتیں جو لکھنے جا رہی ہوں ان پہ عمل کرنے سے پہلے مزید چار لوگوں سے مشورہ کر لیجیئے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنے کی کوشش نہ کریں کہ ایک ڈیل کارنیگی چار افراد کے برابر ہوتا ہے۔ مجھے ڈیل کارنیگی کا صحیح وزن معلوم نہیں ہے۔
اگر وہ چار لوگ اس پہ عمل نہ کرنے کا مشورہ دیں تو بھی انکی بات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دینے میں کوئ حرج نہیں کیونکہ انہیں اس سے کیا یہ آپکی زندگی ہے۔ یاد رکھیں مشورہ سب سے کریں مگر کریں وہی جو آپکا دل چاہے۔ ویسے تجربے کی بات ہے کہ اگر آپ یاد نہیں رکھیں گے تو بھی آپ یہی کریں گے۔
 اس تحریر میں پیش کئیے گئے خیالات قطعی طور پہ عام، افراد کے لئے ہیں۔ مجرمانہ جھکاءو رکھنے والے یا ذہنی بیمار اسے پڑھنے سے گریز کریں یہ مفاد عامہ کے لئے کہا جا رہا ہے۔   
ہاں تو ، پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ کیجئیے جو آپکا دل چاہے جو آپکو پسند ہو۔ اور اسے اکثر کیجئیے۔ اس میں لوگوں کو دھمکانا، گلی کے نکڑ پہ لڑکیوں پہ سیٹیاں بجانا، بم مارنا اور اس قماش کی دیگر حرکات شامل نہیں۔ اگر ایسا کرنے کا دل بہت زیادہ چاہ رہا ہے تو کرنے سے پہلے لڑکیوں کے والدین یا کسی مافیا سے رابطہ کریں۔
اگر آپکو کوئ چیز یا صوت حال پسند نہیں آرہی تو اسے بدل دیں۔ اسمیں دوسروں کا ایمان، نظریات ، دل، کپڑے اور گھر  ، آپکے والدین اور معاشرہ وغیرہ شامل نہیں۔ کیونکہ ان میں سے اکثر چیزیں آپکی دسترس سے باہر ہیں۔ لیکن آپ اپنی جاب بدل سکتے ہیں، اپنا دل بدل سکتے ہیں۔ اپنا گھر، کپڑے، شوہر، بیوی، شیمپو کا برانڈ یا برش بدل سکتے ہیں بچے نہیں بدل سکتے انکا اسکول بدل سکتے ہیں، مستقبل بدل سکتے ہیں اماں یا ابا بدل سکتے ہیں ۔ بیک وقت دونوں نہیں بدل سکتے۔ حتی کہ اپنا نظریہ بدل سکتے ہیں مگر ایمان نہیں۔ کم از کم دوسروں کو دکھانے کے لئے اسے ویسا ہی رہنے دیں بلکہ اس بارے میں زیادہ سخت ہو جائیں۔
اپنی محبت کو گلیوں ، چوباروں، تعلیمی اداروں میں ڈھونڈھنا بند کر دیں۔ وہ آپکے منتظر ہیں مگر اسی وقت ملیں گے جب آپ وہ کام کریں گے جو آپکو دل سے کرنا پسند ہیں۔ وہ آپکی پسند کے راستے پہ موجود ہیں۔
زندگی کو ہر وقت تجزئیے کے ترازو پہ نہ رکھے رہیں۔ یہ بہت سادہ ہے اور اسکی خوب صورتی سادگی میں ہے۔ دل کو کبھی کبھی تنہا چھوڑنے کو اسی لئے کہتے ہیں۔ جتنا چھانتے ہیں اتنا کرکرا ہوتا ہے۔  بالخصوص جہاں مٹی ہو وہاں اس سے گریز کریں۔
اپنے دل، دماغ اور بازءووں  کو زندگی میں نئ چیزوں کو گلے لگانے کے لئے ہمیشہ تیار رکھیں۔ اس میں صنف مخالف کے انسان شامل نہیں۔
اختلاف سے مت گھبرائیں، اسی میں ہی نئے امکان ہیں اگرکوئ سمجھے۔
لوگوں سے دریافت کریں کہ انکی زندگی میں کون سا خواب انہیں مہمیز رکھتا ہے، پر جوش بناتا  ہے۔ خود وہی خواب  دیکھنے کی ضرورت نہیں اپنے خواب بنئیے اور دوسروں کو اس میں شریک کریں۔ اپنے خواب بیان کرنے سے نہ جھجھکیں۔ یہ آپکو سمت دیتے ہیں اور دوسروں کو حوصلہ۔
سفر کریں، گم ہو جانے سے، کھو جانے سے نہ ڈریں۔ سفر کی سنسنی اور ان دیکھے کو جاننے کا جوش کیا ہوتا ہے اسے جاننے سے محروم نہ رہیں۔ یہ بھی ایک موقع اور تجربہ ہوتا ہے۔  زندگی صرف آپکے متعلق ہی نہیں ان سے بھی تعلق رکھتی ہے جن سے آپ ملتے ہیں جنکے ساتھ آپ زندگی میں نئے امکانات تخلیق کرتے ہیں۔ اس لئے لوگوں سے ملئیے اور زندگی کے نئے پہلو تخلیق کیجئیے۔ سفر کیجئے جیسے ہوا کرتی ہے۔ ہر باریک سوراخ سے گذر جائیں۔ چٹانوں کو چھو ڈالیں اور پانی کو اڑا لے جائیں۔
زندگی میں اکثر چیزیں صرف ایک دفعہ آتی ہیں انہیں ضائع نہ کریں۔ اس لئے جب کوئ موقع ملے اس سے مستفید ہوں۔ کل ہو یا نہ ایک بات ہے اور  یہ کہ کل اسکے ساتھ ہو یا نہ ہودوسری بات۔
زندگی بہت مختصر ہے۔ اپنے خوابوں کے لئے گذارئیے اپنے جنون اور جذبوں کے لئے گذارئیے اس سے پہلے کہ یہ آپکو گذار دے۔ اور اس جنون ، جذبے اور خواب میں گم ہو جانے سے کون روک سکتا ہے یہ زندگی آپکی ہے۔ اڑیں بغیر خوف کے یہ اڑان، نئے آسمانوں اور جہانوں کی طرف لے جائے گی جہاں اس سے پہلے کوئ نہیں گیا ہوگا۔ دکھا دیں ٹھینگا ان سب کو جو اڑنا نہ جانیں۔
یہ ساری تقریر اس وقت بیان کرنے کا مقصد کیا ہے۔ کچھ نہیں صرف یہ کہ یہ گانا سننے کا دل چاہ رہا تھا۔ چاہیں تو آپ سن لیں اور چاہیں تو نہیں۔ ورنہ مجھے اس سے کیا یہ آپکی زندگی ہے۔

  


Wednesday, August 24, 2011

تکلف بر طرف

کراچی میں حالات اتنے خراب ہیں۔ میں اپنے شوہر صاحب سے  بات کرنا چاہ رہی تھی مگر رابطہ نہ ہو سکا۔ انہیں ای میلز بھیجیں ، جواب ندارد۔ دو دن بعد تنگ آکر  دوبارہ انہیں فون کیا۔
یہاں کینیڈا کی وسعت اتنی ہے کہ ایک ملک میں کئ ٹائم زون ہیں۔ پہلے ہم ٹورنٹو میں تھے تو ٹائم زون الگ تھا۔ جب ہم سسکاچوین پہنچے تو ٹائم زون تبدیل ہو گیا۔ یہ ٹورنٹو سے دو گھنٹے پیچھے ہے۔ جب میں نے فون کیا تو اس وقت یہاں اگرچہ عین دو پہر کا وقت تھا مگر کراچی میں رات کا ایک بج رہا تھا۔
موصوف نے فون اٹھایا تو آواز سے لگ رہا تھا کہ سوتے ہوئے اٹھے ہیں۔ خیریت کے چند جملوں کے بعد میں نے فون بند کر دیا۔  میزبان پاکستانی خاتون وہیں موجود تھیں۔ کہنے لگیں بڑی جلدی بند کر دیا آپ نے۔ میں نے کہا ہاں، جب میں نے ان سے کہا کہ آپ نے تین دن سے پریشان کیا ہوا ہے۔ ادھر شہر کے حالات اتنے خراب ہیں۔ کم از کم انٹر نیٹ تو جاری حالت میں رکھیں۔ فرمانے لگے، انٹر نیٹ کی لائن خراب ہے۔  آپ نے مجھے رات کو ایک بجے نیند سے جگا کر پریشان کر دیا۔ بس میں نے انکی نیند کا خیال کرتے ہوئے خدا حافظ کر دیا۔
میری میزبان خاتون کہنے لگیں۔ یہ آپ دونوں ایکدوسرے سے کچھ زیادہ ریزروڈ نہیں رہتے۔ میں نے حیران ہو کر انکی طرف دیکھا۔ آپکو یہ شبہ کیوں ہوا؟  جواب ملا، کیونکہ آپ دونوں ایکدوسرے سے آپ کر کے بات کرتے ہیں۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ کیسے نکل سکتا ہے؟ میں نے حیرانی سے دریافت کیا۔
دیکھیں ناں، میں اپنے شوہر کو آپ کہتی ہوں اور وہ مجھے تم کہتے ہیں۔ لیکن آپ دونوں ایکدوسرے کو آپ کہتے ہیں۔ اوہ، مجھے ہنسی آئ۔ ہم نے اپنی شادی کی ابتداء میں کچھ چیزیں طے کی تھیں۔ مثلاً یہ کہ ایکدوسرے کو بہتر ین  اور برابر کے طریقے پہ مخاطب کریں گے اور یہ کہ ایکدوسرے کو ایکدوسرے کے خاندان کے طعنے نہیں دیں گے اور نہ اپنے رشتے داروں کی وجہ سے ایک دوسرے سے لڑائیاں کریں گے۔ ہمیں جب بھی لڑنے کی خواہش ہوئ تو اپنے زور بازو پہ لڑیں گے۔  بس اس وجہ سے لڑنے کی نوبت نہیں آ سکی۔
اب انہیں لازماً ایک اور سوال کرنا چاہئیے تھا کہ پھر آپ دونوں ایکدوسرے سے کیا باتیں کرتے ہیں۔ اور اس طرح تو ثابت ہوتا ہے کہ آپ لوگ ایک دوسرے سے کافی ریزروڈ ہونگے۔ کیونکہ ایک  مشاہدہ یہ ہے کہ ان لوگوں کے درمیان زیادہ گہرا رشتہ اور تعلق ہوتا ہے جنکے درمیان کی جانے والی غیبت کسی مشترکہ شخص کے بارے میں ہو۔ اپنے اس مشاہدے سے میں دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔
اگر بات سمجھ نہیں آ رہی ہو تو آزما لیجئیے۔ کوئ شخص، جس سے آپکے تعلقات بس یونہی سے چل رہے ہوں۔ اسکے ساتھ کسی دن گپ شپ کریں اور جان بوجھ کر کسی ایسے شخص کی برائیاں شروع کر دیں جو اسے نا پسند ہو۔ بس چند دنوں میں ہی اسکے اور آپکے درمیان تکلفات کی بڑی دیواریں گر جائِں گی۔
 یہ بھی ایک عام سا مشاہدہ ہے کہ پاکستان میں اکثر شوہر حضرات اپنی بیویوں کو تم کہہ کر مخاطب کرتے ہیں جبکہ بیویاں اپنے شوہروں کو آپ کہتی ہیں یا کسی احترام کے نام سے مخاطب کرتی ہیں مثلاً شوہر اگر پی ایچ ڈی ہے یا طب سے تعلق رکھتا ہے تو ڈاکٹر صاحب، انجینیئر ہے تو انجینیئر صاحب جیلر ہے تو جیلر صاحب۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ شوہر کی طرف سے زیادہ قربت اور محبت کی وجہ سے ہے یا بیوی کی طرف سے جھجھک ہے  یا  روایت اور رواج یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف نئ نسل کے بیشتر شادی شدہ جوڑے ایسے بھی ہیں۔ جو ایکدوسرے کو تم سے مخاطب کرتے ہوئے بھی ملتے ہیں۔ کیا یہ انکے درمیاں زیادہ قربت کی نشانی ہے۔ ہمم شاید نہیں، کیونکہ لڑتے ہوئے بھی وہ ایکدوسرے کو تم ہی کہتے ہیں بلکہ بعض دفعہ حقارت کے لئے تو سے بھی مخاطب کرتے ہیں۔
میاں بیوی سے ہٹ کر آجکل میں دیکھتی ہوں کہ ہم عمر ٹین ایجر دوست چاہے لڑکے ہوں یا لڑکیاں جب اپنی قربت کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو ایکدوسرے کو تُو سے مخاطب کر کے بڑا خوش ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات تو بے تکلفی میں گالیاں بھی استعمال ہوتی ہیں کہ جیسے گالیاں چاٹ مصالحہ ہیں۔ اور یوں وہ زمانے گئے جب شاعر اپنے محبوب سے شکوہ کرتا نظر اتا تھا کہ یوں ہر بات پہ کہتے ہو کہ تو کیا ہے، تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے۔ آج کا شاعر مسکراتا ہے اور بتاتا ہے کہ پہلے آپ پھر تم ہوئے پھر تُو کا عنواں ہو گئے۔ 
سو، کیا انداز تخاطب سے لوگوں کے درمیان تعلقات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یا یہ طرز معاشرت اور انسان کے ماحولیاتی رکھ رکھاءو کو ظاہر کرتا ہے۔ ایکدوسرے کو اچھے الفاظ سے مخاطب کرتے ہوئے کیا ہم ایکدوسرے کے قریب نہیں ہو سکتے؟
قومیں آپس میں جب ملتی ہیں تو زبان میں نئے انداز آتے ہیں۔ لیکن زبان کی تہذیب سے ایک قوم کی ذہنی سطح بھی سامنے آتی ہے۔ حضرت علی نے کہا تھا کہ ہر شخص اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے بولو تاکہ پہچانے جاءو۔ جس لمحے ہم بولنا شروع کرتے ہیں چاہے وہ دنیا کا کوئ اعلی ترین موضوع ہو یا گھٹیا ترین۔ ہماری زبان ہمارے پس منظر کو کھول دیتی ہے۔
لیکن اتنی سنجیدہ اور بھاری  بات سے الگ یہاں اصل بات تو یہ پوچھنی تھی کہ کیا ایکدوسرے کو احترام کے الفاظ سے مخاطب کرنے سے اجنبیت پیدا ہوتی ہے، برقرار ہتی ہے  یا بے تکلف الفاظ استعمال کرنے سے قربت جنم لیتی ہے دل کھل جاتے ہیں۔

Monday, August 22, 2011

آتشی شہرکے خاک خیالات

سوال یہ ہے کہ کراچی کی آگ کیسے بجھ سکتی ہے۔ میرے نزدیک اسکے چند حل ہیں جو اتنے آسان ہیں جتنا حلوے کا کھانا۔ اس نازک موقع پہ حلوے کی تاریخ میں جانا صحیح نہیں ہے۔ اس لئے آگے چلتے ہیں۔
پہلے مرحلے میں آپ اخبار پڑھنا چھوڑ دیں اور ٹی وی کی خبروں اور ملکی حالات پہ آنے والے شوز سے اجتناب کریں۔ جب زندگی اتنی ہی بے وقعت ہے تو وقت گذارنے کے لئے کھانے کی تراکیب والے چینلز دیکھیں۔ کسی سیانے نے کہا ہے کہ کچھ نہ کھا کر مرنے سے کچھ کھا کر مرنا بہتر ہے۔ اگر اس صورت کا سامنا کرنا ہی پڑ رہا ہے تو لخت جگر کودوسرے جہاں بھیجنے سے پہلے جگر بھوننے کا طریقہ سیکھ لیجئیے۔
بیشترآگ تو اسی سے بجھ جائے گی۔
اگر ابھی بھی نظر آرہی ہے تو  یہ نظر کا فتور ہے۔ کسی ماہر امراض چشم سے رجوع کریں۔ لیکن ماہر امراض چشم سے ملنے کے لئے جانے سے پہلے اپنی تمام اہم چیزوں کے بارے میں وصیت لکھ دیں۔ اہم دستاویزات کے متعلق گھر والوں کو بتا دیں کہ کہاں رکھی ہیں۔ قرضداروں کے نام اور قرض کی مقدار کسی مناسب جگہ لکھ کر رکھ دیں۔ تاکہ آپکے بعد اسے کوئ وصول کر سکے۔
اگر آپ ایک بلاگر ہیں تو اپنا پاس ورڈ کسی قریبی عزیز کو بتا دیں تاکہ بعد ناگہانی اطلاع کے وہ آپکے متعلق اپ ڈیٹ دے سکے۔ گھورئیے نہیں، سو بار چمن اجڑا، سو بار بہار آئ، دنیا کی سڑی رونق تیری یاد نے بڑھائ، شاعر سے معذرت۔ 
اگر آپ اردو بلاگر ہیں تو اردو سیارہ پہ دعا کے لئے ایک پوسٹ لکھنا نہ بھولئیے گا۔ فیس بک پہ ایک اسٹیٹس کافی ہے۔ ٹوئٹر پہ ٹوئیٹ کرنے سے پرہیز کریں۔ مبادا جو کام گھر سے دس میل دور ہونا ہے وہ گلی کے نکڑ پہ ہو جائے۔
گھر والوں سے کہا سنا معاف کروا لیجئِے۔ اپنے اوپر آیۃ الکرسی کا دم کر لیجئے اور سارے راستے یا حفیظ دوہراتے رہیں۔ مایوسی کفرہے امید رکھیں کہ آپ اپنا چشمہ بنوا کر پہننے کے قابل ہو جائِں گے۔ جس سے آپکو کراچی کی بجھی ہوئ آگ نظر آئے گی۔
اگر آپ مذہبی رجحان رکھتے ہیں تو رمضان کا مقدس مہینہ ہے اعتکاف میں بیٹھ جائیے۔ ابھی تک یہ اطلاع نہیں آئ کہ کسی مسجد سے اغواء کی کوئ واردات ہوئ اور مغوی کسی بوری میں بغیر سر کے پایا گیا۔ اس سے کچھ بد گمانی پالنے والے یہ نہ سمجھیں کہ میں کراچی کے دہشت گردوں کو کوئ نیا خیال دے رہی ہوں۔  آپ مانیں یا نہ مانیں، کراچی میں بحران پیدا کرنے سے پہلے نامعلوم دہشت گرد ہر آئیڈئیے کو خوب اچھی طرح چھان پھٹک چکے ہیں۔ لیکن بے گناہ مرنے پہ آمادہ  افراد اس ساری چھان پھٹک سے ناواقف ہیں اس لئے دہشت گردوں کے ذہن رسا کو پانے تک انہیں اپنے طور پہ یہ ساری مشق کرنی پڑے گی تاکہ اگر مارے جائِں تو کسی گناہ کے عیوض۔
اگر آپ اخبار پڑھنے کی علت سے جان نہیں چھڑانا چاہتے کیونکہ اس میں حکیموں ، ضرورت رشتہ اور ٹیوشن کے اشتہارات بھی آتے ہیں یا آپ ٹی وی کے ٹاک شوز سے منہ نہیں موڑ سکتے کہ اس سے آپکے ہمیشہ کم رہنے والے بلڈ پریشر کو خاصہ افاقہ رہتا ہے تو کراچی کی آگ بجھانے کے لئے روزانہ صبح اٹھ کر دس سرد آہیں بھرا کریں یہ سرد آہیں اگر اجتماع کی صورت بھری جائیں تو زیادہ بارآور ثابت ہونگیں۔آہ بھرتے وقت سب لوگ ایک قطار میں اس طرح بیٹھیں کہ آمنے سامنے نہ ہوں۔ منہ کو گول کھولیں اور اپنے جسم کی ساری ہوا باہر پھینک دیں۔ دس دفعہ اس طرح کرنے کے بعد ایک نعرہ بلند کریں خس کم جہاں پاک۔ اس طریقے پہ دس منٹ تک عمل کریں۔ عمل کے بعد خاموشی سے اپنے اپنے گھر کی راہ لیں۔
اگر آپ دس ایسے عام  افراد جمع کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو مختلف قرآنی آیات اور احادیث کے حوالے دئیے بغیر پانچ منٹ تک خاموش رہ سکتے ہوں تو امید ہے اسے کامیابی سے کر پائیں گے۔ ورنہ اس سے پہلے ہی آپکے گھر میں دھے پٹاس شروع ہو جائے گی۔ یہ آگ چاہے بجھے یا نہ بجھے، کچھ اور آتش اگلتے ڈریگون سامنے آجائیں گے۔ آپ اپنی زندگی میں ہی جہنم کے نظارے دیکھ لیں گے۔ اس سے ایمان تو مستحکم ہوتا ہے مگر جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس وقت ہمارا ممتح نظر کراچی کی آگ ہے جہنم کی نہیں تو اس سے بچنے کی کوشش کریں۔ یاد رکھیں عمل کے دوران خاموش رہنا بے حد ضروری ہے۔
اسکے علاوہ لسی کا جگ بنا کر ہمیشہ اپنے پاس رکھیں۔ ٹاک شوز کے درمیان اسکے ہلکے ہلکے گھونٹ لیتے رہیں۔ ایسے لسوڑے حالات پہ تبادلہ خیال سنتے ہوئے لسی ہی سکون دے سکتی ہے۔
اگر آپ کراچی میں رہتے ہوئے اپنی زندگی کے بارے میں فکرمند ہیں تو یہ جان تو اک دن جانی ہے، اس جاں کے زیاں کا افسوس ہی کیا۔ حق بحقدار رسید۔
اگر آپ کراچی آنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ہر راہ جو ادھر کو جاتی ہے مقتل سے گذر کر جاتی ہے۔ کہہ کر اپنے اہل خانہ سے امام ضامن بندھوائیں۔ انسان کو ان حالات میں آنے والے خطرات کا مقابلہ کھلی آنکھوں اور  بند زبان سے کرنا چاہئیے۔ مسلسل زیر لب دعا کریں کہ آپکی باری آنے تک 'نامعلوم' قاتل کے بازو درد کرنے لگیں۔
یہ ' نا معلوم ' قاتل بھی فالتو وقت میں مسکراتے ہونگے کہ زمانے بھر میں رسوا ہوں مگر اے وائے نادانی لوگ کتنی معصومیت سے ہمیں نا معلوم کہہ دیتے ہیں۔ ہم سے اچھے تو اردو شعراء کے قاتل ہیں جنکے نام صرف انہیں نہیں ایک زمانے کو معلوم ہیں۔ اس موقع پہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر کراچی کے محکمہ ء پولیس کی دسترس میں شعراء کے قاتل آجائیں تو وہ بھی نامعلوم ہو جائیں گے۔ یہاں معلوم کرنے والی بات صرف ایک ہے اور وہ یہ کراچی پولیس کی لگامیں کسی کے پاس ہیں یا یہ بے لگام ہے۔
یہ تو کچھ اس خاکسار کے ذہن میں آنے والے خاک خیالات تھے۔ اگر آپ انہیں مذاق سمجھتے ہیں تو  یہ اندازہ لگانے میں کوئ تکلف نہیں کہ آپ ہمالیہ کے پہاڑوں سے کراچی پہ ایک نظر ڈال رہے ہیں۔ ذرا دھیان سے عالی جناب، شہر کراچی سطح سمندر سے صرف چوبیس فٹ بلند ہے۔ اور ہمالیہ سے ہزاروں فٹ نیچا ۔
اتنی بلندی سے جب آپ اس شہر کو دیکھتے ہیں تو سوائے حبیب بینک پلازہ  اور کنارے پہ ہلچل مچاتے سمندر کے اور کچھ نظر میں آتا نہیں۔ سڑک پہ چلتے انسان بیٹری سے چلتے کھلونے نظر آتے ہیں اور انکے گھر ماچس کی ڈبیاں۔
خوامخواہ دل چاہتا ہے کہ کھلونے توڑ کر دیکھیں کہ اسکے اندر کیا چیز اسے چلاتی ہے اور ماچس کی ڈبیاں ہلا کر معلوم کریں کہ اس میں تیلیاں ہیں یا خالی ہیں۔ یہاں تیلیوں سے میری وہی مراد ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ ایک شاعر نے اس خظرے سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آگ سے کھیلنا اچھا نہیں فراز،جل جائوگے تو پھر کس سے فریاد کروگے۔ یہاں فراز سے مراد ہر زید بکر ہے۔
اب اہم سوال یہ ہے کہ کیا آپ سب کو آیۃ الکرسی یاد ہے؟ اور اسکا ترجمہ؟ چلیں اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا۔ بڑا وقت ہے یاد کر لیجیئے۔ کیونکہ اگلے الیکشنز تک کراچی کی آگ جواں ہے اور پیہم ہے۔     

Saturday, August 20, 2011

قبائلی نظام اور معاشی و معاشرتی پسماندگی

سسکاچُوین، کینیڈا کا ایک صوبہ ہے جو کہ پریری علاقے میں شامل ہے۔ کینیڈا کے دو اور صوبے اس  علاقے میں شامل ہیں جو البرٹا اور مینی ٹوبا ہیں۔ اسکے علاوہ کسی حد تک اس میں برٹش کولمبیا بھی شامل ہے۔ پریری سے ایک جانور یاد آرہا ہے۔  اسے کہتے ہیں پریری ڈاگ۔ لیکن اس پریری علاقے کا اس کتے کے نام کے چوہے نما جانور سے کوئ تعلق نہیں۔  
پریری دراصل ایک گھاس کا نام بھی ہے جو نارتھ امریکہ کے بعض علاقوں میں میں بکثرت پائ جاتی ہے یہ علاقے میدانی علاقے ہیں، زراعت کے لئے مناسب۔ لیکن یہاں معدنیات بھی پائ جاتی ہیں۔ البرٹا، کینیڈا کے امیر ترین صوبوں میں شامل ہے اس لئے کہ یہاں تیل جیسی معدنی دولت کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔
اس وقت یہ تحریر سسکاچُوین صوبے سے لکھی جارہی ہے اس لئے ہم امیروں کی نہیں غریبوں کی بات کریں گے۔ سسکاچُوین کینیڈا کا ایک غریب صوبہ ہے۔ اتنا غریب ہے کہ ٹورنٹو سے لوگ یہاں آکر رہنا پسند نہیں کرتے۔ اتنا غریب ہے کہ یہاں پہنچ کر آپکو وہ مقامی لوگ اکثرنظر آئیں گے جو کینیڈا کے قدیم باشندے ہیں یعنی ریڈ انڈیئنز۔ اتنا غریب ہے کہ کینیڈیئن امیگریشن حاصل کرنے کے بعد اگر آپ یہاں ایک سال گذار لیں تو اپنے پورے خاندان کو کینیڈا بلا سکتے ہیں۔ یہ لالچ اونٹاریو صوبہ آپکو نہیں دے گا۔ جہاں ٹورنٹو واقع ہے۔
دنیا میں ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے چاہے وہ محبت ہو، نفرت ہو، خوف ہو یا لالچ۔ یہ قیمت ادا کیجئِے یہ جذبات پیدا ہو جائیں گے یہ قیمت ادا کیجئیے یہ جذبات ختم ہو جائیں گے۔ اس طرح ہر چیز کی ایک وجہ بھی ہوتی ہے جو بعض اوقات واضح ہوتی ہے اور بعض اوقات ایسے چھپ جاتی ہے کہ محبت کرنے والے پہ، نفرت کرنے والے پہ، خوف یا لالچ رکھنے والے پہ بھی واضح نہیں ہوتی۔ لیکن سسکاچُوین صوبہ اتنا مشکل نہیں یہاں اسکی وجوہات کے بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اس علاقے میں سال کے چھ مہینے شدید سردی رہتی ہے جس میں زیادہ تر وقت یہاں برفباری  ہوتی ہے اس دوران کچھ اگایا نہیں جا سکتا۔ اس قدرتی حالت سے الگ، یہ ان علاقوں میں بھی شامل ہے جہاں ریڈ انڈیئنز سب سے زیادہ آباد ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یوروپ سے کینیڈا ہجرت کرنے والوں نے ان ریڈ انڈیئنز پہ بڑے ظلم ڈھائے اور انہیں اس بیابان علاقے کی طرف دھکیل دیا۔ یہی نہیں انہیں ایسی لتوں میں مبتلا کر دیا جس سے وہ نسل در نسل نجات نہیں پا سکے۔ ان میں سے ایک لت نشہ آور اشیاء کا استعمال ہے۔
 بعض لوگوں کے خیال میں وہ کاہل بھی ہیں اور اپنی حالت تبدیل کرنے کے لئے کچھ نہیں کرتے۔ بعض کا موءقف ہے کہ انہیں جان بوجھ کر پسماندہ رکھا گیا ہے۔ حکومت کی طرف سے انہیں چند نام نہاد سہولتیں دے کر مزید کاہل بنادیا گیا ہے اور ان میں سے کچھ کرنے کی امنگ کو ختم کر دیا گیا۔ بہر حال اطراف میں نظر آنے والے یہ مقامی باشندے دیگر لوگوں کے مقابلے میں پسماندہ سے لگتے ہیں۔
ریڈ انڈیئنز کو انیس سو اسّی کے اوئل  میں سرکاری طور پہ فرسٹ نیشنز کا نام دیا گیا۔ فرسٹ نیشنز میں دیگر اقلیتیں بھی شامل ہیں۔ یہ اصطلاح زیادہ مقبول نہ ہو سکی۔ اسکے بجائے لوگوں نے اپنے قبائل کے نام کو اپنی شناخت بنانے پہ ترجیح دی۔
یہ ریڈ انڈیئنز یہاں اس وقت آکر آباد ہوئے جب کولمبس نے امریکہ دریافت کیا اور وہاں کے مقامی باشندوں کو انڈیئنز کہا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ وہ انڈیا پہنچ گیا ہے۔ ان اقوام کے ظلم سے بچنے کے لئے مقامی باشندے کینیڈا کی طرف ہجرت کر گئے۔
یوروپی اقوام نے جب کینیڈا کا رخ کیا تو ابتداً مقامی باشندوں نے ان کا خاصہ ساتھ دیا۔  لیکن ہوا یہ کہ ان یوروپی اقوام نے اٹھارہویں صدی کے دوران یہاں پائے جانے والی ایک قسم کی بھینس جسے بائ سن کہتے ہیں اسکا بے دریغ شکار کیا۔ 
بائ سن پہ ان مقامی انڈیئنز کا کافی انحصار تھآ۔ وہ نہ صرف اس سے خوراک حاصل کرتے تھے بلکہ اسکی کھال انکے لئے لباس کا ذریعہ تھی۔ 
اندھا دھند شکار کے نتیجے میں یہ جانور اپنے خاتمے کے قریب پہنچ گیا، اس کا سب سے اندوہناک اثر انڈیئنز پہ ہوا اور انہیں شدید ترین قحط سے گذرنا پڑا جسکے دوران ہزاروں افراد ہلاک ہوئے اور ہزاروں نے نقل مکانی کی۔  اپنی زمینیں چھوڑیں جس پہ وہ کاشت کاری کرتے تھے اس پہ دیگر اقوام نے قبضہ کر لیا۔
یوروپی اقوام جو کہ اس وقت اپنی حکومت بنا چکے تھے اپنے عدالتی طریقے رائج کر چکے تھے انکا اپنا پولیس کا انتظام تھا۔ یہ سارے انتظامات مقامی انتظامات سے بالکل الگ تھے۔ اس طرح مقامی انتظامات تباہی سے دوچار ہوئے دوسری طرف انہوں نےان انڈیئنز  سے کئ معاہدے کئے۔ لیکن اس سے انکی حالت میں کوئ تبدیلی نہیں آ سکی۔ ان معاہدوں سے تنگ آ کربعض قبائل نے ان معاہدوں پہ دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ اس ساری صورت حال کے بعد انڈیئنز میں احتجاج پیدا ہوا۔ کئ تحریکیں چلیں، انڈیئنز کو دبانے کے لئے ہر طرح کا نسخہ آزمایا گیا جس میں قتل و غارت گری بھی شامل ہے۔
پھر انہیں ضم کرنے کی کوشش یہ کی گئ کہ یوروپی اقوام کا متعارف کرائ ہوئ ثقافت کو اپنانے کے لئے ان پہ زور ڈالا گیا۔ جسے اب وہ کینڈیئن ثقافت کہتے تھے۔  یوروپی النسل لوگ جو کہ اکثریت میں تھے اس طریقے کو صحیح سمجھتے تھے۔ کیونکہ اپنے آپکو وہ ہر لحاظ سے مقامی انڈیئنز سے برتر خیال کرتے تھے۔
ضم کرنے کی ان کوششوں میں ایک انتہائ درجے کی خراب شکل اس وقت پیدا ہوئ۔ جب ان پر یوروپی نظام رکھنے والےاسکولوں میں تعلیم دینے کے لئے قوت کا استعمال ہوا۔اسکے لئے ایسے اسکول قائم کئے گئَ جہاں ان بچوں کو والدین سے الگ رکھا جاتا تھا۔ مبصرین کے نزدیک یہ ان بچوں میں انڈیئن روح کو ختم کرنے کی کوشش تھی۔ 
پابندی عائد کی گئ کہ وہ اپنی زبان نہیں بولیں گے بولنے پہ انہیں سزا ملے گی۔ چونکہ یہ اسکول زیادہ تر مختلف چرچز کے زیر انتظام تھے اس لئے ان پہ یہ پابندی بھی لگائ گئ کہ وہ اپنے بنیادی عقیدے پہ عمل نہیں کریں گے۔ ظاہر سی بات ہے کہ  اسے ثقافتی  اور نسلی قتل کہا جائے گا۔ 
اسکولوں میں مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے طالب علم بڑی تعداد میں جنسی زیادتی کا شکار ہوئے، صفائ کی حالت بہتر نہ ہونے کی وجہ سے ٹی بی جیسا مہلک مرض پھیلا۔ بیسویں صدی کے آغآز میں کینیڈا کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کے جذبے نے جنم لیا۔ بالآخر انیس سو ساٹھ میں ان اسکولوں کو بند کر دیا گیا۔ سرکاری طور پہ معافی مانگی گئ۔ اور نئے معاہدے ہوئے۔
انیس ساٹھ میں انڈیئنز کو ووٹ دینے کا حق ملا۔ انیس سو انہتر میں انکی امتیازی حیثت کو ختم کر کے انہیں دیگر کینڈیئنز کے ساتھ ضم کرنے کا ایکٹ سامنے آیا۔
اسکے بعد مقامی انڈیئنز کے مختلف قبائل سے مختلف معاہدوں کی لمبی فہرست ہے ۔ مثلاً آج اکیسویں صدی کے کینیڈا میں کیوبک صوبے کی حکومت نے کری قبائل سے معاہدہ کیا  اور صوبے میں ہائڈرو الیکٹرک ذرائع کو استعمال کرنے پہ کیوبک حکومت کری قبیلے کی حکومت کو تین اعشاریہ چار بلین ڈالر ادا کرے گی۔
اس بات پہ مجھے بلوچستان کے قبائلی سردار یاد آتے ہیں جو حکومت پاکستان سے بلوچستان سے نکلنے والی گیس کی قیمت وصول کرتے ہیں اور اپنے صوبے کی فلاح کے لئے نہیں بلکہ اپنے بچوں اپنی نسل کی فلاح کے لئے استعمال کرتے ہیں اور اگر اس رقم  کے لین دین میں اونچ نیچ ہو تو وہ اسے بلوچستان کے عوام  سے ظلم قرار دیتے ہیں۔
آجکے کینیڈا میں بھی ان مقامی انڈیئنز یا آجکی زبان میں فرسٹ نیشنز کے مسائل دیگر تمام کینیڈیئنز سے کہیں زیادہ ہیں اور سنگین ہیں۔ یہ شاید ایک لمبے عرصے تک دبائے جانے کا اثر ہے۔ تعلیمی شرح کم اور غربت زیادہ ہےان میں بے روزگاری شرح زیادہ ہے۔ جرائم کی شرح زیادہ ہے، وہ نشہ آور اشیاء کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں۔  مجھے کوئ بتا رہا تھآ کہ برفباری دنوں میں برف میں ملنے والی لاشیں زیادہ تر مقامی انڈیئنز کی ہوتی ہیں جو نشے کی گرمی میں برف میں زیادہ دور تک نکل آتے ہیں اور واپس پہنچنے سے پہلے راستے میں ٹھنڈ کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ 
حالت حمل میں الکوحل کے استعمال کی وجہ سے پیدا ہونے والے ذہنی اور جسمانی لحاظ سے پسماندہ  بچوں کی تعداد ان میں کہیں زیادہ ہے۔  اسکے ساتھ خودکشی کا رجحان زیادہ ہے جبکہ جنسی زیادتی کی شرح بھی زیادہ ہے۔
انکا عرصہ ء حیات بھی دیگر کینیڈیئنز کے مقابلے میں کم ہے۔ مردوں میں یہ تقریباً آٹھ سال کم ہے جبکہ خواتین میں ساڑھے پانچ سال کم ہے۔
ان مقامی انڈیئنز کے گینگز اب ایک اور سنگین مسئلہ بنتے جا رہے ہیں۔ جو جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔ یہ غربت کی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔ یہ گینگز زیادہ تر ونی پگ اور مینیٹوبا میں پائے جاتے ہیں۔ 
اس تمام صورت کی وجہ یہ خیال کی جاتی ہے کہ لا محدود قسم کے اختیارات قبائلی سردار کے پاس ہونے کی وجہ سے وسائل صحیح طور پہ استعمال نہیں ہو پاتے۔ کیا خیال ہے یہی صورت ہمارے  ملک کی نہیں جہاں نظریات کچھ بھی ہوں، عملی طور پہ قبائلی سرداری نظام نافذ ہے ؟
میں نے سسکاچُوین میں کیا کیا؟ یہ جاننے کے لئے اگلی تحریروں کے منتظر رہئیے۔ خدا حافظ  پاکستان۔

Saskatchewn 
Alberta
Manitoba
Quebec
Tribal system

Sunday, August 14, 2011

جشن آزادی کے نام

چھنّو خالہ کی آنکھ میں ہی نشہ نہیں باتوں اور اداءووں میں بھی ایک نشہ ہے۔ وہ اپنی اس طاقت سے واقف ہیں۔ اور اسے جتانے کا کوئ موقع جانے نہیں دیتیں۔ اگر ایسا کوئ موقع کچھ دنوں تک نہ ملے تو موقع ایجاد کر لیتی ہیں وہ اچھی طرح سمجھتی ہیں  کہ مستقبل کی درست پیشن گوئ کرنے کا درست طریقہ یہ ہے کہ اسے خود ڈیزائین کیا جائے۔
چھنّو خالہ کی سالگرہ آنے والی تھی۔ لیکن سالگرہ سے دو ہفتے پہلے پتہ چلا کہ انہیں تو فوری طور پہ ملک سے باہر جانا ہے۔ اس لئے انہوں نے مستقبل کی ڈیزائیننگ میں تبدیلی کی اور اعلان کیا کہ وہ اپنی سالگرہ دیار غیر میں اکیلے گذارنے کے بجائے دو ہفتے پہلے گھر والوں کے ساتھ منائیں گی۔ یہ سنتے ہی گھر کے ایک سال سے پانچ سال کے بچوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئ اور وہجذبہ پیدا ہو گیا جسکے آگے کوئ چاکلیٹ اور کوئ آئس کریم بند نہیں باندھ سکتی تھی۔
بچوں کی اس خوشی کی صحیح وجہ  معلوم کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ لیکن کچھ اندازے ہیں۔ مثلاً اس عمر کے بچوں کو ہر ہنگامے سے دلچسپی ہوتی ہے چاہے وہ سالگرہ کا ہو یا برسی کا۔ شاید بچے ااس چیز کا بہتر ادراک رکھتے ہیں کہ ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق، نوحہ ء غم نہ سہی نغمہ ء شادی ہی سہی۔
اپنی سالگرہ والے دن چھنو خالہ تو صبح صبح آفس روانہ ہو گئیں جب انکی عوام ابھی سو ہی رہی تھی اس وارننگ کے ساتھ کہ شام کو گھر میں سب تیار رہیں۔ ادھر سارا دن گھر میں بچوں کی یہ ٹولی طوفان اٹھائے رہی۔ بڑے بھی انکی اس سرگرمی میں شامل ہونے پہ مجبور رہے۔ یہ ٹولی ہر تھوڑی دیر بعد ہیپی برتھ ڈے کا گانا گاتی اور چھنو خالہ کو ایک عظیم تحفہ دینے کے بارے میں بآواز بلند سوچتی رہی۔ گھر میں بہت سارے ردی کاغذ پھیل گئے جن پہ بچوں کے بقول چھنو خالہ بنائ جا رہی تھیں۔ انہیں  تصاویر میں سے کچھ بچوں نے اتفاق رائے سے منظور کر لیں۔ اس منظوری اور اس پہ اتفاق رائے کی وجوہات ، کائنات کے آغاز جیسے مسئلے کی طرح نا معلوم ہیں۔
شام کو جب چھنو خالہ نے گھر میں قدم رکھا تو بچوں نے انکا پر جوش خیر مقدم کیا۔ انکے کمرے کے باہر عوام کا ہجوم  کھڑا تھآ صرف اس لئے کہ جب چھنو خالہ تیار ہو کر اپنے کمرے سے باہر نکلیں تو وہ واءو کہہ سکے۔اگر ایشوریا رائے یہ منظر  دیکھ لیتی تو اس کا سارا غرور حسن خاک میں مل جاتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ بچے یہ چیز جانتے ہیں کہ ترجیحات کا تعین کیسے کیا جاتا ہے۔ یہ عنصر بڑے ہونے کے ساتھ اکثر بچوں میں سے کیسے غائب ہو جاتا ہے؟
خالہ کے سولہ سنگھار کر کے باہر برآمد ہونے پہ ایک بچی نے بے تاب ہو کر کہا کہ اس نے انکے لئے ایک شاندار تحفہ بنایا ہے پھر اس نے اپنے اسکول بیگ سے ایک مرا تڑا کاغذ نکال کر اسے سیدھا کیا اور بغیر کسی جھجھک کے انکے حضور پیش کر دیا۔ 
اس پہ ایک گول دائرہ بنا ہوا تھا۔ اس میں دو نکتے اور ایک قوس موجود تھی اور اسکے اوپر چار لکیریں  نیچے ایک مستطیل اور اس مستظیل سے ملی ہوئیں دو مزید لکیریں تھیں۔ ویسے تو آپ ان ہدایات پہ خود بھی مصوری شروع کر سکتے ہیں۔ حسینوں سے ملاقات کے لئے کسی زمانے میں مصوری آزمودہ سمجھی جاتی رہی ہے۔ یہ اس زمانے کا کمال ہے کہ ہر ایرا غیرا بلا کوئ ہنر پیدا کئے کسی حسین سے ملنا چاہتا ہے۔ بہر حال، چھنو خالہ کا اس سے زیادہ خوبصورت پورٹریٹ کبھی کسی نے نہ بنایا تھا۔ کچھ سادہ بچے بڑے ہو کر بھی انسان بننے کا عمل اتنا ہی آسان سمجھتے ہیں۔
فرط خوشی سے چھنو خالہ کی باچھیں کھلی ہوئ تھیں۔  سالگرہ کے لئے مہمان آنا شروع ہو گئے تھے کہ چھنو خالہ کو خیال آیا کہ وہ سالگرہ کی سجاوٹ کے لئے ایک بڑا سا غبارہ لائیں تھیں جس  پہ خوبصورت رنگ ، نقش و نگارکے ساتھ ہیپی برتھ ڈے ٹو یو لکھا ہوا تھا۔ انہوں نے یہ غبارہ لا کر تقریب کے کمرے کے ایک کونے میں وزن کے ساتھ ٹکا دیا۔
غبارے کو دیکھتے ہی کمرے کی فضا تبدیل ہو گئ۔  بچوں میں ایک بھنبھناہٹ دوڑ گئ۔ یہ غبارہ کس کا ہے۔ دفعتاً ، ایک بچے نے اسکی ڈوری کو پکڑا اور جرائت رندانہ کا مظاہرہ کیا۔ یہ میرا ہے، دوسرے نے کہا یہ میرا تیسرے بچے نے اسے رستم کی بے خوفی سے اٹھایا اور دوڑ لگا دی۔ جو بچے بھاگ سکتے تھے وہ اس بچے کے پیچھے بھاگے باقیوں نے رونا دھونا شروع کر دیا۔ وہ غبارہ مجھے چاہئیے۔
گھر والوں میں سے کچھ نے غبارہ دیکھتے ہی اس آنے والےلمحے کے متعلق جان لیا تھا کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ خود چھنو خالہ پہ اس وقت کائینات کے کئ عظیم راز چشم زدن میں وا ہوئے۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت۔ ان بچوں میں اس غیر ارتقائ تبدیلی کو  پہلے اشاروں سے قابو کرنے کی کوشش کی گئ، پھر پیار سے کہ اپنا مارتا ہے تو بھی دھوپ مارتا ہے، پھر کچھ بچوں کو موقع سے اٹھا کر ٹائم آءوٹ کر دیا گیا آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔ طبیعت الگ بےزار کہ ساری تقریب میں کبھی ایک کبھی دوسرے بچے کو چپ کراتے رہے۔  چھنو خالہ نے خود اس لمحے کو کوسا جب انہوں نے وہ غبارہ خریدا تھا۔ آخیر میں اس غبارے کو ایک الماری میں بند کر دیا گیا۔
مختلف کمروں سے والدین کی پھٹکاروں اور بچوں کے احتجاج کی آوازیں آرہی ہیں۔ غبارہ ایک الماری میں بند ہے۔ میں  بچا ہوا کیک اڑا رہی ہوں۔ اور سوچ رہی ہوں، سارا دن مل جل کر  گانا گانے والے اور زورو شور سے  سالگرہ منانے والے  بچوں کو کس بات نے مصیبت میں ڈال دیا۔

independence day
freedom celebrations
freedom movement
intelligent planning
designing future   

Wednesday, August 10, 2011

چوہے کا سوال

چوہوں کے ساتھ ریس میں ایک نقصان ہے اور وہ یہ کہ اگر آپ فاتح ہوں تو بھی ایک چوہے ہی ہوتے ہیں۔
یہ جملہ کہنے والا لگتا ہے کہ چوہوں کے ساتھ ریس لگانے سے منع کرنا چاہتا ہے۔ سو اب چوہوں کے ساتھ ریس لگانا ضروری ٹہرا۔ سوال یہاں اس منادی کی وجہ معلوم کرنا نہیں۔ اگر ہم یہ کریں گے تو نتیجتاً ایک دفعہ پھر معتوب ٹہریں گے کہ مخلوقات میں سے کچھ کو اعلی اور کچھ کو کمتر جانتے ہیں۔  اس لئے ہم ایک براہ راست سوال رکھتے ہیں آخر چوہا اتنا حقیر کیوں جانا جاتا ہے؟
  کچھ لوگ سادہ سا جواب دیں گے اس لئے کہ اسکا دل اتنا سا ہوتا ہے ذرا سا ہش کرو اور بھاگ جاتا ہے, ہونہہ چوہے کا سا دل۔ لیکن یہ کہتے وقت لوگ اسکی پھرتی کو مد نظر نہیں رکھتے۔  داد دینے سے مت چوکیں۔ اتنی پھرتی تو بس آپکی حرکات منعکسہ میں ہی ہو سکتی ہے آپ میں نہیں۔ 
کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ چوہا بھاگتا نہیں ہے بلکہ چھپ جاتا ہے اور جیسے ہی آپکی توجہ ہٹتی دیکھتا ہے فورا آموجود ہوتا ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ چوہے کے اندر ایک دفاعی ذہانت پائ جاتی ہے۔ وہ گوریلا جنگ لڑنے کے فن سے واقف ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ انسان نے گوریلا جنگ کا فن چوہے سے سیکھا ہو مگر چوہوں کو ادنی مخلوق سمجھتے ہوئے اس کا کریڈٹ اسے دینے کے بجائے گوریلے کو دے دیا۔ اس سے انسانی ذہن کی چلتر بازی سامنے آتی ہے کہ اس نے اپنی ہم شکل مخلوق کو ترجیح دی۔ اس انسانی ادا پہ ہم واہ واہ کریں گے مگر اس سے چوہوں کی جو حق تلفی ہوئ ہے اس پہ ہم نالاں بھی ہیں۔

کیا ایسا معاشرہ ممکن ہے جہاں انسان چوہے کے حق میں آواز بلند کر سکے اس کے ساتھ جو نا انصافی ہوئ ہے اسے سامنے لا سکیں۔ شاید نہیں، کیونکہ خود چوہوں کو اس سے کوئ دلچسپی نہیں۔ انسان اگر انکے لئے لڑ لڑ کر مر جائے تو بھی چوہے اسے در خور اعتناء نہیں سمجھیں گے۔ آیا یہ انکا طرز تغافل ہے یا ادائے بے نیازی۔ یہ جاننے کے لئے دو قسم کے شاعر چاہئیے ہونگے ایک انقلابی اور دوسرے رومانی۔
کیا چوہوں کو شاعری سے دلچسپی ہوتی ہے۔ یہ مجھے نہیں معلوم لیکن چوہوں کو موسیقی سے بڑی دلچسپی ہوتی ہے۔ اس کا ثبوت وہ کہانی ہے جس میں جادوگر اپنی بانسری بجاتا چلا جاتا ہے اور چوہے اسکے پیچھے ناچتے، کودتے، اچھلتے اتنے مست جاتے ہیں کہ انہیں اپنا انجام تک نظر نہیں آتا۔ موسیقی کے لئے چوہوں کی ان خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ 
یہاں پہ کچھ ذہن یہ کہنا چاہیں گے کہ وہ بانسری دراصل جادگر کی بانسری تھی۔ تو کیا ہوا، ہوا کرے۔ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ چوہوں نے اس پہ ایک شاندار رقص درویشاں کا مظاہرہ کیا۔ جو جادوگر خود نہیں کر سکتا تھا۔ جس سے متائثر ہو کر ایک شہر کے لوگوں نے اپنے بچے بھی اسی جادوگر کے حوالے کر دئیے۔ جادو گر نے کبھی ایک لفظ شکرئیے کا بھی نہیں پھُوٹا، انسان ایسا ہی بلا کا احسان فراموش ہوتا ہے اور پھر دوسروں پہ نام دھرتا ہے۔
سو چوہے پپو سالے سے بہتر ہیں وہ ڈانس کر سکتے ہیں۔ پھر بھی انسان انہیں حقیر کیوں سمجھتا ہے۔ شاید اس لئے کہ چوہے خوبصورت نہیں ہوتے۔  کسی انسان نے اس بد صورت بات سے بچنے کے لئے ایک خوبصورت بات کہی کہ خوبصورتی دیکھنے والے کی نظر میں ہوتی ہے۔
کیا چوہوں کو اس بات کی فکر ہے کہ وہ خوبصورت نہیں ہیں۔ بادی النظر میں لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہیں۔ چوہوں کو کبھی بھی فیئر اینڈ لولی قسم کی کریموں کو استعمال کرتے نہیں دیکھا وہ تو اسے سونگھتے تک نہیں۔ اپنا ایک شریک حیات ڈھونڈھنے کے لئے ہزاروں کو نہیں دیکھتے پھرتے۔ پھر دیکھیں کہ چوہے ایک ایک جھول میں آٹھ آٹھ بچے دیتے ہیں چند مہینوں میں وہ اپنے بچوں کے پر دادا بن جاتے ہیں اور اگر وہ حکمرانی کی طرف توجہ دیں تو چند سال میں انسان کونکال باہر کریں۔  یہ ان کا فقیری انداز ہے جس کی بناء پہ انسان اپنی بھونڈی حکمرانی کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ کیا اب بھی کسی کو شک ہے کہ وہ خوبصورت نہیں۔
چوہے احسان فراموش ہوتے ہیں اور جس چھلنی میں کھاتے ہیں اسی میں سوراخ کرتے ہیں۔ یہ ان پہ ایک سنگین الزام ہے۔ در اصل چوہے کترنے کے معاملے میں ذرا جزباتی واقع ہوئے ہیں۔ کترنے کے عمل کو وہ چیلینج سمجھ کر قبول کرتے ہیں۔ ہر چھلنی انہیں یہ کہتی نظر آتی ہے کہ ہزار دانت سے نکلا ہوں اپنی سختی سے، جسے ہو زعم آئے کتر لے مجھے۔ 
انکی نفسیات کا یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ جنگل کے بادشاہ شیر کو بھی اسکا جال کتر کر آزاد کروالیتے ہیں مگر اس پہ احسان نہیں دھرتے۔ کبھی آپ نے سنا کہ چوہوں نے شیر کے اوپر بموں سے حملہ کیا ہو کہ ابے سالے تجھے آزاد کرایا تھا اور آج ہم پہ دھاڑ رہا ہے۔ چوہے سالے کی حقیقت سے واقف ہیں۔
دنیا کی کسی مذہبی کتاب میں شاید ہی چوہوں کے بارے میں کوئ تذکرہ موجود ہو۔ دنیا کا کوئ مذہب چوہوں کے بارے میں فکر مند نہیں اسی لئے چوہے بھی اپنے بارے میں زیادہ فکرمند نہیں انہیں مل جائے تو ریشم کے کپڑوں میں اور بیکریوں کے من و سلوی میں بھی رہ لیتے ہیں نہیں تو غلاظت کے گٹر بھی کوئ بری جگہ نہیں۔ دما دم مست قلندر۔
لیکن انسانی زبانی اور سینہ بہ سینہ چلی آنے والی تاریخ میں چوہوں کے متعلق کچھ واقعات موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر میں انکی توہین کی گئ ہے۔ یہ بڑی زیادتی ہے کہ کسی کے دانتوں کا بدلہ اسکی عزت سے لیا جائے۔ چوہوں نے اس توہین کا بدلہ لیا  اور ہیضے کے جراثیمی ہتھیار کے ساتھ انسانوں پہ حملہ آور ہوئے۔ پوری پوری آبادیوں کو نگل لیا۔ اور انسان کچھ نہ کر سکا۔ بقاء کی جنگ میں چوہا انسان پہ بھاری رہا مگر پھر بھی چوہا کہلایا۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ اس کا نام ہی چوہا ہے۔
تاریخ کے اس مرحلے پہ انسان نے چوہوں سے کثیر الہلاکتی ہتھیاروں کا تصور لیا لیکن چوہوں کی نفسیاتی برتری دیکھئیے کہ انسان یہ ہتھیار انسان کے خلاف تو استعمال کر سکا مگر کبھی چوہوں کے خلاف نہیں کر سکا، انہیں مارنے کے لئے اسے وہی روٹی کا لالچ دینا پڑتا ہے۔ روٹی چوہوں کی سب سے بڑی کمزوری ہے اور اگر روٹی نہ ہو تو وہ کیک بھی شوق سے کھالیتے ہیں لیکن کبھی کیک دینے والے ہاتھوں کو چاٹتے نہیں ہمیشہ کترتے ہیں۔
بعض خواتین چوہوں سے بڑا ڈرتی ہیں۔ چوہے بھی ایسی خواتین سے بہت ڈرتے ہیں۔ سو جب وہ ڈر کر ایک نعرہ ء خوف ہائے اللہ لگا کر ریس لگاتی ہیں  تو چوہے استغفراللہ کہہ کر ریس لگا دیتے ہیں۔ یہ ریس عام طور پہ مخالف سمتوں میں ہوتی ہے اس لئے اسکا صحیح فیصلہ کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ کبھی کبھی چوہے اس آسمانی مصیبت سے اتنا گھبرا جاتے ہیں کہ بجائے مخالف سمت بھاگنے کے خاتون پہ ہی چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ اس اقدام قتل میں اگر وہ بچ بھی جائیں تو گھر کی کچھ چیزیں دو چوہوں کے درمیان کچومر بن جاتی ہیں۔ محلے والے الگ سمجھتے ہیں کہ میاں صاحب ، بیگم صاحبہ کی کُٹ لگا رہے ہیں۔ یوں میاں صاحب کو ہتک عزت اور مختلف این جی اوز سے بچنے کے لئے میدان میں کودنا پڑتا ہے۔ کچھ شوہر حضرات اس موقع کو محلے والوں پہ اپنی دھاک جمانے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور شام کے وقت ہجوم دوستاں میں بیگم کی حد سے پرے پرے  چپکے چپکے کہتے ہیں باتوں کے بھوت چوہوں سے مانتے ہیں۔ 
خیر، ایک خاتون نے چار چوہے مارے اور خاندان بھر نے انکی پیٹھ ٹھونکی۔ جب چوہے سمجھتے ہیں کہ وہ  کسی انسان کا قلع قمع کرچکے تو وہ اپنی خوشی کا اظہار کیسے کرتے ہیں؟  سوچیں، لیکن یہ سوچنے سے پہلے آپکو روحانی طور پہ چوہا بننا پڑے گا اسکے بغیر آپ سمجھ نہیں سکتے کہ چوہا آخر کیا کرے گا۔ کیا کہا، لعنت ہو چوہے کے بارے میں ہم کیوں سوچیں۔ چوہے نے بھی یہی کہا تھا  کہ میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں۔ ششش،  ہشیار باش، چوہا آپکے سیدھے ہاتھ پر موجود ہے اور چوہے نہ صرف ڈھیٹ ہوتے ہیں بلکہ بڑے متجسس بھی۔


نوٹ؛
یہ انٹ شنٹ تحریر ایک چوہے نےای میل کی ہے۔ معمولی ردو بدل کے ساتھ ہم اسے اپنے بلاگ پہ ڈال رہے ہیں یہ دیکھنے کے لئے ہم میں سے کتنے لوگ  چوہوں کی پرواہ کرتے ہیں۔


Reflexive actions
Weapons of mass destruction
Biological weapons
Mouse and rats

Tuesday, August 9, 2011

کرشماتی درخت، آپ کے پاس

میرے بچپن میں ہمارے سامنے والے گھر میں کئی درخت لگے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک درخت کی شاخیں سہرے کی لڑیوں کی طرح جھکی رہتی تھیں۔ اس پہ پھلواری کا موسم آتا تو درخت سفید پھولوں سے لد جاتا یہ پھول آہستہ آہستہ لمبی پھلیوں میں تبدیل ہوجاتے۔ میری ان میں دلچسپی یہیں تک تھی۔
یہ پھلیاں ، اس گھر کے رہنے والے بڑے شوق سے پکاتے اور کھاتے تھے۔ مجھے نجانے کیوں بالکل پسند نہ تھیں۔ میرے گھر میں شاید ہی کبھی پکائ گئ ہوں۔ انہیں نہ کھانے کا مجھے کبھی بھی افسوس نہیں رہا۔ لیکن ابھی کل ہی ایک دوست نے ایک ای میل بھیجی جس میں اس درخت کے بارے میں حیران کن معلومات تھیں۔ شہزاد بسرا کا لکھا ہوا یہ مضمون جس درخت کے بارے میں ہے اسے پاکستان میں سونجنا یا سہانجنا کہتے ہیں۔
چونکہ یہ معلومات میرے علم میں پہلے نہ تھیں اور خدا کا شکر ہے کہ مذہب کی طرح سائینس پہ کسی کی اجارہ داری نہیں نہ کسی گروہ کا یہ زور کہ ایک طبقے کے علاوہ کسی کو یہ باتیں سمجھ نہیں آ سکتیں۔ اس لئے میں نے مزید معلومات کے لئے انٹر نیٹ کا سہارا لیا۔
یہ درخت کرشماتی درخت کہلاتا ہے۔ کرشمہ اسکے خواص میں ہے ۔ یہ جنوبی ایشیا اور مشرق بعید کے ممالک میں عام پایا جاتا ہے جبکہ افریقہ کے کچھ ممالک میں بھی ملتا ہے۔
اسکی شہرت کا تاریخی پس منظر سینیگال سے شروع ہوتا ہے جہاں قحط کے زمانے میں چرچ کی طرف سے اسے متعارف کرایا گیا۔ یہاں یہ بات شاید کچھ عجیب لگے کہ ہمارے دینی مدارس اور مساجد تو اس قسم کی کسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیتے۔ لیکن دلچسپی کی بات یہ ہے کہ مغرب میں سائینس کے اندر پادریوں کا حصہ بھی شامل ہے۔ انسانوں میں جینیاتی وراثت کا نظریہ پیش کرنے والا سائینسداں گریگر مینڈل، ایک پادری تھا۔ اس پہ آپ غور کریں ، میں آگے چلتی ہوں۔
سونجنا کے درخت کا ہر حصہ اپنی اہمیت رکھتا ہے۔ ہر حصے کو غذا کو طور پہ استعمال کیا جا سکتا ہے اور اسکی کاشت بھی بآسانی سخت حالات میں ہو سکتی ہے۔  اس طرح دنیا میں خشک سالی سے پیدا ہونے والی غذائ کمی کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک بہترین انتخاب ہے۔ اسکے غذائ خواص کے بارے میںسینہ بہ سینہ چلی آنے والی اکثر باتیں درست ثابت ہوئیں۔ آجکی دنیا میں اس درخت کے اوپر خاص توجہ دی جا رہی ہے۔
سب سے پہلے ہم اسکے غذائ خواص دیکھ لیتے ہیں۔



اوپر دئیے گئے چارٹ میں اسکے غذائ خواص کے بارے میں دعوے دیکھے جا سکتے ہیں۔
دودھ کے مقابلے میں سترہ گنا زیادہ کیلشیئم موجود ہے لیکن تحقیق کہتی ہے کہ پتوں اور تنے میں پایا جانے والا کیلشیئم، کیلشیئم آگزیلیٹ کی شکل میں ہوتا ہے اورانسانی جسم میں جذب ہونے کے قابل نہیں ہوتا۔ یہ بات ابھی نامعلوم ہے کہ بیان کردہ کیلشیئم میں یہ کیلشیئم شامل ہے یا نہیں۔
اسکے علاوہ دہی کے مقابلے میں نو گنا زیادہ پروٹین ہوتا ہے۔ جانوروں کو جب غذا کے طور پہ استعمال کرایا گیا تو انکے وزن میں بتیس فی صد اضافہ دیکھا گیا جبکہ دودھ میں تینتالیس سے پینسٹھ فی صد اضافہ سامنے آیا۔
گاجر کے مقابلے میں چار گنا زیادہ وٹامن اے پایا جاتا ہے۔
کیلے کے مقابلے میں پندرہ گنا زیادہ پوٹاشیئم پایا جاتا ہے۔
پالک کے مقابلے میں انیس گنا زیادہ فولاد پایا جاتا ہے۔



 اسکے تازہ پتوں کو پالک کی طرح استعمال کیا جا سکتا ہے، پکایا جا سکتا ہے اور خشک کر کے سفوف بنا کر بھی رکھا جا سکتا ہے۔  یعنی سلاد سے لیکر سالن تک بنایا جا سکتا ہے جبکہ سفوف بعض جگہوں پہ سوپ بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ اسکی پھلیاں بھی پکائ جاتی ہیں حتی کہ جڑوں کو بھی غذا کے طور پہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ البتہ جڑوں میں ایک زہریلا الکلائیڈ اسپائروچن پایا جاتا ہے۔ لیکن اسکی مقدار خاصی کم ہوتی ہے اس کے برے اثرات جڑوں کو بہت زیادہ مقدار میں استعمال کرنے سے ہی سامنے آ سکتے ہیں۔
بچوں کو دودھ پلانے والی مائیں اگر اسے اپنی غذا میں شامل رکھیں تو دودھ کی کمی نہیں ہونے پاتی اور وہ صحت بخش ہوتا ہے۔ اس کے لئے انہیں تین بڑے کھانے کے چمچے اسکے پتوں کا سفوف لینا ہوگا۔
دن بھر میں اسکے پتوں کا پچاس گرام سفوف پورے دن کی غذائ ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس طرح جسم میں غذا کے مختلف اجزاء کی کمی نہیں ہو پاتی۔ جس کے لئے گوشت یا پھل جیسی قیمتی اشیائے خوراک استعمال کرنے کی ضرورت نہیں رہتی اور ایک غریب شخص اپنی غذائ ضروریات بآسانی پورا کر سکتا ہے۔
بیجوں سے تیل حاصل کیا جاتا ہے جبکہ تیل نکالنے کے بعد جو بیجوں کی کھلی یا کیک بچ جاتا ہے اسے پانی صاف کرنے کے کام لایا جا سکتا ہے۔
 اسکی انتہائ دلچسپ خوبی اسکی پانی صاف کرنے کی صلاحیت ہے جس سے پاکستان سمیت جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک کے اکثر لوگ ناواقف ہیں۔
پانی صاف کرنے کے لئے بیجوں کو خشک کر کے اسکے چھلکوں کو ہلکا ہلکا کوٹ کر الگ کر لیا جاتا ہے، حاصل ہونے والے سفید مغز کو کوٹ کر اسکا سفوف تیار کیا جاتا ہے۔ اس سفوف کے پچاس گرام سے ایک لٹر پانی صاف کیا جا سکتا ہے۔ پانی صاف کرنے کے لئے سفوف کو پانی میں اچھی طرح ہلائیں اور پھر تھوڑی دیر کے لئے چھوڑ دیں۔ بس پانی صاف۔
پانی صاف کرنے کی ویڈیو حاضر ہے۔


اب جبکہ آپ یہ طریقہ سیکھ چکے ہیں تو آپ کے ذمے دو ذمہ داریاں آتی ہیں۔ اول یہ کہ خود یہ درخت اپنے گھر میں یا باہر لگائیں اور گائوں دیہاتوں میں اسکے درخت لگانے کے لئے لوگوں کو ترغیب دیں۔ دوسرا یہ کہ پینے کا صاف پانی ہمارے ملک کے بنیادی مسائل میں سے ایک ہے۔ اسکے لئے اس ویڈیو کے بیان کئے گئے طریقے سے اپنے اردگرد کے لوگوں کو آگاہ کریں۔
 مجھے تو پانی ابال کر پینا خاصہ جھنجھٹ لگتا ہے لیکن کیا کریں اکیسویں صدی کے پاکستان میں اگر انسان طبقہ ء اشرافیہ سے تعلق نہیں رکھتا تو منرل واٹر پینے کے بجائے پانی ابالتا ہے غریب شخص ابال بھی نہیں سکتا۔ اور ہر سال لاکھوں لوگ پیٹ کے امراض کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر انہیں ان بیجوں کا سفوف بنانا سکھا دیا جائے تو کم از کم اس مشکل سے تو انہیں نکالا جا سکتا ہے۔ پتوں کا محفوظ شدہ سفوف خوراک کی تنگی کے زمانے میں استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
اس درخت کو اگانےکے دو آسان طریقے ہیں پہلا اسکے بیج کے ذریعے اور دوسرا اسکی قلموں کے ذریعے۔ درخت میں پہلے سال پھول آجاتے ہیں دوسرے سال اسکی فصل زیادہ اچھی ہوتی ہے۔ اگر اسے بڑھتا چھوڑ دیں تو یہ دس میٹر تک بلند درخت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اسکی کانٹ چھانٹ کرکے اسے ایک دو میٹر تک اونچا رکھتے ہیں۔ تاکہ سائز اتنا رہے جہاں تک ہاتھ جا سکے۔
سونجنا کے مختلف حصوں کے مختلف طبی اور سائینسی فوائد ہیں جنکی تفصیلات میں ہم اس وقت نہیں جارہے۔ آپ دئیے گئے لنکس پہ دیکھ سکتے ہیں۔
پیسے کمانے والوں نے اس سے بھی فاِئدہ اٹھانے کا سوچ لیا۔ اسکے پتوں کا سفوف کیپسول کی شکل میں بھی دستیاب ہے۔ اسکی مارکیٹنگ کے لئے نیٹ پہ مختلف ویب سائیٹس موجود ہیں۔ قدرت نے ہمارے اس علاقے کو اس درخت کا مسکن چنا ہے تو ہمیں اسکی قدر کرنی چاہئیے۔
Moringa oleifera silviculture 
Spirochin
Alkaloid
Breast feeding
Senegal
Calcium oxalate
لنکس؛
۔

Monday, August 8, 2011

چندہ اور ثواب

 کینیڈا میں ایکدن مجھے ای میل ملی کہ رمضان کا مہینہ ہے مجھے یہاں  کمیونٹی افطار میں شریک ہونے کا تجربہ کرنا چاہئیے۔ اس سلسلے میں دو نام دئیے گئے ایک اثناء اور دوسرا روائیتی مساجد میں ہونے والے افطار کے اجتماعات۔
حسب عادت ادھر ادھر سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ایک خاندان ابھی تین چار دن پہلے ہی اثناء کے کمیونٹی افطار میں شرکت کر کے آرہا تھا اور انتہائ نالاں تھا۔
اثناء یہاں کینیڈا میں مسلمان کمیونٹی کا ایک ادارہ ہے جس نے اپنے اوپر کچھ ذمہ داریاں لی ہوئ ہیں جو آپ انکی ویب سائیٹ پہ دیکھ سکتے ہیں۔ انکی شاخیں مختلف جگہوں پہ قائم ہیں۔ یہ اپنے انداز میں لبرل سمجھے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اثناء کی طرف سے اسلامی کیلینڈر جاری کیا جاتا ہے۔ جس میں چاند کا حساب جدید سائینسی طریقوں پہ کیا جاتا ہے۔ اور پہلے سے اسکی تاریخ مشتہر کر دی جاتی ہے  یعنی شعبان کے مہینے میں معلوم تھا کہ رمضان کس دن شروع ہونگے۔ افسوس یہاں پشاور کی قاسمی مسجد اور اسکے مولانا صاحبان موجود نہیں۔ ورنہ چاند ہمیشہ ایکدن پہلے ہوتا۔
ہاں تو، انکے نالاں ہونے کی بھی وجوہات تھیں۔ اول انہوں نے کہا کہ وہاں کھانے کے وقت انتہائ افراتفری تھی۔ پاکستانی خواتین سب کی سب اسکارف پہنے ہوئے تھیں۔ اور سب کو نماز سے زیادہ افطار اور کھانے کی چیزوں کی فکر تھی۔ آپکو معلوم ہے یہ سب لوگ یہاں برسوں سے رہ رہے ہیں لیکن کھانے پہ جس طرح ٹوٹ پڑتے ہیں وہ قابل شرمندگی ہوتا ہے۔ کیا پاکستانی ہونا جینز میں چلتا ہے؟ انہوں نے مجھ سے پوچھا۔
دوسرا اہم شکوہ یہ تھا کہ اثناء کو مسلمانوں کی طرف سے چندے کی مد میں ایک ایک شخص ہزاروں لاکھوں ڈالر دیتا ہے اس حساب سے انکے انتظامات انتہائ بے کار تھے۔ آخر یہ لوگ اتنے پیسوں کا کیا کرتے ہیں۔ اگر انہیں افطار کرانے کا طریقہ سیکھنا ہے تو جا کر کراچی کی سڑکوں کو افطار کے وقت دیکھیں کہ لوگ کتنی فیاضی سے اور قرینے سے سڑک کے کنارے دسترخوان سجائے ہوتے ہیں۔ انکی اس بات پہ مجھے رمضان میں سڑک کنارے عوامی افطار یاد آگئے جو اب کراچی کا ایک ثقافتی نشان بنتے جا رہے ہیں۔

 

اس مقام سے ایک اہم موضوع نے جنم لیا۔ وہ ہیں مساجد اور مدارس کو چندے کی مد میں حاصل ہونے والی خطیر رقومات اور انکا استعمال ہیں۔
ادھر پاکستان میں ہوش سنبھالنے سے اکثر مساجد کو تعمیر ہوتے دیکھتے آرہے ہیں وہ اب تک تعمیر ہو رہی ہیں اور اب تک چندہ چل رہا ہے۔ اکثر مساجد میں چندے کا بکس ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ یہاں کینیڈا میں بھی مساجد میں اور دیگر مذہبی اداروں میں خطیر رقم چندے کے طور پہ جمع کی جاتی ہے۔ لیکن ان تمام اداروں سے یہ حساب کتاب کون رکھتا ہے کہ وہ اس رقم کا کیا کرتے ہیں۔
اچھا، حساب کتاب رکھنا تو ایک موضوع ہے دوسرا موضوع یہ ہے کہ جو لوگ ہزاروں لاکھوں ڈالر ان مدارس اور مساجد کو دیتے ہیں وہ آخر پاکستان میں دیگر شعبوں کے اوپر کیوں خرچ نہیں کرنا چاہتے۔ سمجھ میں آتا ہے یہ سارا ثواب کا پروپیگینڈہ ہے۔ آج اگر کوئ مولانا صاحب حساب کتاب لگا کر بتا دیں کہ ایک شخص کو مستقل روزگار کا ذریعہ مہیا کرنا مسجد یا مدرسے کو چندہ دینے سے زیادہ ثواب رکھتا ہے تو لوگوں کا رجحان اس طرف ہو جائے گا۔ ان لوگوں سے ہٹ کر جو جانتے ہیں ثواب طاعت و زہد ، پر طبیعت ادھر نہیں آتی۔
وطن عزیز میں تو ہم لوگوں کی جہالت کو روتے ہیں۔  ان ترقی یافتہ ممالک کو ہجرت کر جانے والے  لوگوں کی کثیر تعداد اعلی تعلیم یافتہ ہوتی ہے۔ لیکن جب صدقے زکوات اور دیگر پیسوں کو خرچ کرنے کی بات آتی ہے تو معذرت کے ساتھ یہ لوگ بھی کسی ویژن یا دور اندیشی  کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
آج کے پاکستان میں ایک عام شخص کو مساجد یا دینی مدارس کی زیادہ ضرورت ہے یا ہسپتال اور اسکولوں کی، بنیادی ہنر سکھانے والے اداروں کی یا حفظان صحت سکھانے والی مہموں کی یا روائیتی روزگار کے طریقوں سے ہٹ کر نئے روزگار کے ذرائع پیدا کرنے کی۔
غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ذرا اس طرف بھی توجہ کرنی چاہئیے۔ آپ  چند لوگ مل کر پاکستان میں ایسے اداروں کی بنیاد رکھ سکتے ہیں جہاں آپ کے پیسے زیادہ بہترین طریقے سے انسانیت کے کام آ سکتے ہیں۔  کسی نے سینکڑوں سال  پہلے کہا تھا کہ پل بنا ، چاہ بنا، مسجد و تالاب بنا۔ آپ لکیر کے فقیر بننے کے بجائے کچھ الگ راستے بنا سکتے ہیں۔ زمانہ آگے نکل آیا ہے۔ ضروریات مختلف ہو گئ ہیں۔ ثواب کمانے میں بھی اگر جدت طرازی آجائے، تخلیق کاری ہو جائے، تو کیا مضائقہ ہے۔ آخر بیرون ملک رہنے سے آپ کو جو ایکسپوژر حاصل ہوتا ہے اسے آپ اپنے پیسے کے ساتھ جوڑ کر کیوں نہیں اس ملک کو دیتے۔ 

ISNA
ramazan
muslim community
canada
community iftar