Friday, June 11, 2010

پیریاڈک ٹیبل یا دوری جدول کی تاریخ-۱

کسی بھی کیمسٹری کی لیبارٹری میں داخل ہو جائیں وہاں آپکو ایک چیز ضرور نظر آئے گی اور وہ ہے پیریاڈک ٹیبل یا دوری جدول۔ میں اسکے لئے پیریاڈک ٹیبل کی اصطلاح ہی استعمال کرنا چاہونگی۔  سائینسی اصطلاحات ساری دنیا میں ایک جیسی رہیں تو مزید معلومات کا حصول آسان رہتا ہے۔
بظاہر تو پیریاڈک ٹیبل ایک حاضری کے رجسٹر کی طرح لگتا ہے۔ جہاں تمام عناصر کے حاضر ہونے یا موجود ہونے کی اطلاع ہو۔ لیکن ایسا نہیں ہے یہ ٹیبل اس سے کہیں زیادہ معلومات رکھتا ہے اور اسکی وجہ اس میں عناصر کو ترتیب دیتے وقت انکی خصوصیات کے اتار چڑھاءو کو مد نظر رکھنا ہے۔
انسان نے زندگی کے ہر شعبے میں ارتقائ طریقے سے چیزیں سیکھیں اور انہیں آگے بڑھایا ۔ یہی ، سب کچھ پیریاڈک ٹیبل کو ترتیب دینے کے دوران ہوا۔
لوائزے وہ پہلا شخص ہے جس نے ایسی اشیاء کی لسٹ دی جنہیں مزید نہیں توڑا جا سکتا تھا۔ اس نے انہیں عناصر کہا۔ اس لسٹ میں نائٹروجن، ہائیڈروجن، فاسفورس، مرکری یعنی پارہ، زنک یعنی جست اور سلفر یعنی گندھک کے علاوہ روشنی اور حرارت بھی شامل ہیں۔ جنہیں اس نے مادہ اشیاء سمجھا۔ اس لسٹ میں عناصر کو صرف دھات یا غیر دھات کے طور پہ لیا گیا اس لئے  یہ ایک مکمل تجزیہ نہیں تھا۔ اس وقت کے دیگر کیمیاء دانوں نے اس میں دلچسپی نہیں لی۔
ڈابیرینر نے نے ایک ابتدائ کوشش کی کہ عناصر کی جماعت بندی کر دی جائے۔ اپنی اس کوشش میں اس نے معلوم کیا کہ بعض بنیادی خواص بعض عناصر دوہراتے ہیں۔ اس طرح سے ایک جیسے خواص دوہرانے والے عناصر کے اس نے گروہ بنادئیے۔ ہر گروہ میں تین ارکان تھے۔ ہر گروہ کو اس نے ٹرائیڈاز کا نام دیا۔
ہر ٹرائیڈز کے درمیانی رکن کا ایٹمی وزن باقی دو کے اوزان کا اوسط تھا۔
اسکے کچھ گروہوں کی مثال ذیل میں ہے۔
۱
کلورین، برومین، آئیوڈین
۲
کیلشیئم، اسٹرونشیئم، بیریئم
۳
سلفر، سیلینیئم، ٹیلیریئم
۴
 لیتھیئم، سوڈیئم، پوٹاشیئم


سن اٹھارہ سوانہترتک تریسٹھ عناصر دریافت ہو چکے تھے۔ عناصر کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ہی ان میں دوہرائے جانے والے رجحانات بھی زیادہ واضح ہوو کر سامنے آئے اور اس طرح سائینسدانوں نے انکی درجہ بندی پہ غور کرنا شروع کیا۔
الیکزینڈر ایمائیل وہ پہلا شخص تھا جس نے اس چیز پہ توجہ کی کہ مختلف عناصر اپنی خصوصیات کو دوہراتے ہیں۔ اور اگر انہیں انکے ایٹمی وزن کے حساب سے ترتیب دیا جائے تو ایک خاص وقفے کے بعد ایسا عنصر آتا ہے جو اس خاص وقفے سے پہلے والے عنصر جیسے خواص رکھتا ہے۔ اس نے پیریاڈک ٹیبل کی ایک ابتدائ شکل بنائ۔ جو پیچ دار تھی۔ اس طرح ترتیب دیتے ہوئے ایک جیس خصوصیات رکھنے والے عناصر ایک عمودی قطار میں آگئے۔ اسکے اس چارٹ میں عناصر کے علاوہ آئینز اور دیگر مرکبات بھی تھے۔ اسکا پیپر اٹھارہ سو باسٹھ میں شائع ہوا۔ چونکہ اس میں کوئ تصویر بھی نہ تھی تو اسے اتنی پذیرائ بھی نہ مل سکی۔
اٹھارہ سو پینسٹھ میں جان نیو لینڈز نے چھپن عناصر کو جو کہ دریافت ہو چکے تھے گیارہ گروپس میں بانٹ دیا۔ اس نے دیکھا کہ اگر عناصر کو ایک فہرست میں لکھ لیا جائے انکے ایٹمی اوزان کے مطابق تو ہر آٹھواں یا آٹھ کا ضربی نمبر یا ملٹی پل عنصر سب سے پہلے والے عنصر جیسے خواص رکھتا ہے۔









اسکی وضاحت کے لئے ہم  دوسری والی تصویر میں ایل آئ یعنی  لیتھیئم سے گننا شروع کریں

تو اسکے بعد بی ای یعنی بریلیئم، بی یعنی بورون، سی یعنی کاربن، این یعنی نائٹروجن، او یعنی

آکسیجن، ایف یعنی فلورین  کے بعد  آٹھویں عنصر این اے یعنی سوڈیئم پہ پہنچیں تو یہ لیتھیئم کے بعد ٹھیک آٹھواں عنصر ہے اور اسکے کیمیائ خواص لیتھیئم جیسے ہونگے۔ اس طرح پہلے ٹیبل میں  این اے یعنی سوڈیئم سے گننا شروع کریں تو پھر آٹھویں عنصر پوٹاشیئم پہ پہنچیں گے یعنی لیتھیئم کے حساب سے آٹھ کا دوضربی نمبرسولہواں عنصرتقریباً لیتھیئم جیسے کیمیائ خواص رکھتا ہوگا۔
 
علی ہذالقیاس۔
 
جان کا مذاق اڑایا گیا کہ کیا موسیقی کے سروں سے گن کر آٹھ کا گروہ بنادیا۔ دراصل اس وقت تک ویلینس بانڈ نظریہ بھی سامنے نہ آیا تھا اور نہ آٹھ کا نظریہ یعنی آکٹیٹ رول بھی دریافت نہ ہوا تھا۔

جاری ہے

نوٹ؛ اس تحریر میں دئیے گئے سائنسدانوں کے پورے نام انگریزی ہجوں میں ذیل میں درج ہیں۔ آپکا ہوم ورک یہ ہے کہ انکا صحیح تلفظ معلوم کریں۔
 
لوائزے  
Antoine Lavoisier

ڈابیرینر
Johann Wolfgang Döbereiner

الیکزینڈر ایمائیل
 Alexandre-Emile Béguyer de Chancourtois
 

No comments:

Post a Comment

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ