Wednesday, June 27, 2012

خوشدلی کے راستے

میں فرسٹ ایئر آنرز کی اسٹوڈنٹ تھی جب وہ میرے پاس آیا۔ وہ اس وقت آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا اور خاصہ ذہین۔ نہ صرف ذہین بلکہ شریر بھی تھا۔ وہ اکیلا نہیں آیا تھا بلکہ اسکے ساتھ ایک بہن اور دو بھائ بھی  تھے۔ وہ ان میں سب سے بڑا تھا۔ باقی بہن بھائ بھی اچھے ذہین بچے تھے۔ یہ سب مجھ سے ٹیوشن پڑھنے آتے تھے۔ ذہین بچوں کو پڑھانے میں کسے مزہ نہیں آتا۔ مجھے تو پیسوں کی ضرورت بھی تھی۔ وہ سب مجھ سے پڑھ کر خوش تھے۔ انکے گھر والوں کو ایک تسلی اور بھی تھی اور وہ یہ کہ یہاں ان سے کوئ اس بابت سوال نہیں کرتا تھا کہ وہ قادیانی ہیں۔ اتنے بڑے علاقے میں وہ واحد قادیانی خاندان تھا۔ اگرچہ کسی نے کبھی انکے لئے سخت رویہ اختیار نہیں کیا تھا لیکن ایک چحوٹی جگہ ہونے کی بناء پہ لوگ بطور خاص یہ بات جانتے تھے کہ وہ قادیانی ہیں۔
ان کے دادا نے اپنا قادیانی لٹریچر بھی پڑھنے کو دیا۔ انہی کی دی ہوئ سر ظفراللہ کی سوانح حیات بھی پڑھی لیکن اب مجھے یاد بھی نہیں ہے۔  ہم میں سے کوئ بھی قادیانی نہ ہو سکا۔  پڑھنے کو تو عیسائیوں کا تبلیغی مواد بھی پڑھا۔ خدا جانے کون بھیج دیا کرتا تھا۔ لیکن ہم میں سے کسی کو عیسائ ہونے کی بھی چاہ نہ ہوئ۔ 
آئیندہ ایک ڈیڑھ سال میں وہاب کا قد مجھ سے بھی بڑھ گیا۔  لیکن وہ اسی طرح مسکراتا اپنا کام کرتا رہتا۔ میٹرک کے امتحان میں اس نے اے ون گریڈ لیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب تھوک کے حساب سے اے ون گریڈ بھی نہیں آتے تھے۔ مجھے بھی خوشی تھی کہ میرے اسٹوڈنٹ کے بیاسی فی صد نمبر آئے ہیں۔ لیکن افسوس بھی تھا۔
وہاب میں اب آپ کو انٹر میں نہیں پڑھا سکوں گی کیونکہ خود میری پڑھائ اب پہلے سے زیادہ وقت لیتی ہے۔ایسی صورت میں کہ میں صبح سات بجے کی نکلی ہوئ  یونیورسٹی سے گھر واپس شام کو  ساڑھے پانچ بجے آتی ہوں دیگر بچوں کو ٹیوشن پڑھانے، گھر کے کاموں اور اپنی پڑھائ کے ساتھ اتنا وقت نہیں بچتا کہ آپکے ساتھ بیٹھ کر تمام مضامین کے نوٹس بناءوں۔ انٹر میں زیادہ محنت چاہئیے ہوتی ہے۔ میٹرک تک پڑھانے کے لئے مجھے بالکل تیاری نہیں کرنی پڑتی تھِی۔اس لئے اب بہتر یہ ہے کہ کسی کوچنگ سینٹر کو جوائن کر لو۔ تم ایک ذہین بچے ہو اور میرے چکر میں تم اپنا وقت خراب نہ کرو۔
وہاب کے لئے یہ بڑا صدمہ تھا اس کا اندازہ مجھے بعد میں ہوا جب ایک ہفتے بعد اسکی والدہ میرے پاس آئیں۔ ایک ہفتہ ہو گیا ہے وہ بستر پہ خاموشی سے پڑا رہتا ہے۔ کہتا ہے پڑھوں گا تو باجی سے پڑھوں گا۔ بیٹا کسی طرح وقت نکال کر اسے پڑھا دو۔  آنٹی میں نے کہا اس وقت میرے پاس جو بچے ہیں انہیں پڑھاتے پڑھاتے رات کو ساڑھے آٹھ بج جاتے ہیں۔ اسکے بعد دیگر کام بھی کرنے ہوتے ہیں ۔ یقین کریں میں صبح پانچ بجے کی اٹھی ہوتی ہوں نیند سے میری آنکھیں بند ہو رہی ہوتی ہے۔ میں آپ کو بالکل ایمانداری سے بتا رہی ہوں کہ اس سے وہاب کے امتحانی گریڈ پہ اچھا اثر نہیں پڑے گا۔ آپ اسے سمجھائیے، زندگی میں انسان بہت سے لوگوں سے ملتا ہے۔ دنیا کسی ایک انسان پہ آ کر ختم نہیں ہوتی۔ وہ خاموش ہو گئیں۔
اس ساری کوشش کے باوجود وہاب کے گریڈز اچھے نہ ہو سکے۔ مجھے لگا کہ وہ ہر جگہ جا کر عدم تحفظ کا شکار رہتا تھا۔ اور یہ عدم تحفظ کا احساس اسے اس عقیدے کی بناء پہ ملا تھا جس میں وہ پیدا ہوا تھا۔
حالانکہ انسانوں کی اکثریت عموماً وہ مذہب رکھتی ہے جس میں وہ پیدا ہوتی ہے۔ اور اسے تبدیل کرنے کی جراءت بھی ان میں ایک خاص عمر سے پہلے نہیں پیدا ہوتی۔ دنیا کے ہر مذہب سے لا تعلقی اختیار کر لینا یا دہریہ ہوجانا، اسے تبدیل کرنے سے زیادہ آسان ہوتا ہے۔ مذہب سے آزادی حاصل کرنے والے یہ عمل احتجاج میں یہ کرتے ہیں۔ ورنہ مذہب اگر اپنی رو میں چلتا رہے تو کسی کو اسے چھوڑنے کی کیا ضرورت۔ ہر گناہ کے بعد توبہ کر لی۔ دنیا کے ساتھ آخرت کی بھی حفاظت کر لی، اگر وہ ہوئ تو نقصان نہ رہے۔ 
ہم اس محلے سے نکل آئے۔ وہاب کے بارے میں مجھے آخری اطلاع جو ملی وہ یہ تھی کہ اسکے انٹر میں باسٹھ فی صد نمبر آئے۔ تعلیمی کارکردگی میں نمایاں کمی  سے زیادہ جس چیز سے مجھے تکلیف پہنچی وہ یہ تھی کہ وہاب شخصی طور پہ متوازن نہیں رہا۔ بس وہاب اب پہلے جیسا نہیں رہا۔ اسے یہ فکر زیادہ رہتی ہے کہ لوگ قادیانی ہونے کی وجہ سے اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ماں نے ایسے کہا کہ مجھے لگا میں مجرم ہوں۔ وہ ان کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔
وہ ابتداً میرے پاس آیا تو اسکی آنکھوں میں شرارت اور ذہانت کی چمک تھی۔ مجھے وہ اپنی ان خوبیوں کی بناء پہ بے حد پسند تھا۔ لیکن  اسکی ان خوبیوں کی حفاظت نہ ہو سکی۔  
 اقلیت بن کر رہنا کوئ آسان کام نہیں، بالخصوص مذہبی اقلیت اور پھر ایسی جگہوں پہ جہاں مذہب بنیادی پہچان بتایا جاتا ہو۔ میں بچپن میں سوچا کرتی تھی کہ آخر سب لوگ ہمارے جیسے کیوں نہیں ہو جاتے۔ ہم جو سچائ پہ ہیں، ہم جو سب سے بہتر ہیں۔ ہم جو سب سے زیادہ ہیں۔
اب  یہ سوچتی ہوں کہ آخر ہم سب اپنے اپنے راستوں پہ چل کر خوشدلی کے ساتھ کیوں نہیں رہ سکتے؟ اس طرح ہماری شخصیات اندرونی ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ ہو جائیں گی اور ہم بہت سارے ایسے انسانوں سے مستفید ہو پائیں گے جو زمین پہ خدا کی تخلیق کا عمدہ نمونہ ہوتے ہیں۔ 
  

Monday, June 18, 2012

بد نظر کی نذر

ہم ایک تقریب میں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ایک جوڑا داخل ہوا انکے ساتھ انکی دو مہینے کی بچی بھی موجود تھی۔ میں نے اسے گود میں لیا تو دیکھا کہ اسکے ماتھے پہ کاجل سے گول نشان بنا ہوا ہے۔  مجھے معلوم ہے کہ کاجل کا یہ نشان بری نظر سے بچانے کے لئے لگایا جاتا ہے اور اسے نظر بٹّو بھی کہتے ہیں۔ میں نے حیرانی سے اسلامیات میں ماسٹرز کی ہوئ ماں  سے پوچھا کہ آپ بھی  نظر بٹّو پہ یقین رکھتی ہیں۔ 
میز کے ارد گرد بیٹھے ہوئے لوگوں میں بحث شروع ہوئ اور گفتگو اس طرف مڑ گئ  کہ بری نظر ہوتی ہے بعض نے کچھ احادیث اور روایات کا سہارا لیا۔ کچھ نے واقعات سنانا شروع کئے۔
 میں نے تو صرف ایک ہی بات کہی۔ میری بچی  بچپن سے اکثر لوگوں کو بڑی پسند آتی رہی ہے۔ جب بھی گھر سے باہر نکلتے تو لوگ اسکی حرکتیں دیکھ کر یہ ضرور کہتے کہ گھر جا کر اسکی نظر اتار دیجئیے گا۔   میں نے کبھی نظر نہیں اتاری۔ حتی کہ بیمار بھی پڑی جیسا کہ بچے بیمار ہو ہی جاتے ہیں۔ میں ہمیشہ وجہ پہ غور کرتی کہ ایسا کیوں ہوا پھر علاج اور احتیاط۔  یعنی نظر میں نے پھر بھی نہیں اتاری۔
 اس کی وجہ یہ ہے کہ میں ہمشیہ یہی سوچتی رہی کہ گورے جنکی اکثریت مذہب پہ یقین نہیں رکھتی اور انکے بچے بڑے پیارے بھی ہوتے ہیں، بیمار بھی ہوتے ہیں۔  انہیں نظر اتارنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تو ہمارے یہاں ہر شخص کو یہ عارضہ کیوں لاحق ہے۔ مجھے بھی دیکھنا چاہئیے کہ کیا نظر اتارے بغیر چارہ نہیں۔ جواب یہ ہے کہ نظر اتارے بغیر بھی  زندگی کم از کم اس طرح گذر سکتی ہے جس طرح اوروں کی گذرتی ہے۔
کہتے ہیں کہ اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے جس نے ڈالی بری نظر ڈالی۔ لیکن ایک سوکھا ساکھا، سست بچہ جو آثار سے ہی لگتا ہے کہ غذا کی کمی کا شکار ہے اسکے ماں باپ بھی کہتے ہیں کہ اسے نظر لگتی ہے۔ بچے کے گلے میں دو چار تعویذ اگر لوگ تعویذ پہ یقین نہیں رکھتے تو کوئ قرآنی آیت یا اللہ کے نام کا دم درود۔ 
بچے تو بچے بڑے افراد بھی  بد نظری کے تعویذ پہنے ہوتے ہیں یا نظر اترواتے ہیں۔ مثلاً بچے کی پڑھائ پہ نظر لگ گئ ہے۔ جیسا پہلے دل لگاتا تھا ویسا نہیں لگاتا۔ لڑکی پہ نظر ہو گئ ہے  اتنی اچھی شکل کی ہے لیکن کہیں شادی کی بات ہی نہیں ٹہرتی۔ لڑکی نے بھاگ کر شادی کر لی، نظر لگ گئ ورنہ تو بڑی فرماںبردار ہوا کرتی تھی۔ کسی نے نظر لگادی شوہر اتنا چاہتا تھا اب کسی اور عورت کے چکر میں پڑگیا ہے۔ مرد کو نظر لگ گئ کیسا بھاگ دوڑ کر کام کرتا تھا اب تو آئے دن بیمار رہتا ہے۔  حتی کہ ایک بڑی بی نے بتایا کہ کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئ۔ اب کیا بتائیں، لوگوں کی نظر لگ گئ کہ اس عمر میں بھی کتنا چلتی پھرتی ہیں۔ ورنہ راستے میں پڑا کیلے کا چھلکا کیا ہمیں نظر نہیں آتا۔ چلتا ہوا کاروبار ٹھپ ہو گیا، نظر لگ گئ ہے۔ انسانوں سے ہٹ کر ہر دوسری گاڑی کے پیچھے ایک کالے کپڑے کی لیر لٹکتی نظر آئے گی۔ کس واسطے تاکہ گاڑی بری نظر سے بچی رہے۔ زیر تعمیر عمارات پہ ماشاءاللہ کی تختی پہلی اینٹ کے ساتھ لگ جاتی ہے۔ اکثر کے ساتھ ہمیشہ کے لئے لگ جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
نظر کا تصور صرف مسلمانوں میں نہیں دنیا میں ہر جگہ پایا جاتا ہے اور ہر مذہب میں اس کے لئے کچھ نہ کچھ کہا گیا ہے۔ اس کی ابتدائ تاریخ مشرق وسطی سے ملتی ہے۔ یونانی فلاسفرز کی تحریروں میں بھی اس حوالے سے تصورات ملتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ بد نظری کا یہ نظریہ سکندر اعظم کے ساتھ مشرقی ملکوں کی طرف سفر کر گیا۔ اس طرح سے اس متائثر زیادہ تر علاقے عرب اور ایشیاء سے تعلق رکھتے ہیں۔  یوروپ میں یہ ان علاقوں سے آیا جو میڈیٹیرینیئن علاقوں سے ملے ہوئے تھے جبکہ امریکہ میں یہ یوروپی تسلط کے ساتھ داخل ہوا۔
آخر لوگ نظر بد پہ کیوں یقین رکھتے ہیں۔ کیونکہ انسان ہمیشہ سے ان دیکھے کے خوف میں مبتلا رہا ہے  اور ساتھ ہی ساتھ وہ کسی بھی قسم کے نقصان سے محفوظ رہنا چاہتا ہے۔ اس لئے کسی برے حادثے یا واقعے کے بعد اگر اسکا تجزیہ صحیح طور پہ کرنے سے قاصر ہو تو اسکا ذہن کسی ماورائ تصور کی طرف جاتا ہے۔  اب اگر یہ برا واقعہ بظاہر خدا کی ناراضگی یا قہر نہیں ہے تو اسکی وجہ لازماً کسی کی بری نظر ہی ہو سکتی ہے۔
دنیا کے مختلف حصوں میں بری نظر سے بچنے کے مختلف ٹوٹکے ہیں۔ جیسے دروازے پہ گھوڑے کی نعل لٹکانا یا ترکی میں ایول آئ بڑی مشہور چیز ہے۔ جو نیلے شیشے سے بنی آنکھ ہوتی ہے اور ہر جگہ دیکھی جا سکتی ہے، بازار میں خوب بکتی ہے۔ یہ نیلی آنکھ بد نظر کو واپس اس کے دیکھنے والے پہ بھیج دیتی ہے۔


 ادھر افریقہ کے کچھ حصوں میں ایک ہاتھ کی شبیہہ ملتی ہے جسکے درمیان میں بالعموم ایک آنکھ ہوتی ہے۔ یہ ہمسا کہلاتا ہے۔  یہ بھی بد نظر سے تحفظ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ مسلمان اسے حضرت فاطمہ کا ہاتھ کہتے ہیں اور عیسائ حضرت مریم کا ہاتھ قرار دیتے ہیں۔

جہاں کچھ خطوں میں نیلی، ہری آنکھوں والے لوگ بد نظر قرار پاتے ہیں وہاں کچھ خطوں میں نیلی یا ہری آنکھوں والے لوگ نظر سے سب سے زیادہ متائثر ہونےوالےجانے جاتے ہیں۔
 ایسے مصائب کا  تعلق خدا یا خداءوں کی بھیجی گئ مصیبت سے نہیں بلکہ ایک انسان کی نظر کی مصیبت سے ہوتا ہے۔ یعنی اگر خدا کے عذاب اور قہر سے بچ بھی جائیں تو بھی ہمارے ہم جنس کا صرف دیکھ لینا ہی مار ڈالتا ہے۔ اس طرح دراصل ہم ایک انسان کے اندر ایک عجیب سے برائ تلاش کر لیتے ہیں جسکا اسکے ذاتی اخلاق یا خواہش سے کوئ تعلق نہیں ہوتا۔ کوئ مہمان گھر سے آکر گیا اور اسکے بعد اسے بچے کو بخار ہو گیا تو بس مہمان کی نظر میں ہی کوئ خرابی ہوگی۔ جبکہ اسے معلوم تک نہیں ہوتا کہ اسکے متعلق کیا تصور باندھ لیا گیا ہے۔
اب یقیناً لوگ مقدس تاریخ میں سے حوالے نکال کر لائیں گے کہ فلاں حدیث کے مطابق ایسا ہوا اور فلاں روایت میں یہ کہا گیا ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اس وقت کا عرب معاشرہ جس حد تک انقلاب کو برداشت کرنے کے لئے تیار تھا اتنے ہی انقلابی نظریات پیش کئے گئے۔ اور بہت سے خیالات کو نہیں چھیڑا گیا کہ انکی تفصیلات میں جانا عام لوگوں کو سمجھ میں نہیں آئے گا۔ اور عوام الناس کو بس انکے توڑ کے لئے کچھ مذہبی حل بتا دئیے گئے۔ اسی میں سے ایک تصور نظر بد کا بھی ہے۔
ایسا ہونا بہت مشکل ہے کہ ایک بچہ کبھی بیمار نہ پڑے اسی طرح یہ ہونا بھی بہت مشکل ہے کہ کوئ شخص اپنی زندگی میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرے۔ انسان جتنا چاہے نیک ہو، واقعات اچھے یا برے پیش آتے ہی ہیں۔ اب رسول اللہ نے گیارہ شادیاں کیں لیکن جو اولاد نرینہ ملی وہ ابتدائ عمر میں ہی دنیا سے گذر گئ۔ اس طرح قریش نے انہیں لا ولد ہونے کا طعنہ دیا۔  تو کیا یہ  نظر بد تھی یا خدا کی ناراضگی۔ یقیناً ایسا نہیں تھا۔
سو کوئ اپنے بچے کو نظر بٹو لگائے، مرچیں سات بار گھما کر جلائے، سل کا بٹہ لے کر سات بار گھمائے، یا سورہ کوثر باری باری پڑھ کر دونوں گالوں پہ پیار کر لے، عمارت یا گاڑی پہ ماشاء اللہ لکھ کر لگائے یا ہر اچھی چیز کو دیکھ کر ماشاء اللہ کہے۔ سب کے نتائج عموماً ایک جیسے ہی نکلتے ہیں یعنی اگر فلو کا موسم چلا ہوا ہے تو بچے کو فلو ضرور ہوگا۔
بد نظری سے متعلق یہی سوچ جب آگے بڑھتی ہے تو لوگ دم ، دعا، تعویذ کے چکر میں ایسا الجھتے ہیں کہ پھر زندگی میں کرنے اور سوچنے کو کچھ باقی نہیں رہتا۔ ہاتھوں میں کئ طرح کے پتھر یا اسموں کی انگوٹھیاں ہوتی ہیں۔ ہر آنے جانے والے رشتے دار کے متعلق اندازے لگائے جاتے ہیں کہ کس کی نظر بری تھی، آخیر میں یہ  بظاہر معمولی نظر آنے والی سوچ انسان کے اندر سے اعتماد ختم کر دیتی ہے۔ 
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بات نظر بد سے چلتی ہے اور جادو تک جاتی ہے۔ کہتے ہیں جادو برحق ہے۔ اگر ایسا ہی بر حق ہوتا تو دنیا میں بڑے سے بڑے کام اسی کے زور پہ نکال لئے جاتے اور چند جادوگر اس دنیا کے سیاہ و سفید کے مالک بن جاتے۔ مگر ستم ظریفی دیکھئیے کہ دنیا کے سیاہ سفید کے مالک وہ بنے جن کے ہاتھوں میں یا تو تلواریں تھیں یا پھر کتابیں۔ 
کیا جادو کوئ حقیقت رکھتا ہے؟

Friday, June 15, 2012

توقع کی مداخلت

جب توقع ہی اٹھ گئ غالب
کیا کسی کا گلہ کرے کوئ

ہاں تو اپنے ملک کے سیاسی نظام سے کوئ توقع نہیں یعنی کوئ تعمیری توقع نہیں رہی۔ لیکن سیاست کے چینل پہ ایک کے بعد ایک دھوم مچا دینے والے ڈرامے اس تسلسل سے آتے ہیں کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ ابھی ایک ڈرامہ اپنے انجام تک پہنچ بھی نہیں پاتا اور ہم اندازہ ہی لگا رہے ہوتے ہیں کہ اب کیا ہوگا، کوئ اور ڈرامہ حاضر ہوجاتا ہے اور پرانا بھول کر نئے  پہ دھمال شروع ہو جاتا ہے۔
اب جو یہ  نیا ڈرامہ چلا جس نے سیاستدانوں سے لے کر میڈیا کے افراد اور عدلیہ تک کو اپنے کرداروں میں شامل کر لیا ہے۔ یہ آگے کس طرح چلے گا۔ کیا مہر بخاری اور لقمان مبشر پہ ہی نزلہ گر کر صاف ہو جائے گا یا کچھ بڑے نام بھی اس میں ایک کے بعد ایک شامل ہونگے۔
قارئین یہ جاننے کے لئے ہم نے اپنے ایک دوست سے رجوع کیا۔ یہ ایک ماہر مستقبلیات ہیں۔ اور انکی پیشن گوئیاں بجلی کے بارے میں اکثر درست ہوتی ہیں۔ یعنی انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ لوڈ شیڈنگ کے نئے اوقات کیا ہونگے۔ آج سے دو سال پہلے انہوں نے پیشن گوئ کی تھی کہ گیس، ڈیزل اور پیٹرول یکساں قیمتوں پہ آجائیں گے۔ جو آج بالکل صحیح ثابت ہوئ۔ اگرچہ کہ میں اس وقت بڑا ناراض ہوئ کہ یہ کیا مذاق ہے اب جبکہ میں نے اپنی گاڑی کو آپکے مشورے پہ گیس پہ کروالیا ہے تو آپ یہ پیشن گوئ کر رہے ہیں۔ ایسی باتوں پہ وہ عموماً ایک مجذوبانہ سیاسی مسکراہٹ دے کر رہ جاتے ہیں لیکن ہماری تسلی کے لئے کہا کہ تب بھی آپ کو فائدہ رہے گا، گیس پہ گاڑی زیادہ فاصلہ طے کرتی ہے۔
 اس کے علاوہ موسم کے بارے میں بالکل درست اندازہ لگاتے ہیں۔ کچھ حاسدی کہتے ہیں کہ وہ انٹر نیٹ سے خبریں لے کر دیتے ہیں۔ لیکن انداز صوفیوں والا بنا رکھا ہے۔ چلیں صحیح انکی بات مان بھی لی جائے لیکن یہ اگر اتنا ہی آسان ہوتا تو ڈان اخبار کی موسم کی پیشن گوئیاں  درست کیوں نہیں ہوتیں۔
خیر موضوع کو طوالت سے بچانے کے لئے واپس آتے ہیں کہ یہ جو بیٹوں کی جنگ چل پڑی ہے تو کس کا بیٹا بچے گا اور کس کا جائے گا۔ ہمارے مجذوب دوست کا کہنا تھا کہ جس بیٹے میں جان ہوگی وہ بچ جائے گا لیکن امکان غالب یہ ہے کہ ارسلان افتخار کو سزا ہوگی۔
وہ کیوں وہ تو چیف جسٹس کا بیٹا ہے؟ میں نے ایک دفعہ پھر حیرانی کا اظہار کیا۔
وہ اس لئے کہ باقی سب کو عبرت ہو کہ اب ان کا انجام بھی کچھ اچھا نہیں ہونے والا۔ وہ عدالت جو اپنے خون کو بھی معاف نہ کرے وہ آزاد ہے جو دل چاہے کرے۔
یعنی کسی بڑے کھیل کو ارسلان افتخار کے نام پہ شروع کیا گیا ہے؟
نہیں تو انہوں نے کہا ارسلان پہ جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ درست معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن یہ کہ وہ اس کی سزا پائے گا۔ چیف صاحب سرخرو ہونگے لیکن اسکے بعد وہ عدلیہ کے ذریعے ایک ایک کی کُٹ لگائیں گے۔
یہ سب کس کے ایماء پہ ہورہا ہے؟
انہوں نے شہادت کی انگلی اٹھا کر آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ یہاں کسی کے ایماء پہ کچھ نہیں ہوتا جو صورت حال سے فائدہ اٹھا لے ایماء اسی کا ہو جاتا ہے۔ اس واضح صوفیانہ جواب کو سن کر میں نے ایک واضح غیر شرعی سوال کرنے کی کوشش کی۔
اچھا یہ بتائیں کہ چیف جسٹس صاحب کیا واقعی اپنے بیٹے کی دن دونی اور رات چوگنی ترقی سے ایک دم لا علم تھے۔ مجھے یہ بات ہضم نہیں ہو رہی۔ پنجاب کے ذات برادی، خاندان جیسی مضبوط روایات والی زمین پہ چوہدری صاحب کو یہ شک نہیں ہوا کہ ان کا بیٹا آخر کس کاروبار سے اتنے کما رہا ہے یہ وہی بیٹا ہے جسکی نوکری کے لئے انہیں پرویز مشرف کا طعنہ سننا پڑا۔ جبکہ ایک عام باپ کو بھی شک ہوجاتا۔
اس سوال پہ انہوں نے کمپیوٹر کی طرف منہ موڑ کر کہا کہ اب انکا مخصوص وظائف کا وقت شروع ہوا چاہتا ہے۔ جس کے دوران مداخلت پہ اس کا وبال مداخلت کرنے والے پہ پڑ سکتا ہے۔
جس کی توقع ہی اٹھ چکی ہو وہ کیا مداخلت کرے گا۔ اس لئے خود ہی اٹھ آئے۔

Wednesday, June 13, 2012

اعلی میں گھٹالا


یہ واقعہ مشہورطبیعیات داں نیلز بوہر سے منسلک کیا جاتا ہے۔ نیلز بوہر پچھلی صدی کے عظیم سائینسدانوں میں سے ایک تھا۔ اپنی سائینسی خدمات کے سلسلے میں انہیں فزکس کے میدان میں نوبل پرائز بھی ملا۔ قسمت کا ایسا دھنی نکلا کہ اسکے چھ بیٹوں میں سے ایک کو نوبل پرائز ملا۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اس کے بیٹے کے نوبل پرائز کا اسکی قسمت سے کیا تعلق۔ مجھے بھی نہیں معلوم، میں نے تو اپنے معاشرتی چلن میں یہ لکھا ہے۔
قصہ خواں کہتے ہیں کہ  فزکس کا پرچہ تھا اور ممتحن نے سوال پوچھا کہ ایک بیرو میٹر کی مدد سے کیسے ایک بلند عمارت کی اونچائ ناپی جا سکتی ہے۔ ممتحن نے جس جواب کے لئے سوال پوچھا تھا، وہ یہ تھا کہ بیرو میٹر سے زمین کی سطح پہ دباوء معلوم کیا جائے پھر اس عمارت کی چھت پہ دباءو معلوم کیا جائے اور ان دونوں کے فرق کو ایک فارمولے میں رکھ کر عمارت کی بلندی پتہ چلا لی جائے۔
شاید نیلز بوہر نے اس مہم پسند طالب علم کی طرح سوچا جو اپنی مہم جوئ کا شوق اپنے استاد پہ نکالتا ہے، کیوں نہ ممتحن کو تپایا جائے اور جواب لکھ مارا کہ ایک رسی لے کر اس میں بیرو میٹر باندھ لیا جائے۔ عمارت کی چھت سے اس بیرو میٹر کا زمین تک چھوڑا جائے زمین کی سطح سے چھت تک اس رسی کی لمبائ ناپ لی جائے اور اس میں بیرومیٹر کی اونچائ شامل کر لی جائے۔
ممتحن اتنا بھنایا کہ طالب علم کو فیل کر دیا۔  طالب علم نے احتجاج کیا کہ یہ اسکے ساتھ زیادتی ہے۔ کسی غیر جانب دار شخص سے اسکی تحقیقات کرائ جائے۔ ایک  کمیٹی معاملے کی تحقیقات کے لئے بیٹھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جواب تو درست ہے لیکن اس میں فزکس کہیں نہیں ہے۔ لہذا طالب علم کو ایک موقع اور دیا جائے تاکہ وہ فزکس میں اپنی مہارت ثابت کر سکے۔
 طالب علم سے کہا گیا کہ اسکے پاس چھ منٹ ہیں۔ اگر وہ اس کا فزکس کے مطابق جواب دے دے تو اس کے حق میں فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
کچھ لوگ ہر حال میں ڈرامہ پیدا کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔  شاید نیلز بوہر کی فطرت میں کچھ ڈرامہ بھی تھا۔ یا شاید ہر سائنسداں تھوڑا بہت ڈرامہ کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ طالب علم خاموش ہو گیا۔ لیکن گھڑی کی سوئیاں نہیں۔ اس لئے ایک دفعہ پھر اسے یاد کرایا گیا کہ اسکے پاس اب بہت کم وقت ہے۔
 نیلز بوہر نے جواب دیا کہ دراصل اسکے ذہن میں کئ ممکنہ جواب ہیں اور وہ طے کر رہا ہے کہ کسے پہلے بیان کرے۔ یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ خالی ذہن ہی نہیں بھرا ہوا ذہن بھی شیطان کا چرخہ ہوتا ہے۔ اس چرخے کی مضبوطی دیکھ کر وہ یوں گویا ہوا۔
بیرو میٹر کو عمارت کی چھت پہ لے جا کر وہاں سے نیچے پھینکا جائے۔ چھت سے زمین تک فاصلہ طے کرنے میں جو وقت لگا ہو اسے نوٹ کر کے فارمولہ لگایا جائے تو بلندی معلوم ہو جائے گی۔ البتہ بیرومیٹر کے بچنے کی امید نہیں۔
ایسا بھی کر سکتے ہیں کہ اگر سورج نکا ہوا ہو تو بیرو میٹر کی اونچائ نوٹ کر کے اسکے سائے کی لمبائ لے لیجئیے پھر عمارت کے سائے کی لمبائ نوٹ کر لیں اسکے بعد تو ایک بالکل سادہ نسبت کے ذریعے عمارت کی اونچائ معلوم کی جا سکتی ہے۔
پھر اس نے اپنا داہنا گال کھجایا، شاید مسکراہٹ چھپانے کے لئے اور بولا
لیکن اگر آپ ایک دم درست لمبائ جاننا چاہتے ہوں تو بیرو میٹر کو ایک رسی کے ذریعے ٹانگ کر اس کا پینڈولم بنا لیں۔ پھر زمین  اور عمارت پہ الگ الگ اسے جھلائیے۔ اور دونوں جگہوں پہ ریسٹورنگ فورس معلوم کر کے فارمولا لگا دیں۔ لیجئیے جناب بلندی معلوم ہو جائے گی۔ 
تمام کمیٹیوں کے ارکان میں ایک بات مشترک ہوتی ہے سب سکون سے ہر ناروا کو بھی روا سمجھ کر سنتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں فیصلے کا اختیار انکے پاس ہے۔ یہ سوچ کرنیلز بوہر نے کہا اگر عمارت میں چھت تک جانے کے لئے ایمرجنسی سیڑھیاں موجود ہیں تو بیرو میٹر لے کر سیڑھیوں پہ چڑھ جائیے۔ اور ہر منزل پہ بیرو میٹر کی بلندی ناپتے جائِے اور آخیر میں اسے جمع کر لیں۔ عمارت کی بلندی پتہ چل جائے گی۔
پھر اس نے ذرا رک کرسانس لی اور چہرہ سنجیدہ کیا جیسے ایک مقدس بات کہنے جا رہا ہو۔ اگر کسی روائیتی اور بور طریقے کو اپنانا چاہتے ہیں تو زمین پہ  بیرو میٹر رکھ کر دباءو معلوم کریں اور اسی بیرو میٹر سے عمارت کی چھت دباءو معلوم کریں  اور دونوں کے فرق کو ملی بار سے فٹ میں تبدیل کر لیں۔ عمارت کی بلندی علم میں آجائے گی۔
آخر میں اس نے فیصلہ کن پینترا بدلا۔ لیکن چونکہ ہمیں ہمیشہ یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ کھلے ذہن سے سائینسی طریقہ ء کار کو سوچو تو میں عمارت کے نگراں کے پاس جاءونگا اور کہونگا کہ کیا وہ مجھے عمارت کی بلندی بتا سکتا ہے اگر ہاں تو میرے پاس ایک نیا بیرو میٹر ہے وہ اسکا ہوگا۔
قصہ خواں اسکے بعد خاموش ہوتا ہے۔ کیا کمیٹی کے حواس یکجا رہے؟ کیا کمیٹی نے متفقہ طور پہ اسے پاس کر دیا؟ کیا واقعی پوت کے پیر پالنے میں نظر آتے ہیں؟
اس قصے کے بارے میں دو خبریں ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ سب سے پہلے انیس سو پچپن میں ریڈرز ڈائجسٹ میں شائع ہوا اور دوسرا یہ کہ اس کا نیلز بوہر سے کوئ تعلق نہیں۔
۔
۔
۔
۔
۔

کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
اب آپ جان چکے ہونگے کہ یہ معاملہ محبت تک ہی محدود نہیں کئ اور معاملات میں بھی ہوتا ہے مثلاً عظمت۔ کچھ تو لوگ بڑے کارنامے انجام دے کر عظیم ہو ہی جاتے  ہیں اور کچھ داستانیں ان میں مزید شامل ہو جاتی ہیں۔ ایسے کے سچ نکالنا مشکل ہی نہیں غیر دلچسپ اور گناہ کے برابر  ہو جاتا ہے۔

Tuesday, June 5, 2012

حتی کہ جانور بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب انسان ، جبر سے گھبرا جاتا ہے تو علامتوں کا سہارا لیتا ہے۔ یہ علامتیں جانوروں سے لے کر مظاہر قدرت، کچھ بھی ہو سکتی ہیں۔ لیکن ان میں معنوں کا ایک جہاں بند ہوتا ہے۔ 
جبر کے زمانے میں یہ عام ہے لیکن آزادی کے زمانے میں یہ علامتیں تخیل کی اڑان بن جاتی ہیں جیسے بچوں کو ایسی کہانیاں سنانا جن میں جانوروں کو کردار بنا کر اخلاقی نصیحتیں منتقل کی جاتی ہے۔ اور بچے  بالکل حیران نہیں ہوتے کہ جانوروں کی مائیں بھی انہیں چیزیں گم کرنے پہ ڈانٹتی ہیں۔ انہیں بھی اسکول جانا پڑتا ہے، ریچھ بھی چوری کر کے شہد کھاتا ہے، کوے کو چڑیا اپنے گھونسلے سے جلتی ہوئ لکڑی مار کر بھگا دیتی ہے، لومڑی کیسے چالاکی سے شیر کو کنوئیں میں گرا دیتی ہے اور کچھوا ، خرگوش سے کیسے جیت جاتا ہے۔ بچوں کو یہ کہانیاں اسی لئے پسند ہوتی ہیں۔ یہ سوچنے کے لئے کہ  حتی کہ جانور بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حتی کہ جانور بھی، یہ جملہ بچپن کی حدوں میں ہی گونجتا نہیں رہ جاتا بڑے بھی بعض اوقات یہ سوچتے ہیں  اور پھر تحقیق بھی کرتے ہیں کہ وہ کیا افعال ہیں جن میں جانور انسانوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔  اس طرح سے وہ انسانوں میں اخلاقیات کا ارتقاء تلاش کرتے ہیں۔
میرے بچپن میں پڑوسن نے مرغیاں پالی ہوئ تھیں اور فرصت میں وہ پوری تفصیل سے بتاتیں کہ ان مرغیوں کا آپس میں کیا تعلق یا رشتہ بنتا ہے۔ کون کس کی پھوپھی اور چاچی ہے۔ اس سے مجھے تسلی رہتی کہ دنیا میں دراصل وہی نظام جاری ساری ہے جو ہم انسانوں میں ہے یہ وحدت کا احساس بچوں کو ماحول سے جڑا رکھنا میں بڑا کار آمد ہوتا۔ اور پھر وقت کے ساتھ کایا کلپ ہوتی ہے اور تمام بنیادی احساسات کی جگہ کس طرح حقیقتیں اپنا حصہ بنا لیتی ہیں یہ ایک دلچسپ کہانی لگتی ہے۔
 بعض مذاہب جو جنموں کی کہانی سناتے ہیں، ان میں یہ تصور تک بھی ہے کہ انسان اپنے اعمال کی بنیاد پہ اگلے جنم میں کسی جانور کے روپ میں بھی آ سکتا ہے۔ اعمال کو ہم ایک طرف رکھ دیتے ہیں اگر ہم اپنی موجودہ خصوصیات کی بناء پہ کسی جانور سے اپنی مماثلت جاننا چاہیں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کھیل کھیلیں۔ بس کھیل ہی ہے عقیدے کی جنگ لڑنے نہ بیٹھ جائیے گا۔  

ہم سوچتے ہیں کہ کیا جانوروں کے خاندان ہوتے ہیں؟
جی ہاں بعض جانور اپنا پورا سماجی ڈھانچہ رکھتے ہیں۔ مثلاً ڈولفنز کے بچوں کی دیکھ بھال تین چار مادائیں مل کر کرتی ہیں اور وہ ماں کی مددگار ہوتی ہیں ایسے ہی جیسے انسانوں میں مشترکہ خاندانی نظام میں ہوتا ہے بلکہ نانیاں اور خالائیں بھی اس عمل میں حصہ لیتی ہیں۔ حتی کہ گاءوں دیہاتوں میں محلے دار خواتین بھی شامل ہوتی ہیں۔ ہاتھی کے بچوں کو بھی سب ہاتھی مل جل کر سنبھالتے ہیں۔ 
چیونٹی اور شہد کی مکھی تو اس سلسلے میں مثالی منظم معاشرہ رکھتی ہیں کہ ہر ایک کو اپنے فرائض پتہ ہوتے ہیں۔ ان دونوں جنسوں کے معاشرے کی سب سے لاڈلی رکن عام طور پہ  ملکہ ہوتی ہے۔ شہد کی مکھیوں کی ملکہ اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ وہ کن انڈوں کو سہے گی۔ فرٹیلائزڈ انڈوں سے مادہ مکھیاں پیدا ہوتی ہیں اور غیر فرٹیلائزڈ انڈوں سے نر پیدا ہوتے ہیں۔ نر کا سوائے ملاپ کرنے کے اور کوئ کام نہیں ہوتا۔  نر مکھیاں ملاپ کے فوراً بعد مر جاتی ہیں۔ ملکہ انڈے دینے کا فرض سنبھالتی ہے اور باقی مادہ مکھیاں شہد بنانے اور چھتے کو محفوظ رکھنے کا کام انجام دیتی ہیں۔ اس طرح چھتے کا کنٹرول مادہ مکھیوں کے ہاتھ میں رہتا ہے۔ اور یوں یہ ایک مدر سری نظام قرار پاتا ہے۔
جانوروں کو خوش ہوتے تو دیکھا ہی ہوگا۔ جب وہ چہچہاتے ہیں، گاتے ہیں یا اچھلتے کودتے ہیں ایکدوسرے کو کریال کرتے ہیں۔ لیکن کیا جانور اداس بھی ہوتے ہیں۔  جانور بھی اس مشکل سے دوچار ہوتے ہیں بالخصوص جب انکا قریبی ساتھی نہ رہے یا انکا پالنے والا گذر جائے۔  بعض اوقات وہ اتنے اداس ہوتے ہیں کہ کھانا پینا بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ حتی کہ جاں سے گذر جاتے ہیں۔
 پرندوں کا گانا گاتے تو سب ہی نے سنا ہوگا، اپنی مادہ کو لبھانے کے لئے وہ تان سین بن جاتے ہیں۔ حتی کہ سمندر کی تہوں میں ڈولفنز اور سمندر ہی میں دنیا کا سب سے بڑا ممالیہ جانور وہیل بھی گیت گاتا ہے۔ بعض جانور تو حتی کہ انسانوں کی  موسیقی سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جی ہاں مارمو سیٹ بندر اور پانڈا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ موسیقی میں تبدیلی کو فوراً محسوس کر لیتے ہیں۔

انسانی طرز زندگی تیزی سے تبدیل ہو چلا ہے سو اب یوگا کرتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جانور یوگا کرتے ہیں؟ کچھ منچلوں کا خیال ہے کہ جانور بھی یوگا کرتے ہیں اس کے لئے انہوں نے کچھ تصویری ثبوت اکٹھا کئے ہیں۔ میں تو یہ تصاویر دیکھ کر یہ سوچتی ہوں کہ کہیں انسانوں نے جانوروں سے تو یوگا نہیں سیکھا۔ کیونکہ یوگا کی تاریخ خاصی قدیم ہے اتنی ہی جتنی ان مذاہب کی جو الہامی نہیں بلکہ مظاہر قدرت سے مسحور ہونے والے انسانوں نے انہیں جنم دیا۔

 کیا جانوروں میں بھی روشن خیال اور روایت پسند جانور ہوتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ یہ نظریاتی فرق ان میں بھی پیدا ہو چلا ہے مثلاً  گائے، اونٹ اور بکری اب تک انہی روایات پہ قائم ہیں البتہ یہ کہ انہوں نے دوسرے جانوروں کو اس قسم کی تبلیغ نہیں شروع کی کہ کولہو کا بیل بنے رہنا عین منصب حیوانی ہے۔ اسکی وجہ شاید یہ ہو کہ انکی پہنچ فیس بک تک آسان نہیں۔ انسان انہیں اتنا پسماندہ سمجھتے ہیں کہ اپنے کمپیوٹر کے پاس انہیں پھٹکنے نہیں دیتے۔ مرغی کی روایت پسندی نیچے دی گئ تصویر سے واضح ہے کہ سرتاج کرسی پہ بیٹھے ہیں اور وہ اپنی محبت کا ثبوت اپنے دئے گئے انڈوں کی صورت پیش کر رہی ہے۔

 انکے مقابلے میں بندروں اور ہاتھیوں میں کچھ روشن خیالی پیدا ہوئ ہے۔ ہاتھی تو اب مصوری تک کرنے لگے ہیں جبکہ بندر  سائینسدانوں کے ساتھ تحقیق میں مصروف  ہے۔ چونکہ پردہ اور خواتین کی تعلیم ان کا مسئلہ کبھی نہیں رہے اور ہم اس سے ناواقف ہیں کہ انکے یہاں مشرق اور مغرب کی اصطلاحیں استعمال ہوتی ہیں یا نہیں اس لئے انکی روشن خیالی کے بس یہی معیار نکالے جا سکتے ہیں۔


کیا  جانوروں نے کوئ اخلاقی ترقی کی ہے یا بس انسانوں کی طرح سلسلہء روزوشب میں ہی الجھے ہوئے ہیں؟ بعض عیسائ مبلیغین یقین رکھتے ہیں کہ جانوروں کی بھی روحیں ہوتی ہیں اور انکے لئے بھی ایک جنت ہوگی۔  انکے یقین کی بنیاد ان جانوروں پہ قائم ہے جو ذہین ہوتے ہیں اور اپنی ذہانت کو اپنے مالک کے لے فائدے کے لئے استعمال کرتے ہیں جیسا کہ کتّا۔  ہمارے مبلغین تک شاید  یہ خیال ابھی پہنچا نہیں ہے لیکن پہنچ جائے تو وہ کس جانور کو جنت میں پہنچائیں گے؟
میں اس خیال کے حامیوں میں سے نہیں ہوں۔ اگر اسے تسلیم کر لیا جائے تو پھر جناتی مسائل  اٹھ کھڑے ہونگے۔ میرا محتاط خیال ہے کہ اس خیال پہ مجھے بھٹکا ہوا نہیں کہا جائے گا۔ جانوروں کا رد عمل جاننے کی ضرورت نہیں۔ انکا تعلیم کا بجٹ سرے سے رکھا ہی نہیں جاتا۔ 
جانوروں کو احتیاط سے سڑک پار کرتے ہوئے تو اکثر دیکھا ہی ہوگا کہ کیسے پہلے دائیں  دیکھتے ہیں پھر دائیں دیکھتے ہیں  تیزی سے بھاگتے ہوئے روڈ پار کرتے ہیں اور بچ جائیں تو بائیں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور پھر منہ اٹھا کر بائیں کو ہی چل دیتے ہیں۔ اللہ تیرا لاکھ شکر ہے لاکھوں جانیاں پائیاں مار سکے نہ کوئ۔ 
کیا جانور ٹیکنالوجی کی ترقی سے متائثر ہوئے ہیں۔ جی ہاں اس کا ثبوت وہ کتیا ہے جو خلاء میں بھیجی گئ یہ جانچنے کے لئے کہ کیا انسان خلاء میں سفر کر سکتا ہے۔  لائیکا نامی یہ کتیا خلاء میں سفر کے آغاز کے چند ہی گھنٹے بعد مر گئ۔ لیکن انسان کے خلاء میں جانے کے لئے راستہ کھول گئ۔ حالانکہ موت کا ایک دن مقرر ہے اور پھر ہم اس خلاء سے گذر کر ہی آسمانوں تک پہنچیں گے لیکن انسان نجانے کیوں ہوس کا مارا ہے کہ غیب کو غائب ہو کر نہیں دیکھنا چاہتا۔ بہر حال لائیکا اپنے پیچھے  ایک بار پھر یہ سوال چھوڑ گئ کہ کیا جانوروں کے لئے کوئ جنت ہونی چاہئیے؟
  کیا  انٹر نیٹ  ان کے لئے بھی تبدیلی کا باعث بنا ہے؟ جی ہاں حتی کہ جانور بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
:) 




نوٹ نمبر ایک: یہ تحریر قطعی بھی ایک علامتی تحریر نہیں ہے۔ اس لئے کوئ انسان کسی بھی قسم کے دل آزار معنی اخذ کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اپنی دل آزاری کی صورت میں وہ خود ذمہ دار ہونگے۔

نوٹ نمبر دو: اگر اس تحریر سے کسی جانور کی دل آزاری ہوتی ہے تو اسے یہ جان لینا چاہئیے کہ یہ سب انسانوں کے لئے لکھا گیا ہے اور اسکے پڑھنے کے لئے نہیں ہے۔

اس کے ساتھ ہی لاحول ولا قوت۔ حتی کہ جانور بھی بلاگ پڑھنے لگے ہیں۔