شیکسپیئر نے کہا کہ نام میں کیا رکھا ہے گلاب کو جس نام سے بھی پکارو گلاب ہی رہے گا۔
شاید اسی لئے ہمارے ایک صوبے کا نام نارتھ ویسٹ فرنٹیئر یعنی شمالی سرحدی صوبہ باسٹھ سال تک رہا۔ لیکن زمانے کے اطوار بدلے گئے۔ گلاب اب محض گلاب کہلائے جانے پہ راضی نہیں۔ یہ انہیں اپنی ترقی اور بقا کیخلاف سازش لگتی ہے۔ ہم بھی انکی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ کیا سبھی اپنےاپنے نام رکھتے ہیں مگر وہ شمال مغربی سرحدی صوبہ۔ اس طرح تو ایک صوبے کا نام جنوب مشرقی سرحدی صوبہ اور دوسرے کا نام جنوب مشرقی سرحدی صوبہ اور تیسرے کا نام جنوب مغربیسرحدی صوبہ ہونا چاہئیے۔
لیکن گلاب نے یہ نہیں کہا۔ گلاب کا کہناتھا کہ اس صوبے میں جو قوم اکثریت میں ہے اسکا نام اس اکثریتی قوم پہ ہے ہمارا نام بھی ہماری اکثریتی قوم کے نام پہ ہونا چاہئیے ۔ اگرچہ پاکستان میں صرف ایک قومیت کو ہی عصبیت کے طعنے ملتے ہیں اور بار بار اس چیز کا تذکرہ کیا جاتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے آپکو اس ملک کے اندر ضم نہیں کر سکے۔ لیکن در حقیقت ہمارا سیاسی نظام ایسا ہے کہ ہر سیاسی پارٹی عصبیت سے ہی فائدہ اٹھاتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بلاول زرداری کا نام بلاول بھٹو زرداری کرنے کی نوبت نہ آتی، نواز شریف کو جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ نہ لگانا پرتا، بلوچ، بلوچ لبریشن فرنٹ نہ بناتے اور آج سرحد کا نام تبدیل کر کے خیبر پختونخواہ نہ رکھا جاتا ۔ حالانکہ سرحد کا نام تبدیل کر کے کوئ بھی غیر قومیتی نام رکھا جا سکتا تھا جیسے اباسین یا صرف خیبر لیکن اسکے ساتھ پختونخواہ کا اضافہ ضروری سمجھا گیا اور ایک دفعہ پھر یہ بات دہرائ گئ کہ پاکستان میں چار قومیں بستی ہیں۔ پنجابی، سندھی، بلوچی اور پختون۔ باقیوں کے لئےجیوے پاکستان۔
میرے خیال میں پنجاپی یا سندھی کوئی قوم نہیں ہے۔۔
ReplyDeleteکم از کم پنجابی تو نہیں اگر پانچ دریا نہ ہوتے تو۔۔۔۔۔۔۔
ممکن ہے میں غلط ہوں
قومیت کی ویسے تو بہت ساری تعریفیں ہیں۔ مگر اس مخصوص کیس میں ایک جغرافیائ خطے میں رہنے والے لوگ جنکا طرز معاشرت، زبان اور علاقاء رسوم رواج ملتے جلتے ہوں وہ ایک قومیت میں آجاتے ہیں۔ ورنہ اگر آپ کہہ دیں کہ پنجابی اور سندھی کوئ قوم نہیں تو پھر تو بلوچی اور پٹھان بھی کوئ قوم نہیں ہیں۔ہندوستان میں ایک وقت ایسا بھی گذرا ہے جب پنجاب نامی علاقہ موجود نہیں تھا۔ اور دریائے سندھ کے آغاز سے اختتام کا سب علاقہ سندھ یا سپٹا سندھ کہلاتا تھا اور دوسری طرف کا علاقہ انڈیا کہلاتا تھا۔ مہا بھارت میں پنجاب کے بجائے لفظ پنچا نند استعمال ہوا ہے اور لفظ پنجاب کو وجود میں آئے ہوئے ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔
ReplyDeleteلنک دیکھیں،
http://en.wikipedia.org/wiki/History_of_the_Punjab
جبکہ سندھ کی تاریخ اس سے کہیں پرانی ہے۔ تو اگر ہم اس تاریخ کو لیکر چلیں تو اس پورے علاقے کو بلکہ پاکستان کو ہی سندھ کہنا چاہءیے۔ یا نہیں۔
میں تو صرف یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ آخر پختونخواہ کی کیا تاریخ ہے جو اس نام پہ اتنا اصرار کیا گیا اور اب اس پہ اتنی خوشی منائ جارہی ہے۔ یاد رہے میں اسکے خلاف نہیں کہ سرحد کو ایک مناسب نام ملنا چاہئیے تھا۔
دراصل سب پاکستانی جماعتیں عصبیت کی بنیاد پہ چلتی ہیں اور اسکی پرورش کرتی ہیں مگر اپنی اس دو عملیت کو اپنے منافقانہ طرز عمل سے چھپانے کی کوشش کرتی ہیں۔
یہ ایک خا مخا کی ضد تھی جو پوری کی گئی۔، مگر دوسری طرف یہ بھی دیکھیں کہ آج ایبٹ آباد میں نام کی اس تبدیلی کے خلاف ایک جلوس نکلا جس میں صرف بیس افراد شامل تھے۔
ReplyDeleteاس سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ آج کل اکثر لوگ کسی اور کام کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور ان فضولیات سے اپنے آپ کو دور رکھتے ہیں۔
انیقہ ایک بار پھر آپکی بات سے اتفاق کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں!
ReplyDeleteچلیئے جیوے پاکستان پر ہی رہنے دیں تو وہ بھی برداشت ہوجائے یہاں تو غداری کے تمغے بٹنے لگتے ہیں ہندوستانی کے لقب کے ساتھ :(
منیر عباسی صاحب سے متفق ہوں کہ یہ فضول قسم کی بحثیں اور باتیں جتنی جلدی ختم ہو جائیں اچھا ہے۔۔۔۔۔۔۔
ReplyDeleteميں تو راضی بالجبر ہوں اس نام پر
ReplyDeleteمسءلہ یہ ہے کہ اس نام کو رکھنے سے ترقی اور خوشحالی کے ایسے کونسے در کھل گئے جس کو کوئی اپنا کارنامہ بیان کرے بات بالکل درست ہے منیر صاحب کی خوامخوانہ کی ضد اور انتہائی غلط وقت کا انتخاب ۔
ReplyDeleteصاحبوں مہربانوں میں تو یہ سوچتا ہوں کہ یہاں تک تو پہنچے یہاں تک تو آئے!
ReplyDeleteیہ بہانہ بھی پورا ہوا اب کیارکاوٹ ہے عوام کی بھلائی کے کام کرنے میں یہ دیکھنا ہے!
رہی وقت کی بات تو پاکستان کے پاس تو کبھی صحیح وقت آیا ہی نہیں بس خراب وقت ہی چل رہا ہے 62 سال سے،
http://www.jang-group.com/jang/apr2010-daily/01-04-2010/col3.htm
ReplyDeleteابھی آگے آگے دیکھیے یہ اس نام کی وجہ سے کس طرح پاکستان کو بلیک میل کرتے ہیں بات بڑی گہری ہے کہ اس ملک کا خاتمہ چاہنے والے اس طرح کی حرکتیں کروا رہے ہیں آگے چل کر ملک کے دوسرے نامکمل مطابات بھی مانے جا سکتے ہیں۔۔۔کامران اصغر کامی
ReplyDeleteبی بی!
ReplyDeleteلوگوں کو دل کی مرادیں پوری کر لینے دیں۔ آپ کو تو آج مٹھائی بانٹنی چاہئیے تھی۔کبھی کبھی کچھ چیزوں کو دانش کی عینک کے بغیر صرف لوگوں کے دلوں کی خوشی کی نظر سے بھی دیکھ لینا چاہئیے۔ اگر کوئی محض نام کی تبدیلی سے خوش ہے تو اسکی خوشی۔
ہرج ہی کیا ہے؟۔
جاوید صاحب، آپ نے لوگوں کی دل کی خوشی کی بات کی ہے تو اور لوگوں کی بھی دل کی خوشیاں ہوتی ہیں انہیں بھی اسی طرح تسلیم کرنا چاہئیے۔ لیکن انہیں تسلیم کرتے ہوئے ان لوگوں کو عار ہوتا ہے جو اس وقت خوش ہیں کہ ایک مسئلہ تو نبٹ گیا۔
ReplyDeleteجہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اسکے خلاف بیس لوگوں کا جلوس نکلا، اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پشتونوں کی ایک بڑی تعداد یہی نام چاہتی تھی۔ مجھے تو اس چیز پہ بھی اعتراج نہیں کہ وہ اپنے لئے ایسے نام منتخب کر لیں۔ میں صرف یہ کہنا چاہتی ہوں کہ باقیوں کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ انہیں بھی اسی کھلے دل کیساتھ تسلیم کر لیں۔ انہیں غدار وطن اور فاشسٹ کے القاب کیوں دئیے جءائیں۔
عصبیت کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ لوگ صرف نام کی تبدیلی سے ہی خوش ہوجاتے ہیں۔ اب ایک عوامی سروے ہونا چاہئیے کہ اس نام کی تبدیلی کے بعد ایک عام گلی محلے کا شخص کیا سوچتا ہے اب انکے صوبے میں کیا ہوگا۔ بالخصوص وہ لوگ جو ان علاقوں میں رہتے ہیں۔ میری بڑی خواہش ہے کہ کوئ وہاں کے بالکل عام لوگوں کی توقعات بتائے۔ وہ اس سارے معاملے میں اب کیا توقع رکھتے ہیں یا اسے کیسے دیکھتے ہیں۔ منیر عباسی، اور عمر احمد بنگش کیا ہم انتظار کریں کہ آپ اس پہ کچھ لکھیں گے۔
عنیقہ ناز said...
ReplyDeleteجاوید صاحب، آپ نے لوگوں کی دل کی خوشی کی بات کی ہے تو اور لوگوں کی بھی دل کی خوشیاں ہوتی ہیں انہیں بھی اسی طرح تسلیم کرنا چاہئیے۔ لیکن انہیں تسلیم کرتے ہوئے ان لوگوں کو عار ہوتا ہے جو اس وقت خوش ہیں کہ ایک مسئلہ تو نبٹ گیا۔
انیقہ اسی لیئے تو ہم نے فرزند زمیں کی اصطلاح ایجاد کی ہے :razz:
تیمرگرہ کے مرکزی بازار میں دھماکے سے تینتالیس افراد ہلاک اور اکاسی زخمی ہوگئے ہیں۔ یہ دھماکہ اے این پی کی ریلی میں ہوا ہے جس میں چالیس سے زیادہ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
ReplyDeleteپختون خواہ کے معاملے پر ریفرنڈم ایک صحیح اقدام تھا مگر کسی نے اس پر توجہ ہی نہیں دی۔کیونکہ اس سے پختونخوا کا بخار اتر جاتا ۔اورلسانی بنیاد پر صوبائی نام رکھنے کا خواب چکنا چور ہو جاتا
ReplyDeleteساز ش کے تحت غیر پشتون علاقوں میں شناخت کا مسئلہ تو پیدا کرہی دیا گیا ہے ۔اب مختلف مقامات احتجاج اور ہڑتالیں جاری ہیں ۔حتیٰ کہ ہزارہ میں علیحدہ صوبہ بنانے کی تحریک میں تیز ی آگئی ہے
اس معاملے کا بلاگ پر میں نے تفصیلی جائز ہ لیا ہے ۔لنک درج زیل ہے ۔
http://dosrarukh.wordpress.com/