ڈان اخبار کے پہلے صفحے کی مرکزی ہیڈنگ کے ساتھ خبر اس طرح شروع ہوئ کہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے پارلیمانی انقلاب پہ اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان ترمیمات کی منظوری دےدی جو اب ایک صحیح پارلیمانی نظام کو لانے میں مددگار ہونگِں۔
مجھے نہیں معلوم کہ صحیح پارلیمانی نظام کیا ہوتا ہے میں تو اس نسل سے تعلق رکھتی ہوں جس نے آمریت اور جمہوریت کے لگاتار چکر ہی دیکھے ہیں۔ لیکن یہ جان کر کہ ان ترمیمات میں ایک ترمیم یہ بھی منظور کی گئ کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر الیکشن کرانے کی ضرورت نہیں بلکہ نامزدگی سے ہی کام چلایا جائے۔ محو حیرت ہوں۔
یہ سب کرنے کے بعد ملک کی وہ جماعتیں جو وراثتی سیاست کے مزے لوٹتی چلی آہی ہیں۔ یقیناً چین کی نیند سوئ ہونگیں اور گمان ہے کہ انکی اولادوں نے انہیں دنیا کے مختلف حصون سے شکرئیے کا فون ضرور کیا ہوگا۔ ممبران پارلیمنٹ کے سر سے ایک بھاری ذمہداری کا بوجھ ہٹا ہوگا ۔ اور اب انہِں یقینی طور پہ پتہ ہوگا کے آنیوالوےدنوں میں انہیں کن کے لئے نعرے لگانے ہیں، کن کی جی حضوری کرنی ہے اور کن کے ماتھے کے بل گننا ہیں۔
میں اخبار پلٹ کر سب سے آخری صفحے پہ نظر ڈالتی ہوں۔ اس پہ ایک بڑی ہیڈنگ لگی ہے۔ وزیر اعظم کی بیگم صاحبہ کا تین کروڑ آٹھ لاکھ کا قرضہ معاف کر دیا گیا ہے۔ ایک خیال آتا ہے کہ صرف اڑتیس لاکھ مجھے مل جائیں تو میں کوئ ایسا کام شروع کر سکتی ہوں جس سے دس اور لوگوں کو بھی روزگار ملنے کے مواقع مل جائیں ۔ مگر میرے شریک حیات اس ملک کے وزیر اعظم نہیں، اپنی قسمت پہ آہ بھرتی ہوں اور پھر اندرونی خبروں پہ نظر ڈالتی ہوں.
جس وقت مبارکاں اور بدھئیاں کے نعروں میں یہ بل پاس ہو رہا تھا۔ اور اپنے اپنے مفادات کی متفقہ طور پہ حفاظت کی شادمانی سب پارلیمانی ممبران کے چہروں پہ نظر آرہی تھی۔ اس وقت سندھ میں اس بل کے خلاف ہڑتال کی اپیل پہ آدھا سندھ بند تھا۔ ایک کامیاب ہڑتال۔
عین اسی وقت ہزارہ کے لوگ اپنے صوبے کے نئے نام کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اور میں اس وقت ایک سبزی کے بازار میں دو سبزی والوں کی گفتگو سن رہی تھی۔ 'اے بھئ کیا سترہویں، کیا اٹھارویں اور کیا انیسویں، کیا اس گنتی سے ہماری حالت پہ فرق پڑیگا'۔
اورکل جمہوریت کی اس پارلیمانی فتح پہ پنجاب میں لوگوں کا ایک ہجوم بجلی کی لوڈ شیڈنگ پہ احتجاج کیا۔ اور ایسے ہی ٹی وی کے قریب سے گذرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ایک بینر پہ لکھا تھا کہ ہم پاکستان کو کرغزستان بنادیں گے۔ ہم تو ایشین ٹائیگر بننے جا رہے تھے اب یہ کرغزستان بننے کے لئے کیوں تیار ہورہے ہیں۔ کہہ رہے ہیں کہ ٹائگر بننے سے پہلے آداب چیتا شاہی تو سیکھنے پڑیں گے جناب۔
جمہوریت کی اس عظیم فتح کے بعد ہمارے مسرور، مضبوط وزیر اعظم صاحب نے اٹھارہویں ترمیم سے خود کو حاصل ہونے والے اختیارات کو جانچنے کے لئے اپنے مشیربرائے لائیو اسٹاک کا انتخاب کر کے ان صاحب کو چنا جنہیں قومی اسمبلی میں داخل ہونے کے لئے جعلی تعلیمی ڈگری پیش کرنے پہ استعفی دینا پڑا۔ اب اس میں ایک بین السطور پیغام شاید گیلانی صاحب نے دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ اچھی حس مزاح رکھتے ہیں۔ یا ہمیں چیلینج دیا ہے کہ کر لو جو کرنا ہے۔
حس مزاح کا تو پتہ نہیں،
ReplyDeleteچیلنج ضرور ہے
کہ
یہ وطن ہمارا ہے
ہم ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے
ان ترامیم سے تو یہ لگتا ہے کہ ان کا دراصل تعلق ان ساڑھے تین سو ممبران اور ان کی پشتوں سے ہے جو سیاسی ایوانوں میں گھسے بیٹھے ہیں۔
ReplyDeleteحالات ایسے ہی رہے تو لوگ کرغزستان کو بھی پیچھے چھوڑدیں گے۔ وہاں تو اپوزیشن نے سیاسی چمکالی، لیکن یہاں اپوزیشن کو بھی روندیا جاءے گا۔
پچھلی ترامیم کی طرح اس ترمیم نے بھی اگلی، یعنی انیسویں ترمیم کی پیش گوئی کردی ہے۔ لہٰذا اب ہمیں ایک اور دھمال کی تیاری کرنی چاہیے۔
آٹھویں ترمیم دراصل سادہ اور آسان الفاظ میں سرکار کی طرف سے عوام کو "لخ لعنت ای اوئے" کا پیغام ہے
ReplyDeleteنہایت افسوس کی بات ہے۔
ReplyDeleteویسے کیا کبھی پاکستان میں سول بغاوت کا کوئی امکان ہے؟
مسلم لیگ نواز کے رہنما مخدوم جاوید ہاشمی اور خواجہ سعد رفیق کے اٹھارویں ترمیم کی ایک شق کے خلاف ووٹ کے بعد سیاسی حلقوں یہ بحث جاری ہے کہ اب پارٹی میں ان کا دونوں رہنماؤں نے ہمارے نامہ نگار علی سلمان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا یہ اقدام ثابت کرتا ہے کہ انہی کی قومی اسمبلی نے اٹھارویں ترمیم میں ایک شق ہے جس کے تحت سیاسی جماعتیں اپنے اندرونی انتخابات کرانے کی پابندی سے متثنیٰ ہو جائیں گی۔ اور سیاسی جماعت کا قائد رکن پارلیمان نہ ہوتے ہوئے بھی پارٹی فیصلے سے انحراف کرنے والے رکن پارلیمنٹ کےخلاف تادیبی کارروائی کرسکے گا۔
ReplyDeleteتین سو بیالیس کے ایوان میں مسلم لیگ نون کے دو رہنماؤں مخدوم جاوید ہاشمی اور خواجہ سعید رفیق اور مسلم لیگ قاف کے منحرف تین اراکین کے سوا کسی رکن نے اس ترمیم کی مخالفت نہیں کی۔
مخالفت نہیں کی۔
مخدوم جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ ان کا پارٹی کے باقی اراکین سے ہٹ کر ووٹ دینے کو سب نے محسوس کیا لیکن یہ بات کیوں نظر انداز کی جارہی ہے کہ پیپلزپارٹی میں سے تو ایک بھی رکن ایسا نہ نکلا جو سیاسی جماعتوں کی آمریت کے خلاف بات کرسکتا۔
سیاسی جماعتوں پر اندرونی انتخابات کرانے کی پابندی سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں متعارف کرائی گئی تھی لیکن جب اس کو ختم کیا جانے لگا تو اس کی نشاندہی مسلم لیگ قاف کی رکن کشمالہ طارق نے کی جو مشرف دور میں ان کی ٹیم میں شامل تھیں۔
مخدوم جاوید ہاشمی کاکہنا ہے کہ کسی اچھے قانون کو صرف اس بنیاد پر ختم کرنا نامناسب ہے کہ وہ ایک ڈکٹیٹر مخدوم جاوید ہاشمی مسلم لیگ نون کے ایک ایسے رہنما ہیں جنہوں نے مشرف دور میں سب سے طویل جیل کاٹی وہ مسلم لیگ نون کے پارلیمانی لیڈر تھے اور انہیں بغاوت کے مقدمے میں جیل بھجوادیا گیا تھا۔
مخدوم جاوید ہاشمی کو رہائی کے بعد جمہوری قوتوں خاص طور پر ان کی اپنی جماعت میں بہت پذیرائی ملی اور عام انتخابات میں وہ مسلم لیگ کے سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والے رہنما بنے اور انہیں تین نشستوں پر کامیابی ملی۔ان کا وہ بیان خاص طور پر نوٹ کیا گیا تھا جس میں انہوں نے ملک میں آمریت کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں میں آمریت کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
سیاسی حلقوں میں یہ بھی کہا گیا کہ جب قومی اسمبلی کی تین سیٹوں کے فاتح مخدوم جاوید ہاشمی نے دو نشستیں خالی کرنا تھیں تو انہوں نے ملتان کی نشست سے دستبردار ہونے کی ’شریف خواہش‘ نظر انداز کرکے راولپنڈی کی سیٹ خالی کردی تھی جو ضمنی انتخاب میں شیخ رشید کی وجہ سے مسلم لیگ نون کے لیے زندگی موت کا سبب بن گئی۔سرائیکی صوبے کےحق میں مخدوم جاوید ہاشمی کا بیان بھی پارٹی قیادت کو کڑوا کسیلا لگتا ہے کیونکہ نواز شریف اور شہباز شریف دونوں ہی صوبہ پنجاب کی تقسیم کے حق میں نہیں ہیں۔سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو ملنے والے اس اختیار کے خلاف ووٹ ڈالنے والے خواجہ سعد رفیق ہیں جو شریف برادران کی جلاوطنی میں احتجاجی تحریکوں کے روح رواں جانے جاتے تھے۔ لیکن ماضی میں ان پر ایک ایسا دور بھی گذرا تھا جب شریف برادران ان کے خلاف تھے اور کشمیر سے ایک سیاستدان نے آکر انہیں دوبارہ شریف گڈ بک میں شامل کرایا تھا۔
مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ اس ترمیم کے خلاف ووٹ ڈالنے کا دونوں کا فیصلہ الگ الگ تھا اور انہیں یہ علم نہیں تھا کہ ان کے پیچھے خواجہ سعد رفیق بھی اس ترمیم کے خلاف ووٹ دینے کے لیے آکھڑے ہوئے۔
لاہور سے منتخب ہونے والے خواجہ سعد رفیق نے بی بی سی کے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ شاید پارٹی کے باقی اراکین اتنی جلد فیصلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے ورنہ پارٹی لائن وہی ہوتی جو انہوں نے اپنائی تھی۔ انہوں نے کہا کہ کشمالہ طارق نے اس قانون کی مخالفت کی تو چند لمحے تھے جس میں فیصلہ کرنا تھا ۔’یہ لیڈرشپ کا امتحان کا وقت تھا۔خواجہ سعد رفیق نے کہا ’میں نے فوری طور پر اپنے پارلیمانی لیڈر چودھری نثار علی خان کی توجہ اس جانب مبذول کرائی لیکن سپیکر نے گنتی شروع کرادی صرف ڈیڑھ منٹ کا وقفہ ملا اور میں نے اس ترمیم کے خلاف ووٹ دے دیا۔‘
سعد رفیق کا دعویٰ ہے کہ دیگر اراکین اسمبلی کو بھی غور و خوص کا مناسب وقت ملتا تو وہ بھی اس کے خلاف ووٹ دیتے ۔
جاوید ہاشمی اور سعد رفیق دونوں ہی پارٹی لائن کے برعکس ووٹ دینے کے اپنے اس اقدام کو درست قرار دیتے ہیں۔سعد رفیق نے کہا کہ ان کی پارٹی میں باتیں ضرور ہورہی ہیں اور کئی افراد ان کے فیصلے کو غیر دانشمندانہ قرار دیتے ہیں لیکن وہ خود مطمئن ہیں۔جاوید ہاشمی نے کہاکہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے کرتے ہیں اور کرتے رہیں انہیں نتائج کی کوئی پرواہ نہیں ہے البتہ انہوں نے اس تاثر کو غلط قراردیا کہ حالیہ فیصلے سے ان کی پارٹی میں حثیت سے کوئی فرق پڑا ہے۔
ہوگا۔
ترمیم نہیں فی الحال تو ہمیں بجلی چاہیئے
ReplyDeleteترغسستان چھوڑیں۔ ہم تو عراق بننے جا رہے ہیں
ReplyDeleteaap ke padose main bharat hai kabhi dekha hai kaise hukmat chalate hain. kafir botparast gandhe iman ki doulat se dur.
ReplyDeleteجمہوریت کا نام لینے والوں کو پہلے اپنی جماعتوں میں جمہوریت قاہم کرنی چاہے.
ReplyDeleteاس قانون کے ختم ہونے یا نا ہونے سے فرق کیا پڑتا ہے؟ جس وقت یہ قانون تھا تو کون سی پارٹی میں کیا تبدیلی آگئی؟ اس قانون کے بنانے والوں نے شوکت عزیز کو پاکستان کے ایک حلقے سے منتخب بھی کروالیا جو صرف ہماری نام کی جمہوریت میں ہی ممکن ہے۔ اس قانون کے رہتے ہوئے بھی بھٹوز اور شریفین نے ہی پارٹیاں چلانی ہیں تو خوامخواہ کا رپھڑ تھا جس کو ختم کردیا گیا ہے۔ اور عنیقہ صاحبہ مزے کی بات ہے کہ اس کے ختم ہونے کے دکھ میں سب سے زیادہ ہول انہیں اٹھ رہے ہیں جن کی نظر میں جمہوریت ویسے ہی کافرانہ نظام ہے۔۔
ReplyDeleteگمنام، اس تفصیلی اور معلوماتی تبصرے کا شکریہ۔
ReplyDeleteراشد کامران صاحب فرق تو کوئ نہی پڑتا۔ لیکن کیا اس سے فرق پڑتا تھا کہ ضیاء الحق کا نام آئین کا حصہ تھا یا نہیں۔ مجھ سمیت بیشتر لوگ تو اس بات سے واقف بھی نہ تھے۔ پھر یہ کہ جب جمہوریت عوام کی حکومت عوام کے ذریعے کا نام ہے۔ تو اس دستاویز کا عوام سے اتنا چھپا کر کیوں رکھا گیا۔ آج سب درس دے رہے ہیں کہ جمہوریتکی حفاظت کرنی چاہئیے مگر کون سی جمہوریت کی، جس میں خوص کی حکومت عوام کے لئیے ہے۔
اور یہ آپ نے بالکل صحیح کہا، جنہیں تنقید برائے تنقید کرنی ہو وہ انہیں ایسے مواقعوں پہ سب سے زیادہ ہول اٹھتے ہیں۔
اپنا کوریا، اگر اپنی جماعتوں میں جمہوریت قائم کر لی تو پھر تو یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہوگا۔
اسد آپ نے ٹھیک کہا اب ہم دھمال ڈالنے کی مشق شوروع کر رہے ہیں۔
اگلے انتخابات کا انتظار کیجیئے!
ReplyDeleteآپ سب کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ گمنام نے تبصرہ بی بی سی اردو کی ویب سائٹَ سے اٹھا کر یہاں چسپاں کر دیا ہے۔
ReplyDelete:|
سیاست کی باتیں تو ھمارے بس سے باھر ھیں جی مجھے تو یہ بتائیں کہ اڑتیس لاکھ میں ایسا کون سا کاروبار پاکستان میں ھو سکتا ھے کہ آپ دس بندوں کو روزگار بھی دے سکتی ھیں؟ مسئلہ نھیں ھے ھم انویسٹ کر لیں گئے۔
ReplyDeleteیاسر صاحب، آپکو یقین نہیں آرہا۔ ایسے بہت سے کام ہیں۔ ایک چھوٹا سا چکن تکہ ، بہاری کباب کا ریسٹورنٹ کھول لیجئیے۔ بس اتنا بڑا ہو کہ اندر پکانے کی جگہ ہو۔ باہر فت پاتھ پر کرسیاں ڈالدیں اور دس افراد کو اس کام کے مختلف حصوں پہ لگا دیں ۔ ویسے اسکے علاوہ بھی خاصے بہتر آئیڈیاز ہیں میرے پاس۔ لیکن پہلے اسے ڈسکس کر لیں۔
ReplyDelete:)
خوامخواہ جاپانی بھائ کبھی انویسٹ کرنے کی غلطی بھی نہیں کرنا اپنے تجربہ کی بات ھے .اڑتیس لاکھ انویسٹ کرو گے کچھ دن بعد اڑتیس روپے بھی نہیں بچے گےء لائین لگ جاے گی بھتہ لینے والوں جسں میں پولیس ،بلدیہ ،مختلف تنظیم کے لوگ شامل ھے،اگر کاروبار چل گیا تو پاٹنر چیٹنگ شروع کردے گا ،جاپانی بھائ سکون سے جاپان میں ھوں وہئ رھوں، نہیں تو میرے دوستوں اور میری طرح سب حتم ھونے کے بعد واپس انا پڑے گا جاپان،،،
ReplyDeleteانویسٹ کرنے سے ڈر کر اسلام آباد میں مکان لئے تھے پر دینے کیلئے کرایا تو آرھا ھے ھمیں کچھ بھی نھیں ملتا۔الٹا صفائی ستھرائی کے پیسے دے کر طبیعت کی دلائی ھو جاتی ھے۔
ReplyDeleteہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا **
ReplyDeleteمیرے خیال میں تو کرائے کے حساب سے انویسٹ کرنا ایک خاصہ رسکی کام ہے۔ اسی وقت کرنا چاہئیے جب آپکے تعلقات اور پہنچ دور تک ہوں۔ لیکن اگر آپ زائد آمدنی انویست کر رہے ہوں زمین خرید کر ڈال لینا زیادہ بہتر نہیں۔ جب دل چاہابیچ کر پیسے کھرے کر لئے۔
ReplyDeleteاپنا کوریا، اگر آپ خود کسی جگہ پہ موجود ہوں تو ہی کاروبار کرنا مناسب رہتا ہے۔ آپکی بات صحیح ہے کہ پارٹنر شپ کے کام میں پارٹنر بھروسے کا آدمی ہونا چاہئیے۔
بھتہ، پولیس کے چکر اور لاتعداد دوسرے مسائل سے ہٹ کر لوگ بہرحال کاروبار تو کر رہے ہیں۔
میرے ذہن میں کافی عرصے سے کسی تعلیمی ادارے کی کھچڑی پک رہی ہے۔
کیونکہ کراچی میں، میں دیکھتی ہوں کہ یہ بڑے فائدے کا سودا ہے۔
میری بچی کا ابھی جس مونٹیسوری میں داخلہ ہوا ہے۔ وہ ایک سال پہلے شروع ہوئ ہے۔ اس سال جب ہم نے اپنی بچی کو وہاں داخل کرایا تو پندرہ دن بعد ہی انہوں نے برابر والا بنگلو بھی کرائے پہ لے لیا۔ انکا پہلے رقبہ ایک ہزار تھا اور اب وہ دو ہزار بن کر اچھا بڑا رقبہ ہو گیا۔ اسکا مطلب آمدنی ہو رہی ہے تو انہوں نے وسعت دی ہے۔
تو میں تو آجکل تعلیم کے کاروبار سے بڑی انسپائر ہوں۔
انیقہ آپ بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ReplyDelete:(