Tuesday, May 29, 2012

عدم کا وجود

بچوں کے سوالات کا سلسلہ جب شروع ہوتا ہے تو وہ یہ سوال ضرور کرتے ہیں کہ وہ کیسے والدین کے پاس آئے۔ والدین کی اکثریت بچوں کے سادہ ذہن کو ایک سادہ سا جواب دیتی ہے کہ کسطرح کوئ فرشتہ یا پری انہیں ایک تحفے کی صورت پہنچا گیا۔  میری بیٹی نے ایک دن میری معلومات میں یوں اضافہ کیا ، آپ کو پتہ ہے ماما، کچھ بچوں کو نرس بھی لے کر آتی ہیں اور ایسی صورت میں ماما کو ہسپتال میں ہونا پڑتا ہے کیونکہ نرس ہسپتال میں ہی ہوتی ہے۔ جب میں نے اس معلومات کا ذریعہ دریافت کیا تو انہوں نے مجھے ٹی وی کا ایک اشتہار دکھایا۔ جس میں ایک نرس ایک چھوٹا سا بچہ لے کر آتی ہے۔  ٹی وی والدین کی بہت ساری مشکلوں کو اس طرح آسان بھی کرتا ہے۔
میں آپ سے کوئ ایسا مشکل سوال نہیں کرنے جارہی۔ یہ ایک بالکل آسان سا سوال ہے  اور یہ میرے ذہن کی پیداوار بھی نہیں ہے۔ بلکہ اسے میں نے جس ویڈیو سے اٹھایا ہے وہ بھی ساتھ میں موجود ہے۔
سوال یہ تھا کہ درخت کہاں سے اپنا وجود حاصل کرتے ہیں۔ 
ابتداً لوگوں نے کہا زمین سے غذائیت لیتے ہیں، زمین کی مٹی استعمال کرتے ہیں اور اس طرح بڑے ہوتے جاتے ہیں۔ لیکن سوال کرنے والے نے ایک سائینسداں کا حوالہ دیا جس نے ایک ایک بیج لگایا ، مٹی کو تول لیا اور پھر پانچ سال تک اس پودے کی دیکھ بھال کی اس طرح کہ مٹی بالکل بھی ضائع نہ ہو۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پانچ سال بعد مٹی کے وزن میں ساٹھ گرام کی کمی واقع ہوئ جبکہ پودے نے ستر کلو گرام وزن حاصل کیا۔ پس ثابت ہوا کہ مٹی سے پودا جسامت حاصل نہیں کرتا۔
پھر لوگوں نے خیال ظاہر کیا کہ پانی کی وجہ سے ہے۔ محض پانی سے مادہ نہیں بن سکتا۔ اس کے بعد یہ کہا گیا کہ  سورج کی روشنی کی توانائ مادے میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ آکسیجن کا اس سے کوئ تعلق ہے شاید، کچھ نے اس خدشے کا اظہار کیا۔
لیکن نہیں، پودوں کو بڑھنے کے لئے ایک چیز اور بھی چاہئیے ہوتی ہے اور وہ ہے کاربن ڈائ آکسائیڈ۔ پودے سورج کی روشنی کی موجودگی میں  کاربن ڈائ آکسائیڈ سے اپنی غذا تیار کرتے ہیں، یہ عمل فوٹو سنتھیسزیعنی شعاعی ترکیب کہلاتا ہے۔ اس طرح وہ بڑے ہوتے جاتے ہیں اور جسامت حاصل کرتے ہیں۔ ادھر دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ہم، انسان سانس کے ذریعے کاربن ڈائ آکسائیڈ خارج کرتے ہیں یوں ہمارے اندر جو کمی واقع ہوتی ہے وہ پودے کی بڑھوتری کی صورت نمودار ہوتی ہے۔
۔
۔
۔
بس ایسے آہستہ آہستہ ہم درخت بن جاتے ہیں۔ ایک پرانا مشاہدہ، الفاظ کے چاک پہ نئ صورت ابھرتا ہے۔
اس خیال پہ مبنی یہ دلچسپ ویڈیو دیکھنا نہ بھولئیے گا۔

Monday, May 21, 2012

مائ ڈیئر مولانا صاحب

میں پارلر میں موجود تھی جب وہاں پہ کام کرنے والی ایک خاتون کا فون بجا۔ فون پہ بات کر کے اس نے بند کیا اور اپنی دوست کو بتایا کہ شہر کے فلاں حصے میں جہاں اس کا گھر ہے ہنگامہ ہو گیا ہے اور ان کے شوہرآفس نہیں جا سکتے اس لئے آج چھٹی کر کے گھر میں رہیں گے۔
اب کس نے کیا یہ ہنگامہ؟  کسی نے  پوچھا۔ کراچی میں ہنگامے روز کے معمولات میں شامل ہیں۔
 ہماری  طرف کون کرے گا یہی ملّے۔  اس عورت  نے ایک کراہیت سے جواب دیا۔
 ہنگامے کراچی میں اور لوگ بھی کرتے ہیں کراہیت مولانا صاحب کے حصے میں کیوں آئ؟

آخر خواتین ملّاءوں سے اتنا کیوں چڑتی ہیں؟

اس کے لئے دماغ پہ زور ڈالنے کی قطعی ضرورت نہیں۔ ایک گھر میں بچے فاقوں سے گذر رہے ہوں، شوہر کی آمدنی گھر کے اخراجات پورے کرنے کے قابل نہ ہو اور ان حالات میں اگر کوئ عورت یہ سوچے کہ وہ گھر سے باہر نکل کر کچھ پیسے محنت کر کے کما لے تو اس خیال سے ہی مولانا صاحب کا دین اسی وقت خطرے میں پڑ جائے گا۔  انکے خیال میں ایک عورت ایک حرم سے بس دوسرے حرم کا ہی سفر کر سکتی ہے یہی اس کا مقدر ہے۔ اور وہ فوراً فتوی دیں گے کہ نیک عورت وہ ہے جو گھر کے اندر بند رہے  سوائے مرض الموت کے اسے گھر سے نکلنے کی ضرورت نہیں۔
جو تھوڑے سے بہتر ہونگے وہ فتوی دیں گے کہ باہر نکلنے کے لئے برقعہ پہننا ضروری ہے لیکن یاد رہے روزی روزگار کی ذمہ داری اسلام نے عورت پہ نہیں ڈالی۔ 
کیوں مولانا صاحب میں کیوں برقعہ پہنوں؟
  چالیس ڈگری سینٹی گریڈ پہ برقعے کے تصور سے مجھے اپنا آپ برا لگتا ہے، مولانا صاحب سے نفرت ہو جاتی ہے اور خدا سے بیر۔ جو انتہائ قدرت رکھنے کے باوجود اتنا بے بس تھا کہ مجھے آزادی سے کھلی فضا میں سانس لینے کے لائق نہیں بنا سکا۔ اگر اسے مجھےکپڑوں کے باوجود کوکون کی طرح برقعہ میں ہی لپیٹ کر رکھنا منظور تھا تو اسے کم سے کم میرا جسمانی نظام ہی اسکے مطابق بنانا چاہئیے تھا۔ وہ قادر مطلق ہے پھر اسے آزمائش کے سارے سخت مرحلوں سے مجھے ہی کیوں گذارنا مقصود تھا اور ان سخت مراحل کے باوجود مزے کی زندگی دنیاوی اور دنیا کے بعد مردوں کے حصے میں۔ خدا کس قدر امتیازی سلوک رکھتا ہے اپنی مخلوقات میں۔
اسلام پہ قائم رہنے کے لئے میں سوچتی ہوں کہ ایسا عقل سے عاری خدا مولانا صاحب کو ہی مبارک ہو۔  مجھے اکیسویں صدی میں ایک جینیئس خدا چاہئیے۔ ساتھ ہی مجھے خیال آتا ہے کہ مولانا صاحب کے بند دماغ سے اپنے خدا کو کیوں دیکھوں۔ میرے خدا کو میرے شایان شاں ہونا چاہئیے۔ اگر میں زمین ہوں تو اسے آسمان ہونا چاہئیے میں جتنی  زبردست ہوں اسے مہا زبردست ہونا چاہئیے۔
اچھا اب آگے بتاتی ہوں کہ دنیا کے واقعات کیسے پیش آتے ہیں۔ جن سے مولانا صاحب کا خدا لا علم معلوم ہوتا ہے۔
 فرض کریں کہ کوئ عورت سات بچوں کی ماں ہے اور اسکے شوہر کا انتقال ہوجاتا ہے۔ لیکن مولانا صاحب کے دین کے مطابق ایک نیک عورت ہے یعنی تمام زندگی گھر سے باہر قدم نہیں رکھا تو صحیح اسلامی حل یہ ہوگا کہ عدت ختم ہونے پہ ایک اور شوہر کرے۔ اس شوہر سے بھی اس کے پانچ بچے ہو جاتے ہیں لیکن وہ شوہر ، پہلے شوہر کے بچوں کو نہ اپنے ساتھ رکھنے کو تیار ہے اور نہ ہی انکی کسی بھی قسم کی ذمہ داری لینے کو تیار ہے۔ اسلامی تعلیمات میں سوتیلا باپ انکا ذمہ دار ہے بھی نہیں۔  ان بچوں کے رشتے دار بھی اس قابل نہیں کہ انہیں سپورٹ کر سکیں۔ ان میں سے جو بچیاں ہیں چاہے وہ چھ برس کی ہوں انکی تو فوراً شادی کر دینی چاہئیے کیونکہ اسلامی تعلیمات کی جو روشنی مولانا صاحب کے طفیل ملتی ہے اس میں ایک عورت کی پیدائش کا مقصد شادی اور بچوں کی پیدائیش کے سوا کچھ نہیں ہے۔
 اب عورت جھلا کر مولانا صاحب سے پوچھ سکتی ہے کہ  آخر ساری زندگی گھر کی چہار دیواری میں بند رہنے اور مسلسل بچے پیدا کرنے کے بعد میرے ہی حصے میں دوزخ کیوں زیادہ آئے گی۔ مولانا صاحب فرمائیں گے بد بخت تیری اسی زبان درازی کی وجہ سے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ یہ دوسرا شوہر چند سالوں بعد ایک دن ناراض ہو کر تین دفعہ طلاق کہتا ہے اور اب اس گھر میں اس عورت کے لئے کوئ جگہ نہیں۔ اسکے حصے میں خوش قسمتی سے معمولی سی مہر کی رقم آجائے تو اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئیے۔  اسکے علاوہ کچھ نہیں۔ 
اب ان پانچ بچوں کاکیا ہوگا؟
 ایک دفعہ پھر مولانا صحاب کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جو بچیاں ہیں انکی فی الفور شادی کر دی جائے اس سے فرق نہیں پڑتا کہ چھ سال کی لڑکی کی پچاس سال کے مرد سے کر دیں۔ آپ جانتے ہیں پھر اسلامی تاریخ بیان کی جائے گی جو دراصل عرب ثقافت اور تاریخ ہوگی۔ وہ بھی ڈیڑھ ہزار سالہ پرانی۔
اب یہ عورت تیسرا شوہر تلاش کرے گی۔ لیکن جو کام وہ نہیں کر سکتی، وہ یہ کہ خود کام کرے پیسے کمائے اور اپنے بچوں کے مستقبل کو زیادہ محفوظ بنائے تاکہ یہ سب بچے اسکے قریب رہیں اور بہتر اور کار آمد انسان بنیں۔  
کیوں؟
کیونکہ مولانا صاحب کے قائم کردہ معاشرے میں وہ ایک جانور کی طرح نہ کوئ قابلیت رکھتی ہے نہ ہنر،  نہ مرتبہ۔ مولانا صاحب اگر اسے کبھی مثال کے لئے پیش بھی کرتے ہیں تو کھلے ہوئے گوشت کی صورت یا بغیر ریپر کی  وہ ٹافی جس پہ مکھیاں بھنبھنا رہی ہو۔ اس سے زیادہ دیکھنے اور سوچنے کی سکت مولانا صاحب میں نہیں ہے۔ وہ اگر چاہے بھی تو کیا کرے گی۔ مولانا صاحب سے بغاوت کرے گی تو زیادہ سے زیادہ بغیر مذہبی تعلقات کے اپنے آپکو فروخت کے لئے پیش کرے گی۔ ایک بے ہنر اور ان پڑھ عورت اسکے علاوہ کیا کرے گی۔
واضح کر دوں کہ فرض کرنے کے علاوہ یہ ایک سچا واقعہ ہے۔
اس صورت حال پہ مولانا صاحب یا انکے چیلوں کو ذرا شرم نہیں آئے گی۔  دنیا تو ہے ہی آزمائش کی جگہ۔ وہ ایک اور فتوی جاری کرتے وقت فرما دیں گے۔ یہ ہم نہیں جانتے کہ یہ آزمائش واقعی خدا کی طرف سے ہے یا مولانا صاحب کی طرف سے۔ وہ کہتے ہیں قرآن یہ کہتا ہے اور حدیث یہ کہتی ہے۔ ہم تو یہ جانتے ہیں مولانا صاحب کہ عہد نبوی میں صحابہ متع کرتے تھے اور عورتیں غربت کی وجہ اناج کے ایک پیالے پہ متع کرتی تھیں۔ یہ نکاح چند دن یا چند مہینے رہتا اور پھر ختم ہوجاتا۔ متع کرنے والی یہ عورتیں نکاح سے پہلے مردوں کو دیکھتیں اور ان سےپورا معاملہ طے کرتیں۔ یقین نہ ہو تو سیرت النبی میں یہ واقعہ پڑھ لیجئیے۔
آج بھی اسلام میں متع کے بارے میں دو مخلف فرقے موجود ہیں ۔ سنیوں کے نزدیک جائز نہیں شیعوں کے نزدیک جائز ہے۔ آج شیعوں کے ایران میں جسم فروشی کی صنعت کو متع کی وجہ سے تحفظ حاصل ہے۔ لیکن آج کے ایران میں خواتین بغیر اسکارف کے نہیں رہ سکتیں۔ ہے نا، مذاق۔
نیک عورت  کے پیمانے بھی کتنے مختلف ہیں۔ وہ اس تصویر سے واضح ہیں۔

 اس تصویر سے  پتہ چلتا ہے کہ سب سے نیک مسلمان عورت وہ ہوگی جو مافوق الفطرت مخلوق کی طرح کسی کو نظر نہیں آئے گی۔ اس سے ہم مندرجہ ذیل نتائج اخذ کرتے ہیں۔
 نیک عورت وہ ہے جس کی نہ آواز سنائ دے اور جو اپنے گھر میں ایسے بند رہے کہ کسی کو خبر بھی نہ ہو کہ وہ پیدا بھی ہوئ تھی ایسے گھروں سے شادی کارڈ ملے گا تو اس پہ دلہن کا نام موجود نہیں ہوگا۔ یعنی یہ عورتیں عہد نبوی کی عورتوں بلکہ رسول کی بیویوں سے بھی زیادہ نیک ہوئیں۔ اگر نیکی کے اس ورژن کی مزید تفصیل میں گھسا جائے تو سب سے نیک عورت وہ ہوئ جسے خدا دنیا میں جانے کی نوید دے مگر وہ دنیا میں آنے سے انکار کر دے یعنی پیدا ہونے سے انکاری ہوجائے۔
نیکی کا اگلا ہلکا معیار یہ ہے کہ برقعہ پہن کر گھر سے نکل سکتی ہے وہ بھی محرم کے ساتھ لیکن جسم کا کوئ حصہ نظر نہ آئے۔ ہاتھوں میں دستانے، پیروں میں موزے اور آنکھوں پہ نقاب  میں جالیاں۔ سوچتی ہوں عہد نبوی میں رفع حاجت کے لئے جنگل میں جانا پڑتا تھا۔ اس وقت گھروں میں بیت الخلاء نہیں ہوتے تھے۔ خواتین پہلے سے برقعہ پہن کر بیٹھ جاتی ہونگیں یا فوری ضرورت پیش آجائے تو برقعے کی طرف بھاگتی ہونگیں۔ پیٹ خراب ہونے کی صورت میں مقام ضرورت پہ ایک خیمہ گاڑ دیا جاتا ہو گا۔
نیکی کا اگلا معیارچہرہ ،  ہتھیلی اور پیر کھلے رہ سکتے ہیں۔ مردوں سے ضرورت کے لئے بات کی جا سکتی ہے فیس بک پہ تبلیغی چیٹنگ شاید کی جا سکتی ہے کیونکہ جادو صرف آواز میں ہوتا ہے تحریر میں نہیں۔ اور مذہبی گفتگو کے وقت تو شیطان کوسوں دور رہتا ہے۔ حالانکہ جدید تحقیق کہتی ہے کہ خواتین کی تحریر میں بھی راغب ہوجانے والے مردوں کے لئے جادو ہوتا ہے۔  اس لئے بعض خواتین کو دیکھتی ہوں کہ برقعہ پہن کر کلائیوں پہ موزے کی طرح کے ٹائیٹس پہن لیتی ہیں کیوں کہ اگر کسی وجہ سے برقعہ کھسک جائے تو کلائ نہ نظر آ سکے یہ ستر میں شامل ہے۔
عہد نبوی میں جبکہ کپڑا ہی بمشکل ملتا تھا وہ بھی عام لوگ نہیں خرید پاتے تھے اس وجہ سے نبوت سے پہلے غریب لوگ حرم کا طواف ننگے ہو کرکرتے تھے۔  خیر، جب عرب میں کپاس نہیں پیدا ہوتی تھِی تو یہ ٹائیٹس کیسے بنائ جاتی ہونگیں؟
چاہے گھٹنوں تک اسکرٹ پہنیں، شراب پیئیں یا ایک کے بعد ایک  طلاق اور شادیاں کرتی رہیں لیکن سر پہ اسکارف ضرور ہونا چاہئیے۔ عورت کے بال میں جادو ہے۔ بال نہیں نظر آنا چاہئیے۔ اس پہ تو صرف ایک ہی خیال آتا ہے کہ کوئ عورت اگر ساری زندگی گنجا رہنے کا فیصلہ کر لے تو کیا اسکارف کی پابندی اس پہ سے ہٹ جائے گی۔ کیا گنجی عورت بال والی عورت سے زیادہ نیک ہوگی ؟ کیا ایک گنجی عورت، ایک مسلمان عورت کی علامت نہیں بن سکتی؟ کیا خدا عورت کو گنجا نہیں پیدا کر سکتا تھا؟



قابل غور بات یہ ہے کہ دنیا کے تمام ممالک  میں اگر خواتین کی حالت کا موازنہ کیا جائے تو اسلامی ممالک کی خواتین سب سے زیادہ بد حال نکلیں گی معاشی اور سماجی حساب سے۔  معیشت کے لئے وہ اپنے شوہر یا باپ کی محتاج ہوتی ہیں۔ شوہر علاج کرانے سے انکار کر دے تو معمولی بیماری میں بھی جان دے سکتی ہے۔ اگر شوہر نکال باہر کرے یا باپ کا سایہ نہ رہے تو یہ عورت دربدر ہوجاتی ہے لیکن اپنے آپ کو بچا نہیں سکتی۔  معاشی اور سماجی دباءو ایسا ہے کہ اپنی صحت کے بارے میں نہیں سوچ سکتی ۔ کیا یہ توقع کی جانی چاہئیے کہ یہ عورت اپنے گھر میں بیٹھ کر بچوں کی بہترین تربیت کرے گی  ایک لا علم عورت جس طرح کی تربیت کر سکتی ہے وہ ویسی ہی کر پاتی ہے سو آبادی میں نکمے لوگوں کی ایک کثیر تعداد کی غلط تربیت کا الزام بھی اسی پہ ڈالا جاتا ہے۔
 دیکھا جائے تو شاید آئ کیو کی سطح پہ بھی مسلمان عورت دنیا کی دیگر عورتوں میں سب سے زیادہ پسماندہ ہوگی کیونکہ آئ کیو محض خدا کی دین نہیں ماحول اور دماغی صلاحیتوں کو استعمال کرنے سے بھی تشکیل پاتا ہے۔ جبکہ سب سے بہتر مسلمان عورت وہ ہوتی ہے جو اپنی عقل ہرگز استعمال نہ کرے۔ 
 کہتے ہیں کہ پردہ ایک عورت کو محفوظ کرتا ہے اس کا مذاق پاکستان ہی میں وہ ثقافتیں اڑاتی ہیں جہاں خواتین سب سے زیادہ پردے میں رہتی ہیں اور جہاں سب سے زیادہ جرائم خواتین کے خلاف ہوتے ہیں۔

ادھرپردے کے لئے ایسی مہم چلی ہوئ ہے کہ لوگ ہر آڑی ترچھی دلیل لانے کو بے قرار۔ جیسے ہر عورت اگر حجاب پہن لے تو بس سارے مسائل حل۔ دنیا ایک دم جنت کا نمونہ بن جائے گی۔ ہر مولوی  لڑکا چند حسین آنکھوں پہ عشقیہ اشعار لکھ کر ایک خوبصرت لڑکی کو پس منظر میں رکھ کر ایک تصویر بناتا ہے اور اسے اپنے اسٹیٹس پہ ڈالتا ہے اور اسکے بعد اگلے اسٹیٹس میں مسلمان بہنوں کو اس قسم کے پغام دیتا ہے۔

  نوبل پرائز ملنے پہ کسی نے توکل کرمان کو جھوٹے منہ بھی نہ پوچھا ہمارے ملک میں لیکن ہلیری کلنٹن سے ایوارڈ وصول کرتے وقت جب توکل کرمان نے حجاب پہ فخر کیا تو ماشاء اللہ کی صداءووں کے ساتھ انکی تصویر سوشل میڈیا پہ موجود تھی۔

حالانکہ اس سے پہلے یہ ماشاء اللہ ان حسین خواتین کی تصاویر کے ساتھ ہوتا جو میک اپ سے مزین چہرے پہ خوبصورت ریشم کا اسکارف باندھے ہوتیں۔ یعنی بس اسکارف  یا دوپٹہ سر پہ ہونا چاہئیے اسکے بعد مولوی لڑکوں کا دل پھینکنا بالکل جائز اور اسلامی ہوتا ہے۔ اس سے سمجھ میں آتا ہے کہ یہ لوگ دین کو کس قدر سطحی طور پہ سمجھتے ہیں۔



 اب اس تفصیل سے گذرنے کے بعد یہ تو یقین ہو جاتا ہے کہ مولانا صاحب بھی جدید ٹییکنالوجی کے دلدادہ ہیں۔  فیس بک پہ اپنی ہم خیال، با حجاب خواتین کے اسٹیٹس پہ ہی جزاک اللہ، ماشاء اللہ نہیں کہتے بلکہ انکی فرینڈز کی لسٹ میں بے شمار نامحرم خواتین کی بے حجاب  تصاویر اور نام محض یاد دہانی کے لئے ہوتے ہیں کہ انکو راہ راست پہ لانا ہے۔ اس طرح آپ صرف انکے فرینڈز کی لسٹ دیکھ کر ہی انکی زندگی کے اعلی مقاصد نہ صرف گن سکتے ہیں بلکہ یوم آخرت میں انکو حاصل ہونے والی نیکیوں کو بھی آڈٹ کر سکتے ہیں اس کو کہتے ہیں چپڑی وہ بھی دو دو۔

اب اصل سوال یہ ہے کہ کیا ایک ایسا معاشرہ ممکن ہے جہاں عورت اور مرد دو ایک دم الگ دنیاءووں کے باسی ہوں ایسے کہ وہ ایک دوسرے سے کوئ کمیونیکیشن نہ کر سکیں سوائے اپنے محرموں کے؟
 یہاں کراچی میں ایک مینا بازار ہے جہاں خواتین دوکاندار اور خواتین ہی خریدار ہوتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خواتین کے اس بازار میں زیادہ تر خواتین کے زیر جامہ فروخت ہوتے ہیں۔ اور میں نے یہ دیکھا ہے کہ یہ زیر جامے  مرد سیلز مین انہیں سپلائ کرتے ہیں اور وہ اپنی دوکان پہ بیٹھےان سے کاروباری ڈیل کرتی ہیں۔ ایک کلف لگے ہوئے کپڑے پہن کر بنے ٹھنے مولانا صاحب کو وہاں خواتین سے دوکان کا کرایہ وصول کرتے دیکھا۔ جو ان خواتین سے حسب مرتبہ مذاق بھی کرتے جا رہے تھے۔ 
اسکی داستان الگ ہے کہ ان زیر جاموں کو کون مرد سیتے ہیں۔ یعنی مولانا صاحب کے حرم کی خواتین بھی مردوں کے ہاتھ کے سلے ہوئے زیر جامہ پہنتی ہیں۔ اس لئے کہ خواتین  ماہر کاریگر اس مقصد کے لئے اتنی تعداد میں دستیاب نہیں ہیں۔ پھر کس حجاب کا پروپیگینڈہ ہوتا ہے، کس حیاء کے نعرے بلند ہوتے ہیں اور کون سے پردے کا اہتمام ہوتا ہے۔
  
تو مولانا صاحب،کیا آپ نے کبھی محسوس کیا کہ پاکستانی عورتوں کی اکثریت کیوں آپ سے نفرت کرتی ہیں اس لئے نہیں کہ آپ ٹام کروز کی طرح اسمارٹ نہیں یا رانجھے کی طرح بانسری نہیں بجا سکتے یا ہٹلر کی طرح دنیا پہ چھا جانا چاہتے ہیں  اس لئے بھی نہیں کہ آپ انہیں کھلے بازءووں والی قمیض نہیں پہننے دیتے یا آپ انہیں اپنی مرضی کا مرد منتخب نہیں کرنے دیتے، مرضی کی شادی نہیں کرنے دیتے  یا آپ انہیں تعلیم نہیں حاصل کرنے دیتے یا پھر آپ انہیں پیسہ کما کر خوشحال نہیں ہونے دیتے۔
 صرف اس لئے مائ ڈیئر مولانا صاحب کہ آپ انکے کے ہر سنگین سے سنگین مسئلے سے نظر چرا کر ان کے نظر آنے والے بال اور گوشت پہ نظر گاڑے بیٹھے رہتے ہیں۔ جیسے وہ بس بال اور گوشت کا مجموعہ ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ آپکی ساری تبلیغ، خدا اور قیامت کے سارے ڈراوے، دوزخ کی آگ اور عذاب کے تمام اعلانات کے باوجود آپکو اشتہاروں میں کھلے گلے پہنے عورتیں نظر آتی ہیں ، اسکول بم سےاڑا دینے کے باوجود آپکو تعلیمی اداروں میں زیادہ سے زیادہ عورتیں نظر آتی ہیں، گھر میں رکے رہنے اور محرم کو ساتھ رکھنے کی ہمہ وقت تلقین کے باوجودعورتیں اکیلے ایک ملک سے دوسرے ملک ، ہوائ جہاز کے سفر کر رہی ہیں۔ عورتیں گاڑیاں چلا رہی ہیں، عورتیں جہاز اڑا رہی ہیں، عورتیں شیمپو کے اشتہاروں میں اپنے جادو بھرے بال اڑارہی ہیں، عورتیں ڈیٹنگ کر رہی ہیں، عورتیں اپنے سینیٹری پیڈز بیچ رہی ہیں وہ بھی ٹی وی پہ۔ 
کیا یہ سب مرتد ہو چکی ہیں یا یہ سب آپکے خلاف بغاوت ہے یا خدا کے خلاف بغاوت ہے؟ کیا جدید طرز زندگی کو تسلیم کئے بغیر آپ انہیں اپنے خدائ فتووں سے روک سکتے ہیں؟ یااااااااااااااا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا عورتوں کا خدا کوئ اور ہے اور آپکا کوئ اور؟

Monday, May 14, 2012

ملغوبہ

نسیمہ کی عمر اسکی ماں کے بقول چودہ پندرہ سال ہے۔ دبلی پتلی، زرد رو نسیمہ پہلے کبھی کبھی اسکول کی چھٹی والے دن صفائ کے کاموں میں اپنی ماں کی مدد کے لئے ساتھ آیا کرتی تھی۔ لیکن جب اسکی تائ نے زور ڈالا کہ بس اب چھ مہینے میں وہ اسکی شادی کرا کے لے جائے گی تو ماں نے اسکا اسکول چھڑایا اور شادی کی تیاری کے لئے زیادہ گھروں میں زیادہ کام کر کے زیادہ پیسے جمع کرنے کے لئے روز ہی اسے اپنے ساتھ لانے لگی۔
نسیمہ کی چھوڑی ہوئ تعلیم کو جاری رکھنے کے لئے میری ساس نے اسے پڑھانا شروع کر دیا۔ اور اب بعض ناگذیر وجوہات کی بناء پہ آج کل نسیمہ مجھ سے پڑھ رہی ہے۔ یوں چھٹی کلاس کی اردو کی کتاب میرے ہاتھ لگی۔ اپنی والی تو میں چند ایک کے علاوہ بھول گئ کہ اس میں کیا کیا تھا لیکن چھٹی کلاس کی اردو کی اس کتاب کو دیکھ کر مجھے جھٹکا ضرور لگا۔
تینیتیس اسباق میں سے آٹھ مذہبی معلومات یا شخصیات کے بارے میں ہیں جنہیں بآسانی اسلامیات کی کتاب میں تاریخ اسلام کے ضمن میں ڈالا جا سکتا تھا۔
آٹھ اسباق ، وطن سے متعلق ہیں جنہیں بآسانی سوشل اسٹڈیز میں ڈالا جا سکتا تھا۔ دھیان میں رہے کہ چھٹی کلاس میں سوشل اسٹڈیز اور اسلامیات کے مضامین الگ سے موجود ہیں۔
 ایک سبق اخلاقیات پہ بھی ہے جو مہمان نوازی کے متعلق ہے اور یہ بھی دراصل عہد نبوی کا ایک واقعہ ہے۔ 
ایک سبق اقوال زریں پہ ہے جسکے سولہ میں سے، سب سے پہلا قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ ہے اور دس اقوال دراصل احادیث ہیں، تین صحابہ اکرام کے اقوال ہیں، ایک شیخ سعدی کا اور ایک یحیی برمکی کا۔ یعنی مذہب اور ملک  سے باہر نہ کوئ دنیا بستی ہے اور نہ کوئ شخصیات ہیں اور انکے اقوال۔
کیا دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں زبان اسی طرح سکھائ جاتی ہے؟
اردو کی کتاب جسے دراصل صرف اردو زبان اور ادب کے متعلق ہونا چاہئیے تھا وہ آدھی سے زیادہ مذہب اور حب الوطنی کے ملغوبے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ صرف ایک ادبی شخصیت کا تذکرہ ہے اور وہ ہیں ڈپٹی نذیر احمد، شاید انہیں یہ مقام توبۃ النصوح کی وجہ سے ملا ہو۔ نصاب بنانے والوں سے صرف یہ پوچھنا چاہونگی کہ اردو کے لئے ایک علیحدہ نصاب کی کیا واقعی ضرورت ہے؟
کیا زبان سکھانے کے یہی طرائق ہوتے ہیں؟ اور کچھ نہیں تو انگریزی زبان کے زبان سکھانے کے طریقوں کو ہی دیکھا جا سکتا ہے۔
اس میں ہماری کلاسک کہانیوں کے کچھ حصے ڈالے جا سکتے تھے۔ سعدی کی حکائیتیں ڈالی جا سکتی تھی۔ اردو میں ذخیرہ ء ادب اتنا محدود نہیں کہ اردو کی کتاب کا پیٹ بھرنے کے لئے اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کے موضوعات ڈالے جائیں۔ دنیا کی دیگر تہذیبوں کی کہانیوں کے ترجمے ڈالے جا سکتے تھے۔ مزید ڈرامے ڈالے جا سکتے تھے۔ سفر نامے ڈالے جا سکتے تھے، دنیا کی مشہور شخصیات کی سوانح عمری کے حصے ڈالے جا سکتے تھے۔ پاکستان سے باہر، مذہب سے باہر لوگوں کے بارے میں جاننا کچھ گناہ نہیں۔ بلکہ پاکستان بننے سے پہلے اس زمین پہ کئ عظیم شخصیات گذری ہیں انکے متعلق ڈالا جا سکتا ہے۔
یہ سب باتیں انہیں بھی پتہ ہونگیں، لیکن نیت یہ ہوگی کہ ثواب اور حب الوطنی زیادہ سے زیادہ کمایا جائے۔ 
یہی نہیں، یہ وہ سطح ہے جہاں پہ بچے محاوروں اور کہاوتوں کے استعمال سے آشنا ہوتے ہیں اس لئے اسباق کی زبان اس سے کہیں بہتر اور دلچسپ بنائ جا سکتی تھی۔
بہر حال، اس کتاب کو پڑھنے کے بعد میں سوچتی ہوں، کہ اگر اسلامیات، سوشل اسٹڈیز اور اردو کو ملا کر ایک مضمون بنا دیا جائے تو نہ صرف کم اساتذہ درکار ہونگے بلکہ اسکول ٹائم بھی کم ہوجائے گا۔ ایک گھنٹے کا فرق تو آئے گا ہی۔ اس طرح سے بجلی بچے گی ،لوگ چھوٹی موٹی صنعتیںچلانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اور کچھ نہیں تو بچے کسی درزی یا مکینک کے پاس چھوٹے بن کر اپنے فالتو وقت میں کچھ آمدنی حاصل کریں گے۔ بچیاں اپنی ماءووں کے ساتھ زیادہ گھروں میں جھاڑو پونچھا کریں گی۔ جو اس ملغوبہ نسل سے تو زیادہ عملی ثابت ہوگی۔  کیا یہ خیال غلط ہے؟

Friday, May 11, 2012

جامعہ کراچی کے گدھ

بچے اگر ماں باپ کا نام روشن کریں تو یہ والدین کے لئے قابل فخر بات ہوتی ہے لیکن اگر والدین بھی کوئ قابل فخر کارنامہ انجام دیں تو کیا اولاد کا سر بھی فخر سے بلند نہیں ہو جاتا ہے؟
  یہی تعلق ان جگہوں سے ہوتا ہے جہاں سے ہم تعلیم حاصل کرتے ہیں جہاں سے ہم اپنے ہونے کا مطلب سمجھتے ہیں۔ بقول سکندر اعظم، میرا جسمانی باپ مجھے اس دنیا میں لایا اور استاد یعنی میرا روحانی باپ مجھے واپس آسمانوں پہ لے گیا۔ ہماری مادر علمی اگر ترقی کے زینوں پہ نظر آئے تو ہم بھی فخریہ کہتے  ہیں کہ یہ ہے وہ ادارہ جہاں سے ہم نے تعلیم حاصل کی۔ 

اورمیرا نہیں نجانے کتنے افراد کا یہ احساس اس وقت چکنا چور ہوا جب جامعہ کراچی ایچ ای سی کی ملک کی دس بہترین تعلیمی اداروں کی فہرست میں جگہ نہ پا سکی۔
ایک بار پھروہی سوال کیا وہ اسکی حقدار ہے؟
کسی بھی تعلیمی ادارے میں تدریسی عمل ریڑھ کی ہڈی کی حیثیئت رکھتا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی کے تدریسی عملے میں زیادہ تر تعداد ان اساتذہ کی ہے جو نہ صرف پی ایچ ڈی  نہیں ہیں بلکہ جنہیں مستقل ہونے کا اعزاز بھی حاصل نہیں۔ یہ کو آپریٹو ٹیچرز کہلاتے ہیں۔  ایک مستقل استاد کی نسبت انہیں برائے نام  تنخواہ ملتی ہے اور کسی قسم کے  دوسرے فوائد حاصل نہیں ہوتے، مثلاً سالانہ چھٹیاں۔ انہیں جس وقت چاہے نکال کر باہر کیا جا سکتا ہے۔
ان کو آپریٹو اساتذہ کا انتخاب کیسے عمل میں لایا جاتا ہے؟
ضرورت مند ڈپارٹمنٹ کے نوٹس بورڈ پہ ایک نوٹس لگا دیا جاتا ہے۔ ظاہرسی بات ہے کہ اسے وہی جان پاتے ہیں جو روزانہ اس ڈپارٹمنٹ سے گذرتے ہیں۔ ڈپارٹمنٹ سے تعلق نہ رکھنے والے اس سے آگاہ نہیں ہو پاتے۔ اس طرح اسکی اطلاع بہت محدود لوگوں کو ہوتی ہے اور ان کی بڑی تعداد وہ ہوتے ہیں جو اس وقت ڈپارٹمنٹ میں موجود ہوتے ہیں۔
انتخاب ، ڈپارٹمنٹ کا چیئر مین سینیئر اساتذہ کے مشورے سے کرتا ہے۔ اس طرح کو آپریٹو ٹیچرز کا انتخاب سینیئر اساتذہ کی پسند نا پسند پہ ہوتا ہے۔ کیونکہ بہر حال ان ٹیچرز کو سینیئر اساتذہ کے ماتحت کام کرنا ہوتا ہے۔ اکثر اوقات یہ سینیئر اساتذہ کے زیر نگرانی نام نہاد ایم فل یا پی ایچ ڈی کے طالب علم ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی میں ڈپارٹمنٹس میں کی جانے والی  پی ایچ ڈی کی کوالٹی پہ پھر کبھی بات ہوگی۔
  انکی صورت میں سینیئر اساتذہ کو ایک غلام مل جاتا ہے جو اپنی نوکری پکی کروانے کے چکر میں انکے ہر اشارے پہ ناچتا رہتا ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ بد ترین بات یہ ہوتی ہے کہ ان  کو آپریٹو  ٹیچرز کی تعلیمی استطاعت عموماً ماسٹرز ہوتی ہے۔
اگرڈپارٹمنٹ سے باہر کا کوئ پی ایچ ڈی کو آپریٹو ٹیچر کے طور پہ کام کرنے کے لئے آ بھی جائے تو سینیئر اساتذہ اپنی سازشی ذہانت کے وہ کرشمے دکھاتے ہیں کہ وہ بھاگ لینے میں ہی عافیت جانے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ اس وقت جامعہ میں سینیئر اساتذہ کی زیادہ تر کھیپ اوسط سے نیچے کی صلاحیتوں پہ مبنی اشخاص کی ہے جو ذرا بھی با صلاحیت شخص سے ڈر جاتے ہیں۔
تو ان بےچارے کوآپریٹو اساتذہ یا طالب علموں کو سینیئرٹیچر کے آگے دم مارنے کی بھی مجال نہیں ہوتی کیونکہ اوّل انکی تعلیمی استطاعت ہی نہیں ہوتی  دوئم یہ کہ باہر کی دنیا کا کچھ تجربہ بھی نہیں ہوتا سوئم یہ کہ اپنے استاد کے آگے کوئ کیسے  دم مار سکتا ہے لازماً اسے انکے کرپشن میں شامل ہونا پڑتا ہے۔
سمسٹر کے شروع میں ہر سینیئرٹیچر اپنی مرضی کا کورس لیتا ہے اور اپنی مرضی کا کو آپریٹو ٹیچر تاکہ اس کارسوخ مضبوط رہے۔  اور وہ ایک ہی رٹے ہوئے کورس کو سالوں پڑھاتا رہے، اپنی کاہلی اور کم علمی کی وجہ سے زیادہ محنت نہ کرے۔  یہ سینیئر اساتذہ جس سیاسی پارٹی کی لابنگ کرتے ہیں کو آپریٹو ٹیچر کو بھی اسکی کرنی پڑتی ہے۔ اوریہی چیز سیاسی پارٹیوں کی مضبوطی کا باعث بھی بنتی ہے۔ اگر نہ کریں تو ہر برے نتائج کا الزام اس پہ جائے۔  اس لئے اس امر پہ حیرت نہیں ہونی چاہئیے کہ اتنی بڑی یونیورسٹی میں کو آپریٹو ٹیچرز ، مستقل اساتذہ سے تعداد میں زیادہ رہتے ہیں۔
انہی کو آپریٹو ٹیچرز کی وجہ سے سلیکشن بورڈ میں تاخیر ہوئ چلی جاتی ہے۔ کیونکہ اس طرح کو آپریٹو ٹیچر کا مدت تجربہ بڑھتا رہتا ہے اور سینیئر اساتذہ چالاک عقابوں کی طرح اس پہ نظر رکھے رہتے ہیں کہ انکے امیدوار کو لانے کے لئے کون سا موقع مناسب ہے اس وقت سلیکشن بورڈ بٹھایا یا یہ کہ اس دوران انکا امیدوار ہر جائز نا جائز طریقے سے ایم فل یا پی ایچ ڈی کر لے تاکہ اس کا سی وی بہتر ہو جائے۔ 
ادھر کو آپریٹو ٹیچر بھی امید کے سہارے دن گذارے جاتا ہے۔ حالانکہ یونیورسٹی کے قواعد کی رو سے جیسے ہی کسی ٹیچر کی جگہ خالی ہو اس کے لئے سیلیکشن بورڈ ہونا چاہئے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دس  دس سال تک ایک کو آپریٹو ٹیچر کام کئے جاتا ہے۔
پانچ ، چھ سال تک سلیکشن بورڈ کا نہ بیٹھنا ایک معمول کی کارروائ ہے۔ اس سال جو سلیکشن بورڈ بیٹھا وہ چھ سال کے بعد بیٹھا تھا۔  دلچسپ امر یہ ہے کہ زیادہ تر کو آپریٹو ٹیچرز فیل ہو گئے۔ یہ فیل ہونے والے کو آپریٹو ٹیچرز گذشتہ چھ سال سے پڑھا رہے تھے اور ہم امید کر رہے تھے کہ جامعہ کراچی پاکستان کے دس بہترین تعلیمی اداوں میں آئے گی۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ فیل ہوجانے والے یہ امیدوار پھر بھی کو آپریٹو ٹیچر کے طور پہ اپنا کیریئر جاری رکھتے ہیں۔ 
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے، تاریکی  کی وجہ ، وہ اجتماعی شعور  ہے جو تمام خود غرض اور مفاد پرست لوگوں کے اتحاد کا نتیجہ ہے اور نظام پہ حاوی ہے۔  

Wednesday, May 2, 2012

سڑک سے سڑک تک

پرانے زمانے میں کہاوت تھی کہ ایک مرد کی قوت کمائ اسکے گھر کے عورتوں کے سونے کے زیورات سے پتہ چلتی ہے۔ شاید خواتین نے مشہور کر رکھی ہو تاکہ ان کے مرد انہیں خوب سونے کے زیورات بنا کر دیں لیکن کسی ملک کی خوشحالی کی داستان اسکی سڑکیں سب سے پہلے سناتی ہیں۔
میں نے جب بارہ دن پہلے استنبول کی سڑک پہ پاءوں رکھا تو دور تک سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پہ ٹیولپس کے رنگ برنگے پھول لہرا رہے تھے۔ اس منظر نے مجھے مسحور کر دیا تھا۔ میرے شہر میں تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ اب کس پھول کا موسم ہے۔ اس شہر کے باسیوں کی خوش قسمتی پہ رشک آیا۔  پھولوں کا سنگھار ہی کافی نہیں۔ سڑکیں صاف ستھری ہیں۔ کم از کم ترکوں کو یہ پتہ ہے کہ کچرا کیا ہوتا ہے اور اسے کہاں ہونا چاہئیے۔ 
جب گاڑی نے پہئیے گھمائے تو میں نے دیکھا کہ روڈ پہ جتنی گاڑیاں ہیں شاید ہی ان میں کوئ خستہ حال گاڑی ہو۔ رکشے جیسی سستی سواری، یہاں لوگ نہیں جانتے کیا ہوتی ہے۔ کسی کو چنگ چی رکشہ چائینا سے منگا کر اپنا کاروبار جمانے کا خیال نہیں آیا۔ بسیں یہاں بھی چلتی ہیں لیکن بسوں کی چھتوں پہ لوگ ندارد۔ منی بسوں کا وجود نہیں، جتنی بسیں ہیں سب بڑی، صاف اور چمکیلی۔
جو ٹرام میں نے دس سال پہلے دیکھی تھی وہ اب بھی چل رہی ہے اتنی ہی صاف۔ کہیں پان کے نشانات نہیں،  لوگ پان کے بجائے شراب کا نشہ کرتے ہیں۔ اس نشے میں کچھ تھوکنا نہیں ہوتا بلکہ نشے کو اور زیادہ خوب صورت کر دیا جاتا ہے۔
انطالیہ ائیر پورٹ سے ہمیں دو سو کلو میٹر کے فاصلے پہ ایک قصبے میں جانا تھا۔ ترکی کے ایک بڑے شہر سے لیکر اس چھوٹے سے قصبے تک ہمیں کوئ گدھا گاڑی، اونٹ گاڑی، رکشہ، چنگ چی رکشہ، منی بس حتی کہ ایف ایکس جیسی چھوٹی گاڑیاں بھی نظر نہ آئیں۔
استنبول میں چار دنوں کے دوران چار فقیر نظر آئے جبکہ انطالیہ میں ایک جگہ ایک فقیر دیکھا۔ وہاں بھی سگنل بند ہونے پہ خواتین اور لڑکے پھول بیچتے نظر آتے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک پہ بھی مجھے شبہ نہیں ہوا کہ وہ سڑک کنارے کھڑے کار والوں سے جسم فروشی کے معاہدے کر رہا ہے۔ ایسا ہر گز نہیں کہ وہاں یہ کام نہیں ہوتا مگر اس طرح نہیں۔
انطالیہ سے دو سو کلو یٹر کے فاصلے  پہ موجود قصبہ، کاش ایک چھوٹا سا پہاڑی قصبہ ہے۔ یہاں نوجوانوں کے پاس موٹر سائکلز دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ خواتین بھی چلاتی ہیں۔  اس لئے کہ پہاڑی پر پیچ  راستوں پہ یہ خاصی مددگار رہتی ہیں بالخصوص جب کسی ایک شخص کو سفر کرنا ہو۔
ترکی کا گروتھ ریٹ پچھلے دس سالوں میں پانچ سے چھ فی صد رہا ہے اور مجھے کاغذ پہ لکھی اس تحریر پہ یقین ہے۔ دس سال پہلے نیلی مسجد، آیہ صفیاء، یا انکے درمیان موجود زیر زمین حوض کے لئے مجھے سڑک کنارے قطار نہیں لگانی پڑی تھی۔ لیکن اس دفعہ اتنی لمبی قطاریں موجود تھیں کہ آیہ صفیاء کے اندر داخل ہونے میں ہی ایک گھنٹہ لگ جاتا۔ پچھلے دس سالوں میں سیاحت میں ترکی خاصے آگے گیا ہے۔ اسکی وجہ ترکی کا سیاحوں کے لئے دوستانہ ماحول ہے۔  خاص طور پہ خواتین سیاحوں کے لئے محفوظ ماحول ہے جس کا میں اپنے ملک  کا باشندہ ہونے کے باوجود تصور نہیں کر سکتی۔
یہاں آتے جاتے ہوئے بعض اوقات مجھے انتہائ رش میں پھنسنا پڑ گیا مگر ارادتاً تو کیا کسی مرد کا غلطی سے بھی ہاتھ نہیں لگا۔ واپس آنے کےاگلے دن میں کراچی میں  سڑک کے کنارے لگے سبزی بازار میں شام کے وقت موجود تھی اور سوچ رہی تھی کہ سڑک پہ چلتے ہوئے اپنے آپکو سمیٹنا کیا صرف ایک خاتون کا فرض ہے۔
ترکی کی ایک اہم صنعت گاڑیوں کی تیاری ہے جس کی بیرون ملک خاصی مانگ  ہے آمدنی کے اہم ذرائع میں یہ بھی شامل ہے۔
جبکہ ہمارے یہاں کوشش یہ کی جارتی ہے کہ صنعت کے نام پہ جو کچھ موجود ہے وہ بند ہو جائے۔ کوئ سرمایہ کار غلطی سے بھی پاکستان کا رخ نہ کرے۔ آنے والی خواتین کو ہم پردے اور چہار دیواری کے سبق پڑھائیں۔ کیا سیاح، کیا سرمایہ کار، کوئ اس ملک کا رخ کرتے ہوئے بھی گھبرائے۔  ہم محض دوسرے ملکوں کی اشیاء کے سیلز مین بن کر رہ جائیں۔ چائینا کی چیزیں بیچیں ، وہاں سے جنریٹر اور یو پی ایس اور بیٹریاں لائیں کیونکہ حکومت بجلی کی پیداوار بڑھانے سے قاصر ہے، ہماری گارمنٹس  فیکٹریاں بنگلہ دیش روانہ ہو جائیں،  ہم  اپنی مقامی صنعتیں بند کریں اور انڈیا کی چیزیں فروخت کریں۔ ہم اپنا خام مال باہر بھیج دیں ، لیکن اپنے ملک کے کاریگر کو اپنی کاریگری دکھانے کا موقع نہ دیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا سرمایہ کار اب چین، بنگلہ دیش، انڈیا  اور ملائیشیاء کی طرف دیکھ رہا ہے۔
صنعتوں کے بند ہونے کی وجہ سے بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس طرح چیزوں کا عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہونے کی وجہ انکا مہنگا ہونا ہی نہیں ہے بلکہ قوت خرید کا کم ہونا بھی ہے۔
ترکی  نے پچھلے سالوں میں سینٹرل ایشیاء کی ریاستوں سے تیل کے معاہدے بھی کئے ہیں جن سے اسے خاصہ معاشی استحکام حاصل ہوا ہے جبکہ ہمارا ایران کے ساتھ گیس کا معاہدہ بھی برسوں لٹکا رہا۔
استنبول سے روانہ ہوتے وقت میں نے اپنے ہم سفر سے پوچھا کہ کیا ترکی میں گھر خریدنے کی اجازت ہے۔ جواب ملا ہاں بالکل خرید سکتی ہیں۔ کیا آپ لینا چاہتی ہیں؟ ہاں، سرمایہ ہو تو، میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ اور یہ چیز عنقا ہے ہمارے پاس۔ ترکی نے مجھے اپنا سرمایہ لگانے کو تیار کر لیا۔ 
میں بارہ دن کے بعد واپس استنبول ائیر پورٹ میں جہاز میں بیٹھی ٹیک آف کا انتظار کر رہی تھی کہ میں نے دیکھا ہمارے آگے ایک کے بعد ایک چھ جہاز رن وے پہ داخل ہوئے اور اڑ گئے۔ چھٹے نمبر پہ جب ہمارا جہاز اڑنے والی جگہ پہ پہنچا تو میں نے اپنے پیچھے آنے والے جہازوں پہ نظر کی جہاں تک نظر نے ساتھ دیا سات جہاز نظر آئے جو ہمارے پیچھے رینگ رہے تھے۔ اور انہیں ہمارے بعد باری باری فضا میں تتلیوں کی طرح اڑنا تھا۔ یعنی ہر تین منٹ بعد اس رن وے سے ایک جہاز اڑ رہا تھا۔ یہ ایک مصروف ائیر پورٹ ہے۔ جتنا مصروف ائیر پورٹ ہے اتنا  ہی زیادہ آمدنی کا باعث ہوگا۔ 
استنبول ائیر پورٹ پہ نجانے کتنے جہاز بھی موجود تھے جب ہم نے استنبول سے پرواز کی۔  نیچے نظر کی  تو شہر کی جگمگاہٹ دیکھ کر یہ بتا سکتی تھی کہ استنبول شہر کہاں تک پھیلا ہوا ہے۔ کتنے پل ہیں جو یوروپ والے حصے کو اس حصے سے ملاتے ہیں جو ایشیاء میں ہے۔
صبح پانچ بجے جب جہاز کراچی کی حدوں میں داخل ہوا تو میں اوپر سے دیکھ کر بتا سکتی تھی کہ اس وقت شہر کے کن حصوں میں لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ جہاز نے کراچی ائیر پورٹ پہ لینڈ کیا۔ یہاں چھ جہاز کھڑے نظر آئے۔ ائیر پورٹ پہ سناٹا چھایا ہوا تھا۔ صرف ہمارا جہاز حرکت میں تھا۔ اندر داخل ہوئے تو ایک بے رونق ، زرد فضا جس میں گرم جوشی یا حرکت نام کو نہیں۔
باہر نکلے تو زرد چہروں کے بچوں کا ہجوم ، اتنے ہی پیلے چہروں والی خواتین سروں  سے دوپٹہ سختی سے لپیٹے، آنے والے مسافروں میں اپنوں کو تلاش کر رہی تھی۔  میرے آگے سات سے نو سال کی عمر کی تین بچیاں برقعہ پہنے جا رہی تھیں۔ جن کے زرد چہروں کو نورانی کہہ کر انکے رشتے دار صدقے واری ہو رہے تھے۔ ہمارے پیچھے ایک خاندان عمرہ کر کے لوٹ رہا تھا۔  ائیر پورٹ کے احاطے میں جا بجا استعمال کی ہوئ اشیاء کے کارٹنز یا ریپرز ادھر ادھر پڑے ہوئے تھے۔ دو غیر ملکی گورے اپنے سامان کی ٹرالی کو دھکا دے کر اس ڈھلواں پہ چڑھانے کی سخت کوشش میں تھے جو کناروں سے ٹوٹی ہوئ تھی۔ سڑک کی وہی حالت تھی جو بحیثیت مجموعی ہمارے ملک کی ہے۔
سڑک پہ مجھے خیال آیا کہ ابھی دوپہر کو اس سڑک پہ سب سے زیادہ ہجوم موٹر سائکل والوں کا ہوگا۔ شہر میں ٹرانسپورٹ مافیا کی وجہ سے کئ دہائیوں سے کوئ بھی حکومت ٹرانسپورٹ کا کوئ متبادل نظام لانے میں ناکام رہی ہے۔ اس مافیا کے کرتا دھرتا ہماری اسمبلیوں کا حصہ بھی ہوتے ہیں اس لئے کوئ بھی حکومت اس معاملے کو زیر غور لانے میں بھی دلچسپی ظاہر نہیں کرتی۔  لوگوں نے چائینا سے درآمد کی ہوئ سستی موٹر سائیکل میں اپنی مشکل کا حل نکالا ہے۔ حکومت اس سے خوش معلوم ہوتی ہے کہ اس سے اسے جنرل سیلز ٹیکس کے علاوہ دیگر ٹیکسز بھی مل رہے ہونگے۔ 
روزانہ بڑھتی ہوئ تیل کی قیمتوں کی وجہ منی بسز کے کرائے اب عام انسان کی پہنچ سے دور ہو رہے ہیں اسکا حل لوگوں نے چنگ چی رکشے میں نکالا ہے۔ جس فاصلے کے لئے منی بس پندرہ روپے لیتی ہے اس سے زیادہ فاصلے کے لئے چنگ چی دس روپے لیتا ہے۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں ایک شخص کا روزانہ دو بسیں، ایک طرف کے فاصلے کے لئے بدلنا کوئ خاص بات نہیں۔  منی بس کے بجائے چنگ چی سہی۔ لیکن ٹرانسپورٹ کے ذرائع جتنے چھوٹے ہوتے جاتے ہیں ٹریفک اتنا زیادہ بے ہنگم ہوتا جاتا ہے۔
جو لوگ یہ بھی افورڈ نہیں کر سکتے وہ سائکل چلاتے ہیں۔ اسکے باوجود سڑک پہ کوئ خاتون سائیکل یا موٹر سائکل چلاتے نظر نہیں آئے گی۔ سڑک بتاتی ہے کہ خواتین اور مرد میں کتنا فرق ہے۔ 
غریب آدمی سامان ڈھونے کے لئے گدھا گاڑی استعمال کرتا ہے۔ یوں جب سگنل بند ہوتا ہے تو ہمارے ملک کی جی ڈی پی کی شرح دیکھنے کے لئے وزیر اقتصادیات کا بیان پڑھنا ضروری نہیں ہوتا۔ سب سے زیادہ تعداد لش پش کرتی فور وہیل گاڑیوں کی  یا حکومت کی سرپرستی میں چلنے والی صاف ستھری بڑی گاڑیوں کی نہیں بلکہ دو پہیوں کی سواری ہوتی ہے۔ اس لئے جب  وہ یہ  فرماتے ہیں کہ اس سال پاکستان کا گروتھ ریٹ چار فیصد رہا اور اگلے سال چھ فی صد ہونے کی امید ہے تو انکے اس بیان پہ نظر ڈالنے کا بھی دل نہیں چاہتا۔ نجانے وہ کس پاکستان کی گروتھ ریٹ کی بات کرتے ہیں۔ اگر ہمارے پاکستان کی تو جھوٹے کا منہ کالا۔
تو جناب، سڑک، کسی بھی ملک کی سڑک اسکی خوشحالی کی داستان سناتی ہے۔اسکے سیاستدانوں کے جھوٹ سچ بتاتی ہے، اسکے لوگوں کی ترجیحات بتاتی ہے، اسکے لوگوں کا اخلاق بتاتی ہے۔ سڑک کسی ملک  کا، کسی شہر کا آئینہ ہوتی ہے۔ یقین نہیں آتا تو کچھ دیر کو اپنے شہر کی سڑک کے کنارے کھڑے ہوجائیں۔