اگر غصے اورپیار کو دو فنکشنز سمجھ کر انسان کو انکے تیسرے محور پہ ڈالکر ایک گراف بنایا جائے تو دنیا میں دو طرح کے انسان نکل آئیں گے۔ اس جملے کی بناوٹ میں کوئ حسابداں میری مدد کرسکتے ہیں۔ کیونکہ حساب میرا بنیادی مضمون نہیں۔ ہاں تو ،ان میں سے ایک طرح کے انسان وہ ہیں جنہیں پیار پہ غصہ آتا ہے اور دوسری طرح کے وہ جنہیں غصے پر پیار آتا ہے اور وہ پٹنے اور گالیاں کھانے کے بعد بھی یہیں کہتے ہیں کہ،
مرتا ہوں اس آواز پہ، ہر چند کہ سر اڑ جائے
جلاد کو لیکن وہ کہے جائیں کہ 'ہاں اور'
غصہ ختم ہونے کے بعد فلموں میں محبت بھرے گانے ہوتے ہیں اور پھر اسکے بعد سویا ہوا سماج اٹھ کھڑاہوتا ہے اور انہیں آڑے ہاتھوں لیتا ہے۔ سیدھے ہاتھوں اس لئے نہیں لیتا کہ کہ اسطرح معاملات سیدھے رہتے ہیں۔ اس سے زیادہ تر لوگوں کے صراط مستقیم پر چلنے کے امکانات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس سے فلم میں کلائمکس نہیں پیدا ہوتا۔ اتنی زیادہ پیار محبت دکھانے پر فلم بینوں کو بے حد غصہ آتا ہے۔جس سے ایک چین ری ایکشن پیدا ہوتا ہے جو چپس اور کولڈ ڈرنک بیچنے والوں، سینما ھال کے مالک، ڈائریکٹر اور فنانسر سمیت کسی کو نہیں پسند ہوتا۔ کیونکہ اس سے کچھ اقتصادی مسائل جو کہ بعد میں معاشرتی مسائل میں تبدیل ہوجاتے ہیں، کھڑے ہوجاتے ہیں۔یہ کھڑے ہوجائیں تو قومی ترانہ ختم ہونے کے بعد بھی بیٹھتے نہیں ہیں۔ حتی کہ فلموں پر پابندی لگانی پڑ جاتی ہے۔
لیکن معزز قارئین، جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں اصل زندگی فلموں سے مختلف ہوتی ہے۔ اور یہاں پٹائ لگانےاور گالیاں دینے کے بعد مزید پٹائ اور مزید گالیاں ہوتی ہیں۔ اس عمل میں سماج کے بھی ہوش ٹھکانے آجاتے ہیں اور وہ انہی ٹھکانوں پر پڑا ہائے اوئ کرتا رہتا ہے۔ اور اس وقت کے قریب آنے کی دعا کرتا ہے جب وہ بھی گالیاں اور پٹائ لگانے کے قابل ہوگا۔ہم سب اس بات کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ ڈنڈے اور گالی کے بغیر سماج کو قابو میں نہیں رکھا جا سکتا۔ سماج بھی یہ بات جانتا ہے لیکن اسکے پاس ٹھکائ لگانے والوں کے لئے ڈنڈا نہیں ہے اس مثلث میں سماج صرف گالی سے کام نہیں چلا سکتا۔ وقت کے اس کھیل میں وہ یہ ڈنڈا حاصل کر پائے گا یا نہیں۔ اسکے لئے آپکو کسی تھیٹر جا کر دیکھنےکی ضرورت نہیں۔ اپنی لمبی عمر کی دعائیں مانگیں جس دن سماج کو یہ ڈنڈا ملے گا۔ باہر کی آوازوں سے آپ کو بھی لگ پتہ جائیگا۔ اس وقت تک کچھ لوگ طبلہ سن کر خوش ہورہے ہیں۔ اور کچھ شادیانے بجا کر۔ ہم ان کے ساتھ اپنا وقت گذارتے ہیں۔
اسد محمد خان اسوقت اردو ادب کے افق پر ایک اہم نام ہے۔ انکے افسانوں کے مجموعے 'غصے کی فصل' سے یہ ایک اقتباس آپکی نظروں کی نذر۔
'مردوزی اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ آدمی کا مزاج محبت اور غصے، عقیدت اور نفرت سے مل کر تشکیل پاتا ہے۔ مگر اپنی تہذیب اور تمدنی تقاضوں سے مجبور ہو کے انسان اپنا غصہ اور اپنی نفرت ظاہر نہیں ہونے دیتا، جس سے فتور واقع ہوتا ہے اور نفرت مزاج کی سطح سے نیچے جا کر سڑنے لگتی ہے۔ پھر یہ آدمی کے اندر ہی پلتی بڑھتی ہے۔ آدمی سمجھتا ہے کہ وہ غصے سے پاک ہو چکا ہے اور اسکے مزاج کی ساخت غصے اور نفرت کے بغیر ممکن ہو گئ۔
مردوزی کہتے ہیں، ایسا نہیں ہوتا۔ غصہ آدمی میں ساری زندگی موجود مگر پوشیدہ رہتا ہے۔ تاہم اگر دن کے خاتمے پر اسے ظاہر ہونے، یعنی خارج ہونے کا موقع دیا جائے تو ایکدن ایسا آئےگا کہ آدمی غصے اور نفرت سے پوری طرح خالی ہوجائے گا۔ مردوزی اس کیفیت کو تکمیل کا نام دیتے ہیں ۔
اسیلئے، اسی تکمیل کو پانے کے لئے، مردوزی فرقے کا ہر فرد رات کو حلقے میں بیٹھتا ہے اور چیخ پکار کرکے اپنی دن بھر کی کمائ ہوئ نفرت اور دن بھر کا پالا غصہ خارج کردیتا ہے، اور باقی رات اور تمام دن کے لئے ایک مہذب، مکمل، مہر و محبت سے بھرا ہوا انسان بن جاتا ہے'۔
غصہ بظاہر ایک منفی لفظ لگتا ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک بہت اہم انسانی وصف ہے۔ مثبت طریقے سے استعمال کرنے پرانسان پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹ سکتا ہے۔البتہ مرد ناداں جب تک چاہیں گالی اور ڈنڈے سے کام چلائیں۔ ہیرے کے متعلق سنا ہے کہ وہ دنیا کی سخت ترین چیز ہے۔ مگر اسکی چمک آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے۔
ریفرنس؛
اسد محمد خاں
مرتا ہوں اس آواز پہ، ہر چند کہ سر اڑ جائے
جلاد کو لیکن وہ کہے جائیں کہ 'ہاں اور'
غصہ ختم ہونے کے بعد فلموں میں محبت بھرے گانے ہوتے ہیں اور پھر اسکے بعد سویا ہوا سماج اٹھ کھڑاہوتا ہے اور انہیں آڑے ہاتھوں لیتا ہے۔ سیدھے ہاتھوں اس لئے نہیں لیتا کہ کہ اسطرح معاملات سیدھے رہتے ہیں۔ اس سے زیادہ تر لوگوں کے صراط مستقیم پر چلنے کے امکانات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس سے فلم میں کلائمکس نہیں پیدا ہوتا۔ اتنی زیادہ پیار محبت دکھانے پر فلم بینوں کو بے حد غصہ آتا ہے۔جس سے ایک چین ری ایکشن پیدا ہوتا ہے جو چپس اور کولڈ ڈرنک بیچنے والوں، سینما ھال کے مالک، ڈائریکٹر اور فنانسر سمیت کسی کو نہیں پسند ہوتا۔ کیونکہ اس سے کچھ اقتصادی مسائل جو کہ بعد میں معاشرتی مسائل میں تبدیل ہوجاتے ہیں، کھڑے ہوجاتے ہیں۔یہ کھڑے ہوجائیں تو قومی ترانہ ختم ہونے کے بعد بھی بیٹھتے نہیں ہیں۔ حتی کہ فلموں پر پابندی لگانی پڑ جاتی ہے۔
لیکن معزز قارئین، جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں اصل زندگی فلموں سے مختلف ہوتی ہے۔ اور یہاں پٹائ لگانےاور گالیاں دینے کے بعد مزید پٹائ اور مزید گالیاں ہوتی ہیں۔ اس عمل میں سماج کے بھی ہوش ٹھکانے آجاتے ہیں اور وہ انہی ٹھکانوں پر پڑا ہائے اوئ کرتا رہتا ہے۔ اور اس وقت کے قریب آنے کی دعا کرتا ہے جب وہ بھی گالیاں اور پٹائ لگانے کے قابل ہوگا۔ہم سب اس بات کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ ڈنڈے اور گالی کے بغیر سماج کو قابو میں نہیں رکھا جا سکتا۔ سماج بھی یہ بات جانتا ہے لیکن اسکے پاس ٹھکائ لگانے والوں کے لئے ڈنڈا نہیں ہے اس مثلث میں سماج صرف گالی سے کام نہیں چلا سکتا۔ وقت کے اس کھیل میں وہ یہ ڈنڈا حاصل کر پائے گا یا نہیں۔ اسکے لئے آپکو کسی تھیٹر جا کر دیکھنےکی ضرورت نہیں۔ اپنی لمبی عمر کی دعائیں مانگیں جس دن سماج کو یہ ڈنڈا ملے گا۔ باہر کی آوازوں سے آپ کو بھی لگ پتہ جائیگا۔ اس وقت تک کچھ لوگ طبلہ سن کر خوش ہورہے ہیں۔ اور کچھ شادیانے بجا کر۔ ہم ان کے ساتھ اپنا وقت گذارتے ہیں۔
اسد محمد خان اسوقت اردو ادب کے افق پر ایک اہم نام ہے۔ انکے افسانوں کے مجموعے 'غصے کی فصل' سے یہ ایک اقتباس آپکی نظروں کی نذر۔
'مردوزی اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ آدمی کا مزاج محبت اور غصے، عقیدت اور نفرت سے مل کر تشکیل پاتا ہے۔ مگر اپنی تہذیب اور تمدنی تقاضوں سے مجبور ہو کے انسان اپنا غصہ اور اپنی نفرت ظاہر نہیں ہونے دیتا، جس سے فتور واقع ہوتا ہے اور نفرت مزاج کی سطح سے نیچے جا کر سڑنے لگتی ہے۔ پھر یہ آدمی کے اندر ہی پلتی بڑھتی ہے۔ آدمی سمجھتا ہے کہ وہ غصے سے پاک ہو چکا ہے اور اسکے مزاج کی ساخت غصے اور نفرت کے بغیر ممکن ہو گئ۔
مردوزی کہتے ہیں، ایسا نہیں ہوتا۔ غصہ آدمی میں ساری زندگی موجود مگر پوشیدہ رہتا ہے۔ تاہم اگر دن کے خاتمے پر اسے ظاہر ہونے، یعنی خارج ہونے کا موقع دیا جائے تو ایکدن ایسا آئےگا کہ آدمی غصے اور نفرت سے پوری طرح خالی ہوجائے گا۔ مردوزی اس کیفیت کو تکمیل کا نام دیتے ہیں ۔
اسیلئے، اسی تکمیل کو پانے کے لئے، مردوزی فرقے کا ہر فرد رات کو حلقے میں بیٹھتا ہے اور چیخ پکار کرکے اپنی دن بھر کی کمائ ہوئ نفرت اور دن بھر کا پالا غصہ خارج کردیتا ہے، اور باقی رات اور تمام دن کے لئے ایک مہذب، مکمل، مہر و محبت سے بھرا ہوا انسان بن جاتا ہے'۔
غصہ بظاہر ایک منفی لفظ لگتا ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک بہت اہم انسانی وصف ہے۔ مثبت طریقے سے استعمال کرنے پرانسان پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹ سکتا ہے۔البتہ مرد ناداں جب تک چاہیں گالی اور ڈنڈے سے کام چلائیں۔ ہیرے کے متعلق سنا ہے کہ وہ دنیا کی سخت ترین چیز ہے۔ مگر اسکی چمک آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے۔
ریفرنس؛
اسد محمد خاں
آخری پیراگراف بھی اسد محمد خاں کے زور قلم کا نتیجہ ہے؟
ReplyDeleteیا آپ کے قلم نے شگوفے بکھیرے ہیں؟
اسد محمد خاں آپکی ناہنجاریت پہ بڑا ناراض ہونگے۔ جبکہ میں ایک محفل میں انکے سامنے اس بات کا اظہارکر چکی ہوں کہ کاش وہ وقت آئے جب وہ میری کتابیں ڈھونڈ کرپڑھیں۔ لیکن اسکے لئے مجھے خود بہت پڑھنا ہوگا۔
ReplyDeleteنہیں ہوتے جی ناراض وہ
ReplyDeleteمیں خود ان کا بہت بڑا پنکھا، میرا مطلب فین ہوں
آپ کی کتابیں تو واقعی ڈھونڈ کر پڑھنی پڑیں گی
اب یہ مت پوچھئے کہ کیوں
ایک کتانب میں نے بھی ڈھونڈھ کر پڑھی تھی اور عنیقہ بی بی بے میرے وہ لتے لئیے تھے کہ آئیندہ شاید ڈھونڈ کر بھی نہ پڑھیں۔
ReplyDeleteغصہ تو آگ ہے۔ چاہے تو اس پر روٹی پکالو، چاہے تو گھر جلا لو۔ اس معاملہ میں مجھے شہاب صاحب کا فلسفہ زیادہ اچھا لگتاہے۔
ReplyDeleteجناب جعفر مد ظلہ،
ReplyDeleteتضاد جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کروگے
میں رو رہا ہوں تو ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کروگے
ابھی تو تنقید ہو رہی ہے مرے مذاق جنوں پہ لیکن
تمہاری زلفوں کی برہمی کا سوال آیا تو کیا کروگے
شاعر؛ قابل اجمیری
جاوید صاحب، پھر تو آپ بہت ساری کلاسک چیزوں سے محروم رہ گئے ہونگے۔
خرم صاحب، اگر آپ کو یاد ہو تو ضرور تحریر فرما دیں، شہاب صاحب کا فلسفہ۔ جن لوگوں نے نہیں پڑھا ہے۔ ہو سکتا ہے اس سے تحریک پا کر مزید چیزِیں بھی پڑھ ڈالیں۔ کیونکہ یہاں ایسے لوگ بھی آتے ہیںجو میرے خیال سے اپنی عمر کی دوسری دھائ میں ہوتے ہیں تو انہیں بڑا فائدہ ہو گا۔ ساتھ میں مجھ ناچیز کو بھی پہلے پڑھی ہوئ چیزیں یاد آجائیں گی یہ درخواست میری باقی لوگوں سے بھی ہے۔
مجھے تو اس درجہ وقتِ رخصت سکوں کی تلقین کر رہے ہو
ReplyDeleteمگر کچھ اپنے لئے بھی سوچا میں یاد آیا تو کیا کرو گے
کچھ اپنے دل پہ بھی زخم کھاؤ مرے لہو کی بہار کب تک
مجھے سہارا بنانے والو، میں لڑکھڑایا تو کیا کرو گے
بہت سے خواب دیکھے ہیں، کبھی شعروں میں ڈھالیں گے
ReplyDeleteکوئ چہرہ تراشیں گے، کوئ صورت نکالیں گے
کچھ اور اس طرح ہیں؛
ابھی تو پاءووں کے نیچے زمین محسوس ہوتی ہے
جہاں یہ ختم ہوووے گی وہاں ہم گھر بنالیں گے
یہی ہے ناں تمہیں ہم سے بچھڑ جانے کی جلدی ہے
کبھی ملنا تمہارے مسئلے کا حل نکالیں گے
میں دیوار ابد کی سمت مڑ کر دیکھتا ہوں جب
صدائے غیب آتی ہےتمہیں واپس بلا لیں گے
سلیم کوثر
اگر عمر کی دوسری دہائی والا اشارہ میری طرف ہے تو
ReplyDeleteآپ کے حسن ظن پر نہایت مشکور و ممنون ہوں
:grin:
اگرچہ کہ یہ بات کہتے ہوئے مجھے شدید افسوس ہے مگر کیا کریں ایسے صدمے بھی آپ جیسے معصوموں کو اٹھانے چاہئیں کہ اس سے تجربہ، مشاہدہ اور علم بڑھتا ہے۔ جس سے تحریر میں نکھار اور سوز پیدا ہوتا ہوتا ہے۔ بات یہ ہے کہ یہاں کچھ اور لوگ بھی ہین جنکی تحریروں سے مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ابھی بیس سال سے چھوٹے ہیں۔ اور درسی کتب کے علاوہ کچھ پڑھنے سے ڈرتے ہیں۔ تو انکا ڈر اور خوف نکالنے کے لئے ٹریلر کے طور پہ کچھ چیزیں ہمارے داناءووں کو ڈالتے رہنا چاہئیں۔ ویسے یہ پہلا موقع تھا کہ آپ میرے ممنون و مشکور ہوئے مگر میری طبیعت کی افتادگی نے مجھے اس سے محروم کردیا۔ بس ایسے ہی ناشکرے لوگ دنیا میں زیادہ ہیں۔
ReplyDelete:)