Tuesday, December 28, 2010

کراچی، کتابوں کا میلہ

کراچی میں ایکسپو سینٹر میں کتابوں کا میلہ جاری ہے۔ وقت  کو کھینچ تان کر اتنا کیا کہ اس میں سے آج وہاں جانے کا وقت نکال ہی لیا۔ ہم دو خواتین چاہتے تھے کہ بچوں کو ایسی جگہوں پہ ضرور جانا چاہئیے۔
ادھر میری بیٹی کو تو باغیوں کا سرغنہ بننے کا شوق ہے اُدھر باقی چار بچے کل ہی سات سمندر پار سے ایک لمبا سفر طے کر کے یہاں پہنچے۔ ابھی سفری تھکن اور جیٹ لیگ سے باہر بھی نہیں نکلے کہ ہم انہیں ساتھ لے گئے۔
یوں میں ایک اسٹال پہ، میری ساتھی خاتون دوسرے اسٹال پہ، میری بیٹی صاحبہ اپنی ہم عمر بچی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے بڑوں کی سرپرستی سے آزاد رہ کر میلہ دیکھنے کی خواہش مند۔ باقی بچے نیم حالت نیند اور تھکن میں۔
اب یہ خاصہ چیلینجنگ کام بن گیا تھا کہ کتابیں بھی دیکھتے جائیں اور بچوں کی حدود بھی متعین کرتے جائیں۔
ایک وقت مشعل نے کہیں سے ایک کتاب لا کر ہاتھ میں تھما دی کہ وہ انہیں لینا ہے کیونکہ اس میں بہت بیوٹی فل اسٹیکرز ہیں اور ایک مر میڈ کی تصویر بھی موجود ہے۔ یہ کتاب ٹیچرز کے لئے تھی، یا بڑے بچوں کے لئے۔ پھر ایک بحث و مباحثے کے بعد ان سے لیکر واپس رکھنے لگے تو سوال پیدا ہوا کہ اسے کہاں رکھا جائے۔ چاروں طرف اسٹالز تھے اور اب انہیں یہ یاد نہیں تھا کہ کہاں سے اٹھائ ہے۔ خیر جناب، اس طرح کے حالات سے گذرنے کے بعد ہم نے سوچا کہ جلدی جلدی ایک نظر ڈال کر نکل چلیں۔
  اس دفعہ ایک بات جو میں نے محسوس کی کہ اردو کتابوں کا خاصہ بڑا ذخیرہ موجود تھا۔ ان میں روائیتی اردو ناول یا فکشن کی کتابیں یا اسلامی کتابیں ہی نہیں تھیں بلکہ بچوں کے لئے اردو میں بڑی کتابیں موجود تھیں کہانیوں سے لے کر عام معلوماتی اور سائینسی کتابیں بھی۔ شاید پچھلے کچھ عرصے میں ان کتابوں کی اشاعت میں اضافہ ہوا ہے۔ یوں انگریزی کتابیں اتنی نہیں تھیں جتنی کہ پہلے نظر آتی تھیں۔ کتابوں پہ رعایت کچھ خاص نہیں اس سے زیادہ تو اردو بازار میں مل جاتی ہے۔
اس بھاگ دوڑ میں، میں نے بھی یونہی کچھ کتابیں لے لیں۔ ان میں ایک کتاب شاہ بلیغ الدین کی روشنی ہے۔ دوسری تہذیبی نرگسیت، حالانکہ میں اسے نیٹ پہ پڑھ چکی ہوں مگر مصنف کو کاپی رائیٹ کا حق دیتے ہوئے خریدی۔ اس سے یقیناً راشد کامران صاحب کو خوشی ہوگی۔
شہرزاد پبلشر پہ تمام ادبی کتابوں پہ  پچاس فی صد رعایت تھی۔ وہاں سے خالد جاوید کا ایک ناول  'تفریح کی ایک دوپہر' لیا نجانے کیوں مجھے اسکا عنوان دلچسپ لگا۔ ایک مجموعہ کشمیری کہانیوں کا لیا جو حمرہ خلیق نے بیان کی ہیں۔ لیکن وہاں مجھے ایک کتاب اور ملی، جو اپنے عنوان سے بہت دلچسپ لگی اسکا نام ہے نوجوان ناول نگار کے نام خط۔
مشعل کے لئے میں نے پچھلے مہینے کافی ساری کتابیں لیں بلکہ اس دفعہ انکی سالگرہ پہ انکے کلاس فیلوز کو تحفے میں ایک ایک کتاب دی۔ لیکن  فیروز سنز پہ بچوں کی کہانیوں کا  خزانہ موجود تھا۔  ہر کتاب تیس روپے کی اور ان پہ کچھ رعایت بھی۔  سو، کچھ کتابیں انکے لئے پھر لیں لیکن اس بار،  یہ سب اردو میں تھیں۔
گھر آکر سب سے پہلے کتاب 'نوجوان ناول نگار کے نام خط' نکال کر سرسری سی دیکھی۔
 یہ ایک کتاب کا ترجمہ ہے۔ جس میں ناول نگاری کے اجزائے ترکیبی بیان کئے گئے ہیں۔ ابتدائیے میں مترجم لکھتے ہیں کہ
یہ اجزائے ترکیبی یا رموز، علی الترتیب یہ ہیں، اسلوب، راوی اور بیانیہ مکان، زمان یا وقت، حقیقت کی سطحیں، انتقالات اور کیفی زقندیں، چینی ڈبے یا روسی گڑیاں، پوشیدہ حقیقت اور کم یونی کیٹنگ وے سلز۔ 
آخر میں وہ نوجوان کو نصیحت کرتا ہے کہ
میرے  عزیز دوست، میں جو کہنے کی کوشش کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ تم نے ہر وہ چیز جو میرے خطوں میں ناول کی وضع کے بارے میں پڑھی ہے اسے بھول جاءو، بس کمر باندھ کر بیٹھ جاءو اور لکھنا شروع کردو۔

سر سید، تبیین الکلام اور علی گڑھ


سر سید اپنی نو عمری سے یہ دیکھ رہے تھے کہ عیسائ مشنری کے علماء ہندوستان میں پھیلے ہوئے ہیں اور مسلمانوں سے مناظرہ اور مباحثہ کرتے پھرتے ہیں۔ مسلمان علماء بھی ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اسکی وجہ سے ایک جانب تو لوگ ان مشنریز کے زیر اثر آنے سے بچ گئے تھے مگر دوسری جانب یہ فریقین کے درمیان تلخی کا باعث بنتا تھا۔ جبکہ سر سید اپنے فہم پہ سمجھتے تھے کہ ان دونوں فرقوں کے عقائد میں فرق زیادہ نہیں ہے۔ جتنےدونوں طرف کے مولویوں نے بنا رکھے ہیں۔
اس پہ انہیں خیال آیا کہ ایسی کتاب لکھنی چاہئیے جس سے پتہ چلے کہ بائبل اورقرآن دونوں آسمانی کتابیں بہت سے معاملات میں ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان علماء جو کہ تحریف کی وجہ سے بائبل کو سراسر غلط سمجھتے ہیں اور عیسائ علماء جو قرآن کو سرے سے آسمانی کتاب تسلیم کرنے کو تیار نہیں  ان میں اس گمراہی کی اصلاح ہونی چاہئیے۔
اسے لکھنے کے لئے سرسید نے تفصیلی طور پہ بائبل کا مطالعہ کیا، عبرانی زبان سے واقفیت پیدا کی۔ تاکہ اسے اصل زبان میں پڑھ کر معلوم کریں کہ عیسائیوں نے کہاں کہاں تحریف کی ہے۔
عیسائ تین خداءووں کے قائل ہیں جبکہ بائبل میں تثلیث کا تذکرہ نہیں ملتا۔ اسی طرح مسلمان نسخ آیت قرآنی کے قائل ہیں لیکن سر سید نےنے اپنی کتاب تبین الکلام اور خطبات احمدیہ میں ثابت کیا کہ قرآن حکیم کی کوئ آیت منسوخ نہیں ہوئ۔
بہر حال عیسائیت اور اسلام کے تعلق پہ انہوں نے کتاب تبیین الکلام لکھی۔ اس بارے میں مسلمانوں اورعیسائیوں دونوں میں شبہات اٹھے۔ سر آرنلڈ کے خط کے جواب میں سر سید لکھتے ہیں کہ

بایں ہمہ مجھ کو یقین ہے کہ میری زندگی میں عام مسلمانوں کی گالیوں اور نفرت سے مجھے نجات نہ ملے گی۔ عیسائ بھی میری تفسیر سے خوش نہیں ہو سکتے کہ جس طرح میں انجیل کی تعلیم کو صحیح اور درست سمجھتا ہوں اسی طرح تثلیث کے مسئلے کا قائل نہیں اس لئے کہ میں انجیل میں کہیں اسکی تائید یا وجود نہیں پاتا ہوں۔
مجھ کو یقین ہے کہ  مذہب اسلام صحیح ہے اور اسکی صحت اور وجود دونوں انجیل سے ثابت ہیں۔ اس لئے مجھے کچھ پرواہ نہیں کہ کسی گروہ کے لوگوں کو خواہ وہ مسلمان ہوں یا عیسائ خوش کروں۔ میں حق پہ ہوں اور اس خدا کو خوش کرنا چاہتا ہوں جس کے روبرو سب کو ایک دن جانا ہے۔ البتہ یہ میری خواہش رہی ہے کہ مسلمان اور عیسائیوں میں محبت پیدا ہو کیونکہ قرآن مجید کے موافق اگر کوئ فرقہ ہمارا دوست ہو سکتا ہے تو وہ عیسائ ہیں۔

وقت کے دھارے سے گذرتے ہوئے سر سید احمد خان کو یہ احساس ہوا کہ جب تک ہندوستان میں علم کی روشنی نہیں پھیلتی انکے ترقی کرنے کی امید نہیں کی جا سکتی۔ ادھر علوم جدیدہ، کے خزانے انگریزی میں دستیاب تھے۔ مسلمان انگریز سے نفرت کرتے تھے اور انگریزی سیکھنے کی طرف مائل نہ تھے۔ جبکہ ہندو بھی صرف اسی قدر انگریزی سیکھنے میں دلچسپی رکھتے تھے جو ملازمت کے حصول کو آسان بنادے۔
ان علوم کی طرف توجہ دلانے کی غرض سے سر سید نے یہ تجویز پیش کی کہ ایک سائینٹیفک سوسائیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے۔ جس کا اہم کام، اہم علمی و سائینسی کتابوں کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرا کے انکی اشاعت ہو۔
اس طرح سے ۱۸۶۳ میں غازی پور، جہاں سر سید بغرض ملازمت موجود تھے، میں یہ سوسائٹی وجود میں آئ۔ اس وقت کے وزیر ہند کو اسکا پیٹرن بنایا گیا، پنجاب اور یوپی کے گورنر اسکے وائس پیٹرن بنے۔ ملک بھر سے رئیس اور علم دوست لوگوں کو اسکا ممبر بنایا گیا۔
سر سید اگرچہ اس سوسائیٹی کے روح رواں تھے مگر انہوں نے خود کو اسکا سیکریٹری کہلوانا پسند کیا۔ 
اس سلسلے میں انہوں نے مختلف شہروں کا دورہ کیا تاکہ اسے متعارف کرایا جا سکے۔
 انہی بنیادوں پہ انہوں نے غازی پور میں ایک مدرسہ بھی قائم کیا۔اسکی تعمیر کے لئے چندہ اکٹھا کیا گیا اور اسّی ہزارروپے کی لاگت سے ایک شاندار عمارت تعمیر کی گئ۔ اس مدرسے کا موجودہ نام وکٹوریہ ہائ اسکول ہے۔ ۱۸۶۴ میں سر سید کا تبادلہ غازی پور سے علی گڑھ ہو گیا۔
علی گڑھ جاتے ہوئے وہ سائینٹیفک سوسائیٹی کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ اور علیگڑھ میں علاقے کے رئیسوں سے چندہ اکٹھا کر کے  اسکے لئےایک عالی شان عمارت تعمیر کروائ۔
اس انسٹیٹیوٹ میں ہر ماہ علمی اجلاس اور مذاکرے ہوتے۔ مختلف موضوعات پہ لیکچر کا اہتمام کیا جاتا۔ سائینسی آلات کی مدد سے مختلف سائینسی علوم کی وضاحت اور تشریح کی جاتی۔ بہت سی کتابوں کے تراجم ہوئے۔ مفید اور علمی کتابوں کی ایک لائبریری قائم کی گئ۔
حالی لکھتے ہیں کہ رئیسہ ء بھوپال نواب سکندر بیگم نے سر سید کی خدمات کے اعتراف میں ایک قیمتی انگوٹھی بطور تحفہ بھجوائ جسے سرسید نے ایک ہزارروپے میں بیچ کر ساری رقم انسٹیٹیوٹ کے فنڈ میں جمع کروادی۔ سر سید نے تبیین الکلام کی طباعت کے لئےآٹھ ہزار روپے اس زمانے کے لحاظ سے  کثیر رقم خرچ کر کے اپنا پریس خریدا تھا۔ وہ بھی اس انسٹیٹیوٹ کے حوالے کیا اور یوں سوسائیٹی کی کتابیں، اخبار، رسالے اور اطلاع نامے اسی پریس سے چھپنے لگے۔
اس ادارے کے دارالمطالعہ میں لندن اور ہندوستان کے اطراف و جوانب کے اٹھارہ انگریزی اور چھبیس اردو اخبارات و رسائل آیا کرتے تھے جو اس وقت کے لحاظ سے ایک خاصی بڑی تعداد تھی۔ یوں اسکی روشنی ملک کے طول و عرض میں اہل بصیرت تک پہنچنے لگی۔

جاری ہے 

Saturday, December 25, 2010

جناح اور تحریک پاکستان، یادوں کا مزار

قائد اعظم جوانی میں


قائد اعظم اور مسلم لیگی رہ نما




قائد اعظم اپنے دوستوں کے ساتھ



قائد اعظم کی پہلی بیوی، ایمی بائ جو انکی والدہ کی پسند تھیں اور شادی کے کچھ عرصے بعد انتقال کر گئیں جبکہ وہ لندن میں اپنی وکالت کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔


قائد اعظم کی دوسری بیوی رتی بائ، جن سے انہوں نے پسند کی شادی کی۔ ان سے انکی اکلوتی اولاد دینا جناح تھیں۔

قائد اعظم اپنی بہن فاطمہ جناح کے ساتھ

قائد اعظم اور فاطمہ جناح اپنے دوستوں کے ساتھ

قائد اعظم اپنی اکلوتی بیٹی دینا کے ساتھ
قائد اعظم اپنی بیٹی اور بہن کے ساتھ



 قائد اعظم اپنے خاندان کے لوگوں کے ساتھ

قائد اعظم حیدرآباد دکن کی خواتین کے ساتھ







Wednesday, December 22, 2010

اختیار

میں گھر سے نکلی اور ابھی گاڑی تک پہنچ ہی رہی تھی کہ  پڑوسیوں کی بہو صاحبہ مل گئیں۔ سلام دعا کے بعد انہوں نے شکوہ کیا کہ اب تو ہم سے ملنا ہی نہیں ہو پاتا، پھراصرار کہ ذرادیر کو ان کے ساتھ بھی بیٹھ جائیں۔ میں نے سوچا  مشعل تو اپنے بابا کے ساتھ ہے۔ موقع اچھا ہے۔ چلیں کچھ وقت انکے ساتھ بھی گذار لیا جائے۔
باتوں باتوں میں میں نے پوچھا آپ کی شادی کو تو چار سال ہو رہے ہونگے۔ بچوں کا پلان نہیں ہے ابھی۔ کہنے لگیں نہیں ہماری طرف سے تو ایسا  کچھ نہیں ہے۔ ایک دفعہ آثار بنے مگر تیسرے مہینے ہی ختم ہو گیا۔ اب ڈاکٹر کہتے ہیں کہ میری ایک ٹیوب بند ہے اور ایک کھلی۔ ادھر میرے شوہر کے ساتھ جرثوموں کا بھی کچھ مسئلہ ہے۔ میں نے انہیں تسلی دی۔ ایک ٹیوب کھلی ہے تو بھی بڑی بات ہے۔ ایک ہی راستہ چاہئیے ہوتا ہے اور ایک ہی اسپرم۔
 پھر ان سے پوچھا کہ وہ اس سلسلے میں کیا کچھ کروا چکی ہیں تاکہ اندازہ تو ہو انکا اپنے بارے میں علم کتنا ہے۔
اس بارے میں بتاتے وہ دفعتًا کہنے لگیں کہ آپ تو ادھر ادھر آتی جاتی ہیں۔ کسی اچھی گائینا کولوجسٹ کا پتہ ہے تو مجھے بتائیں۔ میں نے انہیں ایک گائیاکولوجسٹ کا پتہ دیا کہ ان سے ضرور ملیں۔ اور پھر کہا کہ اور اگر ایسے بھی کچھ نہ ہو تو ٹیسٹ ٹیوب بے بی کر والیں۔ کراچی میں اب بآسانی ہوتا ہے۔ اور یہ جن گائیناکولوجسٹ کا پتہ میں نے آپکو دیا ہے یہ بھی کرتی ہیں اور دیگر جگہوں کے مقابلے میں انکے پاس خرچہ کم آتا ہے۔ ویسے تو زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے لیکن  یاد رکھیں ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے لئے بھی خواتین کی عمر خاصی اہمیت رکھتی ہے۔
جواب ملا آپکی سب باتیں اپنی جگہ صحیح مگر میرے شوہر ٹیسٹ ٹیوب بے بی کو غیر اسلامی کہتے ہیں۔ اچھا، میں نے ان سے کہا پاکستان میں جس طرح کیا جاتا ہے یہ سارا عمل اس میں اسے غیر اسلامی نہیںکہا جا سکتا۔ خیر، یہ انکا ذاتی فیصلہ ہے۔ ہر ایک کا اپنا فقہ۔ آپ کوئ بچہ کیوں نہیں گود لے لیتیں۔ ایک دفعہ پھر سرد آہ۔ وہ کہتے ہیں کہ سگے بہن بھائیوں کے علاوہ کسی کا بچہ گود نہیں لیا جا سکتا۔ وہ بڑا ہو کر نامحرم ہو جائے گا۔  انکے تو ایک ہی بھائ ہیں انکی بھی ایک ہی بچی ہوئ اسکے بعد کوئ اولاد نہیں۔ ادھر میرے بہن بھائیوں میں بھی کوئ اب بچے پیدا کرنے کے حالات میں نہیں۔ یہ تو نہیں ہو سکتا۔
میں نے ان پہ ترس کھایا۔ ہمدردی کے الفاظ بولے اور نکل آئ۔ انسان صرف ایک دفعہ زندگی جیسی نعمت پاتا ہے اور اس میں بھی وہ  سب لوگوں کی اطاعت میں وہ بھی نہیں کر پاتا۔ جس سے کوئ اخلاقی قدر ختم نہیں ہوتی۔ معاشرہ غیر مستحکم نہیں ہوتا۔ صرف اسکی زندگی میں خوشی سے جینے کا تحرک پیدا ہوتا ہے۔

والدین بننا، دنیا کی سب سے بڑی خوشی ہے۔  مرد یا عورت کواپنی زندگی میں شادی کو ترجیح دینا چاہئیے۔ اس لئے نہیں کہ آپکو ایک ساتھی ملے گا۔ بلکہ اس لئے بھی کہ یہی وہ پاک طریقہ خدا نے رکھا ہے جس کے ذریعے نسل انسانی آگے بڑھتی ہے۔ 
شادی شدہ جوڑوں میں سے تقریباً پندرہ فیصد افراد کسی بھی وجہ سے بے اولادی کا شکار ہوتے ہیں۔ شادی کے ایک سال بعد تک اگر آپکے یہاں اولاد کے آثار نہیں تو فوراً گائیناکولوجسٹ سے رابطہ کریں۔ بے اولادی کے ٹیسٹ مرد کے لئے بھی کرانا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ عورت کے لئے۔ مرد کا ٹیسٹ بہت سستا اور آسان ہوتا ہے۔ بے اولادی کی وجہ مردوں کے اندر بھی اسی نسبت سے ہوتی ہے جتنی کہ عورتوں میں۔ 
اگر کسی بھی وجہ سے خدا آپکو بچوں جیسی نعمت سے نہیں نوازتا تو دل چھوٹا نہ کریں۔ یہاں لا تعداد بچے ماں کی گرم گود اور باپ کی شفقت کے منتظر ہیں۔ اپنے دل میں نرمی پیدا کیجئیے اور انہیں گود لے لیں۔

بچے، زندگی میں سب سے بڑا تحرک ہیں۔ وہ آپکو، آپکی زندگی کی ان باریکیوں سے آشنا کراتے ہیں جن سے بحیثیت انسان بھی آپ اس وقت تک آشنا نہیں ہو پاتے جب تک انکی معصوم مسکراہٹ اور بے لاگ تجزیہ کی قوت آپکو نہیں ملتی۔ انکے ساتھ رہنا ایک بالکل مختلف دنیا ہے۔  وہ  دنیا میں  امید کا نشان اور خدا کا سب سے انمول تحفہ ہیں۔ وہ بچے بھی جو آپ نے پیدا نہیں کئیے لیکن خدا نے انکی محبت سے آپکے دلوں کو معمور کیا۔ پیدا کرنا آپکے اختیار میں نہیں مگر سنوارنا،سنبھالنا اور محبت کرنا یہ آپکے اختیار میں ہے۔

Monday, December 20, 2010

خدا کے قریب

رمضان کا مہینہ تھا اور تیرہ اگست کا دن کہ مجھے اپنی بیٹی کے اسکول سے نوٹس ملا۔ کل سکول میں چودہ اگست منایا جا رہا ہے اور یہ بات خوشی کا باعث ہوگی کہ آپ اپنے بچے کو قومی لباس میں بھیجیں۔ میری بچی کے پاس یوں تو شلوار قمیض ہیں مگر مجھے خیال آیا کہ اگر ہرے سفید رنگ میں بنا لیا جائے تو موقعے کی مناسبت سے اچھا ہے۔ گھر میں سفید شلوار اور دوپٹے کا کپڑا موجود ہے قمیض کا لینا پڑے گا۔ باقی سلائ مجھے خود آتی ہے  گھنٹے بھر میں سل جائے گا۔  کل وہ تیار ہو کر بڑی اچھی لگے گی۔ میں فوراً گھر کے قریب لگنے والے بچت بازار چلی گئ۔
بازار میں سب سے پہلی دوکان ملی جو افغانی پٹھان کی تھی۔ اسکے پاس مجھے ہرے سفید پرنٹ میں اپنے مطلب کا کپڑا مل گیا پوچھا کیا حساب ہے۔ کہنے لگا ایک سو تیس روپے گز۔ میں نے کہا، ساری مارکیٹ میں یہ کپڑا عام ہے اور سو روپے گز ملتا ہے۔ کہنے لگا کہ لیکن ہے بھی تو ہرے سفید رنگ میں۔ یہ افغانی پٹھان کتنے تیز کاروباری ہوتے ہیں۔ میں نے سوچا اور  اس سے کہا کہ سو روپے گز نہیں دوگے تو نہیں لونگی۔ کسی اور جگہ سے لے لونگی۔ خیر، وہ راضی ہو گیا۔ کہنے لگا کتنا چاہئیے۔ میں نے جواب دیا۔ دو گز ، یہ کہہ کر میں اپنا پرس چھاننے لگی اور وہ خاموشی سے کپڑا ناپ کر کاٹنے لگا۔ اتنے میں ذرا فاصلے پہ بیٹھا اسکا اسسٹنٹ لڑکا جسکی عمر انیس بیس سال ہوگی، کلین شیوڈ، آکر میرے سامنے بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ باجی رمضان کا مہینہ ہے کیا ہمیں نیک اور اچھا نہِں بننا چاہئیے۔
میں نے یہ جملہ سن کر سر اٹھایا۔ میں نے صبح اٹھ کر سحری کی تھی۔ نماز پڑھی، تھوڑا سا سیپارہ پڑھا اپنے روز کے امور انجام دئیے۔ اس دوران کسی مرد کو ترغیب دینے کی کوشش کی نہ خیال آیا، نہ جھوٹ بولا ، نہ غیبت کی نہ چوری اور نہ غبن، نہ کسی پہ بہتان لگایا، نہ تہمت دھری، نہ کسی کی حق تلفی کی، نہ کسی کو نقصان پہنچایا، نہ اپنی نیکیوں کا ڈھنڈھورا پیٹا نہ کسی اور سے اسکی نیکیوں کا حساب پوچھا۔  صرف اس دن ہی نہیں بلکہ بقیہ تمام دنوں میں ، میں نے  ہمیشہ اپنے آپکو ان تمام اخلاقی برائیوں سے دور رکھنے کی کوشش کی۔ 
یہ مجھے بالکل نہیں جانتا، پھر یہ مجھ سے یہ سوال کیوں کر رہا ہے؟
میں نے اسکی آنکھوں میں دیکھا اور سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں سمجھ آگیا کہ وہ مجھے دوپٹہ سر سے اوڑھنے کے بارے میں نصیحت کرنے والے ہیں۔ میں نے اس سے ترنت کہا۔ رمضان کا مہینہ ہے کیا تمہیں نیک اور اچھا نہیں بننا چاہئیے۔ کیا تمہیں یقین ہے کہ تم نیکی اور اچھی کے اس درجے پہ پہنچ گئے ہوں جہاں تم دوسروں سے یہ سوال کرو۔ وہ ایکدم خاموش میری طرف خالی آنکھوں سے دیکھنے لگا۔ 
حالات کی یہ صورت اسکے ذہن میں نہیں تھی۔ اتنی دیر میں اس پہلے دوکاندار نے صورت حال کو بھانپا اور جلدی سے کپڑے کی تھیلی میرے ہاتھ میں دی۔ یہ کہتے ہوئے کہ سب کو نیک اور اچھا بننا چاہئیے۔ سب کو ضرورت ہے۔
راہ چلتی کسی انجان خاتون سے یہ کہنے والے آپ کون ہوتے ہیں؟ آپ کون ہوتے ہیں کہ آپ کسی بھی خاتون کو کھڑے ہو کر اس بات پہ لیکچر دینے بیٹھیں کہ اسے اسلام کے مطابق کیسی زندگی گذارنی چاہئیے۔ جبکہ وہ اپنے کام سے  لگی ہوئ ہو۔ آپ اس سے واقف نہیں، اسکے شب وروز نہیں جانتے۔ 
کیا اس لئے کہ کسی بحر بیکراں کے عالم نے آپکے کانوں میں یہ طلسم پھونکا کہ اب آپ نیکی اور اچھائ کی اس معراج پہ پہنچ گئے ہیں جہاں اب آپکو حق ہے جسے چاہیں اسے دین کی اپنی سمجھ عطا کرتے جائیں۔ یا خدا نے آپکو الہام کیا ہے۔ خاص طور پہ اگر آپ ایک مرد ہیں تو اب آپکو یہ خدائ حق مل گیا ہے کہ ہر عورت کو خدا کے اس حکم سے آگاہ کریں جو اسکے متعلق ہے۔
کل ہی فیس بک پہ میری پوسٹ ایک سودے کا سواد میں جو کہ وکی لیکس کے بارے میں ہے۔ ایک صاحب تبصرہ کرتے ہیں کہ خدا کس قسم کی خواتین کے قریب ہوتا ہے؟
وہ جو گھر میں رہ کر اپنے بچوں کی تربیت میں لگی ہو۔
ایک دفعہ میں پھر حیران ہوئ کہ اسکی یہاں کیوں ضرورت۔ اس پوری پوسٹ کا اس ساری چیز سے کوئ تعلق نہیں۔  ان موصوف نے اسی پہ بس نہیں کی بلکہ ایک اور اسٹیٹس کے تھریڈ پہ اسے ڈالا۔ یعنی اتنا اہم تھا کہ اسے دو جگہ ڈالنا پڑا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ وہ موصوف میرے فیس بک دوستوں میں شامل نہیں ہیں۔  فوری طور پہ انہیں تائیدی رکن بھی مل گئے۔ کیونکہ یہ اسٹیٹس کس کا تھا ایک خاتون کا۔ اورجب انہیں گھر میں بٹھا کر  خالصتاً بچوں کی پرورش میں مصروف ماں  بنا لیں گے تو ہزار نفلوں کا بیٹھے بٹھائے محض چند ِکلکس پہ ثواب مل جائے گا۔  
کیا کہوں، کہ ان موصوف نے اپنے ماں باپ کے پیسوں پہ عیاشی کر کے آرام کی زندگی گذاری ہوگی۔ ورنہ اگر تھر کی گرمی میں کمر سے بچہ باندھ کر روڈ کوٹتی عورتوں کو دیکھتے تو معلوم ہوتا کہ خدا کن عورتوں کے قریب ہوتا ہے۔ ریگستانوں میں میلوں دور سے اپنے گھر والوں کے لئے پینے کا پانی لاتی عورت کو دیکھتے تو معلوم ہوتا کہ خدا کن عورتوں کے قریب ہوتا ہے۔ 
اسی ریگستان میں جب مرد سینکڑوں فٹ گہرا کنواں کھودرہا ہوتا ہے تو عورت اس سے مٹی لے لے کر پھینک رہی ہوتی ہے اور یوں سارا دن اسکے ساتھ لگی ہوتی ہے۔ کراچی کی مضافاتی بستیوں سے گھنٹوں کا فاصلہ طے کر کے گارمنٹ فیکٹریوں میں کام کر کے اپنے بچوں کو پالتی عورت کو دیکھتے تو معلوم ہوتا کہ خدا کن عورتوں کے قریب ہوتا ہے۔
اقبال نے کہا تھا کہ ہند کے شاعر و افسانہ نویس صورت گر، آہ بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار، یہاں اقبال صاحب نے نجانے کیوں ہند کے  ان لوگوں کو تذکرہ نہیں کیا جن پہ جب اسلام کی پاسداری کا شوق چڑھتا ہے تو فورا اپنی منجنیقوں کا رخ عورتوں کی طرف موڑ لیتے ہیں۔ اور تان لا کر توڑیں گے لبرلزم پہ۔ 
لا علم، صرف چند الفاظ سیکھ لیتے یہ تک نہیں جانتے کہ انکی ارد گرد کی دنیا میں ہو کیا رہا ہے۔ کیا  تھر میں روڈ کوٹنے والی عورت یہ سب کچھ لبرلزم کی وجہ سے کرتی ہے۔ نیو کراچی سے تعلق رکھنے والی عورت کسی گارمنٹ فیکٹری میں دھاگے کاٹنے لبرلزم کی وجہ سے جاتی ہے، کیماڑی کی بندرگاہ پہ برف سے ٹھنڈے جھینگوں اور مچھلیوں کو صاف کر کے اپنی انگلیاں گلاتی عورت ہوئی سب کچھ لبرلزم کی وجہ سے کرتی ہے۔ یہ تو بہت محدود مثالیں ہیں اگر حقیقی زندگی کو برتیں تو ان گنت مثالیں اور رخ ہیں جنہیں جاننے والے جانتے ہیں۔
کیوں کی جاتی ہیں یہ لایعنی باتیں ہر وقت اس لئے کہ ایک طبقے کی عورت تو یہ تمام سختیاں سہتی رہے اور پھر بھی اس خوف کا شکار رہے کہ خدا اسکے قریب ہے یا نہیں اوردوسرے طبقے کی عورت کو اس ذریعے سے بالکل ختم کر دیا جائے کہ اگر اسکے علاوہ کچھ بھی کیا تو خدا تمہارے قریب نہیں ہوگا۔
یہ سب پیٹ بھرے  نئے مسلمانوں کے خیالات جدیدہ ہیں جو کسی کو کچھ سوچنے کے قابل نہیں رکھنے نہیں دینا چاہتے۔ وہ اور انکے بحر بیکراں کے عالم ہیں ناں سب کچھ سوچنے اور کہنے کے لئے۔

نوٹ؛ فی الوقت اس پوسٹ پہ تبصرے پبلش نہیں کئیے جائیں گے۔

Friday, December 17, 2010

ایک سودے کا سواد

کارا فلم فیسٹیول والوں کی طرف سے کراچی میں بین الاقوامی فلموں کا میلہ جاری تھا کہ ایک دن ہمیں ایک دوست کی دستاویزی فلم میں شرکت کا دعوت نامہ ملا۔ حالات کچھ ایسے بنے کہ  کچھ مراعات کی وجہ سے ہمیں ایکدن کی فلمیں دیکھنے پہ رعایت بھی مل گئ۔ انکی دستاویزی فلم دیکھ کر فارغ ہوئے اور پھر کچھ اور فلمیں لگاتار دیکھ ڈالیں۔ اب ایک ایسا شخص جو دو ڈھائ گھنٹے کی فلم ٹکڑوں میں یا ٹہل ٹہل کر دیکھتا ہواسکے لئے سارا دن سینما اسکرین کے آگے گذار دینا ایک درد سر ہی بننا تھا۔ شام کو چار بجے جب ایک اور فلم دیکھنے کے لئے بیٹھے تھے تو میں نے دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ لائیٹس بند ہوتے ہی آنکھیں بند کر کے پڑ جاءونگی۔ یہ ایک دستاویزی فلم تھی اور نام بھی ایسا غیرروائیتی سا۔ باءولنگ فار کولمبائین۔  کون دیکھے گا۔ خدا جانے اس  میلے کے منتظمین کن بنیادوں پہ  فلمیں منتخب کرتے ہیں۔  صبح سے اب تک میں وہ بنیاد تلاش کرنے میں ناکام ہو چکی تھی۔
فلم شروع ہوئ اور لائیٹس بند ہونے کے بعد بھی میری آنکھیں بند نہ ہو سکیں۔
 کیا مزے کی فلم ہے۔ میلے کی منتظمین کی تمام خامیاں پس پردہ چلی گئیں۔ اور یوں لگا کہ سارے دن کی قیمت وصول ہو گئ۔ دستاویزی فلم اور اس قدر دلچسپ، کیا ممکن ہے اگر یہ دیکھنا ہو تو یہ فلم ضرور دیکھیں۔  جہاں فلم میکر امریکہ میں مار دھاڑ کے بڑھتے ہوئے جحانات کی چھان پھٹک کرتا ہے وہاں وہ اسے اتنے پر مزاح انداز میں پیش کرتا ہے کہ پردے پہ سے نظر ہٹانا ممکن نہیں۔  یہ جگتیں نہیں، نہ پھبتیاں بلکہ اس ساری چیز کے لئے خاصی ریسرچ کی گئ ہے جو فلم کا مواد دیکھ کر ہی پتہ چلتی ہے۔ جہاں فلم میکر اپنے موضوع کو اپنی گرفت میں رکھتا ہے وہاں وہ اس چیز کا پروپیگینڈہ کرتا بالکل نظر نہیں آتا کہ امریکی عظیم قوم ہیں۔ یہ فلم میکر مائیکل مور سے میرا پہلا تعارف تھا۔
 وہ ایک دستاویزی فلم میکر ہے اور انکے کریڈٹ پہ اسکے علاوہ بھی دیگر فلمیں جن میں وہ امریکن معاشرے کی سرجری کرتے نظر آتے ہیں۔
تو کیا میں مائیکل مور کا تعارف یا اس فلم کا ریویو لکھنے جا رہی ہوں۔ نہیں جناب ، ایسا کچھ نہیں ہے۔ بلکہ ہوا یوں کہ جب میں نے یہ خبر سنی کہ وکی لیکس کے بانی اسانژ نے خود کو  گرفتاری کے لئے پیش کر دیا ہے اس مقدمے کا سامنا کرنے کے لئے جسکے متعلق خیال یہی کیا جاتا ہے کہ انکی لیکس کو لگام دینے کے لئے گھڑا گیا ہے۔ تو ساتھ ہی یہ خبر بھی آگئ کہ اسانژ کی ضمانت ہو گئ ہے۔ اور اس  ضمانت  میں حصہ ڈالنے والے مائیکل مور بھی ہیں۔ بیس ہزار ڈالر ضمانت کی رقم میں ڈالتے ہوئے آخر مائیکل مور نے کیا سوچا؟
 مائیکل مور کہتا ہے کہ
I am publicly offering the assistance of my website, my servers, my domain names and anything else I can do to keep WikiLeaks alive and thriving as it continues its work to expose the crimes that were concocted in secret and carried out in our name and with our tax dollars. 
یعنی میں اپنی ویب سائیٹ، اپنے سرور، اپنے ڈومین اور ہر وہ چیز جو وکی لیکس کو زندہ اور متحرک رکھے اسکی پیش کش کرتا ہوں جب تک کہ یہ، ان جرائم کو سامنے لانے کا کام کرتی رہے گی جو کہ ہمارے نام اور ہمارے ٹیکس کے ڈالرز سے خفیہ طور پہ کئے جاتے رہے۔

وکی لیکس کیا چاہتے ہیں؟
WikiLeaks states that its "primary interest is in exposing oppressive regimes in Asia, the former Soviet bloc, Sub-Saharan Africa and the Middle East, but we also expect to be of assistance to people of all regions who wish to reveal unethical behaviour in their governments and corporations." 
 وکی لیکس کا کہنا ہے کہ انکی بنیادی دلچسپی   ایشیا، سابق سوویئت بلاک، صحرائ افریقہ اور مشرق وسطی کی جارحانہ حکومتوں کا پول کھولنے میں ہے۔ لیکن ہم تمام خطوں کے لوگوں کی مدد کرنے کی توقع کرتے ہیں جو کہ اپنی حکومتوں اور کارپوریشنز کے غیر اخلاقی رویوں کو سامنے لانا چاہتے ہیں۔

یہ سائیٹ وکی پیڈیا کی طرح ہے جس پہ کوئ بھی جا کر راز افشاء کر سکتا ہے اور افشا شدہ رازوں کا تجزیہ کر سکتا ہے۔ چاہے تو ایڈٹ بھی کر سکتا ہے۔ لیکن انکا وکی پیڈیا سے کوئ تعلق نہیں۔
 اسکے بانی جولین اسانژ کے بارے میں امریکی اراکین پارلیمنٹ اور سینیٹ اور امریکی معاشرے کے دیگر معززین کے بیانات اگر ہم پڑھیں تو حیران رہ جاتے ہیں۔ یہ بیان ویسے ہی ہیں جن سے بچنے کے لئے ہم اپنے بلاگ کے تبصروں میں کچھ اخلاقی نصیحتیں یا دھمکیاں لکھتے ہیں۔مثلاً اس کتیا کے بچے کو  غیر قانونی طور پہ شوٹ کر دینا چاہئیے۔ مزید یہ کہ وہ ایک ذہنی، نفسیاتی مریض ہے، دماغ چلا ہوا ہے اسکا، وہ ایک دہشت گرد ہے۔ اسکے ساتھ بالکل اسی طرح نبٹنا چاہئیے جیسا کہ القاعدہ اور طالبان کے ساتھ کیا گیا۔ وکی لیکس دہشت گردوں کی تنظیم ہے۔ 
مائیکل مور کے خیال میں وہ یقیناً دہشت گردہے جو ان  جھوٹے امریکیوں پہ دہشت لائے ہوئے ہے جنہوں نے امریکی قوم  کو تباہ کردیا اور دوسروں کو بھی۔ اب جنگ کے ان شیدائیوں کے لئے  اگلی جنگ کرنا اتنا آسان نہیں رہا۔ جھوٹ بولنا اب آسان نہیں رہا۔ مائیکل کے خیال میں وکی لیکس وجود میں آئ اس لئیے کہ امریکی مین اسٹریم جرنلزم نے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کیں۔ حیرت ہے دنیا بھر کی صحافتی دنیا وہ کچھ نہیں کر سکی جو وکی لیکس نے کیا۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اگر آج سے دس سال پہلے وکی لیکس کا وجود ہوتا تو صدر بش عراق پہ اس بہانے سے حملہ نہ کر پاتے کہ وہاں بڑی تباہی کے اسلحہ کا ذخیرہ ہے۔
مجھے تویوں لگتا ہے امریکی سفیر ہالبروک پہ بھی وکی لیکس کی دہشت تھی۔ وکی لیکس کے دباءو کی وجہ سے انکے دل کی بڑی شریان سے خون لیک کر گیا۔ اور وہ چٹ پٹ چلے گئے۔
ادھر روسی میڈیا میں خبر گرم ہے کہ امن کا نوبل پرائز جولین اسانژ کو دینے کی تجویز زیر غور ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو اس سال کسی صحیح شخص کو یہ انعام ملے گا۔
جولین اسانژ کو دنیا بھرکےپچاس با اثر لوگوں میں شامل کیا گیا ہے جبکہ اسے ان پچیس افراد میں بھی رکھا گیا ہے جو اپنی مستقبلیاتی ذہانت کی وجہ سے دنیا کو بدل کر رکھ سکتے ہیں۔
کیا دنیا کی تاریخ اور ترجیحات بدلنے کو ہیں؟ کیا جولین اسانژ اس بدلی ہوئ دنیا کا ایک نمائندہ ہے؟ کیا دنیا بھر کے انسانوں کو اب جنگ کی معیشت سے نجات مل جائے گی؟
اگر ان سب سوالوں کا جواب ہاں میں ہے تو مائیکل مور نے بیس ہزار ڈالر میں بڑا سستا سودا کیا۔ کیا خیال ہے؟    

Tuesday, December 14, 2010

زندہ روشنی-۲

بائیو لیئو می نیسنس سے جو روشنی پیدا ہوتی ہے وہ ٹھنڈی روشنی بھی کہلاتی ہے کہ یہ زیادہ توانائ نہیں رکھتی۔ بہت کم دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ یہ توانائ تھرمل اخراج سے ہو، جس سے کہ گرمی پیدا ہوتی ہے۔
گہرے پانیوں میں رہنے والی نوے فی صد مخلوقات یہ روشنی پیدا کرتی ہیں یا اسے استعمال کرتی ہیں۔ وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ گہرے سمندروں میں اتھاہ تاریکی ہوتی ہے۔ تو آخر اپنے ماحول اور آپس میں تعارف کیسے حاصل ہو۔ یوں یہ بزبان روشنی ہوتا ہے۔
سمندری مخلوقات زیادہ تر نیلی یا سبز روشنی پیدا کرتی ہیں کہ سمندر کا نمکین پانی انہیں آسانی سے منتقل کر دیتا ہے۔ لیکن کچھ جاندار، سرخ، پیلی اور انفرا ریڈ روشنی بھی پیدا کرتے ہیں۔
زمین پہ یہ عمل خاصے کم جانداروں میں ہوتا ہے۔ جگنو ، گلوورمز، کچھ حشرات، لاروا، اینیلڈز، ایرایکنیڈز اور کچھ بیکٹیریا اور پھپھوند بھی یہ روشنی پیدا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ بعض مخلوقات اپنی اس خصوصیات کو صرف رات کے وقت ہی ظاہر کرتی ہیں اور ایک دوری عمل سے گذرتی ہیں۔ یعنی دن کے وقت کچھ اور رات کے وقت کچھ اور۔

گلو ورم


ایک اینیلڈ

اس عمل کا بنیادی مقصد تو توجہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔   پروین شاکر نے کہا کہ
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
بچوں کی طرح دیگر جاندار بھی توجہ حاصل کرنے کا فن سیکھتے ہیں۔  کبھی اداءوں سے اور کبھی کچھ مختلف خصوصیات پیدا کر کے۔ روشنی  میں انسان کے لئے شاید سب سے زیادہ کشش ہے۔ حضرت موسی بھی جسے روشنی سمجھ کر بڑھے تھے وہ خدائے پاک کی تجلی تھی۔ مگر میرا یہ بیان غلط ہوگا اگر میں یہ نہ کہوں کہ دیگر جاندار بھی روشنی کے لئے رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ کچھ اس سے محظوظ ہوتے ہیں اور کچھ اس سے خوفزدہ۔ کچھ اسے گفتگو کی زبان کے طور پہ استعمال کرتے ہیں۔
 اس طرح بائیولومی نیسنس کے جو فائدے نظر آتے ہیں وہ یہ ہیں۔
اپنی برادری کے جاندار کو اپنی طرف راغب کرنا، اس طرح زوجگی کا مرحلہ آسان ہوتا ہے۔ اور بہت دور سے بھی ایک جاندار کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اسکا جوڑی دار کہاں موجود ہے۔ تو یہ روشنی ملن کی روشنی ہوئ۔ یہ روشنی صرف ملن کی نہیں موت کی روشنی بھی ہو سکتی ہے اگر جاندار اپنے شکار کو رجھانے کے لئے اس روشنی کا اخراج کر رہا ہے تو وہ اپنے شکار کی نفسیات سمجھتا ہے۔ یوں ایسی روشنی کی طرف لپکنے والے جلد ہی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں اور جیت چالاکی کی ہوتی ہے۔ سو چمکتا جو نظر آتا ہے سب سونا نہیں ہوتا۔
کچھ جاندار اپنے بچاءو کے لئے اس روشنی کو خارج کرتے ہیں کہ انکے شکاری جاندار اس روشنی سے خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ جیسے ہی شکاری جاندار قریب آتا ہے۔ شکار ہونے والا جاندار یہ روشنی خارج کرتا ہے اور وہ بھاگ جاتا ہے۔ یہ عمل کچھ اسکوئڈز میں پایا جاتا ہے۔ یہاں ایک کیچوے کے بارے میں بھی یہی کہانی موجود ہے۔
کچھ جاندار خود تو یہ خاصیت نہیں رکھتے مگر انکے جسم پہ ایسے بیکٹیریا موجود ہوتے ہیں جو یہ روشنی پیدا کرتے ہیں۔ یہ جاندار اپنے بدن پہ موجود ان بیکٹیریا سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور دوسرے جانداروں کو دھوکے سے شکار کر لیتے ہیں۔اینگلر فش یہ تیکنیک  کیسے استعمال کرتی ہے۔  یہ ویڈیو حاضر ہے۔

 

کچھ جاندار مثلاً بلیک ڈریگن فش اس روشنی کو ٹارچ کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ اور اسکی مدد سے شکار تلاش کرتے ہیں۔
بیکٹیریا اس عمل کو کورم سینسنگ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ کورم سینسنگ جیسا کہ اصطلاح سے ظاہر ہوتا ہے بیکٹیریا کی ایک مخصوص تعداد یا کم از کم مخصوص تعداد ہوتی ہے۔ جو انہیں اپنی بقاء کے فیصلے ، ، مجموعی طور پہ کرنے کے لئے چاہئیے ہوتی ہے۔ اس سے یوں لگتا ہے کہ بیکٹیریا میں بھی جمہوری طرز عمل کسی حد تک پایا جاتا ہے۔ مذاق بر طرف، جب بیکٹیریا ایک مخصوص تعداد پہ پہنچ جاتے ہیں تو وہ روشنی کے اخراج سے ظاہر کرتے ہیں کہ اب ہم متفقہ فیصلے کرنے کے لئے تیار ہیں۔
 بائیو لیئومی نی سینس پیدا کرنے والی مخلوقات،اس سلسلے میں بھی اپنی انفرادی خصوصیات رکھتی ہیں۔ سو وہ مختلف طول موج کی روشنیوں کا اخراج کرتے ہیں، جن کی مدت اخراج، اور وقفہ ء اخراج مختلف ہوتا ہے۔
کیا ہمیں اپنے رب کی ان نشانیوں پہ حیرت کا اظہار کر کے سجدہ ء شکر بجا لانا چاہئیے اور اسکی صناعی کو تسلیم کر کے بیٹھ جانا چاہئیے۔ خدا نے انسان کو اس خمیر سے نہیں بنایا۔
اہل تحقیق، قدرت کے ان مظاہر کو انسانوں کی فلاح اور بہبود میں کام لانا چاہتے ہیں۔ یہ یقیناً نشانیاں ہیں کہ انسان مزید کیا کچھ کر سکتا ہے۔ سو اس عمل کو جان لینے کے بعد انسان میں یہ خواہش پیدا ہوئ کہ ہم خدا کی طرف سے عطا کردہ ان نشانیوں یا علامتوں کو بطور انسان اپنے کن مقاصد میں استعمال کر سکتے ہیں۔
انسان کا خیال ہے کہ وہ جینیٹک انجینیئرنگ سے مختلف جانوروں یا پودوں یا زندگی کی دوسری حالتوں میں روشنی پیدا کرنے والے جینز ڈال سکتا ہے۔ اس طرح وہ انہیں مختلف مقاصد کے لئے کام میں لا سکتا ہے۔
مثلاً ایسے درخت پیدا کئے جا سکتے ہیں جو روشنی پیدا کرتے ہوں اور انہیں سڑکوں کے کنارے لگایا جا سکے۔ اور اس طرح اسٹریٹ لائٹس کی شکل میں ضائع ہونے والی توانائ بچائ جا سکے۔


ایسی فصلیں اور گھریلو پودے جنہیں جب پانی کی ضرورت ہو روشنی خارج کریں۔ اس طرح پانی کی بچت ہوگی۔
غذائ اجناس میں جراثیم کی آلودگی  یعنی بیکٹیریا آسانی سے معلوم کیئے جا سکیں گے۔
قیدیوں اور ذہنی مریضوں میں ایسے شناختی نشان پیدا کئے جا سکیں جو فرار ہونے کی صورت میں انکی نشاندہی کر سکیں۔
اور ہاں مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کرنے والی فلم میں 'اویٹار' میں  کیا آپ نے بائیو لومی نیسنس کا استعمال دیکھا، اگر یاد نہیں آرہا تو پھر سے دیکھیں۔ اس میں موجود خلائ مخلوق کے جسم پہ منور نشانات شاید اس خیال سے متائثر ہوں۔ ریسرچ کہتی ہے کہ انسان بھی ایک حد میں روشنی کا اخراج کرتا ہے۔ پڑھئیے یہ تحریر۔

 ۔
۔
۔
اقبال اپنی نظم جگنو کے آخر میں سوال رکھتے ہیں کہ
یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو
ہر شے میں جبکہ پنہاں خاموشی ازل ہو

اس سوال کا جواب آپ پہ چھوڑتے ہوئے، مزید مطالعے کے لئے دیکھئیے یہ لنکس۔
یہ کتاب

  http://www.oregonlive.com/environment/index.ssf/2009/08/flamboyant_deepsea_worms_disco.html
نیلی ٹائڈ
http://www.scientificamerican.com/slideshow.cfm?id=bioluminescent-avatar&photo_id=A2922CB3-A0F2-C2E4-154E3CF177F773FB
http://www.scientificamerican.com/slideshow.cfm?id=bioluminescent-avatar&photo_id=A2922CB9-D6FF-DE0E-E98AE3D4C9862ECF
http://www.quantum-immortal.net/physics/biolum.php

زندہ روشنی-۱

میری بچپن کی یادوں میں اقبال کی ایک نظم جگنو بھی ہے جسے میں خوب لہک لہک کر پڑھا کرتی تھی۔
جگنو کی روشنی ہے کاشانہ ء چمن میں یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں
کیا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا، یا جان پڑ گئ ہے مہتاب کی کرن میں
یہ ایک لمبی نظم ہے۔ آگے کسی بند میں اقبال لکھتے ہیں کہ
پروانہ ایک پتنگا، جگنو بھی اک پتنگا
وہ روشنی کا طالب، یہ روشنی سراپا
  اس حقیقت کو اسی طرح قبول کرنے کے بجائے کہ قدرت نے جگنو کو چمک دی اور پروانے کو بے نوری، اللہ کے کام اللہ ہی جانے۔ کچھ کیمیا دانوں نے اس عمل کو جاننے جی کوشش کی کہ دونوں میں یہ فرق کیسے پیدا ہوتا ہے۔ آخر خدا نےایسا کیا راز اس میں رکھا کہ جگنو ہمیں رات کے وقت چمکتا نظر آتا ہے۔
جگنو
معلوم ہوا کہ بعض جانداروں کو قدرت نے ایک خاص عمل پیدا کرنے کی صلاحیت دی ہے۔ جسکے نتیجے میں انکاجسم منور ہو جاتا ہے۔ سائینس کی زبان میں یہ عمل بائیو لومی نی سنس کہلاتا ہے۔
بائیو کا مطلب زندہ اور لومن کا مطلب روشنی یعنی زندہ روشنی یا زندگی سے پیدا ہونے والی روشنی۔ یہ روشنی جانداروں میں ایک کیمیائ عمل کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ جگنو، اینگلر فش اور دیگر کچھ جانداروں میں  موجود مرکب لوسی فیرن اور خامرے لوسی فیریز سے یہ کیمیائ عمل وجود میں آتا ہے۔،
 

اب یہ عمل تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوسی فیرن نامی مرکب، اس خامرے لوسی فیریز کی موجودگی میں زیادہ توانائ کا حامل مرکب آکسی لوسی فیرن بناتا ہے جو کہ روشنی کی ایک مخصوص مقدار کو خارج کرنے کے بعد کم توانائ والے آکسی لوسی فیرن میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ بات ہم پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ ہر زیادہ توانائ والا نظام کم توانائ والی حالت کو پسند کرتا کیونکہ یہ اسے مستحکم بناتا  ہے، یہ اس کائینات کا ایک سادہ سا اصول ہے۔
لیکن جگنو ہی صرف ایک ایسا جاندار نہیں جو یہ روشنی پیدا کر سکتا ہے بلکہ گہرے سمندروں  کی اتھاہ تاریکیوں میں رہنے والی سمندری مخلوقات کی ے تقریباً نوے فی صد تعداد بائیولومینیسنس پیدا کرتی ہے۔ کیونکہ یہی وہ طریقہ ہے جس سے وہ ایکدوسرے کو اپنی موجودگی سے آگاہ کر سکتے ہیں۔
تو کیا  بائیو لومینیسنس کچھ مخلوقات میں گفتگو کا ایک طریقہ ہے؟


یہ ایک جیلی فش سے خارج ہونے والی روشنی کا کرشمہ ہے۔


Wednesday, December 8, 2010

بزرگ ہونا

پچھلے چند دن کچھ قریبی شادیوں کی مصروفیت میں گذرے۔ پھر کچھ دوستوں کی شادیاں بھی اس میں شامل ہو گئیں۔ اور یوں میں شادیوں کے ہاتھوں یرغمال ہو گئ۔ شادیوں کی اس بھاگ دوڑ سے ہٹ کر ایک نکاح کی تقریب دلچسپ رہی۔ 
کراچی میں اب یہ رواج ہو گیا ہے کہ نکاح کی تقریب ایک دو روز پہلے قریبی رشتے داروں کی موجودگی میں ہو جاتی ہے اور رخصتی بعد میں شادی ہال یا لان سے ہوتی ہے۔ فائدہ یہ کہ رخصتی کی تقریب میں کچھ دیر سویر ہو تو کوئ پریشانی نہیں ہوتی۔
یوں ایکدن ہم ایک نکاح کی تقریب میں بھی شامل تھے۔ نکاح کی یہ تقریب گھر پہ ہوئ اور تمام خواتین و حضرات ایک ہی جگہ موجود تھے۔
قاضی صاحب کے آنے کے بعد فارم بھرنے کا مرحلہ شروع ہوا۔ پہلے دولہا اور انکے گواہان کے نام پتے لکھے گئے پھر دولہن کی باری آئ۔ نام پوچھا گیا۔ جواب ملا رومیصہ احمد خان۔ قاضی صاحب نے کہا صرف دولہن کا نام بتائیں۔ جواب ملا کہ یہ صرف دولہن کا نام ہے۔ انہوں نے اسی سنجیدگی سے کہا یہ دولہن کا نام کیسے ہو سکتا ہے۔ میں صرف رومیصہ لکھ رہا ہوں۔ لیکن آپ صرف رومیصہ کیسے لکھ سکتے ہیں۔ دولہن کا پورا نام رومیصہ احمد خان ہے۔ دستاویزات میں یہی نام ہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ احمد خان تو والد صاحب کا نام ہوگا۔ جبکہ اس وقت صرف دولہن کا نام چاہئیے۔ پھر حاضرین محفل میں سے کسی نے مداخلت کی یہ والد صاحب کے نام کے ساتھ بھی ہے اور دولہن کے نام کے ساتھ بھی ہے۔ دولہن کا نام شناختی کارڈ میں یہی ہے۔ چلیں جناب، عوام کے بے حد اصرار پہ قاضی صاحب بہ مجبوری رومیصہ احمد خان لکھنے پہ تیار ہوئے۔
 اب  باقی گواہان اور وکیل کے نام اور پتے لکھے گئے اور مہر کی مقدار لکھ کر باقی فارم کے بارے میں قاضی صاحب نے کہا اسے چھوڑ دیں اس سارے پہ ایک کراس لگ جائے گا۔
یہ سن کر میرے کان کھڑے ہوئے۔ کیونکہ دولہن صاحبہ نے نکاح سے پہلے مجھ سے کہا تھا کہ میں نکاح کے وقت وہاں موجود رہوں اور نکاح کی جو شقیں ہیں انہیں بھرنے پہ اصرار کروں۔ میں نے دولہن سے کہا مگر میں  یہ کیسے کر سکتی ہوں۔ جانے دو یار، سب کا نکاح ایسے ہی ہوتا ہے۔
کہنے لگیں میں نہیں جانے دے سکتی۔ مجھے یاد ہے آپکے نکاح پہ کیا ہوا تھا۔
دراصل میرے نکاح پہ ، دودن پہلے میرے سسر صاحب نے نکاح فارم کی ایک کاپی کروائ اور کہا کہ وہ پینسل سے بھر کر یہ کاپی دیں گے اور اصل نکاح فارم اسی طرح بھرا جائے گا۔ جب وہ فارم واپس آیا تو ہم سب کو ایک خوشگوار حیرت ہوئ کہ انہوں نے فارم کی ایک ایک شق کو پر کیا تھا۔ اور شق نمبر اٹھارہ جسکے تحت طلاق کا حق بیوی کو تفویض کیا جاتا ہے اس میں ہاں لکھا تھا۔ اسکے بعد ایک اور شق جس میں پوچھا گیا تھا کہ کس صورت میں بیوی طلاق کی درخواست کر سکتی انہوں نے لکھا کہ اگر وہ اپنے شوہر کو نا پسند کرتی ہو۔
ہم میں سے  کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ فارم اس طرح بھرا جائے گا اور ایک عمومی طریقہ یہی ہے کہ تمام شقوں پہ ایک کراس ڈال دیا جاتا ہے۔ خیر یہ میرے سسر صاحب کے کھلے دل کے ہونے کی ایک نشانی تھا۔   میرے گھر سے کسی نے ان سے یہ مطالبہ نہیں کیا تھا۔ یہ انکا مجھے سب سے پہلا تحفہ تھا۔
لیکن دولہا والوں سے اس چیز کا مطالبہ کرنا ذرا مشکل لگتا ہے۔ عمومی حالت یہ ہے کہ انکا پلّہ بھاری ہوتا ہے۔ خیر جب نکاح فارم بھرا جا چکا تو دولہن کی والدہ نے دستخط ہونے سے پہلے کہا کہ وہ اسے دیکھنا چاہتی ہیں اور فارم قاضی صاحب سے لے کر میرے ہاتھ میں دے دیا۔ میں تھوڑی دیر پہلے ہونے والی گفتگو سے یہ اشارہ سمجھ گئ کہ مجھے کیا کہنا ہے۔ ایک نظر اس فارم پہ ڈالی اور کہا کہ میں یہ درخواست کرنا چاہتی ہوں کہ چاہے سارے فارم پہ آپ کراس ڈال دیں لیکن شق نمبر اٹھارہ میں ہاں لکھ دیں۔ ایک دم محفل میں سنّاٹا  ہو گیا اور پھر بھنبھناہٹ۔ 
یہ شق نمبر اٹھارہ کیا ہے؟ میں نے پڑھ کر سنایا۔ کیا بیوی کو طلاق کا حق تفویض کردیا گیا ہے؟ باراتیوں میں سے ایک صاحب نے کہا یہ تو غیر شرعی ہے۔ اسکی کوئ اہمیت نہیں۔ یہاں ہمارے خاندان کی جتنی خواتین بیٹھی ہیں۔ انہوں نے سبکے نام گنوائے ان سے پوچھیں کسی کے نکاح میں ایسا نہیں کیا گیا۔ سب ہنسی خوشی رہ رہی ہیں۔
اس پہ میں نے ان سے کہا کہ چونکہ یہ فارم اور اسکی شقیں حکومت پاکستان کی منظورہ شدہ ہیں اور کسی بھی قانونی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہیں اس لئے انکا بھرنا ضروری ہے۔ اس وقت ہم اسکے شرعی اور غیر شرعی پہلو میں نہیں پڑ رہے۔ حکومت پاکستان نے اگر یہ رکھا ہے تو اسکا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک دفعہ پھر سب خاموش۔ 
پھر دوسرے باریش صاحب جو دولہا کے بھائ تھے بولے۔ یہ حق تو خلع کے برابر ہوتا ہے اور اسے غیر شرعی کہنا درست نہیں۔ میں تو نہیں سمجھتا کہ اسے ہاں کہہ دینے سے کوئ فرق پڑتا ہے۔ پھر ہنس کر کہنے لگے کہ آج ہی اخبار میں اسکے بارے میں ایک مضمون پڑھا  کہ تمام شقوں کو بھرنا چاہئیے۔ مگر ان رشتے دار نے پھر مداخلت کی، باقی تو کسی کا بھی نہیں ہوا۔ آخر وہ بھی تو رہ رہے ہیں۔ میں نے ان سے کہا فکر نہ کریں۔ پھر اپنے شوہر صاحب کی طرف اشارہ کیا۔ میرے نکاح کے فارم میں بھی یہ شق بھری گئ ، ہاں کے ساتھ۔ اتنا عرصہ ہو گیا ہماری شادی کو اور ہم خدا کا شکر ہے باہمی ہم آہنگی کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ 
آخرطے ہوا کہ معاملہ دولہا پہ چھوڑ دیا جائے۔ دولہا نے کہا، مجھے تو کوئ اعتراض نہیں۔
 یوں ایجاب و قبول کا سلسلہ شروع ہوا۔ دعا ہے کہ دونوں اسی طرح ہم آہنگی اور سمجھ داری سے زندگی گذاریں۔
میں اپنے گھر واپس آتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ یہ میرے سسر صاحب کی وسعت قلبی اور سمجھداری تھی جس نے آج مجھے اتنا حوصلہ دیا کہ میں نے ایک اور لڑکی کو یہ حق لینے میں مدد کی۔
معاشرے کے بگاڑ اور سنوار میں بزرگوں کے روئیے،  فیصلے اور دور اندیشی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ وہ آنے والی نسل کو مضبوطی سے کھڑے ہونے کے قابل بناسکتے ہیں اور وہی انہیں کمزور کر کے بھٹکنے کے لئے چھوڑسکتے ہیں۔ آج میرے سسر صاحب  کو اس دنیا کو چھوڑےتین مہینے ہو رہے ہیں۔  دعا ہے کہ خدا ہمیں کردار اور عمل کی مضبوطی دے  تاکہ ہم انکے انسانی قدروں کے مضبوط بنانے کے عمل کو جاری رکھیں۔

Monday, December 6, 2010

یوریکا، میں نے پا لیا

سرکاری اسکول کی کارکردگی کے معائینے کو ایک انسپکٹرصاحب پہنچے اور ایک کلاس کا معائینہ کرتے ہوئے انہوں نے کلاس کے سب سے ذہین بچے سے پوچھا۔ 'ہمم، یہ بتاءو سومنات کا مندر کس نے توڑا؟'۔ گڈو میاں کا چہرہ فق ہو گیا۔ ایکدم روہانسے ہو گئےہکلاتے ہوئے کہنے لگے،' سر، قسم لے لیجئیے، میں نے  نہیں توڑا'۔
انسپکٹر حیران ہوا کلاس ٹیچر سے کہنے لگا یہ گڈو میاں کیا کہہ رہے ہیں۔ ٹیچر نے انکی شکل دیکھی اور فرمایا' گڈو ایک بہت ذہین اور تمیز دار بچہ ہے میں اسے ذاتی طور پہ جانتا ہوں۔ یہ کبھی کسی توپھوڑ یا شرارت میں شامل نہیں ہوتا'۔
انسپکٹر نے انہیں ترحم والی نظروں سے دیکھا اور ہیڈ ماسٹر کے پاس پہنچا۔ اور انہیں گڈو میاں اور انکے ٹیچر کے جوابات سے مطلع کیا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے پوری سنجیدگی سے انکی بات سنی اور ایک خاموشی کے بعد بولے۔' میں خود بھی اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ گڈو ایسا بچہ نہیں ہے۔ میں اسے اور اسکے ٹیچر کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ گڈو نے آج تک ایسا توڑ پھوڑ کا کوئ کام نہیں کیا۔

اب تو انسپکٹر صاحب کو اور تاءو آیا۔ اپنے آفس پہنچے اور محکمہ ء تعلیم کے نام خط لکھ ڈالا۔ اور اس میں تمام واقعے کا تذکرہ لکھا۔جواب آیا۔ محترم ہمیں آپکا خط ملا۔ اس میں کچھ توڑ پھوڑ کا تذکرہ تھا۔ اس لئے ہم نے اسے محکمہ ء تعمیرات کو بھیج دیا۔ امید ہے وہ آپکو تسلی بخش جواب دیں گے۔
یہی گڈو جب  اسی تعلیمی نظام کے زیر سایہ پل کر بڑے ہوئے تو ملک میں ایک خاص نظریاتی ماحول تشکیل پا چکا تھا۔ اسکی رو سے ملک کے اندر مروجہ مذہبی  تاریخ اور چیدہ چیدہ واقعات کے علاوہ تمام باتیں قابل سزا ٹہریں۔ ان سزاءووں کی بھی مختلف سطحیں بنادی گئیں تھیں۔ ملک کے انتظامی معاملات ہوں یا خارجہ امور، باشندوں کا رہن سہن ہو یا میل ملاپ، تفریح ہو یا تحقیق، ادب ہو یا تخلیق کا کوئ بھی میدان، وہ اس اثر سے خالی نہ تھا۔ اور نظام ان گڈو میاءووں سے بھرا ہواتھا۔ یوں سب ہنسی خوشی رہ رہے تھے۔
مگر ایک دن ٹیکنالوجی اپنی ڈھٹائ کی وجہ سے ملک میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئ۔
گڈو میاں اور انکے ساتھیوں کے لئے یہ بڑا لمحہ ء فکریہ تھا۔ اس سے معاشرے کے تار پود بکھرنے کا اندیشہ تھا۔ سو وہ اپنی بساط بھر کوششیں کرنے میں مصروف ہو گئے۔ یعنی کسی طرح تار وپود بچ جائیں وہ جو اس نظام کے تحت بنائے گئے جس میں انکی پرورش ہوئ تھی۔
لیکن ٹیکنالوجی اتنی خبیث چیز تھی کہ وہ ایکدن اسکا سر کاٹ کر قلع قمع کرتے اور دوسرے دن پھر وہ سر پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتی۔ یہ ایک راز تھا۔ جو گڈو میاں اور ہمنواءووں کی سمجھ سے باہر تھا۔ اسکا حل انکے نزدیک بس اسکا سر کاٹنا ہی ٹہرا تھا۔ یوں ملک میں سر کاٹنے کے مختلف طریقوں پہ بحث  اور عملدر آمد شروع ہوا۔
ایک دفعہ، گڈو میاں اور ساتھیوں نے اس ساری صورت حال پہ تبادلہ ء خیال کے لئے میٹنگ بلائ۔ جس میں ظاہری سی بات ہے کہ صرف وہ لوگ شامل تھے جو سر کاٹنے کے عمل سے متفق تھے۔ اس میں کسی نے یہ خیال پیش کیا کہ چونکہ ٹیکنالوجی سرحد پار کسی علاقے سے آئ ہے اس لئے اسکا سر کاٹنے کے مناسب طریقے بھی انکے پاس ہونگے۔ یہ سوچنے کے بعد انہوں نے اپنے درمیان سے سب سے زیادہ سرگرم شخص کو ملک سے باہر بھیجا۔ تاکہ اس راز سے پردہ اٹھ سکے۔ 
وہ شخص ایکدن بعد ہی واپس آگیا۔ گڈو میاں خوش ہوئے انہیں اپنے ساتھی کی ذہانت پہ مکمل یقین تھا۔
لیکن ساتھی نے بتایا کہ وہ جیسے ہی سرحد سے باہر نکلا اسے ایک شخص ملا۔ اس نے جب اس سے بات کی تو اس شخص نے بتایا کہ وہ ٹیکنالوجی کے خالق ہیں۔ سو وہ وہیں رک کر اس سے معلومات حاصل کرنے لگا۔ اس نے بڑی عجیب بات کی اور کہا کہ  مسلسل فکر اور عقل کے استعمال سے عقل اس سطح تک پہنچ جاتی ہے جہاں یہ وجدان کا روپ دھار لیتی ہے۔ بس پھر اسکے بعد مسائل کے حل بھی سامنے آنے لگتے ہیں۔
پھراس شخص نے اپنے ایک دانشور کا قصہ سنایا کہ کس طرح وہ پانی کے ٹب میں بیٹھا نہا رہا تھا کہ ایک مسئلے کے بارے میں اس پہ ایکدم وجدان طاری ہوا۔ اور وہ فکر کی سر خوشی کے عالم میں یہ تک بھول گیا کہ وہ کپڑے نہیں پہنے ہوا اور اسی حالت میں گھر سے باہر نکل کر ناچنے  اور گانے لگا۔ یوریکا، یوریکا، میں نے پا لیا، میں نے پا لیا۔
وہ کہہ رہا تھا کہ جب تک انسان فکر میں اتنا نہ ڈوب جائے کہ اپنی ذات کو بھول جائے کسی کام کی چیز کا حاصل ہونا مشکل ہے۔ فکر کی اس گہرائ سے جب کوئ پردہ ہٹتا ہے تو انسان مست ہو کر ناچ اٹھتا ہے۔ اس کیفیت کو اب ہم یوریکا کہتے ہیں۔
گڈو میاں اور ہمنواءووں کا چہرہ فق ہو گیا۔ وہ روہانسے ہو کر بولے تو کیا اب ہمیں ننگا ہو کر گلی میں ناچنا پڑے گا۔
اسکے بعد کیا ہوا؟
کہانی ابھی جاری ہے۔ کیا گڈو میاں اور ہمنوا اصل راز جاننے میں کامیاب ہو  گئے؟ کیا ٹیکنالوجی کا قلع قمع ہو گیا؟ کیا وہ لوگ ایک دفعہ پھر ہنسی خوشی رہنے لگے؟  یہ جاننے کے لئے پڑھئیے گڈو میاں کے کارنامے۔


Thursday, December 2, 2010

منی بدنام ہوئ----استغفراللہ

اکثر ایسی میلز یا فیس بک پہ ویڈیوز ملتی ہیں۔ جنکا مقصد تو بظاہر یہ لگتا ہے کہ لوگوں کے اندر یہ احساس پیدا کیا جائے کہ وہ مذہبی طور پہ کتنے نکمے ہیں۔ اور ان سے اس سلسلے میں کیا کیا کوتاہیاں ہوتی ہیں۔ لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے یہ بہت مسخرہ پن لگتا ہے کہ ایک طرف وینا ملک ٹھمکے لگاتیں سلمان خان سے داد و تحسین وصول کررہی ہیں اور پس منظر میں حمد سے ملتی جلتی چیز سنائ دے رہی ہے۔ اس تمام ویڈیو کو دیکھنے کے بعد کیا ایک عام شخص مذہبی غیرت کھا کر اس تمام مواد کو واہیات کہہ کراٹھ جاتا ہے یا  استغفراللہ کہہ کر ہل من مزید کہتا ہے۔ ایسی ایک ویڈیو میں نے فیس بک پہ دیکھی۔ ابتداً تو صرف شروع کے کلپس دیکھ کر چھوڑ دی کہ بے کار کا قصہ ہے۔ لیکن  عوام الناس کو اپنی بلّو کے لئے لائن لگاتے ہوئے  ساتھ ساتھ  وینا ملک  پہ غیرت کھاتے دیکھا تو سوچا دیکھیں تو وینا ملک کرنٹ پاکستانی سینسیشن، آخر کیا چیز ہے۔ جس پہ منی بد نام ہو رہی، اور ہر کس و ناکس استغفراللہ  بھی پڑھ رہا ہے اور اسی دلجمعی سے وینا ملک کی ویڈیوز یو ٹیوب پہ جمع ہوئ جا رہی ہیں۔ جنہیں لاکھوں کی تعداد میں دیکھا بھی جا رہا ہے۔ 
ایک ایسی ویڈیو حاضر ہے۔ کیا استغفراللہ کہہ دینے سے یا ان کلپس کے پیچھے حمد نما شاعری لگانے سے انہیں دیکھنا جائز ہو جاتا ہے۔ 

 

Monday, November 29, 2010

باسی کڑھی

آجکل ذاتی مصروفیات کچھ ایسی ہیں کہ وقت  سب سے زیادہ اہم سوال بن گیا ہے۔ تو نئ پوسٹ کے بجائے ایک بہت پرانی پوسٹ معمولی تبدیلیوں کے ساتھ حاضر ہے۔ نہایت پرانے قارئین کے علاوہ کون اس سے آگاہ ہوگا۔ اس سے قدیم ہونے  کا اندازہ لگانے میں مدد ملے گی۔
آَئیے پڑھتے ہیں۔


ہمارے گھر سے ملحقہ پچھلا پلاٹ ایک نا مکمل اسٹرکچر کے ساتھ خدا معلوم کب سے خالی پڑا تھا۔ ایکدن گھر میں کچھ لوگوںجن میں, میں بھی شامل ہوں نے منصوبہ بنایا کہ گھر کی پچھلی دیوار میں ایک شگاف کر کے راستہ بنا لیا جائے اور اس خالی پلاٹ پر مرغیاں پال لی جائیں یا بکریاں۔ اس طرح سے ہمیں آرگینک انڈے اور دودھ مل جائیں گے اور ہمارے گھر میں صفائ کے مسائل بھی نہ کھڑے ہونگے۔
آپ لوگ تو واقف ہیں کہ آجکل مغربی دنیا میں لفظ آرگینک معاشی خوشحالی کی علامت ہے۔ جنہیں ہم دیسی انڈے کہتے ہیں انہیں وہ آرگینک پروڈکٹ کہتے ہیں۔مرغیاں خالی پلاٹ کی صفائ کرتی پھریں گی اور بکریاں یہاں وہاں کدکڑے لگائیں گی۔ اور خوشی خوشی تازہ دودھ دیں گی۔ روزانہ ملاوٹی دودھ کی قیمت میں اضافہ کا سن کر جو خون جلتا ہے وہ پھر چہرے پہ شادابی کا باعث بنے گا۔ اور اپنے غیر ملکی دوستوں پہ رعب بھی جمائیں گے کہ ہم تو آرگینک انڈے کھاتے ہیں اور دودھ پیتےہیں۔

غریب تیرے خواب۔ اس تجویز کا آنا تھا کہ برسوں سے خوابیدہ کارخانہء قدرت میں حرکت ہوئ اوردودن بعد کھٹپٹ کی آواز پہ
کھڑکی سے جو جھانکا تو کیا دیکھتے ہیں کہ خالی پلاٹ پر اگے ہوئے جنگل جھاڑ پر کلہاڑیاں چل رہی ہیں۔لیجئے ابھی دو دن پہلے ہی تو ہم نے کچھ منصوبے بنائے تھے۔ خیر آنا تیرا مبارک تشریف لانے والے۔ اگر معلوم ہوتا کہ آپ کے آنے کے لئے کچھ ایسے بے ضرر منصوبے پردہءخیال پہ ظہور پذیر ہونے چاہئیں تو برسوں پہلے سوچ لیتے یا بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ برسوں نہ سوچتے۔ لیکن جناب قدرت نے اسی پر بس نہیں کی اور ہمیں مستقبل میں کسی بھی منصوبہ بنانے کے ارادے سے باز رکھنے کے لئے آئندہ چند مہینوں کا پروگرام بھی بنا لیا گیا۔اب چاہے ہم سے جیسی بھی قسم لے لیں ہم اس سارے پلان سے ناواقف تھے۔
ایکدن باورچی خانے میں حلوہ پکاتے ہوئے چمچہ ایک پلیٹ میں رکھا اور چند منٹوں کے لئے وہاں سے غائب ہو کر جو دوبارہ نمودار ہوئے تو عجب ماجرہ تھا، پورا چمچہ باریک چیونٹیّوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ دیکھتے ہی ایک جھرجھری پورے بدن میں دوڑ گئ۔ فوراً ایک اینٹی انسیکٹ اسپرے کیا۔ اور اپنے تئیں سمجھا کہ نمرود کی فوج کا صفایا کر دیا۔ اسی دن شام کو دودھ کے ایک قطرے پہ پھر چینوٹیوں کے ایک لشکر کا حملہ ہوا۔ آئندہ ایک ہفتے میں ہم نے ایک کے بعد ایک کئ لشکر غارت کیے۔ مگر یہ تو لگ رہا تھا کہ اتنا ہی ابھریں گے جتنا کہ دبا دیں گے۔
ادھر پڑوس میں مکان کی تعمیر تیزی سے جاری تھی ادھر ہم اتنی ہی جاں فشانی سے چیونٹیّوں سے نبرد آزما مگر کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔اب روزمرہ کے انسیکٹ کلر پر سے اعتماد اٹھ چلا تھا۔ ادھر یہ بھی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ عذاب ہم پہ کہاں سے اور کس سلسلے میں نازل ہوا ہے۔
کچھ عرصے چیونٹیوں کی لاتعدا قطاروں کو صاف کرنے کے بعدہم نے یہ فیصلہ کیا کہ پورے گھر پر ایک ساتھ یلغار کی جائے تاکہ اس مصیبت سے نجات ہو۔ گھر کے چاروں طرف بنیاد کے ستھ ساتھ چونا ڈالا گیا اور لان میں چیونٹیاں مار دوا ڈالی گئ۔ کچھ دنوں کے لئے سکون ہوا مگر چاردن بعد وہی کہانی۔ یعنی ڈھاک کے تین پات۔
اب گھر کے باہر چونا ڈالنے کے بجائے چیونٹی مار دوا ڈالی گئ۔ پھر کچھ سکون ہوا۔ مگر کچھ دنوں بعد ہم پھر اپنی پرانی حالت پہ واپس آگئے۔ پھر مختلف ذرائع سے پتہ چلا کہ اینٹی انسیکٹ کا اتنا استعمال ہمارے خود کے لئے بہتر نہیں۔ جہاں ان سے مختلف قسم کی الرجیز ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے جن میں سرفہرست دمہ ہے وہاں یہ نہ صرف کینسر کا باعث بھی ہو سکتے ہیں بلکہ بانجھپن بھی پیدا کرتے ہیں۔ یا خدا اب کیا کریں۔
ادھر پڑوسیوں کا مکان تکمیل کو پہنچ رہا تھا اور اب اس پر رنگ و روغن ہو رہا تھا۔ ایک دن دل میں اتنا گداز پیدا ہوا کہ خدا سے شکوہ کناں ہوئے۔ یا اللہ ہمارا اس پلاٹ پر ْتو دلوں کے حال بہتر جانتا ہے۔ قبضہ کرنے کا کوئ ارادہ نہ تھا وہ تو صرف ایک خیال تھا۔ اور اگر ہم اس پر عمل کر بھی لیتے تو یقین جان کہ جس دن ان کی آمد کے آثار ہوتے ہم وہ مرغیاں اور بکریاں کسی کی دعوت میں استعمال کر لیتےممکن ہے انہی کی دعوت کردیتے۔ اس مکالمہء صفائ کے بعد جب سوچنا شروع کی تو لگا کہ دماغ کے انجن نے کام کرنا شروع کیا۔ اب جو غور کیا تو اندازہ ہوا یہ چیونٹیاں پڑوسیوں کے گھر کی تھیں۔ انہوں نے جو جنگل صاف کیا تو یہ ہمارے گھر آدھمکیں۔
 سوال یہ تھا کہ ان سے جان کیسے چھڑائ جائے۔ یکدم خیال آیاآخر ہم انٹرنیٹ کیوں نہیں استعمال کرتے۔ دماغ کے جالے لگتا تھا کہ ایکدم صاف ہو گئے۔  دو دن نیٹ پرخوب سرچ ماری اور بالآخر ایک نتیجے پہ پہنچ گئے۔ اگلے دن بازار سے بورک ایسڈ لےکر آئے دیکھنے والوں نے کہا ۔ اور کیرم بورڈ وہ کہاں ہے۔ وہی کھیلنے کے لئے ہم نے ہمیشہ بورک ایسڈ استعمال کیاہے۔ ایسے تبصروں پر ہم نے غور نہیں کیا یہ لوگ ہمیشہ چیونٹی کاٹے پر روتے ہیں اور اس کا ذمہ دار بھی ہمیں سمجھتے ہیں۔
ہم نےاسی سنجیدگی سے چینی کاشیرہ تیار کیا اور اس میں بورک ایسڈ کو ملادیا۔ پھر اسے چھوٹی چھوٹی پلاسٹک کی پیالیوں میں نکالا اور چینٹیوں کے بل جو ہم اس سارے عمل سے پہلے نشان زدہ کر چکے تھے ان کے قریب لے جا کر رکھ دیا۔ اگلے دن ماسی نے ہمیں اطلاع دی کہ پیالیوں میں کچھ رکھا ہے اس میں چیونٹیاں آرہی ہیں۔ آنے دو ہم نے شان بے نیازی سے جواب دیااور ایک میگزین پڑھتے رہے۔ اطمینان قلب دنیا کی سب سے بڑی چیز ہےاسی سے اعتماد پیدا ہوتا ہے۔۔' انہیں وہاں سے ہلانا نہیں۔' ہم نے اسے نصیحت کی۔ گھر میں کھلبلی مچ گئ۔ لیجئے اب تو چیونٹیّوں کو انکے دروازے پر ہی غذا مل رہی ہے اب دیکھئیے گا کیسی یلغاریں ہوتی ہیں ۔ کسی نے کہا کہ اب یقیناً ہمیں دوسرا گھر دیکھ لینا چاہئے۔ وہ دن دور نہیں جب یہاں صرف چیونٹیوں کا راج ہو گا۔ اور ہاتھیوں کا آنا منع ہوگا۔ میں نے لقمہ دیا۔
آہستہ آہستہ چیونٹیوں کی قطاریں ہر شکر کی پیالی کے ساتھ بندھ گئیں۔ صبح سے شام تک چیونٹیاں آرہی ہیں چیونٹیاں جا رہی ہیں اور ہم ہیں کہ ٹی وی پہ کھانا پکانے کی ترکیبیں دیکھ رہے ہیں۔۔رسالوں کو چاٹ رہے ہیں اب ہمارے شوہر صاحب کی پریشانی شروع ہوئ۔ 'یہ کیا ہو رہا ہے اس دفعہ آپ نے اینٹی انسیکٹ بھی نہیں لیا اور نہ ہی چیونٹیوں کا کوئ اور علاج ہو رہا ہے'۔ خاموش میں نے انگلی سے اشارہ کیا۔ اگرچہ چیونٹیوں کے کان نہیں ہوتے مگر تجربات یعنی چیونٹیوں کےذاتِی تجربات سے یہ بات ثابت ہے کہ وہ ماحول میں اپنے خلاف ہونے والی ہر کارروائ سے آگاہ ہو جاتی ہیں خوش قسمتی سے قدرت نےعورتوں سمیت ہر جاندار کو اس حس سے نوازا ہے۔
اچھا جناب اب میرے شوہر صاحب سوچ رہے تھے کہ میں نے شاید کوئ روحانی عمل شروع کیا ہو اہے ۔ اور کچھ عرصہ لگے گا جب میں اپنی غلطی تسلیم کر لونگی کہ اس قسم کے مسائل حقیقت کی دنیا میں رہ کر ہی حل ہو سکتے ہیں۔ باقی لوگ شاید سوچتے تھے کہ میں نے اپنی کاہلی کے اوپر بڑی ذہانت سے پردہ ڈالا ہوا ہے۔ یوں ایکدن جب یہ موضوع جب دوبارہ زیر بحث آیا تو پھر توپوں کا رخ میری جانب ہوا۔
لوگ میری خاموشی اور سکون سے نالاں تھے۔ میں نے جب ان سے مزید پندرہ دن کی مہلت چاہی تو وہ ایکدم پھٹ پڑے۔ چیونٹیاں نہ ہوئیں طالبان ہوگئیں۔ اب میں ہر ایک چیونٹی سے درخواست کرنے سے رہی یہ لیجئے دوا اور خدا کے لئے غارت ہو جائیں۔ خیر اجلاس میں میں نے سب کو یقین دلایا کہ میں کوئ روحانی عمل نہیں کر رہی ہوں۔ میں بورک ایسڈ بذریعہ شیرہ چیونٹیوں کو دے رہی ہوں، بورک ایسڈ ان کا معدہ ہضم نہیں کرتا اور معدہ پھٹ جانے کے نتیجے میں وہ اس دار فانی سے کوچ کر جاتی ہیں۔ 'تو کیا اب ایک ایک چیونٹی کے مرنے کا انتظار کیا جائے گا اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ان کے انڈوں سے چیونٹیاں پیدا نہیں ہونگیں۔ ' تابڑ توڑ سوالات۔
میری تیاری بھی مکمل تھی۔ بات یہ ہے کہ اس شیرہ کو چیونٹیوں نے اپنے بل میں بھی لے جا کر جمع کیا ہو گا اور اسے ان کی ملکہ بھی استعمال کرے گی جو ان کے بل میں انڈے پیدا کرنے کی ذمہ داری اٹھاتی ہے اب جب وہ ہی نہیں رہے گی تو نئ چیونٹیاں کہاں سے آئیں گی۔ پھر ہم نے بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے ان کی توجہ چیونٹیوں کی قطاروں میں ہونے والی واضح کمی کی طرف دلائ۔ لوگوں نے اس فرق کو محسوس تونہیں کیا تھا لیکن ہمیں کچھ دنوں کی مہلت ضرور مل گئ۔ آج اس بات کو اس ایک سال ہوگئے۔ اب ہمارے گھر میں کبھی کبھار کوئ چیونٹی اس لئے نظر آجاتی ہے کہ بچوں کو بتایا جا سکے یہ ہوتی ہے چیونٹی جس کے کبھی کبھی پر نکل آتے ہیں۔ اس تمام محنت سے ہم نے یہ سیکھا کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ اگر آپ برائ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تو اسکا خیال دل میں پال لینا ہی مصیبت بن سکتا ہے۔

نوٹ: اس طریقےکو طالبان کے خلاف استعمال کرنے والے نتائج کے خود ذمہ دار ہونگے۔
ریفرنس؛
چیونٹیوں سے بچاءو


Sunday, November 21, 2010

نو سے پانچ

میں اپنی ایک عزیزہ سے ملنے انکے گھر رات کو نو بجے پہنچی پتہ چلا کہ ابھی تک آفس سے واپسی نہیں ہوئ۔ وہ ایک سوفٹ ویئر انجینیئر ہیں اور ایک سوفٹ ویئر ہاءوس میں کام کرتی ہیں۔ رات کو دس بجے انکی واپسی ہوئ۔ لیکن آفس ٹائم ختم نہیں ہوا تھا کہ اب وہ گھر میں رات کو دیر تک بیٹھ کر کام کریں گی۔ وہ بتانے لگیں کہ اگر چار گھنٹے کی بھی نیند مل جائے تو عیاشی سمجھی جاتی ہےاور یہ انکا روز کا معمول ہے۔ اسکی وجہ سے صحت پہ جو اثرات ہیں وہ الگ ہیں۔ آپ تصور کر سکتی ہیں کہ جو شخص میرے ما تحت کام کرتا ہے وہ آفس چھ بجے چھوڑدیتا ہے اور اسکی تنخواہ مجھ سے بیس ہزار روپے زیادہ ہے۔ انہوں نے جھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔ در حقیت میرے ماتحت پانچ لڑکے کام کرتے ہیں۔اور وہ سب شام کو چھ بجے کے بعد نہ صرف کام کرنے کو تیار نہیں ہوتے بلکہ کام کا معیار ایسا ہوتا ہے کہ مجھے ہی اسے بھگتنا پڑتا ہے۔ لوگ بڑے بڑے ادروں سے پڑھ کر آرہے ہیں بڑے مطالبات ہیں انکے مگر کام کے نام پہ ایک چھوٹے سے مسئلے سے نہیں نبٹ سکتے ایک پریزینٹیشن کا کہہ و جان نکل جاتی ہے انکی اور یہ سب میرے ہم عمر لوگ ہیں۔ میں ٹیم لیڈر ہوں اور نتیجے میں کام کا سارا لوڈ میرے اوپر پڑ جاتا ہے۔
 میری ایک اور دوست جو کہ کسی اور سوفٹ ویئر ہاءوس میں کام کرتی ہیں انکی کہانی بھی یہی کہ رات کو نو دس بجے گھر سے واپسی ہوتی اور صبح ساڑھے سات بجے تک گھر سے نکل جاتی ہیں۔ یہ بتاءو تمہاری اب شادی ہونے والی ہے تب یہ سب کیسے چلے گا۔ میں نے پوچھا۔ ایسے ہی چلتا ہے۔ جو شادی شدہ کولیگز ہیں وہ بھی تقریباً اسی وقت تک جا پاتی ہیں۔ 
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک کی جاب کا کوئ تصور نہیں رہا۔ سوائے سرکاری داروں کے تمام غیر سرکاری ادارے اپنے تنخواہ دار طبقے کا خون چوس لینا چاہتے ہیں۔ مقررہ وقت سے الگ رک کر زیادہ کام کرنے والوں کے لئے یعنی اوور ٹآئم کا کوئ تصور نہیں اور یوں اب زائد کام، زائد تنخواہ کا کوئ تصور نہیں رہا۔ ان کام کرنے والوں کے کوئ بنیادی حقوق نام کی چیز نہیں۔
حتی کہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگ جو معاشرے کی زبوں حالی کا رونا روتے نہیں تھکتے۔معاشرے کو کرپشن سے پاک کرنے کا عزم دوہراتے ہیں، نا انصافیوں کو دور کرنے کی باتیں کرتے ہیں  وہ خود بھی ان سوفٹ ویئر ہاءوسز کو چلا رہے ہیں مگر انکے یہاں کام کرنے والوں کے ایسے کسی حق کا خیال نہ کرنا انکی شخصی دوہریت کو ظاہر کرتا ہے جو ماشااللہ ہمارے معاشرے میں کثرت سے پائ  جاتی ہیں۔ چار لوگوں کے سامنے بیٹھ کر اخلاقی تقاریر کرنے میں کسے مزہ نہیں آتا۔ عملی طور پہ وہ انہی اخلاقی اصولوں کا مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں۔


خاص طور پہ جب وہ خواتین کو اتنے طویل وقت کے لئے روک رکھتے ہیں تو کیا انہیں خیال ہوتا ہے کہ یہ عورت ایک ماں بھی ہے، اسے اپنی گھریلو ذمہ داریاں بھی دیکھنا ہونگیں اور دیکھنا چاہئییں۔ گھر کسی معاشرے کی اکائ ہوتا ہے۔ اس اکائ کی ساخت کو محفوظ اور بہتر بنانے کے لئے ہمارے یہاں کیا ہو رہا ہے۔ جواب یہ ہے کہ کچھ نہیں۔ خواتین کو ملازمت میں ترجیح دی جاتی ہے اس لئے کہ وہ خاموشی سے گدھے گھوڑے کی طرح کام کرتی رہیں گی۔ ادھر خواتین کے لئے سب سے زیادہ اہمیت نوکری اور تنخواہ ہی کی نہیں ہوتی بلکہ ادارے میں اگر انہیں ماحول محفوظ لگے تو وہ جاب سوئچ کرنے سے گریز کرتی ہیں کہ اگلی جگہ خدا جانے کیسا ماحول ملے یوں وہ رسک لینے سے گھبراتی ہیں۔ دوسری طرف ہماری خواتین کو پیشہ ورانہ میدان میں داخل ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گذرا تو وہ اپنی حق تلفی کے سلسلے میں بلکہ کسی بھی سلسلے میں زبان کھولنے سے گھبراتی ہیں۔ یوں کام کا ایک غیر ضروری بوجھ اٹھاتی ہیں اور دب کر بھی رہتی ہیں۔ تیسری طرف جب سے عالمی مارکیٹ میں کساد بازاری کا رجحان پیدا ہوا ہے۔ آجر، اپنے اجیروں کی تعداد کو کم سے کم رکھتے ہوئے اتنا ہی کام کروانا چاہ رہے ہیں۔تاکہ انکا سرمایہ زیادہ خرچ نہ ہو اور منافع کی شرح برقرار رہے یوں انکی اس ڈریکولا والے انداز کے خلاف بولنا اپنی نوکری سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہے۔
کیا ترقی یافتہ ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ مجھے آسٹریلیا میں کچھ وقت گذارنے کا موقع ملا اور یہ دیکھ کر حیرانی ہوئ کہ تقریباً تمام مارکیٹ سات بجے شام کو بند ہوجاتی ہے۔ آفس کے اوقات صبح نو سے پانچ۔ کبھی ہی ایسا موقع ہوتا ہے کہ دیر تک رکنا پڑے۔ ہفتے میں دو دن کی چھٹی۔ جس میں ایک خاندان کے تمام لوگ سیر و تفریح کا پروگرام بناتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہے یہ سب کچھ کیوں۔ اس لئے کہ خاندان کو ایک ساتھ وقت گذارنے کا موقع ملے اور اس طرح معاشرے کی اکائ یعنی ایک خاندان مطمئن اور توازن سے بھر پور زندگی گذارے۔
میری وہی عزیزہ، ابھی چند مہینے پہلے  امیگریشن کے بعد کینیڈا چلی گئیں۔ ایک چیز سے خوش ہیں کہ  وہ شام کو چھ بجے اپنے گھر میں ہوتی ہیں، کھانا بناتی ہیں، ٹی وی دیکھتی ہیں۔ رات کا کھاناہم سب مل کر کھاتے ہیں۔ یہاں زندگی بہت ریلیکس ہے۔ ہر ہفتے کو ہم کہیں نہ کہیں گھومنے جاتے ہیں۔
حتی کہ تھائ لینڈ جیسے ملک میں جو کہ ترقی یافتہ ممالک مِں شامل نہیں اور شہروں میں شاید ہر عورت کام کرتی ہوگی۔ اس بات پہ توجہ دی جاتی ہے کہ خواتین اپنے آپکو آفس میں ہی نہ خرچ کر ڈالیں بلکہ اپنے گھر کے لئے بھی خود کو بچا کر رکھیں۔
ہمارے یہاں ایسا کوئ تصور نہیں۔ کوئ ایسی دستاویز جس میں کام کرنے کے زیادہ سے زیادہ اوقات بیان کئے گئے ہوں۔ کسی کو اس بات کی چنداں فکر نہیں کہ ملازمت پیشہ خواتین  کے مسائل کی طرف بھی نظر کرے۔ ظاہر ہے جہاں بات روٹی کے گرد ہی گھوم رہی ہو وہاں اس قسم کے مسائل میں کس کو دلچسپی ہو سکتی۔ اور خواتین کے مسائل کو تو کسی گنتی میں ہی نہیں رکھا جاتا، زیادہ سے زیادہ یہ کہہ دیا جائے گا کہ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ خواتین کام نہ کریں انہیں گھر کی ملکہ بن کر رہنا چاہئیے۔ یہ انکا کام نہیں۔ حالانکہ ملازمت پیشہ خواتین کا بڑا حصہ اپنے خاندان کی معاشی کمزوریوں کی بناء پہ کام کرنے پہ مجبور ہوتا ہے۔مگر یہ سب کہنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ جب روٹی نہیں خرید پاتے تو کیک خریدنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی۔ جب زراعت کا زمانہ تھا عورت گھر کی کھیتی باڑی میں اپنے حصے کا کام کرتی تھی اور برابر سے کرتی تھی۔ اب انڈسٹریئل زمانہ ہے اس میں بھی کسی کے لئے رعایت نہیں اور سب کو کام کرنا پڑتا ہے۔
کس کو فکر کہ ایک کام کرنے والے پہ کام کا کتنا بوجھ ڈالا جا سکتا ہے۔  ان  پریشان لوگوں کا کوئ پر سان حال نہیں اور نہ شاید کوئ اسکا احساس کرتا ہے۔  حکومتی عناصر اور ہمارے پالیسی ساز ذہن معاشرے کے استحکام کے لئے پالیسیاں بنانا کب شروع کریں گے۔جس طرح معاشرے میں اور ظلم اور زیادتیوں کو قبول کر کے بس زندہ رہنے کی رسم نبھانے کی عادت ڈال لی گئ ہے وہیں اس ظلم کے خلاف بھی کوئ آواز اٹھانے والا نہیں ۔

Wednesday, November 17, 2010

عید قرباں کراچی میں

ہر طرف گائے بکریوں کا شور ہے۔ رات کے آٹھ بجتے ہی لڑکے اپنے اپنے جانوروں کی رسیاں تھامے روڈ پہ نکل آتے ہیں اور پھر انکی ریس شروع ہوتی ہے۔ گھنگھرءووں کی چھم چھم، جانوروں کی میں میں ، باں باں اور بھیں بھِیں اور لڑکوں کی فرط جوش میں نکلتی چیخیں اور نعرے دیکھ کر اسپین کی بل فائیٹنگ کے میدان یاد آجاتے ہیں۔  مگر واپس آجائیے، یہ اسپین نہیں پاکستان کا شہر کراچی ہے۔ اور خیال اغلب ہے کہ یہ ساری مشق یہ معلوم کرنے کے لئے ہوتی ہے کہ یہ جانور پل صراط پہ صحیح کارکردگی کا مظاہرہ کر پائے گا یا نہیں۔ میں اس سب  کو برا  کہنے کی جراءت نہیں کرسکتی مگر میرے جیسے کمزور دل ڈرائیورز پہ یہ وقت پل صراط پہ چلنے سے کم نہیں ہوتا۔
میں نے کہا بقر عید تو دراصل مردوں کا تہوار ہے۔ بکرا منڈی جانا ، پھر اسکا ایک تفصیلی معائنہ کرنا،  جانوروں کی تفصیلات حاصل کرنا، کیا عمر ہے کہ ہمارے یہاں قربانی کا جانور اور محبوب دونوں بالی عمر کے ہی پسند کئیے جاتے ہیں، کوئ شرعی عیب تو نہیں چاہے خود شریعت پہ عیب ہوں مگر قربانی کے جانور میں کوئ عیب میں ہونا چاہئیے ورنہ دنیا تُھو تُھو کرے گی، منہ کھلوا کر دانت گننا یہ خاصہ خطرے کا کام ہوتا ہے کہ جانور آپکی انگلیاں نہ گننے لگ جائے۔ اس لئے قربانی ان جانوروں کی ہوتی ہے جو کبھی مکتب نہ گئے ہوں۔ شاید افضل بھی انہی کی ہو۔ پھر چلا کر دیکھنا کہ الہڑ مٹیار کی طرح چلتا ہے کہ نہیں۔ لیکن اس چال میں چلن کا بانکپن ہونا چاہئیے۔ ورنہ کہیں ضعف چلن کی وجہ سے مسائل کھڑے ہوجائیں، خاص طور پہ گئیوں کا ضعف چلن ہمارے یہاں غیرت کا مسئلہ بن سکتا ہے جس میں قانون بھیگی بلی بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔   پھر قیمت کا تعین اور اس پہ بحث۔ اسکے بعد اپنی حد سے باہر جاتا دیکھکر اسے چھوڑنا، اپنی حد میں آتا دیکھ کر سوچنا کہ مبادا اس سے اچھا کوئ اور جانور مل جائے اور دوسرے کی حد میں جاتا دیکھ کر تائسف میں پڑنا کہ سال بھر اس نے ہم سے بہتر مال بنایا۔ اس طرح پوری بکرا منڈی کا ایک سیر حاصل تجزیہ جسکے بعد آپ محض میں میں اور بھیں بھیں  سن کر بتا سکتے ہیں کہ یہ کسی سرائیکی دوکاندار کا جانور ہے یا سندھ کے میدانوں سے آیا ہے۔ آیا خالص پاکستانی جینز رکھتا ہے یا کسی فرنگی ملک کے شاندار جینز میں بھی حصے دار ہے۔ یہاں بہت سارے سوالات کھڑے ہوتے ہیں مگر انہیں بٹھا دیتے ہیں کہ  عید پہ  قربانی بے زبان ، معصوم، 'سیدھی' سادی گئیوں اور بکریوں کی جائز  ہے ہماری نہیں۔
ایک دفعہ آپ جانور کے مالک ہو جائیں تو اسے اپنے محلے یعنی گھر تک پہنچانا بھی ایک مرحلہ ہوتا ہے۔ جانورلے جانے والی گاڑیوں کے مالکان سے حساب طے ہونے کے بعد جب اس کھلی گاڑی میں دوستوں کے ہجوم اور جانور کے ساتھ پیچھے جالی میں ٹنگ کر سہراب گوٹھ سے روانہ ہوتے ہیں اور  شہر کے درمیان سے گذرتے ہیں تو ایک خمار چڑھتا ہے جسے گائے کے پیشاب کی دھاراور گوبر کی بدبو بھی نہیں اتار سکتی۔
پھر گھر پہنچ کر ایک خلقت ، میرا پیا گھر آیا کے نعرے لگاتی، آپکے جانور کے دیدار کوبھاگی چلی آتی ہے۔ جانور کو گاڑی سے اتارتے وقت انتہائ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ نہ معلوم کیوں، اس بات کا احساس جانور کو بھی ہوتا ہے کہ یہ بھاگ نکلنے کے سنہری مواقع میں سے ایک ہے۔  جانوروں میں پلاننگ کرنے کے خامرے نہیں ہوتے اس لئے بہت محدود تعداد ہی ایسا کر پاتی ہے اور جب بھی کرتی ہے بغیر پلاننگ کے ہوتا ہے۔ اس لئے جہاں چاہے منہ اٹھائے دوڑ پڑتی ہے۔ ایسے موقع پہ آُپکے پاس بھی اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ یہ سوچیں کہ میں اگر گائے یا بکرا  ہوتا تو دوڑ کر کہاں جاتا۔ نتیجتاً ایسے کسی واقعہ کے پیش آنے کی صورت میں آپ اسی طرف ہو لیتے ہیں جہاں جانور جاتا ہے۔ باقی زمانہ بھی چلو تم ادھر کو گائے ہو جدھر کو کی تصویر بن جاتا ہے۔ ایسا وقت پھر مجھ جیسے ڈرائیور کے لئے روز قیامت بن جاتا ہے۔ کیونکہ میری بھی اس سلسلے میں کوئ پلاننگ نہیں ہوتی۔ اگر کوئ جانور میرے سامنے بھاگا چلا آرہا ہوتو میں بالکل صم بکم ہو جاءونگی۔ یہاں تک آپکو پتہ چل گیا ہوگا کہ پلاننگ کسے کہتے ہیں اور یہ بقاء اور قضا کے لئے کتنی ضروری ہے۔
اب فرض کیا کہ جانور کے سیدھے میرا مطلب سدھائے ہوئے ذہن میں ایسی کوئ بات نہیں آتی تو یہ مرحلہ بخیر و خوبی طے پا جاتا ہے۔ اور آپ اسے اسکی مرضی کے ساتھ اپنے گھر کے سامنے یا اندرکسی کھونٹے سے باندھ دیتے ہیں۔  اب کچھ لوگ جنہیں سیدھے سادے، شریف جانور پسند ہیں تو وہ نہایت حیا سے آنکھیں پٹپٹاتی گائے کی اس ادا پہ دل ہی دل میں نثار ہوتے رہتے ہیں۔
اگر جانور بھاگ جائے اور ستارےآپکے حق میں ہوں تو آپ اسے اپنی اور محلے والوں کی تگ و دو کے بعد دوبارہ پکڑ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ انسانی معالات کے بر عکس ایسی بھاگی ہوئ گائے پہ فخر و غرور زیادہ بڑھ جاتا ہے۔  پھڑکنیاں کھاتا ہوا  دل اپنے جانور کی اس ادا پہ قتل ہوتا رہتا ہے کہ کیا جاندار چیز ہے، ظالم لگتا ہے کمان سے نکلا تیر ہے۔
 اسکے بعد کیا ہوتا ہے اسے پڑھنے کے لئے پہلے پیرا پہ واپس جائیں۔
جانور کا کھانے پینے انتظام کرنا بھی  دیہاتوں سے وابستہ ہمارے رومانی تصورات کو نکھار دیتا ہے۔  ہمارے شہر میں اکثر گھر کنالوں اور مرلوں پہ نہیں بنے ہوئے اس لئے شہر کی گلیاں اس زمانے میں آدھی رہ جاتی ہیں کہ آدھی گلی میں ان جانوروں کی باپردہ رہائیش کے لئے کیمپس بنا دئیے جاتے ہیں۔ جہاں محلے کے مخنچو، چھٹنکو، دادا، ہیرو اور بدمعاش سب حسب ذوق و شوق حاضری دیتے ہیں۔  اور ادائے جانوراں سے شغل فرماتے ہیں۔
لیکن اسکے ساتھ ایک نہایت دلچسپ مرحلہ اپنے جانوروں کی سجاوٹ ہے۔ پورے شہر میں جا بجا جانوروں کی آرائیشی اشیاء کی دوکانیں ان دنوں سج جاتی ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ  اپنے جانوروں کو سجانے سنوارنے میں ہمارے مرد کتنی دلچسپی رکھتے ہیں۔ بعض اوقات گھر کے پرانے جانوروں کو ان قربانی کے جانوروں سے جیلسی محسوس ہوتی ہے۔ شہری خواتین اس چیز کو زیادہ دل سے نہیں لگاتیں۔ انکا خیال ہوتا ہے کہ اس بہانے ان پہ رہنے والی کڑی نظر بٹ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میٹھی عید پہ جس قدر پردے اور خواتین سے متعلق دیگر امور کا تذکرہ رہتا ہے بقر عید پہ یہ رجحان تقریباً ختم ہو جاتا ہے۔ اس لئے فلمی اداکارائیں بھی اس مہینے اپنا کوئ اسکینڈل بنوانے میں دلچسپی نہیں لیتیں۔
  ان دوکانوں پہ گلوں کے ہار، سینگوں میں ٹانگنے کی اشیاء، پیٹھ پہ بچھانے کی مختلف طرح کی چادر نما چیزیں، گلوں کی گھنٹیاں اور پیروں کے گھنگھرو شامل ہوتے ہیں۔ کچھ شوقین اس سب سے پہلے مہندی کی رسم بھی کرتے ہیں۔  گھنگھرو پہن کر جب جانور ٹھمک ٹھمک کر روڈ پہ چلتا ہے تو اس سے لا محالہ دل سے صدا نکلتی ہے کہ پائیل میں گیت ہیں چھم چھم کے تو لاکھ چلے رہ گوری تھم تھم کے اسکے علاوہ ڈرائیورز کو بھی یہ خبر ہو ہی جاتی ہے کہ اب کیا ہونے والا ہے۔  چونکہ خواتین کے لئے بجنے والا زیور پہن کر چلنا درست نہیں تو یہ آرزو بھی یہ گئیاں اور بکرے بکریاں پوری کرتے نظر آتے ہیں۔ اس بات کے ہم اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ کوئ خاتون کوئ چھنا چھن کرنے والا زیور پہن بھی لیں تو ہماری آنکھیں کسی گائے کا تصور کرتی رہتی ہیں۔
بقر عید پہ عشّاق کیا کرتے ہیں؟ میٹھی عید کی طرح گلی کے نکڑ یا چھت سے تاکا جھانکی یا فیس بک پہ ایک تحریری عید مبارک کے بجائے اس عید پہ موقع ہوتا ہے کہ آپ گائے کا حصہ لیکر انکے گھر پہنچ جائیں۔ بکرے کی ران یا گائے کا دس کلو کا پورا ایک بغیر ہڈی کا ٹکڑا انکے گھر والوں کو آپکے قدموں پہ ڈھیر کر دےگا۔ یہ کوئ مغرب نہیں کہ ڈائریکٹ محبوب پہ ہلہ مارا جائے۔  یہ مشرق ہے مشرق۔  ایک دفعہ گھر والوں کا دل مٹھی میں آجائے تو سمجھیں کہ اب محبوب چاہے بھی توآپ کے کھونٹے سے جان چھڑانی مشکل ہے۔ اسکے گھر والے اسے آپکے یہاں باندھ کر رہیں گے۔  البتہ اپنے گھر والوں کو اس ران یا گوشت کے ٹکڑے کی منزل آپ کہاں بتائیں گے یہ آپکی ذہانت اور محبت کی گہرائ پہ منحصر ہے۔
 عید میں سے اس تمام تر تفریح نکل جانے کے بعد خواتین کے لئے اس عید میں جو بچ جاتا ہے۔ وہ کچن میں نظر بند ہونا ہے۔ اس کے لئے وہ یا تو سال بھر کی جمع کی ہوئ ترکیبیں آزماتی ہیں یا پھر انکی اس بوریت کو دور کرنے کے لئے مختلف برانڈز کے تیار مصالحوں سے پرچون کی دوکانیں بھر جاتی ہیں۔ اس سے پھوہڑ عورتیں ہی نہیں سگھڑ مرد بھی بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنی سلیقہ مندی کی داد پاتے ہیں۔ اسکے علاوہ خاندان میں چلی آنے والی سینہ بہ سینہ تراکیب بھی ہوتی ہیں۔  ہم بھی کھانا پکانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ لیکن بات یہ ہے کہ ہمارے پاس جتنی تراکیب ہیں سب خاندانی ہیں  اس لئے انہیں افشا نہیں کیا جا سکتا۔ یوں ہماری مجبوری صرف مملکت یا کائینات کےراز افشا کرنا رہ جاتی ہے۔
لیکن ایک آسان سی ترکیب تو میں آپکو بتا سکتی ہوں۔ حسب مرتبہ گوشت لیجئیے اس میں حسب ذائقہ تمام مصالحہ جات ملا لیں۔ حسب وزن گوشت کچا پپیتا ملا دیں۔ حسب میسر وقت اسے پڑا رنے دیں اور پھر سیخوں پہ لگا کر بار بی کیو کر لیں۔  آپ کہیں گے یہ تو ہم بھی بتا سکتے ہیں۔ تو جو تراکیب  سینہ بسینہ نہ چلیں وہ بس ایسی ہی ہوتی ہیں۔ اب آپکو پتہ چل گیا ہوگا کہ خاندان کس طرح بنتے اور سنبھالے جاتے ہیں۔
میرے پیارے قارئین، یہ کراچی میں بقرعید کا ایک دھندلا سا خاکہ تھا۔ اس سے اندازہ ہوگا کہ ہمارے یہاں بقر عید ایک انڈسٹری ہی نہیں سارے کمرشل مصالحوں سے بھرپور ایک تہوار ہے اس لئے اتنا ہِٹ جاتا ہے۔ 

Saturday, November 13, 2010

بچوں کی ابتدائ تعلیم

کراچی میں سی آئ ڈی کی بلڈنگ پہ شدید دھماکہ ہوا۔ پوری عمارت تباہ، پندرہ سے زائد لوگ ہلاک۔ سوسے زائد زخمیوں کی بڑی تعداد سر پہ چوٹ کا شکار۔ ایک کلومیٹر کے علاقے میں دو سو سے زیادہ گھر تباہ۔  بس اس سے آگے میں اس پہ کچھ نہیں لکھنا چاہتی۔ البتہ ان لوگوں میں سے ہوں جو سوچتے ہیں کہ اس قتل و غارتگری، جنگ و جدل کو کیا ہمارے بچوں کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ کون ان دہشت گردوں کے ہاتھوں کو روکے گا اورکون انکے منجمد دماغوں کو زندگی کی قدر کرنے کی تحریک دے گا۔
-
-
-
-
میری ایک تبصرہ نگارماں ہیں اور ہر ماں کی طرح چاہتی ہیں کہ وہ اپنی بچی کی زندگی میں وہ سب آسانیاں دیں جو وہ دے سکتی ہیں۔ بچوں کے بارے میں سب سے پہلے تعلیم کا سوال اٹھتا ہے۔ 
 ذمہ دار والدین فکر مند رہتے ہیں کہ وہ اپنے بچے کی تعلیم کن بنیادوں پہ استوار کریں۔ کراچی میں  بعض اسکولوں میں بچوں کی پیدائیش کے فوراً بعد رجسٹریشن کرانا ضروری ہوتی اور بعض بچے سوا سال کی عمر میں  اسکول میں داخل کرا دئیے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ والدین کی اکثریت نہیں جانتی کہ یہ اسکول نہیں بلکہ پلے اسکول ہوتے ہیں۔ ان پلے اسکولوں میں جو کچھ ہوتا ہے وہ ماں باپ اپنے بچوں کو گھروں میں کرا سکتے ہیں۔ کیونکہ اس عمر میں بچوں کو کھیل ہی کھیل میں اپنے ماحول سے آگہی دی جاتی ہے اور زندگی کے ابتدائ ادب آداب سکھائے جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں ماءووں کی اکثریت چونکہ گھروں میں رہتی ہے اور انکے لئے اسکا وقت نکالنا مشکل نہیں بلکہ یہ انکی پہلی ترجیح ہونی چاہئیے۔ لیکن بد قسمتی سے ہماری ماءووں کی اکثریت یا تو خود ان پڑھ ہوتی ہے، وہ خود ہی اپنے ماحول سے آگاہ نہیں ہوتی تو وہ اس سلسلے میں چاہنے کے باوجود کچھ کرنے سے معذور ہوتی ہے۔
وہ مائیں جو اتنی پڑھی لکھی ہیں کہ کمپیوٹر استعمال کر سکیں  اور انکے گھروں میں کمپیوٹر موجود بھی ہے انہیں اپنے آپکو خوش قسمت سمجھتے ہوئے اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہئیے۔ ٹیکنالوجی کے صحیح استعمال سے آپ اپنے بچے کو اپنے گھر کے اندر اس سارے طریقے سے واقف کرا سکتے ہیں جو کہ والدین بہت زیادہ فیسوں کی ادائیگی اور دن رات کے تناءو کے بعد حاصل کرتے ہیں۔ دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے اور ہم اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے اپنے بچوں کو وہ تمام علم دے سکتے ہیں جو ترقی یافتہ ممالک میں دیا جاتا ہے۔ یوں ٹیکنالوجی نے تمام انسانوں کو برابر کی سطح پہ لا کھڑا کیا ہے۔
بچوں کی پہلی انسپیریشن انکے ماں باپ ہوتے ہیں۔ اگر گھر میں والدین کتابوں میں دلچسپی لیتے ہیں تو بچے بھی دلچسپی لینے لگتے ہیں انہیں کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔  اس لئے سب سے پہلے خود پڑھنے کی عادت ڈالنہ چاہئیے۔
بچوں ک تربیت میں ایک چیز کا خیال ضروررکھنا چاہئیے کہ جب بھی آپکا بچہ کوئ نئ چیز سیکھتا ہے چاہے وہ کتنی معمولی کیوں نہ ہو اسکی حوصلہ افزائ ضرور کریں۔ جب وہ آپکی ہدایات پہ عمل کرتا ہے اسے ڈھیر سارا پیار کریں اور خوب ساری تعریف۔ والدینکو بچوں کے سامنے لڑائ جھگڑے سے گریز کرنا چاہئیے۔ تعریف، محبت اور تحفظ کا احساس بچوں کے سیکھنے کے عمل کو مہمیز کرتے ہیں۔ ہر بچہ فطری طور پہ اپنے والدین کو خوش دیکھنا چاہتا ہے۔ اور ذرا سی تربیت سے وہ ہر کام آپکی مرضی کے مطابق کرنے لگتا ہے۔ سو تعریف اور محبت سب سے بڑی رشوت ہے۔
میں نے اپنی بچی کی ابتدائ تعلیمی سرگرمیوں کے لئے نیٹ گردی سے بڑا فائدہ اٹھایا اور آج بھی اٹھا رہی ہوں۔ 
بچوں کے سامنے چیزیں دوہراتے رہنے سے وہ اسے یاد کر لیتے ہیں۔ پھر انہیں رٹوانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کمپیوٹر پہ چیزوں کو دوہرانا آسان ہوتا ہے۔  بچوں کو چیزیں یاد کروانے کے بجائے انکے سامنے چیزیں دوہرائیں، ایک ہی ویڈیو بار باردکھائیں۔ مگر اس میں وقفہ رکھیں۔ ایکدن ایک چیز کروالی اور دوسرے دن دوسری۔ کتاب کو بار بار انکے سامنے رکھ کر پڑھیں۔ انہیں مارنے پیٹنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ لیکن اسکے لئے آپکے اندر ایک خوبی کا ہونا ضروری ہے اور وہ ہے صبر۔ 
میں نے اپنی بیٹی باقاعدہ تعلیم شروع کرنے کے لئے ڈیڑھ سال کی عمر میں اس لنک کا انتخاب کیا۔ اس سے پہلے وہ چھوٹے بچوں کے پزل کرتی تھی۔ یہ پزلز ابتدا میں تو مجھے  بیرون ملک سے آنے والے مہمانوں نے لا دئیے تھے۔  لیکن اب کراچی میں لکڑی کے یہ پزل بآسانی دستیاب ہیں۔ یہ مخلتف ساختیں کٹی ہوتی ہیں اور ان میں پلاسٹک کی میخ لگی ہوتی ہے جس سے بچے انہیں اٹھا کر دئیے ہوئے بورڈ پہ جما لیتے ہیں۔ لکڑی کے یہ پزل مختلف جانوروں سے لے کر انگریزی اور اردو کے حروف اور گنتی کے اعداد میں بھی مل جاتے ہیں۔ اعداد یا حروف کی باری تو بہت بعد میں آتی ہے پہلے بچوں کو بالکل سادہ سے پزل سے شروع کرائیں۔ جن کی بیرونی ساخت کم پیچیدہ ہو۔ جیسے جیسے وہ اسے کرنے میں مہارت حاصل کر لیں پیچیدہ پزل کروانا شروع کر دیں۔
ڈیڑھ سال کی عمر میں، مشعل نے بارنی شو دیکھنا شروع کیا۔ اور اسکی ایک ویڈیو سانگز ان دا پارک اسکی پسندیدہ ویڈیو تھی۔ یہ ویڈیوز کسی بھی اچھے ویڈیو سینٹر سے بآسانی دستیاب ہیں۔ کراچی میں رینبو سینٹر میں صرف پچاس روپے میں ایک ڈی وی ڈی مل جاتی ہے۔ ہمم، لیکن یہ پائیریٹڈ ہوتی ہیں۔
جب ہم سب گھر والوں کو بارنی کی موجود ساری ویڈیوز یاد ہو گئیں اور ہم اس قبل ہو گئے کہ اسکے گانوں کی دھن ترتیب دے سکیں اور اسکے گانے آئ لو یو پہ ہم ہرروز مشعل کے ساتھ دن میں چھ دفعہ پرفارم کرتے تو اس وقت ڈورا دی ایکسپلورر نے زندگی کی اس گتھی کو سلجھایا۔ بارنی نے جہاں مشعل کو انگلش زبان سے واقفیت دی بچوں کے ناز و انداز سکھائے وہاں ڈورا نے مسائل  اور انکے حل کی طرف مشعل کی توجہ مبذول کروائ۔ مجھے بھی یہ ویڈیوز خاصی پسند ہیں یہ نہ صرف بچوں کی دماغی صلاحیتوں کو مہمیز کرتی ہیں بلکہ انہیں کافی کچھ سیکھنے میں مدد کرتی ہیں۔ یہیں سے مشعل کی زندگی میں یہ جملہ داخل ہوا , آئ ڈِڈ اٹ۔ اسکے بعد مشعل نے کافی انگریزی اس سے سیکھی بلکہ اسپینش بھی۔ اسے اسپینش گنتی بھی دس تک یاد ہو گئ تھی۔ انکی پسندیدہ ڈورا سیوز مر میڈ کنگ ڈم بلا مبالغہ دو مہینے تک روزانہ دو دفعہ چلتی تھی۔ اور اسے دیکھنے کے دوران انکی کمنٹری بھی، اب یہ ہونے والا ہے۔ اس میں مشعل کا پسندیدہ سین ڈورا کا ایک مرمیڈ میں تبدیل ہونا تھا۔
لیکن اس دوران ہمارا باقاعدہ تعلیمی سلسلہ بھی جاری رہا۔ اینیمل زو سے ہم نے انگریزی کے بڑے حروف سیکھے۔ جبکہ مونٹیسوری میں پہلے چھوٹے حروف سکھائے جاتے ہیں یہ پتہ چلتے ہی میں نے چھوٹے حروف کی ویڈیو تلاش کی اور میں ایک اور مزے کی سائیٹ پہ پہنچی جسکا نام ہے سپر سمپل سونگز۔ یہاں پہ گنتی کے اعداد سکھانے  کے لئیے مدد ملی۔ اور یہیں سے دنوں کے نام سیکھے۔ یہاں بچوں کے لئے مزے کی انگلش نظمیں اور سرگرمیاں موجود ہیں۔  انگلش نظموں کے لئے مجھے ایک اور سائیٹ بے حد پسند ہے جو ہے کلّن کی سائیٹ۔
ہمم، لیکن مونٹیسوری کی جس چیز سے اکثر والدین بڑے مرعوب ہوتے ہیں اور انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ اسے بچوں کو کسطرح سکھائیں۔ وہ ہیں انگریزی حروف کی آوازیں یعنی فونیٹک ساءونڈز۔ اسکے لئے بہت ساری سائیٹس موجود ہیں ابتداً جو سائیٹ مل وہ ایک ایسی خاتون کی تھی جو اشاروں کی زبان بھی اپنی بچی کو ساتھ ساتھ سکھا رہی تھیں۔ اس طرح مشعل نے بھی کچھ اشارے سیکھے۔ یوں آوازوں والا مرحلہ نہایت ہمواری سے طے ہوا۔ مونٹیسوری جانے والے بچوں کی ماءووں کو یقین نہیں آتا تھا کہ مشعل نے حروف کی آوازیں گھر پہ سیکھی ہیں۔   
رنگوں کی پہچان، مہینوں کے نام اور چھوٹے چھوٹے انگریزی سوال و جواب کے لئے ایک اور دلچسپ سائیٹ ہے نام ہے اسکا بزی بیورز۔ اسی طرح ایک اور دلچسپ سائیٹ ہے نام ہے اسکا، لیٹس اسٹارٹ اسمارٹ۔
اردو حروف کے لئے پریشانی ہوئ۔ جو ایک آدھ سائیٹ ملیں وہ اتنی دلچسپ نہ تھیں۔ اگرچہ کہ میں نے انہیں پھر بھی مشعل کو دکھایا۔ اسکے لئے ایک ویڈیو میں نے خود بھی بنائ جو اس لنک پہ موجود ہے۔
یہ تو تھی اس نیٹ گردی کی ایک مختصر داستان، جو کہ خاصی طویل ہے لیکن یہ پوسٹ اس سے زیادہ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔  آجکل ہم  تصویروں میں فرق معلوم کرنا، ،جگسا پزل اور بھول بھلیاں کر رہے ہیں۔ یہ نیٹ پہ بھی موجود ہیں۔ نیٹ پہ بچوں کے لئے ایکٹیویٹیز کا ایک خزانہ موجود ہے۔ بس اسے آپکا وقت اور دلچسپی چاہئیے۔
ان تمام چیزوں کے ساتھ میں نے جس چیز کا خیال رکھا وہ یہ کہ بچی کے سوالوں کے آسان مگر صحیح جوابات ہونے چاہئیں۔ جو کچھ بھی ہم اپنی زندگی میں کر رہے ہوتے ہیں اسے آسان الفاظ اور آسان خیال میں بتاتے رہیں۔
میں سوچتی ہوں کہ  سوائے اسکے کہ بچوں کو اسکول میں دوسرے بچوں کی سنگت ملتی ہے اور وہ اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اگر آپ پڑھے لکھے والدین ہیں اور آپ کے پاس وقت ہے تو اس عمر میں بچوں کو اسکول بھیجنا بالکل ضروری نہیں۔  اپنی عمر کا یہ حصہ ہم میں سے بہت کم کو اور بہت ٹوٹا پھوٹا یاد ہوتا ہے۔ مگر اپنے بچوں کے ساتھ مونٹیسوری پڑھنا اسے سحر انگیز بنا دیتا ہے۔

یہ تحریر امن ایمان کی فرمائیش پہ لکھی گئ ہے۔ امن ایمان میرا خیال ہے کہ آپکے سوال کا جواب آپکو مل گیا ہوگا۔