Friday, March 4, 2011

ساحل کے ساتھ-۵


اندھیرا پھیل چلا تھا جب میں مشعل کو رات کا کھانا کھلا کر فارغ ہوئ۔ پتہ چلا کہ محلے سے دو خواتین ملنے کے لئے آئ ہیں۔ عبایہ پہنے ہوئے جب وہ اندر آئیں تو مجھے لگا کہ ان میں سے ایک سے پہلے مل چکی ہوں۔ طیبہ، یہی نام ہے ناں تمہارا۔ میں نے ان میں سے ایک سے کہا۔ وہ ایکدم مسکرائ۔ میں سمجھی  تم مجھے بھول گئ۔ ارے نہیں، میں اتنے عرصے بعد یہاں آئ ہوں تم اتنی بڑی ہو گئیں۔
طیبہ، اپنی بڑی بہن اور چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ آئ تھی۔ اسکی عمر یہی کوئ چودہ پندرہ سال ہوگی۔ اسکی بڑی بہن اس سے کوئ دو تین سال بڑی تھی۔ نام تھا اس کا فرض کریں کہ رخسانہ۔
تم لوگوں کو اردو کیسے آتی ہے؟  ڈارمے دیکھتے ہیں اور فلمیں کیبل پہ۔ اس سے آئی ہے۔ کیبل یہاں کوئ چار سال پہلے آیا ہے۔ اور چار سال کے حساب اردو فرسٹ کلاس۔  جو چینلز یہاں آتے ہیں وہ زیادہ تر انڈین یا ایرانی ہیں۔ ایرانی اس لئے کہ گوادر سے ایرانی سرحد زیادہ دور نہیں۔ اور انڈین کس لئے، یہ نہ معلوم یا معلوم؟  پاکستانی چند چینلز آتے ہیں ان میں سے ایک دو خبروں کے ہیں۔ ڈرامے کا کوئ چینل نہیں ہے۔ لازماً ان لوگوں کی اردو پہ ہندی کا اثر ہے۔ جب ہی ایک بچے نے مجھ سے پوچھا کیا تم پتنی ہو؟ 
جتنی دیر وہ میرے پاس بیٹھی رہی۔ رخسانہ اپنی دوچ ، خواتین کا خاص بلوچی لباس،  کی جیب میں سے موبائل نکال کر دیکھتی رہی۔  یہ مجھے پتہ چل گیا کہ تم ہو بڑی مالدار، موبائل فون ہے تمہارے پاس۔ میں نے اسے چھیڑا۔ لیکن یہ بتاءو، جب  تمہیں پڑھنا نہیں آتا تو تم کیسے موبائل کو چیک کرتی ہو۔ ہنسنے لگی۔
ہلکے پھلکے مذاق کے بعد میں نے گفتگو کو قائم رکھنے کو پوچھا ، تو تم لوگ تین بہنیں چار بھائ ہو۔ نہیں ہم چار بہنیں اور چار بھائ تھے۔ بڑی بہن  مر گئ۔
میں خاموش ہو گئ۔ اچھا کیسے مر گئ۔ وہ اسکی شادی ہو گئ تھی۔ وہ پھر خاموش ہو گئ۔ ہمم، بچے کی پیدائش کے سلسلے میں مر گئ۔ نہیں اسے میرے گھر والوں نے زہر دے دیا تھا۔ اس نے اتنے سادہ اورعام لہجے میں کہا زہردے دیا تھا، جیسے گھر میں کسی چوہے کے مرنے مارنے کا تذکرہ ہو،  میں دنگ رہ گئ۔ ایک سال پہلے وہ مری۔ اندازاً اٹھارہ انیس سال کی ہوگی۔
مگر تمہارے گھر والوں نے اسے زہر کیوں دیا؟  وہ اسے اپنا شوہر پسند نہیں تھا۔ اس نے کچھ سوچ کر کہا۔ کیوں؟ وہ اس سے بہت بڑا تھا۔ پہلے بھی اسکی دو شادیاں ہوئیں تھیں۔ وہ اسکی تیسری بیوی تھی۔
تمہیں کیسے پتہ گھر والوں نے اسے زہر دیا تھا؟ یہاں سب کو یہ بات پتہ ہے۔ وہ ہمارے گھر رہنے آئ ہوئ تھی۔ بس ایک دن مر گئ۔
غیرت بڑی چیز ہے جناب۔ اسکے آگے ایک اٹھارہ انیس سال کی لڑکی کیا اوقات ہے۔ اسی صوبے کے ممبرقومی اسمبلی نے ایک دفعہ کہا تھا کہ غیرت پہ قتل ہماری روایت ہے۔ اور اس بات سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں کہ خواتین کے سلسلے میں روایت توڑی نہیں جا سکتی اور جو جہاں ہے وہاں سے وہ حتی المقدور حصہ لیتا ہے۔ جو عملی طور سے نہیں کر پاتے وہ زبان سے کرتے ہیں۔
بلوچ بغاوت کرنا چاہتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ کس کے خلاف بغاوت کرنی چاہئیے اور یوں کچھ روحیں شب انتظار کے مختصر ہونے کے انتظار میں برزخ میں ہیں۔
میں نے بات بدلنے کو کہا۔ تم دونوں کی منگنی ہو گئ کیا۔ دونوں شرما گئیں، نہیں ابھی تو نہیں۔ اچھا یہ بتاءو تمہارے یہاں لڑکی کو کیسے پسند کرتے ہیں۔ نہیں، ہمارے یہاں پسند کی شادی نہیں ہوتی رخسانہ نے فوراً میری بات کاٹی۔ مجھے معلوم ہے تمہارے یہاں ایسے نہیں ہوتا۔ میں پسند کی شادی کا نہیں کہہ رہی یہ پوچھ رہی ہوں کہ ایک لڑکی کو لڑکے والدین جب دیکھتے ہیں تو وہ کس چیز کو پسند کرتے ہیں۔ شکل صورت، ابا کا کام یا اسکی پڑھائ۔ کیسے انہیں کوئ لڑکی پسند آتی ہے۔
طیبہ کی بڑی بہن نے پہلے سوچا اور پھر بڑے مدبرانہ انداز میں کہنے لگی۔ ہمارے یہاں اس لڑکی کو پسند کرتے ہیں جو عزت میں زیادہ ہو۔ کون عزت میں زیادہ ہوتی ہے؟  میں نے پھر سوال داغا۔ جواب، وہ جسے گھر کے سارے کام آتے ہوں، کڑھائ سلائ آتی ہو، جانوروں کو دیکھ لیتی ہو۔
اس پہ میں نے طیبہ سے کہا، طیبہ تمہارا کیا ہوگا۔ تمہاری شکل تو اچھی ہے لیکن عزت تو تمہاری بڑی بہن کی زیادہ ہے اسے سب کام آتے ہیں اور تمہیں صرف جھاڑو دینا آتی ہے۔ اسکی شادی تو ہو جائے گی تم کیا کروگی۔ میں نے اسکی طرف دیکھ کر سوالیہ انداز میں بھنوئیں اچکائیں۔ جواباً اس نے بھی اپنی بھنوئیں شرارت میں ہلائیں۔  ہاں میں کیا کرونگی، مجھے تو صرف جھاڑو دینا آتی ہے۔
جب چلنے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئیں تو اصرار کیا کہ ہمارے گھر بھی ضرور آنا۔ چلتے چلتے، بڑے شوق سے کمرے کے درمیان لٹکے ہوئے جھولے کی طرف دیکھنے لگیں۔ بیٹھنا چاہو تو بیٹھ جاءو۔ ادھر محلّے کے اور بچے بھی اس جھولے میں بیٹھنے کے لئے آتے ہیں۔ مجھے بھی پسند ہے۔
ٹوٹ جائے گا؟ نہیں ٹوٹے گا۔ یہ لوہے کی زنجیر بڑی مضبوط ہے۔ میں نے زنجیر کو ہلایا۔  میں، مشعل اور اسکے ابّا تینوں ایک ساتھ اس جھولے پہ لیٹ جاتے ہیں نہیں ٹوٹتا۔ میں نے حوصلہ دینے کو کہا۔ نہیں، انہوں نے پھر سوچا اور انکار کر دیا شاید شرم مانع تھی۔  پھر کمرے کے دروازے سے باہر نکلتے نکلتے یک لخت طیبہ پلٹی اور آ کر جھولے پہ بیٹھ گئ۔ بچپن اتنی آسانی سے ہاتھ ہلا کراور دامن جھاڑ کر رخصت نہیں ہوتا اور بعض لوگوں  سے کبھی نہیں۔  
پتہ چلا کہ شافٹ یہاں صحیح نہیں ہو سکتی اور فیصلہ یہ کیا ہے کہ کراچی سے نئ لا کر لگائیں۔ اب ہمیں واپسی کا پروگرام سیٹ کرنا تھا۔ مکینک صبح کی بس سے واپس جا رہا تھا۔ گاڑی کے بغیر ہم بھی یہاں کچھ کرنے کے قابل نہیں۔ کراچی کی طرح یہاں ٹرانسپورٹ کی سہولت نہیں۔
رات کو کھانے کی میز پہ مکینک صاحب بھی موجود تھے۔ معلوم ہوا کہ گوادر میں لوگوں نے انہیں بلوچ ماننے سے انکار کردیا۔  کیسا بلوچ ہے، نہ شراب پیتا ہے، نہ  افیون چرس لیتا ہے نہ گٹکا کھاتا ہے ۔  چھالیہ بھی نہیں کھاتا۔ تو بلوچی نہیں ہو سکتا۔ مکینک شرماتا ہوا کہہ رہا تھا کہ ادھر کراچی میں بھی لوگ کہتا ہے کہ تم کیسے مکینک ہو کسی قسم کا نشہ نہیں کرتے۔
مجھے چین یاد آگیا۔ چین سے تجارت میں جیتنے کے جذبے میں انگریزوں نے چینیوں کو افیون کی لت لگائ۔ چین نے دو جنگیں لڑیں جو افیون کی جنگیں کہلاتی ہیں۔ ہانگ کانگ کے جزیرے سے ہاتھ دھونا پڑا۔ یوں ایک پوری صدی چین ذلت اور شرمندگی کے نشے میں دھت رہا۔ انیس سو گیارہ میں شہنشاہیت کے خاتمے کے ساتھ چین ری پبلک بنا۔ مزید سیاسی اصلاحات ہوئیں۔ ماءو زے تنگ کی سخت پالیسیز سامنے آئیں۔ اور افیون کے نشے میں دھت قوم  جاگی اور ایسی جاگی کہ آج بھی خاموشی سے دنیا کی عظیم قوم بننے سے لگی ہوئ ہے۔
جاری ہے

10 comments:

  1. عنیقہ بہت اچھا سفر نامہ لکھا ۔ جا رہا ہے ۔ الفاظ کا چناو سفر نامہ نہیں افسانہ لگتا ہے ۔۔۔ اور مجھے لگنے لگا ہے ۔ کہ بہت جلد عنیقہ ناز کی کتاب مارکیٹ میں پڑھنے کو ملے گی ۔۔۔ تحریر کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ شروع کرنے سے پہلے ختم نہیں کرنا پڑہ رہا پورا پڑھنے کے بعد دی اینڈ کرنا پڑہ رہا ہے ۔ اگلی قسط کا انتظار ہے ، کہ گاڑی کا کیا ہوا ۔ پھر کراچی کا سفر اور اسکے بعد گھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گھر کے بعد گھر کی صفائی ۔۔وغیرہ وغیرہ

    ReplyDelete
  2. حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں،
    آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے،کس کس کوسدھاریں گے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
    جس ملک میں ظلم کو ظلم ہی نہ سمجھا جائے،جہاں مظلوم نہیں زیادہ ظالم اور کم ظالم بستے ہوں وہاں بہتری کی امید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    کبھی کبھی مایوسی اور غصہ اپنی انتہاؤں کو پہنچ جاتا ہے،آجکل پھر میں اسی فیز سے گذر رہاہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    Abdullah

    ReplyDelete
  3. سوچتا ہوں حساس ہونا بھی ایک نرا عذاب ہی ہے

    ReplyDelete
  4. المناک بیان ہے۔ تحریر کا بہاؤ بھی خوب ہے۔
    جاری رکھیے۔

    ReplyDelete
  5. باوجود یہ کہ تحریر کا بہاؤ خوب ہے .. کچھ خامیاں باقی ہیں۔ اگر اس پر نظر ثانی کرتیں تو تحریر اور بھی جاندار ہوتی۔
    یوں تو کافی کچھ تلاش کیا جا سکتا ہے۔ لیکن مثال کے لئے چند فقروں کی ادارت کرنا چاہوں گا۔

    اندھیرا پھیل چلا تھا جب مشعل کو رات کا کھانا کھلا کر فارغ ہوئی۔ پتہ چلا کہ محلے سے دو خواتین ملنے آئی ہیں۔ عبایہ پہنے ہوئے جب وہ اندر آئیں تو ایک چہرہ شناسا سا لگا۔ طیبہ! .. یہی نام ہے ناں تمہارا؟ .. میں نے استفسار کیا۔ وہ بے اختیار مسکرائی .. میں سمجھی تم مجھے بھول گئی۔ ارے نہیں، میں اتنے عرصے بعد یہاں آئی ہوں .. تم اتنی بڑی ہو گئیں ...
    طیبہ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ آئی تھی۔ عمر یہی کوئی چودہ پندرہ سال۔ بڑی بہن اس سے کوئی دو تین سال بڑی تھی .. نام فرض کریں کہ رخسانہ۔


    اسی طرح آگے چل کر ...

    بڑی بہن نے کچھ سوچا اور پھر بڑے مدبرانہ انداز میں گویا ہوئی؛ "ہمارے یہاں اس لڑکی کو پسند کرتے ہیں جو عزت میں زیادہ ہو"۔ کون عزت میں زیادہ ہوتی ہے؟ .. میں نے پھر سوال داغا۔ "وہ جسے گھر کے سارے کام آتے ہوں، کڑھائی سلائی آتی ہو، جانوروں کو دیکھ لیتی ہو"۔

    ابتدائی اقتباسات میں واوین سے رعایت مناسب ہے۔ تاہم بعد کے اقتباس میں بڑی بہن کے فقروں پر واوین تحریر کو خوبصورت بناتے ہیں۔ مکالمہ جاندار رہتا ہے۔ مجھے .... کا استعمال بھی پسند ہے۔
    میں جانتا ہوں کہ نظرثانی نہ کرنے پر آپ کا موقف کیا ہے۔ یہی کہ اس طرح آپ اپنی تحریر میں نہیں رہتی۔ لیکن چونکہ شاگرد صاحب کافی کچھ سیکھنے کے چکروں میں ہیں اس لئے اب بات مختلف ہے۔ یا پھر یہ کام مجھ پر چھوڑ دیں۔ کبھی کبھار میں ہی کردیا کروں گا۔ ویسے بھی میں شاذونادر ہی کسی دوسرے بلاگ کا رخ کرتا ہوں۔ اپنی خود کلامی کو بھی بلاگستان سے الگ کررہا ہوں۔ آزاد رہ کر لکھوں گا۔

    ReplyDelete
  6. عثمان، بلاگسپاٹ میں میرے پاس واوین کا مسئلہ ہے۔ بعض جگہ اسے ڈالناایک مصیت ہو جاتا ہے۔ جیسے پیرا کے آخیر میں۔ یوں واوین نہ ڈالنا میری کاہلی اور مجبوری دونوں بن جاتا ہے۔
    بعض بیانیہ تحاریر میں میں بیان کو الگ رنگ سے لکھ دیتی ہوں لیکن یہاں ایسا نہیں کیا جا سکتا تھا یا یہ کہ میری جمالیاتی حس کو یہ پسند نہین آرہا تھا۔ اس لئے قاری کو مزید دماغ کھپانے پہ مجبور کرنے کے لئے ایسا کیا ہے۔ کہتے ہیں اچھی تحاریر وہ ہوتی ہیں جنہیں پڑھنے کے بعد قاری کی سوچ کی دنیا ویسی نہ رہے جیسی پہلے تھی۔
    چلیں اس باہنے پنکچوایشن نکھرتی جائے گی۔
    خود کلامی کو بلاگستان سے الگ کر رہے ہیں یہی تو بعض خواہشات تھیں۔ ایک نہایت غیر دانشمندانہ فیصلہ۔ میں نے اب تک ایسا نہیں کیا۔ آپ کی تو شروعات ہیں اور آپ میدان چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ واللہ آپکے تبصروں سے ہی بغاوت کی بو آتی ہے ورنہ آپکی پوسٹس تو کافی مختلف ہوتی ہیں۔
    میرے شاگرد عزیز، نکلتے وقت میرا یہ اعزاز واپس دینا ہوگا۔ اسے دھمکی ہی سمجھیں۔

    ReplyDelete
  7. @Usman,
    I know that you won't like me but
    I second Aniqa!
    please don't do this...............
    Abdullah

    ReplyDelete
  8. میدان چھوڑنے والی بات نہیں۔ دراصل آپ کو تو وہاں رہنا ہے۔ جیسے لوگ نیٹ پر ، کچھ ویسے ہی حقیقی زندگی میں اطراف میں۔ جو ہے جیسا ہے ، ان میں سروائیو کرنا ہے۔ وہاں کے معاشرے کے مسائل پہ لکھنا آپ کی ذمہ داری ٹھہری۔ میرا مسئلہ اور ہے۔ جب میں حقیقی زندگی میں وہ معاشرہ اور وہاں کےمسائل برسوں پہلے چھوڑ آیا تو نیٹ پر خوامخواہ انھیں اڈاپٹ کرنے کی ضرورت کیا؟ ہزاروں میل دور کیا گزر رہا ہے مجھے اس سے کوئی خاص غرض نہیں۔ یہ تو جب قاتلوں پہ گل پاشی کی تصاویر بین الاقوامی میڈیا میں آئیں تو پلٹ کر نگاہ ڈالنی پڑتی ہے۔ ورنہ میری جانے بلا سے۔
    پھر میرے نزدیک سوشل نیٹ ورکنگ وہیں سود مند ہے جہاں تبادلہ خیال کی کچھ گنجائش ہو۔ جہاں گنجائش نہ ہو وہاں ہم کلامی کیسی؟ آپ کا بلاگ نہ ہوتا تو کب کا جا چکا ہوتا۔ ویسے بھی میں کچھ متلون مزاج ہوں۔
    سیارہ چھوڑ چکا ہوں۔ بلاگز ایگریگڑ کے منتظم رخصت پر ہیں ورنہ وہاں سے بھی اب تک خلاصی ہوچکی ہوتی۔ آزاد رہ کر جو تھوڑا بہت لکھوں گا اس میں بہتری آئے گی۔ یہ بحثیت شاگرد وعدہ رہا۔
    اور مجھے شاگردی سے محروم نہ کریں جی۔ دیکھیں نا .. گائے کے مضامین لکھنے والے لکھاری میں اتنی بہتری آئی ہے کہ وہ اب استانی کی تحریر کی ادارت کرنے کی ہمت کر ڈالتا ہے۔ یہ تو آپ ہی نے مجھ سے اپنے افسانے چھپا رکھے ہیں۔ ورنہ اب تک آگ کا دریا نہیں تو کوئی چھوٹا موٹا چھپڑ ، تالاب تو لکھ چکا ہوتا۔
    :)

    اپنے تند و تیز تبصروں کے ساتھ آپ کے بلاگ پر ہمہ وقت موجود ہوں۔ دیکھا جائے تو کچھ نہیں بدلا .. سوائے یہ کہ میں اب خوامخواہ کے تناؤ سے آزاد ہوں۔

    ReplyDelete
  9. اس بلاگ پر یہ تحریر اور اس پر میرا تبصرہ جو کہ صاحب بلاگ کی طرف سے موڈریشن کا منتظر ہےسوچا،وہ صاحب چھپنےدیں یا نہ دیں اس لیئے آپکے بلاگ پر بھی لگائے دے رہا ہوں،کچھ آپکے موضوع سے ریلیٹ بھی کرتا ہے،
    http://www.omyown.com/waseem/

    عبداللہ نے لکھا: آپکا تبصرہ نظر ثانی کے مراحل میں ہے.
    Sunday، 06 March 2011 بوقت 18:09
    میری ایک بھاوج ہیں،بے حدخوبصورت،شادی ہوئی تو بہت خیال رکھنے والی ہر ایک سے محبت کرنے والی ،ساس کے پیر میں درد ہو تو پیر دبانے والی(جنکی بیوی ہیں انہیں کبھی اس کی تو فیق نہیں ہوئی)،دیور نندوں کے کام آنے والی،میرا بھائی مزاج کا تیز چھوٹی چھوٹی بات پر غصے میں آجانے والا ،انتہائی جذباتی،اچھا ہے تو اس سے اچھا کوئی نہین اور برا ہے تو اس سے برا بھی کوئی نہیں، زرا سی بات پر دوسرے کی عزت ہاتھ پر رکھ دینے والا،غصے میں اسے ماں بھی دکھائی نہیں دیتی،ماسٹرز کیا ہوا ،پانچ وقت کا نمازی،بیوی سمیت ہر کسی کی ضروریات کا خیال رکھنے والا،مگر چھوٹی سی بات پر عزت اتار کر ہاتھ مین رکھ دینے والا،
    شادی کے دس سال بعد بھاوج سے ملاقات ہوئی تو حیران رہ گیا ایک چڑ چڑی بدمزاج خاتون، بیماریوں کا شکار ،ڈھڑلے سے جھوٹ بولنے والی،
    میری اس بھاوج کی اس ذہنی اور جسمانی حالت کا ذمہ دار کون ہے؟؟؟؟؟؟

    میری ایک بہن،خوبصورت ،کم گو ،ذہین ،پڑھی لکھی،سمجھ دار، دوسروں کے آرام کے لیئے اپنا آرام تج دینے والی،شادی ہوئی
    بہنوئی عام شکل،شکی،حاکمانہ طبیعت،کنجوس،ماں کی خدمت خود نہیں کرنا بلکہ شادی کر کے جو احسان کیا ہے اس کے بدلے اس کی ماں کی خدمت بھی اب بیوی کی تنہا ذمہ داری ہے،ان تمام رشتہ داروں سے ملنا بند جنہوں نے کبھی بہن کے لیئے رشتہ دیا تھا،ماں کے گھر جانے پر پابندی،بات بات پر غصہ یہاں تک کے ہاتھ بھی اٹھالینا،بات بات پر طلاق کی دھمکی،
    شادی کے بیس سال بعد وہ عورت جسکی دنیا مثالیں دیتی تھی ایک چڑ چڑی،بدمزاج عورت ہے،
    میری بہن کی اس حالت کا ذمہ دار کون؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
    یہ صرف دو مثالیں ہیں دنیا بھری ہے ایسی بے شمار مثالوں سے،اپنے ارد گرد دیکھیئے اور پھرٹھنڈے دل سے سوچیئے کہ ان عورتوں کی اس ذہنی حالت کا اصل زمہ دار کون ہے،
    میرا مشاہدہ یہ ہے کہ ایک عورت ہر مشکل اورتکلیف برداشت کرسکتی ہے اپنے شوہر اور اسکے گھر والوں کے لیئے اپنی جان بھی دے سکتی ہے اگراسےوہ عزت دی جائے جس کی وہ حقدار ہے،اس کے جائز جذبات اور احساسات کا خیال رکھا جائے،اسے اپنے سے کمتر نہیں اپنے برابر کا اور اپنے جیسا ہی انسان سمجھا جائے!!!!!!!!!!!!
    اگر ہم اپنے گھروں اورمعاشرے میں سکون چاہتے ہیں تو ہمیں پہلے عورت کو سکون دینا ہوگا،اسکے علاوہ اورکوئی نسخہ نہ ہے اور نہ ہوگا!

    Abdullah

    ReplyDelete
  10. عبداللہ، میں نے وسیم بیگ کے بلاگ پہ جا کر پڑھنے کی کوشش کی۔ مگر اس قسم کی تحاریر بہت سطحی اور بچکانہ خانے میں فٹ ہوتی ہے۔ اس لئے اس پہ تبصرہ نہیں کیا۔
    یہ کہنا کہ عورت ہی عورت کی تباہی کی ذمہ دار ہوتی ہے اس سے زیادہ سطحی بات نہیں ہو سکتی۔
    حسد انسانی خصوصیت ہے کیا مرد ایکدوسرے سے حسد نہیں کرتے۔ نرد جتنا کرتے ہیں اسکی مثال نہیں ملتی۔ یہ جو غیرت کے نام پہ قتل ہوتے ہیں یہ بھی بیشتر اوقات مردانہ حسد کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ پوری دنیا اس وقت جنگ کے جس جہنم میں دہک رہی ہے وہ مردانہ برداشت کا نمونہ ہے۔
    مغرب کی عورت اپنے روئیے میں مشرق کی عورت سے خاصی مختلف ہوتی ہے اور اسکی بنایدی وجہ دونوں کی پرورش کا طریقہ ہے۔ اگر معاشرے میں خواتین اخلاقی بیماریوں کا شکار ہیں تو اسکی بنیادی وجہ، انکا حاہل ہونا، انکا معاشی طور پہ کسی بھی قسم کی کوئ خود مختاری نہ رکھنا ہے۔
    تعلیم کا شعبہ ہے یا معاشی بد حالی کا ہمارے یہاں جان بوجھ کر خواتین کو انتہائ پستی میں رکھا جاتا ہے تاکہ کچھ لوگ یہ لکھ سکیں کہ خواتین کی تباہی کی وجہ دوسری خواتین ہوتی ہیں۔ یا یہ کہ خواتین ایک دوسرے سے حسد کرتی ہیں۔ وہی فیوڈل نظام کا مردانہ انداز فکر، خواتین کے منہ میں دانت مردوں کے منہ میں دانت سے کم ہوتے ہیں۔
    مجھے تو یہ نہیں سمجھ میں آتا کہ وہ مرد جو آج کی کسی پڑھی لکھی عورت سے بات نہیں کر پاتے وہ اس بات پہ صفحے کے صفحے کالے کرتے رہتے ہیں کہ مذہب میں عورت کو مرد سے کم تر بنایا گیا ہے۔ جناب عورتوں میں یہ یہ خامیاں ہوتی ہیں، وہ وہ ہوتی ہیں۔ پہلے اپنے سامنے کی خاتون سے تو آگے نکل کر دکھا دیں پھر آگے کی بات کریں۔ یہ ان سے نہیں ہو سکتا۔
    اس طرح کی تحریر پڑھ کر اسے ایک طرف ڈال دیں۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ