Friday, December 30, 2011

شیر، درخت اور وہ

بال کترنے سے مردہ ہلکا نہیں ہوتا۔ اصل حقیقت تو مردہ ہی بتا سکتا ہے یا مردہ اٹھانے والا۔ ہم آپ تو محض گمان ہی کر سکتے ہیں۔  لیکن کچھ محاوروں تک پہنچ آسان ہوتی ہے یعنی ہاتھ کنگن کو آر سی کیا، سامنے نظر آرہا ہے۔
مجھے کیا آپ میں سے بھی کچھ کو یاد ہو گا جب اردو بلاگنگ کی دنیا میں ایک محاورے پہ دھمال مچی تھی۔ محاورہ تھا لکھے موسی پڑھے خدا۔ ایک بلاگی ساتھی نے اپنے پچاس سال پرانے ایک استاد کے توسط سے اس محاورے کو غلط بتایا اور کہا کہ اصل محاورہ ہے لکھے مُو سا پڑھے خود آ۔ معتقدین نے واہ واہ کی۔ مجھے بے قراری ہوئ تو میں نے اسے مختلف لغات میں دیکھا اور ہر کسی میں یہی ملا،  لکھے موسی پڑھے خدا۔
بلاگی ساتھی کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب ہے بال جیسا باریک لکھنا کہ خود ہی پڑھ سکے۔ میرا خیال تھا کہ یہ محاورہ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب تحریر اتنی خراب ہو کہ خود بھی نہ پڑھ سکے خدا ہی پڑھے کیونکہ وہی علیم و خبیر ہے۔
عوامی مبصرین نے موسی والے محاورے کو نبی اور خدا دونوں کی شان میں گستاخی قرار دیا۔  ایک ایسی  صالح حکومت کے آنے کی دعا کی جو لغت سے خلاف مذہب محاورے نکال کر باہر کرے۔ اور ایک دفعہ پھر ان بلاگی ساتھی کے لئے عوامی دعائے خیر کہ اصل محاورے سے روشناس کیا۔
ہم نے سوچا جان بچی، ایمان بچا اور دنیا میں کیا چاہئیے۔
توحید پہ یقین رکھنے والوں کے لئے میں یہ سمجھتی تھی کہ خدا کے سوا باقی سب محبوب ، بت ٹہرتے ہیں اس لئے اردو شاعری بتوں اور صنم پہ زیادہ بات کرتی ہے۔ لیکن دلوں کو جھانکیں  تو ایسا نہیں نظر آتا۔
یہ  اگر ایک محاورے میں خدا اور موسی کی حفاظت کرتا ہے تو دوسرے میں شیر کی حفاظت پہ بھی کمر بستہ نظر آتا ہے۔ محاورہ ہے بلی شیر کی خالہ ہوتی ہے۔ کیونکہ شیر درخت پہ نہیں چڑھ سکتا بلی چڑھ جاتی ہے۔ ہم نے مذاقاً کہا کہ یہ محاورہ غلط ثابت ہو گیا ہم نے ایسی دستاویزی فلمیں دیکھی ہیں جن میں شیر درخت پہ قیلولہ فرماتے ہیں۔
ہمارے ایک مبصر جو کہ ویسے ہمارے بلاگ کی طرف تھوکنا  بھی پسند نہ کریں اس بات پہ ایسے جوش میں آئے کہ  اپنے تھوک اور شیر کو  ہمارے علم اور جہالت  پہ قربان کر دیا۔ اول تو شیر درخت پہ چڑھ نہیں سکتا چار سو پاءونڈ وزنی ہوتا ہے اور اگر بالفرض محال ایسا ہوتا بھی ہے تو مادہ ہی چڑھ سکتی ہے نر نہیں۔  انہوں نے فرمایا۔ شیرنیوں کو ایشوریا رائے کی طرح اپنے وزن کا خیال رہتا ہے۔ اس خیال سے مجھے خاصہ حسد محسوس ہوا۔
 چنانچہ، شیر پنجاب کے آجکل کے نازک حالات کو ایک طرف کیا، حالیہ پر کشش سونامیوں سے بھی منہ موڑا اور یو ٹیوب پہ ایک ویڈیو کو جا لیا۔ شیر وہ بھی نر، درخت پہ اپنے شکار سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ پھر فاتحانہ جذبے سے اسے جواب  میں ڈال دیا۔

اس پہ دوسرا بیان آیا کہ سیدھے درخت پہ نہیں چڑھ سکتا، ٹیڑھے پہ چڑھ جاتا ہے۔ یہ خاصیت شیر اور ہمارے درمیان ملتی جلتی ہے۔ حالانکہ میرا وزن شیر کے چار سو پاءونڈ کا چوتھائ بھی نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹیڑھے درخت پہ ہی  جم کر چڑھ پاتے ہیں۔ سیدھے درخت کو صراط مستقیم سمجھ کر اس کا ارادہ بھی نہیں کرتے۔ کیا شیر جیسا بہادر جانور بھی صراط مستقیم سے گھبراتا ہے؟

باتوں میں لگا کر انہیں یہاں تک تو لائے کہ ٹیڑھے درخت پہ چڑھ جاتا ہے لیکن اب اس کا کیا ہو کہ انہی مبصر کو یہ  شیر کی توہین لگی کہ شیر اپنے بچے کھالیتا ہے۔ حالانکہ اس پہ لغت والوں کو زیادہ اعتراض ہونا چاہئیے کہ اس سے یہ محاورہ مشکوک لگتا ہے، شیر کا ایک بھلا۔ ایک بھلا، اگر وہ شیر کی دسترس سے بچ جائے۔
  شیر بے چارے پہ کیا موقوف، یہاں ایسے جانوروں کی ایک فہرست ہے جو اپنے بچے کھالیتے ہیں انسانوں کی طرح بیچتے نہیں۔ معاشی سطح پہ حیوان ، انسان سے کہیں پیچھے ہیں۔ جہاں یہ ان جانوروں کی بے غرض طبیعت کا حصہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ اپنے پرائے کی تمیز نہیں کرتے۔ کچھ لوگ اسے حیوانی جبلت بھی کہہ سکتے ہیں۔ اگرچہ اندیشہ ہے کہ شیر کو حیوان کہنے پہ بلاگنگ کی دنیا کسی انقلاب سے دوچار نہ ہوجائے۔
شیر اس فعل کو خوب سوچ سمجھ کر انجام دیتا ہے کہ شیرنیوں کو شکار کی اور بچوں کی حفاظت کی ذمہ داری دے کر وہ زیادہ وقت  اپنی تولیدی صلاحیتوں اور اپنی حکومت کی حفاظت کے غور و فکر میں گذارتا ہے۔  جب شیرنیوں کو اس پہ اعتراض نہیں تو کسی اور کو وہ بھی ایک انسان کو اس پہ تاءو کھانے کی کیا ضرورت۔ میری اس بات کو بعض طبقے کسی خاص طبقے کی طرف اشارہ نہ سمجھیں۔ بخدا شیر ایسا ہی ہوتا ہے۔
   بات یہ ہے کہ شیر کسی انتخابی پارٹی کا نشان ضرور ہو سکتا ہے۔ لیکن خود شیر کو انتخابات میں کھڑے ہونے سے دلچسپی نہیں۔ وہ آمریت کو بغیر کسی شرمندگی کے پسند کرتا ہے۔ اسے دھاڑنا  آتا ہے جس سے جنگل کے جانور ایک دم قابو میں آجاتے ہیں  وعدے کرنا نہیں آتا کیونکہ جنگل کے جانور نہیں جانتے کہ وعدہ کیا ہوتا ہے وفا کسے کہتے ہیں۔ اس لئےکوئ اسکے شخصی معاملات کی جتنی کرید کرے۔ شیر کو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ ویسے بھی شیر طاقت کے استعمال پہ اتنا زیادہ یقین رکھتا  ہے کہ شیر کا منہ چوم کر طمانچہ کھانا پڑتا ہے۔ کس سے؟  اس میں نر مادہ کی تخصیص  نہیں اسی سے جس کا منہ چوما ہوتا ہے میرا مطلب شیر ہے۔
۔
۔
محاوروں کے سلسلے میں مزید چُل اٹھی اور کچھ اور کے بخئیے ادھیڑے ہیں۔ متائثرہ قارئین سے پیشگی معذرت۔
زیادہ بولنے والا ڈھول کی طرح خالی ہوتا ہے یہ ایک محاورہ ہے اسکا رد ہے زیادہ وہی بولتا ہے جسکے پاس بولنے کے لئے کچھ ہوتا ہے۔
غیر جانبداری ایک اچھا وصف ہے، یہ ایک خیال ہے اسکے مخالفین کا کہنا ہے کہ غیر جانبداری کا مطلب ہے کہ آپ ظالم اور مظلوم دونوں کو یکساں سمجھتے ہیں۔
اور سب سے مشہور جو بولنے سے پہلے تولتا ہے وہ عقلمند ہوتا ہے نہیں جناب، جو بولنے سے پہلے تولتا ہے وہ غیر مخلص ہوتا ہے۔

Wednesday, December 28, 2011

اچھی بلاگ پوسٹس

متھ کا سائینس اور شماریات سے کوئ تعلق نہیں۔  یہ خیالات کچھ مخصوص ماحول میں تقویت پا جاتے ہیں اور پھر انہیں پھاڑ کر ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے متھ بسٹر کی اصطلاح   گھڑنی پڑی۔
متھ کیا ہے؟ اسکی تعریف میں جائے بغیر ایک مثال دیتی ہوں۔ اگر کسی جوڑے کے یہاں لگاتار بیٹیاں ہوئے جا رہی ہیں اور انہیں یہ فکر ہے کہ بغیر وارث کے ہی اپنی سلطنت چھوڑنی پڑے گی تو آخری بچی کا نام بشری رکھ دیں۔ انشاءاللہ، اسکے بعد بیٹا ہوگا۔ ویسے یہ ایک متھ ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بشری ون، بشری ٹو قسم  کے سیکوئیلز کے بعد بھی آپکا کام نہ بنے۔
بلاگنگ میں بھی اسی طرح کی بہت ساری متھس ہیں۔ بالخصوص اردو بلاگنگ میں۔ مثلاً اچھی پوسٹ وہ ہے جس پہ بہت سارے تبصرے ہوں۔ یا اچھی پوسٹ وہ ہے جسے بہت سارے لوگ ویو کرتے ہوں۔
اب ہم دیکھیں تو اس معیار پہ وہ تحاریر زیادہ آئیں گی جن میں ہمارے یہاں مذہب کے ایک خاص ورژن سے ہٹ کر لکھی جانے والی تحاریر پہ مخالفین نے مناظرہ کیا ہو۔ انسانی زندگی میں دلچسپی کے مقامات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس لئے ان تمام تحاریر کو اچھی بلاگ پوسٹ کے زمرے میں کیا اس لئے رکھا جائے کہ ان پہ تبصرے زیادہ ہیں یا انکو ایک مدت میں بار بار لوگوں نے دیکھا ہے۔ اس لئے میری نظر میں یہ رائے ایک متھ ہے۔
پھر اچھی بلاگ پوسٹ کیا ہوگی؟
اچھی بلاگ پوسٹ وہ ہونی چاہئیے جسے آپ بھول جائیں مگر اس پہ ویوز آتے رہیں۔ محض سال بھر بعد وہ ایک بچکانہ بات نہ لگے۔
میں کچھ پھولوں کے بیج کینیڈا سے لیکر آئ۔ یہاں زمین کے حوالے کرنے سے پہلے میں نے انکے بارے میں سرچ کرنا ضروری سمجھا۔ ایک کے بعد ایک جب انکے نام سرچ پہ ڈالے تو درجنوں بلاگز سامنے آگئے۔ یہ بلاگز سالوں پہلے لکھے گئے تھے۔ مگر آج بھی میں نے انہیں کھولا اورانہیں مددگار پایا۔ 
میں انہیں اچھے بلاگز سمجھتی ہوں۔ ایک دفعہ ان بلاگز پہ جانے کے بعد میں نے انہیں یاد رکھا کہ تاکہ مزید مدد کے لئے دوبارہ انہیں دیکھ سکوں۔ ان میں سے کچھ معلومات بہترین ثابت ہوئ اور اس طرح میرا ان پہ اعتماد قائم ہوا۔
اسی طرح بلاگ لکھنے کے لئے موضوعات کا انتخاب۔ اس سلسلے میں بیرون ملک ویب سائیٹس سے آپ جتنی چاہیں مدد لیں لیکن اگر آپ اپنے معاشرے میں صحیح سے جذب نہیں ہوئے تو بلاگ کا موضوع ہمیشہ ایک مسئلہ رہے گا۔ باہر دیکھنے سے پہلے اپنے آپ کو یعنی اپنے ماحول کو خوب اچھی طرح سمجھ لیں۔
آپ باہر سے وہ خیال لا کر یہاں نہیں بو سکتے ہیں جس کے لئے یہاں کا موسم سازگار نہیں۔ مثلاًبیوی کو خوش رکھنے کے دس مغربی طریقے یہاں نہیں چل سکتے جو مغرب میں زیر استعمال ہیں۔ یہاں کا شوہر اس بارے میں فکر مند نہیں ہوتا کہ کپڑے دھوتے وقت ہلکے اور گہرے رنگ کے کپڑے الگ الگ دھونا چاہئیں۔ اور بیگم صاحبہ ، میاں صاحب کا یہ سگھڑاپہ دیکھ کر خوشی سے کھل اٹھیں گی۔  یہ اسکا درد سر نہیں۔ اسے اپنے کپڑے صحیح جگہ اور مقام پہ چاہئیے ہوتے ہیں۔ اس لئے صابن کے اشتہاروں میں وہ بیویاں خوش ہوتی ہیں جنکے شوہر انکے دھلے ہوئے کپڑوں کی تعریف کرتے ہیں۔
اچھی تحریر کے لئے لوگوں سے ملیں جلیں، عوامی جگہوں پہ جائیں، ٹی وی کو وقت دیں مگر اسی طرح جیسے کسی کتاب کو پڑھتے وقت آپ اندازہ لگاتے ہیں کہ اسکا ہر حرف پڑھنا ہے یا بس سرسری سا۔ اخبار پڑھیں اور کتابیں ضرور۔
اپنے آپ سے ملاقات کیجئیے اور جانئیے کہ خود آپکی دلچسپی کس رخ میں ہے۔ یہ بالکل ضروری نہیں کہ چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی۔ آپ اپنی دلچسپی کے میدان میں جادوئ صلاحیتیں رکھتے ہیں۔اور الگ سمت میں چل کر ہوا کو بھی اسی سمت میں چلنے پہ مجبور کر سکتے ہیں۔
چلیں پھر ہم کچھ بلاگنگ متھس کی فہرست بناتے ہیں۔
اچھی بلاگ پوسٹ، زیادہ تبصرے
اچھی بلاگ پوسٹ، زیادہ ویوز
اچھی بلاگ پوسٹ، جس سے زیادہ مبصرین متفق ہوں
اچھی بلاگ پوسٹ، جس میں کسی کی دل شکنی نہ ہو
اچھی بلاگ پوسٹ،  جو معاشرے کے رجحانات کے مطابق ہو
اور اگر کچھ آپکے ذہن میں ہو تو جمع کیجئیے۔

Saturday, December 24, 2011

مریم کا بیٹا اور میری بیٹی

بوہری بازار سے گذرتے ہوئے میری نظر ایک  بڑے سے ہرے رنگ کے درخت پہ پڑی جس پہ سجاوٹ کی اشیاء ٹنگی ہوئ تھیں۔ اوہ کرسمس آنے والا ہے مجھے خیال آیا۔ یہ منظر آنکھوں کو بڑا بھلا لگا۔ میری بیٹی بھی شور مچاتی ہے 'کرسمس ٹری' نظر آرہا ہے کہیں سانتا کلاز بھی تحفے لئے کھڑا ہوگا۔ بچوں کو ہر الف لیلوی چیز میں کشش محسوس ہوتی ہے۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے یر سال اسکی سالگرہ ایکدن پہلے پچیس دسمبر کو منانا پڑتی ہے، اس دن ہمارے یہاں قائد اعظم ڈے جو ہوتا ہے۔ حضرت عیسی کی طرح یہ بات بھی یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ یہ قائد اعظم کی صحیح تاریخ پیدائیش ہے۔
کراچی کا یہ حصہ بالخصوص مجھے بہت پسند ہے۔ یہاں جو ثقافتی رنگا رنگی نظر آتی ہے وہ شاید ہی ملک کے کسی حصے میں نظر آتی ہو۔ عیسائ، ہندو، پارسی، آغاخانی، ، بوہری اور بھانت بھانت کے دیگر مذاہب اور زبانیں بولنے والے خرید و فروخت میں مصروف۔ خواتین اسکرٹس، ساڑھی، شلوار قمیض، دوپٹہ، بغیر دوپٹہ، برقعہ، بغیر برقعہ ہر طرح کے کپڑوں میں ملبوس اور موجود۔ یہیں ، چند غیر ملکی بھی نظر آسکتے ہیں جو سستی، عوامی  اور اچھی خریداری کے لئے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
یہاں کی عمارتوں پہ گوتھک اثر نظر آتا ہے کہ بیشتر خوبصورت عمارتیں انگریزوں کے دور میں بنی ہیں۔ لوگوں کا ہجوم جس سے میں بچپن میں خوفزدہ ہو جاتی تھی اور گاڑیوں کا ہجوم جن سے میں اب خوفزدہ ہو جاتی ہوں۔
کراچی  کے بازار میں کراچی پہ صدقے واری ہونے کے بعد جب میں رات کو اپنا کمپیوٹر کھولتی ہوں تاکہ اپنے فیس بک دوستوں کی سرگرمیاں دیکھ سکوں تو سائیڈ پہ ایک اشتہار نمودار ہوتا ہے۔ بائیکاٹ کرسمس یہ مسلمانوں کا تہوار نہیں۔  کچھ اس طرح کی تصاویر شیئر کی ہوئ نظر آتی ہیں جن پہ لکھا ہے کہ 'میری کرسمس' نہ کہیں یہ کہنے سے آپ دائرہ اسلام سے باہر ہو جائیں گے۔
میں دائرہ اسلام سے باہر نکالے جانے کے خوف میں جلدی سے 'میری کرسمس' کے معنی ویکیپیڈیا پہ چیک کرتی ہوں۔ یہاں بڑی دلچسپ معلومات ہیں۔ مثلاً حضرت عیسی کی پیدائیش کا سال یقین کے ساتھ متعین نہیں یہ سن دو یا سات  قبل از عیسی ہے۔
چوتھی صدی میں پہلی دفعہ حضرت عیسی کی پیدائیش کا دن پچیس دسمبر رکھا گیا۔ اسکے  انتخاب کے بارے میں متضآد رائے ہیں۔ مثلاً یہ حضرت عیسی کے حمل قرار پا جانے کی تاریخ سے ٹھیک نو مہینے بعد رکھی گئ۔ صدیوں پرانے دیہاتی میلے کی تاریخ کو سامنے رکھ کر نکالی گئ۔ یا پھر یہ کہ رومن  موسم سرما کے تہوار کے مد نظر تجویز کی گئ۔
خود اس تاریخ میں اتنے اختلاف ہیں کہ اکثریت اسے پچیس دسمبر کو مناتی ہے، ایک اور بڑی تعداد چھ جنوری کو جبکہ بعض ممالک میں سات اور انیس جنوری کو مذہبی جوش و جذبے اور احترام سے گذاری جاتی ہے اور اس سلسلے میں چھٹی ملتی ہے۔
اسکے پس منظر کو سامنے رکھیں تو یہ دراصل ایک ایسا تہوار بن گیا ہے جس میں حضرت عیسی سے پہلے کو تہوار کو ضم کر کے عیسائیت اور سیکولیرزم کا ملغوبہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ 
جدید صنعتی دور میں اسکی اہمیت یوں ہے کہ چھٹی ملتی ہے،اچھا کھانا کھایا جاتا ہے، خاندان جمع ہوتے ہیں، تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے اور کاروباری مواقع بڑھتے ہیں۔

اب میری کرسمس کے معنوں کی طرف آئیں۔ وکیپیڈا کے مطابق،
The word "Christmas" originated as a compound meaning "Christ's mass". It is derived from the Middle English Cristemasse, which is from Old English Crīstesmæsse, a phrase first recorded in 1038.[6] Crīst (genitive Crīstes) is from Greek Khrīstos (Χριστός), a translation of Hebrew Māšîaḥ (מָשִׁיחַ), "Messiah"; and mæsse is from Latin missa, the celebration of the Eucharist. The form "Christenmas" was also historically used, but is now considered archaic and dialectal;
سادہ سی اردو میں یہ کہ کرسمس دراصل دو الفاظ کا مجموعہ ہے جس کا مطلب ہے کرائسٹ کا کھانا یعنی 'میری کرسمس' کا مطلب خدا کا کھانا مبارک ہو۔ اور اس سارے چکر میں مجھے کہیں بھی یہ بات پڑھنے کو نہیں ملی کہ'میری کرسمس' کا مطلب ہے خدا نے کرائسٹ کو جنا۔ جبکہ کرائسٹ کا مطلب ہے مسیحا۔
تو جناب، ہمارے مذہبی جذبے میں بڑھے ہوئے لوگ کچھ کہنے سے پہلے اس چیز کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے کہ اپنی بنیادی معلومات درست کر لیں۔ دائرہ اسلام سے خارج کرنے سے پہلے یہ تو سوچنا چاہئیے کہ اسلام کا دائرہ آخر کتنا چھوٹا یا کتنا بڑا ہے۔ اگر وہ نہیں سوچیں گے تو جسے باہر نکال رہے ہیں وہ ضرور سوچے گا۔
اسکے ساتھ ہی 'میری کرسمس' ان لوگوں کو جو اسے منا رہے ہیں۔ خدا اس زمین پہ انسانوں کو خوشیوں کے ہر گذرتے لمحے سے محظوظ ہونے کی نعمت دے اور میری بیٹی کو پانچویں سال گرہ مبارک ہو۔ وہ مجھ سے پوچھتی ہیں کہ آپ اللہ میاں کے تحفے کو کیا تحفہ دیں گی؟
میں اپنے بچے کو ایک ایسی دنیا تحفے میں دینا چاہتی ہوں جہاں لوگوں میں بنیادی برداشت ضرور ہو کہ یہی محبت اور امن کی ضرورت ہے۔ یہ بات انہیں سمجھ میں نہیں آتی لیکن یہ انہیں سمجھنا پڑے گی۔
مریم کا بیٹا محبت کا پیغام لے کر آیا تھا اور یہ ستم ظریفی ہے کہ آج دو ہزار سال بعد بھی مجھے اپنے بیٹی کے لئے اسی تحفے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔    

Thursday, December 22, 2011

عوامی سونامی

کوئ کہتا ہے کہ جیسے عوام ہوتے ہیں ویسے ہی حکمراں ان پہ نافذ ہوتے ہیں کچھ کا ارشاد ہے کہ جیسے حکمراں ہوں عوام بھی ویسے ہی ہو جاتے ہیں۔
اب ایک تازہ خبر ہاتھ لگی ہے۔ جس سے ہم کچھ اس قابل ہوئے ہیں کہ ان دو میں سے ایک قول کو قول صحیح قرار دیں۔ ہوا یوں کہ قصور یہ پنجاب کے ایک شہر کا نام ہے کسی کا قصور نہیں۔  یہاں تحریک انصاف کا جلسہ آج منعقد ہوا۔ جس میں تحریک انصاف کے انصاف کے مطابق عوام کو بھی بیٹھنے کے لئے کرسیاں فراہم کی جاتی ہیں۔
عوام کو کرسیوں پہ بٹھانے کے لئے  پہلے کبھی کسی نے کیوں نہیں سوچا۔ یہ ہم نے بارہا سوچا۔ اسکا اندازہ آج  ہوا جب جلسے کے اختتام پہ عوام کرسیاں لے کر فرار ہو گئے۔


ہم نے قصور کے عوام سے دریافت کیا کہ انہوں نے ایسا قصور کیوں کیا؟ لوگ عاشقی میں عزت سادات گنواتے ہیں انہوں نے محض کرسی کے لئے یہ بدنامی مول لی۔  ایک بڑی اکثریت نے اس کا الزام ایک نامعلوم قلندر پہ ڈالا۔
کرسی، کرسی کر گئ سب کو قلندر کی یہ بات 
تو اگر اسکی نہیں لیتا نہ لے اپنی تو لے
نا معلوم قلندر کا اتا پتہ معلوم کرنے کی کوشش ہم نہیں کر رہے فائدہ کیا ہم بھی دانا ہیں حضرت۔
کچھ نے کہا ہم نے تو نشانی کے طور پہ یہ کرسیاں محفوظ کر لی ہیں۔ جب وہ اپنی کرسی سنبھالیں گے تو انہیں دکھا کر ہم کہیں گے کہ کبھی ہمارے اور آپکے درمیان کرسی کا تعلق تھا۔ وہ تعلق جو تعلق سے بڑھ کر تھا۔ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔
کچھ ان کرسیوں کو تفصیلی طور پہ خود  چیک کرنا چاہتے تھے کہ ان پہ کس جگہ آئ ایس آئ کی چھاپ لگی ہوئ ہے۔ تاکہ سند حاصل ہو جائے۔ وہ قتل تو کرتے ہیں تو لیکن لوگوں کو اندازے لگانے کے مواقع کے ساتھ۔ یقین سے وہ خود بھی نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے کیا ہے۔
کچھ نےسوال کیا  کہ کرسی میں ایسی کیا کشش ہوتی ہے کہ سب کرسی کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ نے بتایا کہ کئ گھنٹے ہو گئے کرسی  لے کر دوڑ رہے ہیں لیکن ابھی تک قلبی اور جیبی کیفیت جوں کی توں ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ بیچ ڈالیں، سنا ہے آٹھ سو روپے کی ہے ایک کرسی۔  جیبی کیفیت ضرور تبدیل ہو جائے گی، سنا ہے کہ قلب کی کیفیت کا جیب کی کیفیت سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔
کرسی کی درگت اور تحریک انصاف کے تعلق پہ شاعری میں نئ اصلاحات سامنے آرہی ہیں۔  ایک شاعر نے کہا ہے کہ
لوٹا، کرسی اور طوفان
عمران خان، عمران خان
 کراچی میں کچھ لوگوں کو دلچسپی  ہے یہ جاننے سے کہ کیا جلسوں کی کرسیوں کی انشورنس کروائ جاتی ہے۔ اگر نہیں کروائ جاتی تو کرسی فراہم کرنے والوں کا کیا ہوگا۔ انکو اطلاع ہو کہ جلسے کے لئے کرسیاں قصوری صاحب نے خرید کر فراہم کی تھی۔ گھوڑے کے منہ سے خبر لانے والوں کا کہنا ہے کہ یہ انہوں نے اپنی متوقع حکومت میں اپنی متوقع کرسی کا صدقہ نکال کر خریدی تھیں، ایک کروڑ ساٹھ ہزار کا صدقہ، اندازہ کریں کہ اصل کرسی کی قیمت کیا وصولی جائے گی۔
عمران خان کہہ رہے ہیں کہ قصور سے اب اس سونامی کا رخ کراچی کی طرف ہے۔  سوال پوچھنے والے پوچھ رہے ہیں کون سی سونامی، کرسیوں کی سونامی۔ یہ اس قوم میں اب سوال کرنے کی عادت جڑ پکڑ رہی ہے جو ایک صحیح شگن نہیں بالخصوص سیاست کے لئے۔
یہاں ہمارے شہر کراچی میں پچیس دسمبر کو جلسے کے انعقاد کے لئے ہر کرسی پہ آیت الکرسی پڑھی جا رہی ہے تاکہ وہ محفوظ رہیں۔ اندیشہ ہے کہ جلسہ شروع ہونے سے پہلے اس سلسلے میں ایک اجتماعی دعا بھی کروائ جائے گی۔
ادھر شہر کی فرنیچر مارکیٹ والے پہلے خوش تھے دھڑا دھڑ، ادھر ادھر سے کرسیاں منگا کر اسٹاک جمع کر رہے تھے۔ کرسیوں کی مارکیٹ میں اضافے کا امکان تھا۔ بس ایک مرد کراچی، قصوری صاحب جیسا ڈھونڈھا جا رہا تھا۔ لیکن قصور کے عوامی جوش و خروش کو دیکھ کر انکا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔ وسوسہ ہے کہ کہیں منتظمین کا ارادہ نہ بدل گیا ہو۔ سواب نہیں معلوم کہ کراچی میں جلسے کے عوام دری پہ بیٹھے گی یا پھر کرسی ملے گی۔
عوامی سطح پہ کرسیوں کی اس چھینا جھپٹی نے ایک بات ثابت کر دی کہ جیسے حکمراں ہوں عوام بھی ویسے ہی ہو جاتے ہیں۔ آپ بتائیے صحیح ہے یا غلط؟

Saturday, December 17, 2011

حاصل، لا حاصل

تمام لکھنے والے انسان کے متعلق لکھتے ہیں اور لکھنا چاہتے ہیں۔ جب وہ ظاہری طور پہ ایسا نہیں کرتے جب بھی وہ ایسا ہی کر رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ انسان اس کائینات میں جس چیز کو سب سے زیادہ جاننے کی  خواہش رکھتا ہے وہ بھی حیرتناک طور پہ خدا نہیں انسان ہے۔
بانو قدسیہ کا ناول ہے 'راجہ گدھ'۔ ایک ناول جس میں انسان کی نفسیات کو شاید رزق کے حوالے سے دیکھنے کی کوشش کی گئ ہے۔ بانو قدسیہ ایک کہنہ مشق لکھاری اور ہمارے ملک کی ایک بڑی ادیبہ ہیں۔ خوش قسمتی سے اپنے پڑھنے والوں پہ اپنا اثر بھی رکھتی ہیں۔ کیونکہ غضب کے لکھنے والے تو ہوتے ہیں مگر پڑھنے والوں کو اپنے اثر میں لے آنا یہ ہر ایک کی قسمت نہیں ہوتی۔
انکے اس ناول سے میں نے ایک اصطلاح کا تعارف لیا، عشق لا حاصل۔ لا حاصل کا عشق انسان کو دیوانگی میں مبتلا کر دیتا ہے مجھے انکی تحریر سے یہ سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن یہ سمجھ نہیں آتا کہ عشق میں حاصل اور لا حاصل کی حد تمیز کہاں ہوتی ہے۔
عشق لا حاصل نہیں ہو سکتا۔ جو لا حاصل ہو وہ عشق نہیں ہو سکتا۔ اور ریاضی کے اس کلئیے سے تو ہم واقف ہیں کہ صفر سے جو چیز ضرب کھائے وہ صفر ہو جاتی ہے۔
ویسے عشق کا حاصل کیا ہوتا ہے؟ عرفان ذات، میرے خیال سے اگر عشق انسان کو عرفان ذات نہیں دیتا تو یہ عشق نہیں ہوتا۔
 انکے ناول میں رزق حلال اور حرام کے انسانی نفسیات پہ اثرات کا مطالعہ بھی آتا ہے۔ ہو سکتا ہے اسے پڑھنے والے بیشتر قاری اس سے متفق ہوں۔ مگر چند ایک اختلاف بھی رکھتے ہونگے۔ جیسے میں۔
کیونکہ عملی دنیا میں جو ہم دیکھتے ہیں وہ اس سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو کہ حلال زندگی نہیں گذارتے لیکن انکی اولاد یہ رجحان نہیں رکھتی۔ مثلا حضرت ابراہیم کے والد ایک بت تراش تھے جبکہ حضرت ابراہیم ایک بت شکن۔
 اس طرح رزق حلال انسان میں روحانی اطمینان تو پیدا کرتا ہے لیکن دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو حلال کماتے کھاتے ہیں پھر بھی سخت ترین دنیاوی آزمائیشوں میں گھرے رہتے ہیں اور یہ پے درپے آزمائیشیں ان سے دل کا سکون چھین لیتی ہیں۔ اور انسان یہ کہنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے ہیں۔
کیا انسانی اخلاق یا تقدیر کا تعلق رزق سے ہوتا ہے ؟
کیا حلال رزق کھانے والے اعلی اخلاقی کردار رکھتے ہیں اور حرام کھانے والے  رذیل کردار؟ کیا حلال کھانے والے آسان تقدیر رکھتے ہیں اور حرام کھانے والے مشکل؟
کیا حلال اور حرام رزق انسان کے ڈی این اے پہ اثر انداز ہوتا ہے؟ کیا مکافات عمل واقعی کوئ وجود رکھتا ہے؟

انسانی نفسیات یا مختلف رویوں کے ماءخذ، لکھنے والے کے لئے اسرار کی اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک انسان یا انسانوں پہ مشتمل ایک معاشرہ کیوں ایک خاص رویہ یا رجحان رکھتا ہے؟ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی کیوں ان چیزوں کا شکار ہو جاتا ہے جو اسے نا پسند ہوتی ہیں اور کیوں پسند کی چیزیں اس کی پہنچ میں نہیں آپاتیں؟ کیا یہ سب تقدیر ہے؟ لیکن کیا انسانوں کے لئے کوئ خاص قدرتی نہج موجود ہے؟ کیا سورج چاند ستاروں کی طرح انسان کے لئے بھی کوئ ایک مقررہ رستہ ہے یا اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے قدرت انہیں  الگ نظر سے دیکھتی ہے؟ قدرت اپنا یہ پیمانہ کس طرح مقرر کرتی ہے؟
 کل میں ایک اردو بلاگ سے گذری۔ یہاں  بلاگر نے اپنی اس تفصیلی پوسٹ میں جنس سے متعلق مختلف چیزوں پہ اپنے خیالات کو پیش کرتے ہوئے لکھا کہ جو بچے نفرت کے رشتے سے پیدا ہوتے ہیں وہ ذہنی طور پہ غیر متوازن شخصیت رکھتے ہیں اور صحت مند نہیں ہوتے۔
مصنف جنسی تعلق کو عبادت کے مقابل لاتا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ اگر عبادت میں خشوع و خضوع نہ ہو تو عبادت رائگاں ہوتی ہے۔ جنسی عمل میں بھی اگر صداقت نہ ہو تو یہ کمزور انسانوں کو وجود میں لاتا ہے اور کمزور انسان کمزور معاشرے کو جنم دیتا ہے۔ انکی اس تحریر سے میں نتیجہ نکالتی ہوں کہ ایک ایسے تعلق، جس میں جذباتی وابستگی نہ ہو، محبت نہ ہو، حاصل  لا حاصل کے برابر ہوتا ہے۔   
اگر عشق لا حاصل دیوانگی دیتا ہے اور اگر نفرت کا تعلق کمزور انسان  اور اگر یہ انسان کے ڈی این اے کو بھی متائثر کرتے ہیں تو یہ سلسلہ زنجیر کی مانند چلتے رہنا چاہئیے اور مستقبل ہمیں تاریک نظر آنا چاہئیے۔ لیکن ہمارے دلوں پہ امید کیوں دستک دیتی ہے۔ اور ہم مستقبل سے اپنے لئے کیوں خوشی چاہتے ہیں؟

Sunday, December 11, 2011

بچوں سے بڑوں تک

میری بچی نے جیسے ہی سامنے پڑا ہوا کھلونا اٹھایا اسکی ہم عمر میزبان بچی نے لپک کر اسکے ہاتھ سے لینے کی کوشش کی۔ یہ دیکھ کرمشعل نے اس پہ اپنی گرفت اور سخت کر دی۔ 'مجھے یہ اچھا لگ رہا ہے میں اس سے کھیلونگی'۔ اس نے احتجاج کیا۔ میزبان بچی نے کہا نہیں یہ میرا ہے۔ میں اس سے کھیلتی ہوں ۔ ماں نے کہا وہ تمہارے گھر مہمان آئ ہے تھوڑی دیر میں چلی جائے گی۔ تم اسکے ساتھ کھیل لو لیکن بچی نے یہ تسلیم نہیں کر کے دیا۔ میں نے مشعل کو سمجھایا کہ یہ تمہارا نہیں ہے اسکا ہے۔ واپس رکھ دو۔ لیکن اسے یہ بات نہیں سمجھ آ رہی تھی کہ سامنے اتنے سارے کھلونے موجود ہیں تو وہ کیسے ان میں سے کسی کو ہاتھ نہیں لگا سکتی۔
یہ سب کچھ ترقی یافتہ،  پہلی دنیا کے اس حصے میں ہو رہا تھا جہاں ٹی وی پروگرامز میں یہ نصیحت بچوں کو ہی نہیں والدین کو بھی بار بار کی جاتی ہے کہ شیئر کرو، شیئر کرنے کی عادت ڈالیں۔ چاہے وہ بارنی شو ہو یا ڈورا دی ایکسپلورر۔ 
 صرف یہی ایک گھر نہیں،  بلکہ ہم وہاں رہتے ہوئے جس گھر میں بھی گئے وہاں بچوں کا کم و بیش یہی رویہ تھا۔ گھروں میں ہر طرح کے کھلونوں کا ایک ڈھیر لگا ہوا لیکن میزبان بچے کو یہ فکر کہ آنے والا مہمان بچہ کہیں اسکے کھلونوں سے کھیلنے نہ لگے۔ اکثر بچے اس کے لئے مار پیٹ پہ آمادہ۔ وہ کھیلنے سے زیادہ اس باتکے لئے فکر مند تھے کہ نیا آنے والا بچہ کہیں انکی چیزوں پہ قابض نہ ہو جائے۔ چیزیں انکے لئے بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔
اسکے چند مہینے بعد ہم پاکستان میں گوادر جیسی پسماندہ جگہ پہ موجود تھے۔ نیم دیہاتی سا علاقہ جہاں بچے سارا سارا دن گلیوں میں گھومتے رہتے ہیں ایک دوسرے کے گھروں میں ٹہلتے رہتے ہیں۔ یہ نہیں معلوم چلتا کہ یہ حقیقتاً کس بچے کا گھر ہے۔  انکی دنیا میں  بہت محدود تعداد میں کھلونے ہیں۔ مگر حیرت انگیز طور پہ میں نے یہاں یہ گردان نہیں سنی کہ یہ میرا ہے۔
در حقیقت کسی بچے کو اسکی فکر ہی نہیں تھی کہ کیا میرا ہے۔ وہ صرف کھیلنا چاہتے ہیں آزادی سے، گھر میں، گلیوں میں، سمندر کنارے، مٹی سے، پانی سے، دوسرے بچوں سے۔
مگر دونوں جگہ کے  بڑے اپنے بچوں سے اتنے مختلف کیوں ہیں؟

Tuesday, December 6, 2011

وینا ملک ہائے ہائے

اظہار بھی مشکل ہے کچھ کہہ بھی نہیں سکتے
مجبور ہیں اف اللہ، چپ رہ بھی نہیں سکتے
ویسے تو خاموشی سنا ہے ہزار بلائیں ٹالتی ہیں۔ لیکن یہ محاورہ خاصہ پرانا ہو گیا ہے۔ جدید لغت کہتی ہے،  سب کہہ دو۔ لیکن ہوا یہ کہ وینا ملک کے موجودہ سنسنی خیز انداز پہ عوام ایک گوماگوں حالت میں ہیں۔ سب دیکھ سکتے ہیں اور دیکھ رہے ہیں لبوں میں انگلیاں دبائے پرسب کہہ نہیں سکتے اور کہنے کو اتنا کچھ ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کھوہ میں جا کر نکالیں۔  حسین جب  دکھ دیتے ہیں تو ایسے جان لیوا دکھ دیتے ہیں جنہیں کبھی رو کر اور کبھی ہنس کر سہنا پڑتا ہے۔
یہ سب باتیں تو ڈھکے چھپے انداز میں تقریباً سبھی کے پاس پہنچ چکی ہیں کہ وینا ملک کو تحریک انصاف میں شامل ہوجانا چاہئیے کہ انہوں نے اپنے تمام اثاثے ظاہر کر دئیے ہیں۔
کچھ لوگوں نے عدالت عالیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وینا ملک کی شہریت کینسل کی جائے اس پہ کچھ اور لوگوں نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ عدالت عالیہ کو وینا ملک کو عدالت میں بلا کر اس بات کی تصدیق چند مفتیوں کے سامنے کرنی چاہئیے کہ آیا وہ انکی تصویر ہے بھی یا نہیں۔
ادھر عمران خان بار بار عندیہ دے رہے ہیں کہ وہ اپنے اثاثے ظاہر کریں گے اور چند دانا کہہ رہے ہیں کہ
ظاہر وہ سب کریں پر نہ خدا کرے کہ یوں
یہ تصویر ایک عجیب معمہ سی بن گئ ہے. حالانکہ اسے ان تصویروں کے خانے میں رکھا جا سکتا تھا جو ناصح کا منہ بند کرنے کے لئے پیش کی جاتی ہیں۔
یا تنگ نہ کر ناصح ناداں مجھے اتنا
یا چل کر دکھا دے دہن ایسا، کمر ایسی
پر ایسا کیوں ہے کہ مجھ ایسے اوسط روایت پسند پاکستانی کو جسے اسے دیکھ کر منہ چھپانا چاہئیے  اسے دیکھ کر ہنسی  آنے لگتی ہے۔ کیا یہ تصویر پہ موجود الفاظ آئ ایس آئ کا کمال ہے۔

آخر اس پہ آئ ایس آئ کیوں لکھا گیا ہے؟

کیا اسکا مطلب ہے ایسے آئ ہے؟
کیا میمو گیٹ اسکینڈل کی طرح وینا ملک کی اس کھُلی تصویر میں کوئ پوشیدہ پیغام چھپا ہوا ہے۔ اس تصویر کا حقانی کون بنے گا؟
کیا ہماری محبوب آئ ایس آئ اتنی ترغیب دینے والی ادا رکھتی ہے؟
کیا آئ ایس آئ اپنے حسن کی داد پانے کو کچھ بھی کر سکتی ہے؟
کیا آئ ایس آئ اتنی دلیر اور جراءت مند ہے؟
کیا آئ ایس آئ کی پروڈکٹس اتنی دل لبھانے والی ہوتی ہیں کہ دوسرے اپنے اوپر قابو نہیں رکھ سکتے؟
کیا آئ ایس آئ استعمال کرنے والے اوسان خطا کرنے والی قوت حاصل کر لیتے ہیں؟
یا اسکا مطلب ہے کہ ہشیار باش آئ ایس آئ کی اس نئ پروڈکٹ سے بچ کر دکھائیں؟

 وینا ملک نے پہلے کہا کہ آئ ایس آئ کا نام تو یونہی دل پشوری کے لئے لکھا گیا تھا کیونکہ انڈیا میں کسی کو چھینک بھی آجائے تو وہ آئ ایس آئ کا نام لیتا ہے۔ لیکن اپنے تازہ ترین بیان میں وہ اس سے پھر گئیں۔ ایسے ہی جیسے مرتے وقت آنکھیں پھر جاتی ہیں۔ زمانے بھر کے حسینوں میں کچھ ادائیں کتنی مشترکہ ہوتی ہیں۔ اس لئے آرٹ مشترکہ وراثت کہلاتا ہے۔
  دنیا میں پچاس ادارے ایسے ہیں جنکا نام آئ ایس آئ ہے۔ انکا کہنا اب یہ ہے۔ یہ پٹی غالباً انکے وکیل نے پڑھائ ہے۔ حالانکہ وہ شرما کر یہ بھی کہہ سکتی تھیں کہ یہ اتفاق ہی ہے کہ میرے محبوب کے نام کا مخفف بھی آئ ایس آئ ہے مگر ایک تو اس سے انکی پبلک ڈیمانڈ میں کمی آجاتی۔ دوسرا یہ کہ تصویر کا تعلق اب تک کبیر شرما سے ہی جوڑا گیا ہے شرم سے نہیں۔  شرم، شرما اور اس تصویر کو اکٹھا کرنے سے فریم خاصہ ٹیڑھا ہو جاتا ہے۔ نیوڈ آرٹ کو سراہنے کے لئے شرم ایک بے جا چیز ہے۔ جس نے کی شرم اسکے پھوٹے کرم۔ 
سنتے ہیں کہ وزیر داخلہ رحمن ملک کو اس بارے میں تحقیات کا حکم ہے۔ تحقیقات شروع کرنے سے پہلے انہوں نے یقین دلایا کہ انہوں نے یہ تصویر نہیں دیکھی ہے اور 'اگر' وینا ملک کی کوئ ایسی تصویر موجود ہے تو انکے خلاف کارروائ ہو گی، 'سخت کارروائ'۔ یہ دھمکی انکے منہ سے بالکل وہی تائثر دے رہی ہے جو امریکہ کو دھمکی دیتے وقت معلوم ہوتا ہے۔
میں صرف یہ جاننا چاہتی ہوں کہ تحقیق کی وجہ سے رحمن ملک صاحب کو یہ تصویر دیکھنا پڑے گی۔ اسکا گناہ کس کے سر جائے گا؟
یہ نہیں معلوم کہ تحقیق کس بات کی کریں گے۔ اس کی کہ تصویر اصلی ہے یا نقلی؟ یا یہ کہ اسے توہین آئ ایس آئ کہا جائے کہ توہین حُسن؟
وینا ملک اس سے پہلے بھی ایسے صدمے دے کر خود کمال مہارت سے اپنے آنسو بہا اور دوسروں کے پونچھ چکی ہیں۔ چال چلن کہتا ہے کہ اگر وہ میدان سیاست میں صدق دل سے قدم رکھ دیں توعمران خان کے چھکے چھڑا دیں گی۔ آخر ان دونوں میں فرق ہی کیا ہے۔ وہ آ کے بیٹھے ہیں میکدے میں، وہ اٹھ کےآئے ہیں میکدے سے اور دونوں پہ ہی آئ ایس آئ کی چھاپ ہے۔ بس چند ندامتی آنسو ، سر پہ دوپٹہ، امریکہ کے خلاف نعرے وینا ملک ہائے ہائے کو وینا ملک آئے آئے میں تبدیل کر دے گا۔
  اب صرف یہی دلچسپ بات نہیں کہ اس دفعہ وہ کیسے اس سے جان چھڑاتی ہیں بلکہ یہ بھی کہ تخلیق کار کیسے اس ہائ اینٹرٹیمنٹ کو استعمال کر پاتے ہیں۔ کیونکہ اس راہ میں نکتہ ء تخلیق کچھ زیادہ واضح مقامات پیچ و خم سے گذر کر آ رہا ہے۔ ایسے میں تخلیقی الجھن یہ ہے کہ اس خطرناک چلمن کے کتنے قریب ہوں جو صاف دکھے بھی نہیں اور کچھ چھپے بھی نہیں مزید یہ کہ تخلیق کار کا دین و دل اپنی جگہ قائیم رہیں۔ 
پاکستانی زبان و بیان میں ایک نئ علامت بن کر ابھرنے والی اداکارہ کی ایک پچھلی ایک یاد۔
   
 


Sunday, December 4, 2011

کراچی میں محرم

اب یہ تو دینیات والے جانیں یا سوشیالوجی والے کہ کیسے مختلف رسوم و رواج مذاہب میں نہ صرف شامل ہوجاتے ہیں بلکہ اسکے جوش و خروش میں اضافے کا باعث بن جاتے ہیں مثلا میٹھی عید پہ سویاں یا شیر خورمہ بننا اور محرم میں حلیم بنانا۔
محرم میں حلیم کیوں بنایا جاتا ہے؟
اسکے بارے میں جو روایت ہم تک پہنچتی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ قافلہ ء حسین  جب ظلم یزید کا شکار دریائے فرات کے کنارے خیمہ زن تھا تو غذا کی کمی کو پورا کرنے کے لئے بچا کھچا تمام اناج ملا کر کھانا پکایا گیا تھا۔ اب یہ ارتقاء ہی کہلائے گا کہ شدید الم کے عالم میں بنایا جانے والا کھانا ہزار سال بعد حلیم جیسی لذیذ شے میں تبدیل ہو گیا اور آج ہم حلیم نائٹ مناتے ہیں۔
میری ایک جاننے والے خاتون ایک دن کہنے لگیں کہ سنّی مذہب میں ایک بنیادی بات بڑی اچھی ہے۔ وہ کیا؟ ہم نے استفسار کیا ۔ جواب ملا، وہ یہ کہ تمام مذہبی رسومات کھانے پینے سے تعلق رکھتی ہیں۔ گیارہویں شریف ہو، عید، بقر عید ہو یا رمضان شب براءت۔ ہر ایک کے ساتھ کھانا پینا جڑا ہوا ہے۔ اب محرم ہی کو دیکھ لو سنّی اس میں بھی حلیم پکاتے ہیں، کھلاتے ہیں اور کھاتے ہیں۔ حلیم تو حلیم، شربت کتنا بانٹتے ہیں۔
مگر یہ کام تو شیعہ بھی کرتے ہیں۔ ہم نے تو شیعوں کا حلیم بھی خوب کھایا ہے۔ میں نے انکی بات پہ حیرانی کا اظہار کیا۔ کہنے لگیں ارے پہلے انکے جتنی محنت تو کرو۔ پورے ڈھائ مہینے مجلسوں میں پے در پے شرکت کرنا، ڈھائ مہینے سوگ کے کرب میں مبتلا رہنا اور پھر کھانا پینا کرنا۔ اگر ایک دفعہ اس سارے عمل سے گذر جاءو تو پتہ لگ جائے گا۔ کتنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس کے مقابلے میں سنّی ہونا آسان اور مزے کا کام ہے۔
اچھا تو پھر یہ بات آپ بھی تسلیم کریں کہ صدیوں سے اس واقعے کو تصوراتی طور پہ قائم کرنا اور پھر اسکی منظر کشی میں سننے والوں کو شامل کرنا اس فعل نے انکی تخلیقی سلاحیتوں کو اتنی جلا دی ہے کہ آج پاکستان، ہندوستان میں نمایاں لکھنے والوں کی بڑی تعداد شیعہ مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔ میں نے ان سے کہلوانا چاہا۔ لیکن اسکے بعد تخیل اور تخلیق پہ ایک الگ گفتگو چلی۔ جو اس تحریر کے دائرے سے باہر ہے۔
بہر حال ایک سوال یونہی ذہن میں آگیا کہ کیا عقیدہ اپنے ماننے والوں پہ کوئ بنیادی اثر چھوڑتا ہے؟
 سنی اور شیعہ دونوں ہی محرم الحرام مناتے ہیں گو کہ الگ نظریات کے ساتھ لیکن اس سے شہر میں بڑی ہمہ رنگیت اور رونق  رہتی ہے۔ بقر عید کے مہینے سے ہی دوکانوں پہ کالے کپڑوں کا اسٹاک لگ جاتا ہے۔ اس دفعہ میرے ذہن سے بالکل نکل ہی گیا تھا اور بازار جا کر میں نے سوچا کہ اس دفعہ سردیوں میں لگتا ہے کہ کالا رنگ فیشن کے افق پہ چھایا رہے گا ہر دوکان پہ یہ رنگ ڈھیروں ڈھیرہے۔ لیکن نہیں یہ محرم کی تیاری تھی۔
ہم جہاں رہتے ہیں یہاں قریبی ہر نکڑ پہ امام بارگاہ موجود ہے۔ محرم  سے لے کر ربیع الاول تک ان امام بارگاہوں میں بڑی رونق رہتی ہے۔ امام بارگاہوں پہ روشنی کا خاص انتظام ہوتا ہے۔ اور ساتھ ساتھ اب سیکیوریٹی کا بھی۔ اگرچہ قریبی امام بارگاہ تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پہ ہے لیکن رات کو ایک بجے بھی میں نعرہ ء حیدری سن سکتی ہوں۔
اب سے چند سال پہلے تک سنّی بھی ان جلوسووں میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ پانچ چھ سال پہلے مجھے بھی نو محرم کو صدر کے علاقے میں جسے شاید محلہ خراساں کہتے ہیں رات گذارنے کا موقع ملا۔ ایک شیعہ دوست ساتھ میں تھے۔ سبیلیں لگی ہوئ ہیں۔ شربت بٹ رہا ہے۔ لوگ ایک قافلے کی صورت کالے کپڑے پہنے رواں ہیں۔  زنجیروں کا ماتم ہو رہا ہے۔ تعزئیے آ جا رہے ہیں۔ بچے ،خواتین ، بوڑھے جوان سب ان میں شریک ہیں۔  ساری کمیونیٹی اکٹھا ہے۔ سب اپنی سرگرمیوں میں مصروف۔ باہر نکلے تو  قائد اعظم کے مزار کے پاس دیگیں لائن سے لگی ہوئیں جانے کتنی۔ حلیم کی تیاری زوروں پہ۔
اب اس سارے قصے میں حلیم پھر سے آگیا۔ حالانکہ  محرم کا بنیادی الم کا موضوع پانی کی عدم دستیابی وہ بھی ایسی کہ دریا کا پانی چند گز کے فاصلے پہ موجیں مار رہا ہے مگر اس تک پہنچنے کے لئے خون کا دریا پار کرنا ہے۔
اور جبکہ ہمارے شیعہ دوست بتا رہے تھے کہ کس طرح انکا سلسلہ ء نسب کس امام سے جا کر ملتا ہے۔ میں اپنی والدہ کا بچپن دیکھ رہی تھی جو لکھنوء میں گذرا۔ اور جہاں انکے بقول محرم میں چاہے گھر والے جائیں یا نہ جائیں ہم بہن بھائ مجلسوں میں جاتے تھے تبرکات کھانے کے لئے چپکے سے گھر سے فرار ہو کر۔
اس وقت ایسی کوئ منادی نہیں تھی کہ  شیعہ مجالس میں سنّی نہیں جائیں گے۔ لکھنوء میں تعزئیے بڑے خوبصورت بنائے جاتے تھے اور انکے والد یعنی ہمارے نانا اپنے بچوں کو تعزئیے دکھانے بھی لے جاتے تھے۔ان تعزیوں اور جلوسوں کا تذکرہ رجب علی بیگ نے بڑے اہتمام سے اپنی ایک تحریر میں کیا ہے۔ یہ تقسیم ہندوستان کے خاصے بعد کی بات ہے۔ آجکل تو وہاں بھی ان جلوسوں پہ پابندی ہے۔ 
البتہ یہ کہ میرے والد صاحب ہجوم والی جگہوں پہ بچوں کو نہیں جانے دیتے۔ انہیں اس بات  کی پریشانی رہتی تھی کہ بچے ادھر ادھر نہ ہو جائیں۔ ہم   نےبھی مختلف پالے ہوئے خوف کی بناء پہ کبھی والدین کی آنکھوں میں دھول جھونک کر  ان جلوسوں کو دیکھنے کی کوشش نہ کی۔
ادھر لکھنوء میں تو تعزئیے سنّی بھی بنایا کرتے تھے۔ خود میرے بچپن میں، یہاں کراچی میں ایک دوست کے گھر میں محرم میں اجرت پہ تعزئیے بناتے تھے۔ انکے گھر میں، میں نے بڑے خوبصورت تعزئیے رکھے دیکھے۔ مجھے تو وہ اس وقت پریوں کے گھر لگا کرتے تھے۔
وقت گذر گیا، ہر طرح کا وقت گذر ہی جاتا ہے۔ اب بھی اس شہر میں حلیم کی دیگیں چڑھتی ہیں، بچے سبیلوں کے چندے مانگتے ہیں، شربت بانٹا جاتا ہے۔ لیکن اب دل میں یہ خوف رہتا ہے کہ دیکھیں کہاں سے کس وقت دھماکے کی یا فساد کی خبر آتی ہے۔
روڈ پہ میں نے بڑے بڑے بینرز لگے دیکھے عشرہ ء عمر و حسین۔ مذہبی رواداری پیدا کرنے کی ایک اچھی مثبت کوشش۔ اس بات کو دوہراتے ہوئے کہ نہ ایک نظریہ مکمل طور پہ ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ دوسرا نظریہ مکمل طور پہ چھا سکتا ہے۔ اختلاف میں خوبصورتی ہے۔ ہم  نعرہ ء حیدری کے درمیان حلیم کھاتے ہیں۔ پانی کے لئے یہ کہ پانی پیو تو یاد کرو پیاس حسین کی۔

Thursday, December 1, 2011

میرے مسائل اور انکا حل

جس طرح ماہر جدی پشتی حکیم یہ دعوی کرتے نظر آتے ہیں کہ ہر مرض کاعلاج موجود ہے اسی طرح میں بھی کہہ سکتی ہوں کہ ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔
حالانکہ کبھی کبھی گمان گذرتا ہے کہ اکثر ہمارے مسائل اس لئے پیدا ہوتے ہیں کہ انکے حل ہمارے پاس نہیں ہوتے۔ اس طرح سے انسان مکڑی کی طرح خلوت کی زندگی گذارنے کے بجائے چیونٹیوں کی طرح سماجی جانور بننے پہ مجبور ہو جاتا ہے۔
اگر آپ یہ جانتے ہیں کہ آپکے کسی مسئلے کا حل کہاں سے ملے گا تو یہ ایک خوش قسمتی ٹہرتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ ذریعہ آپکی پہنچ میں ہے یا نہیں۔
مجھے بھی آجکل کچھ مسائل کا سامنا ہے۔ مسئلہ نمبر ایک تو یہ کہ میرے بلاگ کی فیڈز مختلف ایگریگیٹر پہ آنا بند ہو گئیں۔ سب سے پہلے میں یہ بات اردو سیارہ پہ نوٹ کی۔ خیال گذرا کہ انہیں مجھ سے کچھ دبی دبی سی شکائیتیں رہتی ہیں۔ اس لئے شاید اب جان چھڑانی چاہی ہو۔ لیکن نہیں اس بد گمانی کے ساتھ یہ بھی تھا کہ انکی بلاگر لسٹ پہ میرا نام اور اسکی فیڈ اب بھی موجود ہے۔
فیس بک پہ یہ الجھن عرض کی تو جناب محمد بلال محمود صاحب نے خیال ظاہر کیا کہ ہو سکتا ہے فیڈ برنر کے ساتھ کچھ مسئلہ ہو۔ انکے دئیے ہوئے لنک پہ دیکھا تو معلوم ہوا کہ اگر آپکا بلاگ ۵۱۲ کلو بائیٹس سے زیادہ بڑھ جاتا ہے تو آپکی فیڈ بند ہو جائے گی اور یہ دوبارہ اسی صورت بحال ہو گی جب اس میں توسیع کی جائے۔ اسکے لئے طریقہء کار دیا ہوا تھا۔ اس پہ عمل کیا۔  توسیع تو مل گئ لیکن پتہ تبدیل ہو گیا۔ یہ نیا پتہ عثمان، کو دیا کہ سیارہ کی انتظامیہ کو دے دیں۔ کیونکہ ہم نے ان سے جس پتے پہ  رابطہ کیا اس پہ  جواب ندارد۔ عثمان نے اطلاع دی کہ وہ دے چکے ہیں۔ شاگرد عزیز کا شکریہ۔
اب اس بات کو بھی کافی دن گذر گئے ہیں۔ اس لئے اپنے قارئین سے گذارش ہے کہ اس بلاگ سے رابطے میں رہنے کے لئے چاہیں تو سبسکرائیب کر لیں ۔
ادھر ٹی بریک والوں سے بھی بات کی جس دن انہیں ای میل بھیجی اسی دن جواب آگیا کہ آپ اپنا بلاگ ایڈریس بھیجیں ہم چیک کرتے ہیں کیا مسئلہ ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ انکے اپنے گوگل کے ساتھ مسائل چل رہے ہیں اور وہ اسے نبٹا رہے ہیں۔ اسکے بعد وہ ہمارے مسئلے کو دیکھیں گے۔
خیر مستقل قارئین کا بے حد شکریہ کہ وہ اس بلاگ سے رشتہ استوار رکھے ہوئے ہیں۔

دوسرا مسئلہ ذرا دلچسپ ہے۔  بلاگ سے ہٹ کر ایک تحریر کے لئے کچھ تحقیق کرنی ہے۔ اسکے لئے ان لوگوں کا تعاون درکار ہے جنکے والدین یا بزرگ انیس سو سینتالیس میں تقسیم کے نتیجے میں پاکستان آئے اور جو مشرقی پنجاب یا راجستھان سے تعلق رکھتے ہوں۔ میں ان سے گفتگو کرنے میں دلچسپی رکھتی ہوں۔ اگر آپکے ارد گرد کوئ ایسا شخص موجود ہے تو میں اس سے اسکائپ کے ذریعے  یا کسی ایسے ذریعے سے بات کرنا پسند کرونگی جس تک وہ بآسانی پہنچ سکیں اور انکا کوئ خرچہ بھی نہ ہو۔ مجھ سے رابطے کے لئے یہ ای میل ایڈریس ہے۔
 aniqaamar@yahoo.com
آجکل ایک بلاگی ساتھی کے کینیڈا میں مقیم ایک بزرگ سے اسی طرح، اس موضوع پہ بات ہو رہی ہے
اس مسئلے کا ایک اور حل بھی سامنے آیا جب کسی نے مجھے یہ بتایا کہ کراچی میں اورل ہسٹری کے نام سے ایک پروجیکٹ پہ سٹیزن آرکائیو والے کام کر رہے ہیں اور انکے پاس ایسے لوگوں کے ریکارڈ کئے ہوئے انٹرویوز اور تصویریں موجود ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ انکے پاس ایسے لوگوں سے رابطہ کرنے کے لئے پتے بھی موجود ہوں۔ انکے ایک نمائیندے سے معلومات کیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ انہیں ای میل کر کے درخواست بھیجیں۔ وہ ضرور اسکا جواب دیں گے۔
بات تو صحیح ہے انہوں نے یہ ہسٹری جمع تو اسی لئے کی ہو گی کہ جو اس سے مستفید ہونا چاہے اسے آسانی سے مل جائے۔ چنانچہ انہیں ایک ای میل کر دی۔ اب دو دن سے منتظر ہوں کہ کیا وہ بھیجتے ہیں جواب میں۔
ہر مسئلے کا حل موجود ہے نہیں ہے تو نکل آئے گا۔ نہ نکلے تو ایک مسئلے کو کیا دل سے لگا کر بیٹھیں رہیں۔ اگلے والے کو پکڑ لیں۔ بعض اوقات اگلے والوں پہ کام کرنے سے پیچھے والے خود درست ہو جاتے ہیں۔ کیا خیال ہے؟