|
قائد اعظم جوانی میں |
|
قائد اعظم اور مسلم لیگی رہ نما |
|
قائد اعظم اپنے دوستوں کے ساتھ |
|
قائد اعظم کی پہلی بیوی، ایمی بائ جو انکی والدہ کی پسند تھیں اور شادی کے کچھ عرصے بعد انتقال کر گئیں جبکہ وہ لندن میں اپنی وکالت کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ |
|
قائد اعظم کی دوسری بیوی رتی بائ، جن سے انہوں نے پسند کی شادی کی۔ ان سے انکی اکلوتی اولاد دینا جناح تھیں۔ |
|
قائد اعظم اپنی بہن فاطمہ جناح کے ساتھ |
|
قائد اعظم اور فاطمہ جناح اپنے دوستوں کے ساتھ |
|
قائد اعظم اپنی اکلوتی بیٹی دینا کے ساتھ |
|
قائد اعظم اپنی بیٹی اور بہن کے ساتھ |
قائد اعظم اپنے خاندان کے لوگوں کے ساتھ
|
قائد اعظم حیدرآباد دکن کی خواتین کے ساتھ |
Jeetay hein Shaan say, Martay hein Shaan say. [ Akhri Tasveer Walay Log Intizar Karaen ky essi nalay me kabhe sailab ae aur ess azzab say faore nijat pa Jae].
ReplyDeleteسابقہ تبصرہ غلطی سے پوسٹ ہو گیا ہے اس حذف کردیں۔ شکریہ
ReplyDeleteتصاویر میں سالوں کے وقت کو سیکنڈوں میں گُزر تے ہوئے دیکھ کر بُہت مزا آیا ۔ آپکا بُہت شُکریہ۔
ReplyDeleteہائیں۔۔
ReplyDeleteاے کی اے جی؟
امیر المومنین حضرت مولانا قائداعظم سنوکر کھیلتے ہوئے؟
تصویر میں دو عدد ڈوگیوں کے ساتھ؟
"کافر اعظم" کو مساں مساں مومن کیا ہے۔ اور آپ ہیں کہ پھر یہ تصاویر دکھا کر منہ کا مزا کرکرا بلکہ روشن خیالیہ کررہی ہیں۔
ہممم۔۔۔میں سمجھ گیا۔ یہ ضرور آپ کی کوئی روشن خیال سازش ہے۔
آج آپ کو کینیڈا سے واہ واہ نئیں مل سکتی۔
سوری جی۔
ہمم، شکریہ عثمان، غلطی کی نشاندہی کا۔ یہی میں سوچ رہی تھی کہ میری اس محنت پہ وہ داد کیوں نہیں ملی جو ملنی چاہئیے تھی۔ لیکن اب سوچتی ہوں کہ اس پہ وہ پھٹکار کیوں نہیں ملی جو ملنی چاہئیے تھی۔
ReplyDeleteقائد اعظم ساڑھی پہنی ہوئ خواتین کے ساتھ، قائد اعظم اتنی ساری خواتین کے ساتھ، قائد اعظمم کی بہن انکے ساتھ انکی ہی طرح گھڑ سواری کرتے ہوئے۔ قائد اعظم پالتو کتوں کے ساتھ یہ سب تو غلط تصویریں ہیں۔ سو تو ہے۔
لیکن آپکو میری آخری تصویر کے انتخاب پہ بھی تو نظر رکھنی چاہئیے۔ میں نے سوچا کون سی ڈالوں وہ جس میں خود کش حملے میں مرنے والوں کی لاشیں ہیں یا وہ جس میں انسان اور جانور سب برابر ہیں اور پھر میں نے دوسری کو ترجیح دی۔ کیا اب بھی آپ داد نہیں دیں گے۔
ملی جلی تصویروں کے اس مرقعے کے ذریعے ہم سب کے عظیم محسن کی یاد تازہ کرنے کا شکریہ۔
ReplyDeleteمیں سمجھتا ہوں کہ پالتو کتوں، ہیم برگروں، اور گئے گزرے زمانوں میں مے نوشی کے حوالوں کے علاوہ بھی قائدِ اعظم کو یاد کرنے کے کئی حوالے ہیں۔ خصوصا اسلام اور مسلمانوں کے لیے اُن کی بے پناہ محبت کے عملی مظاہروں، اور اسی سلسلے میں اُن کے زریں اقوال کے توسط سے۔
یوں لگتا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک قائد اعظم کی پیدائش ۱۱ اگست ۱۹۴۷ کو سندھ اسمبلی کی عمارت میں ہوئی اور وہیں اپنی زندگی کی پہلی اور آخری تقریر کرنےکے بعد اُن کا انتقال ہو گیا۔اللہ اللہ خیر سلا۔
لیکن تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو ایسا نہیں ۔ سرکارِ دوعالم ﷺ کا نام دیکھ کر لنکنز ان میں داخلہ لینے والے ہمارے عظیم قائد اپنی زندگی میں ذہنی ارتقا کے کئی ادوار سے گزرے۔مثلا کبھی وہ ہندو مسلم اتحاد کے زبردست سفیر بھی رہے۔ انھوں نےکانگرس کے پلیٹ فارم سے تقسیم بنگال پر اپنے تحفظات بھی ظاہر کیے۔ انھوں نے تلک جیسے ہندولیڈر کی وکالت بھی کی۔برصغیر کو ہلا کر رکھ دینے والی مسلم تحریک خلافت کی مخالفت بھی کی۔ ۱۹۲۰ کے ناگپور کانگرس سیشن میں مذہب کے سیاسی استعمال پر گاندھی جی کے خلاف تن تنہا ڈٹ گئے۔ اسی نکتے پر کانگرس سے الگ ہو گئے۔ بعد ازاں مقامی سیاست کی مایوس کن روش سے تنگ آکر جلا وطنی بھی اختیار کی۔ الغرض اُن کی سیاسی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے۔ آخر کا ر اُنھوں نے مسلمانوں کی علیحدہ دینی شناخت کی بنیاد پر ہی پاکستان کا مطالبہ کیا اور ایک بے مثال تحریک کے نتیجے میں ہمارے لیے یہ گوشہ عافیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔
انھوں نے ۱۱ اگست ۴۷ سے پہلے اور اس کے بعد بھی بے شمار دفعہ اسلام کی بطور ایک نظامِ حیات توضیح و تشریح کی ہے۔ ان سب کے حوالے کی یہاں جگہ نہیں ۔ میں اپنے روشن خیال دوستوں کو اُن کی آخری سرکاری تقریب ( یکم جولائی ۱۹۴۸ کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح) سے صدارتی خطبے کے مطالعے کی دعوت دوں گا۔ اس کی اہمیت ۱۱ اگست والی تقریر سے کسی طور کم نہیں ہے کیونکہ قائد نے سخت بخار ہونے کے باوجود اس تقریب کی صدارت فرمائی اور اسلام کے معاشی نظام کے نفاذ میں اپنی گہری دلچسپی ظاہر کی۔ ملاحظہ فرمائیے بظاہر روشن خیال، لیکن انسانیت کے لیے تباہ کن ،مغربی نظام کےبارے میں اُن کے خیالات عالیہ اورمنصفانہ اسلامی نظام معیشت کی ضرورت پر زور۔
I shall watch with keenness the work of your Research Organization in evolving banking practices compatible with Islamic ideas of social and economic life. The economic system of the West has created almost insoluble problems for humanity and to many of us it appears that only a miracle can save it from disaster that is not facing the world. It has failed to do justice between man and man and to eradicate friction from the international field. On the contrary, it was largely responsible for the two world wars in the last half century.
The Western world, in spite of its advantages, of mechanization and industrial efficiency is today in a worse mess than ever before in history. The adoption of Western economic theory and practice will not help us in achieving our goal of creating a happy and contended people. We must work our destiny in our own way and present to the world an economic system based on true Islamic concept of equality of manhood and social justice. We will thereby be fulfilling our mission as Muslims and giving to humanity the message of peace which alone can save it and secure the welfare, happiness and prosperity of mankind.
آخری تصویر آپ اپنی ڈال دیتیں تو زیادہ اچھا ربط بن جاتا
ReplyDeleteقائد اعظم حیدرآباد دکن کی خواتین کے ساتھ
ReplyDeleteپس منظر بتا رہا ہے کہ آرٹس کالج عثمانیہ یونیورسٹی کی باہری سیڑھیوں کے پاس والی تصویر ہے۔
محترمہ ڈاکٹر عنیقہ ناز صاحبہ
ReplyDeleteمیرا تبصرہ آپ نے بین کر دیا حالانکہ وہ غیر متعلقہ تھا نہ ہی کسی قسم کی فحاشی سے آلودہ۔سب سے بڑی بات یہ کہ اس میں یکم جولائی ۱۹۴۸ کو قائد اعظم کی آخری سرکاری تقریر کا اقتباس تھا جس میں انھوں نے مغرب کے تباہ کن معاشی نظام کے مقابلے میں اسلامی اقتصادی نظام میں اپنی دل چسپی ظاہر فرمائی تھی۔
شاید میری بات درست ہی ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک قائد اعظم ۱۱ اگست ۱۹۴۷ کو سندھ اسمبلی کی عمارت میں پیدا ہوئے اور اُسی دن وہاں ایک تقریر فرمانے کے بعد انتقال فرماگئے۔ اللہ اللہ خیر سلّا۔ اس سے پہلے اور بعد میں اگر انھوں نے اسلام اور مسلمان ملت کے حوالے سے خواہ سینکڑوں بار ہی اظہارِ خیال کیوں نہ فرمایا ہو، روشن خیال مذہب پرستی میں اس کے ذکر کی قطعا کوئی گنجائش نہیں ۔ بلکہ اس معاملے میں کتمانِ حق کی راہ اختیار کرنا بہتر بلکہ بہت ضروری ہے۔ بہر حال ایک بار پھر عظیم قائد کا منصفانہ اسلامی نظام معیشت کے حوالے سے قولِ زریں یہاں درج کر رہا ہوں۔ اگر اس پر عمل ہو جاتا تو شاید آپ آخری تصویر درج کرنے کی نوبت پیش نہ آتی بلکہ یہ تصویر وجود میں نہ آسکتی۔
I shall watch with keenness the work of your Research Organization in evolving banking practices compatible with Islamic ideas of social and economic life. The economic system of the West has created almost insoluble problems for humanity and to many of us it appears that only a miracle can save it from disaster that is not facing the world. It has failed to do justice between man and man and to eradicate friction from the international field. On the contrary, it was largely responsible for the two world wars in the last half century. The Western world, in spite of its advantages, of mechanization and industrial efficiency is today in a worse mess than ever before in history. The adoption of Western economic theory and practice will not help us in achieving our goal of creating a happy and contended people. We must work our destiny in our own way and present to the world an economic system based on true Islamic concept of equality of manhood and social justice. We will thereby be fulfilling our mission as Muslims and giving to humanity the message of peace which alone can save it and secure the welfare, happiness and prosperity of mankind.
غلام مرتضی صاحب، بلاگسپاٹ کے سسٹم میں کچھ ڈیفلاٹ خرابی ایسی ہے کہ بعض تبصرے اسپیم میں چلے جاتے ہیں۔ اسپیم چیک کرنے کا دھیان ہر وقت نہیں آتا اور یوں کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ انکا تبصرہ بین کر دیا گیا۔ جب میں آپکے اس سے پہلے تلخ و شیریں ہر طرح کے تبصرے ڈال چکی ہوں تو اس بارے میں کیوں بد گمانی۔
ReplyDeleteقائد اعظم نے اپنی زندگی میں ہر طرح کا رویہ رکھا، اسلام کی بھی بات کی۔ آخری تصاویر میں تو وہ اپنی عمر کے آخری حصے پر کھڑے ہیں۔ وہاں انہوں نے کیا خواتین کے ساتھ تصویر بنوانے سے منادی کی۔ کیا انہوں نے خواتین سے کہا کہ وہ ساڑھیاں نہیں پہنیں یہ غیر اسلامی لباس ہے۔ انکی بہن ساری عمر انکے شانہ بشانہ رہیں۔ کیا انہوں نے اپنی بہن کو کہا کہ انہیں گھر میں رہ کر خدا کے قریب رہنا چاہئیے۔
آجکے پاکستان کے نزدیک انہوں نے اپنی بیٹی کو ایک پارسی سے شادی کرنے کے نتیجے میں عاق کر دیا تھا جبکہ وہ مبلغ ایک لاکھ روپے جو اس زمانے کے لحاظ سے ایک خاصی بڑی رقم تھی اپنی بیٹی کے نام وصیت میں چھوڑی۔
اور بیت سی باتیں انکی زاتی زندگی سے متعلق ہیں جو آج کے پاکستان میں چند ایک کو ہی پتہ ہونگیں کیونکہ اس سے انکے مولانا بنانے کے امیج پہ اثر پڑتا ہے اور اس سے تو آج کی اصطلاح روشن خیال سے کہیں آگے بڑھے ہوئے نظر آئیں گے۔
آخری تصویر میں فاطمہ جناح اپنے بھائ کی قبر پہ ہیں۔ کیا فاطمہ جناح کو معلوم نہ تھا کہ انکے بھائ کیا سوچ رکھتے ہیں پھر وہ ساٹھ کی دہائ میں الیکشن کے لئے کیوں کھڑی ہوئیں۔ جبکہ آج کے پاکستان میں نہ صرف عورت کی حکمرانی نا جائز ہے بلکہ اسے اپنے گھر کے اندر بھی بڑے فیصلے کرنے سے اجتناب کرنا چاہئیے۔
قائد اعظم کی ذاتی زندگی ان نظریات کے بر عکس تھی جو ان سے ایک اور طبقہ انتہائ شد و مد کے ساتھ منسوب کرتا ہے۔
یہ میں نہیں یہ تصاویر کہتی ہیں۔
اس بات پہ پہلے بھی بحث ہو چکی ہے کہ پاکستان کا قیام بر صغیر کے مسلمانوں کے لئے آیا۔ اسی لئے مودودی صاحب کو اعتراض تھا کہ صرف مسلمانوں کے لئے نہیں اسلام کے لئے بات کی جائے تو ہم قیام پاکستان کی تحریک میں شامل ہونگے۔
یہ کون کہتا ہے کہ ہندو اور مسلمان ایک ہیں۔ انکے درمیان مذہب کا سب سے بڑآ فرق ہے جو مختلف معاملات میںحارج ہوتا ہے۔ مگر یہ کہتے ہیں کہ آج مولانا صاحبان جس اسلامی نفاذ کی بات کرتے ہیں وہ کسی کا بھی مطمح ء نظر نہیں تھا۔
یہ مطمح ء نظر نہیں تھا کہ پاکستانی دنیا کی ہر ضرورت، ہر مسئلے کو چھوڑ کر ایکدوسرے کے مذہبی رجحان پہ نظر گاڑے بیٹھے رہیں۔ اور جب کسی سے ملیں تو انہیں سب سے زیادہ اس بات کی فکر ہو کہ یہ کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے، کس امام کا چاہنے والا ہے، کس فقہے کو فالو کرتا ہے، حدیث پہ یقین رکھتا ہے یا نہیں۔ چاہے وہ آپکے بچوں کو پولیو کے ٹیکے پلانے آیا ہو۔ اور چاہے ان سب کی فکر کرنے والے کو اس چیز میں دلچسپی نہ ہو کہ اسکے محلے کے پاس جمع کوڑے کو ڈھیر کو میونسپل کمیٹی والوں نے سالوں سے صاف کیوں نہیں کیا۔
سب سے پہلے تو استانی جی کو متوقع پھٹکار بہت بہت مبارک ہو۔
ReplyDelete:)
اس کے بعد مذہب پرستوں سے عرض ہے کہ محض قائد اعظم کی آخری زندگی کی چند تصاویر اور تقاریر ہی نہیں۔۔۔ ان کی پوری زندگی پر نظر دوڑائیے۔ معیشت تو ایک طرف ، مذہب پرستوں کے جیب میں ایسے بیانات بھی ہیں جن میں قائد اعظم آخری عمر میں مغربی جمہوری نظام کو "اسلامائز" کرکے مذہب پرستوں کے لئے جمہوریت حلال کئے دے رہے ہیں۔
قائد اعظم نے بحثیت گورنر جنرل جو بیانات دیے ان کا سیاق سباق اور پس منظر سمجھنے کے لئے خود قائد کی زندگی اور شخصیت کافی ہے۔ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ قائد کا مدعا ان نظریات اور خواہشات سے بہت مختلف ہے جو عصر حاضر کے مذہب پرست پروجیکٹ کرنے کوشش کرتے ہیں۔
hypocrisy......thanks
ReplyDeletewah kamal kr dia madam
ReplyDelete