پچھلے چند مہینوں سے یہ حالت ہے کہ کچھ لکھنے سے پہلے یہ نہیں سمجھ میں آتا کہ کس پہ لکھوں۔ اسکی وجہ تیزی سے بدلتی دنیا ہے،،اور اتنی ہی تیزی سے اس کا ہمیں متائثر کرنا ہے۔ اب صورت کچھ اس مال یعنی جدید بازار کی طرح بن چکی ہے جہاں سامان کی افراط اور ورائیٹی بے پناہ ہو اور یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا خریدیں۔ خیر، یہ آسانی پھر ہوتی ہے کہ آپ اپنی جیب کی حالت بلکہ موجودہ حالات میں حالت زارکو سامنے رکھتے ہوئ کچھ ضروریات کو جمنے کا موقع دیں اور کچھ خواہشات کا گلا گھونٹ دیں۔ اس طرح کچھ خواہشات تو یہ کہتی نظر آتی ہیں کہ
رات ہم بھی کھڑے تھے تیری محفل میں چھپ کر
جیسے تصویر لگادے کوئ دیوار کے ساتھ
یا
مجھ تک کب اسکی بزم میں آتا تھا دور جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
اور ضروریات الہڑ مٹیاروں کی طرح شوخیاں دکھاتی ہیں اور دلربائ سے دعوی کرتی ہیں
کہتے ہیں عمر رفتہ کبھی لوٹتی نہیں
جا، میکدے سے میری جوانی اٹھا کے لا
لیکن اس رفتار سے ضروریات اور خواہشات پہ لکھوں تو یہ پوسٹ کچھ گلوبل معیشت کے مذاق پیہم کی تحریر بن جائے گی۔ نہ ، نہ، اطمینان رکھیں یہ میرا موضوع نہیں ہے۔
میں تو باغبانی کے نتائج پہ لکھنا چاہ رہی تھی۔ کل جب میں ایمپریس مارکیٹ میں نئے موسم کے بیج لے رہی تھی تو مجھے خیال آیا کہ میں پچھلے موسم کی حاصل کھیتی کے بارے میں تو لکھ دوں۔
اچھا تو میرے پرانے اور مستقل قارئین کو، جو کہ اس بلاگ کی پارہ صفتی سے نہیں گھبراتے اور امید بہار سے پیوستہ ہیں۔ ان کو یاد ہوگا کہ میں نے جوش و خروش میں کچھ سبزیاں اگانے کی کوشش کی تھی۔
ان میں سب سے کامیاب، سلاد پتہ، ہرا دھنیا، بروکلی رہی۔ جنوری سے ہم نے سلاد پتہ اور دھنیا استعمال کرنا شروع کیا روزانہ کی بنیاد پہ۔ سلاد پتہ توکچھ پڑوسیوں اور رشتے داروں کو بھی بھیجا۔ ہرا دھنیا اب خشک ہو گیا۔ لیکن سلاد پتہ ابھی بھی کام آرہا ہے۔
ٹماٹر پہ فصل پکنے کے وقت کیڑا لگ گیا۔ یہ تصویر میں نظر آرہا ہے۔ |
ہرا دھنیا |
سلاد پتہ |
ترئ کی بیل نے چلنا شروع کیا تھا کہ کراچی میں ٹھنڈ کی لہر پڑنا شروع ہو گئ۔ اسے میں سردی کہہ کر کچھ لوگوں کو طعنہ زنی کا موقع نہیں دینا چاہونگی۔ لیکن اس سے نہ صرف کراچی والوں کی بلکہ اس بیل کی بھی جان نکل گئ، وہ ٹھٹھرے اور یہ ٹھٹھرکر رہ گئ۔
شملہ مرچ کے پودے بھی اسی انجام کو پہنچے ۔ لیکن میں نے ایک دفعہ پھر شملہ مرچ لگائ ہے یہ دیکھنے کے لئے کہ آیا واقعی موسم کا اثر ہے یا شملہ مرچ کو کچھ سایا چاہئیے ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک آدھ پودا جسے بروکلی کے چوڑے پتوں کا سایا ملا پھل پھول گیا۔
بروکلی |
بروکلی کے پھول |
سیم کی پھلی سے بھی متوقع نتائج نہ ملے۔ یعنی توقع تھی کہ کلو کے حساب سے ملیں گی۔ مگر یہ حد پاءو سے آگے نہ بڑھی۔ میرا خیال ہے ، پانی کا کچھ مسئلہ رہا۔ ٹماٹر کے صرف تین پودوں کے لئے جگہ نکل سکی۔ یہ بڑی نسل کے ٹماٹر تھے۔ اب میں نے طے کیا ہے کہ چھوٹی نسل کے ٹماٹر لگانے چاہئیں۔
اچھا اس دفعہ، میرے پلان میں چھوٹی ہری مرچ، پیلی شملہ مرچ، بھنڈی، کریلے، ککڑی، ترئ، ہرا دھنیا، اور آزمائیشی طور پہ بیگن شامل ہیں۔
سوایک دن گملوں کو درست کرنے میں لگا۔ اور کل کا دن بیج بونے میں۔ اب دیکھیں اس دفعہ کیا ہوتا ہے۔
سبزیوں کے تذکرے کے بعد شریفوں کا تذکرہ۔ شریفوں سے یہ مت سمجھئیے گا کہ میں اس پوسٹ کو بھی دیدہ دانستہ سیاسی رخ دینے کی کوش کر رہی ہوں۔ آپ جانتے ہیں اس بلاگ کا نام دوسرا رخ نہیں ہے۔ یہ وہ پھل ہے جو بازار میں نظر تو آتا ہے مگر بہت کم۔ اس دفعہ شریفے غیر معمولی طور پہ بڑی جسامت کے تھے۔ جن میں تین ہمیں ملے اور تین کسی نے باہر سے ہاتھ ڈال کر توڑ لئے۔ لوٹے ہوئے شریفے تو پہنچ سے باہر ہیں جو ہمیں ملے ان شریفوں کا دیدرا کر لیں۔
اے لو ...
ReplyDeleteاو جی مجھے دو مہینوں سے سمجھ نئیں آری کہ لکھوں کیا اور آپ کے پاس موضوع کم پڑ رہے ہیں۔ یہ کچھ بئی مانی نئیں ہے جی ؟
اور اس کھیتی باڑی کا نتیجہ مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ نکلنا کچھ نہیں ماسوائے کچھ پتے پُتوں کے۔ انھیں بروکلی ، دھنیا پودینا کہہ کر خوش ہوتی رہیں کیا فرق پڑتا ہے۔ تاہم اس کاشت کاری کا ایک اہم فائدہ یہ ضرور ہوا ہے کہ آپ نے اس پر دو پوسٹیں لگا دیں اور تیسری کی منتظر ہیں۔
میں اتنی دیر آپ کے بلاگ کی سابقہ پوسٹیں چھان لوں۔ سوچتا ہوں وہی ادل بدل کر لگا دوں۔ شاگرد ہونے کے ناطے اتنا حق تو بنتا ہی ہے نا میرا۔
عثمان،
ReplyDelete:)
کینیڈا میں تو اس وقت خاصی رات ہوگی۔ یہ اتنی رات کو چمگادروں کی طرح جاگ ، صرف میری پوسٹس میں ادل بدل کریں گے۔
سو کر جاگیں، ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔
outstanding...great job
ReplyDeleteذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
ReplyDelete