Saturday, April 17, 2010

نئے افکار انکا حصول اور ترویج-۱۰

جب بابر نے ہندوستان فتح کیا تو اس نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ہندوستان پہ حکومت کے لئے مذہبی رواداری ضروری ہے۔ اس نے ہمایوں کو جو وصیت کی وہ اس میں تفصیل سے اپنے بیٹے کو لکھتا ہے کہ یہاں مختلف المذاہب لوگ آباد ہیں۔ تم مذہبی تعصب کوہرگز اپنے دل میں جگہ نہ دو، گائے ذبح کرنے سے پرہیز کرنا اس سے تمہیں لوگوں کے دل میں جگہ مل جائے گی۔ کسی قوم کی عبادت گاہ مسمار نہیں کرنا۔ اسلام کی اشاعت ظلم و ستم کی تلوار کے مقابلے میں لطف و احسان سے بہتر ہو سکے گی۔ شیعہ سنی اختلافات ہمیشہ نظر انداز کرتے رہو کہ ان سے اسلام کمزور پڑے گا۔
اکبر اپنے ابتدائ دور میں سخت مذہبی تھا لیکن اس وقت بھی وہ صلح کل اور رواداری کا حامی تھا اور اسکی مذہبیت وسیع القلبی میں حائل نہ تھی۔ تخت نشینی کے کچھ عرصے بعد اسے ہی اسے علماء کی تشدد پسندی، دنیاداری، اور ظاہرداری سے نفرت ہو گئ اور اس نے یہ کوشش کی کہ علماء کے اقتدار اور اثر کو ختم کر کے اپنی طاقت مستحکم کرے۔ اس لئے اس نے اشتراک کی تحریک اور رجحان کو سیاسی تحفظ دیا۔
ملک گیری آسان، ملک رانی مشکل، اس نے ہندوءوں میں اعتماد پیدا کرنے کی غرض سے اور مذہبی رواداری کے لئے جزئیے کو ختم کیا ، ہندوءوں سے یاترا ٹیکس اٹھایا اور حکومت کے اقتدار میں غیر مسلموں کو برابر کی شرکت دی۔ مغلیہ نظام حکومت کا ممعمار اکبر تھا۔
اکبر کی مسلسل فتوحات اور اسکے کامیاب نظم و نسق کا راز، سب سے زیادہ ان امرا ء اراکین سلطنت کی قابلیت، فرض شناسی اور وفادری میں پنہاں ہے جو اکبر نے اپنے گرد جمع کر لئے تھے۔اکبر نے تمام اہم اعلی اسامیوں کے لئے ایک منصب داری نظام قائم کر دیا، جسکے اراکین ملک کی تمام اہم اسامیوں پہ فائز ہوتے تھے۔اچھی کارکردگی پہ انکی ترقی کے امکانات تھے اور وہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں تبدیل ہوتے رہتے تھے، انکے انتخاب اور تربیت پر بڑی توجہ ہوتی تھی۔
اکبر کا ایک ا اہم کارنامہ معاملہ ء زمین کا بندو بست تھا۔ جس کے لئے اس نے تجربے کار اور سمجھ دار اراکین جیسے ٹوڈر مل اور امیر فتح اللہ شیرازی سے کام لیا۔
اس نے علوم و فنون کی سر پرستی کی۔ اور ملک الشعراء کا عہدہ پہلی مرتبہ اکبر کے زمانے میں قائم ہوا۔

درباری مءورخ کا آغاز بھی اسی زمانے میں ہوا۔ مصوری اور موسیقی کی وسیع سرپرستی کی گئ۔ اکبر خود ان پڑھ تھا لیکن اہل علم کی قدر کرتا اور مشہور کتابیں باقاعدگی سے پڑھوا کر سنتا، حتی کے اس نے اپنی نا خواندگی کی تلافی اس طرح کی کہ دربار میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع ہو گیا اور دارلخلافہ ایک طرح کی اکیڈیمی بن گیا۔ ابو الفضل کا کہنا ہے کہ مشہور کتابوں میں شاید ہی کوئ ایسی ہو جو اکبر نے پڑھوا کر نہ سنی ہو۔
اکبر کی پالیسی کے دو پہلو تھے۔ ایک انتظامی اور سیاسی معاملات میں صلح کل کی پالیسی اور دوسرے مریدان شاہی اور دوسروں کے لئے قواعد و آئین کا وہ ملغوبہ جسے کچھ دین الہی کہتے ہیں لیکن بدایونی اور ابو الفضل آئین راہنموئ یا ارادت یا مریدی کا نام دیتے ہیں۔ دین الہی کی بنیاد عبادت خانے کی تلخ اور شر انگیز بحثوں میں رکھی گئ ۔ 
۔ابتداء میں تو اکبر کا یہ حال تھآ کہ علماء کو ایسے عہدے اور مقامات دئے کہ پہلے کبھی نہ ملے تھے۔ صدر الصدور سے حدیث سننے انکے گھر جاتا، شہزادہ سلیم کو انکی شاگردی میں دیا اور یہ حال ہوا کہ نماز با جماعت کی پابندی کیساتھ وہ اذان بھی خود دیتا، امامت کرتا اور مسجد میں اپنے ہاتھ سے جھاڑو دیتا۔ خواجہ اجمیر سے اتنی عقیدت تھی کہ سال بسال اجمیر جاتا، بلکہ بعض اوقات پا پیادہ گیا۔ پہروں مراقبے میں بیٹھا رہتا۔
شیخ سلیم چشتی کی ارادتمندی میں میں اس نے ایک عمارت انکی خانقاہ کے قریب بنا لی۔ جسکا نام عبادت گاہ رکھا گیا۔ جہاں ہر جمعے دربار خاص منعقد ہوتا اور خدا شناسی اور حق پرستی کی حکائیتیں اور روائیتیں بیان ہوتی تھیں۔
 لیکن اسکے اسی ذوق نے اسے رستے سے ہٹایا اور انکا ایک باعث ان علماء اور فضلاء کی کمزوریاں تھیں جو ان مجلسوں میں شریک ہوتے تھے۔ ہر شخص چاہتا تھآ کہ اپنی فضیلت اور دوسرے کی جہالت دکھاءووں جھگڑے کی وجہ بیٹھنے کی ترتیب ہی ہو جاتی تھی۔
بادشاہ کا دل کھٹآ ہو گیا۔ اس نے کہا جو کوئ نامعقول باتیں کرے  اسے محفل سے اٹھا دیا جائے۔ ملا بدایونی کو اس کام پہ مامور کیا گیا۔ ملا صاحب نے چپکے سے بادشاہ کے کان میں کہا کہ اس طرح تو بہتوں کو اٹھنا پڑے گا۔بادشاہ اس جملے سے خوش ہوا اور سب کو یہ الفاظ سنا دئیے۔
اگر معاملہ ذاتی فضیلت جتانے اور ایکدوسرے کی تذلیل و تکفیر تک رہتا تب بھی شاید اکبر اسلام سے بد ظن نہ ہوتا لیکن علماء نے اہم مسائل پہ اس طرح اختلاف کیا کہ بادشاہ حیران رہ گیا۔ ایک عالم ایک چیز کو حلال کہتا دوسرا اسکے حرام ہونے کا فتوی دیتا تھا ۔ بادشاہ نہ صرف دونوں سے بد ظن ہوا بلکہ حال اور حرام کا بھی تعین اس میں نہ رہا۔
ایک مزیدار مثال آتی ہے۔ بادشاہ کی چار سے زائد بیویاں تھیں۔ عبادت خانے میں تعدد ازواج زیر بحث آیا تو بادشاہ کو خیال آیا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ کسی بیوی کو رخصت کئے بغیر دین کی پاسداری ہو جائے۔ دو نے متعہ کا راستہ دکھایا، جسے دوسروں نے حنفی طرقے کے متصادم قرار دیا۔ اس پہ بدایونی نے کہا کہ اگر ایک مالکی قاضی اسکے حق میں اپنے اصول کی رو سے فتوی دیدے تو ایک حنفی کے لئے بھی متعہ جائز ہو جاتا ہے۔ یہی تو بادشاہ کو چاہئیے تھا۔ حنفی قاضی رخصت ہوئے اور مالکی قاضی آ گئے۔ سب فرقوں اور طریقوں کے عالم آگئے اور شیعہ، سنی، صوفی، مہدوی خیالات اور اختلافات بادشاہ کے سامنے آئے۔
حتی کہ بعض علماء سے عاجز آکر اکبر نے انہیں سزائے موت تک دی۔ عبادت خانوں کی بحثوں کے زیادہ دلچسپ قصے بدایونی کی تاریخ میں ملتے ہیں ابوالفضل نے بھی اسکے متعلق ایک باب اکبر نامے میں لکھآ ہے۔
مختلف واقعات سے گذر کر ایک وقت ایسا آیا کہ کہ شیخ مبارک نے بادشاہ کو کہا کہ بادشاہ خود امام وقت اور مجتہد روزگار ہے اور وہ اجتہاد کا دعوی کرے اور علماء سے محضر طلب کرے۔ آیتوں اور اسناد سے اس مضمون کا ایک محضر ترتیب دیا گیا، علماء کا اجلاس ہوا اور بحث و تمحیص کے بعد اس محضرپہ علماء کی مہریں ثبت ہوئیں۔
محضر میں اس بات کو بیان کر دیا گیا تھا کہ بادشاہ کو مجتہدین اور علماء سے انہی امور میں زیادہ اختلافات ہونگے جو نص شرعی کے مخالف نہ ہوں اور عوام کی خوشحالی کا باعث ہوں۔
لیکن عملی طور پہ ایسا نہ ہو سکا۔
جب ہندو، جینی اور پارسی  سادھو اور اہل علم مذہبی مجالس میں شریک ہوئے تو ان میں سے بعض نے اسے جگت گرو کہنا شروع کیا اور اپنی کتابوں سے ثابت کیا کہ وہ اقوام و ادیان کے اختلافات مٹائے گا۔ خوشامدیوں نے حمایت کی اور بادشاہ نے لوگوں کو مرید کرنا شروع کیا۔ اس بناء پہ افواہیں اڑیں کہ اکبر نبوت کا دعویدار ہے۔ بدایونی بھی جو آخر عمر میں اکبر کے مذہبی خیالات کا سب سے بڑا مخالف ہو گیا تھا۔ اکبر سے دعوی نبوت منسوب نہیں کیا۔
اکبر اور اسکے خوشامدیوں نے جو نظام ترتیب دیا انگریز مءورخین اسے دین الہی کا نام دیتے ہیں لیکن ابو الفضل جو اس طریقے کا خلیفہ ء اعظم تھا یہ نام استعمال نہیں کرتا بلکہ اسے آئین اکبری یا آئین راہنموئ کے تحت درج کرتا ہے۔

حوالہ جات؛
کتب؛
المیہ تاریخ، مصنف ڈاکٹر مبارک علی
رود کوثر، مصنف شیخ محمد اکرام

9 comments:

  1. ابتائی دور مین بابر رنگین مزاج تھا-- اور کوئی بھی بادشاہ اسلام کی خدمت نہی کی، جو کی اپنے موفق فتوون کی کتابین لکھوانئین-- مغل دور کے استحکام کا سارا سہرا بیرم خان کو جاتا ہے ورنہ اکبر تو بچہ تھا-- سارے مہم بیرم مے سر کئے اخر بیرم کے ساتھ کیا سلوک کیا، حج کو روانہ کیا اور سورت کے پاس قتل کیا گیا-- بندر کا دوستی اور سلطان کی مصاحبی ایک جیسے ہوتے ہین-- ٹوڈرمل، بیربل، اور مخدوم الملک شیر شاہ کے دربار سے تھے-- جسکے اصطلاحات اج تک کارامد ہین-- جاری ہین-- الغرص مضمون عمدہ ہے

    ReplyDelete
  2. اگر سيکيورٹی کے مسائل لاحق نہ ہوں تو مشعل کی تصوير لگا ديں

    ReplyDelete
  3. اگرچہ مجھے اس پوسٹ کے ساتھ یہ فرمائش سمجھ نہیں آئ۔ لیکن ایک لنک حاضر ہے۔ ہو سکتا ہے پہلے نظر سے گذرا ہو مگر آپ بھول گئیں ہوں۔ مشعل ان تصویروں میں دو سال کی ہے۔
    http://anqasha.blogspot.com/2009/08/blog-post_28.html

    ReplyDelete
  4. یہ امر دلچسپ ہے کہ مفتوحہ سرزمینوں پر مسلمان امرا اور بادشاہوں کا رویہ علماء سے مختلف رہ ہے ۔ علماء شریعت کے سختی سے نفاذ ،مسلمان طبقے کے مفادات اور کلچر کی سختی سے حفاظت اور غیر مسلموں کو ریاست کے اہم معاملات میں دخیل ہونے کے مخالفت کرتے رہے ہیں جبکہ حکمرانوں کا مفاد رعایا کے درمیان مساوات اور ہم آہنگی کے رویے میں رہا ہے ۔ مثلا حضرت امیر معاویہ عرب ہوتے ہوئے بھی بازنطینی کلچر سے متاثر رہے اور کئی اہم عہدے عیسائیوں کے پاس رہے ۔
    اسپین میں یہودی اور عیسائی ملکی معاملات میں اہم صلاحیتوں کی بنا پر دخیل رہے ۔ ہندوستان میں بھی یہی منظر نظر آتا ہے ۔ غالبا علماء اپنی مخصوص افتاد طبع کی بنا پر ریاست کے عملی مسائل کو کو سمجھنے سے قاصر رہتے رہے ہیں اور بادشاہ کو ہر روز غیر مسلم رعایا کے ساتھ ان عملی مسائل کا سامنا رہتا تھا ۔

    ReplyDelete
  5. آپ نے درست کہا۔ جب محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا تو سوال پیدا ہوا کہ مقامی آبادی جو ہندءووں پہ مشتمل ہے انکا کیا کیا جائے۔ ایسے وقت پہ حجاج بن یوسف نے نے حکم دیا کہ انکے ساتھ اہل کتاب کا سلوک کیا جائے۔ کچھ سالوں بعد جب شمالی ہندوستان کے علاقے فتح ہوئے تو یہ علماء تھے جنہوں نے اس چیز کے خلاف رد عمل ظاہر کیا اور کہاکہ ہندءووں کو یا تو مسلمان ہونا چاہئیے یا پھر انہیں قتل کر دیا جائے۔ اایک جگہ میں نے پڑھا کہ عالم یہاں تک پہنچ گیا تھا کہ ایک ہندو نے حاکم کے سامنے اس بات کا اقرار کیا کہ اسلامن سچا مذہب ہے اور اسلام اچھا مذہب ہے۔ لیک اس تعریف کے باوجود وہ رہا ہندو ہی۔ مءورخ کہتے ہیں کہ اس پہ اسکے خلاف فتوی جاری کیا گیا کہ کیونکہ اس نے اسلام کی حقانیت تسلیم کی اس لئے وہ مسلمان ہو گیا اب اسکا اپنے ہندو مذہب پہ عمل کرنا مرتد ہونے کے برابر ہے اس لئے اس پہ قتل کی حد جاری ہوگی۔ یہ سن کر وہ فرار ہو گیا ادھر ادھر مارا مارا پھرتا رہا اور بالآخر مارا گیا۔
    تو علماء کے مزاج کی سختی یا تو انکے ماننے والوں میں بھی سختی پیدا کر دیتی ہے یا پھر وہ دین سے بیزار ہوجاتے ہیں۔ ہر صورت میں ایک انتہا پسند معاشرے کے وجود میں آنے کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔

    ReplyDelete
  6. بی بی!

    ہمیں تو لگتا ہے اس پوسٹ کا مقصد ہی علماءئےاسلام کو جی بھر کر رگیدنا ہے۔مغل فرمارواؤں اور خاصکر جلال الدین محمد اکبر کی اسلام سے دوری اور اسلام کو نقصان پہنچائے جانے والے اقدامات سے ساری تاریخ ٍ بھری پڑی ہے ۔ صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کو قیدو بند کی صعبوبتیں اٹھانی پڑیں ۔ بیشتر کو موت کے گھاٹ اتار ادیا گیا مگر انہوں نے حق بات کے لئیے جان دے دینی گوارا کر لیا مگر متلون مزاج اکبر کے سامنے جھے نہیں ۔ اس بارے بلا مبالغہ ہزاروں مستند حوالہ جات ملتے ہیں۔

    یہ بلاگ آپ کا ہے ۔ آپ کے علم کا مطالبہ ہے کہ آپ خود بھی حقائق کو جاننے، پرکھنے، کھوجنے اور ڈھونڈنے کی کچھ جستجو کیا کریں۔ اس حوالے سے آپ پہ فرض ہوتا ہے کہ آپ حقائق کو انکے اصل تناظر میں پیش کریں ۔محض ایک آدھ پسندیدہ رائٹر کے من پسند حقائق تاریخ نہیں ہوا کرتے ۔ ۔ ورنہ آپ کی جانبداری مشکوک سمجھی جا سکتی ہے ۔ یاکم از کم یکطرفہ نکات پیش کرنے کی بجائے ،انصاف کرتے ہوئے دونوں طرف کی رائے قارئین کے سامنے رکھ کر فیصلہ انکی صوابدید پہ چھوڑ دیا کریں ۔

    ہزار تاویلات کے باوجود تاریخ نہیں بدلی جاسکتی۔

    ReplyDelete
  7. جاوید صاحب، ڈاکٹر مبارک علی، اس وقت پاکستان کے مایہ ناز مءورخوں میں سے ایک ہیں اور تاریخ کے موضو پہ انکی کافی سے زیادہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ انکے مضامین نہ صرف ہر اتوار کے ڈان میگزین میں بھی آتے ہیں بلکہ ڈان ہی کے بچوں کے میگزین میں بھی انکی سلسلہ وار تحریر آجکل آ رہی ہے۔ اس طرح سے وہ میرے پسندیدہ رائٹر نہیں ٹہرتے بلکہ ان لوگوں میں آجاتے ہیں جو کسی موضوع کے متلعق بہتر علم رکھنے والوں میں آتے ہیں۔ البتہ وہ تعریف کے لحاظ سے قدامت پسندوں میں نہیں آتے اور اپنے سیاسی فکر میں خاصے لبرل ہیں انکی تاریخ کی کتابیں خاصہ تنقیدی انداز لئے ہوئے ہیں اور وہ احمد شاہ سرہندی سمیت دیگر اور لوگوں کی شان میں اتنے رطب اللسان نظر نہیں آتے۔
    شیخ محمد اکرام کی رود کوثر ادارہ ء ثقافت اسلامیہ کے تحت شائع ہوئ ہے۔ شیخ صاحب اسلام سے خاصہ شغف رکھتے ہیں اور تاریخ پاک و ہند پہ انکی گہری نظر ہے۔ اس سلسلے کی دو اور کتابیں آب کوثر اور حوض کوثر ہیں۔ اتفاق ہے کہ اس تحریر میں بیان کئے گئے حقائق زیادہ تر رود کوثر سے لئے گئے ہیں۔
    اب آپکو یہ اندازہ تو ہو چلا ہوگا کہ یہ دونوں مصنفین نظریاتی اعتبار سے ایکدوسرے کی ضد ہیں۔ اسکے باوجود شیخ صاحب نے اکبر کو اتنی اہمیت دی اور انکی اس کتاب میں ایک لمبی چوڑی بحث موجود ہے جو انہوں نے اکبر کے آئین اکبری سے متعلق کی ہے اور اسکے نتیجے میں وہ اپنے قاری کو یہ بات باور کرانے میں تقریباً کامیاب ہو جاتے ہیں کہ اکبر کے سلسلے میں جو باتیں کی گئیں وہ بڑھائ زیادہ گئ ہیں۔
    میں نے تو اس میں مبارک علی صاحب کی وہ گفتگو نہیں ڈالی جس میں انہوں نے مجدد الف ثانی کی شخصیت کو علماء کی طرف سے اکبر کا جواب تیار کر کے پیش کرنے کی کوشش قرار دیا۔ یہ میرا موضوع بھی نہیں ہے۔ میرا موضوع اپنے عنوان سے ظاہر ہے۔ احیائے دین کی کوششیں اس موضوع کی جڈ ہیں جو لازماً میں اس میں نہیں ڈالونگی
    تو، یہ عجیب اتفاق ہے کہ دو نضریاتی طور پہ مختلف تاریخ دان اکبر کے معاملے میں خاصی لچک دکھاتے ہیں اور میں نہیں بلکہ وہ اسے علماء کی کمزوری سمجھتے ہیں۔

    ReplyDelete
  8. آپ بھی عنيقہ حد کرتی ہيں ان تصويروں ميں تو آپ خود نہ پہچان پائيں کہ يہ مشعل ہے اتنے دور سے کھينچی گئی ہيں زوم والا کيمرہ خريديں اور تازہ فوٹو لگائيں کلوز اپ والی

    ReplyDelete
  9. اسماء، ان تصویروں پہ کلک کریں تو یہ اتنی بڑی ہوجاتی ہیں کہ آپ بآسانی پہچان لیں کہ مشعل کون ہے۔ یہ سب تصویریں میرے خاصے اچھے کیمرے سے لی گئ ہیں۔ لیکن اس وقت انکی ریزولوشن کم ہے۔
    ویسے آپکی فرمائش نوٹ کر لی گئ ہے مستقبل قریب میں پوری کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ