Monday, August 10, 2009

شبستان وجود

اگر غصے اورپیار کو دو فنکشنز سمجھ کر انسان کو انکے تیسرے محور پہ ڈالکر ایک گراف بنایا جائے تو دنیا میں دو طرح کے انسان نکل آئیں گے۔ اس جملے کی بناوٹ میں کوئ حسابداں میری مدد کرسکتے ہیں۔ کیونکہ حساب میرا بنیادی مضمون نہیں۔ ہاں تو ،ان میں سے ایک طرح کے انسان وہ ہیں جنہیں پیار پہ غصہ آتا ہے اور دوسری طرح کے وہ جنہیں غصے پر پیار آتا ہے اور وہ پٹنے اور گالیاں کھانے کے بعد بھی یہیں کہتے ہیں کہ،
مرتا ہوں اس آواز پہ، ہر چند کہ سر اڑ جائے
جلاد کو لیکن وہ کہے جائیں کہ 'ہاں اور'
غصہ ختم ہونے کے بعد فلموں میں محبت بھرے گانے ہوتے ہیں اور پھر اسکے بعد سویا ہوا سماج اٹھ کھڑاہوتا ہے اور انہیں آڑے ہاتھوں لیتا ہے۔ سیدھے ہاتھوں اس لئے نہیں لیتا کہ کہ اسطرح معاملات سیدھے رہتے ہیں۔ اس سے زیادہ تر لوگوں کے صراط مستقیم پر چلنے کے امکانات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس سے فلم میں کلائمکس نہیں پیدا ہوتا۔ اتنی زیادہ پیار محبت دکھانے پر فلم بینوں کو بے حد غصہ آتا ہے۔جس سے ایک چین ری ایکشن پیدا ہوتا ہے جو چپس اور کولڈ ڈرنک بیچنے والوں، سینما ھال کے مالک، ڈائریکٹر اور فنانسر سمیت کسی کو نہیں پسند ہوتا۔ کیونکہ اس سے کچھ اقتصادی مسائل جو کہ بعد میں معاشرتی مسائل میں تبدیل ہوجاتے ہیں، کھڑے ہوجاتے ہیں۔یہ کھڑے ہوجائیں تو قومی ترانہ ختم ہونے کے بعد بھی بیٹھتے نہیں ہیں۔ حتی کہ فلموں پر پابندی لگانی پڑ جاتی ہے۔
لیکن معزز قارئین، جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں اصل زندگی فلموں سے مختلف ہوتی ہے۔ اور یہاں پٹائ لگانےاور گالیاں دینے کے بعد مزید پٹائ اور مزید گالیاں ہوتی ہیں۔ اس عمل میں سماج کے بھی ہوش ٹھکانے آجاتے ہیں اور وہ انہی ٹھکانوں پر پڑا ہائے اوئ کرتا رہتا ہے۔ اور اس وقت کے قریب آنے کی دعا کرتا ہے جب وہ بھی گالیاں اور پٹائ لگانے کے قابل ہوگا۔ہم سب اس بات کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ ڈنڈے اور گالی کے بغیر سماج کو قابو میں نہیں رکھا جا سکتا۔ سماج بھی یہ بات جانتا ہے لیکن اسکے پاس ٹھکائ لگانے والوں کے لئے ڈنڈا نہیں ہے اس مثلث میں سماج صرف گالی سے کام نہیں چلا سکتا۔ وقت کے اس کھیل میں وہ یہ ڈنڈا حاصل کر پائے گا یا نہیں۔ اسکے لئے آپکو کسی تھیٹر جا کر دیکھنےکی ضرورت نہیں۔ اپنی لمبی عمر کی دعائیں مانگیں جس دن سماج کو یہ ڈنڈا ملے گا۔ باہر کی آوازوں سے آپ کو بھی لگ پتہ جائیگا۔ اس وقت تک کچھ لوگ طبلہ سن کر خوش ہورہے ہیں۔ اور کچھ شادیانے بجا کر۔ ہم ان کے ساتھ اپنا وقت گذارتے ہیں۔
اسد محمد خان اسوقت اردو ادب کے افق پر ایک اہم نام ہے۔ انکے افسانوں کے مجموعے 'غصے کی فصل' سے یہ ایک اقتباس آپکی نظروں کی نذر۔
'مردوزی اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ آدمی کا مزاج محبت اور غصے، عقیدت اور نفرت سے مل کر تشکیل پاتا ہے۔ مگر اپنی تہذیب اور تمدنی تقاضوں سے مجبور ہو کے انسان اپنا غصہ اور اپنی نفرت ظاہر نہیں ہونے دیتا، جس سے فتور واقع ہوتا ہے اور نفرت مزاج کی سطح سے نیچے جا کر سڑنے لگتی ہے۔ پھر یہ آدمی کے اندر ہی پلتی بڑھتی ہے۔ آدمی سمجھتا ہے کہ وہ غصے سے پاک ہو چکا ہے اور اسکے مزاج کی ساخت غصے اور نفرت کے بغیر ممکن ہو گئ۔
مردوزی کہتے ہیں، ایسا نہیں ہوتا۔ غصہ آدمی میں ساری زندگی موجود مگر پوشیدہ رہتا ہے۔ تاہم اگر دن کے خاتمے پر اسے ظاہر ہونے، یعنی خارج ہونے کا موقع دیا جائے تو ایکدن ایسا آئےگا کہ آدمی غصے اور نفرت سے پوری طرح خالی ہوجائے گا۔ مردوزی اس کیفیت کو تکمیل کا نام دیتے ہیں ۔
اسیلئے، اسی تکمیل کو پانے کے لئے، مردوزی فرقے کا ہر فرد رات کو حلقے میں بیٹھتا ہے اور چیخ پکار کرکے اپنی دن بھر کی کمائ ہوئ نفرت اور دن بھر کا پالا غصہ خارج کردیتا ہے، اور باقی رات اور تمام دن کے لئے ایک مہذب، مکمل، مہر و محبت سے بھرا ہوا انسان بن جاتا ہے'۔
غصہ بظاہر ایک منفی لفظ لگتا ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک بہت اہم انسانی وصف ہے۔ مثبت طریقے سے استعمال کرنے پرانسان پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹ سکتا ہے۔البتہ مرد ناداں جب تک چاہیں گالی اور ڈنڈے سے کام چلائیں۔ ہیرے کے متعلق سنا ہے کہ وہ دنیا کی سخت ترین چیز ہے۔ مگر اسکی چمک آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے۔

ریفرنس؛
اسد محمد خاں

10 comments:

  1. آخری پیراگراف بھی اسد محمد خاں کے زور قلم کا نتیجہ ہے؟
    یا آپ کے قلم نے شگوفے بکھیرے ہیں؟

    ReplyDelete
  2. اسد محمد خاں آپکی ناہنجاریت پہ بڑا ناراض ہونگے۔ جبکہ میں ایک محفل میں انکے سامنے اس بات کا اظہارکر چکی ہوں کہ کاش وہ وقت آئے جب وہ میری کتابیں ڈھونڈ کرپڑھیں۔ لیکن اسکے لئے مجھے خود بہت پڑھنا ہوگا۔

    ReplyDelete
  3. نہیں ہوتے جی ناراض وہ
    میں خود ان کا بہت بڑا پنکھا، میرا مطلب فین ہوں
    آپ کی کتابیں تو واقعی ڈھونڈ کر پڑھنی پڑیں گی
    اب یہ مت پوچھئے کہ کیوں

    ReplyDelete
  4. ایک کتانب میں نے بھی ڈھونڈھ کر پڑھی تھی اور عنیقہ بی بی بے میرے وہ لتے لئیے تھے کہ آئیندہ شاید ڈھونڈ کر بھی نہ پڑھیں۔

    ReplyDelete
  5. غصہ تو آگ ہے۔ چاہے تو اس پر روٹی پکالو، چاہے تو گھر جلا لو۔ اس معاملہ میں مجھے شہاب صاحب کا فلسفہ زیادہ اچھا لگتاہے۔

    ReplyDelete
  6. جناب جعفر مد ظلہ،
    تضاد جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کروگے
    میں رو رہا ہوں تو ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کروگے
    ابھی تو تنقید ہو رہی ہے مرے مذاق جنوں پہ لیکن
    تمہاری زلفوں کی برہمی کا سوال آیا تو کیا کروگے

    شاعر؛ قابل اجمیری
    جاوید صاحب، پھر تو آپ بہت ساری کلاسک چیزوں سے محروم رہ گئے ہونگے۔
    خرم صاحب، اگر آپ کو یاد ہو تو ضرور تحریر فرما دیں، شہاب صاحب کا فلسفہ۔ جن لوگوں نے نہیں پڑھا ہے۔ ہو سکتا ہے اس سے تحریک پا کر مزید چیزِیں بھی پڑھ ڈالیں۔ کیونکہ یہاں ایسے لوگ بھی آتے ہیںجو میرے خیال سے اپنی عمر کی دوسری دھائ میں ہوتے ہیں تو انہیں بڑا فائدہ ہو گا۔ ساتھ میں مجھ ناچیز کو بھی پہلے پڑھی ہوئ چیزیں یاد آجائیں گی یہ درخواست میری باقی لوگوں سے بھی ہے۔

    ReplyDelete
  7. مجھے تو اس درجہ وقتِ رخصت سکوں کی تلقین کر رہے ہو
    مگر کچھ اپنے لئے بھی سوچا میں یاد آیا تو کیا کرو گے

    کچھ اپنے دل پہ بھی زخم کھاؤ مرے لہو کی بہار کب تک
    مجھے سہارا بنانے والو، میں لڑکھڑایا تو کیا کرو گے

    ReplyDelete
  8. بہت سے خواب دیکھے ہیں، کبھی شعروں میں ڈھالیں گے
    کوئ چہرہ تراشیں گے، کوئ صورت نکالیں گے


    کچھ اور اس طرح ہیں؛
    ابھی تو پاءووں کے نیچے زمین محسوس ہوتی ہے
    جہاں یہ ختم ہوووے گی وہاں ہم گھر بنالیں گے
    یہی ہے ناں تمہیں ہم سے بچھڑ جانے کی جلدی ہے
    کبھی ملنا تمہارے مسئلے کا حل نکالیں گے
    میں دیوار ابد کی سمت مڑ کر دیکھتا ہوں جب
    صدائے غیب آتی ہےتمہیں واپس بلا لیں گے

    سلیم کوثر

    ReplyDelete
  9. اگر عمر کی دوسری دہائی والا اشارہ میری طرف ہے تو
    آپ کے حسن ظن پر نہایت مشکور و ممنون ہوں
    :grin:

    ReplyDelete
  10. اگرچہ کہ یہ بات کہتے ہوئے مجھے شدید افسوس ہے مگر کیا کریں ایسے صدمے بھی آپ جیسے معصوموں کو اٹھانے چاہئیں کہ اس سے تجربہ، مشاہدہ اور علم بڑھتا ہے۔ جس سے تحریر میں نکھار اور سوز پیدا ہوتا ہوتا ہے۔ بات یہ ہے کہ یہاں کچھ اور لوگ بھی ہین جنکی تحریروں سے مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ابھی بیس سال سے چھوٹے ہیں۔ اور درسی کتب کے علاوہ کچھ پڑھنے سے ڈرتے ہیں۔ تو انکا ڈر اور خوف نکالنے کے لئے ٹریلر کے طور پہ کچھ چیزیں ہمارے داناءووں کو ڈالتے رہنا چاہئیں۔ ویسے یہ پہلا موقع تھا کہ آپ میرے ممنون و مشکور ہوئے مگر میری طبیعت کی افتادگی نے مجھے اس سے محروم کردیا۔ بس ایسے ہی ناشکرے لوگ دنیا میں زیادہ ہیں۔
    :)

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ