جہاز اپنی سرنگ میں ایک بڑی تعداد اسکول کے بچوں کی لئیے ہوئے اپنی منزل کے قریب ہو رہا ہے۔ ہمارے ملک کے دارالحکومت میں متوقع امیرالمومنین دھڑکتے دل کے ساتھ بیٹھے آنیوالے لمحے کا انتظار کر رہے ہیں۔جہاز میں اچانک کھلبلی مچ گئ۔ ایئر پورٹ کی تمام لائٹس بند ہو گئ ہیں اور جہاز کے پائلٹ سے کہا جا رہا ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک چلا جائے چاہے وہ انڈیا ہی کیوں نہ ہو۔ جہاز میں اس وقت کا ملک کا سپہ سالار بیٹھا ہے۔ اسکول کے بچے ہیں۔ ایندھن خاتمے کے قریب ہے اور ادھر متوقع امیرالمومنین انتظار کر رہے ہیں ایک ایسی ساعت کا جس میں سانحہ ہو جائے۔ شطرنج کی بساط پہ سارے مہروں کو ہٹاتے ہوئے وہ اس مرحلے تک پہنچے ہیں۔ لیکن یہ کیا ہوا۔ ہائیں۔ مومنین منتظر رہ گئے۔ کچھ ایسا خاص نہیں ہوا۔ مرفی کا قانون حرکت میں آیا۔ اور امیر المومنین وہاں پہنچ گئے جہاں سے انکو بھی کچھ انکی خبر نہیں آتی تھی۔ مرفی کا قانون کہتا ہے کہ غلط ترین صورت حال وقوع پذیر ہو کر رہتی ہے۔
کسے گمان تھا کہ زرداری جیل سے نکلیں گے اور تخت پہ براجمان ہو جائیں گے۔ وہ بھی عوام کی
اکثریت کی حمایت سے۔ بےنظیر جو انتہائ اندرونی ذرائع کے مطابق تہیہ کئے ہوئے تھیں کہ اس دفعہ حکومت ملنے کے بعد زرداری کو سات سمندر پار ہی رکھیں گی۔ آسمانوں کے اس پار چلی گئیں۔
مشرف سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ بازی اس طرح ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی کہ اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئ اور انکے بعد ان کی جگہ سنبھالے گا بھی گا تو کون۔ زرداری۔ لگتا ہے وہ بھی مرفی کے قانون کو نہیں جانتے تھے۔ مرفی کا قانون کہتا ہے کہ غلط ترین صورتحال وقوع پذیر ہو کر رہتی ہے۔
لیکن عقلمند وہی ہے جو دوسروں کو دیکھ کر عبرت پکڑتا ہے۔ یہاں میری مراد اخبار عبرت نہیں ہے۔ اگر یہ بات آپ کو سمجھ آرہی ہے تو باقی کی باتیں بھی سمجھ آجائیں گی۔یہ ناہنجار مرفی ایک انجینیئر تھا۔ ایکدن کسی پروجیکٹ پہ کام کر رہا تھا۔ اسکے ساتھ کچھ اور لوگ بھی کام کر رہے تَھے۔ جب ہر چیز بظاہر اس حالت میں آگئ کہ اس کی آزمائش کی جائے تو وہ ناکام ہو گئے۔ پتہ چلا کہ کسی معمولی سی غلطی کی بناء پر وہ اپنے ہدف تک نہ پہنچ سکے۔ مرفی نے تنکتے ہوئے اس کا ذمہ دار اپنے اسسٹنٹ کو ٹہرایا اور کہا۔' یہ شخص جہاں بھی غلطی کرنے کا موقع ہو ۔ ضرور کریگا۔' بس لوگ اس کی اس بات پہ واری واری ہو گئے۔ حالانکہ آپ میں سے بہتوں کے لئیے یہ مکالمہ نیا نہ ہوگا۔ اور انہوں نے کھوج کھوج کر اس کے حق میں جانے والی باتیں تیار کر لیں۔ جس سے اس قانون کی حیثیت مسلمہ ہو گئ۔ یہاں میرا مطلب حقیقت کے مسلمان ہونے سے نہیں ہے۔ یا تو حقیقت ہمیشہ مسلمان ہوتی ہے یا پھر کچھ نہیں ہوتی۔ اسکے کچھ نہ ہونے سے کوئ فرق نہیں پڑتا۔
اب ان لوگوں نے اس قانون کو جانچنے کے لئے کچھ مثالیں پیش کیں جن میں سے میں صرف دو بیان کرنا چاہونگی۔۔ مثلاًڈبل روٹی کا سلائس اگر آپکے ہاتھ سے گرے گا تو ہمیشہ اس کا مکھن لگا ہوا حصہ قالین سے ٹکرائے گا۔ اسکے اس حصے سے گرنے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں جتنا قیمتی قالین ہوتا ہے۔
آپ کسی مشین کو درست کر رہے ہوں تو اس کا باریک سا اسکرو جو کہ بہت اہم ہوتا ہے آپکے ہاتھ سے چھٹ کر کمرے کے بھاری ترین فرنیچر کے سب سے کونے والے حصے میں پہنچ جاتا ہے۔
تو سب سے پہلے اس قانون کے چیدہ چیدہ نکات ذہن نشین کر لیں جو حسب ذیل ہیں؛
اگر کوئ غلط صورت حال پیدا ہو سکتی ہے تو وہ ضرور ہو گی
اگر ایک بات کے ساتھ بہت ساری غلط صورت احوال ہونے کے امکانات ہیں تو سب سےبد ترین صورتحال سامنے آئےگی۔
اگر کئ چیزیں ایک ساتھ غلط ہونے کے امکانات ہیں تو وہ سب ایک ساتھ وقوع پذیر ہونگی۔
اگر کوئ چیز کسی بھی طریقے سے غلط سمت میں نہیں جا سکتی تو وہ کسی نہ کسی طریقے سے جائے گی ضرور۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی چیز کے غلط سمت میں جانے کے چار طریقے ہو سکتے ہیں تو کوئ پانچواں طریقہ کہیں نہ کہیں سے جنم لے لیگا۔
اگر حالات کو ایسے ہی چھوڑ دیا جائے تو وہ کم بری سے زیادہ بری حالت کی طرف جاتے ہیں۔
قدرت ہمیشہ اس خفیہ غلطی کے ساتھ ہوتی ہے جس کا حل آپ نے نہیں سوچا ہوتا بلکہ جس کا تصور بھی آپ نے نہیں کیا ہوتا۔
قدرت اتنی مہربان نہیں جتنا آپ خیال کرتے ہیں۔
اب اس قانون کی مزید وضاحت کے لئے میں آپ کو آپ سب کی زندگی میں سے کچھ مثالیں دینے کی کوشش کرتی ہوں۔ امید ہے کہ آپ اپنی والی نہایت عقلمندی سے نکال لیں گے۔ میرا مطلب ہے مثال۔ ویسے مثال میری پڑوس کی لڑکی کا نام بھی ہے۔ انہوں نے بی اے کر لیا ہے اور بیاہ کے لئے تیار ہیں۔ آپ میں سے جو لوگ شادی جیسے بندھن میں بندھنا چاہتے ہیں وہ چاہیں تو انہیں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن زیادہ جلدی کی ضرورت نہیں پہلے یہ والی مثالیں دیکھ لیں۔
ٹریفک جام اس دن سب سے زیادہ ہو گا جس دن آپ گھر سے دیر سے نکلے ہونگے۔
جس دن آپ کو آفس پہنچنے میں دیر ہوگی اس دن داخلہ دروازے پہ آپ کی ملاقات باس سے ہوگی۔
امتحانات میں اسی فی صد پیپر ان اسباق میں سے آتے ہیں جنہیں آپ دوران تیاری چھوڑ دیتے ہیں۔
جب پیپر شروع ہونے میں دس گھنٹے رہ جاتے ہیں اس وقت مضمون اچھی طرح سمجھ میں آنا شروع ہوتا ہے اور آپ کہتے ہیں۔ اے کاش، ایکدن اور مل جاتا تو پیپر زبردست ہو جاتا۔ اب اگر اگلے دن اس وجہ سے ہڑتال ہوگئ کہ آپ کے اس وقت کے محبوب رہنما ، پھانسی چڑھ گئے، یا جہاز پھٹ جانے سے ہلاک ہو گئے یا بم دھماکے میں مارے گئے یا انہوں نے اپنے لئے کوئ بھی اور طریقہ اختیار کیا جس کے نتیجے میں انکی غیر طبعی موت واقع ہونا ضروری ہے تو آپ کا پیپر مزید پندرہ دن کے لئے ٹل جائے گا۔ یاد رکھیں۔ اب بھی مضمون آپ کو دس گھنٹے پہلے ہی سمجھ میں آنا شروع ہو گا۔ اور آپ پھر کہیں گےکہ اے کاش،---- یہ بھی یاد رکھیں کہ ایک ہی محبوب رہنما بار بار غیر طبعی موت نہیں مرتا اور اگلے کی باری اتنی جلد نہیں آتی۔
اپنی اماں کو آپ جتنا مہنگا تحفہ لیکر دیں گے امکان غالب ہے کہ اتنا ہی کم وہ استعمال ہو گا۔
ماں کی وہ نصیحت جو آپ نظر انداز کر دیتے ہیں ۔بالکل صحیح اور انکی بتائ ہوئ تمام نصیحتوں میں سب سے بہترین نکل آتی ہے۔
آپ کے چھوٹے سےبچے کے ہنگامہء بدتمیزی کا انحصار ارد گرد موجود لوگوں کی تعداد پہ ہوتا ہے۔ جتنے زیادہ لوگ اتنا زیادہ ہنگامہ۔
خواتین کے لئے خاص طور پہ۔ جب آپ کہیں دعوت میں جانے کے لئے سب سولہ سنگھار سے لیس ہوجاتی ہیں تو آپ کے بچے کو اسی وقت واش روم جانا ہوتا ہے۔
پڑوس کے کرائے داروں کی جس بیٹی پہ آپ کا دل آیا ہے اسے پہلے ہی کوئ لے اڑا ہو گا۔
آپ کے آفس کا ہینڈ سم لڑکا جس کے خاموش عشق میں آپ مبتلا ہیں ایکدن کسی جمائمہ خان کو آپ کے سامنے لا کر کھڑا کر دیگا اور اپنی اسی نرم میٹھی مسکان سے جس پہ آپ فدا ہیں کہے گا۔ ان سے ملئیے یہ آپ کی بھابی ہیں۔
جس دن آپ گھر کے غلیظ ترین کپڑوں میں انتہائ نکمے پن سے پھر رہی یا پھر رہے ہوں۔ اسی دن آپ کو شادی کے ارادے سے دیکھنے کچھ لوگ نازل ہوجائیں گے اور سوئے اتفاق انہیں سب سے پہلے آپ ہی ملیں گے۔
جس لمحے کوئ آپ کو اچھا لگنے لگتا اسی لمحے اس کا کوئ دعوی دار نکل آتا ہے۔
محلے کا لڑکا جسے آپ بچپن سے اس کی فاسٹ باءولنگ کی وجہ سے پسند کرتے تھے حتی کہ دل ہی دل میں اسے اپنا داماد بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ ایکدن صبح صبح، داڑھی سجائے، ٹخنوں سے اونچی شلوار پہنے نیچی نظروں کے ساتھ آپ کی بیٹی کا رشتہ مانگنے نہیں بلکہ جہاد پر جانے کے لئے آپ سے آشیرباد لینے آئیگا۔
غالب بھی مرفی کے قانون سے بڑے خائف تھے کہتے ہیں،
رات کے وقت مئے پئے، ساتھ رقیب کو لئے
آئے وہ یاں خدا کرے، پر نہ خدا کرے کہ یوں
کیا اس وقت بھی مرفی کا قانون موجود تھا، کیا مرفی نے ان کے ساتھ رعایت کی، کیا غالب کا خدشہ صحیح ثابت ہوا۔ غالب اور مرفی کی آپس میں کیسی بنتی تھی۔ یہ سب جاننے کے لئے شاید خطوط غالب پڑھنا پڑیں گے۔ کیا کہا پوسٹ پڑھ کر فارغ ہونگے تو کچھ اور پڑھیں گے۔ پڑھیں،کچھ اور نہیں پڑھیں گے تو بڑے آدمی کیسے بنیں گے۔
ریفرنس؛
مرفی کا قانون