اب وقت ملا کہ کچھ تعلیم پر بھی لکھا جائے۔ سب نے اپنے طالب علمی کے زمانے کو یاد کیا۔ فی الحال میں ان خوش نصیبوں میں سے ہوں جنہیں اب سے تین سال پہلے تک بہت مختصر عرصے کے لئے تدریس سے بھی وابستہ رہنے کا موقعہ ملا وہ بھی پاکستان کی سب سے بڑی جامعہ اور ایک اور پبلک یونیورسٹی میں۔ تو میرے پاس پڑھانے کا بھی تجربہ ہے اور اپنے طالب علموں سے آگاہ ہونے کا ایک ذریعہ بھی۔
اس سے پہلے یہ بتادوں کہ طالب علمی کے زمانے میں اسکولوں کی عمارت سے قطع نظر اور ہمارے ٹوٹے پھوٹے نظام کے باوجود کچھ انتہائ اچھے استاد ملے خاص طور پر اسکول کی سطح پر اور پھر یونیورسٹی میں کہ انکی بدولت دماغ کی گرہیں کھل گئیں۔ میری اردو کی اچھائ ساری کی ساری چھٹی سے میٹرک تک ملنے والی اردو کی ٹیچرز پہ جاتی ہے۔ اسلامیات کے استاد نے گیارہ سال کی عمر میں قرآن ہاتھ میں لیکر مختلف آیتوں اورانکے حوالے اور انکے پس منظر دیکھنے کی عادت ڈالی۔ اور سائنس کے ٹیچر نے جستجو کے جذبے کو ہوا دی۔ جبکہ مطالعہ ء پاکستان کی استاد نے تاریخ سے دلچسپی پیدا کرائ۔ کچھ معاشی اور معاشرتی مسائل کی بناء پر کوچنگ سینٹر اور ٹیوشن پڑھنے کی لعنت سے محفوظ رہے اور اس طرح خود سے تلاش کرنے اور کورس کی کتابوں کے علاوہ کتابں پڑھنے کو ملیں۔ اس نے یقین پیدا کیا اپنے آپ پر۔ جہاں استاد اچھے ملے وہاں قدرت نے بھی کچھ خوبیوں سے نوازا تھا ، جنکو میرے اسکول ٹیچرز نے خاصہ ابھارا۔ یہ میری پی ایچ ڈی کے دوران کا قصہ ہے جب میں نے انسانوں کے مکروہ چہرے زیادہ دیکھے۔ لیکن خیر اندھیرا دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ اسکے بغیر روشنی کا احساس صحیح سے نہیں ہوتا۔ اسکا ایک فائدہ یہ ہوا کہ لوگوں سے اور ارد گرد کے ماحول سے توقعات رکھنا چھوڑ دیں۔ جو کچھ ہے وہی ہے۔ اور جو خود کر سکتے ہیں وہی ہوگا۔
بہ حیثیت استاد میرے تجربات بہت دلچسپ رہے۔ کیونکہ شومی ء قسمت مجھے پی ایچ ڈی کرنے کا موقع مل گیا تھا اور وہ بھی ملک کے بہترین ادارے سے تو اب لوگ اس چیز سے خائف ہوتے تھے خاص طور پر وہ لوگ جو اپنی اہلیتوں کو جانتے تھے اور علم سے مقابلے کرنے کی بجائے اپنے بےکار انسانی خواص کا مظاہرہ کرنے لگے۔ نجانے کیوں ہمارے معاشرے میں ذہنی مریض اتنے زیادہ کیوں ہیں۔
اپنے سیکشن کے چودہ ٹیچرز میں سے صرف چار کے متعلق میں کہہ سکتی ہوں کہ وہ انسانوں کی طرح سوچ سکتے تھے جبکہ تین کے متعلق مجھے یقین تھا کہ وہ شیزوفرینیا کے مریض ہیں وہ بھی مکمل طور پر اور ان تین میں سے دو کے ساتھ مجھے تین سمسٹر گذارنے پڑے۔ کوئ اور جونیئر ٹیچر انکے ساتھ جانے کو تیار نہ تھا اور میں کسی بھی سیاسی پارٹی کے ساتھ شامل نہ ہونا چاہتی تھی جو سپورٹ دے۔ خیر یہ ایک الگ دلچسپ کہانی ہے۔
سلیبس کی تیاری کے وقت ہمارے سینیئر ٹیچر جو دس پندرہ سالوں سے ٹیچنگ سے وابستہ تھے۔
جس قسم کی تجاویز دیتے تھے۔ انکو سن کر عقل حیران ہوتی تھی۔ مثلاً فرسٹ ایئر آنرز کا سلیبس
ان میں سے کوئ تیار کر کے لایا۔ اسکا معیار اتنا کم تھا کہ مجھے میٹنگ میں کہنا پڑا کہ اس سے بہتر سلیبس توانٹر میں کالج کی سطح پر پڑھایا جاتا ہے۔ انکی بات سنیں۔ کیونکہ کالجز میں کچھ نہیں پڑھایا جاتا اس لئےکورس کو آسان رکھنا چاہئیے۔ تاکہ آنیوالے اسٹوڈنٹس کو پریشانی نہ ہو۔
میں اور میری ایک اور جونئیر ساتھی نے کہا کہ یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے کہ اسٹوڈنٹس کو کالج میں کسطرح پڑھایا جا رہا ہے۔ ہمیں یونیورسٹی کو دیکھنا چاہئیے۔ یونیورسٹی کی سطح پر کورسز کو دیگر بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے معیار کا ہونا چاہئیے ۔ اسٹوڈنٹس کے اوپر دباءو پڑنا چاہئیے کہ وہ پڑھیں۔ یونیورسٹیاں اسٹوڈنٹس کو آسانیاں دینے کے لئے نہیں ہوتی ہیں۔ بلکہ ان میں محنت کی عادت کو ترقی دیکر انہیں کندن بناتی ہیں۔خیر اس بات پر کافی گرم بحث ہوئ۔ کیونکہ سلیبس کو جدیدکرنے کا مطلب یہ تھا کہ انہیں اپنے پرانے نوٹس صحیح کرنے پڑیں اور خود بھی کچھ نئے سرے سے پڑھنا پڑے۔ جبکہ یہ بھی ہماری یونیورسٹیز کا خاصہ ہے کہ استاد کو لآئبریری جانے سے مبرا سمجھ لیا جاتا ہے۔ وہ تو استاد ہیں انہیں سب آتا ہے۔ فی زمانہ استادکی یہ تعریف بھی بدل چکی ہے۔استاد کو بھی علم کی دوڑ میں شامل رہنا پڑتا ہے ہر لمحے، ہر لحظہ۔
کوچنگ سینٹرز اور ٹیوشنز سے فیضیاب ہونے کی وجہ سے اسٹوڈنٹس خود سے کچھ نہیں کرنا چاہتے۔ میں نے دیکھا کہ ہر اسٹوڈنٹ صرف لیکچر تک محدود رہنا چاہتا ہے۔ ریفرنس کی کتابوں کو کھولنے والے اور لیکچر کے مواد پر مشتمل پرابلمز کو حل کرنے میں دلچسپی لینے والے ایک سو بیس کی کلاس میں سے چار پانچ سے زیادہ نہ تھے۔ کسی بھی مضمون کو پڑھکر اسے اپلائ کرنے کی صلاحیت نہ پیدا ہو تو اسکا پڑھنا نہ پڑھنا برابر ہے خاص طور پر سائنس نظریات کو یاد کرنے کا نام نہیں۔ لیکن اب اسٹوڈنٹس اتنے سہل پسند ہو گئے ہیں کہ اگر انہیں کلاس میں مثال کے لئے دو جمع دو چار سکھایا ہے اور امتحان میں تین جمع تین دے دیا جائے تو یہ سوال آءوٹ آف کورس قرار دیا جاتا ہے۔
اسٹوڈنٹس کا دماغ دیگر سرگرمیوں میں اتنا مصروف رہتا ہے کہ بلیک بورڈ سے صحیح مساوات اتارنے میں دشواری ہوتی ہے۔ خود میں نے تو یہ طریقہ بھی رکھا کہ پریکٹیکل کلاسز میں جہاں میرا اندازہ کہتا تھا کہ اس مساوات میں ذرا پیچیدگی ہے اور ان آرام پسندوں میں سے چند ایک کے علاوہ کوئ صحیح اتارنے کے قابل نہ ہو گا۔ اسکے لئے میں چاکلیٹ کا تحفہ بھی رکھتی تھی۔ جی، یہ ہیں ہمارے یونیورسٹی لیول کے طالب علم۔
لڑکے یونیورسٹی میں آکر سیاست کو رعب جمانے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ نوکری تو بعد میں اماں ابا سفارش سے دلا ہی دیں گے یا پھر اس نظام کو برا بھلا کہہ کر کہہ دیں گے کہ یہاں رکھا کیا ہے۔انہیں تو یہاں سے کاغذ کا ایک ٹکڑا لیکر نکلنا ہے۔ نظام بھی چونکہ آسان طلب لوگوں پر مشتمل ہے اس لئے ایک سو بیس کی کلاس میں جہاں میں سمجھتی ہوں کہ صرف بیس اسٹوڈنٹس بھی بمشکل کامیاب ہونگے۔ وہاں ساٹھ ستر لوگوں کو اضافی نمبر دیکر پاس کرنا پڑتا ہے، ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ کی ہدایت پر۔
ادھر اساتذہ میں ذاتیات کو اہمیت دینے کا یہ عالم کہ ہمارے سینئیر ٹیچر ہم سے نمبروں کی شیٹ منگاتے ہیں اور جس اسٹوڈنٹ کو ہم نے سب سے زیادہ نمبر دئے ہوتے تھے اسکو کہیں ساتویں آٹھویں نمبر پر پہنچا دیتے میرے چھ اسٹوڈنٹس کے ساتھ انہوں نے ایسا کیا۔ محض ان اسٹوڈنٹس سے اپنی ذاتی پرخاش نکالنے کے لئے۔ اور مجھے میری حیثیت جتانے کے لئے جبکہ میں ان نمبروں کو ڈسپلے بورڈ پر لگا بھی چکی تھی۔ ایسا کرتے ہوئے انہیں ذرا بھی احساس ندامت نہ ہوتا کہ وہ بہ ہر حال مجھ سے اور ان بچوں سے بڑے ہیں۔ اور اس طرح وہ کس قسم کی مثال قائم کر رہے ہیں۔
تو جناب نطام کی خرابی میں ہر ایک کا حصہ ہے۔ اور جب تک معاشرے کی سوچ تبدیل نہ ہو فرد واحد کے لئے کچھ کرنا ممکن نہیں۔
میرے ایک بلاگر ساتھی نے اس بات پر مجھے ایچ ای سی کی ڈائریکٹرشپ عنایت فرمائ ہے کہ میں یہ کہتی ہوں کہ یونیورسٹی کی تعلیم ایک عیاشی ہے اور یہ صرف ان لوگوں کے لئے ہوتی ہے جو اسکا رجحان رکھتے ہیں۔ انکا خیال ہے کہ اس طرح طبقاتی فرق پیدا کیا جائےگا۔ جناب تمام ترقی یافتہ ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے وہاں ہمارے یہاں سے زیادہ طبقاتی فرق نہیں ہے۔ حتی کہ بعض ممالک میں اسکول کی سطح پر ان اسٹوڈنٹس کو مارک کر لیا جاتا ہے جو یونیورسٹی تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
ہماری پبلک یونیورسٹیاں عوام کے پیسے سے اور انکے دئیے گئے ٹیکس سے چلتی ہیں۔ یہاں سے ایسے لوگوں کو سامنے آنا چاہئیے جو ملکی سطح پر اپنی ذات سے کچھ فائدہ پہنچا سکیں۔ نہ کہ یہ سیاست کا گڑھ بن جائیں۔ ویسے بھی یونورسٹیاں بنیادی طور پر تحقیقی ادارے ہوتی ہیں اور کسی قوم کے مستقبل کی ترجیحات کے لئے کام کرتی ہیں۔ اگر وہاں تحقیق نہیں ہو رہی ہے تو ان اداروں کو یونیورسٹی نہیں کہنا چاہئیے۔ اس لئیے ہماری یونیورسٹیاں دنیا میں کسی رینک میں شامل نہیں ہیں۔ ذہین مگر غریب اسٹوڈنٹس کے لئے وظائف کا اجراء ہوتا ہے۔ تاکہ انہیں یہ شکایت نہ ہو کہ انکے ساتھ پیسوں کی وجہ سے امتیاز کیا گیا ہے۔
وہ لوگ جو یونورسٹی تعلیم حاصل کرنے کا رجحان نہیں رکھتے۔ انکو اپنے رجحان کو دیکھتے ہوئے تعلیم حاصل کرنی چاہئیے۔ لوگوں میں روزگار کے حصول میں آسانیاں پیدا کرنے کے لئے ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ کا جال بچھانا چاہئیے۔ تاکہ وہ بھی کسی قسم کے احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔
مکینک، ٹیکنیشنز، شیف، پلمبر ، درزی اور اسطرح کے دیگر پیشے، یہ بھی علم کی ہی شاخیں ہیں۔
ان علوم کے لئے بھی ادارے ہونے چاہئیں۔ان میں مہارت حاصل کر کے اس علم کے ذریعے بھی پیسہ کمایا جا سکتا ہے۔
محض یونیورسٹی کی تعلیم کو تعلیم سمجھنا بھی بہت بڑی لا علمی یا بچپنا ہے۔ قدرت نے مختلف لوگوں کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ جس شخص کو حساب کی تھیورمز سمجھنے سے دلچسپی نہیں یا وہ انٹرنیشنل افئیرز نہیں جاننا چاہتا۔ وہ ایک ناکارہ انسان تو نہیں۔ انکی دیگر صلاحیتوں کی قدر کر کے ہی انہیں کارآمد شہری بنایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی قسم کی تعلیم کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے۔ زیادہ شعور اور زیادہ دیکھنے کی صلاحیت، اس میڈیم یا راستے سے جو آپکو دلچسپ لگتا ہو۔ یہ آپکی ذہانت اور خوش قسمتی ہے کہ آپ اسے اپنے ذریعہ ء روزگار میں تبدیل کر لیں۔
ریفرنس؛
میرے ایک بلاگر ساتھی
میں تو ڈھکی چھپی باتیں لکھی تھیں اور آپ نے سب کچھ ادھیڑ کر رکھ دیا ہے ۔ ایک بات تو بتائیے لکھتے لکھتے سانس تو نحیں پھولی تھی
ReplyDeleteوہ کیا کہتے ہیں کہ سیاسی طور پر غلط ہوجاتا ہے جب کسی کو یہ کہہ دو کہ میاں اپنے رجحان کے حساب سے چلو ہوا کے رخ پر نہیں۔ بہر حال اگر لوگ آپ کی اس بات کو سمجھ سکیں تو اُس انقلاب کا راستہ ہموار ہو جو آنا چاہیے اور اِس انقلاب کا کا راستہ رکے جو لایا جارہا ہے۔
ReplyDeleteخاصی پُر مغز تحریر ہے اور ہمارے تعلیمی نظام اور اس پس منظر میں موجود معاشرتی پہلووں کی عکاس بھی۔
ReplyDeleteمجھے سب سے زیادہ تکلیف تعلیمی اداروں میں سیاست، اور سیاسی تنظیموں کے عمل دخل سے ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ چیز اس قدر بڑھ گئی ہے کہ تعلیمی ماحول ناپید ہوگیا ہے۔
مبارک ہو!
ReplyDeleteمیری ذاتی رائے میں ، آپ کی اب تک کی لکھی گئیں تمام دیگر تحاریر میں سے اب سے اچھی ،جامع اور جاندار پوسٹ ہے جو آپ کے معیار کی ہے ۔ اس سے پاکستان کے فرسودہ تعلیمی نظام جس کے بارے میں سب ہی جانتے ہیں اور کوئی کچھ کہنے اور کرنے کو تیار نہیں ۔ اس نظام کے بارے میں آپ نے بغیر کسی لگی لپٹی کے اندرکی حقیقتیں کھول کر رکھ دیں ہیں ۔ ہمارے ہاں ایک مرض ہر ادارے میں عام ہے اور خاص کر علم و تحقیق کے میدان میں ۔ کہ ہر کوئی محض اپنی سینارٹی کی وجہ سے یہ چاہتا ہے کہ اسکی بات کو اہمیت دی جائے قطع نظر اس بات سے کہ علم و تحقیق ایک متواتر عمل ہے اور اس میں نئی نئی جہتیں آچکی ہیں ۔ لازمی نہیں ایک فرد صرف سنئیر ہونے کے ناطے زیادہ قابل بھی ہو۔ پرانے وقتوں میں دستور تھا ۔ علم و تحقیق میں کبھی عشروں یا دہائیوں میں ایک آدھ نئی چیز سامنے آتی تھی۔ مگر اب تو نئی نئی ٹیکنالوجیز کا "ایوولیشن" اس قدر تیز اور بے رحم ہے کہ بعض اوقات ے مزید بہتر چیز سامنے آنے سے جو آج جدید ہے اگلے ھفتے وہ پرانی ہوچکی ہوگی ۔ انگریزی کا یک حرف ہے "ٹچ" جو لوگ اپنے شعبے کے علم و تحقیقق سے "ٹچ" نہیں رہتے ۔وہ مہنیوں اور بعض اوقات ھفتوں میں کئی نئی چیزوں سے لاعلم رہ جاتے ہیں چہ جائیکہ جیسے ہمارے ہاں رواج ہے سالوں سے ہمارے سو کال سنئیرز اپنے شعبوں سے صحیح معنوں میں "ٹچ" نہیں ہوتے۔ ایسے میں سیناءرٹی کا بے جا تقاضا کرنا علم سے دشمنی ہے۔ چہ جائیکہ ضد میں آکر ایسے افراد دوسروں سے علمی برتری کا تعصب برتنا شروع کر دیں ۔
ایسا ہی شعبہ طب میں پروفیسر ڈاکٹرز اور رجسٹررار وغیرہ کے حالات ہیں کہ وہ دنیا میں کسی کو بھی اپنے سے بڑھ کر لائق یا قابل نہیں سمجھتے۔
ابو عجمیاں ہیں کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آتیں۔
دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے ۔ کسی بھی دور میں کسی بھی قوم نے علم کے بغیر ترقی و تہذیب کی بلندی نہیں پائی ۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ پندرہ اگست 2008 کو شائع ہونے والے تازہ ترین اعدوشمار کے مطابق دنیا کی پہلی پانچ سو یونیورسٹیز میں سے چارسو چھینانوے نمبر پہ آنے والی ترکی کی استنبول یونیورسٹی کے علاوہ پوری اسلامی دنیا کی کوئی ایک یونیورسٹی شامل نہیں۔جبکہ چائنہ کی کئی ایک اور بھارت کی دو اور اسرائیل کی تقریبا سبھی یونیورسٹیز شامل ہیں۔ پاکستان کسی کھاتے میں ہی نہیں۔اللہ ہم پہ رحم کرے ۔
آپ کی یہ پوسٹ علم دوستی کی وجہ سے سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔
جس معاشرہ میں پڑھائی کا مطلب صرف انجنئیر یا ڈاکٹر بننا ہو وہاں دیگر علوم کے حصول کے لئے سنجیدہ طلباء اور ان علوم کو پڑھانے کے لئے سنجیدہ اساتذہ کیسے سامنے آئیں گے؟ بچوں کے فطری رحجان کو سامنے رکھ کر کتنے گھرانوں میں ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے؟ کسی کو موسیقی کی، ادب کی، آثار قدیمہ کی، حیوانیات کی اور اسی قبیل کے دوسرے شعبہ جات میں تعلیم کے لئے بچپن سے تیار کیا جاتا ہے؟ ہمارے یہاں تو ایک سانچہ ہے جس میں ہر کوئی چاہے کہ اس کی اولاد پوری بیٹھ جائے۔ بچوں کو وہ پڑھایا جاتا ہے جو والدین چاہتے ہیں، وہ نہیں جو بچے چاہتے ہیں۔ سو فطری امر ہے کہ بچہ بس جان چھڑانے کے لئے رٹے مارتا ہے، نوٹس یاد کرتا ہے، امتحان پاس کرتا ہے اور پھر کسی سکول، کالج یا یونیورسٹی میں استاد لگ جاتا ہے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔
ReplyDeleteاجمل صاحب، میری سانس نہیں پَھولی۔ یونیورسٹی میں پیدل چلنے کی خاصی مشق ہے مجھے اور پوائنٹ کے پیچھے بھاگنے کی بھی۔
ReplyDeleteراشد صاحب، جو لوگ سنجیدگی سے اپنے مسئلے حل کرنا چاہتے ہیں وہ بہت ساری چیزِیں وہ بہت ساری چیزِیں عام ڈگر سے ہٹ کر کرتے ہیں۔ آپ اسی کو انقلاب کہہ رہے ہیں۔
محمد احمد سیاست نے صرف طالب علموں کو نہیں اساتذہ کو بھی بگاڑ دیا ہے۔ خود نجھے دوران تدریس مختلف سیاسی پارٹیوں میں شمولیت کے لئے کہا جاتا رہا۔ کیونکہ اس طرح انکی پوزیشن محفوظ ہو جاتی ہے۔
آپ سب لوگوں کا شکریہ کہ آپنے اس میں دلچسپی لی۔ تعلیمی مسائل بہت زیادہ ہیں۔ ان میں سے بیشتر کو یہاں نہیں لکھا گیا۔ صرف نا اہل اساتذہ ہی نہیں، غیر دلچسپ اسٹوڈنٹس بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔ ڈگری لیکر باہر نکلنے والے یہ اسٹوڈنٹس سب سے زیادہ فرسٹریشن کا شکار ہوتے ہیں۔
جاوید صاحب، مجھے آپکی ڈاکٹر والی بات پر ایک واقعہ یاد آگیا۔ میرے گھر میں ایک صاحب ہیں جنہوں نے کسی امریکن یونیورسٹی سے انگلش لنگواسٹکس میں پی ایچ ڈی کیا ہے۔ شادی کی ایک تقریب میں ہم ایم بی بی ایس ڈاکٹر دولہا کے ساتھ اسٹیج پر موجود تھے کہ کسی نے لقمہ لگایا۔ تین ڈاکٹر ایک جگہ پر ہیں۔ ایک اور صاحب نے جو خاصے پڑھے لکھے ہیں انہوں نے کہامگر اصلی ڈاکٹر تو ایک ہے۔ اس پر ہمارے صاحب کہنے لگے نہیں اصلی تو دو ہیں۔ طب کا ڈاکٹر بنایدی طور پر فزیشن ہوتا ہے۔اگرچہ کہ انہیں ڈاکٹر کہا جاتا ہے۔ لیکن بعض ممالک میں انہیں اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگانے کی اجازت نہیں۔ چونکہ انکی زیادہ زندگی امریکہ میں گذری۔ اس لئے باقی لوگ ایکدم خاموش ہو گئے۔
یہاں کچھ اینجینئیرز کو اعتراض ہوتا ہے کہ ّہ اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگاتے ہیں ہمارے نام کے ساتھ بھی انجینئیر لگایا جائے۔
خیر اس چیز سے قطع نظر، ابھی سال چھ مہینے پہلے ڈان میں میں نے ایک پاکستانی کمپیوٹر انجینیئر کے بارے میں خبر پڑھی کہ دس سال امریکہ میں نوکری کرنے کے بعد انہوں نے اپنی ملازمت چھوڑی اور مصوری شروع کر دی۔ انکی تصویروں کی ان دنوں لندن کی کسی مشہور آرٹ گیلری میں نمائش ہو رہی تھی۔ انکا کہنا تھا کہ انہیں دوران تعلیم اندازہ ہوا یکہ انکی اصل دلچسپی کہاں ہے۔ تو جیسے ہی انہیں موقع ملا انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔ اس سلسلے میں ایک امریک صدر کا خط اپنی بیگم کے نام ہے جو مجھے یاد نہیں آرہا، میں اسکی تلاش میں ہوں کہ صحیح نتن کے ساتھ مل جائے۔
ہمارا ایک گھریلو درزی ہے۔ جو انگریزی فراٹے سے بولتا ہے۔۔اس نے ٹیلرنگ کا کورس لندن سے کیا ہوا ہے۔ وہ اتنا مصروف رہتا ہے کہ اسکے پاس کپڑے سلائ کے لئے دینے سے پہلے پوچھنا پڑتا ہے کہ کیا انکے لئے سینا ممکن ہوگا۔ اور سارا سال انکا یہی عالم رہتا ہے۔ انکے سارے قریبی رشتے دار انکی مدد کرتے ہیں۔
ہمارے یہاں ان چیزوں کو سکھانے کا کوئ مناسب ادارہ نہیں ہے۔ میں خود بہت چاہ رہی تھی کہ بالکل پروفیشنل بیکنگ سیکھوں وہ نہیں جو ادھر ادھر کچھ لوگ سکھا دیتے ہیں۔ مجھے کراچی میں اب تک ایسا کوئ ادارہ نہیں مل سکا۔یہ تمام چیزِیں لوگ کسی کا چھوٹا بن کر سیکھتے ہیں اب استاد کی مرضی کیا بتائے اور کیا نہ بتائے۔ بہرحال جو لوگ ویژنری ہوتے ہیں وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں بڑے راستے تلاش کر لیتے ہیں۔ اور جو رائج الوقت غلطیوں میں پھنسے رہیں وہ کولہو کی بیل کی طرح ایک دائرے میں گھومتے رہیں۔
تعلیم ہمارے لئے کتنی اہمیت کی حامل ہے اسکا اندازہ مختص بجٹ کو دیکھکر ہوتا ہے۔
جی خرم صاحب، آپ نے بجا فرمایا۔
چھوٹا بننے میں کیا برائی ہے ؟
ReplyDeleteاجمل صاحب، یہاں چھوٹا بننے سے میری مراد مختلف ورکشاپس یا ان سے ملتی جلتی جگہوں میں کام سیکھنے والے لوگ ہیں۔ اگر انہی چیزوں کو ایک ادارے سے سیکھا جائے تو وہاں پر اسکا سلیبس ہوگا اور ایک مقررہ مدت میں وہ کسی کو یہ چیزِیں سکھا دیں گے جس میں اس بات کا اہتمام کیا ہوگا کہ اس مضمون سے متعلق تمام باتیں بتا دی جائیں۔ بلکہ نئے علم کی آمد بھی وہاں پر ہوتی رہے گی۔
ReplyDeleteجبکہ کسی ایسے ہی شخص کے پاس جو لوگ کام سیکھنے کے لئے بٹھا دئے جاتے ہیں ان کی کوئ ذمہ داری نہیں ہوتی۔سکھا دیا تو سکھا دیا نہیں تو نہیں۔ اور وہ وہی بتا پاتے ہیں جو انہیں آتا ہے۔
Phir majboor hoon ke comments nahin post kar pa raha hoon. Bahar haal bahut umda post hai aap ki aur aap ke gird mein ne SURKH daira khainch diya hai yaani yeh muhtarma bahut kaam ki aur qaabil hain iss liye in se kaafi saara khidmat e khalq ka kaam laina hai
ReplyDeleteمحب صاحب، قابلیت کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔ لیکن اگر کسی خدمت کے لائق سمجھیں تو ضرور رابطہ کریں۔
ReplyDeleteویسے تو میں صرف کبھی کبھار کنٹراورشل پوسٹ لکھنے پر ہی گزارا کرتا ہوں جس کی پالشنگ بھی "کوئی اور" کرتا ہے
ReplyDelete:D
لیکن ڈفر سے پتا چلا کہ شائد میرا ہی ذکر ہو رہا ہے
کیونکہ پوسٹ پر کوئی ٹریک بیک نہیں آیا اس لئے معلوم نہیں چلا کہ کسی نے بطور خاص ذکر کی اہے
میں تو صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ جو آپ نے کہا ہے وہی ہم نے بھی کہا تھا
لیکن آپ کی کس بات کے جواب میں آپ کو ایچ ای سی کی ڈائریکٹر شپ عطا کی تھی وہ آپ کھا گئیں
جس ملک میں غریب کو لائن میں کھڑا ہو کر پیسے دے کر چینی اور آٹا نا ملے وہاں آپ طالبعلموں کو یونیورسٹی لیول پر وظیفے دلوانے کی بات کر رہی ہیں
اللہ کرے ایسا ہو
لیکن ہماری تجاویز نظام کو مکمل طور پر بدلے بغیر لاگو ہو سکتی ہیں یا وہ پہلے سے ہی نظام کا حصہ تھیں جن کو برے اقدامات سے بدل دیا گیا ہے
لیکن آپ تو وہ کرنے کا کہہ رہی ہیں کہ جو "فیر ناں ای سمجاں" والی بات معلوم پڑتی ہیں
لیکن ہم آپ کی تجاویز کی مکمل طور پر حمایت کرتے ہیں
امید ہے بات کو سمجھیں گی اور اُس تبصرے کی طرح اِس تبصرے کو ذاتی طور پر نہیں لیں گی
:)
ڈفر، آپکا بلاگ خاصہ مشکل ہے۔ ہم اپنی طالب علمی کے زمانے میں کہا کرتے تھے کہ کسی ایسے شخص سے تعلق رکھنا مشکل ہے جسکی شخصیت کے متعلق اندازہ نہ لگایا جا سکے۔ آپ کے یہاں تو یہ نہیں پتہ کہ کتنے لوگ مل کر اسے چلا رہے ہیں۔ اب ان حالات میں تحریر کا مزہ اپنی جگہ لیکن تبصرہ کرتے ہوئے کچھ اندازہ نہیں ہوتا کس سے مخاطب ہیں۔
ReplyDeleteپہلی بات تو یہ کہ کیونکہ بلاگ پبلک ہے اس لئے کسی کی بات کو ذاتی حیثیت میں نہیں لیا جا سکتا۔ آئینسٹائن کے نظریہ ء اضافت کی رو سے ہر بات اپنے تناظر میں ہی سمجھ میں آتی ہے۔ میں نے آپکی تعلیم والی پوسٹ پر تبصرہ کیا تھا اس پر جناب نے خدشہ ظاہر کیا تھا ۔ویسے، یہ بات اب مجھے سمجھ آگئ کی پوسٹ کو لنک کیسے کرنا ہے۔
ہمارے بڑوں کا کہنا ہے کہ جب سے تعلیم کو نیشنلائز کیا گیا ہے۔ اسکا معیار بالکل گر گیا ہے۔ درحقیقت جبتک پاکستان میں وہ نسل موجود رہی جس نے دور غلامی کے اداروں میں تعلیم حاصل کی تھی۔ نظام چلتا رہا۔ جیسے جیسے وہ لوگ مفقود ہوتے گئے۔ نظام بھی دیمک لگی لکڑی کی طرح ہو گیا۔ہم نعرے تو بہت لگاتے ہیں حب الوطنی کے کہ افسوس ہمارے نعرے ہی نعرے ہیں اور کوئ سید نہیں جو کام کرتا ہو۔
یونورسٹیز میں ابھی دو تین سال پہلے تک تو وظائف کا اجراء ہوتا تھا مگر جیسا کہ روایت ہے ان وظیفوں کو اقرباء پروری یا تعلقات کھا جاتے ہیں/ خود میری اپنی پی ایچ ڈی پوری کی پوری اسکالرشپ کی وجہ سے ممکن ہوئ۔
میں حکومت کی اس پالیسی سے اختلارف کرتی ہوں جہاں ایچ ای سی جیسے ادارے تو بنا دئیے جاتے ہیں کہ اسکے ذریعے اعلی تعلیم میں مدد دی جائے گی۔ لیکن ابتدائ تعلیم کا کوئ پرسان حال نہیں ہوتا۔ کم پی ایچ ڈی نکلیں لیکن انہیں۔ کارآمد ہونا چاہئیے۔ لیکن ابتدائ تعلیم جس کے بعد ایک شخص اخبار پڑھ لے، خط لکھ لے، کتابیں پڑھ لے، تھوڑی انگریزی سمجھ لے۔ یہ ہر شخص کا بنیادی حق ہونا چاہئیے۔
ہمارے جیسے غریب ملکوں میں جہاں ریسرچ اور ڈیولپمنٹ کے ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں۔آخر کتنے پی ایچ ڈی کھپائے جا سکتے ہیں۔ ایچ ای سی کی طرف سے ریکارڈ بہتر رکھنے کے لئے کہ ہم ہر سال اتنے پی ایچ ڈی نکالیں گے ایسے ایسے لوگوں کو اس ڈگری سے نوازا گیا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ عملی سطح پر یہ لوگ کیا کریں گے اسکا اندازہ مشکل نہیں ہے۔
جبکہ ابتدائ تعلیم عام ہونے سے لوگوں کے اندر شعور پیدا ہوگا اور زندگی انکے لئے آسان ہو جائے گی۔
بعض اوقات تبصرہ لکھتے وقت یہ خیال آتا ہے کہ اسے بہتر الفاظ میں اپنی پوسٹ میں زیادہ وضاحت سے لکھا جا سکتا ہے۔ اسے آپ اتنا آفینسو نہ لیا کریں۔
پاکستان مین تعلیم کا مسئلہ بھی بس اک معمہ ہے سمجھنے کا ناسمجھانے کا!
ReplyDeleteاگر تعلیم قومیادی جائے تو مشکل اور نجی ملکیت مین دے دی جائے تواور بھی مشکل نجی ادارے عوام کی کھال اتارنے پر تلے ہیں تو قومی ادارے تعلیم کو سرکاری نوکری سمجھ کر ٹائم پاس کرنے پر، آؤ تنخواہ لو اور گھر چلے جاؤ،مسئلہ دراصل ہمارے من حیث القوم کرپٹ ہوجانے کا ہے،
فالحال تو ایک ہی ترکیب ذہن میں آتی ہے کہ تمام تعلیمی اداروں کو سیمی گورنمنٹ کر دیا جائے تاکہ ایک جیسی تعلیم حکومت کے مقرر کیئے ہوئے سلیبس اور فیس کے مطابق ہو،اور نجی اداروں کو بھی اپنی من مانی کا موقع نہ ملے اور سرکاری اداروں کی طرح استاد صرف وقت گزاری اور تنخواہ لینے کے لیئے اسکول نہ آئیں،
یہ بات تو طے ہے کہ میعار تعلیم بہتر کیئے بغیر کوئی بھی قوم ترقی کا تصور بھی نہیں کرسکتی،
جہاں تک تعلیمی اداروں میں سیاست کا تعلق ہے میں کسی حد تک آپ کا ہم خیال ہوں کہ سیاسی پارٹیوں کا اثر رسوخ تمام تعلیمی اداروں سے بلکل ختم کردیا جائے ،اور سیاست ضرور ہو مگر اسٹوڈینٹس کے اپنے مسائل کے اوپر، نہ کہ دوسروں کی کرسی کے لیئے طلباءآپس میں جوتم پیزار کرتے رہیں،
عنیقہ جی ہوشیار باش محب علوی صاحب نے آپ کے گرد سرخ دائرہ کھینچ دیا ہے اور آپ سے کچھ کام لینے کے بھی متمنی ہیں زرا خیال رکھیئے گا :)
ReplyDelete