Saturday, October 30, 2010

گا میرے منوا

یہ نئ نسل اس انداز سے نکلے سر بزم
کہ موءرخ سے گنہگار نہ ہونے پائے

لیکن تاریخ کی کلاس لینے کے بعد مصطفے  زیدی نے کبھی سوچا کہ  افتادگی ء زمانہ سے چکرائی ہوئی نسل کو قابو میں رکھنے کے لئے کیا کرنا چاہئیے۔ ایک ذہن میں آنے والے خیال کو  تو اس ویڈیو میں ددیکھ سکتے ہیں۔


جب چکرایا ہوا سر اپنے ماحول میں واپس پہنچتا ہے تو اپنا حال دیکھ کر اسے حال آجاتا ہے۔ کچھ لوگ اسکے لئے روحانی علاج تجویز کرتے ہیں اور کچھ کا کہنا ہے کہ چونکہ موسیقی روح کی غذا ہے اس لئے بہترین روحانی علاج گانا ہے۔ دانا کہتے ہیں کہ گائیے ، رونا اور گانا کسے نہیں آتا۔ لیکن ایسی سنی سنائ باتوں میں مت آجائیے گا کہ ایسا بھی ہوتا ہے۔


گانا جنوبی ایشیا کی ثقافت کا حصہ رہا ہے اور ایک قوم کی مذہبی عبادات کا قصہ بھی۔ یہاں کی سنگیت کی تاریخ اتنی شاندار رہی ہے کہ مائیکل جیکسن نے بھی اپنی فنی مہارت کو اس کے ساتھ مدغم کرنے کا مزہ لیا۔


یقین آیا، یہ مائیکل جیکسن ہے۔ 
ہمم لیکن پھر تاریخ۔ تاریخ ایک چلمن کی طرح راستے میں کیوں کھڑی ہو جاتی ہے۔ آئیے تاریخ اور چلمن کے درمیان تعلق نکالنے کی کوشش کرتے ہیں



  اس نتیجے کو سنگیت سے ضرب دیں۔  اگر کوئ تعلق نہ نکل پائے تو اس تحریر کو دوبارہ سے پڑھیں اور مکمل تجزئیے کے لئے ویڈیوز کو دوبارہ دیکھنا مت بھول جائیے گا۔ تعلق نکل آنے کی صورت میں  بے شمار فوائد ہیں۔ فوری طور پہ لاحول پڑھنے کا ایک صحیح موقع ملے گا۔  مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگی،  آپ،  ورنہ ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کر لو والی صورت سے باہر نکل آئیں گے۔ معاشی حالات بہتر بنانے کے لئے مالشئیے کا کاروبار برا نہیں عالمی کساد بازاری میں اس قسم کے پیشوں سے مستقل ذریعہ ء روزگار رہنے کا امکان رہتا ہے۔
چلیں پھر گانا شروع کریں۔ 
ایک
دو
تین
گا میرے منوا گاتا جا رے
   
 

Friday, October 29, 2010

اسباب بغاوت ہند اور لائل محمڈنز آف انڈیا-۲


ہنگامے کے دنوں میں کچھ مسلمان علماء نے ایسے مضامین اور رسالے لکھے جن میں عیسائیوں کو نصاری کہا گیا تھا۔ انگریز حاکموں نے اسکا برا مانا۔ انہوں نے سمجھا کہ جیسے یہودی حقارت میں حضرت عیسی کو ناصری کہتے ہیں اسی طرح مسلمان لکھنے والوں نے عیسائیوں کی توہین کی ہے اور یہ لوگ دل سے مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ انگریزوں کا رد عمل اس سلسلے میں اتنا شدید تھا کہ انہوں نے بعض ایسے علماء اور مصنفین کو پھانسی دے دی۔ سر سید نے فوری طور پہ ایک رسالہ نصاری لفظ کی تحقیق پہ لکھا اور یہ ثابت کیا کہ مسلمانوں نے جو عیسائیوں کو نصاری لکھا ہے تو اسکی مشتق ناصری نہیں بلکہ نصر ہے۔ یہ قرآن سے بھی ثابت ہے۔ قرآن میں کہیں ناصرہ کے قریہ کا تذکرہ نہیں آیا۔ بلکہ حضرت عیسی اور انکے حواریوں کے نصاری ہونے کا بیان اس طرح آیا ہے کہ حضرت عیسی نے کہا من انصاری الی اللہ تو حواریوں نے کہا نحن انصاراللہ۔ سورہ مائدہ میں ارشاد ربانی ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو پائے گا اہل کتاب میں سب سے زیادہ مسلمانوں کا دوست انکو جنکا قول ہے کہ ہم نصاری ہیں انہوں نے اس مضون کا ترجمہ انگریزی میں کروایا اور سب انگریز حاکموں کو اسکی نقل بھیجی۔ یہ مضمون اردو ااور انگریزی اخبارات میں بھی چھپوایا۔ اس مضمون کی اشاعت کے بعد لفظ نصاری کا قصہ ختم ہوا اور اس بناء پہ مسلمانوں کو سزائیں دینے کا سلسلہ بند ہوا۔



اسی وقت انگریز اور ہندو مصنفین نے بھی تحاریر کا سلسلہ شروع کیا ہوا تھا اور ان میں سے اکثر کا مءوقف یہ تھا کہ مسلمان مذہباً عیسائیوں کے دشمن ہیں انکا مذہب انہیں عیسائیوں کے خلاف جہاد کرنے کی تعلیم دیتا ہے بلکہ عیسائیوں کے خلاف جہاد ان پہ مذہباً فرض ہے۔ وہ انگریزی حکومت کے خیر خواہ ہو ہی نہیں سکتے۔ یہ پروپیگینڈہ انتہائ زہریلا تھا اور اس سے مسلمانوں کا ہندوستان میں بطور مسلمان رہنا مشکل نظر آرہا تھا۔ یہ تباہی بالکل سامنے تھی اور واضح ہوتی جارہی تھی۔ سر سید ان الزامات کا اثر زائل کرنے کمر بستہ ہوئے۔ انہوں نے رسائل کا ایک سلسلہ شروع کیا جس کا نام لائل محمڈنز آف انڈیا رکھا۔ اس میں پہلے تو انہوں نے دلائل سے ثابت کیا کہ مذہب کی رو سے ہندوستان کی تمام اقوام میں صرف مسلمان ہی ایسی قوم جو انگریزوں کی وفادار ہو سکتی ہے
قرآن اور احادیث کا حوالہ دیا کہ جسطرح مسلمان اپنے رسول پہ ایمان رکھتے ہیں اسی طرح وہ حضرت عیسی اور بائبل پہ یقین رکھتے ہیں. اسلام کسی ایسے گروہ یا جماعت کے خلاف جہاد کی اجازت نہیں دیتا جو انکے مذہبی فرائض کی ادائیگی میں مخل نہ ہو۔ پھر سر سید نے ہندوستان بھر سے ایسے مسلمانوں کے کوائف اکٹھا کئے جو ہنگامے کے دنوں میں انہی کی طرح انگریزوں سے خیر خواہی اور ہمدردی کا رویہ رکھا اور انکی حفاظت کے لئے اپنی اور اپنے گھر والوں کی جانوں کی قربانی دی۔
انگریزوں کا ایک عام عقیدہ اس وقت یہ تھا کہ اسلام اور تہذیب و شائیستگی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ سر سید نے دلیلیں اور مستند حوالے اکٹھے کرکے یہ ثابت کیا کہ اسلام اور صرف اسلام ہی سب سے بڑھ کر تہذیب و شائیستگی، خوش اخلاقی اور دوسروں سے ہمدردی کا سبق دیتا ہے۔

یہ رسالے ظاہر ہے مسلمانوں کی طرفداری میں لکھے گئے تھے اس لئے سر سید لکھتے ہیں کہ۔
ہاں یہ بات تو مجبوری کی ہے کہ میری پیدائیش ہندوستان میں ہوئ اور میں بلاشبہ مسلمان ہوں اور مسلمانوں کا ذکر خیر اس کتاب میں لکھتا ہوں۔

سر سید کی ہمہ گیر اور مختلف النوع قومی جد وجہد کے لئے مولانا صلاح الدین احمد اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں
ایک معرکہ ء عظیم ہے جس کے مختلف محاذوں پہ بیک وقت یورش جاری ہے اور دفاع بھی۔ اور بڈھا سپہ سالار ایک ہاتھ میں دوربین اور دوسرے میں شمشیر عمل لئے ہر مورچے پر مثل برق پہنچتا اور مثال ابر گرجتا ہے۔

جاری ہے

اسباب بغاوت ہند اور لائل محمڈنز آف انڈیا-۱


اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کے بارے میں سر سید کا مئوقف تھا کہ یہ نہ تو ملکی بغاوت تھی نہ کوئ سازش بلکہ محض سپاہیوں کی حکم عدولی تھی ان کارتوسوں کے سبب جس میں اطلاع یہ تھی کہ گائے اور سوءر دونوں کی چربی شامل تھی اور جسے استعمال سے پہلے دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا۔ یہ چیز انگریز حکومت کی مختلف پالیسیوں سے پہلے سے شاکی ہندو اور مسلمان دونوں کے جذبات بھڑکانے کا باعث بنی۔ اس  نے پھیل کر مسلمانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور ایک عام تائثر یہ بنا کہ یہ سب مسلمانوں کا کیا دھرا تھا۔

اپریل ، ۱۸۵۸ میں مراد آباد واپس پہنچتے ہی انہوں رسالہ اسباب بغاوت ہند لکھنے کا کام شروع کیا۔جس میں انہوں نے شواہد کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ اس میں ساری غلطی انگریز حکومت کی تھی۔ انہوں نے ہندوستانیوں کے جذبات و احساسات کو اپنے روئیے اور ناروا سلوک بری طرح مجروح کیا ہوا تھا۔ سپاہی اور دسرے لوگ انگریزوں کے خلاف جذبات سے بھرے ہوئے تھے کارتوسوں کے قصے نے جلتی پہ تیل کا کام کیا اور یہ ہنگامہ اچانک بھڑک اٹھا۔
سر سید نے اس نازک وقت میں وہ تمام الزامات جو لوگوں کے خیال میں حکومت پہ عائد ہوتے تھے دلیری اور جراءت کے ساتھ بیان کر ڈالے۔ یہی نہیں بلکہ اسکی پانچ سو کاپیاں سن ۱۸۵۹ میں تیار کر والیں۔ وہ اس رسالے کو لندن میں ارکان پارلیمنٹ کو بھیجنا چاہتے تھے تاکہ انہیں صحیح صورت حال سے آگاہی ہو۔
انکے دوستوں اور خیر خواہوں نے انکو اس اردے سے باز رکھنا چاہا۔ لوگوں نے مشورہ دیا ان کتابوں کو جلا ڈالو اور اپنی جان کو خطرے میں نہ ڈالو۔
سرسید نے کہا کہ
میں ان باتوں کو گورنمنٹ پر ظاہر کرنا ملک اور قوم اور خود گورنمنٹ کی خیر خواہی سمجھتا ہوں۔ پس ایک ایسے کام پر جو سلطنت  اور رعایا دونوں کے لئے مفید ہو مجھ کو کچھ گزندبھی پہنچ جائے تو گوارا ہے۔
انہوں نے ہمت کی اور اسکی پانچ سو کم کاپیاں ارکان پارلیمنٹ اور برطانوی حکومت اور انڈیا آفس میںتقسیم کرنے کی غرض سےبذریعہ ڈاک بھیج دیں۔ ایک کاپی گورنمنٹ آف انڈیا کو خاص گورنر جنرل کے ملاحظہ کے لئے پیش کر دی گورنر جنرل نے اسکا ترجمہ کروا کے مندرجات کا جائزہ لیا اور کونسل میں ممبران کے اجلاس میں اس پر بحث کی۔اگر چہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ یہ تحریر اصلاح احوال کے لئے ہے۔ لیکن کونسل کے اک ممبرسیل بیڈن کو جو اس وقت سیکریٹری خارجہ تھا اس پہ شدید اعتراضات ہوئے اور اس نے نہ صرف اس تحریر کو بغاوت پہ محمول کیا۔ بلکہ مصنف پہ مقدمہ چلا کر ضابطے کی کارروائ عمل میں لانے کا کہا۔ ۔
بیڈن نے سرسید سے ملاقات کے دوران تلخی کا مطاہرہ کیا اور کہا کہ وہ اگر اپنے عمل میں مخلص ہوتے تو اسکی اشاعت نہ کرواتے اور تحریر صرف گورنر جنرل کو پیش کرتے۔ جب سر سید نے بتایا کہ پورے ہندوستان میں اسکی ایک کاپی گورنر جنرل کو بھیج ہے اور ایک دو کاپیاں انکے پاس محفوظ ہیں اور باقی سب لندن بھجوا دی گئ ہیں تو اسے یقین نہ آیا۔ تحقیق ہوئ اور سر سید کی بات درست نکلی۔ بیڈن کے دل سے بد گمانی دور ہوئ اور وہ انکا دوست بن گیا۔
لندن میں اس رسالے کے متعدد ترجمے ہوئے اور اہل سیاست اور اہل حکومت میں اس پہ بحث ہوئ۔ لیکن بالآخر وہ سر سید کے نکتہ ء نظر کے قائل ہو گئے۔
اس رسالے میں انہوں نے یہ بھی لکھا کہ گورنر جنرل کی کونسل میں کوئ مقامی رکن موجود نہیں اس لئے اعلی انتظامی سطح پہ ہندوستانیوں کی نمائیندگی اور انکے نکتہ نظر کے اظہار کی کوئ صورت نہیں۔ انہوں نے مقامی باشندوں کی شمولیت پہ زور دیا اور انکی یہ تجویز مان لی گئ۔ لارڈ لٹن کے دور میں سر سید کو گورنر جنرل کی کونسل کا رکن نامزد کیا گیا۔ اسی رسالے سے مسٹر ہیوم کے ذہن میں انڈین نیشنل کانگریس قائم کرنے کا خیال پیدا ہوا۔

Wednesday, October 27, 2010

روڈ پہ

مشعل کو بڑا مزہ آتا ہے جب کسی کو ڈانٹ پڑ رہی ہو۔ اور اگر اسے ذرا بھی شبہ ہو کہ کسی کو ڈانٹ پڑنے والی ہے تو وہ موقع پہ جم جاتی ہے سو بعض اوقات گھر میں لوگوں کو اس وجہ سے ڈانٹ موءخر کرنی پڑتی ہے۔ کیونکہ انکی موجودگی کی وجہ سے ڈانٹ میں وہ کڑک نہیں پیدا ہو پاتی جس کا اثر تا دیر رہے۔
کسی شخص کو بے وقوف کہنا وہ عیاشی ہے جسے وہ وقتاً فوقتاً حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ اس لئے جب بھی کسی کو بے وقوف کہا جائے وہ ہمیشہ وجہ پوچھتی ہیں کہ اسے بے وقوف کیوں کہا گیا۔ اسکا مقصد عبرت حاصل کرنا نہیں بلکہ دوبارہ کسی سے بھی اس حرکت کے سرزد ہونے پہ انکا سب سے پہلے بے وقوف کہنے کی تیاری ہے۔
اپنی مونٹیسوری آتے جاتے ہوئے، دن میں ایک وقت وہ میرے ساتھ اور دوسرے وقت اپنے ابا کے ساتھ ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی ابا کی زیادہ مصروفیت کی وجہ سے دونوں وقت یہ میری ذمہ داری ہو جاتی ہے۔ رستہ بھر ہم دونوں باتیں کرتے جاتے ہیں اس میں انکا حصہ زیادہ ہوتا ہے لیکن زبان کے ساتھ وہ خود بھی بہت متحرک رہتی ہیں اس لئے ڈرائیونگ کے دوران  ہر تھوڑی دیر بعد مجھے کوئ نصیحت کرنی پڑتی ہے۔  مثلاً سیٹ سے ٹیک لگا کر بیٹھو، چہرہ آگے کی طرف رکھو، گاڑی سے ہاتھ باہر بالکل نہیں نکالنا، پیچھے والی سیٹ پہ جانے کی کوشش نہ کرو، پیچھے سے آگے آنے کی حماقت نہیں کرنا، چلتی گاڑی میں پانی خود سے نہیں پینا وغیرہ وغیرہ۔
ابھی تین چار دن پہلے جب میں نے ایک موٹر سائیکل والے کو اپنے برابر سے مسکراتے ہوئے نکلتے دیکھا تو  روڈ سے نظر ہٹا کر ان پہ ڈالی، وہ کھلی کھڑکی سے ہاتھ باہر نکالے پاس سے گذرنے والوں سے جذبہ ء خیر سگالی کا مظاہرہ کر رہی تھِں۔ میں  بالکل اصل والے غصے میں چنگھاڑی۔ مشعل کتنی دفعہ منع کیا ہے چلتی گاڑی میں سے ہاتھ باہر نہیں نکالا کرو، بالکل یاد نہیں رکھتیں تم۔ انہوں نے میرے چہرے کے تائثرات دیکھے اور پھر سیٹ پہ بیٹھ گئیں۔ کچھ منٹ خاموشی رہی۔ میں نے کن انکھیوں سے دیکھا وہ دونوں ہاتھ گود میںرکھے ، منہ پھلائے ڈیش بورڈ کو تک رہی تھیں۔ اس وقت میں نے انکے حواسوں کو مہمیز کرنے والا جملہ بولا۔ ارے یہ کیا؟ فوراً ہی آواز آئ کیا ہوا ماما؟ یہ بس پہ اتنے سارے لوگ چڑھے بیٹھے ہیں۔ کراچی میں یہ منظر روز کا منظر ہے۔ لیکن میں نے مشعل کی توجہ  اس طرف کرائ۔ محض گاڑی کے ماحول کے تناءو میں کمی کے لئے۔
کتنے بے وقوف لوگ ہیں چھت پہ بیٹھے ہیں، کتنا خطرناک ہے یہ گر بھی سکتے ہیں۔ میں نے یہ سارے ڈائیلاگز بولے کہ مشعل کے پسندیدہ ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا یہ تو بے وقوف لوگ ہیں ایسا تو نہیں کرنا چاہئیے۔ ہم تو اپنی گاڑی کے اندر بیٹھے ہیں۔ ہے ناں ماما۔ اگریہ گر جائیں تو چوٹ لگ سکتی ہے پھر ڈاکٹر کے پاس جانا پڑے گا۔ وہاں ڈاکٹر انجکشن لگائے گا پھر روئیں گے کہ تکلیف ہو رہی ہے۔ مشعل نے اپنی آپ بیتی کو شامل کر کے ایک پورا ڈرامہ کھڑاکر لیا۔ اسکول پہنچنے تک بے وقوف لوگوں، ہسپتال اور ڈاکٹر کے تذکرے میں ہم الجھے رہے۔ اسکے بعد سے وہ روڈ پہ ایسی گاڑیوں کو نظر میں رکھتیں کہ پھرلوگوں کو بے وقوف کہنے کا موقع ملے گا۔
 آج صبح بھی جب ہم ایک چورنگی سے مڑے تو سامنے ایک رکشہ جا رہا تھا۔ میں نے تو دھیان نہیں دیا کہ روڈ کہ باقی پیرامیٹرز کو دھیان میں رکھنا تھا۔ لیکن مشعل کی آواز آئ۔ کتنا بے وقوف بچہ ہے رکشے کے اوپر بیٹھا ہے ایسا تو نہیں کرنا چاہئیے۔ یہ گر بھی سکتا ہے، اسے چوٹ بھی لگ سکتی کتنا خنّاک ہے۔ ماما ہم تو ایسا نہیں کرتے ناں۔ میں نے دیکھا کہ رکشے کی چھت پہ ایک گیارہ بارہ سال کا بچہ جیسے تخت طاءوس پہ بیٹھا ہوا تھا۔  زیر لب مسکراہٹ سے کہا ہمم، ہم ایسا نہیں کرتے۔ پھر سوچا ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں ہم اسکے مقابلے میں بہتر سہولیات زندگی رکھتے ہیں۔  لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی سوچ رہی تھی کہ جو میری بچی کو پتہ ہے  یہ  پورا سچ نہیں ہے۔ اور مشعل کو اس پورے سچ کو جاننے میں وقت لگے گا۔ پھر وہ سامنے دیکھتے دیکھتے،  میری طرف مڑی۔ اور کہنے لگی، ماما لگتا ہے رکشے کے اندر جگہ نہیں ہوگی۔ میں نے کچھ حیرانی، کچھ مادرانہ فخر اور خوشی سے اپنی بیٹی کو دیکھا۔ یہ وہ خصوصیت ہے جومیں اس میں چاہتی ہوں۔ وجوہات پہ غور کرنا، جو نظر نہیں آرہا، اسکے بارے میں بہتر اندازہ لگانا اور پھر نتیجہ نکالنا۔

Monday, October 25, 2010

دل کی زبان

اپنے قارئین سے معذرت، جیسا کہ آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ اس پوسٹ کے ساتھ کچھ مسئلہ ہے۔ یہ پوسٹ میں نے آج صبح لکھی اور ابھی مکمل بھی نہ تھی کہ اٹھنا پڑا لیکن سیو کرنے کے بجائے پبلش کا بٹن دبا دیا۔  اب میں نے اسے مکمل کر دیا ہے۔

مزاروں کی مسلم آبادی میں بڑی اہمیت رہی ہے۔ جہاں شب برات کی عبادت میں قبرستان جانا ضروری ہے وہاں تصوف کے مختلف سلسلے اپنے اپنے انداز میں مزاروں پہ عرس منعقد کرتے ہیں اور عام لوگ اپنی خواہشوں کو ناممکنات میں سے سمجھ کر انہی مزاروں کا رخ کتے ہیں کہ صاحبان مزار جو کہ اب انکےعقیدے کے مطابق روحانی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں ، اس کائینات کے خالق اعلی کے پاس انکی درخواست ذاتی طور پہ پہنچا سکیں اوراسکے لئے سفارش بھی کر سکے۔ ایک بڑی تعداد کو یقین ہے کہ انکے بیشتر مسائل اسی طرح حل ہوئے۔
لیکن مزار کے ان روحانی سلسلوں سے ہٹ کر جن پہ میں کچھ ایسا یقین نہیں رکھتی یہ لوگوں کو اپنی زندگی کی یکسانیت سے نجات دیتے ہیں۔  بر صغیر کی ہزار سالہ تاریخ میں انکا وجود مرکز میں رہا ہے اور ان صوفیوں نے اسلام کی سادگی سے عام لوگوں کو متعارف کرایا بجائے علماء کے علم نے۔ یہ انداز یہاں کے باشندوں کے ثقافتی انداز کے بھی قریب تھا۔ میلہ ٹھیلہ، طرح طرح کے لوگ کا ہجوم اور انکی عقیدت  کے مختلف مناظر۔ مجھے یہ مزار انسانی فطری آزادی کی چاہت نظر آتے ہیں۔

یہاں ایسی ایسی خواتین بھی عالم رقص میں نظر آتی ہیں جن کا سایہ بھی کبھی کسی نے عام زندگی میں نہیں دیکھا ہوتا۔ ایک عام عورت کی حیثیت وہ اپنی ذات کا کوئ استحقاق نہیں رکھتیں لیکن ایک جناتی مخلوق کا سایہ ان کی حکمرانی کے جذبے کی تسکین کرتا ہے۔ تمام زندگی ایسی چہار دیواری میں زندگی گذارنے والیاں سال میں ایک دفعہ کسی مزار پہ پہنچنے کا موقع حاصل کرتی ہیں اور پھر رج کر اپنی جسمانی آزادی کو استعمال کرنے کا مزہ چکھتی ہیں۔ ان پہ کسی جن کا سایہ ہے یا وہ گھٹن کا شکار ہیں۔ یہ کوئ نہیں جانتا، سب دور سے کھڑے تماشہ دیکھتے ہیں۔ وہ حالت حال میں ہے۔

پورے پورے خاندان، بڑی بڑی گاڑیاں پکڑتے ہیں اور مزارات کا رخ کرتے ہیں۔ خیمے لگاتے ہیں اور تین چار دن یا اس سے بھی زیادہ وقت گذارتے ہیں۔ مختلف قسم کے عقائد کا فرق رکھنے کی وجہ سے کچھ لوگ ان تمام رسومات کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔ میرا بھی ذہنی رجحان اس سمت نہیں۔ آج تک جن مزارات پہ گئ۔ اسکا مقصد وہاں پہ موجود خلقت کو محسوس کرنا ہی رہا۔ لیکن اپنے آپ سے ایک سوال کرتی ہوں کہ کیا اس تمام عمل سے لا تعلق رہنے کی وجہ سے میں اپنے آپکو اس کام کے لئے تیار پاتی ہوں کہ کسی مزار پہ جا کر ایک خودکش جیکٹ کے ذریعے خود کو اڑادوں۔ تاکہ لوگ اپنے مسائل کے حل کے لئے ان مردہ ہستیوں کے مزار پہ جا کر میرے عقیدے کے مطابق غیر اسلامی حرکات نہ کریں۔ شرک نہ کریں، بدعت نہ کریں۔ اور اگر وہ ایسا کریں گے تو ہم بزور طاقت انہیں ایسا کرنے سے روکیں گے۔
افسوس، میں ایسا کچھ نہیں کر سکتی۔ میں انکے عقیدے کا مذاق اڑا سکتی ہوں، میں ان سے بحث اور دلیل بازی کر سکتی ہوں۔ اور بے زار ہو کر انہیں انکے حال پہ چھوڑ سکتی ہوں۔ لیکن یہ وہ کام ہے جو میں نہیں کر سکتی۔ اور معزز قارئین یہ سارے آپشنز جو میں نے آپکو بتائے ہیں یہ بھی میں ہر ایک کے ساتھ نہیں کرونگی۔ مجھے معلوم ہے کہ انسانوں کو اپنی زندگی میں کچھ ایسے موقعے اور جگہیں چاہئیے ہوتی ہیں۔ جہاں وہ اپنے جذبات مکمل طور پہ بہا سکے، جہاں وہ اپنی کم مائیگی کو فراموش کر سکے، جہاں وہ یہ یقین کر سکے کہ خدا اب بھی اس سے تعلق رکھتا ہے۔ بس ذرا کوئ ڈھنگ کا شخص خدا کے پاس اسکی وکالت کرتا رہے۔ وہ ناچتے ہیں کہ مینوں نچ کے یار مناون دے، وہ گاتے ہیں بلھے شاہ کی جاناں میں کون۔ مزراوں کے تخت سے حکمرانی کرنے والے یہ مردہ حاکم کبھی انکے دل کی زبان بول گئے تھے وہ آج تک اسکی لے کو اپنا محسوس کرتے ہیں۔ وہ اس صوفی بزرگ کا کلام گاتے ہیں، وہ ایک نظر آنے والے وکیل کو سجدے کرتے ہیں، وہ دل بھر کے روتے ہیں اور اپنے آپکو ایک نظر نہ آنے والی دنیا کے حوالے کر کے آخیر میں شانت ہو جاتے ہیں اس دریا کے ڈیلٹا کی طرح جو سمندر سے بس ملنے والا ہوتا ہے اس یقین کے ساتھ کہ اب اسکا سفر تمام ہوا اور سمندر کی ذمہ داری شروع ہو گئ۔
پھر یہ کون لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان میں آزادی کے ان چھوٹے چھوٹے جزیروں کو اپنی بربریت کے لئے چنا ہے۔
اگر وہ اپنے عمل میں اتنے ہی مخلص ہوتے تو اس تمام کی وجوہات یعنی معاشرتی نا انصافی، غربت اور جہالت کو ختم کرتے۔ جب تک وہ یہ نہیں کریں گے انہیں یہ حق حاصل نہیں کہ وہ انسان کو اسکے منتخب کردہ اظہار سے روکیں۔ انہیں دیوانوں کی طرح ناچنے دیں، گانے دیں،  رونےدیں۔  جنگل کے مور کی طرح، اس سے پہلے کہ وہ اپنے وجود میں موجود ان بد ہیئت پیروں سے آگاہ ہوں جو انکے دل سے  زندگی کی خوبصورتی کا سرور چھین لیتے ہیں۔ خدا کے لئے انکے دلوں سے آزادی کا یہ ہلکا سا احساس مت چھینیں، ورنہ یہ انہیں درندہ بنا دے گا۔
اگر آپ انہیں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو پھر انکی زندگی سے کم مائیگی کے احساس کو نکالیں انہیں اس چیز کا فخر دلائیں کہ وہ خدا کے کنبے میں شامل ہیں اور ابھی آپ جیسے زندہ لوگ ان کے حقوق کی جنگ لڑنے کو تیار ہیں۔ اور آپ انکے دل کی زبان سمجھتے ہیں۔


بابا فرید گنج شکر کے مزار پہ دھماکہ، کئ افراد ہلاک اور زخمی۔


Thursday, October 21, 2010

کتےپہ ایک نظر

کتے پہ پطرس شاہ بخاری نے جو کچھ لکھا اسکے بعد کسی اور کی ہمت نہیں ہو سکتی تھی کہ اتنی سادگی اور فصاحت سے کتوں سے واقف کراتا  کہ ہم تو ہم کتےتک عش عش کر اٹھے۔
اپنے مضمون 'کتے' میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ

کتوں کےبھونکنے پہ مجھے سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ انکی آواز سوچنے کے تمام قوی معطل کر دیتی ہے۔ خصوصاً جب کسی دوکان کے نیچے سے ان کا ایک پورا خفیہ جلسہ سڑک پہ آ کر تبلیغ کا کام شروع کر دے تو آپ ہی کہیئے ہوش و حواس ٹھکانے رہ سکتے ہیں۔ کچھ انکا شور کچھ ہماری صدائے احتجاج زیر لب، بے ڈھنگی حرکات و سکنات، حرکات انکی سکنات ہماری۔ اس ہنگامے میں دماغ کام کر سکتا ہے۔ اگرچہ یہ بھی مجھے نہیں معلوم اگر ایسے موقع پر دماغ کام کرے بھی تو کیا تیر مارے گا۔ بہر صورت کتوں کی یہ پرلے درجے کی نا انصافی میرے نزدیک ہمیشہ قابل نفرین رہی ہے۔ اگر انکا ایک نمائیندہ شرافت کے ساتھ ہم سے آ کر کہہ دے کہ عالی جناب سڑک بند ہے تو خدا کی قسم ہم بغیر چوں چرا کئے واپس لوٹ جائیں گے۔ اور یہ کوئ نئ بات نہیں ہے۔ ہم نے کتوں کی درخواست پر کئ راتیں سڑکیں ناپنے میں گذار دی ہیں۔
مگر انسانی تاریخ کا یہ حسن ہے کہ کسی ایک نکتے یا شخص پہ آکر جامد نہیں ہو جاتی۔ اور یہ حقیقت کئ لوگوں کو حوصلہ دیتی ہے کہ ہل من مزید۔ یوسفی صاحب نے بھی کتوں سے دل پشوری  کی۔ اپنی کتاب 'خاکم بدہن'  کے ایک مضمون 'سیزر، ماتا ہری اور مرزا' میں لکھتے ہیں کہ
کتوں کے ساتھ وہ خصوصیت سے تعصب برتتے ہیں اور اپنی بات کی پچ میں ایک سے ایک دلیل پیش کرتے ہیں مثال کے طور ایک دن کہنے لگے
جس گھر میں کتا ہو، اس گھر میں چور ہی نہیں ، رحمت کے فرشتے بھی داخل نہیں ہو سکتے۔
چور کا داخل نہ ہونا تو سمجھ میں آتا ہے، مگر رحمت کے فرشتوں کو کیا ڈر ہے؟
اس لئے کہ کتا ناپاک ہوتا ہے
مگر کتے کو صاف ستھرا بھی تو رکھا جا سکتا ہے۔ انگریزوں کو دیکھیئے، صبح  و شام نہلاتے ہیں۔
اپلے کو اگر صبح و شام صابن سے دھویا جائے تو کیا پاک ہو جائے گا؟
مگر سوال یہ ہے کہ کتا ناپاک کیسے ہوا؟
کج بحثی کوئ تم سے سیکھے۔ اللہ بخشے نانی جان کہا کرتی تھیں کہ کتے کے منہ میں سوءر کی رال ہوتی ہے۔
لیجیئِے آپ نے ناپاکی کی ایک اچھوتی توجیہہ تلاش کر لی۔
بھائ میرے ایک موٹی سی پہچان بتائے دیتا ہوں۔ یاد رکھو ہر وہ جانور جسے مسلمان کھا سکتے ہیں، پاک ہے۔
اس لحاظ سے مسلمان ممالک میں بکروں کو اپنی پاکی و طہارت کے سبب خاصہ نقصان پہنچا ہے۔
بکنے والے بکا کریں۔ مسلمانوں نے ہمیشہ کتے کو کتا ہی کہا ہے۔ بڑے آدمیوں کے نام سے نہیں پکارا۔
بڑے آدمیوں کی ایک رہی۔ آپ نے سنا نہیں نسلاً سب کتے ایک زمانے میں بھیڑئیے تھے۔ آدمی کی صحبت میں انکا بھیڑیا پن جاتا رہا۔ مگر خود آدمی------------۔
دیکھو تم پھر لٹریچر بولنے لگے۔ علموں بس کریں او یار۔
لیکن کتوں پہ تذکرہ یہاں آ کر نہیں رکتا۔ ایک ویڈیو دیکھ کر مجھے  خیال آیا کہ کتوں کا تصوف میں بھی بڑابیان ہے۔ آئیے ایک محفل سے ہم بھی کچھ سعادت حاصل کرتے ہیں۔

Tuesday, October 19, 2010

سر سید اور اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی-۲


اٹھارہ سو اٹھاون کے شروع میں سر سید کلکٹر کے ہمراہ بجنور واپس پہنچے۔ گھر کا قبضہ حاصل کیا۔ کئ لوگ جو ہنگامے کے دنوں میں سر سید کے دشمن ہو گئے تھے اور انکی جان کے درپے تھے۔ اب پریشان تھے۔ سرسید نے انکی سفارشیں کیں اور انکی گلو خلاصی کرائ۔
ہنگامے کے دنوں میں سر سید کی خدمات کی وجہ سے حکومت نے انہیں ضلع بجنور مین مسلمان باغی کی ضبط شدہ جاگیر بطور انعام دینا چاہی۔ مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ وہ بڑا کام  اس وقت یہی سمجھتے تھے کہ ایسے وقت میں ان سے کوئ امر شرافت اور اسلام کی ہدایت کے بر خلاف سر زد نہیں ہوا۔
دسمبر اٹھارہ سو نواسی میں ایجوکیشنل کانفرنس میں تقریر کے دوران اس سانحے کا تذکرہ کرتے ہوئے سر سید نے لکھا کہ

غدر کے بعد نہ مجھ کو اپنا گھر لٹنے کا رنج تھا نہ مال و اسباب کے تلف ہو نے کا۔ جو کچھ رنج تھا اپنی قوم کی بربادی کا تھا اور غدر کے دوران ہندوستانیوں کے ہاتھ سے جو کچھ انگریزوں پہ گذرا اسکا رنج تھا۔--------- جب بعوض وفاداری کے تعلقہ جہاں آباد جو سادات نامی خاندان کی ملکیت اور لاکھ روپے سے زیادہ مالیت کا تھا مجھ کو دینا چاہا تو میرے دل کو نہایت صدمہ پہنچا۔ میرے دل نے کہا کہ مجھ سے زیادہ نالائق دنیا میں نہ ہوگا کہ قوم پہ تو یہ بربادی ہو اور میں انکی جائیداد لے کر تعلقہ دار بنوں۔
اپریل اٹھارہ سو اٹھاون میں سر سید صدالصدور کے عہدے پہ ترقی پا کر مراد آباد میں تعینات ہوئے۔ اسکے علاوہ انہیں اس اسپیشل کمیشن کا ممبر بھی نامزد کیا گیا جو ضبط شدہ جائیدادوں کی عذر داریوں کا فیصلہ کرنے کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ مراد آباد میں متعدد ضبط شدہ جائیدادیں واگذار ہوئیں۔ مراد آباد کے ایک مسلمان رئیس مولانا عالم علی جو مشہور عالم، طبیب اور محدث تھے انہوں نے ہنگامہ آرائ کے دنوں میں چند یورپیئن عورتوں اور بچوں کو اپنے گھر میں پناہ دی تھی مگر باغیوں نے زبر دستی گھر میں گھس کر ان عورتوں اور بچوں کو قتل کر دیا تھا۔ اس میں مولانا بے قصور اور بے بس تھے مگر انگریز حکام کو ان پہ سازش کا شبہ تھا۔ جب انگریزوں کی عملداری دوبارہ قائم ہوئ تو وہ مواخذے اور سزا کے ڈر سے روپوش ہو گئے۔ سر سید نے انکے بارے میں انگریز حکام کے شکوک رفع کئے اور انکی بے گناہی ثابت کر کے انہیں مواخذے سے بچا لیا۔ ضابطے کی کارروائ کے بعد انہیں بری کر دیا گیا۔ اس طرح جہاں جہاں سر سید کا بس چلا مسلمانوں کی مدد کی اور انکی مصیبتوں کو کم کیا۔ مراد آباد  کے قیام کے دوران سر سید نے تاریخ سرکشی بجنور تحریر کی اور مئ اٹھارہ سو ستاون سے اپریل اٹھارہ سو اٹھارہ سو اٹھارہ اٹھاون تک ضلع بجنور میں جو واقعات پیش کآئے ان کو تاریخ وار ترتیب اور پوری تفصیل کے ساتھ لکھا۔ اس میں وہ تمام خط و کتابت بھی شامل ہے جو اس دوران انکے اور انگریز حکام کے درمیان ہوئ یا نواب محمود خان اور ہندو چوہدریوں نے انکے ساتھ کی۔ 
اٹھارہ سو ستاون کے ہنگامے کے بعد جب انگریزوں کی عملداری دوبارہ قائم ہوئ تو انگریزوں نے مسلمانوں کو بالخصوص اپنے غیض و غضب کا نشانہ بنایا۔اور باغی قرار دئیے جانے کے لئے مسلمان ہونا کافی تھا۔ انگریزوں نے حکومت مسلمانوں سے لی تھی اس لئے وہ انہیں ہی اپنا حریف اور دشمن سمجھتے تھے۔ اور اس سارے ہنگامے کا ذمہ دار مسلمانوں کو ہی سمجھتے تھے۔ وہ اس پہ یقین رکھتے تھے کہ یہ ساری سازش مسلمانوں کی ہے۔ حالانکہ ہنگامے کی وجوہات اور اس کے آغاز میں ہندو بھی اس میں شامل تھے۔ بعد میں ہندءووں نے موقع سے فاءدہ اٹھایا اور انگریزوں کی خیر خواہی کی آڑ میں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہو گئے۔ یہ سب چیزیں مل کر مسلمانوں کو ہمہ گیر تباہی کی طرف لئے جا رہی تھیں۔ سر سید معاملے کی سنگینی سے آگاہ تھے اور اسکے تدارک کے لئے انہوں نے رسالہ اسباب بغاوت ہند لکھا۔ اس رسالے کی تفصیلات اس سے منسلکہ اگلی تحریر میں دیکھئیے گا۔ 

سر سید اور اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی-۱

سر سید کو بجنور میں بطور صدر امین دو سال چار ماہ گذرے تھے کہ دس مئ اٹھارہ سو ستاون کو یکایک وہ خوں ریز لڑائ شروع ہوئ جسے انگریزوں نے بغاوت اور غدر کا نام دیا اور مسلمان مورخین نے جنگ آزادی کا۔ ہنگامے کی وجوہات ایسی تھیں کہ اس میں ہندو اور مسلمان دونوں انگریز حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ مسلمانوں کی نفرت زیادہ شدید تھی۔ مقامی لوگ بے قابو ہو کر ان انگریز مردوں اور بچوں کو بھی موت کے گھاٹ اتارنے لگے جو انگریزی فوج کا حصہ نہ تھے اور جن کا جنگ سے تعلق نہ تھا۔ اس طرح کے تقریباً بیس گھرانے بجنور میں تھے۔ سر سید نے انکی حفاظت کی ٹھان لی۔ بجنور کے کلکٹر مسٹر شیکسپیئر کی متفکر بیگم سے سر سید نے کہا کہ
جب تک ہم زندہ ہیں آپکو گھبرانا نہیں چاہئیے۔ جب آپ دیکھیں کہ میری لاش کوٹھی کے باہر پڑی ہے اس وقت گھبرانے میں مضآئقہ نہیں۔
اس مصیبت میں انہوں نے کئ راتیں اپنے ساتھیوں کے ساتھ جاگ کر  ، اور مسلح پہرہ دیتے ہوئے گذاریں۔ایک دن جب سب کا باغیوں کے ہاتھوں مارا جانے کا پورا یقین تھا۔ سر سید تنہا اس جماعت کے پاس گئے اور نواب محمود خان جو انکا سرغنہ تھا اس سے  کی اور کہا کہ چند انگریزوں کے مارے جانے سے کیا ہاتھ آئے گا۔ بہتر ہے کہ انہیں صحیح و سالم یہاں سے جانے دو۔ اور تم ملک کے مالک بن جاءو۔
سر سید ان دنوں کا احوال لککھتے ہیں کہ
مجھ سے اگر کچھ اچھی خدمت یا وفاداری گورننٹ کی ہوئ تو وہ بالکل میں نے اپنے مذہب کی پیروی میں کی۔ میں نے جو کچھ کیا اپنے خدا اور رسول کی اطاعت کی۔
نواب محمود خان بجنور پہ قابض ہو گیا۔ لیکن اس سے پہلے انگریز خاندانوں کو بحفاظت نکالا جا چکا تھا۔ اس نے سر سید کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے انکار کر دیا جس پہ اس نے انہیں انکی سرکاری رہائیش گاہ سے نکال دیا۔ سر سید یہاں سے کسی طرح جان بچا کر نکلے اور میرٹھ پہنچے تو پاس چھ پیسے اور پہنے ہوئے پھٹ کرتے کے سوا کچھ نہ تھا۔ پانچ ماہ تک سر سید میرٹھ میں رہے اتنے میں دہلی سے خبریں آئیں کہ انگریزی فوج نے شہر پہ قبضہ کر لیا۔ مسلمانوں کو بے دریغ مارا جا رہا ہے۔ سر سید کے ماموں اور ماموں زاد بھائ مارے گئے۔ انکے انتہائ عزیز دوست امام بخش صہبائ گولی کا نشانہ بن گئے۔ خود سرسید کا گھر لوٹ لیا گیا۔
انکی بوڑھی والدہ نے گھر سے بھاگ کر اپنی ایک پرانی جاننے والی عورت زیبن کے گھر میں پناہ لی۔ جسکی دیکھ بھال وہ کیا کرتی تھیں۔ سر سید جب مہینوں بعد اپنی والدہ سے ملے تو انہیں دیکھتےہی والدہ نے کہا۔ تم کیوں یہاں چلے آئے یہاں تو لوگوں کو مارے ڈالتے ہیں۔ تم جاءو۔ ہم پہ جو گذرے گی گذر جائے گی۔ سر سید نے انہیں تسلی دی کہ وہ قلعے کے انگریزوں سے مل کر آرہے ہیں۔ اور انکے پاس حاکموں کی چٹھیاں ہیں۔ معلوم ہوا کہ دو دن سے پانی نہیں پیا۔ تو پانی کی تلاش میں نکلے۔ قلعے سے پانی لے کر دوبارہ وہاں پہنچے تو راستے میں زیبن ملی۔ وہ سڑک پہ بیٹھی ہوئ تھی۔ اور پاس مٹی کا آب خورہ اور صراحی تھی۔ وہ پانی کی تلاش میں نکلی تھی۔ ہاتھ سے اشارہ کر کے گھر کی طرف کہا کہ بیوی یعنی والدہ پیاسی ہیں۔ سر سید نے انہیں پانی پلایا اور پھردوڑے ہوئے گھر گئے۔ وہاں خالہ اور والدہ کو پانی دیا۔ گھر سے باہر سواری کا انتظام کرنے نکلے تو دیکھا کہ زیبن مری پڑی ہے۔ آخر سرکاری ڈاک لے جانے والی شکرم میں اپنی والدہ اور خالہ کو لے کر میرٹھ آئے۔
وہاں چند روز بیماری کے بعد انکی والدہ کا انتقال ہو گیا۔

Sunday, October 17, 2010

کایا کلپ

اپنی بچی کے ساتھ یو ٹیوب پہ قومی نغمات کو چھانتے پھٹکتے, میں ایک گانے کی ویڈیو پہ پہنچی۔ آپ میں سے بیشترلوگ اس گانے سے واقف ہونگے۔ میں نے اپنے طور پہ کوشش کی تو معلوم ہوا کہ یہ گانا انیس سو ستاون میں پاکستان کی فلم بیداری میں شامل تھا۔ آئیے یہ گانا دیکھتے ہیں۔



یہ گانا سنتے سنتے مجھے خیال آیا کہ ایک ایسا گانا ہندوستان کے حوالے سے بھی تھا۔ اسے بھی سننا چاہئیے۔ میں نے ذرا اور چھان پھٹک کی تو یہ گانا بھی مل گیا۔ یہ ہے فلم جگریتی کا گانا۔ اور یہ فلم انیس سو چون میں بنائ گئ۔



ذہن میں سوال آیا کہ ایک میوزک، ایک جیسی شاعری دو مختلف ملکوں کے لئے، دو مختلف تحرکات کے گانے کیوں ہیں؟ کیا کسی پاکستانی نے اس وقت کاپی کیا تھا۔
دونوں گانوں کے تبصرے پڑھتے ہوئے ایک تبصرہ ملا۔ جس میں مبصر نے معلومات دیں کہ دونوں فلموں کو ایک ہی شخص نے پروڈیوس کیا جس کا نام سید رضوی تھا۔ انہوں نے ہندی فلم انیس سو باون میں رتن کمار کے نام سے بنائ۔ بعد میں پاکستان منتقل ہو جانے پہ انہوں نے یہ فلم دوبارہ بنائ سید رضوی کے نام سے۔ اس پاکستانی فلم کا نام بیداری تھا۔
دونوں گانوں کو سنیں۔ اگر اس مبصر کی بات صحیح ہے اور یہ ایک ہی شخص  کی پروڈیوس کی ہوئ فلم ہے تواسے کہتے ہیں کایا کلپ یا قلب ماہیت۔

Thursday, October 14, 2010

شک اور یقین

 شک کرنا ایک اچھی عادت ہے یا بری۔ یہ میں نہیں کہہ سکتی۔ لیکن یہ مشورہ اکثر دوسروں کودیا کہ شکی مرد سے شادی بالکل نہیں کرنی چاہئیے چاہے وہ منگنی پہ ہیرے کی انگوٹھی دے۔ البتہ شکی  بیوی، ضرور شوہر کا مورال بڑھاتی ہے۔ اگر آپ اپنی مجرد زندگی میں باوجود کوشش صادق کے، کوئ معمولی افیئر چلانے میں بھی ناکام رہے ہیں اور عالم یہ ہے کہ یاد ماضی عذاب ہے یارب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔  تو ایک شکی مزاج خاتون سے شادی کر لیجِئے۔ وہ آپکے ماضی کو ایسا رنگین بنادیں گی کہ آپ خود گنگنانے لگیں گے جیسا اب ہے میرا ماضی کبھی ایسا تو نہ تھا۔
  صرف ماضی ہی نہیں شک کی تخلییقی صلاحیتوں سے آشنا لوگ آپکے حال کو بھی بدل ڈالنے پہ قدرت رکھتے ہیں۔
 ابھی اپنے حال کا قصہ بتاتی ہوں۔ ایک صاحب نے میل کی  کہ چونکہ آپکا نام فارسی زبان سے لیا گیا ہے اور آپکے بقول کسی ایرانی خاتون کے نام پہ ہے اس لئے میں آپکو شیعہ سمجھتا تھا۔ لیکن اب پتہ چلا کہ آپ لا مذہب ہیں۔  پہلے شک کی وجہ تو انہوں نے کھل کر بتادی۔  دوسرے شک کی وجہ تو نہیں معلوم  لیکن میراشک  ہے کہ یہ ان تحاریر کا گہرا تجزیاتی نچوڑ ہے جو آجکل 'ہم' سر سید پہ لکھ رہے ہیں۔  انکے شکوک کی پیداواری صلاحیت سے انجان رہنے کے لئے  میں نے انہیں لکھ دیا کہ آئیندہ مجھے میل نہ کریں۔  عقل کل نے کچھ بھانپ کر بات اس یقین تک پہنچائ کہ اس زہنیت کی بناء پہ عورتوں کی گواہی آدھی رکھی گئ ہے۔ اب میرے پچھلے ایک سال اور چند مہینوں پہ مشتمل ماضی کے حصے دار ہونے کی وجہ سے یہ بات آپ کے لئے تعجب خیز نہیں ہونی چاہئیے کہ میں نے انکی ذہنیت سے مزید لا علم رہنے کا یقین پیدا کرنے کے لئے انکے ای میل ایڈریس کو رپورٹ اسپیم میں ڈال دیا۔ لا علمی بڑی نعمت ہے۔
شکوک اور شبہات  کی کھچڑی کس دماغ میں نہیں پلتی۔ شاعر تو اس قدر شکی ہوتے ہیں کہ پوری شاعری شک کی پیداوار کہی جا سکتی ہے۔ محض  محبوب کے پاءوں دُکھنے کی شکایت پہ غالب نے فرما دیا کہ
شب کو کسی کے خواب میں آیا نہ ہو کہیں
دُکھتے ہیں آج اس بت نازک بدن کے پاءوں
ایک ایسی ہی کیفیت میں شاعر کہتا ہے کہ
مجھ تک کب اسکی بزم میں آتا تھا دور جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
ایک اور جگہ یہی حضرت اپنے محبوب کی شکی طبیعت کا افسانہ بناتے ہیں کہ
پینس میں گذرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے
کندھا بھی کہاروں کو بدلنے نہیں دیتے
 اب مداحین غالب، غالب کے مرقد پہ جا کر یہ رولا ڈالنے کی کوشش نہ کریں کہ کیسے کیسے لوگ آپکے بارے میں ایسی ویسی ہجو کر رہے ہیں۔  یقین رکھیں کہ وہ شک اور یقین کی منزل سے بالا مقام پہ ہیں۔ اوراس یقین  نے میرے اندر یہ سب لکھنے کی ہمت پیدا کی ہے۔
 ادھر میر تقی میر نے تو پوری کائینات کو توہم کا کارخانہ قرار دیا اور کہتے ہیں کہ
یہ توہم کا کاخانہ ہے
یاں وہ ہےجو اعتبار کیا 
اس سے مجھے شک ہوتا ہے اور کچھ کو یقین ہوگا کہ وہ لامذہب تھے۔ تاریخ کہتی ہے کہ انکے اجداد شیعہ تھے۔ نمعلوم خود وہ اس بارے میں کیا گمان رکھتے تھے۔ اب یہ عقدہ روز قیامت کے لئے چھوڑ رکھتے ہیں۔ آخر اس طویل دن کو کس سرگرمی کے ساتھ گذاریں گے۔
اور تو اور سائینس جیسے ماڈرن اور جدید علم میں بھی ہر خیال کسی شک سے جنم لیتا ہے۔ اور اسے یقین تک پہنچانے کے عمل کو انہوں نے تحقیق جیسا معتبر نام دے رکھا ہے۔ وہ لوگ جو سائینس میں ناکام رہے ہیں اسکی وجہ انہیں اب بآسانی سمجھ میں آتی ہوگی۔ 
اب میرے نفسیات کا محدود علم کہتا ہے کہ شک کی جڑیں یا تو تحت الشعور میں پھوٹتی ہیں یا لا شعور میں۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میں نہ صرف نفسیات کی ان اصطلاحوں کے ہجے جانتی ہوں۔ بلکہ اس سے شک ہوتا ہے کہ شک کی اہلیت رکھنے کے لئے شعور کا ہونا ایک لازمی عنصر ہے۔ جو لوگ اس سے محروم ہوتے ہیں انہیں لوگ پاگل یا پاگل دا پتر کہتے ہیں۔ ہر دو صورت میں محروم یقین کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے۔ سو اس سے یقین پیدا ہوتا ہے کہ یقین کے لئے شعور کا ہونا کچھ لازمی نہیں۔ یہ جڑیں جب ادھر ادھر پھیلتی ہیں تو شک اپنے جامے سے باہر ہو کر اوروں کو بھی نظر آنے لگتا ہے ۔ بالکل ایسے، جیسے سینہ ء شمشیر سے باہر ہے دل شمشیر کا ، میں ہوتا ہے۔ 
ادھر ہمارے ایک   بلاگر کے تحت الشعورکی جڑیں جب اپنے تبصروں سے پھوٹیں تو سر تبصرہ ہمیں بھی ایک شک کا پتہ دے گئیں۔   اور وہ یہ کہ عبداللہ اور عنیقہ ناز ایک ہی شخصیت کے دو رخ ہیں۔ مجھے شک ہے کہ وہ ابن صفی کے عمران سیریزکے کردار ایکسٹو سے بہت متائثر ہیں۔ عمران اور ایکسٹو ایک شخصیت کے دو رخ۔ لیکن یہ خیال اس سے بڑھ کر ہے۔ ایک شخصیت  کبھی مرد بن جاتی ہے اور کبھی عورت۔ کبھی بلاگر اور کبھی مبصر۔ زبردست۔ شک کرنے والا ذہن بڑی زبردست تخلیقی صلاحیتیں رکھتا ہے۔  اب مجھے یقین ہے کہ  لوگ عبداللہ کے تبصروں کو زیادہ شک سے پڑھیں گے۔ میری تحاریر تو ویسے بھی آدھی گواہی کے سلسلے میں آتی ہیں۔ سو عبداللہ کسے خوش ہونا چاہئیے؟
خیر نیٹ کی دنیا شکوک کا پینڈورا بکس ہے۔ کبھی بند نہیں ہوتا اور ایک کے بعد ایک پیدا ہوتا رہتا ہے۔ ایک شک پیدا ہوتا ہے کہ کچھ عرصے بعد استعمال کنندہ اپنے اوپر بھی شک کرنے لگے گا۔ اس وقت تک کے لئے میں نفسیات کے کچھ اور الفاظ کے ہجے سیکھنا چاہونگی۔
لاریب، شک سے ہے وجود کائنات میں رنگ۔  کسی کو شک ہے کہ انقلاب آنے والا ہے وہ روز اس امید پہ اخبار خریدتا ہے اور ٹی وی کے ٹاک شوز دیکھتا ہے کہ سب سے پہلے وہ یہ خبر سنے کہ اج پاکستان کے اسٹنیڈرڈ وقت کے مطابق اس وقت تاج اچھالیں جائیں گے اور اس وقت تخت گرائے جائیں گے۔ تممام کارروائ براہ راست نشر ہوگی۔ کچھ کو یقین ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ سب بہلانے کی باتیں ہیں۔ وہ روز اخبار چھاپتے ہیں اور کوئ نیا چینل کھولتے ہیں۔
کچھ کو شک ہے کہ ہماری اصل حکومت واشنگٹن میں ہے کچھ کو یقن ہے کہ ہمارا اصل دارالحکومت افغانستان میں بنے گا۔ حکومتی سطح پہ شک کے کاروبار میں کبھی مندی نہیں ہوتی۔ کچھ کو شک ہے کہ خود کش دھماکے امریکہ کروا رہا ہے،  سیلاب امریکہ لے کر آیا ہے،عمران فاروق کو امریکہ نے مروایا ہے، ٹارگٹ کلنگ میں امریکن ایجنسیز کام کر رہی ہیں۔ طالبان امریکن ایجنٹ ہیں۔ حکومت وقت امریکن ایجنٹ ہے۔ کئ شک کرنے والے پچھلے ڈھائ سال سے موجودہ حکومت کو کسی بھی وقت جاتا دیکھ رہے ہیں۔  مگرحکومتی ارکان کا یقین دیکھ کر مجھے اس شک پہ شک ہوتا ہے۔ ادھر معاشیات سے دلچسپی رکھنے والوں کو شک ہے کہ کرکٹ ٹیم کی میچ فکسنگ کا قصہ، صدر صاحب کے ذرائع آمدنی کم کرنے کی سازش تھی۔
عام لوگوں کے شکوک بھی عام سے ہوتے ہیں۔ مثلاً ڈبے کا دودھ نری ملاوٹ ہے اور کچھ نہیں۔ کچھ کو شک ہے کہ گائے کا کھلا دودھ کوئ چیز نہیں۔ عرصہ ہوا گایوں نے دودھ دینا چھوڑ دیا ہے اور وہ سفید چیز جو ہم پیتے ہیں وہ صرف ہارمونز ہیں جو گائے کو انجیکٹ کئے جاتے ہیں۔  
بعض شکوک بہت معصوم ہوتے ہیں مثلاً آدھی رات کو فیس بک پہ ایک انجان خاتون یا مرد سے چیٹنگ کے بعد یہ سوچنا کہ یہ عمل اسلامی ہے یا غیر اسلامی۔ اور محض اسی شک پہ باقی رات نوافل ادا کرنا۔
مذہبی شکوک، عام طور پہ کافر ہونا، کافر نہ ہونا، مشرک ہونا مشرک نہ ہونا، بدعتی ہونا اور بدعتی نہ ہونے کے گرد گھومتے رہتے ہیں۔
میرے بھی ہیں کچھ شکوک، مثلاً گھوڑا اور دریائ گھوڑا اب سے پچاس ہزار سال پہلے سیامی جڑواں تھے۔ تہذیبوں کی جنگ میں دونوں میں نظریاتی اختلاف پیدا ہوا۔ اور وہ الگ ہو گئے۔  سو اب زمینی گھوڑے میں مادہ ہی بچے کو جنم دیتی ہے جبکہ دریائ گھوڑے میں نر۔ یہاں ان لوگوں کا خیال دل میں آ سکتا ہے جو گھوڑے کی پیٹھ پہ پیدا ہوئے۔ لیکن مجھے شک ہے کہ  اس میں کچھ پردہ نشینوں کے نام اس طرح آئیں گے کہ یقیناً ثقافتی جنگ چھڑ جائے گی۔ 
میرے باقی شکوک بھی اسی طرح نقص امن کا باعث ہو سکتے ہیں۔ اس لئے میں انہیں اپنی سوانح حیات میں لکھنا چاہونگی جو بعد از مرگ شائع ہوگی۔ یعنی میرے شعور کی موت کے بعد۔ یاد رکھیں شعور کی جو موت ہے وہ فرد کی حیات ہے۔
شکوک کا ازالہ عملی طور پہ کوئ چیز نہیں۔ شک ایک دفعہ جنم لے لے تو یہ سو سکتا ہے مگر مر نہیں سکتا۔

نوٹ؛ اس تحریر پہ تبصرہ ضرور کیجئیے گا اورکرنے سے پہلے برائے مہربانی تعریف کے ڈونگرے ذرا کھل کر بر سائیے گا ورنہ مجھے شک رہے گا کہ آپ مجھ سے جیلس ہو رہے ہیں۔ اور میں یقیناً اسے آپکی ایروگینسی سمجھونگی۔  کچھ لوگوں کو شک ہو سکتا ہے کہ جب ہم اتنی تعریفیں کر لیں گے تو اصل موضوع پہ بات کرنے کی ہمت کہاں ہوگی۔ ہم صرف مدہم الفاظ میں اپنے شکوک ظاہر کر سکتے ہیں۔ یقیناً، یہی تو 'ہم' چاہتے ہیں۔

Monday, October 11, 2010

فرزند زمین

تین دن پہلے رات کے وقت لیاری ایکسپریس وے سے نیچے اترے اور کراچی پورٹ ٹرسٹ  سے آگے جا کر جو ایک سڑک پہ مڑے تو ایک قطار میں کئ ٹرالرز ایک لمبی لائن میں  کھڑے ہوئے تھے۔ یہ نیٹو کے سپلائ ٹرکس ہیں جنہیں شاید یہاں روک دیا گیا ہے۔ ایک ساتھی نے کہا۔ پاکستان نے نیٹو افواج کی سپلائ لائن بند کر دی ہے۔ اور ہم لوگ حساب لگانے لگے کہ اس وقت کتنے اسطرح کے ٹرالرز کراچی سے پاکستان کی شمالی سرحد تک یا تو سفر میں ہونگے یا اسی طرح کھڑے ہونگے شاید ہزاروں میں۔ یہ قدم پاکستان نے اس وقت اٹھایا ، جب پچھلے ہفتے افغان سرحد کے اس طرف سے پاکستانی سرحد پہ میزائل مارے گئے اور اسکے نتیجے میں تین پاکستانی فوجی مارے گئے۔
سپلائ لائن کے بند ہونے سے ٹرالرز درہ خیبر کے پاس اور بعد میں کوئٹہ میں بھی اکٹھے ہوئے جا رہے تھے۔  کچھ ٹرالرز کو مقامی افراد نے تباہ کر دیا یا جلا دیا۔



یہ کوئ پہلی دفعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی یہ ٹرکس لوٹے جاتے رہے ہیں اور انکا سامان مقامی مارکیٹوں میں فروخت کیا جاتا رہا ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک اگرچہ جلانے والوں کا تعلق  طالبان سے بتایا جاتا تھا۔ لیکن  ایک نجی محفل میں ان اطلاعات کی باز گشت بھی سنائ دی کہ آجکل قبائلی سرداروں کے بڑے مزے آئے ہوئے ہیں اور لوٹ مار کے اس عمل میں  فلاں فلاں سردار کی چاندی ہوگئ ۔ یہ سردار خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ طالبان کے نقش قدم پہ وہ بھی روانہ ہوئے اور اس سے پہلے کے طالبان انہیں ہتھیائیں وہ کیوں نہ دام کھرے کریں۔ میں نے سوچا کیا مجھے حیران ہونا چاہئیے؟  یا کہنا چاہئیے کہ جیسے کو تیسا؟ کسی طرح تو خبیث امریکیوں کو نقصان پہنچے اب فرزند زمین یہی طریقہ جانتے ہیں تو یہی سہی۔
 یہ سامان اشیائے خور دو نوش سے لیکر جدید ہتھیاروں تک ہر چیز پہ مشتمل ہے۔  اور سرحدی علاقوں سے لے کر یہ اشیاء کراچی میں بھی دستیاب ہیں۔ چلیں اس بہانے ہمارے لوگوں کو امریکہ کی جدید ترین ٹیکنالوجی اور عیاشی کا سامان ہاتھ آتا ہے۔ برائ کیا ہے۔
لوٹی ہوئ اشیاء کی فروخت کی ایک مارکیٹ

 میں ایک غیر ملکی رپورٹ سے گذر رہی تھی  جس میں یہ اطلاعات موجود تھیں کہ کسطرح نیٹو کے یہ ٹرکس لوٹ مار کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اور انکے سامان سے پاکستانی کس طرح مستفید ہو رہے ہیں۔ اس پہ ہونے والے تبصرے دلچسپ تھے۔ یہ تبصرے جن میں امریکی تبصرہ نگار بھی شامل تھے۔ انکا غضب کا نشانہ پاکستانی عوام اور امریکی حکام دونوں تھے۔ جہاں ایک طرف پاکستانی چور اچکے، بد دیانت ، لوٹ مار کرنے والی  قوم ٹہری وہاں امریکی حکومت بے وقوف ٹہری جو اپنے عوام کی فلاح پہ پیسے خرچ کرنے کے بجائے چوروں کو اپنا اتحادی بنائے ہوئے جنگ کئے جا رہی ہے۔ بقول کئ مبصروں کے اگر جنگ پہ خرچ کئے جانے والے یہ پیسے ملک میں خرچ کئے جائیں تو امریکی عوام اس وقت جس معاشی بحران کا شکار ہیں۔ اس سے بچا جا سکتا ہے۔
اگر ان تبصروں میں سے شناخت اور خبر کا پس منظر ہٹا دیا جائے تو کم و بیش یہی الزامات پاکستانی بھی اپنے امریکی حلیفوں پہ لگاتے ہیں اور کچھ ان سے ملتی جلتی وجوہات کی بناء پہ اپنی حکومت سے عاجز ہیں۔
پاکستان میں ایک حلقے نے حکومت کے اس قدم کو جمہوری حکومت کی طاقت کی فتح قرار دیا۔ ایک اور حلقے نے اسے سپہ سالار پرویز کیانی کے حوصلے سے جوڑا۔ ہر نظر اپنی اپنی روشنی تک جا رہی ہے۔ بہر حال اس تحریر کے پڑھنے تک طورخم کے بارڈر سے یہ پابندی اٹھا لی گئ ہو گی۔
  سرداروں سے متعلق ایک دلچسپ خبر اور ہے۔ معروف بلوچی سردار اکبر بگتی کے بیٹے نے مشرف کو قتل کرنے والے کو ایک ارب روپے کی زمین یعنی ہزار ایکڑ کینال زمین  دینے کا اعلان کیا ہے۔ غالب اور نیک  اندازہ ہے کہ یہ زمین انکی اس وراثت میں سے ہی دی جائے گی جو نسل ہا نسل سے انکی ملکیت ہے۔
چلیں بلوچی عوام سے تو مشرف ہی بھلے، مارے گئے تو اسی بہانے کسی کو سردار کی زمین میں سے ہزار ایکڑ ملیں گے۔ عوام کا کیا ہے وہ  تو دکھاوے کا زخم ہیں جس کے بہانے ہمدردی حاصل کی جاتی رہے اور جسے بوقت ضرورت اپنے اغراض کے لئے سہلا سہلا کر اور مکروہ بنایا  جاتا رہے۔ مشرف کے اس طرح مرنے کے بعد یہ کہنا کتنا قابل فخر ہوگا کہ ایک قابل فخر سردار باپ کے بیٹے نے اپنے باپ کے نام نہاد قاتل سے بدلہ لینے میں پرکھوں کی ہزار ایکڑ زمین کی بھی پرواہ نہیں کی۔
لیکن جن مظلوموں کے خون سے انکے محترم والد کے  اور خود انکے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ ان کا بدلہ لینے کے لئے عوام کس زمین کا دان دیں۔

Thursday, October 7, 2010

سر سید اٹھارہ سو ستاون سے پہلے-۲

گذشتہ سے پیوستہ


آئین اکبری کی تدوین ، ترتیب اور تصحیح میں جو محنت اور جاں فشانی سر سید نے دکھائ وہ حیرت انگیز ہے۔ یہ کتاب ابوالفضل نے لکھی تھی.  اس کتاب کا اسلوب نہایت مشکل اور پیچیدہ تھا۔ پھر مزید مشکل یہ کہ  اس میں ہر طرح کے سنسکرت، فارسی، عربی، ترکی اور ہندی الفاظ استعمال کئے گئے تھے۔۔ مختلف نسخوں میں کاتبوں کی غلطی کی وجہ سے عبارت میں فرق آ گیا تھا۔ سر سید نے مختلف نسخوں کا تقابلی مطالعہ کیا۔  مشکل اور نامانوس الفاظ کی تشریح کی۔ اکبر کے زمانے کی اشیاء کے نام، طرز بو دو باش، رہائیش و استعمال کی اشیا، غرض کہ ہر شے کی تصاویر دلی کے لائق مصوروں سے بنوا کر کتاب میں شامل کیں۔

واقعات کے سن و سال ، اس زمان کی ٹیکس کی رقوم اور محاصل، اکبر کے عہد کی شاہی محاصل کی رقوم آئین اکبری کے مختلف نسخوں میں مختلف درج تھیں۔ سر سید نے انہیں تحقیق کر کے درست کیا۔  ہر طرح کی جدولوں کی تصحیح کی۔ در حقیقت یہ کام سر سید کے علاوہ کسی کے بس کا نہ تھا۔ اس کتاب کو یوروپ میں بڑی پذیرائ ملی۔ اس کتاب میں مسلمانوں کے ایک بادشاہ یعنی اکبر کے کارناموں کو بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا گیا تھا جس سے یوروپ آشنا نہ تھا۔۔۔ اس کتاب کی تقریظ سر سید نے مرزا غالب سے لکھوانی چاہی۔ انہوں نے سوچا کہ مرزا غالب ہی انکی اس محنت کی قدر جان سکتے ہیں۔ غالب نے بجائے نثر کے اسکی تقریظ فارسی نظم میں ایک مثنوی کے پیرائے میں لکھی۔
اس تقریظ کے تذکرے سے پہلے  یہ جاننا چاہئیے کہ  یہ وہ زمانہ تھا  جب غالب اپنا مشہور زمانہ پینشن کا مقدمہ لڑ رہے تھے اور اسکے لئے انہیں کلکتہ کا سفر کرنا پڑا۔  کلکتہ شہر کی صفائ، دفتری کاموں کے طریقے اور انتظام اس سے غالب بہت متائثر ہوئے۔ پانی پہ چلتی بھاپ کے انجن سے چلنے والی کشتی نے انہیں حیران کر دیا۔ یہ سب  دیکھ کر غالب  انگریزوں کی ترقی  اور حسن انتظام کے قائل ہو گئے۔  کلکتہ شہر کی اس خوبی کا تذکرہ اپنے دیوان میں اس طرح کرتے ہیں کہ
کلکتہ کا جو تونے ذکر کیا اے ہم نشیں
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
اس تقریظ کو ڈاکٹر خورشید رضوی کے الفاظ میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے  کہ
اس دفتر پارینہ کو زندہ کرنے کے لئے سر سید جیسے با صلاحیت آدمی کا اس قدر محنت صرف کرنا وقت کا زیاں ہے۔ یہ وقت آئین اکبری پہ نگاہ بازگشت ڈالنے کا نہیں بلکہ انگریزوں کے دستور آئین سے نظر ملانے کا ہے۔ جنہوں نے عناصر فطرت  کو تسخیر کر کے نو بہ نو ایجادات کی ہیں اور بحر و بر پہ اپنا سکہ رواں کر دیا ہے۔
سر سید کو توقع نہ تھی اور اس سے انہیں رنج پہنچا۔ انہوں نے اسے مرزا غالب کو واپس کر دیا کہ یہ مجھے درکار نہیں۔ مگر غالب کو اپنی رائے کی اہمیت کا اندازہ تھا۔ اسی لئے انہوں نے غالباً اسے نظم میں لکھا تھا۔ اور اسے اپنی کلیات فارسی میں شامل کر دیا۔ غالب نے سر سید کو لکھا۔
ابھی تک آپ اپنے پرانے آئین جہاں بانی کی ترتیب و تصحیح میں لگے ہوئے ہیں حالانکہ زندگی کا نیا آئین کلکتہ پہنچ گیا ہے اور بہت جلد ہند کی ساری تہذیبی زندگی کو اپنی گرفت میں لے لیگا۔
غالب آخر غالب رہے۔
سر سید ان سے کبیدہ خاطر تو ہوئے۔ لیکن یہ شاید اسی کا اثر تھا کہ انہوں نے اپنی اس کوشش کا زیادہ تذکرہ کبھی نہیں کیا۔ اور شاید یہی چیز ان میں ایک مصلح قوم کو مہمیز دینے باعث بنی۔ مگر تاریخ کہتی ہے کہ اگر اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کا واقعہ نمودار نہ ہوتا تو سر سید اپنے انہی کاموں میں مصروف رہتے۔ یہ وہ لمحہ تھا جس نے انکے تصورات کی دنیا کو بدل دیا۔

حوالہ؛
سر سید احمد خان ، شخصیت اور فن۔ اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد
موج کوثر، شیخ محمد اکرام ، سروسز بک کلب، آرمی ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ


سر سید اٹھارہ سو ستاون سے پہلے-۱

گذشتہ سے پیوستہ

اٹھارہ سو اٹھارہ میں سر سید کے والد کا انتقال ہوا۔ اس وقت انکی عمر اکیس سال تھی۔ تب انہوں نےملازمت کا ارادہ  کیا۔ اپنے خالو کے پاس جا کر کام سیکھنا شروع کیا جوکہ دہلی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے صدر امین تھے۔ اور وہیں سر رشتےدار ہو گئے۔ بعد میں جب دہلی کے سیشن جج نے انہیں سیشن کورٹ میں سر رشتے دار لگانا چاہ تو انکار کر دیا کہ ابھی اس کام کے لائق نہیں۔ اٹھارہ سو انتیس میں رابرٹ ہیملٹن کمشنر آگرہ مقرر ہوئے تو سر سید کو نائب منشی کا کام سپرد کر دیا۔ سر سید نے اس دوران دل لگا کر کام سیکھا اور دیوانی قوانین کا ایک خلاصہ تیار کر لیا۔ اسے دیکھ کمشنر بہت متائثر ہوا اور اسکی ایک کاپی اعلی حکام کو بھیج کر سفارش کی کہ انہیں منصف کے عہدے پہ تعینات کیا جائے۔اس عہدے کے لئے منصفی کا ایک امتحان ہوتا تھا جس میں سر سید پہلی کوشش میں کامیاب ہو گئے۔ یہ خلاصہ قوانین منصفی کے امتحان کے امیدواروں کے لئے بڑا مجرب نسخہ ثابت ہوا۔ اسکا نام سر سید نے انتخاب الاخوین تجویز کیا۔۔ چند ہی روز میں تمام صوبوں سے شائع ہو گیا اور کئ امیدواروں نے اسکی بدولت منصفی حاصل کی۔ اٹھارہ سو چوراسی میں انجمن اسلامیہ لاہور نے انکی لاہور آمد پہ استقبالیہ دیا اور بطور خاص اسکا تذکرہ کیا۔
ملازمت میں آنے سے پہلے وہ اپنے بڑے بھائ کے ساتھ اخبار 'سید الخبار' نکالا کرتے تھے اٹھارہ سو بیالیس میں وہ فتح پور سیکری میں منصف مقرر ہوئے۔ یہاں مولانا نور الحسن کی صحبت رہی اور انکے توجہ دلانے پہ شاہ عبدالعزیز کی شیعیت کے متعلق کتاب 'تحفہ اثنا عشریہ کے دو باب ترجمہ کئے۔ اس دوران میلاد کی مجلسوں کے لئے تین رسالے لکھے۔ اسکا خیال اس لئے آیا کہ اس وقت رسول اللہ کی ولادت، حالات زندگی اور وصال کے بارے میں موجود عام کتابچوں میں صحیح روایات نہ تھیں۔ اور ان میں بہت سی بے بنیاد اور توہم پرست باتیں راہ پا گئ تھیں۔ دوسرا رسالہ تحفہ حسن  کے نام سے لکھا۔ جس میں اہل تشیع کے حضرت ابو بکر صدیق  پہ بے جواز طعن و تشنیع کا جواب لکھا اور تولا اور تبرہ پہ عقلی نکتہ چینی  کر کے انکی اصلیت واضح کی۔ ایک تیسرا رسالہ تسہیل فی جرالثقیل کے نام سے لکھا جو ایک عربی رسالے کا ترجمہ تھا۔ سید احمد بریلوی، شاہ اسمٰیل شہید اور شاہ عبد العزیز محدث دہلوی سے عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ اس زمانے میں اپنے آپکو علی الاعلان وہابی کہتے تھے جب سب وہابی باغی سمجھے جاتے تھے۔ سید احمد کی تحریک اصلاح سے متائثر تھے۔ انہوں نے سید احمد اور شاہ اسمعیل کی تائید میں کئ کتابیں لکھیں۔ ان میں راہ سنت و رد بدعت بھی شامل ہے۔ یہ کتاب اٹھارہ سو پچاس میں لکھی۔ ڈاکٹر ہنٹر کی کتاب کا جواب لکھتے ہوئے سر سید لکھتے ہیں کہ
مولانا سید احمد اور ٹھیک ٹھیک سمجھو تو شاہ اسمعیل کی تمام کوشش اس بات پہ مبذول تھی کہ ہندوستان میں اپنے مذہب اسلام کی تہذیب اور اصلاح کرنی چاہئیے۔
سر سید کے عقائد میں بعد میں تبدیلیاں ہوئیں لیکن مولانا سید احمد بریلوی کا اصلاحی جوش ان میں تمام عمر باقی رہا۔
اٹھارہ سو چھیالیس میں انہیں دہلی شہر کے نواح میں موجود پرانی عمارتوں کی تحقیق کا شوق ہوا۔۔ انہوں نے بڑے ذوق و شوق سے اس پہ کام کیا اور ایسی شاید ہی کوئ دستاویز اس موضوع پر میسر ہو۔ انہوں نے سو کے قریب پرانی عمارتوں کا بغور جائزہ لیا۔ انکے کتبے پڑھے۔ پھر انکی نقلیں تیار کیں اور یہ اہتمام کیا کہ ان میں وہی رسم الخط رکھا جائے جس میں کتبے کی اصل عبارت موجود تھی۔ ہر عمارت کے بنانے والے کے حالات، عمارت کی تعمیر کا مقصد،، اسکی مختصر تاریخ، عمارت کا اسکیچ، اسکی شکست و ریخت اور اس میں اضافوں کا حال، اسکے نقشے اور تعمیر کی فنی باریکیاں غرض ہر ممکنہ تفصیل انہوں نے اس میں ڈالی۔
سر سید لکھتے ہیں کہ
قطب صاحب کی لاٹ کے بعض کتبے جو زیادہ بلند ہونے کے سبب پڑھے نہیں جا سکتے تھے انکے پڑھنے کو ایک چھینکا دو بلیوں کے بیچ میں ہر ایک کتبے کے محاذی بندھوا  لیا کرتے تھے۔ میں خود اوپر چڑھ کر ہر کتبے کا چربہ اتارتا تھا۔
یہ کتاب صرف ڈیڑھ سال کے عرصے میں مکمل کی گئ اور طبع بھی ہو گئ۔۔
اس کتاب کا چوتھا باب دلی کے مشہور اور نامور لوگوں کے ذکر پہ ہے جس میں ایک سو بیس مشائخ، علماء، فقراء، مجذوبوں، اطباء، قراء، شعراء، خوش نویسوں یا خطاطوں، مصوروں اور موسیقاروں  کا تذکرہ ہے۔
کتاب کا پہلا ایڈیشن امام بخش صہبائ کے زیر اثر ادق اور پیچیدہ  تھا۔ جس کا جلد ہی سرسید کو اندازہ ہو گیا اور دوسرا ایڈیشن انہوں نے  ازسرنو لکھا اور مطالب کو آسان زبان میں بیان کیا۔
دہلی کے ڈپٹی کمشنر کو یہ کتاب اتنی پسند آئ کہ وہ اسے اپنے ساتھ لندن لے گیا۔ واپسی پہ اس نے سر سید کے ساتھ بیٹھ کر اسکا ترجمہ انگریزی میں کیا۔ لیکن یوروپ میں جو انگریزی ترجمہ پھیلا وہ موسیو گارسن دتاسی کا فرانسیسی ترجمہ تھا جو انہوں نے اٹھارہ سو ساٹھ میں کیا تھا۔ یہ کتاب یوروپ کے علمی حلقوں میں بڑی سراہی گئ اور اسکی وجہ سے لندن کی رائل ایشیاٹک سوسائٹی نے سرسید کو اپنا آنریری  فیلو بنا لیا۔
سر سید نے ایک اور رسالہ لکھا جس میں انہوں اس موضوع پہ دلائل جمع کئیے کہ زمین حرکت نہیں کرتی مگر بعد میں اپنے اس خیال سے رجوع کر لیا ور حرکت زمین کے قائل ہو گئے۔ اس کتاب کا نام ہے قول متین و رابطال حرکت زمین۔
پیری مریدی کے مروجہ طریقے کے خلاف ایک رسالہ کلمۃ  الحق لکھا۔  سلسلہ نقشبندیہ میں تصور شیخ کے حق اور اسکی وضاحت میں ایک رسالہ اٹھارہ سو تریپن میں لکھا۔ سلسلۃ الملوک کے نام سے ایک رسالہ لکھا جس میں پانچ ہزار سال تک کے ان راجاءوں، فرماں رواءوں اور سلاطین اور بادشاہوں کی فہرست مرتب کی جو دہلی کے حکمران رہے۔  اور انکی تعداد راجہ یدہشٹر سے لیکر ملکہ  قیصر ہند تک تقریباً دو سو دو بنتی ہے۔ انکے مختصر کوائف بھی اس میں موجود ہیں۔
اٹھارہ سو پچپن میں انہیں بجنور میں صدر امین مقرر کیا گیا تو تو انہوں نے بجنور کی مفصل تاریخ لکھنا شروع کی اور آئین اکبری پہ کام شروع کیا۔

جاری ہے

Sunday, October 3, 2010

باغی کا حوصلہ

ابھی کچھ دن پہلے فیس بک پہ ایک صاحب سے بات چیت ہو رہی تھی۔ اگرچہ میں چیٹنگ سے اجتناب کرتی ہوں۔ لیکن خیر  یہ صاحب چونکہ ایک دلچسپ پس منظر رکھتے ہیں اس لئیے وقت انکے ساتھ ضائع ہوتا ہوا نہیں لگتا۔ باتوں  باتوں میں انہوں نے کہا کہ زندگی ایک بھوت بنگلہ ہے جو ہر کسی کو ڈراتی ہے۔ کامیاب وہ رہتا ہے جو اسے ڈرا دے۔ اگر اس جملے میں غلطی ہو تو وہ اسے درست کر سکتے ہیں۔
 میں اس خیال میں انکے ساتھ ہوں۔   کسی نے کہا تھا کہ ہر چیز کی قیمت ہوتی ہے۔ اسے مزید سادہ کرنا چاہونگی۔ ہر چیز کی قیمت ہوتی ہے اور کرنسی آپکا حوصلہ اور بغاوت کرنے کے جراثیم ہوتے ہیں۔ یوں دنیا میں کوئ چیز نا ممکن نہیں رہتی۔
 ابھی میں نے ایک کتاب پڑھنا شروع کی ہے جسکا نام ہے۔ الکیمسٹ۔ نہ نہ یہ کتاب کیمسٹری کے متعلق نہیں ہے۔ بلکہ نرا فکشن ہے۔ یہ ناول برازیلین ادیب پاءولو کوایلیو کا تحریر کردہ ہے۔ اسکی ابتک چھ کروڑ سے زائد کاپیاں بک چکی ہیں اور سڑسٹھ زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ ابھی میں نے اسکے صرف پچیس صفحے پڑھے ہیں اور اس نے بالکل باندھ لیا ہے۔پورا ناول صرف ایک سو بہتر صفحات کا ہے انگریزی میں۔
اس سے اخذ کردہ کچھ دلچسپ باتیں حاضر ہیں۔ تقدیر یا قسمت وہ چیز ہے جو عالم شباب میں ہر شخص کو معلوم ہوتی ہے کہ اوہ کیا ہے وہ اسکی چاہت کرتا ہے۔ انکی زندگی کے ایک حصے میں ہر چیز بالکل واضح ہوتی ہے اور ہر چیز ممکن ہوتی ہے۔ وہ اپنے خوابوں سے خوفزدہ نہیں ہوتے اور خواہش کرتے ہیں کہ ہر وہ چیز جو وہ چاہتے ہیں کہ وقوع پذیر ہو انکی زندگیوں میں ہو جائے۔ لیکن جسی جیسے وقت گذرتا جاتا ہے۔ ایک پر اسرار قوت جنم لیتی ہے جو انہیں قائل کرتی ہے کہ یہ نا ممکن ہے کہ وہ اپنی تقدیر کو جان سکیں۔یہ ایک منفی قوت ہوتی ہے۔ لیکن اسی سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تم اپنی تقدیر کو کیسے جان سکتے ہو۔ اس کائنات کا ایک اصول ہے اور وہ یہ کہ تم جو کوئ بھی ہو اور جہاں کہیں بھی رہتے ہو۔ جب تم واقعی کسی چیز کی چاہت رکھتے ہو تو زمین پہ وہ تمہارا مشن بن جاتا ہے۔ کیونکہ یہ وہ خواہش ہوتی ہے جو کائنات کی روح  سے جنم لیتی ہے۔ زندگی میں ایک لمحہ ایسا ضرور آتا ہے جب تم وہ کرنے کا اختیار رکھتے ہو جو تم کرنا چاہتا ہو۔لیکن ایسے وقت میں کچھ اور چیزیں ایسے گھیر لیتی ہیں کہ تقدیر اپنی اہمیت کھو دیتی ہے۔
اب آگے کیا ہوگا؟ یہ بات کتنی سچ ثابت ہوگی یہ تو آگے پڑھنے پہ ہی پتہ چلے گا۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ خاصی صحیح معلوم ہوتی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی تقدیر کا مالک ہے اور زندگی میں ہمیں یہ احساس ملکیت بارہا ملتا ہے مگر ہم میں سے اکثر لوگ اپنے حوصلوں کی بلندی اور خوابوں کی سچائ پہ پوری طرح یقین نہیں رکھتے۔ ہم کچھ ایسے رسوم و رواج، وراثت میں چلے آنے والے خیالات، ثقافتی یلغار اور معاشرتی رویوں کے دباءو میں ہوتے ہیں کہ تقدیر کی باندی ہمارے اوپر حکومت کرنے میں آزاد ہو جاتی ہے۔ اگر آپ اس بات پہ یقین نہیں رکھتے تو ایک دفعہ آزمائشی طور پہ اپنی پوری سچائ، استقامت اور حوصلے سے کھڑے ہو جائیں۔ اور پھر دیکھیں خدا کیا کرتا ہے۔
ہمم، اس ناول سے لی گئ ایک پنچ لائن تو رہ گئ۔
جب تم وہ کرنا چاہتے ہو، جسکی واقعی خواہش رکھتے ہو تو کائینات کی ہر چیز تمہارے ساتھ شامل ہو جاتی ہے۔