Tuesday, June 29, 2010

مزید الٹا سیدھا-۲

ہمارا یہ پورا خطہ جس میں چین، انڈیا اور پاکستان آتے ہیں۔ سیدھے ہاتھ کی تعظیم کا خطّہ ہے۔ ہندءووں اور مسلمانوں دونوں میں سیدھے ہاتھ کے استعمال کو ترجیح دی جاتی ہے اور بچوں کو ابتداء ہی سے یہ چیز بزور قوت سکھائ جاتی ہے کہ وہ اپنا سیدھا ہاتھ استعمال کریں۔ حال ہی میں ایک ٹی وی اینکر یہ کہتے سنے گئے کہ انہیں پروگرام کے دوران الٹے ہاتھ سے پانی پیتے دیکھ کر انہیں لا تعداد پیغامات محض اس لئے ملے کہ الٹے ہاتھ سے پانی پینا غیر اسلامی ہے۔
مغرب میں اس خیال کا باعث عیسائ تعلیمات سے جوڑا جاتا ہے۔  لیکن اسلامی تعلیمات کو اگر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ صفائ کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے۔ اور ایک ایسے زمانے میں جب خود کو صاف رکھنے کے لئے آجکی طرح کی  چیزیں جیسے صابن اور دوسری اشیاء موجود نہ تھیں سیدھے ہاتھ کے استعمال کو شاید اس لئے احسن قرار دیا گیا کہ جس ہاتھ سے گندگی صاف کی گئ ہے اس سے کھانا کھانے کا احتمال نہ رہے اور اس طرح بیماریوں سے محفوظ رہا جا سکے۔ یہاں ہمیں یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئیے کہ آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے جب اسلام کا ظہور ہوا یہ بات معلوم نہ تھی کہ بیماریاں، جراثیم سے ہوتی ہیں اور ان سے بچاءو کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ الٹا ہاتھ اتنا نجس ہوتا  تو خدا انسان کو صرف ایک ہاتھ دیتا اور وہ ہوتا دایاں ہاتھ۔
اگرچہ کہ سائینسی سطح پہ یہ بات پایہء ثبوت کو نہیں پہنچی کہ کیوں انسانوں کی ایک تعداد اپنا بایاں ہاتھ استعمال کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ اس سلسلے میں جینیاتی وراثت سے لیکر ماں کے پیٹ میں بچے کی حالت اور ہارمونز کو بھی ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ الٹے ہاتھ کی جین بھی دریافت کر لی گئ ہے۔ لیکن یہ سب ابھی تک صداقت کی منزل کو نہیں پہنچے۔ 
  یہ بات واضح ہے کہ انسانی دماغ دو حصوں میں منقسم ہے۔ جیسا کہ نیچے دی گئ تصویر میں ہے۔


 یہ بات بھی طے ہے کہ یہ دونوں حصے جسم میں مختلف اعمال و افعال کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دماغ کا الٹا حصہ جن افعال کے ساتھ جڑا ہوا ہے وہ لکھائ، زبان، سائینسی طرز فکر، ریاضی، دلیل ہیں۔ جبکہ دماغ کا دایاں حصہ جذبات کے اظہار، تخلیقی جوہر، فضائ مقامیت، اور ان سب کی مدد سے ایک پوری تصویر کو تشکیل دینے سے وابستہ ہے۔ یہ بات دلچسپی کا باعث ہوگی کہ جسم کے دائیں حصے کو دماغ کا بایاں حصہ اور جسم کے بائیں حصے کو دماغ کا دایاں حصہ کنٹرول کرتا ہے۔
ہم اپنے جس عضو کا استعمال کم کر دیتے ہیں اس سے منسلکہ دماغی حصے کی سرگرمی کو بھی کم کر دیتے ہیں۔ جسم کے تمام اعضاء کو استعمال میں لانا چاہئیے۔ اپنے دونوں ہاتھوں کو انکی مکمل قوت سے استعمال کریں۔ کبھی غور کریں کہ جب ہر ماہر صحت ہمیں ورزش کی نصیحت کرتا ہے تو اسکا کیا اثر ہمارے اوپر ہوتا ہے؟ اور یہ ورزش چاہے ایروبک ہو یا یوگا یہ کیا کرتی ہے؟ یہ ہمارے تمام اعضاء کا دوران خون بڑھاتی ہے اور ہمارے دماغ کو تمام اعضاء کے بارے میں سرگرم کر دیتی ہے۔ یوں ہم ایک زیادہ صحت مند زندگی کی طرف جاتے ہیں۔
تحقیقدانوں کا یہ کہنا ہے کہ الٹا ہاتھ زیادہ استعمال کرنے والوں کا شرح تناسب دیکھا جائے تو ان میں با صلاحیت افراد کی خاصی تعداد نظر آتی ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ الٹا ہاتھ استعمال کرنے والے زیادہ دماغی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں اور زیادہ آئ کیو رکھتے ہیں۔
  اسکے باوجود الٹے ہاتھ کی ترجیح رکھنے والے بے پناہ مسائل کا بھی شکار ہو تے ہیں۔ اس میں سر فہرست انہِں شروع سے سیدھا ہاتھ استعمال کرنے پہ مجبور کرنا۔ یہ صرف ہمارے معاشرے مِں نہیں کیا جاتا بلکہ مغربی معاشرے میں بھی  بیسویں صدی کے آغاز تک بچوں کو الٹے ہاتھ سے لکھنے پہ پٹائ لگانا معمول کی بات تھی۔   تقریباً سات الٹا ہاتھ استعمال کرنے والے  امریکی صدور میں سے ریگن کے بارے میں کہا جاتا ہے الٹے ہاتھ کا رجحان رکھنے کے باوجود انکی تربیت سیدھے ہاتھ کی ، کی گئ تھی۔ اس لئے وہ اپنے دونوں ہاتھ بخوبی استعمال کر لیتے تھے۔
اس لئے تربیت کے پہلے مرحلے پہ اس زبردستی کا شکار ہونے والے کچھ لوگ اس ساری مشق سے نالاں ہو کر اس سے فرار اختیار کر لیتے ہیں یوں یہ بات اور مشہور ہوتی ہے کہ الٹے ہاتھ کو استعمال کرنے والے غبی ہوتے ہیں۔
اسکے علاوہ آجکی دنیا میں کمپیوٹر ہوں، گاڑی ہو یا قینچی انکی ساخت ایسی ہوتی ہے کہ یہ اکثریت یعنی دائیں ہاتھ کو استعمال کرنے والے کو آسانی دیتے ہیں۔ 
دنیا کے بہت سارے مشہور لوگ  بائیں ہاتھ استعمال کرنے والے ہیں۔
الٹا ہاتھ استعمال کرنے والے باراک اوبامہ اس قوم کے صدر ہیں جو سوال کرتی ہے کہ آخر باقی دنیا کے لوگ ہمیں کیوں ناپسند کرتے ہیں؟  


اسامہ بن لادن کے مداحین بھی یہی سوال کرتے ہیں۔ آخر ان دونوں میں الٹا ہاتھ استعمال کرنے کے علاوہ اور کیا قدر مشترک ہے؟



مزید الٹا سیدھا-۱

بنیادی سائینس جس کسی نے بھی پڑھی ہو۔ اسکی نظر سے یہ بات محفوظ نہیں رہ سکتی کہ چاہے یہ مادے کی بنیاد ایٹم جیسے آنکھ سے نظر نہ آنے والے جسم کی کہانی ہو یا کائنات میں موجود کہکشاءووں کی۔ عالم تمام عالم رقص میں ہے اور مطلق سکون کوئ چیز نہیں۔ اسی طرح مزید اس مشاہدے کو آگے بڑھائیں تو دیکھیں گے کہ بظاہر اسپیس میں سمت کا حساس نہ رکھنے کے باجود اسپیس سمت کے قابو میں ہے۔ ہم زمینی سطح پہ مشرق مغرب کی بات کرتے ہیں اور خلاء میں وقت سمت کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ ایٹم کے اندر موجود الیکٹران جوڑے کی شکل میں ہوتے ہیں ان میں سے ایک جس سمت میں گھومتا ہے دوسرا اسکے بالکل بر عکس سمت میں گھومتا ہے۔ اس طرح سے حیران کن طور پہ  دونوں  کی مشترکہ توانائ کم رہتی ہے۔ اور وہ ایک ساتھ رہنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
کیمیاء کی سطح پہ ہم دیکھتے ہیں کہ بالکل ایک ہی جیسے ساخت رکھنے والے مالیکیول بھی ایک دوسرے سے الگ الگ خواص ظاہر کرتے ہیں۔ اسے کائریلیٹی کہتے ہیں۔ اس خاصیت کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ مالیکیول جب فضا میں موجود ہوتے ہیں تو یہ اپنا مقام ایسا رکھتے ہیں کہ ایک دوسرا کا عکس نظر آتے ہیں۔ مگر ان میں وہی فرق ہوتا ہے جو عکس اور حقیقت میں ہوتا ہے۔  عکس کا دایاں ہاتھ حقیقت کے دائیں ہاتھ کے سامنے نہیں ہوتا۔

اوپر دی گئ تصویر میں دیکھیں، تھیلیڈو مائیڈ کے دونوں مالیکیول بظاہر بالکل ایک جیسے لگ رہے ہیں۔ مگر یہ ایک جیسے نہیں ہیں بلکہ ایکدوسرے کا عکس ہیں۔ ان میں سے ایک دوا کے طور پہ ساٹھ دہائ میں حاملہ خواتین کے لئے استعمال کیا گیا۔ تاکہ انہیں اس صورت میں آنے والی قے سے آرام ملے۔ لیکن بے شمار بچوں کے جسمانی و ذہنی طور پہ معذور پیدا ہونے کے بعد اندازہ کیا گیا کہ یہ دوا جنین میں جنیاتی خامیاں پیدا کرتی ہے۔یوں اس دوا پہ اس طرح کے استعمال کی پابندی لگا دی گئ۔ اسکا عکسی مالیکیول ایسے کوئ خواص نہیں رکھتا کہ اسے دوا کے طور پہ استعمال کیا جا سکے۔
شاید کچھ لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہو کہ ہمارا جسم جن امائنو ایسڈز سے بنا ہوا ہے وہ فضا میں ایک ہی طرح کی مقامیت رکھتے ہیں۔ اور تمام جاندار اس کرہ ء ارض پہ دوسری طرح کے امائنو ایسڈز سے پروٹین نہیں بنا سکتے۔ اسی طرح ہمارا جسم صرف ایک ہی طرح کی مقامیت رکھنے والی شکر کو ہضم کر سکتا ہے۔
اس پہ مزید سوچنے کا کام میں آپ پہ چھوڑتی ہوئ آگے بڑھتی ہوں۔ مقامیت کی یہ مخصوصیت صرف انہی چیزوں کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ یہ جانوروں اور انسانوں میں ایک اور طرح سے بھی عمل کرتی ہے۔
 ہاتھی کے دانت کھانے کے اور اور دکھانے کے اور، یہ تو ایک محاورہ ہے۔ لیکن ہاتھی اپنے دانتوں کے معاملے میں قدرتی طور پہ یہ انتخاب رکھتے ہیں کہ دائیں یا بائیں ان میں سے کوئ ایک زیادہ استعمال کریں۔ جو زیادہ قوی دانت ہوتا ہے۔ وہ زیادہ بڑا ہوتا ہے۔
طوطے، پکڑنے کے لئے زیادہ تر اپنا داہنا پنجہ استعمال کرت ہیں۔ برفانی ریچھ شکار کو مارنے کے لئے زیادہ تر بایاں ہاتھ استعمال کرتے ہیں۔
  اور یہاں سے انسانوں کی کہانی شروع ہوتی۔ 
انسانوں میں اپنے مختلف جانبی اعضاء کو استعمال کرنے کا مختلف تناسب پایا جاتا ہے۔ مثلاً اٹھاسی فی صد افراد اپنا سیدھا ہاتھ استعمال کرتے ہیں، اکیاسی فی صد دایاں پاءوں، اکہتر فی صد دائیں آنکھ، انسٹھ فی صد دایاں کان، چوراسی فی صد ایک جیسے ہاتھ پاءوں اور اکسٹھ فی صد ایک جیسے کان اور آنکھ استعمال کرتے ہیں۔
انسانی آبادی کا تقریباً دس فی صد حصہ اپنا الٹا ہاتھ زیادہ استعمال کرنے کا قدرتی رجحان رکھتا ہے اور الٹے ہاتھ سے لکھنے کو ترجیح دیتا ہے۔ کچھ لوگ اپنے دونوں ہاتھ یکساں مہارت سے استعمال کر سکتے ہیں۔ حتی کہ وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے دو مختلف زبانیں بیک وقت لکھ سکتے تھے۔ یہاں ایک صاحب اپنے دونوں ہاتھوں سے دو مختلف تصاویر بنا رہے ہیں۔ باقی کے لوگ قدرتی طور پہ اپنا دایاں ہاتھ زیادہ کام میں لاتے ہیں۔
دنیا کی زیادہ تر تہذیبوں میں الٹا ہاتھ برے کام سے وابستہ ہے۔ اور مختلف زبانوں میں جن میں انگریزی جیسی عام مستعمل زبان اور فرنچ جیسی اعلی و ارفع زبان بھی الٹے اور سیدھے ہاتھ کے بارے میں امتیاز کرتی نظر آتی ہیں۔ الٹا ہاتھ استعمال کرنا پھوہڑ پن و بد سلیقگی کی علامت ہے اسے استعمال کرنے والا غبی کہلاتا ہے۔ ۔جب یہی شدت بڑھتی ہے تو الٹا ہاتھ استعمال کرنے والا خبیث الفطرت نظر آنے لگتا ہے۔ اس میں کچھ شیطانی قوتیں حلول کر جاتی ہیں۔ الٹے ہاتھ سے سلام کرنا بے عزتی کا نشان ہے  غیر زبانوں سے ہٹ کر اردو میں بھی محاورہ ہے کہ الٹے ہاتھ سے سلام تو ڈوم کرتے ہیں۔ ڈوم بھنگی کو کہتے ہیں۔
الٹا ہاتھ بے شرمی کی، نا انصافی کی ،جھوٹ اور دغابازی کی علامت ہے، خدا کی طرف سے سزا ہے۔
لیکن دنیا کے کچھ حصوں میں الٹا ہاتھ بالکل الگ معنی رکھتا ہے۔ امریکہ کی قدیم تہذیب 'انکا' میں الٹا ہاتھ روحانیت کی علامت ہے۔ جادو اور شفا کی قوتیں اس ہاتھ سے وابستہ ہیں۔ تنترا بدھءووں میں بھی الٹا ہاتھ عقلمندی کی علامت ہے۔

Thursday, June 24, 2010

الٹا سیدھا

میری ایک عزیزہ ایک دن صبح صبح ہی تشریف لے آئیں۔ معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو ہمارے گھر کے نزدیک ایک مونٹیسوری میں داخل کرادیا ہے اور چونکہ آج پہلا دن ہے تو وہ اسے چھوڑنے آئ تھیں۔ لگے ہاتھوں ہماری باری بھی آ گئ۔ ناشتے میں انکی گپیں بھی شامل ہو گئیں۔ پوچھا کہ اپنے گھر سے اتنی دور یہاں کیوں داخل کرایا ہے۔ کہنے لگیں۔ کافی لوگوں سے اسکی تعریف سنی تھی کہ اسلامی ماحول رکھتے ہوئے بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ پوچھا، لیجئِے اسلامی جمہوریہ ملک بنانے کے بعد  اب اس میں بھی اسلامی اسکول کی ڈیمانڈ آگئ۔ سوچ لیں، اسکا آغاز تو خوشنما ہے، اسکا انجام اچھا نہیں ہے۔ ویسے اک بات بتائیں موبٹیسوری کی تعلیم اسلامی ہے کہ غیر اسلامی۔ کوئ جواب دئیے  بغیرمسکرا دیں۔

وہ کچھ عرصے پہلے سعودی عرب میں تین مہینے گذار کر آئی تھیں اوروہاں انہیں احساس ہوا کہ وہ ایک بہتر مسلمان نہیں ہیں۔ تو اپنے آپ کو بہتر مسلمان بنانے کے لئے انہوں نے اسکارف  پہننا شروع کیا۔ اور اپنے سب سے چھوٹے چار سالہ بچے کو اسلامی مونٹیسوری میں ڈالنے کا فیصلہ۔
خیر، ہلکی پھلکی باتوں کے ساتھ وہ کچھ دیر رکیں اور چلی گئیں۔ اسکے تین چار مہینے بعد ایک خاندانی تقریب میں ملاقات ہوئ۔ میں نے شکوہ کیا ۔ آپکے بچے کا اسکول ہمارے گھر کے پاس آگیا مگر پھر بھی آپ دوبارہ نہیں آئیں۔ کیسا چل رہا ہے اسکا اسکول۔ کہنے لگیں کہ  کہاں، ہم نے تو اسے ایک مہینے بعد ہٹا لیا۔ وہ کیوں؟ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔ اب انکے پاس ایک کہانی موجود تھی۔
ہوا یوں کہ اس بچے کے ساتھ انکے محلے کا ایک اور بچہ بھی وہاں داخل ہوا تھا۔ اسکول آتے جاتے جب اس بچے کو پندرہ دن ہو گئے تو ایکدن وہ اس دوسرے بچے کے گھر گئیں۔ دیکھا تو وہ بچہ اپنا اسکول ہوم ورک کرنے میں مصروف تھا۔ معلوم ہوا کہ اس بچے کو روزانہ ہوم ورک ملتا ہے۔ انہوں نے سوچا میرے بچے کو تو کوئ ہوم ورک نہیں ملتا اگلے دن اسکے اسکول گئیں۔ اسکول والوں نے کہا کہ آپکے بچے کو تو ہم ابھی پینسل پکڑنا سکھا رہے ہیں ابھی تو اسے پینسل پکڑنا ہی نہیں آتی۔ انہوں نے کہا ، نہیں تو وہ تو اچھا خاصہ لکھ لیتا ہے۔ جواب ملا نہیں، وہ تو پینسل بھی ٹھیک سے نہیں پکڑتا۔ اب انہوں نے دل میں سوچا کہ ہو سکتا ہے ابھی اسکول کے ماحول سے شناسا نہ ہوا ہو اور ہچکچاتا ہو۔ زیادہ اصرار کرنے پہ ایسا نہ ہو کہ بچہ سب کے سامنے سبکی کرادے۔ واپس آگئیں۔
اسی طرح مزید پندرہ دن گذر گئے۔ پھر جی کڑا کر کے  اسکول گئیں۔ وہی جواب ملا، ابھی تو اسے پینسل پکڑنا ہی نہیں آتی۔ ماں تھیں۔ اس دن اپنے بچے کے اس احساس محرومی سے شدید دلبرداشتہ تھیں کہ اسے ہوم ورک نہیں ملتا۔  کہنے لگیں بلائیے ذرا میرے بیٹے کو اور میرے سامنے لکھوائیے۔ گھر پہ تو آرام سے لکھتا ہے آپ کہتی ہیں اسے لکھنا تو الگ پینسل پکڑنا  نہیں آتی۔ بچے کو بلایا گیا۔ اسکے ہاتھ میں پینسل کاغذ دیا گیا۔ ماں نے چمکارا بیٹا الف ب لکھ کر دکھاءو۔ اس نے پینسل پکڑی اور الف ب لکھنا شروع کر دیا۔

اب عزیزہ کا اعتماد بحال ہوا تو پرنسپل کے کمرے میں موجود ٹیچر کو شعلہ برساتی نظروں سے دیکھا کہ دیکھ لیں پینسل بھی پکڑی ہوئ ہے اور لکھ بھی رہا ہے۔ جواب ملا۔ یہ تو الٹے ہاتھ سے لکھ رہا ہے۔ آپ نے اپنے بچے کو یہ نہیں سکھایا کہ اسے سیدھے ہاتھ سے لکھنا چاہئیے۔ الٹا ہاتھ استعمال کرنا غیر اسلامی ہے۔
بس اسکے اگلے دن سے انہوں نے اسے وہاں نہیں بھیجا۔

باز آئے ایسی محبت سے 
اٹھا لو پاندان اپنا
یہاں اس شعر میں پاندان کی جگہ کامران کر دیجئیے کہ یہی اس بچے کا نام ہے۔ 

Sunday, June 20, 2010

آئیے بچوں کو لکھنا سکھائیں

بچوں کو لکھنا کیسے سکھائیں۔ یہاں میری مراد دستی تحریر سے ہے۔ فکشن، کالم یا علمی تحریر لکھنے سے مراد نہیں۔ اسکا ایک ہی مجرب مگر مشکل نسخہ ہے اور وہ یہ کہ خوب پڑھیں اور مختلف النوع چیزیں پڑھیں۔ پھر خوب لکھیں، اس موضوع کے حق میں بھی اور خلاف میں بھی۔ اپنے نظریات کے حق میں بھی اور خلاف میں بھی۔
چھوٹے بچوں کو لکھائ سکھانا ایک مشکل امر ہے۔ اور مقابلے کے اس دور میں جب آپکے اندر جتنی صلاحیتیں ہوں کم ہے۔ والدین اپنے بچوں کی بہت سی مشکلوں کو اپنی سوجھ بوجھ سے آسان کر سکتے ہیں۔
جب آپکے بچے ڈیڑھ دو سال کی عمر میں داخل ہوتے ہیں تو انہیں کھیلنے کے لئے ایسی چیزیں دیں جس میں ہاتھ کا پنجہ اور انگلیاں استعمال ہوتی ہوں۔ اس سے انہیں اندازہ ہوگا کہ وہ اپنی انگلیوں کو کتنی سمت میں گھما سکتے ہیں اور انکی چیزوں پہ گرفت بڑھتی ہے،  انکے ہاتھ کے عضلات مضبوط ہونگے۔ لیکن اتنے چھوٹے بچوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے ہمیشہ خیال رکھنا چاہئیے کہ اس عمر کے بچے زیادہ دیر ایک شے پہ اپنا دھیان نہیں رکھ سکتے اس لئے وہ اگر اس میں دلچسپی لینا چھوڑ دیں تو انہیں مجبور نہ کریں۔ کچھ وقفے سے جو کچھ گھنٹوں سے چند دنوں تک ہو سکتا ہے پھر سے تیاری پکڑیں۔
عام طور پہ دوسال سے اوپر کے بچے پینسل پکڑنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ انہیں رنگوں کی مومی پینسلیں لے دیں۔ خیال رکھیں کہ ڈبے پہ اسکے زہریلے نہ ہونے کے متعلق لکھا ہو۔ جب آپ ان سے ان پینسلوں کے ذریعے کام کرائیں تو انکے ساتھ موجود رہیں۔ مبادا وہ انہیں کھالیں۔ چاہے یہ زہریلے نہ بھی ہوں تب بھی انکا کھانا درست نہیں ہے۔ انہیں اپنی مرضی سے لائینیں لگانے دیں۔ چاہیں تو خود کر کے بتاتے رہیں کہ یہ ایک دائرہ ہے اور یہ ایک سیدھی لائن اور یہ ایک تکون ہے اور یہ ایک چوکور۔ دلچسپی کے لئے ان ساختوں میں آنکھ ناک بنادیں، انہیں کوئ نام دے دیں۔ یا رنگ بھر دیں۔
اب جبکہ وہ ان مومی پینسلوں سے کاغذ پہ آڑھی ترچھی لائینیں بنانے لگیں ہیں تو آپ یہ کر سکتے ہیں کہ ایک ٹرے میں کچھ ریت یا اگر وہ میسر نہ ہو تو خشک آٹا پھیلادیں اور اس پہ انگلی کی مدد سے دائرہ اور سیدھی لائینز بنانے کی مشق کرائیں۔ مٹائیے پھر بنائیے۔ یہ ذہن میں رہنا چاہئیے کہ دائرے اور سیدھی لائینیں ہی تحریر کی طرف پہلا قدم ہیں۔
کچھ دنوں میں ہی وہ بآسانی یہ پینسل پکڑنے لگے تو اب مومی پینسلوں کے ساتھ رنگ کی وہ پینسلیں استعمال کرائیں جو لکڑی سے بنی ہوتی ہیں۔ خیال رکھیں کہ دوران مشق آپ انکے ساتھ موجود رہیں اور جب کام ختم ہو تو ان سے یہ سامان لیکرانکی پہنچ سے دور رکھ دیں۔
چند دن دیجئیے جب وہ ان پینسلوں کو بھی پکڑنے لگیں گے تو آپ محسوس کریں گے کہ وہ پینسل کو اتنا دباءو دے کر نہیں لکھتے۔ تو اب تربیت کے اگلے مرحلے پہ چلتے ہیں۔ آپکے گھر میں ایسے کھلونے یا چھوٹے چھوٹے برتن ہونگے یا پھر اسٹیشنری کی دوکان سے ایسی چیزیں بآسانی مل جائیں گی کہ انکے گرد پینسل گھما کر ڈیزائن بنایا جا سکے یا انکے اندر سطح کے ساتھ پینسل سے نشان لگایا جا سکے۔ اور کچھ نہیں تو انکے ہاتھوں اور پیروں کے گرد پینسل سے نشان لگا کر ڈیزائین بنایا جا سکتا ہے۔ پینسل انکے ہاتھ میں دیکر یہ کام کروائیں۔ خیال رکھیں کہ یہ ساختیں مختلف شکل کی ہوں۔ یعنی گول، چوکور، مستطیل، تکونی، اس طرح انکا ہاتھ مختلف زاویوں پہ گھومے گا۔ بناتے وقت ان ساختوں کے نام بھی لیتے رہیں کچھ دنوں میں وہ اسکے ماہر ہو جائیں گے۔ اور اس سے انکی انگلیاں اور کلائیاں مضبوط ہونگیں اور وہ پپینسل پہ زیادہ دباءو ڈالنے کے قابل ہو جائیں گے۔
آرام سے اور شانت رہئیے۔ اور ہر کام کو جلدی کرنے کے چکر میں اپنے بچے پہ غیر ضروری دباءو نہ ڈالیں ورنہ وہ اس سے بے زار ہو جائے گا۔ اپنے ان سیشنز کا وقت مقرر کریں اور کوشش کر کے روزانہ اسی وقت کریں۔ اس طرح آپکے بچے کو اسکا انتظار رہے گا۔ بچے رنگوں کو پسند کرتے ہیں اانہیں حق انتخاب دیں کہ وہ آج کس رنگ کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

 اوپر والی تصویر جو ساختیں دی ہیں انکی مشق کروائیں۔ پہلی دفعہ نکتہ دار ساختیں استعمال کر سکتے ہیں مگر بچے کو انکی عادت نہ ڈالیں۔ ورنہ اس میں خود سے لکھنے کا اعتماد دیر سے پیدا ہوگا۔ میں نے ایک آسان سا طریقہ اور نکالا ہے۔ ایک میز پہ شیشہ بچھا دیا ہے جس سے آرپار دیکھا جا سکتا ہے۔ اسکے نیچے مختلف حروف اور نمبر کے پرنٹ نکال کر لگا دئیے ہیں اور اس طرح شیشے کے اوپر سے وائٹ بورڈ مارکر یا ایسے مارکر جو پانی سے صاف ہوجاتے ہیں ان پہ لکھنے سے تحریر میں روانی پیدا ہوتی ہے۔ آپ کے لئے آسانی ہو تو آپ بھی یہ کر سکتے ہیں۔ اگر گھر میں شیشہ نہیں ہے تو ایک چھوٹا سا شیشے کا ٹکڑا لیکر کہیں بھی لگا لیں۔ اور ایک لمبے عرصے تک چلنے والی سلیٹ تیار ہے۔
مونٹیسوری تربیت میں پہلے لوئر کیس کے یعنی انگریزی کے اسمال لیٹرز پہلے سکھائے جاتے ہیں اور اپر کیس یعنی کیپیٹل لیٹرز بعد میں۔ درج ذیل تصویروں میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان حروف کو بنانے میں انکے گھماءو کے لئے تیر کے نشان دکھائے گئے ہیں انہیں یاد کر لیجئیے۔ آپ دیکھیں گے زیادہ تر گولائیاں کو ضد گھڑی وار طریقے سے بنایا گیا ہے۔ اردو حروف کو بناتے ہوئے یہ عمل عام طور پہ الٹا ہو جاتا ہے اور زیادہ تر گولائیاں گھڑی وار طریقے سے بنائ جاتی ہیں۔ تمام سیدھی لائنیں اوپر سے نیچے کی طرف بنائ جاتی ہیں۔  یہ اصول بچوں کو تحریر کے راز سمجھنے میں آسانی دیتے ہیں اور تھوڑی مشق سے خود سے چیزیں کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ شروع میں انہیں انہی آصولوں کا پابند بنائیے تاکہ وہ بنیادی تحریر سیکھ لیں۔ اس مرحلے پہ انہیں لائینوں والی کاپی استعمال کروائیں تاکہ حرف کا سائز انکے ذہن میں پختہ ہو۔ ہر حرف کو لکھتے وقت اسکا نام لیں تاکہ وہ اسے پہچان لیں۔



 بچے جب بنیادی تحریر سیکھ لیتے ہیں تو آپ انکو تحریر کو مزید خوبصرت کرنے کے لئے خوشخطی کی مشقیں کروا سکتے ہیں۔ جیسے انگریزی حروف کو لکھنے کے لئیے ایک طریقہ کرسو تحریر کا کہلاتا ہے اس میں حروف نیچے دی گئ تصویر کی طرح لکھے جاتے ہیں۔

 اردو میں بھی خوشخطی کے مختلف قاعدے دستیاب ہیں۔ جو اگر ممکن ہوا تو ہم بعد میں اسکین کرکے  ڈال پائیں۔ سر دست وہ میسر نہیں ہیں۔
آخیر میں یہ کہ اپنے بچوں کے سیکھنے کے عمل کو دلچسپ بنائیے، اور انکے اوپر بوجھ نہ بنائیں۔ زندگی کو ایک دفعہ پھر ایک بچے کی حیثیت سے انکے ساتھ گذاریں۔ یہ آپکی تخلیقی صلاحیتوں کو آب حیات دے گا۔
انگلش حروف کے لئے یہ ویڈیو بھی حاضر ہیں۔
مزید معلومات کے لئے اس لنک پہ جائیں۔

Friday, June 18, 2010

میرے بلاگ کو کیا ہوا ہے؟

میرے بلاگ کی نئ پوسٹ نہ اردو سیارہ پہ آرہی ہے، نہ اردو بلاگز پہ اور نہ فیس بک سے نیٹ ورک کے ذریعے فیڈنگ ہو رہی ہے۔ آخر ایسا کیا ہوا ہے بھئ؟

Thursday, June 17, 2010

وبائے مرگ اور محبت

انگریزی بلاگز پہ کہیں زیادہ خون گرما دینے والی تحاریر آتی ہیں، لوگ اس میں دلچسپی لیتے ہیں اور میں اپنے دندان ساز ڈاکٹر کے بلاگ پہ دیکھتی ہوں کہ ایک پوسٹ پہ تین سو سے بھی زائد تبصرے ہوئے ہیں۔ مگر رشک آتا ہے انگریزی زبان کے صحت افزاء اثر پہ کہ کسی کو فشار خون لا حق نہیں ہوتا۔  مگر ہمارے اردو بلاگرز کا نظام ہاضمہ بس مخصوص چیزوں کو ہی ہضم کر پاتا ہے اور یوں عالم یہ ہوتا ہے کہ نمکدان قریب ہو تو اس سے بھی فشار خون بلند ہو جاتا ہے۔  یہاں تو اگر غالب کی وہ غزل جو نمک کے قافئیے پہ ہے اسی کو ڈالدیں تو کچھ لوگوں کےدنیا سدھار جانے کا پروگرام  فی الفور بن جائے گا اور الزام 'کسی اردو بلاگر' کے سر آئے گا۔
ویسے اگر بلاگرانہ ہم آہنگی صرف اسی صورت میں قائم رہ سکتی ہے کہ اپنے اپنے کینے دل میں پال کے رکھیں اور مصنوعی مسکراہٹوں ، رسمی خیر سگالی کے جملوں کا وقتآ فوقتآ تبادلہ ہوتا رہے۔ لوگ باگ اپنے بچوں کی خوبصورت تصاویر لگاتے رہیں، کچھ اشتہا انگیز کھانوں کی تصاویر آتی رہیں، کچھ سینیئر بلاگرز کا چاہے وہ کچھ بھی لکھیں ،احترام کیا جاتا رہے، کچھ جونیئر بلاگرز، عمر میں جونیئر کا لاڈ اٹھایا جاتا رہے، کچھ لوگوں کی باتوں پہ جزاک اللہ اور کچھ کی باتوں پہ سبحان اللہ ہوتا رہے، کچھ لوگ ایکدوسرے کو زبردست تحاریر پہ مبارکباد دیتے رہیں وہ جو انکے نظریات سے ملتی ہیں، کچھ اپنے تئیں منٹو اور عصمت چغتائ بننے والے، بالغوں کو نا بالغ بناتے رہیں اور خوش رہیں۔ تو بہتر ہے کہ انسان کچھ ڈائجسٹ پڑھکر دل بہلائے مثلآ خواتین ڈائجسٹ اور اس پہ وقتاً فوقتاً سسپنس یا جاسوسی ڈائجسٹ کا چھینٹا مارتا رہے اور ان سب کو پڑھنے سے پہلے برکت کے لئے روحانی ڈائجسٹ پڑھا کرے۔
اس میں یہ تمام ملغوبہ اس توازن سے ہوتا ہے کہ جن گھروں میں پڑھا جاتا ہے وہاں کسی کو بلاگنگ جیسی فضولیات میں وقت ضائع کرنے کا خیال نہیں آتا علاوہ ازیں گھروں کے اندر ہم آہنگی کی ایک آِئڈیئل فضا جنم لیتی ہے جس سے  ڈائیجسٹ والوں کے روزگار پھلنے پھولنے کے مواقع بڑھتے رہتے ہیں۔ اسکے لئے کمپیوٹر کی بھی ضرورت نہیں ہوتی اور انسان ان پہ پیسے صرف نہ کرنا چاہیں تو محض پڑوسیوں سے اچھے تعلقات پہ ہی کام چل جاتا، اس صورت میں نمک مانگنے کے بجائے یہ کہنا ہوگا کہ خالہ جی بلکہ آنٹی جی، آپ نے اپنا ڈائجسٹ ختم کر لیا تو ہمیں دے دیں۔ مجھے اس میں سے نہاری کی  ترکیب آزمانی ہے۔
نہاری ہم آہنگی پیدا کرنے کا ایک آزمودہ نسخہ ہے۔ اب یہاں ایک ایک سیدھا سادہ سا سوال پیدا ہوتا ہے کہ نہاری سے کیسے بلاگرانہ ہم آہنگی پیدا کی جا سکتی ہے۔ میں تمام اردو بلاگرز کو اس سلسلے میں ٹیگ کرتی ہوں کہ نہاری، اسکی مختلف تراکیب، طریقہ ء استعمال، کھانے کے آداب، لوگوں کو اسکی دعوت پہ بلانے کے آداب، گھر میں ایک اس طرح کی دعوت منعقد کرنے کے سو طرائق اور نہاری پیش کرنے کے سلیقہ مند طریقوں کو بیان کریں۔
خبردار کسی نے گوشت کی بڑھتی ہوئ قیمتوں، لوگوں کے کھانا نہ ملنے کی وجہ سے خودکشی کرنے کے واقعات کا تذکرہ، مختلف لسانی اکائیوں کے اس بارے میں وہم اور خیالات، کھونٹوں کی گئیوں، کولہو کے بیل اور گلی کے گدھوں کا تذکرہ کیا۔ اس سے ہم آہنگی جیسے عظیم مقصد کو ٹھیس پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ جو صرف اسی صورت میں برقرار رہ سکتا ہے کہ ہم کوہ قاف کی کہانیاں دوہراتے رہیں۔
میں زیادہ گھمبیر مسئلے کی طرف آتی ہوں کہ اس سے ہم آہنگی بھی برقرار رہے اور سب لوگ اس میں شامل رہیں۔ مسئلہ ہے، آج کیا پکائیں، حالانکہ پچھلے دو دن سے میں ایک احساس جرم میں مبتلا ہوں کہ یہ کیسے ہوتا ہے کہ ایک خاندان کے پانچ لوگ مفلسی کی وجہ سے خدا کے بنائے ہوئے قانون کو توڑتے ہیں اور اپنی زندگی ختم کر لیتے ہیں اور ہم یہ سوچتے ہیں کہ آج کیا پکائیں۔ مگر ان تمام باتوں پہ گفتگو ہمیشہ ایسے نکات کی طرف مڑے گی جہاں سے ہم آہنگی کے نازک بت کو ضرر پہنچ سکتا ہے۔ میں اسی مجرمانہ احساس کے ساتھ نہاری کی ترکیب کو ذہن میں دوہراتی ہوں۔
اسکے لئے چاہئیے ہوگا ایک کلو گوشت بونگ کا، کچھ مصالحے اور آپکے کچن کو ایسی جگہ ہونا چاہئیے جہاں سے بھننے والے گوشت اور حلووں کی خوشبو ان لوگوں تک نہ پہنچے جو زہر کی گولیاں ہاتھ میں لئے بیٹھے ہیں۔
ویسے برسبیل تذکرہ کسی نے گارسیا کی  کتاب وبائے مرگ میں محبت پڑھی ہے۔

Tuesday, June 15, 2010

تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

یہ تحریر نیٹ پہ  سفر کرتے ہوئے میرے پاس  آگئی۔ آپکی توجہ کے لئے حاضر ہے۔



Monday, June 14, 2010

دھندہ

یہ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے۔ میں یونیورسٹی سے واپس آرہی تھی۔ منی بس نیپا کے بس اسٹاپ پہ رکی تو ایک عورت چڑھی۔ لمبے قد اور اچھی جسامت کی چالیس سال سے اوپر کی یہ عورت ایک معقول گھرانے کی لگ رہی تھی۔ اچھی تراش کے کپڑے پہنے ہوئ اور اس پہ کشیدہ کی ہوئ چادر اوڑھے ہوئے تھی۔ اسکا چہرہ لگ رہا تھا کہ کسی پارلر کی توجہ لیتا رہتا ہے کہ بھنویں تھریڈنگ کے ذریعے بنی ہوئیں، بال مناسب انداز میں سدھارے ہوئے، ہاتھ اور پیروں کے ناخنوں پہ باسی ہوتی ہوئ نیل پالش ۔ پھر اس نے ایک عجیب حرکت کی کہ اچانک  مانگنا شروع کر دیا۔ میرا شوہر خاصہ بیمار ہے، اسکے علاج کے لئے پیسے چاہئیں، اور پھر ایک  ہمدردی حاصل کرنے والی تقریر۔ خواتین نے تو اسکو زیادہ لفٹ نہ دی اور وہ اس گیٹ کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو گئ جو مردانے کی طرف کھلتا ہے۔ وہاں سے اسے کچھ خیرات ملی۔
آئیندہ چار پانچ بس اسٹاپ تک وہ اس میں اسی طرح موجودرہی۔ پھر وہ اکثر اس وقت نظر آنے لگی اسی طرح مردوں کے حصے کی طرف منہ کئے اور انکے گیٹ سے لگی۔ میں نے سوچا یہ عورت یقیناً بھیک کے پردے میں جسم فروشی کا دھندہ کرتی ہے۔ ورنہ ایسے حلئیے میں کیوں بھیک مانگتی ہے۔ ایکدن ایک ماسی نے اسے ڈانٹ بھی دیا۔' مجھے دیکھو تم سے کمزور ہوں پر سارادن بنگلوں میں صفائ کا کام کر کے حلال کی روزی کماتی ہوں۔ تم اتنی اچھی ہٹی کٹی عورت ہو بھیک مانگتے شرم نہیں آتی'۔
اسے شرم نہیں آتی تھی کیونکہ اسکے بعد بھی میں نے اسے یہی کرتے دیکھا۔ پھر میرا راستہ تبدیل ہو گیا۔
رمضان میں، میں نے دیکھا، اچھی خاصی لڑکیاں جن کی عمریں سترہ اٹھارہ سال سے لیکر زیادہ سے زیادہ تیس سال تک ہونگیں، بازاروں میں نظر آتیں۔ سر سے پیر تک اسمارٹ، رائج الفیشن برقعوں میں ملبوس، چہرے پہ حجاب کیا ہوا۔ ساتھ میں ایک اور خاتون۔  بھیک مانگنا اور وہ بھی بالخصوص مردوں سے انکے کندھےپہ اپنا نازک سا ہاتھ مارکر۔ میں نےسوچا یہ بھی شاید گاہک پکڑنے کا ایک طریقہ ہے۔
ابھی کچھ دنوں پہلے میں میکرو کے پارکنگ ایریا میں رابعہ اور مشعل کے ساتھ موجود تھی۔ ہم تینوں خریدے گئے سامان کی ٹرالی میں سے سامان نکال کر ڈگی میں رکھنے میں مصروف تھے۔ میں سامان رکھنے سے زیادہ ان دونوں میں تصفیہ کرارہی تھی کہ کون ، کون سا سامان رکھے گا۔ اور ادھر مشعل ہر تھوڑی دیر بعد شور مچاتی کہ اسکی خدمات سے صحیح سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔ میکرو ایک ہول سیل کا سپر اسٹور ہے۔ یہاں آرام یہ ہے کہ بچوں کے ساتھ ائیر کنڈیشنڈ ماحول میں آرام سے خریداری کر لیں۔ لیکن سامان رکھنے کے لئے پلاسٹک کے تھیلے خریدنے ہوتے ہیں۔ میں دنیا میں پلاسٹک کی آلودگی اپنے تئیں بڑھانے کی کوشش نہیں کرتی البتہ کچھ تھیلے ڈگی میں رکھتی ہوں تاکہ بار بار کام آتے رہیں۔ اس لئے نہیں خریدے۔
اب ڈگی میں یہ سب سامان صحیح سے رکھنا تھا۔ اچانک مجھے پیچھے سے آواز آئ۔ میڈم۔ دیکھا تو ایک چھبیس ستائیس سال کے صاحب کھڑے تھے۔ کریز لگی ہوئ ٹرائوژرز اور ڈریس شرٹ پہنے ہوئے۔ پالش سے چمکتے ہوئے جوتے اور سر کے بال جیل لگا کر جمائے ہوئے۔ میں نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ کہنے لگا 'ماں بیمار ہیں، میں نوکری کرتا ہوں مگر پورا نہیں پڑتا۔ ماں کے علاج کے لئے پیسے چاہئیں۔ میں بھیک نہیں مانگتا۔ یہ نوٹ بک بیچ رہا ہوں آپ خرید لیں' میں نے حیرانی سے اسے دیکھا۔ 'ٹیوشن کیوں نہیں پڑھاتے'۔ جی میں ایک نوکری کرتا ہوں۔ کچھ وقت ماں کو بھی دینا ہوتا ہے'۔ اچھا میں نے اسکے ہاتھ میں موجود نوٹ بک کی طرف دیکھا۔ کتنے کی ہے یہ۔ کہنے لگا سو روپے کی۔ پہلے حیرانی سے میرا منہ کھلا پھر الفاظ نکلے۔ یہ تو زیادہ سے زیادہ دس، پندرہ روپے کی ہوگی۔ اس پہ اس نے انتہائ رسان اورکچھ مسکراہٹ سے کہا میں نے آپکو بتایا تو ہے کہ مجھے ماں کے علاج کے لئے پیسے چاہئیں۔ اس لئے ان نوٹ بکس کی قیمت تھوڑی زیادہ ہے۔ 
دیکھیں جناب، میں نے ان سے کہا۔ آپ یہ فیصلہ کریں کہ آپ بھیک مانگ رہے ہیں یا محنت کے پیسے چاہتے ہیں۔  میں آپکو اسکے زیادہ سے زیادہ پچیس روپے دے سکتی ہوں اس سے زیادہ حاصل کرنے کے لئے آپ کوئ ڈھنگ کا کام کریں۔ اتنی دیر میں مشعل بور ہو چکی تھی۔ اور اس نے شور مچا دیا کہ رابعہ اسے سامان نہیں رکھنے دے رہی جبکہ یہ اسکی باری ہے۔ میں پھر ٹرالی خالی کرنے لگی۔ اس نے پھر آواز دی میڈم، آپ یہ لے رہی ہیں۔ ارے میں نے بتا تو دیا کہ میں آپکو اسکی کیا قیمت دونگی۔ آپکو دینی ہے تو مزید بات کریں۔ وہ ان آٹھ دس نوٹ بکس کو بغل میں دبا کر، پھر وہیں ایک طرف ہو کر کھڑا ہو گیا۔ گاڑی کی ڈگی بند ہوئ۔ میں نے گاڑی پارکنگ سے نکالی۔ وہ وہیں کھڑا ہوا تھا۔
اب سوچتی ہوں خواتین کو تو دھندے والی سوچ لیا تھا۔ اس ہٹے کٹے، بھلی شکل اور ہیئت کے شخص کو کس کھاتے میں ڈالوں۔

Saturday, June 12, 2010

پیریاڈک ٹیبل، ترتیب اور خصوصیات-۲

گذشتہ سے پیوستہ
گروپ میں رجحانات؛
ایک گروپ کے تمام ارکان ویلینس شیل یعنی سب سے آخری والے شیل میں ایک جیسے الیکٹرون رکھتے ہیں۔ اس وجہ سے انکی خصوصیات ملتی جلتی ہوتی ہیں۔ تمام ارکان اسی حساب سے اپنے ایٹمی قطر یا ریڈیئس، آئونازیشن انرجی اور الیکٹرو نیگیٹیویٹی یا برقی منفیت میں تبدیلی دکھاتے ہیں۔کسی گروپ میں اوپر سے نیچے آتے ہوئے ایٹمی نمبر بڑھتا ہے یعنی الیکٹرون کی تعداد بڑھتی ہے انہیں زیادہ مدار یا شیل چاہئیے ہوتے ہیں، وہ نیوکلیئس سے دور ہوتے جاتے ہیں اور یوں عناصر کے ایٹموں کا سائز بڑھتا ہے۔
 زیادہ دور ہونے کی وجہ سے نیوکلیئس کا الیکٹرون پہ اثر کم ہو جاتا ہے وہ انہیں اپنے ساتھ مضبوطی سے باندھ کر نہیں رکھ سکتا یوں اس ایٹم کو آئن بنانے کے لئے سب سے باہر والے الیکٹرون یعنی ویلینس الیکٹرون کو اس ایٹم پہ  سے ہٹانے کے لئے کم توانائ خرچ کرنا پڑتی ہے یعنی  کم آئیونائزیشن انرجی۔ اوپر سے نیچے جاتے ہوئے چونکہ الیکٹرون مرکزے سے دور ہوتے جاتے ہیں اس لئے انکی برقی منفیت بھی کم ہو جاتی ہے۔

پیریڈ میں رجحانات؛
ہر پیریڈ الکلی دھات سے شروع ہوتا ہے اور نوبل گیس پہ ختم ہوتا ہے. اس میں جو رجحانات نظر آتے ہیں وہ ایٹمی قطر ریڈیئس، آئیونائزیشن انرجی، اور برقی منفیت شامل ہیں۔ الکلی دھاتوں کی طرف سے جیس جیسے ایک پیریڈ میں آگے بڑھیں یعنی نوبل گیس کی طرف جائیں تو ایٹمی قطر کم ہوتا جاتا ہے۔ الیکٹرون مرکز کے قریب آجاتے ہیں اور مرکزے کا اثر بڑھتا جاتا ہے جسکے نتیجے میں الیکٹرون کو اس ایٹم پر سے ہٹانے کی توانائ یعنی آئیونازیشن انرجی بڑھتی جاتی ہے۔ جتنا مضبوطی سے الیکٹرون  جڑے ہونگے آئیونازیشن انرجی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ایٹم کی برقی منفیت بھی بڑھ جاتی ہے۔ یعنی بانڈ بنانے کی صورت میں وہ دوسرے ایٹم کے الیکٹرونز کو بھی اپنی طرف کھینچ کر رکھے گا۔


جدید پیریاڈک ٹیبل کے علاوہ بھی عناصر کو مختلف ٹیبلز میں ترتیب دیا گیا ہے۔ اگر آپ اس میں دلچسپی رکھتے ہیں تو ضرور اس لنک پہ جائے۔ یہاں اس حوالے سے ایک خزانہ موجود ہے۔
اب آپ تھک گئے ہونگے تو آپکے لئے موسیقی کا بندو بست ہے مگر خیال رہے یہ پوسٹ پیریاڈک ٹیبل سے متعلق ہے۔ آئیے سنتے ہیں۔

اور اگر اپنے بچے کو کیمیاء پڑھانے سے دلچسپی پیدا ہو گئ ہے تو اسے یہ والاگانا سنائیے۔ یاد کر لے تو دنیا کی مشہور کیمیاء سے متعلق اداروں کے خواب دکھانا شروع کر دیں۔

بچوں کے لئے

حوالہ

پیریاڈک ٹیبل، ترتیب اور خصوصیات

گذشتہ سے پیوستہ

اب تک یہ بات تو سمجھ میں آگئ ہوگی کہ جدید پیریاڈک ٹیبل میں عناصر اپنے ایٹمی نمبر کے لحاظ سے ترتیب دئیے گئے ہیں۔  ایٹمی نمبر اس عنصر میں موجود الیکٹرونز یا پروٹونز کی تعداد ظاہر کرتا ہے۔ اسکی وجہ سے یہ ممکن ہو گیا ہے کہ آپ ایک نظر ٹیبل پہ ڈالیں اور کسی عنصر کے مقام سے اندازہ کر لیں کہ اسکے ممکنہ کیمیائ خواص کیا ہونگے۔ اس طرح سے نئے دریافت ہونے والے عناصر کی خصوصیات کی بھی پیشنگوئ کی جا سکتی ہے۔
جدید پیریاڈک ٹیبل میں اب تک یعنی سن  دو ہزار دس تک دریافت ہونے والے ایک سو اٹھارہ عناصر موجود ہیں۔ ان میں سے چورانوےعناصر قدرتی طور پہ پائے گئے جبکہ باقی عناصرتجربہ گاہ میں پارٹیکل ایکسیلیریٹر میں تیار کئے گئے ہیں۔  اس طرح سے یہ ممکن ہے کہ مزید مصنوعی عناصر تیار کے جا سکیں مگر ان میں سے قابل حصول وہی ہونگے جن کی نصف زندگی زیادہ ہوگی۔ کم نصف زندگی رکھنے والے پیدائش کے فوراً بعد ہی ختم ہوجائیں گے۔ ٹیبل میں آپکو کچھ عناصر نظر آئیں گے جنکے نام یو این سے شروع ہو رہے ہیں ۔ ان عناصر کے مناسب نام ابھی تک نہیں رکھے گئے اور انہیں ناموں کے ایک عارضی طریقے کے مطابق نام دئیے گئے ہیں۔ اس پہ ہم پھر کبھی بات کریں گے۔
یہ ہے ایک سادہ  جدید پیریاڈک ٹیبل کی تصویر۔
 اس سادہ سے پیریاڈک ٹیبل میں ہر خانے میں ایک عنصر کو ظاہر کرنے والی علامت، اسکا ایٹمی نمبر اور ایٹمی کمیت دئیے ہوئے ہیں۔ ٹیبل میں مختلف رنگ نظر آرہے ہیں جو کہ مختلف اقسام کے عناصر کو ظاہر کر رہے ہیں۔ ان رنگوں کی چابی یا کی ٹیبل کے اوپر موجود ہے اس ٹیبل میں نیلا رنگ ٹرانزیشن عناصر کو،  ہلکا آسمانی دھاتوں کو گلابی غیر دھاتوں کو، جامنی دھات نما اورنج نوبل گیسوں کو اور ہرا اندرونی ٹرانزیشن عناصر کو ظاہر کر رہا ہے۔ یہ رنگ مختلف ٹیبلز میں مختلف ہو سکتے ہیں۔ بعض ٹیبلز میں الیکٹرونی تشکیل یعنی مختلف ایٹموں کی کسی ایٹم کے مداروں میں الیکٹرونز کی ترتیب بھی دی گئ ہوتی ہے۔ اسی الیکٹرونی تشکیل کی وجہ سے مختلف عناصر اپنی کیمیائ خواص میں ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ در حقیقت، آخری یا ویلینس شیل میں موجود ویلینس الیکٹرونز اس سلسلے میں خاص اہمیت کے حامل ہیں۔اسکے لئے نیچے والی تصویر دیکھئیے۔

ایک زیادہ بہتر ٹیبل کے لئے اس لنک پہ جائیے۔
اس لنک والے ٹیبل سے آپکو پتہ چلے گا کہ ٹیبل میں جو عمودی قطاریں نظر آرہی ہیں وہ گروپ کہلاتے ہیں انکی تعداد اٹھارہ ، جبکہ افقی قطاریں پیریڈز کہلاتی ہیں جو کہ سات ہیں۔
سب سے آخری شیل کی اہمیت کی وجہ سے ٹیبل کے مختلف حصے بلاک بھی کہلاتے ہیں۔ انکے نام اس سب شیل کے حساب سے ہوتے ہیں جن میں سب سے آخری الیکٹرون موجود ہوتا ہے۔ ایس بلاک میں شروع کے دو گروپ آتے ہیں جو الکلی دھاتیں اور الکلی ارتھ دھاتیں کہلاتی ہیں اسے ایس بلاک کہتے ہیں۔ اسی میں ہائڈروجن اور ہیلیئم بھی شامل ہیں۔ پی بلاک میں آخیر کے چھ گروپس آتے ہیں۔ یعنی گروپ تیرہ سے اٹھارہ۔  اسی میں تمام نیم دھاتیں  اور نوبل گیسیں بھی شامل ہیں۔ ڈی بلاک میں تیسرے سے لے کر بارہویں گروپ تک کے ارکان شامل ہیں اور یہ سب ٹرانزیشن دھاتیں ہیں۔ یعنی وہ جنکی ایک سے زیادہ ویلینسی ہوتی ہیں۔ بلاک ایف میں باقی کے عناصر شامل ہیں جو ٹیبل میں نیچے کی طرف ہیں اور ریئر ارتھ دھاتیں بھی کہلاتی ہیں۔








یو این سے شروع ہونے والے کچھ عناصر کے نام انگریزی میں  درج ذیل ہیں۔

Friday, June 11, 2010

پیریاڈک ٹیبل یا دوری جدول کی تاریخ-۲

 گذشتہ سے پیوستہ
مینڈیلیف سترہ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا، ایک روسی استاد کا بیٹا تھا۔ اس زمانے کے مروّجہ علوم یعنی کلاسیکی زبانوں میں اسکی دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے اسے ایک اچھا طالب علم خیال نہیں کیا جاتا تھا۔ حالانکہ اسکا دماغ حساب اور سائینس میں کافی زرخیز تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے یونیورسٹی میں داخلے کے وقت کافی آزمائش سے گذرنا پڑا۔ ماسٹرز کرنے کے بعد جرمنی میں اس نے کیمیاء کے مطالعے میں دو سال گذاارے اور پھر سینٹ پیٹرز برگ یونیورسٹی میں ایک پروفیسر کی حیثیت سے کام کرنے لگا۔ یہ وہی یونیورسٹی تھی جہاں اسے گریجوایشن میں داخلہ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔
اپنی ایک کتاب پرنسپلز آف کیمسٹری کے لئے مواد جمع کرنے کے دوران اسے خیال آیا کہ عناصر کے خاندان بنانے چاہئیں جو ایک جیسے خواص رکھتے ہیں۔ اور اس پہ غورو فکر کرتے ہوئے اس نے  مختلف عناصر کے درمیان خصوصیات کی ہم آہنگی کو نوٹ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ مینڈیلیف تاش کھیلنے کا بہت شوقین تھا۔ اس نے اس وقت تک کے معلوم عناصر کے کارڈز تیار کئے اور اپنے لمبے سفروں کے دوران ان سے سولیٹیئر تاش کا کھیل 'پیشنس' کھیلتا تھا۔ ہر کارڈ پہ عنصر کی علامت، ایٹمی وزن، اور نمایاں طبعی و کیمیائ خصوصیات لکھی ہوئ تھیں۔ جب اس نے ایک میز پہ ان کارڈز کو پھیلایا اور انکے ایٹمی وزن کے حساب سے ترتیب دیا تو پیریاڈک ٹیبل وجود میں آگیا۔ اٹھارہ سو انہتر میں مینڈیلیف نے اپنا کام پیریاڈک ٹیبل کے حوالے سے شائع کروایا ۔
اسکے پیش کردہ ٹیبل کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں عمودی، افقی اور وتری ہر طریقے سے ہم آہنگیت موجود تھی۔ انیس سو چھ میں اسے اس سلسلے میں نوبل پرائز ملا۔
حالانکہ اس وقت اتنی سہولیات موجود نہ تھیں کہ وہ عناصر کے بالکل صحیح اوزان معلوم کر پاتا۔ اسکے باوجود اس نے کئ عناصر کے وزن میں غلطیاں درست کیں ۔ مثلاً بریلیئم کے وزن چودہ کو صحیح کر کے نو کیا۔ اس وجہ سے بریلیئم دوسرے گروپ میں میگنیشیئم سے پہلے آگیا۔  کیوں کہ اسکی خصوصیات اس گروپ سے ہم آہنگیت دکھاتی تھِں۔   اس نے کل سترہ عناصر کو نئ جگہیں دیں اسکے پیش کردہ ٹیبل میں نامعلوم عناصر کے لئےخالی جگہیں موجود تھیں۔  اس طرح نامعلوم عناصر کے وزن اور خصوصیات کی بھی پیشن گوئ کر دی جیسے بعد میں دریافت ہونے والے عناصر گیلیئم، اسکینڈیئم اور جرمینیئم کے لئے اس نے ٹیبل میں جو جگہیں چھوڑی تھیں وہاں سے اندازہ ہوتا تھا کہ ان متوقع عناصر کی متوقع خصوصیات کیا ہونگیں۔ جب یہ بعد میں دریافت ہوئے تو انکی خصوصیات وہی تھیں جو مینڈلیو نے بیان کی تھیں۔
اس طرح مینڈیلیف نے دس نئے عناصر کی موجودگی کی پیشن گوئ کی۔ اسکے ٹیبل میں کچھ ٹیکنیکل خرابیاں تھیں۔ جنکی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک اس ٹیبل کو بنانے کے لئے ایٹمی وزن ہی کو معیار بنایا جاتا تھا۔
اسکے بنائے ہوئے ٹیبل میں کچھ خامیاں تھیں۔ ایک تو اس میں نوبل گیسز کا کوئ تصور نہ تھا اور دوسرے آئیسو ٹوپس کے بارے میں کچھ معلومات نہ تھیں۔

لوتھر میئر نے بھی عین اس وقت  اپنے نتائج  پیش کئے جب مینڈلیو نے کئے۔ یہ نتائج مینڈیلیف کے نتائج سے ملتے جلتے تھے۔ کچھ مئورخین کے نزدیک وہ اور مینڈیلیف اس سلسلے میں ہم پلّہ ہیں اور دونوں ہی کو بابائے پیریاڈک ٹیبل کہنا چاہئیے لیکن یہاں مینڈیلیف کو ایک برتری حاصل ہے۔ اس نے میئر کے مقابلے میں زیادہ عناصر اپنے ٹیبل میں پیش کئے اور نئے عناصر کے دریافت کی پیشن گوئ بھی کی۔ میئر اس خیال کو نہیں پا سکا۔ میئر کے علاوہ ایک اور کیمیاداں ویلیئم اوڈلنگ نے بھی مینڈلیو سے ملتا جلتا ٹیبل سن اٹھارہ سو چونسٹھ میں پیش کیا۔ 
اسکے بعد لارڈ ریلے کی نوبل گیسز کی دریافت نے پیریاڈک ٹیبل میں مزید تبدیلیاں پیدا کیں۔ ویلیئم رامسے نے نئے دریافت شدہ عنصر آرگن کو ہیلیئم کے ساتھ رکھنے کا مشورہ دیا۔ ان عناصر کی ویلینسی صفر تھی اس لئے اسے زیرو گروپ کا نام دیا گیا۔
بیسویں صدی کے سائنسدانوں کے اعزاز میں یہ آیا کہ وہ مینڈلیو کے ترتیب کردہ ٹیبل کی وجوہات بیان کر سکیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کچھ عناصر ایک جیسی کیمیائ خصوصیات رکھتے ہیں۔
ردر فورڈ نے مرکزے کا چارج معلوم کر کے اطلاع دی کہ نیوکیئر چارج اور ایٹمی وزن کے درمیان ایک راست تعلق ہوتا ہے۔ یعنی ایٹمی وزن کے بڑھنے سے ایٹمی چارج بڑھے گا اور کم ہونے سے کم ہوگا۔
ہنری موزلے نے انیس سو تیرہ میں ایک تجربے کے نتیجے میں بتایا کہ ایٹمی نمبر اور عناصرایکس رے طول موج کے درمیان  تعلق ہے۔ اور اس طرح یہ ہوا  کہ ایٹمی چارج کو ناپا جا سکتا ہے۔ یعنی ایٹمی نمبر معلوم کیا جا سکتا ہے۔  اسکے ساتھ ہی آئسوٹوپ کی دریافت ہوتی ہے اور یہ بات پتہ چلتی ہے کہ یہ دراصل ایٹمی وزن نہیں ہے جو عناصر کی کیمیائ خواص کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس میں ایٹمی نمبر کا عمل دخل ہے۔ کیونکہ آئیسو ٹوپ ایک ہی عنصر کے ایٹم ہوتے ہیں جنکا ایٹمی نمبر ایک جیسا ہوتا ہے مگر ایٹمی وزن مختلف ہوتا ہے۔
یہ تو آپکو یاد ہوگا کہ مینڈلیو تک جتنے بھی سائنسداں تھے سب ایٹمی وزن کے حساب سے پیریاڈک ٹیبل میں عناصر کو ترتیب دے رہے تھے تو اس موڑ پہ پیریاڈک ٹیبل کی ترتیب میں ایک بڑی تبدیلی آئ۔
یہ سوال کہ کیوں عناصر خصوصیات کو دوہراتے ہیں اسکا جواب اس وقت ملا جب عناصر کی الیکٹرونی تشکیل کرنا ممکن ہوئ یعنی مختلف آربٹلز میں یا مداروں میں الیکٹرون کی موجودگی اور انکی تقسیم۔ اور یہ سب ممکن بنایا نیلس بوہر نے جس نے جی این لیوس کی دریافت الیکٹرونی جوڑوں کی تشکیل سے مدد لی۔ اسے اس وجہ سے نوبل پرائز بھی دیا گیا۔ نیچے دی گئ تصویر میں کچھ عناصر کی الیکٹرونی تشکیل دی گئ ہے۔


پیریاڈک ٹیبل میں آخری اہم تبدیلیاں بیسویں صدی کے وسط میں پلوٹونیئم کی دریافت کے بعد ہوئیں جو گلین سیبورگ نے انیس سو چالیس میں کی۔ اس نے مینڈلیو کے ٹیبل میں تبدیلی کر کے ایکٹینائیڈ سیریز کو لینتھینائیڈ سیریز کے نیچے جگہ دی۔ انیس سو اکیاون میں اسے نوبل پرائز دیا گیا۔ اور ایک سو چھواں عنصر کو اسکا نام دیا گیا یعنی سی بورگیئم جسکی علامت ہے ایس جی۔
  Seaborgium (Sg)


نوٹ؛ اس تحریر میں دئیے گئے سائنسدانوں کے پورے نام انگریزی ہجوں میں ذیل میں درج ہیں۔ آپکا ہوم ورک یہ ہے کہ انکا صحیح تلفظ معلوم کریں۔

Dmitri Mendeleev
نام کا صحیح تلفظ سننے کے لیئے اس لنک پہ جائیں۔

ہنری موزلے
Henry Moseley
 
ویلیئم اوڈلنگ 
William Odling

 لوتھر میئر
Lothar Meyer

ردر فورڈ
Ernest Rutherford

نیلس بوہر 
Niels Bohr

جی این لیوس 
Gilbert N. Lewis


 گلین سیبورگ
 Glenn T. Seaborg

پیریاڈک ٹیبل یا دوری جدول کی تاریخ-۱

کسی بھی کیمسٹری کی لیبارٹری میں داخل ہو جائیں وہاں آپکو ایک چیز ضرور نظر آئے گی اور وہ ہے پیریاڈک ٹیبل یا دوری جدول۔ میں اسکے لئے پیریاڈک ٹیبل کی اصطلاح ہی استعمال کرنا چاہونگی۔  سائینسی اصطلاحات ساری دنیا میں ایک جیسی رہیں تو مزید معلومات کا حصول آسان رہتا ہے۔
بظاہر تو پیریاڈک ٹیبل ایک حاضری کے رجسٹر کی طرح لگتا ہے۔ جہاں تمام عناصر کے حاضر ہونے یا موجود ہونے کی اطلاع ہو۔ لیکن ایسا نہیں ہے یہ ٹیبل اس سے کہیں زیادہ معلومات رکھتا ہے اور اسکی وجہ اس میں عناصر کو ترتیب دیتے وقت انکی خصوصیات کے اتار چڑھاءو کو مد نظر رکھنا ہے۔
انسان نے زندگی کے ہر شعبے میں ارتقائ طریقے سے چیزیں سیکھیں اور انہیں آگے بڑھایا ۔ یہی ، سب کچھ پیریاڈک ٹیبل کو ترتیب دینے کے دوران ہوا۔
لوائزے وہ پہلا شخص ہے جس نے ایسی اشیاء کی لسٹ دی جنہیں مزید نہیں توڑا جا سکتا تھا۔ اس نے انہیں عناصر کہا۔ اس لسٹ میں نائٹروجن، ہائیڈروجن، فاسفورس، مرکری یعنی پارہ، زنک یعنی جست اور سلفر یعنی گندھک کے علاوہ روشنی اور حرارت بھی شامل ہیں۔ جنہیں اس نے مادہ اشیاء سمجھا۔ اس لسٹ میں عناصر کو صرف دھات یا غیر دھات کے طور پہ لیا گیا اس لئے  یہ ایک مکمل تجزیہ نہیں تھا۔ اس وقت کے دیگر کیمیاء دانوں نے اس میں دلچسپی نہیں لی۔
ڈابیرینر نے نے ایک ابتدائ کوشش کی کہ عناصر کی جماعت بندی کر دی جائے۔ اپنی اس کوشش میں اس نے معلوم کیا کہ بعض بنیادی خواص بعض عناصر دوہراتے ہیں۔ اس طرح سے ایک جیسے خواص دوہرانے والے عناصر کے اس نے گروہ بنادئیے۔ ہر گروہ میں تین ارکان تھے۔ ہر گروہ کو اس نے ٹرائیڈاز کا نام دیا۔
ہر ٹرائیڈز کے درمیانی رکن کا ایٹمی وزن باقی دو کے اوزان کا اوسط تھا۔
اسکے کچھ گروہوں کی مثال ذیل میں ہے۔
۱
کلورین، برومین، آئیوڈین
۲
کیلشیئم، اسٹرونشیئم، بیریئم
۳
سلفر، سیلینیئم، ٹیلیریئم
۴
 لیتھیئم، سوڈیئم، پوٹاشیئم


سن اٹھارہ سوانہترتک تریسٹھ عناصر دریافت ہو چکے تھے۔ عناصر کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ہی ان میں دوہرائے جانے والے رجحانات بھی زیادہ واضح ہوو کر سامنے آئے اور اس طرح سائینسدانوں نے انکی درجہ بندی پہ غور کرنا شروع کیا۔
الیکزینڈر ایمائیل وہ پہلا شخص تھا جس نے اس چیز پہ توجہ کی کہ مختلف عناصر اپنی خصوصیات کو دوہراتے ہیں۔ اور اگر انہیں انکے ایٹمی وزن کے حساب سے ترتیب دیا جائے تو ایک خاص وقفے کے بعد ایسا عنصر آتا ہے جو اس خاص وقفے سے پہلے والے عنصر جیسے خواص رکھتا ہے۔ اس نے پیریاڈک ٹیبل کی ایک ابتدائ شکل بنائ۔ جو پیچ دار تھی۔ اس طرح ترتیب دیتے ہوئے ایک جیس خصوصیات رکھنے والے عناصر ایک عمودی قطار میں آگئے۔ اسکے اس چارٹ میں عناصر کے علاوہ آئینز اور دیگر مرکبات بھی تھے۔ اسکا پیپر اٹھارہ سو باسٹھ میں شائع ہوا۔ چونکہ اس میں کوئ تصویر بھی نہ تھی تو اسے اتنی پذیرائ بھی نہ مل سکی۔
اٹھارہ سو پینسٹھ میں جان نیو لینڈز نے چھپن عناصر کو جو کہ دریافت ہو چکے تھے گیارہ گروپس میں بانٹ دیا۔ اس نے دیکھا کہ اگر عناصر کو ایک فہرست میں لکھ لیا جائے انکے ایٹمی اوزان کے مطابق تو ہر آٹھواں یا آٹھ کا ضربی نمبر یا ملٹی پل عنصر سب سے پہلے والے عنصر جیسے خواص رکھتا ہے۔









اسکی وضاحت کے لئے ہم  دوسری والی تصویر میں ایل آئ یعنی  لیتھیئم سے گننا شروع کریں

تو اسکے بعد بی ای یعنی بریلیئم، بی یعنی بورون، سی یعنی کاربن، این یعنی نائٹروجن، او یعنی

آکسیجن، ایف یعنی فلورین  کے بعد  آٹھویں عنصر این اے یعنی سوڈیئم پہ پہنچیں تو یہ لیتھیئم کے بعد ٹھیک آٹھواں عنصر ہے اور اسکے کیمیائ خواص لیتھیئم جیسے ہونگے۔ اس طرح پہلے ٹیبل میں  این اے یعنی سوڈیئم سے گننا شروع کریں تو پھر آٹھویں عنصر پوٹاشیئم پہ پہنچیں گے یعنی لیتھیئم کے حساب سے آٹھ کا دوضربی نمبرسولہواں عنصرتقریباً لیتھیئم جیسے کیمیائ خواص رکھتا ہوگا۔
 
علی ہذالقیاس۔
 
جان کا مذاق اڑایا گیا کہ کیا موسیقی کے سروں سے گن کر آٹھ کا گروہ بنادیا۔ دراصل اس وقت تک ویلینس بانڈ نظریہ بھی سامنے نہ آیا تھا اور نہ آٹھ کا نظریہ یعنی آکٹیٹ رول بھی دریافت نہ ہوا تھا۔

جاری ہے

نوٹ؛ اس تحریر میں دئیے گئے سائنسدانوں کے پورے نام انگریزی ہجوں میں ذیل میں درج ہیں۔ آپکا ہوم ورک یہ ہے کہ انکا صحیح تلفظ معلوم کریں۔
 
لوائزے  
Antoine Lavoisier

ڈابیرینر
Johann Wolfgang Döbereiner

الیکزینڈر ایمائیل
 Alexandre-Emile Béguyer de Chancourtois
 

Tuesday, June 8, 2010

اگر

یہ کسی دوست نے مجھے ایک انگلش تحریربھیجی ، مجھے تو مزے کی لگی۔ آپ کے لئے اسکا کچھ حصہ ترجمہ کیا  اور اسکی روح برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اصل تحریر یہاں دیکھ سکتے ہیں۔

اگر طوفان پیٹ پاکستان میں اپنی پوری طاقت کے ساتھ داخل ہو جاتا تو ہمارے انگریزی اخبار اسے کس طرح رپورٹ کرتے؟ یہ ہیں چند نمونے۔

روزنامہ 'ڈان'؛
طوفان نے سندھ، بلوچستان میں تباہی مچا دی، ساحلی علاقوں میں بہت سے افراد مر گئے اور کئ لاپتہ، زرداری، اسماء جہانگیر، بیلجیم کے وزیر اعظم کی تعزیت۔

روزنامہ 'دی نیوز'؛
کیا طوفان سے ہونے والی تباہی کے ذمہ دار زرادری؟ افتخار چوہدری کی وارننگس کو با بار نظر انداز کیا گیا، این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں کے مزے جبکہ لوگ مصیبت میں، جیو وہ پہلا چینل جس نے اس تباہی کو رپورٹ کیا۔

روزنامہ ڈیلی ٹائمز؛
سندھ، بلوچستان  میں ہونے والی تباہی سے سلمان تاثیر صدمے میں؛ پی پی پی کا تباہی سے نمٹنے کا عزم ، نواز شریف لندن روانہ، رانا ثناءاللہ کا طالبان کے ملوث ہونے سے انکار ،حامد میر کی نئ جاری ہونے والی ریکارڈنگز میں اسکے لنک، سارا تاثیر شعیب کی جیولری کی دوکان ایک دن کے سوگ میں بند ، پوچو کی سالگرہ پارٹی ملتوی ، امریکہ کے تھنک ٹینکس کا پاکستان پہ زور 'ڈو مور'۔

روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون؛
کراچی میں ڈی ایچ اے میں تباہی ، طوفان کا بہت سارے فیزز پہ ہلّہ ، ہر طرف خوف پیٹ کی وجہ سے بے شمار ڈرائیوروں، ماسیوں، چوکیداروں، نامعلوموں،  ٹوئٹروں، بلاگروں اور فیس بکروں کا باقی دنیا سے رابطہ منقطع ، دور ددراز کے علاقوں جیسے کیماڑی، نیلم، اور شیریں جناح کالونی میں سینکڑوں جاں بحق، خوبصورت مگر محروم ماہی گیری کے گاءوں میں بچوں کے حقوق مزید متائثر ہونے کا خطرہ، ، کراچی گرامر اسکول کے  سابق طلباء کی ملن پارٹی ملتوی۔،

روزنامہ دی نیشن؛
طوفان سے سندھ، بلوچستان عدم استحکام کا شکار، بالآخر انڈین اور بلیک واٹر کی سازشیں بارآور ، سینکڑوں مر گئے مگر نیوکیئر اثاثے ہندءووں اور یہودیوں کی دسترس سے محفوظ، کیانی اور حمید گل کو صدمہ، نواز شریف کا اپنا دورہ ء لندن  کلثوم کی صحتیابی کی صورت میں مختصر کرنےکا ارادہ، نظریہ ء پاکستان اور ماجد نظامی محفوظ۔۔
یہ تو تھے چند انگریزی اخبارات کے متوقع بیانات۔

لیکن خیال آیا کہ  طوفان آنے کے بعد ہماری بلاگنگ کی دنیا میں مبصروں کے متوقع تبصرے کیا ہوتے؟
پہلے طالبان، اب طوفان، کیا کرے پاکستان۔
خبردار جو کسی نے طالبان کے بارے میں کچھ کہا۔ یہ سب خدا کا عذاب ہے جو کراچی پہ نازل ہوا، ٹارگٹ کلنگ میں پٹھانوں کو مارتے ہوئے کسی کراچی والے یعنی اردو اسپیکنگ کو تکلیف نہ تھی اب طوفان  میں سندھی، پٹھانوں کے مرنے کا طوفان اٹھایا ہوا ہے۔
کراچی والے صرف اردو اسپیکنگ نہیں۔ یہاں دوسری زبانوں کے لوگ بھی بستے ہیں۔ اس شہر پہ سب کا حق ہے۔
لیکن یہ بات کراچی والے میرا مطلب اردو اسپیکنگ یعنی بھائ لوگ مانیں تب ناں۔
اس سارے طوفان کے پیچھے ایم کیو ایم کا ہاتھ ہے۔ وہ امدادی کام کر کے اپنا نام  بھی بنانا چاہتے ہیں اور پیسے بھی ہتھیانا چاہتے ہیں۔ اسکے ساتھ ہی تیسرے درجے کے اخبارات سے سنسنی خیز خبروں کی فہرست کا حوالہ۔
طوفان میں متائثرین کی بڑی تعداد سندھی، بلوچی اور پٹھان قومیت سے تعلق رکھتی تھی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کراچی کی فاشسٹ جماعت ایم کیو ایم نے اس طوفان کی تربیت کی تھی۔
الطاف بھائ کب اپنا لندن کا دورہ مختصر کر کے آ رہے ہیں۔ اب تو بھابھی بھی  وہاں نہیں رہیں۔
سب طوفان کے مرنے والوں کو رو رہے ہیں انکے بارے میں کوئ نہیں سوچتا جو بارہ مئ کو مارے گئے۔
تعصب نہیں کرنا چاہئیے۔  عصبیت کرنے والا ہم میں سے نہیں۔ ایسے سنگین مواقع پہ ہمیں استغفار کرنی چاہئیے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہئیے۔ خدا ہم سب کو صراط مستقیم پہ چلنے کی توفیق دے۔ آمین۔ اردو بولنے والوں کو میرا مطلب بھائ لوگوں کو  بھی اپنی دنیا سے باہر دیکھنا چاہئیے۔
بلوچستان میں درجنوں لوگ لاپتہ ہو گئے، یہ ہندءووں اور یہودیوں کی سازش بھی ہو سکتی ہے۔ سنا ہے کہ اب یہودیوں کی سائینس اتنی ترقی کر گئ ہے کہ دشمن ممالک پہ طوفان بھی لا سکتی ہے۔ آخر یہودی ہولوکاسٹ کے دوران اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا بدلہ ہم سے کیوں لے رہے ہیں۔  
یہ سب روشن خیالوں کے کرتوتوں کا نتیجہ ہے ان سب کو جہنم رسید کر کے  ہمیں خدا سے اجتماعی استغفار کرنی چاہئیے۔ اس خدا سے جو صرف فلاں فلاں فقہے سے تعلق رکھتا ہے۔ اور فلاں فلاں سے نظریاتی تعلق۔
یہ سب پنجابیوں کا کیا دھرا ہے، وہ سمندر کراچی میں ہونے کا مزہ کراچی والوں کو چکھانا چاہتے ہیں۔ خدا کرے انکے دریاءووں میں سیلاب آجائے۔
جھوٹ کیندا اے سالا۔ او نئیں چائیے سمندر شمندر۔ جا رکھ اپنے کول تے آپی ڈبکیاں کھا۔ سمندر کا پانی، او پی کے تو وکھا سمندر کا پانی۔ نوی ای سنائ اے۔ غارت ہو جا کے سمندر وچ۔
کسی مسلمان کو بد دعا نہیں دینی چاہئیے۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ اللہ ہم سبکو گناہوں سے بچائے۔ استغفار کریں۔
مرنے والوں میں خواتین کم مری ہیں اور مرد زیادہ، اسکا مطلب ہے کہ خدا نے مرد کو افضل بنایا ہے اور وہ مرنے کے بعد بھی انکی بالادستی چاہتا ہے۔ طوفان میں مرنے والے سب شہید ہیں۔ آئیے انکی مغفرت کے لئے دعا کریں۔ اور اپنے لئے استغفار۔
طوفان کا شکار ہونے والی عورتوں کو امداد پہنچانے کے دوران پردے کا خیال نہیں رکھا گیا، یہ کیسا اسلامی ملک ہے، کیا پاکستان اسی دن کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ ایسے کافر نما مسلمانوں پہ خدا کی مار۔
کسی مسلمان کو کافر نہیں کہنا چاہئیے۔ اس پہ سخت عذاب ہے۔ استغفار کریں۔ خدا ہمیں ہدایت دے۔
یہ سب تعیلم یافتہ لوگوں کی بے کار کی  منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ ان تعلیم یافتہ لوگوں کے پاس ایک کاغذ کے ٹکڑے کے سوا ہوتا کیا ہےجو یہ کچھ کرسکیں۔ گمان ہے کہ طوفان کسی پی ایچ ڈی کے کراچی میں بچے رہنے  کے باعث آیا۔ ان سب کو فوراً کسی اور ملک کی شہریت دے کر یہاں سے فارغ کیا جائے۔ اور ہاں، ہولوکاسٹ کی کہانیاں سب جھوٹ ہیں۔ یہودیوں پہ کوئ ظلم نہیں ہوا۔ یہ زمانہ آگیا ہے۔ پڑھے لکھے بہت ہیں مگر یہودیوں کی اصل تاریخ سے بے بہرہ۔ ایسی تعلیم کا کیا فائدہ، جو یہودیوں کے بارے میں بھی صحیح سے پتہ نہ ہو۔ ہمارے زمانے میں-----۔
تعلیم کو برا نہ کہیں، یہودیوں کو برا کہیں۔
یہودیوں نے ہی تعلیم کا شوشہ چھوڑا ہے، اس سلسلے میں ہمارے پاس بہت اہم شواہد ہیں۔ جن پہ ہم بعد میں تفصیل سے لکھیں گے۔ یہودیوں نے ----۔
ایم کیو ایم
طوفان
مرنے والے
استغفار
مغفرت
تعلیم یافتہ لوگ
کاغذ کے ٹکڑے
طوفان
ایم کیو ایم
فاشسٹ
طوفان
یہودی
دیسی گالیاں
طوفان

اور ہماری بلاگنگ کی دنیا کا ایک اہم تبصرہ تو رہ گیا جو کچھ اس طرح ہوتا۔
مزہ آیا طوفان میں آنٹی۔
Lets see if you mind it.

Sunday, June 6, 2010

وہ آیا، اس نے دیکھا اور چلا گیا

رات کے ایک بجے جب بجلی کی پہلی کڑک سنائ دی تو میں نے ذرا جوش میں ہی اسکی آواز سنی۔ تو یہ ہے وہ 'طوفان پیٹ' جو اپنے آنے کی گرج سنا رہا ہے۔ لیکن رپورٹ تو یہ تھی کہ کل دوپہر کو پہنچے گا۔ جواب ملا، یہ تو اسکا ہراول دستہ ہے۔ طوفان ابھی بہت پیچھے ہے۔ صبح اٹھ کر چیک کیا۔ شام کو متوقع ہے۔ لیکن بارش ساری رات وقفے وقفے سے ہوتی رہی۔ 
صبح سے موسم خاصہ سہانا تھا اور وقفے وقفے سےہلکی بارش کا سلسلہ بھی چل رہا تھا۔ مگر طوفان، نہیں آیا۔ دن میں مشعل نے بارش میں نہانے کا شور مچایا۔ میں نے سوچا بارش اس وقت خاصی ہلکی ہے شام کو جب طوفان آئے گا تو ہو سکتا ہے اس میں  تیزی ہو، اس میں بھیگنے کا کچھ مزہ بھی آئے گا۔ مشعل کو تسلی دی کہ ابھی کچن کے کام نبٹا لوں تو آپ کے ساتھ میں بھی بارش کا مزہ لونگی۔ بس اسکے بعد بارش بالکل ہی رک گئ۔
اب شام سے کیا مراد ہے، اب تو ساڑھےچھ ہو رہے ہیں۔ باہر ہوا تھوڑی تیز ہو گئ ہے۔ شاید طوفان گذر رہا ہے۔ مگر یہ طوفان ہے  یا ساجن کے ساتھ وقت گذار کر واپس آنے والی سجنیا۔ کیا خراماں خراماں اپنی مستی میں چل رہا ہے۔ اتنا شور مچا کہ بس اب آیا اور یہ طوفان

چلیں جناب، کچھ میڈیا نے اپنا  وقت نکالا، کچھ قائم مقام سٹی گورنمنٹ نے اس بہانے اس ' متوقع تباہ کن ایمرجنسی' کو دور کرنے کے لئے فنڈز حاصل کر کے اپنا الّو سیدھا کیا۔ ایمرجنسی فنڈز کے لئے نہ ٹینڈر چاہئیے ہوتا ہے، اور نہ زیادہ چھان پھٹک ہوتی ہے۔ باقی کے لوگ کاٹھ کے الّو بنے جنوب کی طرف منہ کئے بیٹھے گانے سنتے اور پوری پکوڑے کھاتے رہے، اس میں ہم بھی شامل ہیں کہ کاٹھ کا الّو بننے کے لئے بس کاہل ہونا ضروری ہے اور کاہلی چھوت کا مرض ہے۔ کراچی سے باہر والوں کی وضاحت کے لئے سمندر ہمارے جنوب میں ہے۔
اصل میں ایک دلچسپ خبر بھی ٹوئٹر پہ ملی آپ کے لئے حاضر ہے۔ عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے ایک طرف کی دیوار گر گئ اور سترہ افراد زخمی ہو گئے انکے ایک معتقد کا کہنا ہے کہ طوفان بہت طاقت والا تھا اسے روکنے میں، سارا لوڈ دیوار پہ گیا۔ خیر ہم، انکے بھی شکر گذار ہیں کہ ان پہ اعتماد ہمیں طوفان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والا بنائے رکھتا ہے۔ ورنہ کیا ہو؟
  اس سہانے موسم میں جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شاید اب بھی طوفان ، طوفان بن جائے چھوٹا ہی سہی۔ ایک گانا میں سن رہی تھی، دل چاہے اور وقت ہو تو آپ بھی سن لیں۔

Friday, June 4, 2010

کراچی میں سمندری طوفان

دو دن سے جتنے فون بیرون ملک سے آرہے ہیں۔ سبھی ہماری خیریت کے بعد کراچی میں 'پیٹ' یعنی آنےوالے سمندری طوفان کے متعلق معلوم کر تے ہیں۔ ادھر کراچی میں لوگوں میں خاصہ جوش و خروش پایا جاتا ہے  جو ساحل تک پہنچ سکتے ہیں وہ، روزانہ وہاں کے چکر لگا رہے ہیں۔ وہاں کے رہائیشی اپنی کھڑکیوں سے باہر کے منظر پہ نگاہیں جمائے بیٹھے ہیں کہ دیکھیں کس وقت 'پیٹ' طوفان اپنی پہلی جھلک دکھاتا ہے۔ پیٹ تھائ زبان کا لفظ ہے اور اسکا مطلب ہے 'ہیرا'۔


ہماری ایک عزیزہ کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ اسی طرح کے طوفان کی اطلاع پہ وہ بھی کراچی کے ساحل سی ویو پہ اہل خانہ کے ہمراہ پہنچیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ ساحل پہ رینجرز تعینات ہے۔ اور گنوں کا رخ سمندر کی طرف ہے۔ تو کیا گنوں کا رخ شہر کی طرف ہونا چاہئیے تھا۔ پھر آپکو اعتراض ہوتا کہ شہریوں کو ہراساں کر رہے ہیں۔ میں نے کہا تو انہوں نے چبانے والی نظروں سے دیکھا اور کہنے لگیں تو کیا طوفان ان سے ہراساں ہو رہا تھا۔ انکی برستی ہوئ نظروں کی تاب نہ لاکر ہم فوراً صراط مستقیم پہ رواں ہوئے اور فرماںبرداری سے کہا کہ وہ دراصل لوگوں کو سمندر میں جانے سے روکنے لئے ہوگا۔ اس وقت بھی ساحل پہ دفعہ ایک سو چوالیس لگی ہوئ ہے۔ اور صرف دو افراد ایکدوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالکر چل سکتے ہیں اس سے زیادہ کی ممانعت ہے۔

آپ میں سے کچھ کے بے حد پسندیدہ 'بھائ صاحب' نے بھی شہر میں جنگی بنیادوں پہ طوفان سے نبٹنے کی تیاری پہ زور دیا ہے۔ انکا تذکرہ میں نے بہ احتیاط کر دیا ہے کہ میری پوسٹ پہ انکے نام کے مصالحے کا تڑکا کوئ اور نہ لگا پائے۔ ویسے بھی چونکہ انکا تعلق ہمارے شہر اور ہماری 'برادری' سے ہے تو مناسب یہی ہے کہ ہم انکا تذکرہ کریں۔ کوئ اور کرے تو رقابت کی بو آتی ہے۔
میں بھی گھر میں سبزیوں کا ذخیرہ جماکر کے فارغ ہوئ ہوں۔ ابھی جا کر آٹا چاول لانے کے بارے میں بھی سوچ رہی تھی کہ  معلوم نہیں طوفان کے آنے کے بعد کیا ہوگا۔
تین سال پہلے کراچی میں آنے والا طوفان دو سو کلومیٹر کے فاصلے سے گذر گیا۔ شہر میں تین دن تک بجلی غائب ہو گئ، سڑکیں اڑ گئیں اور پگڈنڈیاں باقی رہ گئیں، اگلے دن شہر میں ہو کا عالم تھا۔  لگتا تھا کہ کوہ قاف کا کوئ دیو ابھی سارے آدم زادوں کو کسی بوتل میں بند کر کے لے گیا ہو۔ 
 آج صبح محکمہ ء موسمیات والوں نے اطلاع دی کہ طوفان کا زور عمّان کے ساحل سے ٹکرانے کے بعد خاصہ ٹوٹ گیا ہے۔ اس محکمے کی یاد بھی ایسے ہی موسم میں آتی ہے۔ رویت ہلال کے سربراہ اعلی کا پتہ رمضان کے مہینے میں چلتا ہے، نیب کے عالی مقام کا پتہ نئ حکومت کے آنے کے بعد، دیگر اور بہت سے محکموں کا انکے چیئرمین کے گرفتاری کے چھاپوں  یا استعفی کے بعد پتہ چلتا ہے۔ محکمہ ء موسمیات والوں کے بھاگ بارش کے موسم میں کھلتے ہیں۔ اطلاع ہو کہ انکے ڈائیریکٹر جنرل کا نام ڈاکٹر قمرالزماں چوہدری ہے۔
ہاں تو جب یہ اطلاع پہنچی کہ طوفان کا زور کم ہو گیا ہے تو لوگوں کو خاصی مایوسی ہوئ۔ اسی وقت ایک فون آِیا۔ انہیں معلوم کرنا تھا کہ طوفان کی آمد کے لئے ہم نے کچھ تیاری کر لی کے نہیں۔ ہم نے انہیں مطلع کیا کہ کراچی میں طوفان ہمیشہ آنے کی اطلاع دیتا ہے۔ اور پھر نجانے کیوں چپ چپاتے پتلی گلی سے نکل لیتا ہے۔ اب ایسے توانائ سے خالی کسی اور کے ساحل پہ الہڑ پن دکھا کر فارغ ہونے والے پھسپھسے طوفان کا کیا استقبال کریں ۔ اس لئے ہم تو چلے ذخیرہ کی ہوئ سبزیوں میں سے آلو پالک پکانے۔
توقع تھی کہ ساحل پہ براجمان لوگ بھی اپنے خیمے اکھاڑ کر گھرواپسی کا رستہ لیں گے۔ اور ساحل کے نزدیک کلفٹن کے مزار میں رہائیش پذیر عبداللہ شاہ غازی کے اور معتقد ہو جائیں گے کہ انکی وجہ سے کراچی میں طوفان آنے کی ہمت نہیں کر پاتا۔ لیکن نہیں جناب، قمرالزماں صاحب نے نئ اطلاع بھجوادی کہ طوفان اب بھی خطرناک حد میں ہے اور طوفانی بارشوں کا سلسلہ کراچی میں ہفتے سے شروع ہونے کی توقع ہے۔
طوفان نہ ہوا باغیوں کا کوئ گروہ ہو گیا، ادھر کچلا اور دوبارہ تیار۔ یہاں میں جان بوجھ کر طالبان کا نام نہیں استعمال کرنا چاہ رہی کہ میری یہ پوسٹ سیاسی اثرات سے بالا، غیر جانبدار اور آفاقی مزاج کی حامل رہے۔
لوگوں کو اس جذبے سے طوفان کے لئے سرشار دیکھ کر، بس یونہی دل میں ایک شیطانی خیال آیا کہ اگر کبھی کراچی میں سچ مچ کا سمندری طوفان آگیا تو کراچی کا جو ہوگا سو ہوگا،  عبداللہ شاہ غازی کے معتقدین کیا کریں گے۔ اب میں اس خیال کو شیطانی خیال کے علاوہ کیا کہہ سکتی ہوں۔ خدا مجھے معاف کرے۔

Wednesday, June 2, 2010

مرمت یا مذمت

میں اپنے ایک ساتھی کے بلاگ پہ تبصرہ کرتے کرتے رک گئ۔ امید ہے کہ برا نہیں مانیں گی، تبصرے کا نہیں، یہاں لکھنے کا۔ لکھنے جا رہی تھی کہ پاکستان کا نام تبدیل کر کے مرمتستان رکھ لیتے ہیں۔
جس کسی کی مرمت لگانی ہو  یا لگوانی ہو ہم حاضر ہیں۔ سروس میں اعلی، خدمت میں آگے۔ ایسی مرمت لگائیں گے کہ اسے اور ہمیں دونوں کو اپنی پیدائش کا وقت یاد آجائے گا۔ نتیجہ چاہے کچھ بھی نکلے ہم مرمت لگا کر رہیں گے۔ ہم سے ایک دفعہ مرمت لگوانے کا معاہدہ کر کے دیکھئیے۔ پھر آپ اپنے معاہدے سے پھر بھی جائیں لیکن ہم مرمت لگاتے رہیں گے۔ ہماری اعلی سروس کی مثال کے لئے، ہم نے اپنے ہی ملک میں مرمت لگانے کے شو روم کھول رکھے ہیں۔ یہاں آنے کی ضرورت نہیں، اپنے اخبار کھولیں اور ہماری اعلی کار کردگی ملاحظہ فرمائیے۔ مرمت لگانے کے معاملے میں ہم اتنے جذباتی ہیں کہ وہ سارے الفاظ جو م کی پیش والی آواز سے شروع ہوتے ہیں جب تک انکی اچھی طرح چھان پھٹک نہیں کر لیتے انہیں قابل مرمت ہی سمجھتے ہیں جیسے محبت ، مروت  وغیرہ وغیرہ۔
نہیں ، پھر خیال آیا کہ ایسا تو نہیں ہے ابھی بھی پاکستان میں ایک قابل ذکر تعداد ان لوگوں کی ہے جو عدم مرمت کے قائل ہیں۔ اور وہ مرمت نہیں بلکہ مذمت پہ اکتفا کرتے ہیں۔ اس لئے پاکستان کا نام مذمتستان ہونا چاہئیے۔
یہ بھی ہمارے ملک کی خوبصورتی ہے کہ ہر تھوڑے دن پہ کسی کی ایسی مرمت ہوتی ہے کہ پھر مذمت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یوں صورت حال ایسی بنتی ہے کہ
پھر ایک مذمت کا سامنا تھا مجھے
میں ایک مذمت کے پار اترا تو میں نے دیکھا
اس میں مذمت کو مرمت سے تبدیل کر لیں اور دوہرا مزہ لیجئے۔ یاد رکھئیے کہ بہرحال اثر میں مرمت ، مذمت سے کہیں برتر ہے۔ یہ لگنے والے پہ جو بھی اثر چھوڑے لگانے والے کا مورال کافی بلند ہو جاتا ہے۔ اور بہت دنوں تک رہتا ہے۔ اگر کوئ مذمتی سلسلہ شروع نہ ہو جائے تو پھر مرمت لگانے والے کی تسلی نہیں ہوتی یوں مرمت کا ایک اور چکر چلنے کا اندیشہ رہتا ہے تو مرمت کی تیزی کو مذمت کے دف سے مارا جاتا ہے یوں مرمت کے بعد مذمت سے ، مرمت لگانے والا ٹن ہو کر کچھ دنوں تک انٹاغفیل رہتا ہے۔
لیکن یہاں کہانی میں ایک ٹوئسٹ آتا ہے۔ اور وہ یہ کہ جب مرمت لگانے والے کی ، مرمت لگتی ہے تو کیا ہوتا ہے؟  پھر ہم فوراً ہی کرکٹ کے میدان میں اپنا بلا چھوڑ کر بھاگتے ہیں اور واشنگٹن جا کر حاضری دیتے ہیں۔ ڈیئر سر، ہمارے سپہ سالار کا دماغ خراب تھا۔ اس نے ہمارے علم میں لائے بغیر ہمارے دشمنوں کی مرمت کرنی چاہی۔ ڈیئر سر اسکی مذمت کرتے ہیں۔ وہ بھی چاہتے ہیں کہ سپہ سالار کی ایسی مرمت لگائیں کہ یاد رکھے۔ مگر قسمت کی ستم ظریفی دیکھیں، ڈیئر سر اس بد تمیز سپہ سالار کو کچھ عرصے بعد ملک کا صدر بنا دیتے ہیں اور بلّا چھوڑ کر حاضری دینے والے حیران پریشان اسکی مذمت کرتے ہیں۔ اب انکی مرمت کی باری شروع ہوتی ہے۔
خیر رات کو جب تابکاری والی تحریر کو توڑ کر تین ٹکڑے کر کے پوسٹ کیا، ایک بوجھ اتارا تو سوچا کہ اب اپنی سونے کی باری آئ۔  ٹی وی لاءونج سے گذرتے ہوئے، میری نظر ٹی وی پہ پڑی۔ ایک جملہ لکھا تھا۔ کیا اسلام میں لونڈی کی اجازت ہے؟ اور لقمان صاحب چند مولانا صاحبان سے گفتگو فرما رہے تھے۔  میں نے سوچا موضوع اچھا ہے مجھے بھی سننا چاہئیے۔ میری ایک مبصر نے اس بارے میں سوال بھی کیا تھا۔ میں خاموش ہو گئ تھی کہ کیسے اسکا جواب دیا جائے۔ تو اس کیسے کا جواب ملے گا۔ یہ الگ بات کہ پروگرام تقریباً اپنے خاتمے پہ تھا۔ چونکہ چار معزز صاحبان گفتگو فرما رہے تھے۔ تو اب میں ان میں سے ہر ایک کی تفصیلات نہیں لکھ سکتی۔
ایک مولانا صاحب نے اس وقت کا نقشہ کھینچا کہ کس ضرورت کے تحت جنگ میں گرفتار خواتین کو لونڈی بنایا جاتا تھا اورچونکہ ان مردوں کی پہلے سے چار بیویاں موجود ہوتی تھیں اس لئے ان گرفتار خواتین کو لونڈی بنا کر مرد ان سے بغیر نکاح کے تعلقات رکھتے تھے۔ قرآن اور سنت کے تحت یہ بالکل صحیح ہے۔ بقیہ دو نے بھی انکی تائید کی۔ ان میں سے تو ایک صاحب بہت جوش سے گردن ہلا رہے تھے۔ لقمان صاحب نے ان سے دریافت کیا تو پھر اگر پاکستان کشمیر کی آزادی کے سلسلے میں مقبوضہ کشمیر پہ حملہ کرے اور اسے فتح ہو تو کیا حاصل ہونے والی خواتین کو لونڈی بنانا درست ہوگا۔ مولانا صاحب تھوڑا سا رکے اور کہنے لگے کہ جن ممالک سے ہمارے سفارتی تعلقات ہیں ان سے اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق بات چیت ہو گی اور اقوم متحدہ اس چیز کی اجازت نہیں دیتی کہ گرفتار خواتین کو لونڈی بنایا جائے۔
اس پہ لقمان صاحب نے کہا کہ اچھا چلیں اسرائیل سے ہمارے سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ اس پہ حملہ کریں اور ہمیں فتح حاصل ہو تو ایسا کرنا درست ہوگا۔ جواب ملا کہ اس صورت میں یہ درست ہوگا۔
تو اے مرد مومن، اب اسرائیل  کی مرمت کرنے میں دیر کس بات کی ہے۔ امریکہ کی ناجائز اولاد کو ایسی ہی سزا دینی چاہئیے جس سے انکی غیرت کا جنازہ نکل جائے۔ لیکن سنا ہے کہ وہ غیرت کے معاملے میں ایسے ہی ہیں جیسا کہ کسی کی نزاکت کے بارے میں سن کر ایک صاحب نے حیرانی سے کہا کہ
سنا ہے کہ انکی کمر ہی نہیں
تو وہ ازار بند کہاں باندھتے ہیں
یعنی سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر بے شمار قتل و غارت گری جو ہمارے یہاں غیرت کے نام پہ کی جاتی ہے وہ اسکے لئے کیا بہانہ کرتے ہونگے۔  یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔
 انکے یہاں غیرت کی عدم موجودگی کے شک کی بناء پہ ایک نامعلوم راوی کہتا ہے کہ فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد انکی خواتین نے بلا فرق جائز اور ناجائز بچے پیدا کئے کہ انکی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوکیونکہ ہولوکاسٹ کے بعد انکی آبادی بہت کم ہو گئ تھی۔ سو معلوم نہیں کہ اس صورت میں وہ خواتین  اور وہ خود کیا کریں گے۔
کیونکہ  اس اسرائیلی مملکت کی نظریاتی بنیاد ہی 'مرمت کرو اور مذمت کرواءو'  کے نعرے پہ رکھی گئ تھی تو پیدا ہونے والے ہر بچے کو ریاست نے ایک کارآمد شہری بنانے کے لئے مکمل منصوبہ بندی کی۔ اور اس طرح سے وہ بڑے ہو کراتنے اچھے طریقے سے مرمت لگانے کے قابل ہو گئے کہ چنگیز خان بھی انکے سامنے پانی بھرے۔ کون سا پانی، یہ بتانے میں حد ادب مانع ہے۔ 
 وہیں پہ ایک مبصر کا خیال ہے کہ اگر اسرائیل کی مرمت لگانے کے نتیجے میں جوابی مرمت ہو گئ تو کیا ہوگا۔ ایسا تبصرہ کرنے والے افراد ہی مرمت لگانے کا حوصلہ رکھنے والوں کی ہمت شکنی کرتے ہیں۔ ہم انکی مذمت کرتے ہیں۔ایک مرمت لگانے والا ہی دوسرے مرمت لگانے والے کی نفسیات سمجھ سکتا ہے۔
دعا کرتے ہیں کہ ہمارے یہاں دن رات مرمت کی دھما چوکڑی مچانے والے اسرائیل کے صحن میں کود جائیں تاکہ ہم بھی کسی دن مرمت اور مذمت کے چکر سے باہر نکل کر آرام سے سوچیں کہ آج کیا پکے گا۔