Wednesday, September 30, 2009

جذبات کی جنگ اور ایموشنل کوشنٹ

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تیری یاد تھی اب یاد آیا
شاعر کے اس شعر کو کہنے کی وجہ کچھ بھی ہو ایک بات تو طے ہے کہ اس شعر میں ایک بڑا نکتہ ہے جس پر آجکل کی انسانی رویوں پر تحقیق کرنے والے سائنس دانوں کی گہری نظر ہے اور وہ ہے انسان اور جذبات کا تعلق۔ اسی تعلق کی جڑیں نکالتے نکالتے ایموشنل کوشنٹ کی اصطلاح سامنے آتی ہے۔جہاں آئ کیو دماغی کارکردگی کو تولتا ہے اور کہتا ہے کہ اسکی مقدار کو بڑھایا نہیں جا سکتا ۔ وہاں ایموشنل کوشنٹ وہ خاصیت ہے جو کہ مناسب تربیت سے بہتر جا سکتی ہے۔
ایموشنل کوشنٹ انسانوں کی وہ صلاحیت ہوتی ہے جس سے وہ اپنے جذبات کو محسوس کرتے، سمجھتے اور پر اثر طریقے سے اسے انسانی توانائ، معلومات، تعلقات کو استوار کرنے اور اپنے اثر ونفوذ کو بڑھانے کے لئیے استعمال کرتے ہیں۔
اسکا پہلا مرحلہ اپنے آپکو جاننا ہوتا ہے۔شاعر اپنے آپکو اس حد تک سمجھتا ہے کہ اپنے دل کے دھڑکنے پر وہ غور کرتا ہے کہ میرے دل کے غیر معمولی انداز میں دھڑکنے کی وجہ کیا ہے۔ ایک کامیابی کی تمنا رکھنے والے شخص کو سب سے پہلے اپنے آپکو سمجھنا پڑیگا۔ ہم کیا چاہتے ہیں؟ یہ بہت اہم سوال ہے۔لوگ اپنے مسائل کا انبار لئے پھرتے ہیں کہ کوئ انکا مسئلہ حل کردے۔ لیکن وہ اس بات سے آگاہ نہیں ہوتے کہ وہ خود کیا چاہتے ہیں۔ اپنے آپ سے ملاقات کریں اور اپنے آپ سے سوال کریں اور پھر اپنے اندر  سے اس جواب کو ایمانداری سےسنیں جو آپکا اندر آپکو سنا رہا ہے۔ آپکی بیشتر کمزوریاں اس طریقے سے آپکے سامنے آجائیں گی اور پھر آپ انہیں حل کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ زندگی میں پیش آنیوالی الجھنیں اکثر اسی طرح اپنے آپ سے ملاقات کر کے حل کی جا سکتی ہیں۔ شرط یہ ہے کہ اپنے سامنے حاضری پوری ایمانداری کے ساتھ دیں۔ اور بہانے نہ بنائیں۔
جس لمحے ہم حالات کی ایک مکمل تصویر اپنے سامنے لاتے ہیں عین اس لمحے اسکی ساری خامیاں بھی ہمارے سامنے آجاتی ہیں۔
اس سکے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اپنے احساسات کو بیدار رکھتے ہوئے جب ہم مختلف تجربات سے گذرتے ہیں تو ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہم اس تجربے سے کیا کیا چیزیں حاصل کر سکتے ہیں اور اس سے ہماری زندگی میں کیا تبدیلیاں آسکی ہیں
اسکی اہمیت یوں بھی ہے کہ انسانی دماغ ک کام کرنے کی بنیاد چیزوں کو آپس میں کمپیئر کر کے فرق نکالنے سے منسلک ہے۔ آپ میں سے کئ ایک نے وہ پزلز کئے ہونگے جس میں دو تصویروں کے درمیان فرق تلاش کرنے کو کہا جاتا ہے۔ اپنی عملی زندگی میں بھی انسانی دماغ اسی طرح سے آنیوالی صورتحال کو پچھلی والی سے مقابلہ کر کے نئ معلومات کو اسکے حساب سے جمع کرتا جاتا ہے۔
جب ہم اپنے آپکو پڑھنے کے ماہر ہوجاتے ہیں تو دوسروں میں بھی دلچسپی لینے لگتے ہیں اور انکے بارے میں اندازہ لگانے لگتے ہیں کہ اب اس طرح کی صور تحال میں دوسرا شخص کیا کیا کرسکتاہے۔ اگر آپ انسانی جذبات اور انکے ردعمل کو بہتر سمجھتے ہیں تو آپ بہت اچھی طرح آنیوالے حالات کو اور متعلقہ اشخاص کو اپنی آسانیوں کے لئیے استعمال کر سکتے ہیں۔
اسکی مثال ایسی ہے کہ اگر آپ کو یہ اندازہ ہو کہ انرویو ک پینل میں ایک شخص کو اس مضمون میں بڑی دلچسپی ہے تو آپ انٹرویو کے وقت اسکی متعلقہ فیلڈ کی بہتر تیاری کر کے اسے حیران کر سکتے ہیں۔ اور انٹرویو کے وقت انٹرویو پینل میں موجود اشخاص کے رد عمل سے اندازہ کر پائیں گے کہ یہ گفگتگو اب کس نہج پہ جا سکتی ہے۔
جذبات، خیالات اور سیکھنے کا عمل ایکدوسر سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہی چیزیں ہمیں چیزوں کی وجوہات کی طرف لےجاتی ہیں۔ اور وجوہات جان لینے کے بعد اس سمت میں کام کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
 دنیا صرف ذہین لوگوں کی نہیں ہے۔ بلکہ دیکھا جائے تو بے انتہا ذہین لوگ اپنے ماحول کے ساتھ نہیں چل پاتے اور بیشتر ذہین لوگ زمانے کی نیرنگی کا شکار ہونے  اور موجود نظام سے مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے کچھ غیر معمولی کرنے سے پہلے ہی ختم ہوجاتے ہیں۔
اسی بات کو ڈارون قوت بقاء کا نام دیتا ہے۔  اسکے مطابق جانداروں کی وہ قسمیں زندگی کی جنگ میں جیت جاتی ہیں اور انہوں نے اب تک اپنے آپ کو باقی رکھا ہوا ہے جو اپنے آپ کو ایک نظام میں اس طرح رہنے کے قابل بنا لیں جس میں انکے اندر اتنی لچک ہو کہ وہ بوقت ضرورت بدلتے ہوئے نظام کے مطابق اپنے آپکو ایڈجسٹ کر لیں اور نظام کے سخت ترین حالات کو بھی برداشت کر لیں۔ جو جاندار اس قسم کے حالات کا مقابلہ نہیں کر پاتے وہ معدوم ہو جاتے ہیں۔
بالکل اس طرح جو لوگ انسانی نظام کے چیلینجز کو نہیں سمجھتے۔ وہ اس نظام کا حصہ نہیں بن پائیں گے۔ یہ ایک تلخ ترین حقیقت ہے لیکن اسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ اب کوئ شخص کتنی خوبی سے اپنی مرضی اور بنیادی اخلاقیات کو نبھاتے ہوئے ان چلینجز کا سامنا کرتا ہے اسکا ایموشنل کوشنٹ اتنا ہی زیادہ ہوگا۔
یقیناً ہم میں سے ہر ایک کی کوشش یہی ہونی چاہئیے کہ سیکھنے کے عمل اور ترقی اور کامیابی کے زینے کو چڑھتے ہوئے دوسروں کو دھکا نہ دیں اور نہ انہیں دوسروں کے قدموں تلے روندنے کے لئیے چھوڑ دیں کہ باقی جانداروں اور انسان میں اسی وصف کی وجہ سے فرق ہے۔ اور وہ ہے درد دل۔

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئیے کچھ کم نہ تھے کر وبیاں

تو جناب اپنے جذبات کو مناسب شکل دیں اور دوسروں کے جذبات کو اپنے مواقع بہتر بنانے کے لئیے استعمال کریں اور ہاں زندگی میں کسی بھی مرحلے پر اپنی حس مزاح کو ختم نہ ہونے دیں۔
اپنی اگلی پوسٹ میں، میں ایموشنل کوشنٹ کے ایک سوالنامے کو ضرور زیر بحث لانا چاہونگی کہ یہ نکات مزید واضح ہو جائیں۔

ریفرنس؛
ایمو شنل کوشنٹ

Monday, September 28, 2009

آئ کیو، کم یا زیادہ

میں کافی دنوں سے ایک موضوع پر لکھنا چاہ رہی ہوں، اور موضوع ہے ملازمتی انٹرویو کی تیاری۔ لیکن اس سے پہلے میں سمجھتی ہوں کہ کچھ اور چیزوں کو موضوع گفتگو بنا نا چاہئیے تو آج اس سیریز کی پہلی پوسٹ ہے۔ اور اس میں, میں آئ کیو ، جو کہ مخفف ہے انٹیلیجنس کوشنٹ کا، اسکے بارے میں کچھ لکھنا چاہونگی۔
ڈیوڈ ویکسلر ایک امریکن نفسیات داں،  نے انیس سو انتالیس میں اس ٹیسٹ کو ترتیب دیا۔ ویکسلر نے انسانی ذہانت کو اس طرح بیان کیا کہ یہ انسانوں کی عمومی صلاحییت ہے جس  سے وہ با مقصدعمل انجام دیتے، توجیہاتی سوچ رکھتے اور اپنے ماحول کے تقاضوں کو سمجھتے ہیں۔ آئ کیو کو متائثر کرنے والے عوامل عمومی صحت، والدین کی سماجی حیثیت اورجینیاتی سطح پر ذہانت کی منتقلی ہو سکتی ہے۔ اسکا تعلق جنین کی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور اس وقت کے ماحول سے بھی ہو سکتا ہے لیکن سر دست اتنی تفصیلات ہمارےلئیے ضروری نہیں۔
یہ ذہنی استعداد کو جانچنے کا ایک طریقہ ءکار ہے۔ ابتدا اسے ذہنی طور پر کمزور بچوں کے لئیے استعمال کیا جاتا تھآ۔ لیکن بعد میں اسے مختلف ملازمتوں کے لئے منعقدہ ٹیسٹس میں بھی استعمال کیا جانے لگا۔
 ۔ ایک اوسط شخص کا آئ کیو عام طور پر سو کے آس پاس ہوتا ہے۔ پچھتر سے کم آئ کیو رکھنے والے کسی ذہنی کمزوری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ایک سو بیس سے زیادہ رکھنے والوں کو عام طور پر بہتر قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن اس میں عام طور سے  ماحول کی تبدیلی، تعلیم اور ٹیکنالوجی سے آگاہی بھی شامل ہوجاتی ہے۔
نیٹ پر فراہم کردہ  آئ کیو ٹیسٹس معیاری ٹیسٹس نہیں ہوتے ہیں تاہم آپ کھیلنے کے لئے انہیں استعمال کر سکتے ہیں۔ اور ایک اندازہ جو کہ غلط بھی ہو سکتا ہے اپنے بارے میں حاصل کر سکتے ہیں۔
آئ کیو کے بارے میں یہ یاد رہنا چاہئیے کہ یہ ایک اندازاً یا نسبتی جانچ ہے۔  اسکا انحصار پیدائش کے وقت سے آپکو حاصل ہونے والے علم ، آپکے ارد گرد کے ماحول میں تبدیلیاں اور رنگا رنگی، مختلف لوگوں اور مختلف حالات سے ٹکراءو سے بھی ہوتا ہے۔ اگرچہ کہ کہا یہ جاتا ہے کہ سولہ سال کے بعد آئ کیو ایک لیول پہ آکر رک جاتا ہے۔ لیکن میں چونکہ انسانی صلاحیتوں کے لامحدود ہونے پر یقین رکھتی ہوں اور اس چیز پر بھی یقین رکھتی ہوں کہ کائنات میں کوئ چیز ناممکن ہونے کی اصطلاح میں شامل نہیں، بس ارادہ مستحکم اور عمل پیہم ہونا چاہئیے تو ذہنی استعداد کے یہ ٹیسٹس اپنے طور پر ایسی کوئ حیثیت نہیں رکھتے۔
 دماغی فعالیت کو بڑھانے کے لئیے بہت ساری کتابیں ایسی ملتی ہیں جو دماغی ورزش کے لئیے اچھی ہوتی ہیں ان میں موجود پزلز کو بھی وقتاً فوقتاً اپنے کھیلوں کا حصہ بنا لینا چاہئیے۔ اس سے نہ صرف ذہنی کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ ذہن کے پیچ کھلتے ہیں تو نئ چیزوں کے بارے میں جگہ بننے لگتی ہے۔ اسے سائنس کی زبان میں دماغ کے اندر نئے کنکشن بننا کہتے ہیں۔ یہ کنکشن جتنے زیادہ ہوں دماغ کی فعالیت اتنی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اس لئیے کہتے ہیں کہ خالی دماغ کو زنگ لگ جاتا ہے۔
دماغی فعالیت کا تعلق بہتر یا متوازن غذاء سے کسی حد تک  اور ورزش سے بھی جڑا ہے۔ جو کھائیں اسے آپکے جسم کے لئیے بہتر ہونا چاہئیے محض زبان کے لئیے نہیں۔ دوسری طرف ورزش دوران خون کو بڑھا دیتی ہے اور اس طرح سے دماغ کو بہتر خون کی فراہمی ہوتی ہے۔
عبادت آپکی ذہنی صلاحیتوں کو بڑھانے کا ایک ذریعہ ہو سکتی ہے کہ اسکے دوران ہم اپنی دماغی صلاحیتوں کو یکجا کرنے کی مشق بھی غیر شعوری طور پر کرتے ہیں۔ آپ چاہیں تو یوگا کے آسن بھی کر سکتے ہیں ، یا کسی قسم کا مراقبہ بھی۔
اپنے ماحول اور ارد گرد کے لوگوں سے جڑا رہنا بھی آپکے قوت مشاہدہ کو تحریک دیتا ہے۔ خاص طور پر وہ لوگ جنکی مصروفیت انہیں ایک جگہ بند کر دیتی ہے تو انہیں اپنی سرگرمیوں میں تبدیلی لانی چاہئیے۔ اور کچھ وقت ایک بالکل الگ اور قدرتی ماحول میں گذارنا چاہئیے۔  
اگر آپکا آئ کیو کم آتا ہے تو شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں اور اگر زیادہ ہو تو اترائیں مت۔ کامیاب ہونے کے لئے محض اچھا آئ کیو ہونا کوئ ضروری نہیں, اپنی صلاحیتوں کو بہتر طور پر استعمال کرنا ضروری ہے۔ ہر وقت یہ  نہ کہیں کہ ہمارا تو آئ کیو ہی اچھا نہیں اس لئیے ہم کچھ بہتر کام نہیں کر پاتے۔ دنیا میں اکثریت اوسط ذہن کے لوگوں کی ہے اور بہت اچھی پوزیشنوں پر وہی موجود ہیں۔
فطرت نے نہ بخشا مجھے اندیشہ ء چالاک
رکھتی ہے مگر طاقت پرواز میری خاک
کامیابی کا تعلق محض آئ کیو سے نہیں ہوتا اور ریسرچ کے بعد ایک اور فیکٹر سامنے آتا ہے جسے ایموشنل کوشنٹ کہتے ہیں۔ اس بارے میں گفتگو آئندہ تحریر میں ہوگی۔

ریفرنس؛

Thursday, September 24, 2009

میں، وہ اور قومی ترانہ

تم مخاطب بھی ہو, قریب بھی ہو
تم کو دیکھوں کہ تم سے بات کروں
شاید آپ بھی اس الجھن سے گذرے ہوں۔ مجھے کچھ دنوں پہلے اس صورتحال سے پھر گذرنے کا اتفاق ہوا۔ ٹی وی کے ایک معروف، خوش شکل میزبان کی ایک محفل میں مجھے بھی کسی کے اصرار پر شرکت کرنی پڑی۔ اگرچہ کہ یہ خاصی پیشہ ورانہ نوعیت کی ملاقات تھی۔ اور اسکے بارے میں بجا کہا جا سکتا ہے کہ اسقدر بھیڑ میں ہوتی ہے ملاقات کہاں۔ لیکن تین گھنٹے انکے ساتھ گذارنے کی سعادت سے یہ دل ابھی تک ہلکورے لیتا ہے۔
محفل کے آغاز میں انہوں نے غیر رسمی گفتگو کے دوران کہا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ انہیں اردو نہیں آتی۔ اسے انکا دل چاہتا ہے کہ اپنے پیروں سے کچل دیں۔ انہوں نے شدت جذبات میں انہیں پیروں سے کچل کر دکھایا بھی۔ یہ الگ بات کہ پیروں تلے کوئ تصوراتی مخلوق کچلی گئ۔ ہم تو ویسے ہی گنگ بیٹھے تھے مزید رعب میں آگئے۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ لوگ ایسا کیوں کہتے ہیں۔ مختلف لوگوں نے اسکے مختلف جواب دئیے۔  ان جوابات سے آپ آگاہ ہی ہونگے۔
 تھوڑی دیر میں جب  حالت یہ ہوئ کہ چپ رہ نہ سکا حضرت یزداں میں بھی اقبال ،  تو میں نے ان سے کہا کہ یہ سوالنامہ جو ابھی انہوں نے وہاں پر موجود شرکاء  کو تقسیم کیا ہے۔ یہ سارا کا سارا انگریزی میں کیوں ہے۔ جبکہ اس جگہ پر مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ جن میں سے کچھ بہتر طور پر انگریزی سے واقف بھی نہیں۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک ادائے بے نیازی سے ہلایا اور جواب ملا، 'اردو ٹائپنگ بہت مشکل ہوتی ہے۔ بڑا چکر ہوتا ہے بس اسی لئیے سوالنامے میں اردو ترجمہ نہیں رکھا گیا'۔
خیر صاحب، محفل زیادہ تر انگریزی کمیونیکیشن کے بعد اپنے اختتام کے قریب پہنچی اور انہوں نے بر سبیل تذکرہ بتایا کہ لوگوں کو اپنا قومی ترانہ تک تو یاد نہیں ہوتا۔ میری قسمت کہ میں پھر بول اٹھی۔ 'یہ ہے بھی ذرا مشکل'۔ تس پر وہ آکر میرے سامنے کھڑے ہو گئے، اور آستینیں اوپر چڑھالیں۔کوٹ کے اندر ایک ہاتھ کمر پہ ٹکایا۔ اور اتنے ظالمانہ انداز میں مجھ پہلے سے گھائل شخص کو کہنے لگے کہ کیا مشکل ہے۔ اب میں  گھگھیائ۔' اردو میں نہیں ہے'۔ اس پر انکی پیاری پیشانی پر لا محدود بل پڑ گئے۔ ارے آپ ، اب یہ کہیں گی کہ یہ فارسی میں ہے۔ اور پھر ایسے انداز میں جس سے جھلک رہا تھا کہ تف ہے آپ پر۔ وہ میرے قریب جھک گئے اور ایک ایک کر کے ترانے کے سارے مصرعے پڑھ ڈالے۔ ہر مصرعے کے اختتام پر پوچھتے کہ سمجھ آیا کہ کیا کہا۔ میں بچہ جمورا کی طرح سر ہلا دیتی۔ پورا ترانہ ختم کرنے کے بعد فتحیاب انداز میں سیدھے ہوئے  دونوں ہاتھ جھاڑے اور فرمایا۔۔ کہاں ہے مشکل اور کہاں ہے فارسی۔ 
صورت حال کچھ ایسی ہو چلی تھی کہ
صرف اسی شوق میں کی تجھ سے ہزاروں باتیں
میں تیرا حسن، تیرے حسن بیاں تک دیکھوں
 اپنی قسمت پہ رشک آیا اور لمبی زبان کو دل ہی دل میں تھپتھپایا۔ اتنی لمبی گفتگو اور صرف مجھ سے۔ ایکبار پھر اس سحر سے باہر نکلی اور منمنانے کی کوشش کی کہ میرے جمعدار، مالی، ڈرائیور، ماسی کسی کو بھی سمجھ نہیں آتا۔ دل میں سوچا اسی بہانے ان لوگوں کو بھی شاید پذیرائ ملے۔ جواب ملا 'انکی یہ زبان نہیں ہے'۔ اب کیا کہتی،  یہی تو میں کہہ رہی تھی۔
کبھی آپ کو یہ لگا کہ جن کی شکل اچھی ہو انکی فارسی بھی کتنی آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے۔

سوالات؛
اس محاورے کا مطلب بتائیں، ہاتھ کنگن کو آر سی کیا، پڑھے لکھے کو فارسی کیا۔
اس شعر کا پہلا مصرعہ بتائیں، جس نے ڈالی بری نظر ڈالی۔

عملی مشق؛
صرف اس دوکان سے خریداری کریں، جس کے سیلز مین کو پورا قومی ترانہ یاد ہو۔ بعد ازاں ایک فہرست تیار کریں کہ آپکی خریداری پہ اس سے کیا فرق پڑا۔

Wednesday, September 23, 2009

غریبوں کا خدا

نپولین بونا پارٹ نے کہا کہ اگر مذہب نہ ہوتا تو غریب امیروں کو قتل کر ڈالتے۔
امیروں کے تحفظ کی ذمہ داری ہمارے ایک مشہور و معروف چینل نے اٹھا لی ہے اور انکے پروردہ نام نہاد عالم اپنی مکروہ مسکراہٹ سے مذہبی اداکاری کے بام عروج پر پہنچے ہوئے اسکی بجا آوری میں مستعد نظر آتے ہیں۔انکے مکالمات جب ایک دوسرے صاحب ایمان سابقہ وجہ ء شہرت گلوکاری اور موجودہ ایک ڈیزائنر بوتیک، نعت خواں، تبلیغی کارکن اور چیزوں کے حلال ہونے کے اشتہارات میں لاکھوں کے عیوض کام کرنے والے نئے دریافت شدہ مسلمان سے ہوئے تو پردہ ء سیمیں پر انکی تجلیات دیکھ کر ایک غریب مسلمان پر ہیبت چھا گئ۔ اپنے بوتیک کے ڈیزائن کردہ لال کرتے کو پہنے ہوئے جنید جمشید اپنے غریبوں کے لئیے پھٹتے ہوئے دل کے ساتھ جب یہ فتوی دیتے ہیں کہ غریب اگر تین دن تک خاموشی سے فاقہ کرے تو اللہ پاک اسکے سال بھر کے رزق کی ذمہ داری لے لیتا ہے تو میرے جیسے ذہن کے غریب ایسے خدا کو ماننے سے انکار کر دیں گے۔
آخر یہ خدا امیروں کے بوتیکس میں، انکے ایمان افروز اشتہارات میں، انکی صلاحیتوں میں اتنی برکت کیوں ڈالے جا رہا ہے۔ یہ برکت پروگرام پیش کرنے والوں کے نورانی اور صحتمند دمکتے چہروں اور ہر دفعہ ایک قیمتی نئے جوڑے کی شکل میں کیوں صرف انکے حصے میں آتی ہے۔ یہ برکت صرف اس چینل کو کیوں ملے جا رہی ہے جو ایک اخبار سے شروع ہوا اور اب ایک صحافتی اسٹیٹ بن گیا ہے۔
یہ سب لوگ خدا کی نازل کردہ نعمتوں کے حقدار کیوں بن گئے ہیں اور کیوں ایک غریب کو دن رات صبر، شکر اور وقار کے سبق دئیے جاتے ہیں۔ سبق بھی وہ دیتے ہیں جنکے جسم اور روح دونوں طمع کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔
اب میرے جیسا غریب ناہنجار اس پروگرام میں ایک مہنگا فون کر کے صاحب پروگرام کی گریہ کرنے والی دعا کےانداز کے بارے میں صدقے واری ہونے کے بجائے ، براہ راست خود خدا سے پوچھنا شروع کر دیتا ہے ۔
 یا خدا، اے مالک تیرا دین کتنا سچا ہے جو ایک راستے سے بھٹکے ہوئے مسلمان کو نیکی کے راستے پہ لے آیا اور پھر تونے اسے نیکی کے راستے پہ آنے کے عیوض دنیا کی راحت، عزت، سہولت، محبت اور شہرت سبھی کچھ عطا فرما دیا۔ اے پر وردگار اب ہم جیسے مسکین ، نااہل، غریب ابن غریب کون سا وظیفہ پڑھیں کہ تو انکو بھی ان تمام نعمتوں سے بہرہ مند فرما۔ آخر تونے ہماری کشائش رزق کو تین دن کے فاقوں کے ساتھ کیوں باندھ رکھا ہے۔
یا خدا  آخر تونے ہمارے کشائش رزق کو تین دن کے فاقے سے کیوں باندھ رکھا ہے
مذہب کی سب سے زیادہ ذمہ داری غریبوں پر عائد ہوتی ہے۔ قیامت کے دن غریب امیروں سے بڑھکر ہونگے۔ یا خدا تونے ہمارے اوپر اتنی ذمہ داری کیوں رکھی ہے۔
نپولین بونا پارٹ کہتا ہے کہ اگر مذہب نہ ہوتا تو غریب--------۔
یا خدا ،  اگر غریب نہ ہوں تو مذہب کی سب سے زیادہ ذمہ داری کس پر ہوگی۔
-
-
-
جہنم میں جائیں نپولین بونا پارٹ، جنید جمشید، عامر لیاقت اور جیو چینل والے۔ اے خدا اگر غریب نہ ہوں تو انکا بزنس کیسے چلے گا۔

Monday, September 21, 2009

گھر کی جڑیں


ڈرائینگ روم کا بنیادی مقصد تو کسی زمانے میں گھر کے اندر ایک گوشے کی فراہمی تھا۔ جہاں
بیٹھکر آپ گھر والوں کی بیجا مداخلت سے ہٹ کر گفتگو کر سکیں۔ یہ حصہ ہمہ وقت صاف ہو۔

اس سے کسی افراتفری کا احساس بھی نہیں ہو۔ اور یہ آپکے حسن ذوق کا آئینہ دار بھی
بن جائے۔
گردش دوراں نے اسےکسی کی سماجی حیثیت کا آئینہ دار بنا دیا۔ اور ایسے ڈرائنگ روم وجود میں آگئے جہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری۔ اس لئیے کہ نظر اٹھتے ہی ایسے نظاروں میں کھو جاتی ہے جو اپنے ساتھ احساس محرومی، احساس کمتری، احساس کمزوری، احساس دوری، احساس مجبوری اور اس جیسے بہت سے دوسرے احساسوں کو لیکر پلٹتی ہے اور جاکر دماغ کے پردہ ء چشم پہ جیسا کہ انسانی حواس کا قدرتی فعل ہے کوئ احساس بصیرت پیدا کرنے کے بجائے سیدھا حس گفتگو پر حملہ کر کے اسے گنگ کر دیتی ہے۔جب گفتار کے کس نکل جائیں تو بکواس کے بل پڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ایسے بل تعلقات میں دراڑیں ڈالنے کے لئیےتیشے کا کام انجام دیتے ہیں۔اور ان سےکوہ ستوں کے پہاڑوں سے جوئے شیر نہیں بلکہ دلوں سے جوئے لہو جاری ہو جاتی ہے۔ یہ کبھی کبھی آنکھوں سے آنسءووں کی صورت رواں ہوجاتی ہے۔ اور کبھی نالہ بن کے گھر کے درو دیوار پہ بال پھیلا کر پڑ جاتی ہیں۔
اپنے گھروں میں ایک سیدھا سادہ سا گوشہ ضرور رکھیں۔ جہاں آنیوالاپاءووں پسارے یا آلتی پالتی مارے تعلقات کی دھونی جمائے بیٹھا رہے۔ اسکے اسطرح بیٹھے رہنے سے گھروں کی بنیادوں میں جڑیں نکل آتی ہیں جو اس گھر کو گرنے نہیں دیتیں۔

Saturday, September 19, 2009

میٹھی عید اور میٹھا

میٹھی عید تو میٹھے کے ساتھ جڑی ہوئ ہے۔ تو میں نے سوچا کہ عید مبارک کہنے سے پہلے کچھ میٹھا بھی بنا دیا جائے آپ لوگوں کے لئے۔ یہ شاہی ٹکڑوں کی ایک جینئین ترکیب ہے۔
دو کلو دودھ کو ابال لیں اور پھر آنچ اتنی کر لیں کہ وہ اس پر پکتا رہے اور پک پک کر آدھے سے بھی کم رہ جائے۔
اس دوران آپ بڑی والی ڈبل روٹی اتنی بڑی نہیں جو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہو بلکہ بازار سے ملنے والی عام ڈبل روٹی کا جو بڑا سائز ملتا ہے وہ لے لیں اسکے کنارے کاٹ دیں اور اسے درمیان سے اس طرح کاٹ لیں کہ دو تکون بن جائیں، آٹھ سلائس سے آپکے پاس سولہ تکون بن جائِں گے اب انہیں آئل میں ڈیپ فرائ کر لیں۔ آئل اتنا ڈالیں کہ تین دفعہ کے بعد آپ اسے ضائع کر کے تازہ تیل ڈال سکیں۔ یہ ٹکڑے جب گولڈن ہو جائیں تو اتار لیں اور انہیں ایک بڑی بیکنگ ٹرے یا پائریکس ٹرے یا اسٹیل کی ٹرے میں لگادیں۔ ایک سنگل تہہ کی شکل میں۔ جگہ کم ہو تو دو ٹرے استعمال کر لیں۔ اب ایک پتیلی میں ڈیڑھ کپ چینی لیں اور اس میں ایک کپ پانی ملادیں۔ اور اسے پکا لیں جب اس محلول کواچھی طرح ابلتے ہوئے تین منٹ ہو جائیں تو اسے اتار لیں اورڈبل روٹی کے ٹکڑوں پہ ڈالدیں۔ اب ان ٹکڑوں کو مدھم آنچ پر پانچ منٹ چولہے پر پکالیں اس دوران ٹکڑوں کو چمچ سے بالکل نہ ہلائیں جلائیں۔ تمام ٹکڑوں تک آنچ پہنچانے کے لئے ٹرے کو آگے پیچھے کر سکتے ہیں۔  خیال رکھئیے گا لگنے نہ پائے۔ اگر شیرہ کم ہو رہا ہو تو پہلے ہٹادیں۔ اب اس ٹرے کو اتار کر ایک جانب رکھ دیجئیے۔
ایک پیالی میں ایک تہائ کپ دودھ لیکر اس میں ایک کھانے کو چمچ کارن فلار اچھی طرح مکس کر لیں اور اسےپکے ہوئت دودھ میں ڈال دیں۔  اس دودھ میں تھوڑی سی زاعفران پیس کر اور چوتھائ چمچ چائے کی پسی ہوئ چھوٹی الائچی بھی ڈالدیں۔ انہیں پکا لیں جب یہ چیزیں پک کر یک جان ہو جائیں، اندازاً دو منٹ،  تو اتار لیں اس میں تھوڑا سا پستے اور بادام کی ھوائیاں بھی شامل کر لیں ۔ آدھا کپ فریش کریم بھی ملادیں اب اس آمیزے کو  شیرے میں ڈوبے ہوئے ٹکڑوں کے اوپر ڈال کر مزید پانچ منٹ کے لئیے چولہے پر ہر طرف سے پکا لیں۔ اس دوران چمچ مت لگائیے گا۔ اب ٹرے اتار کر تھوڑا ٹھنڈا ہونے دیں۔ اور اس پر پستے اور بادام کی ہوائیاں چھڑک دیں۔ اگر واقعی چاندی کا ورق مل رہا ہو تو لگا لیں۔ ہوائیوں کے ساتھ چند قطرے کیوڑے کے بھی ڈالدیں۔ فریج میں رکھ کر ٹھنڈا کر کے کھائیں سخت نہیں ہونگے۔ گرم بھی مزے کے لگیں گے۔ پکانے کے فوراً بعد کھانے کے بجائے تھوڑی دیر پڑے رہنے دیں تو یہ سیٹ ہوجائیں گے کسی چپٹے چمچ سے ایک ایک کر کے جس برتن میں چاہیں نکال لیں۔ شاہی ٹکڑے عام طور پر پھیلے ہوئے برتن میں پیش کئے جاتے ہیں۔ ہر ٹکڑے کو الگ الگ ترتیب سے رکھیں تو دیکھنے میں بھی اچھے لگیں گے اور اٹھانے والے کو بھی آسانی ہوگی۔

اسکے ساتھ ہی آپ سب کو عید مبارک ہو۔ خدا ہمیں اسکی برکتوں سے نوازے ۔

Friday, September 18, 2009

کچھ لکھنے سے پہلے

یہ ایک ویڈیو کا لنک ہے۔۔ جو میں  نے اپنی ایک انگریزی بلاگر کے بلاگ سے لیا ہے۔ کیونکہ میں چاہتی ہوں کہ مذہب کے اس ورژن پہ بھی بات ہونی چاہئیے اور صرف انگریزی حلقے میں کیوں آپ بھی شامل ہوں۔ میں اس پہ اپنی پوسٹ بعد میں لکھونگی۔
پہلے آپ سب کی رائے۔ آپ چاہیں تو انکے بلاگ پر جا کر اسکی تفصیلات اور تبصرے بھی پڑھ سکتے ہیں۔

http://vidpk.com/34502/Junaid-Jamshed-in-Aalim-On-line/

ریفرنس؛
 ہماری انگریزی بلاگر

Wednesday, September 16, 2009

میں، فیاض اور اسکا ابا

ساڑھے چار بج رہے تھے اور میں انتہائ تندہی سے اپنا کام نبٹاتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ مجھے چھ بجے کچن سے نکل جانا چاہئیے تاکہ فیاض اسے صاف کر لے اور ڈرائنگ روم سیٹ کر لے اسطرح میں رات آنیوالے مہمانوں کے لئے فریش ہو جاءووں گی۔ ابھی سوچوں کو فل اسٹاپ بھی نہ لگا تھا کہ فیاض آکھڑا ہوا ۔ میں نے کہا فیاض ڈائننگ روم کی اچھی سی ڈسٹنگ------لیکن میرا جملہ مکمل ہونے سے پہلے وہ بول اٹھا۔ 'باجی مجھے ابھی فوراً جانا ہے'۔ کیا؟ کیوں؟ میرا منہ پہلے غصے سے چوکور اور پھر گول ہو گیا۔ 'یہ سب کام کون کریگا؟' میں نے چھری غصے میں اور تیزی سے چلاتے ہوئے اس کے آگے کاموں کی لسٹ دہرانی چاہی۔ 'باجی، میرا بھائ بھاگ گیا ہے۔' اوہ کتنا بڑا ہے وہ'۔ 'جی مجھ سے دو سال بڑا ہے'۔ اتنا بڑا شخص کہیں بھاگتا ہے۔ تمہیں کیسے پتہ وہ بھاگ گیا ہے'۔ میں نے کچر کچر کھیرے کاٹے۔' وہ میری بھابھی بھی ساتھ بھاگ گئ ہے'۔ ہائیں، اب میں نے اس میں سنجیدگی دکھائ۔ 'وہ تمہارے کون سے بھائ کی بیوی تھی'۔ ؛جی اسی کی بیوی تھی'۔  یہ تو کلاسک بھاگنے کی کہانیوں سے بالکل مختلف ہے۔ میرا دماغ بالکل سنسنا گیا۔ 'اپنی بیوی کے ساتھ بھی کوئ بھاگتا ہے۔ میرا مطلب ہے اسے بھاگنا نہیں کہتے۔  وہ الگ رہنا چاہ رہے ہونگے'۔ 'جی، میرا بھائ کراچی میں رہتا ہے اور وہ اپنی بیوی کو ساتھ میں رکھنا چاہ رہا تھا۔میرا ابا اسے منع کر رہا تھا'۔ 'تو تمہیں اپنے ابا کو سمجھانا چاہئیے'۔' نہیں باجی ہمارے یہاں ایسےہی ہوتا ہے۔ وہ بے وقوف اسکو لیکر کہیں چلا گیا ہے'۔؛ تو اب تم کیوں انکی خوشی میں روڑے اٹکا رہے ہو۔ جاءو جاکر اپنا کام کرو'۔ 'نہیں، ابا کا فون آیا تھا وہ کل کراچی پہنچ رہا ہے۔ اس نے مجھے ان کا پتہ لگا کر انکے ساتھ رہنے کو کہا ہے۔ تاکہ وہ کہیں اور نہ چلے جائیں'۔'تمہیں یقین ہے وہ کراچی میں ہونگے'۔ 'جی مجھے معلوم ہے وہ کہاں ہونگے'۔ 'ارے اپنے ابا سے کہدو مجھے نہیں معلوم وہ کہاں ہیں'۔ 'نہیں ابا کو پتہ چلا تو وہ سمجھے گا میں ان سے ملا ہوا ہوں'۔ یہ کہہ کر وہ الف لیلی کی کہانیوں کے ہیرو کی طرح ابا کی بھیجی ہوئ سپاری پر روانہ  ہوگیا۔
میں اپنے آگے ٹماٹروں اور کھیروں کے ڈھیر دیکھ کر اسکے بھائ کو برا بھلا کہنے لگی۔ کم بخت آج کا دن ملا تھا۔ اسے بھاگنے کے لئیے۔ بدبخت اب ایسی جگہ چھپا ہے کہ اسے ڈھونڈ بھی لیا جائےگا۔
یہ الگ کہانی ہے کہ کسطرح اس ظالم نے بھائ کی بیوی کو واپس پشاور لیجانے کا سلسلہ کامیابی سے سر کیا اور بھائ کو کراچی میں چھوڑ دیا۔ لیکن اسکے بھائ جیسے بے وقوفوں کے ساتھ مجھے کیا کسی کو بھی ہمدردی نہیں ہو سکتی۔ فیاض کامران مسکراہٹ سجائے واپس آگیا۔
اسکے ایک ہفتے بعد میں ایکدن ٹانگیں پسارے بقراط ثانی بننے کی سرگرمیوں میں مصروف تھی کہ اچانک احساس ہوا کہ فیاض کہیں پاس سے بولا۔ سر اٹھایا تو فیاض سامنے کھڑا تھا۔ فوراً پسارے کو سمیٹا۔ 'اب کیاہوا؟' 'باجی، صاحب سے کہیں، وہ میری تنخواہ بڑھا دیں'۔ 'ابھی تو تمہارا پہلا مہینہ بھی پورا نہیں ہوا اور تم نے سب کاموں کی ذمہ داری بھی پورے طور پر اٹھانی شروع نہیں کی ۔ کس سلسلے میں تمہاری تنخواہ بڑھا دیں'۔ میں نے بقراطی ذریعہ ء علم پر آنکھیں جمائے پوچھا۔ 'باجی میں شادی کرنا چاہ رہا ہوں'۔ 'کس سے؟'۔' اپنی پھوپھی کی بیٹی سے'۔' وہ کہاں رہتی ہے؟'۔ 'جی یہیں کراچی میں'۔ 'تمہارے گھر والے راضی ہیں'۔ 'جی سب ، میری پھوپھی بھی راضی ہے'۔ وہ تابڑتوڑ سوالات سے عاجز آ کر شایدبےزار ہو کر بولا۔ میں نے سر چشمہ ءبقراطی دانش کو ایک طرف رکھا۔ اور دیو جانس کلبی کی بےنیازی کو دوسری طرف کہ اس طرح موجودہ زمینی حقائق صحیح طور پر سامنے آسکیں گے۔ اور ایسا کرتے ہی ایک خیال آسمانی بجلی کی تیزی سے کوندا اور فیاض کے متوقع نشیمن پر دھائیں کر کے گرا۔ 'تم تو پہلے دن کہہ رہے تھے کہ تمہاری شادی ہوگئ ہے'۔ 'جی باجی۔ مگر میری وہ بیوی تو پشاور میں رہتی ہے'۔
اگرچہ میری اس بات کا بعد میں مذاق اڑایا گیا کہ ایک نوکر کو دوسری شادی کی خواہش ظاہر کرنے پر نوکری سے برخواست کر دیا گیا۔ یقیناً کچھ رجعت پسند مسلمان اس پر خفا ہونگے، لبرل مسلمان شادیانے بجائیں گے۔ حقوق نسواں والے میری پیٹھ ٹھونکنے کو بےتاب ہونگے۔ حقوق انسانی والے اس میں کچھ گھمبیر مسئلے تلاش کر لیں گے۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے اسے پشاور کے خلاف سازش سمجھیں گے۔ مردوں کو مظلوم سمجھنے والے اسے ان کی جنس پر ایک نیا حملہ قرار دیں گے۔ خود فیاض کو میری شکل سے نفرت ہو گئ ہوگی۔ لیکن کوئ بتائے کہ قصور کس کا تھا۔
۔
۔
۔
۔
۔
 
مقصد؛
اس تحریر کا مقصد جاننے کے لئیے آپکو خلاء میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے لئے نہیں چھوڑا جا رہا ہے۔ بلکہ قرعہ اندازی کے ذریعے میں نے تین اشارے چن لئیے ہیں۔ اشارے یہ ہیں۔ شادی، پشاور، کراچی۔
سوالات؛
مرفی کے قانون کی تعریف کریں۔ اس تحریر میں مرفی کا قانون کہاں کہاں لگایا جا سکتا ہے؟
بقراطی محبت کیا ہوتی ہے؟
کیا بچپن میں بچوں کے ساتھ چھپن چھپائ کھیلنے سے، بڑے ہونے پر ان میں مناسب جگہ چھپنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے؟ دلیل سے واضح کریں۔
اس تحریر کو رجعت پسندوں کے مطابق اسلامی بنانے کے لئے اس میں کیا کیا تبدیلیاں کرنی چاہئیں؟ یا باالفاظ دیگر اس میں کن مقامات کو آپ انتہا پسند آزاد مسلمانوں کی تربیت کا نتیجہ سمجھتے ہیں؟
اس تحریر میں کن نکات کو آپ خواتین کی بے پرواہی کا نتیجہ سمجھتے ہیں؟ سماجی اور نظریاتی دونوں اگر موجود ہیں تو انہیں بیان کریں۔
کیا خواتین کو بقراطی فلسفہ پڑھنے کی اجازت ہونی چاہئیے؟ یا انکے لئیے اسٹار پلس اور شیف ذاکر کی خدمات سے ہی استفادہ حاصل کرتے رہنا چاہئیے؟ یہ سوال لازمی نہیں ہے۔

عملی سوال؛
ایک پول منعقد کرا کے اس بات کا جائزہ لیں کہ دوسری شادی اور بے روزگاری کے درمیان کیا واقعی کوئ تعلق ہے۔  
نوٹ؛ بیشتر تحاریر کی طرح اس میں بھی ہو سکتا ہے کہ کرداروں کے نام تبدیل کر دئیے گئے ہوں۔ اس لئے براہ مہربانی ان مندرجات کو میرے اوپر انکم ٹیکس لگانے کی مد میں استعمال نہ کیا جائے۔

Sunday, September 13, 2009

بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی

میں جب صبح نکلتی ہوں تو دیکھتی ہوں کہ ایک بڑے میاں ایک چار پانچ سالہ بچے کا بیگ پکڑے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اتنی دیر میں اسکول بس آتی بچہ اس میں سوار ہوتا ہے اور وہ بزرگ اپنے مستقبل کی چمک اپنے چہرے پہ لئیے اس بچے کو خدا حافظ کہتے ہیں۔ انہیں اعتماد ہے کہ انکا بچہ گھر سے باہر بھی محفوظ ماحو ل میں ہے۔ لیکن تین سالہ ثناء کے والدین کا یہ اعتماد اب سے کچھ عرصے پہلے دو پولیس کانسٹیبل نے توڑ ڈالا ۔ گھر سے کھیلنے کے لئے نکلنے والی اس بچی کو ان دو افراد نے جنسی زیادتی کے بعد قتل کر ڈالا۔  رونگٹے کھڑے کر دینے والی یہ بات حیوانیت سے بھی گرا ہوا فعل ہے۔
پاکستان میں رپورٹ کئے جانےوالے واقعات کے مطابق ہر روز تین سے پانچ بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں اور زیادہ تر حالات میں مجرم اپنی شناخت چھپانے کے لئیے ان معصوم پھولوں کو قتل کر دیتے ہیں۔ غیر رپورٹ کئے جانیوالے واقعات کے اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ ذمہ دار والدین اس سلسلے میں خاصے پریشان رہتے ہیں کہ انہیں کیا کرنا چاہئیے. بچوں کا یہ استحصال ساری دنیا میں کیا جاتا ہے۔ چونکہ وہ ایک آسان ٹارگٹ ہوتے ہیں۔
ریسرچ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بچوں کے ساتھ یہ زیادتی کرنےوالے اجنبی لوگوں کی نسبت جاننے والے ، والدین کے یا خاندان کے دوست اور  قریبی رشتے دار ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ مجرم کوئ بڑا بچہ بھی ہو سکتا ہے۔
مجرم عام طور پر بچوں کو خوفزدہ کردیتے ہیں۔ وہ اس جرم کا بوجھ بچے پر ڈالدیتے ہیں اور انہیں یہ تائثر دیتے ہیں کہ اب اگر انکے والدین کو یہ بات پتہ چلی تو وہ بہت ناراض ہونگے۔ اس طرح سے وہ بچے کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ محرومیوں کے شکار بعض بچوں میں کسی بھی قسم کا لالچ ڈال دیتے ہیں۔ بعض بچوں کو یہ ایک کھیل بنا کر پیش کرتے ہیں جو دو بہت قریبی یا محبت کرنے والے دوست کھیلتے ہیں۔ بعض بچوں کو خوفزدہ کر دیتے ہیں اور بچے یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے والدین کو بتانے کی صورت میں وہ والدین کے لئے شرمندگی کا باعث بن جائیں گے یاانکے والدین کو کوئ بہت شدید نقصان پہنچے گا۔  بعض بچے اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ وہ کوئ بھی بات سمجھ نہیں پاتے۔
اس سلسلے میں ماہرین نے خاصہ کام کیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں حکومتیں یا غیر منافع بخش ادارے اس قسم کی معلومات سے عوام کو وقتاً فوقتاً آگاہ کرتے رہتے ہیں تاکہ عوام کی تربیت ہوتی رہے۔
یہاں میں انہی ماہرین کی رائے کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے ماحول کے حساب سے کچھ نکات دینا چاہوں گی کہ ہم اپنے بچوں کو کیسے ایک محفوظ ماحول دینے کی جدو جہد میں شامل ہو سکتے ہیں۔
سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ایسے کسی سانحے کا شکار نہ ہوں تو ہمیں انہیں آسان ٹارگٹ ہونے سے بچانا پڑیگا۔ اسکی پہلی شرط یہ ہے کہ آپ اپنے بچے سے چاہے ماں ہوں یا باپ باتیں کرنے کی یا کمیونیکیٹ کرنے کی عادت ڈالیں۔ اگر آپکا بچہ اسکول میں پڑھتا ہے تو سارے دن کے بعد اس سے کسی وقت گپ شپ کریں جس میں اسے زیادہ سے زیادہ بولنے کا موقع دیں اور اپنی باتیں بے حد کم رکھیں۔ ان باتوں میں نوٹ کرتے رہیں کہ بچے کے دوست کس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ ٹیچرز سے اسکے روابط کیسے جارہے ہیں۔ اسکول وین والا آپ کے بچے سے کیسی اور کسطرح سے گفتگو کرتا ہے۔ یہاں یہ بھی دھیان میں رکھیں کہ کوئ بڑا شخص آپکے بچے کو غیر معمولی توجہ اور تحفے تحائف کیوں دے رہا ہے۔ گفتگو میں کبھی اپنے بچے کو ٹوک کر ہوشیار نہ کریں کہ آپکو آگے کی باتیں بتانے سے جھجھک جائے۔
اپنے آپ پر سے اپنے بچے کے اعتماد کو کبھی متزلزل نہیں ہونے دیں۔ اسے اس بات کا یقین ہونا چاہئیے کہ آپ اسے سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔ بچوں کو ڈسپلن کا عادی بنانے میں یا تعلیم کی طرف توجہ دینے میں بیجا سختی سے گریز کریں۔ جو بات پیار سے سلجھ سکتی ہو اسے ڈانٹ ڈپٹ سے نہ کریں۔ ورنہ جو بھی شخص ان سے نرمی اور محبت سے بات کریگا وہ اسکی ہر بات ماننے لگیں گے۔
بچوں کو کسی بڑے کے پاس اکیلا چھوڑنے سے گریز کریں۔ اگر ایسا کرنا بہت ضروری ہو تو صورت حال اس طرح رکھیں کہ وہ جگہ کھلی ہو جہاں زیادہ سے زیادہ لوگ انہیں دیکھ سکتے ہوں۔
اگر بچہ کسی بڑے شخص کے پاس چاہے وہ آپکا قریبی دوست ہو ، رشتے دار یا اسکا بڑا کزن، جانے سے گھبراتا ہے تو اس پر دباءو نہ ڈالیں کہ وہ ضرور انکے پاس جائے۔
اگر بچہ کسی شخص کے پاس اکیلا نہیں رہنا چاہتا تو اسے مجبور نہ کریں کہ وہ اسکے ساتھ ضرور رہے۔
یاد رہے کہ اس قسم کے معاملات میں بچے جھوٹ نہیں بولتے اگر وہ کسی شخص کی چاہے وہ آپکو کتنا ہی عزیز ہو کوئ بھی اس طرح کی بات آپکو بتاتے ہیں تو انکی بات پر یقین کریں اور انکی مدد کریں۔
اکثر والدین بازار جاتے ہوئے یا باہر نکلتے ہوئے اپنے بچوں کو رشت داروں کے یہاں یا محلے پڑوس میں چھوڑ جاتے ہیں۔ کوشش کریں کہ چحوٹے بچوں کو اپنے ساتھ رکھیں، یہ اگر ممکن نہ ہو تو واپس آکر اپنے بچے سے تفصیلی پوچھیں کہ اس نے یہ وقت وہاں کیسے گذارا۔
اس بات پر بھی نظر رکھیں کہ آپکا بچہ کن لوگوں کے ساتھ وقت گذارنا زیادہ پسند کرتا ہے اور کیوں۔
جو مچے انٹر نیٹ استعمال کرتے ہیں ان کی کڑی نگرانی کی ضرورت ہے۔ انہیں اچھی طرح سمجھا دیں کہ اپنا ذاتی یا گھر کا فون نمبر کبھی نیٹ پر استعمال نہ کریں، اپنے اسکول اور کلاس کے بارے میں معلومات اجنبی لوگوں کو نہ دیں۔ کوئ اجنبی شخص اگر انہیں کوئ سائٹ دیکھنے کی آفر کرتا ہے تو وہ اسے پہلے آپ سے ڈسکس کریں اور ایسی سائیٹس کو کھولنے سے اجتناب کریں۔ گھر میں کمپیوٹر ایسی جگہ پر رکھیں کہ اس کی اسکرین آپ کو چلتے پھرتے نظر آتی رہے۔ انہیں کبھی بھی بچوں کے کمروں میں نہ رکھیں۔ اور نہ ہی کسی الگ تھلگ جگہ پر۔ ان سوفٹ وئیرز کے بارے میں معلوم کرتے رہیں جو کمپیوٹر پر مختلف سائیٹس کو فلٹر کرتے رہیں۔
اگر بچے میں اس قسم کی عالامات پائ جائیں تو ان پرتوجہ دیں؛
بلا وجہ غیر معمولی غصہ، ڈپریشن، الگ تھلگ رہنااور ایسی گفتگو کرنا جو انکی عمر کے حساب سے مناسب نہ ہوں۔ بلا وجہ انکے کپڑے پھٹے ہوں یا ان پر مخصوص داغ، جسم پر نیل یا کھرونچوں کے نشانات جن کی وجہ بچہ آپکو نہ بتا پائے۔  انکے اعضائے مخصوصہ کے پاس سرخی، سوجن، بار بار ہونے والے پیشاب کی نالی کے انفیکشن، پیٹ درد اور مستقل پریشان رہنا۔ یہ ضروری نہیں کہا کہ ان میں سے ہر علامت اسی طرف جاتی ہو۔ مگر بچوں کی ان علامتوں کی سنجیدگی سے وجہ معلوم کریں۔
   یہ بھی یاد رکھیں کہ اکثر صورتوں میں کوئ واضح علامت نہیں ہوتی ہے۔
 ماہرین کا خیال ہے کہ بچوں کو انکے جسم کے متعلق ابتدائ معلومات اس طرح دینی چاہئیے کہ انہیں یہ اندازہ ہو جائے کہ انکے جسم کے کس حصے کو لوگ چھو سکتے ہیں اور کس حصے کو نہیں۔ یعنی ان میں ستر کا احساس نہ صرف پیدا کریں بلکہ اگر کوئ اسکی خلاف ورزی کرتا ہے تو بچے کو یہ اعتماد دیں کہ وہ آپ کو فوراً بتائے۔
 بچے ہمارا مستقبل ہیں یقیناً ہم میں سے کوئ نہیں چاہے گا ان نازک پھولوں کو کوئ اپنے سخت ہاتھوں اور حیوانیت سے مسل دے۔ انکی مناسب دیکھ بھال اور کسی بھی ممکنہ خطرے سے بچانا ہم سب کا فرض ہے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو اس سلسلے میں ہوشیار کرنے کے لئے میڈیا کی مدد لے۔
یہ تحریر صرف گھریلو بچوں کے متعلق ہے۔ لاوارث بچوں اور گلیوں میں پھرنے والے بچوں کو اسکا موضوع نہیں بنایا گیا۔ کیونکہ اس حوالے سے یہ ایک خاصہ طویل موضوع ہو جائے گا۔
مزید معلومات کے لئیے ان حوالہ جات کو دیکھ لیں۔

Saturday, September 12, 2009

زمین کے خدا


لیجئیے جناب نئ اور تازہ

اس وقت پاکستان میں رات کے پونے دس بج رہے ہیں ابھی دو منٹ پہلے میں نے ڈان چینل پر یہ خبر دیکھی کہ پنجاب کے ایک علاقے میں آٹا بانٹا جا رہا ہے لیکن اس آٹے پر صرف مسلمانوں کا حق ہے۔ کیونکہ مسلمانوں نے روزے رکھکر جو ثواب لا متناہی حاصل کیا ہے۔اسکی رو سے اب بھوک کے نتیجے میں کھانا صرف انہیں ملے گا۔  آنے والے کرسچن لوگوں کو خالی ہاتھ واپس بھیج دیا گیا۔ نامہ نگار نے جب منتظمین سے اس امتیازی سلوک کی وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا کہ چونکہ یہ رمضان پیکج کا حصہ ہے اسلئے یہ صرف مسلمانوں کو ملے گا اور جب انکے رمضان آئیں گے تو انہیں بھی دیں گے۔
پاکستانی قوم کے لئے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ اب پاکستان میں بھوک کا بھی مذہب ہو گیا ہے۔ حالانکہ خدا نے اپنے سب سے منکر بندے کے لئے بھی رزق اتارا اور یہ وہ ہے جو پتھر میں کیڑے کو بھی کھانا دیتا ہے۔ اسکی حقانیت کے سب سے بڑے دعوےدار  اسے  زمین تک پہنچتے پہنچتے کسطرح مختلف طبقوں میں بانٹ دیتے ہیں۔
اور اقلیتوں کے ساتھ یہ امتیازی سلوک جناب نواز شریف کے حصے میں اتنے کیوں آتے ہیں؟ یاد رہے اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ نون کی حکومت ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پیشتر ایک افواہ کے نتیجے میں عیسائیوں پر مسلمانوں کے ایک ہجوم نے ہلہ بول کر کئ کو قتل کر دیا۔ وزیر اعلی پنجاب چھ دن تک اس علاقے میں جانے کے قابل نہ ہو سکے، ایسا کیوں ہے؟ پچھلے دو ماہ میں ایسے دو واقعات کیوں ہو چکے ہیں؟ 

Thursday, September 10, 2009

جناب میئر

حالانکہ میں اپنی ایک اہم  پوسٹ کے لئے مواد اکٹھا کر رہی تھی لیکن کل جب میری نظر اتفاق سے ایک ویڈیو پر پڑی تو میں رک گئ۔میں عام طور سے ویڈیو دیکھنے سے اجتناب برتتی ہوں لیکن اسے دیکھنا پڑا کہ یہ ہمارے شہر کہ ایک محنتی میئر کاچہرہ لئیے ہوئے تھی۔
جناب مئیر، ہم سب آپ پر بڑا فخر کرتے ہیں۔ اس ویڈیو پہ نظر آنے والے واقعات کے پس منظر سے الگ میں تو صرف یہ کہنا چاہتی ہوں کہ آپ نے اب تک جو کچھ بھی کیا اس شہر کے مکینوں کے لئے کیا۔ اس لئے بھی کیا کہ اس سے آپ موجودہ اور آنیوالے لوگوں کے لئے ایک مثال قائم کر دیں۔ اور اس لئے بھی کہ قدرت نے آپکو یہ موقع فراہم کیا کہ آپ اس شہر اور اسکے رہنے والوں کو ان سہولیات کے قریب لے آئیں جس کے وہ حقدار ہیں۔ مگر ہوا یوں کہ آفیشل ورک میں دن رات الجھے رہنے کی وجہ سے آپ یہ بھول گئے کہ آپ اسوقت اپنے آفس میں  کسی عہدیدار کو اسکی ناہلیت کا احساس نہیں دلارہے ہیں بلکہ ان غریب عورتوں سے بات کر رہے ہیں جن سے یہ شہر، یہ ملک  بھرا ہوا ہے۔ مصائب اور مسائل میں پھنسےہوئے یہ لوگ بس اسی طرح چیخ سکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ آپکے پاس بڑے غصے والے مان میں آئیں ہوں کہ یہی ہے وہ شخص جس کو ہم اپنا غصہ دکھائیں گے تو وہ اسکی لاج رکھے گا۔
کچھ عرصہ پہلے صدر میں میری گاڑی پارکنگ میں سے اٹھالی گئ۔ جبکہ باقی سب گاڑیاں وہان اسی طرح موجود تھی۔ جب میں وہاں پہنچی کہ میری گاڑی کو کیوں اٹھا لیا گیا ہے تو جواب ملا کہ نو پارکنگ ایریا میں کھڑی تھی اس لئے۔ میں شدید گرمی سے ویسے ہی بے حال تھی مجھے شدید غصہ آیا۔ وہاں ایک میل دور تک کہیں نو پارکنگ کا بورڈ یا سائن تک نہ تھااور باقی دس گاڑیاں وہاں کیوں چھوڑ دی گئیں۔ میں نے اس وقت اپنے دھان پان وجود میں سے پوری آواز نکالی اور کہا کہ فوراً میری گاڑی ریلیز کریں ورنہ میں ابھی یہاں سے سیدھے مصطفے کمال کے پاس جا کر پوچھونگی کہ کراچی میں کون سا پارکنگ کا قانون چل رہا ہے۔ آپ جانتے ہیں میں نے ایسا کیوں کہا ۔ کیوں کہ مجھے امید تھی کہ آپ کے آفس میں میری اس بات کو  اور اس دلیل کو ضرور سنا جائیگا چاہے صرف میرا دل رکھنے کو۔
بہت ممکن ہے کہ ان خواتین کو آپکا امیج بگاڑنے کے لئے بھیجا گیا ہو۔ لیکن پھر آپ اس طرح کے ٹریپ میں کیوں آگئے۔ اس معاملے سے نبٹنے کے اور بہت سے مدبرانہ طریقے ہو سکتے تھے۔ آپکو اپنے ذاتی عملے کو جو آپکے ساتھ ہر وقت رہتا ہے اسکی ٹریننگ کروانی چاہئیے تاکہ ہجوم میں کس شخص کو آپکے پاس آنا ہے وہ اسے مانیٹر کر سکے۔ دوسر ایسے ماہرین بھی آپ کے ساتھ ہونے چاہئیں جو کہ ایسے لوگوں کو منظر سے بغیر کسی افراتفری کے ہٹانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ جب آپکا سامنا ہی دن رات عوام کے مسائل سے رہتا ہے تو انکو سنبھالنے کا طریقہ بھی آپکو آنا چاہئیے۔
یہ بالکل کوئ دلیل نہیں کہ چونکہ آپ پانچ روپے کے بدلے کسی کو بیس ہزار کی سہولیات دے رہے ہیں تو اسکے ساتھ جس طرح کا سلوک دل چاہے روا رکھیں۔ آج آپکی جو بھی عزت اور مرتبہ ہے وہ انہی لوگوں کی غربت اور کمزوریوں کی وجہ سے ہے۔ اگر یہ لوگ اتنے غریب نہ ہوتے اور اگر ہمارے ملک میں لوگوں کو عرصہ ء دراز سے انکے حقوق سے محروم رکھنے کی سازش نہ کی جا رہی ہوتی تو کیا یہ آپکے پاس آتے۔ اگر یہ پل اور روڈز آج سے دس سال پہلے بنائے گئے ہوتے تو انکا کوئ بھی کریڈٹ آپکو نہ ملتا۔ اب جب کہ قدرت نے آپ کو لوگوں کے دل جیتنے کے موقع سےنوازا ہے تو اسے ضائع نہ کریں۔
چلیں اب بگڑے کو جانیں دیں ، کسی بھی صحیح کام کو کرنے کا  کوئ آخری وقت نہیں ہوتا۔ میں نے سوچا کہ اگر آپکی جگہ میں میئر ہوتی تو ایسے واقعے کے پیش آنے کے بعد میں کیا کرتی جس میں میرے عملے کی ہوسکتا ہے کہ کوتاہی بھی شامل ہو۔ میرا خیال ہے کہ میں ایک پریس کانفرنس کرتی اور اس میں ان خواتین سے اسکی معافی مانگ لیتی  اپنے اس سخت روئیے کی جو میں نے ایک دنیا کے سامنے ان سے برتا۔ کبھی کبھی پیچھے ہٹ جانے سے ہم بہت آگے نکل آتے ہیں۔

Wednesday, September 9, 2009

گند اور گند


اپنی چھوٹی سی بیٹی کی وجہ سے مجھے پچھلے ایک مہینے میں تین مختلف عوامی جگہوں پر بیت الخلاء جانے کی اذیت اٹھانی پڑی۔ بچوں کو احتیاطاًڈائپر میں رکھنے کے باوجود انہیں غلاظت میں زیادہ دیر نہیں چھوڑا جا سکتا ورنہ انکی جلد پر چھالے ہو جاتے ہیں تو لامحالہ اس مصیبت کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہ تین جگہیں، کراچی سفاری پارک، باغ ابن قاسم اور قائد اعظم انٹرنیشنل ائر پورٹ ہیں۔
سفاری پارک کے واحد خواتین کے بیت الخلاء میں غلاظت سے بھرا کموڈ اور سارے میں پھیلا ہوا پانی اس بات کی عکاسی کررہا تھا  کہ صفائ ہمارے ایمان کا کتنا حصہ ہے۔ باغ ابن قاسم میں انتظامیہ نے اچھا انتظام کیا ہے اور یہاں کافی سارے بیت الخلاء ایک جگہ پر ہیں ساتھ میں ایک بڑا ھال ہے جس میں کافی سارےبیسن اور شیشے لگے ہوئے تھے۔  یہ ھال اور وہ سیکشن جہاں ٹوائلٹ اسٹالز موجود ہیں کافی ہوا دار ہیں۔یہاں خواتین کی بڑی تعدااپنے بچوں کے ساتھ موجود تھی ان میں سے بیشتر اپنے نک سک کو درست کرنے سے لگی ہوئیں تھیں۔ مجھے چار اسٹالز میں  کموڈ کھول کر بند کرنے کے بعد  پانچواں اس قابل لگا کہ اسے استعمال کیا جا سکے۔ اب منصوبہ ساز آپکو ایک چیز بنا کر تو دے سکتے ہیں لیکن وہ لوگوں کو یہ نہیں سکھا سکتے کہ جو گندگی آپ نے کموڈ کے نذر کی ہے اسے پانی سے فلش کر کے صاف کردیں۔ اسے دوسرے لوگ بھی استعمال کرتے ہیں اور یہ انکے لئے بالکل ضروری نہیں کہ آپکی چھوڑی ہوئ غلاظت کو پانی میں تیرتے دیکھیں۔ نتیجتاً باہر آکر میرا موڈ بالکل ختم ہو چکا تھا اور واپسی کے ایک گھنٹے کے سفر کو جو کسی وی آئ پی کی آمد کی وجہ سے ختم نہ ہو رہا تھا میں سختی سے منہ بند کئے گھر واپس آگئ۔
ائیر پورٹ کی حالت کچھ بہتر تھی لیکن کسی ڈٹر جنٹ کے استعمال نہ کرنے کی وجہ سے  یا مناسب طور پر صفائ کے اصولوں کو انجام نہ دینے کی وجہ سے وہاں شدید بدبو پھیلی ہوئ تھی۔ وہیں ایک کنارے پہ کلیننگ لیڈی اپنے سر کے نیچے دوپٹے کا تکیہ بنائے سو رہی تھی۔ اسے بالکل اس بدبو کا احساس نہ تھا۔
یہ تو اس شہر کا حال ہے جو پاکستان کا سب سے بڑا اور ترقی یافتہ شہر ہے۔ اگر یہاں سے باہر نکل جائیں تو بیت الخلاء کا جیسے کوئ تصور نہیں ہے۔ میں ایک دفعہ حیدر آبادکے ٹول پلازہ کے قریب واقع ایک اچھے خاصے ہوٹل میں گئ تو وہاں پر بھی غلاظت کا کم و بیش یہی عالم تھا۔
سندھ اور بلوچستان کے دیہاتوں میں جہاں تک میں گئ ہوں عام طور پر واش روم کا تصور نہیں ہوتا ۔ لیکن صفائ کے لئے جو لوٹا استعمال کیا جاتا ہے وہ بھی اتنا غلیظ ہوتا ہے کہ اسے استعمال کرنے سے کراہیت ہوتی ہے۔

کراچی سے لیکر گوادر تک ساڑھے چھ سو کلو میٹر کے راستے میں کوئ ایسی جگہ نہیں جہاں کوئ شخص اور  خواتین بالخصوص اس ضرورت کے لئے جا سکیں۔ اگر کوئ ہوٹل ہو تو اول تو وہاں یہ سہولت نہیں ہوگی اور ہوئ تو قدمچے پر سوکھی ہوئ یا گیلی  غلاظت اس تواتر سے ہوگی کہ آپ کئ دن تک اپنے آپ کو کسی بھی جمالیاتی تاءثر سے خالی سمجھنے لگتے ہیں۔
لوگوں کا خیال ہے کہ اس سلسلے میں جس گندگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے وہ تعلیم کی کمی سے جڑا ہوا ہے۔  واش رومز کو یا بیت الخلاء کو  اور ان سے منسلکہ چیزوں کو گندگی جمع کرنے کی جگہ سمجھ کر مزید گندہ رکھا جاتا ہے۔
  میرے ذاتی خیال میں صاف رہنے اور رکھنے کا احساس کسی بھی انسان کی جمالیاتی حس سے جڑا ہوا ہے۔  خوبصورتی اور صفائ ایکدوسرے سے جڑے ہوئے ہیں بلکہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ صفائ کسی جگہ، یا شخصیت کے حسن کو بڑھا دیتی ہے۔ اور یہ بدصورتی کے اندر بھی کشش پیدا کر دیتی ہے۔  یہ اس بات کا اشارہ بھی دیتی ہے کہ ہم اپنے ارد گرد کے لوگوں کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ اگر شہروں میں کموڈ سے اٹھ کر جانےوالے اسکا فلش چلادیں تودوسرے آنیوالے کو اس ذہنی تکلیف سے نہیں گذرنا پڑیگا۔
اور اگر واقعی اسکا تعلیم آگہی کی کمی سے تعلق ہے تو جس طرح پولیو کی مہم چلائ جاتی اسی طرح اپنے آپ کو اور اپنے بیت الخلاء کو صاف رکھنے کے طریقے سکھانے کی مہم بھی چلانی چاہئیے۔ ہم تو اس مرحلے سے اپنی ابکائیوں کو روکتے ہوئے گذر جاتے ہیں کہ بس پاکستان میں یہی ہوتا ہے یا دوسری صورت میں ان جگہوں کے استعمال سے حتی الامکان گریز کرتے ہیں لیکن اگر ہمارے ساتھ کوئ غیر ملکی ہو تو بڑی سبکی ہوتی ہے۔
اردو میں ایک شاعر چرکی کے نام سے گذرے ہیں جن کا غلاظت کے باب میں شاعری کرنے پر نام بہت مشہور ہے۔ میرے پاس انکا کوئ مطبوعہ کلام نہیں۔ نہ ہوئے چرکی اس طرح کے پبلک ٹوائلٹس میں جانا ہوتا تو پتہ نہیں کیا کیا لکھ کر ڈھیر لگا دیتے۔  

Monday, September 7, 2009

ایک پیشہ ورانہ ریسیومے

اپنی زندگی کے کسی حصے میں بھی آپ ملازمت کی تلاش کے لئے نکلیں۔ دیگر بنیادی ضروریات کے علاوہ جس چیز کی سب سے پہلے ضرورت پڑتی ہے وہ ہے آپکا ریسیومے، آپکا پیشہ ورانہ تعارف۔ ہمارے جونیئر ساتھی اس سلسلے میں خاصے پریشان نظر آتے ہیں۔ اکثریت ایکدوسرے کے ریسیومے چھاپ لیتی ہے۔ اور اس طرح سے اس میں کوئ انفرادیت نظر نہیں آتی۔ اور وہ دیگر ریسیومے کے ڈھیر میں دب جاتی ہے۔
آج میں اپنا علم اس سلسلے میں اپنے ان جونیئر خواتین حضرات کے ساتھ شیئر کرنا چاہونگی۔ 
سب سے پہلے تو یہ کہ اپنے ریسیومے کے مختلف حصے سوچ لیں اور ہر ایک کی مناسب ہیڈنگ بنا لیجیئے۔

صفحے کے شروع میں  آپ کا تعارف ہونا چاہئیے۔اس میں اپنا نام اسی تلفظ اور انداز میں لکھیں جو آپکی تعلیمی اسناد میں موجود ہے۔ کوئ تخلص یا کسی بھی اور قسم کی جمع یا تفریق نہ کریں۔ اسکے ساتھ اپنے رابطے کے مستقل اور ایسے ذرائع دیجئیے۔ جن پر آپ سے فوری رابظہ ممکن ہو۔ یعنی اپنے گھر کا پتہ، فون نمبر، فیکس یا ای میل پتہ اگر موجود ہے تو ضرور دیں۔ زیادہ سے زیادہ رابطے ڈالیں تاکہ آپ سے رابطہ ہونے میں آسانی رہے۔
پھر اسکے بعد آبجیکٹو ضرور بیان کریں۔ اس سے یہ مراد ہے کہ اگر آپ اس ملازمت کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو آپکی موجودگی سے انہیں کیا فوائد حاصل ہونگے۔ کسی بھی بات کے لئے شاید کا استعمال نہ کریں۔ اپنی صلاحیتوں کے بارے میں مستحکم اندازہونا چاہئیے۔
ملازمت سے متعلق کوالیفیکیشن کو بیان کریں۔
اسکے بعد مختلف پیشہ ورانہ مہارت جو آپکو حاصل ہے اسے لکھئیے۔
پھر ا گر آپ نے مختلف جگہ  مختلف اوقات میں ملازمت کی ہے تو اسے سلسلے واراس طرح لکھیں کہ پہلا اپنا عہدہ، پھر اس جگہ کا نام اور پتہ اورآخر میں مدت ملازمت تاریخ کے حساب سے لکھیں۔  بہتر یہ ہے کہ آپ اسے کالم کے انداز میں لکھیں اس طرح کم جگہ میں زیادہ معلومات آجائیں گی۔سب سے پہلے اس جگہ کا حوالہ دیں جہاں آپ ابھی کام کر رہے ہیں یا جہاں آپ نے سب سے آخر میں کام کیا تھا۔ اسکے بعد اسی حساب سے پیچھے چلتے جائیں۔ اگر آپکا تجربہ مختلف ملازمتوں کا بہت زیادہ ہے تو صرف پچھلے پندرہ سالوں کا لکھنا کافی ہوگا۔ یا زیادہ اہم کو درج کریں۔
اب سب سے آخیر میں تعلیم کی باری آتی ہے۔ اسے بھی سب ے آخری والی ڈگری سے شروع کریں اور ہائ اسکول تک لیجانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ صرف گریجوایشن تک بتانا کافی ہے۔ وہ بھی اگر آپکا مکمل نہیں ہوا ہے تو اسکی متوقع تاریخ اسکے ساتھ لکھ ضرور دیں۔ اپنی تمام ڈگریوں کے نام اور منسلکہ تعلیمی اداروں کے نام بھی ساتھ میں لکھیں اور آخر میں ڈگری حاصل کرنے کا سال اگر مناسب سمجھیں تو ڈالدیں۔
اسکا انداز ویسا ہی رکھیں جیسا کہ تجربہ ء ملازمت کا رکھا تھا۔
یہ تو ان مختلف حصوں کی بات ہو گئ۔ ان حصوں میں دی گئ تمام معلومات کو پوائنٹس بنا کر لکھیں۔ اور کہیں بھی لفظ میں یا میرا استعمال نہ کریں۔ 
  ذاتی معلومات دینے سے گریز کریں۔ جیسے تاریخ پیدائش، مذہب، شادی شدہ ہونا، بچوں کی تعداد، عمر، رنگ، نسل۔
اپنے نام کے ساتھ حضرات مسٹر اور خواتین مز لکھیں۔ خواتین مس یا مسز لکھنے سے اجتناب کریں۔ 
ریسیومے کے اوپر پھول پتیاں  اور رنگ برنگے حاشئیے بنانے سے گریز کریں۔
اپنے تجربے کو بڑھا چڑھا کر نہ بیان کریں کہ نوکری دینے والا سوچے کہ یہ تو کوئ بہت زبردست شخص ہے اسے ہم رکھ کر کیا کریں گے، یہ تو مصیبت بن جائے گا۔ یا یہ کہ اس عہدے کے لئے یہ کوالیفیکیشن زیادہ ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آپ پہلے اس ملازمت کے تمام پہلو سمجھ لیں کہ انہیں کیا چاہئیے  اور آپکی متوقع ملازمت میں کیا ذمہداریاں ہونگیں،  پھر اپنا ریسیومے تیار کریں۔
اگر آپکے پاس تجربہ نہیں ہے تو بھی آپ اس سیکشن میں اپنی لائن آف سٹریٹجی بتا سکتے ہیں کہ آپ کس طرح اپنے ٹارگٹس کو پورا کریں گے۔ اور جو مہارت آپکو حاصل ہے اسے کسطرح بروئے کار لائیں گے۔
اگر آپ سے ریفرنس نہیں مانگے گئے ہیں تو انہیں ڈالنے کی کوئ ضرورت نہیں ہے۔
آپکا ریسیومے صرف چند سیکنڈز کے لئے دیکھنے والے کے سامنے ہوتا ہے اس لئے اپنی بات اس طرح لکھیں کہ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ بات کہہ لیں۔ پیج پر اپنی اسپیس کو عقلمندی سے استعمال کریں بہتر تو یہ ہے کہ ایک صفحے پر مشتمل ہو لیکن اگر آپکی تفصیلات بہت زیادہ ہیں تو اسے دو صفحے کا کرلیں۔ دو صفحوں کا ہونے کی صورت میں اسے اگلے صفحے کے آدھے سے زیادہ حصے پر آنا چاہئیے اگر یہ آدھے سے کم پر ہے تو اسے کوشش کر کے ایک صفحے کا کر لیں۔

کچھ اور احتیاطیں یہ ہیں کہ کبھی اپنی پہلے والی ملازمت چھوڑنے کی وجہ نہ لکھیں۔ اپنے کسی بھی سابق یا موجودہ ایمپلائر کا نام نہ لکھیں اور نہ ہی اسکا پتہ۔
ریسیومے تیار کرنے کے بعد اچھی طرح پروف ریڈ کر لیں۔ اسے ہر طرح سے غلطی سے پاک ہونا چاہئیے۔ نہ ہجوں کی اور نہ گرامر کی کوئ بھی غلطی ہو۔
یہ ذہن میں رکھیں کہ آپ اپنا علم اور مہارت بیچنے کے لئے پیش کر رہے ہیں۔ اسے متوقع ملازمت کے مطابق بنا کر پیش کریں۔ اگر آپ کو بحیثیت کوالٹی کنٹرولر مقرر کیا جانا ہے تو آپ جتنے بھی اچھے سسٹم انالسٹ ہوں، انہیں اس سے کوئ غرض نہ ہوگی۔ اس لئے ملازمت سے منسلکہ علم اور مہارت کو بالخصوص توجہ سے لکھیں۔
میں نے اب سے چند سال پیشتر ایک بہت اچھا اور جمالیاتی تاثر رکھنے والا ریسیومے دیکھا تھا جس میں پیج پر مختلف چھوٹی بڑی ونڈوز بنا کر اس میں اپنی معلومات اس طرح لکھ دی گئ تھیں کہ ایک صفحے میں کوزہ بند ہو گیا تھا۔  اسکے لئے انہوں نے ایم ایس ورڈ استعمال نہیں کیا ہوگا۔ اسکی ایک کاپی میں نے سنبھال کر رکھی تھی مگر وہ گھر بدلنے میں ادھر ادھر ہو گیا۔
ورنہ میں اسے اسکین کر کے لگا دیتی۔ یقیناً آپ میں سے بہت سوں کو بہت سی باتوں کا پہلے سے علم ہوگا۔ مگر یہ میرے ان ساتھیوں کے لئے بالخصوص ہے جو ابھی عملی زندگی میں قدم رکھنے کے لئے پر تول رہے ہیں۔  اپنے تخلیقی جوہر یہاں بھی دکھائیے۔ اس بارے میں کوئ الجھن ہوتو ضرور تبصرہ کریں۔ میں یا میرے کوئ اور بلاگر ساتھی اس سلسلے میں آپکی حتی المقدور مدد ضرورکریں گے۔ خدا آپکا حامی و ناصر ہو اور آپ میں آگے بڑھنے کا جذبہ برقرار رکھے۔

ریفرنس؛

ریسیومے، ایک سوال

ریسیومے کی تیاری


نتیجہ:
اب جب کہ یہ تحریر آپکے سامنے ہے اور اس سے منسلکہ ےتبصرے بھی تو مزید کسی الجھن میں پڑنے کے بجائے ہم اس ساری چیز کا ایک خلاصہ نکال لیتے ہیں۔ جیسا کہ تبصروں کی ضمن میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اعتراض ذاتی اطلاعات کے لئے ہیں۔ اسے متنازعہ رکھنے کے بجائے آپ اگر سمجھتے ہیں کہ اسے ضرور ڈالا جانا چاہئیے تو اس سیکشن کو سب سے آخر میں رکھیں۔ اگر آپ پاکستان میں ہیں تو مذہب اور قومیت کی کوئ ضرورت نہیں ہے۔ مذہب کے لئے بھی پاکستان سے باہر بھیجنے میں احتیاط کریں کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے بعد روئیے خاصے تبدیل ہو چکے ہیں۔ اگرچہ ڈگری کا سال لکھنے سے ایک اندازاً عمر پتہ چل جاتی ہے پھر بھی اگر آپ تاریخ پیدائش ڈالنا چاہیں تو اسے ڈالدیجئیے۔ خواتین اگر غیر شادی شدہ ہیں تو وہ چاہیں تو اپنا اسٹیٹس لکھ دیں۔ غیر شادی شدہ خواتین کے لئیے میرا مشورہ تو یہی ہے کہ نہ لکھیں۔ اگر ڈیمانڈ ہی غیر شادی شدہ خواتین کی ہے تو پھر ظاہر ہے کہ آپ اسکے لئے اپلائ نہیں کریں گیں۔ ریفرنس ڈالنے سے پہلے جن کا ریفرنس ڈال رہے ہیں انہیں اطلاع کر دیں تو بہتر ہے۔
ہابیز کا سیکشن اسی صورت میں رکھیں جب کوئ بہت غیر معمولی کارکردگی کھیل میں ہو۔ اس سے آپکے اندر لیڈر شپ خصوصیات اور ٹیم اسپرٹ کے ساتھ کام کرنے کا پتہ چلتا ہے۔ باقی اسکی کوئ ضرورت نہیں ہے۔ مزید مشوروں اور تبصروں کے لئے پوسٹ کھلی ہے۔ تمام تبصرہ نگاروں کی رائے کا بے حد شکریہ۔
نوٹ؛ چونکہ اس بلاگ سے جہاں کے لئے یہ میں نے لکھا ہے انہوں نے ریسیومے لکھا ہوا تھا۔ یہ میں نے اردو کے خیال سے ریسیومے لکھ دیا ہے انگریزی میں اسے ریزیومے ہی بولا جاتا ہے۔   

Sunday, September 6, 2009

رقیب اور جدید ٹیکنالوجی

 دعوی محبت ایک اچھا شغل ہے۔ ورنہ یہ سننے میں نہ آتا کہ
ہزار کام مزے کے ہیں داغ الفت میں
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں
اگر اس میدان میں بھی روکھی پھیکی گذر رہی ہے تو امکان غالب ہے کہ ابھی وہ مرحلہ نہیں آیا جہاں رقیب رو سیاہ کی اینٹری ہوتی ہے۔ کچھ نا معلوم وجوہات کی بناء پر رقیب کس قدر بھی گورا ہو اسے کہا رو سیاہ ہی جاتا ہے۔ اگر اب نہیں ہے تو یقیناًآپ کا سامنا ہونے پہ اسکا چہرہ ایسا ہی ہو جائے گا۔
رقیب کی یہ اینٹری عام طور پر اس قدر غیر متوقع ہوتی ہے کہ آپ  دہل جاتے ہیں اور ہر شخص پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہےاور پھر ایسی پیاری اور معصوم باتیں سننے میں آتی ہیں کہ
ناصح بھی ہے رقیب، یہ معلوم ہی نہ تھا
کس کو صلاح کار کیا، ہم نے کیا کیا
بعض اوقات آپ کو بعد میں پتہ چلتا ہے کہ  دوسروں سےاپنے محبوب کی زیادہ تعریفیں بھی کوئ اچھی بات نہیں، لیکن اب کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ اب آپ لاکھ اپنی سادگی  کی داستان کسی کو  سناتے پھریں کہ
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا
 سب لوگ آپکو اول درجے کا بے وقوف ہی سمجھیں گے
یہاں یہ مت بھولیں کہ چونکہ آپ دونوں کے درمیان رشتہ ءرقابت ہے اس لئے آئنسٹائن کےنظریہ ء اضافیت کے تحت آپ بھی اسکے رقیب قرار پائیں گے۔ رقابت کی اس جنگ میں سب جائز ہے۔ اس لئے کافی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ رقیب اگر آپ کو ایک اچھا کمپیوٹر ایک اچھے انٹرنیٹ کنکشن کے ساتھ لیکر تحفتاً دینے پر بضد ہے تو آپ کو اسکی نیت کا فتور فوراً سمجھ لینا چاہئیے۔
رقیب کے داخل ہوتے ہی زندگی کے شب وروز تبدیل ہو جاتے ہیں۔ رقیب اور محبوب کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں کے احوال جاننے کے لئے مختلف لوگوں سے دوستی گانٹھنی پڑتی ہے۔ اس سے سوشل ریلیشنز خوب پھلتے پھولتے ہیں۔  یہاں گر کی بات یہ بھی ہے کہ ان مخبروں کی وجہ سے آپکی محبت کی شہرت جتنی دور تک جائے اتنا ہی رقیب کے پیچھے ہٹنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ 
وہ بھی سن لیں گے یہ کبھی نہ کبھی
حال دل سب سے برملا کہئیے
یہاں وضاحت کے لئے یہ بتا دوں کہ یہ شعر ہمارے کسی بلاگ کے عنوان کے بارے میں نہیں کہا جارہا۔ کیونکہ داغ کے زمانے میں بلاگنگ کا وجود نہ تھا اور بس کچھ ایسے ویسے طریقے ہی آزمانے پڑجاتے تھے۔
کچھ  مخبروں کو تو لین دین کے بعد راضی کرنا پڑتا ہے کہ بالکل مصدقہ خبر ملے۔ اس بہانے آمدنی کے دیگر ذرائع بھی تلاش کرنے پڑجاتے ہیں۔ کچھ مخبروں کو پیار اور محبت سے راضی رکھنا پڑتا ہے اور صورت حال ایسی ہو جاتی ہے کہ تجھ سے کی ہے کہ زمانے سے محبت میں نے۔
اگر محبوب کوئ مشہور شخصیت ہے تو آپ  رقیب اور انکے تعلقات کی تفصیلات جاننے کے لئے روزانہ باقاعدگی سے اخبار پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ کوئ اچھی علامت نہیں اس سے کسی بھی دن اگر نظریں پھسلتے ہوئے ملکی حالات کی خبروں پر چلی گئیں تو آپ اچانک تلوار سونت کر رقیب کے دئیے ہوئے کمپیوٹر پر  بلاگ لکھنے بیٹھ جائیں گے، اور حاصل ہونے والے تبصروں کی تابڑ توڑ لہر آپکو اس کنارے پر لے جائے گی جہاں آپ ہونگے اور آپکا کی بورڈ اور آپکی حب الوطنی کی شان میں کہے گئے الفاظ کا سرور۔ اسی کے لئے تو رقیب نے اتنی منصوبہ بندی کی تھی۔   رقیب اس مرحلے پر بلاگنگ سے سخت بیزاری کے باوجود اسکی تعریف میں دو حرف لکھوا کر دوبارہ پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ڈالکر بیٹھ جائے گا وقتاً فوقتاً وہ آپکے تبصرہ نگاروں کو ہوا دینے کے لئے اپنا تبصرہ بھی فرضی نام سے ڈالتا رہے گا۔۔ اور آپ کاٹھ کے الو بنے ساری ساری رات کھٹ کھٹ کرکے کی بورڈ بجاتے رہیں گے۔
اسکے علاوہ رقیب اگر گورا ہے تو آپکو گورا کرنے والی کریموں کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنی پڑجائیں گی۔ بعد از بسیار خرابی جب محبوب امریکہ والی مصیبت کے ساتھ روانہ ہوجائے گا تو آپ جمع کی ہوئ معلومات کو کام میں لاتے ہوئے اسکا کاروباکر سکتے ہیں۔ محبت ایک شغل ہو سکتی ہے لیکن علم کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔
رقیب اگر ہر وقت آئنسٹائن  اور غالب کے حوالے دیتا ہو۔ تو ان دو افراد پر ہزار لعنتیں بھیجنے کے بعد بھی آپ کو انکے متعلق پڑھنا پڑ جاتا ہے لیکن خیال رہے کہ رقیب کے سامنے اپنی علمیت بگھارنے کی کبھی کوشش نہ کریں۔ مرفی کا قانون اس موقعے کے لئیے اچھی پیشن گوئ نہیں کرتا۔ اور ہو سکتا ہے کہ رقیب اس موقع پر کارل ساگاں اور فرائڈ کے محفوظات سے آپکا بھرتہ بنادے۔ ثانی الذکر دو افراد بھی اول الذکر سے کچھ کم پیچیدہ نہیں۔
رقیب کو کھلا خط بھیجنے سے گریز کریں وہ اسے محبوب کے آگے ڈالدے گا اور کہے گا
تمہیں رقیب نے بھیجا کھلا ہوا پرچہ
نہ تھا نصیب لفافہ بھی آدھ آنے کا
اس سے آپ کی بیستی بڑی خراب ہوگی۔
  رقیب میں ہر وہ عادت ہونے کے امکانات ہوتے ہیں جن سے آپکی جان جاتی ہے اور آپ حیران ہوتے رہتے ہیں کہ اس چمپو میں کیا ہے جس پر محبوب اسے اپنے حلقہ احباب میں رکھتے ہیں۔ وہ اللہ کی شان تنکے میں جان اور ہم تیغوں کے سائے میں پلے جوان۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئیے کہ اس میں رقیب کا کوئ قصور نہیں یہ سب کچھ محبوب کے دل اور آپکی قسمت اور محبوب اور آپکے  دماغ کی خرابی سے جڑا ہوا ہے۔
رقیب کا مکمل سماجی بائیکاٹ آپکے عشق کے لئے اچھا نہیں۔اس سے وہ آپکے عشق کی جڑیں کاٹنے میں تندہی سے مصروف رہے گا۔  اسکی توجہ بانٹے رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ اسکے ساتھ لگے رہیں اور اسکا حربہ اسی پہ لگا دیں۔ اگر اسے بلاگنگ سے دلچسپی نہیں تو فیس بک یا دیگر کمیونٹی سائیٹس کی افادیت کے بارے میں پوشیدہ و غیر پوشیدہ معلومات بہم پہنچا ئیں۔ اور کوئ آپ سے اتنی قربت کی وجہ دریافت کرے تو کہہ دیں آپ درست کہہ رہے ہیں
گو محفل رقیب میں جانا نہ چاہئیے
دیکھیں گے ہم بلا سے تماشہ تو کچھ نہ کچھ
جہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد رقیبوں سے بھنائ ہوئ رہتی ہے۔ وہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو رقیب سے مل کر ایک پریشر گروپ بنا لیتے ہیں۔اور محبوب کوبد دعائیں دینے لگتے ہیں کہ
اللہ کرے تو بھی ہو بیمار محبت
صدقے میں چھٹیں گے تیرے گرفتار محبت
کچھ کاہل اتنا بھی بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہوتے اور پٹھان کے ہوٹل پر رقیب کے ساتھ پڑے دودھ پتی کی چائے کی سڑکیاں لگاتے ایکدوسرے سے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ
ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غم الفت کے
اتنے احسان کہ گنواءوں تو گنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جز ترے اور کو سمجھاءوں تو سمجھا نہ سکوں
اور اگر دنیا انہیں اٹھتے بیٹھتےکچھ ایسے طعنے دینے لگے جس میں لفظ غیرت بھی آتا ہو تو وہ ہونٹوں پہ بعد از نروان حاصل ہونے والی مسکراہٹ سجائے بے نیازی سے کہتے ہیں
دنیا میں دو ہی تو با ذوق آدمی ہیں عدم
ایک میں اور ایک میرا رقیب
 
   رقیب کی تاریخ اتنی پرانی ہے جتنی کہ ہابیل اور قابیل کا قصہ۔ یعنی کہ بہت پرانی ہے۔ اور تب سے اب تک کسی بھی عشق کو اسکے بغیر مکمل نہیں سمجھا گیا ۔اگرآپ کی اب تک اس راستے پر رقیب سے ملاقات نہیں ہوئ تو یا تو راستہ بدل ڈالیں یا قاصد۔ تاکہ آپ بھی محبوب کی  محفل میں بآوز بلند یہ کہہ سکیں کہ
تیری محبت نے مار ڈالاہزار ایذا سے مجھ کو ظالم
رلا رلا کر، گھلا گھلا کر،جلا جلا کر، مٹامٹا کر
محبوب کو مار ڈالا والے اشعار کافی پسند آتے ہیں۔ امید ہے آپکا رقیب فیس بک پر مصروف ہوگا۔ لیکن یہ کیا،
  آپ ایک عدد نیا بلاگ لکھنے بیٹھ گئے۔ دھت ترے کی۔
ریفرنس؛

Friday, September 4, 2009

ایک اور فرزند کراچی

اب جبکہ انیس سو بیانوے کے کراچی آپریشن کا چرچا اٹھا ہوا ہےاور اس سے متاثر ہونے والے تو اتنا نہیں جتنا اس سے نہ متاثر ہونے والے اس پر اپنے گراں خیالات کا اظہار کر رہے ہیں تو اپنی پرانی کتابوں میں سے گذرتے ہوئے میری نظر اس کتاب پر پڑی ، اسکا عنوان ہے کراچی۔ یہ ایک شاعر کا مجموعہ ء شاعری ہے جنکا نام ہے ذی شان ساحل۔ جسے شائع کیا ہے ادارہ 'آج کی کتابیں' نے۔اسکے تقسیم کار کراچی میں ویلکم بک پورٹ، مکتبہ ء دانیال، اور ٹامس اینڈ ٹامس  جبکہ لاہور میں گورا پبلشرز، دستاویز مطبوعات اور کلاسیک تھے۔ تاریخ اشاعت ہے ستمبر ۱۹۹۵۔
اسکا انتساب معروف صحافی اور ادیب جناب ضمیر نیازی کے نام ہے۔ اور انکے انتساب کے ساتھ ڈان میں چھپنے والی ایک خبر کا تراشہ ہے۔ جسکے مطابق انہوں نے پرائڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈ یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ وہ کراچی سے شائع ہونے والے  بیک وقت چھ اخبارات کے بین کے خلاف احتجاجاً یہ ایوارڈ نہیں لیں گے۔ خبر کے مطابق انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت جب کراچی جل رہا ہے اور اسکے شہریوں کو بندوق سے ختم کیا جا رہا ہے۔ صدر، وزیر اعظم ، انکی اسمبلی اور انکی انتظامیہ کے افسران اور ہماری افواج کے افسران اعلی ڈنر پارٹیز میں محفل موسیقی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔یہ سب عوام کے خرچے پہ کیا جا رہا ہے اور کراچی کے عوام کے منہ پر ایک طمانچہ ہے کہ یہ لوگ انکی رہنمائ کرتے ہیں۔
یہ خبر ہے تین جولائ انیس سو پچانوے کی جو کہ ڈان میں شائع ہوئ۔
یہ ایک نظم ہے جو اس کتاب سے لی گئ ہے۔ اسکا عنوان ہے کراچی۔  اس کتاب میں بہت خوبصورت  نثری نظمیں ہیں اور ہر نظم سے میرا شہر سانس لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
کراچی
ایک جنگل ہے
جہاں تاریکی، شور
اور خوف کے ہزاروں درخت
آسمان سے باتیں کرتے نظر آتے ہیں
اتنی اونچی آواز میں کہ
کراچی کے اندر یا باہر رہنے والوں 
کسی کی چیخ بھی
سنائی دیتی نہیں
اصل میں اب کراچی
کوئ شہر نہیں
بلکہ خطرے کی حالت میں 
حلق سے نکلنے والی چیخ ہے
جو چاروں طرف گونج کر رہ گئ ہے
کسی کو اس بات کا احساس تک نہیں 
کہ یہ چیخ مدد کے لئے بلانے والے
کسی تنہا شخص کی بھی ہوسکتی ہے
مدد کے لئے نہ آنے والوں نے 
کراچی کو
ایک غیر انسانی ہجوم سمجھ لیا ہے
یا اندھوں کی ایسی بھیڑ
جس کو بھوک لگنے پر
صرف کھیر کھلائ جا سکتی ہے
آواز نکالنے پر صرف تقریر سنائ جا سکتی ہے
اور ایکدوسرے کا ہاتھ تھام کر 
یا تھامے بغیر
حرکت کرنے پر فائرنگ کی جا سکتی ہے
مگر کراچی میں اب فائرنگ محض ہوا تک محدود نہیں رہی ہے
 گولیاں اور انکی آوازیں
شہریوں کے خوابوں تک پہنچ رہی ہیں
 مگر کراچی خوابوں کا شہر نہیں
خوابوں کے لئیے صرف ایک انتظار گاہ ہے
اپنی آسانی کے لئیے
ہم اسے بندر گاہ
یا ایک عارضی تجربہ گاہ کے طور  بھی
استعمال کرتے ہیں
اس تجربہ گاہ میں ہم
انسانی جسموں پر کوئ تجربہ نہیں کرتے
جیسا کہ سب جانتے ہیں
اس مقصد کے لئے خرگوش کام آتے ہیں
یا سفید چوہے
جن کی افزائش نسل
خطرے کی حد کو چھو لینے پر
چوہے مار دوائیں
اور بلیاں
دارالحکومت سے آتی ہیں

ریفرنس؛
ضمیرنیازی

Wednesday, September 2, 2009

ہوس ثواب

میں ہمیشہ یہ سمجھتی رہی کہ زکوِٰت اس زائد مال پر فرض ہوتی ہے جو آپکے پاس سال بھر پڑا رہا ہو۔ یہاں زائد سے میری مراد صاحب نصاب ہونا ہے۔ اپنی شادی والے دن جب مختلف حاصل ہونے والے تحائف کی وجہ سے میں صاحب نصاب ہو گئ تو میں نے فیصلہ کیا کہ ہر سال اپنی شادی کے سالگرہ کے دن کو زکوٰت کا حساب لگانے کا دن بنا لیا جائے۔ اور اگر اس درمیان خدا کسی اور چیز کی توفیق دے تو اسکی زکوٰت وقت خرید پر ادا کر کے اسے باقی چیزوں کے حساب کتاب میں ڈالدوں۔ یعنی اب اسکی زکوٰت بھی باقی چیزوں کے ساتھ ادا کی جائے گی۔
کچھ عرصے بعد رمضان آگیا۔ گھر میں نئے پرانے کام کرنے والے زکوٰت کا مطالبہ کرنے لگے۔ اس وقت ابھی سال ہونے میں کافی عرصہ تھا۔ اس لئے میں نے زکوٰت سے تو معذرت کر لی البتہ جو کچھ اور ممکن ہوا وہ کر دیا۔
لیکن اب ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ آخر رمضان میں کیوں اتنے جوش و خروش سے زکوٰت دی جاتی ہے۔ کسی نے ہمیں کہا کہ ارے اپنی علامیت ایک طرف رکھ دیں۔ آپ نے بے شک پڑھا لکھا ہے لیکن آپ سے بہتر اسلامیات ہمیں معلوم ہے جو بات آپ کہہ رہی ہیں اسکے حساب سے تو صاحب حیثیت شخص کو ایک رجسٹر رکھنا پڑ جائے گا کہ کونسی چیز کب خریدی۔ ہاں تو،  میں نے دلیل دی مال جمع کرنا آسان کام تو نہیں۔ اسکی ذمہ داری ہوتی ہے۔جواب ملا،' اور  اسکا کیا کیا جائے کہ آپکو صحیح سے علم نہیں  کہ زکوٰت رجب اور رمضان میں دی جاتی ہے'۔ لیجئیے، کہاں تو رمضان کا عقدہ نہ حل ہو رہا تھا۔ کہاں یہ رجب بھی آگیا۔یہ شرمندگی الگ کہ اتنا پڑھنے کے باوجود یہ چیز آج تک کیوں نہ پتہ چلی کہ رجب سے بھی زکوٰت کا تعلق ہے۔
اس لمحہ ء غور وفکر میں اپنی ایک سینئیر دوست کا خیال آیا کہ وہ ان دنوں اپنی پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد ادارہ الھدی میں قرآنی تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ یعنی تفسیر کے ساتھ پڑھنے میں مصروف تھیں۔ انہیں فون کھڑکھڑایا۔
باتوں باتوں میں، میں نے انہیں اپنا مسئلہ بتایا۔ کہنے لگیں، 'آج ہی زکوٰت والا سبق ختم کیا ہے۔ رجب کی کہانی یہ ہے کہ اس حکم سے پہلے عرب اپنے دیوی دیوتاءووں کے نام سے پیسے نکالا کرتے تھے جس کے لئے انہوں نے رجب کا مہینہ مقرر کیا تھآ۔ جس سال زکوٰت فرض ہوئ اس سال رسول اللہ نے رجب کے مہینے اپنے قاصد تمام قبائل کو بھیجے تاکہ انہیں نئے حکم کا پتہ چل جائے اور جو رقم انہوں نے اس سال اپنے  بتوں کے لئے نکالی تھی اسے وصول کر لیا جائے۔ بس اس سال اس مہینے وصولی کے بعد یہ چیز ختم ہو گئ۔ کیونکہ زکوٰت سال بھر رکھے رہے زائد مال پر فرض ہے'۔
اچھا، میں نے مزید کہا۔ 'اب لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیں کہ رمضان سے اسکا کیا تعلق ہے'۔ اب وہ تھوڑا سا جھجھکیں۔' ویسے تو کوئ تعلق نہیں ہے۔ لیکن دیکھو ناں رمضان میں ہر نیکی کا ثواب کئ گنا بڑھ جاتا ہے۔ اور پھر عید پر لوگوں کو پیسے چاہئیے ہوتے ہیں اس لئے لوگ رمضان میں زیادہ زکو٘ دیتے ہیں'۔
 یہ جو ثواب کمانے کی ایک نئ لہر پاکستانی مسلمانوں میں نظر آتی ہے۔ کیا واقعی اس سے انہیں اتنا ہی ثواب ملتا ہے۔اگر آپ پر محرم کے مہینے زکوٰت فرض ہوتی ہے تو آپ نو مہینے رمضان کےمہینے کا انتظار کریں گے تاکہ زیادہ ثواب ملے۔
میں گاڑی سگنل پہ روکے اپنی باری کا انتظار کر رہی ہوں۔ ہر طرف بل بورڈز لگے ہیں۔ خوب بڑے۔ 
ایک طرف عمران خان کالی شیروانی پہنے کھڑے مسکرا رہے ہیں.  انہیں زکوٰت چاہئیے اپنے ہسپتال کے لئے۔  دوسری طرف ایک بورڈ پر ایک غریب بچی کا چہرہ سوال کر رہا ہے، زکوٰت مجھے نہیں دیں گے کیا۔ ایک اور جانب کسی اور ادارے کا اشتہار لگا ہے، ہم ہیں اسکے صحیح مستحق۔گاڑی کے شیشے پر تین چار لوگ ہاتھ مار رہے ہیں، زکوٰت، زکوٰت۔ میری چھوٹی سی بچی پیچھے اپنی کار سیٹ میں بندھی مجھ سے سوال کرتی ہے۔ اماں، یہ کیا کر رہے ہیں۔ میں گاڑی آگے بڑھاتی ہوں اور سوچتی ہوں۔ یہ سب زیادہ ثواب حاصل کرنے والوں کی مدد کر رہے ہیں۔