Friday, May 29, 2009

بنوں میں خدا کے عاشق

میری ایک عزیزہ کے یہاں بیٹی کی پیدائش ہوئ تو میں نے سوچا کہ ان کو مبارکباد بھی دیدوں اور لگے ہاتھوں باقی گھر والوں سے ملاقات بھی کرلوں۔ چلیں اب میری ان کی بات چیت کا سیشن شروع ہوتا ہے۔
میں؛ مبارک ہو بھئ آپ والدہ محترمہ بن گئیں۔
عزیزہ؛ الحمدللہ، جزاک اللہ۔
میں؛ کیسی ہے آپ کی بچی؟
عزیزہ؛ ماشاءاللہ، خیریت سے ہے۔ میری بچی تو سبحان اللہ برکتوں والی رات یعنی شب معراج کو پیدا ہوئ ہے۔
میں؛ اور آپ کی خیریت کیسی ہے؟
عزیزہ؛ الحمدللہ، میں ٹھیک ہوں۔
میں؛ اور ان کے والد صاحب اور اہل خانہ کیسے ہین؟
عزیزہ؛ الحمد للہ وہ سب خیریت سے ہیں
اتنے میں میری ڈیڑھ سالہ بیٹی پاءوں مڑنے کی وجہ سے چلتے ہوئے ذرا لڑکھڑائ۔ عزیزہ کی والدہ کی آواز آئ۔ بسم اللہ ابھی گرتے گرتے بچی ہے۔ میں نے کہا 'آنٹی اتنے گرنے کی فکر نہ کریں۔ بچوں کا تو سارا دن کام ہی یہی ہے۔ زیادہ توجہ دیں تو ذرا ذرا سی چوٹ پہ ہنگامہ کھڑا کرنے لگتے ہیں۔' انہیں میری بات کچھ زیادہ پسند نہیں آئ۔ پھر گویا ہوئیں۔ 'ائے تم نے اسے کلمہ سکھایا۔' میں ہنسی۔'پہلے صحیح سے بولنا تو سیکھے۔ کلمہ، نماز روزہ سب سیکھے گی۔ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئ ہے ۔ مسلمان ملک میں رہتی ہے۔' ان پڑھے لکھے لوگوں کی تو دینداری بھی ایسی ہی ہوتی ہے انہوں نے سوچا ہو گا اور پان کترتے ہوئے گویا ہوئیں ۔' بچہ جب بولنا شروع کرے تو سب سے پہلے اسے کلمہ سکھانا چاہئیے ۔ ہماری ایک نواسی ابھی سوا سال کی ہے پوچھو دعا کیسے مانگتے ہیں تو ہاتھ اٹھا کہ دکھاتی ہے '۔ میں نے انہیں زیادہ پریشان کرنا مناسب نہ سمجھا اور وہاں سے اٹھ کر ان کی بہو کے کمرے میں آگئ۔ وہ اپنے چار مہینے کے بچے کے ساتھ مصروف تھیں۔ جو بری طرح رو رہا تھا۔ کہنے لگیں 'بس ایسے ہی روئے جا رہا ہے صبح سے۔' 'ہوں، پہلے بچے میں تو مسئلہ ہوتا ہے۔ سمجھنے میں ٹائم لگتا ہے۔ میں اس لئے مختلف لوگوں سے معلومات لیتی رہتی ہوں اور انٹر نیٹ سے بھی انفارمیشن لیتی رہتی ہوں۔ تاکہ مسائل کا کم سے کم سامنا کرنا پڑء۔ اب آپ نے اسے اتنے موٹے پولیسٹر کے کپڑے اتنی گرمی میں پہنا رکھیں۔ روئے گا نہیں تو کیا کرے گا۔ بولنا تو آتا نہیں کہ کہے اماں مجھے گرمی لگ رہی ہے'۔ اس بات پہ وہ جھلا گئیں ۔ 'میں نے کہاں پہنائے ہیں۔ یہ ہماری ساس ہیں۔ میری امی نے جو ہلکے کپڑے بنا کر دئے تھے وہ پہناءوں تو فوراً اتار کہ پھینک دیتی ہیں۔ کہ انہوں نے بنائے ہیں۔ شوہر صاحب بازار جا نہیں سکتے مصروف ہیں۔ مجھے وہ بازار نہیں جانے دیتی کہ مسلمان عورت کو اکیلے بازار نہیں جانا چاہئے۔ ۔ اب میں کیا کروں۔ کل ڈاکٹر کے یہاں گئ تھی تو وہ بھی یہی کہ رہا تھا'۔ 'خیریت ڈاکٹر کے پاس کیوں جانا ہوا'۔'مجھے اکثر پیچش رہتی ہے اس لئے۔ 'پانی ابال کر پئا کریں۔ پانی کی وجہ سے مسئلہ ہوتا ہے'۔ ' نہیں پانی تو ابلا ہوا ہوتا ہے دراصل امی کے گھر میں تو بہت کم مرچیں کھائیں جاتی ہیں اور یہاں بہت زیادہ ۔ مجھے زیادہ مرچوں والے کھانوں کی عادت نہیں۔ ان مرچوں کی وجہ سے میرے پیٹ میں جلن رہتی ہے'۔'تو اپنے لئے تھوڑا الگ کھانا کم مرچوں والا بنا لیا کریں'۔ میں نے اپنے طور پہ ایک آسان سا مشورہ دیا۔'جی، ایک دفعہ میں نے سوچا کہ اپنے لئے الگ سے کچھ بنا لوں تو یہاں سب خواتین نے شور مچا دیا کہ الگ ہونے کی تیاری کر رہی ہیں۔ تو بس ہر تھوڑے دن پہ جا کر دوا لینی پڑتی ہے'۔ اب میری ساس کہتی ہیں کہ تم تو ہر وقت بیمار رہتی ہو۔ میرے کان میں ان کی ساس کی آوز آئ اللہ اکبر، یہ کس قدر رو رہا ہے لاءو مجھے دیدو اس کی نظر اتاردوں۔ میں وہاں سے اٹھی۔ انہیں خدا حافط کہا۔ ان کی بیٹی نے ایک دفعہ پھر کہا جزاک اللہ آپ تشریف لائیں۔ بزرگ خاتون نے مجھے نصیحت کی کہ اللہ حافط کہنا چاہئیے۔ مجھے اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا۔ شاید خدا کو بھی اس سے فرق نہیں پڑتا۔ لیکن خدا کو اس سے ضرور فرق پڑتا ہے کہ ہم اسکے بندوں، اور اس کی مخلوق کو کتنی آسانی دیتے ہیں۔ میں نے انہیں دوبارہ اللہ حافظ کہا۔میرے نکلنے کے بعد انہوں نے کہا ہو گا۔ ہوں یہ عورتیں کیا اپنے بچوں کو مذہب سکھائیں گی۔ بیشتر لوگ نہیں جانتے کہ علامتوں کو دہرانا اور انہیں نہ سمجھنا کسی کی زندگی میں کوئ فرق نہیں لاتا۔ اور نہ ہی ان کے کاز کو کوئ فائدہ پہنچتا ہے۔

یہ ایک اور صاحب میرے سامنے بیٹھے ہیں اور اپنے پچھلے ہفتے کی مصروفیات کے بارے میں بتا رہے ہین۔ اپنی داڑھی میں خلال کرتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کے علاقے کی مسجد پہ ایک اور گروپ قبضہ کرنا چاہ رہا تھا لیکن انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے کیسےاسے ناکام بنا دیا۔'غیرمسلم تھے کیا'۔ میں نےحیرانی سے پوچھا۔ کہنے لگے ۔ جی نہین دیو بندی تھے۔ اور آپ کیا ہیں۔ ہم ماشاللہ سے بریلوی ہیں۔ تو دیو بندی اور بریلوی ایک مسجد میں نماز نہیں پڑھ سکتے۔ جی نہیں۔ پھر بات کا رخ بدلنے کے لئیے میں نے ان سے پوچھا کہ ان کے بھائ کی شادی کا سلسلہ جو میری ایک دوست خاتون کے ساتھ چل رہا تھا اس کا کیا ہوا۔ کہنے لگےآپ نے بتایا نہیں وہ تو دیو بندی ہیں۔ یعنی دیو بندی اور بریلویوں کی آپس میں شادی نہیں ہو سکتی۔ کہنے لگے کوئ کرنا چاہے تو کر لے ۔ لوگ تو غیر مسلموں سے بھی شادی کرلیتے ہیں۔لیکن دیو بندی ہمارے میلاد اور فا تحہ سے بڑے چڑتے ہیں۔ حتی کہ وہ فاتحہ کی چیزیں بھی نہیں کھاتے۔ میری طرف انہوں نے فاتحہ کا لڈو بڑھایا۔ اور میں نے اسے کترنا شروع کر دیا۔ کہنے لگے آپ کیا ہیں۔ 'جی، والدین نے کبھی بتایا نہیں کہ ہم دیو بندی ہیں یا بریلوی'۔ فرمانے لگے آپ کی حس مزاح اتنی اچھی نہیں۔ جی مجھے اس سے اتفاق ہے۔ میں نے جلدی سے ان کا فقرہ پکڑا۔ کسی کوتو فالو کرتی ہونگیں۔ جی میں پوچھ کر بتاءونگی۔ آپ سمجھتے ہیں ناں یہ بڑے نازک مسائل ہوتے ہیں۔

لیکن ان کے جانے کے بعد جب میں نے اپنے آپ سے سوال پوچھا تو لگا کہ اس کا جواب تو مجھے آتا تھا میں اس اسلام کو فالو کرتی ہوں جو اپنی ابتدائ حالت میں تھا۔ جس کا مقصود انسان کو اشرف المخلوقات بنانا تحا۔ اسے چند رٹے رٹائے جملے یاد کرانا نہیں تھا۔ وہ مذہب تو انسان دوستی پہ مبنی تھا جہاں رسول اپنے سجدے کو اس لئے لمبا کر دیتے ہوں کہ ان کی پیٹھ پہ ان کا کم عمر نواسہ کھیل رہا ہے۔ اپنی دودھ پلانے والی ماں کے استقبال کو کھڑے ہوکر ان کے لئے اپنی جگہ خالی کرتے ہوں۔ اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لئے اس کے ساتھ دوڑ لگاتے ہوں گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہوں۔ اس زمانے کے مروجہ طریقے کے مطابق جب آپ کے داماد آکر دوسری شادی کی اجازت مانگتے ہیں تو آپ ایک شفیق باپ بن جاتے ہیں اور کہتے ہیں میری فاطمہ کو دکھ ہو گا۔ ان کے داماد ان کی بات کی پاسداری کرتے ہوئے ان کی بیٹی کی زندگی میں دوبارہ شادی نہیں کرتے۔

خلیفہء اول خلیفہ بن جانے کے بعد بھی اپنے قبیلے کی بیوہ اور ضعیف عورتوں کی خیر خیریت معلوم کرنےجاتےہیں ان کو پانی بھر کے لا کے دیتے ہیں ان سے مصافحہ کرتے ہیں۔ خلیفہ دوئم جو اپنی سخت گیری کی بنا پر مشہور ہیں لیکن میری پسندیدہ شخصیت ہیں۔ انصارکی کسی عورت نےان سے کسی مسئلہ پہ اختلاف کیا۔ اور آپ سے رائے تبدیل کرنے کو کہا تو آپ نے فرمایا'عورتیں ایسی جری تو نہ ہوتی تھیں'۔اس خاتون نے کہا۔ ' کیوں نہیں۔ رسول اللہ کی بیویاں آپ سے مباحثے کیا کرتی تھیں اور اپنی اصابت رائے سےرسول اللہ کو قائل کر لیا کرتی تھیں۔' حضرت عمر نے اس عورت کے دلائل کے سامنے سر جھکا دیا اور خاموش ہو گئے۔

تاریخ کے یہ چھوٹے چھوٹے جھروکے ہمارے سامنے ان انسانون کو لاتے ہین جن کو ظاہری اصولوں اور عقیدت کی مصنوعی دیواروں کے پیچھے جان بوجھ کر دفن کردیا گیا ہے۔ بس یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یا تو وہ ہر وقت صرف کفار سے جنگ اور جہاد میں مصروف رہتے تھے اور وہاں ہر وقت نعرہء تکبیر اللہ اکبر کہتے تھے۔ یا ہر وقت سب تسبیح ہاتھ میں لئے اللہ اکبر کرتے رہتے تھے۔ اخر وہ سب ایک انسانی معاشرے میں رہتے تھے۔ ان کی خانگی زندگی بھی تھی اور خاندانی زندگی بھی۔ نظریات اور سمجھ بوجھ میں اختلاف بھی ہوتا تھا انہی سے انسانی زندگی عبارت ہے۔ ہم نے مذہب کو اپنی ثقافتوں سے قریب کرنے کےلئے اس کی شکل بگاڑ دی ہے لیکن اس کے باوجود ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جتنی سختی سے اس کی ظاہری علامتوں کو نبھاہیں گے اتنے اچھے مسلمان ہونگے۔ حالانکہ سفید رنگ میں رنگ جانے سے کوا کبوتر نہیں بن جاتا۔

اب اقبال کا ایک شعر ہے جسے کسی نے یہ ثابت کرنے کے لئے سنایا تھا کہ انکے بنوں میں خدا کے عاشق بہت ہیں۔

خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اسکا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا


شہیدالمحراب، عمر بن الخطاب، سید عمر تلمسانی ترجمہ حافظ محمد ادریس ، البدر پبلیکیشنز، اردو بازار، لاہور۔

Thursday, May 28, 2009

احسان فراموش کراچی والے

اوریا مقبول جان ایکسپریس میں کالم لکھتے ہیں ۔ اور جو چاہتے ہیں لکھتے ہیں۔ اس کے لئے تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ نہ ہی سچ جاننے کی۔ سنی سنائ بات کو آگے بڑھانے والے کے لئے تاریخ میں کچھ زیادہ اچھے الفاظ نہیں۔اور اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے بد دعائیں دینے والے کے لئے اس سے زیادہ برے الفاظ ہیں۔ انکے ایک کالم کو ہمارے ایک کرم فرما شعیب صفدر صاحب نے اپنے بلاگ پہ جگہ دی۔ عنوان تھا اس کا 'ڈر اس کی دیر گیری سے'۔میں نے اس بلاگ پہ اس پہ تبصرہ کیا لیکن میری خواہش ہے کہ یہ تبصرہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے علم میں آجائے۔ معمولی ایڈیٹنگ کے ساتھ یہاں دوبارہ دے رہی ہوں۔ اوریا مقبول جان صاحب سے عقیدت رکھنے والے لوگ، اپنے نکتہء نظر سے ہٹ کر نہ برداشت کرنے والے لوگ براہ مہربانی اسے پڑھنے سے گریز کریں۔۔ باقی خیر ہے۔

اوریا مقبول جان نے روایت کو قائم رکھا یعنی اپنے مطلب کی آدھی بات تو بیان فرما دی اور باقی آدھی بات کا تذکرہ گول کر گئے۔ جہاں انہوں نے اپنے اتنے احسانات گنوائے وہاں اگر وہ کچھ اور باتیں بھی بتا دیتے تو اچھا تھا۔ مثلاً انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ جب پاکستان بناتو حالات ایسے تھے کہ حکومت پاکستان کے پاس ایک مہینے کی تنخواہ دینے تک کے پیسے نہ تھے۔ ان مہاجریں نے کسطرح اپنی ذاتی املاک سے فنڈز اکٹھے کئے اس کا کوئ تذکرہ نہیں۔

ذرا اس واقعے کا بیان دیتے جس میں نطام دکن نے میر لائق علی کے ہاتھ اس مملکت خداد معاف کیجئے گا آپکی سر زمین کو مدد کے لئے ایک خطیر رقم بھیجی۔ اس کے علاوہ ناموں کی ایک لمبی لسٹ جو اس وقت میرے دماغ سے محو ہو گئے ہیں۔ذرا دو چار نام ان کے بھی گنوا دیتے یا معلوم کر لیتے تو اچھا تھا۔۔

آپنے اس وقت کی وفاقی ملازمتوں میں مہاجرین کی تعداد کا تذکرہ کیا ہے۔ لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا کہ اسوقت مغربی
پاکستان میں تعلیم یافتہ اور تجربے کار لوگوں کا کس قدر قحط الرجال تھا۔ آپ کا یہ خطہ جس میں اس وقت کا پاکستان موجود
ہے یہاں کی تعلیمی زبوں حالی اور ذہنی معاشرتی زبوں حالی کا تذکرہ بھی کر لیتے تو آپ کے الفاظ دھاک بیٹھ جاتی۔اگر وہ
لوگ آکر یہ سب نہ سنبھالتے تو گاندھی اور جواہر لعل نہرو کی یہ پیشن گوئ کہ یہ ملک تو چند دنوں کے لئے بنا ہے اسے
پورا ہونے سے کون روک سکتا تھا۔ آپ کے جاگیردار یا سردار۔ جن سے اس وقت قائد اعظم کو ڈیل کرنی پڑی تھی کیونکہ وہ
اپنی بات کو ہر صورت پورا کرنا چاہتے تھے۔ اس وقت ان سے کی گئ ڈیل کے نتیجے میں یہ ملک کبھی جاگیرداری کے آسیب
سے آزاد نہ ہو سکا حالانکہ جواہر لعل نہرو نے آزادی کے فوراً بعد زمینداری نطام کے خاتمے کااعلان کیا۔

مزید اطلاع کے لئے عرض کر دوں کہ ان میں سے بیشتر لوگوں کو حکومت پاکستان نے اپنی درخواست پر یہاں بلا یا تھا ایسا
نہیں تھا کہ وہ لوگ اس وقت وہاں بغیر کسی ملازمت کے پڑے ہوئے تھے اور آپ نے انہیں یہاں بلا کر روزی روزگار دیا۔۔ اس
سلسلے میں اس وقت فوری طور پہ جو نام مجھے یاد آرہا ہے وہ بھوپال کی ولعیہد شہزادی عابدہ سلطان ہیں۔ شہزادی بھوپال
کا محل چھوڑنے کے بعد کراچی میں ملیر کے ایک سادہ سے گھر میں آکر رہیں انہیں حکومت ہندوستان ہر قسم کی
سہولیات دینے کو تیار تھی مگر انہیں آپ کا احسان اٹھانا مقصود تھا اس لئے وہ یہاں آگئیں۔ کبھی موقع ملے یا دوسروں کے
احسانات جاننے کا دل چاہے تو ان کی خود نوشت سوانح حیات ضرور پڑھئے گا۔ جس میں انہوں نے بڑی تفصیل سے آپکی
سرزمین پہ ان کے ساتھ کیا گذری بیان کیا ہے۔ ایسے لوگوں کے ناموں کی ایک لمبی لسٹ ہے بیشتر تو گمنامی کے
اندھیروں مییں ڈوب گئے۔

پھر جناب آپ نے کلیمز کا تذکرہ کیا ہے ان کلیمز سے پنجابی مہاجرین نے فائدہ اٹھایا ہو تو ہو۔ لیکن اگر کراچی میں رہنے والوں
نے اسی رفتار سے فائدہ اٹھایا ہوتا تو آج اس شہر کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ ان کلیمز کے بارے میں بھی آپ ان کی کتاب
میں تفصیل سے پڑھ سکتے ہیں۔ کہ کسطرح مقامی لوگوں نے یہ کلیمز ہتھیائے۔ حتی کہ آپ کے پسندیدہ حکمراں ایوب خان
نے اپنے وقت میں ایک آڈر جاری کیا جس کی رو سے کلیمز کے صحیح حقدار صرف وہ لوگ تھے جن کی چھوڑی ہوئ جگہوں
کی سرحدیں موجودہ پاکستان سے ملتی ہوں۔ یعنی صرف پنجابی مہاجرین کے کلیمز کے مطابق انہیں واجبات دئے جائیں
گے اور اندرون انڈیا سے آنے والوں کے کلیمز زیادہ سے زیداہ تین لاکھ کی حد تک ادا کئے جائیں گے۔ یہ کھلی تعصبیت
پسندی تھی۔ مگر جناب ہم تو آپ کے احسان مند تھے اس لئے بغیر کسی چوں چرا کے اس فیصلے کو قبول کر لیا۔

آپ نے ان بیس لاکھ جانوں کی قربانی کا تذکرہ نہیں کیا اور انکی جو نہ یہاں کبھی آئے نہ یہاں کے وسائل سے کوئ فائدہ لیا
مگر اپنا سب کچھ اس نعرے کے پیچھے گنوا دیا۔ بٹ کے رہے گا ہندوستان، بن کے رہیگا پاکستان۔ ان کی نسلوں کو آپ کی
عیاشیوں کا بھگتان بھگتنا پڑا۔ اگر یہ لاکھوں قربان نہ ہوتے تو آج آُ پ ہندو مہاجنوں کے قرضدار ہوتے جو قیام پاکستان کے وقت
یہاں سے چلے گئے اور آپ کو برسوں کے قرضوں سے نجات ملی۔ پاکستان تو آپ کو ان کی بے غرض اور بے لوث قربانیوں کے
انعام میں ملا۔ جس کی آپ کو کوئ قدر نہیں۔ قدر بھی کیسے ہو، مال مفت دل بے رحم۔ آپ کے خطے کا تو یہ علم تھا کہ ایک
صبح اٹھے تو پتہ چلا کہ پاکستان بنا ہے اور ایک اورصبح اٹھے تو پتہ چلا کہ پاکستان ٹوٹ گیا ہے۔ بن گیا تو ہمارا ہے اور ٹوٹ گیا
تو چلو اچھا ہوا جان چھوٹی۔ یہ تو ان لوگوں سے پوچھیں جنہوں نے اپنے رشتے ناطے، زمین مال متاع ، جاہ و حشمت یہ
جاننے کے لئے چھوڑی کہ ان کے کتنے محسنین ہیں۔ کیسے کیسے لوگ ایسے ایسے ہوگئے، ایسے ایسے لوگ کیسے
کیسے ہوگئے۔

اگر اسوقت آپ نے لیاقت علی خان سے آپ کے بقول محبت کا اظہار کیا جس کا ثبوت ان کے سینے کو پھاڑنے والی گولی ہے
تو انہیں یہی زیبا تھا۔ ایک شخص جو کہیں کا نواب ہو، اپنا سب فخر چھوڑ کر آپکی زمین کو آزاد کرانے والے لوگوں میں شامل
ہو اور ایک بھرے پرے مجمعے میں پاکستان کے قیام کے صرف تین سال بعد اپنے سینے کا خون روکنے کی ناکام کوشش کرتے
ہوئے یعنی مرتے وقت بھی پاکستان کا نام لے اور مرنے کے بعد اس کی شیروانی کے نیچے پھٹی بنیان موجود ہو۔ کیا آپ
اپنی تاریخ سے ایسی کوئ دوسری مثال ڈھونڈ کر لا سکتے ہیں۔ افسوس آپ کے پاس صرف احسانات کی تاریخ ہے۔

اگر ان مہاجرین نے جس وقت وہ پاور میں تھے آپ جیسی دور اندیشی دکھائ ہوتی یعنی ہر جگہ اپنے نا اہل رشتے دار یا
برادری کے بندے کو ڈالا ہوتا تو آج بھی ان جگہوں پہ وہی ہوتے یا ان کی آل اولاد۔نجانے کیوں ان بیوقوفوں نے نے نئے وطن سے
اتنی محبت اور اصول پسندی دکھائ۔ انہوں نے اپنی روشن خیالی ، وسیع النظری سے آپ لوگوں کے لئَے جگہ خالی کی آپ
کی تربیت کرنے کی کوشش کی۔ آپ نے ان کا صفایا اس طرح کیا کہ دامن پہ کوئ داغ نہ خنجر پہ کوئ چھینٹ۔ ان کے
پاکستان میں ہر کسی کے لئے احترام تھا محبت تھی ۔ ترقی کے آثار تھے۔ آپ کے پاکستان میں تنگ نظری ہے، شدت پسندی
ہے اور آپ کی بات سے اختلاف کرنے والے کے لئے ذلت، خواری اور خاتمہ بالخیر ہے۔ یہاں ہر چیز تنزلی کی طرف ہے۔ صرف
تنگ نظری ہے جو ماشاللہ خوب پھل پھول رہی ہے۔

اس پر بھی جب آپ نے دیکھا کہ یہ احساس ندامت سے عاری لوگ اپنے لئے نئ منزلوں کے سراغ نکالنے میں لگے ہوئے
ہیں۔تو آپ نے انہیں کوٹہ سسٹم کی کند چھری سے ذبح کرنا شروع کیا۔ تاکہ تکلیف زیادہ ہو۔ ہم نے اس تحفے کو بھی ہنس
کے سہا۔اور اپنے لئے دوسری راہیں تلاش کیں۔ لیکن جناب ابھی ہماری سزا پوری کہاں ہوئ۔

مہاجروں کےطرے کا خم نکالنے کے لئے چودہ دسمبر ۱۹۸۶ کو پٹھانوں کے لشکر بھیج کر ان کے نہتے لوگوں کو وہ سبق
سکھایا کہ اس نسل کے لوگ کے سینوں پہ نقش ہوگیا۔ نہ نہ آپ اس سلسلے میں ایم کیو ایم کا نام نہ لیں یہ جماعت تو
اس وقت عملی طور پہ تھی ہی نہیں۔ اس وقت تو اس شہر پہ آپ کا راج تھا۔ موجودہ نسل کو یہ تاثر دیا جات ہے کہ بشری
زیدی کے حادثے کے بعد ایم کیو ایم نے فسادات شروع کروائے چونکہ یہ واقعہ اتنا پرانا نہیں تو اس کی عینی شہادت میں
دینے کو تیار ہوں۔ ایک علاقے کے مظلوم اور نہتے لوگوں پر جو اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف تھے ان پر پٹھانوںکے
لشکروں نے جو راکٹ لانچر سمیت ہر جدید ہتھیار سے لیس تھے انہوں نے حملہ کرکے مہاجروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔
اس کی وجہ میں اپنے فاضل کالم نگار کو ضرور بتانا چاہوںگی اور وہ یہ تھی کہ اس سے پچھلی رات سہراب گوٹھ پر ہیروئن اور
اسلحے کی بازیافت کے لئے چھاپا پڑا تھا۔۔ یہ جگہ اس وقت بھی پٹھانوں کے بیشتر جرائم کا اڈہ تھی اور آج بھی اس کی
شہرت اچھی نہیں ہے۔ آپ کی ساری انتطامیہ چھ گھنٹوں کے لئے خاموش کھڑی تھی۔ اوپر سے آڈر نہیں تھا۔۔ اور پولیس کا
کام صرف یہ تھا کہ علاقے سے باہر کے لوگ ان مطلوموں کی مدد کو نہ پہنچ جائیں۔ ان لوگوں کو باہر روک دیا جائے۔ اس کا انہیں
آڈر تھا۔ جب کئ سو لوگوں کو قتل کر ڈالا گیا اور ہر گھر سے آگ کے شعلے بلند ہوئے تو وہ لوگ واپس ہوئے لال مسجد کے
لئے آنسو بہانے والوں کو شاید یہ واقعہ معلوم ہی نہیں۔یہ وہ منحوس دن تھا جس دن آپ کے احسانات کی حدوں سے نکلنے
کی خواہش پیدا ہوئ۔

آپ کا شکریہ کہ آپ نے ہمیں کچھ اور سوچنے پہ مجبور کیا۔ ہمیں بتایا کہ الطاف حسین نامی شخص بھی اس شہر میں
موجود ہے۔ آپ کا شکریہ کے ہمارے نوجوانوں کے دلوں سے ہتھیار کا خوف نکالا۔ انہیں بتایا کہ طاقت ہتھیار سے حاصل کی
جاتی ہے قلم اور علم تو بیوقوفوں کے لئے ہیں۔ انہوں نے یہ سمجھ لیا تو حضور ، اب آپ پھر ناراض ہیں۔ آپ نے اپنے احسان
فراموشوں کی ایک نسل کو تباہ و برباد کر دیا۔ ایسوں کے ساتھ تو ایسا ہی کرنا چاہئیے۔ جناب ہم تو آپ کے احسانات کے بوجھ
تلے کچلے ہوئے ہیں ہمیں تو ہر لحظہ جناب کے ماتھے کے بل گنتے رہنا چاہئیں۔ اور کسی بھی احسان فراموشی کا تصور
بھی ذہن میں نہیں لانا چاہئے۔ لیکن حضور ایسا ہے کہ ہم آپ سے ابھی تک ڈرے ہوئے ہیں۔ کیا عالی مرتبت اس خوف کو
ہمارے سینوں سے نکالنے کا نیک کام کریں گے۔ یا اس شہر میں مزید پٹھانو ں کی مافیاز قائم کرنے کے منصوبے بناتے رہیں
گے۔ کیا اس دفعہ آپ ہمیں طالبانوں کے ہاتھوں سبق سکھانا چاہتے ہیں۔ وہ سبق جو آپ نے اپنے معصوم ہموطنوں کو رٹوادیا
ہے اور جس سے ماشاللہ آپ کے درو دیوار سرخ ہو رہے ہیں۔ عالی قدر سر میں تو اتنی خوفزدہ ہوں کہ سوچتی ہوں کہ کسی
اور ملک کی شہریت اختیار کرلوں میری ایک چھوٹی سی خواہش ہے کہ میرے بچوں کے، میری آنیوالی نسلوں کے دل نارمل
انداز میں دھڑکیں۔اور ان کے سینوں میں کوئ خوف نہ ہو۔اور نہ احسان کا بوجھ ۔ یہ بہت بھاری ہوتا ہے جناب۔


ریفرنس؛
عابدہ سلطان، یہ شہزادی صاحبہ کی خود نوشت سوانح عمری ہے جسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا۔ پاکستان کی پڑھی لکھی خواتین کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے یہ کتاب ایک عورت کی جہد مسلسل کی داستان ہے وہ بھی مسلمان عورت کی۔

شہزادی عابدہ سلطان
عابدہ سلطان

اوریا مقبول جان کا مضمون اس بلاگ میں ہے۔ 'ڈر اس کی دیر گیری سے'۔
شعیب صفدر کے بلاگ میں اس کی تاریخ ہے پچیس مئ، ۲۰۰۹

Wednesday, May 27, 2009

رحیم یار خان کی ریحانہ

میری ماسی کا نام ریحانہ ہے۔ وہ میرے گھر کے قریب کچی آبادی میں نالے کے کنارے پہ رہتی ہے۔ اس کا تعلق رحیم یار خان سے ہے۔ یہ تعلق میں اکثر اس لئے بتاتی ہوں کہ ہر انسان اپنی ثقافت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ماحول سے ہٹ کر سوچنے سمجھنے اور عمل کرنےکی صلاحیت رکھتے ہوں۔ یہی لوگ وقت سے آگے اور اس سے الگ ہو کر دیکھ سکتے ہیں۔ اور نا محسوس طریقے پہ انہی لوگوں سے دنیا کا مستقبل جڑا ہوتا ہے۔ لوگوں کی اکثریت اپنے اسی روائتی نظام سے جڑی رہتی ہے اور بلآخر وہ اس نظام کی اور وہ نظام ان کی شناخت بن جاتا ہے۔
ہاں تو میں اپنی علامیت ایک طرف رکھ دیتی ہوں کیونکہ اس قصے میں جو بہت سادہ سا ہے اور اس میں نہ کوئ گہرئ اہے، نہ سنسنی نہ نیاپن اور نہ کوئ سبق۔ لیکن بات یہ ہے کہ دنیا کی کتاب بس ایسے ہی بھرتی کے صفحات سے زیادہ بھری ہوئ ہے۔اب جو لوگ کچھ نئے کے لئے یہاں آئے ہیں وہ برائے مہربانی یہیں سے پلٹ جائیں۔ اس سے ان کا وقت کم ضائع ہوگا۔

ہاں تو مجھے اسکا گھر صحیح سے نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہےیعنی اختر شیرانی کی طرح میں انگلی آٹھا کہ یہ نہیں کہ سکتی کہ یہی ہے وہ گلی ہمدم جہاں ریحانہ رہتی ہے۔ کچھ لوگ اگر اختر شیرانی سے میرا رشتہ جاننا چاہتے ہیں تو بتا دوں کہ وہ عرصہ دراز ہوا اس دار فان سے کوچ کر چکے ہیں شاعر تھے خواتین کا نام اپنی شاعری میں خوب استعمال کرتے تھے لیکن افسوس میرا نام کبھی استعمال نہیں کیا۔ ایک طرح میری بچت ہو گئ وگرنہ کراچی سے باہر کے ہر ایک شخص کو یقین دلانا پڑتا کہ وہ عالم بالا سے افیئر چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتےاور نہ ہی مجھے روحوں سے کوئ دلچسپی ہے۔

خیر بات کسی اور طرف چلی گئ۔ میں واپس ریحانہ کیطرف آتی ہوں۔ وہ پچھلے دو سال سے میرے پاس ہے۔ اس کے پانچ بچے ہیں اور چھٹا آنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس سے پہلے ایک زمانہ ایسا گذرا کہ جھاڑو ایک ماسی لگاتی اس اثناء میں وہ ڈس مس ہوجاتی اور پھر پونچھا لگانے دوسری عورت آتی۔کبھی کبھی میں ہی صبح سے رات تک گھر کے کاموں مین گھن چکری بنی رہتی۔ ریحانہ صفائ کے معاملے میں جیسی بھی ہو۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ وہ خاموشی سے اپنا کام کرتی رہتی اور میں اپنا۔ اگر میں اسے کسی غلطی سے آگاہ کروں تو بغیر کسی جھک جھک کے اسے صحیح کر دیتی ہے۔ مجھے سرائکی لوگوں کی طبیعیت کا یہ ٹھنڈا پن پسند ہے۔

ابھی دو دنوں سے وہ نہیں آرہی تھی تو میں نے اس کی نند سے جو اتفاق سے گھر میں کچھ اور اور کام انجام دیتی ہے اس کے بارے میں دریافت کیا۔

اس نے مجھے بتایا کہ ریحانہ کا اپنے شوہر سے کچھ جھگڑا ہو گیا تھا تو بس اس دوران میں اسے چوٹ لگ گئ اور اس کے ہاتھ کا جوڑ اپنی جگہ سے کھسک گیا۔ ریحانہ نے اپنی جگہ کام کرنے کے لئے ایک اور ماسی کو بھیجا ہے وہ تھوڑی دیر میں آئے گی۔ وہ آئ تو ایک بڑی بی نکلیں، لگ بھگ ساٹھ سال کی۔ میں اسے دیکھ کر خاموش ہو گئ۔ جب وہ جانے لگی تو میں نے اس سے پوچھا کہ میں نے سنا تھا تمہاری بیٹی کام کریگی۔ کہنے لگی وہ کسی اور جگہ جاتی ہے یہاں نہیں آ سکتی۔ اب میں کچھ سوچنے لگی تو اس نے دھیمی آواز میں مجھ سے پوچھا ' کیوں میرا کام پسند نہیں آیا؟' ' آں، نہیں یہ بات نہیں ہے۔ کام کافی زیادہ ہے اور تم خاصی کمزور اور بوڑھی ہو'۔ مجھے بالآخر کہنا پڑا۔ ' کیوں باجی، کیا بوڑھوں کا پیٹ نہیں ہوتا۔ پیٹ تو جوان بوڑھے سب کے ساتھ لگا ہے'۔ اس نے جیسے میرے منہ پہ اسکا چ ٹیپ لگا دیا ۔

اگلے روز ریحانہ مجھ سے ملنے آئ اس کے ہاتھ پہ پلاستر چڑھا ہوا تھا۔ کیا ہو اتھا ریحانہ میں نے اس کے ہاتھ پہ ہمدردی کی نظر ڈالی۔ 'باجی چھوٹی بچی کی طبیعیت خراب تھی۔ میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ ڈاکٹر کے پاس اسے لے جاءّو۔ کہنے لگا تم لے جاءو میں تھکا ہو ہوں۔ اب آپ بتائیں کیا میں تھکی ہوئ نہیں تھی۔ میں بھی سارا دن کام کرتی ہوں۔ بس یہ بات میں نے اس سے کہی تو مجھے مارنے لگ گیا اور ساتھ ساتھ میری ماں بہنوں کو گالیاں دینے لگا۔ اب آپ بتائیں۔ ہمارے جھگڑے میں میری ماں بہنوں کے لئے کیوں گالیاں نکالیں۔ اتنا مارامجھے۔ پھر اسٹیل کے چمچے سے مارنے لگا بس وہ ہاتھ پہ لگ گیا۔ ہڈی میں فریکچر ہو گیا۔ میں تو ناراض ہو گئ تھی اپنی ماں کے پاس چلی گئ۔ پر بعد میں رونے لگا کہتا ہے میرے اوپر کسی نے جادو کردیا ہے۔ مجھے مارتے ہوئے احساس نہیں ہوا میں کتنا مار رہا ہوں۔ بچوں کو بھی مارا۔ میں بالکل پاگل ہو گیا تھا۔ آپ بتائیں کام تو ہم اس لئے کرتے ہیں کہ ان کے پیسوں میں پورا نہیں ہوتا۔ ہم تو ان کی مدد کرتے ہے۔ لیکن یہ سمجھتے نہیں۔ میں واپس گھر آگئ وہ اتنا رو رہا تھا۔' میں خاموشی سے اس کی کہانی سنتی رہی۔ وہ سرائکی انداز میں بہے جا رہی تھی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میرے پاس کسی جادو کا توڑ نہیں۔ اور میں دریا کے کنارے پڑے پتھر کی طرح اسے تک رہی تھی۔

دیکھا آپ نے یہ کتنی عام سی بات تھی۔ لیکن بس اتنی عام باتوں پہ کوئ اپنے بچوں کے گلے کاٹ کر خود کشی کر لیتا ہے اور کوئ مٹی کا تیل ڈال کر آگ لگا لیتا ہے۔ میں ریحانہ کے ساتھ ملکر ان جادو کرنے والوں کو کوستی ہوں۔ وے تیرا ککھ نہ رہوے۔

Monday, May 25, 2009

کراچی میں آم

شہر میں آم ہیں، اور کوڑیوں کے دام ہیں۔ سب کہیں گے بک رہی ہیں جنوں میں کیا کیا کچھ۔ حالانکہ میں شاعری کرنے کی کوششش کر رہی ہوں اس لئے آموں کے دام میں غلط بیانی کرنی پڑی ورنہ قافیہ کیسے ملتا۔ اچھا چلیں یوں کرلیتی ہوں شہر میں آم ہیں، شہد کے جام ہیں۔ اب ہر ایک مجھے لعن طعن کریگاخاتون اورجاموں کا تذکرہ۔ یہ ہے مشرف کے زمانے کی بے حیائ۔ میری توبہ۔ چلیں یہ تو ممکن ہے کہ شہر میں آم ہیں سب تمہارے نام ہیں۔ اب آم بیچنے والے میری شامت لائیں گے۔ ایسے کس کا نام ہے ہر ایک کا دام ہے ۔ لیجئیے بات پھر دام پر آگئ۔ چلیں خواب دیکھتے ہیں، شہر میں آم ہیں کوڑیوں کے دام ہیں۔

غالب کا آموں سے عشق کوئ ڈھکی چھپی بات نہیں۔ نہیں معلوم کہ یہ ان کا پہلا عشق تھا یا دوسرا لیکن راوی لکھتا ہے کہ انکی آم کے متعلق دو خواہشات تھیں۔ اول یہ کہ میٹھے ہوں اور دوئم یہ کہ بہت ہوں۔کراچی کے راوی کا کہنا ہے کہ اگر سب کے سب انورٹول ہوں تو کون پاجی امریکہ اور کینیڈا کی شہریت اختیار کرے گا۔

یہ غالب کے قصائد میں سے لئے گئے کچھ شعر ہیں۔ آم کھانے کے بعد پڑھئے۔ آم کھا کر پیدا ہونے والی غنودگی ختم ہو جائے گی۔ آزمائ ہوئ بات تو نہیں پر آپ پہ آزما لینے میں کیا نْقصان ہے۔

بارے آموں کا کچھ بیاں ہوجائے
خامہ نخل رطب فشاں ہوجائے
آم کا کون مرد میداں ہے؟
ثمروشاخ، گوئے چوگاں ہے
تاک کے جی میں کیوں رہے ارماں آئے،
یہ گوئے اور یہ میداں
آم کے آگے پیش جاوے خاک
پھوڑتا ہے جلے پھپھولے تاک
نہ چلا جب کسی طرح مقدور
بادہء ناب بن گیا انگور
یہ بھی ناچار جی کا کھونا ہے
شرم سے پانی پانی ہونا ہے
مجھ سے پوچھو ، تمہیں خبر کیا ہے
آم کے آگے نیشکر کیا ہے
نہ گل اس میںنہ شاخ و برگ، نہ بار
جب خزاں آئے تب ہو اس کی بہار
اور دوڑائیے قیاس کہاں
جان شیریں میں یہ مٹھاس کہاں
جان میں ہوتی گر یہ شیرینی کوہکن باوجود غمگینی
جان دینے میں اس کو یکتا جان پر
وہ یوں سہل دے نہ سکتا جان
نظر آتا ہے یوں مجھے یہ ثمر
کہ دواخانء ازل میں مگر
آتش گل پہ قند کا ہے قوام
شیرے کے تار کا ہے ریشہ نام
یا یہ ہوگا کہ فرط رافت سے
باغبانوں نے باغ جنت سے
انگبیں کے بحکم رب الناس
بھر کے بھیجے ہیں سر بمہر گلاس
یا لگا کر خضر نے شاخ نبات
مدتوں تک دیا ہے آب حیات
تب ہوا ہے ثمر فشاں یہ نخل
ہم کہاںورنہ، اور کہاں یہ نخل
تھا ترنج زر ایک خسرو پاس
رنگ کا زرد، پر کہاں بو باس
آم کو دیکھتا، اگر اک بار
پھینک دیتا طلائے دست افشار
رونق کارگاہ برگ ونوا
نازش دودمان آب و ہوا
رہرو راہ خلد کا توشہ
طوبی و سدرہ کا جگرگوشہ
صاحب شاخ برگ و بار ہےآم
ناز پروردہء بہار ہے آم

ریفرنس؛
یہ اس دیوان غالب سے لیا گیا ہے جس کے ناشر و طابع ہیں۔ فضلی سنز پرائیویٹ لمیٹڈ اردو بازار، کراچی
fazlee@cyber.net.pk

Sunday, May 24, 2009

خبردار ہم ایک ایٹمی قوت ہیں

اپنے بچپن میں میں ہم ایک کھیل کھیلتے تھے جس میں ہم بچے ایک تخت پہ چڑھ کر بیٹھ جاتے اور ایک فرضیہ بھوت کو تخت کے نیچے محسوس کرتے اور زور زور سے چیختے تھے ایک فرض کئے ہوئے خوف کے زیر اثر۔چیخنے کے بعد بڑا مزہ آتا۔ اور ہر تھوڑی دیر بعد یہ سیشن ہوتا۔ میری نانی کے گھر میں ایک کونے میں پڑا ہوا تخت بس اسی مقصد کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ اسے اڈرینالن ہائپ کہتے ہیں۔ ایک سنسنی سے گذرنا اور پھر اس سے لطف اندوز ہونا کیونکہ کافی دیر تک خون رگوں میں پارہ بن کر بھڑکتا اور دوڑتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں،

پلٹنا جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

لیکن بات پلٹنے جھپٹنے سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے۔ اب میدانوں میں شمشیر کے کمال دکھا نے والے شمشیر زن نہیں رہےبلکہ کسی لیبارٹری میں ایک میز پہ جھکا وہ خود غرض شخص ہے جو طاقت کے کھیل میں شامل فریقین کے اڈرینالن ہائپ سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ کیوں اسے بھی تو ناموری کا شوق ہے۔ بد نام جو ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا۔ لاکھوں انسانوں کو بیک جنبش انگلی اس صفحہء ہستی سے مٹا دینا اب ہوا کتنا آسان۔ ایٹم بم کی بدولت۔ اب ہمیں کس کا شکریہ ادا کرنا چاہئیے۔اڈرینالن ہائپ کے شکار حکمرانوں اور انہیں شہہ دینے والی قوتوں کا۔ فوجی ھتھیاروں کی سپلائ کرنے والی صنعتوں کا۔ یا انسانیت کے دشمنوں کاجو انسان نامی مخلوق کو اس دنیا سے مٹانے کی کوششوں میں رات دن مصروف ہیں اور اسی تندہی سے مصنوعی طریقوں انسان پیدا کرنے کی کوششوں میں بھی۔

آئنسٹائن کے نظریہء اضافت کو استعمال کرکے امریکہ نے ایک پروجیکٹ کی بنیاد رکھی۔ جس کا نام رکھا گیا۔ پروجیکٹ مین ہیٹٹن۔اس پروجیکٹ کو جناب آءنسٹائن کی تائید حاصل تھی۔ اس پروجیکٹ میں امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور یورپ کے طبعیات دان، انجینیئرز اور حساب دان شامل تھے۔ اسکے نتیجے میں بننے والے پہلے ایٹم بم کو دی گڈگت کا نام دیا گیا۔ ۱۹۳۹ ء میں بم بنانے کے کام کا آغاز ہوا۔ اور ۱۹۴۵ میں اسمیں کامیابی حاصل ہوئ۔ اس وقت ان چھ سالوں ،میں اسپروجیکٹ پردو بلین ڈالر کا خرچہ آیا۔ پہلا دھماکہ ا۱۹۴۵ کی جولائ میں میں نیو میکسیکو میں امریکہ صاحب بہادر نے کیا۔

پروجیکٹ مین ہیٹن کے نگراں رابرٹ اوپنار نے پہلے دھماکے کے بعد سر خوشی کے عالم میں کہا۔

'I am become death, the destroyers of world.
'اب میں موت ہوں، دنیاءووں کو نیست ونابود کرنے والا۔

اور اگلے دو دھماکے جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی میں بالترتیب چھ اور نو اگست کو کئے گئے۔انسانی تاریخ میں یہ ایک گھناءونے دن کے طور پہ یاد رکھا جائے گا۔ لاکھوں انسان ، زندہ انسان چشم زدن میں صفحہء ہستی سے نابود ہو گئے۔اور جو بچ گئے وہ نشان عبرت بن گئے ان کی ان نسلوں نے بھی اسے بھگتا جو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئ تھیں۔ دھماکے کے فوراً بعد ہیروشیما میں بم گرنے کے مرکز سے لیکر ڈھائ میل کے علاقے میں ہر جلنے والی چیز جل کر ختم ہو گئ۔ آپ کو پتہ تو ہوگا کہ انسان بھی آگ سے مامون نہیں۔ باقی بچ جانے والے لوگ ایٹم بم سے نکلنے والی تابکار شعاعوں کے شکار ہوئے اور مختلف لاعلاج قسم کے امراض میں مبتلا ہوئے۔ ان کی آنے والی نسلوں میں خون کا کینسر عام تھا۔ اور آج بھی وہ مکمل طور پر اس سے چھٹکارا نہیں پاسکے۔ یہ عذاب خدا نے ان پہ نہیں اتارا تھا۔ یہ بہت سارے انسانوں کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ قدرت نے تو بس ہمیں اشارہ دیا کہایٹم بم کی تابکار شعاعیں اگر ہمارے دشمن کی نہیں تو ہماری بھی نہیں ہیں۔

ان دھماکوں کے نتیجے میں جاپان نے دس اگست ۱۹۴۵ کو ہتھیار ڈال دئیے۔ یوں دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا۔ جاپانیوں نے بعد میں ایٹم بم تیار کرنے کی کوشش نہیں کی انہوں نے اپنی تعلیم اور ہنر مندی میں اضافہ کیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ خود امریکہ کے اندر امریکی مصنوعات کے بجائے جاپانی مصنوعات کو ترجیح دی جانے لگی۔یوں آج جاپانی دنیاکی سب سے محنتی قوم ہے۔



پاکستان نے۲۸ اور ۳۰ مئ ۱۹۹۸ میں پانچ ایٹمی دھماکے کئے۔ یہ دھماکے ان دھماکو ں کے جواب میں کئے گئے جو انڈیا نے اسی مہینے کی گیارہ اور تیرہ تاریخ کو کئے گئےتھے۔خیال تھا کہ اس طرح دونوں ملکوں کے درمیان تناءو کم ہوگا اور دونوں ممالک اپنے دفاعی بجٹ کو کم کر کے اپنے عوام کی بہتری کے لئے کچھ کام کریں گے۔ اب تک تو ایسا ہونے کے کوئ آثار نہیں۔
انڈیا اس سے پہلے بھی ۱۹۷۴ میں اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کر چکا تھا۔ اگر آپ ہنسنا چاہیں تو اس پروجیکٹ کا نام بھی سن لیجئے اس کا نام تھا 'مسکراتا ہوا بدھا۔' یہ کسی بڈھے یا بدھ کے نام پر نہیں۔ بلکہ گوتم بدھ کے نام پہ تھا۔ جنہوں نے راج پاٹ چھورا اور نروان حاصل کرنے کے جنگلوں کا رخ کیا۔ اورایک لمبا عرصہ کی تپسیا کے بعد یہ عقدہ کھولا کہ انسان ہر جاندار سے محبت کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔

خیر اس قسم کے مذاق ہمارے پڑوسی اکثر کرتے رہتے ہیں۔ ان پہ کیا دل جلانا۔ دل تو اس بات پہ جلائیے کہ ان پانچ ٹیسٹوں پہ جو پاکستان نے کئے قریباً ۱۰۰ملین ڈالر کا خرچہ آیا۔ یقیناً انڈیا کا بھی اتنا ہی خرچ ہوا ہوگا۔ پاکستان اپنے بجٹ کا ایک چوتھائ حصہ دفاع پہ خرچ کرتا ہے یہی حال انڈیا کا بھی ہے۔ دونوں ملکوں کی کل آبادی ساری دنیا کی آآبادی کا پانچواں حصہ ہے اور دونوں ملکوں کے غریبوں کی کل تعداد دنیا بھر کے غریب لوگوں کا چھٹا حصہ ہے۔آنڈیا میں کل آبادی کا ۲۰فی صد حصہ غربت کی سطح سے نیچے زندگی گذار رہا ہے۔ پاکستانابھی غربت کے اس اسکیل پہ تو نہیں پہنچا مگر خودکشی کرنے والوں کی شرح میں اضافہ ہے جو گھریلو مسائل سے تنگ آکر خودکشی کرتے ہیں۔ معاشرے کےاندر بڑھتی ہوئَ شدت پسندی کا رحجان بھی پیسے کی غیر منصفانہ تقسیم کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ بھوکے کو تو چاند سورج بھی روٹیاں نظر آتے ہیں۔اور جب یہ صحیح طریقے سے حاصل نہ ہو تو محبت اور جنگ کی طرح اس کے حصول میں بھی ہر چیز جائز ہو جاتی ہے۔

جنگ میں، ایکدوسرے کو مار ڈالنے کا جذبہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ ہابیل اور قابیل کی تاریخ۔ ایک زمانے میں جنگیں اپنی بقاء، جذبہء انتقام یا حکمرانی کے دائرے کو بڑھانے کے لئے استعمال ہوتی تھیں۔ فی زمانہ اپنا ابنایا ہوا اسلحہ بیچنے کے لئے بھی جنگیں کرائ جاتی ہیں یا ایسے حالات پیدا کئے جاتے ہیں جن میں متعلقہ فریق احساس خوف کا شکار ہو کر ان لوگوں سے ان کی شرائط پہ اسلحہ خریدنے کے لئے مجبور ہو۔ نتیجتاً مختلف ممالک کے اندر شورشیں برپا کی جاتی ہیں ۔ پھر شورش برپا کرنے والے کو بھی اسلحہ ملتا ہے اور ان کو روکنے والوں کو بھی۔ یوں اسلحے کے بازار میں کساد مندی نہیں پیدا ہو پاتی۔

دنیا بھر کے جی ڈی پی کا دو فیصد حصہ اسلحے کی تیاری پہ خرچ ہوتا ہے۔ اس کے بڑے سپلائرز میں امریکہ، روس ، برطانیہ، جرمنی اور چین شامل ہیں۔ امریکہ چھتیس فیصد اسلھہ سپلائ کرتا ہے۔ سوچیں ذرا اگر آج دنیا بھر کے انسان تہیا کرلیں کہ وہ جنگ میں شامل ہونے کے بجائے اپنے عوام کی فلاح کو ترجیح دیں گے تو ان ممالک کو کتنا نقصان ہو۔اس لئےفوج، معاشیات اور سیاست کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک کی اصل طاقت اس کے عوام ہوتے ہیں۔وہ اس کا اسلحہ ہوتے ہیںاور بلڈنگ میٹیریل بھی، اسکو تعمیر کرنے والے بھی اور اسے ختم کرنے والے بھی۔ اگر کسی ملک کے لوگ ایک اکائ بن کر نہیں سوچتے تو کوئ ایٹم بم انہیں جوڑ کر نہیں رکھ سکتا۔اپنے پڑوسی انڈیا کی ہمیں تعریف کرنی چاہئیے کہ وہ ہم سے زیادہ مخلص ہو کر اپنے ملک کے لئے سوچتے ہیں اور اس پہ فخر کرتے ہیں۔ کہنے کو ہماری زبانیں اسلام کا نام لیتےنہیں
تھکتیں۔

لیکن جب بھی ہمارے یہاں کوئ شورش برپا ہوتی ہے اس میں ہمارے ہی مسلمان بھائ ان سے پیسہ اور اسلحہ
لیکر ہماری جڑیں کاٹتے ہیں۔ دو فریقین ایکدوسرے پہ اللہ اکبر کہ کر حملہ آور ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے ہیں۔آفریں ہے ہماری منافقت پہ۔

اس وقت دنیا میں کم از کم نو ممالک کے پاس یہ مہلک ہتھیار موجود ہے۔ایٹم بم اس توانائ سے حاصل کیا جاتا ہے جو ایٹم کے مرکز کو جوڑ کر رکھتی ہے۔ ہم مرکز توڑتے ہیں اور یہ توانائ ہمیں مل جاتی ہے۔ اس توانائ کا حصول دیگر بہت ساری ماحولیاتی مسائل کو جنم دیتا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میںپیدا ہونے والے تابکارفضلے کو اسی دنیا میں جمع کرتے ہیں جس میں آپ اور میں رہتے ہیں اور اپنے بچوں کے لئے خواب بنتے ہیں۔ اگر دنیا میں اتنی ہی تیزی سے ایٹمی تابکاری پھیلتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب یہ آلودہ دنیا انسانوں کے رہنے کے قابل نہ رہے گی۔ ہم تو اس وقت نہ ہونگے لیکن آنے والی انسانی نسل ہم سب سے شدید نفرت کریگی۔

خیر ہمیں اس سے کیا، ہمارے گذر جانے کے بعد کوئ ہم سے نفرت کرے یا محبت۔
اس وقت ایک بس کا شعر یاد آرہا ہے
قتل کرنا ہے تو نظروں سے کر تلوار میں کیا رکھا ہے
سفر کرنا ہے تو ون ڈی سے کر ، کار میں کیا رکھا ہے
ہائے یہ سادہ دل بس والے اور میں، یہ میری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو۔

ریفرنس؛
ایٹم بم کی ایجاد

پہلا ایٹمی دھماکہ

پاکستانی فوج


Thursday, May 21, 2009

SCUBA Diving غوطہ خوری

لفظ اسکوبا مخفف ہے۔

کا۔ Self Contained Underwater Breathing Apparatus

یعنی آپ کمپریس کی ہوئ ہوا کا ٹینک سانس لینے کے لئے ساتھ لیکر سمندر کی گہرائیوں میں اترتے ہیں اور اس طرح وہاں زیادہ وقت گذارنے کے قابل ہوتے ہیں

اسکوبا ڈائیونگ یا غوطہ خوری ایک مشغلہ بھی ہو سکتا ہے اور پیشہ بھی۔ پاکستان میں کیونکہ پچھلی کئ دہائیوں
سےجہادی سیاست کا کھیل چل رہا ہے اس لئے نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کے لئے نہ موقع مل پاتاہے اور نہ تحرک۔
نتیجتاً جن کھیلوں کے ہیرو تھے ان میں بھی زیرو ہوگئے ہیں۔

آپ کو زمینی حقائق کے علاوہ اگر کائنات کے دیگرحقائق اور ان کی خوبصورتیاں بھی اپنی جانب بلاتی ہیں۔ اور آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید ۔ کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکن تو آئیے ہم آپ کا تعارف ایک اسکوبا ڈائیور سے کراتے ہیں یہ نہ صرف غوطہ خوری کرتے ہیں بلکہ چونکہ خود دستاویزی فلم کے تخلیق کار بھی ہیں اس لئے سمندر کے اندر کی دنیا ہمارے لئے فلمبند کر لاتے ہیں۔ آپ نے شاید پہلے بھی اس نوعیت کی فلمیں دیکھی ہوں مگر خاص بات یہ ہے کہ امر محبوب کا تعلق وطن عزیز کے شہر کراچی سے ہے وہ خود تعلیم کے حساب سے کمپیوٹر انجینیئر ہیں ۔ پیشہ ہے ان کا دستاویزی فلموں کی تیاری۔ اسکوبا ڈائیونگ انکے مشاغل میں سے ایک ہے۔اس کے علاوہ وہ ایک افسانوں کے مجموعہ کے بھی خالق ہیں۔ جس کا نام ہے چیونٹیوں کی قطار یہ فضلی سنز پبلشرزسے دستیاب ہے۔
تو آئیے دیکھتے ہیں۔ امر محبوب کو تھائ لینڈ کے سمندر میں یہ کہتے ہوئے۔ بول میری مچھلی کتنا پانی۔ اتنا پانی۔






ریفرنس؛

اسکوبا ڈائیونگ کے بارے میں معلومات





Monday, May 18, 2009

کراچی کے طالبان


لکھنا تو کچھ اور تھا مگر اخبار ڈان میں چھپنے والے ایک مضمون جسے ندیم ایف پراچہ صاحب نے لکھا ہے ساری توجہ اپنی طرف لے لی۔ اسکی سرخی ہے،

'More and more does one now hear about incidents and tales where young urban
women are being asked by total strangers to ‘dress properly’ or more so, wear a dupatta over their heads or observe hijab.'
یعنی اب ہم آئے دن اسطرح کے واقعات نوجوان شہری خواتین سے سنتے ہیں جہاں انہیں کوئ بالکل اجنبی شخص مناسب طریقے سے کپڑے پہننے خاص طور پردوپٹہ سر پر رکھنے یا حجاب پہننے کو کہتا ہے۔

اب ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ ان رونما ہونے واقعات سے انکار کر دیں جیسا اس ویڈیو کے ساتھ ہوا جس میں سوات میں ایک لڑکی کو کوڑے لگائے جا رہے تھے۔یہ انکار اس لئے ہوگا کہ یہ واقعہ ان کے ساتھ پیش نہیں آیایا ابھی تک ان کے کسی جاننے والے کے ساتھ نہیں ہوا۔یا کچھ لوگ کہیں گے کہ آخر خواتین عزت اور شرافت سے کیوں نہیں رہتیں۔ گویا سر پہ دوپٹہ رکھنا شریف ہونے کی پہچان ہے۔اور صرف اس عورت کی عزت کی جائے جو دوپٹہ سر سے آوڑھے ہو۔اور اگر ایک لمحے کے لئے سوچ لیں کہ آپ صحیح سوچ رہے ہیں تو اب آپ کو حق حاصل ہو گیا ہے کہ جس کے پیچھے چاہیں لٹھ لیکر پڑ جائیں-مجھے اپنی قبر
میں جانا ہے اور میرے ساتھ شاید آپ کی بھی تدفین ہونے والی ہے۔ بلکہ یہ بھی میں غلط سوچتی ہوں
ْآپ تو اب مجھے قبر میں پہنچا کر دم لیں گے کیونکہ خدا کو چاہے اس کی پرواہ ہو یا نہ لیکن آپ اس دنیا کو
اپنے تئیں ہر برائ سے پاک کر دیںگے اور وہ برائ صحیح نہ ہوئ تو آپ اسکے کرنے والے کو اپنی نگرانی
میں جہنم رسید کردیں گے۔غالب اس زمانے میں ہوتے تو کیوں شکوہ کرتے کہ

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پہ نا حق
آدمی کوئ ہمارا دم تحریر بھی تھا
آپ ہونگے خدا ئ فوجدار، عقل سے نادار۔

اب ہوا یوں کہ اسی قسم کا واقعہ میری ایک عزیزہ کے ساتھ پیش آیا۔ کراچی میں ڈیفنس سے نارتھ ناظم آباد بس میں آتے ہوئے۔ ایک پٹھان بڑے میاں اچانک اس کے سامنے کھڑے ہو گئے اور پشتو میں مغلظات بولنا شروع ہو گئے۔ وہ صرف ان کی گالیاں کسی حد تک سمجھ سکتی تھی اور حیران تھی کہ آخر اس نے ایسا کیا کر دیا ہے کہ وہ اسقدر چراغ پا ہے۔ پھر ان کے جسمانی حرکات و سکنات سے اندازہ ہوا کہ وہ اسے سر پہ دوپٹہ اوڑھنے کو کہ رہا ہے۔ اس نے بالکل نرم آواز میں اس سے کہا کہ وہ جا کر اپنی سیٹ پہ بیٹھے۔ اس پر وہ صاحب اسے مارنے کے لئے دوڑے اتنے میں کنڈیکٹر بیچ میں آگیا اور معاملہ کو رفع دفع کرنے کے لئے اسے سر پہ دوپٹہ اوڑھنا پڑا اس وقت تک کے لئے جب تک وہ اس بس میں تھی۔ اگرچہ کہ میرا خدا سے کوئ وحی کے ذریعے تعلق نہیں لیکن اتنا جانتی ہوں کہ اس سے ان صاحب کو خدا کے حضور کوئ فائدہ نہیں ہوا، سر پہ دوپٹہ رکھنے سے ان خاتون کی ذاتی اخلاقیات میں بھی کوئ فرق نہیں آیا۔اور سوائے اس کے کہ وہ خاتون ہراس ہوئیں اور کچھ مزید خواتیں یہ سن کرہراس بھی ہوئ اور انہیں اس بات پہ شرمندگی ہوئ کہ ہم اس وقت دنیا کے کس حصے میں موجود ہیں جہاں ایک اجنبی مرد ہمیں اس لئے مارنے کو دوڑے کہ ہم اس کَے سوچے ہوئے طریقے کے مطابق کپڑے نہیں پہنے ہوئے ۔

اب جناب ندیم ایف پراچہ کہتے ہیں کہ آخر شہری خواتین اس قسم کے لوگوں کو تھپڑ کیوں نہیں رسید کرتیں۔ پراچہ صاحب یہ بات تو خود مجھے حیران کرتی ہے کہ خواتین اس قسم کے لوگوں کو پلٹ کر تھپڑ کیوں نہیں مارتیں۔ جو صورت حال کا فائدہ اٹھا کر اس طرح خواتین کو تنگ کر رہے ہیں۔ یہ وہ مرد ہیں جو عام حالات میں اان سے بات کرنے کی جرءات بھی نہ کریں۔

میں سمجھتی ہوں کہ یہ ذہنی طور پر بیمار ہیں۔ اور انسانی معاشرے کواپنی ایک ذہنی حد سے آگے دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ آخر خواتین اور وہ بھی اس دور اور اس شہر کی خواتین کیوں اس انتظار میں ہے کہ کوئ مرد آئے اور انہیں اس مصیبت اور ان بیمار لوگوں سے نجات دلائے۔ یہ بیمار لوگ جو اپنے حالات، ثقافت اور تربیت کی پیداوار ہیں۔

اب دو دن پہلے ایک دوست نے بتایا کہ وہ گاڑی ڈرائیو کر رہی تھیں کہ ایک افغانی ڈرائیور نےانہیں سگنل پہ آلیا وہ اس چکر میں گاڑی سے اتریں کہ گاڑی میں کچھ خرابی ہو گئ ہے اور وہ اسے کچھ بتانا چاہ رہا ہے۔ تو اس افغانی نے اسے گالیاں دینی شروع کر دیں کہ وہ کتنی بے غیرت ہے جو گاڑی چلا رہی ہے۔ لیجئے اب گاڑی چلانا بے غیرتی کی بات ہے۔ وہ گاڑی میں خاموشی سے بیٹھیں اور اسے نظر انداز کر کے گاڑی چلانی شروع کی تو اس نے اپنی یلو کیب سے اسے ٹکریں مارنا شروع کردیں۔قصہ اس وقت مختصر ہوا جب وہ ایک ٹریفک سارجنٹ کے پاس جا کر رکیں۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کو اس میں مزہ آئے۔ خاص طور پر وہ لوگ جنہیں خواتین کو تکلیف دہ حالات میں دیکھ کر مزہ آتا ہے۔ لیکن اس قسم کے حالات سے گذرنا کافی شاکنگ ہوتا ہے۔

اب یہ واقعہ سننے کے بعدایک اور دوست پریشان ہیں کہ انکی بوڑھی نانی ایک ایسے علاقے میں رہتی
ہیں جہاں جانے کے لئے انہیں ایک مخصوص علاقے سے ہو کر گذرنا پڑتا ہے۔ وہاں انہیں اس قسم کے بیماروں سے ملنے کا اتفاق ہو سکتا ہے ۔ اب وہ اکیلے گاڑی ڈرائیو کرکے ان سے ملنے جانے کے لئَے
ہچکچا رہی ہیں حالانکہ پہلے وہ وہاں سے آدھی رات کو بھی مزے سے آجاتی تھیِں۔ نہ جانے کون ان کی
گاڑی کو ٹکر مار دے جان بوجھ کر۔

اب میں پھر وہی بات سوچتی ہوں کہ خواتین کس کا انتظار کر رہی ہیں۔ کم از کم ایک بات کا میں نے تہیہ کیا ہوا ہے اور وہ بھی پراچہ صاحب کے مشورے سے پہلے کہ مجھ سے اگر کسی نے راہ چلتے یہ کہا تو میں اسے ماروں گی ہر اس چیز سے جو میرے ہاتھ میں ہو گی یا میری پہنچ میں۔
دوسری عجیب بات یہ ہے کہ کوئ مرد اس قسم کی شکایت کرتا ہوا نظر نہیں آتا کہ اسے کسی نے کہیں روک کر داڑھی نہ رکھنے پہ ، یا شلوار ٹخنوں سے اوپر نہ پہننے پہ پٹائ لگا دی ہو۔
یہ کھلی علامت ہے اس بات کی کہ یہ بیمار مردوں کا ایک ٹولہ ہے۔

کیا مجھ جیسی صحت مند دماغ اور مثبت سوچ رکھنے والی عورت کو ایک بیمار ذہن کے مرد سے شکست ماننی چاہئیے۔ وہ بیمار مرد جو صلاحیت میں، استعداد میں، علم میں اور عقل میں پیچھے رہ گیا ہے وہ اب مذہب کا ڈنڈا لیکر میرے اوپر حملہ آور ہو گا ۔ جواب یہ ہے کہ نہیں کبھی نہیں۔ اسے معلوم ہونا چاہئیے کہ وہ بیمار ہے۔ اور ہم نے اسے ابھی ٹھیک نہ کیا تو کل وہ میری بیٹی کو ایک نارمل زندگی نہیں گذارنے دے گا۔ مجھے اس سے آج اور ابھی لڑنا چاہئے اور پوری طاقت سے۔ مجھے اسے بتانا ہو گا کہ وہ اپنے احساس کمتری کو مذہب کی آڑ میں نہیں چھپا سکتا۔۔ اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیسے۔ آئیے میرے ساتھ یہ مسئلہ حل کریں۔

ریفرنس؛ندیم ایف پراچہ کا مضمون مکمل پڑھنے کے لئے اس یو آر ایل پہ جائیں۔

ندیم ایف پراجہ

ڈان اخبار بروز اتوار، بتاریخ۱۷ مئ،۲۰۰۹

Sunday, May 17, 2009

نظیر اکبرآبادی کا ایک شعر

نظیر اکبر آبادی کو عوامی شاعر کہا جاتا ہے۔ انہیں فطری شاعر بھی قرار دیا جاتا ہے۔ نقاد ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اس بات سے قطع نظر میں ان کی بے حدطویل بحر کا ایک شعر پیش کرنا چاہتی ہوں۔ مزہ لیں اور زبان پر ان کی قدرت پہ حیران ہوں۔

پہلا مصرع

ایک دن باغ میں جا کر، چشم حیرت زدہ وا کر، جامہء صبر قبا کر، طائر ہوش اڑا کر
شوق کو راہ نما کر، مرغ نظارہ اڑا کر، دیکھی رنگت جو چمن کی، خوبی نسرین و سمن کی
شکل غنچوں کے دہن کی، تازگی لالہ کے تن کی، تازگی گل کے بدن کی، کشت سبزے کی،
ہری تھی، نہر بھی لہر بھری تھی، ہر خیاباں میں تری تھی، ڈالی ہر گل کی ہری تھی، خوش نسیم

سحری تھی، سروشمشاد وصنوبر، سنبل و سوسن وعرعر، نخل میوے سے رہے بھر، نفس باد
معنبر، درو دیوار معطر، کہیں قمری تھی مطوق، کہیں انگور معلق، نالے بلبل کے مدقق،

کہیں غوغائ کی بق بق، اس قدر شاد ہوا دل، مثل غنچے کے گیا کھل غم ہوا کشتہ و بسمل
شادی خاطر سے گئ مل، خرمی ہو گئ حاصل، روح بالیدہ ہو آئ، شان قدرت نے دکھائ
جان سے جان میں آئ، باغ کیا تھا گویا اللہ نے اس باغ میں جنت کو اتارا

دوسرا مصرع

نا گہاں صحن چمن میں، مجمع سرو و سمن میں، جیسے ہو روح بدن میں، جیسے ہو شمع لگن میں
جیسے خورشید کرن میں، ماہ پرویں وپرن میں، دیکھا اک دل بر رعنا، وطرحدار جفا کار، دل آزار
نمودار، نگہ ہمسر شمشیر، مژہ ترکش پر تیر، سر زلف گرہ گیر، دل خلق کی زنجیر، جبیں نور کی
تصویر، وہ رخ شمس کی تنویر، زباں شہد بیاں شیر، نظر روح کی اکسیر، دہن غنچہء خاموش
سمن برگ بر دوش، سخن بحر گہر جوش، بدن سرو قبا پوش، چھڑی گل کی ہم آغوش، وفا رحم
فراموش، ہر اک آن ستم کوش، عجب حسن دل آرا، نہ کبھی مہر نے دیکھا، نہ کبھی ماہ نے دیکھا، نہ کسی فہم
میں آیا، نہ تصور میں سمایا، وہ نظر مجھکو جو آیا، مجھے حسن اپنا دکھایا، دل نے اک جوش اٹھایا
جی نے سب ہوش اڑایا، سر کو پاءوں پہ جھکایا، اشک آنکھوں سے بہایا، اس نے جب یوں
مجھے پایا، یہ سخن ہنس کے سنایا، کہ'تو ہے عاشق شیدا، لیکن عاشق نہیں پیدا، ہووے تجھ پر
یہ ہویدا، کہ اگر ہم کو تو چاہے یا محبت کو نباہے، نہ کبھی غم سے کراہے، نہ کسی غیر کو چاہے
نہ کبھی گل کی طرف دیکھ، نہ سنبل کی طرف دیکھ، نہ بلبل کی طرف دیکھ، نہ بستاں پہ نظر کر
نہ گلستاں میں گذر کر، چھوڑدے سب کی مودت، ہم سے رکھ دل کی محبت،
ایسے میں ہم بھی تجھے چاہیں، تجھ سے الفت کو نبا ہیں، ہیں یہی چاہ کی راہیں، گر یہ
مقدور تجھے ہو، اور یہ منظور تجھے ہو، تو نظیر آج سے تو چاہنے والا ہے ہمارا


تو جناب یہ تھے ایک شعر کے دو مصرعے، کہئے کیسی رہی۔

ریفرنس
کلیات نظیر جسے مولانا عبدالباری صاحب نے مرتب و مدون کیا۔ اور چھاپا ہے مکتبہء شعر و ادب، سمن آباد، لاہور نے۔

Friday, May 15, 2009

چھوٹے دماغ کا آدمی

ڈاکٹر شیر شاہ سید کا نام کراچی کے لئے اور طب کی دنیا سے تعلق رکحنے والے لوگوں کے لئے انجان نہیں۔ وہ ایک قابل اور محنتی گائناکولوجسٹ ہی نہیں بلکہ اپنے پیشے سے اور اس ملک کے لوگوں سے مخلص بھی ہیں۔ انہوں نے خواتین کے مختلف پیچیدہ امراض کے علاج کے لئے فلاحی بنیادوں پر کراچی کے مضافات میں واقع کوہی گوٹھ میں ایک ہسپتال بھی کھولا ہے جہاں فسچولا سمیت دیگر امراض کا علاج مفت یا بہت ہی کم پیسوں میں کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر شیرشاہ سید کا نام فسچولا کی مریض خواتین کے لئے زندگی کے فرشتے سے کم نہیں۔ جب میں نے فسچولا سے صحت مند ہونے والی ایک خاتون کو فرط جذبات سے ڈاکٹر شیر شاہ کےہاتھ چومتے دیکھا تو احساس ہوا کہ حقیقی مسرت کیا چیز ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ بھی انہوں نے خواتین کی صحت کو بہتر بنانے کےمختلفالنوع کام کئے ہیں جن کا یہاں تذکرہ ممکن نہیں اور نہ ہی یہ میرا مقصد ہے۔ لیکن بحیثیت ایک خاتون کے میں ان کا شکریہ ضرور ادا کرنا چاہوں گی۔ شکریہ ڈاکٹر شیر شاہ سید۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب خود کئی افسانوں کے مجموعوں کے خالق بھی ہیں۔ خیر یہ تو ان کا ایک مختصر سا تعارف تھا۔

تو جناب یہ واقعہ مجھے خود ان کی زبانی سننے کو ملا۔ گفتگو کے ضمن میں وہ ایک بہت دلچسپ آدمی ہیں۔ ڈاکٹر شیر شاہ سید سے معذرت کے ساتھ کہ یہ واقعہ ان کی اجازت کے بغیر تحریر کر رہی ہوں۔ امید رکھتی ہوںکہ وہ اس جسارت کو درگذر کریں گے۔ اب آجائیں اصل واقعے کی طرف۔ تو ہوا یوں کہ ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب کاکوئٹہ کسی کام کے سلسلے میں جانا ہوا۔ کہیں جانے کے لئے ٹیکسی کی ضرورت پڑی۔ آدمی اکیلا ہو اور باتوں کا شوقین بھی تو ٹیکسی ڈرائیور خا صا کارآمد ثابت ہوتاہے ان کی ڈرائیور سے گفتگو شروع ہو گئ اب ادھر ادھر کی باتوں کے دوران ڈرائیور کی ذاتی زندگی بھی گفتگو میں آگئے۔ اس نے خوشی خوشی بتایا کہ اس کے چار بیٹے ہیں۔ اب ان کے ڈائیلاگ حاضر ہیں۔

ڈاکٹر صاحب؛ کیا کرتے ہیں تمہارے چاروں بیٹے؟
ڈرائیور؛ صاب ابھی چھوٹا ہے۔ بڑا والا کوئ گیارہ سال کا ہے اور صب سے چھوٹا چھ سال کا۔ چاروں ابھی مدرسہ جاتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب: اسکول نہیں جاتا تمہارا کوئ بچہ۔
درائور: نہیں صاب ، اسکول کوئ نہیں جاتا۔
ڈاکٹر صاحب: بھئ تم انہیں اسکول کیوں نہیں بھیجتے۔ دیکھو وہ اسکول جائیں گے تو ان میں سے کوئ انجینیئر بنے گا اور کوئ ڈاکٹر بنے گا۔ لوگوں کا علاج کرےگا۔ تمہیں معلوم ہے پاکستان میں ہر سال تیس ہزار سے زیادہ عورتیں بچے کی پیدائش کے دوران مر جاتی ہیں۔
ڈرائیور: صاحب ہمارابچہ مدرسے جاتا ہے وہ وہاں زیادہ بڑا کام کرے گا۔
ڈاکٹر صاحب حیرانی سے: وہاں کیا زیادہ بڑا کام کرے گا
ڈرائیور: صاب ، وہ ساری دنیا میں کافروں سے لڑائ کرے گا۔ ساری برائ ان کافروں نے پھیلائ ہے ان کو صحیح کرے گا۔ادھر وہ عراق میں مسلمانوں کو مارتا ہے۔ کشمیر میں مارتا ہے افغانستان میں مارتا ہے۔ ان سب لوگوں سے جہاد کرے گا۔
ڈاکٹر صاحب نے ایک دفعہ پھر اسے بتانے کی کوشش کی: تم میری بات نہیں سمجھ رہے تمہارے بچے ڈاکٹر بنیں گے اور ان عورتوں کی جان بچائیں گے تو سوچو پاکستان میں ہر سال تیس ہزار عورتوں کی جان بچے گی۔ اس کا ان کو کتنا ثواب ملے گا۔

اب ڈرائیور بالکل سیخ پا ہو گیا کہنے لگا۔ "تم کتنے چھوٹے دماغ کا آدمی ہے ہم پوری دنیا کی بات کرتا ہے اور تم صرف پاکستان کی اور پاکستانی عورتوں کی بات کرتا ہے"۔

اس بات کے آخیر میں ہم سب زوردار قہقہہ لگا کر خاموش ہو گئے۔ وہ ڈرائیور بھی حیران ہو گا کہ عورت کی جان بچانے کا بھی ثواب ہوتا ہے۔۔ شکر ہے اس نے پلٹ کر یہ نہیں کہا کہ ابے تو جان بچاتا ہے کافی نہیں ہے۔ یہ قصہ تقریباً تین سال پرانا ہے۔ لیکن میں سوچتی ہوں کہ یہ ہیں ہماری ترجیحات جس کی وجہ سے آج ہماری فوجیں ان لوگوں سے لڑ رہی ہیں جو کہنے کو اس ملک کا حصہ کہلاتے ہیں۔ جس کیوجہ سے آج دس لاکھ سے زائد لوگ گھر سے بے گھر ہوگئے ہیں۔ جس کیوجہ سے آج باقیماندہ ملک کا ہر شہری خوف اور بے یقینی کا شکار ہے۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھیں کہ وہ مذہب جسے امن کا مذہب کہا جاتا ہے آج اسے ہی نقص امن کا باعث بنادیا گیا ہے۔ آئیے اس بات پہ ہم سب مل کر ہنستے ہیں ایک کھسیانی ہنسی۔ ہی ہی ہی

ریفرنس: ہسپتال کے بارے میں معلومات یہاں سے حاصل کریں۔

کوہی گوٹھ ہسپتال


فسچولا کی انکہی کہانی

Wednesday, May 13, 2009

حلقہء دام خیال

ہمارے گھر سے ملحقہ پچھلا پلاٹ ایک نا مکمل اسٹرکچر کے ساتھ خدا معلوم کب سے خالی پڑا تھا۔ ایکدن گھر میں کچھ لوگوںجن میں میں بھی شامل ہوں نے منصوبہ بنایاکہ گھر کی پچھلی دیوار میں ایک شگاف کر کے راستہ بنا لیا جائے اور اس خالی پلاٹ پر مرغیاں پال لی جائیں یا بکریاں۔ اس طرح سے ہمیں آرگینک انڈے اور دودھ مل جائیں گے اور ہمارے گھر میں صفائ کے مسائل بھی نہ کھڑے ہونگے۔ آپ لوگ تو واقف ہیں کہ آجکل مغربی دنیا میں لفظ آرگینک معاشی خوشحالی کی علامت ہے۔۔ جنہیں ہم دیسی انڈے کہتے ہیں انہیں وہ آرگینک پروڈکٹ کہتے ہیں۔مرغیاں خالی پلاٹ کی صفائ کرتی پھریں گی اور بکریاں یہاں وہاں کدکڑے لگائیں گی۔ اور خوشی خوشی تازہ دودھ دیں گی۔ روزانہ ملاوٹی دودھ کی قیمت میں اضافہ کا سن کر جو خون جلتا ہے وہ پھر چہرے پہ شادابی کا باعث بنے گا۔ اور اپنے غیر ملکی دوستوں پہ رعب بھی جمائیں گے کہ ہم تو آرگینک انڈے کھاتے ہیں اور دودھ پیتےہیں۔ غریب تیرے خواب۔ اس تجویز کا آنا تھا کہ برسوں سے خوابیدہ کارخانہء قدرت میں حرکت ہوئ اوردودن بعد کھٹپٹ کی آواز پہ

کھڑکی سے جو جھانکا تو کیا دیکھتے ہیں کہ خالی پلاٹ پر اگے ہوئے جنگل جھاڑ پر کلہاڑیاں چل رہی ہیں۔لیجئے ابھی دو دن پہلے ہی تو ہم نے کچھ منصوبے بنائے تھے۔ خیر آنا تیرا مبارک تشریف لانے والے۔ اگر معلوم ہوتا کہ آپ کے آنے کے لئے کچھ ایسے بے ضرر منصوبے پردہءخیال پہ ظہور پذیر ہونے چاہئیں تو برسوں پہلے سوچ لیتے یا بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ برسوں نہ سوچتے۔ لیکن جناب قدرت نے اسی پر بس نہیں کی اور ہمیں مستقبل میں کسی بھی منصوبہ بنانے کے ارادے سے باز رکھنے کے لئے آئندہ چند مہینوں کا پروگرام بھی بنا لیا گیا۔اب چاہے ہم سے جیسی بھی قسم لے لیں ہم اس سارے پلان سے ناواقف تھے۔
ایکدن باورچی خانے میں حلوہ پکاتے ہوئے چمچہ ایک پلیٹ میں رکھا اور چند منٹوں کے لئے وہاں سے غائب ہو کر جو دوبارہ نمودار ہوئے تو عجب ماجرہ تھا، پورا چمچہ باریک چیونٹیّوں سے ڈھکا ہوا تھا۔دیکھتے ہی ایک جھرجھری پورے بدن میں دوڑ گئ۔ فوراً ایک اینٹی انسیکٹ اسپرے کیا۔ اور اپنے تئیں سمجھا کہ نمرود کی فوج کا صفایا کر دیا۔ اسی دن شام کو دودھ کے ایک قطرے پہ پھر چینوٹیوں کے ایک لشکر کا حملہ ہوا۔ آئندہ ایک ہفتے میں ہم نے ایک کے بعد ایک کئ لشکر غارت کیے۔ مگر یہ تو لگ رہا تھا کہ اتنا ہی ابھریں گے جتنا کہ دبا دیں گے۔
ادھر پڑوس میں مکان کی تعمیر تیزی سے جاری تھی ادھر ہم اتنی ہی جاں فشانی سے چیونٹیّوں سے نبرد آزما مگر کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔اب روزمرہ کے انسیکٹ کلر پر سے اعتماد اٹھ چلا تھا۔ ادھر یہ بھی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ عذاب ہم پہ کہاں سے اور کس سلسلے میں نازل ہوا ہے۔ کچھ عرصے چیونٹیوں کی لاتعدا قطاروں کو صاف کرنے کے بعدہم نے یہ فیصلہ کیا کہ پورے گھر پر ایک ساتھ یلغار کی جائے تاکہ اس مصیبت سے نجات ہو۔ گھر کے چاروں طرف بنیاد کے ستھ ساتھ چونا ڈالا گیا اور لان میں چیونٹیاں مار دوا ڈالی گئ۔ کچھ دنوں کے لئے سکون ہوا مگر چاردن بعد وہی کہانی۔ یعنی ڈھاک کے تین پات۔ اب گھر کے باہر چونا ڈالنے کے بجائے چیونٹی مار دوا ڈالی گئ۔ پھر کچھ سکون ہوا۔ مگر کچھ دنوں بعد ہم پھر اپنی پرانی حالت پہ واپس آگئے۔ پھر مختلف ذرائع سے پتہ چلا کہ اینٹی انسیکٹ کا اتنا ستعمال ہمارے خود کے لئے بہتر نہیں۔ جہاں ان سے مختلف قسم کی الرجیز ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے جن میں سرفہرست دمہ ہے وہاں یہ نہ صرف کینسر کا باعث بھی ہو سکتے ہیں بلکہ بانجھپن بھی پیدا کرتے ہیں۔ یا خدا اب کیا کریں۔ ادھر پڑوسیوں کا مکان تکمیل کو پہنچ رہا تھا اور اب اسپر رنگ و روغن ہو رہا تھا۔ ایک دن دل میں اتنا گداز پیدا ہوا کہ خدا سے شکوہ کناں ہوئے۔ یا اللہ ہمارا اس پلاٹ پر ْتو دلوں کے حال بہتر جانتا ہے۔قبضہ کرنے کا کوئ ارادہ نہ تھا وہ تو صرف ایک خیال تھا۔ اور اگر ہم اس پر عمل کر بھی لیتے تو یقین جانیں کہ جس دن ان کی آمد کے آثار ہوتے ہم وہ مرغیاں اور بکریاں کسی کی دعوت میں استعمال کر لیتےممکن ہے انہی کی دعوت کردیتے۔ اس مکالمہء صفائ کے بعد جب سوچنا شروع کی تو لگا کہ دماغ کے انجن نے کام کرنا شروع کیا۔ اب جو غور کیا تو اندازہ ہوا یہ چیونٹیاں پڑوسیوں کے گھر کی تھیں۔ انہوں نے جو جنگل صاف کیا تو یہ ہمارے گھر آدھمکیں۔
اب سوال یہ تھا کہ ان سے جان کیسے چھڑائ جائے۔یکدم خیال آیاآخر ہم انٹرنیٹ کیوں نہیں استعمال کرتے۔ دماغ کے جالے لگتا تھا کہ ایکدم صاف ہو گئے۔ اب دو دن نیٹ پرخوب سرچ ماری اور بلآخر ایک نتیجے پہ پہنچ گئے۔ اگلے دن بازار سے بورک ایسڈ لےکر آئے دیکھنے والوں نے کہا ۔ اور کیرم بورڈ وہ کہاں ہے۔ وہی کھیلنے کے لئے ہم نے ہمیشہ بورک ایسڈ استعمال کیاہے۔ ایسے تبصروں پر ہم نے غور نہیں کیا یہ لوگ ہمیشہ چیونٹی کاٹے پر روتے ہیں اور اس کا ذمہ دار بھی ہمیں سمجھتے ہیں۔اب ہم نےاسی سنجیدگی سے چینی کاشیرہ تیار کیا اور اس میں بورک ایسڈ کو ملادیا۔ پھر اسے چھوٹی چھوٹی پلاسٹک کی پیالیوں میں نکالا اور چینٹیوں کے بل جو ہم اس سارے عمل سے پہلے نشانزدہ کر چکے تھے ان کے قریب لے جا کر رکھ دیا۔ اگلے دن ماسی نے ہمیں اطلاع دی کہ پیالیوں میں کچھ رکھا ہے اس میں چیونٹیاں آرہی ہیں۔ آنے دو ہم نے شان بے نیازی سے جواب دیااور ایک میگزین پڑھتے رہے۔ اطمینان قلب دنیا کی سب سے بڑی چیز ہےاسی سے اعتماد پیدا ہوتا ہے۔۔' انہیں وہاں سے ہلانا نہیں۔' ہم نے اسے نصیحت کی۔ گھر میں کھلبلی مچ گئ۔ لیجئے اب تو چیونٹیّوں کو انکے دروازے پر ہی غذا مل رہی ہے اب دیکھءے گا کیسی یلغاریں ہوتی ہیں ۔ کسی نے کہا کہ اب یقیناً ہمیں دوسرا گھر دیکھ لینا چاہئے۔ وہ دن دور نہیں جب یہاں صرف چیونٹیوں کا راج ہو گا۔ اور ہاتھیوں کا آنا منع ہوگا۔ میں نے لقمہ دیا۔ آہستہ آہستہ چیونٹیوں کی قطاریں ہر شکر کی پیالی کے ساتھ بندھ گئیں۔ صبح سے شام تک چیونٹیاں آرہی ہیں چیونٹیاں جا رہی ہیں اور ہم ہیں کہ ٹی وی پہ کھانا پکانے کی ترکیبیں دیکھ رہے ہیں۔۔رسالوں کو چاٹ رہے ہیں اب ہمارے شوہر صاحب کی پریشانی شروع ہوئ۔ 'یہ کیا ہو رہا ہے اس دفعہ آپ نے اینٹی انسیکٹ بھی نہیں لیا اور نہ ہی چیونٹیّوں کا کوئ اور علاج ہو رہا ہے'۔ خاموش میں نے انگلی سے اشارہ کیا۔ اگرچہ چیونٹیوں کے کان نہیں ہوتے مگر تجربات یعنی میرے ذاتِی تجربات سے یہ بات ثابت ہے کہ وہ ماحول میں اپنے خلاف ہونے والی ہر کارروائ سے آگاہ ہو جاتی ہیں خوش قسمتی سے قدرت نےعورتوں سمیت ہر جاندار کو اس حس سے نوازا ہے۔ اچھا جناب اب میرے شوہر صاحب سوچ رہے تھے کہ میں نے شاید کوئ روحانی عمل شروع کیا ہو اہے ۔ اور کچھ عرصہ لگے گا جب میں اپنی غلطی تسلیم کر لونگیاس قسم کے مسائل حقیقت کی دنیا میں رہ کر ہی حل ہو سکتے ہیں۔ باقی لوگ شاید سوچتے تھے کہ میں نے اپنی کاہلی کے اوپر بڑی ذہانت سے پردہ ڈالا ہوا ہے۔ ۔لیکن ایکدن جب یہ موضوع جب دوبارہ زیر بحث آیا تو پھر توپوں کا رخ میری جانب ہوا۔ لوگ میری خاموشی اور سکون سے نالاں تھے۔ میں نے جب ان سے مزید پندرہ دن کی مہلت چاہی تو وہ ایکدم پھٹ پڑے۔ چیونٹیاں نہ ہوئیں طالبان ہوگئیں۔ اب میں ہر ایک چیونٹی سے درخواست کرنے سے رہی یہ لیجئے دوا اور خدا کے لئے غارت ہو جائیں۔ خیر اجلاس میں میں نے سب کو یقین دلایا کہ میں کوئ روحانی عمل نہیں کر رہی ہوں۔ میں بورک ایسڈ بذریعہ شیرہ چیونٹیوں کو دے رہی ہوں، بورک ایسڈ ان کا معدہ ہضم نہیں کرتا اور معدہ پھٹ جانے کے نتیجے میں وہ اس دار فانی سے کوچ کر جاتی ہیں۔ 'تو کیا اب ایک ایک چیونٹی کے مرنے کا انتظار کیا جائے گا اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ان کے انڈوں سے چیونٹیاں پیدا نہیں ہونگیں۔ ' تابڑ توڑ سوالات۔ میری تیاری بھی مکمل تھی۔ بات یہ ہے کہ اس شیرہ کو چیونٹیوں نے اپنے بل میں بھی لے جا کر جمع کیا ہو گا اور اسے ان کی ملکہ بھی استعمال کرے گی جو ان کے بل میںانڈے پیدا کرنے کی ذمہ داری اٹھاتی ہے اب جب وہ ہی نہیں رہے گی تو نئ چیونٹیاں کہاں سے آئیں گی۔ پھر ہم نے بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے ان کی توجہ چیونٹیوں کی قطاروں میں ہونے والی واضح کمی کی طرف دلائ۔ لوگوں نے اس فرق کو محسوس تونہیں کیا تھا لیکن ہمیں کچھ دنوں کی مہلت ضرور مل گئ۔ آج اس بات کو اس ایک سال ہوگئے۔ اب ہمارے گھر میں کبھی کبھار کوئ چیونٹی اس لئے نظر آجاتی ہے کہ بچوں کو بتایا جا سکے یہ ہوتی ہے چیونٹی جس کے کبھی کبھی پر نکل آتے ہیں۔ اس تمام محنت سے ہم نے یہ سیکھا کہ آئندہ کبھی مرغیاں نہیں پالیں گےہاں بازار سے خرید کر کھانے میں کچھ مضائقہ نہیں۔ عوام سے خواص میں داخل ہونا آسان نہیں۔ کیا خیال ہے۔

نوٹ: اس طریقےکو طالبان کے خلاف استعمال کرنے والے نتائج کے خود ذمہ دار ہونگے۔
ریفرنس؛
چیونٹیوں سے بچاءو کا طریقہ


Monday, May 11, 2009

دل کی دھڑکن میں توازن آچلا ہے
میری نظریں بجھ گئیں یا تیری رعنائ گئ
ساحر لدھیانوی

Friday, May 8, 2009

میرا پٹھان ڈرائیور چلا گیا

میرا پٹھان ڈرائیور چلا گیا۔ میں نے اسے قطعاً جانے کے لئے نہیں کہا۔ میں نے اس کے سامنے ہمیشہ اپنی کم علمی کا اعتراف کیا۔ اس نے بھی کبھی مجھے با خبر رکھنے میں بخیلی سے کام نہیں لیا۔ وہ اکثر خود اندازہ کر لیتا تھاکہ یہ بات مجھے معلوم نہیں یا صحیح طریقے سے معلوم نہیں۔ ایکدن جب دوران سفر اسے اندازہ ہوا کہ میں شاید کبھی سینماہال کے اندر نہیں گئ اور میں یہ بات نہیں سمجھ سکتی کہ وہاں اتنے سارے لوگ کسی مشکل کے بغیر فلم دیکھ لیتے ہیں اور کسی کا سر کسی کے دیکھنے کی راہ میں حائل نہیں ہوتا تو اس نے مجھے اس بارے میہں کافی اطلاعات دیں۔پھر مجھ کوڑھ مغز کو مزید سمجھانے کے لئے اس نے ہاتھوں کی مدد سے نشستوں کی ڈھلواں ترتیب بھی سمجھائ۔ آخر میں اسے خاصی خوشی ہوئ کہ کس طرح اس نے مجھے وہاں کا معاملات سمجھا دئے۔ کسی کویہ جان کر اگر خوشی ہوتی پہے کہ ہماری جہالت کو وہ کم کر سکتا ہے تو کچھ وقت کے لئے جاہل بنے رہنے میں کیا مضائقہ ہے۔کم از کم میں اسے کوئ برائ نہیں سمجھتی۔ چھوٹے بچے تو اس طرح بڑے خوش ہوتے ہیں۔ویسے بھی عورتوں کو عقل دیکر سب مرد خوش ہوتے ہیں اور عورتِں مردوںکو خوش دیکھ کر خوش ہوتی ہیں۔

میں جب اس کے ساتھ سفر میں ہوتی تو وہ اکثر کچھ نہ کچھ بتاتا رہتا۔ اسی نے ایکدن بتایا کہ عباسی شہید ہسپتال اب بہت اچھا ہو گیا ہے۔ ایسا کیسے ہوگیا میں نے پھر معصوم حیرانی کا اظہار کیا۔ 'باجی، جب سے پیپلز کا حکومت آیا ہےہسپتال کا انتظام بہت اچھا ہو گیا ہے۔' چلو کسی نے تو پیپلز حکومت کی تعریف کی۔ لیکن پہلے کیسا تھا۔ 'باجی پہلے جب ایم کیو ایم کی حکومت تھا تو بڑا برا حال تھا۔ ہر جگہ اندھیرا رہتا تھا۔ اور پٹھانوں کے ساتھ بڑا ظلم ہوتا تھا'۔ کسی کے ساتھ زبان کی بنیاد پر ظلم ہو یہ بڑی غلط بات ہے ۔ کون کرتا ظلم اور کیسے۔ میں نے ہمدردی کی۔ 'باجی جب پٹھان علاج کے لئے آتا تو وہ لوگ اسے زہر دے دیتے تھے۔ مگر تمہیں کیسے پتہ چلا میں نے اسے کریدا۔لوگ بتاتے تھے باجی اچھا بھلا آدمی لیکر ہسپتال جاتے اور وہ مر کر واپس آتا تھا'۔ میرے خدا اچھے بھلے آدمی کو لیکر ہسپتال کیوں جاتے تھے۔' میں نے حیرت سے پوچھا۔ اس نے بھی حیرت سے میری طرف دیکھا۔اور پھر جیسے سوچا۔ لوگ ٹھیک کہتا ہے یہ عورت لوگ کے پاس عقل نہیں ہوتی۔ سامنے سڑک کی طرف دیکھنے لگا۔ میں نے اپنے طور پہ بات کو سنبھالا اور ڈرائیور کو سمجھایا۔ 'تم اب بھی وہاں جانے میںاحتیاط کیا کرو۔ تمہیں معلوم نہیں کراچی میں اب بھی ایم کیو ایم کا کنٹرول ہے۔ اس پر اس نے مجھے پھر سمجھایااللہ سب کی حفاظت کرنے والا ہے۔ اور پرائویٹ ہسپتال عوام کے زیادہ وفادار ہوتے ہیں۔ میں نے اس کی رائے سے اتفاق کیا، اختلاف کر کے میں اسے ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔آخر اس کی وجہ سے میں اتنی باخبر رہتی تھی۔

لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ سوئے اتفاق کہ ہم سب گھر والوں کو شہر سے باہر جانا پڑا۔ ڈرائیور کی ذمہداری یہ لگائ گئی کہ وہ ہماری غیر موجودگی میں آئے گا۔ اس طرح صفائ کرنے والی ماسی آکر ڈرائیو وے صاف کر دے گی اور درفتوں کے پتوں کا ڈھیر نہیں جمع پو پائے گا۔ وضاحت کے لئے یہ بھی بتادوں کہ اس سرائیکی ماسی کی بہن بھی ہمارے اوپر والے حصے میں کام کرتی تھی۔
ہم جب پندرہ دن بعد لوٹے تو کراچی میں فسادات کے بعد بظاہر سب ٹھیک ٹھاک لگ رہا تھا۔ فسادات کے نتیجے میں اطلاع یہ تھی کہ پٹھانوں کا کافی نقصان ہوا۔ڈرائیور نے بتایا کہ ماسی اس دوران بالکل نہیں آئ اور صحن کی صفائ کا کام اس نے خود انجام دیا۔ ہم نے اس کی تعریف کی اور ماسی کو برا بھلا کہا۔اور اسے تسلی دی کہ ماسی جب آئے گی تو اس کی خوب سرزنش کی جائے گی۔اگلے دن ماسی کی آمد کسی نے اس ڈانٹ بھی دیا۔ اور کیا کرتے۔ اگلے دن اس کے پٹھان مالی دوست نے ہم مجھ سے کہا کہ وہ مجھسے کچھ بات کرنا چاہتا ہے۔ 'کیا ہوا ؟' مجھے اس کے پراسرار انداز پہ حیرت تھی۔ ''وہ باجی، وہ جو ماسی ہے اس نے ڈرائیور کی بڑی بےعزتی کی۔' کس بات پر ' میری حیرانی اور بڑھی۔ "وہ باجی، ماسی کی بہن گلی میں سے جا رہی تھی ڈرائیور نے اسے روک کر پوچھا کہ اس کی بہن کیوں نہیں آرہی۔ تو اس نے اس کی بےعزتی کر دی۔' کیا کہا اسنے.' میں نے دلچسپی سے پوچھا۔'باجی وہ کہنے لگی کہ وہ آءندہ اس چرھ اس سے راستے میں کھڑے ہو کر نہ پوچھےورنہ وہ اس کا منہ بگاڑ دے گی۔ جو کچھ پوچھنا ہے میری بہن سے پوچھو۔ باجی سامنے والوں کا ڈرائیور بھی کھڑا تھا۔ اس کی بڑی بے عزتی ہوئ۔ وہ کہتا ہے جی کہ ماسی اس سے معافی مانگے۔ ' میرے خدا۔ اب میں کیا کروں۔ اب سوال یہ تھا کہ ان موصوف اتنی کارکردگی کیوں دکھائ اور دوسرا سوال یہ تھاکہ اگر وہ ماسی سے کھڑے ہو کر نہ پوچھتا تو کیا لیٹ کر پوچھتا۔ یہ ماسی بھی بس یایک اکھڑ دماغ کی ہے۔ مالی کو تسلی دی۔ اس ماسی کو بات کرنے کی تمیز نہیں۔ میں نے اسے بہلانے کی کوشش کی۔ بہرحال میں اسے سمجھا دونگی۔
اگلے دن ماسی آئ تو میں نے ڈرائیور کو بلوالیا۔ اب جناب پہلے تو بضد ہوءے کہ سامنے والے ڈرائیور کو بھی بلوا لیا جائے۔ ان کی اس بات پر توجہ نہ کی گئ۔ اور ماسی سے پوچھ شروع ہوئ۔تو ماسی نے منہ بگاڑنے والی دھمکی سے صریح انکار کیا۔ لو کر لو بات۔ 'باجی اس طرح روک کرکوئ بھی ہم سے بیچ راستے میں بات کرنے لگ جائے تو دیکھنے والے کیا سمجھیں گے۔ اب کسی کو کیا پتہ یہ مجھ سے کیا بات کر رہا ہے'۔ بہرحال میں نے پھر بھی ڈرائیور کا دل رکھنے کو ماسی سے کہا کہ بات احتیاط سے کیا کرو۔ اب میں ناقص العقل تو یہ سمجھی کہ معاملہ نمٹ گیا۔ لیکن عین اس وقت جب کوئ مولانا صاحب ٹی وی پر بتا رہے تھے کہ خواتین کا نا محرم کے ساتھ نکلنا کس قدر نقص امن کا باعث ہے اور اس کی ممکنہ اسلامی سزا کیا ہے اور کس طرح اس مسئلہ کے حل ہونے سے عالم اسلام کے دیگر معاشی و معاملاتی مسائل حل ہو جائیں گے۔ ڈرائیور آیا۔ گاڑی کی چابی میرے سامنے میز پہ رکھی اور ہمیشہ کے لئے جانے کی اجازت مانگی۔ میں تو ویسے ہی اس پروگرام کو سن کر دہشت زدہ تھی کہ کس طرح ایک نا محرم ڈرائیور کے ساتھ سارے شہر میں پھرتی رہی۔ کچھ بھی نہ کہہ سکی۔ اب سوچتی ہوں کہ اس میں صوفی محمد کی کارستانی تو نہیں یا میرا اردو اسپیکنگ ہونا حالانکہ میںنے ہمیشہ کسی بھی سیاسی جماعت سے اپنی لا تعلقی کا اظہار کیا۔ آخر اس نے ایسا کیوں کیا۔ کوئ بتلائے۔