ڈنگ ڈونگ۔ بیل بجی، میں نے پوچھا کون ہے۔ بچہ ہے جی کوئ، پولیو کے قطرے پلانے ہیں۔ اب اگرچہ میں پاکستان کے ان بہت کم خوش نصیب لوگوں میں سے ہوں جنہیں بچے کی پیدائش کے وقت یہ ٹائم ٹیبل مل جاتا ہے کہ پانچ سال کی عمر تک بچے کو کونسے حفاظتی ٹیکے لگیں گے اور کب۔ لیکن پھر بھی میں نے فیصلہ کیا کہ گورنمنٹ کی طرف سے جو گشتی ٹیمیں آتی ہیں ۔ ان سے دوبارہ یا سہہ بارہ پلوا لینے میں کوئ حرج نہیں۔ میں صاحبزادی کو لیکر گیٹ پہ پہنچی۔ ایک خاتون ایک لمبا سا عبا پہنے اور چہرے کو سختی سے حجاب سے ڈھانکے وہاں ایک نو دس سالہ بچے کے ساتھ موجود تھیں۔ انہوں نے اپنے پاس موجود ایک کاغذ پہ ساری تفصیلات معلوم کر کے لکھیں اور پھر اپنے پاس کھڑے بچے سے کہا چلو اب تم ڈراپس ڈالدو اسکے منہ میں۔ میں ہکا بکا رہ گئ۔ بچے نے اپنے ہاتھ میں موجود تھرماس کھولنا شروع کی ا اور------۔ یہ بچہ یہ کام کر رہا ہے۔ ' ڈراپس ہی تو پلانا ہیں، جی'۔
اسکے تقریباً دو ہفتے بعد دوبارہ بیل بجی۔ آج پھر پولیو کے قطرے پلانے کا دن تھا۔ میں نے انہیں انٹرکام پہ اطلاع دی کہ بچی ابھی اسکول سے واپس آنے ہی والی ہے۔ آپ ایک دو گھر دیکھ لیں پھر آجائیے گا۔ اچھا تو ہمیں بچی کا نام بتادیں۔ ہم دس منٹ بعد آکر قطرے پلا جائیں گے۔ مجھے معلوم تھا کہ جو وہ کہہ رہی ہیں، ایسا نہیں ہوگا۔ لیکن یہ پوسٹ لکھنے کے لئے میں نے اسے نام بتا دیا۔ اج شاید دو ہفتے ہو گئے مگر وہ خاتون پلٹ کر نہیں آئیں۔
جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا کہ مجھے اپنی بیٹی کو یہ مزید قطرے پلانے یا نہ پلانے سے فرق نہیں پڑتا۔ اسکے حفاظتی ٹیکوں کا کورس نجی طور پہ اپنے ٹائم ٹیبل کے حساب سے چل رہا ہے۔ لیکن جہاں میں خوش نصیب ہوں وہاں میری بد نصیبی یہ بھی ہے کہ میں ایسے ملک میں رہتی ہوں جہاں کچھ لوگ حفاظتی ٹیکوں کے جائز اور ناجائز کا سوال اٹھائے کھڑے ہیں اور کچھ اپنے بچوں کو اس لئے نہیں پینے دیتے کہ وہ انہیں بانجھ کر دیں گے۔ وہاں کچھ لوگ جو چاہتے ہیں کہ انکے بچوں کو یہ حفاظت حاصل ہو جائے انکے حصے میں یہ بے ایمان، بے حس اور ناکارہ ورکرز آتے ہیں۔
پاکستان دنیا کے ان چار ممالک میں شامل ہے جو پولیو سے شدید متائثر ہیں۔ باقی تین ممالک میں شامل ہیں انڈیا، افغانستان اور نائیجیریا۔ پولیو کے خلاف چلنے والی مہم میں حکومت پاکستان کو یونیسف کے ادارے کی مدد حاصل ہے جسکا نام ہے۔
UNICEF’s Programme Communications Specialist for Polio and the Expanded Programme for Immunization
حکومت جاپان نے سن دو ہزار نو کے دسمبر میں اعلان کیا تھا کہ وہ حکومت پاکستان کو چار اعشاریہ چار ملین ڈالر کی گرانٹ دے گی تاکہ وہ سن دو ہزار دس میں پولیو کے خلاف مہم بہتر طور پہ چلا سکے اور یہاں سے پولیو کا خاتمہ کیا جا سکے۔ لیکن بات وہی کہ مدعی، مدعا علیہ ناءو میں اور شاہد تیرتے جائیں۔ کیا اس سے فرق پڑتا ہے کہ جاپان یا کوئ اور ملک ہمارے مسائل کے حل کے لئے ہمارے ساتھ کیا تعاون کر رہے ہیں۔
پولیو، جیسا کہ ہم جانتے ہیں معصوم ہنستے کھیلتے بچوں کو ہمیشہ کے لئے معذور کر دینے والی بیماری ہے اور اسکا کوئ علاج نہیں ہے سوائے اسکے کہ بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگائے جائیں اس لئے متعلقہ حکام اور ورکرز کو اس ضمن میں پوری سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئیے۔ بچے ہمارا مستقبل ہیں اور اہنے مستقبل کو معذور ہونے سے بچانا ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہئیے۔
Friday, April 16, 2010
22 comments:
آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
اور یہ بے ایمان، بے حس اور ناکارہ ورکرز جاتے ہوئے آپکے گھر کی دیوار پہ چاک سے جو گند مچا کر جاتے ہیں وہ بہت ناشائستہ حرکت ہے۔ جس طرح کے ڈبے بنا کر بچے زیرو کاٹا کھیلتے ہیں اس طرز کے خانوں میں یہ لوگ نہ جانے کیا خرافات لکھ جاتے ہیں۔بھئی یہی نشانی لگانا مقصود ہے نا کہ تم اس گھرکے مکینوں کو شرف زیارت سے بہرہ مند کر چکے ہو،تو یہ کام تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوے کوئی ڈھنگ کی چھوٹی موٹی نشانی لگاکر بھی کیا جا سکتا ہے۔آپ چاہے ایک کمرے کے کواٹر میں رہ رہے ہوں یا دس کروڑ کے گھر میں، آپ کی باہر کی دیوار کا ستیاناس بلا تفریق کیا جاے گا۔ اور پاگل پن کی حد یہ ہے کہ اگر آپ کے گھر کوئی بچہ نہ تھا اور قطرے پینے پلانے کی نوبت ہی نہیں آئی تو بھی اس منحوس وال چاکنگ سے آپ کو محروم نہیں رکھا جائے گا۔
ReplyDeleteنہ جانے کون لوگ کرسیوں کی بجائے عقل پہ بیٹھ کر یہ اصول کار وضع کرتے ہیں۔
پوری قوم کا دماغ خراب ہے۔
ReplyDeleteپہلی بات یہ گھر گھر بھیجنے کی تک؟ والدین بچے کو ہسپتال سے پلوائیں۔
دوسری بات آپ کو کیا معلوم جو آیا ہے وہ حکومت کا ہی بھیجا ہوا ہے۔ ویکیسین میں ملاوٹ نہیں مگر دودھ گھی چینی میں تو ہے۔
آپ کا بچہ اگر آپ کی توجہ سے کورس پورا کر رہا ہے تو کسی اور کے بچے کا حق مار کر دوا پلوانے کامطلب؟ اور یہ اضافی دوا کیا اچھا اثر ڈالے گی؟
عرفان احمد شفقت صاحب، یہ نشانات صرف اس لئے ڈالے جاتے ہیں کہ سند رہے اور بوقت ضروروت کام آئے کہ ہم نے تو اپنا فرض ادا کیا، اب اگر کوئ بچہ یہ ویکسین پینے کے باوجود بھی پولیو کا شکار ہوتا ہے تو خدا کی مرضی۔
ReplyDeleteبدتمیز، آپ چونکہ پاکستان میں رہائش پذیر نہیں اس لئے آپکو معلوم نہیں کہ پولویو کے لئے چلنے والی مہم میں یہ کہا جاتا ہے کہ ہر بچہ ہر بار اور یہ نہیں کہا جاتا کہ جو صاحب استطاعت لوگ یہ پلوا چکے ہوں وہ نہ پلوائیں۔ نہ ہی کسی کے حق پہ ڈاکا ہے۔ کہ اس مقصد کے لئے آنیوالی ویسین مختلف ممالک کے تعاون سے تمام پاکستانی بچوں کے لئے آتی ہیں اور اگر انہیں ایک مقررہ عرصہ میں استعمال نہ کیا جائے تو وہ ضائع ہوجاتی ہیں۔
رہی زائد مقدار پلانے کی بات کہ اس سے کیا فائدہ ہوگا۔ یہ بات میں ے اپنی بچی کے ڈاکٹر سے بھی پوچھی تھی۔ انہوں نے کہا پلوائیں یا نہ پلوائیں آپکی مرضی، مجھے پانچ سال کی عمر تک اسکا ویکسین کا کارڈ صحیح ریکارڈ کے ساتھ مکمل چاہئیے۔
آخیر میں یہ ہوا کہ جب بھی یہ ٹیمیں آتی ہیں تو پھر انہیں یہ سمجھانا مشکل ہوتا ہے کہ بھئ ہمیں نہیں پلوانا۔ میں نے ڈھائ سال کی عمر تک انہیں یہ گشتی ٹیموں والی ویکسین نہیں پلوائ۔ کیونکہ مجھے انکی پوٹینسی کے بارے میں شبہ رہتا ہے۔ مگر پھر سوچا ہر بار بار اتنی بحث میں پڑنے سے بہتر ہے پلوا ہی دیا جائے۔
امید ہے اس تفصیلی جواب سے آپکی تشفی ہو گئ ہوگی۔
جب آپ نے یہ لکھا کہ انھوں نے نام پوچھا تو مجھے یقین تھا ایسا ہی ہوا ہو گا کہ وہ نام لکھ کر بھاگ گئی ہونگی پھر نہیں آئے ہونگے
ReplyDeleteایک دفعہ ہمارے محلے میں پولیوں والے آ گے ایک لڑکی اور ایک لڑکا میں نے محلے کے سارے بچے جمع کیے اور ان کے پاس لے آیا پھر وہ لگے رہے نام پتہ میں بتاتا رہا اور وہ لکھتے اور پلاتے رہے لیکن اس کے بعد میرے ہوتے ہوئے کوئی نہی آیا وہاں
خرم ابن بشیر، ہم جب چھوٹے تھے تو مدرسے میں بتاشوں کے اوپر قطرے ڈال کر پلائے گئے تھے۔ اور اپنے سامنے وہ بتاشہ کھلادیتے تھے۔ اب تو مدرسے والے اسکے لئے فتوے جاری کرنے لگ گئے ہیں۔
ReplyDeleteخیر، بتاشوں کے لئے تو پیسے بھی نہیں ہیں لیکن جو قطرے ہم دوسرے ممالک کے احسان کیساتھ حاصل کرتے ہیں وہ بھی نہیں کوئ صحیح سے پلاتا۔
اب یا تو ان ورکرز کی ٹریننگ نہیں ہوتی صحیح سے اور انکے اندر ذمہ داری کا احساس نہیں پیدا کیا جاتا کہ یہ چند قطرے نہ پلا کر آپ کسی انسان کو زندگی بھر کی معذوری دے سکتے ہیں۔
آپ نے جو کیا وہ صدقہ ء جاریہ کے ضمن میں آتا ہے۔ جب تک وہ بچے زندگی کی نعمت سے مالامال رہیں گے۔ آپکے لئے اطمینان قلب کی دولت لکھ دی گئ ہے۔
بندہ اپنے بچپن میں ان تمام قابل ذکر بیماریوں کا شکار رہا ہے جن سے بچاو کے لئے آج کا ویکسنیشن پروگرام ہے ۔ اس وقت یہ سہولت میسر نہیں تھی آج میسر ہے تو وہ بھی ہم ڈھنگ سے استعمال نہیں کرتے ۔
ReplyDeleteبچپن میں ملیریا سے بچاو کی ٹیمیں بھی سرکاری سکولوں میں آتی تھیں اور اپنی نگرانی میں کونین کی گولیاں بچوں کو پلواتے تھے ۔ اس وقت بہت لطف آتا تھا جب بعض بچے گولی منہ میں ڈالنے کے بعد پانی کا گلاس منہ سے لگا کر پورا گلاس غٹا غٹ پینے کے بعد آخ تھو کہتے ہوئے گولی زمین پر تھوک دیتے تھے
پولیو ویکسین صحت کیلئے مذر ہے۔ وزارت دماغ!
ReplyDeleteکچھہ ایسا ہی ھندوستان کے علاقہ مرشد اباد مین ہوا. وہان ملاٹون نے انتہائی غلط افوا اڑادی، مسلمان اکثریتی علاقہ لیکن مہم نادام ہوجاتی ہے اگر ایک بھی پولیو کا مریض رجسٹر ہو!! بھر کیا تھا ملاون کو کچھ دے دلا کر منالیا اور ہر گلی مین مولانا جیپ لئے اعلان کر رہے ہین کہ ڈراپس استعمال کرسکے ہو-- ا
ReplyDeleteسکول کی ايک سنئير سائنس ٹيچر نے ايک دن ہنستے ہنستے مجھے بتايا تھا کہ پوليو کے قطرے پلانے کی ايک دفعہ ان کی ڈيوٹی لگی گھر گھر جا کر پلانے کی تو انہوں نے ساري ڈوز بہا دي اور خود سے اندراج کر کے بھيج ديا ميں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگيں ہم معزز سکول ٹيچرز ہيں کيا گليوں ميں پھر پھر کر قطرے پلانا ہميں زيب ديتا ہے
ReplyDeleteاسماء۔ ایسی ہی باتیں ہیں جنہیں سن کر ایکدم دھچکا لگتا ہے اور ہم سوچتے ہیں کہ انسان بالخصوص وہ جنکے بچے بھی ہیں وہ کسی بھی ایسی لاپرواہی کا مظاہرہ جس سے کسی بچے کی چاہے وہ کسی کا بھی ہو اسکی جان کو خطرہ پیدا ہو جائے۔ انہوں نے یہ بات ہنستے ہنستے کہی تھی لیکن جو بچہ اسکی وجہ سے مرذور ہو جائے وہ ساری زندگی روتا ہے۔
ReplyDeleteمیری بیٹی جب سات آٹھ مہینے کی تھی اورگھٹنوں کے بل چلتی تھی تو میں اکثر محسوس کرتی تھی کہ وہ بھاگتے دوڑتے بچوں کو دیکھ کر بھاگنا چاہتی ہے اور بہت خوش ہوتی ہے لیکن طبعی مجبوری ایسی تھی کہ وہ اس وقت چل نہیں سکتی تھی۔ جو بچے اپنے ہم عمر بچوں کو چلتا پھرتا دیکھیں اور نہ چل پائیں اپنی معذوری کے سبب انہیں کیسا لگتا ہوگا۔ اگر انکے دل میں اس احساس کی رمق بھی پیدا ہو جائے تو شاید وہ اسے گناہ سمجھیں۔
آپکا یہ کالم اسلئے پڑھا تاکہ کچھ تھقیقی مواد مل سکے۔
ReplyDeleteایک دو مضامین میرے بھی ہیں پولیو کے بارئے میں ۔
انہیں پڑھ کر اگر کوئی تحقیقی یا مفید رائے کا اظہار کرسکیں تو اچھا ہوگا۔
http://darveshkhurasani.wordpress.com/2011/12/09/1/
http://darveshkhurasani.wordpress.com/2012/04/22/897/
میں نے آپکا پہلا کالم پڑھا دوسرا پڑھنے کی ہمت نہیں کی۔ آپ شاید ان مذہبی انتہا پسندوں سے متائثر ہیں جو خود تو کوئ مثبت کام نہیں کرتے لیکن دوسروں کو بھی کرتا نہیں دیکھ سکتے۔
ReplyDeleteپولیو ویکسین کی حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی قسم کی ویکسین تیار کرنے کے لئے اسی بیماری کے جراثیم لے کر انہیں اتنا کمزور کر دیا جاتا ہے کہ وہ انسانی جسم میں بیماری پیدا کرنے کے قابل نہیں رہتے۔
انسانی جسم کو اللہ نے ایک دفاعی نظام سے نوازا ہے اسکی خوبی یہ ہے کہ یہ اکثر بیماریوں کے جراثیم کے خلاف خود کام کرتا ہے۔ اگر ایک دفعہ یہ جراثیم انسان کے جسم میں داخل ہو جاءیں تو یہ نظام انہیں یاد رکھ لیتا ہے اور اگلی بار یہ جسم میں جیسے ہی داخل ہوتے ہیں یہ انکے خلاف فوری کارروائ کر کے انہیں وہیں ختم کر دیتا ہے۔
ویکسین کے ذریعے جسم کو اس بیماری کے کمزور جراثیم سے واقفیت کرائ جاتی ہے تاکہ اگلی دفعہ جسم اسکے خلاف کارروائ کر سکے۔
امید ہے کہ آپکو ویکسین کا طریقہ ء کار سمجھ میں آگیا ہوگا۔ اگر نہیں تو میں اس پہ ایک تفصیلی تحریر لکھ دونگی۔
پاکستان میں پولیو ویکسین کے باوجود اس بیماری کے مریض سامنے آتے ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ بنیادی طور پہ ویکسین کو محفوظ نہیں رکھا جاتا یا بعض جاہل والدین اپنے بچوں کو یہ ویکسین نہیں پلاتے۔ ساری دنیا میں بچوں کو یہ ویکسین پیدائش کے فورا بعد سے پلائ جاتی ہے اسکے باوجود دنیا کی آبادی اس وقت آٹح ارب کے قریب ہونے جا رہی ہے۔ میرے گھرانے کے سارے بچے یہ ویکسین پیتے ہیں اور اس میں کوئ بانجھ پن کی دوا نہیں ہے۔
اس دوسرئے کالم کو بھی ضرور پڑھئے۔
ReplyDeleteاسمیں چند حل طلب سوالات ہیں۔
باقی ویکسنیشن کے طریقہ کار کا پتہ ہے۔
انسانوں کو صرف بچے نہیں پیدا کرنا ہوتا جانوروں کی طرح بلکہ انکے تحفظ اور صحت پہ بھی کام کرنا ہوتا ہے۔ یہ بنیادی فرق ہے جانوروں اور انسانوں میں۔ اس لئے اس بات کو مسئلہ نہیں بنانا چاہئیے کہ عورت تا عمر بچے پیدا کرتی رہے اسے مسئلہ بنانا چاہئیے کہ ہمارے معاشرے میں جو بچے جنم لیتے ہیں وہ بڑے ہو کر تندرست اور توانا رہیں اور معذور ہو کر دوسروں پہ بوجھ نہ بنیں۔ ایک بیمار اور معذور شخص نہ صرف خود ڈپریس رہتا ہے بلکہ ایک خاندان کی آمدنی کا بڑا حصہ یا تو اسکے علاج معالجے پہ خرچ ہوتا ہے یا پھر دیگر صحت مند لوگ اسے حقیر سمجھتے ہوئے ایک سسکتی زندگی گذارنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔
ReplyDeleteترقی یافتہ ممالک میں بچوں کا ویکسینیشن کارڈ ایک مقدس کتاب کی طرح سنبھال کر رکھا جاتا ہے کیونکہ یہ کسی بھی وقت کہیں پر بھی طلب کیا جا سکتا ہے۔
کیونکہ پاکستان کی مردم شماری کے اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مرد عورتوں کی نسبت زیادہ ہیں اس لئے آپکی یہ بات جہالت کے سوا کچھ نہیں کہ ویکسین کے زیر اثر لڑکیاں زیادہ پیدا ہو رہی ہیں۔
ساری دنیا میں اس وقت مرد اور عورت کا تناسب تقریباً برابر ہے۔ قردت کا قانون ہے کہ وہ کسی بھی جنس میں مادہ کو زیادہ رکھتی ہے تاکہ وہ نسل برقرار رہے۔ سائین کے قوانین میں نر نہیں بلکہ کسی بھی نسل کی بقاء کے لئے مادہ کی اہمیت زیادہ ہے۔
آپ نے پرانے زمانی کی بات کی ہے پرانے زمانے میں آبادی شرح بے حد کم تھی۔ ایک عورت ساری عمر بچے پیدا کرتی تھی لیکن اسکے چند ہی بچے موجود ہوتے تھے۔ اب بھی اگر آپ پسماندہ علاقوں کا رخ کریں تو معلوم ہو گا کہ ایک عورت جتنے بچے پیدا کرتے ہیں اتنے باقی نہیں بچتے۔ کیا یہ بری بات ہے کہ ہم کم بچے پیدا کریں مگر سب کو صحت مند رکھنے کے قابل ہو جائیں۔
سگریٹ پینے سے پھیپھڑوں کے کینسر ہونے کے امکانات کئ گنا بڑھ جاتے ہیں، زیادہ شراب پینے والوں کو جگر کا کینسر ہونے کے امکانات کہیں زیادہ ہو جاتے ہیں تو کیا اس بناء پہ سگریٹ نوشی کے خلاف مہم بند کر دی جائے۔ ایسا پانی جس میں صنعتی فضلاء شامل ہو اسکے پینے والے زیادہ تر لوگ مختلف سنگین بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن کئ ایک نہیں بھی ہوتے تو کیا اس بناء پہ صنعتوں پہ پابندی نہ لگائ جائے کہ وہ اپنا فضلاء پینے کے پانی میں نہ پھینکیں اور اسے نکالنے سے پہلے اس کا زہریلا پن ختم کر دیں۔
اگر ایک انسان مر جاتا ہے تو اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا کہ ایک انسان کے معذور ہونے سے ہوتا ہے۔ مرذور انسان ایک معاشرے پہ بوجھ ہے اگر ہم ایک ایسے سستے طریقے سے واقف ہیں جس کے بعد ہمارا بچہ معذور ہونے سے بچ جائے تو اسے اختیار کرنے میں کیا قباحت؟
کیا یہ منظر آپکے دل کو رلا نہیں دیتا کہ ایک پانچ چھ مہینے کا صحت مند بچہ جو ہر جدہ ہمکتا پھر رہا ہو دفعتاً بیمار ہو کر اپنی ٹانگ رگڑ رہا ہوتا ہے یا پھر دماغی پولیو ہونے کی صورت میں وہ بستر پہ پڑا اپنے جسم سے ایک مکھی بھی ہٹانے کے قابل نہیں رہتا اور اسکے اپنے ماں باپاسکی ذمہ داریوں سے تنگ آکر اسکے مرنے کی دعا مانگتے ہیں۔ ایسے غیر ذمے دار معاشرے میں تو بچے پیدا کرنے پہ پابندی لگا دینی چاہئیے۔ کیا ایک صحت مند انسان کو محض اپنے نظریات کے بھینٹ چڑھا دینے سے ہم الل کی نا شکری کر کے اس کے غیض و غضب کو آواز نہیں دیتے؟
صرف چند قطرے اگر آپکو ایک ذمہ دار والدین بنا رہے ہیں تو انکے خلاف مہم کیوں؟
مہم تو اس بات کے لئے ہونی چاہئے کہ پولیو کے یہ قطرے محفوظ حالت میں بچوں تک پہنچیں۔ صحت مند بچے ہی صحت مند مستقبل کی ضمانت ہیں،۔ چاہے وہ دو ہی ہوں۔
آپ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ آخر ترقی یافتہ ممالک اپنے بچوں کی ویکسینیشن پہ اتنی توجہ کیوں دیتے ہیں۔
اگر آپکو ویکسین کی حقیقت معلوم ہے تو یہ بے سروپا کالم لکھنے کا کیا مقصد؟ آپکو تو لوگوں کو قائل کرنا چاہئیے کہ وہ اپنے بچوں پولیو کے قطرے پوری ذمہ داری کے ساتھ پانچ سال کی عمر تک ضرور پلائیں۔ یہ مفت ہیں اور انکا کوئ ضمنی اثر نہیں ہوتا۔
عنیقہ صاحبہ بچوں کیلئے آپکی تڑپ بالکل بجا ہے۔ آپکے مفید مشوروں کا بہت شکریہ ،میں مزید تحقیق میں بھی لگا ہوا ہوں اس بارئے میں تاکہ اگر موقف تبدیل کرنا ہو تو پھر ٹھوس دلایل اور لیبارٹری رپورٹس سے بھی اسکو صحیح ثابت کیا جا سکے ۔
ReplyDeleteآپکے مفید آراء کا ایک بار پھر شکریہ
پاکستان میں پولیو کے علاوہ کئی بیماریاں ایسی ہیں جو کہ ذیادہ مہلک اور جان لیوہ ہیں اور ذیادہ تیزی سے پھیل رہی ہیں ان پر کیوں حکومت توجہ نہیں دیتی کیونکہ کچھ ایسے کیسس بھی سامنے آئے ہیں جن میں بچوں نے باقاعدگی سے پولیو کے قطرے پیے مگر بھر بھی پولیو کا شکار ہوئے۔
ReplyDeleteکیا ان مہلک بیماریوں کے لئے ویکسین میسر ہے اور وہ بھی مفت۔ دنیا میں ہر بیماری کے لئے مئوثر ویکسین نہیں بنائ گئ ہے۔ مثلاً کینسر کے لئے کوئ ویکسین نہیں ہے۔ اسی طرح جو ویکسین میسر ہیں وہ سب کی سب سستی نہیں پڑتیں، مثلاً ہیپاٹائیٹس بی کی ویکسین۔
Deleteاسی طرح ہرمرض اتنا زیادہ پھیلنے والا نہیں ہوتا جتنا کہ پولیو کا مرض ہوتا ہے اور یہ مریض کے فضلے سے دوسرے شخص کو لگ سکتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں ابھی تک ایسے علاقے کثرت سے موجود ہیں جہاں بیت الخلاء کا تصور نہیں ہے۔ صفائ کا تصور ہمارے یہاں بہت خام ہے۔ جس پہ مذہبی تبلیغیوں کو توجہ دینی چاہئیے لیکن انہیں کافر بنانے سے یا ثواب اور صدقہ ء جاریہ سے فرصت نہیں ملتی۔ شہروں میں پینے کے پانی میں سیوریج کا پانی شامل ہو جانا ایک عام بات ہے۔
جی جو ایک دو کیسز سامنے آئے، ان میں پولیو کی ویکسین کو صحیح طریقے سے محفوظ نہ رکھنا بھی شامل ہے۔ جس سے ویکسین کی تاثیر متائثر ہوتی ہے۔
ان قطروں پر تحقیق کے بعد محققین کے مطابق
ReplyDeleteانہوں نے پولیو کے اس ویکسین میں کچھ ایسی اشیاء دریافت کی تھیں جو صحت کے لئے نقصان دہ اور زہریلی تھیں اور ایسی بھی تھیں جو براہ راست انسان کے جنسی نظام تولید پر اثر انداز ہوتی تھیں ۔ ہمارے حکمران اس سب کی پشت پناہی کر رہے ہیں یہ حکمران پانی بجلی گیس کا مسائل تو حل نہ کروا سکے مگر پولیو مہم کے لئے عالم یہ ہے کہ ذبردستی قطرے پلوائے جا رہے ہیں بلکہ یہ بھی سنا ہے کہ ایک خاتون کے انکار پر ان کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا اس نام نہاد عوام دوست حکومت کی پولیو مہم کے سلسلے میں پاکستانی عوام کے لئے اتنا دررد دل قابل تشویش ہے۔
چونکہ آپ کا تعلق اس ملا گروپ سے ہے جو عوام کو مذہب کے نام پہ جاہل ر کھ کر ایک عجیب سی لذت پاتے ہیں اس لئے آپ نے یہ جاننے کی بھی کوشش نہیں کی کہ دنیا کے تقریبا ہر مہذب ملک میں پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔ در حقیقت آپ نے اپنی لکھی ہوئ باتوں کے لئے کسی حوالے کی بھی ضرورت نہیں محسوس کی۔ یہ تک بتانا مناسب نہ سمجھا کہ کون وہ محقیقن تھے اور کہاں انکی یہ تحقیق۔
Deleteاگرچہ آپ نے کسی خاتون کا نام اختیار کیا ہوا ہے لیکن میں یہ جاننا چاہونگی کہ کیا آپ اپنے بچے کو معذور رکھنا پسند کریں گی۔ کیا آپ اندازہ کر سکتی ہیں کہ ایک معذور بچہ ایک خاندان پہ کس قدر بوجھ ہوتا ہے۔ کیا آپکو معلوم ہے کہ بجلی اور گیس کی فراہمی کا مفت کے ملنے والے ٹیکوں سے کوئ تعلق نہیں۔
محترمہ انیقہ صاحبہ میں ایک خاتون ہی ہوں
ReplyDeleteالحمد للہ میں نے اپنے دونوں بچوں کو اس ویکسین سے دور رکھا اور اللہ کے فضل و کرم سے وہ بلکل ٹھیک ہیں ما شاء اللہ
Lifesite لائف سائٹ کی رپورٹ کے مطابق ۱۹۹۵ء میں فلپائن کی آزاد خواتین کی ایک لیگ نے تشنج کے ٹیکوں کے خلاف کورٹ میں مقدمہ جیت لیا تھا اور یونیسف کی اس مہم کو روک لیا تھا‘ کیونکہ اس ویکسین میں ایسی دوائی (B-hCG) استعمال کی گئی تھی جس کے استعمال کرنے سے عورت کا حمل مکمل طور پر نہیں ٹہرسکتا تھا ‘ فلپائن کی سپریم کورٹ نے یہ معلوم کیا کہ تین ملین خواتین کو جن کی عمر ۱۲ سے ۴۵ سال تک تھی‘ پہلے ہی سے یہ ویکسین دی جاچکی تھی۔ (۶) عالمی ادارہ صحت کی طرف سے (۲۰ جون ۲۰۰۵ء)جاری کئے گئے اعداد وشمار کے مطابق دنیا بھر میں پولیو کے قطرے پلانے کے باوجود ۵۰۰ سے زائد پولیو کے کیس سامنے آئے ہیں‘ یہاں تک کہ یمن اور انڈونیشیا جنہیں ۱۹۹۶ء میں پولیو ویکسین کی مہم چلانے کے بعد اس بیماری سے آزاد خطہ قرار دے دیا گیا‘ وہاں پھر سے یہ وبا پھوٹ پڑی ہے‘ یمن میں ۲۴۳ اور انڈونیشیا میں ۵۳ نئے کیس سامنے آئے ہیں (۷) بہت سے محققین نے ویکنیشین کو دراصل دنیا کی آبادی کنٹرول کرنے کا خفیہ مگر انتہائی مؤثر ہتھیار ثابت کیا ہے اور اس حوالے سے دستاویزی ثبوت بھی فراہم کئے ہیں۔ ایک خفیہ امریکی دستاویز "NSSMZOO" جو ۱۹۷۴ء میں شائع ہوئی اور ۱۹۸۹ء میں ڈی کلاسیفائی ہوئی‘ اس دستاویز پر اس وقت کے وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے دستخط ہیں‘ اس دستاویز میں شناخت کئے گئے ممالک میں سے ہندوستان‘ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ نائیجریا‘ انڈونیشیا‘ برازیل‘ فلپائن‘ میکسیکو‘ تھائی لینڈ‘ ترکی‘ ایتھوپیا اور کولمبیا ہیں۔ پاپولیشن کنٹرول اس دستاویز کا مرکزی اور یک نکاتی ایجنڈا ہے‘ ۲۹ جون ۱۹۸۷ء کو امریکی اخبار نے نیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹر رابرٹ سے بات کی‘ جن کا کہنا تھا کہ خسرہ کی ویکسین نقصان دہ وائرس سے آلودہ ہیں‘ ۳۰ برس تک نامی گرامی ڈاکٹر چلاتے رہے کہ ہم ”ویکسین“ نامی ٹائم بم سے کھیل رہے ہیں‘ خسرہ کے ویکسین سے یہ ثابت ہوا ہے کہ یہ کینسر کا باعث ہے (۸) لندن کے موقر ترین روز نامے دی ٹائمز نے فرنٹ پیچ پر اس حوالے سے یہ سرخی لگائی تھی کہ ”خسرہ کے لئے لگائے گئے ٹیکے ایڈز وائرس پھیلا رہے ہیں“ (۹)
عالمی ادارہ صحت (W.H.O)کے ایک کنسلٹنٹ نے who کو رپورٹ دی کہ زیمبیا‘ زائرے اور برازیل میں خسرہ ویکسینشین اور ایڈز وائرس کے پھیلاؤ کے درمیان تعلق کا شبہ تھا‘ تحقیق پر یہ شک وشبہات صحیح نکلے۔who نے رپورٹ ملنے کے باوجود اسے شائع نہیں کیا‘ برازیل واحد جنوبی امریکی ملک تھا جس نے خسرہ سے بچاؤ کی ویکسین مہم میں حصہ لیا اور پھر یہی ملک ایڈز کا سب سے بڑا شکار بنا۔ پولیو‘ خسرہ ہیپاٹائٹس کی ویکسین میں وائرس کی موجودگی کے ثبوت سامنے آچکے ہیں ۔ان میں منگی وائرس جیسا خطرناک وائرس بھی شامل ہے ۔ who پر خسرہ ویکسین کے ذریعے ایڈز پھیلانے کے الزامات بھی لگ چکے ہیں‘ ان ٹیکوں کی وجہ سے بانجھ پن ہونا بھی ثابت ہوچکا ہے۔ ویکسینشین دو ماہ کے بچوں کے لئے قطعا محفوظ نہیں‘ مگر یہ ویکسین کا شیڈول نومولود کے ابتدائی دنوں سے ہی شروع ہوجاتا ہے‘ نومولود کے وزن‘ قد اور جسامت جیسے معاملات بالکل نظر انداز کردیئے جاتے ہیں‘ یہ سائنسی حقیقت ہے کہ ایک ہی دوائی یا ٹیکہ کسی ایک انسان کے لئے تو قطعی محفوظ ہو سکتے ہیں‘ مگر دوسرے کے لئے موت کا باعث بھی۔ ویکسینشین کو بچوں میں ذہنی عوارض کا سبب بھی قرار دیا جاتا ہے‘ پولیو کے قطرے جب پلوانے شروع ہوئے جن بچوں نے یہ استعمال کئے ہیں‘ یقینا آج وہ جوان ہوں گے مگر یہ حقیقت ہے کہ وہ کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہوں گے اور آج کل نوجوانوں کی اکثر یت جن امراض میں مبتلا نظر آتی ہے وہ مردانہ امراض ہی ہیں۔ (۱۰) اس ضمن میں مزید جو حقائق دیئے گئے ہیں وہ بہت خوفناک ہیں‘ بھارت کے ایک جریدے ”المرشد“ میں پولیو کے قطروں سے متعلق ایک مدلل مضمون شائع ہوا ہے‘ اس مضمون کو اشرف لیبارٹریز فیصل آباد کے ترجمان ماہنامہ رہنمائے صحت کی اشاعت میں شامل کیا گیا تھا‘ جس میں سات سے زائد ایسے کیس ذکر کئے گئے ہیں جن میں بچوں کو پولیو کے قطروں کا کورس مکمل کروایا گیا تھا‘ انہیں اس روک تھام کے باوجود پولیو ہوگیا۔
ملک کے معروف قلم کا ر جناب حامد میر صاحب اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
ReplyDelete” قارئین کو یاد ہوگا کہ ۷/جون ۲۰۰۴ء کو میں نے ”پولیو اور پارلیمنٹ“ کے عنوان سے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ پولیو کے خلاف حالیہ مہم میں چھوٹے بچوں کو پولیو ویکسین کے جعلی قطرے پلائے جارہے ہیں‘ وفاقی وزارت صحت نے میرے دعوے پر خاموشی اختیار کئے رکھی ہے‘ ایک ماہ کے بعد ۷/ جولائی کو عالمی ادارہ صحت نے وفاقی وزارت صحت حکومت پاکستان کو ایک خط لکھا کہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد میں تیار کی گئی پولیو ویکسین انتہائی غیر معیاری ہے‘ لہذا اس ویکسین کو فوری تلف کیا جائے ۔ ۲۶/ جولائی ۲۰۰۴ء کو عالمی ادارہ صحت کے نمائندہ برائے پاکستان ڈاکٹر خالف بلے محمد نے وفاقی وزیر صحت کو ایک اور خط لکھا اور انہیں یاد دلایا کہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد میں تیار کی گئی پولیو ویکسین کی ۱۵ کروڑ ڈوز غیر معیاری ہیں اور انہیں تلف کردیا جانا چاہئے‘ اس خط کی وجہ یہ تھی کہ وفاقی وزارت صحت کی نگرانی میں تیار کئے گئے پولیو کے غیر معیاری قطروں کا استعمال ملک بھر میں بدستور جاری ہے‘ لاکھوں والدین نے اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کی امید میں یہ قطرے پلائے‘ لیکن افسوس یہ قطرے زہریلے پانی کے سوا کچھ نہیں ۔ جناب حامد میر مزید لکھتے ہیں کہ: مجھے معلوم ہے کہ ہتک عزت کے لئے قانون کے تحت بغیر ثبوت کے کسی پر الزام لگانا بہت مشکل ہے‘ لہذا اگر (ملک کے وزیر اعظم کو) ضرورت ہو تو عالمی ادارہ صحت کی طرف سے خط کی نقل اور عالمی ادارہ صحت کی طرف سے پاکستان میں استعمال ہونے والے پولیو ویکسین کے لیبارٹری ٹیسٹوں کی رپورٹ یہ بندہ ناچیز انہیں فراہم کرسکتا ہے‘ اطلاعاً عرض ہے کہ یہ دونوں دستاویزات وفاقی سیکرٹری برائے صحت‘ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ اور ایگزیکٹیو ڈائریکٹرنیشنل ٹیوٹ آف ہیلتھ کے پاس بھی موجود ہیں- (۱۲)
ہمارے بچوں کے بہتر اور خوشحال مستقبل کی فکر میں پیش پیش وہ مغربی ممالک ہیں جن کی سرمایہ کاری کی ایک خطیر رقم عراق‘ فلسطین اور افغانستان میں مسلمان بچوں کے قتل وتباہی پر خرچ ہو رہی ہے‘ ان ممالک کے بارے میں سروے رپورٹ یہ ہے کہ جنگ میں سب سے زیادہ اموات بچوں کی ہورہی ہے‘ اس بارے میں آج تک ایسی مہم نہیں چلائی گئی ہے کہ جس میں ان تندرست اور بے گناہ بچوں کو تحفظ دیا جاسکے اور ان کے تحفظ کے اقدامات کئے جاسکیں۔ پولیو قطرے پلانے کے حوالے سے محترمہ انیقہ کا کہنا ہے کہ ہے کہ اگر پولیو کے ویکسین مضر صحت ہوتے تو پھر تعلیم یافتہ طبقہ اسے استعمال نہ کرتا۔ آپ کی خدمت میں گزارش ہے کہ شراب کی حرمت پر تمام مذاہب متفق ہیں‘ اسی طرح صحت کے لئے شراب کا مضر اور خطرناک ہونا بھی تحقیقاتی اداروں سے ثابت ہو چکا ہے‘ لیکن بدقسمتی سے شراب کو استعمال کرنے والے اکثر لوگ تعلیم یافتہ ہیں‘ جاہل نہیں‘ اس قسم کے استدلال پیش کرنے والے دراصل حقائق سے ناواقف ہیں‘
محترمہ، میں نے یہ نہیں کہا کہ تعلیم یافتہ طبقہ پولیو کی ویکسینیشن استعمال کرتا ہے بلکہ میں نے یہ کہا ہے کہ تمام ترقی یافتہ ممالک میں یہ استعمال کئے جاتے ہیں۔ آپ ایک ماں ہیں اور آپ نے پولیو ہی کیا شاید اپنے بچوں کو کسی بھی بیماری ویکسینیشن نہیں کرائ ورنہ آپکو معلوم ہوتا کہ خسرہ کا ٹیکہ پندرہ مہینے کی عمر میں لگتا ہے ابتدائ دو مہینوں میں نہیں۔
Deleteآپکو شاید یہ سن کر حیرتانی ہو گی ایک شخص چیونٹی کے کاٹے سے بھی مر سکتا ہے اگر وہ چیونٹی کے زہر سے شدید طور پہ الرجک ہو اسی طرح آپکو یہ جان کر بھی حیرانی ہوگی کہ سگریٹ پینے سے تمام افراد پھیپھڑوں کے کینسر سے نہیں مرتے۔ میرے والد صاحب سگریٹ نوش تھے لیکن دل کی بیماری میں جان دی۔ اسی طرح شراب نوشی کرنے والی تمام خواتین کے یہاں غیر متوازن بچوں کی پیدائیش نہیں ہوتی، اسی طرح یہ بھی بالکل درست نہیں کہ پینتالیس سال کی عمر مِن ماں بننے والی خواتین کے یہاں ڈاءون سنڈروم کا شکار بچے پیدا ہوتے ہیں۔ ان تمام مثالوں میںمحض امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے کوڑے کے ڈھیر پہ سے کھانا اٹھا کر کھانے والے بچے نہ صرف زندہ رہتے ہیں بلکہ اچھی خاصی زندگی غذارتے ہیں لیکن مجھَ یقین ہے کہ آپ اپنے بچوں کو کوڑے کے ڈھیر پہ سے کھانا اٹھا کر نہیں کھانے دیں گی۔
اس مثال کی ذرہ برابر حیثیئت نہیں کہ میں نے اپنے بچوں کو نہیں کرائ اور وہ اب تک ٹھیک ہیں۔ وہ تمام افراد جو غیر محفوظ ماحول میں رہتے ہیں انہیں تحفظ حاصل کرنا چاہئیے اور اگر وہ اپنے بچوں کے تحفظ کے سلسلے میں تساہل برتتے ہیں تو انہیں بچے پیدا کرنے سے روک دینا چاہئیے۔
آپ نے اپنی باتوں کے کوئ حوالاہ جات نہیں دئیے۔ مناسب ہوگا کہ آپ انکے قابل بھروسہ لنکس دیں۔ ادھر تو لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اڑن طشتریاں ہوتی ہیں اور خلائ مخلوق ہمارے سیارے پہ آتی جاتی ہے۔ بہت سارے لوگوں نے بھوت دیکھے ہیں اور مختلف اخباروں میں اکے متعلق کہانیاں چھپ چکی ہیں۔ حوالہ آپ سمجھتی ہیں ایسا حوالہ جہاں جا کر ہم اس پہ اصل حقائق کو پڑھ سکیں۔
شراب کے متعلق آپکی اطلاعات انتہائ ناقص ہیں۔ تحقیقاتی اداروں کے مطابق سرخ شراب نہ صرف فائدہ مند ہے بلکہ حیات کو طویل کرتی ہے۔
:)
http://www.mayoclinic.com/health/red-wine/HB00089/
http://en.wikipedia.org/wiki/Health_effects_of_wine
یہ صرف شراب کی زیادتی ہے جو بیماریاں پیدا کرتی ہے تو زیادتی تو کسی بھی چیز کی اچھی نہیں ہوتی۔ یہاں میں شراب کے حق میں دلائل نہیں دے رہی بلکہ آپ کی معلومات کی کمزوری کی نشاندہی کر رہی ہوں۔ امید ہے کہ آپ اپنے تمام ڈیٹا کو چیک پھر سے چیک کریں گی۔
پولیو کے یہ قطرے امریکن بچے بھی پیتے ہیں یہ انتہائ حیرت ناک امر ہے ۔ وہاں بچوں کی پیدائیش کی شرح ویسے ہی بہت کم ہے لوگ بچے پیدا کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس پہ بھی وہ اپنے شہریوں کو بانجھ بنا رہے ہیں۔ کیسے بے وقوف ہیں۔
پولیو اوت جنگ دو مختلف چیزیں ہیں۔ چونکہ دنیا بھر میں لاکھوں کی تعداد میں بچے فاقوں سے مر رہے ہیں اس لئے آپ بچے پیدا کرنا کم کر دیں تاکہ انہیں کھانا مل سکے کیا آپ ایسا کریں گی۔
مغربی ممالک کی وجہ سے مسلمان بچے مارے جارہے ہیں آپ مغرب کے تمام علم اور ٹیکنالوجی پہ لعنت بھیج کر ان سے دستبردار ہو جائیں اور مجھ سے بذریعہ کشف گفتگو فرمایا کریں۔ یہ بھی آپ نہیں کریں گی تو پھر مغرب کو صرف پولیو کے قطروں پہ کیوں پکڑنا چاہتی ہیں۔
اگر پولیو کے قطروں کو پلانے میں بد احتیاطی ہوئ ہے تو ایک ذمہ دار شہری طرح آپکا فرض بنتا ہے کہ ان تمام غلطیوں کے سد باب کے لئے کوششیں کریں نہ کہ اس امر سے انکاری ہوجاءیں کہ پولیو کے قطرے ہی نہ پلائے جائیں۔ یہ گناہ کے برابر ہے اس سے توبہ کرنی چاہئیے۔