Saturday, January 30, 2010

زبردست کی بیوی سب کی دادی

صدر پاکستان نے لیاری کی حالت زار کو سامنے رکھتے ہوئے لیاری کے لئیے دو ترقیاتی پروجیکٹس کا اعلان کیا۔ اور ان سب کا باجماعت افتتاح وزیر اعلی ہاءوس میں کیا گیا۔اس بہانے تیسرے پروجیکٹس کے غریبوں کو بھی وزیر اعلی ہاءوس دیکھنے کو مل گیا جو پروجیکٹ کے تحت بننے والی ایک کم لاگت کے مکانوں کی بستی میں اپنے مکان کی ملکیت لینے گئے تھے۔
اب بھولپن میں یہ مت سمجھ لیجئیے گا کہ لیاری وزیر اعلی ہاءوس کے اندر ہے۔ جی نہیں، یہ کراچی شہر کے بیچوں بیچ واقع ہے۔  جب سے پیپلز پارٹی وجود میں آئ اس علاقے نے ہمیشہ انکا ساتھ دیا اور اس سے پارٹی کا مورال اتنا بلند ہے کہ صدر نے جو کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بھی ہیں یہ کہا کہ بلاول کے برتھ سرٹیفیکیٹ پہ جائے پیدائش لیاری لکھا ہونے کی وجہ سے نبیل گبول صاحب  کی سیٹ کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ یعنی یہ پیشن گوئ میں بھی کر سکتی ہوں کہ بلاول وزیر اعظم بننے کے لئیے انتخاب لیاری سے لڑیں گے۔
صدر کے عہدے پہ فائز ہونے کے بعد صدر صاحب کا حس مزاح نازک خیالی کی بلندیوں پہ پہنچ گیا ہے۔ اور یہ کچھ ایسا خلاف معمول بھی نہیں کہ خدا جب حکومت دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے۔ اور صرف نزاکت ہی کیا، نجابت، فصاحت، شرارت اور رذالت سب ہی آجاتی ہیں۔ بس نہیں آتی تو ندامت نہیں آتی۔
تو اسی بے ندامتی کی حالت میں انہوں نے لیاری کے لئیےجن دو پروجیکٹس کا اعلان کیا انکے نام  انکی مرحوم اہلیہ اور پارٹی کی سابق چیئر پرسن بے نظیر بھٹو کے نام پہ رکھے گئے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ کم لاگت کے مکانوں والی بستی کا نام بھی انہی کے نام پہ رکھا گیا ہے۔
یہاں پہ میں پاکستانی عوام کو ایک بے حد اہم راز سے آگاہ کرنیوالی ہوں اور وہ یہ کہ ان پروجیکٹس پہ خرچ ہونے والی تمام رقم بے نظیر صاحبہ کی ذاتی جائیداد یا صدر صاحب کے سوئس اکاءونٹ کی زکوات سے نہیں بلکہ ان پیسوں سے ہوگی جو عنیقہ ناز سمیت ہر پاکستانی نے ٹیکس کی مد میں حکومت پاکستان کو ادا کئیے۔ یا جو بیرون ملک مالدار ملکوں کو اپنی غریب عوام کی بیچاری حالت کا واسطہ دیکر قرضہ لئیے گئے ہیں اور جنہیں ہم عوام  اپنا خون پسینہ بہا کر اور اپنا پیٹ کاٹ کر ، اپنے بچے بیچ کر اور اپنے بچے مار کر ادا کریں گے۔
  اگر ان پروجیکٹس کو کسی نہ کسی کے نام پہ رکھنا ہی ہے تو اسکے نام پہ رکھیں جو سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے نہ کہ انکے نام پہ جو ہمارے اس چندے میں سے جو ہم ریاست کے امور چلانے کے لئیے دیتے ہیں اور  جسے اب بھتہ کہنا زیادہ مناسب ہے  اپنی تن آسانی کے سامان پیدا کرتے ہیں اور نام اپنا یا اپنے رشتےداروں کا بنا دیتے ہیں۔
اگر بے نظیر عظیم لیڈر تھیں تو پاکستان  ان سے کہیں زیادہ عظیم لیڈروں کو برت چکا ہے اور خود پاکستان ان سے زیادہ عظیم ہے۔ اگر انہوں نے مصائب اٹھائے تو عوام نے ان سے کہیں زیادہ مصائب اٹھائے، اگر وہ ماری گئیں تو قوم اپنی اور اپنے سپوتوں کی قربانی ان سے کہیں زیادہ دے چکی ہے۔ میرا بلکہ ہم سب کا حکومت پاکستان سے مطالبہ ہونا چاہئیے کہ وہ تمام پروجیکٹس جنکا  نام کسی بھی پارٹی لیڈر کے نام پہ  رکھا گیا ہے اگر ان میں انکے ذاتی پیسے خرچ نہیں ہوئے تو انہیں عوام کے نام پہ رکھا جائے یا پاکستان کے نام پہ۔ ان تمام جگہوں اور پروجیکٹس کے نام کو فی الفور تبدیل کیا جانا چاہئیے۔  قانون بنایا جائے کہ جمہوری نظام میں ایسا کرنے کا حق کسی کو نہیں۔  کیونکہ جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت عوام کے لئیے ہے۔

حوالہ؛

Friday, January 29, 2010

بات یا خرافات

میری محترم ساس یعنی شوہر صاحب کی والدہ محترمہ خاصی سمجھدار خاتون ہیں۔ خدا انکو لمبی حیات دے پڑھنے لکھنے کا خاصہ شغف رکھتی ہیں۔ اپنے زمانے میں نفسیات میں ایم اے کیا اور پوزیشن حاصل کی۔ یہ تو انکا ایک مختصر سا تعارف ہے۔ انکی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ دوسروں کو زندگی میں آسانی دیتی ہیں۔ اس طرح سے میرے گھر میں روائیتی جھگڑے کھڑے نہیں ہوئے۔ یہی نہیں بلکہ وہ ایک اچھی شریک کار بھی ہیں۔ نفسیات کا علم رکھنے کی وجہ سے وہ خاصے غیر محسوس طریقے سے اپنے تجربات کا ذکر بھی کرتی رہتی ہیں۔ ابھی انہوں نے کچھ دنوں پہلے اپنے بچپن کی کہانی سنائ جو میں نے آپ لوگوں کے لئیے لکھ لی۔ آئیے پڑھتے ہیں۔
بات کی بات
خرافات کی خرافات
بیر جھڑی کا کانٹا
ساڑھے اٹھارہ ہاتھ
اس میں بسے تین گاءوں
دو اجڑے پجڑے ایک میں بستی نہیں
جس میں بستی نہیں اس میں بسے تین کمہار
دو لولے لنگڑَ، ایک کے ہاتھ پاءوں نہیں
جسکے ہاتھ پاءوں نہیں، اس نے گھڑی تین ہانڈیاں
 دوٹوٹی پھوٹی، ایک کا پیندہ نہیں
جسکے پیندہ نہیں، اس میں پکائے تین چاول
دو کچے پکے، ایک گلتا ہی نہیں
جو گلتا نہیں، اس نے بلائے تین مہمان
دو روٹھے پھولے، ایک منتا ہی نہیں
جو منتا نہیں اسکے لگائیں تین جوتیاں
دو اوکی چوکی ایک جمتی نہیں
جو جمتی نہیں وہ جمائ کہانی سننے والے کو۔

زور سے تو نہیں لگی۔ اب دیکھیں، اس میں کچھ بات ہے اور کچھ خرافات۔ اب ہماری ہنر کاری اس میں ہے کہ بات کو خرافات میں سے الگ کریں۔ لیکن تبصرے کے خانے میں لکھ ضرور دیں تاکہ دوسروں کو بھی پتہ چلے کہ اس میں بات کیا ہے۔ بات ہے بھی  یا نری خرافات ہے۔





Wednesday, January 27, 2010

دو سوال

 ویسے تو کھانے کی میز پہ گفتگو ہوتی ہی رہتی ہے لیکن ناشتے کے وقت اسکی رونق کچھ اور ہوتی ہے۔ جہاں ایک طرف ہر تھوڑی دیر بعد اس قسم کے ڈائیلاگ سنائ دیتے ہیں کہ مشعل تمہارا ناشتہ  کوئ کھا جائیگا۔ کھاءوگی نہی تو عقل نہیں آئے گی۔ اب اپنی جگہ سے ہلنا نہیں۔وہاں اخبار بھی درمیان میں گردش کرتا رہتا ہے اور اسکی خبروں پہ مختلف لوگوں کے تاثرات اور تبصرے بھی۔
آج کسی نے کہا کہ یہ کیا خبر ہے کہ ایوان صدر میں روزانہ کالے بکروں کی قربانی دی جا رہی ہے۔ الف نے حیرانی کا اظہار کیا مگر بکروں کا وہ بھی کالے بکروں کا کیا قصور ہے کہ وہ ذبح ہو رہے ہیں۔۔ لگتا ہے ان کالے بکروں کی بد دعا انہیں لے ڈوبے گی۔ خبر سنانے والے نے کہا کہ کالا جادو اتارنے کے لئیے کالے بکروں کی قربانی دی جاتی ہے۔ الف نے کہا لیکن یہ کالا جادو کون کر رہا ہے۔ ب نے کہا ، وہی کرائے گا جسکا دل کالا ہو اور دل انکا کالا ہوتا ہے جنکی نیت خراب ہو۔  شاید حزب اختلاف یا چیف جسٹس یا کوئ اور کالا شخص ۔۔ اس پہ خبر سنانے والے نے مزید مطلع کیا کہ کالا جادو کرنے کے لئیے کرنیوالے کا کالا ہونا ضروری نہیں ہے۔
 میں نے پوچھا، تو آپکا خیال ہے کہ یہ ان دو گروہوں میں سے کوئ ہے۔ جواب میں شانے اچکا کر ان کی طرف اشارہ کر دیا گیا جنہوں نے ممکنات ظاہر کئیے تھے۔ ان کی طرف سوالیہ نظریں اٹھائیں۔ پہلے گھورا پھر فرمایا، آجکل سب سے مشہور کالا کون ہے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اندازہ لگایا۔ اوبامہ۔ پھر میں صرف ایک ہنکارے کی آواز سن سکی۔ مشعل نے ایک جذباتی چیخ ماری اورکہا کہ اسکے منہ کا نوالہ پیٹ میں جا چکا ہے اور اب منہ خالی ہے اور میں چاہوں تو موقع سے فائدہ اٹھا سکتی ہوں۔ اس وقفے کے بعد کسی نے ایک سوال پوچھا کہ یہ بتائیں کہ کوئٹہ میں ہونے والی حالیہ پولیس بغاوت کے بعد اب حالات کے مزید خراب ہونے کی پیشن گوئ کی جا سکتی ہے پھر انہوں نے میز پہ موجود ان لوگوں سے جو پاکستان سے سچی محبت کرتے ہیں۔  معذرت کرتے ہوئے کہا  کہ اگرچہ میرا کوئ برا ارادہ نہیں لیکن میرا سوال یہ ہے کہ ان سب حالات کے بعد پاکستان جب اتنا کمزور ہو جائے گا کہ کوئ بھی اس پہ قبضہ کر لے تو کون سا پڑوسی ملک اس پہ قبضہ کریگا؟ سب سے پہلے میں نے ہاتھ اٹھایا۔ اور مجھے موقع بھی دیا گیا بولنے کا۔ 'افغانستان'۔ یعنی آپکا خیال ہے کہ افغانستان پاکستان پہ قبضہ کریگا۔ وجہ؟ اچانک سب اس سوال میں دلچسپی لینے لگے وہ بھی جو منہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے۔
اس لئیے کہ وہ ہمارا برادر اسلامی ملک ہے۔ اپنا مارے گا بھی تو سائے میں رکھے گا، اور پھر آجکل ہماری خارجہ پالیسی طالبان کا مزاج دیکھ کر بنائ جاتی ہے۔ جنکے ساتھ دائیں بازو والوں کی ہمدردیاں بھی ہیں۔ اور اگر آپ ذرا غور سے دیکھیں تو ہم وہیں جائیں گے جہاں طالبان ہمیں لیجائیں گے۔ وہ یقیناً افغانستان کا چناءو کریں گے۔
یعنی آپکا خیال ہے کہ پاکستان اور افغانستان کا فیڈریشن بن جائے گا۔ کسی نے بڑی مسرت سے پوچھا۔ 'گریٹر افغانستان'۔ اچھا، میں نے اپنی بات پہ  غور کرنا چاہا۔
مشعل نے پھر نعرہ مارا، 'میں نے اپنا آخری نوالہ بھی کھا لیا'۔ ایک بات مشعل کو سمجھا دی گئ ہے کہ وہ اگر آخری نوالہ کھائے گی تو طاقت آئے گی۔ کیونکہ ساری طاقت آخری نوالے میں ہوتی ہے۔ اسکے بعد وہ ہم سب کے ہاتھوں پہ زور آزمائ کرتی ہیں اور ہم سب تھوڑی سی ایکٹنگ کرتے ہیں کہ اف کس قدر طاقتور لڑکی ہے یہ اب، ہاتھ ہی توڑ دیا۔ بچے کتنے سادہ ہوتے ہیں۔ہاں، مگر اس سارے چکر میں بات کیا ہو رہی تھی یہ تو ہم بھول گئے۔
  آپ میں سے کوئ اس تحریر میں موجود سوالوں کے جواب دینا چاہے تو بصد شوق۔ سوال دو ہیں
جادو کون کروا رہا ہے؟

Monday, January 25, 2010

ایک پیاری غزل

حسب وعدہ ایک غزل حاضر ہے۔ اسکا قافیہ ہے پیارے۔ ایک دفعہ اسی قافئیے میں پڑھنے کے بعد قافیہ تبدیل کر کے 'پیاری' کر دیجئیے, بالکل الگ لظف آئیگا۔ یہ غزل جناب حفیظ جالندھری صاحب کی ہے۔
اردو شاعری میں ابو الاثر کا لقب پانیوالے یہ شاعر جیسا کہ آپ سب جانتے ہونگے کہ ہمارے قومی ترانے کے خالق بھی ہیں اور شاید اسی وجہ سے انکی باقی شاعری اس عظمت کے پیچھے چھپ گئ۔ انکی روائیتی تعلیم گرچہ کم تھی لیکن مطالعے اور محنت نے اس کمی کو ختم کر کے انہیں اردو کے بڑے شاعروں کی صف میں لا کھڑآ کیا۔ وہ بچوں کے ایک رسالے نونہال اورخواتین کے ایک رسالےتہذیب نسواں کے بلکہ رسالہ مخزن اور ہزار داستاں کے مدیر بھی رہے۔ آئیے پڑھتے ہیں۔

دل ابھی تک جوان ہے پیارے
کس مصیبت میں جان ہے پیارے
رات کم ہے نہ چھیڑ ہجر کی بات
یہ بڑی داستان ہے پیارے
تلخ کردی ہے زندگی جس نے
کتنی میٹھی زبان ہے پیارے
جانے کیا کہہ دیا تھا روز ازل
آج تک امتحان ہے پیارے
کب کیا میں نے عشق کا دعوی
تیرا اپنا گمان ہے پیارے
میں تجھے بے وفا نہیں کہتا
دشمنوں کا بیان ہے پیارے
تیرے کوچے میں ہے سکوں ورنہ
ہر زمین آسمان ہے پیارے

Friday, January 22, 2010

لے پالک بچے

ان لوگوں سے پیشگی معذرت جنہیں سماجی، سیاسی اور خواتین کے حقوق سے متعلق پڑھنے سے گھبراہٹ ہوتی ہے۔ آپ لوگوں کے لئے میں نے ایک پیاری سی غزل نکال کر رکھی ہے۔ لیکن اس

پوسٹ کے بعد۔

 مستنصر صاحب اردو کے ایک بہت پیارے ادیب ہیں۔ انہوں نے کسی جگہ اپنے ایک دوست کے بارے میں تحریر فرمایا کہ اس نے ایک جواب مضمون یاد کیا ہوا تھا جسکا عنوان تھا۔ میرا بہترین دوست۔  اور وہ کچھ اس طرح سے تھا۔ میرا دوست غلام رسول ہے۔ وہ میرا ہم جماعت ہے۔ وہ بہت صاف ستھرا رہتا ہے اور اسی طرح کی مزید خوبیاں۔ امتحان میں سوال آیا ہوائ جہاز کے سفر پہ مضمون لکھیں۔ انہوں نے لکھا۔ میں اپنے ابا کے ساتھ ائیر پورٹ گیا۔ ہمیں لاہور جانا تھا۔ ہم جہاز میں بیٹھ گئے۔ جہاز کی کھڑکی سے میری نظر باہر پڑی تو مجھے اپنا بہترین دوست غلام رسول نظر آیا۔ وہ میرا بہترین دوست ہے۔ وہ میرا ہم جماعت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو جناب بات اس حد سے نکل ہی نہیں پاتی کہ آپ بہت مغرور ہیں، 'بہت پڑھی لکھی' ہیں اور آپ تو یہ اور آپ تو وہ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بات کی جا رہی ہوتی پاکستانی معاشرے میں خواتین کا ممکنہ کردار لیکن تبصرہ کچھ اس طرح شروع ہوتا ہے۔ آپ پنجابیوں کیخلاف ہیں، آپ مردوں سے نفرت کرتی ہیں آپ کبر و غرور کا شکار ہیں اور اسکے بعد ایسے مذہبی ھوالے جنکا میری لکھی گئ تقریر کے متن سے کوئ تعلق نہیں۔ البتہ اس چیز سے تعلق ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے دلی جذبات ان سب چیزوں کی آڑ میں پہنچائے کہ نہیں۔ یہ دوسرا تبصرہ حاضر ہے۔ میں، بہت پڑھی لکھی اور کبر سے بھرپور ایک عورت ان لاوارث بچوں کے بارے میں لکھتی ہوں جو کہ ہمارے معاشرے میں لاوارث چھوڑ دئیے جاتے ہیں ہمیشہ کے لئے۔ لیکن بات کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے کہ آپ بہت پڑھی لکھی، درپردہ آپ جیسی جاہل بھی کوئ ہے، نے یہ تبصرہ فرمایا اور اب اسکے بعد وہ اسلامی حوالے جنکا اس موضوع سے کوئ تعلق نہیں جسے میں نے بیان کیا۔ اور مزید مجھ جیسے کافر کے لئے قرآن سے ہدایات کہ غرور نہ کرو اور یہ نہ کرو اور وہ نہ کرو۔ انسان کسی بھی عمر کا ہو اسے اپنے دامن میں بھی جھانکنا چاہئیے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ میرے بلاگ پہ میری نسل کا شجرہ نہیں، میرے خاندان کا حوالہ نہیں، میری تعلیم کا قصہ نہیں اور آپ یہ سب نمائشی اشیاء رکھتے ہیں۔ مگر آپ مغرور نہیں بہت خوب۔
اس پیغام کے ساتھ کہ دنیا بھر میں ہر انسان سب سے بہتر طور پہ اپنے آپکو جانتا ہے۔ان سب لوگوں کو انکی حالتوں پہ چھوڑتے ہوئے۔ میں اپنے مستقل قارئین سے صرف ایک سوال کرنا چاہتی ہوں اور سوال یہ ہے کہ وہ بچے جو کوڑے کے ڈھیر پہ ہمیشہ کے لئے پھینک دئیے جاتے ہیں۔ اس بات کی پرواہ کئیے بغیر کہ وہ بچیں گے یا مریں گے۔ انکے والدین کو کوئ نہیں جانتا۔ ایسے بچوں کو آپ اپنے گھر میں اس لئیے نہیں رکھیں گے کہ بڑے ہونے پہ انکے ساتھ محرم اور نا محرم کا چکر کھڑا ہوگا۔ انکو آپ اپنے گھر میں اس لئیے نہیں رکھیں گے کہ باپ کے خانے میں اگر آپکا نام لکھا گیا تو یہ غیر اسلامی ہوگا ۔ تو ان سارے غیر اسلامی عوامل سے بچنے کے لئے میری جیسی کم علم اور بد تمیز خاتون آپ سے یہ پوچھنا چاہتی ہے کہ ان بچوں کا کیا جائے کہ بڑے ہونے پہ انکا انسانی قدروں پہ یقین بھی برقرار رہے، انہیں اپنے آپ کو حقیر سمجھنے کی اذیت سے نہ گذرنا پڑے کہ انکا اس میں  کچھ قصور نہ تھآ، اور وہ با وقار رہتے ہوئے تمام ذہنی سکون کے ساتھ  بحیثیت انسان اپنی صلاحیتوں سے انسانی معاشرے کو مثبت طور پہ فائدہ پہنچا سکیں۔ میرا سوال بالکل واضح ہے۔
 اگر آپ میرے بلاگ کے مستقل قاری ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آپ کسی بھی طور اس معاشرے میں بہتر سوچ کی طرف گامزن ہو سکتے ہیں تو یہ آپ پر میرا پہلا حق ہے جو میں کسی لاوارث بچے کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہوں۔ آپ سب سے درخواست ہے کہ صرف اس سوال کا آپ جو مناسب جواب سمجھتے ہوں وہ دیں۔ براہ مہربانی اسے پڑھ کر یونہی مت چھوڑ دیجئیے گا۔
سمجھ لیجئیے کہ آپکے جواب سے ایک ایسے لاوارث بچے کی زندگی جڑی ہے جسکی اس پوری دنیا میں۔ کوئ شناخت نہیں۔میرا مقصد صرف ہہی ہے کہ اس مسئلے کے ممکنہ حل معلوم کئیے جا سکیں۔


حوالہ؛

Wednesday, January 20, 2010

تین احمق، کہانی بالکل فلمی ہے

میں اپنے ہمراہیوں کے ساتھ سی ویو میں واقع ایک سینما ہاءوس جسے سینے پلیکس کہتے ہیں  کی طرف چلی جارہی تھی۔ یہ مت سمجھیےگا کہ این آر او سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے اتنی رقم جمع کرلی کہ ایسے مہنگے سینماءوں میں فلمیں دیکھنے لگی۔ میں تو صرف غالب کی اس نصیحت پہ عمل کر رہی تھی کہ مفت ہاتھ آئے تو برائ کیا ہے۔ ویسے بھی اس فلم کے بڑے چرچے ہو رہے تھے تو جیسے ہی یہ منصوبہ پردہ ء غیب سے ظہور میں آیا۔ میں نے اپنی ڈرائیونگ کی مہارت کو پیش کرکے یہ ڈیل پکی کرلی۔ سچ ہے ہنر رائیگاں نہیں جاتا۔
یہ فلم تھی 'تھری ایڈیٹس'۔ اگرچہ فلموں پہ ریویو لکھنے کا میرا کبھی کوئ ارادہ نہیں رہا۔ اور اسکے باوجود کہ اس فلم کی کہانی بالکل فلمی تھی۔ یہ مجھے خاصی پسند آئ۔ اور میں نے اردو کے ایک محاورے 'گو میں پڑی کوڑی کو دانتوں سے کھینچتے  ہیں' کے تحت اسکی خوبیاں بھی پیشاب بھری اسٹوری سے نکال ہی لیں۔
بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ فلم کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ بچوں کو ڈاکٹر اور انجینئیر بننے کا سبق نہ پڑھائیں بلکہ انہیں وہ کرنے دیں جسکی طرف انکا رجحان ہے۔ لیکن اس فلم کی خوبیاں اس سے ہٹ کر ہیں۔ اور یہ وہ خوبیاں ہیں جو مجھے انسانوں میں بھی پسند آتی ہیں۔ یعنی زندگی کو زندہ رہنے کے احساس سے گذارنا۔ جہاں کہانی ہمیں یہ احساس دلانے کی کوشش کرتی ہے کہ کامیابی کوئ چیز نہیں ہوتی اور اہمیت محض منزل کی نہیں راستوں کی بھی ہوتی ہے۔ وہاں یہ اپنے دیکھنے والے میں جوش اور لگن بھی پیدا کرتی ہے۔ ایسا جذبہ جسکے بعد ہم اپنے آپکو دیکھتے ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں، اس وسیع  وعریض کائنات، اس کھلے آسمان اور اس رنگ برنگی دنیا میں زندگی ہمیں کن چیزوں کی دعوت دے رہی ہے۔
طالب علموں کے لئے اس میں پیغام ہے کہ محض ڈگری کوئ چیز نہیں ہوتی اس سے وابستہ علم کی اہمیت ہوتی ہے۔ علم کی طاقت کے آگے بڑے بڑے سر نگوں ہو جاتے ہیں۔ اسی لئیے تو آدم کو پہلے اسماء کا علم دیا گیا تھا۔
فلم میں گانے خاصے کم، رومانس قابل گذارہ اور آئٹم سونگ کوئ نہیں ہے۔
تو جناب سینما ہال سے باہر آکر بھی دنیا کافی دیر تک اچھی لگتی رہی۔  لیکن اس اچھائ کو محسوس کرنے کے لئے آپکو اپنی یاد داشت کو اچھا انتخاب کرنے والا بنانا پڑیگا۔ ورنہ آپ کہیں گے لا حو ل ولا قوت۔ یہ فلم تھی کہ موری خانہ۔ مجھے نہیں معلوم کہ فلم کے بنانیوالوں نے اسے کمرشلی بیچنے کے لئے اس میں یہ مذاق ڈالے یا عام انڈینز کامذاق اب اسی سطح پہ پہنچ چکا ہے۔
سنا ہے پاکستان میں بھی ایک فلم اسی ٹائٹل کے ساتھ بن رہی ہے اور اسکی شوٹنگ آخری مراحل میں ہے۔ مجھے تو اس فلم کا صرف پرومو فوٹو ہی ملا ہے جو حاضر ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ یہ پاکستانی فلم اپنے مقابل کی انڈین فلم کے چھکے چھڑآ دیگی۔ لاج رکھ لیجیو مولا میرے۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے فلم کے ریلیز ہونے تک۔



 اس فلم کا پرومو دیکھ کر ہی لگ رہا ہے کہ کہانی بالکل فلمی ہے۔ اس پہ مجھے اعتراض نہیں۔ سینما ہاءوس میں کوئ اصل زندگی دیکھنے تو جاتانہیں۔ خیر، اس میں ملک کے نامی گرامی اداکار موجود ہیں اور سنا ہے کہ اسکرپٹ بھی دیسی رائٹر کا لکھا ہوا ہے۔ اس لئیے اس میں کچھ ڈائیلاگ اس طرح کے ہونے کے امکان ہیں کہ جج صاحب،  میرے بیس سالہ لوٹے کو اتنا تو بڑا ہونے دو کہ وہ وزیر اعظم بن جائے۔ کہانی کا کلائمیکس یہی ہے کہ لوٹا وزیر اعظم بن سکتا ہے کہ نہیں۔ کہانی میں ایک مولا جٹ بھی موجود ہے جو مشکل وقت میں قوالی گاتا رہتا ہے مجھ کو جدہ بلالے مولا میرے۔ دیسی کہانی میں ایک ریمبو بھی ہے۔ جو ہیرو کے لئیے تندہی سے  مشکل وقت لاتا ہےاور ساتھ ہی  انتہائ تندہی سے اسے ہٹانے کی مہم میں لگ جاتا ہے۔ یہ کردار خاصہ غیر واضح ہے اور کہا جاتا ہے کہ اسے فلم کی کمرشل ویلیو بڑھانے کے لئے ڈالا گیا ہے۔ اور اس کردار سے آمدنی بڑھنے کے امکان ہیں۔ کہانی زیادہ تر فلیش بیک میں چلنے کے امکان ہیں۔ اگرچہ فلم کی ہیروئین کے لئیے جس فنکارہ کو لیا گیا ہے وہ کچھ عرصے قبل ہی آنجہانی ہو چکی ہیں۔ یعنی کہ مر گئ ہیں۔ لیکن امید ہے کہ انکی میسر فوٹیج اور آواز اس کمی کو محسوس نہیں ہونے دیگی۔۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام 'گو میں پڑی کوڑی کو دانتوں سے کھینچتی 'ہے کہ نہیں۔  ویسے تو عوام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انکی یاد داشت بس ایویں ہی ہوتی ہے لیکن پھر بھی ایسا نہ ہو کہ فلم کے اختتام پہ کچھ لوگ کہیں کہ فلم تھی یا موری خانہ۔ اور ہاں، اس فلم کا پیغام کیا ہوگا۔ یہ تو عوام ہی بتا سکتی ہے یا اسکرپٹ رائٹر۔


Sunday, January 17, 2010

تعلیم کے خلاف مہم یوں

راشد کامران صاحب نے عرصے بعد کچھ تحریر کیا، اور جیسے دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھ دیا۔ انکی پوسٹ کا عنوان ہے۔ تعلیم کے خلاف مہم کیوں۔ اگرچہ کہ انہوں نے اپنی تحریر میں چیدہ چیدہ سوالات اٹھائے ہیں۔اس سلسلے میں ڈاکٹر انور سدید کی کتاب اردو ادب کی تحریکیں پڑھتے ہوئے کچھ مزید خیالات در آئے۔
وہ اپنی کتاب میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
'کائنات کے باطن میں قوت کا ایک بڑا خزینہ موجود ہے۔ ہر عہد اپنے علوم کی وساطت سے اس ذخیرے تک رسائ حاصل کرنے اور نئے انکشافات سے انسان کی فکری مفلسی کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نئے انکشاف کا عمل در حقیقت تخلیقی عمل ہے۔ اور بالعموم مفکرین کی ذہنی، تجزیاتی اور تجرباتی سوچ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ کسی عہد کا مفکر نہ صرف نئے خیال کو جنم دیتا ہے بلکہ اس خیال سے معاشرے کی قلب ماہیت بھی کرتا ہے چنانچہ معاشرے کی تمام ترقی اس تقلیب کا بدیہی نتیجہ ہوتی ہے۔ معاشرہ جن ذرائع کو بروئے کار لا کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان میں سے مندرجہ ذیل کو نسبتاً زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
مذہب؛
جو فرد کو نا معلوم، لا محدود اور ماورا کے بارے میں پختہ عقائد اور یقین کامل کا درس دیتا ہے اور ایک ضابطہ ء حیات دیتا ہے۔
فلسفہ؛
جو نا معلوم کو دانش اور خرد سے دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور معلوم کے لئیے عقلی ثبوت فراہم کرتا ہے۔
سائنس؛
جو فلسفے کی ہی ایک توسیع ہے اور ہر نئ مادی دریافت کو تجربے سے ثابت کرتی ہے
ادب؛
جو مذہبی عقائد، سائنسی ایجادات اور علمی نظریات سے براہ راست استفادہ کرتا ہے اور عامۃ الناس کو تہذیبی اور روحانی ترفع عطا کرتا ہے۔
ایک مفکر اولیں سطح پر ان میں سے بیشتر کے اثرات قبول کرتا ہے اس لئیے وہ معمول ہے لیکن جب نئے انکشافات ان پہ اثر انداز ہوتے ہیں اور انکی مکمل تقلیب کر ڈالتے ہیں تو وہ ایک اہم ترین عامل شمار ہونے لگتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مفکر نئے خیال کو خلاء سے نہیں پکڑتا بلکہ اس کی تخلیق میں اسکے عہد کے بے شمار سیاسی، معاشرتی اور ذہنی حادثات و واقعات شامل ہوتے ہیں۔ اور اسے جمود کی یک رنگی کو توڑنے اور زندگی کی کوئ نئ جہت دریافت کرنے پر آمادہ کر رہے ہوتے ہیں۔ بالفاظ دیگر مفکر کی ذات میں اسکا پورا عہد سمایا ہوا ہوتا ہے اور وہ اس نئے خیال کی کی مدد سے ایک بڑے گروہ کے ذہنی فکری اور مادی تصورات کی تقلیب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
یہاں پہ یہ اقتباس ختم ہوتا ہے۔ لیکن اب ہم دیکھ سکتے ہیں کہ علم کسی ایک جہت میں سفر نہیں کر سکتا۔ تعلیم کا بنیادی مقصد فکر اور دانش کے حامل لوگوں کو فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اور یہ فکر ہم محض ایک سمت سے حاصل نہیں کر سکتے۔
اگر ہم اپنے معاشرے پہ تجزیاتی اور تنقیدی نظر ڈالیں تو یہ امر کچھ پوشیدہ نہیں کہ ہم شدید طور پہ قحط الرجال کا شکار ہے۔ اور ہماری مجموعی ذہانت ہمیں علم کے اس مقام پہ کھڑا نہیں کرتی جو ہمارے معاشرے کو ایک ترقی یافتہ نہیں، پیداواری نہیں بلکہ تخلیق کی کسی بھی سطح پہ کوئ قابل ذکر مقام دے سکے
۔
ایک ایسے عالم میں یہ چیز ایک خطرناک علامت ہی ہے کہ ہم بتدریج مذہب کی اس فارم کی طرف جا رہے ہیں جو ایک عام انسان کو الجھاوے میں ڈال رہی ہے۔  ایک طرف جو گلوکار اسٹیج پہ رقص کرتا انسانی عشق و محبت کی دعوت دیتا نظر آتا ہے اور جسکی دھن پہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد لہراتی ہے دوسری طرف وہی گلوکار اپنا عوامی امیج بہتر رکھنے کے لئیے طالبان کو مجاہدین بھی قرار دیتا ہے۔
تعلیم یافتہ لوگ بھی الجھن میں ہیں۔ وہ کھل کر اس جہاد کو برا نہیں کہہ سکتے کہ نہیں جانتے کہ یہ واقعی جہاد ہے یا سیاست کا ایک اور رخ۔ وہ عافیہ صدیقی سے لا تعلقی ظاہر کریں کہ وہ امریکن ہے اور کہتی ہیں کہ  وہاں ٹیکس کی تنخواہ حاصل کرنے والے عدالتی نظام میں سے یہودیوں کو نکالا جائے کہ انکی موجودگی میں انہیں انصاف نہیں ملیگا۔ یا وہ عافیہ صدیقی کو پاکستانی قوم کی مسلمان بیٹی سمجھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوں۔ اور غیر مسلم قوتوں کو للکار دیں۔
آخر لوگوں میں اس الجھن کا ذمہ دار کون ہے؟
 وہ طبقہ جو انہیں  صرف حیات بعد از زندگی دلانا چاہتا ہے  یا وہ طبقہ جو انہیں اب تک زندگی اور انسان کے درمیان تعلق نہیں سمجھا پایا ہے۔
یا وہ تعلیم جو انکے اندر فیصلہ کرنے، اور تمیز کرنے کی قوت دینے سے عاجز ہے۔ اور جسکا کام صرف برین واشنگ ہے۔ کبھی ایک نظرئیے کے لئے اور کبھی دوسرے نظرئے کے لئیے۔ اور کبھی محض پیسے کمانے کا ایک بہتر ذریعہ بننے کے لئیے۔
 
حوالہ؛

Friday, January 15, 2010

ایک دستر خوان ،چند پڑھے لکھے لوگ اور منافقت

نیئینڈرتھل انسانوں سے ملتی جلتی ایک مخلوق تھی جو انسانوں سے پہلے اس زمین پہ پائ جاتی تھی۔ اور اس وقت انکا تذکرہ صرف اس لئیے کیا ہے کہ انکی ایک خوبی تھی اور وہ یہ کہ وہ گوشت خور ہوا کرتے تھے۔ اب آپ کندھے اچکا کر کہیں گے کہ تو کیا ہوا۔ ہم بھی گوشت خور ہیں۔ لیکن فی زمانہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو گوشت خور نہیں ہوتے۔ اب بھی آپ کہدیں گے تو وہ ہندو ہوتے ہونگے ہم تو الحمد للہ مسلمان ہیں۔
مگر کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ وہ ہندو نہیں ہوتے۔ کبھی کبھی مسلمان بھی ہوتے ہیں یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والے بھی۔  اب ویسے تو انسان ہمہ خور مخلوق ہے یعنی سب ہی  کچھ کھا لیتا ہے جس میں چیونٹے، سانپ، بچھو کے علاوہ جوتے اور ڈنڈے بھی شامل ہیں۔ اور کچھ تو اسنیکس کے طور پہ وقتاً فوقتاًگالیاں کھانا بھی پسند کرتے ہیں۔ لیکن کچھ ایسے بھی عجیب الدماغ بھی ہیں جو آپ اپنی جبلت کا امتحان لیتے ہیں اور گوشت کھانے سے انکاری ہو جاتے ہیں۔ اور اپنے آپکو ویجیٹیریئن کہنے لگتے ہیں۔  تو یہ تحریر ایسے ہی ناہنجاروں کے خلاف ہے۔
کچھ علم دوست لوگوں کے مجمعے میں، دسترخوان پہ جب ہم ایک نئے ویجیٹیریئن دوست کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھے تو انہوں نے سبزی خوروں میں اپنی نو داخلیت کے جذبے سے تر بتر ہو کر  ماتھے پہ بل ڈال کر حقارت سے کہا آپکو معلوم ہے کہ یہ گوشت جو آپ کھا رہی ہیں یہ اس جانور کا ہے جو کسی کا بیٹا ہوگا اور کسی کا باپ۔ میں نے انکی ٹماٹر کی بھجیا کو دیکھا اور پوچھا اور اس ٹماٹر کے متعلق آپکا کیا خیال ہے۔ اسکی کتنی رشتے داریاں ہونگیں۔ آپکو معلوم ہونا چاہئیے کہ اسکی رشتے دارِیاں، میں نے اپنی پلیٹ کر طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، اس مرغی سے کہیں زیادہ ہونگیں۔ جواب ملا سبزیوں میں شعور نہیں ہوتا اور جانوروں میں شعور  ہوتا ہے۔
  اب میں نے محسوس کیا کہ گفگتگو کو کھینچ تان کر فرائڈ کی طرف لیجایا جا رہا ہے۔ تاکہ اپنے  علم نفسیات کا سکہ جمایا جا سکے اس لئیے فوراً وار کیا۔ 'جی ہاں سبزیوں میں شعور نہیں ہوتا اور انڈے میں کون سا شعور ہوتا ہے جو آپ اسے نہیں کھاتے'۔ 'اس میں اپنی نسل آگے بڑھانے کا شعور ہوتا ہے'۔ 'تو آپکا خیال ہے کہ یہ شعور سبزیوں میں نہیں ہوتا'۔ انکی پلیٹ میں موجود سبزیوں نے میرے حق میں گرمی جذبات سے باہر نکلنے کی کوشش کی لیکن بظاہر یہ لگا کہ انہوں نے اپنا کانٹا زور سے اس میں مارا تھا۔
 '
آپکو پتہ ہے جتنے زیادہ جانور آپ کھائیں گے اتنے زیادہ پیدا کرنے پڑیں گے اور جانور جتنے زیادہ ہوں اتنا ہی انکا فضلہ زیادہ ہوگا اور جتنا انکا فضلہ زیادہ ہوگا۔ اتنا ہی گرین ہاءوس افیکٹ زیادہ ہوگا اور اس گرین ہائوس افیکٹ کے زیادہ ہونے سے گرمی زیادہ ہوگی اور اس سے ہمارے گلیشیئر زیادہ تیزی سے پگھلیں گے ۔ کچھ معلوم بھی ہے آپکو  یہ گوشت کھا کر آپ دنیا کی تباہی کا کس قدر زیادہ باعث بنتی ہیں۔ دوزخ بنا رہی ہیں اپ اسے دوزخ۔
 اس وقت یہ آنیوالے زمانوں کی گرمی ہماری گفتار میں آچلی تھی۔  صاف لگ رہا تھا کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی انہیں گرین ہاءوس ایفیکٹ نامی اصطلاح پتہ چلی ہے۔ گلیشییئر جب پگھلے گا تب پگھلے گا۔ اس وقت انکا دماغ پگھلانا زیادہ ضروری محسوس ہوا۔ اس لئیے  سچے مجاہد کی طرح معاشرے کو اس بدعت سے پاک کرنے کے لئیے میں نے اپنا چمچ ایک طرف رکھا۔ انکی پلیٹ میں موجود سبزیوں سے آنکھیں  چار کیں اور ان سے کہا بالکل یہی منطق ان سبزیوں پہ بھی آتی ہے۔ آپ یہ سبزیاں خلاء میں تو نہیں اگائیں گے۔ جتنی زیادہ سبزیاں اگیں گی اتنا زیادہ گرین ہاءوس افیکٹ ہوگا۔ ابکی انہوں نےفوراً طعنہ مارا۔ کچھ مطالعہ بھی کرتی ہیں۔ سائنس کے متعلق کچھ پتہ بھی ہے۔ مزید مطالعہ کریں۔ پودوں سے آکسیجن پیدا ہوتی ہے۔
دل تو چاہا کہیں کہ بھاڑ میں جائیں آپ اور آپکی سائنس۔ یہ تک تو پتہ نہیں کہ پودے رات کے وقت کاربن ڈائ آکسائیڈ پیدا کرتے ہیں۔۔ اسی وقت طنطناتی ہوئ اٹھی، اپنا لیپ ٹاپ کھولا اور گوگل سرچ پہ کی ورڈز ڈالے۔ متعلقہ ویب سائٹ کھولی اور لیپ ٹاپ جا کر انکے سامنے رکھ دیا۔ پڑھ لیجئیے۔
 ایک چھچھلتی نظر اس پہ ڈالی اور گویا ہوئے، ہو سکتا ہے آپکی بات درست ہو۔ مگر آپ نے کبھی غور کیا۔ اتنے انسانوں کا پیٹ بھرنے کے لئیے کتنے جانوروں کو کس کسمپرسی کی حالت میں رکھا جاتا ہے۔ لیجئیے، فرائڈ سے بات ماحولیاتی آلودگی اور اب جانوروں کے حقوق تک آ پہنچی۔ میں نے فی الفور تجزیہ کیا۔ جیسے انسانوں کے تو کچھ حقوق ہی نہیں ہیں۔ لیکن خدا کا شکر ادا کیا کہ ایسے شیطانوں سے نبٹنے کے لئیے کیسا زر خیز دماغ دیا ہے۔ لپک کر کہا، اور زیادہ سبزیاں اگانے کے لئیے جو جینیاتی تبدیلیاں کی جاتی ہیں، جسکے نتیجے میں کم سے کم وقت، کم سے کم زمین اور کم سے کم پانی استعمال کر کے انکی کاشت کیجاتی ے، انکی قدرتی عمر پوری ہونے سے قبل ہی انہیں ختم کر دیا جاتا ہے اسکے متعلق کیا ارشادہے آپکا۔ اس دفعہ انہوں نے تلملاتے ہوئے اپنا منہ کھولا ہی تھا کہ ایک ڈکار کی آوز آئ۔ ساتھ ہی کسی نے کہا الحمد للہ۔
 ہم دونوں نے پہلے حیرانی سےایکدوسرے کو دیکھا اور پھر اس آواز کیطرف۔ وہ صاحب رومال سے اپنا منہ صاف کر رہے۔ ہم دونوں کی نظریں ایکدفعہ پھر ملیں۔ اس دفعہ ہم دونوں کے چہرے پہ ان تیسرے حضرت کے لئے حقارت تھی۔ دسترخوان پہ ڈکار لینا کس قدر آداب محفل کے خلاف ہے، بلکہ بد تہذیبی ہے۔
یہاں سے ایک نئ اہم بحث شروع ہونے والی تھی، کیا علم تہذیب بھی سکھاتا ہے۔ مگر ہم دونوں اسے ان تیسرے حضرت کی غیر موجودگی میں کرنا چاہتے تھے۔ وجہ تو آپ سمجھتے ہیں۔

نوٹ؛ اس قصے کے تمام واقعات فرضی نہیں ہیں۔ البتہ، کسی قسم کی مطابقت محض اتفاق ہوگا۔

Tuesday, January 12, 2010

کیا لیاری کراچی کا حصہ ہے؟

میری اس  لڑکی سے ملاقات کو زیادہ عرصہ نہیں گذرا۔ یونہی نو دس مہینے پہلے مجھے خیال آیا کہ میں اپنے مضمون  پر اگر لوگوں کو ٹیوشن دینے لگون اور اپنی فیس  اسوقت چلنے والی فیس کے مقابلے میں آدھی رکھوں تو اس سے مجھے اور پڑھنے والے دونوں کو دلچسپی ہوگی۔ میں نے اخبار میں اشتہار دے دیا۔ اسکے نتیجے میں میرے پاس پانچ فون آئے۔ ان میں سے چار لوگوں کی خواہش تھی کہ انہیں گھر پہ پڑھایا جائے۔ جسے میں نے منع کر دیا
لیکن ایک فون مجھے لیاری سے ایک لڑکی کا آیا۔ وہ مجھ سے ملنا چاہتی تھی۔ وہ بی ایس سی کی طالبہ تھی۔ مجھے حیرانی ہوئ۔ 'مگر آپ تو میرے گھر سے خاصی دور رہتی ہیں اور ہفتے میں تین دن آنا بھی آپکے لئیے بہت مشکل ہوگا'۔  یہ سن کر اس نے مجھ سے کہا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ میں اس سے ایکدفعہ مل کر اسے جو مشکلات پیش آرہی ہیں وہ دیکھ لوں اور انکے لئیے اسے کچھ ٹپس دیدوں۔۔ اسکی یہ لگن دیکھ کر میں نے اسے اگلے دن بلالیا۔
 وقت مقررہ پہ وہ اپنے والد صاحب کے ساتھ آگئ۔ اس نے برقعہ پہنا ہوا تھا۔ اسکے والد صاحب اپنی عمر کی پانچویں دھائ میں تھے اور نیوی مرچنٹ کی نوکری کرتے تھے۔ وہ ہمارے ساتھ بیٹھے رہے۔ ہم دونوں جب اس ساری ڈسکشن سے فارغ ہو گئے  تو میں ان سے بات کی۔
انہیں میرے گھر پہنچنے کے لئیے دو بسیں اور ایک ٹیکسی لینی پڑی تھی اور انکے مبلغ دو  سو روپے خرچ ہوئے تھے۔ وہ سات بہنیں اور ایک بھائ تھے۔ میں نے جب ان سے انکے علاقے کے حالات جاننے چاہے تو اس سوال پہ اس آدمی کا چہرہ بالکل بجھ گیا۔ آپکو کیا بتاءووں۔ میرا ایک بیٹا ہے اور وہ جب گھر سے پڑھنے کے لئیے نکلتا ہے تو جب تک واپس نہیں آجاتا ہم پریشان رہتے ہیں۔ ہمارا پورا علاقہ غنڈوں اور بدمعاشوں کا علاقہ ہے۔ ہمارا نوجوان لوگ زیادہ تر نشہ کرتا ہے یا ہنگامہ۔ آپ کبھی ہمارا علاقہ آکر دیکھو۔ انسانوں کی رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ ابھی آپ دیکھو میری بیٹی کو پڑھنے کا اتنا شوق ہے لیکن ہمارے علاقے میں کوئ اچھا پڑھنے کی جگہ نہیں ہے یہ جہاں جاتا ہے وہاں کتنی مشکل سے جاتا ہے۔ میں تو کہتا ہوں  کیا ہم اسی طرح جانوروں کی طرح زندگی گذارتا رہیگا۔
اب آپ اردو اسپیکنگ والوں کی پارٹی ہے۔ لوگ کہتا ہے وہ بدمعاشی کرتا ہے۔ مگر میں کہتا ہوں وہ اپنے شہر اور اپنے لوگوں کی بھلائ کے لئیے کچھ تو کرتا ہے۔ ہمارے علاقے سے ہر دفعہ ایک پارٹی آتی ہے مگر آپ وہاں جا کر دیکھیں۔ ہمارا بچہ لوگ کیا کرتا ہے۔ ہم لوگوں کا کیا بنے گا۔ یہ حکومت جب سے آیا ہے اس نے تو تھانہ بانٹ لیا ہے۔ ہمارے لیاری میں کوئ پولیس نہیں ہے صرف غنڈوں کا راج ہے۔ کوئ دن نہیں ہوتا کہ ان بدمعاشوں کی آپس میں جنگ نہ ہوتی ہو۔ ہم تو اپنے گھر کے صحن میں نہیں کھڑے ہو سکتے۔
جب وہ جانے لگے تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ ان تمام مشوروں کی فیس کیا ہوگی جو میں نے اس دوران انہیں دئیے۔ میں نے ان سے کہا کہ اسکی کوئ فیس نہیں ہے۔ میں نے بغیر کسی تیاری کے سرسری طور پہ کچھ چیزیں بتادی ہیں۔ اسکی کیا فیس ہو سکتی ہے۔ میں اگر باقاعدہ پڑھاتی تو کچھ فیس ہوتی۔ مگر وہ پھر بھی بصد اصرار کچھ پیسے میز پہ رکھ گئے۔ جب وہ نکنلے لگے تو وہ لڑکی مجھ سے کہنے لگی کہ باجی آپکا علاقہ مجھے بہت اچھا لگا۔ میں بالکل شرمندہ ہو گئ۔ معلوم نہیں کیوں۔
یونیورسٹی میں پڑھتے ہوئے جب کراچی کے کسی علاقے کے تعلیمی اوسط کا اندازہ لگانا ہوتا تو یونیورسٹی سے وہاں کے لئیے چلنے والے بسز سے لگاتے جو پوائنٹس کہلاتی تھیں۔ کراچی کے تمام علاقوں جن میں لانڈھی، کورنگی، عزیز آباد اور اورنگی ٹاءون بھی شامل ہیں انکے لئیے باقاعدگی سے پوائنٹس لگتے تھے مگر ان میں کبھی لیاری کے لئے بس نہ دیکھی۔
آج جب میں نے ایک بلاگ پہ نبیل گبول صاحب کا بیان دیکھا کہ لیاری میں کیوں آپریشن ہوتا ہے لانڈھی، کورنگی اور عزیز آباد میں کیوں نہیں ہوتا۔ تو ان سے صرف ایک سوال پوچھنے کو دل چاہا کہ پچھلےتیس پینتیس سالوں میں لیاری والوں نے شاید پیلپز پارٹی کے علاوہ کسی کو ووٹ نہیں دیا۔ کیا انہوں نے سوچا کہ لیاری میں ایک بھی اچھا اسکول اور کالج نہیں جسیا کہ لانڈھی، کورنگی اور عزیز آباد میں ہیں، وہاں چھوٹے بچوں اور عورتوں میں کیوں منشیات کا استعمال زیادہ ہے۔  شہر بھر میں کیوں جوا  سب سے زیادہ وہاں کھیلا جاتا ہے۔
لیاری کے مختلف محلے وہاں کے ڈکیتوں کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ جو ایک دو نہیں کئ ہیں۔  ایسا کوئ عمل لانڈھی، کورنگی اور عزیز آباد میں نہیں ہوتا۔۔ میں ان علاقوں میں اکیلے گاڑی میں بے دھڑک گھومتی ہوں لیکن میں لیاری میں اس طرح پھرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔
پچھلے کئ سالوں میں شہر کے باقی علاقے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ لیاری اب تک اتنا پسماندہ کیوں ہے۔ کیوں کراچی یونیورسٹی والوں کو لیاری کے لئیے کبھی ایک بس چلانے کی نوبت نہ آئ۔ کیوں یونیورسٹی میں اتنا لمبا عرصہ گذارنے کے باوجود میری کبھی ایسے طالب علم سے ملاقات نہ ہوئ جو لیاری سے تعلق رکھتا ہو۔  کیوں لیاری کراچی کا پسماندہ ترین علاقہ ہے۔کیا نبیل گبول صاحب اس بات کا جواب دیں گے۔ کیا ابو سعد کبھی اس چیز کے بارے میں لکھیں گے کہ لیاری کیوں کراچی کا حصہ نہیں لگتا۔ اور کراچی کی رونقوں کے غم میں گھلنے والے جانتے بھی ہیں کہ لیاری بھی کراچی میں واقع ہے۔

Sunday, January 10, 2010

کچھ آج سے الگ اور اسکے متعلق

ڈاکٹر انور سدید کی کتاب 'اردو ادب کی تحریکیں' شاید اس موضوع پہ لکھی جانیوالی کتابوں میں بہت اچھی کتاب میں ہے۔ یہ کتاب انکا پی ایچ ڈی کا تھیسس ہے۔ لیکن اسکی مقبولیت اتنی ہے کہ بارہ برس میں اسکے تین ایڈیشنز شائع ہو چکے ہیں۔
عنوان دیکھ کر تو یہ لگتا ہے کہ اردو سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کی  ضرورت ہو گی۔ لیکن چونکہ اس میں زبان کے فروغ اور اس پہ دیگر سیاسی و غیر سیاسی تحریکوں کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے تو یہ ایک عام قاری کے لئے بھی پڑھنے میں بہت اچھی کتاب ہے۔
مجھے اسے پڑھنے کی ضرورت یوں پیش آئ کہ جب میں نے ایک بلاگ پہ یہ دعوی پڑھا کہ اردو نے پنجابی زبان سے جنم لیا ہے تو سوچا کہ جو اپنی پہلے والی معلومات ہیں ان کو اپ ڈیٹ کیا جائے، جو اس میدان کے ماہرین ہیں ان سے بلامشافہ گفتگو کی جائے اور اس پہ جو لٹریچر مہیا ہے وہ پڑھا جائے۔  ورنہ بات برائے بات تو کوئ بھی کر سکتا ہے  اور کیسی بھی کی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کتاب میں جو دیگر تفصیلات ہیں ان سے صرف نظر کرنا میرے لئیے ممکن نہ تھا۔
آئیے ایک اقتباس سے گذرتے ہیں جو خاصہ تفصیلی ہے۔ لیکن یہ کسی تحریک کے مختلف ادوار کے بارے میں ہے۔
صاحب تحریر کا خیال ہے کہ کوئ تحریک اپنی نمو میں چار ادوار سے گذرتی ہے۔
۱
تحریک کے اساسی تصور کی نمو کا دور
یہ تحریک کا ابتدائ دور ہوتا ہے جس میں راہنما پہلے اس تصور کے بارے میں اپنا ذہن صاف کرتا ہے اور ایک واضح نظریہ مرتب کرتا ہے۔ رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لئیے اپنے رفقاء کے سامنے اور پھر عوام کے سامنے یہ نظریہ پیدا کرتا ہے۔ اگر یہ تصور خوبصورت اور موزوں طریقے سے پیش کیا جائے اور سابقہ جمود کے طویل دور نے تغیر قبول کرنے کے لئیے زمین ہموار کر دی ہو تو یہ نظریہ بہت جلد قبولیت کا درجہ حاصل کرنے لگتا ہے۔ بصورت دیگر تحریک اس ابتدائ مرحلے میں ہی بجھ کر رہ جاتی ہے۔
۲-
ہمدردانہ جذبے کے فروغ کا دور
اس دور میں عوام کا کا ایک بڑا طبقہ تحریک کے بنیادی تصور سے ہمدردی کا اظہار کرنے لگتا ہے جبکہ رجعت پسند طبقہ اسکے خلاف اپنے نظریات کی برتری ثابت کرنے کے لئے درپئے جنگ ہوجاتا ہے۔ اور یوں نئے تصور نے جو تحرک پیدا کیا ہے اسے روکنے کے لئے مزاحمت شروع ہو جاتی ہے۔ تحریک اگر جاندار ہو تو آگے بڑھتی ہے اور نئے تصور کو بالا دستی حاصل ہو جاتی ہے اور اسکے ساتھ ہی تحریک اپنی کامیابی کا ایک دور مکمل کر لیتی ہے۔

نوٹ؛ یہ سلسلہ جاری ہے۔ دلچسپی برقرار رکھنے کے لئیے میں نے اسے توڑ دیا ہے۔ تو پھر سے  آگے پڑھتے ہیں مگر ایک مختصر وقفے کے بعد۔

حوالہ؛
ڈاکٹر انور سدید

Friday, January 8, 2010

یہودی کا بیت الخلاء

ان لوگوں سے معذرت کے ساتھ جو یہودیوں سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ میں کیا کروں، مراقبے کی یہ جگہ میں نے  تھائ لینڈ کے شہر پھوکٹ میں ایک یہودی کے ریسٹورنٹ میں دیکھی۔ اور یہ تصویر اپنے بیان کی صحت کو ثابت کرنے کے لئیے دے رہی ہوں۔



میرے اپنے گھر میں کچھ لوگ کتابیں اور اخبار لیکر اس راہ پہ روانہ ہوتے ہیں۔ اور اکثر غسل خانہ میں تولیے کے ہینگر پہ اخبار ٹنگا ملتا ہے۔ شاید ایسے لوگوں کی ہڑک کو مد نظر رکھتے ہوئے اس ریسٹورنٹ کے مالک نے اسے ایک نئ جدت کے ساتھ سجایا ہے۔ جب میں نے یہ دروازہ کھولا تو اندر کی طرف جانیوالے تنگ راستے کی دیواروں پہ قد آدم تصویروں کے چسپاں پرنٹ دیکھ کر ششدر رہ گئ۔  آگے چلکر ان میں سے کچھ  شخصیات کے اقوال بھی ساتھ لکھے نظر آئے۔ خود پڑھے اور ان میں سے کچھ آپکے لئیے جمع کر لئیے۔ واضح رہے کہ اس میں کچھ توبہ شکن تصاویر بھی شامل ہونے سے رہ گئیں۔ مثلاً الزبتھ ٹیلر کی مسکراتی اور میڈونا کی جھلملاتی تصاویر وغیرہ۔

یہ لینن صاحب ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ چند لوگوں کو نہیں مار سکتے تو انقلاب کس لئیے بھئ۔ لینن کو کچھ قدرتی پیچیدگیوں کی وجہ سے ہمارے سیاستدانوں سے سیکھنے کا موقع نہیں ملا۔ وہ تو بغیر انقلاب کے بھی چند لوگوں کو مارنا خاطر میں نہیں لاتے۔
یہ آسکر وائلڈ صاحب ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ ہم بہت ساری چیزیں پھینکنا چاہتے ہیں مگر اس لئیے نہیں پھینکتے کہ کوئ اور نہ انہیں اٹھا لے۔ یہ پڑھ کر مجھے وہ ادیب یاد آگئے جو بہت کچھ لکھنا چاہتے ہیں مگر نہیں لکھتے کہ کوئ اور انہیں سرقہ نہ کر لے۔ اور یوں بہت ساری تحریروں کا بوجھ اپنے دل پہ لئیے رخصت ہوجاتے ہیں۔
یہ صاحب، تصویر میں آنے سے رہ گئے ہیں بہر حال انکا مقولہ ہے کہ سب سے بڑا گناہ دوسروں کو خوش کرنے کے لئیے خود کو بگاڑنا ہے۔ پڑھنے میں تو کچھ بہت گہری بات لگ رہی ہے لیکن کوئ مثال  اگر ذہن میں آرہی ہے تو اسکا کوئ نہ کوئ تعلق ہماری خارجہ پالیسی سے جا ملتا ہے۔ جس سے موضوع کے متنازع ہوجانے کا اندیشہ ہے۔
یہ شاید عام پاکستانیوں کے موجودہ حالات کے بارے میں کہا گیا ہے۔کل کے بارے میں پریشان نہ ہوں وہ بہرحال آ کر رہے گا۔ آج کے بارے میں پریشان ہوں۔ یہ اگر بغیر سوچے سمجھے آجائے تو بڑا لمبا ہو جاتا ہے اور پھر کل نہیں آپاتا۔

ہر عظیم آدمی کچھ نہ کچھ کہہ کر جاتا ہے۔ آئنسٹائن نے بھی فرمایا۔ دو چیزوں کی کوئ حد نہیں ہے۔ پہلی چیز کائنات ہے اور دوسری چیز حماقت۔ اور پھر انہوں نے مزید فرمایا۔ مجھے پہلی چیز کے بارے میں  پھر بھی شبہ ہے۔ بادی النظر میں یہ لگتا ہے کہ جیسے اس وقت سارے طبیعیات داں کائنات کا مطالعہ اسی لئیے اتنی باریک بینی سے کر رہے ہیں کہ دوسری چیز کو صحیح ثابت کیا جا سکے۔

اس مقولے کے مطابق ہر انسان کے اندر دو بھیڑئیے رہتے ہیں۔ ایک اچھا ہے اور دوسرا برا۔ ان میں سے جیتتا وہی ہے جسے آپ کھانا کھلاتے ہیں۔ لیکن کہیں ضیا الحق قاسمی کی طرح یہ نہ ہو کہ میں شکار ہوں کسی اور کا، مجھے مارتا کوئ اور ہے،،، مجھے جس نے بکری بنا دیا وہ تو بھیڑیا کوئ اور ہے۔
اس بادبانی کشتی کے ساتھ یہ نصیحت ہے کہ اگرآپکو یہ نہیں معلوم کہ کہاں جانا ہے تو بہترین ہوا بھی آپکی کچھ مدد نہیں کر سکتی۔ شاید اسی کو سن کر سید ضمیر جعفری نے کہا کہ   ساگر کے سر شناس اگر ناخدا نہ ہوں،،بنتے ہیں کشتیوں کے کفن بادبان میں۔ واہ
 
امن کی ثالثی کرنیوالا مگرمچھ کو یہ سوچ کر کھلاتا ہے کہ مگر مچھ اسے سب سے آخر میں کھائے گا۔ اس پہ مجھے ایک شبہ ہے کہ بعض اوقات امن کی ثالثی کرنےوالے جسے مگر مچھ سمجھ کر کھلا رہے ہوتے ہیں وہ اصل میں کوئ سیل ہوتی ہے اور مگر مچھ کسی وقت اچانک پیچھے سے یہ کہکر حملہ کر دیتا ہے کہ مجھے کیوں نہیں کھلایا۔


زندگی میں اس چیز کی اہمیت نہیں ہوتی کہ آپ کتنی زور سے گھونسا مارتے ہیں۔ بلکہ اس چیز کی اہمیت ہوتی ہے کہ آپ کتنی تیزی سے ٹکڑے سمیٹ کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اس میں ، میں صرف یہ جمع کرنا چاہتی ہوں کہ  کتنی جلدی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، مزید گھونسے مارنے کے لئیے۔ اسکی اہمیت ہوتی ہے چندا۔
یہ جو نیچے تصویر آرہی ہے۔ یہ تو بنیادی طور پہ آپ سب کے تبصرے کے لئیے چھوڑ دی ہے۔ بس نجانے کیوں غالب کا یہ شعر یاد آگیا۔

شوق، ہر رنگ رقیب سرو ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا

 

نوٹ؛ ان تمام تبصروں سے آپکا متفق ہونا ضروری نہیں۔ اختلاف کی  صورت میں اپنا کوئ تبصرہ جمع کرائیے۔ آپکے نام کے ساتھ اس پوسٹ میں ڈال دیا جائےگا۔

تبصرہ، ریاض شاہد؛
رہے صاحب نقش ونگار تو وہ غالبا تصویر یار آئینہ دل کی بجائے اس جگہ زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں اور مقاصد کے علاوہ اس کا مقصد شاید یہ بھی ہو کہ اگر جنگ یا کسی حادثے میں بازو کٹ کر گم ہو جائے تو جس صاحب کو ملے اسے اس کی محبوبہ تک پہنچانے میں آسانی رہے ۔

Tuesday, January 5, 2010

تقلید اور جدیدیت-۲

اپنی پچھلی پوسٹ میں میں نے قاسم امین کا تذکرہ کیا تھا۔ یہ بات تسلیم کرنے میں مجھے کوئ عار نہیں کہ میں نہیں جانتی تھی کہ قاسم امین کون ہے۔ مجھے بھی یہ لائنیں پڑھ کر پتہ چلا کہ یہ بھی کوئ صاحب ہیں۔ تو جناب پھر میں نے نیٹ پہ جا کر انکے متعلق معلومات حاصل کی ۔قاسم امین اٹھارہ سو تریسٹھ میں پیدا ہوئے اور انیس سو آٹھ میں انتقال کر گئے۔ لیکن اس مختصر مدت میں بھی انہیں مصری نیشنل مومنٹ اور قاہرہ یونیورسٹی کے بانیوں میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہو گیا۔
انہوں نے دو کتابیں لکھیں۔ پہلی کتاب اٹھارہ سو ننانوے میں اسکا انگریزی عنوان ہے 'دی لبریشن آف ویمین' اور دوسری سن انیس سو میں اور اسکا عنوان ہے ؛دی نیو ویمین'۔
چلیں, ایسی کتابیں اور اس موضوع پہ کتابیں آج ہمیں بہت ملیں گی۔ لیکن انیسویں صدی میں جب مغربی معاشرے میں آزادی نسواں کی تحریک کا نام و نشاں بھی نہ تھا۔ ۔ آخر قاسم امین کو کیا سوجھی کہ وہ اس موضوع پہ اتنا وقت لگاتے۔
انہوں نے سوچا کہ کیا وجہ ہے کہ مصر ایک لمبے عرصے تک علم اور تہذیب کا حصہ بنے رہنے کے باوجود یوروپین تسلط کا شکار ہوا؟
اس سوال کا جواب ہمارے یہاں کے باشعور مرد نے یہ نکالا کہ پاکستانی معاشرے کی اس وقت کی تباہی کی ذمہ داری ان خواتین پہ عائد ہوتی ہے جو ساٹھ اور ستر کی دھائ میں کچھ تعلیم پانے کے قابل ہو سکیں اور جنکی تعداد اس وقت شاید پانچ فیصد ہوگی۔ اور جنکی تعداد اس وقت کے پاکستانی معاشرے میں شاید بیس فیصد کے قریب ہوگی ان میں وہ خواتین بھی شامل ہیں جو اپنا نام لکھ لیتی ہیں اور اکثریت ان خواتین کی ہے جنہوں نے کسی بھی درجے میں اسکول تک کی تعلیم حاصل کی ہو۔
لیکن قاسم امین نے اسکی وجہ مصری معاشرے میں خواتین میں تعلیمی اور معاشی سمجھ کا نہ ہونا نکالا۔ انکا خیال تھا کہ قوم کے بچوں کو تربیت دینے والی ماءووں کو اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کرنا آنا چاہئیے۔ اس وقت ہمارا موضوع قاسم امین کے خیالات کی مصری معاشرے میں اثرات معلوم کرنا نہیں ہے۔ اس لئیے ہم انکے تذکرے کو یہیں چھوڑتے ہوئے آگے چلتے ہیں۔
مسلم معاشرے میں خواتین کے تعمیری کردار کے بارے میں ہر زمانے میں  مفکروں نے غور کیا۔
جہاں ابن رشد ایک جمہوری معاشرے میں کسی عورت کی سربراہی کے خلاف نہیں بلکہ وہ تو اس چیز کے بھی خلاف نہیں کہ عورت سپہ سالار ہو ۔ وہاں محی الدین ابن عربی کہتے ہیں کہ عورت بھی ان روحانی بلندیوں پہ جا سکتی ہے جہاں تک مرد جا سکتا ہے۔
ابن عساکر لکھتے ہیں کہ قرون وسطی کی خواتین نہ صرف تعلیم اسناد حاصل کرتی تھیں بلکہ عالمہ اور استاد کے فرائض بھی انجام دیا کرتی تھیں۔ ابن عساکر نے اپنے دور کی اسی خواتین اساتذہ سے پڑھا۔
پندرھویں صدی میں ابن سخاوی نے بارہ جلدوں پہ مشتمل کتاب دعوۃ اللامی لکھی۔ جسکی ایک پوری جلد خواتین عالماءووں کے لئیے وقف کی گئ تھی۔ جنکی تعداد اس میں ایک ہزار پچھتر ہے۔
حتیٰ کہ خلافت کے زمانے میں بھی خواتین مختلف پیشوں سے وابستہ تھیں اور اپنے امور انجام دیا کرتی تھیں۔ البتہ اکیسویں صدی تک تک آتے آتے مسلمان عورت صرف مرد کی دل کی راحت کا ذریعہ رہ گئ۔
قائد اعظم کو مولانا قائداعظم بنانے والوں نے شاید انکی یہ تقریر بھی نہیں پڑھی جو انہوں نے پاکستان بننے سے تین سال پہلے انیس سو چوالیس میں دی اور اسکا انگریزی متن مندرجہ ذیل ہے۔
 
No nation can rise to the height of glory unless your women are side by side with you; we are victims of evil customs. It is a crime against humanity that our women are shut up within the four walls of the houses as prisoners. There is no sanction anywhere for the deplorable condition in which our women have to live.
 
ان میں سے وہ لوگ جو کہ اسلام کو منجمد کرنے کی سطح تک لیجانے کے ذمہ دار ہیں اور اب مزید غور وفکر سے یہ کہہ کر انکار کر چکے ہیں کہ جو کچھ سوچنا تھا ہمارے بزرگوں نے یا ہم سے پہلے کے لوگوں نے سوچ لیا۔ اب ہماری عافیت اسی میں ہے کہ خاموشی سے ایک بنے ہوئے رستے پہ چلتے رہیں۔ یہ معاشرے میں ہر وقت اس تباہی کے آثار تلاش کرتے رہتے ہیں جو خواتین کی بے راہروی اور تعلیم سے آئے ہونگے۔ البتہ انکی اس سوچ سے معاشرے پہ جو اثرات مرتب ہوئے اسکا یہ صاف دلی اور کھلے دماغ  سے مطالعہ کرنے سے قاصر ہیں۔
پاکستانی عورت کی حالت پہ گفتگو کرنا اور معاشرے کو اس چیز کے لئیے راضی کرنا کہ وہ انکی ذہنی صلاحیتوں کی نمو کے لئیے مناسب ماحول پیدا کرے۔ اسے مغرب کی گھناءونی مثالیں لا کر مانگنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ آئن اسٹائن بننا صرف کسی مرد کا ہی مقدر نہیں ہو سکتا۔ کوئ عورت بھی اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کر کے انسانی تاریخ میں اپنا نام لکھ سکتی ہے۔  کیا یہ ممکن نہیں کہ مرد جس نظر سے معامالات کو دیکھ رہے ہیں خواتین اس سے بہتر طور پہ اسے دیکھ پائیں۔  لیکن خواتین کو گمنامی کی سطح پر دھکیلنے والے لوگ یہ سمجھنا نہیں چاہتے کہ اگر وہ آئن اسٹائن اور بل گیٹس بن کر بھی اچھے باپ بن سکتے ہیں تو وہ کسی خاتون کو اسکی صلاحیتیں استعمال کرنے کا موقع دینے سے کیوں گھبراتے ہیں۔
اگر آپ تخلیق کے کرب سے گذرے بغیر ہی اپنے آپکو اتنا ذمہ دار سمجھتے ہیں، اگر آپ دنیا کو ہتھیاروں کی ذخیرہ گاہ بنانے کے باوجود اپنے آپکو ذمہ دار سمجھتے ہیں اور اگر آپ ہر وقت نعرہ ء جنگ کی آواز پہ لبیک کہنے اور اس میں انسانوں کو جھونک دینے کے  باوجود اپنے آپکو ذمہ دار سمجھتے ہیں تو کیا ایک ماں آپ سے زیادہ ذمہ دار نہ ہوگی۔ 
لیکن شاید ذہانت کی ذمہ داری صرف مردانہ خصوصیت ہے اور اسی لئے کوئ خاتون اسے استعمال کرے تو وہ مرد نما عورت کہلانے کی مستحق ہوتی ہے۔


Sunday, January 3, 2010

کئ لائینیں

ایک مختصر ہلکا پھکا سا جملہ بہت سے پریشان چہروں پر مسکراہٹ بکھیر سکتا ہے تو کیوں نہ پھر مسکراتے چہروں کا اضافہ کیا جائے اس دنیا میں جہاں سے آج یا کل بالآخر چلے جانا ہے ۔

یہ جملہ پڑھ کر مجھے اچانک فیض کی یہ نظم یاد آگئ۔ جسکا عنوان ہے 'مرے ہمدم، مرے دوست'۔
لیجئیے پڑھئیے۔


گر مجھے اسکا یقیں ہو مرے ہمدم، مرے دوست
گر مجھے اسکا یقیں ہو کہ ترے دل کی تھکن
تیری آنکھوں کی اداسی، ترے سینے کی جلن
میری دلجوئ، مرے پیار سے مٹ جائے گی
گر مرا حرف تسلی وہ دوا ہو جس سے
جی اٹھے پھر ترا اجڑا ہوا بے نور دماغ
تیری پیشانی سے دھل جائیں یہ تذلیل کے داغ
تیری بیمار جوانی کو شفا ہو جائے

گر مجھے اسکا یقیں ہو مرے ہمدم، مرے دوست
روز وشب، شام و سحر میں تجھے بہلاتا رہوں
میں تجھے گیت سناتا رہوں ہلکے، شیریں
آبشاروں کے، بہاروں کے، چمن زاروں کے گیت
آمد صبح کے، مہتاب کے، سیاروں کے گیت
تجھ سے میں حسن ومحبت کی حکایات کہوں
کیسے مغرور حسیناءوں کے برفاب سے جسم
گرم ہاتھوں کی حرارت میں پگھل جاتے ہیں
کیسے اک چہرے کے ٹہرے ہوئے مانوس نقوش
دیکھتے دیکھتے یک لخت بدل جاتے ہیں
کس طرح عارض محبوب کا شفاف بلور
یک بیک بادہء احمر سے دہک جاتا ہے
کیسے گلچیں کے لئے جھکتی ہے خود شاخ گلاب
کس طرح رات کا ایوان مہک جاتا ہے
یونہی گاتا رہوں، گاتا رہوں تیری خاطر
گیت بنتا رہوں، بیٹھا رہوں تیری خاطر

پر میرے گیت ترے دکھ کا مداوا تو نہیں
نغمہ جراح نہیں، مونس وغمخوار سہی
گیت نشتر تو نہیں، مرہم آزار سہی
تیرے آزار کا چارہ نہیں، نشتر کے سوا
اور یہ سفاک مسیحا مرے قبضے میں نہیں
اس جہاں کے کسی ذی روح کے قبضے میں نہیں
ہاں مگر تیرے سوا، تیرے سوا، تیرے سوا


دست صبا سے ایک انتخاب۔