Friday, November 27, 2009

ترکیب: بھیجا فرائ

بقر عید پہ ہر طرح کی ترکیبیں آزمائ جاتی ہیں۔ اور عام طور پہ یہ دیکھا گیا ہے کہ ہر شخص کو اس عید پہ اپنی دلچسپی کا سامان مل جاتا ہے۔ سچ کہوں تو مجھے بقر عید اپنی اس ادا کی بناء پہ بہت پسند ہے۔
یہ ایک ترکیب ہے بھیجا فرائ کرنے کی جسے میں آپ لوگوں کے ساتھ شیئر کررہی ہوں۔ تو جناب اسکے لئیے آپکو ایک گائے کا بھیجا چاہئیے۔ وہ گائے نہیں جس کے لئیے امیر خسرو نے لکھا ، ہم تورے بابل کھوٹے کی گئیاں۔ بلکہ وہ جسے آپ جانووروں کی منڈی سے سکہ رائج الوقت میں خرید کر لائے ہونگے اور جس کی قیمت خرید شرعی حق مہر سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
اس وضاحت کے بعد ترکیب میں ایک اور پیچیدگی پیدا ہو سکتی ہے اور وہ یہ کہ آپ گائے کا گوشت  کچھ نامعلوم وجوہات کی بناء پہ کھانا اپنے سماجی رتبے کے خلاف سمجھتے ہوں یا آپکا قربانی کا جانور ایک یا کئ بکرے ہوں تو اس صورت میں آپ بکرے کا بھیجا بھی لے سکتے ہیں۔ لیکن یہ  آپ سمجھتے ہونگے کہ گائے کہ اور بکرے کے وزن میں اتنا ہی فرق ہوتا ہے جتنا کہ اداکارہ انجمن اور کرشمہ کپور کے وزن میں نظر آتا ہے۔
اس وجہ سے آپکو  باقی اجزائے ترکیب کو ادھر ادھر کرنا پڑیگا یا پھر کئ بکروں کے بھیجے کو ایک گائے کے بھیجے کے وزن کے برابر لانا ہوگا۔ یہ یاد رہے کہ انجمن اور کرشمہ میں سے آپ صرف آخر الذکر کو ہی ادھر ادھر کر سکتے ہیں۔ اول الذکر کے متعلق ایسا خیال بھی دل میں نہ لائیے گا۔ ورنہ بھیجا فرائ کرنے سے پہلے آپکی چٹنی بن جائے گی۔ چوں کہ ان دونوں کا اس ترکیب سے کوئ جزیاتی تعلق نہیں۔ اس لئیے اس مرحلے کو سر کئیے بغیر ہی آپ اگلے مرحلے میں قدم رکھ سکتے ہیں۔
اب ایک پتیلی میں اتنا پانی لیں جس میں یہ بھیجا ڈوب جائے۔ اسے ابلنے کے لئیے چولہے پہ رکھ دیں۔ جب پانی ابلنے لگے تو اس میں بھیجا ڈالدیں اور گھڑی دیکھ کر دو منٹ بعد نکال لیں۔ جب بھیجا گرم ہی ہو، یہاں میری مراد پتیلی میں سے نکالے گئے بھیجے سے ہے۔ آپکو اپنا  بھیجا گرم کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس بھیجے پر سے تیزی کے ساتھ جھلی اتار دیجئیے اور خون کی جو نسیں نظر آرہی ہیں انہیں بھی صاف کر دیں۔ لیجئیے، یہ بھیجا فرائ ہونے کے لئیے بالکل تیار ہے۔ چھری سے اسکے موٹے موٹے ٹکڑے کر لیں اور ایک طرف رکھ دیں۔ اب ایک پتیلی یا کڑاہی میں میں آدھا کپ تیل گرم کریں اور اس میں آدھا چائے کا چمچ میتھی دانہ ڈالدیں۔ جب یہ خوشبو دینے لگے تو اس میں ایک کھانے کا چمچ لہسن ادرک کا پیسٹ ڈال دیں، دو کھانے کے چمچ پسی ہوئ پیاز، ساتھ ایک چائے کا چمچ پسا ہوا دھنیا، آدھ چائے کا چمچ ہلدی، ایک چائے کا چمچ پسی ہوئی لال مرچ یا جتنی آپکو پسند ہوں، اس میں ڈالکر ہلکی آنچ پہ بھون لیں۔ اگر آپ ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں ٹماٹر کے بغیر کسی چیز میں سواد نہیں آتا تو اس مرحلے پہ ٹماٹر بھی ڈال لیں اور اسے اتنا بھونیں کہ ٹماٹر گل کر مصالحے کے ساتھ یکجان ہو جائیں۔
اب اس میں صاف کیا ہوا بھیجا ڈالکر آرام سے بھونیں حتی کہ بھیجہ اور مصالحہ خوب اچھی طرح بھن جائیں۔ حسب ذائقہ نمک شامل کر دیں آخر میں اس میں آدھی چائے کی چمچی گرم مصالحہ بھی ڈالدیں اور تھوڑی سی ہری مرچ بھی کتر کر شامل کردیں۔ مرچیں چھری سے کترئیے گا۔ دانتوں سے کترنے کے نتیجے میں، آپکا اپنا بھیجا دم پخت ہونے کے امکان ہیں۔ اب یہ فرائ بھیجاڈش میں نکال کر ہرے دھنئیے سے سجا دیں۔ اور چپاتی کے ساتھ کھائیں۔
کچھ لوگوں کو فرائ کئیے بغیر ہی بھیجا کھانے کا لطف آتا ہے انہیں یہ ساری کلفت اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ یہ وہ مزہ ہے جس کے آگے تمام ذائقے ہیچ ہیں۔ 
ساتھ ہی آپ سب کو عیدالاضحی مبارک ہو۔ اللہ ہم سب کو قربانی کے صحیح معنوں سے متعارف ہونے کا موقعہ دے۔ آمین

 

Saturday, November 21, 2009

ایک باغ، کئ تتلیاں

اب کچھ حالات ایسے ہوئے کہ ہمیں پھوکٹ گھومنے کا موقعہ بھی ملا۔ چلیں کچھ جگہوں کی سیر آپکو بھی کرادیں کہ یہ آپکے لئے اجنبی نہ رہیں۔
یہ پھوکٹ کا تتلی باغ اور مختلف کیڑوں مکوڑوں کو جمع کرنے کی جگہ ہے۔ ہم یہاں ایک مقامی ٹیکسی جو کہ ایک ہائ لکس تھی لیکر پہنچے۔ مگر چونکہ نہ ہمیں یہ جگہ صحیح سے پتہ تھی اور نہ ٹیکسی والے کو اس لئیےہم ایک بل بورڈ پہ اسکا نام اور تیر کا نشان دیکھ کر وہیں اتر گئے۔ بس پھر ہمیں راستے کی چڑھائیاں اور نچائیاں طے کرنے پڑے جو اندازاً ایک کلو میٹر تھا۔ ایک بچے کو اسٹرولر میں ڈالکر دھکا دینا چڑھائیوں پر مشکل ہو جاتا ہے۔
تو آئیے دیکھئیے، پروین شاکر نے کہا تھا
خود پھول نے کئے تھے، اپنے ہونٹ نیم وا
چوری تمام رنگ کی تتلی کے سر نہ جائے
دیکھیں یہ بات کہاں تک صحیح ہے۔





 








 

تتلی ہوں میں تتلی ہوں
پھولوں سے میں نکلی ہوں
پھولوں کا رس پیتی ہوں
پھولوں میں، میں رہتی ہوں

Friday, November 20, 2009

مشغلہ یا ضرورت

ہمارے ایک ساتھی نے حال ہی میں اپنے بلاگ پہ سکیولرازم کے بارے میں اپنے کالم ہم سب کے علم میں لانے کے لئیے دیا۔ جس پہ میرے تبصرے پہ انہیں اعتراض بھی ہے۔ اسکا ایک واضح جواب لکھنے میں خاصہ وقت لگتا اور ہجوں کی غلطیاں بھی ہوتیں۔ اس سے بچنے کے لئیے میں نے اسے یہاں لکھنا بہتر سمجھا۔ چونکہ ان کے موضوع میں خاصے سارے نکات ہیں اس لئیے میں ان پہ الگ الگ بات کرنا چاہونگی۔تاکہ یہ فوکس رہے۔
اس سلسلے میں، میں سب سے پہلے مسلمانوں کی ان اقسام کا تذکرہ کرنا چاہونگی جو کہ آجکل تواتر سے پیش کی جا رہی ہیں۔ آئیے پہلے ایک نظر ان پہ ڈال لیں۔ کیونکہ اپنی زندگی کی ایک لمبے عرصے تک میں مسلمانوں کے  بنیادی دو گروہ ہی سمجھتی تھیں یعنی شیعہ اور سنی۔ آگہی کے راستے پہ سفر کرتے ہوئے پتہ چلا کہ یہ تفریق یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ فقہ کی بنیاد پہ اسکی مزید تقسیم بھی ہوتی ہے۔ یہی نہیں اگر اسلام کے ابتدائ شاید پچاس سالوں کو نکال دیں تو حکومت اور اقتدار کو حاصل کرنے کے لئیے جتنی تحاریک چلائ گئیں انکے بھی کچھ نہ کچھ نام رکھے گئے تھے۔ جنکی تفصیلات تاریخ کی کتابوں میں بند ہیں۔

میں اپنے تئیں یہ سمجھتی رہی کہ حالات اس نہج پہ آگئیے ہیں کہ اب جو شخص مسلمان نہیں ہوگا وہ کافر ہوگا۔ لیکن نہیں جناب اس معاملے میں بھی تخلیقی جواہر رکھنے والوں نے خوب خلاقی دکھائ۔ یہاں میں کچھ حوالے دینا چاہونگی۔ یہ میرے ذہن میں رہ گَ اور میں انہیں انکے اصل ذرائع سے ڈھونڈ کر نکال بھی سکی۔ یہ نام جو محض اس لئے وجود میں آتے ہیں کہ کوئ اور شخص ہم سے مختلف خیال رکھتا ہے۔

تو عرض کررہا تھا کہ نائن الیون کے بعد مذہبی رحجان رکھنے والوں کی طرف سے معذرت خواہانہ رویہ اپنایا گیا ہے ۔ مجھے کبھی شرمندگی نہیں ہوئی۔ میں ملا ہوں لیکن مسجد کا پیش امام یا مدرسہ کا فارغ و تحصیل مولوی نہیں ۔ اقبال کا ملا ہوں اگر چہ میں افغانی ملا ہوں لیکن میں اپنے اپنے آپ کو عالمگیر ملا سمجھتا ہوں۔

http://talkhaabau.wordpress.com/

میں اپنے آپ کو اسلام پسند کہتا ہوں لیکن میری نیٹ یا بلاگ سے شروع ہوئی دوستی ان لوگوں کے ساتھ بھی ہیں جن کو آپ ان درجوں میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔ اسلام پسند، سیاسی اسلام کے حامی ، مذہبی رجحان رکھنے والے ، وہ جو اپنے آپ کو ماڈریٹس کہتے ہیں ، وہ جو لبرلز ہیں ، سوشلسٹ نظریات کے حامل ‘ مذہب مخالف اور دہریے وغیرہ۔ کئی دہریوں سے میری بہت گہری دوستی ہے۔

http://www.abushamil.com/tag-tag3/#comments

ہم کیونکہ آپ کی نظر میں “قدامت پسند” ہیں اس لیے ہمارے دلائل ہمیشہ “بودے” ہی ہوں گے۔

http://www.abushamil.com/secularism-shahnawaz/

باعمل مسلمان ایک گالی بنتا جا رہا ہے۔ لوگ اسے دیکھ کر ایک دم ڈر جاتے ہیں کہ کہیں وہ خودکش بمبار ہی نہ ہو۔ ماڈریٹ یعنی بے عمل مسلمان ہر جگہ آزادی سے گھوم پھر سکتا ہے مگر باریش مسلمان کی آزادی صلب ہوتی جا رہی ہے۔

http://www.mypakistan.com/?p=3692

آپ جیسے روشن خیالوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی آپ کے ساتھ نہیں ہے تو وہ یقینا طالبان کے ساتھ ہے اور یہ شدت پسندی نہیں شاید۔۔۔۔

http://anqasha.blogspot.com/2009/10/blog-post_27.html#comments

وہ سیکولر مسلمانوں سے کہتا ہے کہ تم مسلمان کیوں ہو اور وہ جو صرف مسلمان ہیں ان سے کہتا ہے کہ تم سیکولر کیوں نہیں ہوجاتے,

 http://www.abushamil.com/secularism-shahnawaz/ 


یہ حوالے صرف اردو بلاگنگ دنیا سے لئے گئے ہیں۔ انہیں تخلیق کرنے والے کوئ ایک نام ایجاد کرتے ہیں اور پھر بڑے فخر سے اسکی ضد بنا کر اس میں اپنا نام ڈالتے ہیں اور اسی غرور کے ساتھ سوچتے ہیں کہ یہ تھی وہ خدمت دین کی جو دین ان سے چاہ رہا ہے۔ میں تو سمجھتی ہوں کہ میں بھی اس سلسلے میں کچھ کام کروں اور الفاظ کی ایک فہرست تیار کروں تاکہ میرے ان ساتھیوں کو سنجیدگی کے ساتھ کچھ اور سوچنے کا وقت بھی ملے نہ صرف یہ بلکہ میں ذاتی طور پہ انہیں بہترین مسلمان اور مثالی مسلمان بھی قرار دینے پہ ہرگز کسی قسم کا تامل نہ کروں اس سےانہیں اپنے اس اعزاز سے کسی بھی وقت محروم ہونے کا نہ صرف خدشہ نہ رہےگا۔ بلکہ یہ احساس بھی انکے دل کو گرماتا رہے کہ انکی برتری تسلیم کر لی گئ ہے۔
لیکن کیا وقت کی آوز یہی ہے کہ ہم ایکدوسرے کی ایمانی حالتوں پہ دلیلیں دیتے رہیں؟

 

Saturday, November 14, 2009

آئیے فیس بک پہ اکاءونٹ بنائیے

آپکا کوئ دوست نہیں، سخت بوریت ہے، گھر والے دور ہیں، کیا کریں؟
فیس بک پر ایک اکاءونٹ بنا لیں۔ لیجئیے کچھ دن گذریں گے کہ ہر طرح کے دوست جمع ہو جائیں گے۔ جو دوست بنانے کی آفرز ملتی جا رہی ہیں انہیں اوکے کرتے جائیں۔ یہ کون بے وقوف ہیں جو کہتے ہیں کہ ایک دوست مل جائے تو آپکی قسمت اچھی ہے دو ہوں تو آپ خوش قسمت ہیں اور تین تو ہو ہی نہیں سکتے۔ چند مہینوں میں آپکے پاس کئی سو دوست جمع ہو جائیں گے۔ اب کیجئیے محفل آرائیاں۔
اگر زندگی میں اب تک یہ حسرت پالتے آئے ہیں کہ
یہ مزہ تھا دل لگی کا کہ برابر آگ لگتی
نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے قرار ہوتا
تو جان لیجئیے کہ اسی مزے کے لئیے ہی فیس بک اک وجود عمل میں آیا۔ وہ تو زندگی کی ہر چیز میں مقسد تلاش کرنے والوں نے اسے بھی روکھا پھیکا بنانے کے طریقے تلاش کر لئیے لیکن آپ انہیں خاطر میں نہ لائیں اور اپنی خو نہ چھوڑیں۔ یہاں آپ جیسے لوگوں کی ایک لمبی قطار موجود ہے۔ فوراً اکاءونٹ بنائیں۔
فتنے بھی قاعدے سے اٹھتے ہیں جب اٹھتے ہیں
کیا سلیقہ ہے تمہیں انجمن آرائ کا
اگر آپ بھی اس سلیقے سے واقف ہیں تو دیر کس بات کی ہے۔ فیس بک ہے ناں۔ اکاءونٹ بنائیں۔ روزانہ طرح طرح کے پول منعقد کروائیں اور فتنے بنانے کے قاعدے سے مکمل طور پہ لطف اندوز ہوں۔ اگر پول بنانے کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتے تو کچھ نہ کریں اپنی وال پہ کسی فتنہ انگیز خیال کو چسپاں کر دیں اور دیکھئیے کیا ہوتا ہے۔
آپ اپنے آپ سے محبت کرتے ہیں۔ یہ آپ کا اپنے اوپر پہلا حق ہے۔ لیکن آپ دوسروں کو بھی بتانا چاہتے ہیں کہ آپ کس قدر خوبیوں کے حامل زبردست شخص ہیں جن سے ایک زمانہ واقف نہیں۔ آئیے فیس بک پہ موجود مختلف کوئز کے جوابات دیں اور انکے نتائج کو اپنے پروفائل پہ ڈالیں۔ یہ وہ نتائج ہونگے جن سے آپ خود بھی ناآشنا تھے۔ آئیے انکے لئے ہی سہی فیس بک پہ اپنا اکائونٹ بنائیں۔
آپ کی تصاویر بہت خوبصورت آتی ہیں اور آپ جیسی مارلن منرو سے دنیا واقف نہیں۔ یا آپ فوٹوگرافی اچھی کرتے ہیں یا آپ اپنے دور پرے کے رشتےداروں اور دوستوں کو مزید حسد اور رشک میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں۔ تو کیوں دیر کر رہے ہیں اپنے کیمرے پر کلک کلک کریں تصویریں بنائیں اور ہر روز ایک تصویر فیس بک پہ ڈالیں۔ ہائے اللہ آپ کتنی خوبصورت لگ رہی ہیں، آپ تو بالکل ٹام کروز لگ رہے ہیں، کیا گاڑی ہے لش پش، کیا گھر ہے زبردست۔ مگر یہ سب پڑھنے کے لئیے فیس بک پہ اکاءونٹ کھولیں۔
دنیا یہاں پہ ختم نہیں ہوتی، اگر آپ انسانوں کی منافقت سے بیزار ہیں،نیرنگئ زمانہ کا شکار ہیں یا ہر وقت کچھ نیا کے چکر میں رہتے ہیں تو یہاں طرح طرح کے گیمز موجود ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت بھی پیش نہ آئے گی کہ ایک بار دیکھا ہے دوبارہ دیکھنے کی ہوس ہے۔ معاملہ کچھ یوں ہوتا ہے کہ وہ آیا، اس نے کھیلا اور پھر کہیں کا نہ رہا۔
تیرا نہیں رہوں تو کسی کا نہیں رہوں
اتنا تلاش کر مجھے اتنا تلاش کر
تو اس بات کو کہنے کی نوبت اب نہیں آئے گی، فوراً فیس بک سے مستفید ہوں اور اپنا اکاءونٹ بنائیں۔ انشاءللہ آپ کسی کے نہیں رہیں گے۔ اپنے بھی نہیں۔
اگر آپ مذہبی شدت پسندوں سے تعلق رکھتے ہیں اور پریشان ہیں کہ یہاں کیا ہو رہا ہے تو فوراً فیس بک پہ اپنا اکاءونٹ بنائیں۔ آپکو پتہ چل جائیگا کہ اس سائٹ کو بین کرنے کی کتنی شدید ضرورت ہے۔ لیجئیے ثواب کمانے کا ایک اور موقع حاصل ہو گیا۔ مگر احتیاط لازم ہے کسی گیم میں نہ الجھ جائیے گا۔ کہیں جنت ہاتھ سے نہ نکل جائے۔
اگر آپکا محبوب دنیا کی اس بھیڑ میں کہیں کھو گیا ہے تو اس بے وفا کی خاطر رکشہ ، منی بس یا ٹرک چلانے کی کوشش نہ کریں۔ فیس بک ہے ناں اکاءونٹ بنائیں۔ انکا کہنا ہے کہ وہ آپکے دوستوں کو ڈھونڈ نکالیں گے۔ برسبیل تذکرہ دشمن خود آپکو ڈھونڈ نکالتے ہیں اس لئیے انہوں نے یہ سہولت نہیں رکھی ہے۔ یہ تو سمجھ میں آگیا ہوگا کہ یہاں رقیب کو تلاش کرنا بیکار ہے۔
اگر آپ کراچی میں اپنے موبائل فون کو بچاتے ہوئے جان سے گذر جاتے ہیں یا لاہور میں کسی خود کش حملے میں اجزائے زندگی کو ترتیب میں رکھنے سے ناکام ہو جاتے ہیں تو
-
-
-

تو کینیڈا کے کسی سرد علاقے کے بیسمنٹ یا اسٹوڈیو فلیٹ میں رہنے والے آپکے دوست کو کچھ دنوں تک آپکے کمنٹس یا آپکے پروفائل میں ہونیوالی تبدیلیوں کا انتظار رہیگا اور پھر یہ انتظار دیگر ساڑھے سات سو دوستوں کی پروفائلز میں ہونے والی تبدیلیوں اور انکے تبصروں میں کہیں کھو جائیگا۔ یار زندہ صحبت باقی۔
سنا ہے فیس بک والے آپکے مردہ دوستوں کے لئیے بھی ایک گوشہ بنانے کا خیال رکھتے ہیں تاکہ آپ وہاں جا کر وقتاً فوقتاً اسے اپ ڈیٹ کر سکیں۔لیکن اسکے لئے بھی آپکو فیس بک پہ ایک اکاءونٹ بنانا پڑیگا۔

Thursday, November 12, 2009

ایک تقریب، ایک خیال

اگرچہ کہ کسی کو اس چیز کی بھنک بھی نہ پڑی ہوگی کہ ہم ٹہرے عوام الناس، اپنے ملک کے صدر نہیں۔ لیکن انکی دیکھا دیکھی، کچھ لوگوں کی شدیدخواہش، اور ایک خدائ ذریعے سے فنڈز کی فراہمی نے جس میں کچھ شائبہ ء خوبی ء تقدیر بھی ہے، ہمیں اس قابل بنادیا کہ ہم چند دنوں کا فوری دورہ جزیرہ آسٹریلیا کا بھی کر آئے۔ اب واپس تھائ لینڈ میں بیٹھے سواردیکا یعنی خوش آمدید اور کپن کا یعنی شکریہ کر رہے ہیں۔
اس سے کچھ لوگ یہ اندازہ لگانے نہ بیٹھ جائیں کہ یہ ہم پہ حکومتی ذرائع کی کوئ خفیہ مہربانی، امریکی متوقع امداد میں سے کسی حصے کی پیش کش  یاہماری کوئ لاٹری کھل گئ ہے۔ احوال یہ ہے کہ اس سب خرچے کے بعد یقیناً کافی عرصےتک پیسوں کو دانتوں سے پکڑنا پڑیگا۔

آسٹریلیا کا ہمارا یہ مختصر دورہ کیری لوگر بل کے سلسلے میں نہیں، ایک شادی میں شرکت کا بہانہ تھا۔ یہ شادی دو مختلف قومیت رکھنے اور شاید دو مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے درمیان تھی۔ اگرچہ کہ یہ ہوئ وہاںاکثریتی رائج الوقت طریقے کے مطابق۔
دن کے ایک بجے ایک سرکاری خاتون نے ایجاب وقبول کروایا۔  اس سے پہلے دونوں ہونے والے میاں بیوی کی ایک دوسرے کو پسند کرنے والی وجوہات کو بیان کر کے آنیوالے مستقبل کے لئے انکی ذمہ داریوں سے انہیں آگاہ کرتے ہوئے۔انکے میاں بیوی ہونے کا اعلان کیا گیا۔ شادی میں ایک فریق چونکہ پاکستان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس لئے پاکستانی خاندان کی خواتین نے اپنے روائیتی شادی کے  ملبوسات اور سج دھج سے مقامی لوگوں کے لئے کافی دلچسپی پیدا کر دی تھی۔ دولہا اور دولہن کے ساتھ وہاں کے قواعد کے مظابق بیسٹ مین اور بیسٹ وومین موجود تھے۔جو سارا دن انکایعنی دولہا دولہن کا دل بہلاتے رہے۔

عصر کے وقت سے رات کے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ آسٹریلیا میں رات کا کھانا جلد کھالیا جاتا ہے۔ یعنی پانچ چھ بجے کے قریب۔ لوگ عام طور پہ نو دس بجے تک سونے چلے جاتے ہیں۔ زیادہ تر مارکٹس شام کو پانچ بجے بند ہو جاتی ہیں۔
  اس دعوت میں ہمارے سمیت تقریباً ستر افراد شامل تھے ۔ پنڈال میں داخل ہونے کی جگہ پہ آنیوالے افراد کے بیٹھنے کی نشت اور میز کا نمبر لکھا ہوا تھا۔۔ پہلے کھانے کے ابتدائ ہلکے پھلکے لوازمات آنا شروع ہوئے جنکا مقصد صرف کچھ چگتے رہنا تھا اور پھر اصل کھانا اور آخیر میں میٹھا۔ ساتھ میں محفل ناءو نوش تو جاری ہی تھی۔
 حلال کھانے کی عدم دستیابی کی بناء پر ہم نے سبزی خوروں کا کھانا کھانا چاہا۔ لیکن وہ صرف ابلے ہوئے کاجوءوں پہ مشتمل تھا۔ خدا کی ماضی میں دی ہوئ نعمتوں کا شکر کرتے ہوئے سوچا کہ ایک وقت نہ کھانے سے کوئ فرق تو نہیں پڑتا۔ اور اپنا اورنج جوس کا گلاس پکڑے تماشائے اہل کرم دیکھتے رہے رہے۔
زندگی اپنے بہاءو میں کتنی نئ چیزوں سے آشنا کراتی ہے۔ میٹھے کے بعد محفل میں موجود ہر شخص کو ایک گلاس شیمپیئن کا پیش کیا گیا۔ ہمارے استفسار پہ بتایا گیا کہ یہ صرف کھانے کے اختتام پہ دولہا دولہن کے ساتھ خوشی میں اٹھانے کے لئے ہے اسے پینا لازمی نہیں۔ چلیں جناب اس بہانے ہمیں شیمپین کا رنگ دیکھنے کو ملا کہ اس رنگ کی لپ اسٹک ہمیں خاصی پسند رہی ہے۔ لیکن اسکو اٹھانے سے ہم معذور رہے کہ یہ ہمارے بنیادی اصولوں میں شامل نہیں۔
کھانے کے بعد اس جوڑے کے والدین اور دیگر احباب نے کچھ مختصر ہلکی پھلکی تقاریر کیں، اور پھر ڈانس فلور پہ دولہا دولہن کے رقص کے ساتھ لوگوں نے بھی ان کا ساتھ دینا شروع کیا۔ اور تھوڑی دیر میں تقریباً تمام حاضرین محفل نے اس میں شرکت کی۔ یہ سلسلہ بھی کوئ ڈیڑھ گھنٹے چلا۔ یہاں بھی میری نالائقی شرکت حال رہی کہ ایسا کچھ آتا نہیں تھا۔
محفل کے اختتام پہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد وہاں کے قواعد کے مطابق گاڑی چلانے کے قابل نہ رہی۔ جی پی ایس بنانے والوں کا شکریہ کہ اسکے طفیل ہم اس نئ جگہ پہ رستہ ٹٹولتے ٹٹولتے واپس منزل مقصود تک جا پہنچے۔
غالب نے کہا کہ
مئے سے نشاط کار کس روسیاہ کو ہے
یک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہئیے
رات کو کمبل میں گھسے گھسے مجھے خیال آیا کہ کیا سر خوشی، سر مستی اور کیف وسرور، ہوش و خرد سے نجات پالینے کے بعد ہی حاصل ہوتی ہے۔

Friday, November 6, 2009

پل دو پل کے شاعر-۲

یہ ہماری ایک نو عمر شاعرہ ہیں انکی ایک شعری کاوش آپ پہلے بھی پڑھ چکے ہیں۔ آج دوسری پر نظر ڈالیں۔

سوچوں میں، گھبراءوں میں، کیسے بات بناءووں
اس نے بھیجا ہے سندیسہ میں ملنے کو آءووں
سیپی کے ہیں رنگ نیارے، موتی کے ہیں مول
کھڑی کنارے سوچ رہی ہوں، کیا کھوءوں کیا پاءووں
تتلی کے ہیں اجلے رنگ، جگنو میں ہے آگ
تتلی کے میں رنگ چراءووں یا برہن کہلاءووں
دریا دریا بہتی ہوں، قطرہ قطرہ رستی ہوں
رستہ رستہ بکھر رہی ہوں کاش اسے مل جاءووں
ہاتھوں میں نہ کنگن میرے، نہ پیروں میں پائل
گجرا نہیں ہے بالوں میں کیسے اسے جگاءووں
من کی آگ کون بجھائے، نیر نہ کوئ آنکھوں میں
اندر اندر سلگے جاءووں اور جوگن کہلاءووں

Tuesday, November 3, 2009

ایک جن سے ملاقات

 خالہ کی شادی کی ہلچل مچی ہوئ تھی۔ شادی میں صرف ایکدن رہ گیا تھا۔ گھر میں عجیب افراتفری تھی۔ ہر تھوڑی دیر بعد کوئ نہ کوئ بات اٹھ کھڑی ہوتی ۔ لیکن میرے ساتھ بالکل عجیب ہی واقعہ پیش آیا۔ میں تیزی سے صحن سے گزر رہی تھی کہ وہاں پہ موجود رات کی رانی میں میرا دوپٹہ جا کر اٹک گیا۔میں نے اسے تھوڑآ سا جھٹکا دیکر نکالنا چاہا مگر وہ کچھ اور پھنس گیا۔ ایک اور کوشش کی مگر دوپٹہ اور زیادہ الجھ گیا۔ اب میں نے جھنجھلاہٹ میں جو اپنا دوپٹہ کھینچا تو اچانک ایک عجیب دو سینگوں والی مخلوق میرے سامنے آکر کھڑی ہوگئ جسکے پیر ندارد۔ اس نے میرا دوپٹہ پکڑا ہوا تھا۔   پہلا خیال میرے ذہن میں آیا کہ میری ملاقات ایک جن سے ہو رہی ہے۔ وہ بھی اپنی خالہ کی شادی سے ایکدن پہلے۔
اب کچھ لوگوں کو اعتراض ہو گا کہ جن تو ہوتے ہی نہیں۔ تو ایسا نہیں ہے جناب۔ ورنہ اس قسم کے شعر کیوں کہے جاتے کہ جن پہ تکیہ تھا اور پتے ہوا دینے لگے۔ پھر اس قسم کی نشانیاں کیوں بتائی جاتیں کہ جن کے ہونٹوں پہ ہنسی پاءووں میں چھالے ہونگے۔ اور وہ خود یہ نہ کہتے کہ ہم وہ جنوں جولاں گداے بے سروپا ہیں۔ یہ سب ثبوت ہے اس بات کا کہ جن ہوتے ہیں۔
اچھا قصہ آگے بڑھاتے ہیں۔ میں نے آنجناب جن سے  کانپتی ہوئ آواز میں کہا کہ میرا دوپٹہ چھوڑ دیں ۔ اس نے ایک قہقہہ لگایا ۔ ہاہا، خاخا خوں۔ اب میں اور دہل گئ۔ میرا دووووپ پ پ پ ٹ ٹ ٹ ٹ آآآ۔ میں تمہیں لینےآیا ہوں۔ میں تمہیں لے جاءوونگا۔ میں تمہیں لینے آیا ہوں۔ کیا، میری خالہ کی شادی ہے کل۔ تم ایسا نہیں کر سکتے۔ میں تمہیں لے جاءونگا۔ میں جو کہتا ہوں وہ کرتا ہوں۔ ہاہا، خاخا، خو ں ں ں خ خ۔
اب مجھے دل ہی دل میں صدمہ ہو گیا۔ ایک ایسے وقت میں جب سب شادی کی تیاریوں میں ایکدم غرق ہیں میری اس کمبخت جن سے کیوں ملاقات ہو گئ۔  ساتھ ہی اس بات پہ حیرت تھی کہ کسی اور کو کیوں نہیں پتہ چل رہا کہ ایک جن میرے لئے مصیبت بنا ہوا ہے۔ تم بد تمیز جن، تم یہاں سے چلے جاءو۔ میں نے زور سے چیخنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ لیکن میری آوز جیسے ایک کنوئیں سے آ رہی تھی۔ ۔  میں جا رہا ہوں لیکن چوبیس گھنٹے میں واپس آءوونگا۔ اور پھر وہ کرونگا جو میں نے کہاہے۔۔ میں تمہیں لے جاءوونگا۔ہاہاہا، خاخا خاخا، خوں خاااااار۔یہ کہہ کر وہ دھوئیں میں تحلیل ہو گیا۔
میں جنوں پہ یقین نہیں رکھتی تھی اور جب اپنے پسندیدہ شاعر کے اس قسم کے شعر پڑھتی کہ
میں نے جنوں پہ لڑکپن میں اسد
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
تو مجھے اس نکتے پہ نہ صرف ان سے خاصہ اختلاف ہوتا بلکہ افسوس بھی۔
 اچھا اب آگے کی سنئیے۔ میں خوف اور سکتے کے عالم میں جیسے برف ہو گئ تھی۔ اور پھر برف جیسے پگھلنا شروع ہوئ۔ تو سب سے پہلے آنکھوں کی پگھلی۔ میں نے آنکھیں کھولیں۔ چھت پہ پنکھا گھوم رہا تھا۔  اسکی سررر کی آواز گونج رہی تھی لیکن اس جن کے قہقہے اسکی آواز پہ بھاری تھے اور ابھی تک میری سماعت پہ ہتھوڑے کی طرح برس رہے تھے۔ میں نے ہاتھ پھیرا میں فرش پہ بچھی چاندنی پر موجود تھی۔ یہ جناتی قہقہے کیوں ختم نہیں ہو رہے۔ میں نےگردن گھمائ۔ امی کی پھوپی جان میرے کندھے سے سر جوڑے میری طرف سر کئیےسو رہی تھیں۔ اور انکے خراٹوں کی آواز سے ہر چیز لرز رہی تھی۔ خاخاخوںخررر۔




Sunday, November 1, 2009

کچھ اور سیکولر لوگ اسلام پسندوں کے لئیے

آج جنگ اخبار پڑھ رہی تھی تو جناب ہارون رشید کے کالم پہ بھی گذر ہوا ابھی کچھ عرصے پہلے بھی ایک اردو بلاگ پہ کسی تبصرہ نگار کے طفیل انکا ایک اور کالم دیکھا تھا اور انکے چند ایک نکات سے اختلاف کرتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایسی تحریروں کو اس وقت کتنی زیادہ ضرورت ہے۔ انکی شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ طعنہ بھی کسی کو دینے کی جراءت نہیں ہو سکتی کہ ہونہہ یہ سیکولر اور روشن خیال لوگ ایسا کہتے ہیں۔ آئیے، انکی یہ تحریرآپ سب کی نذر۔ امید ہے آپ میں سے جو لوگ اخبار پڑھنے کی لت میں مبتلا ہونگے وہ اس پہ سے گذر چکے ہونگے۔ لیکن ایک دفعہ پھر سہی۔ انکے ساتھ پڑھئیےجنہیں دوسروں کے ساتھ پڑھنے کی عادت ہے۔



 نوٹ؛
اس مضمون کے چھوٹا نظر آنے کی صورت میں اس پہ کلک کجئیے۔


اس تمام مضمون میں انہوں نے امریکہ  کی واپسی کا تذکرہ کیا ہے۔ یقیناً امریکہ کو واپس جانا ہے۔ لیکن اس صورت میں پاکستان کو طالبان کے جن کو قابو میں کرنے کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ چاہے وہ تحریک طالبان ہو ں یا افغانی طالبان۔ ہم سب کو یقیناً اس بات پہ سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ اس ریاست کو جسکے مکین ہم سب ہیں کسطرح یہاں کے رہنے والوں کے لئیے ایک فلاحی مملکت میں بدلنا ہوگا ۔ جہاں حریت فکر موجود ہو۔