Friday, August 27, 2010

حکمران یا نظام

یہ میرے گھر کا ٹی وی لاءونج ہے, ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جانے کے لئے یہاں سے گذرنا پڑتا ہے۔ میری بچی کے کھلونے اور سائیکلیں بھی یہاں پڑی رہتی ہیں۔  اکثر جب میں گذرتی ہوں تو آپکو بھی ساتھ شریک کر لیتی ہوں۔ یہ سماء ٹی وی کی جیسمین  منظور ہیں جو اس وقت بلوچستان ڈیرہ مراد جمالی ، میں سیلاب کے متائثرین کے ساتھ موجود ہیں۔ جی یہ وہی علاقہ ہے جو سیلاب کے پانی سے اس لئے متائثر ہوا کہ سندھ کے زمینداروں نے اپنے علاقے میں آنے والے سیلابی پانی کا رخ اس طرف موڑ دیا۔ جیسمین میرے گھر میں کچھ لوگوں کو بہت پسند ہے یہ قصہ پھر کبھی سہی۔

جیسمین ایک دیہاتی عورت کو پرسہ دیکر فارغ ہوئ

تھی کہ میں نے اس پروگرام کو دیکھنا شروع کیا۔ اسکے دو بچے مر گئے  اور وہ اپنے خاندان سمیت کھانے کے انتظار میں ان چارپائیوں کے ساتھ بیٹھی ہے جہاں سے بچوں کی میتیں روانہ ہوئ ہونگیں۔ جیسمین انہیں دلاسہ دیتی ہے کھانا ملے گا سب کو ملے گا۔ مجمع تنبو یعنی ٹینٹ کے نہ ہونے کی شکایت کر رہا ہے۔ جیسمین ان سے بھی کہتی ہے سب ملے گا۔ ابھی ہم یہاں سے جا کر بات کرتے ہیں آپ سب لوگوں کو سب ملے گا کھانا بھی اور تنبو بھی۔  وہاں سے نکل کر وہ میرے جیسے ناظرین کو بتاتی ہے کہ اس وقت یہاں فوج کے جوانوں کے علاوہ کوئ شخص انکی مدد کے لئے موجود نہیں ہے۔
لیکن یہ کیا، اسکے پیچھے ایک امدادی کیمپ نظر آرہا ہے۔ اس پہ ایک بڑا سا بینر لگا ہے کہ یہ کیمپ جماعت اسلامی کی طرف سے لگایا گیا ہے۔ جیسمین، جماعت والوں کے تنبو کے اندر پہنچتی ہے تنبو یعنی شامیانے کے اندر ایک ڈنڈے کے ساتھ ایک بکری بندھی ہوئ ہے خالی زمین پہ دو تین دیہاتی بیٹھے ہوئے ہیں اور کچھ نہیں ہے۔ یہ امدادی کیمپ اندر سے بالکل خالی، پارٹی کا کوئ کارکن تک موجود نہیں ، امداد کا تو تذکرہ ہی کیا۔ جیسمین اس سے آگے بڑھتی ہے۔ یہ ایک اور شامیانہ لگا ہے جس پہ عمران خان کی ایک بڑی سی اسٹائلیش تصویر موجود ہے نیچے انکی پارٹی کا نام موجود ہے۔ تحریک انصاف۔ ابھی چند دن پہلے انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں  سنہری چمکدار کرسیوں پہ بیٹھےم پیچھے لاکھوں روپے سے پرنٹ کئے ہوئے بڑے سے بینر جس پہ سیلاب زدگان کی قد آدم تصویریں موجود ہیں انکی موجودگی میں  اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کہا تھا کہ ہمیں امداد کی رقم دیں۔ ہم آپکو ایک ایک پائ کا حساب دیں گے۔ یہ شامیانہ بھی اندر سے خالی پڑا ہے۔ اور یہ کہہ رہا ہے کہ عمران خان اس شامیانے کے پیسوں کا حساب دو۔
اس سے آگے ایک اور شامیانہ لگا ہے۔ اس میں تو لال دریاں بھی بچھی ہیں اور ایک اسٹیج بھی بنا ہے۔ یہ ایک میڈیکل ریلیف کیمپ ہے یہ بھی اندر سے بالکل خالی پڑا ہے۔ یہ پاکستان اسلامک کلچر والوں کی طرف سے لگایا گیا ہے۔ جتنی دیر میں جیسمین اپنی بے زاری کو پوری طرح ظاہر کرتی ہوئ اس میڈیکل کیمپ کی حالت دکھاتی ہے ایک داڑھی والے صاحب بھاگے بھاگے پہنچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دراصل دو بجے کیمپ کی چھٹی ہوجاتی ہے اس لئے یہ اس وقت آپکوخالی ملا۔ مجمع جو جیسمین کے ساتھ ہے بتاتا ہے کہ یہ صبح سے اسی طرح خالی ہے۔ سیلاب زدگان کے لئے قائم کیمپ میں وقت کی پابندی شاید سب سے زیادہ ہوگی۔

تین کیمپ اور تینوں خالی، باقی وہاں اور کوئ نہیں۔ فوج کا ایک ہیلی کاپٹر مصروف بہ عمل ہے۔ جیسمین وہاں سے اپنے ناظرین کو خدا حافظ کہہ کر نکل آئ۔

میں بھی جیسمین کے ساتھ اس منظر سے رخصت ہوئ۔ پیچھے رہ گئے متائثرین۔ ایسے وقت میں انکا خدا پہ یقین رکھنا بہت ضروری ہے۔ خدا نے ہی یہ عذاب بھیجا ہے ان پہ تاکہ اس نظام کی کمزوری ان پہ عیاں نہ ہو جسکے وہ پروردہ ہیں۔ اور وہ یہ سمجھتے رہیں کہ یہ سب اللہ سائیں کی مرضی ہے۔ اور اب خدا ہی باقی رہ گیا ہے کہ وہ اس زندگی کو ان پہ آسان کرے اور مخیر افراد  خدا کے ڈر سے اپنے مال کا صدقہ انہیں عطا فرمائیں۔۔
ان لوگوں کو خدا پہ چھوڑتے ہوئے میں واپس آ کر اردو سیارہ کو چیک کرتی ہوں پتہ چلا کہ جیو ٹی وی پہ کامران خان کا کہنا ہے پاکستان کے سو فی صد عوام کو نظام کی پرواہ نہیں  بلکہ وہ ایک مسلمان حکمران چاہتے ہیں جو خود اسلامی تعلیمات پہ عمل کرے اور ملک کو اسلامی تعلیمات کے مطابق چلائے اور اسکے حساب سے انکا خیال رکھے۔

لیکن معزز قارئین، جیسا کہ ابھی آپ نے میرے ساتھ، جیسمین منظور کے ساتھ

ایک علاقے کے متائثرین کو دیکھا۔ تو آپ کو پتہ چلا ہوگا کہ یہ بھی پاکستان کے عوام ہیں اور انہیں کیا چاہئیے؟

جو لوگ انہیں امداد پہنچا رہے ہیں انکے بارے میں انہیں کوئ فکر نہیں کہ وہ شراب پیتا ہے یا زنا کرتا ہے یا اسکے گھر کی عورتیں بے پردہ پھرتی ہیں، یہ امداد حق حلال کے پیسوں کی ہے یا حرام سے کمائے گئے روپے کا صدقہ ہے، یہ امداد ہندو، عیسائ یا یہودی بھیج رہے ہیں یا کوئ راسخ العقیدہ مسلمان، یہ ہمارے دشمن ملک بھیج رہے ہیں یا دوست، دہشت گرد یا امن پسند، طالبان یا لبرل۔ انہیں بس ایک ایسا نظام چاہئیے جس میں انہیں سیلاب کے بعد کھانا اور بے گھری سے بچنےکے لئے کچھ نہیں ایک تنبو تو ملے۔

یہ  پاکستان کے سو فی صد عوام میں شامل نہیں ہیں۔  یہ کبھی بھی پاکستان کے عوام میں نہیں گنے جاتے۔ کیونکہ یہ اپنی گنتی کا حق اپنے کسی انسانی رب کے حوالے کر چکے ہیں۔ انکی گنتی امداد کے حصول کے وقت یا سیاسی چالوں کے وقت صحیح سے ہوگی۔ بہر حال باقی سب جو گنتی جانتے ہیں یہ سمجھ  کے کہ یہ اپنے نظریات کو چمکانے کا سنہرا وقت ہے یہی وقت ہے  لوگوں کواللہ نامی دیوتا کے غیض و غضب سے عذاب سےڈرانے کا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام اسکے بجائے کسی اور نظریہ حکومت میں پناہ تلاش کرنے لگیں۔ اپنی اپنی دوکانیں لگائے بیٹھے ہیں۔ آئیے صاحبان، ڈھونڈھتے ہیں ایک حکمران جو ہو اصل مسلمان، جو کرے وہ سرداری دور ہوگی ہر بیماری، جو نہیں سنوگے ہماری بات، تو نازل ہونگے ایسے ہی عذاب۔  یہ اصل مسلمان حکمران انکے پاس چھپا ہوا ہے، جب سب تائب ہو جائیں گے تو وہ باہر آئے گا۔
جو مصیبت جھیل رہے ہیں وہ توبہ کی نمازوں میں کھڑے ہونے کے بجائے، کھانے اور تنبو کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ یا اپنے اپنے بیمار بچوں کی دواءووں کے انتظار میں ہیں ان میں اتنی ہمت بھی نہیں کہ ڈوبتی نبضوں پہ اپنا ہاتھ ہی رکھ دیں۔ ان میں سے بیشتر کو صحیح سے نماز بھی نہیں پڑھنی آتی۔ بس یہ کہنا آتا ہے کہ مالک ہے اللہ سائیں  اور پیر سائیں ۔ 
جو اس مصیبت سے دور ہیں وہ ایکدوسرے کو توبہ اور استغفار کی نصیحتیں کر رہے ہیں۔ جو ایکدوسرے سے جلے ہوئے ہیں وہ ایکدوسرے کو بد دعائیں دے رہے ہیں خدا تمہیں بھی ایسی مصیبت سے دو چار کرے۔ حالانکہ بات تو اتنی ہے کہ ہوئے تم دوست جسکے اسکا دشمن آسماں کیوں ہو۔ 
اب بات یہ ہے کہ سائینسداں کہہ رہے ہیں کہ دنیا بھر میں موسمی حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔ اگررررررر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم اس سیلاب سے بچ نکلے تو بہت ممکن ہے کہ اگلے سال پھر یہ سیلاب حاضر ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ دو،  تین، چار سال بعد پورے ملک کو قحط سالی بھگتنی پڑ جائے۔ اگلی دفعہ کیا کریں گے؟ حکمران تبدیل کریں گے یا نظام؟

Thursday, August 26, 2010

کیمیکل کامبی نیشنز-۳


مختلف تناسب کا قانون
 Law of mutiple proportion

یہ قانون جان ڈالٹن نے پیش کیا۔ اسکے مطابق

اگر ایک عنصر دوسرے عنصر کے ساتھ دو مختلف مرکبات بناتا ہے تو ان دونوں مرکبات میں اس عنصر کی مقررہ مقدارکے لئے درکار دوسرے عنصر کی مقداروں میں جو تناسب ہوگا وہ ایک مکمل صحیح عدد ہوگا۔
اب ہم یہاں یائیڈرجن کی  مثال  لیتے ہیں۔ ہائیڈروجن آکسیجن کے ساتھ دو قسم کے آکسائیڈ بناتا ہے۔ پہلا ہائڈروجن آکسائیڈ یعنی پانی ہے جس میں ہائیڈروجن اور آکسیجن کے درمیان تناسب اس طرح بنتا ہے۔ آکسیجن کا ایک ایٹم وزن سولہ، ہائڈروجن کے دو ایٹم وزن دو۔  2:16= 1:8
 یعنی  اس میں ہر ایک ہائڈروجن کے لئے آکسیجن کا وزن برابر ہے آٹھ کے۔
دوسرا آکسائیڈ ہے۔ ہائڈروجن پر آکسائیڈ۔ جس میں آکسیجن ہیں دو، سولہ ضرب دو یعنی وزن بنا بتیس، ہائڈروجن ہیں دو یعنی وزن بنا دو۔ اب اس میں ہائڈروجن اور آکسیجن کی نسبت ہوگی۔ 2:32 = 1:16
 یعنی ہائڈروجن پر آکسائیڈ میں ہر ہائڈروجن کے لئے آکسیجن کا وزن بنا سولہ کے برابر۔

دونوں مرکبات میں آکسیجن کی جو نسبت نکلی وہ ہے دو۔ دو ایک مکمل صحیح عدد ہے۔ اس طرح یہ قانون ثابت ہوتا ہے۔
اب مزید آسانی کے لئے ایک اور مثال دیکھتے ہیں۔ کاربن کے دو آکسائیڈز ہیں۔ انہیں کاربن کو آکسیجن کی موجودگی میں جلا کر تیار کیا جا سکتا ہے۔ اب اگر ان دونوں آکسائیڈز کی تیاری کے لئے ہم سو سو گرام کاربن کی مقررہ مقدار استعمال کرتے ہیں۔ کاربن مونو آکسائیڈ کی تیاری میں  ہمیں سو گرام کاربن کے لئے 133 گرام آکسیجن چاہئیے ہوگی۔ جبکہ کاربن ڈائ آکسائیڈ کی تیاری  میں ہمیں سو گرام کاربن کے لئے آکسیجن کی دگنی مقدار چاہئیے ہوگی یعنی 266 گرام۔


اس طرح سے ان دونوں مرکبات میں آکسیجن کا تناسب ہے دو۔ اور دو ایک مکمل صحیح عدد ہے۔
اب یہاں تک کچھ بوریت ہو گئ ہوگی۔ اس لئےایک گانا سنتے ہیں۔ آئیے اس لنک پہ چلتے ہیں۔

 جاری ہے


کیمیکل کامبی نیشنز-۲

  گذشتہ سے پیوستہ

مستقل تناسب کا قانون
 Law of definite proportion or constant composition

شیکسپیئر نے کہا تھا کہ گلاب کو کسی بھی نام سے پکارو گلاب ہی رہے گا۔ کیمیا داں جوزف پراءوسٹ نے بھی ایک اس سے ملتی جلتی بات کہی۔ جسے مستقل تناسب کے قانون کا نام دے دیا گیا۔
اس قانون کے تحت ایک کیمیائ مرکب میں موجود عناصر کی مقدار ہمیشہ یکساں رہتی ہے چاہے اسے کسی بھی کیمیائ طریقے سے تیار کیا جائے۔
مثلاً کاربن ڈائ آکسائیڈ کے فارمولے میں ایک کاربن  کا مالیکیول اور دو آکسیجن کے مالیکیول ہوتے ہیں۔ ایک کاربن کےایٹم کا وزن تقریباً 12 اور ایک آکسیجن کے ایٹم کا وزن تقریباً سولہ ہوتا ہے۔ اس فارمولے میں آکسیجن کے دو ایٹم ہیں تو اسکی مقدار 32 ہے۔



کاربن ڈائ آکسائید گیس کو مختلف طریقوں سے تیار کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں۔
   کیلشیئم کاربونیٹ پہ تیزاب کے عمل سے

کاربن کو آکسیجن کی موجودگی میں جلانے سے

اوپر بیان کردہ طریقوں سے حاصل شدہ گیس کا جب تجزیہ کیا جائے تو اس میں کاربن اور آکسیجن کی مقداری نسبت وہی نکلتی ہے جو ہم بیان کر چکے ہیں یعنی 3:8۔

کاربن کے دو آکسائیڈز ہوتے ہیں۔ ایک میں کاربن اور آکسیجن کی مقداری نسبت  3:8 اور دوسرے میں 3:4 ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس دوسرے مرکب میں آکسیجن کی مقدار پہلے والے کی نسبت آدھی ہے۔ یعنی یہ کاربن مونو آکسائیڈ کا فارمولا ہے۔ اور کاربن مونو آکسائیڈ کی مقداری نسبت اس قانون کے تحت ہمیشہ 3:4 ہوگی، چاہے ہم اسے کسی بھی طریقے سے تیار کریں۔
اب اس قانون کے ساتھ ایک مسئلہ بھی ہے۔ اور وہ یہ کہ یہ ہمیشہ صحیح ثابت نہیں ہوتا۔ اسکی وجہ مختلف عناصر کے مختلف آئسوٹوپس کا ہونا ہے۔ آئیسو ٹوپس جیسا کہ ہم جانتے ہیں۔ ایک ہی عنصر کے ایسے ایٹم ہوتے ہیں جو اس سے وزن میں مختلف ہوتے ہیں۔ وزن میں اس اختلاف کی وجہ سے یہ کمیتی تناسب یکساں نہیں رہ پاتا۔
مرکبات کی ایک جماعت جنہیں نان اسٹیکیئومیٹرک کمپاءونڈز کہتے ہیں وہ بھی اس اصول پہ پورے نہیں اترتے۔ کیونکہ ان میں عناصر ایک خاص نسبت میں ملنے کے بجائے دو مقداروں کی درمیان رینج میں ملتے ہیں۔ جیسے فیرس آکسائیڈ کا  فارمولا نیچے دی گئ شکل کے حساب سے 'اے؛ ہونا چاہئیے، لیکن یہ 'بی' کے قریب ہوتا ہے وجہ اسکی اسکے مالیکیولز کی کرسٹل جالی میں  ترتیب ہے۔

فیرس آکسائیڈ کی کرسٹل جالی میں ترتیب

کرسٹل جالی میں ممکنات

جاری ہے

Tuesday, August 24, 2010

کیمیکل کامبی نیشنز-۱

جب مرکبات آپس میں تعامل میں کرتے ہیں تو انکا یہ عمل چند قوانین کے ماتحت ہوتا ہے۔ یہ قوانین 'کیمیکل کامبی نیشنز' کہلاتے ہیں۔  بنیادی طور پہ یہ چار قوانین ہیں جو کسی تعامل کے ہونے  میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ درج ذیل ہیں

قانون بقائے کمیت
law of conservation of mass

مستقل تناسب کا قانون
 law of constant proportion

مختلف تناسب کا قانون
law of multiple proprtions

 متبادل تناسب کا قانون
 law of reciprocal proportions

اب ہم ان قوانین کے کسی تعامل پہ اثرات کو باری باری دیکھتے ہیں۔

  بقائے کمیت کا قانون

قدیم یونانی فلسفے میں کہا جاتا تھا کہ کچھ نہیں سے کچھ نہیں جنم لیتا۔ یعنی عدم سے عدم ہی وجود میں آتا ہے۔ جین فلسفہ کے بانی مہاویرا ہے کہتا ہے کہ کائنات اور اسکے اجزاء مثلاً مادہ نہ ہی پیدا کیا جا سکتے ہیں اور نہ ہی ختم کیا جا سکتے ہیں۔ تیرہویں صدی کے ایرانی عالم ناصر الدین الطوسی کا کہنا تھا کہ ایک مادی جسم مکمل طور پہ ختم نہیں ہوتا۔ یہ صرف اپنی ماہیئت، حالت، ترکیب،رنگ اور اسی طرح کی دوسری خصوصیات تبدیل کرتا ہےاور ایک دوسرے مرکب میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

بقائے کمیت کا قانون پہلی دفعہ مکمل طور پہ انٹونی لوائزے نے بیان کیا اور اس نے اپنے تجربات سے اسے ثابت کیا۔ اسکی وجہ سے اسے جدید طبیعیات کا بانی بھی سمجھا جاتا ہے۔ ان تجربات میں اس نے مختلف تعاملات کو دیکھا۔  مثلاً زنگ لگنے کا عمل۔ اس عمل سے پہلےلوہے کے ایک ٹکڑے کو ایک سیلڈ بند ٹیوب میں بند کر کے اس  ٹیوب کا وزن کیا گیا اور زنگ لگنے کے بعد بھی اسکا وزن کیا گیا۔  نتیجہ یہ نکلاکہ ہر دو صورتوں میں وزن برابر تھا۔

یہ قانون کہتا ہے کہ ایک بند نظام میں وقت گذرنے کے ساتھ نظام کی کمیت مستقل رہتی ہے۔ یعنی ایک کیمیائ تعامل اگر کسی بند نظام میں ہو رہا ہو تو مادہ نہ وجود میں آتا ہے اور نہ ختم ہوتا ہے اس طرح مادے کی مقدار وہی رہتی ہے جو تعامل کے آغاز میں ہوتی ہے البتہ مادے کے اجزاء اپنی ترتیب یا ماہیت تبدیل کر لیتے ہیں۔
اس قانون کی وجہ سےکیمیاء کی نئ بنیاد پڑی اور یہ ممکن ہو سکا کہ ری ایکٹنٹس کی مقدار متعین کی جا سکے اور حاصل پروڈکٹس کی مقدار کا پہلے سے اندازہ کیا جا سکے۔  اس طرح سے اسٹیکییئومیٹری یا مقداری کیمیاء کا تصور جنم لے سکا۔
اب ہم اسکی ایک مثال دیکھتے ہیں۔
مثال ؛
  ہائیڈروجن  اور آکسیجن مل کر پانی بناتے ہیں۔ اگر چار گرام ہائیڈروجن استعمال کرنے سے چھتیس گرام پانی بن رہا ہے تو آکسیجن کے کتنے گرام چاہیئِں ہونگے۔ 
سب سے پہلے اس تعامل کی مساوات دیکھتے ہیں۔
 اور پھر پروڈکٹس میں سے جس ری ایکٹنٹ کی مقدار دی ہوئ ہے اسے منفی کر دیں۔ دوسرے متعامل یا ری ایکٹنٹ کی مقدار معلوم ہو جائے گی۔



اس مثال میں جب ہم نے چھتیس گرام جو کہ پروڈکٹ کا وزن ہے اس میں سے ہائیڈروجن کے چار گرام نکال دئیے تو آکسیجن کے بتیس گرام حاصل ہوئے اس طرح سے مساوات میں تیر کے نشان کے دونوں جانب تعامل کے بعد بھی  مقدار گرام میں برابر رہی۔


اسکی ایک  ویڈیو ہے۔



مزید دیکھنے کے لئے ان لنکس پہ جائیں۔


جاری ہے

نوٹ؛ یہ تحریر زینب ضیاء کی فرمائیش پہ لکھی گئ ہے۔ ان سے درخواست ہے کہ مختلف الفاظ کا اردو ترجمہ صحیح کر دیں۔ فی الوقت میرے پاس اردو کی کتاب موجود نہیں ہے۔

Monday, August 23, 2010

تشدد اور چند سوال

میں اب تک اس ویڈیو کو دیکھنے کی ہمت نہیں مجتمع کر پائ۔ جسکی  مذمت اس وقت ہر کوئ کر رہا ہے۔ شاید میں ایسا کبھی نہیں کر پاءونگی۔ مجھے اپنی اس کمزوری پہ ندامت ہے۔ میں ایک پر تشدد معاشرے کا حصہ تو ہو سکتی ہوں مگر اس سے سرزد ہونے والے ایسے حیوانیت کے مظاہروں کو دیکھنے سے کیوں گریز کرتی ہوں۔ 
اب جبکہ تمام لوگ اس واقعے کی کما حقہ مذمت کر چکے تو ہمیں اس سے اگلے مرحلے میں داخل ہونا چاہئیے۔ اور وہ ہے اسکی وجوہات کا تعین۔ کیونکہ ان دو لڑکوں کی جگہ کل آپ یا میں بھی اس مقام پہ ہو سکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے قتل ہونے والوں میں یا ہو سکتا ہے تماشہ دیکھنے والوں میں۔ ایک غلط وقت میں اگر آپ غلط جگہ پہ، غلط لوگوں کے ساتھ  موجود ہوں تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہجوم کا پر  تشدد ہونا اپنی نوعیت کا پاکستان میں پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی یہ واقعات ہوئے البتہ انکی ویڈیوز اس طرح سامنے نہیں آ سکیں۔
وجوہات کے جاننے سے قبل ایک اہم مرحلہ ہوتا ہے اور وہ ہے اپنے آپ سے سوالات۔
یہ مندرجہ ذیل چند سوالات ہیں جو میرے ذہن میں آتے ہیں ہو سکتا ہے آپکے ذہن میں اور مختلف سوالات بھی ہوں۔ تو ان  سوالوں اور انکے جوابوں میں ایکدوسرے کو شریک کرتے ہیں۔
 
کیا ایسے واقعات کی روک تھام ہونی چاہئیے یا مذمت کرنے کے چھوڑ دینا چاہئیے؟ 
کیا بد دعائیں لوگوں کو انکے انجام تک پہنچا دیں گی، کیا ان واقعات کا سد باب بد دعاءووں سے کیا جا سکتا ہے؟ کیا بد دعا دینے والے اپنی کم ہمتی کو ظاہر نہیں کرتے؟
کیا یہ واقعات محض معاشرے میں موجود کچھ لوگوں کی پر تشدد فطرت کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں یا ہم من حیث القوم ایک اخلاقی تنزلی کا شکار ہیں؟ ہماری اس اخلاقی تنزلی کا باعث مذہب سے ہماری دوری، یا تعلیم کی کمی یا  ہماری ایک مہذب قوم کے طور پہ تربیت نہ ہونا ہے؟
ہماری مذہب سے ظاہراً گہری وابستگی بھی ہمیں کیوں تشدد سے دور نہیں رکھ پاتی؟
کچھ لوگوں کے خیال میں مذہب سے دوری ، ان واقعات کا باعث ہے۔ تو وہ ممالک جو بالکل سیکولر ہیں وہاں ایسے واقعات کیوں اس تسلسل سے پیش نہیں آتے؟
جب ہم اس چیز پہ یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے ایسے افعال ہمارے اوپر عذاب کا باعث بنتے ہیں تو پھر بھی ہم کیوں انکو کرنے میں ذرا تامل نہیں کرتے؟
کیا کچھ لوگ موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی بالا دستی کے جذبے کو کمزوروں پہ ظلم کر کے تسکین دیتے ہیں اس لئے یہ واقعات ہو پاتے ہیں؟
کیا تشدد پسند فطرت، فیوڈل نظام کی دین ہے؟
کیا ایسا اجتماعی بہیمانہ تشدد، معاشرتی نا انصافیوں کا حصہ ہے؟ تو پھر ہم اسے اپنے اوپر ظلم کرنے والے طاقتور طبقے کے خلاف کیوں استعمال نہیں کرتے؟
کیا تشدد انسانی فطرت ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیا اسے سدھار کر کسی مثبت جذبے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے؟


Tuesday, August 17, 2010

جمود سے باہر

اٹھائیس جولائ کو سیلاب آنے کی پہلی اطلاع آئ۔ اور گذشتہ تین ہفتوں میں پاکستان کی اب تک کی تاریخ کے اس شدید سیلاب نےہمارے حکمرانوں کی بے حسی کے نئے باب رقم کر دئیے۔
ٹی وی پہ وزیر اعظم جیلانی ڈی آئ خان کے ایک اور جعلی کیمپ پر بذریعہ جہاز پہنچے۔ ایک بیان دیا اور پھر جہاز میں نڈھال ہو کر سیٹ پہ پڑے تھے کہ ٹی وی کے ایک اینکر پرسن نے انہیں جا لیا۔ وہ اس طرح سیٹ پہ نیم لیٹی حالت میں اسکے سوالوں کا نیم مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیتے رہے۔ اس سوال پہ کہ سیلاب کے بعد لوگوں کی بحالی کا کیا پروگرام ذہن میں ہے انہوں نے اپنے اسی مجاورانہ اطمینان سے جواب دیا۔ پہلے اس مرحلے سے تو نکلیں۔ یہ ہیں ہمارے سیلاب زدہ ملک کے مطمئن راضی بہ تقدیر، وزیر اعظم۔
زلزلہ آنے کے بعد مجھے یاد ہے کہ مشرف نے قوم سے خطاب کیا تھا۔ وہ تقریر خاصی پر جوش تھی۔ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ قوموں کی تاریخ میں ایسے حادثات ایک نئ تبدیلی کا باعث بن جاتے ہیں۔ اس میں انہوں نے حکومت کے اس وقت تک کئے گئے امدادیاقدامات بتائے اور آئیندہ کا لائحہ عمل واضح کیا  اور میسر پیسوں کے بارے میں بتایا۔ یہ الگ کہانی کے آگے کیا ہوا۔ لیکن اس چیز نے سراسمیہ قوم کے اندر ایک جذبہ تو پیدا کیا تھا۔ رضاکاروں کی ایک بڑی تعداد وہاں پہنچی۔ لوگوں نے مسائل کے مختلف حل تجویز کئے، وغیرہ وغیرہ۔ معاشی حالات اس وقت کافی اچھے تھے لوگوں نے دل کھول کر امدادی کاموں میں حصہ لیا۔
لیکن آج دیکھیں۔ اس وقت جب عوام مہنگائ کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ہر نیا دن چیزوں کے نرخ میں اضافے کی ہوشربا خبر لاتا ہے۔ ہم سنتے ہیں کہ زرداری صاحب کا فرانس میں محل ہے جو کسی زمانے میں انگلینڈ کے بادشاہ نے اپنی ملکہ کے لئے خریدا تھا۔ انکا کہنا ہے کہ یہ محل تو دراصل انکے والد صاحب نے اسّی کی دھائ میں خریدا تھا۔ البتہ یہ نہیں بتایا کہ اس وقت انکے والد گرامی کراچی کا بمبینو سینما کسی کے ساتھ شراکت میں چلا کر اتنی بڑی رقم کیسے اکٹھا کر پائے کہ اس سے قوم کے موجودہ نوجوانوں میں کم از کم پیسہ کمانے کی لگن تو پیدا ہوجاتی۔
ایک ایسی حکومت جسکے سربراہ اعلی سے لیکر ہر ہر نمائیندے کے بارے میں کرپشن کی کہانیاں زبان زد عام ہوں۔ انہیں کوئ شخص اپنا پیٹ کاٹ کر امدادی رقوم کیوں دے گا۔ اس لئے کہ آج سے دو سال بعد ان کے دنیا کے کسی امیر ترین ملک میں محل کی خبر سنے۔
حکومتی مشینری اس قدر نا اہل ہے کہ ان تین ہفتوں میں ان لوگوں کو قوم کو جذبہ دینے کے لئے الفاظ بھی نہ مل سکے۔ سندھ میں سیلابی پانی سے بیراجوں کو بچانے کے لئے بند توڑنے کے مسئلے پہ پارٹی کے درمیان پھوٹ پڑ گئ۔ ہر ایک چاہ رہا تھا کہ اسکا علاقہ بچ جائے۔ نتیجۃً جب خورشید شاہ، ممبر سندھ اسمبلی اپنے علاقے میں پہنچے تو لوگوں نے انکی گاڑی پہ پتھراءو کر دیا۔ ادھر وزیر خاتون حنا ربانی کھر جب اپنے علاقے پہنچیں تو انکے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا۔
مولانا فضل الرحمن سیلاب کے ایک ہفتے بعد سعودی عرب عمرے کے لئے روانہ ہوگئے۔ انکے انتخابی حلقے میں اس وقت آٹھ لاکھ افراد متائثرین میں شامل ہیں۔ انکے گھر اور مدرسے کو بچانے کی خاطر کہا جاتا ہے کہ وہاں سے گذرنے والی سڑک نہیں توڑی گئ اور سیلاب نے دوسرے علاقوں کو شدید متائثر کیا۔  
یہ وہ جمہوریت ہے جسکے لئے ہم پچھلے دو سال سے سن رہے ہیں کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔ ایک حکومت جسے لوگ ووٹ تو دیتے ہیں خدا جانے کیسے لیکن اسے اپنے نوٹ کی قدر کا صحیح حقدار نہیں سمجھتے۔
نوبت یہ ہے کہ اقوام متحدہ بھی ممبر ممالک کو  پاکستان کو قابل ذکر امداد دینے پہ راضی نہ کر سکی۔ ایک اندازہ، پاکستان کی کرپشن اور دہشت گردی کی وجہ سے مشہوری۔ 
اپوزیشن لیڈر نواز شریف نے کہہ دیا ہے کہ پاکستان اپنے پیروں پہ کھڑا ہونے کے قابل ہے ہمیں بین الاقوامی امداد نہیں چاہئیے۔ وزیر اعظم نے کہا ہمیں ہر امداد کی ضرورت ہے جو ہماری مدد کرے گا وہی ہمارا دوست ہوگا۔ مولانا فضل الرحمن کے ترجمان وزیر مولانا عطا الرحمن کے مطابق مولانا فضل الرحمن عمرہ ادا کرنے کے ساتھ سعودی حکومت اور خیراتی داروں سے پیسے جمع کرنے بھی گئے ہیں۔
عوام کی بڑی تعداد اپنے جاننے والے سماجی خدمت انجام دینے والے لوگوں سے رابطہ کر رہی ہے تاکہ انکی مدد مناسب حقدار تک پہنچے۔ عام لوگ اپنے طور پہ امداد جمع کر کے پہنچانے کا بند و بست کر رہے ہیں۔، وہ حکومت پہ، سیاسی رہنماءووں پہ کوئ اعتماد نہیں رکھتے۔ لوگ اپنے جاننے والوں کو باہر سے فنڈ جمع کر کے بھیج رہے ہیں مگر حکومت کو نہیں دینا چاہتے۔
   لیکن جہاں متائثرین کی تعداد دو کروڑ ہو وہاں یہ انفرادی کوششیں اتنی زیادہ نتیجہ خیز کیسے ثابت ہو سکتی ہیں۔  بلدیاتی نظام اس وقت مدد کر سکتا تھا لیکن سیاسی طاقتوں نے اسےاپنے پیسہ بٹورنے کے راستے میں ایک رکاوٹ سمجھا اور اسے ختم کر دیا۔ کسی نے اس قدم کے خلاف آواز تک نہ اٹھائ۔ 
جب تک حکومت اس میں دلچسپی نہ لے یہ عوامی منتشر کوششیں کیسے اتنے سنگین حادثے کو قابو میں لا سکتی ہیں۔  حکومتی ذرائع ان انفردای کوششوں سے کہیں زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ انکے پاس پورا انفرا اسٹرکچر ہوتا ہے، وسائل اور افرادی قوت ہوتی ہے۔ 
 ایسے ہی کراچی سے سندھ کے سیلابی علاقوں کی مدد کے لئے جانے والے  ٹرکس متائثرین تک پہنچنے سے پہلے راستے میں لوٹ لئے گئے۔ ادھر چار سدہ سے آنے  والے ایک دوست نے بتایا کہ امداد کی تقسیم صحیح طور پہ نہ ہونے سے ایسی ہی لوٹ مار ہو رہی ہے۔ حالات کا فائدہ اٹھا کر ڈاکو بھی سرگرم عمل ہو گئے ہیں۔ یہاں سندھ میں بھی ایسے واقعات کی بازگشت سنائ دے رہی ہے۔ آج ہی متائثرین کے ایک کیمپ میں امدادی سامان کی تقسیم کے وقت وہ بھگد ڑ مچی کہ پولیس کو شدید لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ ٹی وی ہی کی ایک خبر کے مطابق ایک اور جگہ،  ہجوم میں مچ جانےوالی بھگدڑ کو قابو میں لانے کے لئے کی جانے والی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہو گیا۔

یہ ہے ایک دھندلی سی تصویر حالات کی۔ ایک ایسی قوم کی جو ایک مضبوط مرکز نہیں رکھتی، ایک منتشر قوم جسے سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ وہ اس مصیبت میں کس کی طرف منہ اٹھا کر دیکھے۔ اس سب افراتفری سے کیسے باہر نکلیں، کون حالات سنبھالے، بے گھر لوگوں کو دوبارہ آباد کرنے میں کون مدد کرے، زمینوں کو شاداب کرنے کے وسائل کیسے ملیں۔ کون لوگ سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور ایک لائحہ ء عمل بنائیں گے جس پہ تمام قوم کو یقین اور بھروسہ ہوگا۔ ایک لا وارث اور تنہا ہونے کا احساس،  جو حالات پہ طاری ہے۔
 ان حالات میں کوئ اس انتشار کے درمیان ذرا بھی اتحاد کی علامت بنا ہوا ہے تو وہ پاک افواج ہیں۔ لیکن افواج کی تربیت تحفظ کے لئے ہوتی ہے۔ ملک کی ترقی کی منصوبہ سازی کرنا، عوام کو ایک بہتر زندگی گذارنے کی سہولیات دینا ان میں ایک کامیاب قوم ہونے کا جذبہ پیدا کرنا یہ انکا کام نہیں۔ 
کتنی عجیب بات ہے کہ ہر دفعہ جمہوریت اپنی آزمائیش کے وقت ناکام ہوجاتی ہے۔ اس لئے کہ یہ جمہوریت، جمہور کے لئے نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ معاشرے کے اعلی طبقات کو احساس طاقت دیتی ہے اور بس۔ اس تمام پس منظر میں لگتا  ہے کہ ہمیں متحد رہنے کے لئے ایک نئے سیاسی اور سماجی نظام کی ضرورت ہے۔ شاید وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے کئ دہائیوں کے جمود سے باہر نکلیں۔ اور عوام اور خواص کی تعریف کو بدل ڈالیں، بھیڑ بکریوں کی طرح زندگی گذارنے والوں کو اپنے انسان ہونے کا احساس بیدار کرنا ہوگا۔ یہ سیلاب شاید ایک نئ مضبوط تبدیلی سے قوم کو روشناس کرانے کا موقع ہے، ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔

Friday, August 13, 2010

اردو زبان کا ارتقاء

یہ وہ موضوع ہے جس پہ تحقیق دانوں نے اپنے طور پہ کافی اندازے لگانے کی کوشش کی۔ کچھ عرصے قبل جب میں نے ایک بلاگر ساتھی کے بلاگ پہ یہ دعوی پڑھا کہ اردو نے دراصل پنجابی سے جنم لیا ہے تو میں نے اپنی ایک دوست سے جو اردو ادب میں ماسٹرز کر چکی ہے اور کراچی کے ادبی افق پہ مصروف اور سرگرم ہیں ان سے یہ سوال کیا۔ کئ ادبی محافل میں مختلف ادباء سے یہ پوچھا اور جواب ملا کہ بھئ ہر علاقے کے لوگ کھڑے ہوتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ یہ انکے علاقے کی زبان ہے۔  اسکی وجہ اس زبان کی ہمہ گیریت ہے۔ میں نے انکی تحریر پہ بھی اسی قسم کے تبصرے کی کوشش کی مگر انہوں نے اس وقت اسے خاطر میں نہ لانے کا فیصلہ کیا ہوا تھا۔
اب مزید بلاگرز نے اس قسم کے ثقافتی تسلط  میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کی۔ تو میں نے سوچا کہ ڈاکٹر انور سدید کا یہ اقتباس سب کو ضرور پڑھنا چاہئیے۔ یہ مجھ جیسے کسی شخص نے نہیں بلکہ انہی کے درمیان کے ایک شخص نے لکھا ہے جو اس وقت اپنی عمر کی آٹھویں دہائ میں ہے لیکن ان لوگوں کی بد قسمتی کہ یہ شخص بھی ایک علم دریاءو ہے جو انہیں راس نہیں آتے۔
ڈاکٹر انور سدید کے نام سے میرے وہ قارئین اب اچھی طرح واقف ہونگے جو پچھلے نو دس مہینے سے میرے بلاگ پہ آرہے ہیں۔ انہوں نے جامعہ پنجاب سے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انکی کتاب 'اردو ادب کی تحریکیں' دراصل انکا پی ایچ ڈی کا تھیسس ہے جو انیس سو پچاسی میں منظر عام پہ آیا اور اپنی مقبولیت کی وجہ سے اسکے اب تک چار ایڈیشن آچکے ہیں۔ یہ اسوقت پاکستان کی تمام جامعات کے نصاب میں شامل ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ اسکے ارتقاء کے بارے میں اس کتاب میں کیا کہتے ہیں۔

مغلوں کی آمد سے پہلے مسلمان سلاطین نے قریباً دو سو سال تک اکناف ہند پر حکومت کی اور دہلی کو جہاں پہلے ترک شہ سواروں نے ڈیرے ڈالے تھے اتنی اہمیت حاصل ہو گئ کہ مسلمانوں نے اسے اپنا دارالسلطنت بنایا اور ترکوں کی یہ چھاءونی علم و ادب کا مرکز بن گئ۔ اس عرصے میں مسلمانوں اور مقامی باشندوں میں اختلاط کا سلسلہ غیر محسوس طور پہ جاری ہوا اور اس ادغام کا ایک غیر معمولی نتیجہ اردو زبان تھی۔ بقول حافظ محمود شیرانی
اردو کی داغ بیل اس دن پڑنی شروع ہو گئ تھی جس دن سے مسلمانوں نے ہندوستان میں آ کر توطن اختیار کیا۔
یہ نا موسوم یعنی بغیر نام کی زبان ہر علاقے میں مقامی بولی کے نام سے پہچانی گئ۔ چنانچہ شاہ میراں جی شمس العشاق نے اسے ہندی کا نام دیا امیر خسرو نے غرۃ الکمال میں مسعود سعد سلمان کے ہندوی دیوان کا تذکرہ کیا ہے۔ ملا وجہی نے سب رس میں اردو کو زبان ہندوستان کہا ہے۔ شاہ ملک بیجا پوری نے اسے دکنی اور محمد امین نے مثنوی یوسف زلیخا میں اسےگوجری سے موسوم کیا ہے یعنی گوجری کا نام دیا ہے۔ شیخ خوب محمد اسے گجراتی بولی کہتے ہیں۔ شیخ باجن نے اسے زبان دہلوی قرار دیا۔ مرور ایام سے زبان کے لئے ریختہ کا لفظ استعمال ہوا اور میر و غالب کے زمانے میں مروج رہا۔ اسی لئے غالب نے کہا
ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں کہ اگلے زمانے میں کوئ میر بھی تھا
اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں اردو اگرچہ بے نام  اور بے عنوان تھی لیکن سماجی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے وسیع علاقوں میں بولی جاتی تھی۔ چنانچہ اردو کے ارتقائ خاکے میں جو اولین نقوش نظر آتے ہیں ان میں پنجاب ، سندھ، گجرات، دکن، راجستھان اور گونڈیانہ وغیرہ کے بہت سارے الفاظ  موجود ہیں۔ ڈاکٹر سہیل بخاری نے رگ وید کو اردو کی تاریخ کا پہلا سرا قرار دیا ہے۔ اور یہ اس بات کی وضاحت ہے کہ اس زبان کا خام مواد مقامی بولیوں کی صورت میں رگ وید کے زمانے میں بھی موجود تھا۔ عربی کے الفاظ عرب تاجروں اور مسلمان فاتحین کی بدولت ہندوستان میں در آمد ہوئے اور جب مسلمان فاتحین دلی کی طرف بڑھے تو ان الفاظ کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ 
دلی چونکہ مسلمانوں کا پایہ ء تخت تھا اس لئے یہی مقام اردو کا بھی دارلخلافہ قرار پایا۔ علاءوالدین خلجی کی فتح دکن اور محمد تغلق کے دارالخلافے کی تبدیلی سے یہ اثرات جنوب میں پہنچے اور ایک مخلوط زبان وجود میں آگئ۔ جسکے اولین شعراء میں مسعود سعد سلمان لاہوری، فرید گنج شکر، بو علی قلندر، امیر خسرو، اور قطبن وغیرہ شامل تھے۔ چنانہ سید سلمان ندوی کے اس نظرئیے سے انکار ممکن نہیں کہ
یہ مخلوط زبان سندھ، گجرات۔ دکن، پنجاب اور بنگال ہر جگہ کی صوبائ زبانوں سے مل کر ہر صوبہ میں الگ الگ پیدا ہوئ، یہ کسی ایک قوم یا زبان کا نہیں بلکہ مختلف قوموں اور زبانوں کے میل جول کا ایک ناگزیر اور لازمی نتیجہ ہے۔ اور غوریوں ، خلجیوں اور تغلقوں کے زمانے میں پیدا ہو چکی تھی۔

Wednesday, August 11, 2010

ایک ماں اپنے بیٹے کی زبانی-۲

گذشتہ سے پیوستہ

سر سید کہتے ہیں کہ جو کچھ آمدنی ہوتی تھی اس میں سے پانچ فی صد کے حساب سے میری والدہ ہمیشہ الگ رکھتی جاتی تھیں۔ اور اس سرمایہ کو حسن انتظام کے ساتھ نیک کاموں میں صرف کرتی تھیں۔ کئ جوان لڑکیوں کا انکی امداد سے نکاح ہوا اکثر پردہ پوش عورتیں جو معاش سے تنگ ہوتیں انکی ہمیشہ خبر گیری کرتیں۔ غریب خاندانوں کی جوان لڑکیاں جو بیوہ ہو جاتیں انکو دوسرا نکاح کرنے کی نصیحت کرتیں۔ دوسرے نکاح کو برا سمجھنے والوں سے نفرت کرتیں۔ غریب رشتے داروں کے یہاں جاتیں اور خفیہ حیلے بہانے سے انکی مدد کرتیں۔ بعض رشتے دار مردوں نے ایسی عورتوں سے شادی کر لی تھی جن سے ملنا معیوب سمجھا جاتا مگر وہ برابر انکے گھر جاتیں اور انکی اولاد سے شفقت سے پیش آتیں۔
انکی والدہ کو شاہ غلام علی سے عقیدت تھی  اور وہ ان سے بیعت تھیں۔ لیکن انہوں نے کبھی کوئ منت یا نذر یا نیاز نہیں مانی۔ تعویذ یا گنڈے پر تاریخوں یا دنوں کی سعادت یا نحوست پر انکو مطلق یقین نہ تھا۔ لیکن اگر کوئ کرتا تو اسکو منع نہ کرتیں اور یہ کہتیں کہ اگر انکو منع کیا جائے اور اتفاق سے وہی امر پیش آجائے جسکے خوف سے وہ ایسا کرتے ہیں تو انکو یقین ہو جائے گا کہ ایسا نہ کرنے سے یہ ہوا۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو نہ ہوتا۔
سر سید کے ننہیال والے شاہ عبدالعزیز سے عقیدت رکھتے تھے۔ شاہ عبدالعزیز کے یہاں بچوں کو ایک گنڈا دیا کرتے تھے۔ جس میں ایک ہندسہ یا حرف سفید مرغ کے خون سے لکھا ہوتا۔ اور جس بچے کو دیا جاتا اسے بارہ برس تک انڈہ یا مرغی کھانے کی ممانعت ہوتی۔ سرسید کے صاحبزادوں کو بھی انکے ننہیال والوں نے یہ گنڈے پہنائے۔ اسکے باوجود جب یہ بچے انکی والدہ کے ساتھ کھانا کھاتے تو وہ کھانے میں موجود انڈہ یا مرغی بلا تامل کھلا دیتیں۔
سر سید کو بچپن میں باہر تنہا جانے کی اجازت نہ تھی اور ہر چند کے نانا کی اور انکی والدہ کی حویلی میں صرف ایک سڑک درمیان میں تھی جب کبھی وہ نانا کے یہاں جاتے تو ایک آدمی ساتھ میں جاتا۔ اس لئے بچپن میں گھر سے باہر عام صحبتوں میں بیٹھنے یا آوارہ پھرنے کا بالکل اتفاق نہ ہوا۔
سر سید کو انکی ایک خادمہ نے جیسا کہ صاحب حیثیت خاندانوں کا دستور تھا،  پالا تھا اور وہ اسے ماں بی کہہ کر بلاتے تھے۔
انہیں ان سے بہت محبت تھی۔ جب وہ پانچ برس کے تھے تو انکا انتقال ہو گیا۔ انہیں اسکے مرنے کا بہت رنج ہوا۔ والدہ نے سمجھایا کہ وہ خدا کے پاس گئ ہے۔ بہت اچھے مکان میں رہتی ہے۔ بہت سے نوکر چاکر اسکی خدمت کرتے ہیں اور اسکی بڑے آرام سے گذرتی ہے تم مطلق فکر نہ کرو۔ مدت تک اسکی ہر جمعرات کو فاتحہ ہوتی۔ مرتے وقت اس نے کہا تھا کہ میرا سارا زیور سید کا ہے۔ مگر والدہ اسکو خیرات کرنا چاہتی تھی۔ ایکدن انہوں نے مجھ سے کہا کہ اگر تم کہو تو یہ گہنا ماں بی بی کے پاس بھیج دوں۔ میں نے کہا ہاں بھیج دو۔ والدہ نے وہ سب گہنا مختلف طرح سے خیرات کر دیا۔
سر سید کا بیان ہے کہ 
میں جب دلّی میں منصف تھا تو میری والدہ کی یہ نصیحت تھی کہ جہاں تم کو ہمیشہ جانا ضرور ہے وہاں کبھی سواری پہ جایا کرو اور کبھی پیادہ پا جایا کرو۔ زمانے کا کچھ اعتبار نہیں۔ کبھی کچھ ہے اور کبھی کچھ۔ پس ایسی عادت رکھو کہ ہمیشہ اسے نبھا سکو۔
ایک دفعہ کا ذکر بتاتے ہیں کہ وہ ایک زیبن نامی بڑھیا کی خبر گیری کرتی تھیں۔ اتفاق سے وہ دونوں ایک ساتھ بیمار پڑ گئیں۔ حکیم  نے افاقے کے لئے والدہ صاحبہ کے لئے ایک معجون کا نسخہ تیار کیا جو قیمتی تھا مگر مقدار میں صرف اتنا ہوا کہ ایک شخص اسے استعمال کر لے۔ انہوں نے وہ اپنی والدہ کو پہنچا دی۔ انکی والدہ کو خیال آیا کہ زیبن کو کون تیار کروا کے دے گا تو انہوں نے وہ معجون پابندی سے زیبن کو کھلا دیا۔ چند دنوں بعد جب میں نے ان سے پوچھا کہ معجون نے آپکو بہت فائدہ کیا تو ہنسیں اور کہا کہ کیا بغیر دوا کے خدا صحت نہیں دے سکتا۔ معلوم ہوا کہ دوا تو صرف زیبن نے کھائ لیکن صحت خدا نے دونوں کو دی۔ 
اب اس آخری واقعے کے بعد، محترم قارئین، دوا علاج کرنا مت چھوڑ دیجئیے گا۔  خدا توکلی اچھی چیز ہے مگر اونٹ کو رسی ڈالنا ضروری ہے۔ تو یہ تھا سر سید کی والدہ کا ایک اجمالی خاکہ، ایک ایسی مسلمان خاتون جو آج سے دو  سو سال پہلے موجود تھیں۔ سرسید کی طبیعت اور مزاج پر اپنی والدہ کی عادات و خصائل کا خاصہ اثر تھا۔
مندرجہ بالا واقعات حالی کی حیات جاوید سے لئے گئے ہیں۔

ایک ماں اپنے بیٹے کی زبانی-۱

اگست کا مہینہ شروع ہونے سے قبل میرا مصمم ارادہ تو یہ تھا کہ اس مہینے سرسید پہ جو کچھ لکھنا چاہ رہی ہوں اسے لکھ دوں۔ کہ دستور جو کچھ ہو لیکن موقع اچھا ہے۔ لیکن ایک تو میں سات سمندر پار بمعہ اپنے خاندان کے ہجرت نہیں کر گئ  ہمیشہ کے لئے۔ اور یہ کہہ کر مٹی پاءوں کہ سانوں کی۔ دوسرے یہ کہ تباہ کن سیلاب جیسا کہ زرداری صاحب نے بھی فرمایا بغیر اطلاع کے آ گیا۔ تیسرے یہ کہ کراچی میرا جائے توطن اور متوقع جائے مدفن ہے۔ اس طرح میرا قلم شہر کراچی اور ملک کے درمیان ایک فری الیکٹرون کی طرح حرکت میں آگیا۔  ادھر جو لوگ شہر سے باہر تھے انکا شہر میں آ کر اٹک گیا۔ پھر یہ کہ جوتم پیزار مجھے پسند تونہیں کہ جمہوری طریقہ نہیں، لیکن پھر بھی جمہور اور جوتے کے درمیان چلی جنگ، یہاں بھی جگہ پا گئ کہ یہی رائج الوقت جمہوریت ہے۔
خیر، سر سید احمد خان پہ اردو وکیپیڈیا پہ ایک تفصیلی مضمون موجود ہے۔ تو پھر میرا  دل کیوں چاہ رہا ہے کہ ان پہ لکھوں؟
بات یہ ہے کہ  یہ مضمون  دستاویزی قسم کا ہے۔ اس سے انکے کارنامے تو پتہ چلتے ہیں لیکن بحیثیت ایک زندہ انسان انکی شخصیت محسوس نہیں ہوتی۔
ادھر میں نے انکے حوالے سے کچھ کتابیں دیکھیں، جنکا تذکرہ آگے کسی تحریر میں آئے گا۔ لیکن ایک دن میں نارتھ ناظم آباد کراچی سے گذرتے ہوئے وہاں واقع ایک چھوٹی سی لائبریری میں داخل ہو گئ۔ اسکا نام تیموریہ لائبریری ہے۔ یہاں مجھے ایک چھوٹی سی کتاب ملی جسکا نام ہےسر سید احمد خان، شخصیت اور فن۔ اس کتاب کے مصنف ہیں جمیل یوسف اور اسے اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد نے شاٰئع کیا ہے۔ مجھے یہ کتاب اس حوالے سےخاصی پسند آئ۔
 اس سلسلے کی پہلی تحریر انکی والدہ کے حوالے سے ہے۔
  سر سید کے خاندان ددھیالی خاندان کے دہلی کے مغل خاندان سے روابط تھے۔انکے دادا کو بادشاہ کی طرف سے خطابات اور عہدہء احتساب و قضا دیا گیا۔ انکے والد کو بھی شاہ کی طرف سے یہی خطبات اور منصب پیش کیا گیا۔ مگر اپنی آزاد طبیعت اور درویشی کی وجہ سے انہوں سے اسے قبول کرنے سے معذرت کر لی۔
انکے نانا، خواجہ فرید الدین احمد خان بہادر،  ۱۸۱۵ء میں اکبر شاہ عالم ثانی کے وزیر اعظم رہے۔ اور دبیرا لدولہ امین الملک مصلح جنگ کے خطابات پائے۔ گورنر جنرل ولزلی نے انہیں اپنا وزیر بنا کر ایران بھیجا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی طرف سے منصب وزارت کی پیش کش کو اپنی سب سے بڑی بیٹی عزیزالنساء بیگم  جو کہ سرسید کی والدہ تھیں، انکے مشورے پہ قبول نہ کیا۔
سر سید کی والدہ ماجدہ غیر معمولی سیرت و کردار کی مالک اور بڑی دانشمند خاتون تھیں۔  وہ نہ صرف بڑی راسخ العقیدہ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ صحیح العقیدہ مسلمان تھیں۔ سر سید ااپنی والدہ کے فہم دین کے متعلق لکھتے ہیں
اس زمانہ میں جبکہ میرے مذہبی خیالات اپنی ذاتی تحقیق پر مبنی ہیں اب بھی میں اپنی والدہ کے عقائد میں کوئ ایسا عقیدہ جس پر شرک یا بدعت کا اطلاق ہو سکے نہیں پاتا۔
سرسید کی عظیم شخصیت اور بے مثل سیرت و کردار کی تشکیل و تعمیر میں زیادہ تر انکی والدہ کی تربیت کا حصہ ہے۔ انکے والد میر متقی ایک آزاد منش اور درویش صفت انسان تھے اور زیادہ وقت اپنے مرشد حضرت شاہ غلام علی کی خانقاہ پہ گذارتے اور انکی صحبت میں رہتے تھے۔ گھر کا انتظام و انصرام سر سید کی والدہ کے سپرد تھا۔ 
اپنی والدہ کے بارے میں بتاتے ہیں
جب میں انکو سبق سناتا یا نئے سبق کا مطالعہ انکے پاس بیٹھ کر دیکھتا تو ایک لکڑی جس میں سوت کی گندھی ہوئ تین لڑیں باندھ رکھی تھیں۔ اپنے پاس رکھ لیتیں۔ وہ خفا تو اکثر ہوتی تھیں مگر ان سوت کی لڑوں سے کبھی مجھے مارا نہیں۔
دس گیارہ برس کی عمر میں ایک دفعہ ایک بوڑھے نوکر کو تھپڑ مار دیا، والدہ نے گھر سے نکال دیا۔  نوکرانی نے چپکے سے خالہ کے گھر پہنچا دیا۔ دو دن خالہ کے گھر چھپے رہے تیسرے دن خالہ لیکر والدہ کے پاس گئیں۔ تاکہ قصور معاف کرائیں، انہوں نے نوکر سے معافی مانگنے کی شرط پہلے رکھی۔ ڈیوڑھی میں جا کر نوکر کے آگے ہاتھ جوڑے تو قصور معاف ہوا۔
سر سید کے بڑے بھائ کا جواں عمری میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔ مرض الموت میں وہ انکے پاس ہی بیٹھی رہتیں۔ ایک مہینہ اسی حالت میں رہ کر انتقال کر گئے۔ انکی آنکھوں سے آنسو جاری تھے کہ فجر کی نماز کا وقت ہو گیا۔ وضو کر کے نماز پڑھی اور اشراق تک مصلے پہ بیٹھی رہیں۔ انہی دنوں ایک رشتے دار کی بیٹی کی شادی ہونے والی  تھی۔ شادی میں صرف چار دن رہ گئے تھے کہ یہ حادثہ پیش آگیا۔ لوگوں نے حسب دستور شادی کو ملتوی کرنا چاہا انکی موت کے تین دن بعد وہ انکے گھر گئیں اور کہا میں شادی والے گھر میں آئ ہوں۔ ماتم تین دن سے زیادہ نہیں ہوتا۔ جو خدا کو منظور تھا ہو چکا۔ تم شادی کو ہرگز ملتوی نہ کرو۔

جاری ہے

Sunday, August 8, 2010

ناراض کیوں ہوتے ہو

جیو چینل بند کر دیا گیا اور پی پی کے جیالوں نے اسکے آفس پہ حملہ کیا۔ 
کیوں؟
یہ بتانے کی مجھے ضرورت تو نہیں کہ زرداری صاحب انگلینڈ میں ڈیوڈ کیمرون سے 'کامیاب ملاقات' کے بعد  اپنے حمائتیوں سے کنونشن ہال میں خطاب کر رہے تھے کہ ان پہ ایک ادھیڑ عمر شخص نے جوتے پھینکنے کی کوشش کی۔ واقعے کے فورا بعد،  انکے ترجمان فرحت اللہ بابر نے اس واقعے کے پیش آنے سے انکار کیا۔ جبکہ وفاقی وزیر اطلاعات قمرزماں کائرہ نے پہلے اقرار اور پھر انکار کی پالیسی اپنائ۔
بش پر پڑنے والے جوتے نے اتنی مقبولیت حاصل کی کہ اب ہر ناراض شخص یہ کرنے کو تیار نظر آتا ہے۔ اس واقعے کے پیش آنے کے بعد لوگوں کے ہاتھ ایک نئ دلچسپی لگی۔ مغرب جہاں جوتوں کا یہ استعمال پہلے نہ تھا اس سے روشناس ہوا۔ اور نیٹ کی دنیا میں کئ گیمز آئے جن میں جوتوں کو استعمال کیا گیا تھا۔ یہی گیمز اس وقت زرداری صاحب کے لئے بھی آگئے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد پی پی کی ایک خاتون نے سابق وزیر اعلی سندھ ارباب رحیم کو سندھ اسمبلی کی عمارت کے اندر جوتوں سے مارا۔ اسکے بعد، وہ جا کر دبئ میں بیٹھ گئے۔ ایسی روائیتوں کی بنیاد پڑنے کے بعد تو یہی ہونا تھا۔ اس واقعے سے بھی لوگوں نے لطف لیا تھا۔ کل رات ارباب غلام رحیم نے ٹی وی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اسے مکافات عمل سے تعبیر کیا۔ معلوم نہیں صدر صاحب واپس پاکستان آئیں گے یا وہ بھی دبئ میں رہنا پسند کریں گے۔
تازہ ترین واقعے کے منظر عام پہ آتے ہی پاکستان میں کھلبلی مچ گئ۔ صدر صاحب کا یہ دورہ پہلے ہی حد سے زیادہ تنقید کا شکار رہا، ملک میں اسے عالمی پیمانے پہ پاکستان کی بے عزتی اور صدر صاحب کے بے حسی سے تعبیر کیا جا رہا تھا۔ 
جیو چینل بند کر دیا گیا، کیونکہ انہوں نے جوتا مارنے والے شخص شمیم خان کا انٹرویو حاصل کر لیا تھا۔ صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے چیلینج کیا تھا کہ اگر اسکی کوئ فوٹیج موجود ہے تو لائیں۔  کیونکہ ہال کے اندر کسی کو کیمرہ یا موبائل لےجانے کی اجازت نہ تھی۔ لیجئیے جناب شمیم خان نے تو پورا انٹرویو دے دیا۔

You need to install or upgrade Flash Player to view this content, install or upgrade by clicking here.


یہ ہے پاکستان میں جیالوں کے ناراض ہونے کی وجہ۔
ناراض نہ ہو تو عرض کروں، اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔  آج ہم کل تمہاری باری ہے۔ برا ماننے کی ضرورت نہیں، شاید کل آپکی باری آجائے یہ کہنے کی کہ یہ مکافات عمل ہے۔


Saturday, August 7, 2010

عذاب کا خواب

اب قوم پہ عذاب کی پیشن گوئیاں پورا ہونے کا وقت لگتا ہے آ ہی پہنچا ہے۔ عبدالقادر حسن صاحب ہمارے سینیئر صحافی ہیں۔ انکی سب سے اچھی بات جو مجھے  پسند ہے کہ انہوں نے ہر اچھے اور برے وقت میں شریف برادران سے وفاداری نبھائ۔
ابھی کچھ دنوں پہلے انہوں نے ٹرانسپیرینسی انٹر نیشنل کے مرتب کردہ نتائج پہ ایک کالم لکھا۔ جس میں پاکستان کے صوبوں پہ مہربانی کرتےہوئے انکی بھی گریڈنگ کی گئ اور پنجاب کو سب سے کم کرپشن کا حامل صوبہ قرار دیا گیا۔ جناب عبدالقادر حسن صاحب نے اس بات پہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے صوبے میں کم کرپشن کا باعث پنجاب کے نیک نیت حکمرانوں کو لکھا۔ 
ابھی میں سوچ ہی رہی تھی کہ اپنے 'پنجاب کے رہنے والے بھائیوں' سے دریافت کروں کہ کیا نیک حکومت کے مزے لوٹ رہے ہیں آپ اکیلے ہی اکیلے اور ہمیں خبر بھی نہیں۔ رشوت کا خاتمہ ہو چکا ہو گا، مجرمین سب جیلوں میں ہونگے، ملزمین پہ قانون کے حساب سے مقدمے چل رہے ہونگے، امیر اور غریب سب ایک جگہ سے خریداری کر رہے ہونگے۔ کیا سہانی زندگی اس زمین پہ آپکو حاصل ہے ۔
لیکن میں تو سوچتی ہی رہ گئ، انہوں نے اپنے تازہ کالم میں آنے والی قدرتی آفات پہ روشن خیالوں  اور لبرلزکے اس خیال پہ دو حرف بھیجے کہ یہ سب قدرتی توازن خراب ہونے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔  بحیثیت ایک 'پاکستانی لبرل' میں تو یہ بھی سوچتی ہوں کہ ان قدرتی عوامل کے عدم توازن کی وجہ سے وہ علاقے زیادہ تباہی کا شکار ہوتے ہیں جہاں پسماندگی اور غربت زیادہ ہو۔ لیکن ایک بزرگ، جہاندیدہ صحافی جب یہ بات کہہ رہے ہیں تو میں نے بھی اپنے اس شیطانی خیال سے رجوع کیا۔ لیکن رجوع کرنے کے بعد جب آگے پڑھتی ہوں تو آخر میں وہ لکھتے ہیں کہ

یاد کریں کہ قوم پہ آفات کا یہ بے رحم سلسلہ کیا اس سانحے کے بعد شروع نہیں ہوا جب لال مسجد کی بچیوں پہ ٹینک چڑھا دئیے گئے۔

نظریہ ٹھونسنا کسے کہتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ کیسے ہوتی ہے برین واشنگ شاید ایسے۔ کیونکہ میں اپنے دماغ کو پہلے سے کافی ستھرا پاتی ہوں۔
اگرچہ کہ یہ خیال بھی آتا ہے کہ  دنیا کا کوئ بھی شخص جب ظلم کا شکار ہوتا ہے تو چیختا ہے، چاہے وہ خودکش حملہ آور کے بم سے پھٹ کر مرے، طیارے کے پھٹنے سے مرے، زنا بالجبر کا شکار ہو رہا ہو، سڑک پہ برہنہ پھرایا جا رہا ہو، تین تین دن کچھ کھانے کو نہ ملے اور خود کشی کرنے جا رہا ہو، اپنے آزاد پیدا ہونے کے حق کو حاصل کرنے کے بجائے کسی زمیندار کی ذاتی جیل میں پڑا ہو، اپنی زندگی بھر کی پونجی لٹیروں کو حوالے کرنے کے بعد اب اپنے بچوں کو اور اپنے آپکو دینے کے لئے کچھ نہ رہا ہو، اکلوتی اولاد سر راہ چلتی ہوئ گولی سے مرے، صحن میں کھڑے بچے دو منشیات کے مافیا کے درمیان فائرنگ کی زد میں آکر مر جائیں، ایک مختلف مذہب یا زبان یا ثقافت رکھنے کی وجہ سے مارے جائیں۔ یہ واقعات پچھلی کئ دہائیوں سے تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ مجھے یقین ہے ان میں سے ہر ایک اپنے اس غیر متوقع، اندوہناک انجام سے پہلے ضرور چیختا ہوگا، مدد، مدد، مجھ پہ ظلم ہورہا ہے، بچاءو۔
 کیا دنیا میں عذاب صرف ان مظلومین کی وجہ سے آتا ہے جو قرآن کی تلاوت کرتے ہیں یا ہر مظلوم کی آہ عرش تک پہنچتی ہے اسے ہلا دیتی ہے اور باریابی پاتی ہے۔
پھر یاد آتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا دل ہلا دینے والا زلزلہ سانحہ ء لال مسجد سے دو سال قبل آیا تھا۔ لیکن، چونکہ یہ سانحہ انکے اخذ کردہ نتیجے سے نہیں ملتا اس لئے اسکا تذکرہ یہاں بے کار ہے۔
اب میں میں اپنی اس رائے سے رجوع کر رہی ہوں کہ یہ سیلاب کی مصیبت قدرتی تبدیلیوں کی طرف ایک اشارہ ہے۔ اور میں اس رائے کی طرف بڑھ رہی ہوں کہ یہ دراصل اللہ کا ایک عذاب ہے جو اس قوم پہ نازل ہو رہا ہے۔ لیکن ایک خیال جو میرے قدم پکڑے لیتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر یہ عذاب ہے کیونکہ اب زیادہ تر لوگ یہی کہہ رہے ہیں تو آخر یہ عذاب سب سے زیادہ خیبرپختونخواہ میں کیوں ہو رہے ہیں۔ اپنی پہلے والی حالت میں تو میں یہی کہتی کہ چونکہ غربت اور پسماندگی ہر طرح کی چاہے وہ معاشی ہو، تعلیمی ہو یا معاشرتی سب سے زیادہ ان علاقوں میں ہے تو قدرتی عوامل کی وجہ آنے والی مصیبت ،عذاب بن گئ  ہے۔ لیکن نہیں، میں تو اب اسی سوچ پہ ہوں کہ یہ عذاب ہے۔ لیکن یہ کیسا عذاب ہے جو ان علاقوں کو زیادہ متائثر کر رہا ہے جہاں زیادہ دینی مزاج کے حامل لوگ رہتے ہیں، وہ پچھلی کئ دہائیوں سے جہاد جیسے عظیم مقصد کے پیچھے اپنی جانیں بھی قربان کر رہے ہیں ۔ ایسا کیوں ہے کہ وہی لوگ اس تباہی کا سب سے زیادہ شکار ہو رہے ہیں۔ 
اب اسے کیا سمجھا جائے، عذاب، یا قدرتی عمل، نامناسب منصوبہ بندی اور پسماندگی کا گٹھ جوڑ۔

Friday, August 6, 2010

سیلاب سے سیر تک

ملک میں سیلاب آیا ہوا ہے۔ ڈیڑھ ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔  صرف خیبر پختونخواہ میں بیالیس لاکھ کے قریب  لوگ متائثر ہوئے ہیں۔ مال مویشی، فصل کا نقصان الگ۔
ادھر کراچی میں فسادات کے نتیجے میں اسی سے زائد افراد تین دن میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ پولیس اور رینجرز کو فسادیوں کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کا حکم لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ گولی کس پہ چلے گی۔ شاید ابھی تک ٹاس ہو رہا ہے۔ شہر میں کاروباری سرگرمیاں ماند۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس قسم کی تمام سرگرمیاں کسی جگہ کے سیاسی استحکام سے جڑی ہوتی ہیں۔  حکومت کو اس سلسلے میں جو ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں وہ انہیں کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ اس لئے اہم سوال یہ ہے کہ شہر کی معیشت کا پہیہ دوبارہ ہمواری سے چلنے کے قابل کیسے ہوگا۔
 ایک ایسی افراتفری کے عالم میں صدر صاحب، فرانس اور انگلینڈ کی سیرپہ روانہ ہو گئے۔ حالانکہ کچھ لوگوں نے سمجھانے کی کوشش بھی کی۔ پاکستان کی تاریخ کا بد ترین سیلاب آیا ہوا ہے آپکی با برکت ذات یہاں رہے گی تو دل کو ڈھارس رہے گی۔ مگر انہوں اسی رقت سے کہا کہ ۔ لیکن  داءود کامران میرا مطلب ہے ڈیوڈ کیمرون کا کیا کروں اس نے دشمن ملک میں بیٹھ کر کہا کہ پاکستان دہشت گردی برآمد کر رہا ہے۔ میری غیرت اسے گوارا نہیں کرتی۔ میں جاءونگا اوئے مجاوراں۔ پاکستان کھپے کھپے۔


پھر لوگوں نے سمجھایا کہ حضور وہاں جانے کے بجائے گھر پہ ہی رہئیے اور یہاں سے بیان جاری کر دیں کہ ہمیں تمہاری بک بک قطعاً پسند نہیں آئ۔ ہم تم پہ تھوکتے بھی نہیں۔ اس وقت آپکا جانا غیرت کے منافی ہے۔ مگر انہوں نے کہا کہ نہیں یہ پتر ہٹاں تے نئیں مل دے۔ میں انہیں انکے گھر میں ذلیل کر کے آءونگا، ورنہ ہم جشن آزادی کیسے منائیں گے۔  مذاق سمجھا ہوا ہے انہوں نے ہر بات کو۔ اگر پاکستان دہشت گردی بر آمد کر رہا ہے تو اسکے کمیشن میں میرا حصہ کہاں ہے۔


پہلا ذلیل کرنے والا بیان انہوں نے فرانس میں ایک بہترین ہوٹل سے نکلنے کے بعد دیا۔ اپنے اس بیان میں انہوں ے کہا کہ بین الاقوامی کمیونٹی طالبان سے جنگ ہار رہی ہے۔ 
چغل خوروں کا کہنا ہے کہ انکا فرانس میں ایک محل موجود ہے پھر بھی انہوں نے پاکستانیوں پہ اس ہوٹل کی رہائیش کا بوجھ ڈالا۔ یہ دو ٹکے کے چغل خور بھول جاتے ہیں کہ وہ اس وقت  پاکستان کی جگ ہنسائ کے آفیشل ٹور پہ ہے۔
انکی پارٹی کی ایک جیالی خاتون فوزیہ وہاب کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ان گنت حکمرانوں میں صرف زرداری صاحب ایسے ہیں جو برطانیہ کے وزیر اعظم سے انکی ذاتی رہائیش گاہ پہ ملیں گے باقی سب تو آفس میں ملتے رہے۔ اس پہ کچھ دل جلوں نے کہا کہ سنجیدہ ٹورز تو آفس میں ہی ہوتے ہیں۔ البتہ جائداد وغیرہ کی ڈیل ذاتی رہائیش گاہ پہ ہوتی ہے۔ اس فارن پالیسی کے ٹور میں فارن منسٹر کے ساتھ میں نہ ہونے کی وجہ انہوں نے یہ بتائ کہ صدر زرداری کو کیا کسی فارن منسٹر کی ضرورت ہے۔ تب تو فارنمنسٹر کو ابھی ابھی برخواست کر کے انکی بچنے والی تنخواہ کو سیلاب زدگان کے فنڈ میں ڈالدینا چاہئیے۔
برطانیہ کے اخبار جو پہلے ڈیوڈ کیمرون کی مذمت میں لگے ہوئے تھے کہ اس نے ایسا بیان دیا ہی کیوں۔ اب اس بات پہ اپنی حیرانی کا واویلہ مچائے ہوئے ہیں کہ صدر زرداری اپنے ملک کے اتنے بد ترن حالات میں ڈیوڈ کیمرون کی رہائیش گاہ کا جائزہ لینے کیوں آئے ہیں؟ گورے تو ہیں ہی ہمیشہ کے ایسے ہی فساد کے بیج بونے والے۔
گوروں کو نہیں معلوم کہ یہ غیرت کا معاملہ ہے۔ انکے یہاں غیرت ہوتی جو نہیں ہے۔
یہاں وطن میں غیرت کے معنوں پہ نئ ریسرچ شروع ہو گئ ہے کہ امریکی ہیلی کاپٹر سوات میں پھنسے لوگوں کو ریسکیو کرنے سے لگے ہوئے ہیں۔ کیا امریکیوں سے اس طرح کی امداد لینا جائز ہے۔
گیلانی صاحب، انہیں صاحب لکھتے  ہوئے کچھ کچھ ہوتا ہے کہ انہیں دیکھ کر مسٹر بین خدا جانے کیوں یاد آتا ہے حالانکہ اس کمبخت کی اتنی پیاری مونچھیں بھی نہیں ہیں۔ خیر انہوں نے بھی میانوالی میں سیلاب زدگان کے لئے ایمرجینسی میں ایک اسکول میں قائم کئےجانےوالے ہسپتال میں جا کر ایک کامیاب فوٹو سیشن کرایا اور کہا کہ صدر کےملک میں موجود ہونے کی کوئ ضرورت تو نہیں میں ہوں ناں تصویری سیشنز کے لئے، میرا چہرہ زیادہ فوٹو جینک ہے۔ خطرہ یہ پیدا ہو چلا ہے کہ انکی عدم ضرورت کہیں بڑھ کر ہمیشہ کے لئے نہ ہو جائے۔
گیلانی صاح__________ب، اب کراچی بھی آئیں گے تاکہ یہاں کے حالات کے ساتھ ایک فوٹو سیشن ہو سکے۔  یہ تمام تصویریں بعد از وزارت عظمی سند رہیں گی اورانکی اگلی نسل کی بڑھکوں میں  نہ صرف کام آئیں گی بلکہ دوبارہ وزارت عظمی کے لئے انکی نسل میں سے لوگوں کو ترجیح دینے کا باعث بھی بنیں گی۔ کلاءون وزیر اعظم بنے رہنے کا نسلی تجربہ۔ لیکن انہوں نے ایک کام کی بات اور کہی کہ  اگر زرداری صاحب نہ جاتے اور ملک میں ہی رہتے تو بھی ایشوز کھڑے ہوتے رہتے، زرداری صاحب کی شخصیت ہے ہی ایسی۔
دل جلوں نے کہا کہ ڈیڑھ  ہزار سے اوپر لوگ تو سیلاب کی نظر ہو گئے کچھ نہ ہوا، وہ کہتے ہیں کہ ایک زرداری سب پہ بھاری۔ اگر وہ ہوتے تو آزما کر دیکھ لینے میں کیا حرج تھا۔

Wednesday, August 4, 2010

ایک دوست کا نقصان

یہ ایسا موقع ہے پہ جب کچھ لوگ یہ ثابت کرنے پہ لگے ہوئے ہیں کہ ایم کیو ایم کے منتخب رکن صوبائ اسمبلی رضا حیدر کا قتل عین اصولی ہے۔ اور جو ہوا وہ بالکل صحیح ہوا اور اس پارٹی کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہئیے۔ باقی سب دہشت گردوں کے ساتھ ہم راضی باضی ہیں۔ اور دوسری طرف ایم کیو ایم کے نوجوان افسوس اور غصے میں سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کر ڈالیں۔ اور کسے انجام تک پہنچا دیں۔ پارٹی نے اسکا سارا الزام اے این پی پہ ڈالا ہے۔  بعد میں پیش آنے والے واقعات میں جو کہ حکومت سندھ کی نا اہلی کا واضح ثبوت ہیں۔  شہر میں ساٹھ کے قریب لوگ مارے جا چکے ہیں۔ یوں شہر ایک دفعہ پھر دہشت کی زد میں ہے۔
چونکہ میں اس نسل سے ہوں جس نے کراچی میں جنم لیا اورانیس سوچھیاسی میں بپا ہونے والے ہنگاموں میں قتل و غارت گری کو قریب سے نہ صرف  دیکھا بلکہ سینکڑوں خاندانوں کو ایکدن میں تباہ ہوتے دیکھا  اور اسکے بعد کراچی کو ایک لمبے عرصے تک اپنی بقا کی جنگ لڑتے دیکھا بلکہ خود بھی اس میں شامل رہی مع اپنے خاندان کے اس لئے سمجھ میں آتا ہے کہ یہ سلسلہ کہاں تک جا سکتا ہے۔   چونکہ اس بات کی امید ہے کہ میں دفن بھی اسی شہر میں ہونگی تو میں ان لوگوں میں سے نہیں ہو سکتی جو اس واقعے پہ دلی چین  اور سکون پائیں اور یہ سوچیں کہ خس کم جہاں پاک۔ در حقیقت اس شہر سے تھوڑی سی بھی انسیت رکھنے والا شخص ایسا نہیں سوچ سکتا۔
آج  ڈان اخبار پہ سے گذرتے ہوئے جب میں نے لیٹرز ٹو ایڈیٹر میں کراچی کے فسادت کے حوالے سے خط پڑھے تو میری نظر ڈاکٹر شیر شاہ سید کے خط پہ رک گئ۔ وہ کراچی کی ان شخصیات میں سے ہیں جن سے مل کر ہی نہیں صرف دور سے ہی دیکھ کر مجھے کیا سینکڑوں کو بڑی خوشی ہوتی ہے۔ اہل کراچی کو ان پہ فخر ہے۔ انکے والدین انڈیا کے صوبے بہار سے آکر کراچی میں آباد ہوئے۔ تعیلم اور پیشے کے لحاظ سے وہ ایک گائناکولوجسٹ ہیں  اور اپنے پیشے ہی نہیں اپنے مریضوں کے بھی وفادار۔ انہوں نے اپنی کوششوں سے ایک ہسپتال کراچی کے نواح میں واقع ایک گاءوں کوہی گوٹھ میں کھولاہے۔ اس گوٹھ کی بیشتر آبادی سندھی اور بلوچی خاندانوں پہ مشتمل ہے۔ یہاں غریب خواتین کے امراض اور بالخصوص فسچولا کا علاج  اور آپریشن مفت کیا جاتا ہے۔
 وہ  کراچی کے ایک محنت کش طبقے کی آبادی اورنگی ٹاءون میں واقع سندھ  گورنمنٹ قطر ہسپتال  سے بھی وابستہ ہیں۔  اور یہاں  گائنی کا شعبہ دیکھتے ہیں۔  انکی خدمات کی ایک لمبی لسٹ ہے جس کا تذکرہ فی الوقت ممکن نہیں۔ غیر ممالک سے انہوں نے اس سلسلے میں بہت سے ایوارڈ وصول کئے البتہ حکومت پاکستان انکی خدمات کی پذیرائ کرنے سے قاصر ہے۔  اپنے سوشل ویلفیئر کے کاموں کی وجہ سے بالخصوص خواتین کی صحت کے سلسلے میں کئے جانے والے کاموں کی وجہ سے وہ ایک ہر دلعزیز ڈاکٹر ہیں۔  وہ ایک ادیب بھی ہیں۔ میں نے انہیں کبھی سیاسی جانبداری برتتے نہیں دیکھا۔
اورنگی ٹاءون سے میری دلی وابستگی بھی ہے کہ میں اس سے ملحق آبادی علی گڑھ کالونی میں پیدا ہوئ اور اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ وہاں گذارا۔ جی وہی آبادی جو انیس سو چھیاسی میں کراچی میں ہونے والے بد ترین فسادات کا شکار ہوئ۔ میں اس وقت وہاں موجود تھی۔ اورنگی ٹاءون میں نہ صرف انڈیا کے مختلف حصوں سے ہجرت کر کے آئے ہوئے لوگ موجود ہیں بلکہ بنگلہ دیش سے آئے ہوئے بہاریوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ یہ  پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے اور ان پہاڑوں پہ پٹھانوں کی بستیاں آباد ہیں۔  اسکا کچھ حصہ بلوچ آبادیوں سے بھی جڑا ہوا ہے۔ اسی میں پنجاب سے مزدور طبقے کے لوگ بھی آکر رہتے ہیں۔ اس طرح اس ہسپتال سے فائدہ اٹھانے والوں میں ہر طبقے کے غریب لوگ موجود ہیں۔
وہ اپنے اس خط مِں لکھتے ہیں کہ  رضا حیدرسندھ گورنمنٹ  قطر ہسپتال کے حقیقی سپورٹر تھے۔ انہوں نے اس چیز کے لئے ان تھک محنت کی کہ زچگی کے کے ایمرجینسی سیکشن میں غریب خواتین  کو ضروری سہولیات میسر رہیں۔
انکی شروع کی گئ کوششوں کی وجہ سے ہزاروں خواتین کا علاج کیا گیا اورسینکڑوں ماءووں اور بچوں کی زندگیاں بچائ گئیں۔
وہ اکثر اوقات ہسپتال آ جایا کرتے تھے اور کبھی بھی ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکل عملے کے ساتھ برے سلوک سے پیش نہیں آتے تھے جیسا کہ اکثر ایم پی ایز اور ایم اینز کرتے ہیں۔ وہ ہسپتال کی انتظامیہ کی مدد کے لئے ہمیشہ موجود رہتے اور بہتر نگہداشت کے منصوبوں میں مددگار رہتے۔ انہوں نے کبھی اپنی اتھارٹی دوسروں پہ جمانے کی کوشش نہیں کی۔
سندھ گورننٹ قطر ہسپتال  کے مریضوں اور خاص طور پہ کمیونٹی کی خواتین نے اپنا ایک عظیم  دوست کھو دیا۔ رضا حیدر نے ثابت کیا کہ  ایک ایم پی اے اپنی ذاتی توجہ سے ایک ہسپتال کو بالکل تبدیل کر سکتا ہے اور اس طرح لوگوں کی سچی خدمت کر سکتا ہے۔ یہ مریضوں اور کمیونٹی کے لئے ایک عظیم نقصان ہے۔
اورنگی کی خواتین کی حالت زار سے واقفیت رکھتے ہوئے مجھے بھی دکھ ہے کہ ایک بہتر امید رکھنے والے شخص کو قتل کیا گیا۔ اور ڈاکٹر شیر شاہ سید کے اس خط کو سراہنا بھی چاہونگی کہ انہوں نے بغض و عناد  کے اس زمانے میں قتل ہونے والے شخص کی انسان دوستی کا تذکرہ کیا۔

خط کا انگریزی متن
MPA Raza Haider was a real supporter of the Sindh Government Qatar Hospital, Orangi. He worked very hard to make sure that emergency obstetrical care was available to poor women.
Because of his initiative thousands of women were treated and hundreds of lives of mothers and children were saved in the maternity unit of the SGQH.
He used to visit the hospital at odd hours and never misbehaved with doctors, nurses and paramedics, unlike the usual practice followed by many MNAs and MPAs. He was always available for the hospital administration and supported plans for better patient care. He never tried to thrust his authority on the staff.
The SGQH, patients in Orangi, especially women of the community, have lost a great friend. Raza Haider showed that with personal interest, an MPA can improve hospitals drastically and truly serve the people. This is a great loss for patients and the community. DR SHERSHAH SYED Qatar Hospital Karachi

Sunday, August 1, 2010

گگا۔۔۔۔۔۔۔گالی

میں منی بس میں بیٹھی محو انتظار کہ کب ڈرائیور صاحب، اس پیار سے میری طرف نہ دیکھو پیار ہو جائے گا' کے اثر سے باہر نکلتے ہیں۔ میں آدھ گھنٹہ لیٹ ہو چکی ہوں اور یہ بس پچھلے دس منٹ سے اس اسٹاپ پہ کھڑی ہے جب تک اگلی بس نہیں آجائے گی یہ یہاں سے نہیں ہلے گی۔ تو دیر ہونےمیں خطا کس کی ہے۔  میری۔ اس لئے میں ڈرائیور کو دہائ دینے کے بجائے صبر و سکون سے بیٹھی دل ہی دل میں، مستقبل میں اینگر مینجمنٹ کے کورس کروانے کے پلان بنا تی ہوں۔ ڈرائیور کی طرف دیکھنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ تیسری دفعہ 'اس پیار سے میری طرف نہ دیکھو' سن رہا ہے۔ اور اس قدر غرق ہے کہ 'کسی ' کے غصے کو بھی اسی نظر سے دیکھے گا، جس سے منع کیا جا رہا ہے۔
یکایک ایک پیلی ٹیکسی منی بس کے سامنے آ کر چر چراتے ہوئے رکتی ہے۔اس میں ایک کھلتے ہوئے رنگ اور درمیانے قد و قامت کا نوجوان کالے رنگ کے کپڑوں میں بجلی کی تیزی سے بر آمد ہوتا ہے۔ اسکے منہ سے دنیا کا ہر وہ لفظ موسلا دھار برس رہا ہے۔ جسے یہاں لکھنے کے لئے مجھے کچھ خلائ زبان استعمال کرنی پڑے گی۔ مثلاً
@*^#~@&$*#?
اسی طوفانی اسٹائل میں وہ آکر ڈرائیور گیٹ پہ بیٹھے ڈرائیور کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر اسے نیچے کھینچ لیتا ہے۔ اور پھر دے دھنا دھن۔ گالی اور تشدد کا ظالم ادغام۔  ڈرائیور صاحب اس حالت میں  کہہ رہے ہیں ارے دیکھومجھے بچاءو، لیکن سب پتھر کے بت بنے بیٹھے ہیں کیونکہ اگر انہیں دیکھا تو آپکو معلوم ہے کیا ہو جائے گا۔
حالانکہ تھوڑی دیر پہلے مسافروں میں سے ہر ایک اسکی یہی درگت بنانا چاہ رہا ہوگا۔ مگر اب سب سکتے میں ہیں۔ کیا یہ سکتہ اس چھبیس ستائیس سال  شخص کی تشدد سے بھر پور اینٹری پہ ہے یا گالیوں کی روانی و فراوانی پہ۔ میں خود بھی سانس روکے بیٹھی رہتی ہوں۔ ماحول خاموش ہے۔  گانوں کی کیسٹ ابھی بھی چلے جا رہی ہے۔ لیکن چونکہ ڈرائیور موجود نہیں اس لئے نیا گانا آگیا۔ لڑکی  کمال کی نظروں سے گولی مارے۔  ہاتھوں، اور پیروں اور زبان سے پٹنے کے بعد یہ گانا گولی ہی لگ رہا ہوگا۔  اس سارے طوفان کے ذرا ٹھنڈا ہونے پہ پتہ چلا کے پیار ومحبت کے اس پر سکون مگر دل جلے منظر میں ہنگامہ بپا کرنے والے وہ صاحب اس منی بس کے پیچھے پھنس گئے تھے اور اسے ہارن پہ ہارن دئیے جا رہے تھے  مگر یہ تو مجھے، دیگر سواریوں یا اب آپکو پتہ ہے کہ وہ اس وقت کس دنیا میں تھے۔
 گالیوں کے بارے میں تحقیق داں کہتے ہیں کہ غصہ برداشت نہ کر سکنے کی اہلیت کی بناء پہ منہ سے نکلتی ہیں بلکہ لکھی بھی جاتی ہیں۔  غصہ جو انسان کسی اور ذریعے سے  نکال کر تسلی نہیں پا سکتا وہ اس ذریعے سے نکالتا ہے۔ میں اس سے اتنا متفق نہیں کہ اکثر تشدد اور گالی دونوں کو ساتھ ساتھ دیکھا۔ جتنی زیادہ طاقت سے کوئ دوسرے کو پیٹتا ہے اتنی ہی شدید گالیاں بھی ہوتی ہیں۔
میرا خیال ہے کہ یہ  انسانی شخصیت کی شدت پسندی کا حصہ ہوتی ہیں۔ ورنہ کیوں کچھ لوگوں کی گفتگو کا تکیہ کلام، فل اسٹاپ اور کومہ بھی کوئ گالی ہی ہوتی ہے۔ اور اگر جوش بڑھا ہوا ہو تو تین گالیاں ایک ساتھ۔ ہر ایک میں ٹارگٹ کی قریبی خواتین سے تعلقات پوشیدہ کی کشیدہ خواہش۔
شدت پسندی یہ  ہے کہ جو گالی انتہائ غصے میں دی جاتی ہے وہی انتہائ پیار میں بھی نکلتی ہے۔ ایسوں کے لئے ہی کہا جاتا ہے کہ نہ انکی دوستی اچھی نہ انکی دشمنی اچھی۔
میں اپنی ایک عزیزہ کے رشتے کے سلسلے میں انکے خاندان والوں کے ساتھ لڑکے والوں کے گھر میں موجود تھی۔ وہ پانچ بھائ اور ایک بہن تھے۔ ایک بھائ کا حال ہی میں پہلا بچہ ، ایک بیٹا ہوا تھا جسکی خوشی انکے چہرے سے ہویدا تھی۔ پندرہ دن کے اس بچے کو کوئ لا کر انکے بڑے بھائ کے حوالے کر گیا۔ بڑے ابا، اسے کپڑوں  میں لپیٹتے ہوئے، ایک لاڈ بھری مسکراہٹ سے کہنے لگے۔ خبیث ابھی پندرہ دن کا ہے مگر بڑا تیز ہے۔
گھر آکر میری رائے مانگی گئ۔ میں نے کہا جو پیار میں، پندرہ دن کے بچے کو خبیث کہہ رہے ہیں انکے غصے کا اندازہ کر لیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تعلیم یافتہ لوگوں کو اپنی گفتگو میں گالیاں نہیں استعمال کرنی چاہئیں۔ کیوں بھئ، وہ بھی تو اسی نظام کی پیداوار ہیں۔ گالی سنے تو گونگا بولے۔ گالی اور اسکے اثر سے واقف، صرف اس لئے گالی استعمال نہ کریں کہ تعلیم یافتہ ہیں۔ بھاڑ میں گئ ایسی تعلیم کہ ایک انسان دوسرے کے خاندان کی زبانی ہی سہی ایسی تیسی نہ کر سکے۔  ایک تعلیم یافتہ شخص، قتل کر سکتا ہے، کسی دوسرے کو پیٹ سکتا ہے، تو گالی کیوں نہیں دے سکتا۔
یہاں تعلیم سے متعلق انتہائ متنازعہ قسم کی بحث چھڑنے کا امکان ہے۔ لیکن معذرت کے ساتھ، تعلیم بنیادی انسانی فطرت کو تبدیل نہیں کرتی۔  یہ صرف آگاہی دیتی ہے اور اسکے اظہار کو سدھا سکتی ہے وہ بھی اگر فرد متعلقہ چاہے تو۔ باقی یہ کہ چاقو کی طرح اسے ہر بری اور اچھی سمت میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔   یہی وجہ ہے کہ آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ، انگریزی لٹریچر سے آشنا، پر وجیہہ شخصیت کے مالک نواب اکبر بگٹی کی سفاکیت کی داستانیں کسی دیو مالائ دنیا کی کہانی لگتی ہیں۔  یہ سفاکیت انکے ماحول، رواج اور تربیت کا حصہ تھے۔ جس سے وہ فرار حاصل نہ کر سکے۔  بھٹو جیسا تعلیم یافتہ شخص اپنی عبادت میں مصروف رہتا ہے۔ بے نظیر جیسی خاتون زرداری سے شادی کرتی ہیں۔  
یہاں پہ دینی اور دنیاوی تعلیم کا فرق چھیڑا جا سکتا ہے۔ مگر  پھر معذرت کے ساتھ جس طرح تشدد کی فطرت کو، دین میں مقدس جنگوں کے نام پہ روا رکھنے والے دینی عالم ہی ہوتے ہیں، اسی طرح اس زبان کو اپنے حریفوں کے لئے استعمال کرنے میں انہیں کوئ عار نہیں ہوتا۔ دین لوگوں کے درمیان کچھ بنیادی چیزوں کو اتحاد کی علامت بنانا چاہتا ہے تاکہ وہ دیگر انسانی سرگرمیوں پہ یکسو ہو کر توجہ دیں مگر یہ وصف بھی کوئ کوئ ہی حاصل کر پاتا زیادہ تر لوگ  فروعات میں الجھے رہتے ہیں جو دین کا مقصد نہیں۔ یوں دینی تعلیم بھی کوئ اعلی وصف پیدا نہیں کر پاتی۔ ایک نامور مرحوم عالم کے متعلق سنا کہ انہوں نے ایک خاتون صحافی کو نا مناسب لباس میں دیکھ کر کہا، مغرب نے حرامزادی کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے۔ ہمارے ٹی وی کے ایک  عالم جو آن لائن بھی ہوتے ہیں انکے متعلق بھی متعدد لوگوں سے سنا کہ وہ یہ زبان بے دریغ  استعمال کرتے ہیں۔
میں نے پہلی دفعہ اپنے ایک کولیگ کو روانی میں گالی دیتے سنا۔ سوچا، شاید انہیں خود بھی خیال نہیں کہ وہ کیا کہہ گئے ہیں،  اس وقت میں پی ایچ ڈی کر رہی تھی۔ اس وقت یہ سوچ کر نظر انداز کیا کہ انہوں نے کراچی سے باہر زیادہ تر ایسے تعلیمی اداروں میں تعلیم پائ ہے جہاں صرف لڑکے ہوتے تھے۔  اس لئے اس طور سے واقف نہیں ہیں کہ کم از کم خواتین  کی موجودگی میں زبان شستہ رکھنی چاہئیے۔
 گئے زمانوں میں شرفاء کے یہاں یہ اہتمام ہوتا تھا کہ خواتین کے سامنے گالیوں سے اجتناب کیا جائے۔ مگر اب اس بکھیڑے کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ دلیل یہ کہ جب مردوں کے شانہ بشانہ رہنے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ بھی سنو۔  یہ تو مردانہ اسٹائل ہے۔
یہ عنصر بالکل نا معلوم ہے کہ شدید گالیوں میں انسان کی جنس اور اسکے جنسی معاملات کو کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے  فرائڈ  اس بارے میں کچھ اندازے لگاتا ہے اور اسکے مطابق ہر گالی کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ دوسرے انسان کو جانوریا اس  سے بھی کم ثابت کیا جا سکے۔ چاہے براہ راست اسے اس جانور کا نام دیا جائے یا شدید صورت میں جانوروں کے جنسی افعال سے مماثلت دی جائے۔ اس حساب سے بھی جانوروں کی درجہ بندی ہے اور کسی کو گالی میں الّو یا گدھا کہنا کوئ اوقات نہیں رکھتا جبکہ الو کے پٹھے کی قدرے اہمیت ہے اور کسی کو گدھے کا بچہ کہہ کر تو دیکھیں۔ کتے یا کتے کا بچے کا اثرایک جیسا ہوتا ہے۔
خواتین تشدد کے ذریعے کم ہی دل کی بھڑاس نکال پاتی ہیں اور یوں انہیں گالیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ وہ بھی جب گالیاں دیتی ہیں تو دوسری خواتین کو اسی پس منظر میں گالی دیتی ہیں۔ لیکن جب انکی گالیوں میں شدت آتی ہے تو بد دعا بھی شامل ہوجاتی ہے۔
کچھ گالیاں تفریحاً دی جاتی ہیں۔ اب جو شخص تفریح کے لئے گالی کا استعمال کرے اس سے اسکے ذوق جمالیات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔  بعض علاقوں میں ذاتی مخاصمتیں اتنی بڑھی ہوئ ہوتی ہیں کہ کچھ لوگ فرصت کے اوقات میں  نئ گالیاں گھڑتے  یا ایجاد کرتے ہیں تاکہ اگلی جھڑپ میں کام آئیں۔ تخلیقی کام چونکہ اپنی زبان میں ہی بہتر ہوتا ہے اس لئے گالیاں بھی اپنی ہی زبان کی مزہ دیتی ہیں اور اس سے وہ آتش لگتی ہے جو بجھائے نہ بجھے۔  
  گالی کو سن کر رد عمل ظاہر ہونا بھی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ
دشنام یار طبع حزیں پہ گراں نہیں
اے ہم نفس، نزاکت آواز دیکھنا 
ایسی گالیوں کو گالیاں سہانیاں کہتے ہیں۔ اور انہیں سننے کے لئے لوگ بڑی جدو جہد سے گذرتے ہیں کہ کام اس سے آ پڑا ہے جسکا جہان میں،  لیوے نہ کوئ نام ستم گر کہے بغیر۔
اگر انسانی مقصد ، وقت کی بھیڑ چال کے مخالف سمت میں ہو تو بھی کرنے والے کو ایسی گالیوں سے گذرنا پڑتا ہے۔ لیکن ٹھان لینے والے ان گالیوں کی پرواہ نہیں کرتے کہ دینے والے کے پاس اسکے علاوہ ایک خالی پن ہی ہوتا ہے اور کچھ نہیں۔ سر سید احمد خان کی مثال اس سلسلے میں موجود ہے۔ 
لیکن ایک گالی بعض اوقات ایک شخص کو زندگی بھر کے لئے معذور کر دیتی ہے۔ وہ ذلت کے اس  لمحے سے باہر نہیں نکل پاتا اور تمام عمر اسکے کرب میں مبتلا رہتا ہے۔ شاید گالی کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے۔