Wednesday, October 17, 2012

لٹل ریڈ رائڈنگ ہڈ گرل

فرض کریں کہ انصار عباسی صاحب دفتر سے اپنے گھر واپس جا رہے ہیں کہ راستے میں رک کر ایک ٹھیلے والے سے پھل لے کر اپنی گاڑی کی طرف واپس پلٹتے ہیں لیکن اسی اثناء میں ٹھیلے پہ لگا بم پھٹ جاتا ہے اور انصار عباسی سمیت بیس لوگ لقمہ ء اجل بن جاتے ہیں۔ لوگ افسوس کریں گے کہ انصار عباسی صاحب لا علمی میں کس طرح مارے گئے۔
اب یہی واقعہ ایک اور طرح سے پیش آتا ہے۔ انصار عباسی ساحب جس گروہ پہ تنقید کرتے ہیں اسکی طرف سے انہیں قتل کی دھمکیاں مل چکی ہیں وہ گاڑی میں جا رہے ہیں ۔ ٹھیلے والے کے پاس رک کر پھل خرید ہورہے ہوتے ہیں کہ ایک موٹر سائیکل پاس آ کر رکتی ہے اس پہ سوار افراد ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ انصار عباسی ہیں اور انکو گولی کا نشانہ بنا کر فرار ہوجاتے ہیں اگلے دن انکو دھمکی دینے والی تنظیم اس واقعے کی ذمہ داری قبول کر لیتی ہے۔
کیا ان دو واقعات پہ رد عمل ایک جیسا ہوگا؟
جی نہیں۔ پہلے واقعے میں پاکستان کے سیکیوریٹی کے حالات اور انکی وجوہات ڈسکس ہونگیں۔  دوسرے واقعے کو پاکستانی جرنلزم پہ اندوہناک وار کہا جائے گا۔ اور ہر شخص جو انکا نظریاتی طور پہ کتنا ہی مخالف ہو اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ جرنلسٹ کی حیثیئت سے انکا قتل ایک سانحے سے کم نہیں۔ یہ آزاد  صحافت پہ حملہ ہے۔
دھیرج رکھیں، انصار عباسی صاحب ابھی زندہ ہیں۔ خدا انہیں طویل عمر دے۔
بس یہیں سے ملالہ کا ملال شروع ہوتا ہے۔
ملالہ کی کہانی سن کر لٹل ریڈ رائڈنگ ہڈ گرل  کی کہانی یاد آتی ہے جسے اسکی ماں باسکٹ میں کھانے کی اشیاء دے کر بیمار نانی کے پاس جنگل کے اس طرف بھیجتی ہے اور راستے میں اسے ایک بھیڑیا مل جاتا ہے۔
ملالہ ، ملال یہ نہیں ہے کہ تمہیں کس نے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا۔ نہ ہی یہ ملال ہے  کہ اسلام کا نام لینے والوں نے یہ دعوی کیا کہ انہوں نے تمہیں گولی ماری۔ بہت عرصہ ہوا لوگ مر رہے ہیں اور ہم یہ دعوے سن رہے ہیں۔ نہ ہی یہ ملال ہے کہ انہوں نے یہ کہا کہ چونکہ تم نے شریعت کے خلاف جا کر کام کیا اس لئے تم اس سزا کی حقدار ہو۔ شرعی معاملات کو نافذ کرنے کے لئے اب ہمارے یہاں ٹھیلے پہ سبزی بیچنے والا بھی بے قرار ہے یہ جانے بغیر کہ شریعت کس چڑیا کا نام ہے۔  نہ ہی مجھے اس بات کا ملال ہے کہ طالبان نے کہا کہ کیا ہوا تم بچ گئ وہ دوبارہ تمہیں مارنے کی کوشش کریں گے۔ ہم دیکھ چکے کہ وہ اپنی بات میں کتنے اٹل ہیں۔ 
 میں تمہیں اتنا ہی جانتی ہوں جتنا میڈیا کے ذریعے پتہ چلا۔ یہاں بہت سارے لوگ معاشرے کی تباہ ہوتی اقدار کے بارے میں فکر مند ہیں مجھے تمہارے بارے میں جان کر کیا کرنا۔ وہاں وادی ء سوات میں بے شمار لڑکیاں ہونگیں جو اپنی تعلیم پہ فکر مند ہونگیں۔ جنہیں اپنے ساتھ یہ دوسرے درجے کا سلوک پسند نہیں ہوگا۔ بس یہ کہ تم ان لڑکیوں کے لئے ایک علامت بن گئیں۔ زیادہ تر لوگ تو اس علامت کو درپیش خطرے سے صدمے میں آئے۔ 
 در حقیقت میں تم سے زیادہ تمہارے والدین کی بہادری کی قائل ہوں۔ آخر تمہارے والدین نے تمہیں گیارہ سال کی عمر میں اس قسم کی مضامین لکھنے کی اجازت کیوں دی جس میں تم لڑکیوں کی تعلیم کی بات کرو وہ بھی ایسے علاقے میں، اس عہد میں جب کہ صرف اس فتوی کے آنے کی دیر تھی کہ بحیثیئت عورت پیدا ہونا ایک غیر شرعی عمل ہے۔ آخر انہوں نے تمہیں وہ سبق کیوں نہیں پڑھایا جو ہمارے یہاں اس وقت خواتین کو پڑھایا جانا پسند کیا جاتا ہے؟  
لیکن پھر بھی مجھے ایک ملال سا ہے۔ اور اس کے ذمہ دار وہ لوگ نہیں جنہوں نے تمہیں گولی ماری بلکہ وہ لوگ ہیں جو اس واقعے کے بعد سامنے آتے ہیں۔
لوگوں کا ایک گروہ کہتا ہے کہ طالبان نے یہ نہیں کیا امریکہ نے کیا ہے فوج نے کیا ہے۔ لیکن اس کے اگلے ہی لمحے وہ کہتے ہیں کہ کیا آپکو معلوم ہے کہ ملالہ  کی فیورٹ شخصیت اوبامہ ہے، یا یہ کہ کیا آپ نے ملالہ کے مضامین پڑھے ہیں؟ انہیں پڑھے بغیر آپ ملالہ کو مظلوم کیوں سمجھتی ہیں؟  ڈرون حملوں میں  بچے مارے جاتے ہیں آپ اسکی مذمت نہیں کرتیں تو ہم ملالہ کی مذمت کیوں کریں؟ پاکستان میں ایک نہیں لاکھوں ملالائیں ہیں ہم صرف اسکی مذمت کیوں کریں؟ وہ ہمارے یہاں کی ایک اور مختاران مائ ہے۔  ہم کیوں نہ کہیں کہ عافیہ صدیقی اور جامعہ حفصہ کی لڑکیوں سے اگر آپکو ہمدردی نہیں تو ہمیں بھی ملالہ سے ہمدردی نہیں؟
آخر ملالہ نے ایسا کون سا کام کیا ہے جس پہ اسکی اتنی شہرت ہے؟  ہمارے یہاں تو ایسی لاکھوں ذہین لڑکیاں ہیں۔ عین اسی وقت دوسرا سوال پوچھتے ہیں کہ وہ جو مضامین اس نے لکھے ہیں اس عمر کا بچہ تو لکھ ہی نہیں سکتا۔ اس عمر میں بچے نہ ایسی زبان استعمال کرتے ہیں اور نہ اتنا سوچتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ دراصل اس کے ساتھ جو ہوا اس کے اصل ذمے دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسکی باتوں پہ اس کی حوصلہ افزائ کی۔
یہیں پہ دل ٹھنڈا نہیں ہوتا بلکہ یہ تک کھوج کر نکال لاتے ہیں کہ کیا ہم جانتے ہیں کہ ملالہ کے دیندار دادا نے ملالہ کے سیکولر نظریات رکھنے والے والد کو اسکے کفر کی وجہ سے نوجوانی میں گھر سے باہر نکال دیا تھا۔
ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں، جو کہتے ہیں کہ طالبان تو وجود ہی نہیں رکھتے یہ تو امریکیوں کا پھیلایا ہوا وہم ہے۔  لیکن جب ان سے کہا جاتا ہے کہ پھر آپ طالبان کی مذمت کرنے سے کیوں گھبراتے ہیں تو پھر ایک آئیں بائیں شائیں۔
اس وقت ایک چودہ سالہ لڑکی برطانیہ کے کسی ہسپتال میں ہوش و خرد سے نا آشنا کسی بستر پہ مشینوں کے سہارے پڑی ہے۔ وہ اگر ایک طویل علاج کے بعد زندگی کی طرف لوٹ بھی آئے تو یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ کس حد تک تندرست ہوگی۔
لیکن میرے جیسے دلوں میں یہ خیال کروٹیں لے رہا ہے کہ بستر پہ پڑا وہ وجود ایک چودہ سالہ لڑکی کا ہے یا چونسٹھ سال کے ملک کا ہے۔ 
  

Sunday, October 14, 2012

مختار کا اسکول

مختار ، صفائ کرنے والی کا بیٹا ہے۔ وہ پانچویں جماعت میں پڑھتا ہے۔  ماسی کا کہنا تھا کہ اس کا بچہ خاصہ ذہین ہے کلاس میں ہمیشہ فرسٹ آتا ہے لیکن اسکول میں ٹیچر دو دو ہفتوں تک نہیں آتے اور بچے اسکول جا کر کھیل کود کر واپس آجاتے ہیں۔ بچہ اس وجہ سے اسکول جانے میں دلچسپی نہیں لیتا۔ میں اسے پرائیویٹ اسکول میں داخل کرانا چاہتی ہوں۔ میں نے اس سے کہا کہ تم اسے پڑھنے کے لئے صبح میرے پاس چھوڑ دو۔ دوپہر میں وہ اسکول چلا جائے گا۔ لیکن پرائیویٹ اسکول میں داخل مت کرانا۔ اس وقت تم جوش میں کرادوگی۔ چند مہینے کے بعد تمہارے پاس پیسے نہیں ہونگے تو تم اسے وہاں ہٹا لوگی اور اس طرح اسکی تعلیم ختم ہوجائے گی۔
ویسے بھی غریب بستیوں میں کھلے پرائیویٹ اسکولوں میں ٹیچرز خود بمشکل میٹرک پاس ہوتے ہیں۔ انہیں برائے نام تنخواہ ملتی ہے وہاں پہ بھی یہی ہوگا جو یہاں ہوتا ہے، لوگ تمہاری جہالت کا فائدہ اٹھائیں گے۔  میرے اس مشورے کے دو مہینے بعد مختار میرے پاس پہلی دفعہ پڑھنے کے لئے آیا۔
گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہوئے ایک مہینہ ہو چکا تھا لیکن اردو کی کتاب کے ابھی صرف تین سبق پڑھائے گئے تھے۔ حساب کا پہلا باب جیسے تیسے ہوا تھا۔ انگریزی کی حالت سب سے بری تھی۔ اس کے باوجود کہ اب گورمنمنٹ اسکولز میں انگریزی پہلی جماعت سے پڑھائ جاتی ہے۔ بچہ انگریزی کے سادہ ترین جملے مثلاً دز از آ ڈاگ اور دیٹ از ہر پینسل تک نہیں بول سکتا۔ یاد رہے مختار اپنی کلاس کا سب سے تیز بچہ ہے۔
ہفتہ بھر پڑھانے اور یہ جاننے کے بعد کہ دس دن سے انہیں کوئ استاد پڑھانے نہیں آیا۔ میں نے مختار کے اسکول جا کر خود صورت حال جاننے کا فیصلہ کیا۔ یہ اسکول میرے گھر کے نزدیک ہی ہے۔
اسکول کے باہر تو ایک اسکول کا نام لکھا تھا لیکن اندر داخل ہونے پہ چوکیدار نے استفسار کیا کہ کس اسکول جانا ہے اس احاطے کے اندر تین اسکول موجود ہیں۔ ایک عمارت میں تین مختلف اسکول، مجھے یہ سن کر اتنا ہی تعجب ہوا جتنا کہ یہ جان کر ہوتا ہے کہ ایک عورت نے ایک ساتھ پانچ  بچے جنم دئیے۔ ایسی کیا مصیبت ہے کہ گورنمنٹ ایک ہی علاقے میں ایک ہی عمارت میں تین مختلف اسکول چلا رہی ہے۔ یقیناً کچھ مال پانی کا چکر ہوگا۔
ان تینوں اسکولوں کے آفس اور اسٹاف الگ ہیں۔ وہاں کھڑے ہو کر میں نے اندازاً اشارہ کر دیا کہ اس اسکول جانا ہے لیکن آفس تک فاصلہ طے کرتے ہوئے میں یکسو ہو چکی تھی۔ پہلا آفس سیکنڈری اسکول کا تھا۔ اسکا نام کچھ اور تھا۔ وہاں سے میں دوسرے اسکول گئ جو کہ پرائمری تھا معلوم ہوا کہ یہی مختار کا اسکول ہے۔  ہیڈ مسٹریس صاحبہ سے ابتدائ معلومات لیں تو مزید معلوم ہوا کہ انکے اسٹاف میں پانچ اساتذہ ہیں۔ ہر استاد کے ذمے ایک کلاس ہے وہی سارے مضمون پڑھاتا ہے۔ ان میں سے بھی ایک استاد کا حال مہیں تبادلہ ہو گیا ہے اس لئے مختار کی کلاس باقاعدگی سے نہیں ہو پا رہی ہے۔ الیکشن متوقع ہیں اور الیکشن کے سلسلے میں اساتذہ کی ڈیوٹی لگتی ہے اس لئے بچے کھچے اساتذہ بھی اس کام میں لگنے کا امکان ہے۔ یعنی الیکشن کمیشن الگ سے اپنے لئے عارضی کارکن نہیں رکھ سکتا۔ اسکے لئے بچوں کی تعلیم قربان کی جاتی ہے۔
میرے سوال پہ کہ استاد تو حال ہی میں گئے ہیں جبکہ یہی حالت گرمیوں کی چھٹی سے پہلے بھی تھی۔ انکے پاس کوئ جواب نہ تھا۔ جب میں نے کہا کہ نئے سیشن کو شروع ہوئے دو مہینے سے زیادہ ہو گئے ہیں اور ایک ڈیڑھ مہینے بعد ششماہی امتحان شروع ہونگے جبکہ سلیبس اپنی ابتدائ حالت میں ہے تو جواب ملا کہ آپ کو اطلاع غلط ہے۔ ہم تو انیس سبق پڑھا چکے ہیں۔ یہ کہہ کر ایک استانی جی اٹھیں اور باہر چلی گئیں پھر اردو کی کتاب لےکر واپس داخل ہوئیں۔ اس میں کتاب کے فہرست والے صفحے پہ انیس اسباق میں نشان لگے ہوئے تھے۔ میں نے کہا یہ نہیں ہو سکتا۔ میں ان نشانات کو تسلیم نہیں کر سکتی۔ اگر پڑھایا ہوتا تو اس بچے کو تین سبق کے علاوہ کچھ تو آتا جبکہ وہ فرسٹ آتا ہے۔ جن تائثرات کے ساتھ اس گیارہ سال کے بچے نے مجھے سب بتایا وہ جھوٹ نہیں ہو سکتے۔
 جناب، اسکے بعد بیانات کا سلسلہ چلا۔ یہ لوگ تو اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکول میں پڑھانا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا اس لئے کہ وہ جاہل ہیں اور سمجھتے ہیں کہ گورنمنٹ اسکول میں تو پڑھائ ہوتی نہیں اس لئے محلے کے پرائیویٹ اسکول میں داخل کرا دیں۔ ورنہ خود سوچیں جس کے پاس کحانے کو پیسے نہیں وہ پرائیویٹ اسکول میں کیسے پڑھائے گا۔ پھر آپ نے اپنے اسکول میں بچوں کے لئے کوئ تحرک نہیں رکھا وہ یہاں آکر کیا کریں۔ استاد تک تو انہیں ملتا نہیں۔
ایک استاد نے کہا کہ بچے اتنے گندے حلئیے میں آتے ہیں۔ اتنے گندے بچوں کو کیسے پڑھایا جائے۔ اور میں صفائ دیتی ہوں کہ یہ کچی بستی میں نالے کے کنارے رہنے والے، جنکے ماں باپ گھروں صفائ کا کام کر کے بمشکل اپنا کھانے پینے کا خرچہ اٹھاتے ہیں وہ کیسے انہیں صاف ستھرے یونیفارمز اور جوتوں میں بھیج سکتے ہیں۔
او جی آپکو نہیں معلوم یہاں تو کسی بچے کو ایک تھپڑ مار دو تو انکے ماں باپ یہاں ہنگامہ کرنے کو کھڑے ہوتے ہیں ۔ اس پہ میں کہتی ہوں ، وہ بیچارے ویسے ہی ماں باپ سے بری طرح پٹتے رہتے ہیں اب انکو مار کر کیا کرنا۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ انہیں یتیم بچے سمجھ کر پڑھا لیا کریں۔ یہی سوچ کر پڑھا لیا کریں کہ کل آقپکا معاشرہ آجکے مقابلے میں اس لئے بہتر ہوگا کہ یہ بچے سمجھدار ہونگے۔لیکن آپ دیکھیں اتنے بچوں کو کوئ کب تک پیار سے پڑھا سکتا ہے؟ ایک اور بہانہ سامنے آتا ہے۔
میں نے مسکراتے ہوئے انہیں دیکھا، میری اطلاع کے مطابق مختار کی کلاس میں کل سات بچے ہیں جن میں سے دو تین تو روز غیر حاضر ہوتے ہیں۔  آپکے اسکول میں شاید کل سو بچے ہیں۔ ایک کلاس میں چار بچوں کو ہینڈل کرنا کیا مشکل ہے۔ میں یونیورسٹی میں ایک وقت میں سوا سو بچوں کو پڑھاتی رہی ہوں یہی نہیں میں نے خود گورنمنٹ اسکول سے پڑھا ہے اور ہماری کلاس میں پچاس اسٹوڈنٹس تھے۔ حتی کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایک استاد کے پاس پندرہ سے بیس اسٹوڈنٹ ہوتے ہیں اس لحاظ سے آپ کے پاس تو کافی گنجائش ہے جبکہ اگر آپ یہ دیکھیں کہ اس اسکول کے ساتھ ایک اتنی بڑی کچی آبادی ہے۔ غریب لوگ ہیں گورنمنٹ اسکول کی کوئ فیس ہی نہیں، آپکے پاس تو کافی بچے ہونے چاہئیں لیکن ایسا ہے نہیں۔ آپ کو تو کوشش کرنی چاہئیے کہ آپکے اسکول میں زیادہ سے زیادہ بچے آئیں۔ دل میں سوچا کہ کوشش کرنی چاہئیے کہ اپنی تنخواہ کو حلال کریں۔
اس پہ ایک کھسیانی مسکراہٹ۔
معاملے کا اہم پہلو یہ ہے کہ گورنمنٹ پرائمری اسکول کے ایک استاد کی تنخواہ سولہ سترہ ہزار ہوتی ہے۔ جبکہ ادھر سٹی یا بیکن ہاءوس جیسے پرائیویٹ اسکولز میں بھی تقریباً  اتنی ہی تنخواہ ہوتی ہے۔ وہ اپنے اساتذہ سے خوب کام لیتے ہیں۔ دن کا ایک لمحہ ضائع نہیں جانے دیتے۔ کلاس رومز میں کیمرے تک موجود ہوتے ہیں تاکہ پرنسپل اپنے کمرے سے تمام کلاس رومز کو چیک کرتی رہے کہ اساتذہ آرام سے بیٹھے ہیں یا پڑھا رہے ہیں۔ ان اسکولوں کے مقابلے میں گورنمنٹ اساتذہ پہ کام کا سرے سے کوئ دباءو ہی نہیں۔ ان اساتذہ  سے  نتیجہ خیز کام لینے والا کوئ نہیں۔ کوئ اس چیز کا ذمہ دار نہیں کہ یہ اساتذہ اسکول کی چار دیواری میں کیا کر رہے ہی  
قارئین ، اب یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پورے تعلیمی نظام میں کون کتنا سنجیدہ ہے۔ 
میرے وہاں جانے سے یہ ہوا کہ مختار کی کلاس کو ایک استاد نے توجہ دینا شروع کی۔ انگریزی میں اسے دو مضامین لکھوائے گئے۔ یہ دونوں مضامین نہ صرف ناقص تھے بلکہ استاد نے اسکول کے موضوع پہ جو مضمون لکھوایا اس کے لئے یہ بھی زحمت نہ کی کہ لفظ سیکنڈری کی جگہ پرائمری ہی کر دیتا کہ مختار پرائمری اسکول میں پڑھتا ہے۔  ناءون، پروناءون اور ایجیکٹو کی تعریفیں اور مثالیں لکھوائ گئیں البتہ انکی کسی بھی قسم کی مشق ندارد۔ حالانکہ یہ سب اساتذہ، ایجوکیشن میں بیچلرز کی اضافی ڈگری رکھتے ہیں۔ میتھس کی کتاب کچھ آگے بڑھی۔
چند دنوں بعد میں پھر جاءونگی۔ اور اب میں سوچتی ہوں کہ اگر ہم صرف اتنا کر لیں کہ اپنے علاقے میں موجود گورنمنٹ اسکولز کو جا کر چیک کریں اور انکے اساتذہ سے گفتگو کریں تو ان پہ دباءو پڑتا ہے کہ وہ اپنے کام کے معیار کو بہتر کریں۔ اس تحریر کا مقصد بھی یہی ہے کہ آپ بھی اس مہم میں شامل ہو جائیں۔  اس بات سے قطع نظر کہ آپکے خاندان کے بچے اس میں ہیں یا نہیں۔  اپنے علاقے  کے گورنمنٹ اسکول کےا ساتذہ  سے ملیں، کلاسز کو دیکھیں اور اگر موقع ملے تو یہ سب کام کسی بچے سے پہلے سے معلومات حاصل کر کے کریں۔ آپ میں سے جسے موقع ملتا ہے وہ جائے یا پھر علاقے میں نوجوانوں کی ایک ٹیم بنا لیں جو اسکولوں کا جائزہ لے۔
گورنمنٹ اسکول میں پڑھنے والے بچے بھی ہمارے ہی بچے ہیں اگر غریب بچوں کو بہتر تعلیم ملے تو ہی ہم معاشرے میں تبدیلی کی امید رکھ سکتے ہیں۔  

Tuesday, October 9, 2012

مفاد سے آگے

شادی کے کارڈز بانٹنا اور شاپنگ ، اس میں اتنی مصروف رہی کہ مجھے یاد ہی نہ رہا کہ آج آسٹریلیا اور پاکستان کا ٹی ٹوئنٹی میچ ہے۔ میں اپنی ساتھی خاتون کو نارتھ ناظم آباد چھوڑنے کے لئے جب فائیو اسٹار کے سگنل پہ پہنچی تو ٹریفک رکا ہوا تھا۔ رات کے سوا دس بج رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ شادیوں کی ٹریفک کا رش ہے۔ کیونکہ اس طرف درجنوں شادی ہالز ایک قطار میں موجود ہیں۔ لیکن سگنل کھل کے ہی نہ دے رہا تھا۔
 پندرہ منٹ بعد مجھے فضا میں پاکستان کے جھنڈَے لہراتے نظر آئے اور کچھ لڑکے ادھر ادھر بھاگتے دکھائ دئیے۔  تھوڑی دیر بعد ہماری گاڑی چوک پہ لڑکوں کے ایک ہجوم کے درمیان، دوسری گاڑیوں کے ساتھ پھنسی ہوئ تھی۔ لڑکوں کی تعداد یہی کوئ ایک ڈیڑھ ہزار ہوگی۔ آتشبازی ہو رہی تھی، لڑکے ہارن بجا رہے تھے۔ صاف لگ رہا تھا کہ انکے ذہن میں کوئ خاص پروگرام نہیں۔ بس ٹریفک کو روک کر انہیں مزہ آرہا تھا۔ اس اثناء میں ایک لڑکے نے عین گاڑی کے سامنے آکر پستول نکالا اور ہوائ فائرنگ شروع کر دی۔ آج بچ جائیں تو بڑی بات ہے۔ میں نے سوچا، اگر ذرا بھی اندازہ ہوتا تو اس طرف کا رخ نہ کرتے۔
چالیس منٹ کے اس ہنگامے میں پھنسے رہنے کے بعد نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ واپسی پہ میں نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ لیکن ایک چیز جس نے میری توجہ لی وہ یہ کہ نوجوانوں کے اس منتشر، چارجڈ لیکن بے مقصد ہجوم میں کسی بھی سیاسی جماعت کا جھنڈا نہیں تھا۔ صرف پاکستان کے تین چار جھنڈے نظر آئے۔ عجیب یوں لگی کہ اس سے پہلے نوجوان کوئ بھی موقع ہو ایم کیو ایم کا جھنڈا لانا فرض عین سمجھتے تھے۔
یہی نہیں اس سے دو دن بعد جب میں عزیز آباد کے قریبی علاقے میں گئ تو وہاں ایک پارک میں لوگوں کا ہجوم ایک بڑی سی اسکرین پہ میچ دیکھ رہا تھا۔ ہر تھوڑی دیر بعد ہجوم نعرے لگاتا اور جھنڈے لہراتا لیکن یہ جھنڈے صرف پاکستان کے جھنڈے تھے۔
کیا کوئ تصور کر سکتا ہے کہ کراچی میں ایسا ہو گا۔ ایسا کیوں ہوا؟
الیکشن ، مستقبل قریب میں متوقع ہیں۔ اس لئے اکثر لوگوں سے اس حوالے سے بات ہوتی ہے۔ کس جماعت کو ووٹ دینا چاہئیے اور کیوں؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سب سیاستداں چور ہیں اس لئے ہم الیکشن والے دن بیلٹ پیپر پر مہر اس طرح لگائیں گے کہ وہ خراب ہو جائے اور کوئ ہماری جگہ جعلی ووٹ نہ ڈال سکے۔
میں نے پوچھا کہ اس سے کیا ہوگا؟ ووٹ کی گنتی ہوگی تو وہ امیدوار جیت جائے گا جسکے سب سے زیادہ ووٹ ہونگے چاہے اسے پانچ سو ووٹ ملیں۔
ایم کو ایم کو اس صورت حال کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟
 اس کی وجوہات اتنی واضح ہیں کہ  عقل و خرد سے عاری شخص بھی بتا سکتا ہے۔ ایم کیو ایم کے حامی کو اب ایم کیو ایم اور دیگر سیاسی جماعتوں میں کوئ فرق نظر نہیں آتا۔  سب چور ہیں ، سب اپنی تجوریاں بھرنا چاہتے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت پہ مفاد پرست طبقے کا قبضہ ہے۔ یہ مفاد پرستی، ذاتی مالی مفاد سے جڑی ہے۔  جب ایم کیو ایم کا نام آتا ہے تو بابر غوری جیسے نام آتے ہیں جو پارٹی میں شامل ہوئے تو کیا تھے اور آج انکی جائدادیں امریکہ میں موجود ہیں۔ 
یوں جاگیرداری اور معاشرے کے استحصال کے خلاف آواز اٹھانے والے خود جاگیر داری کے نشے میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اسکی بنیادی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ پاکستان کی ہر دوسری سیاسی جماعت کی طرح، ایم کیو ایم نے بھی اپنے تھنک ٹینک یعنی حلقہ ء دانشوراں کو مضبوط کرنے کے بجائے شخصی سیاست کی راہ اپنا لی۔ یہ سیاست کا اگرچہ ایک آسان راستہ ہے لیکن بھونڈا راستہ ہے اور جمہوری روح سے دورہے۔ مفاد پرست طبقہ ایک شخصیت کو خوش کر کے فائدے اٹھاتا ہے۔ اس طرح سے جمہور کی آواز کہیں دور رہ جاتی ہے۔
تنظیم نے جس شخصیت کومرکزی شخصیت کے طور پہ چنا وہ اس ملک کی سرحدوں میں ایک طویل عرصے سے نہیں آیا۔ انہیں یہاں کے بارے میں جو بھی اطلاع ملتی ہے وہ کسی کے ذریعے سے ملتی ہے انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ مصطفی کمال کے بنائے ہوئے پلوں نے شہر کا نقشہ تبدیل کر کے کیا سے کیا کر دیا ہے۔ اڑتی خبریں ملتی ہیں کہ وہ خود ہوش و خرد سے عاری ہو چکے ہیں۔ اور در حقیقت اس وقت تنظیم کو پاکستانی ایجنسیز چلا رہی ہیں۔
اس وقت تنظیم کو لائق اور عالم افراد کے قحط کا سامنا ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت میں ایسے لوگوں کی شمولیت کو دیکھا جانا چاہئیے جو کہ زندگی کے مختلف میدانوں مِن مہارت رکھتے ہوں تاکہ ہمیں امید ہو کہ افراد کا یہ مجموعہ ہمارے مسائل سے کیسے نبرد آزما ہوگا۔  زیادہ تر افراد جو تنظیم کی سیکولر پالیسی کی وجہ سے اس سے بہتر امیدیں رکھتے تھے اب اس سے دور ہو چکے ہیں۔ اس طرح سے ایم کیو ایم بحیثیئت ایک سیاسی جماعت کراچی کے نوجوانوں کو کوئ مثبت امید ، راستہ اور سرگرمی دینے میں آہستہ آہستہ ناکام ہو رہی ہے۔ اور اسکی یہ ناکامی، نوجوانوں کو دوسری انتہا کی طرف لے جارہی ہے جو کہ مذہبی انتہا پرستی ہے۔
تنظیم کو اس حقیقت کو تسلیم کرکے مثبت سمت میں کام کرنا چاہئیے۔ انہیں اب اس چیز کو بھی تسلیم کرنا چاہئیے کہ محض پیپلز پارٹی سے اچھے تعلقات استوار کر کے یا صدر زرداری کو خوش رکھ کر یہ ممکن ہے کہ وہ آئیندہ الیکشن میں اسمبلی کے اندر اپنا وجود قائم رکھنے میں کامیاب ہو جائیں، ممکن ہے انہیں مالی مفادات مل جائیں لیکن اس سے وہ عوامی سطح پہ اپنی حیثیئت کم کرتے جا رہے ہیں۔
مجھے اپنے سیاستدانوں کی اس کوتاہ اندیشی پہ حیرت ہوتی ہے کہ وہ محض اپنے مالی مفاد کو محفوظ کرتے ہوئے اپنے  زیادہ فائدہ مند مستقبل کی قربانی دینے سے گریز نہیں کرتے۔ حالانکہ اگر وہ اپنے مالی مفاد میں تھوڑی سی کمی لے آئیں اور اسے عوامی فلاح پہ خرچ کریں تو وہ ایک لمبی مدت تک عوامی پذیرائ سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور زیادہ کما سکتے ہیں۔
بہر حال، باقی سب سے قطع نظر ایم کیو ایم کو یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ ایسے ملک میں جہاں سیاست پہ جاگیردار کا سب سے بڑا حق ہے اور جہاں یہ جاگیردار، ملک کی مضبوط طاقت یعنی فوج سے بھی مضبوط روابط رکھتا ہے۔ وہاں وہ اپنی بقاء کی جنگ عوام کی حمایت کے بغیر نہیں لڑ سکتی۔ لیاری امن کمیٹی، اسکا سب سے بڑا ثبوت ہے۔  جو منظر پہ اچانک ابھری اور اب کراچی کے امن و امان میں اپنا حصہ رکھتی ہے یعنی جب چاہے اس شہر کا امن ہلا سکتی ہے حالانکہ اسکا اثر لیاری سے آگے نہیں۔ 
سو انہیں عوام کے لئے کام کرنا پڑے گا، انہیں ترجیح دینی ہوگی اور تنظیم کو مفاد پرست طبقے سے ہی نہیں شخصی سیاست سے بھی باہر نکالنا ہوگا۔ انہیں دلجمعی سے ایک حلقہ ء دانشوراں قائم کرنا ہوگا جسے سوچ وبچار کی آزادی دینی ہوگی۔ لیکن  اگر وہ ریاستی قوتوں سے ہڈی لے کر اس سے خوش ہیں تو یاد رکھیں کہ کل وہ باہر ہونگے جبکہ دیگر طاقتیں اسی طرح کھیل میں شامل رہیں گی جیسے وہ پچھلے تریسٹھ سال سے ہیں۔

 

Wednesday, October 3, 2012

کہانی میں ٹوئسٹ

ماما ،  مجھے آپکو ایک اہم بات بتانی ہے۔
ہمم، پہلے کھانا ختم کرو۔
ماما، یہ بہت اہم بات ہے۔
اچھا کیا ہے یہ اہم بات؟
ماما آپکو پتہ ہے سب مٹی سے بنا ہے۔
اچھا ، کیا سب مٹی سے بنا ہے؟
انسان، بندے، سب مٹی سے بنے ہیں۔
یہ کس نے بتایا؟
مس نگہت نے۔ آج دینیات کا پیریڈ تھا ناں۔ مس نگہت نے بتایا کہ انسان کیسے بنا۔
اچھا تو مٹی سے انسان کیسے بنا؟
جی ہاں، اللہ میاں نے فرشتوں سے کہا کہ مجھے کچھ مٹی لاکر دو۔ جب فرشتوں  نے مٹی لا کر دی تو اللہ میاں نے اس سے انسان بنایا اور پھر اس میں روح ڈال دی۔
اچھا ، یہ تو انسان بنانے کا بڑا آسان طریقہ ہے۔
آپکو پتہ ہے ماما، شیطان جو ہوتا ہے نا وہ بہت برا ہوتا ہے۔ اس نے اللہ میاں سے کہا کہ انسان نہیں بناءو لیکن جب اللہ میاں نے انسان بنا لیا توکہنے لگا کہ دیکھنا اب میں کیسے انسان کو بری بری باتیں سکھاءونگا اور اسے برا بناءونگا۔
اچھا، شیطان ایسا ہے۔ وہ انسان کو کیسے برا بنا دیتا ہے؟
وہ کہنے لگا کہ میں انسان کو نماز نہیں پڑھنے دونگا اور نہ ہی اسے کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے دونگا۔ ایسے وہ برا بناتا ہے۔
اچھا یہ تو واقعی بڑا برا ہے۔
ماما، اتنا برا ہے کہ اس نے کہا کہ وہ اللہ میاں کو پانی میں پٹخ دے گا۔ یہ جملہ تخیل کی پرواز تھا اور شیطان کو حتی الامکان برا ثابت کرنے کی انتہائ کوشش۔
کس نے کہا یہ؟
ہممم، سر کھجایا اور پھر جواب دیا۔ چور نے۔ تخیل کی پرواز کے دوران شیطان کا خیال ذہن سے پھسل گیا۔
لیکن چور تو چوری کرنے آیا تھا یا اللہ میاں سے کشتی لڑنے۔
ماما، چور بہت برا ہوتا ہے۔ موضوع کو ٹال کر دوسری طرف لے جانے کی کامیاب کوشش۔
ہاں ہوتا تو ہے۔
کسی کی بھی چیز اس سے پوچھے بغیر نہیں لینی چاہئیے۔ یہ چوری ہوتی ہے۔ 
ہمم، یہ بات تو صحیح ہے۔


مشعل یہ باتیں کرتے ہوئے سوچ رہی ہے کہ کہانی میں یہ ٹوئسٹ کیسے آیا۔
ماما جانتی ہیں لیکن بتائیں گی نہیں۔

Monday, October 1, 2012

ڈنگ ڈونگ

ہر اچھا اور برا وقت گذر جاتا ہے کل کا دن بھی گذر گیا۔ ایک اور چبھتی ہوئ یاد۔ فیس بک پہ اب تک اسکی  چبھن باقی ہے۔ جب بھی ہم روائیتی حریف کے سامنے ہوتے ہیں دنیا کو لگ پتہ جاتا ہے کہ آج  کیا ہونے والا ہے۔ کسی زمانے میں شیر کی آ٘د کا پتہ رن کے کانپنے سے چلتا تھا۔ کس شیر کی ٘آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے اب یہ کام میڈیا انجام دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب روڈ پہ سے گذری تو حیران تھی کہ اتنا چھوٹا شامیانہ لگا کر اور اتنی ساری کرسیاں بچھا کر کس تقریب کا اہتمام ہو رہا ہے۔ نوجوان اب بھی ایم کیو ایم کے اتنے دیوانے ہیں۔ واپسی پہ معمہ حل ہوا،  شامیانے کا سائز اسکرین کے سائز جتنا تھا اور کرسیاں ہی کیا لوگ اسکے چاروں طرف کھڑے تھے۔ 
گھر واپس آکر دیکھا کہ لاءونج کا صوفہ ٹی وی سے ایک نامعقول فاصلے پہ رکھا ہوا ہے اور آگے پیر ٹکانے کے اسٹول رکھے ہوئے ہیں۔ آنکھیں جمی ہیں، میچ چل رہا ہے۔
مجھے تو ٹی ٹوئینٹی میچ  کرکٹ کا ساشے پیکٹ لگتا ہے۔ آخر اسکے لئے گیارہ کھلاڑیوں کی کیا ضرورت ہے؟ یعنی رومال بنانے کے لئے پورا تھان لیں۔ یہ اسی صورت نظر انداز کیا جا سکتا ہے جب فیس بک اور ٹوئٹر بھی ساتھ ساتھ رواں دواں ہوں۔ 
فیس بک سے اندازہ ہوا کہ میچ میں پاکستان کی ہار کا منظر ابھرتے ہوئے ہی کچھ کمزور دل حضرات ٹی وی کے آگے سے اٹھ گئے۔ کچھ نے جائے نماز سنبھالی لیکن میچ کے اختتام پہ کچھ دہرئیے والے کلمات کہتے پائے گئے۔ پاکستانی کھلاڑیوں کو سوچنا چاہئیے کہ انکی وجہ سے کچھ لوگ دعا اور رب دونوں سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ جسکا عذاب انکے سر پہ ہوگا۔ کچھ خواتین رونے لگ گئیں اور کچھ کے بچوں کی شامت آئ یعنی طویلے کی بلا بندر کے سر۔ اس دلچسپ صورت حال کی عکاسی کے لئے میں نے کچھ اسٹیٹس چوری کئے ہیں۔ حاضر ہیں۔
Feel like giving two chammats to the team

Kia game on hai? I didnot feel do :(

کوئ بات نہیں، بچہ سمجھ کر جیت دے دی، اگلی باری میں دیکھنا۔
پس ثابت ہوا کہ ٹُلّر ہر واری نہیں چل سکدا۔

اور جیسا کہ میں میچ شروع ہونے سے پہلے کہہ چکا تھا نتیجہ وہی نکلا
 
Chalo toss hu, jeetay or match tum! Baat baraber hoi :)
 
Lo Ji,
Pakistan har gaya.
Allah Hafiz
To boost the performance levels for time being, Pakistani team must presume for time being that they are working in a 3 hour long commercial
Prepare yourself for this song.

Tum Jeeto yaan haaroo
sunooooo
humain tum say piyar ha
 
Shahid Afridi didn't work, lets send Shakeel Afridi with polio drops, and then a drone attack + seal operation on top of that. All over!
 
اس سے بڑی زیادتی اور کیا ہوگی فراز 
ہم جیتیں تو وارم اپ، وہ جیتیں تو سپر 8 

کس عقیدت سے آئوٹ ھوتے ھیں

واہ وا واہ

کس عقیدت سے آئوٹ ھوتے ھیں
ھار جانا ثواب ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ھو جیسے

کیا رحمان ملک پاک بھارت میچ کا سودا کرنے گیا؟ رقم بٹورنے کا اچھا موقع سمجھتے ہوے؟
پاکستانی ٹیم کو کسی کوچ کی نہیں، بلکہ ایک اچھے سائیکیٹریسٹ کی ضرورت ہے۔
اور قارئِن، اس دھلائ سے فارغ ہو کر لوگ ایک دفعہ پھر خداکی طرف رجوع کرتے ہیں۔ کیوں؟ یہ نہیں معلوم۔
I am watching Madni Tv now !!!
میری دلچسپی تو کرکٹ میں اس وقت سے ختم ہو گئ ہے جب سے پاکستان میں کرکٹ کرپشن اپنے عروج پہ پہنچا۔ لیکن اس دفعہ جس چیز کی وجہ سے مجھے بار بار اسکرین کو دیکھنا پڑا۔ وہ ڈنگ ڈونگ کا اشتہار ہے۔ میرے بچپن سے یہ اب میری بیٹی کے بچپن تک آپہنچا۔ جب اشتہار اختتام پہ پہنچتا ہے تو بلی چوہوں کی پٹائ لگانے کے بعد اپنا ڈنگ ڈونگ ببل کا ذخیرہ لیتی ہے اور وہی سونگ گاتی ہے۔ میں سوچتی تھی کہ یہ نہیں پتہ چلتا کہ کون سا سونگ گاتی ہے؟ کچھ عرصے بعد ایک خیال آیا کہ یہ ڈنگ ڈونگ گاتی ہے۔ اب بھی یقین نہیں کہ یہ خِال درست تھا یا غلط۔
 اس میچ کے دوران ڈنگ ڈونگ ببل کا اشتہار پاکستان کی مختلف زبانوں میں آتا رہا۔
اور میں ہر دفعہ کمپیوٹر اسکرین سے نظریں پھیر سنتی کہ یہ اب کون سی علاقائ زبان ہے اور اس میں کیا الفاظ استعمال ہوءے ہیں۔ لیکن کل سے پہلے شاید ہی کبھی شک ہوا ہو کہ یہ اشتہار یا تو یہودیوں نے بنایا ہے یا پھر را کے ایجنٹوں نے۔ ایک مبصر کا کہنا تھا کہ ہر کھلاڑی کے آءوٹ ہونے پہ یہ اشتہار آیا اور بلی خوشی سے ناچتی پھری۔ بعض حقائق بڑی دیر سے پتہ چلتے ہیں۔


اب پھر ایک سوال ذہن میں ہے۔ اگر بلی نے چوہوں کی پٹائ لگائ اور ڈنگ ڈونگ لے کر اس نے پھر وہی سونگ گایا۔ تو اس دفعہ اس نے کون سا سونگ گایا؟ جواب منتخب کریں۔
۱
ڈنگ ڈونگ
۲
تم جیتو یا ہارو
سنو
ہمیں تم سے پیار ہے
۳
لخ لعنت