Sunday, July 31, 2011

جھوٹ بولے کوا کاٹے

رافعہ میری سینیئر کو لیگ ہیں اور دوست بھی۔ جب تک پاکستان میں رہیں  انکی نظریاتی ہمدردی جماعت اسلامی سے رہی۔ چند سال پیشتر وہ ہجرت کر کے کینیڈا آ گئیں۔ گذشتہ دنوں کینیڈا میں ان سے ملاقات ہوئ۔  یہاں بھی وہ اسکارف اور عبایہ پہنتی
ہیں۔ انکی سترہ سالہ اور چودہ سالہ بیٹی بھی سر پہ اسکارف لیتی ہیں۔
یہاں میں جس پاکستانی سے بھی ملتی ہوں اس سے یہ سوال ضرور کرتی ہوں کہ اسے یہاں کیسا لگتا ہے۔ یہی سوال ان سے بھی پوچھا۔ کہنے لگیں جنت کا تصور بھی کچھ ایسا ہی ہے جیسا ہم یہاں حقیقی زندگی میں دیکھتے ہیں۔ بچوں کو وظیفہ ملتا ہے ہمارے بیشتر اخراجات تو اس سے ہی طے ہو جاتے ہیں۔ اسکے علاوہ شہریوں کے دیگر حقوق ہیں۔ مثلاً اسکول کی تعلیم مفت ہے۔ مجھے آپنے بچوں کی تعلیم پہ نہیں خرچ کرنا پڑتا۔ یونیورسٹی تعلیم کے لئے حکومت قرضے دیتی ہے۔ روزگار نہ ہو تو وظیفہ ملتا ہے۔ گھر میں کوئ بچہ معذور ہو تو بے شمار رعائیتیں ملتی ہیں۔ فلاحی ریاست کا اگر کوئ تصور ہے تو یہ ریاست اس پہ پوری اترتی ہے۔
ہم کام کرتے ہیں مگر زندگی کی دیگر تفریحات کے لئے وقت ملتا ہے۔ اپنے گھر کے سامنے موجود ہرے بھرے ٹیلے کی طرف اشارہ کر کے انہوں نے کہا۔ سردی میں اس پہ برف جمی ہوتی ہے میں اور میرے بچے اس پہ اسکیٹنگ کرتے ہیں۔ یہ
گرمی کا موسم ہے آجکل ہم باقاعدگی سے پارک جاتے ہیں مختلف تفریحی مقامات کے لئے رعائیتی پاسز بھی موجود ہیں۔
اب رمضان آنے والا ہے آپکو تو پاکستان اس موقع پہ بڑا یاد آتا ہوگا۔ رمضان منانے کا لطف تو وہاں پہ ہے۔ میں نے پوچھا۔ انکی بچی کہنے لگی نہیں تو یہاں رمضان زیادہ اچھے ہوتے ہیں۔ ہماری بلڈنگ میں کافی مسلمان ہیں۔ رمضان میں ہم افطاری لے کر مسجد چلے جاتے ہیں۔ وہاں دیگر فیملیز کے ساتھ روزہ افطار کرتے ہیں۔ مسجد میں بھی افطاری کا انتظام ہوتا ہے۔ روزانہ مفت سحری اور افطار ہوتا ہے۔ آخری عشرے میں جاگنے والی راتوں میں محفل شبینہ ہوتا ہے۔ ہم وہیں راتیں
گذارتے ہیں، بڑی رونق رہتی ہے۔
ہاں انہوں نے کہا پاکستان کی ایک چیز بڑی یاد آتی ہے اور وہ رمضان سے پہلے  ، رمضان کی وجہ سے چیزوں کی قمیتوں میں ہوش ربا اضافہ۔ بس یہ یہاں نہیں ہوتا۔  رحمت کی یہ قسم یہاں دستیاب نہیں
پاکستان میں لوگ کہتے ہیں کہ ان مغربی ممالک میں اس وقت تک آپکو قبول نہیں کیا جاتا جب تک آپ ان جیسے نہ ہوجائیں۔ یہاں کینیڈا میں یہ عالم ہے کہ ہجرت کر کے آئے ہوئے مسلمانوں کی تعداد اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ یہاں اداروں کی پالیسیز پہ اثر انداز ہونے لگے ہیں۔انکی ایک بچی کے اسکول میں تو پچاس فی صد بچے مسلمان ہیں۔ میں نے اسکے اسکول کے کنووکیشن کی تصویر دیکھی اور ناموں سے اندازہ کیا کہ کون کون مسلمان ہیں۔
اسکول ہی نہیں اکثر ادارے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد ہونے کی وجہ سے وہ اپنی پالیسیز میں تبدیلیاں لائے ہیں۔ کینیڈیئن پارلیمنٹ میں مسلمان ممبران موجود ہیں۔ کیلگیری کا تو میئر بھی مسلمان ہے۔ اسکے علاوہ کینیڈا میں بچوں کے اسلامی اسکول الگ سے ہیں جہاں یہاں کا منظور شدہ اسکول کا کورس بھی ہے اور ساتھ میں اسلامیات اور قرآن کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ ٹورنٹو میں ان اسلامی اسکولوں کی قابل تذکرہ تعداد موجود ہے۔
اگر صورت حال یہ ہو کہ صرف وہی لوگ رہ پاتے ہوں جو اپنے مذہب اور ثقافت کی قربانی دیتے ہیں تو یہ تبدیلی کیسے ممکن ہے کہ جس جگہ آج سے تیس سال پہلے حلال گوشت ملنا تقریباً نا ممکن تھا وہاں اب یہ بآسانی دستیاب ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستانی خواتین اور مرد شلوار قمیض میں عوامی جگہوں پہ نظر آجائیں۔ سو، یہ کہانی سنانے والے یا تو ان علاقوں سے واقف نہیں یا پھر جان بوجھ کر ڈنڈی مارتے ہیں۔ یہ جھوٹ کیوں بولنے پہ مجبور ہیں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
میرے سامنے موجود ایک چھبیس ستائیس سالہ نوجوان نے جو اٹھارہ سال کی عمر میں پاکستان سے کینیڈا پہنچا ،  جب بڑے جذبے سے کہا کہ دنیا میں کوئ ملک کینیڈا کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ کوئ ایک ایسا ملک ایسا نہیں جہاں اتنی بڑی تعداد میں مختلف قومیتوں اور مذاہب کے لوگ اتنی ہم آہنگی سے رہ رہے ہوں۔ میں اسے رد نہیں کر سکی۔ میں نے اس سے پوچھا یہاں مختلف مذاہب اور قومیتوں کے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ پھر بھی ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔ پاکستان میں ایک ہی مذہب کے لوگ اکثریت میں ہیں۔ پھر بھی ایسا ممکن کیوں نہیں ہوا؟ اس فخر سے پاکستان میں رہنے والے کیوں محروم ہیں۔
اس نوجوان نے مجھے ایک جانا پہچانا جواب دیا۔ جو پہچان پہ ہے ناز تو پہچان جائیے۔


canada, pakistan, toronto, islam,  culture, islamic school,religion, ramazan, calgary, extremism,

Wednesday, July 27, 2011

خواب اور حقیقت

زیارت رسول اللہ ایک ایسی دین ہے جسکی کچھ لوگ بڑی خواہش کرتے ہیں۔ اسکے لئے مختلف وظائف بھی ملتے ہیں۔ جنہیں بتانے والے کہتے ہیں کہ یہ بڑے مجرب وظیفے ہیں اور ان سے خواب میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت یقینی ہے۔ اگرچہ میرا حقیر ذہن یہ سمجھ نہیں پاتا کہ جس رسول کے لائے ہوئے دین کی پاسداری ایک شخص کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا وہ اسکی خواب میں زیارت سے کیوں مشرف ہونا چاہتا ہے.
کسی شخص کی نیکی کے لئے اسکا یہ بیان ہی کافی ہوتا ہے کہ اسے خواب میں رسول اللہ کی زیارت ہوئ۔
یہی نہیں ، ایسے واقعات بھی خبروں میں آتے ہیں جن میں مختلف لوگ رسول اللہ کی خواب میں بشارتوں کے ذریعے دیگر لوگوں کو خوب بے وقوف بناتے ہیں بلکہ بعض اوقات یہ چیز زندگی سے ہاتھ دھونے کا بہانہ بھی بن جاتی ہے۔
زیارت رسول کے بارے میں مختلف بزرگان دین کی روایات ملتی ہیں۔ اور ذہن میں کچھ سوالات ابھرتے ہیں مثلاً یہ روایات کس حد تک درست ہیں۔ جبکہ علماء یہ بھی فرماتے ہیں کہ شیطان ، رسول اللہ کا چہرہ اختیار نہیں کر سکتا اور جو خواب میں انہیں دیکھتا ہے دراصل اس نے حقیقت میں انہیں دیکھآ۔
کچھ دنوں پہلے فریئر ہال ، کراچی میں پرانی کتابوں کے بازار سے گذرتے ہوئے ایک چھوٹی سی کتاب ہاتھ لگی۔ جس کا نام ہے اسلام یا مسلک پرستی۔ یہ مسجد توحید ، کیماڑی، کراچی سے شائع ہوئ۔ اسکے مصنف منور سلطاں کا کہنا ہے کہ انہوں نے مختلف اسلامی فرقوں کا مطالعہ کیا۔ کچھ سے انکی وابستگی بھی رہی۔ سب سے لمبی وابستگی تبلیغی جماعت سے رہی۔ جس پہ وقت ضائع ہونے کا انہیں افسوس بھی ہے بالآخر اپنے ایک تبلیغی رفیق کے مختلف سوالات پوچھنے پر انہوں نے اپنے خیالات کو کتابی شکل میں لانے کا فیصلہ کیا تاکہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو صراط مستقیم پہ لا سکیں۔
اس کتاب کے موضوعات دلچسپ ہیں۔ کیونکہ مولوی صاحب نے لکھے ہیں اس لئے انہوں نے دینی انداز میں خوب لتے لئے ہیں۔ ہر مخالف نظرئیے رکھنے والے کی طرح انہیں بھی اندیشہ لا حق ہے کہ انہیں کافر قرار دیا جائے گا مگر یہ اطمینان ہے کہ وہ خدا کے حضور سرخرو ہونگے۔
  کتاب کے اسکین شدہ صفحات حاضر ہیں۔ پڑھئیے اور سوچئیے، اسلام یا مسلک پرستی۔ بہتر طور پہ دیکھنے کے لئے تصاویر پہ کلک کیجئیے۔






Monday, July 25, 2011

سیاح بلائیں

بنکاک میں ہم دو دن کے لئے تھے۔  یہاں میری دلچسپی جس چیز میں سب سے زیادہ تھی۔ وہ یہاں سے کچھ فاصلے پہ موجودتیرتا ہوا بازار تھا۔ جسے فلوٹنگ مارکیٹ کہتے ہیں۔ صبح ہمیں سات بجے ہوٹل سے نکلنا تھا۔  رات جب ہم سونے کی تیاری کر رہے تھے تو اچانک  کھانے کے بعد مشعل کو الٹی ہو گئ۔   وہ کچھ سست تھی لیکن باقی سب ٹھیک لگ رہا تھا۔ ڈھائ سال کا بچہ سفر سے تھک گیا ہوگا۔
صبح جب ہم گاڑی میں سوار ہونے لگے تو میں نے سوچا کہ  میں اور مشعل رک جاتے ہیں باقی لوگ چلے جائیں۔ لیکن سب کہنے لگے کہ اس میں کرنا کچھ نہیں ہے۔ گاری ایئر کنڈیشنڈ ہے وہ بالکل لیٹ کر جا سکتی ہے۔ اور وہاں بوٹ میں بیٹھے رہنا ہوگا۔ دو پہر تک واپس ہوٹل میں ہونگے۔ سو،  احتیاطاً او آر ایس، الٹی کی دوا اور گلوکوز  اپنے بیک پیک میں ڈالا اور چل دئیے۔
ہمیں وہاں پہنچنے میں دو گھنٹے لگے۔ گاڑی سے اتر کر ایک بوٹ میں بیٹھ گئے۔ یہ ایک نہر ہے جسکے دونوں اطراف گھر موجود ہیں۔ ان گھروں کے درمیان آمدو رفت کشتیوں سے ہوتی ہے۔ اسی پہ ذرا آگے بڑھیں تو کشتیوں میں لوگ دوکانیں سجائے نظر آتے ہیں۔  کسی زمانے میں یہاں واقعی اصلی مارکیٹ موجد تھی وقت کے ساتھ وہ ختم ہو گئ۔ کشتیوں میں یہ دوکانیں دراصل سیاحوں کی کشش کے لئے دوبارہ سجائ گئ ہیں۔ ان سے مقامی باشندوں کودلچسپی نہیں۔
بہر حال، ہم کشتیوں کی اس مارکیٹ سے گذر رہے تھے۔ گرمی خاصی بڑھ چلی تھی۔ ہم نے اپنی اپنی چھتریاں کھول رکھی تھیں۔ اس تیرتی ہوئ مارکیٹ سے گذرتے ہوئے کنارے پہ موجود ایک چھوٹے سے ریسٹورنٹ میں چائے پینے کا خیال آیا۔ اسی کے ساتھ ایک دوکان تھی جس میں بچوں کے کھلونے اور دیگر اشیاء موجود تھیں۔ میں مشعل کو وہ دکھانے لے گئ۔ چند ایک چیزیں لے کر میں اسکی ادائیگی کی لائن میں تھی کہ میرے ساتھ کھڑی مشعل زمین پہ بیٹھی اورایکدم بے ہوش ہو گئ۔  میں نے جلدی سے جھک کر اسے سیدھا کیا، سر کو جھکایا پھر جلدی سے بیگ سے گلوکوز نکال کر اسکے منہ میں ٹھونسا اور پانی کے قطرے ڈالنے لگی۔
ادھر سے مشعل کے بابا دوڑتے ہوئے آئے اور دوسری طرف ایک تھائ خاتون جلدی سے بھاگتی ہوئ آئ۔ اور کہنے لگی تمہیں ایمبولینس چاہئیے۔ وہ سامنے کھڑی ہے۔ ہم دونوں نے اسے اٹھایا اور ایمبولینس کی طرف دوڑ لگائ۔ یہ دراصل ایک کار تھی۔ ایسی دو کاریں اور یہاں موجود تھیں۔ ایمبولینس میں ڈالتے ہی ڈرائیور نے سائرن آن کیا اور ہم ہسپتال کی طرف روانہ ہوئے۔ ہسپتال پہنچنے میں ہمیں دس منٹ سے بھی کم وقت لگا۔ فوراً ہمیں ایمرجینسی میں لے جایا گیا۔ اس وقت تک مشعل تھوڑی بہتر حالت میں تھی۔ مگر چہرہ اترا ہوا تھا۔
یہ ایمرجینسی سیکشن ایسا تھا، جیسا کہ کراچی کے کسی بہترین پرائیویٹ ہسپتال کا ایمرجینسی یونٹ ہوتا ہے۔ ہر بیڈ کے ساتھ مشینیں اور آلات تھے۔ ماحول صاف ستھرا، نرسیں موجود۔ وہاں انہوں نے اسے ایک بیڈ پہ لٹایا، چیک کیا اور اسے او پی ڈی میں بچوں کے ڈاکٹر کے پاس بھیج دیا۔
یہ حصہ الگ تھا۔ ہم ایمرجینسی یونٹ سے باہر نکلے اور او پی ڈی کی طرف بڑھے۔ پیچھے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا۔ اس نے اپنے ہاتھ میں لی ہوئ چھتری کھولی اور ہمارے سروں پہ سایہ کئے ہوئے او پی ڈی تک لے گیا۔ او پی ڈی کے حصے میں ایئر کنڈیشنڈ کی ٹھنڈک موجود تھی۔ نرسز گلابی یونیفارمز میں موجود تھیں۔ ریسیپشن کے حصے میں تین خواتین اور ایک مرد موجود تھے۔ تینوں خواتین نے اسمارٹ سا گلابی روائیتی تھائ لباس پہنا ہوا تھا۔ اس اسمارٹ لباس کے ساتھ انکے گلوں میں موتیوں کی ایک لڑی اور کانوں میں ہلکے آویزے تھے۔ اپنی روائیتی نرم تھآئ زبان میں انہوں نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ مشعل کی فائل تیار کی۔ ڈاکٹر کا نام دیا۔ اور ہمیں ساتھ موجود ہسپتال کے گائڈ کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس بھیج دیا۔ یہاں لوگ تمیز سے بینچ پہ بیٹھے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔
دو لوگوں کے بعد ہمیں اندر بلا لیا گیا۔ گلابی یونیفارم اور سفید گاءون میں دلکش مسکراہٹ والی ڈاکٹر نے چیک کیا تمام معلومات لیں اور ہمیں بتایا کہ یہ وائرل انفیکشن ہے۔ ہو سکتا ہے شام تک بخار اور دست بھی آجائیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ کوئ اینٹی بائیوٹک نہیں دی جارہی ہے۔ دودھ بند کر دیں۔ نرم غذا کے ساتھ او آر ایس اور الٹی کی دوا دیتے رہیں۔ اگر بخار ہو جائے تو یہ دوا الگ سے ہے۔ اسی وقت شروع کرادیں۔
دوا ہسپتال کی فارمیسی سے ملی۔  دوا مفت تھی۔ یہ ایک پرائیویٹ ہسپتال نہیں بلکہ گورنمنٹ ہسپتال تھا۔ ہم ہسپتال سے نکلے تو گویا مسمرائِزڈ حالت میں تھے۔
تھائ لینڈ کی سب سے بڑی صنعت سیاحت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سیاحت کی فروغ میں یہاں پیشہ ور خواتین کی آسان  دستیابی اور شراب کی آزادی شامل ہے۔
لیکن اس واقعے سے ایک شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ سیاحت صرف خواتین اور شراب کے سہارے نہیں چل سکتی۔  ایک خاندان جو بچوں کے ساتھ موجود ہو اسکے لئے پیشہ ورخواتین کی دستیابی کیا اہمیت رکھتی ہے۔ آپ نے پڑھا کہ ہسپتال میں ہمارے ساتھ کیسا وی آئ پی سلوک ہوا۔ اسکی وجہ یہ  تھی کہ ہم انکا ذریعہ ء روزگار تھے۔ ذریعہ ء روزگار کی عزت نہ کی جائے تو انسان خود عزت سے محروم ہو جاتا ہے۔
میں دوبارہ اگر تھائ لینڈ جانا چاہوں تو اب مجھے بالکل عار نہ ہوگا۔ وجہ سستی رہائیش، سستا کھانا، سستی اور آسان ٹرانسپورٹ، صحت کے کسی بھی ایمرجینسی مسئلے سے نبٹنے کے لئے ڈاکٹر اور ہسپتال فوراً موجود، عام لوگ معاون و مددگار۔ اور سب سے بڑھکر رات کو بارہ بجے میں اور میری ساتھی خاتون ایک کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہیں بغیر کسی خوف کے۔ راستہ بھول جانے سے کوئ اندیشے لا حق نہیں ہوئے۔ یہ احساس نہیں تھا کہ ابھی کوئ ہاتھ سے پرس چھین کر فرار ہو جائے گا۔ اسلحے کے زور پہ ہر چیز سے محروم ہو جائیں گے۔ اگر خاتون ہیں تو آتے جاتے لوگ دھکے یا ہاتھ ماریں گے، سیٹیاں بجائیں گے، زبان پھیریں گے یا آنکھ ماریں گے، ہجوم والی جگہوں پہ بم پھٹنے کا خیال نہیں۔ احساس تحفظ کے
بغیرسیاحت میں کوئ کشش نہیں پیدا ہو سکتی۔
اپنے ملک کو سیاحت کے لئے مناسب مقام بنانے کا مطلب یہ ہے کہ آپکے ملک میں وہ تمام چیزیں جو آپکوبے حد خوبصورت لگتی ہیں، جنکی تاریخی یا روائیتی اہمیت ہے، جن سے قدرت نے صرف آپکو نوازا ہے انہیں دوسرے ممالک کے باشندوں کے ساتھ شیئر کریں۔ اس شیئرنگ کے  نتیجے میں وہ آپکے ملک میں رہتے ہیں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے خریداری کرتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں اور جو چیزیں یہاں پسند آتی ہیں وہ یہاں سے خرید کر لے جاتے ہیں۔ ان تمام مراحل پہ وہ پیسے ادا کرتے ہیں۔ اس طرح یہ سیاح  ملک میں پیسہ لے کر آتے ہییں۔ سیاحت کے نتیجے میں مختلف روزگار بھی جنم لیتے ہیں۔ مثلاً سیاح اپنے ساتھ آپکے ملک کی کوئ نہ کوئ نشانی لےجانا چاہتے ہیں یا گھر والوں کے لئے تحفے لے جانا چاہتے ہیں۔ اس طرح سے ان چیزوں کی پیداوار بڑھانا پڑتی ہے۔
 اب اس ملک کی ذہانت  ہے کہ کسطرح اس سیاح سے یہ پیسے خرچ کرواتے ہیں اور کیسے اسے واپس جا کر اس ملک کے لئے مزید سیاح یعنی مزید کاروبار لانے پہ سوچنے پہ مجبور کرتے ہیں۔
خیر سیاحت کے نکتے سے عام سے سوالات ہیں جو آپ چاہیں تو صرف سوچتے رہیں یا چاہیں تو انکا اظہار کریں۔ پاکستان میں وہ کون سی جگہیں ہیں جنہیں آپ سیاحوں کے لئے پر کشش سمجھتے ہیں یا انہیں پر کشش بنایا جا سکتا ہے۔ وہ کون سی پروڈکٹس ہیں جو آپ  سمجھتے ہیں سیاح آپکے ملک سے خریدنا پسند کریں گے۔ 

Sunday, July 24, 2011

ایبنارمل تفریح اور ایبنارمل مذاق

پچھلے چند سالوں میں بھیک مانگنے والے جس گروہ میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے وہ ہیجڑوں کا ہے۔ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک شاذ ہی ہیجڑے دیکھنے کو ملتے تھے۔ لیکن اب کراچی کے ہر سگنل پہ پانچ چھ موجود ہوتے ہیں۔ کیا واقعی پاکستان میں زنخوں کی پیدائیش اسی رفتار سے ہو رہی ہے۔
اگر ایسا ہے تو کوئ تحقیق ہونی چاہئیے کہ ہمارے یہاں یہ ابنارمیلیٹی کیوں اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ پہلے سے موجود تحقیق کہتی ہے کہ  کسی انسان کا قدرتی طور پہ مخنث پیدا ہونا ، اسکی شرح خاصی کم ہے اس سے خاصی کم ہے جتنا کہ ہم اس وقت کراچی کی سڑکوں پہ دیکھتے ہیں۔
اس لئے یہی سمجھا جا سکتا ہے کچھ لوگوں نے اسے بھیک مانگنے کا طریقہ سمجھ لیا ہے۔ اسکے علاوہ جو خیال مزید آتا ہے اور عینی شواہد اسکی تصدیق بھی کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ ان افراد کی بڑی تعداد اس دھندے کی آڑ میں یا توجسم فروشی کا دھندہ کرتی ہے یا پھر مردوں کا دل بہلانے کا کام کرتی ہے۔ ان میں سے ہیجڑوں کا روپ دھارنے والے زیادہ تر لوگ درحقیقت مرد ہوتے ہیں۔ یوں یہ عناصر دراصل ہم جنس پرستی کا حصہ ہیں۔ جو ہمارے معاشرے میں ہمیشہ سے ہی موجود ہے۔
 ہمارے یہاں خواتین کا جسم فروشی کے دھندے میں آنا جتنا برا عمل سمجھا جاتا ہے اتنا ایک مرد کا آنا یا  مخنث کا آنا برا نہیں سمجھا جاتا۔ اسکا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ اگر خواتین کے گروہ اس طرح بن ٹھن کر سر عام اپنے گاہک تلاش کرنے نکل کھڑے ہوں تو اس پہ واویلہ مچ جائے گا۔ کسی آنٹی شمیم کو پکڑنے اور عبرت ناک سزا دینے  کے لئے محلے والے بے  قرار ہونگے۔ مذہبی جماعتیں انکی ہمنوا ہونگیں۔ جبکہ مرد  یا مخنث اپنے آپکو ہم جنسیت کے لئے سر عام پیش کر رہے ہوتے ہیں اور کوئ انہیں لعن طعن تک نہیں کرتا۔ میں اکثر دیکھتی ہوں کہ جب ایک ہیجڑا کسی گاڑی والے سے راز و نیاز کی باتیں کر رہا ہوتا ہے تو دوسرے گاڑی والے مسکراہٹ دبائے ان پہ نظر رکھے ہوتے ہیں۔
آجکل ٹی وی شوز میں بھی ہیجڑوں کے اوپر خاص توجہ ہے۔ ہر تھوڑے دنوں بعد کوئ نہ کوئ ایسا ہی شخص خوب تیار شیار کسی ٹاک شو میں بیٹھا ناز نخروں سے باتیں کر رہا ہوتا ہے اور اینکر پرسن بھی کچھ فلرٹی سے انداز میں انکی معیت کا فائدہ اٹھا رہا ہوتا ہے۔ مجھے یہ خیال آتا ہے کہ اگر اسی طرح کوئ خاتون سولہ سنگھار کئے ناز و ادا سے باتیں کر رہی ہوں تو ہمارے ملک میں کتنی کھلبلی مچے۔
کیا ہمارا مجموعی طرز عمل کچھ ایبنارمل نہیں؟ یعنی جس مخلوق پہ سنگھاراور ادائیں سجتی ہیں اور اسے قدرتی حق حاصل ہے اس کے لئے تو فتوے جاری ہوتے رہیں اور کسی مرد  یا کسی ہیجڑے کے سولہ سنگھار اور ناز و ادا کو پسندیدگی کی سند حاصل ہو جائے۔
 اگر کوئ خاتون بغیر آستین کا بلاءوز اور ساڑھی پہن کر، پوری سج دھج کے ساتھ ، اٹھلا اٹھلا کر ٹی وی  اسکرین پہ کسی کو ڈارلنگ اور کسی کو چندا کہے تو بے حیائ اور یہی کام کوئ ہیجڑا یا مرد کرے تو تفریح۔ ایک ایسی ہی تفریح کی
ویڈیو حاضر ہے۔
خیر، یہ ہمارے معاشرے کی دو رخیت ہے۔  ہماری اس دو رخیت کا فائدہ ہمیشہ سے دوسرے اٹھاتے چلے آئے ہیں۔ اس سلسلے میں تازہ ترین مذاق امریکن سفارت خانے نے اس وقت کیا جب انہوں نے پاکستان کے ہم جنس پرست افراد کے لئے ایک پارٹی منعقد کی۔ کچھ لوگ یہ سمجھنے سے قاصرہیں کہ امریکن سفارت خانے  نے اس پارٹی کے انعقاد میں اتنی دلچسپی کیوں لی۔ امریکن سفیر نے اس موقع پہ خطاب کرے ہوئے ہم جنس پرست افراد کے حقوق کی حفاظت کے عزم کا اظہار کیا۔
میں اس پزل کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہوں تو بس ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے اور وہ یہ کہ امریکی سفارت خانے نے اس دفعہ پہلی بار یہ سوچا کہ کوئ کام تو ہمارے عوامی رجحان کے مطابق کرنا چاہئیے۔ سو انہوں نے امریکی انداز میں اس کا اہتمام کر ڈالا۔
ایک  ثبوت کے لئے یہ ویڈیو حاضر ہے۔
۔
اب آپ سے دو  سنجیدہ سے سوال ہیں۔ آپ چاہیں تو اسے غیر سنجیدگی سے لے لیں۔ کیا امریکن سفارت خانے نے ہمیشہ کی طرح پاکستانیوں کو سمجھنے میں غلطی کی؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس سے پاکستان  اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری آئے گی؟ 


Friday, July 22, 2011

بلندی سے

محبوب آپکے قدموں میں ہو تو دنیا قدموں کے نیچے لگتی ہے۔ لیکن اس میں کچھ قباحتیں ہیں۔ مثلاً ایک ایسے عامل کامل کی کھوج لگانا جو محبوب کو ان دیکھی بیڑیوں سے باندھ کر آپکے قدموں میں لے آئے۔ لیکن اس سے پہلے یہ کہ خدا نے آپکو اس جگر کے ساتھ پیدا کیا ہوا جس سے رائج الوقت طریقے سے ہٹ کر آپ کسی سیاستداں کے بجائے کسی انسان سے محبت کر سکیں۔
ایسا ہونا مشکل ہے کیونکہ آئینسٹائین کے نظریہ ء اضافیت کی طرح محبت کا بھی ایک نظریہ اضافیت ہے اور وہ یہ کہ اگر آپ کسی سیاستداں کو محبوب بنانے کے سنگین امتحان سے نکل آئیں تو اس بات کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں کہ آپ خود سیاستداں بن جائیں گے۔ محبت اور سیاست میں کیا تعلق ہے یہ جاننا کچھ مشکل نہیں مگر بتانا آسان نہیں۔
اچھا، میں اس پوسٹ میں نہ محبوب کو قدموں میں لانے کے لئے کوئ وظیفہ بتا رہی ہوں اور نہ سیاست میں جائز اور ناجائز کی حدیں مقرر کر رہی ہوں۔ کیونکہ ہر محبوب کی تسخیر کے لئے ایک علیحدہ وظیفہ چاہئیے ہوتا ہے اور سیاست میں جائز اور ناجائز کی حدیں تو بڑے بڑے مفتی مقرر نہ کر سکے۔ چہ پدی چہ پدی کا شوربہ۔
البتہ دنیا قدموں میں لانے کا ایک آسان طریقہ بتا سکتی ہوں۔ اسکے لئے آپکو کینیڈا کے شہر ٹورنٹو آنا پڑے گا۔ اور یہاں موجود سی این ٹاور کے ٹکٹ گھر سے صرف تیس ڈالر یعنی مبلغ ڈھائ ہزار پاکستانی روپوں کا ٹکٹ لینا ہوگا۔ اسکے بعد ٹاور کی بلندی پہ لے جانے والی لفٹ کے لئے ڈیڑھ سے دو گھنٹے قطار میں کھڑا ہونا پڑے گا۔
بس پھر دنیا آپکے قدموں میں ہوگی۔ کم از کم کچھ وقت کے لئے محسوس یہی ہوگا۔
:)
یہ کچھ مہنگا طریقہ ضرور ہے لیکن جان رکھیں کہ ہر آسان طریقہ مہنگا ضرور ہوتا ہے۔ شوق کا تو کوئ مول نہیں ہوتا۔ ہم بھی دو گھنٹے لائن میں کھڑے رہنے کے بعد اس ٹاور کی بلندی پہ پہنچنے کے قابل ہوئے۔ ٹاور اور بلڈنگ میں ایک معمولی سا فرق ہوتا ہے۔ ٹاور کثیر المنزلہ نہیں ہوتا۔ نہ اس میں آفس ہوتے ہیں نہ اپارٹمنٹس نہ شاپنگ مالز نہ کوئ اور کمرشل سرگرمی۔ تین سال پہلے دنیا کے بلند ترین ٹاور کے عہدے سے ہٹائے جانے والا ٹاور محض چھتیس سال پہلے وجود میں آیا۔
اسکی تعمیر میں تقریباً سوا تین سال لگے۔


اسے ہر سال لاکھوں لوگ اسی طرح قطار میں کھڑے ہو کر اور ٹکٹ لے کر دیکھتے ہیں۔ اس طرح نہ صرف کینیڈیئن حکومت کو اربوں کی آمدنی ہوتی ہے بلکہ یہ کینیڈا کی ایک پہچان بن گیا ہے۔
کینیڈا کی پہچان بن جانے والے اس ٹاور کو انیس سو پچانوے میں دی امریکن سوسائیٹی آف سول انجینیئرنگ نے جدید دنیا کے سات عجائبات میں شامل کیا۔
کینیڈا کی پہچان بن جانے والے اس ٹاور کی بلندی تقریباً ایک ہزار آٹھ سو پندرہ فیٹ یعنی تقریباً پانچ سو تریپن میٹر ہے۔ یہ ٹاور ریکٹر اسکیل پہ آٹھ اعشاریہ پانچ کے درجے کا زلزلہ برداشت کر سکتا ہے۔ یہ اپنی اصلیت میں ایک ریڈیو ، ٹی وی کمیونیکیشن پلیٹ فارم ٹاور ہے لیکن بنانے والوں نے اسے سیاحت کی نظر سے بھی دیکھا۔ سو، انیس سو چھیئتّرمیں اس پہ آنے والی تعمیری لاگت تریسٹھ ملین کینیڈیئن ڈالر تھی جو کہ اسکی تعمیر کی پندرہ سال کے اندر وصول ہو گئ۔


سیاح اسکی ایک سو سینتالیسویں منزل تک جا سکتے ہیں جو کہ اسکائ پوڈ کہلاتی ہے۔ اوپر جانے کے لئے چھ لفٹس موجود ہیں جن کی بیرونی سطح شیشے کی ہے یوں اوپر جاتے ہوئے باہر کے بدلتے مناظر نظر میں رہتے ہیں۔ لفٹ جب اوپر کی طرف سفر کرتی ہے تو بائیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چند سیکنڈز میں مشاہداتی منزل تک پہنچا دیتی ہے۔ اس دوران اکثر لوگوں کو کانوں سے حلق میں ہلکے ہلکے بلبلے پھٹتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں یا کان میں ہلکا سا دباءو آتا ہے۔ سب سے پہلے مشاہداتی منزل پہ لیجاتے ہیں۔ یہاں دوربینیں لگی ہوئ ہیں جن سے چیزیں زیادہ صاف دکھتی ہیں۔  اس مقام  سے ارد گرد کی بلند عمارتوں کی چھتیں نظر آتی ہیں۔ گاڑیاں کھلونا اور انسان روبوٹ لگتے ہیں

اس سے اوپر اسکائ پوڈ ہے۔ یہاں بھی دائرے میں شیشے کی دیوار بنی ہوئ ہے۔ یہ مشاہداتی سطح سے تینتیس منزلیں اوپر ہے۔ موسم صاف ہو تو ایک سو ساٹھ کلومیٹر تک کا علاقہ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس میں نیاگرا آبشار سے اٹھنے والا پانی کا دھواں بھی شامل ہے۔ یہاں کھڑے ہو کر زمین قدموں تلے تھرتھراتی ہوئ محسوس ہوتی ہے۔ اس تھرتھراہٹ میں ایک عجیب سا سرور ہے۔ یوں بلندی پہ پہنچنا آسان سہی لیکن بلندی پہ ٹہرے رہنا آسان نہیں۔
اسکائ پوڈ سے واپس ہوئے تو ایک لفٹ اس سطح پہ لے گئ جسے گلاس فلور کہتے ہیں۔  گلاس فلور زمین سے تین سو بیالیس فیٹ اونچا ہے۔ درحقیقت مجھے اس فرش کو دیکھنے کی خواہش تھی۔

گلاس فلور یعنی شیشے کے فرش سے نظر آنے والا پارک

شیشے کا فرش، اسکا تذکرہ حضرت سلیمان کے قصے میں بھی ملتا ہے۔ جب ملکہ صبا انکے دربار میں داخل ہوتی ہیں تو سمجھتی ہیں کہ فرش پہ پانی پھیلا ہوا ہے اور اپنے لباس کو اوپر اٹھا لیتی ہیں۔ اس وقت انہیں بتایا جاتا ہے کہ یہ فرش شیشے کا بنا ہوا ہے۔ جس سے وہ اس سلطنت کے رعب میں آجاتی ہیں۔ میں بھی اس ملکہ کی اس کیفیت سے گذرنا چاہتی تھی۔
ہزاروں سال پرانے اس قصے کو عملی طور پہ دیکھنے کی خواہش جاگی تو میں نے ایک چیز پہ توجہ نہیں کی اور وہ ٹاور کی بلندی تھی۔ شیشے کا یہ فرش دنیا میں بنائے جانے والے شیشے کے فرشوں میں اس لئے منفرد ہے کہ سب سے زیادہ بلندی پہ ہے۔ یہاں لوگ اس فرش پہ لیٹے ہوئے تصویریں بنا رہے تھے۔ بیٹھے ہوئے کھڑے ہوئے۔ انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس زاوئیے سے اسکی تصویر لیں۔  کچھ لوگ اس پہ پیر رکھنے سے بھی گریز کر رہے تھے۔ حالانکہ یہ فرش یہ مکمل شیشے کا فرش نہیں بلکہ اسٹیل کے فریم میںتقریباً چار ضرب تین فیٹ کے ری انفورسڈ شیشے ایک ترتیب میں لگے ہوئے ہیں جو  تقریباً چوبیس اسکوائر میٹر کا رقبہ بناتے ہیں۔ یہ فرش کئ ٹن وزن برداشت کر سکتا ہے۔
 اس فلور گلاس سے زمین کی سطح پہ واقع پارک کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ گلاس فلور کے کمرے سے باہر نکلیں تو دائرے میں دھاتی جالی لگی دیوار سامنے آتی ہے۔ اس سے نہ صرف باہر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے
بلکہ ہوا کی شدت سے بھی لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔
جالیوں کے باہر وہ جزیرہ جو ایئر پورٹ کے طور پہ استعمال ہوتا ہے

ٹاور کے نزدیک واقع وہ جزیرہ صاف نظر آتا ہے جہاں صرف ایک ائیر پورٹ قائم ہے۔ اس ائیر پورٹ پہ پہنچنے کے لئے
 کشتی سے آنا پڑتا ہے۔ یہاں سے جہاز ملک کی اندرونی پروازوں کے لئے آتے جاتے ہیں۔ ہم نے بھی چند جہازوں کو ٹیک آف کرتے اور لینڈ کرتے دیکھا۔ جزیرے کی لمبائ میں رن وے موجود ہے۔ جہاں پانی جزیرے کو چھوتا ہے وہاں سے رن وے شروع ہوتا ہے اور اگلے سرے پہ جہاں ساحل پانی سے ملتا ہے رن وے ختم ہو جاتا ہے۔ اردگرد بادبانی کشتیاں سمندر میں ڈولتی پھر رہی تھیں۔
ٹاور کی زمینی سطح کے ساتھ ہی ایک اسٹیڈیئم ہے جسے روجرز سینٹر کہتے ہیں۔ اس اسٹیڈیئم پہ حرکت کرنے والی چھت موجود ہے جو اسے ڈھک لیتی ہے۔ ہم اتنی دیر وہاں موجود رہے کہ ایک دفعہ کھلی چھت دیکھی اور دوسری دفعہ بند چھت۔
اس سینٹر کی خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں ٹورنٹو کے مسلمان عیدین کی نماز ادا کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے اسکا کرایہ ادا کیا جاتا ہے۔

اسٹیڈیئم    کی ادھ کھلی چھت

اسٹیڈئم کی بند چھت
واپسی پہ لفٹ ایک شاپنگ سینٹر میں لے جا کر چھوڑتی ہے۔ لیکن خیال رہے کہ یہ جیب لوٹنے کا ایک شریف بہانہ ہوتا ہے۔ یہاں چار ڈالر میں ملنے والی ٹی شرٹ سترہ ڈالر کی مل رہی تھی۔ اس شرٹ کی خاص بات یہ اس پہ موجود سی این ٹاور کے الفاظ تھے۔ سو اس جگہ اور اس لیبل کی قیمت تیرہ ڈالر میں ادا ہوتی ہے۔ باقی چیزوں کا بھی یہی حال ہے۔
کچھ لوگ زندگی میں آنے والے چیلینجز کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں۔ کچھ آنے والے چیلینجز کا سامنا پامردی سے کرتے ہیں اور کچھ لوگ ان چیلینجز کو خود تخلیق کرتے ہیں اور پھر دنیا کو حیران کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں نے اس ٹاور میں بھی چیلینج ڈھونڈھ لیا۔ یہ لوگ اسکائ پوڈ کی بیرونی سطح  کو فتح کرتے ہیں۔ دھیان رہے اس تھرل کے لئے علیحدہ سے ٹکٹ ہے اور اسکی اجازت ہر روز نہیں ہوتی۔
سی این ٹاور اور روجرز سینٹر رات کے وقت

۔
اس بلندی تک جانے کا کیا فائدہ؟
ایک تو گھنٹوں قطار میں کھڑے رہنے سے صبر کی اعلی صفت پیدا ہوتی ہے۔ یقین جانیں محض قطار میں کھڑے رہنے سے برداشت کی صفت پیدا کرنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔ گھنٹوں کھڑے رہنے اور تیس ڈالر خرچ کرنے کے بعد کچھ لوگ جب حیرانی سے پوچھتے ہیں کیا اسی واسطے چھانے تھے بیابان بہت اور آپ صم بکم کھڑے رہیں تو آپ کی قلندری زیادہ واضح ہو کر سامنے آتی ہے۔
فائدہ یہ بھی ہے کہ بلندی کا رعب دل سے ختم ہو جاتا ہےاور زمین اہم لگتی ہے۔ وہ زمین جو ٹھوکرکھا کر گرے ہوئے انسان کو ایک دفعہ پھر کھڑے ہونے کا حوصلہ دیتی ہے۔ یوں دنیا قدموں تلے پڑے رہنے کے بجائے سنگ سنگ چلتے ہوئے بھلی لگتی ہے۔ خیال آرہا ہے کہ قدموں تلے پڑی دنیا دیکھ کر جو عظیم خیالات پیدا ہوتے ہیں کیا وہی خیالات قدموں تلے پڑے محبوب کو دیکھ کر بھی ہوتے ہیں؟
اگر ہاں تو آپ اپنی ذات میں خود ایک سی این ٹاور ہیں۔ اسے دیکھنے کے لئے یہاں آنے کی کوئ ضرورت نہیں۔


Thursday, July 14, 2011

حسد

آجکل کینیڈا میں موسم گرما ہے۔ لیکن مجھے تو بہار کا موسم لگتا ہے۔ ہر جگہ  طرح طرح کے پھول ، قطار اندر قطار، سرخ، اودے، نیلے پیلے ہر طرح کے پیرہن میں۔ ایک دو نہیں، ایک پودے پہ درجنوں گلاب۔ سڑک کنارے بچھی گھاس میں بھی ننھے ننھے پھول مسکراتے جھانک رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں ہم یہاں بھی ہیں۔
گھروں کے آگے سجی ہریالی تو سمجھ میں آتی ہے کہ گھر والوں کاذوق اور محنت ہے لیکن عام  سڑکوں پہ یہ محنت کون کرتا ہے۔ معلوم ہوا کہ شہری حکومت کی طرف سے پھولوں کے گملے روزانہ کی بنیاد پہ سجانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایک ٹرک اپنے حصے کے گملے لے کر چلتا ہے اور انہیں انکے مقررہ مقام پہ رکھتا جاتا ہے یوں ایک عام پول پہ بھی پھولوں کے گچھے لہراتے نظر آتے ہیں۔ ہم پھولوں کے سوداگر ہیں اور سودا سچا کرتے ہیں۔
سوچ سکتے ہیں کہ امیر ملکوں کے پاس اتنے پیسے بچ جاتے ہیں کہ ان اللے تللوں پہ بھی خرچ کئیے جا سکیں۔ لیکن نیت کی بھی بات ہے۔ نیت صاف منزل آسان۔
شاید یہی وجہ ہے کہ کینیڈا کا شمار دنیا کے ان پانچ ممالک میں ہوتا ہے جہاں لوگ خوش باش اور خوش مزاج بھی ہیں۔ یہ سب خوشیاں، خوشحالی اور معاشرے میں وسائل کی منصفانہ تقسیم سے جڑی ہیں۔ ایک بھوکا ننگا، فکروں کا مارا، بم اور راکٹ لانچر کے سائے میں جینے والا شخص کیا خوش مزاج ہوگا اور خوش باش۔
اس معاشرے میں بھی لوگ کے درمیان دولت کا فرق موجود ہے۔ وہ لوگ جو کم کماتے ہیں انہیں حکومت کی طرف سے بے شمار رعائیتیں حاصل ہوتی ہیں۔ مثلاً بچوں کے لئے زیادہ وظیفہ۔ اس طرح انکی کم آمدنی کو پورا کیا جاتا ہے۔ جتنی آمدن زیادہ ہوتی ہے ٹیکس بھی اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ ایسا  نہیں ہوتا کہ آپ فارم ہاءوس میں محل بنا کر رہیں اور یہ کہہ کر ٹیکس نہ دیں کہ یہ تو فارم ہاءوس ہے۔ اور پاکستان کی طرح یہ بھی نہیں ہے کہ ٹیکس کا بوجھ صرف مڈل کلاس تنخواہ دار یا کاروباری طبقہ اٹھائے، قبیلوں کےسردار گلچھرے اڑائیں، غریب قسمت پہ شاکر ، معاشرے کے انصاف  اور بندوں کی کارکردگی سے مطمئن، اپنے گردے بیچے یا خودکشی کرے۔
بے روزگار افراد کو حکومت کی طرف سے وظیفہ ملتا ہے۔ بے گھر افراد کے لئے بھی شیلٹر ہاءوس موجود ہیں۔ اسکے باوجود لوگ بھیک مانگتے نظر آ سکتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے وظیفے کی رقم  کو نشے پانی پہ اڑا دیتے ہیں۔ بھیک مانگتے ہیں اور پھر کسی دن خودکشی کر لیتے ہیں۔ بھیک مانگنے والی قوموں کی داستان بھی اس سے مختلف نہیں ہوتی۔
خواتین اسکارف پہنے بھی نظر آتی ہیں اور منی اسکرٹ پہنے بھی۔ لیکن کینیڈیئنز کو تو چھوڑیں۔ وہ تو ہیں ہی بے حیا۔ ہمارے پاکستانی دیسی بھائ بھی یہ سب دیکھنے کے باوجود لب سیئے رہتے ہیں۔ یہ نہیں کہتے کہ ٹانگیں ڈھک لو دوپٹہ پہن لو۔ جس کا دل زیادہ جلتا ہے وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑا کر رہ جاتا ہے ۔ انہیں میں سے شاید کچھ لوگ انٹر نیٹ پہ جا کر پاکستانی خواتین کو اخلاقی پاسداریوں کا درس دیتے ہیں، اس بات پہ افسوس کرتے ہیں کہ پاکستان میں اب تک شریعت کا نفاذ کیوں نہیں ہوا اور پھر دوبارہ کسی شاپنگ مال میں جا کر مغرب کی بے حیائ کے چشم دید گواہ بنتے ہیں۔
کیا میں  وطن کو یاد کرتی ہوں۔
شاید نہیں، بس جب ٹی وی دیکھتی ہوں تو یاد آتا ہے۔ مثلا ان دس دنوں میں ایک بھی ایسا واقعہ نہیں سنا کہ کسی خاتون کے ساتھ اجتماعی زنا بالجبر کا واقعہ پیش آیا ہو۔ لیکن ابھی ایکدن پہلے ہی ٹی و ی سے خبر سنی کہ ویہاڑی ایک بارہ سالہ لڑکی کو اس سانحے سے گذرنا پڑا۔  مردوں کی کسی ٹولی نے کسی خاتون کو چوک پہ برہنہ نہیں کیا۔ لیکن یہ خبر بھی دس دن پہلے وطن سے ہی ملی۔ خیر، اسکی وجہ یہ شاید مغرب کی بے حیائ ہی ہوگی۔

 مجھے اپنے اندر بھی خاصی تبدیلیاں محسوس ہوتی ہیں۔ مثلاً میں اور میری بچی روزانہ قریبی پارک جا کر اسکول ٹائم کرتے ہیں۔ اس وقت پارک میں کوئ نہیں ہوتا۔ لیکن میں خاصی بے خوف رہتی ہوں۔  اسی بے خوفی کی وجہ سے میں نے آجکل اپنے سونے کے کچھ زیورات بھی پہنے ہوئے ہیں۔  مجھے اپنے ہینڈ بیگ میں موجود پیسوں کی بھی فکر نہیں ہوتی۔ خدا جانے میں آجکل اتنی بہادر کیوں ہو گئ ہوں۔
 سنگین نامعلوم حالات کے پیش آجانے کے اندیشے سے دل  ہر وقت عام رفتار سے زیادہ دھڑکتا رہتا تھا۔ وہ بھی خاصہ سنبھلا لگتا ہے۔ گھر کے لوگ دیر سے آتے ہیں تو یہ خیال تک نہیں آتا کہ ٹی وی کھول کر شہر کے حالات جان لیں۔ یہاں زیادہ تر پاکستانی کینیڈا یا ٹورنٹو کے حالات سے با خبر رہنے کے بجائے پاکستانی چینلز دیکھتے رہتے ہیں۔
اور پھر ہم سے پوچھتے ہیں پاکستان کب رہنے کے لائق جگہ بنےگا۔
ادھر ایک ساتھی نے کہا کہ پاکستان سے آنے والی خبروں  کوسن کر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا کہ اس پہ افسوس کیا جائے یا ہنسا جائے۔ ایک خبر ملی کہ لوگوں نے دو ڈاکوءوں کو پکڑ کر اتنی پٹائ لگائ کہ پولیس کو آ کر چھڑانا پڑا۔ لیجئیے ساری دنیا میں پولیس کو ڈاکوءووں سے لوگوں کو بچانا پڑتا ہے ہمارے یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ تازہ واقعہ ، کراچی میں کمشنری نظام بحال ہونے کی خوشی میں شاہی سید صاحب نے دعوت کا اہتمام کیا اور اس میں جناب ذوالفقار مرزا سے بہ اصرار تازہ کلام کی فرمائیش کی گئ۔ انہوں نے اپنے مفاہمتی بھائ کے اصرار پہ ایسا پر اسرار، سحر ناک الفاظ کا جادو پھونکا کہ  پندرہ انسانوں نے اپنی قربانی پیش کر دی۔ اب آپ بتائیے اس پہ ہنسا جائے یا رویا جائے۔ 
میں پاکستانی ذہن کے ساتھ جواب دیتی ہوں۔ آپ لوگ کینیڈا کی خبریں کیوں نہیں دیکھتے۔ جواب ملتا ہے۔ یہاں کی خبریں بھی کوئ خبریں ہوتی ہیں۔ نہ گولی، نہ دستی بم، نہ راکٹ لانچر نہ لاشیں نہ ان میں وہ تخلیقی جوہر موجود کہ  ان سب چیزوں سے بھی لطیفے بنا لیں۔
پھر بھی، یہ کوئ بات نہیں کہ اب اپنے جنمی ملک واپس جانے کا ارادہ نہیں پھر بھی وہاں کےمعاملات کی کرید میں رہیں  وہ بھی ایسی کہ اس سے ہماری اور بد تری سامنے آئے۔
یہ پاکستانی ، اپنی مرضی سے یہاں ہجرت کر چکے ہیں ۔ اس ہجرت پہ افسوس کرتے ہیں مگران میں سے شاید ہی کوئ پلٹ کر واپس آئے۔  ایئر پورٹ پہ ایک خاتون مجھ سے کہنے لگیں کہ عرصہ ء پانچ سال کے بعد تین ہفتے کے لئے پاکستان آئ تھی۔ خدا کا لاکھ شکر ادا کرتی ہوں کہ بر وقت پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
ہمم،   مجھے لگتا ہے کہ میں حاسدی بھی ہو گئ ہوں، اور کسی ایک شخص سے نہیں پورے ملک سے حسد میں مبتلا ہوں۔ کیا اسکی وجہ کینیڈا کے پولز پہ لہرانے والے پھولوں کے گچھے ہیں،   شاہی سید کی دعوت عام، ذوالفقار مرزا کا تازہ کلام یا ایئر پورٹ پہ ملنے والی خاتون ہیں۔ 

Monday, July 11, 2011

زمین اور زبان

جو ستارے ہم دیکھتے ہیں وہ لاکھوں برس پہلے ختم ہو چکے ہوتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں وہاں ایک تارہ دمک رہا ہے مگر حقیقتاً وہاں اس وقت شاید اسکی راکھ ہوتی ہے جو نئ کائیناتوں کی تشکیل میں حصہ لینے کو تیار ہوتی ہے۔  ہر عروج اپنے زوال سے دو چار ہوتا ہے ۔ مگر ایسی بھی اشیاء ہیں جو بغیر کسی عروج کو دیکھے زوال کی نظر ہو جاتے ہیں۔ پاکستان ان میں سے ایک ہے۔ کوئ دن جاتا ہے کہ ہم اس طرح کی خبریں سنیں گے۔
پاکستان میں عدالتی نظام ختم کر کے جرگہ نظام قائم کر دیا گیا۔ یہ زیادہ موئثر اور پاکستانیوں کے قومی مزاج سے زیادہ قریب ہے۔ اس میں ہر مسئلے کا حل خواتین کی لین دین یا انکی لباسی اور بے لباسی سے بآسانی  نکالا جا سکتا ہے۔ جیل وغیرہ کا خرچہ بچے گا۔ عدالتی کارروائیوں اور انتظام پہ جو خرچہ آتا ہے وہ الگ ختم ہو گا۔
پاکستان میں جدید تہذیب کے اسکولوں کو ختم کر کے مدرسوں کا نظام ترتیب دیا جا رہا ہے۔ اس سے زیادہ بہتر اور با اخلاق انسان وجود میں آئیں گے۔ جو معاشرے کی بنیادیں ہلانے سے پرہیز کریں گے۔ مدرسے برین واشنگ کی تیکنیک سے زیادہ بہتر طور پہ واقف ہیں۔
پاکستان میں جدید طبی سہولتوں سے آراستہ ہسپتالوں کو ختم کر کے ہزاروں سال پرانے حکمت خانے کھولنے کی اجازت دی جائے گی۔ انکی دواءووں کے اجزاء مقامی درختوں یا جانوروں سے حاصل کئے جائیں گے اور یوں مغرب کی دواءووں کی حکمرانی ختم ہوگی۔ کیا ہوا اگر شرح اموات بڑھ جائیں گی۔ مرنے والوں کی موت اسی طرح لکھی ہوگی۔ ان حکمت خانوں میں بنیادی طور پہ مردوں کی قوت بڑھانے پہ توجہ دی جائے گی۔ 
پاکستان میں جدید ٹرانسپورٹ کی سہولتیں ختم کی جارہی ہیں۔ سوائے صدر مملکت اور وزیر اعظم کے کسی کو باہر کا سفر کرنے کی ضرورت نہیں۔ بیرون ملک لوگوں سے میل جول پاکستانی معاشرے کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ اپنے گھر سے دس میل دور سفر کے لئے حکومت سے خصوصی اجازت نامہ لینا ہوگا۔ جس میں اس سفر کی وجوہات بیان کی جائیں گی۔ اگر وہ قابل قبول ہوئیں تو اجازت ملے گی۔ اس طرح سے پیٹرول وغیرہ کی بچت ہوگی اور ہم پیٹرول میں زیادہ خود کفیل ہونگے۔ جو ہمارے حکمرانوں کے کام آئے گا۔ تاکہ وہ مکمل ذہنی عیاشی کے ساتھ حکومت کر سکیں۔
پاکستان میں زراعت اور چند بنیادی صنعتوں کے بعد باقی سب کی چھٹی کی جارہی ہے۔ وہ بنیادی صنعتیں کون سی ہونگیں اسکا انحصار اس بات پہ ہوگا کہ ہمارے صدر، وزیر اعظم اور حکومت کے اہم اراکین کن کن صنعتوں کے مالک ہیں۔
یہ سارے خیالات پڑھنے میں کچھ عجیب و غریب لگیں گے۔ لیکن اگر آپ ایسے پاکستانی ہیں جو ابھی تازہ تازہ کسی ترقی یافتہ ملک میں وارد ہیں ۔ اور اپنی آمد کے بعد پاکستان سے جو خبریں وصول کرتا ہے اس میں شہر کراچی میں تین چار  دنوں کے اندر سو سے زائد افراد کی ایک گروہ سے دوسرے گروہ پہ دستی بموں اور راکٹ لانچر سے ہلاکت کی خبریں سنتا ہے۔ پھر سنتا ہے کہ کراچی میں کمشنری نطام بحال کر دیا گیا ہے۔ وہ کمشنری نظام جسے تخلیق کرنے والے ممالک نے اسے اپنے ملک سے نکال باہر کیا۔ وہ اسے انتظامی معاملات چلانے کے لئے مناسب نہیں سمجھتے۔ 
پھر سنتا ہے کہ حکومت کے وڈے بد معاشوں میں سے ایک بدمعاش یعنی ذوالفقار مرزا اس قتل و غارت گری کے منصوبے میں شامل رہے۔ یہ وہی صاحب ہیں جن پہ اس سے پہلے بھی شہر کے غنڈوں ، اسمگلرز اور مافیا کے دیگر عناصر سے اس شہر کے سکون کو تہہ و بالا کرنے کے الزامات لگتے رہے۔ اور صدر زرداری نے اس وقت تناءو کو کم کرنے کے لئے مرزا صاحب کو کچھ وقت کے لئے انڈر گراءونڈ ہونے کا مشورہ دے کر حالات کو اپنے قابو میں کیا۔ اور پھر دوبارہ اپنے شیطانی کارندے کو آزادی دے دی۔ 
 میں ایسا کیوں سوچتی ہوں ؟
اسکی وجہ شاید جینیٹک ہے۔ میرے والدین نے اس پاکستان کی زمین سے جنم نہیں لیا۔ میں  اس زمین سے صرف پیدائشی تعلق رکھتی ہوں۔  میں تعریف کے لحاظ سے وہ مہاجر ہوں، جسکی تہذیب میں لڑائ جحگڑوں میں اسلحے کا استعمال شرفاء کا دستور نہیں۔ میرے یہاں مردوں کے کئے کی سزا میں نہ عوتوں کو ونی کیا جاتا ہے نہ کاروکاری ہوتی ہے نہ ان کی شادی قرآن سے ہوتی ہے، نہ انہیں ذہنی لحاظ سے بنجر سمجھا جاتا ہے۔  
میری تہذیب میں جھگڑوں اور تنازعوں کے فیصلے جرگے میں نہیں ہوتے۔ میرے آباء کسی اور نسل سے نفرت میں اتنے نہیں بڑھے کے ان پہ راکٹ لانچر سے حملے کرتے ہوں اور انکے گھر جلا دیتے ہوں۔ یاد رہے کہ میں انیس سو چھیاسی میں اسی طرح کے واقعات دیکھ چکی ہوں جو آج دو ہزار گیارہ میں دوہرائے گئے۔
سو مجھے ان تمام چیزوں سے بے حد تکلیف ہوتی ہے۔ اور جب میں اپنی تکلیف کا اظہار کرتی ہوں تو دیگر لوگوں کو اس اظہار سے بڑی تکلیف ہوتی ہے۔
انکے اور میرے درمیان  ایک بڑا فرق ہے اور وہ یہ کہ میں اور وہ تہذیباً دو مختلف ثقافتوں کے نمائندے ہیں۔ وہ قبائلی نظام اور سوچ و فکر کے پروردہ ہیں اور میں  ترقی پسند سوچ کی پروردہ ۔
جب آپ یہ خبر سنتے ہیں کہ کراچی میں ایک گروہ نے دوسرے گروہ پہ دستی بموں اور راکٹ لانچر سے حملہ کر دیا۔ پھر سنتے ہیں کہ کراچی میں کمشنری نظام بحال کر دیا گیا، پھر سنتے ہیں کہ سندھ میں فنکشنل لیگ اور پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کی چھوڑی ہوئ وزارتوں پہ بندر بانٹ کر رہی ہیں۔ یہ دونوں پارٹیز بنیادی طور پہ سندھی لسانی گروہ کی نمائیندگی کرتے ہیں۔ پھر سنتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی نے مفاہمت کی سیاست پہ اتفاق کیا ہے یعنی کراچی میں پیپلز پارٹی خود تو جو کچھ کرے گی وہ کرے گی اے این پی کو بھی کھلی چھوٹ دے گی اس طرح  کراچی کی سب سے بڑی لسانی آبادی کا دماغ درست رکھا جائے۔ اے این پی، پشتون لسانی گروہ کی نمائیندگی کرتی ہے۔ پھر اسکے بعد لازماً ایم کیو ایم کے اندر موجود عناصر بھی انتقامی کارروائ کریں گے۔ یہ وہی ایم کیو ایم ہے جو کراچی میں لسانی عصبیتوں کی حکمرانی کی وجہ سے وجود میں آئ۔
تو اسکے بعد آپ کچھ بھی سوچیں، میں یہ سوچتی ہوں کہ پاکستان کے لئے سب سے مناسب نظام قبائلی نظام ہے۔ یہ یہاں کی اکثریت کا قومی مزاج ہے۔ اور جو لوگ اس نظام سے مطابقت میں مشکل محسوس کرتے ہیں انہیں پاکستان چھوڑ کر کسی اور ملک کی شہریت اختیار کرنی چاہئیے۔ لیکن اپنی بَک بَک سے باز رہنا چاہئیے۔ 
یا خدا، کیا میں ایسا کر سکتی ہوں؟ کیا میں اس زمین سے اتنی لا تعلق رہ سکتی ہوں جس میں میرا جنم ہوا؟ 

Friday, July 8, 2011

خدا ، انسان کا ہتھوڑا

پچھلے دنوں بلاگستان کی دنیا میں تصور خدا پہ گفتگو کچھ لوگوں کے دماغ پہ ہتھوڑا بن کر برس پڑی۔ حالانکہ ہم ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں کہ دل نہ کسی کا توڑو، دل کے اندر رب رہتا ہے۔  دل میں قیام پذیر خدا بڑی مختلف خصوصیات رکھتا ہے۔ یہ رہتا تو دل جیسے مشتبہ مقام پہ ہے ، جہاں ایک آسانی یہ ہے کہ جب ذرا گردن جھکائ دیکھ لیا وہاں یہ خدا انسانی تلون مزاجی سے بھی نبرد آزما رہتا ہے۔  یہ مصروف اور جفاکش خدا تخت دل سے کائینات پہ حکمرانی کرتا ہے اور یہ آسان حکمرانی نہیں ہے۔ 
  لیکن اکثریت کا خدا دماغ میں رہتا ہے۔ ان میں سے وہ الگ ہیں جن پہ عقل پرستوں کا الزام لگتا ہے وہ تصور خدا کی بنیادیں پرکھتے ہیں۔ جو خدا کے وجود کو ڈھونڈھ رہے ہیں ان پہ کوئ قانونی  یا اخلاقی حد جاری کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔ سو خدا نے بھی اس سلسلے میں کوئ قانون نہیں بنایا۔
لیکن دوسرا گروہ جس کا خدا اسکے دماغ میں رہتا ہے یہ وہ ہیں جو خدا پہ اپنے پختہ یقین کا دعوی کرتے ہیں۔ لیکن یہ وہ خدا ہے جسے استعمال کرنے کے دماغی جواز ڈھونڈھے جاتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو اپنی دماغی صلاحیتیں دوسروں کے ایمان کو پرکھنے میں لگاتے ہیں۔  سمجھتے ہیں کہ خدا نے انہیں اس عظیم ذمہ داری کے لئے چن لیا ہے۔ یوں کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا۔ اسکی جڑیں کافی دور تک پھیل جاتی ہیں۔ 
دماغ میں قید ہو جانے والا یہ خدا، اپنے اوپر ہونے والی گفتگو سے ڈر جاتا ہے۔ کیونکہ اس سے منسوب مفادات کی ڈور ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ لازماً یہ اسی وقت منصب خدا کے لئے نا اہل قرار پا جاتا ہے۔ اور اگرچہ، اظہار آزادی ء رائے اچھی بات لگتی ہے، لیکن کچھ لوگوں کے اوپر پابندی ہونی چاہئیے کہ وہ خدا کی محبت اور اسکی تبلیغ سے اجتناب کریں۔ یہ خدا کے مثبت وجود کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے۔
آہ، اس مرحلے پہ لگتا ہے کہ  آفاقی قوانین کو ترتیب دینا کتنا مشکل ہے۔ جن انسانوں نے ایسے قوانین ترتیب دئیے انہیں سلام۔ اب یہ ایک الگ ہوم ورک ہے کہ ان آفاقی قوانین  کی فہرست بنائیں جو انسانوں نے ترتیب دئیے۔
فہمیدہ ریاض، اردو کی معروف ادیبہ ہیں۔ ادب کی ترقی پسند صنف کی طرف ان کا جھکاءو ہے۔ انکی تخلیقات، شاعری، افسانوں اور مختلف مضامین کی صورت موجود ہیں۔  تصورخدا اور الہامی نظریات کا پس منظر لئے ہوئے انکی ایک تحریر نظر سے گذری۔ دنیا زاد کے شمارے بعنوان جل دھارا  میں شائع ہوئ۔ اس کہانی کا عنوان میرے ذہن سے اتر گیا۔ اور چونکہ اس وقت میں پاکستان میں موجود نہیں۔اس لئے اسکا عنوان نکالنا ممکن نہیں۔ دنیا زاد کے ایڈیٹر ہیں جناب آصف فرخی اور پبلشر ہیں شہر زاد۔
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکے چند اسکین شدہ صفحات میرے پاس موجود ہیں۔ ان قارئین سے معذرت جو اسکین شدہ صفحات سے گھبراتے ہیں۔ فہمیدہ ریاض کی یہ کہانی بعض ذہنوں پہ ہتھوڑا ثابت ہو سکتی ہے۔ ان سے بھی معذرت۔
بہتر طور پہ دیکھنے کے لئے تصویر پہ کلک کیجئِے۔






     

Tuesday, July 5, 2011

کھنڈالہ میں

میرا کمپیوٹر ہیک نہیں ہوا اور نہ ہی  میں نے بلاگنگ  ترک کی ہے۔ کیونکہ  میں نے توبہ ابھی نہیں کی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ گو ہاتھ میں جنبش نہیں، آنکھوں میں تو دم ہے رہنے دے ابھی ساغر و مینا میرے آگے۔
بات یہ ہوئ کہ اپنا ساغر ومینا یعنی لیپ ٹاپ اٹھائے اٹھائے ہم پاکستان کی سرحدوں سے باہر نکل آئے۔  پاکستان میں آجکل سفر کی دو سمتیں رائج الفیشن ہیں۔ ایک پاکستان کی شمالی سمت اور دوسری دنیا کی مغربی سمت۔  
اب چونکہ میں پاکستان کے شمال میں نہیں تو آپ اس سے بآسانی یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ میں اس وقت  دنیا کے مغرب میں ہوں۔ وہی مغرب جو ہماری بد دعاءووں، لعنتوں اور نفرتوں کے باوجود کسی اللہ لوکی ، کسی مجذوب کی طرح اپنی دھن میں مگن چلا جا رہا ہے۔ حالانکہ شاعر نے اس پہ بھی کچھ فرمایا ہوا ہے کہ اپنی دھن میں رہتا ہوں ، میں بھی تیرے جیسا ہوں۔ لیکن اس شعر سے صرف یہ پتہ چل پاتا ہے سب اپنی اپنی دھن میں ہیں۔ 
اس طرح نکل آنے کی بنیادی وجہ ایک پیغام کا وصول پانا اور اس پہ ہمارا تبادلہ ء خیال تھا۔ جو کم و بیش اس گانے کی طرح تھا۔


تو جناب، اس وقت ہم  کینیڈا میں ہیں۔ اور کینیڈیئن ہائ کمشنر کو لکھے گئے اپنے خط کے مطابق یہاں کے معاشرے  کی جڑیں کھنگال  رہے ہیں۔ جن سے خوشحالی اور امن کی کونپلیں جنم لیتی ہیں۔ مجھے اپنے ملک میں اسکی قلمیں لگانی ہیں۔