Friday, April 30, 2010

خاص آدمی

.ایک بلاگ پہ سے گذری تو اس سوال پہ نظر پڑی

کتنے لوگ اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ ایک اکیلا بندہ کچھ نہیں کر سکتا ؟ اور کتنے لوگ اس کے برعکس سوچ میں یقین رکھتے ہیں ؟
مختلف تبصروں پہ سے گذرتے ہوئے کچھ خیال آیا کہ کافی عرصے پہلے ڈاکٹر مبارک علی کی ایک کتاب پڑھی تھی، تاریخ اور فلسفہ ء تاریخ۔ کتاب کوچھانا پھٹکا اور اس سوال سے قطع نظر مندرجہ ذیل تحریر کا باعث بن گیا۔
ڈاکٹر مبارک علی تاریخ کے استاد ہیں اور اس موضوع پہ کئ کتابیں لکھ چکے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ انسان اور اسکے مقاصد کو زیر بحث لاتے ہوئے ایک نظریہ یہ پیدا ہوا کہ فطرت کسی ایک شخص کو مافوق الفطرت طاقت دیتی ہے تاکہ  وہ اس مقصد کے لئے جدو جہد کرے اس میں وہ عوام کی اکثریت کو لیکر چلتا ہے۔ وہ قانون اور اخلاق سے بالاتر ہوتا جو کچھ کرتا ہے صحیح ہوتا ہے۔ تاریخ میں جو کچھ ہوتا ہے وہ ان شخصیات کے عمل کا نتیجہ ہے۔ تاریخ ان لوگوں کی سوانح عمری کے علاوہ کچھ نہیں
 تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ افراد تاریخ ساز ہوتے ہیں، انکے عمل سے تاریخ کا بہاءو تیز ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ افراد تاریخ کا راستہ متعین کرتے ہیں۔ کیونکہ تاریخ کا ہر واقعہ گذشتہ واقعات اور ارتقاء کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے اور وہ افراد جو تاریخ کی تعمیر میں نمایاں کردار دا کرتے ہیں محض اک آلہ ءکار ہوتے ہیں۔
پلیخانوف کہتا ہے کہ
'بارسوخ افراد اپنے کردار اور اپنے ذہنوں کی مخصوص صفات کی بدولت واقعات کو اور انکے مخصوص نتائج کو تو بدل سکتے ہیں لیکن وہ واقعات کے عمومی رجحان کو نہیں بدل سکتے جو دوسری قوتوں سے متعین ہوتے ہیں۔
 وہ یہ کہتا ہے کہ جب بھی عظیم افراد کے ارتقاء کے لئے سازگار حالات موجود ہوئے یہ لوگ ہر جگہ نمودار ہوئے۔ یعنی صاحب صلاحیت شخص کا نمودار ہونا معاشرتی تعلقات کی پیداوار ہوتا ہے۔ ایک عظیم انسان دوسروں کے مقابلے میں واقعات کی رفتار کو سمجھتا ہے یہی اسکی عظمت ہے۔
تاریخِ میں معاشی و سیاسی و معاشرتی قوتیں اس قدر طاقتور ہوتی ہیں کہ وہ تاریخ کو مسلسل تبدیل کرتی رہتی ہیں۔ دنیا میں انقلابات ان قوتوں کی وجہ سے آتے ہیں۔ شخصیتیں صرف ان کے عمل کو تیز کر دیتی ہیں۔ ورنہ انکے بغیر بھی وہی کام ہوگا مگراس کام کی تکمیل میں زیادہ وقت اورزیادہ لوگ چاہئیے ہونگے۔ شخصی حکومت کے زمانے میں شخصیات کو اہمیت دی جاتی تھی اور انکے کارنامے لکھے جاتے تھے اس لئے اس میں حکمراں طبقے کی تاریخ تو ہوتی ہے لیکن عوام کی نہیں۔ مذہبی علماء کی تو ہوتی ہے لیکن انکے پیروکاروں کی نہیں، زمینداروں کی تو ہوتی ہے لیکن کسانوں کی نہیں، فوجی جرنیلوں کی ہوتی  ہے سپاہیوں کی نہیں، صنعت کاروں کی ہوتی ہے مزدوروں کی نہیں۔
اس طرح روائتی تاریخ میں اس بات پہ زور دیا گیا  ے کہ تاریخ صرف عظیم شخصیتوں کے کارناموں کا مرقع ہے۔ قدرت انہیں خاص صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کرتی ہے اور یہ اپنی صلاحیتوں کے ذریعے معاشرہ کی ترقی اور تمدن کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
تاریخ کا دوسرا نظریہ یہ ہے کہ عظیم شخصیتیں بذات خود کچھ نہیں ہوتیں بلکہ یہ حالات کی پیداوار ہوتی ہیں۔ شخصیتوں کی اہمیت اسی وقت ہوتی ہے جب انکے کام کے کے لئے  حالات سازگار ہوں اور معاشرہ کا ذہن ان کے پیغام اور تسلیمات کو سننے کے لئے  اور اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو اگر وہ سازگار ماحول سے ہٹ کر پیدا ہوتے ہیں تو انکی عظمت ختم ہو جاتی ہے۔
بقول 'ٹالسٹائ۔'عظیم شخصیتیں بذات خود کچھ نہیں ۔ بلکہ یہ واقعات ہیں جو انکا روپ اختیار کر لیتے ہیں'۔
یہ بات کچھ تاریخی واقعات کو دیکھنے کے بعد صحیح بھی لگتی ہے۔ ورنہ ایسا کیوں کہ گلیلو جب یہ نظریہ پیش کرتا ہے کہ زمین نہیں بلکہ سورج اس کائنات کا مرکز ہے تو پابند سلاسل ٹہرتا ہے اور دس سال قید و بند میں گذارنے کے بعد اسے عدالت میں اپنے اس بیان کی معافی جمع کرانے کے بعد رہائ ملتی ہے۔ لیکن یہی بات جب  کپلر کہتا ہے تو فلکیات کی دنیا میں انقلاب آجاتا ہے۔
کولونیل نظام کے خاتمے کے بعد ایشیا و افریقہ سمیت دیگر ممالک میں شخصیت پرستی کا فروغ ہوا۔ ، ہر نئے آزاد ملک نے شخصیتوں کے بت تراشے اور انکے گرد ایسی روایات کا ہالہ تیار ہوا کہ انکی حیثیت انتہائ مقدس و متبرک ہو گئ۔ آزادی کی تحریکوں میں انکی جدوجہد کو اس قدر مبالغہ کے ساتھ پیش کیا کہ عوام کی قربانیوں اور انکے کردار کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔


 جاری ہے۔ 

Wednesday, April 28, 2010

ایک شہادت، ایک گواہی

آج اخبار کی اس اطلاع پہ مجھے شدید صدمہ ہوا کہ بلوچستان یونیورسٹی کی پچاس سالہ استاد کو جو وہاں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے کام کر رہی تھیں۔ اور انکی مدت ملازمت کو تیئیس سال ہو چکے تھے۔ ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں قتل کردیا گیا۔ پروفیسر ناظمہ طالب رکشے میں سفر کر رہی تھیں کہ دو افراد  نےان پہ فائرنگ کی ۔  بلوچ لبریشن آرمی نے انکے قتل کی ذمہ داری قبول کر لی۔ انکا کہنا ہے کہ بلوچی خواتین کے قتل اور ان پہ تشدد کے خلاف انہوں نے یہ اقدام اٹھایا ہے۔ سر پہ دو گولیاں لگنے کی وجہ سے موقع پہ ہی ہلاک ہو گئیں۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والی یہ خاتون ایک شاعرہ بھی تھیں اور مختصر کہانیاں بھی لکھتی تھیں۔ انکی میت تدفین کے لئے کراچی روانہ کر دی گئ۔
میں نے ایک دفعہ گوادر کے مضافاتی علاقے میں ایک سولہ سترہ سالہ لڑکی سے پوچھا کہ تم نے چار جماعتوں کے بعد پڑھنا کیوں چھوڑ دیا۔ اس نے جواب دیا 'ابا نے منع کر دیا تھا'۔ 'پھر تم نے ابا سے کیوں نہیں کہا کہ میں اور پڑھوں گی اور علاقے سے کونسلر کا الیکشن لڑونگی اور ایکدن بلوچ  زبیدہ جلال کی طرح اسمبلی میں جا کر وزیر بنونگی'۔' ابا یہ سنے گا تو تھپڑ مارے گا'۔ 'کیوں اس بات پہ تھپڑ کیوں مارے گا'۔ 'اسے زبیدہ جلال بہت بری لگتی ہے'۔ 'اسے زبیدہ جلال کیوں بری لگتی ہے'۔ 'وہ کہتا ہے عورت کو یہ سب نہیں کرنا چاہئیے'۔ میں نے یہ جواب سننے کے بعد اس کو مزید سوالوں سے پریشان کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ بلوچستان وہ علاقہ ہے جہاں ابھی ڈیڑھ سال پہلے  پانچ خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد زندہ دفن کر دیا گیا۔ اور نہیں پتہ چلا کہ اس انسانیت سوز ظلم کا شکار ہونے والی وہ لڑکیاں کون تھیں۔  جس علاقے میں عورت کی یہ اہمیت اور عزت ہو۔ وہاں بلوچ لبریشن آرمی والے کس عورت پہ تشدد کے خلاف لڑ رہے ہیں یہ نہیں سمجھ میں آیا۔
ایک بے گناہ، استاد جیسے مرتبے پہ فائز عورت جو کسی اور شہر سے آپکے بچوں کو تعلیم دینے کے لئے اپنے بچے کو چھوڑ کر وہاں ہوسٹل میں مقیم تھی۔ اسے قتل کر کے کس سے بدلہ لیا یہ بھی نہیں معلوم۔
بلوچستان، جو تعلیمی پسماندگی کا شدت سے شکار ہے، جہاں تعلیم یافتہ اور ہنرمند لوگوں کی شدید قلت ہے۔ جہاں اگر دیگر علاقوں سے لوگ نہ جائیں تو عالم یہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنی حجامت بھی نہیں بنوا سکتے کسی اور ہنر کی بات تو دور کی ہے۔ اس لئیے، یہ بھی نہیں معلوم کہ اس معصوم عورت کا قتل انکے سیاسی مقاصد کو کسقدر پروان چڑھائے گا۔
 مجھے تو یہ معلوم ہے کہ یہ ظلم ہے اور بہت زیادہ انسانیت سوز ظلم۔ یہ وہ ملک ہے جہاں ہر وقت اسلام کے نعرے بلند ہوتے ہیں جس میں حالت جنگ میں بھی ، دشمن کی عورتوں اور بچوں تک کو تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
یہ خبر مجھے روزنامہ ڈان  کے پہلے صفحے سے ملی۔
اخبار جنگ میں پہلے صفحے پہ شعیب اور ثانیہ سے متعلق دو خبریں موجود ہیں لیکن ایک استاد خاتون پہ اس بہیمانہ ظلم  کی یہ خبر پہلے صفحے پہ موجود نہیں۔ یہ ہیں ہماری ترجیحات۔
 پیپلز پارٹی بلوچستان کے صدر سینیٹر لشکری رئیسانی نے اس واقعے کی مذمت کی۔ ان کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی اسلام آباد میں بیٹھے رہتے ہیں۔ اور وہ صوبے کے مسائل کے حل میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔ 
وہ کیوں دلچسپی لیں گے۔ ہر ایک وہاں پیسے کمانے کے لئے گیا ہے۔ اسلام آباد میں بیٹھے رہنے کا مطلب یہ ہے کہ پیسوں کی بندر بانٹ والے کسی لمحے سے وہ غیر حاضر نہ ہوں۔
 ۔
.
ایک پچاس سالہ استاد خاتون کو گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک اور سیاہ کارنامے کا اضافہ ایک اور دل دکھا دینے والا سانحہ۔



اس تصویر میں ڈاکٹرز پروفیسر ناظمہ طالب کا پوسٹ مارٹم کرنے کے لئے تیار ہیں۔


Tuesday, April 27, 2010

فراز سے ایک سوال

ایک بطخ گئ ایک سکنجبین بیچنے والے کے پاس ۔ ٹخ ٹخ ٹخا ٹخ کرتی ہوئ اور کہنے لگی، کیا تمہارے پاس ہیں انگور۔ سکنجبین والے نے کہا کہ میرے پاس نہیں ہیں انگور، لیکن سکنجبین ہے میرا مشہور۔ یہ ہے تازہ، فرحت والا، جھوم اٹھے گا پینے والا۔
بطخ نے اک پر ہلایا اور نخرے سے یہ فرمایا ،کٹھا لیموں، کٹھا شربت، کٹھے کی ہے یہ ذات، مجھے تو رکھو اس سے معاف،  ۔ پھر چلی وہ کرتی، ٹخ، ٹخ، ٹخا، ٹخ۔
اگلے دن وہ پھر آگئ اور دوکاندار سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس ہیں انگور۔ اس نے کہا 'کل تو کہا تھا، بات نہیں یہ دور۔ میرے پاس نہیں ہیں انگور ، لیکن سکنجبین میرا ہے مشہور۔ پیو نہ پیو، مرضی تمہاری، کرتے نہیں ہم مجبور۔ بطخ نے کچھ سوچا اور کہنے لگی 'نہیں چاہئیے، نہیں چاہئیے، لیموں شربت نہیں چاہئیے' اور چل پڑی واپس۔  ٹخ، ٹخ، ٹخا، ٹخ۔
اگلے دن بطخ پھر آ گئ اور پھر پوچھا کہ کیا تمہارے پاس ہیں کچھ انگور۔  اب تو دوکاندار ہوا ناراض کہنے لگا' اب جو نام لیا انگور کا تو پتہ دونگا دور کا۔ لگا کے گوند تمہاری کمر پہ۔ لٹکا دونگا کسی درخت سے۔ سارا دن جب بنی رہوگی لنگور۔ پھر پوچھوگی، کیا تمہارے پاس ہیں کچھ انگور۔ بطخ نے تحمل سے اسکی یہ بات سنی اور گئ واپس پلٹ۔ ٹخ، ٹخ، ٹخا، ٹخ۔
حیران کن طور پہ اگلے دن بطخ پھر آدھمکی۔ لیکن آج اس نے پوچھا۔ کیا تمہارے پاس ہے کچھ گوند۔ دوکاندار نےدیا رکھائ سے جواب۔  گوند نہیں ہے میرے پاس،  یہاں ہے صرف شربت لیموں۔ اب سوچو تمہیں دوں یا نا دوں۔ بظخ ایک ثانئیے کے لئے ہوئ خاموش اور کہنے لگی کیا تمہارے پاس ہیں انگور۔ دوکاندار کا چہرہ بالکل بگڑ گیا۔ بطخ نے یہ دیکھ کر فوراً واپسی کا لیا راستہ۔ ایسے میں دوکاندار نے دی اسکو ایک آواز۔ بطخ پھر جو مڑی دیکھ کے حیران ہوئ۔  اک تبسم سے وہ یوں گویا ہوا، آءو میری پیاری آءو، آج کچھ انگور کھاءو۔  یہ کہہ کر اس نے بطخ کو ساتھ لیا اور قریب کے ایک اسٹور لے گیا۔ وہاں اس نے خریدے کچھ انگور  اور دئیے بطخ کو ہو کے مسرور۔  بطخ نے دیکھے انگور اور پھر کیا انہیں اپنے سے دور۔
دوکاندار حیراں ہوا اور پریشان ہوا۔ بطخ  ہچکچاتی ہوئ یہ کہنے لگی۔ آجکا دن یہ میرا، لگتا ہےگذرے گا اچھا ذرا، مجھے آیا ہے ایک خیال ، میرے ذہن میں ہے ایک سوال، تم بتاءو نہیں ہے یہ محال
۔
۔
۔
۔
کیا اس اسٹور میں تمہارے، ملتا ہے شربت لیموں پیارے؟
۔
۔
۔

میرا سوال یہ ہے فراز
پھر دوکاندار نے کیا دیا جواب؟


اسکی ویڈیو کے مزے لینا چاہیں تو حاضر ہے۔  چھوٹے بچوں کو یقیناً پسند آئے گی۔ ویسے کبھی کبھی بڑوں کے لئے بھِی چھوٹا بن جانے میں کوئ حرج نہیں۔ یہ احساس خاصہ توانا رکھتا ہے کہ کبھی ہم خوبصورت تھے۔


Monday, April 26, 2010

او کون لوگ ہو تسی

اٹھارہویں ترمیم کے نتیجے میں حاصل ہونے والی شادمانی اب عدلیہ کے دروازے پہ دستک دے رہی ہے۔ اگرچہ کہ میرا اور آپکا اس ساری ترمیم سے کیا تعلق،  اسکے نتیجے میں صدر کے اختیارات وزیر اعظم کو حاصل ہوئے، صوبہ ء سرحد کو ایک متنازعہ نام حاصل ہوا، سیاسی پارٹیز میں جماعتی الیکشن ختم کر دئیے گئے کہ ہر وقت الیکشن کی تسیح گھمانے کے بجائے کچھ اور جوڑ توڑ بھی ہونی چاہئیے اور سیاسی جماعتیں تو ویسے بھی جسکی بھینس ہیں انہی کے حوالے ہونی چائیں۔ اس طرح سے ایک خاندان ایک جماعت کو سنبھالے رہتا ہے تو زیادہ احساس ذمہ داری پیدا ہوتا ہے اور قوم کے رہ نماءووں کو ماں کی کوکھ میں ہی مناسب نعرے سننے کو ملتے ہیں جن سے انکے اندر مسائل کے حل کے لئے ایک ماورائ قوت نمو کرتی ہے۔ یہ چیز عوام میں سے ہر کس و ناکس کو نہیں مل سکتی۔
آئین میں سے جنرل ضیا کا نام نکال دیا گیا۔ اگرچہ مجھ جیسے عوامی جہلاء کی سمجھ میں خاک نہ آیا کہ اس سے مجھے لاحق مسائل کیسے حل ہونگے، مجھے تو اس ترمیم کے نتیجے میں ہی پتہ چلا کہ انکا نام آئین کا حصہ تھا۔ چلیں آئین کے اندر کیسے کیسے سقم کتنی عرق ریزی سے نکالے گئے۔ اسکے لئے ہمارے پارلیمانی اراکین اس بات کے مستحق ہیں کہ انکی پیٹھ تھپتھپائ جائے۔
 کرائے میں اضافے کے خلاف، میری بات تو بس کا کنڈیکٹر بھی سننے کو تیار نہیں۔ وہ ضیا ء الحق کو نہیں جانتا ابھی پچیس سال کا ہے اور اسکی گھٹی میں تازہ دشمنی مشرف کے نام کی ہے۔ اسے حیرت ہے کہ مشرف کا نام آئین میں سے کیوں نہیں نکالا گیا۔
یہی نہیں، بلکہ آئین میں تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کی جو پابندی مشرف کے وقت میں ڈالی گئ تھی وہ بھی ہٹا دی گئ۔ اسکے نتیجے میں ہم اور ہمارے بعد آنیوالی نسلیں بھی تین چار لوگوں کے درمیان بندر بانٹ دیکھتے رہیں گے۔ لیکن اس سے جمہوریت کی فلم کی کاسٹ محدود رہے گی جس سے زیادہ پیچیدگیاں نہیں پیدا ہونگیں اور یوں جمہوریت کو استحکام حاصل رہے گا۔
کسی سیاسی پارٹی کا سربراہ منتخب اسمبلی کے وزیر اعظم کو معطل کرنے کی صلاحیت حاصل کر لے اس سے بڑھ کر جمہوریت کی فتح کیا ہو سکتی ہے۔ یقیناً جمہوریت بہتر انتقام ہے خاص طور پہ ان سے جو اپنے ووٹوں سےمنتخب کروا کے لاتے ہیں۔
 اسی طرح کی مزید ترمیمات سے پُر مسودہ صدرصاحب کے حضور اسمبلی اور سینیٹ سے گذر کر پیش ہوا اور اس پہ انہوں نے دستخط کر کے اپنا نام امر کر لیا۔
 پھر اسکے بعد پاکستان کا ایک اور اہم مسئلہ بے نظیر کی شہادت کا معمہ حل کرنا تھا۔ گو کہ اس سے پہلے ہونے والے کسی بھی سیاسی قتل کو معلوم نہ کیا جاسکا اسکی وجہ شاید  مقول کےورثاء کو حکومتی عہدہ نہ ملنا ہو۔  لیکن اس دفعہ یہ ہماری منتخب جمہوری حکومت کا ایک اہم ٹاسک تھا، ورنہ اسکی عوامی شہرت مشکوک ہو جاتی کہ انہوں نے اپنی عوامی انتخابی مہم اسی نعرے پہ جیتی تھی۔ ایک وجہ یہ بھی بتائ گئ  کہ چونکہ صدر صاحب کو قاتلوں کے نام پہلے سے معلوم تھے تو انہوں نے اسے ایک پرچی پہ لکھ کر چھپا دیا اور اقوام متحدہ کی ٹیم سے کہا کہ بوجھو تو جانیں۔ اقوام متحدہ کی ٹیم کو شروع میں پتہ نہیں تھا کہ یہ ایک کھیل ہے۔ پس انہوں نے کچھ ایسی رپورٹ بنادی کہ اس میں وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کو بھی مشتبہ قرار دے دیا۔ رپورٹ تیار ہو جانے کے بعد مزید پندرہ دن تک اس رپورٹ کو روک کر رکھا گیا کہ ایسی عقل سے پیدل ٹیم کو کچھ سمجھا بجھا لیں کہ یہ ایک کھیل تھا۔ لیکن انہیں یقین نہیں آیا کہ ساٹھ ملین ڈالر یعنی تقریباً پچاس کروڑ پاکستانی روپے صرف کھیل کے کیسے ہو سکتے ہیں۔ 
اب چونکہ حکومت یہ ارادہ پہلے ہی کر چکی تھی  کہ اس سب کے بعد مشرف کو واپس پاکستان لاءو پھانسی دلاءو جیسے عوام کے خون کو گرم کر دینے والے نعرے لگانے ہیں جس سے انکی توجہ اپنے پیٹ سے مشرف کی گردن کی طرف ہو جائے گی۔ اس لئے اقوام متحدہ کی ٹیم کی ہٹ دھرمی کے باوجود اسکرپٹ میں کوئ تبدیلی نہیں کی گئ۔ رحمن ملک ابھی بھی اپنے عہدے پہ موجود ہیں البتہ حکومت نے اس فلم میں مزید دلچسپی پیدا کرنے کے لئے کہا ہے کہ وہ مشرف پہ مقدمہ چلانے میں ذرا تاءمل نہیں کرے گی۔
آگے کیا ہوگا، کیا حکومت مشرف کو واپس لائے گی ؟، وفاقی وزیر داخلہ ترقی کر کے کس عہدے پہ پہنچیں گے؟ بی بی کی روح سے کیا گیا وعدہ کیا پورا ہوگا؟ باقی روحوں سے کئے گئے وعدے کون پورا کرےگا؟ زندہ عوام سے کئے گئے وعدوں کی باری کب آئے گی؟ اسکے لئے ہم ایک نیا بلاگ کھولنے والے ہیں جہاں ستاروں کی روشنی میں تبادلہ ء خیال ہوگا۔
ادھر اٹھارویں ترمیم پہ عدالتی چارہ جوئ نامی متوقع موڑ آ چکا  ہے۔ اپوزیشن جماعت مسلم لیگ نون نے کہا ہے کہ عدلیہ کو اپنا احترام برقرار رکھنا ہے تو اس ترمیم کو چیلینج کرنےوالے مقدمات کو نہ لیاجائے۔ ادھر بے نظیر کے قاتلوں کو پھانسی لگاءو سیریل بھی روانی سے چل پڑی ہے۔ اور عوام اسٹارپلس کے ساس بھی کبھی بہو تھی قسم کے ڈرامے چھوڑ کر پنڈولم کی طرح سر ہلا کر کبھی ایک فلم کے پرومو کو اور کبھی دوسری فلم کے پرومو کو دیکھتے ہیں۔

لیکن ابھی کہانی میں صحیح سے ٹوئسٹ نہیں آیا۔

اب ان دو عظیم مسائل کے ممکنہ حل اور باکس آفس پہ کامیابی کے بعد کیا بچا ہے، جسے حل کیا جائے۔ سیاسی لیڈران جپھیاں ڈالے ابھی اس بات پہ سوچ بچار کر ہی رہے تھے  کہ کسی منچلے نے کہہ دیا کہ بجلی کی کمی ہو چلی ہے، چلیں منہ کا ذائقہ بدلنے کو اسے بھی دیکھ لیں۔ ورنہ ایسا نہ ہو کہ بھری کریال میں غلیلہ لگے، کیونکہ عوام کے پاس اب غلیل کے علاوہ کیا ہے۔ 
سرکار نے وہیں بیٹھے  بیٹھے اپنے نائ سے جاسوسی کروائ اور پھر فوری طور پہ یہ فیصلے کر ڈالے کہ مارکیٹ روزانہ آٹھ بجے بند ہوگی، گھڑیاں آگے کردو، ہفتے کی دو چھٹیاں کر دو۔ اب کسی  نے اپنے اخروٹ کو توڑتے ہوئے کہا کہ عوام کہہ رہے ہیں کہ نئے بجلی گھر بنائے جائیں ورنہ ہم جو بچا تھا وہ لٹانے کے لئے آئے ہیں پرفارم کر کے دکھائیں گے۔ اطلاع ہے کہ انہوں نے اس اخروٹ کی گری کھاتے ہوئے عبرت کے لئے ایک اور اخروٹ دیوار پہ دے مارا، انکے خانساماں نے فوراً معاملات کو سنبھالا کہ ایک تو نئے بجلی گھر نامی ڈش کو پکنے میں وقت لگے گا کہ اسے اتنی محنت اور وقت چاہئیے جتنا کہ حلیم یا پائے کو پکنے میں چاہئیے ہوتا ہے اور  پھر یہ نہیں معلوم کہ مناسب کمیشن کس کے حصے میں چلا جائے۔  دوسرا کرائے کے بجلی گھر  نامی ڈش کے غذائ فوائد زیادہ ہیں اور یہ سرکار کی صحت اور جیب دونوں پہ اچھا اثر ڈالتی ہے کہ اسکے نتیجے میں کمیشن کی چٹپٹی چٹنی زیادہ ملتی ہے اور فوراً ملے گی۔

اس کہانی میں عوام بھی موجود ہیں،  ایک منظر میں عوام جلاءو گھیراءو کر رہے ہیں کہہ رہے ہیں کہ

بجلی کے بڑے چوروں کو پکڑیں۔ لیکن لگتا ہے کہ عوام  نہیں جانتے کہ  سیاں بنے کوتوال تو ڈر کاہے کا محاورہ کیوں وجود میں آیا ہے۔ ویسے بھی جب عوام خود بہتی گنگا کو اپنے ووٹوں سے چوروں کی جیب میں ڈال رہے ہیں تو کون کافر اس میں ہاتھ دھونے سے انکار کرے گا۔
یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر عوام ایسا کیوں خیال کرتے ہیں، وہ کیوں یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں خواص نہ رہیں سب عوام بن جائیں۔  ایک تو ذرا اپنی طرف دیکھیں جیسے کرتوت ویسے سپوت۔ اور کہیں صرف عوام سے بھی کوئ ملک چلا ہے۔ او کون لوگ ہو تسی۔

حوالہ؛
بجلی کی چوری

Saturday, April 24, 2010

کون لوگ ہو تسی

آسٹریلیا پہلی دنیا سے تعلق رکھنے والا ملک ، پاکستان کے مقابلے میں تقریباً سات گنا زیادہ رقبہ رکھتا ہے۔ پاکستان کی آبادی اس وقت تقریباً سترہ کروڑ ہے اور آسٹریلیا کی آبادی تقریباً بائیس ملین یعنی دو کروڑ ہے۔ آسٹریلیا کی فی کس سالانہ آمدنی تقریباً انتالیس ہزار  ڈالر بنتی ہے۔ اور پاکستان کی فی کس سالانہ آمدنی ایک ہزار ڈالر سالانہ بنتی ہے۔ 
اب آپ سوچیں گے کہ اس وقت مجھے آسٹریلیا کیوں مل گیا ہے پاکستان سے مقابلے کے لئے۔ اسکی دو وجوہات ہیں ایک تو میں ابھی کچھ ہی مہینے پہلے وہاں ایک قلیل مدتی قیام کے لئے موجود تھی۔ اس سے  کچھ سال پہلے بھی میں وہاں ذرا زیادہ عرصے کے لئےرہ چکی ہوں اور اسکی دوسری بڑی وجہ لوڈ شیڈنگ سے نبٹنے کے لئے نئے حکومتی منصوبے کا اعلان ہے۔
ان دونوں میں ایک بات مشترک ہے۔ آسٹریلیا میں تمام صنعتی ادارے شام کو پانچ بجے بند ہو جاتے ہیں جس میں بازار بھی شامل ہیں۔ اور تمام کھانے پینے کی جگہیں شام کو سات بجے بند ہوجاتی ہیں۔ سوائے کچھ مخصوص جگہوں کے جن میں کھانے پینے کی کچھ جگہیں اور کچھ اور مثتنشیات شامل ہیں جو کہ رات کو دس بجے تک کھلی رہتی ہیں۔ شام کو سات بجے تمام سرگرمیاں ماند پڑ جاتی ہیں۔ بازاروں کے اس طرح سر شام بند ہونے سے وہ لوگ جو آفسز میں کام کرتے ہیں انہیں مسئلہ ہو سکتا ہے اسکے لئے ہفتے میں ایکدن ایسا ہےجسے شاپنگ نائٹ کہتے ہیں اس دن بازارزیادہ سے زیادہ نو  بجے رات تک کھلے رہتے ہیں۔ تمام مارکیٹس صبح سات بجے کھل جاتی ہیں۔ اور یہ بالکل ممکن ہے کہ آپ اپنے بچے کو اسکول چھوڑتے ہوئے واپسی میں خریداری کرتے  ہوئے آجائیں۔
کم و بیش یہی حال میں نے تھائ لینڈ میں دیکھا۔ تمام بازار سات بجے بند۔ شام ساڑھے چھ بجے سے شاپنگ مالز میں اعلان رخصت کی سیٹیاں بجنا شروع ہو جاتی ہیں۔ حتی کہ پہلے دن میرے ساتھیوں کے اس چیزکو سنجیدگی سے نہ لینے کی وجہ سے ہمیں تقریباً رات کو بھوکا رہنا پڑا،محض ڈبل روٹی سے کس کا بھلا ہوتا اور اتنی رات کو سوائے کسی فائیو اسٹار ہوٹل کے جو ہماری جگہ سے خاصہ دور تھا کہیں سے حلال کھانا  تو دور حرام بھی ملنے کا کوئ امکان نہ تھا۔ تمام مارکٹ صبح آٹھ بجے کھل جاتی ہیں۔
اب پاکستان آئیے، کراچی میں مارکیٹ دن کے ایک بجے کھلنا شروع ہوتی ہے جو رات کو گیارہ بارہ بجے تک بند ہوتی ہے۔ گویا عملی طور پہ دن آدھے دن کے بعد شروع ہوتا ہے کہ کاروباری طبقہ اس وقت سو کر اٹھتا ہے۔ پھر رات کے بارے میں کہہ دیا جاتا ہے کہ رات تو اپنی ہوتی ہے۔
اب سے چند مہینے پہلے، جب تک شادی کے اوقات کی پابندی مقرر نہ ہوئ تھی۔ عالم یہ تھا کہ خواتین دس بجے رات کو درزی کے پاس کھڑی کپڑوں کا انتظار کرتی تھیں کہ یہ کپڑے پہن کر تیار ہو کر انہیں بارہ بجے کسی شادی میں پہنچنا ہوتا تھا اور اس شادی کا کھانا رات کو دو بجے کھایا جاتا تھا۔اور اس شادی کی تقریب کا اختتام صبح چار بجے ہوتا تھا۔
ترقی یافتہ ممالک تو اپنی بجلی بچانے کے اتنے سخت قوانین بنا کر ان پہ عمل کر ہے ہیں۔ لیکن ہم جیسے غریب ممالک میں کیا ہوتا ہے۔  پاکستانی حکومت کے اس اعلان کے بعد کے کاروبار رات کو آٹھ بجے بند کر دیا جائے تاجروں نے اسکی عدم تعمیل کا اعلان کیا ہے۔ ایک طرف ہم بجلی کی کمی کا رونا رو رہے ہیں ہمارے کارخانوں میں، ہسپتالوں میں، اسکولوں میں بجلی نہیں ہے۔ اور دوسری طرف ہم بطور حکمران یا بطور عوام اپنی کاہلی، نکمے پن اور عیاشی سے بھی نجات نہیں پانا چاہتے ہیں۔ کون لوگ ہو تسی؟

Thursday, April 22, 2010

کزن میرج، ایک اور تجزیہ

کافی عرصے سے کزن میرج پہ لکھنا چاہ رہی تھی۔ لیکن جب اسکے متعلق ایسی تحریریں پڑھیں جس میں لوگوں نے اپنے ذاتی تجربات کے ذریعے اسکے کسی بھی نقصان دہ پہلو کو خدا پہ ڈالدیا تو یہ خیال آیا کہ اس پہ ضرور لکھنا چاہئیے۔ ذاتی تجربات تو نہیں کہ میرے خاندان میں کزن میرج کا ایسا کوئ خاص رواج نہیں۔ لیکن مشاہدات سے کزن میرج ایک صحتمند ، توانا اور ذہنی طور پہ چست نسل کے لئے کوئ بہتر خیال نہیں ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ شادی کے نتیجے میں ہر دو فریقین کی ترجیح ایک صحتمند اولاد ہی ہوتی ہے اور ایسا کم ہی ہوتا ہے بالخصوص جنوبی ایشیائ گھرانوں میں کہ شادی کا مقصد صرف ایک وفاداراور پر جوش رفاقت ہو۔

اگر میں صرف اپنے ذاتی مشاہدات گنوانے بیٹھ جاءووں جو اندرون سندھ کے کسی دور افتادہ گاءوں سے، کراچی میں ایسے خاندان جہاں خاندان سے باہر شادی ہرگز نہیں ہوتی پہ مشتمل ہے۔ تو ان سب میں بچوں کی معذوری یا پیدائش کے فوراً کسی پیچیدگی کا شکار ہونا یا کسی ایسے عارضے میں مبتلا ہونا جیسا کہ دل کے والو کی خرابی  یہ ان جوڑوں میں زیادہ پائ جاتی ہے جو کہ کزن ہوتے ہیں۔

جو تحریریں میں نے اس ضمن میں پڑھیں اس میں ایک بات کو بری طرح نظر انداز کیا گیا اور وہ یہ کہ یہ صرف کزن میرج نہیں،  بلکہ پشت ہا پشت تک ایک ہی نسل میں شادی کا رجحان ہے۔  کبھی کسی کا اپنے کزن سے شادی کرنے کا دل بہت ہو، کچھ اور معاشرتی مسائل ہوں تو الگ بات ہے۔ لیکن صرف کزن سے شادی کرنا یہ ایک صحت مند طرز عمل نہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر کوئ سانحہ آپکے ساتھ نہیں ہوا تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ اب اس عمل کو درست قرار دے دیا جائے۔ اگر میں آپکو دو طرح کے پریشر کوکر دکھاءووں اور کہوں کہ الف کے ساتھ ککر پھٹنے کے امکانات ساٹھ فی صد ہیں اور ب کے ساتھ ککر پھٹنے کے امکانات دس فیصد تو کوئ بھی عقلمند شخص دس فیصد والے کو خریدے گا۔ اگرچہ اسکی قیمت معمولی سی زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔

کزن میرج کے ساتھ بالعموم یہ مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے کہ اسے دین اسلام پہ حملہ تصور کر لیا جاتا ہے۔ مذہب کزن میرج کی اجازت دیتا ہے اسے لازمی نہیں بناتا۔ یہ اجازت تو اپنے لے پالک بچے کے شوہر یا بیوی سے شادی کرنے کی بھی ہے لیکن اسکے لئے اب ہر مسلمان پہ لازمی نہیں کہ وہ کوئ بچہ لے کر پالے پھر اسکی شادی کر کے اسکے اپنے جوڑے سے الگ ہونے کا انتظار کرے۔

مغربی ممالک میں بھی تقریباً  سو سال پہلے تک کزن میرج ہوتی تھی۔ مشہور زمانہ ارتقاء کا نظریہ پیدا کرنے والے سائنسداں  چارلس ڈارون کی بیوی اسکی کزن تھی اور آئینسٹائن کی دوسری بیوی بھی اسکی کزن تھی۔ لیکن بعد میں مغرب نے اسکے برے اثرات کے پیش نظر اسے اتنا کم کر دیا کہ اب زیادہ تر حالات میں مغربی معاشرے میں کزن سے شادی سگے بہن بھائ کی شادی کی طرح ہی بری تصور کی جاتی ہے۔ اور اب وہاں کچھ حلقے یہ مہم چلاتے ہیں کہ کزن میرج کوئ مذہباً بری بات نہیں ہے۔
اب ہم اسکے سائینسی تجزئیے کی طرف آتے ہیں اور اسے مینڈل کے وراثتی قانون کے تحت دیکھتے ہیں۔

ایک نسل سے دوسری نسل تک خصوصیات جینز کے ذریعے منتقل ہوتی ہیں۔یہ جینز کروموسومز پر موجود ہوتے ہیں۔ ہر انسان میں کروموسومز کے تیئیس جوڑے پائے جاتے ہیں۔ عورتوں میں یہ جوڑا دو ایکس پہ مشتمل ہوتا ہے اور مردوں میں ایک ایکس ہوتا ہے اور دوسرا وائ۔ بچے اپنے کروموسومز کے جوڑوں کا ایک حصہ باپ سے اور دوسرا ماں سے حاصل کرتے ہیں۔ لڑکوں میں ماں سے کروموسوز کا ایکس حصہ اور باپ کی طرف سے وائ حصہ آتا ہے۔ اور لڑکیوں میں ماں کی طرف سے ایکس اور باپ کی طرف سے بھی ایکس حصہ آتا ہے۔ اسی لئے بعض جینیاتی بیماریاں لڑکوں کی طرف سے، بعض لڑکیوں کی طرف سے اور بعض دونوں سے چلتی ہیں۔

کروموسومز دھاگے جینز سے بنے ہوتے ہیں اور یہ جینز پیغامات رکھتے ہیں کہ ہماری ممکنہ شکل و صورت، رنگ بال، ذہن مزاج حتی کہ بیماریاں کیا ہو سکتی ہیں۔والدین کے  جینز آپس میں ملتے ہیں تو ان میں والدین کی جینز کے سب خواص موجود ہوتے ہیں۔

جینز پہ لکھے ہوئے یہ پیغامات جو ہماری نسل کے آغاز سے اس پہ موجود ہیں۔ سب کے سب ہم میں ظاہر نہیں ہوتے۔ کچھ جو مضبوط ہوتے ہیں ظاہر ہو جاتے ہیں اور جو کمزور ہوتے ہیں وہ جینز میں موجود تو ہوتے ہیں مگر اس وقت خاموش ہوتے ہیں انہیں مغلوب جینز کہتے ہیں۔ جیسے والدین میں سے ایک آنکھیں نیلی ہیں اور دوسے کی براءون تو اگر بچے کی آنکھیں نیلی ہیں تو یہ جین غالب آگئ اور براءون جین کا پیغام چھپپا ہوا ہے۔ اگلی کسی نسل میں یہ براءون جین والا پیغام ممکن ہے کہ سامنے آجائے اور نیلی جین والا مغلوب ہو جائے۔


اب اگر آپ  اس دی گئ  شکل پہ تھوڑا سا غور کریں تو ہرے رنگ کی اشکال صحتمند والدین کی ہیں انکے بچے بھی صحتمند ہونگے۔دوسرے جوڑوں میں کسی ایک کا آدھا حصہ سفید دکھایا گیا ہے اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انکے بچوں میں بھی انکے اثرات موجود ہیں۔ جو بچے آدھے سفید اور آدھے ہرے ہیں ان میں بیماری کے جینز تو موجود ہیں لیکن وہ ان میں ظاہر نہیں ہوتے بلکہ ان بچوں میں یہ صلاحیت ہے کہ آگے والی نسل میں اسے ٹرانسفر کر دیں۔ انہیں کیریئر کہتے ہیں۔ یعنی خود نہ متائثر ہو لیکن اگلے کو پہنچا سکتا ہو۔ اب اگر انکا ملاپ کسی ایسے شخص سے ہوتا ہے جو خود بھی کیریئر ہے تو اس بیماری کے ہونے کے امکانات کہیں زیادہ ہونگےجیسا کہ بعد کی تصویروں سے ظاہر ہے۔



کئ پشتوں تک ایک ہی نسل کے لوگ اپنے  کزنز سے شادی کرتے رہیں
تو کمزور جینز کے غالب ہونے کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔ اسکی مثال اس طرح ہے کہ اگرجینز میں دس نسل پہلے کسی ایک کو دل کی خرابی کا مرض لا حق تھا تو مسلسل دس نسلوں تک اآپس میں شادی کے نتیجے میں دل کی خرابی کے امکانات بڑھتے چلے جائیں گے۔ کیونکہ ہر جین کے اندر اسکا پیغام چھپا ہوگا۔ جسکی فریکوئینسی بڑھنے سے وہ زیادہ ہوتا چلا جائیگا۔

اچھا ۔جانوروں میں ایک چیز اور ہوتی جو ان بریڈنگ کہلاتی ہے۔ اس عمل میں اعلی ترین نسلی خواص رکھنے والے جانوروں کی اولادیں حاصل کی جاتی ہیں اور پھر ان اولادوں میں جنکے بہترین خواص ہوتے ہیں انکی میٹنگ کراتے ہیںیعنی کزن میرج۔ یہ عمل ہر بار اعلی خواص رکھنے والی اولادوں کیساتھ دوہرایا جاتا ہے۔ اس طرح کمزور خواص رکھنے والی جینز آہستہ آہستہ باہر ہوجاتی ہیں اور اعلی خواص رکھنے والی جینز قائم رہتی ہیں۔

یہ خاصہ ٹیکنیکل کام ہوتا ہے۔ اسکے نتیجے میں ایک اعلی خواص رکھنے والی نسل تو حاصل ہوجاتی ہے۔ لیکن ایک اور خامی پیدا ہو جاتی ہے جسے ان بریڈنگ ڈپریشن کہتے ہیں۔ اور اسکی وجہ سے اگر کوئ ایک کمزوری کسی ایک جین میں ہو تو وہ اس نسل کی تمام جینز کے اندر ہونے کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔ جیسے میرے ایک کولیگ جن کے یہاں شادی خاندان سے باہر قطعاً نہیں ہوتی تھی۔ ان کی ایک بہن کے تین بچے تھے اور تینوں بچوں کو جلد کی ایک ایسی بیماری تھی جسکا کوئ علاج نہ تھا۔ میری سرائیکی ماسی کے خاندان میں پچھلے دو سال میں تین نوزائیدہ بچوں کا انتقال دل کے والو کے کام نہ کرنے کی وجہ سے ہو اور تین بچے دماغ کی کمزوری کا شکار ہیں۔

ایک ریسرچ کے ذریعے یہ بات واضح کی جا چکی ہے کہ جتنا  کزن میرج کو دہرایا جاتا ہے اتنا ہی بچوں میں جسمانی کمزوریاں اور دماغی صلاحیتیں کم ہونے کا اندیشہ بڑھتا رہتا ہے۔ اور اسکی مثال وہ اس طرح دیتے ہیں کہ یہ اثر اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے جتنا کہ بیالیس سال کی عمر کے بعد کسی خاتون کے پیدا ہونے والے بچے میں کسی بھی قسم کی خرابی یا معذوری کا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

اب اگر کوئ یہ کہے کہ اپنے سے بڑی عمر کی خاتون سے شادی کرنے میں کوئ مضائقہ نہیں اور اسلام اسکی اجازت دیتا ہے بلکہ رسول اللہ نے اپنی نوجوانی کا زمانہ اپنے سے پندرہ سال بڑی خاتون کے ساتھ گذارا اور وہ بھی ایک دو تین سال نہیں پورے پچیس سال تو  سب خاموش ہو جائیں گے اپنے سے بڑی خاتون تو آنٹی ہی ہو سکتی ہیں۔دل مزید نرم کر لیں تو باجی۔ مگر بیوی، لا حول ولا قوت۔ بس۔ مگر کزن میرج پہ سب دلیلیں دینے لگتے ہیں کہ خدا کا نام لیکر کر ڈالوجی کچھ نہیں ہوتا۔

اس ساری تحریر کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپکے خاندان میں کئ نسلوں سے کزن میرج کا سلسہ چل رہا ہے تو خاندان سے باہر نکل کر دیکھیں۔ دو مختلف جینز بہتر نسلی خصوصیات لاتی ہیں۔ معاشرے کے اندر توازن اور برداشت پیدا کرتی ہیں۔ ذہن کی تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز کرتی ہیں۔ اور ان سب چیزوں کی  ہمیں بے حد ضرورت ہے۔

Tuesday, April 20, 2010

کون بنے گا قفال شاشی

وہ شہر کا مشہور قفال یعنی قفل یا تالے بنانے والا تھآ۔ اور اس معاملے میں اسکی شہرت دور دور تک تھی۔ بادشاہ بھی اسکی مہارت کے قدر دانوں میں سے تھا۔ اور اس وجہ سے اسے بھی اپنے اوپر اپنے  بڑا فخر تھا۔ 
اپنی قفل سازی کے مختلف نمونوں کی تعریف بادشاہ سے سننے کے لئے وہ بڑی محنت سے اپنے نمونوں پہ کام کرتا اور بادشاہ کے دربار میں انہیں لیکر حاضر ہوتا۔  بادشاہ بھی اس معاملے میں بخیل نہ تھا۔ ایک دن دربار لگا ہوا تھا۔ بادشاہ لوگوں سے ملاقات کر رہا تھآ اور قفال شاشی خاموشی سے بیٹھے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے کہ کب شرف باریابی ہو اور وہ اپنی مہارت کا ایک اعلی نمونہ بادشاہ کو دکھائیں۔ خدا خدا کر کے انکی باری آئ اور ابھی بادشاہ نے انکی تخلیق کو دیکھنا شروع ہی کیا تھا اور قفال شاشی اس لمحے کے لئے ہمہ تن گوش تھے کہ کب بادشاہ کے منہ سے تحسین کے الفاظ نکلیں کہ غلام نے ایک شخص کے آنے کا اعلان کیا۔  بادشاہ نے اپنے ہاتھ میں پکڑا انکی مہارت کا نمونہ ایک طرف رکھا اور آنیوالے شخص کی تعظیم میں کھڑا ہو گیا۔ وہ شخص جب دربار میں داخل ہوا تو بادشاہ نے اسے اپنے برابر جگہ دی۔ یہ وہ تعظیم تھی جو ہزارہا تعریف کے باوجود کبھی بادشاہ نے انہیں نہ دی تھی۔ قفال شاشی کے دل کو دھچکہ پہنچا۔ یہ کون ہے جس نےانکے فخر کو دھندلا دیا۔
 معلوم ہوا کہ وہ شہر کے مشہور عالم ہیں۔ اس دن قفال شاشی کا دل بجھ گیا۔
وہ گھر واپس آئے اور اپنے اوزار ایک طرف رکھ دئے۔ اگلے دن سے قفال شاشی کی انگلیوں نے لوہے کی کھٹ پٹ چھوڑ کر کتاب کے اوراق پلٹنے شروع کر دئے۔
امام ابو بکر ابن علی ابن اسمعیل القفال الشاشی اسلام علوم حدیث، صرف و نحو کے بڑے عالم بنے۔ انہوں نے علم کی تحصیل کے لئے دوردراز کے علاقوں کا سفر کیا۔ وہ ایک بڑے شاعر بھی تھے۔ الحکیم کا کہنا تھا کہ وہ جنوبی عراق میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے شخص تھے۔
انکا مقبرہ ازبکستان میں ہے۔ اس مقبرے کے داخلی دروازے کی بلندی کم رکھی گئ ہے تاکہ جو بھی اس میں داخل ہو اس عالم کی علمیت کی شان میں اپنے سر کو جھکا کر تعظیم دے۔
بادشاہ کے دربار میں بجھے ہوئے قفال شاشی کے دل نے  فخر اورعظمت کی وہ شمع جلائ جو رہتی دنیا تک جلتی رہے گی۔
حوالہ؛


Monday, April 19, 2010

ذوق اور فوق

اچھا یہ معلوم ہے کہ جانوروں میں عام طور پہ نر، مادہ سے زیادہ خوشگوار شخصیت رکھتے ہیں۔  میں نے موم بتی روشن کرتے ہوئے اندھیرے کا موضوع چھیڑا۔ جواب ملا مجھے تویہاں لفظ شخصیت پہ ہی اعتراض ہے۔ اور جانوروں میں ہی کیا انسانوں میں بھی نر زیادہ خوبصورت ہوتے ہیں۔ میں نے فورا شخصیت لفظ واپس لیا، حالانکہ اس پہ بحث ہو سکتی تھی اور شاید میں انہیں قائل بھی کر لیتی کہ جانوروں کی بھی شخصیت ہوتی ہے۔ لیکن اس سے دوسرے موضوع کے لئے توانائ کم ہو جاتی، جبکہ ہم پہلے ہی توانائ کے بحران کی وجہ سے نیم اندھیرے میں تھے۔ توانائ کے بحران سے تو آپ آجکل اچھی طرح واقف ہونگے۔ لیکن چونکہ اس سے انسانی نروں کی خوبصورتی پہ کوئ فرق نہیں پڑتا تو ہم اس سے بھی صرف نظر کرتے ہیں۔
موم بتی کی اس روشنی میں، میں نے ان سے دریافت کیا کہ پھر خواتین کے مقابلہ ء حسن کیوں ہوتے ہیں۔ مردوں کے کیوں نہیں ہوتے, اب باڈی بلڈنگ کو اس ضمن میں مت لے آئِے گا۔ کمزور دل صاحبان پہ واضح کر دوں کہ اس سے میری انسانی نروں کی ظاہری ہتک مقصود نہ تھی۔  جواب ملا کہ اب اگر اتنی گرمی میں شمع رخ روشن کے آگے رکھ بھی لیں تو سوائے مزید گرمی لگنے کہ کوئ پروانہ نہیں آئیگا۔ پروانے برسات میں پیدا ہوتے ہیں۔ میں حیرانی سے انکا منہ دیکھتی ہوں۔ اس نیم جان حالت میں اس طرح کے تجریدی بیانات سے لو لگ سکتی ہے۔ سو، میں پھر جانوروں کو پکڑتی ہوں۔
تمام نر خوبصورت ہوتے ہیں کیونکہ انہیں مادہ کو لبھانا ہوتا ہے۔ نر مور جو اپنے حسین ملکوتی رنگوں کے پر پھیلا کر ناچتا ہے تو وہ مورنی کو اپنے خوبصرت رنگوں اور اپنے رقص کے انداز سے سحر میں لے آتا ہے۔ اگر دو تین نر مور ہوں تو مادہ اس میں سے اسکے ساتھ رہنا چاہتی ہے جو زیادہ خوبصورت پر اور انداز رقص رکھتا ہو۔

 
نر ہرن کے سینگ جتنے بڑے ہوتے ہیں مادہ ان پہ اتنی فدا ہوتی ہے۔ سینگ جتنے بڑے ہوں رقیب بھی اتنے ہی کم ہوتے ہیں۔ 


حتی کہ شیر کو بھی، شیرنی کو رجھانے کے لئے اپنے ایال کے بال، اپنی دھاڑ، دوڑ اور دوسرے نروں سے جنگ جیت کر دکھانی پڑتی ہے۔


پرندوں میں کچھ پرندے اپنے خوبصورت پر اورکچھ اپنے پروں کے سائز اور کچھ اپنے گھونسلے بنانے کی مہارت دکھا کر دل موہ لیتے ہیں۔  

کوئل کی خوبصورت دل پگھلا دینے والی کوک مادہ کوئل نہیں بلکہ نر کوئل نکالتا ہے مادہ کوئل تو بس کک کر کے رہ جاتی ہے۔ الغرض سب ہی نر اپنے اندر موجود خصوصیات کو مادہ کے سامنے بہتر طریقے سے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ انکی جانب ملتفت ہو۔ انہیں قبولیت بخشے اور انکے ساتھ رہنے پہ راضی ہو۔
خیریت مجھے کچھ فساد کی بو آ رہی ہے. نہیں یہ موم جلنے کی بو ہے۔ اور، اس میں فساد کی کیا بات ہے۔ ایسے ہی مجھے خیال آیا کہ انسانی مادائیں جانوروں کی ماداءووں کے مقابلے میں خاصی کم ذوق نہیں ہوتیں۔

Saturday, April 17, 2010

نئے افکار انکا حصول اور ترویج-۱۰

جب بابر نے ہندوستان فتح کیا تو اس نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ہندوستان پہ حکومت کے لئے مذہبی رواداری ضروری ہے۔ اس نے ہمایوں کو جو وصیت کی وہ اس میں تفصیل سے اپنے بیٹے کو لکھتا ہے کہ یہاں مختلف المذاہب لوگ آباد ہیں۔ تم مذہبی تعصب کوہرگز اپنے دل میں جگہ نہ دو، گائے ذبح کرنے سے پرہیز کرنا اس سے تمہیں لوگوں کے دل میں جگہ مل جائے گی۔ کسی قوم کی عبادت گاہ مسمار نہیں کرنا۔ اسلام کی اشاعت ظلم و ستم کی تلوار کے مقابلے میں لطف و احسان سے بہتر ہو سکے گی۔ شیعہ سنی اختلافات ہمیشہ نظر انداز کرتے رہو کہ ان سے اسلام کمزور پڑے گا۔
اکبر اپنے ابتدائ دور میں سخت مذہبی تھا لیکن اس وقت بھی وہ صلح کل اور رواداری کا حامی تھا اور اسکی مذہبیت وسیع القلبی میں حائل نہ تھی۔ تخت نشینی کے کچھ عرصے بعد اسے ہی اسے علماء کی تشدد پسندی، دنیاداری، اور ظاہرداری سے نفرت ہو گئ اور اس نے یہ کوشش کی کہ علماء کے اقتدار اور اثر کو ختم کر کے اپنی طاقت مستحکم کرے۔ اس لئے اس نے اشتراک کی تحریک اور رجحان کو سیاسی تحفظ دیا۔
ملک گیری آسان، ملک رانی مشکل، اس نے ہندوءوں میں اعتماد پیدا کرنے کی غرض سے اور مذہبی رواداری کے لئے جزئیے کو ختم کیا ، ہندوءوں سے یاترا ٹیکس اٹھایا اور حکومت کے اقتدار میں غیر مسلموں کو برابر کی شرکت دی۔ مغلیہ نظام حکومت کا ممعمار اکبر تھا۔
اکبر کی مسلسل فتوحات اور اسکے کامیاب نظم و نسق کا راز، سب سے زیادہ ان امرا ء اراکین سلطنت کی قابلیت، فرض شناسی اور وفادری میں پنہاں ہے جو اکبر نے اپنے گرد جمع کر لئے تھے۔اکبر نے تمام اہم اعلی اسامیوں کے لئے ایک منصب داری نظام قائم کر دیا، جسکے اراکین ملک کی تمام اہم اسامیوں پہ فائز ہوتے تھے۔اچھی کارکردگی پہ انکی ترقی کے امکانات تھے اور وہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں تبدیل ہوتے رہتے تھے، انکے انتخاب اور تربیت پر بڑی توجہ ہوتی تھی۔
اکبر کا ایک ا اہم کارنامہ معاملہ ء زمین کا بندو بست تھا۔ جس کے لئے اس نے تجربے کار اور سمجھ دار اراکین جیسے ٹوڈر مل اور امیر فتح اللہ شیرازی سے کام لیا۔
اس نے علوم و فنون کی سر پرستی کی۔ اور ملک الشعراء کا عہدہ پہلی مرتبہ اکبر کے زمانے میں قائم ہوا۔

درباری مءورخ کا آغاز بھی اسی زمانے میں ہوا۔ مصوری اور موسیقی کی وسیع سرپرستی کی گئ۔ اکبر خود ان پڑھ تھا لیکن اہل علم کی قدر کرتا اور مشہور کتابیں باقاعدگی سے پڑھوا کر سنتا، حتی کے اس نے اپنی نا خواندگی کی تلافی اس طرح کی کہ دربار میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع ہو گیا اور دارلخلافہ ایک طرح کی اکیڈیمی بن گیا۔ ابو الفضل کا کہنا ہے کہ مشہور کتابوں میں شاید ہی کوئ ایسی ہو جو اکبر نے پڑھوا کر نہ سنی ہو۔
اکبر کی پالیسی کے دو پہلو تھے۔ ایک انتظامی اور سیاسی معاملات میں صلح کل کی پالیسی اور دوسرے مریدان شاہی اور دوسروں کے لئے قواعد و آئین کا وہ ملغوبہ جسے کچھ دین الہی کہتے ہیں لیکن بدایونی اور ابو الفضل آئین راہنموئ یا ارادت یا مریدی کا نام دیتے ہیں۔ دین الہی کی بنیاد عبادت خانے کی تلخ اور شر انگیز بحثوں میں رکھی گئ ۔ 
۔ابتداء میں تو اکبر کا یہ حال تھآ کہ علماء کو ایسے عہدے اور مقامات دئے کہ پہلے کبھی نہ ملے تھے۔ صدر الصدور سے حدیث سننے انکے گھر جاتا، شہزادہ سلیم کو انکی شاگردی میں دیا اور یہ حال ہوا کہ نماز با جماعت کی پابندی کیساتھ وہ اذان بھی خود دیتا، امامت کرتا اور مسجد میں اپنے ہاتھ سے جھاڑو دیتا۔ خواجہ اجمیر سے اتنی عقیدت تھی کہ سال بسال اجمیر جاتا، بلکہ بعض اوقات پا پیادہ گیا۔ پہروں مراقبے میں بیٹھا رہتا۔
شیخ سلیم چشتی کی ارادتمندی میں میں اس نے ایک عمارت انکی خانقاہ کے قریب بنا لی۔ جسکا نام عبادت گاہ رکھا گیا۔ جہاں ہر جمعے دربار خاص منعقد ہوتا اور خدا شناسی اور حق پرستی کی حکائیتیں اور روائیتیں بیان ہوتی تھیں۔
 لیکن اسکے اسی ذوق نے اسے رستے سے ہٹایا اور انکا ایک باعث ان علماء اور فضلاء کی کمزوریاں تھیں جو ان مجلسوں میں شریک ہوتے تھے۔ ہر شخص چاہتا تھآ کہ اپنی فضیلت اور دوسرے کی جہالت دکھاءووں جھگڑے کی وجہ بیٹھنے کی ترتیب ہی ہو جاتی تھی۔
بادشاہ کا دل کھٹآ ہو گیا۔ اس نے کہا جو کوئ نامعقول باتیں کرے  اسے محفل سے اٹھا دیا جائے۔ ملا بدایونی کو اس کام پہ مامور کیا گیا۔ ملا صاحب نے چپکے سے بادشاہ کے کان میں کہا کہ اس طرح تو بہتوں کو اٹھنا پڑے گا۔بادشاہ اس جملے سے خوش ہوا اور سب کو یہ الفاظ سنا دئیے۔
اگر معاملہ ذاتی فضیلت جتانے اور ایکدوسرے کی تذلیل و تکفیر تک رہتا تب بھی شاید اکبر اسلام سے بد ظن نہ ہوتا لیکن علماء نے اہم مسائل پہ اس طرح اختلاف کیا کہ بادشاہ حیران رہ گیا۔ ایک عالم ایک چیز کو حلال کہتا دوسرا اسکے حرام ہونے کا فتوی دیتا تھا ۔ بادشاہ نہ صرف دونوں سے بد ظن ہوا بلکہ حال اور حرام کا بھی تعین اس میں نہ رہا۔
ایک مزیدار مثال آتی ہے۔ بادشاہ کی چار سے زائد بیویاں تھیں۔ عبادت خانے میں تعدد ازواج زیر بحث آیا تو بادشاہ کو خیال آیا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ کسی بیوی کو رخصت کئے بغیر دین کی پاسداری ہو جائے۔ دو نے متعہ کا راستہ دکھایا، جسے دوسروں نے حنفی طرقے کے متصادم قرار دیا۔ اس پہ بدایونی نے کہا کہ اگر ایک مالکی قاضی اسکے حق میں اپنے اصول کی رو سے فتوی دیدے تو ایک حنفی کے لئے بھی متعہ جائز ہو جاتا ہے۔ یہی تو بادشاہ کو چاہئیے تھا۔ حنفی قاضی رخصت ہوئے اور مالکی قاضی آ گئے۔ سب فرقوں اور طریقوں کے عالم آگئے اور شیعہ، سنی، صوفی، مہدوی خیالات اور اختلافات بادشاہ کے سامنے آئے۔
حتی کہ بعض علماء سے عاجز آکر اکبر نے انہیں سزائے موت تک دی۔ عبادت خانوں کی بحثوں کے زیادہ دلچسپ قصے بدایونی کی تاریخ میں ملتے ہیں ابوالفضل نے بھی اسکے متعلق ایک باب اکبر نامے میں لکھآ ہے۔
مختلف واقعات سے گذر کر ایک وقت ایسا آیا کہ کہ شیخ مبارک نے بادشاہ کو کہا کہ بادشاہ خود امام وقت اور مجتہد روزگار ہے اور وہ اجتہاد کا دعوی کرے اور علماء سے محضر طلب کرے۔ آیتوں اور اسناد سے اس مضمون کا ایک محضر ترتیب دیا گیا، علماء کا اجلاس ہوا اور بحث و تمحیص کے بعد اس محضرپہ علماء کی مہریں ثبت ہوئیں۔
محضر میں اس بات کو بیان کر دیا گیا تھا کہ بادشاہ کو مجتہدین اور علماء سے انہی امور میں زیادہ اختلافات ہونگے جو نص شرعی کے مخالف نہ ہوں اور عوام کی خوشحالی کا باعث ہوں۔
لیکن عملی طور پہ ایسا نہ ہو سکا۔
جب ہندو، جینی اور پارسی  سادھو اور اہل علم مذہبی مجالس میں شریک ہوئے تو ان میں سے بعض نے اسے جگت گرو کہنا شروع کیا اور اپنی کتابوں سے ثابت کیا کہ وہ اقوام و ادیان کے اختلافات مٹائے گا۔ خوشامدیوں نے حمایت کی اور بادشاہ نے لوگوں کو مرید کرنا شروع کیا۔ اس بناء پہ افواہیں اڑیں کہ اکبر نبوت کا دعویدار ہے۔ بدایونی بھی جو آخر عمر میں اکبر کے مذہبی خیالات کا سب سے بڑا مخالف ہو گیا تھا۔ اکبر سے دعوی نبوت منسوب نہیں کیا۔
اکبر اور اسکے خوشامدیوں نے جو نظام ترتیب دیا انگریز مءورخین اسے دین الہی کا نام دیتے ہیں لیکن ابو الفضل جو اس طریقے کا خلیفہ ء اعظم تھا یہ نام استعمال نہیں کرتا بلکہ اسے آئین اکبری یا آئین راہنموئ کے تحت درج کرتا ہے۔

حوالہ جات؛
کتب؛
المیہ تاریخ، مصنف ڈاکٹر مبارک علی
رود کوثر، مصنف شیخ محمد اکرام

Friday, April 16, 2010

پولیو کے خلاف مہم

ڈنگ ڈونگ۔ بیل بجی، میں نے پوچھا کون ہے۔ بچہ ہے جی کوئ، پولیو کے قطرے پلانے ہیں۔ اب اگرچہ میں پاکستان کے ان بہت کم خوش نصیب لوگوں میں سے ہوں جنہیں بچے کی پیدائش کے وقت یہ ٹائم ٹیبل مل جاتا ہے کہ پانچ سال کی عمر تک بچے کو کونسے حفاظتی ٹیکے لگیں گے اور کب۔ لیکن پھر بھی میں نے فیصلہ کیا کہ گورنمنٹ کی طرف سے جو گشتی ٹیمیں آتی ہیں ۔ ان سے دوبارہ یا سہہ بارہ پلوا لینے میں کوئ حرج نہیں۔ میں صاحبزادی کو لیکر گیٹ پہ پہنچی۔ ایک خاتون ایک لمبا سا عبا پہنے اور چہرے کو سختی سے حجاب سے ڈھانکے وہاں ایک نو دس سالہ بچے کے ساتھ موجود تھیں۔ انہوں نے اپنے پاس موجود ایک کاغذ پہ ساری تفصیلات معلوم کر کے لکھیں اور پھر اپنے پاس کھڑے بچے سے کہا چلو اب تم ڈراپس ڈالدو اسکے منہ میں۔ میں ہکا بکا رہ گئ۔ بچے نے اپنے ہاتھ میں موجود تھرماس کھولنا شروع کی ا اور------۔ یہ بچہ یہ کام کر رہا ہے۔ ' ڈراپس ہی تو پلانا ہیں،  جی'۔
اسکے تقریباً دو ہفتے  بعد دوبارہ بیل بجی۔ آج پھر پولیو کے قطرے پلانے کا دن تھا۔ میں نے انہیں انٹرکام پہ اطلاع دی کہ بچی ابھی اسکول سے واپس آنے ہی والی ہے۔ آپ ایک دو گھر دیکھ لیں پھر آجائیے گا۔ اچھا تو ہمیں بچی کا نام بتادیں۔ ہم دس منٹ بعد آکر قطرے پلا جائیں گے۔ مجھے معلوم تھا کہ جو وہ کہہ رہی ہیں،  ایسا نہیں ہوگا۔ لیکن یہ پوسٹ لکھنے کے لئے میں نے اسے نام بتا دیا۔ اج شاید دو ہفتے ہو گئے مگر وہ خاتون پلٹ کر نہیں آئیں۔
جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا کہ مجھے اپنی بیٹی کو یہ مزید قطرے پلانے یا نہ پلانے سے فرق نہیں پڑتا۔ اسکے حفاظتی ٹیکوں کا کورس نجی طور پہ اپنے ٹائم ٹیبل کے حساب سے چل رہا ہے۔ لیکن جہاں میں خوش نصیب ہوں وہاں میری بد نصیبی یہ بھی ہے کہ میں ایسے ملک میں رہتی ہوں جہاں کچھ لوگ حفاظتی ٹیکوں کے جائز اور ناجائز کا سوال اٹھائے کھڑے ہیں اور کچھ اپنے بچوں کو اس لئے نہیں پینے دیتے کہ وہ انہیں بانجھ کر دیں گے۔ وہاں کچھ لوگ جو چاہتے ہیں کہ انکے بچوں کو یہ حفاظت حاصل ہو جائے انکے حصے میں یہ بے ایمان، بے حس اور ناکارہ ورکرز آتے ہیں۔
پاکستان دنیا کے ان چار ممالک میں شامل ہے جو پولیو سے شدید متائثر ہیں۔ باقی تین ممالک میں شامل ہیں انڈیا، افغانستان اور نائیجیریا۔ پولیو کے خلاف چلنے والی مہم میں حکومت پاکستان کو یونیسف کے ادارے کی مدد حاصل ہے جسکا نام ہے۔
UNICEF’s Programme Communications Specialist for Polio and the Expanded Programme for Immunization
حکومت جاپان نے سن دو ہزار نو کے دسمبر میں اعلان کیا تھا کہ وہ حکومت پاکستان کو چار اعشاریہ چار ملین ڈالر کی گرانٹ دے گی تاکہ وہ سن دو ہزار دس میں پولیو کے خلاف مہم بہتر طور پہ چلا سکے اور یہاں سے پولیو کا خاتمہ کیا جا سکے۔  لیکن بات وہی کہ مدعی، مدعا علیہ ناءو میں اور شاہد تیرتے جائیں۔ کیا اس سے فرق پڑتا ہے کہ جاپان یا کوئ اور ملک ہمارے مسائل کے حل کے لئے ہمارے ساتھ کیا تعاون کر رہے ہیں۔
پولیو، جیسا کہ ہم جانتے ہیں معصوم ہنستے کھیلتے بچوں کو ہمیشہ کے لئے معذور کر دینے والی بیماری ہے اور اسکا کوئ علاج نہیں ہے سوائے اسکے کہ بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگائے جائیں  اس لئے متعلقہ حکام اور ورکرز کو اس ضمن میں پوری سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئیے۔ بچے ہمارا مستقبل ہیں اور اہنے مستقبل کو معذور ہونے سے بچانا ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہئیے۔


Wednesday, April 14, 2010

ارتھ ڈے، ایک طالب علم کے لئے

میں آپ سے کہوں کہ اگر آپ اس سیارے زمین سے محبت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کل آپکے بچے اس پہ ایک محفوظ اور قدرتی  وسائل سے مالامال زندگی گذاریں تو آپ پیدل چلنے کو ترجیح دیں بجائے گاڑی سے جانے کو، اپنے گھر کے کاکروچ، مچھر اور چیونٹیاں مارنے کے لئے مختلف اسپرے یا کیمیکلز کا بے دریغ استعمال نہ کریں۔ اپنے آپکو ہر وقت اسپرے والے پرفیوم سے مہکائے نہ رکھیں۔ دودھ دہی لینے جانا ہو تو اپنے ساتھ برتن لیکر جائیں۔ چیزیں خریدتے وقت بے تحاشہ  پلاسٹک کے شاپرز استعمال نہ کریں۔ اپنے ساتھ کاٹن کا تھیلہ یا باسکٹ رکھیں، اور اگر یہ کرنے میں کوئ حجاب مانع ہے تو کم سے کم شاپرز استعمال کریں۔
یہ سن کر کچھ لوگ سوچیں گے , کیا مصیبت ہے۔ ہر وقت نصیحت،  یہ نہ کرو وہ نہ کرو۔ محبت میں بھی نصیحت۔ چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ۔  چلیں،  پہلے آگے پڑھ  لیں اور پھر سے سوچیں۔
زمین کے ماحول  کے بنیادی  حصے جس میں اسکی ساخت، فضا، پانی کے ذخائر اور زمین کو رنگینی عطا کرنے والے نباتات اور دیگر حیاتیات شامل ہیں  ایک دوسرے سے ایک ماحولیاتی توازن اور کیمیائ توازن کی زنجیروں سے جڑے ہیں اس زنجیر کی ایک کڑی بھی متائثر ہونے سے ہر چیز اپنے توازن سے ہٹ جاتی ہے۔ اور نیا توازن بننے میں نہ صرف وقت لگتا ہے بلکہ وہ نئے مطالبات بھی رکھتا ہے۔ اس تمام تعلق میں ہماری بے جا مداخلت اسے ہماری آنیوالی نسلوں کے لئے ناقابل رہائش بنا سکتی ہے۔
آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری بے جا مداخلت کیا ہے، یہ کن  تبدیلیوں کو جنم دیتی  ہیں اور کیسے  دنیا کو متائثر کرتی ہیں۔ اور پھر اس میں انسان کا کردار متعین کریں کہ وہ اسکے نتیجے میں تیزی سے ہونے والی تباہی کو کیسے روک سکتا ہے۔
۔جب ہم بہت زیادہ کیمیکلز استعمال کرتے ہیں تو ہم زمین کے ہر حصے کو آلودگی سے آشنا کر دیتے ہیں۔ یہ آلودگی  اسکی فضا، سطح اور سمندر سے ڈھکے علاقے ہر ایک کو نقصان پہنچاتی ہے۔
زمین اس وسیع کائنات میں پھیلی وہ واحد جگہ ہے ، جہاں ہم اب تک کسی ذہین مخلوق کے آثار پاتے ہیں۔ یعنی ، ہم انسان۔ اور اسکی فضا اور ماحول اس وسیع کائنات میں وہ واحد توازن رکھتی ہے جو انسان کی بقاء کے لئے ضروری ہے۔ یہ ایک فضائ غلاف سے ڈھکی ہوئ ہے جسکی  مختلف تہوں کے نام اور موٹائ مندرجہ ذیل تصویر سے واضح ہیں۔


اس تہہ کی وجہ سے سورج کی ضرر رساں شعاعیں زمین تک پہنچنے میں ناکام رہتی ہیں اور زمین کا ایک مناسب درجہ ء حرارت قائم رہتا ہے۔ زمین کی فضا میں موجود کاربن ڈائ آکسائیڈ کی مقدار بھی اس حرارت کو کنٹرول کرتی ہے۔ زیادہ کاربن ڈائ آکسائڈ موجود ہونے کا مطلب زیادہ حرارت کا محفوظ رہنا یا گرمی کا بڑھنا ہے یہ سارا عمل اصطلاحاً گرین ہاءوس ایفیکٹ کہلاتا ہے۔ یہ کاربن ڈائ آلسائید ایندھن کے جلنے کے دوران پیدا ہوتی ہے چاہے وہ لکڑی کا ہو یا پٹرول کا۔
کاربن ڈائ آکسائڈ کے علاوہ اور بھی گیسیں ہیں جو گرین ہاءوس ایفیکٹ میں حصہ لیتی ہیں جیسے میتھین گیس۔ جی ہاں،  وہی گیس جو ہمارے چولہوں میں استعمال ہوتی ہے۔ پچھلی صدی میں زمین کے کل درجہ ء حرارت میں اضافہ ہوا ہے جسے گلوبل وارمنگ کہتے ہیں اور جو ممکنہ طور پہ انسان کی صنعتی ترقی کے نتیجے میں آئ ہے۔ یعنی  فوسلزایندھن کا زیادہ استعمال اور جنگلات کا خاتمہ۔


حرارت کی مناسب مقدار وہ ہے، جس میں حیات پھلتی پھولتی ہے۔ اگر زمین کا یہ مقررہ درجہ ء حرارت بڑھ جائے تو پہاڑوں پہ موجود برف پگھل جائے گی جو شروع میں تو دریاءووں میں زیادہ پانی آجانے کی وجہ سے سیلاب کا باعث بنے گی اور بعد میں ان برفافانی ذخائر کے ختم ہو جانے کی وجہ سے بارش نہ ہونے کی وجہ بن جائے گی۔ جس سے خشک سالی اور قحط جنم لے سکتے ہیں۔
 جیسے اگر ہمارے ہمالیہ کے پہاڑ اپنی برف کھو دیں تو پاکستان کا کیا ہوگا۔ اسکے تمام دریا بنجر ہوجائیں گے۔ اسی طرح دنیا کے پول پہ موجود برف کے ذخائر اگر پگھل جائیں تو ساری دنیا میں سمندر کے پانی کی سطح بہت زیادہ  بلند ہو کر، دنیا کے بیشتر علاقے کو زیر آب کر دے گی۔
زمین کو سورج کی ضرر رساں شعاعوں سے بچانے والی اوزون کی تہہ اسٹریٹو اسفیئر میں پائ جاتی ہے، جسے آپ شکل نمبر ایک میں دیکھ سکتے ہیں، صنعتی اداروں سے پیدا ہونے والی گیسوں کا فضا میں اخراج، دنیا بھر میں چلنے والی گاڑیوں کے دھویں کا فضا میں شامل ہونا اور گھریلو سطح پہ کلوروفلورو کاربن مرکبات  والی اشیاء کا بے تحاشہ استعمال اس اوزون کی  قدرتی حفاظتی تہہ کو تباہ کر رہا  ہے۔ کوپن ہیگن میں کچھ عرصے پہلے ہونے والی ایک ماحولیاتی کانفرنس میں چین اور بھارت سمیت کچھ ممالک نے ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکہ سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ اپنے کارخانوں سے ان زہریلی گیسون کے اخراج کو ایک مناسب سطح پہ لائیں۔ اس پہ کوئ قابل ذکر پیش رفت نہ ہو سکی۔  کیونکہ کارخانوں سے ان گیسوں کی پیداوار کم کرنے کے لئے یا تو پروڈکشن لیول کو کم کرنا ہوگا یا پھر جو احتیاطیں کیجائیں گی انکے نتیجے میں انکی پروڈکٹس کی لاگت بڑھ جائے گی۔
عوامی سطح پہ ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں کہ  جمع ہونے والے کوڑے کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانے کے بجائے اسے آگ لگادی جاتی ہے۔ یہ ایک غیر ذمہ دارانہ عمل ہے اور یہ بھی ماحوللیاتی آلودگی کا باعث بنتا ہے۔، 
ان گیسوں کی وجہ سے بعض جگہ آلودگی اتنی زیادہ ہو گئ ہے کہ وہاں بارش میں بھی ان کیمیاَئ مرکبات کا اثر پایا جاتا ہے۔علاوہ ازیں یہ آلودہ فضا انسانی صحت کے لئے جو مسائل پدا کرتی ہے وہ الگ۔  ان میں سر فہرست مختلف اقسام کے کینسرہیں۔ اسکے علاوہ مختلف کیمیائ مرکبات مختلف پیچیدگیاں پیدا کرتے ہیں۔  مثلاً  ہوا میں لیڈ کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے ذہنی طور پہ کمزور بچوں کی پیدائش میں اضافہ،  دماغی امراض  اضافہ یا نروس سسٹم میں خرابی ہونا۔ یہ آلودگی عورتوں اور مردوں میں بانجھ پن بھی پیدا کر سکتی ہے۔ اس لئے شہروں کی سطح پہ مردوں میں بانجھ پن بڑھ رہا ہے۔


  صنعتی کارخانوں کا فضلہ جسے پانی میں بہا دیا جاتا ہے اور یہ زمین کی اوپری سطح کو تباہ کرتے ہوئے زمین کے نیچے موجود میٹھے پانی کے ذخائر کو آلودہ کرتے ہوئے سمندر میں پہنچتا ہے اور وہاں کے ماحولیاتی نظام کو ختم کر کے اسے بنجر بنا دیتا ہے۔
شاید آپکو یاد ہو کہ سن دو ہزار آٹھ میں کراچی کے ساحل پہ ایک اطالوی جہاز جو خام تیل لیکر جا رہا تھا۔ تیل بہہ نکلا اور پندرہ سو ٹن تیل کراچی کے چودہ کلومیٹر ساحل پہ پھیل گیا۔ تیل کے اس طرح پھیلنے سے ایک تو اوپر کی سطح سے جانوروں کو آکسیجن نہیں مل پاتی اور دوسرے اس میں موجود بھاری عناصر سمندر کی تہہ میں بیٹھ جاتے ہیں اور وہاں موجود سمندری قشرئیوں جیسے سیپ، گھونگھے اور مرجان کی چٹانوں کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں اور اس طرح سے اس ماحول کو تباہ کر دیتے ہیں۔ یہ تیل اور دیگر مرکبات ساحل پہ پانی کے جہازوں کی آمد ورفت سے بھی سمندر میں شامل ہوتا ہے
صرف صنعتی اداروں کے کیمیکلز ہی نہیں گھریلو سطح پہ استعمال ہونے والے کیمیکلز بھی پانی کے راستے بالآخر سمندر میں نہیں پہنچتے ہیں۔ بلکہ اسکے ذرائع ہمارے گھر میں ہو سکتے ہیں۔ جیسے گھروں میں بچی ہوئ دوائیں نالی میں بہا دینا، صفائ کے لئے مختلف کیمیکلز استعمال کرنا۔ تعلیمی  یا تحقیقی اداروں میں استعمال ہونے والے کیمیکلز کو صحیح سے ضائع نہ کرنا بلکہ بغیر سوچے سمجھے پانی میں بہا دینا۔

یہ پانی  میں موجود کیمیلز کی آلودگی کا شکار ایبنارمل مینڈک ہیں۔

 پلاسٹک  کا بہت زیادہ استعمال, جبکہ پلاسٹک کو قدرتی طریقے سے ختم ہونے میں ایک لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اندازہ لگایا ہے کہ پچاس کی دہائ میں پلاسٹک نے عام زندگی میں قدم رکھا اور اب تک اسکی ایک بلین ٹن مقدار پیدا کی جا چکی ہے۔ یہ پلاسٹک کچرا جو ہم نے پھینکا ہے اسے ختم ہونے میں ہزاروں برس کا عرصہ درکار ہوگا۔  پلاسٹک کی مصنوعات  پانی راستے سمندر میں بھی پہنچ جاتی ہیں اور سمندری مخلوقات کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔ پلاسٹک کی وہ مصنوعات زیادہ بہتر ہوتی ہیں جو بیالوجیکلی تیزی سے ختم ہو جاتی ہیں۔
نیوکلیئر پاور پلانٹ  ہوں یا ایٹمی دھماکے ہر صورت میں تابکار فضلہ جمع ہوتا ہے جو نہ صرف انسانی صحت کے لئے مہلک ترین ہے بلکہ زمین کے لئے بھی نقصاندہ ہے۔ اس تابکار فضلے کو عام طریقے سے ضائع نہیں کیا جا سکتا۔ اور انہیں مخصوص کنٹینرز میں بند کر کے یا تو دور افتادہ مقام، جیسے کسی بیابان صحرا میں  دفن کر دیا جاتا ہے یا پھر سمندر کی تہہ میں دبا دیا جاتا ہے۔ ہر صورت میں یہ ایک محفوظ حالت نہیں ہے ، کیونکہ بہر حال تابکار فضلہ اس میں موجود ہیں اور کسی بھی حادثے کی صورت میں ارد گرد کے ماحول کو آلودہ کر دیگا۔ اور اس سے زمین کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اس تصویر میں ایٹمی فضلے کے کنٹینرز کسی صحرا میں دفن کئے جا رہے ہیں۔

تابکاری کا شکار ہونے والے جاندار جنیاتی تبدیلیوں کے باعث عجیب الخلقت  بچوں کو جنم دے سکتے ہیں اور انتہائ صورت میں وہ ختم ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ یہ تصوراتی تین آنکھوں والی مچھلی۔


جنگلات کو اپنے استعمال کے لئے بے دریغ کاٹنا، اپنے آپکو ایک قدرتی دولت سے محروم کرنا ہے۔ جیسے  کراچی کے ساحلوں کے نزدیک مینگروز نامی درخت کے جنگلات جوساری دنیا میں مینگروز کے جنگلات میں خاصی اہمیت رکھتے ہیں۔  آہستہ آہستہ خاصے کم ہو گئے ہیں  کیونکہ ان درختوں کو مقامی آبادی نے ایندھن کے طور پہ استعمال کیا۔
اسکی وجہ سے انکی جڑوں کے ساتھ پائے جانیوالے جھینگے، کیکڑے اور دیگر جاندار اپنا وجود قائم نہ رکھ سکے اور یوں ایک ماحولیاتی توازن تباہی سے دو چار ہوا۔
اگر ہم دیگر جانداروں کے ماحول کی حفاظت نہ کریں ، انکے رہائشی جنگلات اپنے استعمال کے لئے کاٹ دیں، اپنے شہروں کو بڑھاتے چلے جائیں اورانکے سمندر میں اپنی آلودگی انڈیلتے رہیں تو وہ نایاب نسل میں شامل ہوکر دنیا سے غائب بھی ہو سکتے ہیں ۔ اور آج بہت سے جانور جو ہم دیکھتے ہیں اور ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ وہ کل ہم اپنی اولادوں کو صرف تصویر میں ہی دکھا پائیں گے۔ نہ صرف یہ بلکہ اپنے ماحول میں وہ جس حیاتیاتی توازن کو قائم رکھتے ہیں وہ انکی غیر موجودگی میں تبدیل ہو کر ہمارے لئے مسئلہ بن سکتا ہے۔
اسکی ایک مثال انڈیا اور پاکستان میں پایا جانیوالا گدھ ہے جو پہلے ایک بڑی تعداد میں ملتا تھا ۔ گدھ  مردہ جانوروں کوکو کھا کر ماحول کی صفائ کا اہم فریضہ انجام دیتے ہیں۔ مگرپندرہ سال کے اندر انکی تعداد میں ستانوے فی صد کمی آئ۔  تحقیق پہ پتہ چلا کہ مویشیوں کو دی جانیوالی دوا ڈکلوفینیک کے باقیات انکے جسم میں رہ جاتے ہیں۔ ان مویشیوں کا گوشت کھانے سے یہ دوا گدھ کے جسم میں پہنچ جاتی ہے ۔ گدھ  اس دوا سے گردے کے امراض کا   شکار ہو کر مر جاتے ہیں۔
اس لئے ، ہمیں اپنی تمام ترقی اور سرگرمیوں کے دوران یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ زمین پہ ان دیگر جانداروں کا بھی حق ہے جنہیں ہم اپنے مقابلے میں کمتر جانتے ہیں۔
 اب اس مختصر جائزے کے بعد یہ نتیجہ نکالنا آسان ہے  کہ اس سیارے کو اپنے لئے اور آئندہ آنیوالے انسانوں کے لئے محفوظ بنانے کے واسطے ہمیں اس طرز زندگی کو اپنانا ہوگا جہاں زمین اور اسکے ماحولیات کا حق سب سے پہلے ہونا چاہئیے۔

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں 

 نوٹ؛ دنیا کے زیادہ تر ممالک میں ارتھ ڈے، بائیس اپریل کو منایا جاتا ہے۔ یہ دن، زمین کے ماحول کے متعلق علم دینے اور اسے بچانے کے ممکنہ اقدامات کے بارے میں آگاہ کرنے کے لئے اقوام متحدہ نے مقرر کیا ہے۔ اسکی تجویز سن انیس سو انسٹھ میں امن کے کارکن جون میک کونیل نے دی تھی۔ اور یہ اپنے ایک قاری کی فرمائش پہ لکھی گئ ایک تحریر ہے۔

:)

مزید تفصیلات کے لئے دئیے گئے لنکس دیکھیں یا سوال کریں۔ آپکی دی ہوئ مزید معلومات کے منتظر۔


حوالہ جات؛

Sunday, April 11, 2010

کر لو جو کرنا ہے

ڈان اخبار کے پہلے صفحے کی مرکزی ہیڈنگ کے ساتھ خبر اس طرح شروع ہوئ کہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے پارلیمانی انقلاب پہ اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان ترمیمات کی منظوری دےدی جو اب ایک صحیح پارلیمانی نظام کو لانے میں مددگار ہونگِں۔
مجھے نہیں معلوم کہ  صحیح پارلیمانی نظام کیا ہوتا ہے میں تو اس نسل سے تعلق رکھتی ہوں جس نے آمریت اور جمہوریت کے لگاتار چکر ہی دیکھے ہیں۔ لیکن یہ جان کر کہ ان ترمیمات میں ایک ترمیم یہ بھی منظور کی گئ کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر الیکشن کرانے کی ضرورت نہیں بلکہ نامزدگی سے ہی کام چلایا جائے۔ محو حیرت ہوں۔
یہ سب کرنے کے بعد ملک کی وہ جماعتیں جو وراثتی سیاست کے مزے لوٹتی چلی آہی ہیں۔ یقیناً چین کی نیند سوئ ہونگیں اور گمان ہے کہ انکی اولادوں نے انہیں دنیا کے مختلف حصون سے شکرئیے کا فون ضرور کیا ہوگا۔  ممبران پارلیمنٹ کے سر سے ایک بھاری ذمہداری کا بوجھ ہٹا ہوگا ۔ اور اب انہِں یقینی طور پہ پتہ ہوگا کے آنیوالوےدنوں میں انہیں کن کے لئے نعرے لگانے ہیں، کن کی جی حضوری کرنی ہے اور کن کے ماتھے کے بل گننا ہیں۔
میں اخبار پلٹ کر سب سے آخری صفحے پہ نظر ڈالتی ہوں۔  اس پہ ایک بڑی ہیڈنگ لگی ہے۔ وزیر اعظم کی بیگم صاحبہ کا تین کروڑ آٹھ لاکھ کا قرضہ معاف کر دیا گیا ہے۔ ایک خیال آتا ہے کہ صرف اڑتیس لاکھ مجھے مل جائیں تو میں کوئ ایسا کام شروع کر سکتی ہوں جس سے دس اور لوگوں کو بھی روزگار ملنے کے مواقع مل جائیں ۔ مگر میرے شریک حیات اس ملک کے وزیر اعظم نہیں، اپنی قسمت پہ آہ بھرتی ہوں اور پھر اندرونی خبروں پہ نظر ڈالتی ہوں.
جس وقت مبارکاں اور بدھئیاں کے نعروں میں یہ بل پاس ہو رہا تھا۔ اور اپنے اپنے مفادات کی متفقہ طور پہ حفاظت کی شادمانی سب  پارلیمانی ممبران کے چہروں پہ نظر آرہی تھی۔ اس وقت سندھ میں اس بل کے خلاف ہڑتال کی اپیل پہ آدھا سندھ بند تھا۔ ایک کامیاب ہڑتال۔
 عین اسی وقت ہزارہ کے لوگ اپنے صوبے کے نئے نام کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اور میں اس وقت ایک سبزی کے بازار میں دو سبزی والوں کی گفتگو سن رہی تھی۔ 'اے بھئ کیا سترہویں، کیا اٹھارویں اور کیا انیسویں، کیا اس گنتی سے ہماری حالت پہ فرق پڑیگا'۔
اورکل جمہوریت کی اس پارلیمانی فتح پہ پنجاب میں لوگوں کا ایک ہجوم بجلی کی لوڈ شیڈنگ پہ احتجاج کیا۔ اور ایسے ہی ٹی وی کے قریب سے گذرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ایک بینر پہ لکھا تھا کہ ہم پاکستان کو کرغزستان بنادیں گے۔ ہم تو ایشین ٹائیگر بننے جا رہے تھے اب یہ کرغزستان بننے کے لئے کیوں تیار ہورہے ہیں۔ کہہ رہے ہیں کہ ٹائگر بننے سے پہلے آداب چیتا شاہی تو سیکھنے پڑیں گے جناب۔
جمہوریت کی اس عظیم فتح  کے بعد ہمارے مسرور، مضبوط وزیر اعظم صاحب نے اٹھارہویں ترمیم سے خود کو حاصل ہونے والے اختیارات کو جانچنے کے لئے اپنے مشیربرائے لائیو اسٹاک کا انتخاب کر کے  ان صاحب کو چنا جنہیں قومی اسمبلی میں داخل ہونے کے لئے جعلی تعلیمی ڈگری پیش کرنے پہ استعفی دینا پڑا۔ اب اس میں ایک بین السطور پیغام شاید گیلانی صاحب نے دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ اچھی حس مزاح رکھتے ہیں۔ یا ہمیں چیلینج دیا ہے کہ کر لو جو کرنا ہے۔

Friday, April 9, 2010

ٹیکنالوجی کا المیہ

میں نے اپنی دوست کے فیس بک اسٹیٹس پہ لکھا دیکھا۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ انکا تجزیہ ہر طرح سے درست ہے۔ حالانکہ وہ اسے اپنے عدسے سے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور پھر وہ اپنے اس تجزئیے کو دوسروں پہ نافذ کر دیتے ہیں'۔ 
 یہ جملہ میں نے یا آپ نے پہلی دفعہ نہیں پڑھا ہوگا۔ بلکہ اگر آپ بلاگنگ کرتے ہیں تو ہر روز نہیں تو ہر دوسرے روز اس قسم کی بات ضرور نظر سے گذرے گی۔ اور اگر آپ ٹی وی کے سارے چینل ایک دن میں دیکھ لینے کی سعادت حاصل کرتے ہیں تو روزانہ ہی دیکھنے اور سننے کو ملتا ہوگا۔
ٹیکنالوجی کی ترقی سے اب لوگوں کا مجازی طور پہ ملنا زیادہ آسان ہو گیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ڈفر کی دیکھنے میں کیا شکل ہے، جعفر کی بات کاٹی جائے تو انکے چہرے پہ کیا تائثر آتا ہے، عبداللہ ایک بیس پچیس سال کا معاشی طور پہ خوشحال شخص ہے یا محنت کر کے اپنی اور اپنے گھر والوں کی سپورٹ کرنے والا شخص۔
 اور اگر آپ اپنے اطراف میں نظر ڈالیں تو ہر طرف لوگ باتوں میں مصروف ہیں مگر ان لوگوں سے جن سے وہ طبعی طور پہ واقف نہیں یہ مجازی سائے ہیں جنہیں ہم جانتے ہیں مگر جنہیں ہم نہیں جانتے۔ گفتگو بہت زیادہ ہو گئ ہے مگر جان پہچان کا عمل کم۔ ہر طرح کے لوگ،  ہر سطح کے لوگ ایکدوسرے سے بات کر رہے ہیں۔ 
 اب پہلے کی طرح ایسا نہیں ہے کہ میں مخاطب کا انتخاب کر کے اس سے بات کروں۔ اس صورت میں مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ مجھے کیا کہنا چاہئیے اور جوباً مجھے کیا سننے کو ملے گا اور نتیجتاً میں اپنی پڑوس کی خاتون سے صرف سبزی دال اور بڑھتی ہوئ مہنگائ پہ بات کرتی ہوں آریاءووں کے برصغیر کے اوپر اثرات کی بات نہیں کرتی۔
سبزی اور گوشت کی بڑھتی ہوئ قیمتوں سے ہم دونوں ایک ہی طرح نالاں ہیں اور ایک ہی جیسے پریشان۔ اور اس طرح ہمارے مستحکم تعلقات برسوں سے ایک جیسے چلے آرہے ہیں۔ میں انہیں آریاءووں کے تذکرے سے خراب نہیں کرنا چاہونگی۔
لیکن اب اگر میں ان سے اقبال کی شخصیت پہ بات شروع کروں، اکبر بادشاہ کی پالیسیوں کا دفاع پیش کروں، یونیورسٹی میں طالب علموں کے مسائل تو وہ ایکدم ہکا بکا ہو کر یہی سوچیں گی کہ میں انہیں مرعوب کرنا چاہ رہی ہوں۔ مگر ،  میں سمجھتی ہوں اور ہمیشہ یہ باتیں اپنے ایک اور حلقے میں کرتی ہوں۔ جہاں ہم سب لڑجھگڑ کر ایکدوسرے کے نظریات کی دھجیاں اڑا کر، اپنے دل کو ہر کلفت سے خالی کر کے بالآخر آرام سے چائے شربت پیتے ہیں۔
 ان محدود حلقوں میں یہ سوال نہیں اٹھ کھڑا ہوتا کہ کوئ اپنا مءوقف دوسرے پہ نافذ کر رہا ہے۔ یا وہ سمجھتے ہیں کہ بس انہی کی بات صحیح ہے۔ بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اپنے مشاہدے، اپنے علم اور اپنے شخصی رجحان کی وجہ سے وہ یہی نظریہ رکھتے ہیں۔ ہم ایکدوسرے کے لئے نرمی رکھتے ہیں، ہم ایکدوسرے کو کھونا نہیں چاہتے۔ یہ سب چیزیں اسی جگہ اٹھ کھڑی ہوتی ہیں جہاں تعلقات بالکل مجازی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ ہم چیزوں کی تفصیلات کو نہیں دیکھتے، مخاطب کی شخصیت سے کلی طور پہ واقف نہیں ہوتے اور نہ اسے اپنے سے الگ تصور کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگلا شخص تو بالکل ہماری ہی سطح کا ہے پھر بھی اپنی افلاطونیت کیوں بھگار رہا ہے۔ یا اگلا شخص تو ہماری ہی سطح کا ہے پھر بھی ہماری بات کیوں نہیں تسلیم کرتا۔
میں اپنی دوست کو اسکے اس اسٹیٹس پہ لکھتی ہوں کہ
یہ جملہ آجکل کتنی دفعہ دہرایا جاتا ہے۔ میں دیکھتی ہوں کہ یہ جملہ ایک  علم  رکھنےوالاشخص بھی کہتا ہے اور ایک لا علم  شخص بھی،
یہ جملہ ایک تجربہ رکھنے والا شخص بھی کہتا ہے اور نا تجربہ کار بھی،
یہ جملہ ایک  گہرامشاہدہ رکھنے والا شخص بھی کہتا ہے اور سرسری مشاہدہ رکھنے والا شخص بھی کہتا ہے،
یہ جملہ وہ شخص بھی کہتا ہے جس نے دنیا دیکھی ہے اور وہ بھی کہتا ہے جس نے اپنے آپکو بھی صحیح سے نہیں دیکھا ہوتا۔
آخر ایسا کیوں ہے؟

Thursday, April 8, 2010

تعلیم کے ہٹلر

 مں بیکن ہاءوس اسکول سے اپنی بچی اور شوہر کیساتھ نکلی تو سوچ رہی تھی کہ تعلیم کتنا منافع بخش کاروبار ہے۔ 
جنریشنز اسکول، پینسٹھ ہزار ایڈمشن پیکیج اور آٹھ ہزار ماہانہ فیس، فاءونڈیشن اسکول ستر ہزار ایڈمشن پیکیج اور آٹھ ہزار ماہانہ فیس۔ بیکن ہاءوس بتیس ہزار ایڈمشن پیکیج اور ساڑھے سات ہزار ماہانہ فیس۔
میں نے ان سے کہا کہ میں اپنی بچی کو مونٹیسوری کے پہلے لیول میں جو کہ ڈھائ سے چار سال کے بچے کے لئے ہوتا ہے نہیں ڈالنا چاہتی۔ اسے پہلے ہی خاصی چیزیں آتی ہیں انہوں نے اسکا ایک ٹیسٹ اور ہمارا ایک انٹرویولیا۔ انٹرویو میں انہوں نے ہم سے ایک دلچسپ سوال پوچھا کہ جب ہماری بچی انکے اسکول سے دو سال پڑھ کر نکلے گی تو ہم اس میں کیا خصوصیات دیکھنا چاہیں گے۔ میں انہیں جواب دیا کہ  ہمارے لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسکی قوت مشاہدہ اچھی ہو اور وہ اپنے اردگرد کے ماحول میں دلچسپی لیتی ہو۔ اسے سوال پوچھنے کی عادت ہونی چاہئے اور چیزوں کی وجہ معلوم کرنے کا شوق۔ اپنی بات صحیح سے دوسروں تک پہنچانا آناچاہئیے  اور اسکی جو قدرتی خوبیاں ہیں وہ قائم رہنی چاہئیں۔
  اس سب کے بعد یہ کہہ کر  انہوں نے رضامندی دے دی کہ آپکی بچی ذہین ہے اور خاصی ایکٹو بھی۔ ہمارا خیال ہے کہ وہ لیول ٹوایڈجسٹ کر لے گی لیکن یہ خیال رکھئے گا کہ اس حساب سے وہ عمر کی حد کے سب سے کم والے حصے پہ ہے یعنی اپنی کلاس میں ذرا چھوٹی ہوگی۔ آپ اسے کلاس ون میں جہاں داخل کرانا چاہتی ہیں وہاں کی عمر کی حد معلوم کر لیجئیے گا۔
ہم نے چونکہ ابھی پکا فیصلہ نہیں کیا تھا کہ انکی ماہانہ فیس خاصی زیادہ تھی۔ اس لئے آگے کے طریقہ ء کار کے متعلق معلوم کر کے اٹھ آئے۔
گھر واپس آکر مییری ایک دوست ثمینہ نے فون پہ  بتایا کہہمارے گھر کے بالکل نزدیک ایک صاحب نے بہت اچھا مونٹیسوری کی طرز کا کوچنگ سینٹر اتنے چھوٹے بچوں کے لئے کھولا ہوا ہے اور میں چاہوں تو اسے جا کر دیکھ سکتی ہوں۔ انکی ماہانہ فیس بھی مناسب ہے صرف ڈھائ ہزار روپے۔ تو میں نے انکا نمبر لے لیا۔
اگلے دن میں نے صبح اس اسکول میں فون کر کے پتہ سمجھا اور بچی کے ساتھ وہاں چلی گئ۔ اتفاق سے انکے ابا جان اس دن شہر سے باہر تھے۔ لیکن اس سے پہلے بھی کئ اسکولوں میں اکیلے جا چکی تھی یہ کوئ مسئلہ نہ تھا۔
وہاں انکے آفس کے باہر انتظار کرتے ہوئے میری ایک اور خاتون سے بات ہوئ جنکے بچے کا داخلہ ایک مہینہ پہلے ہوا تھا وہ تقریباً چار سال کا تھا۔ کسی اور اسکول سے انہوں نے اسے وہاں منتقل کر دیا تھا اور اب خوش تھیں کہ اسکول والے اتنی محنت کراتے ہیں اتنا ہوم ورک دیتے ہیں میرا بچہ تو ہر وقت پڑھائ میں لگا رہتا ہے۔ یہ سنکر میرا ماتھا ٹھنکا۔ یہ کوئ صحت مند علامت تو نہیں۔
اسکول بالکل اجاڑ بیابان ہو رہا تھا اور کہیں ایک چھوٹی سی تصویر بھی نہ تھی کہ پتہ چلے کہ یہ اتنے چھوٹے بچوں کا اسکول ہے۔ پانچ سو گز کے بنے ہوئے مکان میں قائم اس اسکول میں ایسی کوئ چیز نہ تھی جس سے بچے میں اسکول آنے کی دلچسپی پیدا ہوتی۔یہاں آکر تو مشعل بالکل خوش نہیں ہوگی۔ میں نے سوچا۔  یہ ایک مناسب جگہ نہیں ہے نجانے ثمینہ  کی دوست نے اسکی اتنی تعریف کیوں کی۔ خیر میری باری آئ۔
کمرے میں ایک ساٹھ سال سے اوپر کے صاحب موجود تھے جنکی خشخشی داڑھی تھی اور ایک خاتون جو شاید پچپن سال کی ہونگیں۔ اور فائلوں کا ایک ڈھیر ہر طرف نظر آرہا تھا۔ پہلے تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ مجھے انکے اسکول کے بارے میں کیسے پتہ چلا پھر کہنے لگے کہ یہ اس لئے پوچھ رہے ہیں کہ ہمارا طریقہ ء کار اوروں سے مختلف ہے۔ ہمارے یہاں کوئ کھیل نہیں ، کوئ فنکشن نہیں، نہ اسکول میں اور نہ گھر میں۔ پھر انہوں نے مجھ سے میری بچی کے پیدائش کا سال پوچھا۔ میں نے انہیں کہا کہ ہے تو دو ہزار چھ لیکن سال ختم ہونے میں صرف چار دن ہی رہ گئے تھے تو اس حساب سے وہ ابھی تین سال کی ہے۔ انکے چہرے پہ ایک تشویش کی لہر دوڑی۔ انکے والد کی تعلیم کیا ہے اور وہ کیا کرتے ہیں۔ اسکا جواب دیا گیا۔ پھر گویا ہوئے آپ کیا ڈاکٹر ہیں۔ میں نے کہا جی ہاں، پی ایچ ڈی ڈاکٹر۔ یہ سنتے ہی انکے ساتھ وہ ہوا جو عام طور پہ ہمارے یہاں لوگوں کو ہوتا ہے یعنی  یہ خواہش پیدا ہونا  کہ اب ذرا انکو کسی نکتے پہ لیجا کر وہ کٹ لگائ جائے کہ انہیں پتہ چلے کہ انکی تعلیم  کی کیا اوقات ہے۔  اور یہ کہ اتنا پڑھنے کا کوئ فائدہ نہیں ہے۔  میں انکے تیور دیکھ کر اسکے لئے تیار ہو گئ۔۔حالانکہ یہ اطلاع میں نے انہیں پوچھنے پہ فراہم کی تھی اور اب تمام تعلیمی  بہتر اداروں میں والدین کی تعلیم پوچھی جاتی ہے۔
کہنے لگے آپ تو اپنی بچی کو خاصی دیر سے لائ ہیں۔ میں نے کہا میں اسے گھر پہ پڑھا رہی تھی اس لئے ضرورت نہیں محسوس کی۔ انہوں نے اپنی فائلوں کو درست کرتے ہوئے ذرا طنزیہ انداز میں کہا کیا پڑھا دیا ہے آپ نے اسے۔   میں نے انکی شکل دیکھ کر انکا دماغ پڑھا اور کہا وہی جو اس سطح پہ مونٹیسوریز میں پڑھایا جاتا ہے بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی۔  جیسے انگریزی کے تمام بڑے چھوٹے حروف کی پہچان اور انکی آوازیں ، اردو حروف تہجی کی پہچان، بیس تک گنتی اور اسکی پہچان۔تمام رنگوں کی پہچان، کافی ساری شکلوں اور ساختوں کی پہچان اسکے علاوہ یہ کافی سارے پزلز کر لیتی ہے۔ اور بہت ساری اردو اور انگریزی کی نظمیں یاد ہیں۔
لکھنا آتا ہے انہیں؟۔ میں نے کہا جی نہیں، یہ ابھی میں نے شروع نہیں کرایا۔ مونٹیسوری میں یہ چیز دوسرے لیول پہ شروع کرتے ہیں۔  اس لئے میں نے زور نہیں دیا۔ لیکن اسے پینسل بالکل صحیح پکڑنا آتی ہے۔ اور خاصی سیدھی لائن بنا لیتی ہے۔  تصویروں میں بہت اچھے رنگ بھر لیتی ہے۔اگر میں اسکے ساتھ لگ جاءووں تو مجھے امید ہے کہ دو مہینے میں بالکل صحیح طریقے سے لکھنے لگے گی۔
اپنی کرسی پہ سیدھے ہوئے اور کہنے لگے کہ بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں تین سال کا بچہ نہ صرف ایک سے سو تک سیدھی گنتی پڑھ لیتا ہے بلکہ لکھ بھی لیتا ہے اور سیدھی ہی نہیں بلکہ سو سے لیکر ایک تک  الٹی گننتی بھی پڑھ اور  لکھ لیتا ہے۔ انگریزی چھوٹے بڑے حروف تمام نہ صرف پہچانتا ہے بلکہ لکھ لیتا ہے۔ اور تین حروف ملا کر ایک لفظ بنانا بھی جانتا ہے۔ اردو الف سے لیکر ی تک نہ صرف لکھ لیتا ہے، پہچانتا ہے بلکہ حروف جوڑ کر لفظ بنا کر پڑھ لیتا ہے۔
اب آپ بتائیے دو مہینے میں تو آپ اپنی بچی کو لکھنا سکھائیں گیں۔ کیا پڑھنا بھی سکھا دیں گی۔ پھر  انہوں نے انتہائ طنز سے کہا۔  اچھا چلیں آپ کے کہنے پہ ہم اسے داخلہ بھی دے دیں تو ہم تو اس وقت دو ہزار آٹھ کے بچوں کو لے رہے ہیں۔ اپکی تو بچی دو ہزار چھ کی ہے اور اگر آپکی بات مان لی جائے تو دو ہزار سات میں شامل کر لیں۔ پھر بھی ڈیڑھ سال کا فرق آرہا ہے۔
میں نے دماغ میں حساب لگایا کہ تو اسکا مطلب ہے کہ اس وقت انکے پاس ڈیڑھ سے دو سال کے بچے ہونگے۔ لیکن مجھے وہاں اتنے چھوٹے بچوں کے لئے کوئ انتظام نظر نہیں آیا۔ اور میں یقین نہیں کر سکتی تھی کہ وہاں اتنے چھوٹے بچے ہونگے۔  باہر جو خاتون ملی تھیں انکا بچہ تو کم از کم چار سال کا تھا اور وہ کہہ رہی تھیں کہ انہوں نے ایک مہینہ پہلے اس اسکول میں ڈآلا ہے۔ کس قدر جھوٹ بول رہا ہے یہ شخص اور خدا جانے کس زعم میں اتنا بڑھ بڑھ کر بول رہا ہے۔ 
جی یہ تو آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔ میں نے ذرا مسمسی اور تھکی ہوئ شکل بنائ۔ اب تو غلطی ہو گئ۔  میں  انہیں مزید  دیکھنا اور سننا  چاہ رہی تھی۔  اس لئے میں نے اپنے چہرے پہ تھوڑی پریشانی ظاہر کی۔ اب کیا ہو سکتا ہے؟

کہنے لگے آپ نے اسکا پیدائشی سرٹیفیکیٹ بنوا لیا ہے۔ میں نے کہا جی پیدائشی سرٹیفیکیٹ، پاسپورٹ حتی کہ اسکی تو نادرا میں رجسٹریشن بھی ہو چکی ہے۔فرمایا،  پھر تو معذرت کیساتھ کہ کچھ نہیں ہو سکتا۔ ورنہ ایک صورت یہ ہوتی کہ آپ اپنی بچی کا دوسرا پیدائشی سرٹیفیکیٹ بنوا لیتیں۔ تو اب ہماری طرف سے معذرت ہے۔ میں انکے اس تمام طرز عمل پہ سکتے میں تھی۔  انکے اس گھٹیا اسکول میں داخلے کے لئے میں اپنی بچی کا جھوٹا پیدائشی سرٹیفیکیٹ بنواءوں ۔ اس شخص نے کیا بھنگ پی ہوئ ہے۔
میں خاموشی سےاس جیل خآنے سے نکل  آئ۔ اب سننے والے کہتے ہیں کہ آپکو اسے دس سنانی چاہئیے تھیں۔ جب بچی کو وہاں داخل ہی نہیں کرانا تھا تو کیوں چھوڑا اس جاہل کو۔ لیکن اس بات کا فیصلہ کون کرے کہ  جاہل کون؟ وہ ماں باپ جنہیں یہ نہیں معلوم کہ انہیں اپنے بچوں کو کیسی اور کہاں تعلیم دلانی ہے، جنہیں یہ نہیں معلوم کہ تعلیم کا بنیادی مقصد کیا ہے۔ یا انکی جہالت سے فائدہ اٹھانے والے یہ ہٹلر صفت لوگ۔

Monday, April 5, 2010

پنجاب یونیورسٹی میں ہنگامہ آرائ

پنجاب یونیورسٹی میں طلباء کے ایک گروپ نے یونیورسٹی کے ایک استاد  پروفیسر افتخار بلوچ کے آفس پہ ہلہ بولا اور انہیں زد و کوب کیا۔ یہی نہیں انہوں نے وی سی پنجاب یونیورسٹی کی رہائش پہ بھی حملہ کیا۔ انکے مشتعل مزاج کی وجہ جمیعیت سے تعلق رکھنے والے اسٹوڈنٹس کا یونیورسٹی سے انخلاء کا حکم تو جو انکے خلاف نظم و ضبط پہ عمل نہ کرنے کی وجہ سے لایا گیا۔ پروفیسر بلوچ اسٹوڈنٹس ڈسیپلینری کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں۔ 
پاکستانی یونیورسٹیز میںایسے واقعات پیش آنا کوئ غیر معمولی بات نہیں۔ مجھے خود محض ڈھائ سال کے عرصے میں کئ دفعہ اس قسم کے واقعات سے گذرنا پڑا کہ اسٹوڈنٹس کا ایک گروہ میرے سر پہ کھڑا ہو کہ کلاس فی الفور ختم کی جائے۔ وہ کسی واقعے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور ڈپارٹمنٹ میں اس وقت کوئ کلاس نہیں ہو سکتی۔۔ 
اسٹوڈنٹس کو غنڈہ گردی کی طرف مائل کرنے والی ہماری سیاسی پارٹیز ہوتی ہیں کہ یونیورسٹیز اور کالجز میں یہ اپنی بچہ پارٹی کو استعمال کرتی ہیں۔ اس عمر کے اسٹوڈنٹس جنکی ابھی زندگی میں نہ کوئ اچیومنٹس ہوتی ہیں نہ شناخت لوگوں کے ہجوم میں نمایاں ہونے اوراپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے انکے آلہ ء کار بن جاتے ہیں۔ اور عالم یہ ہوتا ہے کہ اسٹوڈنٹس کو اس بات پہ اعتراض نہیں ہوتا کہ کوئ استاد انہیں پڑھانے میں کتنی نااہلیت برتتا ہے۔وہ اسکے خلاف جا کر وی سی کے آفس کے باہر مظاہرہ نہیں کر سکتے مگر یونیورسٹی کے اندر کسی پول پہ سے انکی پارٹی کا جھنڈا ہٹنا ہنگامے کا باعث بن سکتا ہے۔
ان واقعات میں اسلامی جمیعیت طلبہ کے اسٹوڈنٹس شامل بتائے جاتے ہیں۔ ویسے تو جماعت اسلامی کے سر کردہ رہنماءووں نے اس واقعے میں کسی بھی اسلامی جمعیت کے طالب علم کے ملوث ہونے کو جھٹلایا ہے۔ لیکن تمام واقعات اور شواہد انکے اس دعوی کے خلاف جاتے ہیں۔ یونیورسٹیز میں ہنگامہ آرائ کے متعلق اسلامی جمیت طلبہ کی تاریخ کوئ زیادہ اچھی نہیں ہے۔  ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ عمران خان کی درگت بھی اسلامی جمیعت طلباء کے سپوتوں کے ہاتھ بنی تھی۔ پنجاب یونیورسٹی ویسے بھی جمیعت کا ایک مضبوط گڑھ ہے۔  یہ وہ جماعت ہے جسکے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے پہلی دفعہ یونیورسٹیز میں اسلحے کی سیاست متعارف کرائ۔
اس صورتحال سے اسلامی جمیعیت کے کچھ طلباء خاصے ناراض ہوئے اور انکا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ انتقامی کارروائ کا حصہ ہے اور ایسا اس لئے کیا گیا کہ انکے طلباء نے مارچ کے مہینے میں  یونیورسٹی میں امریکہ کے خلاف ریلی منعقد کرائ تھی۔ جمعیت کے پاس یہ وہ ٹانک ہے جو اپنے ارکان کے اندر توانائ کی لہریں دوڑا دینے کا باعث بنتا ہے اور۔جس سے انکے مزاج کی  آتش صفتی بڑھ جاتی ہے۔ گو امریکہ گو۔ امریکہ مردہ باد۔ عالمی دہشت گرد کون، امریکہ، امریکہ۔ اس سے تو میرے بھی خون کا دوران بڑھ جاتا ہے۔
سادہ دل وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی  نے وزیر اعلی ہنجاب ، میرا مطلب خادم پنجاب جناب شہباز شریف سے درخواست کی کہ وہ ان طلباء کے خلاف تادیبی کارروائیوں میں انکا ساتھ دیں۔ تاکہ یہ واقعات پھر نہ دوہرائے جا ئیں۔  لیکن یہ تو اب کوئ بھی شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ دائیں بازو کی سیاست کرنےوالے شہباز شریف دائیں بازو کے حامی عناصر کے خلاف کیسے کارروائ کر سکتے ہیں۔
  ایک زمانے میں لوگ اپنے بچوں کو استاد کے حوالے یہ کہہ کر کرتے تھے کہ ہڈی ہماری چمڑی تمہاری۔ اوراب استاد یہ کہہ کر تعلیمی اداروں کے حوالے کیا جاتا ہے کہ تپڑ ہے تو پاس کر ورنہ برداشت کر۔ اگرچہ مناسب کارروائ نہ ہونے تک اساتذہ نے بھی بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے لیکن کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔
اب رہ گئے پروفیسر افتخار بلوچ تو انکے لئے اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ جب اوکھلی میں سر دیا تو موصلوں سے کیا ڈرنا۔ پٹ پٹ کر ایک دن پٹنے کی عادت ہو ہی جائے گی۔  استاد ہونے کے لئے اور خاص طور پہ اسٹوڈنٹس ڈسیپلینری کمیٹی کا سربراہ ہونے کے لئےاسکی عادت ہونا بہت ضروری ہے۔

 



Saturday, April 3, 2010

نئے افکار انکا حصول اور ترویج-۹

بر صغیر پاک ہ ہند میں اسلام کی آمد واضح تبدیلیوں کی علامت بنی۔ اس سے پہلے بدھ مذہب اور جین مذہب یہاں سنسکرتی برتری کے خلاف تحریک بن کر ابھرے،  لیکن یہاں کے عام دھارے میں شامل ہو گئے۔ مسلمان اپنے ساتھ مذہب اور معاشرت کا مضبوط تصور لیکر آئے۔ ۔البیرونی لکھتا ہے کہ 'مذہبی لحاظ سے ہندوستانیوں کا آپس میں اختلاف بہت کم تھا اور وہ معمولی اختلافات پہ اپنے جسم ، مال اور روح کو قربان کرنے کو تیار نہ تھے۔' اسکے برخلاف مسلمانوں نے اس تصادم کو خارجی حیثیت دی۔  اونچی ذات کے ہندو اسے اپنے خلاف حملہ سمجھنے لگے اور صف آرائ پہ آمادہ ہوگئے۔ یوں مسلمانوں کی آمد نے ہندو مذہب کے صدیوں پرانے جامد تصورات کو ہلا دیا۔
مشہور زمانہ خیال کے برعکس مسلمان پہلی دفعہ محمد بن قاسم کیساتھ ہندوستان میں وارد نہیں ہوئے تھے  بلکہ حضرت عمر فاروق کے زمانے میں ہندوستان کے ساحلوں پہ انکے جنگی بیڑے  اترے۔ انکا یہ جنگی بیڑہ بلوچستان کے علاقے مکران تک پہنچا لیکن اس وقت کے سپہ سالار نے جب امیر المومنین کو اس علاقے کے سخت جغرافیائ حالات، پانی کی عدم دستیابی اور علاقے کے غیر آباد ہونے کی اطلاع دی تو حضرت عمر فاروق نے انہیں آگے نہ بڑھنے کا حکم دیا۔ سپہ سالار کا قاصد جب حضرت عمر کے سامنے حاضر ہوا تو اس نے اس طرح نقشہ کھینچا۔
“ 'O Commander of the faithful!
It's a land where the plains are stony; Where water is scanty; Where the fruits are unsavory Where men are known for treachery; Where plenty is unknown; Where virtue is held of little account; And where evil is dominant; A large army is less for there; And a less army is useless there; The land beyond it, is even worse .

سو ہندوستان میں اسلام اول جنوبی ہندوستان میں تاجروں کے ذریعے پھیلا پھر سندھ میں عربوں کی فتح اور آخر میں ترکوں کی فتح کے بعد شمالی ہندوستان میں آیا۔ 
مسلمان اپنے ساتھ تازہ فکر لائے تھے۔ وہ  تناسخ کے برعکس حیات بعد الموت کے قائل تھے اور ان کے دین میں ذات پات کو اہمیت حاص نہ تھی۔  یہ وہ نظریات تھے جو ہندوستان کے لئے نئے تھے۔ چنانچہ  ذات پات کے بندھنوں میں جکڑی، انسان کے تناسخ میں الجھی زندگی میں بار بار کے جنموں سے وابستہ ہندو تہذیب مغلوب ہوئ اور تبدیلی ء مذہب کا سلسلہ مختلف سطحوں پہ شروع ہوا۔
نچلی سطح کے لوگ اسلامی مساوت سے متائر ہوئے، اونچے طبقے کے لوگ اسلام کو ایک ترقی پسند مذہب سمجھ کر اس میں داخل ہوئے، بعض امرائے وقت مصلحت وقت کے تحت اس میں شامل ہوگئے۔ کچھ لوگ اسلام کا مطالعہ کرنے کے بعد خالص دینی جذبے سے اس میں شامل ہوئے۔بعض مسلمان سلاطین بالخصوص قطب الدین ایبک اور شمس الدین التمش کی فیاضی نے مقامی باشندوں کے دل جیت لئے اور وہ تبدیلی ء مذہب پہ آمادہ ہوگئے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ اسلام نے انکے عقائد تو بدل دئیے لیکن انکے بنیادی ثقافتی اور سماجی ڈھانچے کو تبدیل نہیں کی تھا۔ یوں ایک نئ ثقافت نے جنم لینا شروع کیا۔
  اگرچہ جن مسلمان سلاطین نے ہندوستان کو فتح کرنے کی غرض سے حملے کئے ان میں چاہے محمد بن قاسم ہو یا محمود غزنوی انکا مقصد اسلام کی تبلیغ اور ترویج نہیں تھا۔ لیکن بہرحال انہیں امور سلطنت کو مستحکم انداز میں چلانے کے لئے زیادہ مسلمان چاہئیے تھےاس لئے انہوں نے اس میں دلچسپی لی کہ مقامی لوگ مسلمان ہوں اور اس سلسلے میں لوگوں کو جاگیریں دی گئ اور انہیں مالی تحفظ فراہم کیا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ جب فتح سندھ کے بعد یہ سوال پیدا ہوا کہ مقامی ہندءووں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے تو حجاج بن یوسف نے علما ء و فقہاء سے مشورے کے بعد  حکم دیا کہ انکے ساتھ اہل کتاب کی طرح سلوک کیا جائے اور انہیں اپنی عبادت گاہوں کو جانے کی اوراپنی مورتیوں کی پوجا کی اجازت دی جائے۔
خود مسلمان فاتحین نے اس بات کو محسوس کرتے ہوئے کہ مسلمان اقلیت میں ہیں اور ہندو اکثریت میں۔ اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے مذہبی تفریق کو کم رکھنے کی کوشش کی۔ اس طرح سے وہ خود بھی تبدیلی کے عمل سے گذرے۔علاءالدین خلجی نے پہلی مرتبہ اعلان کیا کہ حکومت کے انتظام ومیں وہ صرف ایک چیز کو مد نظر رکھتا ہے کہ رعایا کی فلاح و بہبود کے لئے کیا ضروری ہے۔ اس نے اپنے قاضی  مغیث کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ'میں یہ نہیں جانتا کہ میرے احکامات شرعی ہوتے ہیں یا غیر شرعی۔ جس چیز میں اصلاح دیکھتا ہوں اور جو کچھ بھی مصلحت وقت کے مطابق نظر آتا ہے اسکا میں حکم دے دیتا ہوں'۔ یہ مصلحت اندیشی اکبر کے زمانے میں اپنے عروج پہ پہنچی۔ جب اکبر کے دربار میں ہندءووں کو اعلی درباری عہدے ملے اور ان پہ  امتیازی ٹیکس ختم کئے گئے علاوہ ازیں انہیں فوج میں بھی شامل کیا گیا۔
تبلیغ اسلام  میں  صوفیاء اکرام کا بھی ایک اہم کردار رہا۔  جنہوں نے ہندو اور مسلمان کا امتیاز کئے بغیر سب لوگوں کو یکساں طور پر بلند تر روحانی زندگی کا پیغام دیا ان درویشوں نے عوامی دربار لگائے، عوام کی زبان میں شاعری کی اور محبت اور خلوص سے لوگوں کے دلوں کو مسخر کر لیا۔ مولانا سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ
'اگر یہ کہنا صحیح ہے کہ ہندوستان کو غزنی اور غور کے بادشاہوں نے فتح کیا تو اس سے زیادہ یہ کہنا درست ہے کہ ہندوستان کی روح کو خانوادہ ء چشت کے روحانی سلاطین نے فتح کیا'۔
یہ صوفی ذہنی لحاظ سے وسیع المشرب تھے۔ چشتیہ، قادریہ، امدادیہ اور غوثیہ سلسلوں کے صوفیاء نے اس بات کی کوشش کی کہ تمام مذہبوں میں یک جہتی کے اصول تلاش کر کے ان میں ہم آہنگی پیدا کی جائے۔
  یہاں یہ پہلو بھی مد نظر رہنا چاہئیے کہ جن جگہوں پہ ذات پات کا نظام حاوی تھا وہاں اسلام زیادہ تیزی سے نہ پھیل سکا۔ جیسے شمالی ہندوستان، جہاں برہمن ازم شدت لیساتھ موجود تھا اور اس نے اسلام میں دلچسپی نہیں لی بلکہ مراعات یافتہ طبقہ ہونے کی وجہ سے محاذ آرائ اختیار کی۔ اسلام کو وہاں کامیابی ہوئ جہاں پہلے سے ہی بدھ مت اور جین مت کا رسوخ موجود تھا۔
اس طرح سے ہندوستان میں اشاعت اسلام میں حکومت کیساتھ ساتھ ہندوستان کے مذہبی، سیاسی، ثقافتی اور سماجی حالات کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔

جاری ہے

حوالہ جات؛
اردو ادب کی تحریکیں، مصنف ڈاکٹر انور سدید
المیہ تاریخ، مصنف، ڈاکٹر مبارک علی

Thursday, April 1, 2010

جیوے پاکستان


شیکسپیئر نے کہا کہ نام میں کیا رکھا ہے گلاب کو جس نام سے بھی پکارو گلاب ہی رہے گا۔ 

شاید اسی لئے ہمارے ایک صوبے کا نام نارتھ ویسٹ فرنٹیئر یعنی شمالی سرحدی صوبہ باسٹھ سال تک رہا۔ لیکن زمانے کے اطوار بدلے گئے۔ گلاب اب محض گلاب کہلائے جانے پہ راضی نہیں۔ یہ انہیں اپنی ترقی اور بقا کیخلاف سازش لگتی ہے۔ ہم بھی انکی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ کیا سبھی اپنےاپنے نام رکھتے ہیں مگر وہ شمال مغربی سرحدی صوبہ۔ اس طرح تو ایک صوبے کا نام جنوب مشرقی سرحدی صوبہ اور دوسرے کا نام جنوب  مشرقی سرحدی صوبہ اور تیسرے کا نام جنوب مغربیسرحدی صوبہ ہونا چاہئیے۔  
لیکن گلاب نے یہ نہیں کہا۔ گلاب کا کہناتھا کہ اس صوبے میں جو قوم اکثریت میں ہے اسکا نام اس اکثریتی قوم پہ ہے ہمارا نام بھی ہماری اکثریتی قوم کے نام پہ ہونا چاہئیے ۔ اگرچہ پاکستان میں صرف ایک قومیت کو ہی عصبیت کے طعنے ملتے ہیں اور بار بار اس چیز کا تذکرہ کیا جاتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں  جو اپنے آپکو اس ملک کے اندر ضم نہیں کر سکے۔ لیکن در حقیقت ہمارا سیاسی نظام ایسا ہے کہ ہر سیاسی پارٹی عصبیت سے ہی فائدہ اٹھاتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بلاول زرداری کا نام بلاول بھٹو زرداری کرنے کی نوبت نہ آتی، نواز شریف کو جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ نہ لگانا پرتا، بلوچ،  بلوچ لبریشن فرنٹ نہ بناتے اور آج سرحد کا نام تبدیل کر کے خیبر پختونخواہ نہ رکھا جاتا ۔ حالانکہ سرحد کا نام تبدیل کر کے کوئ بھی غیر قومیتی نام رکھا جا سکتا تھا جیسے اباسین یا صرف خیبر لیکن اسکے ساتھ پختونخواہ کا اضافہ ضروری سمجھا گیا  اور ایک دفعہ پھر یہ بات دہرائ گئ کہ پاکستان میں چار قومیں بستی ہیں۔ پنجابی، سندھی، بلوچی اور پختون۔ باقیوں کے لئےجیوے پاکستان۔