جس شدت سے پاکستانی تیس مارچ کے منتظر ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ پاکستان کم از کم تیس مارچ تک اپنی سالمیت کی جنگ پہ کوئ سودا نہیں کرے گا۔ اوراس دوران آپکو شاید ہی یہ جملہ سننے کو ملے کہ پاکستان بس اب ٹوٹنے ہی والا ہے۔
مختلف کاروبار حیات ماند پڑ گئے ہیں۔ اور شاعر کہتا ہے
عشق کچھ پڑ گیا ہے ٹھنڈا سا
آج کل امتحان ہے پیارے
سن رہے ہیں کہ سیمی فائنل والے دن آدھی چھٹی ہوگی۔ اور یہ بھی کہ اس دن لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی۔ اتنی خوش خبریوں کے بعد ہماری ایک بزرگ خاتون کا کہنا ہے کہ پاکستان کو سیمی فائنل جیت جانا چاہئیے۔ کیوں؟ کیونکہ، انہوں نے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا، پھر فائنل والے دن بھی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی۔
اسکی وجہ تیس مارچ کو دو ازلی دشمنوں انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والا میچ ہے جو کانٹے کا ہو یا نہ ہو کانٹوں پہ ضرور ہوگا۔ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے میچ کی دو اہم خصوصیات ہیں۔
اول ہارجانے کے بعد افسوس ہوتا ہے کہ ہمارا ہاتھ ایٹم بم چلانے والے بٹن پہ کیوں نہیں۔ جیت جانے کے بعد بھی یہی افسوس ہوتا ہے۔ دوم میچ سے پہلے، دوران اور ہار جیت کے بعد، جہادی روح جوانوں میں بیدار رہتی ہے۔ بغیر کسی زائد خرچے کے۔
اب کھیل میں دو ہی چیزیں ہو سکتی ہیں یا تو ہم جیتیں گے۔ اور ہر پاکستانی فتح کے نشے میں چور گانا گائے گا ہم ہیں پاکستانی ہم تو جیتیں گے۔ آگے سے ہٹ جا۔ یا پھر میرے منہ میں خاک ہم ہار جائیں گے تو اسکے بعد میں تو را کا ایجنٹ قرار ہی پاءونگی لیکن شاہد آفریدی تیرا کیا ہوگا میرے پٹھان۔ گو طالبان نے ابھی تک کرکٹ کو غیر اسلامی نہیں قرار دیا۔ لیکن اسلامی یا غیر اسلامی ہر دو صورت میں وہ سینے پہ بم باندھ کر پھرنے والے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں اور بالخصوص پاکستان میں ورلڈ کپ کا مقابلہ ایک مرض کی صورت پھیل جاتا ہے سو جو اس کھیل میں دلچسپی نہیں لینے کا دعوی کرتے وہ بھی اسکور پوچھتے نظر آتے ہیں۔ اس حالت میں مریض خود سے، رشتے داروں سے، دوستوں سے حتی کہ محبوب سے بھی شرط لگانے کو تیار رہتا ہے۔
یہ ایک وائرل مرض ہے اپنا سائیکل ختم ہونے پہ ختم ہو جاتا ہے لیکن اختتام کے بعد صورت زیادہ سنگین ہو جاتی ہے اور اکثر مریض واہی تباہی بکنے لگتے ہیں۔
کچھ بیانات کی پیشن گوئ ہم بھی کر رہے ہیں۔
غیرت مند پاکستانیوں نے ہندوءوں کو انکی سر زمین پہ شکست دے دی۔
اللہ نے مسلمانوں کو ہندءووں کی سر زمین پہ سرخ رو کیا۔
سترہ کروڑ عوام کی دعائیں رنگ لائیں۔
دودھ پینے والے گوشت کھانے والوں سے کیسے جیت سکتے ہیں۔
جیت کی صورت میں انڈینز کو اسلامی انتہا پسندوں کے حملوں کا ڈر تھا۔
سٹے باز کھلاڑیوں کو نکالنے کے بعد ٹیم اپنی فارم میں واپس۔
سینے پُھلا دئیے ہمارے شیروں نے۔
ریمنڈ ڈیوس کی رہائ کی ڈیل میں پاکستان کو جتانا شامل تھا۔
بمبئ کے مسلمان انڈر ورلڈ ڈان داءود ابرہیم نے میچ کو مسلمانوں کے حق میں فکس کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔
زرداری نے میچ پہ پیسے لگائے تھےکیسے ہار سکتے تھے ۔
اس تاریخی فتح کے موقع پہ ہمیں عافیہ صدیقی اور انکے بچوں کو نہیں بھولنا چاہئیے۔ عافیہ تیری عظمت کو سلام۔
بلوچستان اور وزیرستان میں امن کے لئے کرکٹ کے میدان قائم کئیے جائیں۔
انقلاب آوے ہی آوے، عمران خان تم جیو ہزاروں سال۔
ہارنے کی صورت میں زیادہ مزے کے ڈائیلاگ ہونگے۔
یہ کھلاڑی ہیں ہی ,**********۔ ان ستاروں کی جگہ پہ مناسب الفاظ کے لئے ہمارے کچھ بلاگرز یا مبصرین مدد کر سکتے ہیں۔
پیسے کھائے ہیں۔ کس نے؟ پچاس فی صد لوگ، کھلاڑیوں نے۔ پچاس فی صد لوگ زرداری نے یا حکومت نے۔
بال ٹھاکرے کی دہشت ہو گئ تھی ہمارے کھلاڑیوں پہ، یہ سٹے باز چوہے ہیں۔
جب تک اسلامی شریعت نافذ نہیں ہوگی، سترہ کروڑ دعاءووں میں کوئ اثر نہیں ہوگا۔ ہم اسی طرح ہندءووں سے ، عیسائیوں سے یہودیوں سے شکست کھاتے رہیں گے۔
اس میں سی آئ اے والوں کا ہاتھ ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کو سینتالیس دن تک جیل میں رکھا اس کا انتقام لیا ہے۔
اس میں را اور موساد کے ایجنٹ شامل ہیں۔
وینا ملک کا انتقام ہے، اس نے انڈیئینز بُکیز سے ملی بھگت کر کے قوم سے انتقام لیا ہے۔ اسکے خلاف کارروائ کی جائے۔
ہارپ ٹیکنالوجی کی مدد سے پچ کا موڈ تبدیل کر دیا گیا، جب پاکستان کھیلا اس وقت ہوا میں نمی بڑھا دی گئ یا گھٹا دی گئ۔
کھلاڑیوں کو ہپنا ٹائز کر دیا گیا۔
کھلاڑیوں پہ یا کھیل کے میدان پہ جادو کیا گیا تھا۔ میں نے خود دیکھا کہ ہندو کھلاڑی کچھ بد بدا رہے تھے۔ ہندو تو ویسے بھی جادو ٹونے میں کمال رکھتے ہیں۔ جادو برحق ہے۔
طالبان کو چاہئیے کہ اب کرکٹ کے میدانوں کو اڑانا شروع کر دیں۔
موہالی کے میدان میں رکھا ہی اس لئے گیا تھا کہ پاکستانیوں کا جیتنا محال ہو جائے۔
امریکہ کا ہاتھ ہے، امریکہ اگلا ورلڈ کپ اپنے یہاں رکھنا چاہتا ہے۔
بے غیرت پاکستانیوں، تمہیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بد دعا لگی ہے۔ تم کیا ورلڈ کپ جیتوگے۔
انقلاب، آوے ہی آوے۔
ایسی منحوس قوم کیا انقلاب لائے گی پہلے اپنی کرکٹ میں توانقلاب لے آئے۔ انکی تو یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکی تو وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹوئٹر پہ کچھ اس طرح کی ٹوئٹس ہونگیں۔
ہندوءوں پہ لعنت ہو
مسلمانوں پہ لعنت ہو
حکومت پہ لعنت ہو
زرداری پہ لعنت ہو
لعنت سے رسول اللہ نے منع فرمایا۔
جماعتیوں پہ لعنت ہو
لبرلز پہ لعنت ہو
آج دو قومی نظریہ ثابت ہو گیا۔
آج دو قومی نظریہ موہالی کے میدان میں دفن ہو گیا۔
سو قارئین، پاکستانیوں کی خوبی یہ ہے کہ خدا پرست ہی نہیں خدائ خصوصیات بھی رکھتے ہیں یعنی
ہو گئے خوش تو فرشتوں سے کرائے سجدے
آگئے طیش میں تو فردوس میں رہنے نہ دیا
سو قارئین، پاکستانیوں کی خوبی یہ ہے کہ خدا پرست ہی نہیں خدائ خصوصیات بھی رکھتے ہیں یعنی
ہو گئے خوش تو فرشتوں سے کرائے سجدے
آگئے طیش میں تو فردوس میں رہنے نہ دیا
میرے مبصرین کہیں گے۔
مسلمانوں کی اس عظیم فتح پہ تو آپ جیسے لبرلز کو بڑا صدمہ ہوا ہوگا۔
امن کی آشا والے دیکھ لیں ہندءووں نے ہمیں ہرا کر دم لیا۔ کیا جذبہ ء خیر سگالی کے لئے ہار نہیں سکتے تھے۔
کیمسٹری کے چار فارمولے یاد کرنے والوں کو کیا پتہ، کہ ہارپ ٹیکنالوجی موسم تو موسم، انسانی ذہن کو بھی تبدیل کر سکتی ہیں۔ ان لنکس کو اور پڑھو، ہا ہا ہا۔
پاکستان کے بال ٹھاکرے کا تذکرہ نہیں کیا میڈم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابے بولتا کیوں نہیں، پاکستان کا بال ٹھاکرے کون ہے
اپنے شہر کے غنڈوں سے پوچھو۔
کس کے پی پی پی، ایم کیو ایم یا اے این پی۔
وہ جو بھتہ لیتے ہیں
اور وہ جو اغواء برائے تاوان کرتے ہیں
تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو۔
بکتے ہو، اپنے صوبے کے دہشت گردوں کو دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تعصب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو بلاگستان کی دنیا میں
یہ ڈفر صاحب کے بلاگ پہ ایک نظم ملی ہے یہ ایک سچے انقلابی شاعر سلیم فاروقی نے لکھی ہے۔ انکی وصیت ہے کہ جو اسے پڑھے وہ اسے اپنے بلاگ کی زینت ضرور بنائے ورنہ اس پہ عذاب ہوگا۔ وما علینا الاالبلاغ۔
جب بیانات اس نوعیت پہ پہنچ جائیں تو سمجھ لیجئیے کہ مریض کو افاقہ ہے۔ اب آپ اپنے روزمرہ کے کام بلا جھجھک جاری رکھ سکتے ہیں۔
ادھر اطلاعات ہیں کہ شہر میں گولیوں کے دام بڑھ گئے ہیں اور لوگ انہیں ذخیرہ کرنے میں مصروف ہیں۔ اب اگر پاکستان جیت جاتا ہے تو نقار خانے میں طوطیوں کا کیا کام۔ طوطیوں کو ٹوئٹر، فیس بک اور بلاگز استعمال کرنا پڑیں گے۔ اور اگر نہیں جیتا تو اگلے چند دن ٹارگٹ کلنگ میں مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ متوقع ہے۔ کچھ لوگوں کے طوطے اڑ جائیں گے۔ خوف کی وجہ سے گھر میں رہنا ہوگا۔ ٹوئٹر، فیس بک اور بلاگز استعمال کرنا پڑے گا۔ یوں ثابت ہوگا کہ یہ سب ایجادات امت مسلمہ یعنی پاکستانیوں کے خلاف سازش ہیں۔
۔
۔
۔
۔
اچھا اس ساری واہی تباہی کو ایک طرف رکھیں میں سوچ رہی تھی ورلڈ کپ کون جیتے گا۔ میرے خیال سے سری لنکا یا نیوزی لینڈ۔ کیا کہا پاکستان کیوں نہیں؟ تو پھر لگا لیں ایک شرط۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ورلڈکپی تحریر کے فقرے تو چست ہیں۔ لیکن تبصروں میں اپنی غیر موجودگی پر احتجاج ریکارڈ کرواتا ہوں۔
ReplyDeleteمجھے امید ہے کہ پاکستان ہی جیتے گا میں ہندووں اور غیر مذہبوں کی بارے میں کیوں گمان کروں
ReplyDeleteایک اور فضول اور بے مقصد تحریر۔۔۔ عنیقہ یہ بھی آپ ہی کا خاصہ ہے۔
ReplyDeleteAbdullah
عنیقہ جی
ReplyDeleteسلام، اب میں کیا کہوں، یسے جیسے میرے سونے پہ سہاگہ
اللہ آپ کے قلم کو اور طاقت دے
بہت خوب لکھا
جیتی رہیے
دعاگو
امر
نیک خواہشات، ہمدری، دعائیں، جذباتی وابستگی، جادہ ٹونہ، یہ سارے لوازمات اپنی جگہ، لیکن اگر کھیل صرف دعاوں سے ہی جیت لئیے جاتے تو پھر ہر کھیل میں سعودیہ عرب کی ٹیم ہی چیمپئین ہوتی۔ مگر حقیقت یہ ہی ہے کے فتح اسکو ہی ملتی ہے جو ریس میں سب سے زیادہ تیز دوڑتا ہے۔
ReplyDeleteعثمان، آپکی کینیڈیئن ٹیم تو شروع میں ہی باہر ہو گئ۔ آپ اگر لکھتے تو یہ کہ بچہ ابھی کچا ہے۔
ReplyDeleteشاذل ، آپ کتنے کیوٹ ہیں۔
:)
فیاض امر صاحب اور عبداللہ آپکا شکریہ۔
آپ مجھے کچھ بتا سکتی ہيں کہ عصرِ حاضر کی جوان نسل ميچ ہارنے پر اتنی برانگيختہ کيوں ہو جاتی ہے ؟
ReplyDeleteٹيکنالوجی اور عملی ميدان کی طرف سے کيوں پريشان نہيں ہوتی ؟
ایک ایک بات/لفظ سچ اور درست!!
ReplyDeleteمیں آپکی تحریر کو پڑھ پڑھ کر قہقہے لگا رہا تھا کہ اچانک اپنے نام سے ہوئے تبصرے کو پڑھ کر زور کا جھٹکا لگا،
ReplyDeleteکم عقل اوربزدل لوگ اپنی نفرت اور ناپسندیدگی کے اظہار کے لیئے اپنا نام بھی استعمال نہیں کرسکتے!
اب لگتا ہے کہ گوگل پر ایک اور اکاؤنٹ بنانا ہی پڑے گا ورنہ یہ شیطان اپنی شیطانیت سے باز آنےوالے نہیں،
میں چاہے کچھ بھی ہوجائے کبھی آپکی تحریر کو فضول کہہ ہی نہیں سکتا،
اور خاصکر یہ والی تو اس قدر ہیلیریئس ہے کہ کیا بتاؤں،آپ اب تک یقینا سمجھ ہی گئی ہوں گی کہ یہ کس کس ذہنی مریض کا تبصرہ ہوسکتا ہےپہلے بے چارہ گالیوں کے ذریعے جگہ جگہ بدنام کرنے کی کوشش کررہا تھا وہ چال ناکام ہوئی تو ایک اور پرانا جال لے آئے پرانے شکاری!
ویسے بے چارے کا غصہ جائز ہی ہے آپ نےان ذہنی مریضوں کے لیئے لکھنےکو کچھ باقی ہی نہیں چھوڑا نا!
:rotfl: :laughloud:
Abdullah
اردو بلاگستان کی دنیا میں
ReplyDeleteیہ ڈفر صاحب کے بلاگ پہ ایک نظم ملی ہے یہ ایک سچے انقلابی شاعر سلیم فاروقی نے لکھی ہے۔ انکی وصیت ہے کہ جو اسے پڑھے وہ اسے اپنے بلاگ کی زینت ضرور بنائے ورنہ اس پہ عذاب ہوگا۔ وما علینا الاالبلاغ۔
جب بیانات اس نوعیت پہ پہنچ جائیں تو سمجھ لیجئیے کہ مریض کو افاقہ ہے۔ اب آپ اپنے روزمرہ کے کام بلا جھجھک جاری رکھ سکتے ہیں۔
خاصکر یہ پیرا گراف تو ان سب کی طبع نازک کو سخت ناگوار گزرا ہوگا جو اپنا تعارف اس نظم کی صورت میں اپنے اپنے بلاگس کی زینت بنا چکے ہیں یا اس عظیم موضوع پر اپنے قلم کی گل افشانیاں بکھیر چکے ہیں!
:laughloud:
آپ بھی نا زخموں کو کریدنے سے باز نہیں آتی ہیں!
:)
Abdullah
افتخار اجمل صاحب، صرف میچ ہی نہیں ، عہد حاضر کی نسل ہر اس چیز سے بر انگیختہ ہوجاتی ہے جس سے اس کی کمزوریاں سامنے آتی ہیں۔
ReplyDeleteعبداللہ، اگر کسی کی طبع کو ناگوار گذرا ہو تو یقیناً میرا اشارہ اسکی طرف نہیں تھا۔ میں تو ایک عام صورت کی بات کرنا چاہ رہی تھی۔ جب لوگ آرام سے ہوں، کوئ فکر اور فاقہ نہ ہو۔ مصیبت اور پریشانی سے آزاد ہوں۔ محض موج مستی میں زندگی گذر رہی ہو۔ تو ایک ہی کیفیت میں ڈوبے رہنے کا دل چاہتا ہے۔ سو اس کے لئے یا تو کسی سے محبت کا روگ پال لیتے ہیں یا کسی کی خود ساختہ نفرت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ چونکہ یہ بالکل ابھی کی باتیں ہیں اس لئے ان کا حوالہ دیا۔
افتخار اجمل صاحب، میں یہ لکھنا بھول گئ کہ جب غلطی ء اعمال کا وزن کسی اور پہ پڑ رہا ہو تو بر انگیختگی کا دکھانا عین فرض ہوتا ہے۔ اگر یہی چیز ان پہ پڑنے لگ جائے تو فوراً نو دو گیارہ ہو جائیںگے۔
ReplyDeleteمکی صاحب،
ReplyDelete:)
انڈیا اور پاکستان کے عوام واقعی ضرورت سے زیادہ جذباتی ہیں اور آپ کی یہ تحیری اس بات کی سند ہے۔
ReplyDelete