Monday, August 31, 2009

ایک سڑک اور بہت سے خواب


یہ سن دو ہزار ایک کا اکتوبر تھا۔ جب میں نے پہلی دفعہ بلوچستان کا رخ کیا۔ ہمیں بذریعہ سڑک گوادر جانا تھا۔ گوادر کراچی سے ساڑھے چھ سو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ مشرف کو حکومت سنبھالے دو سال ہو رہے تھے۔ اور انکی حکومت کے بہترین فیصلوں میں سے ایک کراچی سے گوادر کوسٹل ہائ وے کی تعمیر شروع ہو چکی تھی۔یہ سڑک مختلف مقامات پر بن رہی تھی اور اس وقت تک زیادہ تر راستہ کچا تھا۔ ہمیں ایک رینج روور گاڑی میسر تھی۔ اور ان راستوں پر جیسا کہ بعد میں ثابت ہوا فور وہیل ڈرائیو کے بغیر چلنا ناممکن تھا۔ اسکے باوجود ہمیں کراچی سے گوادر پہنچنے میں تقریباً ڈھائ دن لگے۔ اس سفر کی روداد روزنامہ جنگ میں قسط وار شائع ہو چکی ہے۔ جن لوگوں کو اسے پڑھنے سے دلچسپی ہو وہ دئیے ہوئے لنک پر جا سکتے ہیں۔  اس وقت میرا مقصد اس کی تفصیلات بیان کرنا نہیں ہے۔
 یہ سڑک تقریباً ساحل کے ساتھ ہے۔  راستے میں مختلف آبادیاں ملیں۔ گوادر جو کہ مکران ضلع کا سب سے بڑا شہر ہے اسوقت ایک قصباتی شہر سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ اسکی آبادی چالیس ہزار کے قریب تھی۔ شہر کے مرکز سے بس ایک سڑک گذر رہی تھی ۔ بیشتر گھر پتھروں سے بنے ہوئے تھے۔ جس ہوٹل میں ہم جا کر ٹہرے یہ چار کمروں کا ایک ریسٹ ہاءوس تھا۔ پانچ سال بعد یہی ہوٹل متوقع ترقیاتی منصوبوں کے باعث دس کمروں تک بڑھا دیا گیا۔ اسکے علاوہ پی سی والوں نے بھی اپنا ایک ہوٹل بنا لیا تھا۔ ہوٹل والوں کے بقول روڈ بن رہی، زمین کے دام چڑھے ہوئے ہیں اور لوگ آرہے ہیں۔ گوادر ایک نئے، روشن مستقبل کی طرف دیکھ رہا تھا۔
اسکے بعد سے اب تک میں لا تعداد بار وہاں جا چکی ہوں۔ پہلے ہوٹل میں رکنا پڑتا تھا۔ پھر ایک عزیز نے ایک چھوٹا سا گھر بھی وہاں بنا لیا۔ جہاں سمندر اتنے نزدیک کہ جب وہ مد پر ہوتا تو اسکی لہریں چہار دیواری سے ٹکراتیں۔اس گھر کو بنانے میں جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا انکی ایک الگ داستان ہے۔ اسکی بنیادی وجہ وہاں کاریگروں، راج، مستری مزدور کا نہ ہونا تھا۔ وہاں کی بیشتر آبادی ماہی گیری کے پیشے سے منسلک ہے اور جو کچھ لوگ ہیں انہیں صرف مقامی پرانے انداز سے کام کرنا آتاہے۔ سب بلڈنگ مٹیریئل کراچی سے گیا۔ حتی کہ بڑھئ کو ایک دفعہ دروازوں کے ناپ کے لئے لیجایا گیا اور دوسری دفعہ انکو لگوانے کے لئیے۔ یہ ایک بہت سادہ سا گھر ہے لیکن اتنے سادہ گھر کو بنانے کے لئے بھی انہیں خاصی مشقت سے گذرنا پڑا۔
اس دوران یہاں پر بے پناہ ترقیاتی منصوبوں پر کام ہوا۔ عام لوگوں نے اتنا کام ہوتے دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے کاروبار نکال لئے۔ حتی کہ آج گوادر میں ایک سپر مارکٹ بھی موجود ہے۔ پچھلے سال جب مجھے جہاز کے ذریعے ایک دفعہ پھر گوادر جانے کا اتفاق ہوا تو اوپر سے یہ دیکھکر دنگ رہ گئ کہ کالی سڑکوں کی لائینیں کتنی دور تک نظر آرہی تھیں۔ گوادر  اور اسکے اطراف میں اب سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے۔
کوسٹل ہائ وے ایک بہت خوبصورت سڑک ہے جو سیاحوں کے لئے کشش کا باعث بن سکتی تھی۔ پیسے نے جب گوادر کا رخ کیا تو اب یہاں بھی ایسے گھر نظر آتے ہیں۔ جو کراچی میں  پوش علاقوں میں نظر آتے ہیں۔ اب سے دو سال پہلے مقامی لوگ اتنے مالدار ہو رہے تھے کہ انکے پاس قیمتی گاڑیاں اور ہاتھوں میں سیٹیلائٹ فون ہوا کرتے تھے۔ مقامی لوگ تو فائدہ اٹھا ہی رہے تھے مگر باہر سے بھی لوگ آکر نئے کاروبار متعارف کروا رہے تھے۔ یہ وہ گوادر اور یہ وہ ضلع مکران نہیں تھا جسے میں نے سن دو ہزار ایک میں دیکھا۔ عام لوگوں کا معیار زندگی بلند ہو رہا تھا کہ ایکدم سب چیزوں کو بیک گئیر لگ گیا۔ مشرف کو ہٹانے کی تگ و دو شروع ہو گئ۔ اور بالآخر ان سے نجات پانے کے جشن منا لئے گئے۔
اب ہر چیز جیسے رک گئ ہے۔ ہر جگہ ایک غیر یقینی صورتحال ہے۔ اس صورتحال کو پیدا کرنے والے اپنے لوگوں کے ساتھ مخلص نہیں۔ صرف ایک کوسٹل ہائ وے جو کہ ایک آمر کے دور میں بنی جسنے اس علاقے کی سوچ کو تبدیل کردیا۔ اسے انکے سرداروں نے کبھی بنانے میں دلچسپی نہ لی۔ انہیں وسائل چاہئیں مگر اپنی فلاح اور اپنی ذاتی ترقی کے لئے۔ ان سرداروں کے بچے ملک سے باہر بہترین یونیورسٹیوں میں تعلیم پاتے ہیں۔ مگر گوادر جیسے شہر میں یہ ایک ہسپتال، ایک بہتر تعلیمی ادارہ، کوئ وو کیشنل انسٹیٹیوٹ نہیں بنوا سکتے تھے۔
میں اخباروں میں خان آف قلات کے بیانات پڑھتی ہوں اور بگتی جیسے ظالم شخص کو شہید قرار دینے کے بیانات پڑھتی ہوں۔ کل ٹی وی پر ایک صاحب کو سن رہی تھی کہ کتنے جوش اور جذبے سے ان ظالموں کے مارنے کی تحقیقات کروانا چاہ رہے تھے۔ کوئ کمیشن ایسا کیوں نہیں بنانے کو کہتے جو ان سرداروں کے خلاف تحقیقات کرے جو لاکھوں لوگوں کو جانوروں جیسی زندگی گذارنے پر مجبور کرتے ہیں اور اپنے تھرل کے لئے ایک قوم کو نیست و نابود کر دیتے ہیں۔  بگتی جو کہا جاتا ہے کہ آکسفورڈ سے پڑھا ہوا تھا کتنے اسکول انہوں نے قائم کروائے اپنے علاقے میں۔ ظلم کی جو داستانیں اسکے نام سے زبان زد عام تھیں۔ شاید ہی کسی اور کے نام پر اتنی ہوں۔
دے رہے ہیں جو تمہیں اپنی رفاقت کا فریب
انکی تاریخ پڑھو گے تو دہل جاءوگے
میں سوچتی ہوں کہ جب یہ نام نہاد آزادی کے رہنما بلوچستان کو آزاد کروا لیں گے تو انکے بچے تب بھی ملک کے باہر پڑھیں گے۔ یہ علاج کے لئے تب بھی بلوچستان  سےباہر جایا کریں گے۔ لیکن اس وقت یہ کیا بہانہ بنایا کریں گے؟ 
یہاں پر مزدور سے لیکر انجینیئر باہر سے آیا کریں گے۔ کیونکہ فی الحال تو انکے علاقے میں نہ کوئ اچھا تعلیمی ادارہ ہے نہ ہسپتال۔ نہ کسی اور شعبے میں مہارت رکھنے والے لوگوں کی کوئ قابل ذکر تعداد۔ یہ حکومتی انتظامی معامالات کو اپنے ہاتھ میں رکھیں گے اور حکومتی عہدوں کو اپنے درمیان بانٹ لیں گے۔ یہ کس چیز کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ عہدوں کی جنگ۔
اگر انہیں اپنے لوگ عزیز ہوتے تو یہ سڑک مشرف کے دور میں نہیں اس سے بہت پہلے بن چکی ہوتی۔ نواز شریف نے موٹر وے نہیں یہ سڑک بنوائ ہوتی۔ اس وقت تو بگتی زندہ تھا اور شریف جیسے محب وطن لوگ حکمران تھے۔
لیکن یہ توفیق مشرف کو ملی۔ اور اب انکے جانے کے بعد یہ سڑک پھر ویران ہے۔  اسپر چلنے والے ٹرالر اور ٹرکس  ابھی رواں بھی نہ ہوئے تھے کہ رک گئے۔ نجانے وہ پہئیے کب چلیں گے جو ترقی کے خوابوں کو ہر آنکھ میں بانٹیں گے اور انکی تعبیریں ہر گھر میں نظر آئیں گی۔ یا یہاں کے لوگ پھر اپنے دشمنوں کو اپنا مہربان سمجھتے ہوئےانکے ہاتھوں کو چومتے رہیں گے۔ کیا بلوچ عوام اب بھی نہیں سمجھیں گے کہ آزادی کے جو جھوٹے خواب یہ انہیں دکھا رہے ہیں یہ  دراصل انکے تا ابد قائم رہنے والی آقائیت کے خواب ہیں۔  یاایسا ہے کہ
جو ہاتھ کھیلتے ہیں ان سے توڑتے ہیں انہیں
کچھ ان سے ہوتے ہیں مانوس تو کھلونے بھی



ریفرنس؛

شائع شدہ سفر نامہ
 یہ انکے دئیے ہوئے لنک کے ساتھ کچھ مسئلہ ہے۔ بہر حال اسکی پہلی قسط ۲۲ اکتوبر ۲۰۰۸ کو شائع ہوئ۔ اور یہ شاید نو قسطوں پر مشتمل ہے۔ آپ اسے دئیے ہوئے لنک پر جا کر تلاش کرسکتے ہیں۔

Saturday, August 29, 2009

یوم فوٹو گرافی

قصہ گوادر میں ایک صبح مچھلی پکڑنے کا، بزبان تصویر۔
وقت؛ دسمبر، ۲۰۰۸ 
ہم جائے وقوع پر پہنچے تو سورج نکل رہا تھا۔
 
ناشتہ کیا گیا۔

 دادا جی اور انکی پوتی نے تصویریں بنوائیں۔
  اب ذرا فشنگ راڈ سیٹ کر لی جائے
  مدد چاہئیے جناب۔
ہمیں تو یہاں مزہ آرہا ہے۔
 
 یہ جگہ بڑی اچھی ہے۔ دور تک نظر آرہا ہے۔
۔
کیا بوریت ہے
ارے یہ تو مچھلی پکڑی گئ۔
 

Thursday, August 27, 2009

یوم ٹیگ

آپ کا نام یا نک؟ اگر اصل نام شیئر کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔

میرا نام عنیقہ ناز ہے۔ بعض لوگ الجھن کا شکار لگتے ہیں کہ یہ شاید انیقہ ہے۔ اس لفظ کے دو منبع ہیں۔ ایک فارسی اور دوسرا عربی۔ انیقہ فارسی کا لفظ ہے۔ اگرچہ اسے فارسی ذریعے سے لیا گیا لیکن میرے ابا نے اسے عربی کے طریقے یعنی ع سے لکھنا پسند کیا۔ مجھے انکی پسند ، پسند ہے۔ اپنے اماں اور اباکی جانب سے دئیے گئے اس نام کو میں نے شادی کے بعد بھی تبدیل نہیں کیا جیسا کہ آجکل رواج ہے۔

آپ کے بلاگ کا ربط اور بلاگ کا نام یا عنوان؟ بلاگ کا عنوان رکھنے کی کوئی وجہ تسمیہ ہو تو وہ بھی

شیئر کر سکتے ہیں۔

میرے بلاگ کا نام ہے شوخی ء تحریر۔ اسکی کوئ وجہ ءتسمیہ نہیں۔ بلاگ بناتے ہوئے جس وقت یہ کالم سامنے آیا غالب کا ایک شعر ذہن میں آیا۔ جس سے یہ نام نکالااور لکھ دیا۔

آپ کا بلاگ کب شروع ہوا؟

یہ مئ ، دو ہزار نو میں شروع کیا۔

آپ اپنے گھر سے کون سے ایک ، دو یا زائد لوگوں کو بلاگنگ کا مشورہ دیں گے یا دے چکے ہیں؟ ربط پلیز

نہیں کسی کو مشورہ نہیں دیا۔

سب اتنے مصروف رہتے ہیں کہ میرے اس مشورے پر میری پٹائ لگ سکتی ہے، لفظوں سے۔

کوئی ایک ، تین یا پانچ یا زائد ایسے موضوعات جن پر لکھنے کی خواہش ہے مگر ابھی تک نہیں لکھ سکے یا آئندہ لکھنا چاہیں ؟

ابھی تو لکھتے ہوئے کچھ ہی عرصہ ہوا ہے۔ موضوعات بہت ہیں۔ تیسری دنیا میں رہنے کا فائدہ یہ ہے کہ کبھی موضوعات کی کمی نہیں ہو سکتی۔

آپ کا بلاگ اب تک کس کی بدولت فعال یا زندہ ہے ؟ آپ خود یا کوئی دوسرا نام ؟ (مؤخرالذکر کی صورت میں نام بھی لکھ دیں۔ اگر ربط دیا جا سکتا ہے تو ربط بھی)

میرا خیال ہے کہ ابھی تک اسکے فعال ہونے کی وجہ میری مستقل مزاجی ہے۔یقینی طور پر اسکی دوسری وجہ وہ تبصرہ نگار ہیں جو اپنا دل کی بورڈ کے ذریعے نکال کر رکھ دیتے ہیں۔ پھر ان لفظوں کو جوڑ کر دوبارہ دل بنانا یہ کسی جگسا پزل سے کم نہیں۔ مجھے مزہ آتا ہے۔

اپنے موبائل سے کم از کم کوئی ایک ، تین یا پانچ اچھے ایس ایم ایس شیئر کریں

مجھے موبائل فون ایک آنکھ نہیں بھاتا ہے۔ اور یہ لکھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ میں فیس بک پر ایک گروپ بنا سکتی ہوں۔ آئ ہیٹ موبائل فون۔ ارد گرد پچاس لوگ بیٹھے ہوں مگر آپ کسی ایسے شخص سے مشین کے ذریعے بات کرنے میں مصروف رہتے ہیں جو خدا جانے کس کرہ ء ارض پہ ہوتا ہے۔

آپ کی اردو زبان سے دلچسپی کس نام کے سبب سے ہے ؟ (استاد ؟ گھر کا کوئی فرد؟ یا کوئی دوسرا نام؟ یا کوئی الگ وجہ ؟)

میری مادری زبان اردو ہے۔ میرے والدین میں سے ایک کا تعلق لکھنوء سے ہے۔ اب بھی اس میں دلچسپی نہ لوں تو مرحوم نانا بڑے لتے لیں گے۔

کیا آپ اردو بلاگ دنیا روزانہ وزٹ کرتے ہیں اور مختلف بلاگز کسی ترتیب سے وزٹ کرتے ہیں یا جو بھی بلاگ سامنے آ جائے؟

اپنا بلاگنگ روٹ شیئر کریں ۔

میں اردو سیارہ پہ تقریباً روزانہ آتی ہوں۔ کوئ خاص ترتیب نہیں۔ کسی کا موضوع دلچسپ لگے تو ضرور پڑھتی ہوں ۔ چاہے اس سے میرا نظریاتی اختلاف جتنا بھی ہو۔ تقریباً ہر نئے پرانے بلاگر کو پڑھ لیتی ہوں۔ سوائے اسکے کہ اسکا بلاگ کھلنے میں بہت وقت لگ رہا ہو۔ وقت کی کمی ہے جناب۔ جیسے شاہدہ اکرم اور راشد کامران کا بلاگ میرے پاس بڑی مشکل سے کھلتا ہے۔ ڈفر بھی خاصہ ٹائم لیتے ہیں۔ خود اردو سیارہ پانچ دفعہ کلک کرنے سے پہلے نہیں کھلتا۔

آپ کے بلاگ پر پہلے پانچ یا دس تبصرہ نگار کون سے تھے؟

مشکل سوال ہے، محض یادداشت پہ بتا دیتی ہوں کہ اسوقت خاصی کاہلی ہو رہی ہے جاکر دیکھنے میں۔ یہ ہیں اجمل صاحب، جعفر، ڈفر، عبداللہ، جویریہ طارق، م م مغل، ابو شامل، نومان۔ اور بھی ہیں کرم فرما ابھی یاد نہیں آرہا۔

ہفتہ بلاگستان یا اردو بلاگ دنیا سے مختلف تحریروں پر ہونے والے تبصروں میں سے چند دلچسپ یا مفید تبصرے شیئر کیجیے۔ ربط دینا نہ بھولیں ۔

چھٹی کرنی پڑے گی ایکدن کی اسے نکالنے میں۔ لیکن کچھ لوگ جو تبصرہ کرتے وقت بھی چھان پھٹک سے کام لیتے ہیں ان میں جاوید گوندل، عبداللہ، ابو شامل اور نومان شامل ہیں کچھ لوگ جو فوراً اپنی تحریروں سے متعلق چیزوں پر رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ ان میں جعفر اور ڈفر ہیں۔ شاید باقی لوگ بھی کریں لیکن میں نے انکی تحریروں پہ کچھ لکھا نہیں اسلئے نہیں کیا ہوگا۔

ہفتہ بلاگستان یا اردو بلاگ دنیا سے مخلتف تحریروں سے منتخب جملے جو آپ کو پسند آئے ہوں یا جنہیں آپ تعمیری اور مفید سمجھیں۔ (اگر تعداد معین کرنا چاہیں تو تین ، پانچ ، دس یا جتنے مرضی)

اسکے لئے بھی ایک اور چھٹی چاہئیے ہوگی۔ سب گھر والے میرا بائیکاٹ کر دیں گے۔ ابھی بالکل ماضی قریب میں ایک جملہ پڑھا تھا۔ پلے نہیں ہے دھیلہ، کردی پھرے ایں میلہ میلہ۔

اور ہاں ایک شعر جو میں نے اپنے پاس لکھ بھی لیا تھا۔

یہی کہا تھا کہ برسوں کا پیاسا ہوں فراز

اس نے میرے منہ میں پائپ ڈالکر موٹر چلا دیا

اب نہیں معلوم کہ یہ کتنے تعمیری یا مفید ہیں۔ میں انہیں پڑھکر کافی دیر ہنستی رہی۔ ویسے اس سوال کے جواب میں ایک طویل پوسٹ لکھی جا سکتی ہے۔ اور بھی لکھنے والے بہت اچھے ہیں۔ ان سب کی باتوں کو نظر انداز کرنا مجھے اچھا نہیں لگ رہا۔ لیکن فی الحال کوئ ایسا طریقہ نہیں بن رہا کہ دریا کو کوزے میں بند کر دوں۔ ایک ترکیب جسے میں نے کافی سارے لوگوں کو بتایا بھی 'جسم کے خفیہ حصے'۔ جعفر کے کئ جملوں پہ میں پوری پوسٹ لکھ چکی ہوں۔ ڈفر کے بھی کچھ جملے بڑے پسند آئے۔ اجمل صاحب، راشد کامران، خرم بھٹی انکے بھی کچھ جملے ذہن میں آرہے ہیں۔ وارث صاحب نے جو مثویاں غالب کی نکالیں۔ زبر دست ہیں۔ وارث صاحب اور محمد احمد کی غزلیں بہت اچھی۔ لیکن وہ اشعار صحیح سے یاد نہیں آرہے۔ کہاں تک سنوگے کہاں تک سنائیں۔

ہفتہ بلاگستان کے بعد اب ہم “یوم بلاگستان” منایا کریں گے آپ کے خیال میں “یوم بلاگستان” ہر ہفتہ میں ایک دن منایا جائے یا ہر ماہ میں ایک دن منایا جائے؟

بڑا مشکل سوال ہے یہ بھی۔ ہفتہ ء بلاگستان میں بڑا خیال رکھنا پڑا کہ کچھ نہ کچھ لکھ ضرور دیں ورنہ باقی بلاگرز کہیں گے کہ پتہ نہیں کیا سمجھتی ہیں خود کو، ہونہہ مغرور کہیں کی۔ پس یہ ثابت کرنے کے لئے کہ یہیں کی ہوں۔ اسکے لئے بھی وقت نکالا۔ یوم بلاگستان، میرا خیال ہے ہفتہ ء بلاگستان ہی بہتر رہے گا۔ اور وہ بھی ہر سال یوم آزادی کے موقع پر۔

مختلف بلاگرز کو کوئی شعر یا جملہ انہیں ٹائٹل کے طور پر منسوب کریں۔

یہ کچھ اشعار ہیں۔ ان میں سے پہچان پر ہے ناز تو پہچان جائیے۔ آپ نکال لیں۔ میں لکھ رہی ہوں۔

خط لکھیں گے گر چہ مطلب کچھ نہ ہو

ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے


مشہور ہیں سکندر و جم کی نشانیاں

اے داغ چھوڑ جائیں گے ہم یادگار دل


طوفاں ہے تو کیا غم مجھے آواز تو دیجئیے

کیا بھول گئے آپ میرے کچے گھڑے وہ


ہمیں ہی جراءت اظہار کا سلیقہ ہے

صدا کا قحط پڑے گا تو ہم ہی بولیں گے


بوجھی ہیں اس نے کیسے نظر کی پہیلیاں

وہ شخص تو بلا کا نظر نا شناس تھا


ہر نظر بس اپنی انپی روشنی تک جا سکی

ہر کسی نے اپنے اپنے ظرف تک پیایا مجھے


ہم کیا جانیں یار سلیم نفرت کیسی ہوتی ہے

ہم بستی کے رہنے والے شہر میں آئے پہلی بار


فضا میں پھیل چلی میری بات کی خوشبو

ابھی تو میں نے ہواءووں سے کچھ کہا بھی نہیں


میں خود ہی جلوہ ریز ہوں خود ہی نگاہ شوق

شفاف پانیوں پہ جھکی ڈال کی طرح


اس راہ سے گذر جاتے ہیں طوفان کی مانند

رکتے ہیں جہاں گردش دوراں کے قدم بھی


دلنوازی کے فن جاننا چاہئیے

حسن چاہے بہت خوبصورت نہ ہو


یہی انداز ہے میرا سمندر فتح کرنے کا

میری کاغذ کی کشتی میں کئ جگنو بھی ہوتے ہیں


دئیے بجھاتی رہی، دل بجھا سکے تو بجھائے

ہوا کے سامنے یہ امتحاں رکھناہے


اب اس سے کیا کیجئیے شکو ہائے کم نگہی

بہت دنوں میں تو اس نے ادھر نظر کی ہے



زمانہ دیکھا ہے ہم نے ہماری قدر کرو

ہم اپنی آنکھوں میں دنیا بسائے بیٹھے ہیں


بولے تو سہی جھوٹ ہی بولے وہ بلا سے

ظالم کا لب و لہجہ دلآویز بہت ہے


اگرچہ کام مشکل ہے مگر یہ کام کرنا ہے

کسی آغاز پہ لا کر اسے انجام کرنا ہے


امیدحور نے سب کچھ سکھا رکھا ہے واعظ کو

یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادے بھولے بھالے ہیں


ہم دعا لکھتے رہے وہ دغا پڑھتے رہے

ایک نکتے نے ہمیں محرم سے مجرم کر دیا


ہفتہ بلاگستان اور بلاگ دنیا میں شامل کوئی بھی اپنی پسند کی تصاویر شیئر کریں جو بلاگرز کی اپنی فوٹو گرافی ہو؟ ربط ضرور دیجیے ۔

انتظار کرنا پڑیگا۔ یہاں وہاں پڑی ہیں۔

کن بلاگرز کو آپ کے خیال میں باقاعدگی سے لکھنا چاہیے ؟

ہر ایک کو باقاعدگی سے لکھنا چاہئیے۔ یہ بھی ایک تاریخ ہے جو آپ رقم کر رہے ہیں۔ آپ جہاں رہتے ہیں جیسا لکھنا آتا ہے جو محسوس کرتے ہیں لکھیں۔ اس بات کا میں آپ کو یقین دلادوں کہ میں آپکو ضرور پڑھتی ہوں۔

بلاگ دنیا میں آپ اپنا کردار کس انداز میں ادا کرنا چاہتے ہیں یا کر رہے ہیں؟

جو میں محسوس کرتی ہوں وہ میں لکھتی ہوں۔ میں اپنے انداز تحریر کو رواں کرنے کے لئے نہیں لکھتی۔ اسکے بارے میں مجھے خاصی خوش فہمیاں ہیں۔ میں کمیونیکیشن کے لئے لکھتی ہوں۔ ہر ایکس وائ زیڈ کیا سوچتا ہے، زبان کو کسطرح لکھتا ہے۔ ایک چیز جسے میں ایک نظر سے دیکھتی ہوں اسے دوسرے کس نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ لوگ عمومی طور پر زندگی کی مختلف سطحوں کو کس طرح برتتے ہیں۔ یہ میری دلچسپی کے میدان ہیں۔ فی الحال تو میں یہاں فیضیاب ہونے والوں میں سے ہوں۔گنتی کے لکھنے والے چند لوگوں میں کوئ کیا کردار ادا کر سکتا ہے۔ جبکہ ان گنتی کے لوگوں نے بھی اپنے بلاکس بنائے ہوئے ہیں۔

ہفتہ بلاگستان کے بارے میں آپ کے تاثرات

اچھا رہا۔

Tuesday, August 25, 2009

کون سی تعلیم


اب وقت ملا کہ کچھ تعلیم پر بھی لکھا جائے۔ سب نے اپنے طالب علمی کے زمانے کو یاد کیا۔ فی الحال میں ان خوش نصیبوں میں سے ہوں جنہیں اب سے تین سال پہلے تک بہت مختصر عرصے کے لئے تدریس سے بھی وابستہ رہنے کا موقعہ ملا وہ بھی پاکستان کی سب سے بڑی جامعہ اور ایک اور پبلک یونیورسٹی میں۔ تو میرے پاس پڑھانے کا بھی تجربہ ہے اور اپنے طالب علموں سے آگاہ ہونے کا ایک ذریعہ بھی۔
اس سے پہلے یہ بتادوں کہ طالب علمی کے زمانے میں اسکولوں کی عمارت سے قطع نظر اور ہمارے ٹوٹے پھوٹے نظام کے باوجود کچھ انتہائ اچھے استاد ملے خاص طور پر اسکول کی سطح پر اور پھر یونیورسٹی میں کہ انکی بدولت دماغ کی گرہیں کھل گئیں۔ میری اردو کی اچھائ ساری کی ساری چھٹی سے میٹرک تک ملنے والی اردو کی ٹیچرز پہ جاتی ہے۔ اسلامیات کے استاد نے گیارہ سال کی عمر میں قرآن ہاتھ میں لیکر مختلف آیتوں اورانکے حوالے اور انکے پس منظر دیکھنے کی عادت ڈالی۔ اور سائنس کے ٹیچر نے جستجو کے جذبے کو ہوا دی۔ جبکہ مطالعہ ء پاکستان کی استاد نے تاریخ سے دلچسپی پیدا کرائ۔ کچھ معاشی اور معاشرتی مسائل کی بناء پر کوچنگ سینٹر اور ٹیوشن پڑھنے کی لعنت سے محفوظ رہے اور اس طرح خود سے تلاش کرنے اور کورس کی کتابوں کے علاوہ کتابں پڑھنے کو ملیں۔ اس نے یقین پیدا کیا اپنے آپ پر۔ جہاں استاد اچھے ملے وہاں قدرت نے بھی کچھ خوبیوں سے نوازا تھا ، جنکو میرے اسکول ٹیچرز نے خاصہ ابھارا۔ یہ میری پی ایچ ڈی کے دوران کا قصہ ہے جب میں نے انسانوں کے مکروہ چہرے زیادہ دیکھے۔ لیکن خیر اندھیرا دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ اسکے بغیر روشنی کا احساس صحیح سے نہیں ہوتا۔ اسکا ایک فائدہ یہ ہوا کہ لوگوں سے اور ارد گرد کے ماحول سے توقعات رکھنا چھوڑ دیں۔ جو کچھ ہے وہی ہے۔ اور جو خود کر سکتے ہیں وہی ہوگا۔
بہ حیثیت استاد میرے تجربات بہت دلچسپ رہے۔ کیونکہ شومی ء قسمت مجھے پی ایچ ڈی کرنے کا موقع مل گیا تھا اور وہ بھی ملک کے بہترین ادارے سے تو اب لوگ اس چیز سے خائف ہوتے تھے خاص طور پر وہ لوگ جو اپنی اہلیتوں کو جانتے تھے اور علم سے مقابلے کرنے کی بجائے اپنے بےکار انسانی خواص کا مظاہرہ کرنے لگے۔ نجانے کیوں ہمارے معاشرے میں ذہنی مریض اتنے زیادہ کیوں ہیں۔
اپنے سیکشن کے چودہ ٹیچرز میں سے صرف چار کے متعلق میں کہہ سکتی ہوں کہ وہ انسانوں کی طرح سوچ سکتے تھے جبکہ تین کے متعلق مجھے یقین تھا کہ وہ شیزوفرینیا کے مریض ہیں وہ بھی مکمل طور پر اور ان تین میں سے دو کے ساتھ مجھے تین سمسٹر گذارنے پڑے۔ کوئ اور جونیئر ٹیچر انکے ساتھ جانے کو تیار نہ تھا اور میں کسی بھی سیاسی پارٹی کے ساتھ شامل نہ ہونا چاہتی تھی جو سپورٹ دے۔ خیر یہ ایک الگ دلچسپ کہانی ہے۔
سلیبس کی تیاری کے وقت ہمارے سینیئر ٹیچر جو دس پندرہ سالوں سے ٹیچنگ سے وابستہ تھے۔

جس قسم کی تجاویز دیتے تھے۔ انکو سن کر عقل حیران ہوتی تھی۔ مثلاً فرسٹ ایئر آنرز کا سلیبس
ان میں سے کوئ تیار کر کے لایا۔ اسکا معیار اتنا کم تھا کہ مجھے میٹنگ میں کہنا پڑا کہ اس سے بہتر سلیبس توانٹر میں کالج کی سطح پر پڑھایا جاتا ہے۔ انکی بات سنیں۔ کیونکہ کالجز میں کچھ نہیں پڑھایا جاتا اس لئےکورس کو آسان رکھنا چاہئیے۔ تاکہ آنیوالے اسٹوڈنٹس کو پریشانی نہ ہو۔

میں اور میری ایک اور جونئیر ساتھی نے کہا کہ یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے کہ اسٹوڈنٹس کو کالج میں کسطرح پڑھایا جا رہا ہے۔ ہمیں یونیورسٹی کو دیکھنا چاہئیے۔ یونیورسٹی کی سطح پر کورسز کو دیگر بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے معیار کا ہونا چاہئیے ۔ اسٹوڈنٹس کے اوپر دباءو پڑنا چاہئیے کہ وہ پڑھیں۔ یونیورسٹیاں اسٹوڈنٹس کو آسانیاں دینے کے لئے نہیں ہوتی ہیں۔ بلکہ ان میں محنت کی عادت کو ترقی دیکر انہیں کندن بناتی ہیں۔خیر اس بات پر کافی گرم بحث ہوئ۔ کیونکہ سلیبس کو جدیدکرنے کا مطلب یہ تھا کہ انہیں اپنے پرانے نوٹس صحیح کرنے پڑیں اور خود بھی کچھ نئے سرے سے پڑھنا پڑے۔ جبکہ یہ بھی ہماری یونیورسٹیز کا خاصہ ہے کہ استاد کو لآئبریری جانے سے مبرا سمجھ لیا جاتا ہے۔ وہ تو استاد ہیں انہیں سب آتا ہے۔ فی زمانہ استادکی یہ تعریف بھی بدل چکی ہے۔استاد کو بھی علم کی دوڑ میں شامل رہنا پڑتا ہے ہر لمحے، ہر لحظہ۔
کوچنگ سینٹرز اور ٹیوشنز سے فیضیاب ہونے کی وجہ سے اسٹوڈنٹس خود سے کچھ نہیں کرنا چاہتے۔ میں نے دیکھا کہ ہر اسٹوڈنٹ صرف لیکچر تک محدود رہنا چاہتا ہے۔ ریفرنس کی کتابوں کو کھولنے والے اور لیکچر کے مواد پر مشتمل پرابلمز کو حل کرنے میں دلچسپی لینے والے ایک سو بیس کی کلاس میں سے چار پانچ سے زیادہ نہ تھے۔ کسی بھی مضمون کو پڑھکر اسے اپلائ کرنے کی صلاحیت نہ پیدا ہو تو اسکا پڑھنا نہ پڑھنا برابر ہے خاص طور پر سائنس نظریات کو یاد کرنے کا نام نہیں۔ لیکن اب اسٹوڈنٹس اتنے سہل پسند ہو گئے ہیں کہ اگر انہیں کلاس میں مثال کے لئے دو جمع دو چار سکھایا ہے اور امتحان میں تین جمع تین دے دیا جائے تو یہ سوال آءوٹ آف کورس قرار دیا جاتا ہے۔
اسٹوڈنٹس کا دماغ دیگر سرگرمیوں میں اتنا مصروف رہتا ہے کہ بلیک بورڈ سے صحیح مساوات اتارنے میں دشواری ہوتی ہے۔ خود میں نے تو یہ طریقہ بھی رکھا کہ پریکٹیکل کلاسز میں جہاں میرا اندازہ کہتا تھا کہ اس مساوات میں ذرا پیچیدگی ہے اور ان آرام پسندوں میں سے چند ایک کے علاوہ کوئ صحیح اتارنے کے قابل نہ ہو گا۔ اسکے لئے میں چاکلیٹ کا تحفہ بھی رکھتی تھی۔ جی، یہ ہیں ہمارے یونیورسٹی لیول کے طالب علم۔
لڑکے یونیورسٹی میں آکر سیاست کو رعب جمانے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ نوکری تو بعد میں اماں ابا سفارش سے دلا ہی دیں گے یا پھر اس نظام کو برا بھلا کہہ کر کہہ دیں گے کہ یہاں رکھا کیا ہے۔انہیں تو یہاں سے کاغذ کا ایک ٹکڑا لیکر نکلنا ہے۔ نظام بھی چونکہ آسان طلب لوگوں پر مشتمل ہے اس لئے ایک سو بیس کی کلاس میں جہاں میں سمجھتی ہوں کہ صرف بیس اسٹوڈنٹس بھی بمشکل کامیاب ہونگے۔ وہاں ساٹھ ستر لوگوں کو اضافی نمبر دیکر پاس کرنا پڑتا ہے، ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ کی ہدایت پر۔
ادھر اساتذہ میں ذاتیات کو اہمیت دینے کا یہ عالم کہ ہمارے سینئیر ٹیچر ہم سے نمبروں کی شیٹ منگاتے ہیں اور جس اسٹوڈنٹ کو ہم نے سب سے زیادہ نمبر دئے ہوتے تھے اسکو کہیں ساتویں آٹھویں نمبر پر پہنچا دیتے میرے چھ اسٹوڈنٹس کے ساتھ انہوں نے ایسا کیا۔ محض ان اسٹوڈنٹس سے اپنی ذاتی پرخاش نکالنے کے لئے۔ اور مجھے میری حیثیت جتانے کے لئے جبکہ میں ان نمبروں کو ڈسپلے بورڈ پر لگا بھی چکی تھی۔ ایسا کرتے ہوئے انہیں ذرا بھی احساس ندامت نہ ہوتا کہ وہ بہ ہر حال مجھ سے اور ان بچوں سے بڑے ہیں۔ اور اس طرح وہ کس قسم کی مثال قائم کر رہے ہیں۔
تو جناب نطام کی خرابی میں ہر ایک کا حصہ ہے۔ اور جب تک معاشرے کی سوچ تبدیل نہ ہو فرد واحد کے لئے کچھ کرنا ممکن نہیں۔
میرے ایک بلاگر ساتھی نے اس بات پر مجھے ایچ ای سی کی ڈائریکٹرشپ عنایت فرمائ ہے کہ میں یہ کہتی ہوں کہ یونیورسٹی کی تعلیم ایک عیاشی ہے اور یہ صرف ان لوگوں کے لئے ہوتی ہے جو اسکا رجحان رکھتے ہیں۔ انکا خیال ہے کہ اس طرح طبقاتی فرق پیدا کیا جائےگا۔ جناب تمام ترقی یافتہ ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے وہاں ہمارے یہاں سے زیادہ طبقاتی فرق نہیں ہے۔ حتی کہ بعض ممالک میں اسکول کی سطح پر ان اسٹوڈنٹس کو مارک کر لیا جاتا ہے جو یونیورسٹی تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
ہماری پبلک یونیورسٹیاں عوام کے پیسے سے اور انکے دئیے گئے ٹیکس سے چلتی ہیں۔ یہاں سے ایسے لوگوں کو سامنے آنا چاہئیے جو ملکی سطح پر اپنی ذات سے کچھ فائدہ پہنچا سکیں۔ نہ کہ یہ سیاست کا گڑھ بن جائیں۔ ویسے بھی یونورسٹیاں بنیادی طور پر تحقیقی ادارے ہوتی ہیں اور کسی قوم کے مستقبل کی ترجیحات کے لئے کام کرتی ہیں۔ اگر وہاں تحقیق نہیں ہو رہی ہے تو ان اداروں کو یونیورسٹی نہیں کہنا چاہئیے۔ اس لئیے ہماری یونیورسٹیاں دنیا میں کسی رینک میں شامل نہیں ہیں۔ ذہین مگر غریب اسٹوڈنٹس کے لئے وظائف کا اجراء ہوتا ہے۔ تاکہ انہیں یہ شکایت نہ ہو کہ انکے ساتھ پیسوں کی وجہ سے امتیاز کیا گیا ہے۔
وہ لوگ جو یونورسٹی تعلیم حاصل کرنے کا رجحان نہیں رکھتے۔ انکو اپنے رجحان کو دیکھتے ہوئے تعلیم حاصل کرنی چاہئیے۔ لوگوں میں روزگار کے حصول میں آسانیاں پیدا کرنے کے لئے ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ کا جال بچھانا چاہئیے۔ تاکہ وہ بھی کسی قسم کے احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔
مکینک، ٹیکنیشنز، شیف، پلمبر ، درزی اور اسطرح کے دیگر پیشے، یہ بھی علم کی ہی شاخیں ہیں۔

ان علوم کے لئے بھی ادارے ہونے چاہئیں۔ان میں مہارت حاصل کر کے اس علم کے ذریعے بھی پیسہ کمایا جا سکتا ہے۔
محض یونیورسٹی کی تعلیم کو تعلیم سمجھنا بھی بہت بڑی لا علمی یا بچپنا ہے۔ قدرت نے مختلف لوگوں کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ جس شخص کو حساب کی تھیورمز سمجھنے سے دلچسپی نہیں یا وہ انٹرنیشنل افئیرز نہیں جاننا چاہتا۔ وہ ایک ناکارہ انسان تو نہیں۔ انکی دیگر صلاحیتوں کی قدر کر کے ہی انہیں کارآمد شہری بنایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی قسم کی تعلیم کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے۔ زیادہ شعور اور زیادہ دیکھنے کی صلاحیت، اس میڈیم یا راستے سے جو آپکو دلچسپ لگتا ہو۔ یہ آپکی ذہانت اور خوش قسمتی ہے کہ آپ اسے اپنے ذریعہ ء روزگار میں تبدیل کر لیں۔

ریفرنس؛

میرے ایک بلاگر ساتھی


Sunday, August 23, 2009

کچھ پکائیں

میرے ایک سینیئر کولیگ کا خیال تھا کہ کچھ لوگ اپنے دانتوں سے اپنی قبر کھودتے ہیں۔ پڑھنے میں تو یہ خاصہ مشکل کام لگتا ہے لیکن دانت سے قبر کھودنے میں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی۔ جو الابلا سامنے آئے کھا لیں۔ خاص طور پر وہ اشیاء جو رنگین ہوں یا وہ جن میں خوب مرچ مصالحہ پڑا ہو۔ لیکن پھر بھی کچھ لوگ لا علمی میں مارے جاتے ہیں۔ تو یہ چند ایک بصیحتیں انکے لئے ہیں۔ باقی جنہوں نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ کچھ کھا کر ہی مرنا ہے تو وہ اپنی پرانی ستمگر مشقیں جاری رکھیں۔
بظاہر رنگین کھانے بڑے اشتہا انگیز لگتے ہیں۔ بریانی میں پیلے چاول، پیلا یا رنگ برنگا زردہ، رنگ برنگی آئسکریم اور اس طرح کی لا تعداد چیزیں جن کو مزید اشتہا انگیز بنانے کے لئیے ان میں خوشبوئیں مثلاً کیوڑہ کا ایسنس یا دیگر ایسنسن بھی ڈالے جاتے ہیں۔
یہ تمام رنگ اور خوشبوئیں مصنوعی طریقوں سے تیار کئے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں زیادہ تر فوڈ کلر کے بجائے کپڑے رنگنے والے رنگ استعمال کئے جاتے ہیں۔ یہ کینسر پیدا کرنے کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہیں۔ حتی کہ فوڈ کلرز اور ایسنس بھی انسانی صحت کے لئے بالکل محفوظ نہیں۔ ان سب سے آپکے جسم کینسر پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ بریانی اور زردہ پیلے رنگ کے بغیر بھی اچھے بنتے ہیں اور بہت دل چاہے تو زعفران استعمال کر لیں۔ بازار میں تیار کیچپ میں سرخ رنگ ملا ہوتا ہے۔ ہری چٹنی میں ہرا رنگ، ریسٹورنٹ میں تیار ہرے چکن میں ہرا رنگ۔ تو اس قماش کی تمام چیزِیں آپ خود عمومی ذہانت استعمال کرتے ہوئے نکال لیں۔ اور اپنی زندگی سے بھی نکال دیں۔ یا انکی مقدار بہت کم کر دیں۔
آج میں آپکو بغیر کسی لاگ لپٹ کے اصلی بڑے کے پائے بنانے کی ترکیب بتا رہی ہوں۔جسکو بنانا آتے ہیں وہ وقت ضائع نہ کرے۔ جنہیں پسند نہیں وہ اسکے فوائد ضرور جان لیں۔

درکار اشِاء؛

بڑے کے پائے دو عدد۔ جتنے بڑے جانور کے ہوں زیادہ مزے کے بنتے ہیں۔ اگر بھینس کے نہ ملیں تو بڑی گائے کے اور دیکھ کر موٹے اور بڑے لیں۔ قصائ سے صاف کروا لیں۔ جان چھٹے گی اور وقت بچے گا۔
ایک پریشر ککر میں اچھی طرح دھو کر ڈال دیں۔ دو چائے کے چمچ ہلدی اور دو چائے کے چمچ نمک بھی ڈالدیں۔ اب اس میں تین گنا پانی پائے کے مقابلے میں وہ بھی جمع کر دیں۔ اور اپنے ککر کی کارکردگی کو سامنے رکھتے ہوئے گوشت کے مقابلے میں دگنے وقت کے لئے چولہے پر رکھدیں۔ یہ گوشت جس سے مقابلہ کیا جا رہا ہے۔ نہاری کا یا بونگ کا گوشت ہے۔۔ بیچ میں شبہ ہو کہ پانی کم نہ ہو رہا ہو تو اسےبند کر کے چیک کر لیں۔ پائے اتنے گل جانے چاہئیں کہ نہ صرف گوشت، ہڈی سے بآسانی علیحدہ ہو جائے بلکہ شوربے میں چپچپاہٹ اچھی طرح محسوس ہو جب آپ اسے اپنی دو انگلیوں کے درمیان دبا کر کھولیں۔ یاد رہے اچھی طرح گلے ہوئے پائے کامیاب ڈش کی طرف ضروری قدم ہے۔
گل جانے کے بعد شوربے کو چھلنی سے الگ کر لیں۔ گودے والی نلیوں میں سے گودا نکال کر ان نلیوں کو پھینک دیں۔ باقی جو زیادہ بڑی ہڈیاں ہیں ان پر سے بھی گوشت صاف کرکے ، ان ہڈیوں کو بھی ڈسٹ بن میں ڈال دیں۔
تین پاءو پیاز باریک لمبی کاٹ کر تل لیں اور اسے براءون ہونے سے پہلے نکال لیں۔ براءون ہوجانے کی صورت میں شوربے میں کڑواہٹ سی آجاتی ہے اس لئے جیسیے ہی براءون ہونا شروع ہو اتار لیجیئیے۔ایک بڑی گٹھی لہسن کی لے لیں، ڈیڑھ انچ ادرک۔ پیاز لہسن اور ادرک کو ایکساتھ پیس لیں۔ اب اس میں دو کھانے کے چمچ پسا دھنیا، دو کھانے کے چمچ پسی مرچ اور آدھ چائے کا چمچ ہلدی ڈالدیں۔
ایک پتیلی میں آدھ کپ تیل لے لیں اور جب یہ ہلکا سا گرم ہو جائے تو اس میں تیز پتہ کڑ کڑا لیں۔ پسے ہوئے مصالحوں کا پیسٹ اس میں ڈالدیں احتیاط سے۔ اور ہلکی آنچ پہ اسے بھون لیں حتی کہ یہ تیل چھوڑ دے۔ ہلکی آنچ پہ بھوننے سے مصالحے بہترین مزہ دیتے ہیں۔ اب اس میں صاف کیا ہوا پایوں کا گوشت ڈالکر کچھ دیر بھونیں اور پھر جو شوربہ الگ کر کے رکھا تھا اسے بھی شامل کر دیں۔ اگر زیادہ گاڑھا لگے تو پانی کو ابال کر حسب ضرورت ڈالدیں۔ اور تیز آنچ پہ پکنے دیں۔
جب خوب کھد بد کرنے لگے تو آنچ بالکل ہلکی کردیں یعنی دم والی۔ اب اسمیں ایک کھانے کا چمچ پسا گرم مصالحہ ڈالدیں ۔ تین چار ہری مرچ کاٹ کر ڈالدیں۔ نمک دیکھ لیں کم ہو تو اور ڈال لیں۔ اگر دن میں پکا کر رات میں کھانے کا ارادہ ہوتو۔ نمک کم رکھیں۔ پائے رکھے رہنے پر نمک چھوڑتے ہیں رات کو گرم کرتے وقت نمک پھر دیکھ لیجئے گا۔ اور دھیمی آنچ ہپر کم ازکم آدھ گھنٹہ پڑا رہنے دیں۔چولہا بند کر کے مزید پندرہ بیس منٹ پڑا رہنے دیں۔ ڈش میں نکال کر ہرے دھنئیے سے سجا لیں۔ ایک الگ پلیٹ میں کٹا ہوا ہرا دھنیا، ہری مرچ اور لیموں کے ساتھ پیش کریں۔ نان کے ساتھ کھائیں۔ پائے ختم ہوجائیں اور شوربہ پھر بھی باقی ہو تو اس میںابلے ہوئے سفید چھولے شامل کرلیں۔ اور کچھ دیر دم پر ہلکی آنچ پہ رکھدیں۔ یہ ڈش گریبی میں تیار ہو جائے گی۔
زیادہ بولنے والے مردوں کے لئے اکسیر ہے۔ زبان تالو سے اور ہاتھ پلیٹ سے چپک جاتے ہیں۔

ریفرنس؛
فوڈ کلرز





Saturday, August 22, 2009

کم بخت شہرت

میں گاڑی میں بیٹھی ڈرائیور کے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ کم بخت سموسے خرید رہا ہے کہ بیچنے لگا۔ اچانک ایک دبلا پتلا لڑکا عینک پہنے ہوئے اچھے خاصے حلئیے میں میرے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔ باجی، اس نے مسکین بھرے لہجے میں آواز نکالی۔ اسے دیکھ کر مجھے اور غصہ آیا۔ ایسے حلئیے میں بھی بھیک مانگ رہے ہیں۔ ان معاملات میں، میں خاصی روائیتی ہوں۔ میں نے منہ پھیر لیا ، باجی وہ دوسری طرف آگیا۔ مجھے آپ سے کچھ نہیں چاہئیے۔ بس تھوڑی سی۔ کیا تھوڑی سی۔ میں نے دانت پیسے۔ ایک دفعہ پھر اس ڈرائیور کو کمبخت کہا۔ بس باجی تھوڑی سی۔ ارے کیا تھوڑی سی، تھوڑی سی ہیروئین دیدوں۔ نہیں ہے میرے پاس۔ میں نے منہ بائیں طرف پھیر لیا پھر کچھ خیال آیا۔ میں ہیروئین نہیں بیچتی، ایک لحظہ اور سوچا اور مزید کہا اور خریدتی بھی نہیں۔ بھاگو یہاں سے۔ باجی ہیروئین نہیں چاہئیے۔ بس تھوڑی سی مشہوری چاہئیے۔ہائیں ۔ میں نے اسے ابھی حیرانی میں صحیح سے گھورا بھی نہ تھا کہ اتنی دیر میں ڈرائیور سموسے بیچ اور خرید کرواپس آگیا۔ گاڑی چل پڑی، میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ اس نے اپنا منحنی ہاتھ ہلایا۔ مجھے یقین ہو گیا اگر اسی استقامت سے وہ یہ کرتا رہے اور دو تین گھنٹے روزانہ اس میں لگا دے تو کوئ شک نہیں کہ آئندہ دو تین مہینوں میں وہ مشہور نہ ہوجائے۔
آخر شہرت کیا ہے؟ ایسے لوگوں کا آپکو جاننا جنہیں آپ بالکل نہیں جانتے اور جن کا آپ کو خیال بھی نہیں آتا۔ لیکن پھر بھی لوگ اسکی خواہش کرتے ہیں۔ کچھ لوگ پیدائشی مشہور ہوتے ہیں جیسے بلاول بھٹو زرداری اور شہزادہ چارلس، کچھ کو شہرت بڑی محنت اور منصوبہ بندی کے بعد ملتی ہے جیسے زرداری صاحب، کچھ لوگوں کے اوپر شہرت ٹھونس دی جاتی ہے جیسے آپکا نواز شریف۔ اتنے پپو لگتے ہیں، انکو دیکھکر خیال آتا تھا کہ خدا گنجے کو اگر ناخن دیتا ہے تو اسے ایک مشرف بھی عنایت فرما دیتا ہے۔ مگر اباجی کے مرحوم ہو جانے کی وجہ سے اب پھر صرف ناخن رہ گئے ہیں۔ اچھا خیر، معذرت، آپ لوگوں کو اندازہ تو ہے کہ میں کتنی جلدی پھسل جاتی ہوں۔ ہمارے غالب ٹھونسی ہوئ شہرت کے بہت خلاف تھے۔
انکی موت کسی اور کے لئے باعث شہرت نہ بن جائے تو احتیاطاً انہوں نے اپنے انتقال پر ملال کے بعد کے لئے ایک وصیت بھی کر دی تھی،
اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعد قتل
میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے
ویسے تو ہمارے یہاں ہر طرح کے شوقینوں کی کچھ کمی نہیں تھی۔ لیکن یہ شہرت کا انفیکشن شاید ٹیکنالوجی کے پھیلاءو کی وجہ سے ایکدم پھیل گیا ہے۔ یہاں شوقین ہر طریقہ آزما رہے ہیں۔۔کوئ گا بجا کر، کوئ تعلیم حاصل کر کے، کوئ کاروبار میں، کوئ افئیر چلاکر، کوئ ظلم کے نئے باب رقم کر کے، کوئ مظلومیت کے اعلی درجوں پہ پہنچ کر، کوئ حسین نظر آکر ، کوئ ذہین ثابت کر وا کے، کوئ بہت مذہبی بن کر اور کوئ بالکل آزاد ہوکر۔ اور ہاں کوئ لکھ کر، کمپیوٹر پر، اخباروں میں، دیواروں پر، لکھیں گے گر چہ مطلب کچھ نہ، ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے ۔۔
شہرت کی خواہش رکھنا جوان ہونے کی علامت ہے۔ ابھی میں نوجوانوں کے ایک فورم سے گذری ہوںجن کی عمرین پندرہ سولہ سال کے لگ بھگ ہونگیں ۔ سب کے اندر ایک قدر مشترک تھی۔ سب مشہور ہونا چاہتے ہیں۔ یہ شاید فیشن میں ہے آجکل اور نوجوانوں سے زیادہ کس کو فیشن کی فکر رہتی ہے۔ ابھی ایک نوجوان شکوہ کر رہے تھے۔ میری کوئ گرل فرینڈ نہیں۔ میرے سارے جاننے والوں کی ایک نہیں کئ ہیں یہ آجکل فیشن میں ہے۔ سب میرا مذاق اڑاتے ہیں۔ میں شدید قسم کے احساس کمتری کا شکار ہوں کیا کروں۔ اب اگر ایسے فیشن آرہے ہیں تو میرے جیسی نیک اولادیں کیا مشورہ دے سکتی ہیں جو یہ سمجھتی ہیں کہ پائنچے چھوٹے بڑے ہونا اور قمیضیں اونچی نیچی ہونا ہی فیشن ہے۔ہماری ایک انگریزی بلاگر بھی حیران ہیں کہ یہ اتنے سارے لوگ کیوں مشہور ہونا چاہتے ہیں۔ اب نفسیات داں اسکی کچھ اوٹ پٹانگ وجوہات بتاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ بھی مشہور ہونا چاہتے ہیں۔ آپ پریشان نہ ہوں، ابھی اسکی کوئ ٹھوس وجہ نہیں نکالی جا سکی۔ کیونکہ وہ ابھی کسی ایک بات پر متفق نہیں ہیں۔ ادھر حیاتیاتداں ڈی این اے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔لیکن ابھی تک وہ بھی شہرت کی جین دریافت کرنے سے قاصر ہیں۔اس لئیے شہرت کے خواہشمند وں کو ہٹ اینڈ ٹرائ پر ہی کام چلانا پڑیگا۔
شہرت حاصل کرنا ہی کچھ کم جان جوکھم کا کام نہیں اسے برقرار رکھنے کے لئے بھی ہر وقت جلتے توے پر کھڑا رہنا پڑتا ہے۔ بالخصوص وہ جنہوں نے شہرت توے پر کھڑے رہ کر حاصل کی ہو۔ ایسے ہی کسی دل جلے نے کہا، شہرت شہد کی مکھی کی طرح ہے، یہ ایک گیت گاتی ہے ایک سہانا گیت، اسکے ڈنک بھی ہوتا ہے۔ لیکن سب سے افسوسناک امر یہ ہے کہ اسکے پر بھی ہوتے ہیں۔ اگر آپ مشہور ہونا چاہتے ہیں تو ایسے دل جلوں کی باتوں پر بالکل دھیان نہ دین۔ تندیء باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب، یہ تو چلتی ہیں تجھے اونچا اڑانے کے لئے۔ جیسے جیسے شہرت بڑھتی ہےدل میں ہزار وسوسے بھی جنم لینے لگتے ہیں۔ جہاں بیری ہو وہاں پتھر تو آتے ہی ہیں جان لیں کہ شہرت اور دولت آنی جانی اشیاء ہیں۔ ہمیشہ قائم رہنے والی چیز حماقت ہے۔ اگر آپ نے شہرت اپنی کسی حماقت کی وجہ سے حاصل کی ہے تو قیاس ہے کہ یہ لوٹ گھوم کر آپکے پاس آتی رہے گی۔
اب جب تک لوگ اس تحریر میں سے کچھ غیر اسلامی نکات کو دریافت کرتے ہیں۔ میں بازار جا کر ایک کتاب تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ اسکا نام ہے مشہور ہونے کے ایک سو ایک طریقے۔ ہمارے ایک  ساتھی کو مشہور ہونے کا بڑا شوق ہے اور مجھے کچھ سوشل ورک کرنے کا۔ اگر  انہیں حسب خواہش شہرت نہ ملی تو ہو سکتا ہے کوئ اور طریقہ کارگر ہو جائے۔ ویسے بھی ہیں لوگ جہاں میں وہی اچھے آتے ہیں جو کام دوسروں کے۔

ریفرنس؛

ہماری ایک انگریزی بلاگر




Friday, August 21, 2009

پل دو پل کے شاعر

یہ ایک انیس بیس سالہ پل دو پل کی گمنام شاعرہ ہے جہاں اساتذہ کو پڑھتے ہیں۔ وہاں اسکے ایک نامکمل دیوان سے ایک نظم آپکے سب کے لئے۔ عنوان ہے اسکا۔'چاند' ۔ یہ صدیوں سے چاند نے انسانوں کو اپنے سحر میں کیوں رکھا ہوا ہے۔ حالانکہ اب سب کہتے ہیں کہ چاند تو اک ویرانہ ہے۔
کیسا البیلا ہوں، وہ دکھاتا رہا
آسماں اپنی چھب سے سجاتا رہا
چومتا تھا کبھی وادیاں وہ حسیں
کبھی صحرا میں جادو جگاتا رہا
کبھی آیا قریب، کبھی ہوا وہ دور
شوخی ہر موج کو یوں دکھاتا رہا
ایک پل یوں ہوا جاکے تالاب میں
ٹہرے پانی کو چندن بناتا رہا
پھر چھپا جاکے وہ نیم کے پیڑ میں
روشنی سےپر اپنی بلاتا رہا
میں کہ بے چین تھا رات پچھلے پہر
تھپکیوں سے وہ مجھکو سلاتا رہا
کبھی روٹھا بھی، وہ کبھی برہم ہوا
کتنا نادان تھا یوں ستاتا رہا
رات یوں بھی ہوا چاند رویا بہت
چاندنی بن میں پھر بھی لٹاتا رہا
ہیں ستارے بہت آسماں ہے میرا
یہ سناتا رہاچاند گاتا رہا
اتنی تنہائ تھی وہ اکیلا بہت
سنگ دریا کے خود کو بہاتا رہا
چاند ہرجائ ہے کیوں میرا نہ ہوا
چاند سنتا رہا مسکراتا رہا۔

Thursday, August 20, 2009

مدد-۲

دو مسائل ہیں،
ایک تو یہ کہ اردو ایڈیٹر کو بلاگسپاٹ پر کیسے ڈالا جائےگا
دوسرے یہ کہ ورڈ پریس پر اردو میں بلاگ کیسے بنایا جائے۔ آپ سب سے التماس ہے کہ اس سلسلے میں اپنے قیمتی مشوروں سے نوازیں۔ جیسا کہ آپ نے پہلے بھی کیا۔ میں آپکی انتہائ ممنون ہونگی۔

Wednesday, August 19, 2009

دیدہ ء دل


اقبال کہتے ہیں کہ
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشہ کرے کوئ
ہو دیکھنا تو دیدہء دل وا کرے کوئ
ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئ
اڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طور پہ کلیم
طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئ
اس سے تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ دیکھنا بھی کئ طرح کا ہوتا ہے۔ ظاہری آنکھ سے دیکھنا بس چیزوں کی ظاہریت پہ سے گذر جانے کا نام ہے یعنی تماشہ کرنے کے برابر ہے۔ ایسا دیکھنا جو کہ دکھائ دینے والی چیزکے اندر سے تعلق جوڑ دے اسے دل کی آنکھ سے دیکھنا پڑتا ہے۔ اور اندر کو دیکھنے کے لئے بڑی طاقت اور برداشت ہونی چاہئیے۔اس میں ہماری عقل بصارت اور عشق بصارت بھی شامل ہے۔ محض اڑے رہنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا
آئنسٹائن نے انیس سو پانچ میں نظریہ اضافت مخصوصہ کے بارے میں اپنا نکتہ ء نظر پیش کرکے لفظ دیکھنے کو ایک نئ جہت دی۔ اس نظرئے کے سائنسی پس منظر سے ہٹ کر اسکی کئ فلسفیانہ اور سماجی تشریحات کی گئیں۔اضافیت مخصوصہ سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ تجربات، واقعات اور ثقافت کے کچھ عناصر کا انحصار دوسرے عناصر پر بھی ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے ایک ہی واقعہ دو لوگ مختلف طرح سے دیکھتے ہیں۔
جیسے یہ ہمارے روزمرہ کے بیانات ہیں،
یہ آپکے لئے صحیح ہو سکتا ہے میرے لئے نہیں۔
خوبصورتی دیکھنے والے کی نظر میں ہوتی ہے۔
آپ دوسروں کی ثقافت کو اپنے معیار سے نہیں جانچ سکتے۔ اس لئے کبھی کبھی یہ بھی سنائ دیتا ہے کہ مطلق سچائ کوئ چیز نہیں۔ سچ بھی کچھ دوسری حقیقتوں کے تعلق سے جڑا ہوتا ہے۔ کیا سچ بھی ایک اکتسابی علم ہے۔ یہ ایک دلچسپ بحث ہو سکتی ہے۔
دنیا کی مختلف ثقافتوں کا ایک تقابلی جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ کسطرح ایک ثقافت میں رائج العام چیز دوسری ثقافت میں اپنے ماحول اور ضروریات کے حساب سے ایک بالکل تناظر میں لی جاتی ہے۔
ایک دلچسپ مثال اسکیمو ہیں جو دنیا کے سرد ترین مقام انٹارکٹیکا میں رہتے ہیں۔ یہ سارا سال برف سے ڈھکے رہنا والا وہ مشکل مقام ہے جہاں میلوں آبادی کے آثار نہیں ہوتے۔ اسکیمو برف کے بنے ہوئے گھروں میں رہتے ہیں جنہیں اگلو کہا جاتا ہے۔اگر انکے پاس کوئ مسافر بھٹکتا ہوا پہنچ جائے تو وہ اسے گرم کمرہ، کھانا پینا اور وقت گذارنے کے لئے اپنی بیوی بھی دیتے ہیں۔
یوں تو خواتین کے پردے کے بارے میں خاصی بحث ہوتی ہے مگر ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ افریقہ میں ایک قبیلہ ایسا بھی ہے جہاں مرد پردہ کرتے ہیں۔ خود ہماری داستانوں میں حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انکے بے مثال حسن کی انسانی نظر تاب نہ لا سکتی تھی اس لئے وہ ہمہ وقت ایک نقاب پہنے رہتے تھے۔ اس لئے غالب نے فرمایا کہ
سب رقیبوں سے ہوں ناخوش پر زنان مصر سے
ہیں زلیخا خوش کہ محو ماہ کنعا ں ہو گئیں
خیر اس تحریر کا مقصد اس وقت مختلف ثقافتی اختلافات اور انکی وجوہات پہ غور کرنا نہیں۔ یہ میں اپنے قاری کی صوابدید پر چھوڑتی ہوں کہ وہ اپنے ارد گرد کی دنیا سے ایسی مثالیں نکالیں اور انکی ممکنہ وجوہات تلاش کریں۔
دانشوروں کا کہنا ہے کہ غیر جانبدار نظرایک امر محال ہے۔ لیکن اسکے ساتھ ہی ساتھ اگر انسان دنیا کو جیسی وہ ہے اسی طرح دریافت کرنا چاہتا ہے تو اسےہر قسم کےذہنی اور فکری تعصبات حتی کہ بعض جگہ اپنے آپ کو بھی الگ کر کے سوچنا پڑے گا۔ شاید اسے ہی مراقبہ کہتے ہیں۔ جس کے بعد گوتم بدھ کو نروان حاصل ہوا۔
ہم واپس اپنے موضوع یعنی دیکھنے کی طرف آتے ہیں۔ ایک چیز نظر بندی کہلاتی ہے۔ سامنے چیز موجود ہوتی ہے مگر نظر نہیں آتی۔ اسی کے لئے شاید یہ محاورہ بنایا گیا کہ
بغل میں بچہ شہر میں ڈھنڈورا۔ اسکی مثال دیکھنا ہو تو ایچا کی پینٹنگز دیکھنا پڑیں گی۔ میرا اندازہ ہے کہ اس ڈچ نژاد مصور کا نام اردو میں شاید اسی طرح لکھا جائے۔




آخری تصویر جسکا نام ہے بارہ گھڑسوار، اس میں اگر ہم میں سے کچھ لوگ پہلی نظر میں ایک طرف جاتے ہوئے گھوڑے دیکھتے ہیں اور کچھ دوسری طرف جاتے ہوئے۔ جبکہ کچھ پہلی ہی نظر میں دونوں طرح کے گھوڑے دیکھ لیتے ہیں۔ درمیانی تصویر کا نام ہے۔
Escher's relativity
اس تصویر میں مختلف جہتوں میں جاتی ہوئ سیڑھیاں نظر آ رہی ہیں۔ جن پر لوگ بھی موجود ہیں۔ مختلف جہتوں میں جانےوالے لوگوں کو ایک ہی فریم میں موجود چیزیں ایک جیسی نہیں نظر آئیں گی یہ تو ہم اندازہ کر سکتے ہیں۔ لیکن مشکل بات یہ ہوتی ہے کہ ہم ایک جہت کی سیڑھیاں چلنے کے بعد اگر دوسری جہت کی سیڑھی پہ قدم رکھیں تو ہمیں کتنا وقت لگے گا کہ ہم پچھلی جہت کے سمتی اثر سے باہر نکل پائیں اور اگر ہمیں دوسری جہت کی سمت کی سیڑھیاں چلنے کا طبعی موقع نہ مل پائے تو کیا ہم اتنی اہلیت رکھتے ہیں کہ محض اپنے تخیل سے اس دوسری جہت میں جاکر اسی فریم کو اس جہت کے حساب سے دیکھ سکیں۔
اس موضوع پر ایک اچھی بحث ممکن ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اپنی زندگی سے یا اپنے سنے ہوئے قصوں کو اس میں شامل کر سکتے ہیں۔ جب تک میں بلھے شاہ کی کافی سنتی ہوں۔ بلھے شاہ کی جاناں میں کون۔


ریفرنس؛

البرٹ آئنسٹائن
Albert Einstein (pronounced /ˈælbərt ˈaɪnstaɪn/; German: [ˈalbɐt ˈaɪ̯nʃtaɪ̯n] ; 14 March 1879 – 18 April 1955) was a theoretical physicist. He is best known for his theories of special relativity and general relativity. Einstein received the 1921 Nobel Prize in Physics "for his services to
Theoretical Physics, and especially for his discovery of the law of the photoelectric effect."


نظریہ ء اضافت مخصوصہ کے بارے میں مزید معلومات مندرجہ ذیل لنکس پہ مل سکتی ہے
The theory is termed "special" because it applies the principle of relativity only to frames in uniform relative motion. The term often refers to truth relativism, which is the doctrine that there are no absolute truths, i.e., that truth is always relative to some particular frame of reference, such as a language or a culture. Another widespread and contentious form is moral relativism.

افریقہ میں موجود قبائل جہاں مرد پردہ کرتے ہیں انکے بارے میں تفصیلات اس کتاب میں موجود ہیں۔

Veiled Men, Red Tents, and Black Mountains
The Lost Tomb of Queen Tin Hinan

Series: Adventure & Exploration - 70

ISBN: 1-58976-206-1

ایچا کا تعارف
http://www.math.wichita.edu/history/men/escher.html
Maurits Cornelis Escher (17 June 1898 – 27 March 1972), usually referred to as M.C. Escher (Dutch pronunciation: [ˈɛʃə] was a Dutch-Frisian graphic artist.



Monday, August 17, 2009

میرے بچپن کے دن


بچی نے نہایت معصومیت اور تشویشناک لہجے میں اپنی ماں سے پوچھا۔ ' اماں، جب میں چلتی ہوں تو چاند میرے ساتھ چلنے لگتا ہے اورآسمان پر بادلوں کی پہاڑیاں میرے پیچھے بھاگنے کے لئے ایکدوسرے سے ٹکراتی ہیں اور جب میں تیز بھاگنے لگتی ہوں تو زمین کے سب درخت بھی میرے ساتھ بھاگتے ہیں۔ اماں کیا میں انکو بھی اتنی اچھی لگتی ہوں جتنی آپ کو۔
تو جناب، اس بچی کی طرح میں بھی اپنے گھر کے بالکل نزدیک ایک وسیع میدان میں سر شام باقی بچوں سے الگ تھلگ بادلوں، چاند اور سورج کی یہ محبت اکثر جانچتی رہتی۔ اور توقع کے مطابق یہ بالکل ایسے ہی نکلتیں تھیں۔ کچھ دنوں بعد مجھے یہ جان کر اورخوشی ہوئ کہ نانی کے گھر کے پاس جو چاند اوربادل ہیں وہ بھی مجھ سے کم محبت نہیں کرتے۔ میرا ددھیال سارے کا سارا انڈیا میں تھا اور کچھ سیاسی و معاشی بنیادوں پہ یہ امتحان وہاں نہیں کیا جا سکتا تھا۔ درختوں کے لئے کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ وہ میدان ایسے ہی لق و دق پڑا ہوا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے آبادی کے پھیلاءو نے اس میدان کو کھا لیا اور اب وہاں مکان، دوکانیں اور راستے بن گئے۔

ان سب امکانات کے وجود میں آنے کے بعد پتہ چلا کہ اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔ اور یہ کہ ہر صبح سورج مجھے جگانے کے لئے نہیں اٹھتا بلکہ یہ اس کا اپنا لگا بندھا معمول ہے جس میں کچھ سائنسی اصول کارفرما ہوتے ہیں۔ چاند کی بڑھیا کا چاند سے کوئ تعلق نہیں دراصل جھوٹ تھا جو کچھ کہ سنا ، جو سنا افسانہ تھا، چاند میں سچ مچ نور کہاں چاند تو ایک ویرانہ ہے۔ یہ جھلملاتے ستارے تو دہکتی آگ کے گولے ہیں۔ اور یہ آسمان پرہر وقت شکلیں بدلتے بادل جو کوہ قاف کا منظر پیش کرتے ہیں۔ یہ تو صرف پانی کے بخارات کا مجموعہ ہیں۔ اسی طرح کے تلخ حقائق نے رفتہ رفتہ ان جاں نثار دوستوں سے بھی محروم کردیا۔
انہی دنوں میں تتلیوں کے پیچھے محض یہ جاننے کے لئے بھاگا کرتے تھے کہ یہ شاخ شاخ سرگرداں کس کی جستجو میں ہیں، کونسے سفر میں ہیں۔ اسی اندھا دھند جاسوسی میں کئ دفعہ کیچڑ میں جا کر گرے مگر تتلیوں نے کھل کر نہ دیا۔ یہ راز بھی بعد میں کسی کتاب سے معلوم ہوا۔ میں نے انہیں پکڑنے کی کوشش کبھی نہِں کی کیونکہ میرا خیال تھا کہ پکڑنے سے انکے پر ٹوٹ جائیں گے۔ ویسے بھی کراچی میں تتلی نظر آنا بہت ہی نایاب واقعہ ہوا کرتا ہے اور آلودگی بڑھنے کے ساتھ اب تو شاید ہی کبھی نظر آتی ہیں۔
بہت سارے بچوں کے برعکس مجھے یہ امتیاز حاصل رہا کہ مجھے اپنی بہت چھوٹی عمر کے واقعات بھی خاصی صراحت کے ساتھ یاد ہیں۔ میری یاد داشت کی لوح پر جو پہلا نقش ہے وہ تقریباً ڈیڑھ سال کی عمر کا ہے۔ یہ چھوٹا اور معصوم سا قصہ جو میں آپ کو بتانے جا رہی ہوں اس وقت میری عمر تین سال دو مہینے کی تھی۔ میرا ایک بھائ جو مجھ سے تقریباًتین سال چھوٹا ہے اسوقت تین مہینے کا تھا کہ ایک دن محلے میں کچھ خاندانوں نے ملکر کراچی چڑیا گھر جانے کا پروگرام بنایا اور ایکدن سب چل پڑے۔
ہم جیسے ہی چڑیا گھر سے اندر داخل ہوئے، گیٹ کے قریب پہلے انکلوژر کے پاس جمع ہو گئے یہ کوئ باقاعدہ لوہے کی سلاخوں سے بنا انکلوژر نہ تھا بلکہ ایک چوڑی سی, تین چار فٹ اونچی دیوار اٹھی ہوئ تھی جس کے ساتھ ساتھ لوگ کھڑے ہوئے تھے۔ کیونکہ اس جانور کو سلاخوں کی ضرورت نہ تھی اسکے روکنے کے لئے یہی دیوار کافی تھِی۔ کسی نے شوق میں مجھے بھی کمر سے اٹھا کر انکا دیدار کرانے کی کوشش کی۔ لیکن گینڈے پر نظر پڑتے ہی میرے حواس گم ہو گئے۔ مجھے آج بھی وہ جذباتی صدماتی لمحہ اسی طرح یاد ہے۔ ایسی بھیانک، بے ڈھنگی اور عظیم الجثہ مخلوق کسی طرح بھی میرے تصور میں گھسنے کے لئے تیار نہ تھی۔ جبکہ میرے خیال میں وہ بلا روک ٹوک میری طرف بڑھی چلی آہی تھی۔
میں نے وہی بچوں اور خواتین کا کا آزمودہ ہتھیار استعمال کیا۔ اور دھاڑیں ما ر کر رونا شروع کیا سب نے مجھے اسوقت میری سمجھ کے مطابق جھوٹی تسلیاں دیں کہ وہ تو اس دیوار کے پیچھے بند ہے۔ پھرکافی دیر تک بہلاتے بھی رہے۔ سب سے پہلے مجھے گینڈا دکھانے کی سزا سب کو اس صورت ملی کہ پھر میں نے گود سے اتر کر نہ دیا۔ کیاپتہ میرے زمین پر پیر رکھتے ہی گینڈا اگر زمین پھاڑ کر نکل آئے تو۔ بچوں میں تخلیقی قوت اور طرح طرح کے تصور باندھنے کی کتنی زبردست صلاحیت ہوتی ہے۔
میں سوچتی ہوں ایسے ہی کسی واقعے سے گذر کر فلم ٹریمر کا مرکزی خیال اخذ کیا گیا ہو گا۔ کبھی کبھی لوٹ کر جب بچپن کے دامن میں پناہ لیتے ہیں تو جیسے ڈزنی لینڈ جانے کی ضرورت نہیں رہتی۔ یہاں سے وہ توانائ ملتی ہے جو پوپائے دی سیلر کو پالک کھا کر ملا کرتی تھی۔یہیں سے سوچ کے وہ توانا اور نئے جذبے پھوٹتے ہیں جو انسان کے اندر جینے کی خواہش کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ ہماری زندگیوں کا یہ آب حیات صرف ایک خیال کی رو کے فاصلے پر ہوتا ہے۔ پھر بھی ہم اس سے محروم رہتے ہیں کیوں؟

Sunday, August 16, 2009

صلائے عام-۳

یہ ایک درخواست ہے جو سزائے موت کے منتظر ایک شخص نے محترمہ رئیس فاطمہ سے کی ہے۔ محترمہ رئیس فاطمہ روزنامہ ایکسپریس کے لئے لکھتی ہیں۔ انکے آج، اتوار۱۶ اگست، ۲۰۰۹ میں چھپنے والے کالم کے ذریعے یہ درخواست میرے علم میں آئ ہے۔ ان صاحب کا کہنا ہے کہ وہ دس سال سے اپنی سزا کاٹ رہے ہیں اور سزائے قید کے منتظر ہیں۔ انہیں مطالعے کا شوق ہے اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ انتظار کے اس کرب کو کم کرنے کے لئے انہیں کچھ کتابیں، رسالے کوئ بھی ناول، سفر نامے یا کسی بھی قسم کی پڑھنے کی چیز روانہ کر دی جائے۔ میرا خیال ہے کہ یہ ہم سب کے لئے ایک نئ تاریخ مرتب کرنے کا وقت ہے۔ ہم سب نے اپنے بڑے بڑے لیڈروں کو ایسی اپیلوں پر کیا نہیں دہیا۔ آج اس ایک عام سے شخص کی اپیل پر کھڑے ہوجائیں اور اپنے گھر میں جس چیز کو آپ سمجھتے ہوں کہ ایک عرصے سے پڑی ہے اور اب نہیں پڑھی جائے گی اسے مندرجہ ذیل پتے پر روانہ کر دیں۔ آپ میں سے جو لوگ نئ کتابیں بھیج سکتے ہوں وہ نئ خرید لیں۔ لیکن خدا کے لئے اس درخواست سے بس یونہی مت گذر جائیں۔ چاہے کتنے مصروف ہوں اس شخص کو ضرور وقت دیں۔چاہے اپنی ردی اسے بھیجیں لیکن پوسٹ آفس تک جانے کی زحمت ضرور کریں۔یہ ہمارے زندہ ہونے کی علامت ہوگی۔

پتہ ہے
علی اصغر گجر
وارڈ نمبر ۷، قیدی سزائے موت
ڈسٹرکٹ جیل سرگودھا

ریفرنس؛
نجانے کیوں انکا یہ کالم آج کے ایکسپریس کے انٹر نیٹ اشاعت میں موجود نہیں ہے۔ اور اسکی جگہ امجد اسلام امجد کا کالم موجود ہے۔ بہر حال کوئ تصدیق کرنا چاہے تو اسے آج کا ایکسپریس اخبار خریدنا پڑیگا یا محترمہ رئیس فاطمہ سے رابطہ کریں۔ انکا ای میل پتہ یہ ہے۔
raeesfatima17@yahoo.com
یہاں میں یہ واضح کر دوں کہ محترمہ سے میرا صرف اخباری تعلق اتنا ہے کہ اخبار کا ایڈیٹوریل صفحہ پڑھتے ہوئے انکے کالم پر سے بھی گذرتی ہوں۔

Friday, August 14, 2009

سنگ سنگ

دنیا میں بہت سے دن منائے جاتے ہیں ایکدن ایسا بھی منانا چاہئیے جس دن ہم ان لوگوں کی جنہیں ہم جانتے ہیں کوئ ایک اچھائ جو ہمیں دل سے پسند ہو بغیر کسی لاگ لپٹ کے ان سے کہدیں۔ نامعلوم وجوہات کی بناء پرکسی بھی انسان کے لئے یہ کہنا تو آسان ہوتا ہے کہ میں تمہاری صورت نہیں دیکھنا چاہتا مجھے تم سے نفرت ہے یا تمہاری خامی یہ ہےکہ تم یہ اور تم وہ-------۔ لیکن نجانے کیوں یہ کہتے ہوئے یہ زبان تالو سے چپک جاتی ہے کہ آپ کی یہ خصوصیت ہمیں پسند ہے، اور یہ کہ ہم آپ سے محبت کرتے ہیں اور یہ کہ ان تمام خامیوں کے باوجود آپ کے اندر یہ خوبی پائ جاتی ہے۔ اس دن کا نام کیا ہونا چاہئے, یہ آپ لوگ بتائیں۔
تو آج اردو ویب پر سرفنگ کرتے ہوئے مجھے افتخار اجمل صاحب کی تصویر دیکھ کر یہ خیال آیا کہ آج کے دن ان تمام لوگوں کو جو ہمارے اردگرد ہیں ہمیں انکے متعلق کوئ اچھی بات کہنی چاہئیے۔ اتنی آسانی سے جتنی آسانی سے ہم یہ کہتے ہیں کہ اونہہ تم نے یہ کیا۔
تو جناب سب سے پہلے ہمارے سینئر بلاگر اجمل صاحب سے میں یہ کہونگی کہ آپکی یہ چیز مجھے بے حد پسند ہے کہ آپ اس عمر میں بھی نئ چیزیں سیکھنے کا جذبہ رکھتے ہیں اور اپنے وقت کو صحیح مصرف میں لاتے ہیں۔میں اگر اس عمر تک پہنچ پائ تو یقیناً آپکی اس خوبی کو اختیار کرنے کی کوشش کرونگی۔
ابو شامل آپ اپنی تحریروں کو درست رکھنے میں بڑی محنت کرتے ہیں اور اسے خاصہ تعمیری رکھتے ہیں۔ نومان جب مجھے پتہ چلا کہ آپ اپنی دودھ کی دوکان کے ساتھ یہ سارا کام بھی کرتے ہیں تو مجھے آپ پر بڑا فخر محسوس ہوا۔ آپ جیسے نوجوان ہمارا سرمایہ ہیں۔وارث صاحب، آپ کے علم شاعری کو میں بہت رشک کی نظر سے دیکھتی ہوں۔ محمد احمد آپ نے اردو ری اسٹور کرنے میں بڑی مدد کی، اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ آپ بلا کہے بہت ساری باتیں سمجھ جاتے ہیں۔ جاوید گوندل صاحب، میرا خیال ہے کہ آپ ملک سے باہر ہیں اسکے باوجود یا تو آپ کے پاس کافی ساری کتابوں کا ذخیرہ وہاں موجود ہے یا پھر آپکو زبانی چیزیں یاد ہیں ہر دو صورت میں آپ خاصہ پڑھتے لکھتے ہیں۔ جعفر ، آپ بڑی جلدی چیزیں بھلا دیتے ہیں کچھ کچھ میرے جیسے ہیں۔ ڈفر مجھے آپکی نہ صرف آجکی پوسٹ بلکہ کچھ اور پوسٹیں بھی خاصی پسند آئیں بالخصوص نمازی والی۔اسماء، آپ کو یہ جعفر اتنا کیوں پسند ہے۔عبد اللہ،آپ جب جذباتی ہوکر لڑتے ہیں تو مجھے بڑا مزہ آتا ہے۔ بلا کھٹکے اپنی بات کہنا یہ بھی تو ایک خوبی ہے۔
م م مغل آپ نے اس دن اپنے سینئر حضرات کی مصلحت پسندی کے باوجود جو تنقید کی تو جناب آپ تو چھا گئے۔ منیر عباسی، آپ نے نئے ڈومین کے لئے اتنی محنت کی آپ کی یہ محنت مجھے پسند آئ۔ راشد کامرن، محد علی مکی اور یاسر عمران آپ لوگوں نے پائریسی کےخلاف جو لائن آف ایکشن لی وہ قابل تعریف ہے۔ خاور آپکی پنجابی تحریروں سے مجھے پنجابی محاورہ سمجھنے میں خاصی آسانی ہوئ۔ سوائے اس ایک تحریر کے جس پر مجھے کچھ اعتراضات ہیں مجھے آپکے مشاہدات خاصے دلچسپ لگتے ہیں۔شعیب صفدر صاحب آپکے فراہم کئے ہوئے لنکس کی وجہ سے مجھے اپنا بلاگ بنانے میں کافی آسانی ہوئ۔ آپ نے مکمل اجنبیت کے باوجود جس طرح محض میری ایک ای میل پر جواب دیا اسکے لئے آپکی مشکور ہوں۔ وہاب اعجاز خان اردو ادب کے حوالے سے مجھے آپکے مضامین ایک خزانے سے کم نہیں لگتے۔شاہ فیصل آپ سے تو میں فوٹو گرافی سیکھ رہی ہوں۔ریحان علی آپکے بلاگ پر وہ کارٹون مجھے اچھا لگتا ہے۔ شاہدہ اکرام اور خرم بھٹی آپ لوگوں کے ساتھ کھانے پکانے کی تراکیب شیئر کرنے کا موڈ ہوتا ہے۔ شاہدہ آپکے بیٹے کی تصاویر مجھے بہت اچھی لگی تھیں اور خرم آپکی اہلیہ تو خاصی خوش قسمت ہیں۔ اتنے سگھڑ شوہر ملے ہیں۔
تو جناب یہ ہیں کچھ وہ لوگ جنہیں میں نے ہلکا سابرتا۔ آپ سب میں بلاشبہ اور بھی اچھائیاں ہونگیں لیکن آج تو مجھے صرف ایک خوبی کا تذکرہ کرنا تھا۔

Thursday, August 13, 2009

برسبیل تذکرہ


میں اپنے کمرے میں آنیوالی لیب کی تیاری کر رہی ہوں کہ کمرے کے دروازے پہ دستک ہوتی ہے۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا۔ یہ فرسٹ ائیر آنرز کی دو لڑکیاں ہیں۔ ایک برقعہ پہنتی ہے اور دوسری برقعے کے بغیر۔ میری ایک سو بیس اسٹوڈنٹس کی کلاس میں یہ لڑکیاں ان پانچ چھ اسٹوڈنٹس میں شامل ہیں جو کلاس کے بعد مجھ سے ملتے ہیں، اس لیکچر کو ڈسکس کرتے ہیں، مزید حوالے چاہتے ہیں اور ان سے منسلک سوالات کو حل کر کے مجھے دکھانے بھی ضرور آتے ہیں۔ انکی اس ساری مشق کے پیچھے نہ صرف انکی علم حاصل کرنے کی لگن شامل ہے۔ بلکہ میرا وہ رویہ ہے جو میرے بیشتر سینئیر استادوں کو جو کچھ عرصہ پہلے میرے بھی استاد رہ چکے ہیں ایک نظر نہیں بھاتا۔
میں نے ٹیچرز کی ایک غیر رسمی میٹنگ میں اپنے کچھ سینئیر اساتذہ کو یہ بات کہتے سنا کہ یہ کتنا عجیب ہے کہ جونئیر اساتذہ کے کمرے میں اسٹوڈنٹس بغیر کسی جھجھک کے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح تو استاد کی کوئ عزت اور احترام اور رعب دبدبہ نہیں رہتا۔ اور اس طرح سے اسٹوڈنٹس میں کتنا بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ یہ سینئیر اساتذہ اپنے ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں اور میں نے ابھی آغاز کیا ہے۔انکے اور میرے درمیان ایک نسل کا ہی نہیں اس لامتناہی علم کا بھی فرق ہے جو ٹیکنالوجی کی بے پناہ ترقی کی وجہ سے ایک آتش فشاں پہاڑ کی طرح پھوٹ پڑا ہے۔ آج استاد ہونےکی تعریف کچھ مختلف ہو گئ ہے۔
ہاں، میری ان اسٹوڈنٹس میں سے برقعہ پوش خاتون کا نام نزہت اور دوسری کا نام سائرہ ہے۔ ناموں سے آسانی رہتی ہے اور مخاطب کرنے کے مناسب القاب ڈھونڈنے کے تردد سے بچ جاتے ہیں جو بعض اوقات خاصہ خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ وہ موٹی، چھوٹی فٹبال نما لڑکی اور وہ کالا سا زرافہ مخنچو، یہ نہ صرف ان افرادکی بلکہ مخاطب کرنے والے کی صحت کےلئے بھی مفید نہیں ہوتا۔
ان لوگوں نے دستک دینے کے ساتھ سلام کیا اور کہنے لگیں میم عید مبارک۔ کیسی گذری آپکی عید۔ جواباً میں نے ان سے ان کی عید کے بارے میں پوچھا۔ سائرہ مذہباً عیسائ ہے یہ مجھے اسکے نام کے بقیہ حصے سے پتہ چلا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ مجھے حیرت ہوئ جب وہ امتحان کے زمانے میں اسلامیات یاد کر رہی تھی۔ آپ لوگوں کے لئے تو اخلاقیات کا مضمون ہوتا ہے۔ پھر اسلامیات کیوں پڑھی جا رہی ہے۔ میم سب اسکی تیاری کر رہے ہوتے ہیں اب میں کیا الگ سے ایک مضمون کی تیاری کروں۔ لیکن ہمیشہ اسلامیات پڑھنے کے باوجود وہ عیسائ ہے۔ وہ نہ صرف میرے مضمون کے دونوں حصوں میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کر چکی ہے بلکہ دیگر مضامین میں بھی اسکی کارکردگی نمایاں ہے۔ ان سے کچھ رسمی بات کرنے کے بعد میں پھر اپنے کام میں مشغول ہو گئ۔ پھر انہیں اسی استقامت سے کھڑا دیکھ کر مجھے کچھ شبہ ہوا۔ کوئ خاص بات ہے۔ میں نے دریافت کیا۔ میم عیدی چاہئیے۔ یہ لیجئیے میرا خرچہ آگیا ۔
میں مسکرا دی۔ روزے رکھےتھے۔ نزہت نے بڑے جوش میں جواب دیا سب رکھے تھے۔ اور عید بھی اتنی اہتمام سے منائ۔ سائرہ خاموش کھڑی آہستہ سے مسکراتی رہی۔ میں نے اپنا بیگ چھانا اور دس روپے کا ایک تازہ نوٹ ٹوکن عیدی کے طور پر نزہت کو دیا۔ وہ چیخ پڑی۔ میم اسے تو میں پلاسٹک کوٹنگ کرواکے رکھ لونگی۔ سائرہ نے آواز نکالی اور میری عیدی۔ عیدی روزے رکھنے والوں کو ملتی۔ میں نے اسے چھیڑا۔ اب آپ لوگ بھاگیں میری لیب شروع ہونے میں دس منٹ رہ گئے ہیں۔ وہ خامشی سے چلے گئے۔ میں اپنا لیب کوٹ پہننے لگی کہ دفعتاً مجھے لگا کہ میرا دل اندر سے خالی ہو گیا ہے۔ میں نے کوٹ میں سے ہاتھ نکالااور دروازے کی طرف دوڑ لگائ۔ وہ لوگ کوریڈور کے آخری سرے پہ پہنچ کر مڑنے والی تھیں۔ تہذیب کے برخلاف میں نے وہاں سے آواز لگائ۔ سائرہ۔ اس نے پلٹ کر دیکھا۔ میں نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں کمرے میں آنے کا کہا۔اب وہ کمرے میں موجود ہیں۔ میں نے ایک اور تازہ نوٹ نکالا اور سائرہ کو دیا۔ یہ آپکی عیدی ہے میں تو آپ کو چھیڑ رہی تھی۔ اسکے خاموش چہرے پہ وہی مدھم مسکراہٹ پھیل گئ جو مجھے بےحد پسند ہے۔
وہ لوگ جا چکی ہیں۔ میں آخری پانچ منٹ گذرنے کے انتظار میں کھڑکی کے ساتھ کھڑی ہوں۔ ذرا سی بلندی پر آجانے سے چھوٹی چھوٹی بدصورتیاں ختم ہوجاتی ہیں۔زمین کتنی وسیع اور آسمان کتنا کھلا لگتا ہے۔ میں نے کبوتروں کی غٹر غوں کے ساتھ سوچا۔

Monday, August 10, 2009

شبستان وجود

اگر غصے اورپیار کو دو فنکشنز سمجھ کر انسان کو انکے تیسرے محور پہ ڈالکر ایک گراف بنایا جائے تو دنیا میں دو طرح کے انسان نکل آئیں گے۔ اس جملے کی بناوٹ میں کوئ حسابداں میری مدد کرسکتے ہیں۔ کیونکہ حساب میرا بنیادی مضمون نہیں۔ ہاں تو ،ان میں سے ایک طرح کے انسان وہ ہیں جنہیں پیار پہ غصہ آتا ہے اور دوسری طرح کے وہ جنہیں غصے پر پیار آتا ہے اور وہ پٹنے اور گالیاں کھانے کے بعد بھی یہیں کہتے ہیں کہ،
مرتا ہوں اس آواز پہ، ہر چند کہ سر اڑ جائے
جلاد کو لیکن وہ کہے جائیں کہ 'ہاں اور'
غصہ ختم ہونے کے بعد فلموں میں محبت بھرے گانے ہوتے ہیں اور پھر اسکے بعد سویا ہوا سماج اٹھ کھڑاہوتا ہے اور انہیں آڑے ہاتھوں لیتا ہے۔ سیدھے ہاتھوں اس لئے نہیں لیتا کہ کہ اسطرح معاملات سیدھے رہتے ہیں۔ اس سے زیادہ تر لوگوں کے صراط مستقیم پر چلنے کے امکانات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس سے فلم میں کلائمکس نہیں پیدا ہوتا۔ اتنی زیادہ پیار محبت دکھانے پر فلم بینوں کو بے حد غصہ آتا ہے۔جس سے ایک چین ری ایکشن پیدا ہوتا ہے جو چپس اور کولڈ ڈرنک بیچنے والوں، سینما ھال کے مالک، ڈائریکٹر اور فنانسر سمیت کسی کو نہیں پسند ہوتا۔ کیونکہ اس سے کچھ اقتصادی مسائل جو کہ بعد میں معاشرتی مسائل میں تبدیل ہوجاتے ہیں، کھڑے ہوجاتے ہیں۔یہ کھڑے ہوجائیں تو قومی ترانہ ختم ہونے کے بعد بھی بیٹھتے نہیں ہیں۔ حتی کہ فلموں پر پابندی لگانی پڑ جاتی ہے۔
لیکن معزز قارئین، جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں اصل زندگی فلموں سے مختلف ہوتی ہے۔ اور یہاں پٹائ لگانےاور گالیاں دینے کے بعد مزید پٹائ اور مزید گالیاں ہوتی ہیں۔ اس عمل میں سماج کے بھی ہوش ٹھکانے آجاتے ہیں اور وہ انہی ٹھکانوں پر پڑا ہائے اوئ کرتا رہتا ہے۔ اور اس وقت کے قریب آنے کی دعا کرتا ہے جب وہ بھی گالیاں اور پٹائ لگانے کے قابل ہوگا۔ہم سب اس بات کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ ڈنڈے اور گالی کے بغیر سماج کو قابو میں نہیں رکھا جا سکتا۔ سماج بھی یہ بات جانتا ہے لیکن اسکے پاس ٹھکائ لگانے والوں کے لئے ڈنڈا نہیں ہے اس مثلث میں سماج صرف گالی سے کام نہیں چلا سکتا۔ وقت کے اس کھیل میں وہ یہ ڈنڈا حاصل کر پائے گا یا نہیں۔ اسکے لئے آپکو کسی تھیٹر جا کر دیکھنےکی ضرورت نہیں۔ اپنی لمبی عمر کی دعائیں مانگیں جس دن سماج کو یہ ڈنڈا ملے گا۔ باہر کی آوازوں سے آپ کو بھی لگ پتہ جائیگا۔ اس وقت تک کچھ لوگ طبلہ سن کر خوش ہورہے ہیں۔ اور کچھ شادیانے بجا کر۔ ہم ان کے ساتھ اپنا وقت گذارتے ہیں۔
اسد محمد خان اسوقت اردو ادب کے افق پر ایک اہم نام ہے۔ انکے افسانوں کے مجموعے 'غصے کی فصل' سے یہ ایک اقتباس آپکی نظروں کی نذر۔
'مردوزی اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ آدمی کا مزاج محبت اور غصے، عقیدت اور نفرت سے مل کر تشکیل پاتا ہے۔ مگر اپنی تہذیب اور تمدنی تقاضوں سے مجبور ہو کے انسان اپنا غصہ اور اپنی نفرت ظاہر نہیں ہونے دیتا، جس سے فتور واقع ہوتا ہے اور نفرت مزاج کی سطح سے نیچے جا کر سڑنے لگتی ہے۔ پھر یہ آدمی کے اندر ہی پلتی بڑھتی ہے۔ آدمی سمجھتا ہے کہ وہ غصے سے پاک ہو چکا ہے اور اسکے مزاج کی ساخت غصے اور نفرت کے بغیر ممکن ہو گئ۔
مردوزی کہتے ہیں، ایسا نہیں ہوتا۔ غصہ آدمی میں ساری زندگی موجود مگر پوشیدہ رہتا ہے۔ تاہم اگر دن کے خاتمے پر اسے ظاہر ہونے، یعنی خارج ہونے کا موقع دیا جائے تو ایکدن ایسا آئےگا کہ آدمی غصے اور نفرت سے پوری طرح خالی ہوجائے گا۔ مردوزی اس کیفیت کو تکمیل کا نام دیتے ہیں ۔
اسیلئے، اسی تکمیل کو پانے کے لئے، مردوزی فرقے کا ہر فرد رات کو حلقے میں بیٹھتا ہے اور چیخ پکار کرکے اپنی دن بھر کی کمائ ہوئ نفرت اور دن بھر کا پالا غصہ خارج کردیتا ہے، اور باقی رات اور تمام دن کے لئے ایک مہذب، مکمل، مہر و محبت سے بھرا ہوا انسان بن جاتا ہے'۔
غصہ بظاہر ایک منفی لفظ لگتا ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک بہت اہم انسانی وصف ہے۔ مثبت طریقے سے استعمال کرنے پرانسان پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹ سکتا ہے۔البتہ مرد ناداں جب تک چاہیں گالی اور ڈنڈے سے کام چلائیں۔ ہیرے کے متعلق سنا ہے کہ وہ دنیا کی سخت ترین چیز ہے۔ مگر اسکی چمک آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے۔

ریفرنس؛
اسد محمد خاں

Sunday, August 9, 2009

پاکستان زندہ باد

یہ واقعہ ذرائع کے مطابق بدھ کو پیش آیا۔ جمعرات کو یہ خبر میڈیا پر موجود تھی۔ لیکن یا تو لوگ ابھی تک مشرف کو پھانسی لگانے کے انتظامات میں مصروف ہیں یا پھر انتظار کر رہے ہیں کہ کب پتہ چلے کہ وہ شہید ہوئے ہیں یا نواب بگتی کی طرح مظلوم کی موت مرے ہیں تاکہ اس حساب سے اپنے جذبات کا اظہار کر سکیں۔ لیکن جناب عبدالقادر حسن اور ارشاد احمد حقانی نے بارش کا پہلا قطرہ بننے کی سعادت حاصل کرلی۔
میں اہل پاکستان کو اس شکرانے میں شامل کرنا چاہتی ہوں کہ ہمیں ظلم اور بر بریت کے نشان بیت اللہ محسود سے نجات ملی۔ درندگی کو اپنے عروج پر پہنچانے والے اس انسان نے بالآخر اسکا مزہ چکھ لیا جسے ہر نفس کو چکھنا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں عبرت ناک سزائیں ملنے کی دعا کی جاتی ہے اور اس موت کو انکےلئے سہل سمجھتے ہوئے یوم حساب کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
یوم آزادی قریب ہے اور یہ شاید خدا کی طرف سے ایک خوشخبری ہے۔ میرے گھر کے دروازے پر لٹکی ہوئ چائمز ہوا کے اشارے پر جیسے ہولے ہولے گا رہی ہیں۔

اے وطن پیارے وطن پاک وطن
اے میرے پیارے وطن
تجھ سے ہے میری تمناءووں کی دنیا پر نور
عزم میرا تبھی میرے ارادے ہیں غیور
میری ہستی میں انا ہے میری مستی میں شعور
جاں فزا میرا سخن گر ہے تو شیریں ہے سخن



ریفرنس؛


Saturday, August 8, 2009

میری ہم جولیاں

آرٹس کونسل کراچی میں، میں بھی ان بے تحا شہ تالیاں بجانے والی ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والی خواتین میں شامل تھی جب مدیحہ گوہر کا ڈرامہ بری اپنے اختتام پر پہنچا۔
کہانی کے کئ زنانہ کرداروں میں جو کہ جیل میں اپنے مقدمات کے فیصلے کا انتظار کر رہی تھیں ایک کردار جمیلہ کا تھا۔ سولہ سال کی عمر میں ایک ساٹھ سال کے بیمار بڈھے سےسوہنی جمیلہ کی شادی، یہی سوچ کر کی گئ تھی کہ وہ اپنے شوہر کے اپنے سے بڑے بچوں کی اور بیمار شوہر کی خدمت کرے گی۔ لیکن وہ اس گاءوں کے ایک نوجوان کے عشق میں مبتلا ہو کر اپنے شوہر اور اسکے بچوں کے ہاتھوں اچھی طرح پٹنے کے بعد اس رات کلہاڑی لیکر اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ اور اپنے شوہر کو للکار کے اٹھاتی ہے۔ یہاں سے ڈرامہ اپنے کلائمیکس میں داخل ہوتا ہے۔ وہ اپنی کلہاڑی لہراتی ہوئ اسکے سینے پر مارتی ہے اور کہتی ہے، 'جا میں نے تجھے طلاق دی'۔ اسی طرح تین کلہاڑیوں کے وار کے ساتھ تین طلاقیں اس مرد کے حصے میں آتی ہیں۔ سوہنی سی جمیلہ کو پھانسی ہوجاتی ہے۔ لیکن جمیلہ کا کردار معاشرتی نا انصافیوں کے خلاف اٹھنے والی ایک مضبوط آواز ہے اور وہ جہاں کہیں بھی ہے، میں اسکے ساتھ ہوں۔
اب سے کچھ عرصے پہلے ٹی وی پر ایک بسکٹ کا اشتہار آتا تھا۔ جس میں ایک لڑکی جو غالباً کسی ہوسٹل میں رہ رہی ہوتی ہے اپنی ماں سے بسکٹ کھاتے ہوئے فون پر باتیں کر رہی ہوتی تھی۔ اور وہ بسکٹ کھانے میں اتنی مگن ہوتی ہے کہ جب اسکی ماں کہتی ہیں کہ ہم نے تمہارا رشتہ طے کر دیا ہے تو جواب میں وہ کہتی ہے۔'سپر'۔ یہ بسکٹ کا نام ہے۔ اس وقت فون رکھنے کے بعد وہ لڑکی سوچتی ہے یہ تو کوئ غیر معمولی بات ہوئ۔ پھر بھی بسکٹ کی لذت جیت جاتی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ ایک برانڈ کے بسکٹ کے ساتھ زندگی نہیں گذاری جاتی۔ اور زندگی میں اچھے بسکٹوں کے علاوہ بہت سارے تلخ حقائق ہیں جنہیں بسکٹوں کے سہارے نہیں اڑایا جا سکتا۔
یونیورسٹی میں میری وہ دوستیں جو ہوسٹل میں رہا کرتی تھیں۔ جب کبھی ہم لوگوں کی زبانی یہ بات سنتیں کہ ہمارے دو ہم جماعتوں یا جاننے کی آپس میں پسند کی شادی ہو رہی ہے تو ذرا اترا کر کہتیں۔ ہمارے یہاں ایسا نہیں ہوتا۔ بھئ ہمارے یہاں تو کسی دن اماں یا ابا کا فون آئیگا کہ اگلے ہفتے تمہاری شادی ہو رہی ہے۔ آجاءو۔ بس ہم جائیں گے اور شادی ہو جائے گی۔ میں نے انکے غرور کو کبھی تحسین سے نہیں دیکھا۔ میرا خیال ہے یہ فیوڈل روایات ہیں اور ان پر فخر کرنا اس نظام کو مضبوط کرتا ہے۔
میں ابھی دو دن پہلے تک یہی سمجھتی رہی کہ گھروں سے بھاگ کر شادی کرنے والے اس فرسودہ روائتی نظام کی پیدا وار ہیں۔ لیکن بھلا ہو ہمارے ایک ساتھی بلاگر کا انہوں نے میرے جیسے لوگوں کے علم میں اضافہ فرمایا اور انکشاف کیا کہ یہ وبا ان علاقوں میں ہوتی ہے جہاں ٹیوب ویل نہیں ہوتے ہیں اور ان سے منسلکہ کمرے۔ جہاں جہاں یہ سہولت بہم میسر ہے وہاں وہاں گھروں سے بھاگنے کی زحمت کوئ نہیں کرتا۔ اے کاش، جب آدم اور حوا کو زمین پر نا فرمان کہہ کر بھیجا گیا تھا تو ایک ٹیوب ویل بھی بھیج دیا جاتا اس سے ہابیل قابیل کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ جاتے اور ہمیں بھی اس وقت اس مسئلے کا سامنا نہ ہوتا۔ یعنی ہمارے نوجوان گھروں سے بھاگ کر شادیاں نہ کرتے۔ صرف اسی انکشاف پر انکی انگلیاں نہیں رکتیں۔ بلکہ وہ روائت پسندوں کی اس بات کو دہراتے ہیں کہ عورتیں تو ہوتی ہیں ریا کار، اور جیسے ہی انہیں موقع ملتا ہے وہ اپنی تخلیق میں موجود برائیوں کو سامنے لے آتی ہیں۔ مختصراً یہ کہ عورت کی تخلیق بس برائ کے خمیر سے اٹھائ گئ ہے۔ خیر، یہ وہ چیز ہے جو انہوں نے اپنی زندگی کے سفر میں مختلف مراحل سے گذر کر سیکھی ہو گی۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ انکے چاہنے والوں میں چند ایک کے علاوہ سب انکے عظیم خیالات کو سراہتے ہیں۔ ان میں سے بھی چند کو صرف یہ اعتراض ہے کہ بات کہنے کا انداز مناسب نہیں۔ اس غضب کی بات کو ذرا مناسب الفاظ میں کہا جاتا تو----------۔
اول تو میں ان سے یہ پوچھنا چاہونگی ہمارے صدر صاحب کے بارے میں کیا خیال ہے جب وہ اپنی مرحومہ بیگم کی تصویر گلے میں لٹکائے بیرون ملک امداد کی درخواست کرتے نظر آتے ہیں۔ اور پھر نیو یارک کے ایک فلیٹ کے قصے-----ریاکاری کی مثالیں اگر آپ ڈھونڈنے نکلیں تو شاید آپکی صنف کا کوئ مقابلہ نہ کرسکے۔ جب لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ عورت تھی جس کی وجہ سے ہم جنت سے نکلے تو نا انصافی کا پہلا بیج وہاں بویا جاتا ہے۔اس سے ملتے جلتے تمام بیانات یہودیوں اور عیسائیوں کے ذرائع سے حاصل کر کے ہماری تفسیروں میں ڈالے گئے ہیں۔تاکہ پدری نظام کو سپورٹ ملتی رہے۔ ہماری مذہبی کتاب میں اس بہکانے کے متعلق کوئ ہلکا سا اشارہ بھی موجود نہیں۔البتہ رسول للہ جب پہلی وحی کے بعد جب کسی کو اس میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو یہ ایک خاتون ہی ہوتی ہیں۔
آپکے نظام میں یہ معاشرتی کمزوریاں ابھی سے نہیں آئ ہیں۔ بلکہ یہ اس وقت بھی موجود تھیں جب سوہنی کچے گھڑے پر دریا تیر کر پہنچ رہی تھی، جب ہیر رانجھے کی بانسری سن رہی تھی اور جب صاحباں اپنے مرزا کے ساتھ بھاگنے کے تیار کھڑی تھی۔ ان کہانیوں کا دلچسپ عنصر یہ ہے کہ یہ سب شادی شدہ خواتین کہی جاتی ہیں۔ انہیں گھڑے ہوئے قصے کہا جا سکتا ہے لیکن ایسے قصے اس دور کے مزاج اور سوچ کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا کہ ٹیوب ویل وجود میں نہیں آیا تھا شاید اسی لئے ان برائیوں کو اپنے پیر جمانے کے موقع مل گیا۔
میرا تعلق اس شہر سے ہے جسے ایک عورت مائ کولاچی کے نام سے بسایا گیا۔ اپنے ساتھی بلاگر کی معلومات میں ، میں بھی کچھ اضافہ کرنا چاہونگی کہ اسی زمین سے ماروی اور سسی جیسی عورتوں نے جنم لیا۔ شاید آپکے علم میں ہو کہ ماروی ایک سال تک اپنے شوہر سے الگ بادشاہ کے محل میں رہی مگر اس نے اس محل میں رہنے سے انکار کر کے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے پر ترجیح دی۔ اسکے بیحد اصرار پر جب وہ واپس آئ تو بعض روایات کے تحت اسے اپنی پاکیزگی ثابت کرنے کے لئے ایک آزمائسشی امتحان سے گذرنا پڑا۔ جبکہ سسی اپنے محبوب شوہر سے ملنے کی کٹھنائیوں سے گذرتے ہوئے مر گئ۔ دنیا کی تاریخ اور ادب جو کہ بیشتر مردوں نے لکھا ہے اس میں بھی ایماندار اور غیر جانبدار مردوں کے لکھے ہوئے الفاظ عورتوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ اگر عورت صرف ریاکاری اور جسمانی تعلق کے لئے ہر کام کر گذرنے والی مخلوق کا نام ہوتا تو آج اقبال فاطمہ بنت عبداللہ پر نظم نہ لکھتے۔ یہی نہیں فاضل قلمکارجب چالیس سالہ مردوں کےحیات کے گوشوں پر سے پردے اٹھاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ خود کسقدر فیوڈل نظام کی سوچوں کے زیر اثر ہیں۔
ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ اسی ڈیڑھ کروڑ سے زائد آبادی والے کراچی میں یہ واقعات بہت کم سننے میں آتے ہیں۔ جبکہ یہاں ٹیوب ویل بھی نہیں ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ روزانہ لاکھوں مرد اور عورت صبح اپنے گھروں کو چھوڑتے ہیں اور نو دس گھنٹے گذار کر اپنے گھروں کو واپس پہنچتے ہیں۔ اچھی خاصی خواتین کے شوہر شہر یا ملک سے باہر رہتے ہیں۔ نو جوان لڑکیاں بلا کھٹکے ادھر ادھر بازاروں، تعلیمی اداروں، ملازمتی مقامات اور تفریح کے لئے اپنے مرد رشتے داروں کے تحفظی ساتھ کے بغیر آتی جاتی ہیں۔ ان میں سے بیشتر اپنے والدین کی مرضی سے شادی کرتی ہیں اور شادی شدہ جوڑوں کی اکثریت ایک مطمئن زندگی گذارتی ہے۔ یہاں اگر آنر کلنگ کے واقعات سنائ بھی دیتے ہیں تو انکا تعلق شاید ہی یہاں بسنے والی اکثریتی طبقے سے ہو۔ اب یہاں ٹیوب ویل نہ ہونے کے باوجود ایسا کیوں ہے۔ اسپر کوئ کچھ روشنی ڈالنا پسندکرے گا۔ یا ابھی آپ اسی قسم کا کوئ چٹخارے دار بلاگ پڑھ رہے ہیں۔


ڈرامہ بری
آنر کلنگ-۱
آنر کلنگ-۲
مرکزی خیال ماخوذ

Thursday, August 6, 2009

قصہ ایک دودھ والے کا

ِ
پہلے تو میں آپ کو اطمینان دلادوں کہ اس قصے کا دودھ والوں کی ملاوٹ سے کوئ تعلق نہیں۔ نہ ہی آپ مجھے اس قسم کے جملے لکھ کر بھیجنے میں اپنا وقت ضائع کریں کہ باجی، دودھ والوں سے کہیں کہ وہ کوٹری کے اسطرف والی نہر سے پانی ملایا کریں۔ وہاں پلا مچھلی بھی آتی ہے۔ اور اکثر مینڈک نکلنے کے بجائے کبھی کبھی مچھلی بھی نکل آئے تو کیا حرج ہے۔ تو ان باجی کادودھ والوں تک ایسی کوئ فرمائش پہنچانے کا ارادہ نہیں۔ بعد میں وہ پلا مچھلی کی قیمت بھی دودھ میں شامل کر دیں گے تو یہ سب لوگ کہیں گے کہ ہم دودھ والوں سے کمیشن کھارہے ہیں۔
جیسا کے عنوان سے ظاہر ہے کہ یہ صرف ایک دودھ والے کا قصہ ہے اور انکی باقی کمیونٹی سے اسکا کوئ تعلق نہِں۔ مزید یہ کہ اگر آپ کو دودھ والے اور طوطے کےدرمیان ہونےوالی گفتگو سن کر بڑی ہنسی آتی ہے تو میں معذرت کے ساتھ یہ کہنا چاہونگی کہ پوسٹ کے لمبا ہوجانے کے ڈر سے اسے یہاں پھرنہیں لکھا جا سکتا۔ آج آپ کچھ نئ باتوں پر ہنسنے کی کوشش کریں۔ زیادہ کمزور دل احباب کا دل بھر آئے تو رو بھی سکتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے میں یہ بھی واضح کردوں کہ میں روشن خیال ہونے کے باعث صرف ڈسپوزیبل ٹشو پیپر استعمال کرتی ہوں اور اس نازک موقع پر جیسا کہ روایت ہے آپ کو کوئ بھی رومال عطا کرنے سے قاصر ہوں۔ ویسے بھی مجھے معلوم ہے کہ آپ اس سے صرف آنسو نہیں صاف کریں گے بلکہ سڑکیاں بھی ماریں گے۔کیا کہا، مگرمچھ کے آنسو بہانے میں ناک سڑکتی نہیں ہے۔ میں اس وقت بحث نہیں کرنا چاہتی۔ کیونکہ اس ساری بحث سے پہلے ہی اس قصے کا حسن ختم ہو رہا ہے۔کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کوئ محکمہ ء تحفظ حسن و جمالیات بھی ہونا چاہئیے۔
وہ کراچی کی ایک حسین جولائ کی سہ پہر تھی۔ کراچی میں جولائ ہمیشہ حسین ہوتا ہے اس وقت بھی جب جولائ نہیں ہوتا تھا۔ خیر، موسم کی دلداری کے لئیے میں نے سوچا کہ کچھ دوستوں سے ملا جائے۔قرعہ ءفال ایک ایسی دوست کے نام نکلا جن کی دو بہینیں اور تھیں۔ اتنی ساری لڑکیاں ہونگیں۔ ادھر کی غیبت، ادھر کے تبصرے، کچھ نئ خبرِیں، کچھ پرانی خبریں تازہ بگھار کے ساتھ، خوب چیں پیں ہوگی کتنا مزہ آئے گا۔ میں نے تصور میں ایسے ہی معصوم سپنے سجائے۔ نہیں معلوم تھا کہ ایک دودھ والا ان سب سپنوں کو روندنے کے لئے تیار بیٹھا ہے۔ اب وہاں پہنچتی ہوں تو کیا دیکھتی ہوں ۔ ساری قوم جیسےایک عالم خواب میں ہے۔سب سے پہلے سب سے چھوٹی والی داخل ہوئیں۔ بنّا کہہ رہی ہیں آج انکی باری ہے۔ اور میں بتا دوں میں تیار ہوں اور اب میرے علاوہ کوئ دودھ لینے نہیں جائے گا۔ مجھے ذرا جھٹکا لگا۔ دل میں اپنے گھر والوں کو برا بھلا کہا۔ ایک ہمارا گھر ہے، بیچارا بیل بجا بجا کر تنگ آجاتا ہے ہر
شخص جو کام کر رہا ہوتا ہے اسی میں مصروف رہتا ہے زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔ ابھی دو دن
پہلے وہ دھمکی دے چکا تھا کہ اگر اب دوسری بیل پر کوئ نہ آیا ےتو وہ قیامت تک اپنی شکل نہیں دکھائے گا۔ اتنی بھیڑ میں کسے انکی شکل دیکھنے سے دلچسپی ہوگی۔ کسی گل محمد نے یہ دھمکی بھی اڑادی۔

چلیں، اتنی دیر میں بنّا بھی لال پیل ہوتی آگئیں۔ چھوٹے ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ تم دوسروں کی باری نہ آنے دو۔ میری دوست نے دونوں کو دیکھا اور دانت پیسے۔ اور بڑے ہونے کا یہ مطلب ہے کہ ہر دفعہ میں قربانی کا بکرا بنی رہوں۔ میں ہکا بکا ایک کے بعد ایک کی صورت دیکھتی ہوں۔ ہم بھی اپنے گھر میں اسی طرح ہر تھوڑے دن بعد حقوق کی جنگ لڑتے ہیں۔ لیکن اس سے بالکل الٹ مقصد کے لئے۔ 'میں جاتی ہوں ہر دفعہ دودھ لینے کے لئے'۔ 'تین دن سے تو میں لے رہی ہوں۔ آپ نے روز ازل ہی یہ فریضہ انجام دیا ہوگا'۔ 'یہ آپ کس روز ازل کی بات کر رہی ہیں۔ ابھی پچھلے پورے ہفتے یہ میں تھا جو خدمت کرتا رہا ہوں'۔ اس قسم کے سارے ڈائیلاگ ذہن میں گڈ مڈ ہونے لگے۔
بیساختہ منہ سے نکلا تم لوگ کتنے عظیم ہو اور ایک ہم ہیں خودغرض، ایکدوسرے کو طعنوں سے مار ڈالنے والے، ذرا جو ہمارے اندر مل بانٹ کر کام کرنے کی عادت ہو۔ یا احساس ذمہ داری۔ آخر ہم ایسے کیوں ہیں۔ چندا میری دوست ایک ادا سے بولیں، تمھارا دودھ والا کیا اتنا گلفام ہے جتنا ہمارا ہے۔ کیا اسے دیکھ کر آپ کے چہرے پر اتنی رونق آجاتی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے۔اور جس کے بعد غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے کہ
لو، ہم مریض عشق کے بیماردار ہیں
اچھا اگر نہ ہو تو مسیحا کا کیا علاج
میرا منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا اگر انہوں نے توجہ نہ دلائ ہوتی کہ کہ جولائ اتنا حسین ہوتا ہے کہ مکھیاں بھی بڑی سیلانی ہوجاتی ہیں، کچرے کے ڈھیر اور ہمارے منہ میں خاص فرق روا نہیں رکھتیں۔بنّا نے چندا سے کہا کہ آج وہ کھڑکی سے دیکھ لیں کیونکہ آج کے دن بنّا کے حق پر کوئ ڈاکا نہیں ڈال سکتا۔ چندا کو شدید غصہ آیا، کھڑکی سے کیا نظر آتا ہے 'پیٹھ۔' ۔ اور وہ غصے میں بھری کچن میں چلی گئیں غصہ خالی کر کے کچھ کھانا بھرنے کے لئے۔ بعض لوگ کچھ کھا کر غم غلط کرتے ہیں بالخصوص وہ جو دوسروں کو کچھ ایسا کھلانے کی سکت نہیں رکھتے مثلاً مار، جوتے، ڈانٹ۔ بیل بجی، بنّا دروازے پر دودھ کی بالٹی پکڑے تیار کھڑی تھیں۔ 'آج اس نے پیلا کرتا پہنا ہوا ہے'۔ انہوں نےدروازے میں موجود سوراخ سے جھانکتے ہوئے سرگوشی کی اور دروازے کا پٹ تھوڑا سا کھول دیا۔ چھوٹی نے اپنا سوجا ہوا چہرہ دیوار کی طرف کر لیا۔میں کھڑکی پر جا کر کھڑی ہوگئ، یہاں سے منگھوپیر کی پہاڑیوں پر آباد گھروں کی روشنیاں بہت اچھی لگتی ہیں۔ لیکن دن کے وقت کہاں یہ منظر نظر آسکتا ہے۔ویسے چندا ٹھیک کہہ رہی تھی کھڑکی سے تو اسکی صرف پیٹھ نظر آتی ہے۔ ایک بات اور، جولائ کے حسین مہینے میں پیلا رنگ اتنا برا نہیں لگتا۔
کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ محکمہء تحفظ حسن و جمالیات بھی ہونا چاہئیے۔ پھر خیال آتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا

Tuesday, August 4, 2009

صلائے عام-۲

جن بچوں کو اسکول کی فیس یا کتابوں کے سلسلے میں پریشانی ہے۔ وہ بغیر کسی جھجھک کے ان نمبروں پر رابطہ کریں۔

03463525202, 03332286189, 03332365362

یہ درخواست معروف گلوکارشہزاد رائے کے ٹرسٹ زندگی کی طرف سے کی گئ ہے۔ انکا کہنا ہے کہ نہ صرف وہ فیس میں مدد کریں گے بلکہ کتابیں مفت فراہم کی جائیں گی۔قارئین سے مزید درخواست ہے کہ اس پیغام کو جہاں تک ممکن ہو پہنچا دیں






Sunday, August 2, 2009

مجھے تم سے محبت ہے

مجھے لغات پڑھنے کا شوق ہے۔ اکثر اوقات اس پر ہنس دیتے ہیں احباب۔ لغت کوئ پڑھنے کی چیز ہے۔ یہ تو صرف اس وقت استعمال کرتے ہیں جب کسی لفظ کا مطلب نہ سمجھ میں آرہا ہو۔ لیکن میرے لئے لغت چہار اطراف پھیلی کائنات کی طرح ہے۔ میں اسے بہت دیرتک پڑھ کر بھی بور نہیں ہوتی۔
لفظ پڑھنا تو میری عادت ہے
تیرا چہرہ کتاب سا کیوں ہے
میں اس میں اتنی ترمیم چاہتی ہوں کہ تیرا چہرہ لغات سا کیوں ہے۔ ابھی ابھی مجھے یہ جان کر خوشی ہوئ کہ لاطینی امریکہ کے نوبل انعام یافتہ ادیب گبرئیل گارسیا مارقیس بھی ہر صبح اٹھ کر لغت کےدو تین صفحے پڑھتے تھے۔ یقین آگیا کہ دنیا کے عظیم دماغ ایک طرح سوچتے ہیں۔ اسی یقین پر میں بلاشبہ اگلے تیس سال آرام سے لکھ سکتی ہوں۔
اور آج اس یقین کا پہلا دن ہے۔
گبرئیل گارسیا نے یونیورسٹی میں قانون اور صحافت میں تعلیم حاصل کی۔ صحافی کی حیثیت سے خاصہ کام کیا۔ لیکن انکی وجہ ء شہرت انکی وہ تحریریں بنیں جن کا تعلق فکشن سے ہے۔ تنہائ کے سو سال اور ہیضے کے دنوں میں محبت انکے دو مشہور ناول ہیں۔ جس میں سے انکے ناول تنہائ کے سو سال کو نوبل انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔ اس ناول کے اردو میں تراجم ہو چکے ہیں۔ناقدین کی نظر میں زینت حسام کا کیا گیا ترجمہ اصل سے زیادہ قریب ہے۔ اتفاق سے مجھے ان میں سے کوئ ترجمہ پڑھنے کا موقعہ نہیں ملا۔ میں نے اسکا انگریزی ترجمہ پڑھا ہے۔
انکے کام سے قطع نظر میں اس وقت ان سے منسوب ایک ایسی نظم پیش کرنا چاہ رہی تھی جو انکے نام سےلاطینی امریکہ کے اخباروں میں چھپی۔ بعد میں یہ بات ثابت ہوئ کہ یہ کسی غیر معروف ادیب کی نظم ہے۔ مارقیس نے اسکے بارے میں خاموشی اختیار کی۔ نظم کا عنوان ہے۔

کٹھ پتلا

اگر ایک لمحے کے لئے خدا یہ بھول جائے کہ میں کپڑے اور گودڑ کی گڑیا ہوں اور مجھے زندگی کی ایک رمق دے دے تو شاید میں وہ سب نہ کہہ سکوں جو میں سوچتا ہوں، مگر میں جو کہتا ہوں یقیناً سوچ کر کہوں گا۔
میں چیزوں کی قدر اس لئے نہیں کرونگا کہ انکی قیمت کیا ہے، بلکہ اس لئے کہ ان کے معنی کیا ہیں۔
میں کم سوءونگا، خواب زیادہ دیکھوں گا۔ مجھے معلوم ہےکہ ہم ایک منٹ کے لئے بھی آنکھیں بند کرتے ہیں تو روشنی کے ساٹھ سیکنڈ سے محروم ہوجاتے ہیں۔
میں سنوں گا جب دوسرے بولیں گے اور میں عمدہ چوکلیٹ آئس کریم کا کس طرح مزہ لوں گا۔
اگر خدا مجھے زندگی کی ایک رمق بخش دے تو میں سادہ کپڑے پہنوں گا، اپنے آپ کو سورج کے سامنے ڈھیر کر دوں گا، صرف اپنے بدن کو نہیں روح کو بھی کشادہ کروں گا۔
میرے خدا، اگر میرا دل ہوتا تو میں برف پر اپنی نفرت تحریر کر کے سورج نکلنے کا انتظار کرتا۔
وان گاف کے خواب کے ساتھ میں ستاروں پر بینڈیٹی کی ایک نظم مصور کر دیتا اور سیراٹ کا گیت چاند کے لئے رومانی نغمہ ہوتا۔
اپنے آنسوءوں سے میں گلابوں کو پانی دیتا، انکے کانٹوں کا درد محسوس کرتا اور انکی پنکھڑیوں کے مجسم بوسے------میرے خدا اگر میرے پاس زندگی کی بس ایک رمق ہوتی---۔
میں کوئ دن ایسا نہ جانے دیتا جس میں ان لوگوں سے جن سے مجھے محبت ہے، یہ نہ کہتا کہ مجھے ان سے محبت ہے۔
میں ہر عورت اور مرد کو یہ باور کراتا کہ وہی میرے سب سے پسندیدہ لوگ ہیں اور میں عشق کے عشق میں مبتلا ہو کر زندہ رہتا۔
میں مردوں پر یہ ثابت کر دیتا کہ انکا یہ خیال کسقدر غلط ہے کہ وہ بوڑھے ہونے کے ساتھ محبت میں گرفتار نہیں ہو سکتے-----یہ جانے بغیر کہ وہ بوڑھے جبھی ہوتے ہیں جب محبت میں گرفتار ہونا بند کردیتے ہیں۔
ایک ایک بچے کو میں پروں کا تحفہ دیتا مگر انہیں اڑنا خود سیکھنے کے لئے چھوڑ دیتا۔ بوڑھیوں کو میں سکھاتا کہ موت بڑھاپے سے نہیں بلکہ بھول جانے سے آتی ہے۔ میں نے اتنا کچھ سیکھا ہے تم لوگوں سے-----
میں نے یہ سیکھا ہے کہ ہر ایک پہاڑ پر چوٹی پر رہنا چاہتا ہے، یہ محسوس کیے بغیر کہ سچی خوشی اس راستے سے آتی ہے جس سے ہم اونچائ پر چڑھتے ہیں۔
میں نے یہ سیکھا ہے کہ جب ایک نو مولود بچہ اپنے باپ کی انگلی کو اپنی ننھی منی مٹھی میں دباتا ہے تو اسے ہمیشہ کے لئے اپنا بنا لیتا ہے۔
میں نے یہ سیکھا ہےکہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو بلندی سے اسی وقت دیکھنے کا حق رکھتا ہے جب کھڑے ہونے میں اسکی مدد کر رہا ہو۔ میں نے اتنی بہت سی باتیں سیکھی ہیں تم لوگوں سے مگر انجام کار ان میں سے زیادہ تر باتیں میرے کسی کام نہ آئیں گی اسلئے کہ جب وہ مجھے اس سوٹ کیس میں رکھ رہے ہونگے تو بد قسمتی سے میں مر رہا ہوں گا۔
یہ ترجمہ غالباً آصف فرخی نے کیا ہے کیونکہ اس پر انکا نام نہیں لکھا ہے۔ میں نے اسے انکی زیر ادارت چھپنے والے پرچے دنیا زاد کی دوسری کتاب سے لیا ہے۔ آصف فرخی اردو ادب کی دنیا میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں اور اپنی ادبی خدمات کے سلسلے میں تمغہ ء امتیاز حاصل کر چکے ہیں۔

آصف فرخی

گبرئیل گارسیا مارقیس

نوٹ؛ جاوید گوندل صاحب کی توجہ دلانے پر گبرئیل گارسیا مارقیس کے نام کا تلفظ صحیح کر دیا گیا ہے۔



Saturday, August 1, 2009

مشرف تو ہے ناں

جب میں کہتی ہوں کہ مجھے مودودی صاحب کی تفہیم القرآن بے حد پسند ہے اور انکی کتاب جس پر کچھ لوگ خاصے چیں بہ جبیں ہوتے ہیں، خلافت اور ملوکیت، وہ مجھے خاصی زبر دست کتاب لگتی ہے۔ تو سب لوگ تو نہیں لیکن زیادہ تر لوگ مجھے جماعت اسلامی کا بندہ سمجھیں گے۔ وہ لوگ جو بہ نفس نفیس میرے ساتھ موجود ہونگے حیرت سے کہیں گے کہ آپ حلئیے سے تو بالکل جماعتی نہیں لگتیں۔ پھر بھی ایسا ہے۔ ارے جناب ، جماعت یوں، جماعت ووں۔ مجھے انکی بات پہ مسکرانا پڑتا ہےکہ تھوڑی دیر بعد وہ مجھے کسی اور چیز کی اصلیت سے واقف کرا رہے ہونگے یا ہونگیں۔
جب میرے منہ سے نکل جاتا ہے کہ ایم کیو ایم کے وجود میں آنے کی بالکل ٹھوس وجوہات ہیں اور اگر یہ ضیا الحق کے زمانے میں وجود میں نہ آتیں تو شہید بے نظیر، یا آپکے نواز شریف کے زمانے میں آجاتی۔ ان وجوہات کو ختم کئیے بغیر اسے پیدا ہونے سے کوئ نہیں روک سکتا تھا۔ یہ سنتے ہی احباب مجھے طعنے دینے لگیں کہ یہ ہیں وہ جو یہاں آکر نواب بنے بیٹھے ہیں۔ یہ بات کہتے ہوئے یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ اگر کچھ لوگ نواب بنے بیٹھے ہیں تو انہوں نے اسی سرزمین پر بھوکے رہ کر کر لالٹین کی مدھم روشنی میں دن رات محنت کرکے اپنے شب وروز کو سنوارا ہے۔ انہیں لیموں کے چھلکوں سے مندروں کی گھنٹیاں صاف کرنے کے منظر دکھائ دیتے ہیں۔ حالانکہ جو وہاں رہتے ہیں ان میں سے کسی کو میں نے گھنٹے اور گھنٹیاں صاف کرتے نہیں دیکھا۔ البتہ یہاں لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے کے لئے جوتے صاف کرتے اور گھنٹیاں بجاتے ضرور دیکھا ہے۔ ہاں تو میں کہہ رہی تھی ان باتوں پر مجھے فوراً سماج دشمن عناصر میں ڈالکر غدار وطن میں شامل کر دیا جائے گا۔ کیونکہ اس ارض پاک کی محبت میں گھلنے والے اور اس کی بلندی سرفرازی میں اپنے خون کو پسینہ بنانے کی سعادت صرف انہیں حاصل ہے۔
اگر میں مروجہ مذہبی اصولوں سے اختلاف کروں جنہیں میں سمجھتی ہوں کہ ایک خاص طبقے نے لوگوں کو مذہب سے متنفر کرانے اور اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے تشکیل دیا ہے تو لوگ میرے عقائد کی تحقیق پر لگ جاتے ہیں۔اور جناب میرےسائنس سے متعلق اس تھیسیس کو جسکے متعلق میں آپ سب لوگوں کو کچھ بتانا ضروری نہیں سمجھتی اسے کھوج نکالتے ہیں اور اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ اسکے آغاز پر بسماللہ اور ایک قرآنی آیت کا حوالہ بمعہ ترجمہ کیسے موجود ہے یہ تھیسس ملک سے باہر ایک جرمن اور ایک جاپانی سائنسدان کے پاس اس غرض سے گیا کہ وہ تصدیق کر دیں کہ اس تھیسس کو پی ایچ ڈی کی ڈگری مل سکتی ہے ہا نہیں۔ یہ باہر کے غیر مسلم عقائد کے سائنسدان بھی اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ بھلا سائنس کے تھیسس پر اپنے عقائد کا لیبل کیوں چسپاں کیا جاتا ہے۔ تو انہیں شنید ہوں کہ ایسے مواقع پر کام میں لانے کے لئیے جب خدا سے زیادہ بندوں کو اسکی ضرورت ہوتی ہے۔ ویسے انکی اس انتھک محنت کا شکریہ، میں خود بھی بھول گئ تھی کہ اس میں کتنے صفحے ہیں۔ آپ تو تجسس، تحیر اور تہمت سبھی مراحل سے شادمانی سے گذر گئے۔
اگر میں معاشرے میں موجود ناانصافیوں کو خواتین اور بچوں کے حوالے سے بیان کرنا چاہوں تو میری تحریر کو مشرف کی پھیلائ ہوئ بےحیائیوں اور آزدی اظہار رائے سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ مشرف سے پہلے عصمت چغتائ، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی اور اسی قبیل کے دوسرے لکھنے والوں کے نام ان لوگوں کے ذہنوں سے محو ہوجاتے ہیں۔ اب جب کہ وہ لوگ مزید لکھنے کے قابل نہیں رہے تو ہماری بیان کی سرزمین کو بنجر ہوجانا چاہئیے یا پھر ان موضوعات پر سوائے مردوں کے کسی اور کو لکھنے کی اجازت نہیں۔ کیونکہ وہ بے حد حیا دار طریقے سے لگتے ہیں اور اسے پڑھ کر نہ صرف جذبہ ء مسلمانی تازہ ہوتا ہے بلکہ بڑا مزہ آتا ہے۔خاص طور پر نفسانی مزہ۔

اگر میں یہ کہوں کہ جسم فروشی انسانی تاریخ کا سب سے پرانا پیشہ ہے اور یہ پاکستان میں بھی ہر زمانے میں ایک ہی شرح سے موجود رہی جبھی تو منٹو سمیت اردو کے ہر بڑے لکھنے والے نے انکے متعلق لکھا اور یہ دراصل مشرف کی پھیلائ ہوئ بےحیائیوں کا حصہ نہیں ہے۔ تو مجھے فحاشی پھیلانے والوں کا ایجنٹ سمجھ لیا جائے گا۔ اور مشرف کے حصے میں سو گالیاں الگ سے۔

اگر میں کہوں کہ شراب پینے والے بھی ہمارے معاشرے میں ہمیشہ اسی رفتار سے موجود رہیں ہیں۔ حتی کہ ہماری تاریخ کے ایک بڑے نام سید احمد شہید کو کسی غیر مسلم نے شہید نہیں کیا تھا بلکہ جب وہ بالا کوٹ کے علاقے میں اسلامی شریعت نافذ کرنے کے عمل سے گذر رہے تھے تو شراب پر پابندی لگانے کی وجہ سے وہاں پر ایک طبقہ انکے سخت خلاف ہو گیا تھا۔ جس نے انکو ختم کرکے دم لیا تو نہ صرف میرے خلاف حد جاری ہوجائےگی بلکہ شاید یہ خیال کیا جائے گا کہ میرا اس کی خرید و فروخت سے کوئ تعلق ہے۔ مشرف کے حصے میں ہزار گالیاں الگ سے۔
حالانکہ امیر مینائ کہہ گئے ہیں کہ
کیا ہند میں کمی مے و معشوق کی امیر
شیراز جائیے نہ خراسان جائیے

حضرت علی کا ایک مشہور قول ہے کہ یہ مت دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے۔ مگر نہیں جناب یہ بھی ایک ہمارا عمومی مزاج ہے کہ ہم پہلے کہنے والے کو ایک ٹھپہ لگائیں گے۔ اور پھر درے۔ پھر ایکطرف اسے پھینک کر کہیں گے لو جی میں نےتو اپنے حصے کا کام کردیا۔ اب باقی سب چھتر لگاءو اس لعنتی کوایسے کہ اسکی تشریف کیا اسکی روح تک لال ہو جائے۔ ایسے بدعقیدہ اور مصیبتی لوگ اب تک ہماری صفوں میں گھسے ہمارے ساتھ مکاری کر رہے تھے۔ او جی انکا تو ماضی حال مستقبل یہی ہے۔ مزید گالیاں۔ چونکہ اس وقت مشرف آسانی سے میسر ہے تو ای بہانے لاکھ پھر اس شیطان کو۔۔
اگر میں ان سب صورت حالات سے بچنا چاہتی ہوں تو مجھے ہر وقت اپنی باتوں میں ایک مصنوعی جذبے کو شامل رکھنا چاہئیے۔ مجھےانکی پیشانی پر نظر رکھنی چاہئیے۔ اور اس پہ نمودار ہونے والی لائنوں کے حساب سے اپنے آپ کو ظاہر کرنا چاہئیے۔ کیونکہ وہی تو ہیں سچے اور پکے مسلمان، اور اس ملک کو تا ابد قائم رکھنے والے۔
میں تو سمجھتی ہوں کہ ایک نظام وضع ہونا چاہئیے اور پاسپورٹ کی طرز پر ایک سرٹیفیکیٹ جاری ہونا چاہئیے جس میں لکھا ہو کہ انکے بنیادی مذہبی عقائد اور پاکستان سے انکی محبت کو دیکھ لیا گیا ہے اور یہ تصدیق کی جاتی ہے کہ یہ ہمارے منظور شدہ عقائد اور محبت کی جانچ سے قریب تر ہیں۔ فی الحال اگلے تین برسوں تک ان میں کسی واضح تبدیلی کے آثار نہیں۔ تین سال بعد حامل سند کو دوبارہ اس جانچ سے گذرنا ہو گا ۔ اس مدت کے بعد یہ بیان مستند نہیں رہے گا۔
کسی پر زیادہ شبہ ہوتو اسے یہ سرٹیفیکیٹ بہت کم مدت کے لئیے دیا جائےاور جو ان پر پورے نہ اتریں انکے لئیے پہلے ہی عرض کیا جا چکا ہے۔
جب تک یہ نہ ہو ہم اپنی زبان صاف کرتے ہیں۔ کیوں لالے کی جان، مشرف تو ہے ناں۔
سید احمد شہید
سید احمد شہید اور افغان

need help

Dear fellows.
Somhow, I lost urdu support on my computer. Muhammad Ahmad guided me and gave me a link of urdu Mehfil. I followed that procedure but failed. Urdu did not appear by clicking the another language key.
So, if anybody faced this problem or know solution will be most welcomed.
Look forward to your kind help, its Aniqa :)