Wednesday, March 30, 2011

جائز دعائیں

کھیل اپنے اختتام پہ پہنچا۔  اگرچہ بظاہر ہر کھیل کا بنیادی اصول یہ لگتا ہے کہ جو جیتا وہی سکندر۔ لیکن کھیلوں کے مقابلے کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ فتح یا شکست  جس راستے  سے کسی فریق تک پہنچتی ہے اسکی بھی اتنی ہی اہمیت ہوتی ہے۔  شاندار کھیل، حریفوں کے داءو پیچ اور فتح یا شکست کو وقار سے سہنا یہ سب چیزیں بھی تو شائقین کو اپنی گرفت میں رکھتی ہیں۔ بہر حال کسی ایک کو جیتنا ہوتا ہے اور دوسرا شکست سے ہمکنار ہوتا ہے۔
سچ پوچھیں ، میں ان لوگوں میں شامل تھی جو کہ یہ توقع نہیں رکھتے تھے کہ پاکستانی ٹیم سیمی فائنل تک پہنچ پائے گی۔ ایک ٹیم جو چند مہینے پہلے بد ترین بحران سے گذری۔ جس کے کھلاڑیوں پہ جوئے اور میچ فکسنگ کے مقدمات چل رہے ہوں۔ وہ اگر یہ پرفارمنس بھی دے تو بڑی بات ہے۔
کرکٹ وہ کھیل ہے جو انفرادی صلاحیتوں سے نہیں بلکہ ٹیم اسپرٹ کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ کیا ہمارا اپنے کھلاڑیوں سے یہ توقع رکھنا جائز ہے کہ وہ ایک بحران سے گذرنے کے بعد چند مہینوں میں اپنے اندر اتنی یگانگت، ایک دوسرے پہ اعتماد ، ایکدوسرے کی صلاحیتوں سے آگہی پیدا کر لیں گے، وہ ہم آہنگی پیدا کر لیں  کہ ورلڈ کپ جیسے اعصابی تناءو والے مقابلے میں ہر قسم کا دباءو جھیل جائیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔  چاہے اس کے لئے سترہ کروڑ لوگ دعا کریں۔ خدا کی سنت یہ نہیں کہ ساری دنیا کے لوگ یہ دعا کریں کہ سارس کی ہاتھی کی طرح سونڈ نکل آئے تو وہ انکا اپنے اوپر یقین برقرار رکھنے کے لئے ایسا کرے۔ یہ دعا جائز نہیں۔

چلیں میں نے فائنل کے لئے دو ٹیمیں منتخب کی تھیں۔ سری لنکا اور نیوزی لینڈ۔ نیوزی لینڈ تو نکل گئ۔ سری لنکا کے بارے میں کیا خیال ہے؟
 

Monday, March 28, 2011

اُف

ڈیڑھ سال پہلے کینیڈا میں مقیم عزیزوں کے بے حد اصرار پہ وزٹ ویزہ کے لئے درخواست دی۔ ڈھائ مہینے انتظار کے بعد   ایک کاغذ ملا جس پہ ویزہ نہ دینے کی بہت ساری وجوہات بیان کی گئ تھیں۔ ہمارے حصے میں جو آئ اسکے مطابق انہیں شبہ تھا کہ ہم کینیڈا جا کر واپس پاکستان نہیں آئیں گے۔
پہلے تو مجھے خیال گذرا کہ مشعل کے ابا کا ہمارے ساتھ نہ جانا ایک وجہ ہو گا۔ حالانکہ درخواست دیتے وقت میں اسے خاصہ مثبت نکتہ سمجھ رہی تھی۔ کہ جب پاکستان میں ہماری اتنی اہم چیز یعنی جیون ساتھی موجود ہیں تو میں کینیڈا سے واپس آنے پہ مجبور ہونگی۔ لیکن بعد میں مختلف لوگوں نے کہا کہ وہ سوچیں گے آپ کے شوہر سے تعلقات اچھے نہیں اور بچی کو ساتھ لے جا کر انکے ملک میں پناہ گزیں ہونگی۔
کیا امیگیریشن عملے نے بھنگ پی ہوئ ہوگی؟ میں نے نعرہ مارا۔ میری تعلیمی اہلیت اور پیشہ ورانہ قابلیت ایسی ہے کہ اگر کینیڈیئن امیگریشن کے لئے درخواست کروں تو انہیں مجھے دینی پڑے گی . اب تک میرے جتنے ساتھی تھے انہیں مل چکی ہے۔ کیا وہ اتنا نہیں سمجھ سکتے کہ میں وہاں غیر قانونی طور پہ کیوں رہنا چاہونگی جبکہ میں اسے قانونی طور پہ حاصل  کر سکتی ہوں۔
لیکن یقین رکھیں، احمق صرف پاکستان میں ہی نہیں پائے جاتے۔  اتنی بھاگ دوڑ اور خرچے کے بعد ایک فارم ملتا ہے جس  میں بیان کی گئ شقوں میں سے ایک کے اوپر ٹک مارک لگا ہوتا ہے۔  ہم تقریباً پندرہ ہزار روپے خرچ کر کے بے نیل و مرام۔ اس وقت عہد کیا کہ آئیندہ کبھی کینیڈا کے لئے اپلائ نہیں کریں گے۔ ارے ہمارے کچھ پیاروں اور  نیاگرا فال کے علاوہ ایسا کیا ہے کہ انکے ملک کا چکر ہم  لگائیں۔
اب ایک دفعہ پھر انہی کینڈیئن نژاد پاکستانیوں کا دباءو ہے ، یار آپ ایک دفعہ پھر درخواست دیں۔ اس دفعہ کا خرچہ ہمارے ذمّہ۔ میں کہتی ہوں ہمارے بنیادی حالات پہلے جیسے ہی ہیں۔ مشعل کے ابا پھر ساتھ نہیں جا سکتے۔ میری تعلیم قابلیت اور دیگر چیزیں بھی ویسی ہی ہیں میں ایسا کوئ کام نہیں کر پائ جو کسی ملک کا امیگریشن عملہ میری آمد کے لئے تمام مقامی قوانین کو ایک طرف کردے۔ پاکستان میں اسی طرح دھماکے ہو رہے ہیں۔ ملک اسی طرح کرپشن کے لئے مشہور ہے۔  ہم اسی طرح غریب ہیں کہ لوگ ہمارے بارے میں سوچیں کہ یہ کہیں آ کر ہمارے پیسوں پہ نہ پڑجائیں۔
حالانکہ اس دفعہ بھی  میں کینیڈا میں غیر قانونی طور پہ بالکل نہیں رکنا چاہتی۔  میں ہمیشہ ایک  کمزور پاکستانی رہی  ہوں اس لئے قانون پسند ہوں۔ پھر بھی، اب لوگوں سے پوچھتی ہوں کہ آخر میں کیوں امید رکھوں، وہ اس دفعہ ویزہ دے دیں گے۔
کیا اس لئے کہ ہم نے ریمنڈ ڈیوس کو رہا کر دیا ہے؟
کیا اس لئے کہ ہم ورلڈ کپ جیت جائیں گے؟
کیا اس لئے کہ جمہوریت پچھلے تین سال سے کامیابی کے ساتھ اپنا تسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں؟
کیا اس لئے کہ انہیں ترس آجائے گا کہ میں نے اپنے کچھ عزیزوں کو ایک مدت سے نہیں دیکھا اور وہ بھی مجھ سے ملنا چاہتے ہیں؟
میں ہر سوچ کو تولتی ہوں اور ردّی سمجھ کر جھٹک دیتی ہوں۔ پھر سوچتی ہوں، کیا  گرمی میں دماغ  کا دہی بنوانے نکلوں۔ 
نوٹری کے پاس، اپنے گھر سے دس میل دوربینک اور اتنی ہی دور ٹی سی ایس آفس۔ ایک دفعہ پھر ہزاروں میں روپے پھینک دوں۔ ایک اور نشان زدہ کاغذ کے حصول کے لئے۔ اُف

Sunday, March 27, 2011

آگے سے ہٹ جا


جس شدت سے پاکستانی تیس مارچ کے منتظر ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ پاکستان کم از کم تیس مارچ تک اپنی سالمیت کی جنگ پہ کوئ سودا نہیں کرے گا۔ اوراس دوران آپکو شاید ہی یہ جملہ سننے کو ملے کہ پاکستان بس اب ٹوٹنے ہی والا ہے۔
مختلف کاروبار حیات ماند پڑ گئے ہیں۔ اور شاعر کہتا ہے
عشق کچھ پڑ گیا ہے ٹھنڈا سا
آج کل امتحان ہے پیارے
سن رہے ہیں کہ سیمی فائنل والے دن آدھی چھٹی ہوگی۔ اور یہ بھی کہ اس دن لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی۔ اتنی خوش خبریوں کے بعد ہماری ایک بزرگ خاتون کا کہنا ہے کہ پاکستان کو سیمی فائنل جیت جانا چاہئیے۔ کیوں؟ کیونکہ، انہوں نے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا،  پھر فائنل والے دن بھی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی۔
اسکی وجہ تیس مارچ کو دو ازلی دشمنوں انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والا میچ ہے جو کانٹے کا ہو یا نہ ہو کانٹوں پہ ضرور ہوگا۔ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے میچ کی دو اہم خصوصیات ہیں۔
اول ہارجانے کے بعد  افسوس ہوتا ہے کہ ہمارا ہاتھ ایٹم بم چلانے والے بٹن پہ کیوں نہیں۔ جیت جانے کے بعد بھی یہی افسوس ہوتا ہے۔ دوم میچ سے پہلے، دوران اور ہار جیت کے بعد، جہادی روح  جوانوں میں بیدار رہتی ہے۔ بغیر کسی زائد خرچے کے۔
اب کھیل میں دو ہی چیزیں ہو سکتی ہیں یا تو ہم جیتیں گے۔ اور ہر پاکستانی فتح کے نشے میں چور گانا گائے گا ہم ہیں پاکستانی ہم تو جیتیں گے۔ آگے سے ہٹ جا۔ یا پھر میرے منہ میں خاک ہم ہار جائیں گے تو اسکے بعد میں تو را کا ایجنٹ قرار ہی پاءونگی لیکن شاہد آفریدی تیرا کیا ہوگا میرے پٹھان۔  گو طالبان نے ابھی تک کرکٹ کو غیر اسلامی نہیں قرار دیا۔ لیکن اسلامی یا غیر اسلامی ہر دو صورت میں وہ سینے پہ بم باندھ کر پھرنے والے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں اور بالخصوص پاکستان میں ورلڈ کپ  کا مقابلہ ایک مرض کی صورت پھیل جاتا ہے سو جو اس کھیل میں دلچسپی نہیں لینے کا دعوی کرتے وہ بھی اسکور پوچھتے نظر آتے ہیں۔ اس حالت میں مریض خود سے، رشتے داروں سے، دوستوں سے حتی کہ محبوب سے بھی شرط لگانے کو تیار رہتا ہے۔
یہ ایک وائرل مرض ہے اپنا سائیکل ختم ہونے پہ ختم ہو جاتا ہے لیکن اختتام کے بعد صورت زیادہ سنگین ہو جاتی ہے اور اکثر مریض واہی تباہی بکنے لگتے ہیں۔

کچھ بیانات کی پیشن گوئ ہم بھی کر رہے ہیں۔
غیرت مند پاکستانیوں نے ہندوءوں کو انکی سر زمین پہ شکست دے دی۔
اللہ نے مسلمانوں کو ہندءووں کی سر زمین پہ سرخ رو کیا۔
سترہ کروڑ عوام کی دعائیں رنگ لائیں۔ 
دودھ پینے والے گوشت کھانے والوں سے کیسے جیت سکتے ہیں۔
جیت کی صورت میں انڈینز کو اسلامی انتہا پسندوں  کے  حملوں کا ڈر تھا۔
سٹے باز کھلاڑیوں کو نکالنے کے بعد ٹیم اپنی فارم میں واپس۔
سینے پُھلا دئیے ہمارے شیروں نے۔
ریمنڈ ڈیوس کی رہائ کی ڈیل میں پاکستان کو جتانا شامل تھا۔
بمبئ کے مسلمان انڈر ورلڈ ڈان داءود ابرہیم نے میچ کو مسلمانوں کے حق میں فکس کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔
زرداری نے میچ پہ پیسے لگائے تھےکیسے ہار سکتے تھے ۔
 اس تاریخی فتح کے موقع پہ ہمیں عافیہ صدیقی اور انکے بچوں کو نہیں بھولنا چاہئیے۔ عافیہ تیری عظمت کو سلام۔
بلوچستان اور وزیرستان میں امن کے لئے کرکٹ کے میدان قائم کئیے جائیں۔
انقلاب آوے ہی آوے، عمران خان تم جیو ہزاروں سال۔

ہارنے کی صورت میں زیادہ مزے کے ڈائیلاگ ہونگے۔
یہ کھلاڑی ہیں ہی ,**********۔ ان ستاروں کی جگہ پہ مناسب الفاظ کے لئے ہمارے کچھ بلاگرز یا مبصرین مدد کر سکتے ہیں۔
پیسے کھائے ہیں۔ کس نے؟ پچاس فی صد لوگ، کھلاڑیوں نے۔ پچاس فی صد لوگ زرداری نے یا حکومت نے۔
بال ٹھاکرے کی دہشت ہو گئ تھی ہمارے کھلاڑیوں پہ،  یہ سٹے باز چوہے ہیں۔
جب تک اسلامی شریعت نافذ نہیں ہوگی، سترہ کروڑ دعاءووں میں کوئ اثر نہیں ہوگا۔ ہم اسی طرح ہندءووں سے ، عیسائیوں سے یہودیوں سے شکست کھاتے رہیں گے۔
اس میں سی آئ اے والوں کا ہاتھ ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کو سینتالیس دن تک جیل میں رکھا اس کا انتقام لیا ہے۔
اس میں را اور موساد کے ایجنٹ شامل ہیں۔
وینا ملک کا انتقام ہے، اس نے انڈیئینز بُکیز سے ملی بھگت کر کے قوم سے انتقام لیا ہے۔ اسکے خلاف کارروائ کی جائے۔
ہارپ ٹیکنالوجی کی مدد سے پچ کا موڈ تبدیل کر دیا گیا، جب پاکستان کھیلا اس وقت ہوا میں نمی  بڑھا دی گئ یا گھٹا دی گئ۔
کھلاڑیوں کو ہپنا ٹائز کر دیا گیا۔
کھلاڑیوں پہ یا کھیل کے میدان پہ جادو کیا گیا تھا۔ میں نے خود دیکھا کہ ہندو کھلاڑی کچھ بد بدا رہے تھے۔ ہندو تو ویسے بھی جادو ٹونے میں کمال رکھتے ہیں۔ جادو برحق ہے۔
طالبان کو چاہئیے کہ اب کرکٹ کے میدانوں کو اڑانا شروع کر دیں۔
موہالی کے میدان میں رکھا ہی اس لئے گیا تھا کہ پاکستانیوں کا جیتنا محال ہو جائے۔
امریکہ کا ہاتھ ہے، امریکہ اگلا ورلڈ کپ اپنے یہاں رکھنا چاہتا ہے۔
بے غیرت پاکستانیوں، تمہیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بد دعا لگی ہے۔ تم کیا ورلڈ کپ جیتوگے۔
انقلاب، آوے ہی آوے۔
ایسی منحوس قوم کیا انقلاب لائے گی پہلے اپنی کرکٹ میں توانقلاب لے آئے۔ انکی تو یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکی تو وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹوئٹر پہ کچھ اس طرح کی ٹوئٹس ہونگیں۔
ہندوءوں پہ لعنت ہو
مسلمانوں پہ لعنت ہو
حکومت پہ لعنت ہو
زرداری پہ لعنت ہو
لعنت سے رسول اللہ نے منع فرمایا۔
جماعتیوں پہ لعنت ہو
لبرلز پہ لعنت ہو
آج دو قومی نظریہ ثابت ہو گیا۔
آج دو قومی نظریہ موہالی کے میدان میں دفن ہو گیا۔

سو قارئین، پاکستانیوں کی خوبی یہ ہے کہ خدا پرست ہی نہیں خدائ خصوصیات بھی رکھتے ہیں یعنی
ہو گئے خوش تو فرشتوں سے کرائے سجدے
آگئے طیش میں تو فردوس میں رہنے نہ دیا

میرے مبصرین کہیں گے۔
مسلمانوں کی اس عظیم فتح پہ تو آپ جیسے لبرلز کو بڑا صدمہ ہوا ہوگا۔
امن کی آشا والے دیکھ لیں ہندءووں نے ہمیں ہرا کر دم لیا۔ کیا جذبہ ء خیر سگالی کے لئے ہار نہیں سکتے تھے۔
کیمسٹری کے چار فارمولے یاد کرنے والوں کو کیا پتہ، کہ ہارپ ٹیکنالوجی موسم تو موسم، انسانی ذہن کو بھی تبدیل کر سکتی ہیں۔ ان لنکس کو اور پڑھو، ہا ہا ہا۔
پاکستان کے بال ٹھاکرے کا تذکرہ نہیں کیا میڈم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابے بولتا کیوں نہیں، پاکستان کا بال ٹھاکرے کون ہے
اپنے شہر کے غنڈوں سے پوچھو۔ 
کس کے پی پی پی، ایم کیو ایم یا اے این پی۔
وہ جو بھتہ لیتے ہیں
اور وہ جو اغواء برائے تاوان کرتے ہیں
تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو۔
بکتے ہو، اپنے صوبے کے دہشت گردوں کو دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تعصب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اردو بلاگستان کی دنیا میں
یہ ڈفر صاحب کے بلاگ پہ ایک نظم ملی ہے یہ ایک سچے انقلابی شاعر سلیم فاروقی نے لکھی ہے۔ انکی وصیت ہے کہ جو اسے پڑھے وہ اسے اپنے بلاگ کی زینت ضرور بنائے ورنہ اس پہ عذاب ہوگا۔ وما علینا الاالبلاغ۔
جب بیانات اس نوعیت پہ پہنچ جائیں تو سمجھ لیجئیے کہ  مریض کو افاقہ ہے۔ اب آپ اپنے روزمرہ کے کام بلا جھجھک جاری رکھ سکتے ہیں۔

ادھر اطلاعات ہیں کہ شہر میں گولیوں کے دام بڑھ گئے ہیں اور لوگ انہیں ذخیرہ کرنے میں مصروف ہیں۔ اب اگر پاکستان جیت جاتا ہے تو نقار خانے میں طوطیوں کا کیا کام۔ طوطیوں کو ٹوئٹر، فیس بک اور بلاگز استعمال کرنا پڑیں گے۔ اور اگر نہیں جیتا تو اگلے چند دن ٹارگٹ کلنگ میں مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ  متوقع ہے۔  کچھ لوگوں کے طوطے اڑ جائیں گے۔ خوف کی وجہ سے گھر میں رہنا ہوگا۔ ٹوئٹر، فیس بک اور بلاگز استعمال کرنا پڑے گا۔ یوں ثابت ہوگا کہ یہ سب ایجادات امت  مسلمہ یعنی پاکستانیوں کے خلاف سازش ہیں۔
۔
۔
۔
۔
اچھا اس ساری واہی تباہی کو ایک طرف رکھیں میں سوچ رہی تھی ورلڈ کپ کون جیتے گا۔ میرے خیال سے سری لنکا یا نیوزی لینڈ۔ کیا کہا پاکستان کیوں نہیں؟ تو پھر لگا لیں ایک شرط۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Thursday, March 24, 2011

ساحل کے ساتھ-۹


یہ گوادر میں مرنے والے کیا ذکری تھے؟ نہیں، نہیں، نمازی تھے۔ ہمم، تو یہ بھی نہیں سوچا جا سکتا کہ مذہب کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔ انہیں یقین تھا کہ ایجنسی والوں نے مارا ہے۔ یہ ہنگامہ کرنے والے لوگ بہت تھوڑے سے ہیں۔ سب کو باہر سے پیسہ ملتا ہے۔ ایجینسی والوں نے سوچا ہوگا کہ لوگوں کو لاپتہ کرنے میں پیچیدگیاں زیادہ ہیں۔ پکڑو اور ماردو۔ یہ ان کا خیال تھا۔
 یہاں میں نمازی اور ذکری کا فرق بتاتی چلوں۔ بلوچستان میں عمومی طور پہ اور ڈسٹرکٹ گوادر میں بالخصوص مسلمانوں کا ایک فرقہ پایا جاتا ہے جو ذکری کہلاتا ہے۔ ذکری، کراچی میں بھی پائے جاتے ہیں اسکے علاوہ ایران میں بھی موجود ہیں۔  انکے فرقے کے بانی کے طور پہ ایک شخص محمد جونپوری کا نام لیا جاتا ہے۔ زکریوں کے عقیدے کے مطابق وہ امام مہدی ہیں۔ کچھ کے خیال میں وہ ایک صوفی تھے اور ذکری دراصل صوفی ازم کی کسی تحریک سے متائثر ہو کر وجود میں آیا۔
ذکری اور نمازی میں فرق جیسا کہ نام سے اندازہ ہو تا ہے، نماز کا ہے۔ ذکری نماز کی جگہ ذکر کرتے ہیں۔ یہ مذہب تقریباً پانچ سو سال پرانا ہے۔  ذکرکے اوقات مقرر ہیں۔ جس جگہ ذکر کیا جاتا ہے اسے ذکر خانہ کہا جاتا ہے۔ یہ عمارت مسجد کا ظاہری حلیہ نہیں رکھتی کسی گھر کا کوئ کمرہ بھی ہو سکتی ہے۔ اگرچہ کہ میسر مواد کہتا ہے کہ ذکری دن میں پانچ دفعہ نماز کی جگہ پانچ دفعہ ذکر کرتے ہیں۔ مگر عملی طور پہ میں دیکھتی ہوں کہ ایسا اجتماع ہفتے میں ایک بار ہوتا ہے۔
ذکریوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حج بھی کرتے ہیں لیکن وہ رمضان کی ستائیس تاریخ کو گوادر شہر کے قریب واقع ایک اور شہر تربت میں موجود ایک مقام کی زیارت کو جاتے ہیں یہ مقام کوہ مراد میں واقع ہے۔ جہاں انکے مطابق امام مہدی کبھی رہ چکے ہیں۔ اسے زیارت بھی کہا جاتا ہے اور اسکے اعمال حج سے ملتے جلتے ہوتے ہیں سنتے ہیں کہ وہاں ایک کنواں بھی موجود تھا جو اب خشک ہو چکا ہے۔ یہ آب زم زم کے وزن پہ چاہ سم سم کہلاتا تھا۔
یوں ، مجھے سن دو ہزار تین میں اسکے متعلق جان کر حیرانی ہوئ کہ قادیانیوں کی طرح سے انہیں غیر مسلم کیوں نہیں قرار دیا گیا۔ آج سن دو ہزار گیارہ میں ذکریوں کو اپنے تحفظ کے متعلق خدشات ہیں۔ اور لوگ علی الاعلان اپنے آپ کو ذکری کہنے سے ہچکچاتے ہیں۔ اسکی وجہ آپ جانیں؟
جب سے کوسٹل ہائ وے بنی ہے مختلف اسلامی گروپوں کا یہاں نفوذ آسان ہو گیا ہے۔ سن دو ہزار تین میں جب میں یہاں پہلی دفعہ آئ تھی۔ کوئ بڑا مدرسہ موجود نہ تھا۔ چھوٹے درس قرآنی کے مدرسے ہوں تو ہوں۔ کوسٹل ہائ وے کی تکمیل کے دوران ہی  زمین کا ایک بڑا ٹکڑا ایک مذہبی تنظیم کے حوالے کیا گیا۔ اب اس پہ ایک خاصی بڑی عمارت موجود ہے۔
ان گروپوں نے ذکری فرقے کو خلاف اسلام قرار دینے کی جد و جہد شروع کر دی ہے۔ کچھ بلوچوں کے خیال میں ذکریوں کو غیر مسلم قرار دینے کی سازش بھی پنجابیوں کی ہے۔
خیر، یہاں تک آنے کے بعد آپکو یہ تو سمجھ آرہا ہوگا کہ عام سنّی مسلمان نمازی کہلاتا ہے۔ ابھی تک نمازی اور ذکری ایک دوسرے سے معاشرتی تعلق رکھتے ہیں۔ انکی آپس میں رشتے داریاں ہیں اور وہ آپس میں شادیاں بھی کرتے ہیں۔ کیونکہ عقائد کے فرق کے باوجود وہ اپنے آپکو ایک ہی سمجھتے ہیں یعنی بلوچ۔
اچھا ، اس ہڑتال سے ہمارے واپسی کے منصوبے پہ کچھ ایسا ہی بھونچکا  اثر پڑا جیسا آدم کا دانہ ء گندم کھانے کے بعد دنیا کے حالات پہ پڑا۔  لوگ بڑے فخر اور بے نیازی سے کہتے ہیں کہ ہمیں سیاسی موضوعات اور گفتگو پسند نہیں آتے۔ مگر یہ سیاسی حالات لمحے بھر میں ہماری  ترجیحات،  امیدوں اور خدشات کو یکدم تبدیل کر دیتے ہیں اور بالکل پرواہ نہیں کرتے کہ ہم انکے متعلق کیسے خیالات رکھتے ہیں۔ دیکھا جائے تو جنت سے ہمارا نکالا جانا بھی سیاست شیطاں ہی تھی۔
اب کہاں تو ہم میٹھی سویوں کی خوشبو میں غرق  تھے۔ اس خیال سے مہمیز تھے کہ رات کو  چھت پہ بیٹھ کر ستاروں کی کہکشاءوں سے مزین آسماں کی رونق  کو  دیر تک نرگس کی آنکھ سے دیکھیں گے کہ کراچی میں آسماں تک پہنچنے سے پہلے ہی نظر دھویں کی آلودگی میں گم ہو جاتی ہے۔ یہی آسماں ہوتا ہے مگر اس قدر آباد نہیں۔ کہاں ہمارے خیال دل افروز کی ایسی دھجیاں بنیں کہ وہ خود خشک سویوں کی شکل میں آگیا۔ ستاروں کا خیال ذہن آسمانی سے بھک سے اڑ گیا۔ ہم اب روحانی طور پہ کراچی میں تھے۔
وہ لوگ رخصت ہوئے تو ہم دونوں نے ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ہماری موجودگی اتوار کے دن کراچی میں ہونا لازمی تھی۔   اگر دودن ہڑتال  وجہ سے رکتے ہیں تو اتوار کو ہی نکل پاتے۔  یہ نہیں ہو سکتا تھا۔ ادھر ہڑتال کی وجہ سے اگلے دن ٹرانسپورٹ بھی نہیں ہو گی ۔ اس لئے واپسی کا منصوبہ اسی لمحے بنانا تھا ۔
وہاں سے کراچی کے لئے چلنے والی بس ساڑھے آٹھ بجے روانہ ہونی تھی۔ جو دراصل گوادر شہر سے یہاں آتی ہے۔ اس وقت ساڑھے چھ بج رہے تھے۔
چلیں جناب، پہلے بکنگ آفس سے معلوم کرنا پڑے گا کہ بس میں تین افراد کے لئے جگہ بھی ہے یا نہیں۔ وہ یہ کہہ کر روانہ ہوئے۔
کراچی کی منی بسوں میں دن رات لمبے لمبے سفر کرنے کے باوجود میں پاکستان میں شہروں کے درمیان چلنے والی بسوں کے سفر سے اب تک محروم رہی تھی۔  اور اب کن حالات میں اس سفر کے امکان پیدا ہوئے۔ شام ، سات بجے اطلاع ملی کہ بکنگ ہو گئ ہے۔ ساڑھے آٹھ بجے روانگی ہے۔ بس والوں کا کہنا ہے کہ سات گھنٹے میں کراچی پہنچ جائیں گے۔
سویاں اٹھا کر رفیق بلوچ کے حوالے کیں۔ جلدی جلدی، بھاگم بھاگ چار دن کی پھیلائ گرہستی کو سمیٹا۔ رات کے کھانے کے لئے روٹی اور آملیٹ تیار کر کے باندھا۔ کچن کو صاف ستھرا کیا کہ بعد میں آنے والوں کو پریشانی نہ ہو۔ اب ہم گوادر سے کراچی بس کے سفر کے لئے تیار تھے۔
صرف دو سیٹیں ملیں۔ ہڑتال کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگ یہاں سے نکلنا چاہ رہے ہیں اور بس بھری ہوئ ہوگی۔ یعنی مشعل ساری رات ہم دونوں کی گود میں پھیل کر سوئیں گی۔ 
ساڑھے آٹھ بجے ہم بس کے اڈے پہ کھڑے تھے۔ رفیق بلوچ میرے پاس آیا اور ایک تھیلا میرے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ اس میں گوادر کی مٹھائ ہے۔ اس نے کچھ جھجھکتے ہوئے کہا۔ مٹھائ، میں نے اسکی کیلوریز کا حساب لگایا۔ پھر اپنے پہ تف بھیجی، جدید شہری انداز زندگی کے متائثرین، جذبات کو بھی کیلوریز میں دیکھتے ہیں۔
ایک جانی پہچانی منزل کی طرف، جانے پہچانے راستوں پہ ایک  انجان سفر شروع ہونے کو تھا۔  دیکھیں تو ہر سفر ہی اپنے اختتام تک انجان رہتا ہے، جیسے زندگی کا سفر۔ لیکن بعض اوقات یا تو راستوں میں اتنے طلسم  ہوتے ہیں کہ راستےمیں ہونے کا احساس دل سے نکل جاتا ہے جیسے ایلس ان دا ونڈر لینڈ یا پھر انگریزی کا ایک محاورہ اختتام اچھا ہو تو سب اچھا ہوتا ہے، سفر بھی گذر ہی جاتا ہے۔ 
ساڑھے نو بجے رات کو پاکستان کےمعیاری طریقہ ء تاخیر کے مطابق بس آئ۔ میں نے مشعل کو گود میں سنبھالا، اور ذرا عالم جوش میں گوادر کے ساحل سے بس میں قدم رکھا، یوں جیسے کولمبس نے امریکہ کے ساحلوں پہ پیر دھرے ہوں۔ میرا گوادر سے کراچی پہلا بس کا سفر۔


جاری ہے

Wednesday, March 23, 2011

قصہ کہانی

ٹوئٹر سے پیغام ملا۔  صبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ پیغام انقلاب نہیں تھا۔ ہمم، تو پیغام ملا کہ تیئیس مارچ کو بچوں کو اپنی تاریخ سے واقفیت پیدا کرانے کے لئے قصہ کہانی کے نام سے ایک پروگرام بنایا گیا ہے۔ شرکت کے خواہشمند رجسٹریشن کروالیں۔ دئیے گئے فون نمبر پہ رجسٹریشن کرالی۔ خدا کا شکر ادا کیا  جس نے ان انسانوں کو ہمت اور فکر دی جن سے ہمارے  آج میں یہ آسانیاں ہیں۔ اور اپنی بیٹی کی رجسٹریشن کرالی۔
پروگرام کا وقت صبح ساڑھے دس بجے تھا۔ اور مقام فریئر ہال کراچی تھا۔ منتظمین کا تعلق دی سیٹیزن آرکائیو آف پاکستان سے تھا۔ فریئر ہال کراچی کی ان تاریخی عمارتوں میں سے ہے جو مجھے بے حد پسند ہیں اور ان سے بڑی دلچسپ یادیں وابستہ ہیں۔

یہ پاکستان کے قیام سے پہلے سر ہنری بارٹل ایڈورڈ فریئر کے اعزاز میں تعمیر کی گئ تھی جنہوں نے اپنے عہد میں کراچی کی معاشی ترقی کے لئے بڑا کام کیا۔ اس عمارت کی بے حد شاندار بات یہ ہے کہ اسکی چھت  کو مشہور مصور صادقین نے اپنی مصوری کے شاہکاروں سے سجایا ہے اور اسکی خوبصورتی کو صرف دیکھ کر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ اتنی خوبصورت ہے کہ بہت دیر تک سر اٹھائے رکھنے پہ بھی تکلیف نہیں ہوتی۔ نہ جسمانی نہ روحانی۔ اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ ہماری تاریخ میں اب بھی کچھ نام ایسے ہیں جن پہ ہم فخر سے سر اٹھا سکتے ہیں۔ 
مجھے خوشی ہوتی ہے کہ ایسے کئ نام میرے شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔ مجھے خوشی ہوتی ہے کہ فریئر ہال جیسی منفردعمارت مجھ سے زیادہ دور نہیں۔ جب چاہوں وہاں جا کر سر اٹھا لوں۔
خیر، جناب ہم ماں بیٹی وہاں پہنچے۔  تو انکی ٹیم موجود تھی۔ اور بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی۔ جس طرح کا انتظام تھا اسکے حساب سے بچوں کی تعداد مناسب تھی۔ اپنے حساب سے یہ ایک مختلف کوشش تھی۔ نہ یہاں بچوں کے جھولے تھے نہ کھیل اور ہلڑ بازی کے دیگر ذرائع۔ بس انہیں ایک جگہ بیٹھ کر باتیں سننی تھیں۔ بچوں میں چارسال سے لیکر تیرہ چودہ سال کے بچے شامل تھے، ساتھ ہی انکے والدین بھی تھے۔
قیام پاکستان کے حوالے سے اور کراچی کے پس منظر سے تعلق رکھتی تصاویر کی نمائیش بھی ساتھ میں تھی کچھ ماڈلز بھی بچوں کی دلچسپی کے لئے رکھے گئے۔



پروگرام کا آغاز پاکستان کے قومی ترانے سے ہوا۔ روایت سے بغاوت تھی کہ اسے تلاوت قرآن پاک یا نعت رسول مقبول سے نہیں کیا گیا۔ یہاں تو میں اسیے سیمینارز میں شرکت کر چکی ہوں جو کسی غیر ملکی سائینسداں کے سائینسی کام سے متعلق ہوتا ہے اور ایک گروہ کا اصرار ہوتا کہ اس کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے ہو بالخصوص وہ جنہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اس سائینسداں کا سائینسی کام کس چیز کے متعلق ہے۔
اس ترانے میں موسیقی کے کچھ راگ ڈال کر اسے ذرا انفرادیت دینے کی کوشش کی گئ تھی جس سے ترانے کی موسیقی تو دب گئ اور راگ کھل گیا۔ مجھے تو یہ کوشش کچھ ایسی سمجھ میں نہیں آئ۔
یوم پاکستان کے حوالے سے ایک چھوٹی سی دستاویزی فلم دکھائ گئ۔ پھر بچوں کے ایک رسالے سے ایک نظم پڑھی گئ۔ پھر انہیں مذہبی رواداری کے پس منظر میں ایک کہانی سنائ گئ۔ وقفے وقفے سے بچوں کو دعوت دی گئ کہ وہ اگر کچھ سنانا چاہیں تو سامنے آئیں۔ بچوں نے اس مرحلے میں بڑی دلچسپی لی۔ پھر اسکے بعد بچوں سے ایک سادہ کوئز کیا گیا۔ صحیح جواب بتانے وال بچوں کو انعامات دئیے گئے۔




 اگرچہ مشعل نے ہر اس لمحے ہاتھ اٹھا کر جوش و خروش سے کھڑا کیا جب جب سب بچوں نے اٹھایا۔ لیکن یہ سوالات ابھی انکے لئے تھے نہیں انہیں تو معلوم بھی نہ ہوگا کہ قرارداد پاکستان کس نے پیش کی گئ قسم کے سوالوں کے کیا جواب ہیں۔ بہرحال انکے جذبے کو دیکھ کر مجھے اطمینان رہا۔
پھر اسکے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ یعنی بجلی چلی گئ۔ یوں پروگرام کا اختتام  اچانک ہو گیا۔ نیم اندھیرے میں ہم سب نے ترانہ پڑھا اور میں نے نوٹ کیا کہ بچوں کو زیادہ اچھی طرح یاد تھا۔ بچوں نے خاصی سرگرمی کا مظاہرہ کیا۔ اور یہ محسوس ہوا کہ اگر ایسے پروگرام ہوں جن میں بچوں کو بھی کچھ کرنے کے مواقع حاصل ہوں وہ اس میں دلچسپی لیتے ہیں، چاہے وہ تاریخ جیسا بظاہر خشک نظر آنے والا موضوع ہو۔ شرط یہ ہے کہ ہم انہیں موقع دیں اور ان پہ اعتماد کریں۔ نجانے کیوں مجھے یقین ہے کہ یہ آنے والی نسل پاکستان کی موجودہ نسل سے بہتر ہوگی۔


پاکستان بن گیا، ٹوٹ بھی گیا، مزید شکست و ریخت کے مراحل میں ہے۔ گذشتہ باسٹھ سالوں میں ہم نے اپنے ہی ہم وطنوں سے زبان کی لڑائ لڑی، حقوق کی لڑائ لڑی، مذہب کی لڑائ لڑی۔ ذلت و خواری کی ان لڑائیوں میں بلا مبالغہ لاکھوں  لوگ مارے گئے۔  اتنے بہت سے کام اچانک ہی نہیں نبٹ گئے۔ ہم گذشتہ باسٹھ سالوں سے یہی کچھ کرنے میں مصروف ہیں۔ اور اس سے اکتاتے نہیں۔ ہمارے خون میں سب کو ٹھکانے لگا دینے کی گرمی دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ اور ہم تنزلی کے نئے کنوءوں میں گرتے ہی جا رہے ہیں۔
میں گھر واپس آ رہی تھی تو سوچ رہی تھی کہ نجانے وہ دن کب آئے گا جب میرے جیسے والدین کو فسادات اور ہنگاموں کی وجہ سے ہونے والی اچانک چھٹیوں کے لئے اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں سے یہ نہیں کہنا پڑے گا کہ روڈ خراب ہو گیا ہے بیٹا آج گاڑی اس پہ چل نہیں پائے گی۔ اس لئے آج اسکول کی چھٹی ہے۔
بچوں کو مرنے کے متعلق بتانا مشکل ہوتا ہے۔ یہ بتانا مشکل ہوتا ہے کہ بم کیسے پھٹتا ہے۔ کیوں کچھ برے لوگ بار بار بم پھاڑتے ہیں، گاڑیاں جلاتے ہیں، گولی مار دیتے ہیں۔ بچوں کو ہی کیا اکثر خود کو بتانا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ نجانے میرے جیسے لوگوں کی یہ مشکل کیسے آسان ہوگی۔ کیا اسکے لئے کوئ منصوبہ بنایا جا سکتا ہے۔ کوئ قرارداد پاس ہو سکتی ہے۔
کاش وہ دن آئے جب یہ سب باتیں قصہ کہانی ہو جائیں۔ جب ہم اپنی آنے والی نسل کے سامنے شرمندہ کھڑے ہوں کہ ہمارے پاس تمہیں سنانے کے لئے کوئ دل فریب کہانی نہیں۔ کچھ جھوٹ تھے میرے بچوں، ہم نے انہیں مٹانے میں زندگی صرف کی۔  تمہارا دل چاہے تو عبرت کے لئے ہمیں اپنے ماضی کا حصہ بنے رہنے دو اور تمہارا دل چاہے تو حرف مکرر کی طرح مٹا دو۔ ہر داغ ہے اس دل پہ اک داغ ندامت۔

Tuesday, March 22, 2011

حاصل کھیتی

پچھلے چند مہینوں سے یہ حالت ہے کہ کچھ لکھنے سے پہلے یہ نہیں سمجھ میں آتا کہ کس پہ لکھوں۔ اسکی وجہ تیزی سے بدلتی دنیا ہے،،اور اتنی ہی تیزی سے اس کا ہمیں متائثر کرنا ہے۔ اب صورت کچھ اس مال یعنی جدید بازار کی طرح بن چکی ہے  جہاں سامان کی افراط اور ورائیٹی بے پناہ ہو اور یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا خریدیں۔ خیر، یہ آسانی  پھر ہوتی ہے کہ آپ اپنی جیب کی حالت بلکہ موجودہ حالات میں حالت زارکو سامنے رکھتے ہوئ کچھ ضروریات کو جمنے کا موقع دیں اور کچھ خواہشات کا گلا گھونٹ دیں۔ اس طرح کچھ خواہشات تو یہ کہتی نظر آتی ہیں کہ
رات ہم  بھی کھڑے تھے تیری محفل میں چھپ کر
جیسے تصویر لگادے کوئ دیوار کے ساتھ
یا
مجھ تک کب اسکی بزم میں آتا تھا دور جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں

اور ضروریات الہڑ مٹیاروں کی طرح شوخیاں دکھاتی ہیں اور دلربائ سے دعوی کرتی ہیں

کہتے ہیں عمر رفتہ کبھی لوٹتی نہیں
جا، میکدے سے میری جوانی اٹھا کے لا

لیکن اس رفتار سے ضروریات اور خواہشات پہ لکھوں تو یہ پوسٹ کچھ گلوبل معیشت کے مذاق پیہم  کی تحریر بن جائے گی۔ نہ ، نہ، اطمینان رکھیں یہ میرا موضوع نہیں ہے۔
میں تو باغبانی کے نتائج پہ لکھنا چاہ رہی تھی۔ کل جب میں ایمپریس مارکیٹ میں نئے موسم کے بیج لے رہی تھی تو مجھے خیال آیا کہ میں پچھلے موسم کی حاصل کھیتی کے بارے میں تو لکھ دوں۔
اچھا  تو میرے پرانے اور مستقل قارئین کو، جو کہ اس بلاگ کی پارہ صفتی سے نہیں گھبراتے اور امید بہار سے پیوستہ ہیں۔ ان کو یاد ہوگا کہ میں نے جوش و خروش میں کچھ سبزیاں اگانے کی کوشش کی تھی۔
ان میں سب سے کامیاب، سلاد پتہ، ہرا دھنیا، بروکلی رہی۔ جنوری سے ہم نے سلاد پتہ اور دھنیا استعمال کرنا شروع کیا روزانہ کی بنیاد پہ۔ سلاد پتہ توکچھ پڑوسیوں اور رشتے داروں کو بھی  بھیجا۔ ہرا دھنیا اب خشک ہو گیا۔ لیکن سلاد پتہ ابھی بھی کام آرہا ہے۔
ٹماٹر پہ فصل پکنے کے وقت کیڑا لگ گیا۔ یہ تصویر میں نظر آرہا ہے۔
ہرا دھنیا

سلاد پتہ
 
ترئ کی بیل نے چلنا شروع کیا تھا کہ کراچی میں ٹھنڈ کی لہر پڑنا شروع ہو گئ۔ اسے میں سردی کہہ کر کچھ لوگوں کو طعنہ زنی کا موقع نہیں دینا چاہونگی۔ لیکن اس سے نہ صرف کراچی والوں کی بلکہ اس بیل کی  بھی جان نکل گئ، وہ ٹھٹھرے اور یہ ٹھٹھرکر رہ گئ۔
شملہ مرچ  کے پودے بھی اسی انجام کو پہنچے ۔ لیکن میں نے ایک دفعہ پھر شملہ مرچ لگائ ہے یہ دیکھنے کے لئے کہ آیا واقعی موسم کا اثر ہے یا شملہ مرچ کو کچھ سایا چاہئیے ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک آدھ پودا جسے بروکلی کے چوڑے پتوں کا سایا ملا پھل پھول گیا۔
بروکلی
بروکلی کے پھول

سیم کی پھلی سے بھی متوقع نتائج نہ ملے۔ یعنی توقع تھی کہ کلو کے حساب سے ملیں گی۔ مگر یہ حد پاءو سے آگے نہ بڑھی۔  میرا خیال ہے ، پانی کا کچھ مسئلہ رہا۔ ٹماٹر کے صرف تین پودوں کے لئے جگہ نکل سکی۔ یہ بڑی نسل کے ٹماٹر تھے۔ اب میں نے طے کیا ہے کہ چھوٹی نسل کے ٹماٹر لگانے چاہئیں۔
اچھا اس دفعہ، میرے پلان میں چھوٹی ہری مرچ، پیلی شملہ مرچ،  بھنڈی، کریلے، ککڑی، ترئ، ہرا دھنیا، اور آزمائیشی طور پہ بیگن شامل ہیں۔
سوایک  دن گملوں کو درست کرنے میں لگا۔ اور کل کا دن بیج بونے میں۔ اب دیکھیں اس دفعہ کیا ہوتا ہے۔
سبزیوں کے تذکرے کے بعد شریفوں کا تذکرہ۔ شریفوں سے یہ مت سمجھئیے گا کہ میں اس پوسٹ کو بھی دیدہ دانستہ سیاسی رخ دینے کی کوش کر رہی ہوں۔ آپ جانتے ہیں اس بلاگ کا نام دوسرا رخ نہیں ہے۔ یہ وہ پھل ہے جو بازار میں نظر تو آتا ہے مگر بہت کم۔ اس دفعہ شریفے غیر معمولی طور پہ بڑی جسامت کے تھے۔ جن میں تین ہمیں ملے اور تین کسی نے باہر سے ہاتھ ڈال کر توڑ لئے۔ لوٹے ہوئے شریفے تو پہنچ سے باہر ہیں جو ہمیں ملے ان شریفوں کا دیدرا کر لیں۔ 



Saturday, March 19, 2011

ساحل کےساتھ-۸

 گذشتہ سے پیوستہ

اگلے دن کے لئے میں نے صاحب سے درخواست کی کہ مشعل کو تیراکی کے لئے سمندر میں لے جانے کا وقت نکالیں۔ تاکہ انکے اس سوال سے نجات ملے کہ سوئمنگ کب کریں گے اور ہمارا ان سے کیا گیا وعدہ بھی پورا ہو۔ ہم کوئ اہل سیاست تو نہیں کہ ہمارے وعدے قرآن حدیث نہ قرار پائیں۔ تس پہ انہوں نے ایک خالصتاً سیاسی بیان دیا۔  ابھی تو جا رہا ہوں دوپہر کے کھانے تک واپسی ہوگی۔ تب دیکھیں گے۔
:)
  اس سطر سے وہ قاری تو واپس ہونگے جو صرف غیر سیاسی تحاریر پڑھنا چاہتے ہیں۔ لیکن کیا کروں، سیاست کی تعریف بھی کچھ ایسی اوکھی ہی سی ہے۔ چاہے تو کھانے کی ترکیب سے بھی جھانکنے لگے۔
:)
ہم دونوں ماں بیٹی جب اپنے کاموں سے فارغ ہوئے تو پلان کیا کہ گھر کے سامنے ساحل کا چکر لگا کر آتے ہیں۔  صبح  لو ٹائڈ ہو چکی تھی۔ اور اب پانی آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا۔ ہم نے ساحل کے ایک طرف پڑے پتھروں میں جھانک تانک شروع کی۔  اور ساحل پہ منہ بند  اور منہ کھلی سیپیوں کا معائنہ۔  لیجیئے منہ بند سیپیوں پہ ایک شعر یاد آگیا۔
بھیجی ہیں اس نے پھولوں میں منہ بند سیپیاں
انکار بھی عجب ہے، بلاوا بھی ہے عجب
مجھے خیال آ رہا تھا کہ ساحل پہ موجود مقامی لوگ بھی سوچتے ہونگے کہ یہ خاتون اور یہ چھوٹی سی بچی پتھروں میں گھسی کیا کرتی رہتی ہیں اور ان پتھروں کی تصویریں بھی بناتی ہیں۔  کیوں؟


ساحل پہ مقامی لوگ اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ رات شکار کے لئے گئ کشتیاں اب واپس آرہی تھیں۔ ان سے مچھلیاں اتار کر ساحل تک پہنچائ جارہی تھی۔ کشتیوں سے یہ مچھلیاں عام طور پہ گدھا گاڑی میں اتاری جاتی ہیں جس کے لئے گدھا گاڑی کو سمندر کے اندر جانا پڑتا ہے۔ اب جو یہاں جیٹی بن رہی ہے تو اسکے مکمل ہونے کے بعد ان گدھا گاڑیوں کی ضرورت  نہیں رہے گی۔ گدھوں کی فطرت کا اندازہ ہے کہ  گدھے تو اس بارے میں سوچیں گے نہیں۔ ہم ہی سوچتے ہیں کہ  گدھے کیا کریں گے؟


ایک طرف کچھ لوگ ایک جال کی مرمت میں لگے تھے، کچھ کشتیوں کے بیرونی پیندے کی رگڑ کر صفائ ہو رہی تھی۔  بچے کھیل رہے تھے۔ گرمیاں ہوتی تو یہ بچے سمندر میں تیراکی کے کمالات دکھاتے۔ اسکے لئے انہیں کسی تربیت کی ضرورت نہیں۔ مچھلی کے جائے کو تیرنا کون سکھائے۔ موسم ٹھنڈا ہو چلا تھا۔ آسمان پہ بادل آگئے تھے میں نے سوچا آج بھی مشعل کا تیراکی کا پروگرام نہیں ہو سکے گا۔ پانی ٹھنڈا ہے۔
بچوں کے تخیل کی پرواز کی حد نہیں ہوتی،  خاص طور پہ بات اگر کھیل کی ہو تو ایجاد تمنا کی منزل سر نگوں ہونے میں کیا دیر لگتی ہے۔
کنچے کھیلنا زیادہ دلچسپ ہوتا ہے یا انہیں دیکھنا

ساحل پہ کھیلنے والے بچے ہمارے نزدیک آگئے۔ تب میں نے دیکھا کہ ان میں سے دو کے پاس کیکڑے کے بچے ہیں۔ جو یہاں بکثرت پائے جاتے ہیں۔

لوٹائڈ میں جب سمندر اپنے اندر موجود چٹانوں کو بے پردہ کر دیتا ہے تویہ چٹانوں پہ  آرام کرتے نظرآتے ہیں۔ ساحل پہ  کیکڑے اتنی تیزی سے کھدائ کرتے ہیں اور ریت کی ڈھیریاں بنا کر چھوڑ دیتے ہیں۔ بعض ساحلوں پہ اس قدر زیادہ ہوتے ہیں کہ ساحل ریت کی ان ڈھیریوں سے اور انکے درمیان بنی باریک لکیروں سے ڈھک جاتا ہے۔


دونوں بچوں نے اپنی انگلیوں میں ان کیکڑوں کو پکڑا اور مجھے کیکڑوں کی لڑائ دکھائ۔ لڑائ کیا تھی انکے بازو ایکدوسرے میں پھنس گئے تھے۔ پھر فرمائشی پروگرام پہ میں نے اس لڑائ کی تصویریں بنائیں۔

ایک دوسرے میں الجھے ہوئے کیکڑے اب حرکت کرنے سے معذور ہیں۔ یہ منظر کس کی یاد دلاتا ہے؟
اس ویڈیو میں بھی کیکڑوں کی ایک لڑائ ہے۔


بچوں کے ساتھ ہم نے ساحل پہ ریس لگائ پھر گیلی ریت پہ دائرے بنانے کی کوشش کی۔ جو خاصی کامیاب رہی۔ مقامی بچوں کو بھی یہ کھیل پسند آیا۔ سو ان تمام اٹھکھیلیوں کے بعد  بچوں کے انٹرویو کی باری آئ۔ یہ بچے بہت ٹوٹی پھوٹی اردو بول سکتے تھے۔ کچھ بچے اسکول بھی جاتے ہیں ۔ ان میں سے ایک پہلی اور دوسرا تیسری میں پڑھتا تھا۔ پہلی والا بچہ بارہ تک گنتی پڑھ سکتا تھا اور تیسری والا اٹھارہ تک۔ بہت بڑا فرق ہے مگر کہاں؟
تمہارا نام کیا ہے؟ میں نے ایک بچے سے پوچھا۔ میرا نام جیوا ہے۔ دوسرے بچے نے کہا جیوا اسکا نقلی نام ہے اصلی نام ہےمراد۔ اچھا اسکا نام تو تم نے مجھے بتا دیا۔ تمہارا نام کیا ہے۔ میرا نام اسامہ ہے۔ اس نے اسکے ساتھ ایک قلابازی کھائ۔ اور تمہارا نقلی نام کیا ہے؟ مجھے ذرا دلچسپی محسوس ہوئ۔ میرا نقلی نام ہے مشرف۔  وہ منہ کھول کے ہنسا۔ جس میں کچھ دانتوں کی جگہ خالی تھی اور کچھ نئے دانت جھانک رہے تھے۔ میں بھی دل کھول کے ہنسی۔ قسمت کی ستم ظریفی یا لوگوں کا حس مزاح؟
اسامہ عرف مشرف اپنے کیکڑے کے ساتھ


دیکھی نہیں ہے تونے کبھی زندگی کی لہر،،اچھا تو جا عدم کی صراحی اٹھا کے لا
 ہم گھر واپس آئے۔ حسب توقع مشعل کا سوئمنگ پروگرام کینسل ہو گیا۔ کھانے کے بعد تھوڑی دیر چھت پہ ہلکی دھوپ اور خوبصورت ویو سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ دوپہر ڈھلنے کا وقت آیا تو میں نے سوچا کہ سویوں کے پیکٹ ویسے ہی رکھے ہیں۔ ابھی پکا کر کچھ محلے میں بھجوا دیتی ہوں کچھ ہم شام کی چائے پہ کھا لیتے ہیں۔ رات کو مشعل کے سونے کے بعد سامان باندھنا شروع کریں گے۔ اگلی صبح ہمیں روانہ ہونا تھا۔
ابھی میں سویاں بھون ہی رہی تھی کہ پڑوسی بلوچ آگئے۔ یہ لوگ باتیں کر رہے تھے۔ اور میں انکی باتیں سن رہی تھی۔ معلوم ہوا کہ گوادر میں کل سے دو دن کی ہڑتال ہے۔ 
کیوں؟ تین مہینے پہلے دو لوگوں کو گوادر سےایجنیسی والوں نے اٹھایا تھا اور آج انکی لاشیں ملی ہیں۔ لوگ غصے میں ہیں۔
ایجنسی والوں نے کیوں اٹھایا؟ اٹھائے جانے سے ہفتہ بھر پہلے مرنے والوں نے گوادر میں ایک جلسے میں تقریریں کی تھیں۔
تقریروں میں کیا کہا؟ وہی باتیں جو قوم کو جوش میں دلانے کے لئے کی جاتی ہیں۔ احساس دلانے کے لئے کہ انکے ساتھ کیا زیادتی ہوتی ہے۔
مرنے والے گوادر سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ گوادر میں جب بھی ہنگامہ ہوتا ہے باہر سے لوگ آکر کرتے ہیں ہم تو مچھیرے ہیں ہم تو خود ان سے عاجز ہے۔ پہلے ہمارے علاقے میں بالکل کوئ ہنگامہ نہیں ہوتا تھا۔ اب یہ باہر والا آکر سب بند کرا دیتا ہے۔ روز ہڑتال، روز سب بند۔ ہم کہاں سے کھائے گا۔
یہ باہر کے لوگ کون ہیں؟ یہ بھی بلوچی ہیں مگر ان کا تعلق اوپر کے علاقے سے ہے۔ 
ابھی چند مہینے پہلے ایک مہاجر لڑکے کو گولی مارا۔ وہ بچپن سے یہاں رہ رہا تھا۔  بلوچی سیٹھ کو اپنا ابو کہتا تھا۔ ادھر لوگوں نے اسکو بڑا سمجھایا کہ واپس جاءو ابھی حالات صحیح نہیں ہے۔ جب صحیح ہو تو واپس آنا۔ مگر بڑا اڑیل، کہنے لگا بس یہیں رہے گا۔  اب یہاں سے مر کر جائے گا۔ مہروں میں گولی لگی۔ وہ بلوچی سیٹھ اسے لے کر کراچی گیا۔ بچ گیا پر اب معذور ہے۔ بستر سے اٹھ نہیں سکتا۔ اس کا بڑا افسوس ہوتا ہے۔

کب تم بھٹکے، کیوں تم بھٹکے، کس کس کو سمجھاءوگے
اتنی دور تو آ پہنچے ہو اور کہاں تک جاءوگے

جاری ہے

Thursday, March 17, 2011

بھڑاس

قصہ تو تازہ ہے مگر الفاظ وہی پرانے۔ غیرت، شرم، بکاءو مال، پاکستانی۔ میں کوشش کروں بھی تو ان الفاظ سے اپنی اس تحریر کو محفوظ نہیں رکھ سکتی۔ مگر میں یہ کوشش کروں بھی تو کیوں؟ جبکہ میری یہ تحریر ایک خالص پاکستانی دماغ اور پاکستانی پس منظر میں لکھی جارہی ہے۔
ملک کے زر مبادلہ میں تقریباً تئیس کروڑ کا ظاہری اضافہ ہوا ہے اور در پردہ کتنے، ہم نہیں جانتے اور لوگ اس پہ خوش ہونے کے بجائے ایک دوسرے کو بکاءو مال کہہ رہے ہیں۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس میں ہماری جیت ہوئ ہے۔ امریکہ کو پتہ چل گیا کہ ان کا جھوٹ ہم نے پکڑ لیا ۔ اور اس پہ ہمارا دباءو اتنا تھا کہ اسے دیت کی سطح پہ آنا پڑا۔ اس سے دنیا کو اسلامی قوانین کے فرینڈلی ہونے کا بھی پتہ چلا ہے۔ وغیرہ وغیرہ
ادھر مولوی صاحبان تو تقریباً پھنس چکے ہیں۔ ایک طرف اینٹی امریکن نعرے بلند کرنے کا دل چاہ رہا ہے  اور دوسری طرف ستم ظریف نےانہی کی چال ان پہ واپس کر دی ہے۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ وہ کس لئے یوم مذمت اور یوم احتجاج منانا چاہتے ہیں۔ جبکہ کچھ لوگ اسے بے غیرتی قرار دے رہے ہیں۔
حالانکہ غیرت کیا ہے؟ پاکستانی دماغ سے سوچیں۔ میں بحیثیت ایک عورت، لوگوں کے ہجوم میں اپنے شانوں پہ پڑا دوپٹہ اتار کر ایک طرف رکھ دوں تو بھی مجھے بے غیرتی کے طعنے ملیں گے۔ لیکن غیرت کیا ڈھائ گز کے دوپٹے میں موجود ہوتی ہے ۔ یہ تو ڈیڑھ دو سو میں کہیں بھی مل جائے گا۔ دوبارہ لوں، اور پھر سے سراور شانوں پہ سجا لوں، غیرت واپس۔
غیرت کیا ہے؟ اپنے سے بے بس اور کمزور شخص کو کاروکاری یا غیرت کے نام پہ قتل کر دینا اور ملک کی اسمبلی میں بیٹھ کر اس پہ فخر کرنا کہ ہم اپنی عورتوں کو غیرت کی وجہ سے قتل کر دیتے ہیں۔ لیجئیے، کسی جانور کو قتل کریں یا ذبح اس کا غیرت سے کیا تعلق۔ اس کا تعلق تو صرف ہارمونز سے بنتا ہے۔ کیا ہارمونز غیرت ہیں۔ یہ بھی آجکل لیبارٹریز میں تیار کئے جارہے ہیں جب دل چاہیں خرید لیں۔ غیرت حاصل۔
غیرت کیا ہے؟
یہ کہ ہم اپنے ہی ہم وطن، ہم مذہب شخص کو زندگی کی اس کمتر حالت میں رکھیں۔ جہاں وہ نالی کا کیڑا بنا رینگتا رہے۔ اور اپنی بقاء کے لئے ہر نالے میں گرنے کو تیار رہے۔ اور جب بھی وہ اس نالے سے باہر نکلنے کی کوشش کرے ہم اسے غیرت کے ڈنڈے سے دوبارہ اسی نالے میں گرادیں۔ کیا بے حسی غیرت کہلاتی ہے۔
معزز قارئین، میں غیرت کو بحیثیت پاکستانی، انہی معنوں میں جانتی ہوں۔
سو دوبارہ اپنے اسی قصے کی طرف لوٹتی ہوں۔ پاکستانی ذہن کہتا ہے کہ اگر اس سے مجھے فائدہ نہیں پہنچا تو یہ دیکھو کہ  کہ اس سے فائدہ کس کس کو پہنچا۔ سب سے پہلے اوپر سے شروع کریں۔ چونکہ ورثاء نے خون بہا لینے کا فیصلہ کیا ہے تووفاقی حکومت، صوبائ حکومت اور عدالت اس قصے سے شرعی طور پہ خارج ہو جاتے ہیں۔ یوں ان میں کا ہر فریق دینی اور دنیاوی اعتبار سے حالت سکون میں ہے۔ مسلم لیگ نون کے ایک رہ نما نے تو رات ایک ٹی وی شو میں کہہ بھی دیا کہ جب ہم توہین رسالت کے قانون کی حفاظت پہ کمر بستہ ہیں تو ہمیں دیت کے قانون کی بھی حفاظت کرنی چاہئیے۔ ابھی دو تین روز میں یہ شریعت باقی لوگوں کو بھی سمجھ میں آجائے گی کہ امیر آدمی کا قاتل کیسے بچ سکتا ہے اور قوانین میں کیسے اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ غریب شیطان بچ کر نہ نکلنے پائے۔
نواز شریف  نے تو سیدھے لندن کے ہسپتال میں پناہ لی۔ شہباز شریف انکی عیادت کو گئے۔ باقی کچھ لوگوں نے نوافل ادا کئیے ہونگے کہ ریمنڈ ڈیوس نامی گرہ 'کامیابی' سے کھلی۔ کچھ لوگوں نے اسکے نام کا ٹوسٹ کر کے محفل ناءو نوش سجائ ہوگی۔  
فیضان اور فہیم اب واپس نہیں آ سکتے۔ زندگی کے حیلے ہوتے ہیں اور موت کے بہانے۔ انکی موت اسی طرح لکھی تھی جیسے سلمان تاثیر کی موت اس طرح لکھی تھی اور شہباز بھٹی کو اس طرح مرنا تھا۔ یہ بات انکے ورثاء کو سمجھ آگئ۔ کروڑوں روپیہ ایسے شخص کے سامنے رکھا ہو جس نے کبھی لاکھوں روپیہ اکٹھا نہ دیکھا ہو تو سمجھ ایک دم راکٹ کی طرح کام کرنے لگتی ہے۔ اگر شک ہو تو تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ مگر آپ کریں گے نہیں۔  میں بھی نہیں کر سکتی۔ اس میں اخلاقیات کی مضبوطی نہیں ہماری معاشیات کی کمزوری ایک بڑی وجہ ہے۔
لوگ مرنے کے بعد کی زندگی کا تذکرہ کرتے ہیں،  جنت کی بات کرتے ہیں کیا وہاں ہوائ جہاز ہونگے، کیا اعلی برانڈز کے کپڑے اور جوتے ملیں گے، کیا ہوم تھیٹر ہوگا، کیا مرسڈیز ہوگی۔ یہ سب امریکہ میں ملے گا۔ اسکے لئے رضوان جنت کی اجازت نہیں چاہئیے۔ امریکن پاسپورٹ چاہئیں۔ بابر نے صحیح تو کہا تھا۔ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔ خدا دنیا کو دوبارہ نہیں بنائے گا۔ جنت بنائ تو کیا۔ سو ڈیل طے کرنے والوں نے بڑے خلوص سے کام کیا اور ورثاء کو امریکن پاسپورٹ بھی دلائے۔ اللہ انکے عمل میں برکت دے۔ حق بحقدار رسید۔
ادھر ہلیری کلنٹن نے پاکستانیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے اس سلسلے میں کوئ پیسے نہیں دئیے۔ لیجئیے اگر معاملہ ظاہری طور پہ نظر آنے والے بیس بائیس کروڑ کا ہے تو یہ ایسی کون سی بڑی رقم ہے کہ ہم امریکہ  کے مشکل وقت میں کام آنے پہ خرچ نہ کر سکیں۔ ہم ان سے کھربوں روپے لے کر کھا چکے ہیں۔ اب اس حقیر رقم کے لئے امریکہ ادائیگی کرے یہ تو ہماری 'غیرت' کے منافی ہے۔ مجھے یقین ہے وہ سچ کہہ رہی ہیں۔
نقصان میں کون رہا؟
عبادالرحمن۔ کاش لوگ اپنی موت کا انداز چننے کے لئے ہی آزاد ہوتے تو عباد الرحمن گاڑی کے نیچے کچل کر مرنے کے بجائے، ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں مرنے کو ترجیح دیتا۔ مگر یوں نہ ہوا۔ اور وہ بے چارہ تو جیسے تاریک راہوں میں مارا گیا۔ کہاں لوگوں کو کروڑوں مل گئے اور کہاں عبادالرحمن کسی کو یاد بھی نہیں رہتا۔ وہ بھی تو امریکنوں کی وجہ سے مارا گیا۔ کل کا دن اسکے ورثاء پہ بھی بھاری رہا ہوگا۔  ورنہ آجکے اخبار میں اسکے ورثاء کا بھی سرٹیفیکیٹ چھپتا کہ ہم اتنے کروڑکا یہ معاوضہ بغیر کسی لالچ اور دباء کے لے رہے ہیں۔
سب سے زیادہ بے وقوف تو شمائلہ نکلی۔ اس نے اپنے شوہر فہیم کے مرنے کے بعد دلبرداشتہ ہو کر خود کشی کر لی۔ کسی نے کہا اسکی موت کا ذمہ دار میڑیا ہے۔ میڈیا نے اس قصے کو اس جذباتی سطح پر کر دیا کہ وہ اسکی تاب نہ لا سکی۔ اسی کو سائینس کی زبان میں سروائیول فار دا فٹسٹ کہتے ہیں۔
اسکے ورثاء سے بھی ایک پاکستانی دماغ کو ہمدردی ہے۔ قبر کی مٹی میں مل کر مٹی ہوجانا اور پھر روز محشر کے انصاف کا انتظار کرنا یہ بہتر تھا یا ایک امیر کبیر بیوہ بن کر دوسرے لوگوں کی آنکھ میں کھٹکنا۔ پاکستانی دماغ، شمائلہ کو جھٹک کر ایک طرف کر دیتا ہے۔ حرام موت میں برکت کیسے ہو سکتی ہے۔
اور کسے نقصان ہوا؟ شاہ محمود قریشی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ نادیدہ ہاتھوں کے لئے استعمال ہوئے۔ انکی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ کچھ قوتوں کو دباءو بڑھا کر ایک بہتر ڈیل لینے میں آسانی ہوئ ہو۔ لیکن آخر میں تو شاہ صاحب دھوبی کا کتا بن گئے۔ نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔ بے نظیر کے مزار پہ ہاتھ جوڑنا بھی کام نہ آیا۔ لگتا ہے بے نظیر کو مرنے کے بعد سیاسی قوت تو ملی مگر زیادہ روحانی قوت حاصل نہ ہوئ۔
امریکہ کو بھی کچھ نقصان ہوا۔ افغانستان میں امریکیوں کی لاپرواہی سے مرنے والوں افغانیوں کو خون بہا میں دو بھیڑیں ملیں۔ جبکہ ہمارے یہاں کروڑوں روپے خرچ ہوئے۔ اسکا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ امریکی افغانیوں کے مقابلے میں ہماری زیادہ عزت کرتے ہیں۔
 
لیکن میں زیادہ دیر تک پاکستانی دماغ سے سوچ نہیں پاتی اور واپس اپنی جون میں آتی ہوں۔ یہاں لوگ اکثر دعا اور بد دعا کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ ہر دوسرا شخص پہلے شخص سے کہتا ہے دعاءووں میں یاد رکھئیے گا۔ کیا یہ سب کچھ اس لئے تو نہیں ہوا کہ یہ کچھ بد دعائیں ہیں پاکستانیوں پہ بحیثیت قوم۔ تو اب اکیسویں صدی میں جبکہ ہم ایک غریب قوم ہیں اور ہمارے دشمن امیر قوم ہیں۔ اب کیا ہوگا؟
 امیر اقوام، اپنے لوگوں کے ہاتھوں ہونے والے قتل و خوں پہ ہمارے ہاتھوں پہ کچھ پیسے رکھیں گے اور ہمارے جنگل سے اپنے گھر واپس جا کر دنیا کی عمدہ شراب سے ٹوسٹ کریں گے۔
کیا آپ اور میں ایسا کر سکتے ہیں؟ نہیں، اس میں ہماری معیشت کی کمزوری نہیں اخلاقیات کی مضبوطی ہے۔ شراب اسلام میں حرام ہے۔

Wednesday, March 16, 2011

انصاف کا قتل

اس خبر سے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کو شدید دھچکہ پہنچا کہ امریکن ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس  جو کہ دو پاکستانیوں کے قتل میں ملوث تھا۔ اس کو بری کر دیا گیا۔ اگرچہ کہ ہر چیز قانونی طور پہ طے پائ گئ۔  اسکے لئے اسلامی قانون دیت کو استعمال کیا گیا۔ مقتولین کے اٹھارہ ورثاء کو اس ڈیل کے نتیجے میں بیس کروڑ روپے ملے۔ اور اسکے علاوہ انہیں تین فیملی ویزے بھی دئیے گئے۔  اور یوں بظاہر انہوں نے خون بہا لے کر ایک قاتل کو معاف کر دیا۔
لیکن کیا یہ انصاف ہے، یا انصاف کا قتل؟ نہیں یہ اسلامی قوانین کا مذاق ہے جس کے اڑانے میں ہمارا  نظام سارے کا سارا شامل ہے۔ یہ وہ کام ہے جو ہم ہمیشہ کرتے آئے ہیں۔ یعنی مذہب کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنا۔ یہ آج ریمنڈ کے لئے استعمال ہو گیا۔ واہ رے اللہ میاں ۔

Sunday, March 13, 2011

ساحل کے ساتھ-۷

گذشتہ سے پیوستہ

جب نازنین مجھے آئ لو یو کا جواب بتا چکی تو اس نے ایک زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ محفل میں بے قرار حقے کو اپنے سامنے کیا۔ اسکی نے کواپنے دوپٹے کے آنچل سے صاف کیا۔  اور اپنے ہونٹوں میں دبا لیا۔ پروین شاکر نے کہا تھا کہ
پلکوں سے اسکے پونچھ دوں، میں آج کی تھکن
کل کے سفر میں آج کی گرد سفر نہ جائے
یقیناً یہ کام بھی انہوں نے اپنے دوپٹے سے کیا ہوگا۔
دوپٹے کے یوں تو ہزاروں استعما ل ہیں لیکن  برصغیر میں دوپٹہ بڑا رومانوی کردار رکھتا ہے۔ شاعری ہو، سیاست ہو یا مذہب ہر جگہ دوپٹے کی بڑی جگہ ہے۔



دوپٹہ قاتل چیز ہی نہیں بلکہ اسکی خاطر قتل تک ہو جاتے ہیں۔  یوں تھر کے صحرا میں منہ پہ دوپٹے کا ایک لمبا گھونگھٹ کاڑھے سر پہ پانی کی گگری بلکہ اوپر تلے  دو تین گگریاں رکھے کیٹ واک کی حسیناءووں کو مات دیتیں، پیروں تلے دھنسنے والی ریت پہ مورنی کی طرح چلنے والی سخت جان خواتین ہوں یا شہروں میں دوپٹے کو اپنی آرائیش کا ایک حصہ بنانے والی خواتین۔  ہر ایک دوپٹے سے  قابو کرنا جانتی ہے۔ 
نازنین نے اسکے ساتھ ہی ایک گہرا کش لے کر دھواں چھوڑ دیا۔ یہ دائرے میں گھومتا دھواں جب میرے سامنے کی فضا میں پھیلا تو سچ کہوں کہ میرا بڑی شدت سے دل چاہا کہ میں خود ایک ایسا تجربہ کر کے دیکھوں۔ لیکن مجھے معلوم تھا کہ اس قصبے میں کوئ ہسپتال اور ڈسپینسری نہیں۔ چکرا کر گرنے کی صورت میں باقی لوگوں کو بڑی پریشانی ہوگی۔ اس تجربے کی خواہش کا گلا گھونٹ کر میں نے اس سے کہا۔  اس میں تمباکو ہے ناں؟ اس میں ، اس نے ایک دفعہ پھر بے نیازی سے دھواں چھوڑا۔ اس میں تمباکو، چرس، افیون، اور پتہ نہیں کون کون سے زہر ہوتے ہیں۔ ہم اسے گُڑاکو کہتے ہیں۔
برا ہوتا ہے صحت کے لئے۔ میں نے ناصح بننے کی کوشش کی۔ یہ تو مجھے پتہ تھا کہ نازنین، میرے دل میں نہیں جھانک سکتی۔ سو ناصح بننے کا کردار اخلاقی اعتبار سے سب سے اعلی ، آسان  اور متائثر کن کردار، میں نے ادا کرنے میں ذرا حرج نہیں سمجھا۔
معلوم ہوا کہ اسکا شوہر بھی یہی کہتا ہے۔ مگر وہ کہتا ہے کہ بچے کے لئے اچھا نہیں ہے۔ میں کہتی ہوں جب بچہ ہوگا تو چھوڑ دونگی، اس نے حقے کو ذرا صحیح پوزیشن پہ لاتے ہوئے اس میں اپنا بیان جمع کیا۔ مگر نازنین، میں نے دخل دیا۔ بچے کی پیدائیش کے بعد نہیں بلکہ  اس وقت جب بچہ ماں کے جسم میں زندگی کا آغاز کرتا ہے اس وقت سے یہ اسکے لئے زیادہ برا ہوتا ہے۔ دھواں کچھ دیر کے لئے اسکے منہ میں بند ہو گیا۔ اس نے میرے چہرے پہ آنکھیں روکیں اور جیسے اسے سمجھ میں آگیا کہ اب کیسے مجھے چت کرنا ہے۔ مسکرائ اور گویا ہوئ، مگر مجھے اچھی طرح پتہ ہے ابھی میرے کو کوئ بچہ نہیں ہے۔
میں نے ہار ماننے کی اداکاری کی۔
اچھا، تم لوگ کتنی عمر سے حقہ پینا شروع کرتے ہو۔ ایک دفعہ پھر نازنین ہنسی۔ اس نے میری بات کا ترجمہ کیا۔ باقی لوگ مسکرائے کچھ تبادلہ ء خیال ہوا۔ پھر وہ ایک لڑکی کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگی۔ اس نے تو ایک سال کی عمر سے پینا شروع کیا تھا۔ ہمارے یہاں، اس کی کوئ عمرنہیں۔
ایک گھریلو حقہ
 بس مجھے خیال آیا کہ یہی نازنین، کراچی میں جینز اور بغیر آستین کی شرٹ پہنے یہی کام کر رہی ہو تو لوگوں کا ایک گروہ اسے روشن خیالی کے کھاتے میں ڈال کر یہ کہے گا کہ یہ ہے وہ آزادی جو شہر کی روشن خیال عورتیں، مغرب سے مرعوب ہمارے لوگ ہماری عورتوں کے لئے چاہتے ہیں۔ ہماری عورتیں سر عام سگریٹ پیئیں اور دھواں اڑا کر خوش ہوں۔ لیکن یہاں اس مقام پہ یہ ایک روایت ہے، رواج ہے، شغل ہے۔ کوئ برائ نہیں، کوئ مسئلہ نہیں، کوئ روشن خیالی نہیں۔
غذا کا معیاری نہ ہونا، اور تمباکو نوشی شاید وہ چیزیں ہیں جنکی وجہ سے یہ عورتیں اپنی اصل عمر سے کہیں بڑی لگ رہی تھیں۔ اپنی تمام تر کشش کے باوجود، نازنین کا چہرہ اس شادابی سے محروم تھا جو ایک اکیس بائیس سال کی صحت مند لڑکی کے چہرے سے پھوٹتی ہے۔
وہیں رفیق کی بہن بیٹھی تھی۔ جسکا شوہر چار سال پہلے اسے بھائ کے پاس چھوڑ کر چوتھی شادی کر چکا ہے۔ اسکی پہلی دو بیویاں مر چکی ہیں۔  تیسری بیوی، اسکی بہن کا سب سے چھوٹا بیٹا، ایک سال کا ہے۔ چار سال میں اسکے تین اور بچے ہوئے ہیں۔ اس کا مجازی خدا، سال میں ایک دفعہ آکر یہ فریضہ پورا کرتا ہے۔ بچے، رفیق پال رہا ہے۔ یہ ہے وہ بے اختیار مثالی عورت، جس کے مٹنے کے تصور سے روایت پسندوں کو ٹھنڈے پسینے آجاتے ہیں۔
ان لوگوں نے اپنے ہاتھ کے کڑھے ہوئے دوچ دکھائے۔ ان میں سے ایک کی قیمت دس ، پندرہ ہزار ہے، مجھے بتایا گیا۔  یقیناً ہوگی، ان پہ ہاتھ سے باریک کشیدہ کاری ہوئ تھی اور لاتعداد چھوٹے چھوٹے شیشے چمک رہے تھے۔ نازنین کہنے لگی شادی پہ ایسے تیس جوڑے دئیے جاتے ہیں۔ اور سونا بھی ۔ کتنا سونا دیتے ہیں؟ لڑکے کی ماں دیتی ہے، تیس تولے۔ تمہارے یہاں شادی پہ لڑکی کو کیا ملتا ہے؟ اس نے بڑی آن بان سے ان جوڑوں کو تہہ کرتے ہوئے مجھ سے دریافت کیا ۔ 
ہم، میں نے ایک گہری سانس لی۔ ہمارے یہاں، شادی پہ لین دین لڑکی والوں کے لئےبڑی مشکل چیز ہے۔ لڑکی کی ماں صرف لڑکی کو نہیں بلکہ دولہا، اسکے گھر والوں، اسکی بھابیوں اور بہنوئیوں کو بھی کپڑے دیتی ہے، جہیز دیتی ہے، لڑکی کو سونا دیتی ہے، شادی والے دن باراتیوں کو کھانا دیتی ہے۔ یہ سن کر وہ سناٹے میں آگئ ۔ ماتھے پہ بل ڈال کر کہنے لگی۔ یہ سب کچھ لڑکی کی ماں کرتی ہے تو پھر لڑکے کی ماں  کیا کرتی ہے؟ وہ ، جو انکی حیثیت ہوتی ہے وہ کرتے ہیں، حیثیت ہوتی ہے توسونا دیتے ہیں  ورنہ نہیں دیتے، کپڑے دیتے ہیں لیکن انکی تعداد لڑکی والوں سے کم ہی ہوتی ہے، ولیمہ کرتے ہیں، اور نخرے کرتے ہیں۔ نخرہ سمجھتی ہو تم، میں نے اسے پھر چھیڑا۔
ایک بات جو مجھے جان کر حیرت ہوئ، وہاں خواتین کا ضبط تولید کے طریقوں میں دلچسپی تھی۔ بچے انہیں چار سے زیادہ نہیں چاہئیں۔ مختلف خواتین نے اس سلسلے میں جو مدد لی اسکے نتائج سے وہ مطمئن نہیں۔ ایک عورت نے کہا، دیکھو میں کتنی موٹی ہو گئ ہوں۔ ان گولیوں کی وجہ سے۔ بہر حال، اس چھوٹے سے قصبے کی ان بند خواتین کا بچوں کی تعداد کے سلسلے میں فکرمند ہونا بھی ایک تبدیلی ہی ہے۔ 
رفیق کی بیوی اور نازنین نے اذان کے ساتھ اٹھ کر عصر کی نماز پڑھی۔ میں نے انہیں مطلع کیا کہ میں رخسانہ اور طیبہ کے گھر جانا چاہتی ہوں۔ کیا وہ میرے ہمراہ ہونگیں۔ نازنین تو میرا ساتھ دینے کو فوراً تیار ہوگئی۔ رفیق کی بیوی کچھ سوچنے لگی۔ میں نے پوچھا کیا تمہارا اس سے جھگڑا ہے۔  مترجم نے بتایا کہ وہ کہہ رہی ہے ایسی کوئ بات نہیں،  ہم انکے یہاں بس کسی تقریب میں جاتے ہیں۔ خیر پھر وہ بھی چلنے کو تیار ہو گئ۔
لیکن نازنین کہنے لگی پہلے میری امی سے تو مل کر جاءو۔ وہ یہیں قریب میں رہتی ہے۔ جب تک میرا ویزہ نہیں آتا۔ میں اسی کے پاس رہونگی۔
ہم اٹھ کھڑے ہوئے۔ تمہارے پاس کوئ چادر نہیں ہے؟ نازنین نے پوچھا۔ نہیں۔ تم جب کراچی سے آتی ہو تو سفر کے دوران بھی چادر نہیں لیتیں؟ نہیں، میں اپنی گاڑی سے آتی ہوں یا جہاز سے، اسکی ضرورت نہیں سمجھتی۔ پھر میں نے اپنے سوتی سوٹ کے دوپٹے کو پھیلا کر اسے دکھایا۔ یہ ڈھائ گز کا دوپٹہ کافی نہیں، وہاں کراچی میں تو بعض خواتین دوپٹہ بھی نہیں اوڑھتیں۔ ہاں ، ہاں میں جانتی ہوں نازنین نے جلدی سے کہا۔ ادھر مسقط میں بھی عورتیں فراکیں بھی پہنتی ہیں اور چھوٹے چھوٹے کپڑے پہنتی ہیں۔ مجھے ساڑھی بہت پسند ہے میں نے ادھر مسقط میں ساڑھی پہنی تھی، میں وہاں شلوار قمیض بھی پہنتی ہوں۔ مگر یہاں ابا کہتا ہے کہ بلوچی کپڑا پہنو۔ یہ سب سے اچھا ہوتا ہے۔ تمہیں اچھا نہیں لگتا ہمارا لباس۔ میری آواز ابھری، بہت اچھا ہے لیکن بات یہ ہے  اور یوں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہانی مختصر۔ ہم رخسانہ کے گھر پہنچے، اور مجھے سمجھ میں آیا کہ رخسانہ، سماجی حیثیت میں ان سے خاصی کم ہے اس لئے شاید انکا آپس میں زیادہ میل جول نہیں ہوگا۔
رخسانہ کے گھر کی کھانا پکانے کی جگہ
 مہمانداری کی پہلی نشانی حقہ سامنے لایا گیا۔ دونوں خواتین نے اس حقے کی نے  پہ اپنا دوپٹہ لپیٹ کر پیا ایک اور امتیازی رویہ۔ مزید تواضع ہوئ، اورنج شربت کے چار گلاس اور ایک پلیٹ  بھر کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چھالیہ سپاری۔ میں نے معذرت کرتے ہوئے اسے پانی کی بوتل دکھائ۔ میں اسکے علاوہ کوئ اور پانی پیءونگی تو بیمار پڑ جائونگی۔ یہاں تو کوئ ڈاکٹر بھی نہیں۔ اس لئے شربت نہیں پی سکتی۔ نازنین نے میرے اس مسئلے کو سمجھا اور گردن ہلا کر کہا۔ ادھر میری بہن  مسقط سے آتی ہے تو وہ بھی یہ پانی نہیں پیتی۔ بوتل کا پیتی ہے۔ 
دیکھیں، بالکل معمولی تعلیم اور ایک ذرا باہر کی دنیا دیکھنے سے اسکی شعوری پہنچ کتنی بدل گئ تھی۔ میں نے سوچا۔
 رخصت ہونے لگے  تو پلیٹ  میں بھری سپاریاں دونوں مہمان خواتین نے آپس میں بانٹ لیں۔ اور ہم باہر نکل آئے۔ جہاں مشعل ایک گوادری بچی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے، بچوں کے ایک جلوس کی قیادت کر رہی تھی۔  اس جلوس کو باریک مٹی کی دھول نے اپنی لپیٹ میں لیا ہو تھا۔ ہمارا مستقبل، تمام نفرتوں سے، طبقاتی فرق سے بے نیاز آزادی کے مزے لوٹ رہا تھا۔

 بچے اس نامعلوم ابدیت سے جب یہاں آتے ہیں تو خالی ہوتے ہیں اور ابدیت کا مظہر ہوتے ہیں۔ دنیا انہیں محدودیت سے آگاہ کراتی ہے۔ وتایو فقیر نے کہا کہ دوزخ میں کوئ آگ نہیں ہم اپنے حصے کی آگ اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ دنیا میں یہ آگ کہاں سے آتی ہے؟
رات سب کاموں سے فارغ ہو کر، کمپیوٹر پہ تصاویر لوڈ کرتے ہوئے، میں نے سمندر کی آواز کو دل لگا کر سنا۔ ہمارے اور اس آواز کے درمیان صرف ایک رات کا ساتھ اور تھا۔ رات جوتاریکی کی علامت ہے در حقیقت اپنے اندر خدائ خوبی رکھتی ہے۔ یہ ہر فرق کو اندھیرے کی شفقت سے مٹا کراپنے دامن میں پناہ دیتی ہے ہررنگ  مٹ جاتا ہے اور صرف حدیں باقی رہ جاتی ہیں۔ شاید اس لئے رب کائنات نے رات کی عبادت میں خود کو چھپا دیا۔ تاریک رات، دن سے کہیں زیادہ عظیم ہے۔ یہ ہمیں روشنی کی اہمیت سمجھاتی ہے، یہ ہمیں دعا کے انداز سکھاتی ہے، ملاقات کے آداب بتاتی ہے، یہ بے سکونی کو سکون سمجھاتی ہے اور سکون کو شورش، یہ راز رکھنا بتاتی ہے اور راز کھوجنا بھی، یہ پگھلنا سکھاتی اور پگھلانا بھی ۔
مجھ کو پانا ہے تو ہر لمحہ مجھے طلب نہ کر
رات کے پچھلے پہر مانگ دعا ہوں میں بھی

جاری ہے

Friday, March 11, 2011

ایک سونامی چاہئیے

اطلاع  ملی کہ جاپان میں شدید زلزلے کے ساتھ سونامی آگئ۔  نیوکلیئر پاور پلانٹ سمیت متعدد مقامات شدید نقصان سے دوچار۔ پاکستان میں کچھ لوگ کف افسوس مل رہے ہونگے کہ یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ یہ سب کچھ ہمارے یہاں ہوتا۔  قدرتی آفات کے نام پہ ہمارے یہاں کچھ لوگوں کی رال ٹپکنے لگ جاتی ہے۔ امداد جو ملتی ہے۔
خیر، اس وقت تو میں یہ خبر پڑھ کر سر دھن رہی ہوں کہ  وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا آج سب سندھ اسمبلی میں داخل ہوئے تو ان کا ڈیسکیں بجا کر گرم جوشی سے استقبال کیا گیا۔  اسکی وجہ یہ نہ تھی کہ انہوں نے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کو روکنے کے لئَ کوئ موءثر قدم اٹھا ڈالا تھا، یہ انکا سر درد نہیں۔ اسکی وجہ یہ بھی نہیں تھی کہ وہ موجودہ عہد حکومت کے دوران ہونے والے کراچی میں سنگین واقعات مثلاً پچھلے سال محرم میں ہونے والی دہشت گردی اور لوٹ مار،  کے مجرمین کو وصل جہنم کر آئے تھے اور نہ ہی اسکی وجہ یہ تھی کہ وہ بحیثیت وزیر داخلہ سندھ میں جرائم کی سرکوبی کرنے میں کامیاب رہے اور کراچی سمیت پورے سندھ میں انہوں نے جرائم پیشہ لوگوں لو اپنے انجام تک پہنچادیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پورے کراچی میں پچھلے تین سالوں میں نہ صرف  ڈکیتیوں سے لے کر اغواء برائے تاوان کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ٹارگٹ کلنگ میں ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں۔
تو پھر انکی پذیرائ کی وجہ کیا ہے؟  اسکی وجہ یہ ہے کہ لیاری کے جرائم پیشہ عناصر کو پیپلز پارٹی کی حفاظت کی چادر اوڑھائ۔ یہ یقیناً سندھ میں پیپلز پارٹی کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ یوں ، پچھلے سال شیر شاہ میں ہونے والے قتل و غارت گری کے مجرموں کو پہلے امن کمیٹی کا تحفظ دیا گیا  اور پھر پیٹھ تھپک کر شاباش دے دی گئ۔ اور اس عمل کو پیپلز پارٹی کے ممبران اسمبلی کی حمایت حاصل رہی۔ انکا کہنا کہے کہ اس طرح وہ لیاری کے جرائم پیشہ افراد کو مین اسٹریم میں لا رہے ہیں۔ مرنے والے جائیں جہنم میں۔ ویسے بھی انکی اکثریت اردو بولنے والوں سے تعلق رکھتی ہے۔ انکی پرواہ اگر کسی کو کرنی چاہئیے تو وہ ایم کیو ایم ہے۔ پیپلز پارٹی کیوں کرے۔ سب کو اپنے تعصب کی جنگ لڑنی ہے۔
اپنی ایک عوامی تقریر میں وہ فرماتے ہیں کہ
یہ بات بھی کوئ ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ کراچی میں اغواء برائےتاوان اور لوٹ مار کی وارداتیں اب صوبائ حکومت کی سرپرستی میں ہو رہے ہیں۔ اغواء برائے تاوان اور ڈاکے، فیوڈل سسٹم کے کرتا دھرتاءوں کا نشان امتیاز رہے ہیں۔ اور اب شاید ایم کیو ایم سے متائثر ہو کر انہوں نے بھتے کو بھی اپنے منشور میں شامل کر لیا ہے۔ ایم کیو ایم اپنے اس امیج کو دھونے کی کوشش کر رہی ہے تو پیپلز پارٹی نے اسے حاصل کر لیا۔   
اس روئیے کے بعد پاکستانی معاشرے کے مختلف لوگ خدا جانے کس منہ سے یہ بات کرتے ہیں کہ ایم کیو ایم تعصب کی سیاست کرتی ہے فاشسٹ ہے۔ اور ہم نہیں ہیں۔ یہاں سب ایک حمام میں ننگے ہیں۔
ہماری حکمراں جماعت کے حصے میں یہ کارنامہ بھی آیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے خلاف انہوں نے سندھ میں ہڑتال کال کی اور اسے کامیاب بنانے کے لئے ایکدن میں نو سے زائد افراد مارے گئے۔ شہر میں گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا۔ اور انتہائ دلچسپی کی بات یہ کہ ہمارے محبوب صدر کے گھر بلاول ہاءس کے سامنے ہی ایک بس کو جلایا گیا۔ یہ بات تو ہمارے قارئین کو ضرور پتہ ہوگی کہ صدر صاحب، پیپلز پارٹی کے کو چیئر مین ہیں۔ یوں جیالوں کی آزادی، عدلیہ کی آزادی پہ سبقت لے گئ۔
یہ بات ہمارے علم میں نہیں کہ  سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہڑتال کی 'دانشمندانہ، جیالی اور جوسی تجویز' پہ ملکی کال دینے کے بجائے کراچی کو کیوں چنا گیا؟
 خیر، ملکی سیاست پہ ایک ہلکی سی نظر سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ پاکستان میں آزاد غنڈوں کا کوئ تصور نہیں رہا۔ ہر غنڈہ ، بدمعاش شخص کام پہ لگا ہوا ہے۔ کسی نہ کسی سیاسی یا مذہبی تنظیم سے وابستہ ہے۔ مذہبی جماعتوں نے انہیں مجاہد کا نام دیا ہے اور سیاسی جماعتوں نے کارکنوں کا۔
میری عزیز دوست نے اپنے جواں العمر بھائ اور  چار چھوٹی بچیوں کے باپ کے ایسے ہی قتل پہ  آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔ جو لوگ سیاسی غنڈوں کے ہاتھوں قتل ہوتے ہیں۔ انکے لئے انصاف کی داد رسی کس سے چاہیں؟
میرے پاس اس کا جواب نہیں۔ میں تو خوداپنے ملک میں کسی سیاسی سونامی کی منتظر ہوں۔

Sunday, March 6, 2011

ساحل کے ساتھ-۶

صبح میکینک واپس چلا گیا۔ ہم نے طے کیا کہ آج بدھ ہے جمعے کی صبح ہم بھی نکل جائیں گے بس سے۔ گاڑی یہیں چھوڑ دیں گے۔ کم از کم گھر میں کھڑی ہے۔ یہاں ایک صاحب دیکھ بھال کے لئے موجود ہیں۔ یوں اس مسئلے کا ایک عارضی حل نکل آیا۔ تھوڑا وقت ملا تو ہم ایک دفعہ پھر پہاڑ کے اس طرف چکر لگا آئے۔ واپس آ کر کھانے کے بعد کا پلان یہ بنا کہ میں اور مشعل محلے کے ایک دو گھروں کا چکر لگا لیں۔

ایک اور خوبصورت منظر ساحل، سمندر اور افق کے پہاڑ اور ایک ڈولتی ناءو
ایک گھر سے ایک دن صبح کا ناشتہ اور رات کا کھانا آیا تھا۔ وہاں نہ جانا تو بد اخلاقی ہوگی۔ شام کو چار بجے ہم دونوں نکلے۔ ایک مقامی صاحب سے مدد چاہی۔ قصبہ، یونہی اٹکل پچو انداز میں بنا ہوا ہے۔ گلی وغیرہ کا تصور بالکل خام حالت میں ہے پانچ  ہزار سال پرانے موئن جو داڑو کا جو نقشہ بیان کیا جاتا ہے وہ اس سے بہتر ہوگا۔ اب بھی دوبارہ اس گھر میں جانا چاہوں تو کسی کی مدد درکار ہوگی۔
گھر میں داخل ہوئ تو بکری کے پیشاب کی بدبو نے استقبال کیا۔ چھوٹے سے گھر میں تین کمرے اور انکے آگے برآمدہ تھا۔بالکل چھوٹے سے کچے صحن میں چار پانچ بکریاں بندھی ہوئیں تھیں۔ خوشحالی کی ایک نشانی۔ یہ ایک خوشحال گھر تھا جہاں علیحدہ سے باورچی خانے موجودتھا۔
ہم میزبان کے کمرے میں داخل ہوئے جو بیک وقت خوابگاہ اور ڈرائینگ روم اور ٹی وی کے کمرے کے طور پہ بھی استعمال ہوتا ہوگا۔ بہر حال یہاں ایسے گھر بھی موجود ہیں جہاں ایک ہی کمرے میں پندرہ لوگ سوتے ہیں۔ خواتین بچے، بوڑھے، شادی شدہ، غیر شادی شدہ سب۔
تین بچیاں تیرہ چودہ سال کی عمر کی بیٹھی ہوئیں تھیں اور تین خواتین۔ میرے گھر میں داخل ہوتے ہی دو اور خواتین آگئیں۔ ایک عورت کشیدہ کاری میں مصروف تھی اور باقی سب خوش گپیوں میں انکے درمیان میں حقہ موجود تھا۔ جس سے وہ سب باری باری کش لے رہی تھیں۔ یوں حقہ محفل میں گردش میں تھا۔ ان میں سے کسی کو اردو نہیں آتی تھی۔ ان بچیوں کو آتی تھی مگر انہیں بولنے میں بہت ہچکچاہٹ تھی۔
دس منٹ بھی نہ گذرے ہونگے کہ ایک اورعورت ایک بے حد اسمارٹ برقعے میں اندر داخل ہوئ۔ یہ نازنین تھی ہماری مترجم۔ پانچ سال پہلے جب میری اس سے ملاقات ہوئ تھی تو وہ پندرہ سال کی ہوگی۔ پانچ جماعتیں پڑھنے کے بعد شادی ہونے کا انتظار کر رہی تھی۔تم نے پڑھنا کیوں چھوڑ دیا۔ میں نےاس سے پوچھا۔ ابا نے کہا بس اتنا کافی ہے۔ تو تم نے ابا سے یہ کیوں نہیں کہا کہ میں آگے پڑھونگی اور الیکشن میں کھڑے ہو کر زبیدہ جلال کی طرح اسمبلی میں لیڈر بنونگی۔  تھپڑ مارے گا، ابا۔ اس نے ہتھیلی کو کھڑآ کر کے تھپڑ کی شدت بیان کرنے کی کوشش کی تھی۔  بلوچی اسٹائل میں سیدھا، کھڑا جواب۔ وہ زبیدہ جلال کو سخت نا پسند کرتا ہے۔ کیوں؟ وہ کہتا ہے عورت کو یہ سب نہیں کرنا چاہئیے۔ اچھا میں خاموش ہو گئ تھی۔
آج وہی نازنین میرے سامنے موجود تھی شادی کو تین سال ہو گئے۔ بچہ نہیں ہے کوئ۔ کیسے ہوگا، میں اپنے شوہر کے پاس بہت کم رہی ہوں۔ وہ مسقط میں ہوتا ہے اسکا سارا خاندان مسقط میں ہے۔
یہ بھی دلچسپ تھا کہ باوجود اسکے کہ وہاں چھوٹی عمر کی بچیاں بھی موجود تھیں۔ انہیں کسی بھی طرح کی گفتگو کرنے میں کچھ مسئلہ نہ تھا۔ انکا یہ تصور نہ تھا کہ یہ باتیں بچوں کے سامنے کرنے کی نہیں۔ 
ہمم، مگر شادی اس نے گوادر میں کی۔ میں نے اس سے کرید کی۔  ہاں کہتا ہے رشتے دار تو سب ادھر ہے۔
گوادر، ایک لمبے عرصے تک عمان کے زیر تسلط رہا۔ انیس سو اٹھاون میں حکومت پاکستان نے بعوض تیس لاکھ امریکن ڈالر اسے عمان سے خریدا۔  اس وجہ سے یہاں کے طرز بودو باش پہ عربی ثقافت کا اثر ہے۔ اکثر لوگوں کے عزیز اقارب مسقط میں ہیں۔ اور آنا جانا رہتا ہے۔
 تمہارے شوہر نے تمہیں اب تک مسقط نہیں بلایا؟ ویزہ نہیں دے رہے وہ لوگ۔ میرے شوہر کو بڑا غصہ ہے۔ ویسے میں دو دفعہ وہاں گئ ہوں۔ دو تین مہینوں کے لئے۔  عربی ایسے ہی ہوتے ہیں۔ میں نے اس سے ہمدردی کی۔ فون آتا ہے اس کا؟ ہاں دن میں کئ دفعہ۔ اس نے کئ دفعہ پہ زور دیا۔ اچھا،  میں تو سمجھتی تھی کہ بلوچی مرد بہت کم رومینٹک ہوتے ہیں۔ لو،  اس نے بلوچی میں ایک عورت کو میری بات کا ترجمہ کر کے بتایا، اور ہنسنے لگی۔ پاکستان میں جتنی قومیتیں بستی ہیں ان میں سب سے زیادہ رومینٹک بلوچی مرد ہوتے ہیں، نازنین نے دعوی کیا۔ مجھے نجانے کیوں لگا کہ یہ دعوی، شماریات کے ان نتائج کی طرح تھا جو موقع پہ ہی بنائے جاتے ہیں۔ نازنین شاید یہ کہہ رہی تھی کہ بلوچی عورت بڑی حساس ہوتی ہے۔ مگر عورتیں تو سبھی بڑی حساس ہوتی ہیں۔ جب ہی تو خداوند نے تخلیق کی ذمہ داری انہیں دی۔
اچھا، میں نے اسے مزید چھیڑا۔ تو تمہارارومینٹک شوہر تمہیں دن میں کتنی دفعہ آئ لو یو کہتا ہے؟ کوئ گنتی نہیں۔ اس نے ہاتھ اٹھا کرجھٹکا۔ اسکے ہاتھ کی جنبش میں ایک فخر تھا۔ دن میں کتنی دفعہ لکھ کر ایس ایم ایس کرتا ہےاور رات کو جب فون پہ بات کرتا ہے تو دس دفعہ کہتا ہے۔ میں ہنس رہی تھی۔ باقی لڑکیاں اور عورتیں بھی صرف آئ لو یو سمجھ کر مسکرا رہی تھیں۔ انہیں آئ لو یو سمجھ میں آرہا تھا۔
میں نے رفیق بلوچ کی بیوی کی طرف اشارہ کیا اچھا اس سے پوچھ کر بتاءو اسکا شوہر کہتا ہے اسے آئ لو یو۔  اس نے بلوچی میں اس سے پوچھا اور پھر کہنے لگی اسکا شوہر کیوں کہے گا۔ آئ لو یو۔
کیا مطلب، تمہارا شوہر کیوں کہتا ہے؟ میرا شوہر اس لئے کہتا ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ آئ لو یو کا کیا جواب ہے۔
سچ پوچھیں تو مجھے گفتگو اب ایک فلسفے کی طرف جاتی ہوئ لگی فلسفہ ء رومانس۔ آئ لو یو کا کیا جواب ہوتا ہے۔ میں نے اپنے دماغ کو ٹٹولا۔
آپ بھی سوچیں۔
یہاں میں اس کہانی کو ذرا سسپنس میں رکھنے کے لئیے کچھ ادھر ادھر کی اطلاعات ڈالتی ہوں۔ مثلاً نازنین کا برقعہ۔ وہ دبلی پتلی لمبی لڑکی تھی۔ جسکے نین نقش تو تھے ہی خوب کٹیلے، لیکن ان سب پہ اس کا انداز گفتگوبھاری تھا۔ جس میں ایک بانکپن اور غرور تھا۔ ایسا غرور جو الجھنے کی دعوت دیتا ہے۔ اور جب الجھ جائیں تو مزہ آنے لگتا ہے۔ 
ہاں تو اس کا برقعہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ برقعہ، اس فیوڈل نظام میں اعلی طبقے کی خواتین کی نشانی ہے۔ یہاں جتنے اعلی خاندان سے تعلق، اتنا ہی خواتین پردے میں ہونگیں۔ اسلام سے پہلے بھی برقعہ موجود تھا مگر صرف طبقہ ء اشرافیہ یعنی دولتمند گھرانوں کی خواتین پہنتی تھیں۔ نچلے طبقے کی خواتین اسکا استعمال نہیں کرتی تھیں۔ یوں انسانوں کی خوشحالی انکی خواتین کے رہنے سہنےسے پتہ چل جاتی تھی اب بھی بیشتر اوقات خواتین سے ہی مردوں کی کمانے کی استطاعت پتہ چلتی ہے۔
خیر اسکا برقعہ بڑا اسٹائلش تھا۔
کالے رنگ کا خوبصورت فال کا کپڑا، جو جسم کی تراش کے حساب سے اوپر سے فٹنگ میں تھا اور نیچے سے گھیردار، تنگ آستینیں جن پہ فیروزی ستاروں اور ریشم کا نفیس کام کیا ہوا تھا۔ اسکے اسکارف کے ایک سرے پہ بھی وہی کام بنا ہو تھا۔ جو منہ سے لپٹنے کے بعد گردن پہ پھیل جاتا۔ اور جس میں سے اسکی قاتل سرمہ لگی ہوئ آنکھیں جھانکتی رہتیں۔
 میں نے اس سے پوچھا، کیا یہ برقعہ تم نے کراچی سے لیا ہے۔ جواب ملا نہیں مسقط سے۔ اوہ لگ رہا ہے۔ کراچی میں، میں نے کبھی اتنا خوبصورت برقعہ نہیں دیکھا۔ میں نے اسے سراہا۔
خیر ہم کہاں تھے، آئ لو یو کے جواب پہ۔ سو میں نے اس سے پوچھا کہ آئ لو یو کا کیا جواب ہوتا ہے؟ سر پہ ہاتھ رکھ کر اس نے ایک بے نیازی سے اسے جھٹکا پھر بلوچی حسینہ  مسکرائ اور ایک ادا سے منہ پھیر کر بولی۔ آئ لو یو کا جواب ہوتا ہے آئ لو یو ٹو۔
مار ڈالا۔
وہ تیرہ چودہ سالہ بچیاں دوپٹے میں منہ گھسا کر ہنسنے لگیں ان میں سے ایک نے جلدی سے حقے کی نے تھامی اور زور زور سے دو تین کش لے ڈالے۔
تمہیں تو بڑی انگریزی آتی ہے۔ میں لاجواب ہو گئ۔ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ آئ لو یو کا جواب آئ لو یو ٹو ہوتا ہے۔ کہنے لگی، جہاں سے اردو سیکھی ہے وہیں سے اس کا جواب بھی پتہ چلا۔ یعنی انڈین  ڈراموں سے؟ ہاں وہیں سے۔ اس نے بلوچی لہجے میں ہاں پہ زور دیا۔ یہ رفیق کی بیوی بالکل ٹی وی نہیں دیکھتی، نہ اسے اردو آتی ہے اور نہ آئ لو یو کا جواب۔
زندگی کے اس لمحے تک، میں اسٹار پلس کے ڈراموں میں کبھی کوئ مثبت پہلو نہیں نکال سکی تھی۔ لیکن اس دن میں نے تسلیم کیا کہ ان ڈراموں میں ایک خوبی تو ہے اور وہ یہ کہ تمدن کی دنیا سے دور رہنے والے بھی ایک دوسرے کو آئ لو یو کہہ سکتے ہیں۔ غیرت میں عورت کے  قتل  پہ فخر کرنے والے بھی محبت کے اس ظاہری اظہار کی سمجھ رکھنے لگے ہیں اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ انہیں اپنے ساتھی کو پیار بھری کوئ بات کہنی چاہئیے۔ یہ تبدیلی کتنی غیر محسوس طریقے سے آئ ہے، کتنی آہستگی سے کہ بہت سارے لوگوں کو اسکی خبر بھی نہ ہو سکی۔ شاید آئ لو یو اور آئ لو یو ٹو کہنے والے بھی اپنی اس تبدیلی سے نا آشنا ہیں۔
۔
۔
۔
خیال آیا کہ کیا میں اپنے مرد قارئین سے صرف یہ پوچھ سکتی ہوں کہ انہوں نے اپنی قریبی خواتین کو جس میں انکی مائیں ، بہنیں، بیویاں اور بیٹیاں اور دیگر رشے دار  خواتین شامل ہیں، انکو آخری دفعہ کب کہا کہ وہ ان سے محبت کرتے ہیں؟

جاری ہے

Friday, March 4, 2011

ساحل کے ساتھ-۵


اندھیرا پھیل چلا تھا جب میں مشعل کو رات کا کھانا کھلا کر فارغ ہوئ۔ پتہ چلا کہ محلے سے دو خواتین ملنے کے لئے آئ ہیں۔ عبایہ پہنے ہوئے جب وہ اندر آئیں تو مجھے لگا کہ ان میں سے ایک سے پہلے مل چکی ہوں۔ طیبہ، یہی نام ہے ناں تمہارا۔ میں نے ان میں سے ایک سے کہا۔ وہ ایکدم مسکرائ۔ میں سمجھی  تم مجھے بھول گئ۔ ارے نہیں، میں اتنے عرصے بعد یہاں آئ ہوں تم اتنی بڑی ہو گئیں۔
طیبہ، اپنی بڑی بہن اور چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ آئ تھی۔ اسکی عمر یہی کوئ چودہ پندرہ سال ہوگی۔ اسکی بڑی بہن اس سے کوئ دو تین سال بڑی تھی۔ نام تھا اس کا فرض کریں کہ رخسانہ۔
تم لوگوں کو اردو کیسے آتی ہے؟  ڈارمے دیکھتے ہیں اور فلمیں کیبل پہ۔ اس سے آئی ہے۔ کیبل یہاں کوئ چار سال پہلے آیا ہے۔ اور چار سال کے حساب اردو فرسٹ کلاس۔  جو چینلز یہاں آتے ہیں وہ زیادہ تر انڈین یا ایرانی ہیں۔ ایرانی اس لئے کہ گوادر سے ایرانی سرحد زیادہ دور نہیں۔ اور انڈین کس لئے، یہ نہ معلوم یا معلوم؟  پاکستانی چند چینلز آتے ہیں ان میں سے ایک دو خبروں کے ہیں۔ ڈرامے کا کوئ چینل نہیں ہے۔ لازماً ان لوگوں کی اردو پہ ہندی کا اثر ہے۔ جب ہی ایک بچے نے مجھ سے پوچھا کیا تم پتنی ہو؟ 
جتنی دیر وہ میرے پاس بیٹھی رہی۔ رخسانہ اپنی دوچ ، خواتین کا خاص بلوچی لباس،  کی جیب میں سے موبائل نکال کر دیکھتی رہی۔  یہ مجھے پتہ چل گیا کہ تم ہو بڑی مالدار، موبائل فون ہے تمہارے پاس۔ میں نے اسے چھیڑا۔ لیکن یہ بتاءو، جب  تمہیں پڑھنا نہیں آتا تو تم کیسے موبائل کو چیک کرتی ہو۔ ہنسنے لگی۔
ہلکے پھلکے مذاق کے بعد میں نے گفتگو کو قائم رکھنے کو پوچھا ، تو تم لوگ تین بہنیں چار بھائ ہو۔ نہیں ہم چار بہنیں اور چار بھائ تھے۔ بڑی بہن  مر گئ۔
میں خاموش ہو گئ۔ اچھا کیسے مر گئ۔ وہ اسکی شادی ہو گئ تھی۔ وہ پھر خاموش ہو گئ۔ ہمم، بچے کی پیدائش کے سلسلے میں مر گئ۔ نہیں اسے میرے گھر والوں نے زہر دے دیا تھا۔ اس نے اتنے سادہ اورعام لہجے میں کہا زہردے دیا تھا، جیسے گھر میں کسی چوہے کے مرنے مارنے کا تذکرہ ہو،  میں دنگ رہ گئ۔ ایک سال پہلے وہ مری۔ اندازاً اٹھارہ انیس سال کی ہوگی۔
مگر تمہارے گھر والوں نے اسے زہر کیوں دیا؟  وہ اسے اپنا شوہر پسند نہیں تھا۔ اس نے کچھ سوچ کر کہا۔ کیوں؟ وہ اس سے بہت بڑا تھا۔ پہلے بھی اسکی دو شادیاں ہوئیں تھیں۔ وہ اسکی تیسری بیوی تھی۔
تمہیں کیسے پتہ گھر والوں نے اسے زہر دیا تھا؟ یہاں سب کو یہ بات پتہ ہے۔ وہ ہمارے گھر رہنے آئ ہوئ تھی۔ بس ایک دن مر گئ۔
غیرت بڑی چیز ہے جناب۔ اسکے آگے ایک اٹھارہ انیس سال کی لڑکی کیا اوقات ہے۔ اسی صوبے کے ممبرقومی اسمبلی نے ایک دفعہ کہا تھا کہ غیرت پہ قتل ہماری روایت ہے۔ اور اس بات سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں کہ خواتین کے سلسلے میں روایت توڑی نہیں جا سکتی اور جو جہاں ہے وہاں سے وہ حتی المقدور حصہ لیتا ہے۔ جو عملی طور سے نہیں کر پاتے وہ زبان سے کرتے ہیں۔
بلوچ بغاوت کرنا چاہتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ کس کے خلاف بغاوت کرنی چاہئیے اور یوں کچھ روحیں شب انتظار کے مختصر ہونے کے انتظار میں برزخ میں ہیں۔
میں نے بات بدلنے کو کہا۔ تم دونوں کی منگنی ہو گئ کیا۔ دونوں شرما گئیں، نہیں ابھی تو نہیں۔ اچھا یہ بتاءو تمہارے یہاں لڑکی کو کیسے پسند کرتے ہیں۔ نہیں، ہمارے یہاں پسند کی شادی نہیں ہوتی رخسانہ نے فوراً میری بات کاٹی۔ مجھے معلوم ہے تمہارے یہاں ایسے نہیں ہوتا۔ میں پسند کی شادی کا نہیں کہہ رہی یہ پوچھ رہی ہوں کہ ایک لڑکی کو لڑکے والدین جب دیکھتے ہیں تو وہ کس چیز کو پسند کرتے ہیں۔ شکل صورت، ابا کا کام یا اسکی پڑھائ۔ کیسے انہیں کوئ لڑکی پسند آتی ہے۔
طیبہ کی بڑی بہن نے پہلے سوچا اور پھر بڑے مدبرانہ انداز میں کہنے لگی۔ ہمارے یہاں اس لڑکی کو پسند کرتے ہیں جو عزت میں زیادہ ہو۔ کون عزت میں زیادہ ہوتی ہے؟  میں نے پھر سوال داغا۔ جواب، وہ جسے گھر کے سارے کام آتے ہوں، کڑھائ سلائ آتی ہو، جانوروں کو دیکھ لیتی ہو۔
اس پہ میں نے طیبہ سے کہا، طیبہ تمہارا کیا ہوگا۔ تمہاری شکل تو اچھی ہے لیکن عزت تو تمہاری بڑی بہن کی زیادہ ہے اسے سب کام آتے ہیں اور تمہیں صرف جھاڑو دینا آتی ہے۔ اسکی شادی تو ہو جائے گی تم کیا کروگی۔ میں نے اسکی طرف دیکھ کر سوالیہ انداز میں بھنوئیں اچکائیں۔ جواباً اس نے بھی اپنی بھنوئیں شرارت میں ہلائیں۔  ہاں میں کیا کرونگی، مجھے تو صرف جھاڑو دینا آتی ہے۔
جب چلنے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئیں تو اصرار کیا کہ ہمارے گھر بھی ضرور آنا۔ چلتے چلتے، بڑے شوق سے کمرے کے درمیان لٹکے ہوئے جھولے کی طرف دیکھنے لگیں۔ بیٹھنا چاہو تو بیٹھ جاءو۔ ادھر محلّے کے اور بچے بھی اس جھولے میں بیٹھنے کے لئے آتے ہیں۔ مجھے بھی پسند ہے۔
ٹوٹ جائے گا؟ نہیں ٹوٹے گا۔ یہ لوہے کی زنجیر بڑی مضبوط ہے۔ میں نے زنجیر کو ہلایا۔  میں، مشعل اور اسکے ابّا تینوں ایک ساتھ اس جھولے پہ لیٹ جاتے ہیں نہیں ٹوٹتا۔ میں نے حوصلہ دینے کو کہا۔ نہیں، انہوں نے پھر سوچا اور انکار کر دیا شاید شرم مانع تھی۔  پھر کمرے کے دروازے سے باہر نکلتے نکلتے یک لخت طیبہ پلٹی اور آ کر جھولے پہ بیٹھ گئ۔ بچپن اتنی آسانی سے ہاتھ ہلا کراور دامن جھاڑ کر رخصت نہیں ہوتا اور بعض لوگوں  سے کبھی نہیں۔  
پتہ چلا کہ شافٹ یہاں صحیح نہیں ہو سکتی اور فیصلہ یہ کیا ہے کہ کراچی سے نئ لا کر لگائیں۔ اب ہمیں واپسی کا پروگرام سیٹ کرنا تھا۔ مکینک صبح کی بس سے واپس جا رہا تھا۔ گاڑی کے بغیر ہم بھی یہاں کچھ کرنے کے قابل نہیں۔ کراچی کی طرح یہاں ٹرانسپورٹ کی سہولت نہیں۔
رات کو کھانے کی میز پہ مکینک صاحب بھی موجود تھے۔ معلوم ہوا کہ گوادر میں لوگوں نے انہیں بلوچ ماننے سے انکار کردیا۔  کیسا بلوچ ہے، نہ شراب پیتا ہے، نہ  افیون چرس لیتا ہے نہ گٹکا کھاتا ہے ۔  چھالیہ بھی نہیں کھاتا۔ تو بلوچی نہیں ہو سکتا۔ مکینک شرماتا ہوا کہہ رہا تھا کہ ادھر کراچی میں بھی لوگ کہتا ہے کہ تم کیسے مکینک ہو کسی قسم کا نشہ نہیں کرتے۔
مجھے چین یاد آگیا۔ چین سے تجارت میں جیتنے کے جذبے میں انگریزوں نے چینیوں کو افیون کی لت لگائ۔ چین نے دو جنگیں لڑیں جو افیون کی جنگیں کہلاتی ہیں۔ ہانگ کانگ کے جزیرے سے ہاتھ دھونا پڑا۔ یوں ایک پوری صدی چین ذلت اور شرمندگی کے نشے میں دھت رہا۔ انیس سو گیارہ میں شہنشاہیت کے خاتمے کے ساتھ چین ری پبلک بنا۔ مزید سیاسی اصلاحات ہوئیں۔ ماءو زے تنگ کی سخت پالیسیز سامنے آئیں۔ اور افیون کے نشے میں دھت قوم  جاگی اور ایسی جاگی کہ آج بھی خاموشی سے دنیا کی عظیم قوم بننے سے لگی ہوئ ہے۔
جاری ہے

Thursday, March 3, 2011

شرمندگی کے بول

حالیہ کچھ سالوں نے ہمیں ٹریجڈیز کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ ایک نیا المیہ۔ پاکستان میں اقلیتی امور کے وزیر شہباز بھٹی کو سورج کی روشنی میں قتل کردیا گیا۔ یعنی اب قتل کرنے کے لئے کسی کرامت کی ضرورت نہیں۔ قاتل کو کف آستین اور دامن کے داغ چھپانے کی بھی ضرورت نہیں۔ 
اہل طاقت کے پاس مذمتی بیانات کا وہی پرانا سلسلہ اور اہل فکر کے پاس مستقبل کی پریشان کن تصاویر اور وسوسے۔ یقین نہیں آتا کہ یہ ہے وہ پاکستان جہاں ایک سال میں تین ہزار کے لگ بھگ لوگ دہشت گردی کے حملوں کا شکار ہوئے اور اڑسٹھ خود کش حملے ہوئے۔ اور اہل طاقت اسی طرح طاقت کی رسہ کشی میں مصروف ہیں۔ کوئ اس آگ اور خون اگلنے والی عفریت کو قابو نہیں کرنا چاہتا۔
شہباز بھٹی کے قتک کے ساتھ ہی مختلف قیاس آرائیوں کا سلسلہ ایک دفعہ پھر شروع ہو گیا۔ مذہبی علماء نے اس قتل کی حسب معمول مذمت کی اور پھر سے نجانے کتنی لاکھویں دفعہ یہ جملہ دوہرایا گیا کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ انہوں نے ایک دفعہ پھر اس قتل کے تانے بانے امریکہ سے جوڑے۔
 اس دفعہ ہم اس حلقے میں شامل ہیں جو مذہبی علماء سے یہ سوال کرنا چاہتا ہے کہ پاکستان میں کیا مذہب کو اپنے جنون کے اظہار کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا؟  اگر وہ سمجھتے ہیں کہ بیرونی طاقتیں ملک میں فرقہ واریت کی بنیاد پہ فساد کو جنم دینے کی کوشش کر رہی ہیں تو وہ اس بات کی وضاحت بھی کریں کہ اب تک مذہبی انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لئے انہوں نے کیا کیا؟ انہوں نے لوگوں کے اندر قوت برداشت پیدا کرنے کے لئے کیا کیا؟ انہوں نے مذہبی رواداری پیدا کرنے کی جو عملی کوششیں کی ہیں ان سے ہمیں آگہی کیوں نہیں اور ہم اب تک اسکے ثمر سے کیوں محروم ہیں؟
ایک اور سیاسی نکتہ رکھنے والا گروہ بھی ہے جو اس قتل کی ذمہ داری حکمراں طبقے کی اعلی قیادت پہ ڈالتا ہے۔ کیونکہ اب تک یہ مسئلہ لا ینحل ہے کہ سلمان تاثیر کے باڈی گارڈز میں قادری کی شمولیت کیوں کی گئ جبکہ اسکے خیالات کسی سے چھپے ہوئے نہ تھا۔ دوئم سلمان تاثیر کے قتل کی شہادتیں صحیح قانونی طریقے سے کیوں نہیں جمع کی گئیں۔ 
اب یہی مسئلہ شہباز بھٹی کے قتل کے ساتھ نظر آرہا ہے۔ قتل کی دھمکیوں کے باوجود قتل کے وقت، سیکیوریٹی انکے پاس موجود نہ تھی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شہباز بھٹی ان لوگوں میں شامل ہیں جو سلمان تاثیر کے قتل کی تفتیش میں دلچسپی لے رہے تھے۔
 اسکے باوجود کہ تحریک طالبان نے اسکی ذمہ داری لی ہے یہ حسب توقع ایسے  پیچیدہ سیاسی قتل میں شامل ہو جائے گا جس کے مجرمین کے بارے میں ہمیں کبھی نہیں پتہ چلتا۔ 

ہردو نکتے سے الگ، اگر پاکستان میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانا ہے، اور اسے کسی بھی مثبت سمت کی طرف لے جانا ہے تو ایک طرف ہمیں  آزادی فکر کو ترویج دینی ہوگی جس کے لئے برداشت بنیادی چیز ہے۔ اس کے لئے مذہبی جماعتوں کو اپنے یوٹوپیا سے باہر آنا ہوگا۔ کیونکہ اسکے بغیر اصل مسائل کو کارپٹ کے نیچے چھپایا جاتا رہے گا۔
دوسرے ہمیں اپنے سیاسی نظام کو نئے سرے سے تشکیل دینا ہوگا جہاں واقعی عوام کی حکومت عوام کے ذریعے سے ہو، جہاں اہل اقتدار، دولت کی ہوس میں اقتدار سے چمٹے نہ رہیں اور ایکدوسرے کے خلاف سازشوں کے جال بنتے رہیں اس طرح کہ انہیں ملکی اور عوامی مفادات کی ذرہ بھر فکر نہ ہو۔ اور جہاں تبدیلی کے لئے فوج کی حمایت درکار نہ ہو۔


شہباز بھٹی، ہم آپ سے شرمندہ ہیں۔ ہم پاکستان کے کمزورعوام آپکو بچانے کے لئے کچھ نہ کر سکے۔