Wednesday, September 29, 2010

عظیم بیٹی

گذشتہ چار پانچ دن ایک جمود میں گذر گئے۔ یہ جمود جو ایک خلاء کی وجہ سے پیدا ہوا۔ جسے کوئ نہیں بھر سکتا۔ لیکن اس دوران بہت سارے لوگوں سے ملنا ہوا۔ اور جب فضا میں ایک جمود ہو تو اسے سیاست کے موضوع سے بآسانی توڑا جا سکتا ہے۔   بات گھوم پھر کر شہر کے حالات پہ آجاتی۔ کراچی میں ہنگاموں کا تسلسل کبھی ٹوٹنے نہیں پاتا۔ تازہ ترین جلاءو گھیراءو اس امریکی عدالتی فیصلے کے خلاف ہے جس میں  عافیہ صدیقی کو چھیاسی برس کی سزا سنائ گئ۔ 
 ایک ہی گھر میں لوگوں کےمختلف گروپ ملے۔ جہاں ایک گروپ  کو اس سزا پہ افسوس تھا اور وہ اس عظیم دختر پہ کسی قسم کے الزام کو بے بنیاد قرار دیتا ہے اور انکی ہر قسم کی مشکوک سرگرمیوں کو ایک سازش قرار دیتا ہے۔ وہاں دوسرا گروہ الزامات میں موجود حقائق سے تو انکار نہیں کرتا البتہ ملنے والی سزا کو جائز قرار نہیں دیتا کہ یہ چوری کے جرم میں سزائے موت ہے۔  ایک تیسرا  جہادی گروپس سے بے زار گروہ بھی موجود تھا جو  قوم کی 'عظیم بیٹی'  بننے کے اس نسخے سے شدید اختلاف رکھتا تھا۔ اس طریقے سے عظمت حاصل کرنے کو بدعت قرار دیتا ہے اور سیاسی جماعتوں کی خوش قسمتی۔  وہ اسے امریکن ایجنٹ سمجھتے ہیں جسے ایک امریکی افسر پہ رائفل تاننے کی سزا نہیں ملی، بلکہ ڈبل کراسنگ کی سزا ملی ہے۔ 
عافیہ صدیقی کو مظلوم مسلم خاتون سمجھنے والوں سے جب انکی مشکوک سرگرمیوں کے بارے میں سوال کیا جاتا تو وہ  اول تو اس سے قطعاً لا علم ہوتے یاپھر اسے بالکل سننا اور سمجھنا نہیں چاہتے۔ انہوں نے جو کچھ کیا اسلام کی فتح کے لئے کیا۔  اپنے گھر اور بچوں کی قربانی تک دے ڈالی۔ اور تم میں سے کوئ اس وقت تک بھلائ حاصل نہیں کر سکتا جب تک اپنی سب سے پیاری چیز اللہ کی راہ میں قربان نہ کر دے۔  حوالہ ء قرآن۔

کچھ لوگ سوال کرتے ہیں ایک اچھی خاصی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کرنے والی عورت اس ذہنی بیماری کا کیوں شکار ہوئ۔ جس کے لئے اس نے اپنی ذات ، اپنے والدین اور اپنی اولاد کے برے اور بھلے کا بھی نہیں سوچا۔  حتی کہ اس نے  دوسری شادی بھی ایک مبینہ القاعدہ کارکن سے کی۔ پہلے شوہر سے  تین بچے جو اس وقت واللہ اعلم کہ کہاں کہاں درگور ہو رہے ہیں۔  لیکن لوگوں کا ایک گروہ عافیہ صدیقی کو ایک مثالی مسلم عورت کے روپ میں پیش کرنے کی کوششوں میں مصروف۔ 
 ایک سوال کسی نے پوچھا، ایک عورت جب اپنے بچوں کو زہر دیتی ہے تو وہ معتوب ٹہرتی ہے لوگ کہتے ہیں کیسی ماں ہے، کیا زمانہ آگیا ہے ماں کو اپنے بچوں سے محبت نہیں رہی۔  مگرایک عورت جب اپنے بچوں کو  باپ اور ماں سے محروم کر کے  انہیں دنیا میں در بدر کر دیتی ہے تو حالات کی اصل نوعیت کو جانے بغیر یہ قابل حمد و ثناء ٹہرتا ہے۔ آخر کیوں؟
ایک اور گروہ یہ کہتا ہے کہ تقریباً ستر کے قریب اسلامی ممالک نے عافیہ کو ملنے والی سزا پہ ایک حرف نفرین نہیں کہا۔ عافیہ پہ جو بھی الزامات ہیں انکا تعلق صرف پاکستان سے نہیں۔ انکے تعلقات القاعدہ جیسی تنظیم سے بتائے جاتے ہیں۔ اس طرح اسکے حامیوں کے نزدیک تو وہ عالم اسلام کی سر بلندی کی جنگ لڑ رہی ہں۔ لیکن اس چیز کا دوسرے مسلم ممالک کو کیوں احساس نہیں۔ دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک نے اس آواز میں اپنی آواز کیوں شامل نہیں کی۔
آج شہر میں ایم کیو ایم عافیہ کے حق میں ایک ریلی نکالی۔ وہ شاید اس راستے سے ان مذہب پرستوں کے دل تک پہنچنا چاہتے ہیں جنہیں ہر چیز کسی مذہبی ایشو کی کوٹنگ میں قابل قبول ہوتی ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی انکے نمائیندے فاروق ستارعافیہ کے والدین سے مل چکےہیں اور انکے گھر جا چکے ہیں مگر جب سب عظمت کی اس گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں تو وہ اس سے کیوں محروم رہیں۔ امید ہے ایم کیو ایم کی  اس ریلی کے نتیجے میں شہر میں جو افراتفری پھیلے گی وہ سب کے لئے قابل قبول ہو گی۔
شہر سے گذرتے ہوئے اس سلسلے میں ایک احتجاجی بینر پہ نظر پڑی۔ ڈاٹرز آر ناٹ فار سیل۔  اس وقت پاکستانی قوم کی ایک ہی بیٹی ہے۔ ہر روز جو لاکھوں بیٹیاں بکتی ہیں انکا کوئ پرسان حال نہیں۔

تو جناب، عظیم بیٹی بننے کے لئے اگر حجاب پہن لیا جائے، جہادی تنظیموں کے لئے چندہ بھی جمع کر لیا جائے، انکے خفیہ نیٹ ورکنگ کے لئے فنڈنگ کا بندو بست بھی کر لیا جائے ایسے کہ ساتھ رہنے والے  شوہر کو اور گھر والوں کو سن گن بھی نہ لگے۔ پھر اس شوہر سےعلیحدگی ہو جانے کے بعد کسی القاعدہ کے کارکن سے شادی بھی کر لی جائے۔ اتنا حوصلہ پیدا کر لیا جائے کہ کسی بھی قسم کے تشدد کو برداشت کر لیا جائے۔

 
  لیکن ایک عورت جو اچھے خاصے کریئیر کے ساتھ زندگی گذار کے اپنے پیدا کئے ہوئے بچوں کو ایک پر سکون اور مطمئن زندگی دے سکتی تھی وہ  کتنے عظیم دل کی مالک تھی جو  انکی بر بادی کو اپنے ہاتھوں سے منتخب  سے کرتی ہے۔ کس کاز کے لئے اس نے کم از کم تین لوگوں کو عمر بھر کی اذیت میں مبتلا کیا۔ ایسے میں مجھے تو وہ عورت بہت عظیم لگتی ہے جو اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی دینے کے لئے جسم فروشی کرتی ہے، لوگوں کی جھڑکیاں سنتی ہے، مگر انہیں خاطر میں نہیں لاتی ۔ کیا محض عظمت کے حصول کے لئے ممتا قربان کر دینا ایک مہنگا سودا نہیں۔


Monday, September 20, 2010

سر سید سے پہلے

 مشعل کے داد جی کی طبیعت اچھی نہیں۔ اس لئے کچھ تحریر کرنے کا  موڈ نہ ہوا۔ خدا انہیں صحت دے اور ہمارے گھر کی رونق بحال ہو۔ 
تو میں سر سید کی کہانی جاری رکھتی ہوں۔ سر سید پہ مزید تذکرے سے پہلے ہندوستان میں چلنے والی ایک اور تحریک کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ ہندوستان میں ایک عرصے تک حکمرانی تو مسلمانوں کی رہی تھی۔ مگر ہندو انکی رعیت کا ایک بڑا حصہ تھے۔ زوال آیا تو دونوں اسکا شکار ہوئے۔  اٹھارہویں صدی کے ہندوستان میں ذہنی پستی دونوں قوموں پہ طاری تھی۔ لیکن جب انگریزوں کی یلغار نے زور پکڑ لیا تو ہندءووں نے بھانپ لیا کہ کہ اب اس سیلاب کے آگے بند باندھنا مشکل ہےچنانچہ انہوں نے اپنے دفاع کے لئے پسپائ اختیار کی ایک طرف تو انہوں نے اپنے پرانے حکمرانوں یعنی مسلمانوں کی گرتی ہوئ دیواروں کو مزید دھکا دیا اور انگریزوں کا ساتھ دینے پہ آمادہ ہو گئے  اور دوسرےاپنے  سماج کو سدھارنے کے لئے نئ روشنی کو قبول کرنے پہ آمادہ ہو گئے اور ہندوستان میں ایسے اداروں کے قیام کے لئے سر گرم عمل ہوئے جن سے قدامت کے اندھیروں کو مٹایا جا سکے۔ اسکے نتیجے میں برہمو سماج تحریک نے جنم لیا اسکا مقصد ہندو مذہب میں مناسب تبدیلی سے سیاسی بہبود اور سماجی فلاح کی راہ ہموار کرنا تھا۔

تحریک کا جغرافیائ مرکز بنگال اور اس سے مسلکہ علاقہ رہا۔ اس تحریک  کے بانی اونچی ذات کے معزز برہمن ہندو راجہ رام موہن رائے تھے وہ سترہ سو چوہتر میں پیدا ہوئے۔ ان میں قدامت اور جدیدیت کا امتزاج موجود تھا۔ انکا خاندان پانچ پشتوں سے صوبہ ء بنگال میں مغلوں کے ساتھ تعلقات میں رہ چکا تھا۔ وہ ہندوستانی فلسفے کے عالم، سنسکرت، فارسی اور عربی کے ماہر اور ہندءووں اور مسلمانوں کے مشترکہ کلچر کی پیداوار تھے انہوں نے بت پرستی پہ براہ راست اعتراض کیا اور ستی کی رسم کو ممنوع قرار دینے کے لئے اس تحریک کو عملی طور پہ استعمال کیا۔ ستی ہندوءووں کی وہ رسم ہے جس میں بیوی کو اپنے مرے ہوئے شوہر کی لاش کے ساتھ زندہ جل کر مرنا ہوتا تھا۔ سن اٹھارہ سو تہتر میں جب لارڈ ایمبسٹ نے علوم شرقیہ کے فروغ کا منصوبہ بنایا تو انہوں نے اسکی مخالفت کی  کہ یہ وہ علوم ہیں جو یہاں دو ہزار سال پہلے سے رائج ہیں اسکے بر عکس انہوں نے ایک ایسے کالج کی تشکیل پر زور دیا  جس میں یوروپ کے تعلیم یافتہ اور قابل استاد مغربی علوم مثلاً طبیعیات، کیمیا، اور اناٹومی وغیرہ کی تعلیم دیں۔ انکی اس درخواست کو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئ لیکن انکے نئے خیالات کے بیج برگ و ثمر دینے لگے۔ اس تحریک کی اصلاحی کوششوں میں اسکی تعلیمی سرگرمیوں کو اہمیت دی گئ۔ قدامت پسندی کو رفع کرنے کے لئے مغربی سائینس اور انگریزی زبان کی تلقین کی گئ۔
راجہ رام موہن رائے اوائل عمری میں انگریزی اقتدار سے نفرت پہ مائل تھے. پلاسی کی جنگ میں انگریزوں کی کامیابی، انکے آبائ مقام سے ڈورئیے اور ململ کی صنعت کی تباہی، مفلس عوام کی زبوں حالی اور بنگال میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی لوٹ مار نے انہیں انگریزی حکومت سے نفرت پہ مائل کر دیا تھا۔  تاہم جب انہیں احساس ہوا کہ ہندوستان کے زوال کے اسباب اندرون ملک موجود ہیں تو انہوں نے نئے علوم کی ترویج کے لئے انگریزوں سے مفاہمت پیدا کی۔
انہوں نے اپنے خیالات کی ترویج  اور اشاعت کے لئے اور نئے تصورات کے فروغ کے لئے بنگالی زبان کا پہلا اخبار نکالا اور اس میں ہندوستانی نکتہ نظر پیش کیا۔ یہ اخبار اتنا موئثر ثابت ہوا کہ لارڈ منرو نے  اسکے خلاف اپنے شبہات کا اظہار کیا۔
اگر ساری رعایا ہماری ہم وطن ہوتی تو میں اخباروں کی انتہائ آزادی کو ترجیح دیتا۔ مگر چونکہ وہ ہمارے وطن نہیں اس لئے اس سے زیادہ خطرناک اور کوئ چیز نہِں۔
اسکے علاوہ انہوں نے ایک فارسی اخبار بھی نکالا ۔  اس طرح انہوں انگریز قوم کو مشرق کی عظمت، تہذیب، اور روحانیات سے آگاہی بخشی۔
اس تحریک نے ہندوستان کی مفلسی اور غلامی کو دور کرنے کے لئے مثبت کردار انجام دیا ۔   تحریک میں صرف وہ لوگ شامل ہو سکتے تھے جو خدائے واحد پہ یقین رکھتے ہوں اور بت پرستی سے نفرت کرتے ہوں۔ راجہ رام موہن رائے، اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ راسخ الاعتقاد ہندءووں کی شدید مخالفت کے باوجود اس تحریک نے صرف دو سال کے عرصے میں قدیم ہندو مت سے الگ ہو کر برہمو فرقے کی صورت اختیار کر لی۔ راجہ رام موہن رائے کا  انتقال اٹھارہ سو تینتیس میں ہوا۔
راسخ العقیدہ ہندو اس تحریک کے شدید مخالفین میں سے تھے۔ اسکے رد عمل میں آریہ سماج تحریک پیدا ہوئ جو ہندو مذہب کے احیاء کی تحریک تھی۔ یہ شاید ایک قدرتی رد عمل تھا۔ تمام مذاہب کو اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ جدیدیت کے مقابلے میں قدامت پسندی کے اس رجحان نے ہندوستانی قومیت کا جذبہ پیدا کیا۔ اور یوں جتنا انگریز حکومت اپنا تسلط مضبوط کرتی گئ اتنا ہی ہندو قدیم مذہب کے احیاء میں سنجیدگی اختیار کرتے گئے اس تحریک نے تدبر کے بجائے جبر اور عقل کے بجائے جوش کو استعمال کیا۔
برہمو سماج کی تحریک اگرچہ کہ بنگال تک ہی محدود رہی لیکن اس  نے ہندءووں کو مسلمانوں سے  سبقت لے جانے کا موقع فراہم کیا۔ کیونکہ مسلمانوں میں اس وقت تک اس چیز کا احساس ہی پیدا نہ ہو سکا تھا کہ وہ کیا عظیم نقصان ہے جس سے وہ دو چار ہونے جا رہے ہیں اور اگر کسی سطح پہ یہ عالم مایوسی میں موجود بھی تھا تو انکو یہ معلوم نہ تھا کہ اس سے بچاءو اور دفاع کس طرح ممکن ہے۔

ماخذ؛
اردو ادب کی تحریکیں، مصنف ڈاکٹر انور سدید، پبلشر انجمن ترقی اردو پاکستان۔

Wednesday, September 15, 2010

سر سید کا عہد-۲


اب ان تمام باتوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ 1870 میں مسلمانوں کی کیا حالت تھی۔ ملازمتوں میں وہ نہ ہونے کے برابر تھے۔ سرکاری ملازمتوں کے ہاتھ میں کئ طرح کا اختیار ہوتا ہے اس لئے یہ کمی انہیں مہنگی پڑ رہی تھی۔ شمالی ہندوستان کے مسلمانوں نے تجارت میں کبھی امتیاز حاصل نہیں کیا اور زمینیں قرضے کی وجہ سے انکے ہاتھ سے نکلی جا رہی تھیں۔
حالات اتنے خراب تھے کہ سر سید نے خود ہندوستان چھوڑ کر مصر کی سکونت اختیار کرنے کا ارادہ کیا۔ انہوں نے بعد میں اپنے ایک لیکچر میں کہا
میں اس وقت ہرگز نہیں سمجھتا تھا کہ قوم پھر پنپے گی اور عزت پائے گی۔ اور جو حال اس وقت قوم کا  تھا، مجھ سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔
لیکن بعد ازاں انہوں نے اپنا یہ ارادہ ترک کیا اور فیصلہ کیا کہ
نہایت نا مردی اور بے مروتی کی بات ہے کہ اپنی قوم کو اس تباہی کی حالت میں چھوڑ کر خود کسی گوشہ ء عافیت میں جا بیٹھوں۔ نہیں، اس مصیبت میں شریک رہنا چاہئیے اور جو مصیبت پڑے اسکے دور کرنے کی ہمت باندھنی قومی فرض ہے۔

اس وقت مسلمانوں کے تمام تر مسائل اقتصادی نہ تھے بلکہ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق تھے۔ یہ اقتصادی اور ذہنی پستی ایک ہی ذریعے دور ہو سکتی تھی اور وہ یہ کہ مسلمان تعلیم  حاصل کریں اور وہ تعلیم حاصل کریں جو انہیں حکمرانوں کی زبان اور مزاج سمجھنے میں آسانی دے۔ کیونکہ انگریز اپنی حکمرانی میں اپنا ذریعہ ء تعلیم نہیں تبدیل کرنے والے تھے۔  اس لئے مسلمانوں کے لئے یہ لازمی عنصر ہو چلا تھا کہ وہ انگریزی تعلیم میں دلچسپی لیں۔  
علی گڑھ کی تحریک نے یہ سب ذمہ داری اٹھائ۔ ایک ایسے دور بیں مصلح کی حیثیت سے سر سید احمد خان آگے بڑھے  جبکہ مسلمانوں کی اس حالت زار کے باوجود علماء  کی اکثریت انگریزی تعلیم کو حرام قرار دے رہی تھی انہوں نے مسلمانوں کو اس چیز کے لئے تیار کیا کہ اپنی بقاء کے لئے یہ کام کرنا ہی پڑے گا۔
انہیں اس چیز کا ادراک اس قدر زیادہ تھا کہ تحریک پاکستان کے وجود میں آنے سے بھی کئ دہائیاں پہلے وہ، وہ پہلے شخص تھے جنہوں نےاس ہندوستان کا تصور کیا جو انگریزوں کے ہندوستان سے رخصت ہو جانے کے بعد ہو جاتا۔
وہ لکھتے ہیں کہ
فرض کریں کہ تمام انگریز انڈیا چھوڑ جاتے ہیں تو کون انڈیا کی حکمرانی کرے گا۔ ان موجودہ حالات میں کیا یہ ممکن ہے کہ دو قومیں مسلمان اور ہندو ایک ساتھ حکمرانی کر سکیں اور طاقت میں برابر کے شراکت دار ہوں۔ ایسا یقیناً نہیں ہوگا۔ یہ بالکل ضروری ہوگا کہ ان میں سے ایک دوسرے کو فتح کرے اور اسے ہٹا دے۔
یہ وہ نکتہ تھا جسے انکی وفات کے چالیس سال بعد قیام پاکستان کی تحریک کی بنیاد بنایا گیا۔ سر سید کی دور بیں بصارت نے اس منظر کو اس وقت دیکھا جب انگریزوں کے ملک سے جانے کے متعلق عام شخص سوچ بھی نہ سکتا تھا۔

اسی موضوع پہ پچھلی تحاریر یہاں دیکھئیے۔ 

سر سید کا عہد-۱

سر سید پہ مزید بات  کرنے سے پہلے ہمیں اس زمانے کے حالات پہ ضرور ایک نظر ڈالنی چاہئیے۔ جب سر سید احمد خان نے بر صغیر کے مسلمانوں کے جمود کو توڑنے کی کوشش کی۔ کیونکہ ہر بڑی شخصیت پہ اپنے عہد کا عکس ہوتا ہے اور وہ اپنے عہد کے مسائل کو اسی عہد میں میسر علمی اور ذہنی وسائل سے دیکھتا اور انکے حل تلاش کرتا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ اٹھارہویں صدی کے ایک شخص پہ ہم حیران ہوں کہ اس نے کمپیوٹر کیوں نہیں بنایا۔ انسانی عقل نے بتدریج ترقی کی اور اسے ہی ارتقاء کہتے ہیں۔
جب مغل سلطنت اپنے انحطاط کا شکار تھی تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے موقع سے فائدہ اٹھایا۔ بنگال میں  1757 میں پلاسی کی جنگ ہوئ اور میر جعفر کی  حکمرانی میں کمپنی کی  حکومت قائم ہوئ۔  ادھر پنجاب می، رنجیت سنگھ نے مسلمان حکمرانوں کو شکست دے کر انکا  تقریباً ہزار سال کا دور اقتدار ختم کیا اور ملتان سے لے کر پشاور تک اپنی حکومت قائم کی۔ اپنی حکومت کا صدر مقام اس نے لاہور کو منتخب کیا۔ 1839 میں اسکے انتقال کے بعد وہاں انگریزوں کو قدم جمانے کا موقع ملا۔ اٹھارہ سو پینتالیس میں یہ علاقہ بھی انگریزوں کے قبضے میں آ گیا۔سندھ 1843 میں اور اودھ 1856 میں کمپنی نے ملحق کئے۔ اسکے بعد بھی اگر کوئ علامتی اقتدار مسلمانوں کا باقی تھا تو اسے جنگ آزادی اٹھارہ سو ستاون کے ہنگامے نے مٹا دیا۔
اس سیاسی انقلاب کے ساتھ مسلمانوں کا اصل اقتصدای اور تمدنی انحطاط شروع ہوا۔
ڈاکٹر ویلیئم ہنٹر کی کتاب ' آور انڈین مسلمانز' میں اس وقت مسلمانوں کی حالت زار کی ایک تصویر موجود ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ
مسلمانوں کو حکومت سے بہت سی شکایات ہیں۔ ایک تو یہ کہ تمام اہم عہدوں کا دروازہ ان پہ بند کر دیا گیا ہے۔ طریقہ ء تعلیم ایسا ہے کہ ان میں انکی قوم کے لئے کوئ انتظام نہیں۔ قاضیوں کا نظام ختم کر کے جو انگریزی نظام عدلیہ آیا ہے اس سے ہزاروں خاندانوں کو جو فقہ اور اور اسلامی علوم کے پاسبان تھے بے کار اور محتاج کر دیا ہے۔ انکے اوقاف کی آمدنی، جو انکی تعلیم پہ خرچ ہونی چاہئیے تھی وہ غلط مصارف پہ خرچ ہو رہی ہے۔  وہ مسلمان جو پہلے جاگیروں کے مالک تھے وہ اب قرض کی دلدل میں ڈوبے ہوئے ہیں اور کوئ ہندو قرض خواہ ان پہ نالش کرتا ہے اور اور وہ رہی سہی جمع پونجی سے بھی جاتے ہیں۔
وہ لکھتا ہے کہ
مسلمانوں کی بد قسمتی کا صحیح نقشہ ان محکموں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جن میں ملازمتوں کی تقسیم پر لوگوں کی اتنی نظر نہیں ہوتی۔ 1869 میں ان محکموں کا یہ حال تھا کہ اسسٹنٹ انجینیئروں کے تین درجوں میں چودہ ہندو اور مسلمان صفر۔ امیدواروں میں چار ہندو، دو انگریز اور مسلمان صفر۔ سب انجینیئروں اور سپر وائزروں میں چوبیس ہندو اور ایک مسلمان۔ اوور سیئروں میں تریسٹھ ہندو اور دو مسلمان۔ اکائونٹس ڈیپارٹمنٹ میں پچاس ہندو اور مسلمان معدوم۔
سرکاری ملازمتوں کے علاوہ ہائ کورٹ کی فہرست بڑی عبرت آموز تھی۔ ایک زمانہ تھا کہ یہ پیشہ بالکل مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا۔ اسکے بعد 1851 تک بھِ مسلمانوں کی حالت اچھی رہی اور مسلمان وکلاء کی تعداد ہندءووں اور انگریزوں کے مقابلے میں کم نہ تھی۔ لیکن اسکے بعد تبدیلی شروع ہوئ۔ نئ طرز کے آدمی آنا شروع ہوئے اور امتحانات کا طریقہ بدل دیا گیا۔ 1852 سے ۱868 تک جن ہندوستانیوں کو وکالت کے لائسنس ملے۔ ان میں 239 ہندو تھے اور ایک مسلمان۔
ڈاکٹر ہنٹر مزید لکھتے ہیں کہ
اگلے دن ایک بڑے سرکاری محکمے میں دیکھا گیا کہ سارے ڈیپارٹمنٹ میں ایک بھی اہلکار ایسا نہ تھا جو مسلمانی زبان سے واقف ہو اور حقیقتاً اب کلکتے میں شاید ہی کوئ سرکاری دفتر ایسا ہوگا، جس میں کسی مسلمان کو دربانی، چپڑاس یا دواتیں بھرنے اور قلم درست کرنے کی نوکری سے زیادہ کچھ ملنے کی امید ہو سکتی ہو۔' چنانچہ انہوں نے کلکتہ کے ایک اخبار کی شکایت نقل کی ہے کہ  تمام ملازمتیں اعلی ہوں یا ادنی آہستہ آہستہ مسلمانوں سے چھینی جا رہی ہیں اور دوسری قوموں بالخصوص ہندءووں کا بخشی جاتی ہیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ رعیت کے تمام  طبقوں کو ایک نظر سے دیکھے۔ لیکن اب یہ عالم ہے کہ حکومت سرکاری گزٹ میں مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں سے علیحدہ رکھنے کا کھلم کھلا اعلان کرتی ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ملک جب ہمارے قبضے میں آیا تو مسلمان سب قوموں میں بہتر تھے۔ نہ صرف وہ دوسروں سے زیادہ بہادر اور جسمانی طور پہ زیادہ توانا اور مضبوط تھے بلکہ سیاسی اور انتظامی قابلیت کا ملکہ بھی ان میں زیادہ تھآ۔ لیکن یہی مسلمان آج سرکاری ملازمتوں اور غیر سرکاری اسامیوں سے یکسر محروم ہیں۔


جاری ہے

Monday, September 13, 2010

ایک فلم ، ایک تعارف

امر محبوب، ایک دستاویزی فلم میکر ہیں۔ عید کے موقع پہ انکے موبائل فون پہ آنے والے ایس ایم ایس کی پیپس پہ جب میں نے ان سے پوچھا کہ بڑے پیغامات آ رہے ہیں۔ تو جواب ملا ہاں، آ تو رہے ہیں۔ مگر مبارکباد بھیجنے والے زیادہ تر تھر کے ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔
اسکی ، میرے خیال میں کئ وجوہات ہیں۔ ایک تو تھر میں ہندو آبادی خاصی بڑی تعداد میں موجود ہے۔ تقریباً چالیس فی صد ہندو اور ساٹھ فی صد مسلمان اور دوسرے یہ کہ امر محبوب نے تھر کے اوپر ایک بہت اچھی دستاویزی فلم بنائ ہے ۔ فلم میں تھر کو ثقافتی، ماحولیاتی اور تاریخی ہر پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کی گئ۔ یوں انہوں نے تھر کے لوگوں کے ساتھ ایک بھر پور وقت گذارا۔ اسی چکر میں مجھے بھی وہاں رہنے کا اتفاق حاصل ہوا۔  اس دوران میں پابندی سے ڈائری لکھتی رہی۔  وہ سامان ابھی ایک طرف رکھا ہے۔ لیکن مختصراً تھر ایک طلسماتی سحر رکھتا ہے۔ سندھ کے لوک شاعر، شاہ لطیف بھٹائ بھی اسکے حسن سے بے حد متائثر تھے انکی کہانیوں کا ایک کردار ماروی کا تعلق بھی اسی علاقے سے تھا۔ یہاں میں نے وہ کنواں بھی دیکھا جو ماروی سے وابستہ خیال کیا جاتا ہے۔
اب اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ تھر میں ہندو اور مسلمان کس طرح مل جل کر رہتے ہیں۔ تو آپکو یہ فلم دیکھنا چاہئیے۔ کیا آپکو معلوم ہے کہ جین اور بدھ مذاہب کے لوگ بنیادی طور پہ سبزی خور ہوتے ہیں مگر گوشت کھانا انکے لئے کس وقت جائز ہوتا ہے، کیا آپ جانتے ہیں کہ تھر کے ہندءووں کو مسلمان کرنے کی نیکی تبلیغی جماعتیں کماتی ہیں مگر بعد میں کیا ہوتا ہے، کیا اپ جانتے ہیں کہ تھر میں ایک ایسا قبیلہ بھی موجود ہے جس نے احتجاجاً اپنے آپکو دنیا کی ہر جدید چیز سے دور رکھا ہوا ہے اور انکی خواتین صرف کالے کپڑے پہنتی ہیں، کیا آپکو معلوم ہے کہ تھر کسی زمانے میں اپنے موروں اور ہرنوں کے لئے مشہور تھا۔ جو شکار کا شکار ہو گئے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ تھر میں اگر دس دن بارش ہو جائے تو یہ صحرا، سبزے کا وہ لبادہ اوڑھتا ہے کہ پاکستان کا سوئٹزر لینڈ بن جاتا ہے۔ 
یہ سب جاننا ہے تو تھر پہ بنی ہوئ یہ فلم دیکھنی پڑے گی جسکا نام ہے۔ ریت کے رنگ۔ یہ فلم اب یو ٹیوب پہ چار حصوں میں موجود ہے۔ میں یہاں اسکا لنکس دے رہی ہوں۔ فلم کا دورانیہ پچپن منٹ ہے۔  ایک دفعہ دیکھنا شروع کیجئیے مجھے یقین ہے یہ آپکو باندھ لے گی۔




Saturday, September 11, 2010

عید کا پیغام

آج رمضان ختم ہوئے اور دنیا بھر کے مسلمانوں  نے عید منائ۔ یعنی رمضان کی آزمائش ختم اور انعام کا وقت آ گیا۔ ماہ رمضان کے آغاز میں پورے مہینے کے اعمال و اوراد کے بارے میں نصیحتیں شروع ہوتی ہیں۔ سارا مہینہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف صبر کی تلقین اور دوسری طرف طمع کے مظاہرے ایک طرف ضبط کی تعلیم اور دوسری طرف نفسا نفسی۔ آج عید کا دن ہے۔ ذرا ایک دفعہ اپنے آپ سے پوچھئیے کہ اس پورے ایک مہینے میں کوئ ایسی اخلاقی خوبی آپ نے اپنے اندر پیدا کی جو پہلے نہیں تھی۔ کوئ ایسی خوبی، جسکی آپ تبلیغ کرتے ہوں کیا آپ اسے اپنے اوپر بھی نافذ کر پاتے ہیں اور کوئ ایسی اخلاقی کمی جسکا آپکو اس مہینے میں اپنی تربیت کے دوران  اندازہ ہوا ہو  کہ آپ میں موجود تھی مگر اسکا آپکو پہلے پتہ نہیں تھا۔ اگر آج کے دن آپ اپنے آپکو پچھلے ایک مہینے کے مقابلے میں ایک بہتر انسان سمجھتے ہیں، آپکو دوسرے انسان زیادہ بہتر طور پہ خدا کی مخلوق لگتے ہیں  اور یہ احساس آپکو ایک ایسی روحانی خوشی دیتا ہے جس کی وجہ  سے آپکا دل اطمینان اور سکون کے ہلکورے لیتا ہے تو آپکو بے حد عید مبارک۔

Saturday, September 4, 2010

سر سید احمد خان-تعلیم۔ ۲


سر سید کی تعلیم کا آغاز گھر سے ہوا۔ بسم اللہ قرآن حکیم سے ہوئ۔ اپنی والدہ اور ایک استانی سے جو انکے خاندان کے بچوں کو پرھاتی تھیں پڑھنا لکھنا سیکھا پھر فارسی اور عربی کی ابتدائ کتابیں پڑھیں۔ گلستان اور بوستان کے مطالعے میں بھی انکی والدہ انکی مدد کرتی رہیں۔ مکتب کی تعلیم میں مولوی حمید الدین انکے اتالیق تھے۔ تعلیمی استعداد پیدا ہونے پہ اپنے ننہیالی تلخصص ریاضی کی طرف آئے۔ پھر آلات رصد کے علوم کی تحصیل کا شوق ہوا۔ پھر اپنے خاندانی حکیم غلام حیدر کے زیر اثر طب میں دلچسپی لینے لگے۔ طب کی ابتدائ کتابیں ان سے پڑھیں اور کچھ عرصے انکی شاگردی میں طبابت کا تجربہ حاصل کیا۔ یہ دلچسپی بھی زیادہ عرصے نہ رہی۔ طبیعت کے رجحان اور افتاد طبع کے مطابق مختلف کتابیں انکے زیر مطالعہ رہیں مگر علم کے کسی خاص شعبے میں کوئ قابل لحاظ قابلیت پیدا کرنے کا خیال نہیں آیا۔ البتہ دہلی کی علمی و ادبی مجلسوں میں بیٹھنے کا موقعہ انہیں اکثر ملتا رہتا تھا۔ اہل علم و ادب سے انکی ملاقات رہتی۔ اس وقت کے مشہور شعراء و ادباء میں مرزا غالب، مفتی صدر الدین خان آزردہ۔ اور امام بخش صہبائ کے ہاں انکا آنا جانا تھا۔
سن  ۱۸۴۶میں انکے عزیز بڑے بھائ سید محمد خان چند روز بیماری میں مبتلا رہ کر وفات پا گئے۔ اس صدمے نے انکے دماغ پہ گہرا اثر ڈالا۔ دنیا کی رنگینیوں سے دل اچاٹ ہو گیا۔انکی کایا ہی پلٹ گئ۔ داڑھی بڑھا لی۔ زہد و تقوی میں مستعد ہو گئے۔ علم کی پیاس ازسر نو عود کر آئ دینی کتب کا کے مطالعے کا شوق پیدا ہوا۔ لڑکپن میں جو رسائل سرسری پڑھے تھے انہیں دوبارہ غور خوض سے پڑھا۔ مولوی واعظ علی جو دلی کے مشہور واعظ تھے ان سے علم فقہ پر کتابیں پڑھیں۔ مولوی فیض  الحسن سے مقامات حریری اور سبعہ معلقہ کے چند قصیدے سبقاً پڑھے۔ شاہ عبدالعزیز کے بھتیجے اور شاہ رفیع الدین کے خلف الصدق سے حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ پھر انہی سے علوم القراں کی تحصیل کی اور سند لی۔
اس دوران صہبائ، آزردہ اور غالب کے یہاں بھی باقاعدگی سے حاضر ہوتے رہے۔ اور ان سے اکتساب فیض کرتے رہے۔ غالب کے خاندان سے انکے ننہیال کے خاندانی روابط تھے۔ وہ انہیں اپنا چچا کہتے تھے اور غالب ان سے بیٹوں جیسا سلوک کرتے اور شفقت فرماتے۔
تو صاحب، یہ ان لوگوں کے قصوں میں سے ایک کا قصہ ہے جو اپنی جہالت پہ فخر کر کے اسے بیان نہیں کرتے تھے بلکہ اسے کم کرنے کی جدو جہد میں لگے رہتے تھے۔ یہ کہانی ابھی جاری ہے۔

سر سید احمد خان-تعلیم۔ ۱

گذشتہ سے پیوستہ

سر سید کا نام انکے والد کے پیر و مرشد ، شاہ غلام علی نے احمد خان رکھا تھا۔ وہ پیدائیش کے وقت بڑے تندرست اور صحت مند تھے۔ جب انکے نانا نے انہیں پہلی دفعہ دیکھا تو کہا ' یہ تو ہمارے گھر میں جاٹ پیدا ہوا ہے'۔
وہ اپنے بچپن میں شوخ، شرارتی اور مستعد تھے۔ ایک دفعہ اپنے ہمجولی کو مکا دے مارا اس نے ہاتھ پہ روکا تو اسکی انگلی اتر گئ۔ بچپن میں وہ پڑھائ لکھائ میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے تھے، نہ انہوں نے تعلیم کے دوران کسی غیر معمولی ذہانت یا طباعی کا مظاہرہ کیا۔لیکن وہ اپنا سبق باقاعدگی سے یاد کرتے تھے۔ گھر میں پڑھنے لکھنے کا ماحول تھا۔ انکی والدہ اور نانا انکی تدریس اور تعلیم کا خیال رکھتے تھے۔اپنے نانا کے ساتھ کھانے کا تذکرہ سر سید اس طرح کرتے ہیں۔
میرے نانا صبح کا کھانا اندر زنانہ میں کھاتے تھے۔ بچوں کے آگے خالی رکابیاں ہوتی تھیں۔ نانا صاحب ہر ایک بچے سے پوچھتے تھے کہ کون سی چیز کھاءوگے؟ جو کچھ وہ بتاتا وہی چیز چمچے میں لے کر اپنے ہاتھ سے اسکی رکابی میں ڈال دیتے۔ تمام بچے  بہت ادب اور صفائ سے انکے ساتھ کھانا کھاتے تھے۔ سب کو خیال رہتا تھا کہ کوئ چیز گرنے نہ پائے۔ ہاتھ کھانے میں زیادہ نہ بھرے اور نوالہ چبانے کی آواز منہ سے نہ نکلے۔ رات کا کھانا وہ دیوان خانے میں کھاتے تھے ہم سب لڑکے انکے ساتھ بیٹھتے تھے۔ ہم کو بڑی مشکل پڑتی تھی۔ نہایت سفید چاندنی کا فرش بچھا ہوا ہوتا تھا کسی کے پاءوں کا دھبہ سفید چاندنی پر لگ جاتا تھا تو اسکو بھگا دیتے تھے کہ کتے کے پاءوں کیوں رکھتا ہے۔ روشنائ وغیرہ کا دھبا کسی کے کپڑے پر ہوتا تھا تو اس سے بھی نا خوش ہوتے تھے۔
سر سید میں اظہار بیان کا ایک قدرتی جوہر تھا۔ جو بعد میں انکی شخصیت کا وصف بن کر سامنے آیا۔ اسکا اندازہ اس واقعے سے ہوتا ہے۔
سر سید ایک دن اپنے نانا حضور کو سبق سنا رہے تھے کہ اس مصرعے پہ پہنچے۔ طمع را سہ حرف است، ہر سہہ تہی۔
سر سید نے ترجمہ کیا طمع کے تین حرف تینوں خالی۔ وہ خفا ہوئے بولے۔ 'بے پیر، سبق یاد نہیں کرتا۔'۔ سر سید کہتے ہیں مجھے اتنا رنج ہوا کہ آنکھوں میں آنسو آ گئے۔  بعد میں خیال آیا کہ است کا ترجمہ نہیں کیا۔ ورنہ فقرہ یوں ہوتا۔ طمع کے تین حرف ہیں تینوں خالی۔ لیکن دیکھا جائے تو سر سید کا بے ساختہ ترجمہ زیادہ رواں، فصیح اور اردو محاورے کے قریب ہے۔

Thursday, September 2, 2010

ایک دن کے بعد

مشعل ، میری بیٹی جب پانچ چھ مہینے کی تھی۔ خاصی گول مٹول ، صحتمند تھی اور جیسا کہ اس عمر کے بچوں کی عادت ہوتی ہے وہ اپنے سے قریب بیٹھے شخص کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑنے کی کوشش میں اسے اتنی زور سے ہاتھ رسید کرتیں کہ اسے چوٹ لگ جانے کا اندیشہ رہتا۔  کچھ ایک اوسط بچے کے مقابلے میں وہ لوگوں سے دوستی کرنے کی اس عمر سے ہی بڑی شوقین تھیں۔ داداجی کو تشویش رہتی۔ تھوڑی بڑی ہوگی تو یہ تو دوسرے بچوں کی پٹائ لگا دے گی۔ میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ مارتی نہیں ہے بس سرگرم زیادہ ہو جاتی ہے۔ اب چلنا پھرنا یا باتیں کرنا تو نہیں آتا اس لئے زور زور سے ہاتھ مارنے لگ جاتی ہے۔ بہر حال، تب سے ہی اسکی تربیت شروع کی گئ۔ کس بات کی؟  ہاتھ اتنے زور سے نہیں چلانا، دوسروں کو نہیں مارنا۔ اسی طرح دن گذر رہے تھے مشعل ڈیڑھ سال کی ہو گئ کہ ایکدن۔۔۔۔۔
ایکدن ایک جاننے والی آگئیں  انکی سب سے چھوٹی بچی مشعل کی ہی عمر کی تھی۔ مشعل نے اسے دیکھ کر انتہائ گرمجوشی کا مظاہرہ کیا۔  میں  نے دیکھا کہ وہ اپنے کھلونوں کے ساتھ اسے کھلا رہی ہیں تو میں اطمینان سے اس بچی کی ماں سے باتیں کرنے لگ گئ۔ لیکن دو منٹ ہی گذرے ہونگے کہ چٹاخ چٹاخ کی آواز آئ ۔ انکی بیٹی نے ایک ہی ہلے میں مشعل کے گال پہ تین تھپڑ عنایت فرما دئیے۔ مشعل روتی دھوتی میرے پاس آگئیں۔ انہوں نے اپنی بیٹی کو سمجھایا اور معذرت کرنے لگیں کہ اپنے بڑے بہن بھائیوں کی وجہ سے انکی بیٹی کے اندر یہ جارحانہ رویہ آگیا ہے۔ مشعل اس بچی سے مزید تعلقات بنانے سے انکار کر کے باہر اپنے بابا کے پاس چلی گئیں۔
اسکے بعد اس میں یہ تبدیلی آئ کہ اس عمر کے بچوں سے دور رہتی اور اگر وہ پاس آتے تو وہ اس سے فوراً دور ہٹ جاتی اور شور مچانا شروع کر دیتی کہ یہ میرے پاس آرہا ہے۔ اس روئیے کی اصلاح میں بھی وقت لگا کہ ہم یہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ خوامخواہ کا خوف دل میں پال رکھیں۔
پھر کچھ مہینے پہلے وہ دن آیا کہ انہوں نے اپنی مونٹیسوری شروع کی۔ ایک خوش باش بچے کی طرح انہوں نے اسکول جانا شروع کیا۔ انکی پرنسپل نے تعریف کی کہ آپکی بچی نے بالکل پریشان نہیں کیا ورنہ بچے شروع کے دو تین دن کافی روتے دھوتے ہیں۔ میں نے ذرا فخر کیا کہ اسکول کے لئے ہم نے اسے جذباتی طور پہ تیار کرنا شروع کر دیا تھا اس لئے یہ مسئلہ نہیں ہوا۔ دس پندرہ دن آرام سے گذر گئے کہ ایکدن ۔۔۔۔۔۔۔۔
ایکدن مشعل نے اسکول جانے سے انکار کر دیا۔ اس دن انہیں سمجھا بجھا کر لے جایا گیا کہ اسکول جانے سے انکار نہیں کرنا چاہئیے۔ خیال ہوا کہ شاید اکتاہٹ کا شکار ہو گئ ہیں۔ اگلے دن انہوں نے رونا دھونا شروع کر دیا تھا۔ اب انکے تحت الشعور کو جھانکنے کی کوشش شروع ہوئ۔  معلوم ہوا کہ اسکول میں ایک نوید نامی بچہ ہے جو مار پیٹ کرتا ہے اور دھکا دیتا ہے۔ میں نے سمجھایا کہ اب اگر وہ ایسا کرے تو ٹیچر سے شکایت کر دینا۔ اگلے دن پھر وہی انکار اور تکرار۔ لامحالہ مجھے پرنسپل سے ملنا پڑا۔ 
پتہ چلا کہ اور والدین بھی اس قسم کی شکایت کر چکے ہیں۔ پھر وہ صفائ دینے لگیں کہ وہ بچہ ذرا شرارتی زیادہ ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ بچوں میں مار پیٹ کا عنصر زیادہ ہونا شرارتی کی تعریف میں نہیں آتا۔ اس بچے کو اسکے والدین کے بے جا لاڈ پیار نے خراب کیا ہوا ہے آپ ان سے بات کریں کہ وہ اسے درست کرنے کے لئے عملی قدم اٹھائیں۔ ورنہ مشعل تو محض اسکی وجہ سے اسکول آنے سے انکار کر چکی ہے۔ بچے مار پیٹ کرتے ہیں خاص طور پہ لڑکے اور والدین انکی پشت پناہی کرتے ہیں یہ کہہ کر کہ کیا جاندار ہے ہمارا بچہ۔ چاہے دیگر سرگرمیوں میں انکا بچہ صفر ہو۔ جارحانہ روئیے کو قابل تعریف نہیں سمجھا سکتا۔
انہوں نے مجھے یقین دلایا کہ وہ اس سلسلے میں کچھ کریں گی۔ کلاس ٹیچر سے کہیں گی کہ مشعل اور اس بچے کو دور دور رکھا جائے۔  بعد میں مشعل کی باتوں سے مجھے احساس ہوا کہ ٹیچر شاید اسے ٹائم آءوٹ قسم کی سزا دیتی ہیں۔ نوید اسکے لئے ایک آل ٹائم بیڈ گائے ہے۔ ہر برائ  کی علامت۔
ابھی ایک ہفتہ پہلے مشعل نے بتایا کہ اسکی کلاس میں دو نوید ہو گئے ہیں۔ کیا کوئ اورنوید بھی آگیا ہے۔ نہیں ماما، وہ جو سکینہ بی بی ہے ناں وہ بھی نوید ہو گئ ہے۔ کیوں وہ نوید کیوں ہو گئ ہے؟ کیونکہ وہ بھی مارنے لگی ہے، گندی بچی۔
اب روز روز پرنسپل سے اسکی شکایت کیا کی جائے۔ صرف اسکول بچوں کی اصلاح نہیں کر سکتا۔ جبکہ والدین اسے سرے سے کوئ برائ نہ سمجھتے ہوں۔ اس لئے ایکدن۔۔۔۔۔۔
ایکدن، تنگ آ کر میں نے مشعل سے کہا کہ اب اگر کوئ تمہیں ایک تھپڑ مارے تو اسے دو تھپڑ زور سے لگانا۔ اور کہنا کہ جو مجھے مارتا ہے میں ایسے اسکا بھرتہ بنا دیتی ہوں۔ تین سال کی ہو گئ ہو تم سپر گرل ایسے ہی نہیں بنتے۔ انہوں نے انتہائ فرمانبرادری سے سر ہلایا، جسے میں نے انتہائ شک سے دیکھا کہ ایسا شاید نہیں ہوگا۔  لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ  تشدد کے خلاف جنگ بھی تشدد سے ہی لڑنی پڑتی ہے۔
دادا جی  نے خاموشی سے سنا کہ میں نے کیا نصیحت کی ہے۔ اسی روز شام کو میں نے دیکھا کہ وہ مشعل کو اپنے ہاتھ کی مٹھی بنا کر دکھا رہے ہیں کہ صحیح سے مکا کیسے بنایا جاتا ہے۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔