Saturday, July 31, 2010

قدرتی عذاب یا قدرتی عمل

ایک دفعہ پھر ہم قدرتی آفات کی زد میں ہیں اور ملک کا بڑا حصہ  شدید بارشوں اور سیلاب سے متائثر ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد جاں بحق ،  متعدد لوگ لاپتہ ہیں اور ہزاروں بے گھر۔ لیکن ایک دفعہ پھر ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ اللہ کا عذاب ہے ہمارے اوپر، آزمائش یا قدرتی عوامل کی پرواہ نہ کرنے کی سزا۔
اگر یہ اللہ کا عذاب ہے اور ہمارے سیاہ کرتوتوں کی سزا ہے تو کیا وجہ ہے صرف غریب غرباء ہی اسکا شکار بن رہے ہیں۔ ہمارے طبقہ ء اشرافیہ کے تمام لوگ زندگی کی تمام نعمتوں سے بہرہ مند ہوتے اپنے آرام دہ ، سہولتوں سے آرستہ محلوں میں سٹیلائٹ ٹی وی پہ کوئ دل بہلانے والا پروگرام دیکھ رہے ہونگے۔ جبکہ نوشہرہ فیروز شہر ڈوب رہا ہے۔ اور اسکے غریب اور مسکین لوگ شاید سارے سارے دن بھوکے رہ کر اپنے لئے جائے پناہ تلاش کر رہے ہونگے۔ اقبال  اپنی نظم شکوہ  میں کہتے ہیں کہ برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پہ۔  اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تو پچانوے فی صد مسلمان ہیں ۔ لیکن یہاں بھی برق گرتی ہے اور برق ہمیشہ بے آسرا، کمزور لوگوں پہ گرتی ہے۔
کون زیادہ گنہگار ہے۔ شاید غریب ہونا سب سے بڑا گناہ ہے۔ لیکن کیا یہ پھر یہ خدا کی نا انصافی نہیں کہ وہ غریب پیدا کرے، غریب رکھے اور غریب ہی  کی پکڑکرے۔
اس لئے میں تو اس خیال کو خاطر میں نہیں لاتی۔
یہ سوچ لینا آسان ہے کہ یہ آزمائش ہے۔ لیکن پھر سوچ وہیں جاتی ہے کہ ایسی آزمائش کا سامنا معاشرے کے کمزور طبقے کو ہی کیوں کرنا پڑتا ہے اور وہ لوگ جو پہلے سے اللہ کی طرف سے نوازے ہوئے ہیں انہیں کیوں خدا محفوظ رکھتا ہے اور انکی آزمائش نہیں لیتا۔ بلکہ مزید نوازے جاتا ہے۔
اس لئے یہ چیز بھی عقل میں نہیں آپاتی۔ در حقیقت، جس وقت تک ہم اس چیز پہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا کسی پہ اسکی قوت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اس وقت تک ہمیں اس چیز پہ یقین آ نہیں سکتا۔
کیا یہ تباہ کاریاں، قدرتی عوامل کا نتیجہ ہیں؟
ساری دنیا میں موسموں میں تبدیلی کو عمل آتا محسوس ہو رہا ہے۔ تحقیق دانوں کے نزدیک اسکی وجہ گرین ہاءوس ایفیکٹ بھی ہو سکتا ہے کہ اسکے نتیجے میں زمین پہلے کی نسبت گرم ہو رہی ہے۔ زمین پہ موجود برف کا ذخیرہ اس گرمی سے گھل رہا ہے۔ فضا میں پانی کی مقدار زیادہ ہو رہی ہے۔ سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ بارشیں پہلے سے زیادہ ہو رہی ہیں اور امکان ہے کہ اب بارشیں زیادہ سے زیادہ ہوتی چلی جائیں گی۔
یعنی دنیا میں بیشتر ممالک کو جلد یا بدیر سیلاب کا سامنا کرنا پڑے گا اور اسکے بعد خشک سالی کا۔ کارخانہ ء قدرت کا ایک نظام اور کاز اینڈ ایفیکٹ کا نظام بھی خدا نے مقرر کیا ہوا ہے۔  خدا نے یہ مقرر کیا ہوا ہے کہ اگر آپ سرد موسم میں اپنے بدن کو گرم نہیں رکھتے تو آپکو سردی لگے گی اور آپ بیمار ہونگے۔ اس صورت میں بیماری خدا کا عذاب نہیں بلکہ کاز اینڈ ایفیکٹ کے کھاتے میں جائے گی۔
گرین ہاءوس ایفیکٹ کو کم کیا جا سکتا ہے؟
جی ہاں اسے کم کیا جا سکتا ہے اسکے لئے دنیا کے تمام ممالک کو ان گیسوں کی مقدار کو کنٹرول کرنا پڑےے گا جو اس ایفیکٹ کو بڑھانے کی ذمہ دار ہیں۔ دنیا کے غریب ممالک کو متحد ہو کر دنیا کے امیر ممالک پہ دباءو ڈالنا ہوگا کہ وہ اپنی ترقی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ان مضر گیسوں کی مقدار کو کم کرنے میں انکا ساتھ دیں۔
ہم اس سے کیسے نمٹیں؟
ہمیں سیلاب کی پیشگی اطلاع کو موءثر بنانا ہوگا۔ ہمیں اپنے عوام کی تربیت کرنی ہوگی کہ وہ اپنے گھر کیسے بنائیں تاکہ سیلاب کے نتیجے میں انہیں کم سے کم نقصان پہنچے۔ سیلاب آنے کی صورت میں وہ کس طرح جانی نقصان کو کم سے کم رکھ سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ محلے کی سطح پہ کیا احتیاط کی جا سکتی ہے۔ سیلاب کے بعد وبائ امراض کا اندیشہ رہہتا ہے اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ ان سب کے لئے میڈیا کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔
حکومتی سطح پہ اس سے نمٹنے کے لئے ماہرین کی ایک ٹیم موجود ہونی چاہئیے۔ خاص طور پہ ان علاقوں میں جو سیلاب کے لئے رسکی ہیں۔ ان ماہرین میں اس علاقے کے لوگ بھی شامل ہونے چاہئیں تاکہ علاقے کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے میں دشواری نہ ہو۔
یہ ایک دستاویز کا لنک ہے۔ چاہیں تو آپ میں سے کوئ اسکے اہم نکات کا ترجمہ کر کے اپنے بلاگ پہ ڈالدے۔ یا پھر ایک دو روز میں، میں ہی وقت نکالتی ہوں۔

Thursday, July 29, 2010

اسلام آباد فضائ حادثہ

آج کے دن تک آپ میں سے بیشتر لوگ یہ اندوہناک خبر سن چکے ہونگے کہ ائیر بلو کے جہاز کے کریش ہونے کی وجہ سے اس پہ سوار تمام ایک سو باون لوگ ہم سے جدا ہو گئے۔ وہ لوگ جو اپنے مستقبل کے منصوبے بناتے ہوئے اپنے پیاروں کو خدا حافظ کہہ کر گئے۔ پھر کبھی  لوٹ کر نہ  آئیں گے۔
میں نے پورے دن میں تین دفعہ ٹی وی دیکھنے کی کوشش کی۔ اور ہر دفعہ پانچ منٹ بعد بند کر دیا۔ اس طرح اندوہناک عالم میں مرنے والوں کے خاندانوں کا غم اپنا ہی لگ رہا  ہے مگر میں اس خبر کی خریدار نہیں بننا چاہتی۔ 
جہاز پہاڑ کی چوٹی سے ٹکرایا اور پاش پاش ہو گیا۔ اس پہاڑی علاقے میں لوگوں کی باقیات بکھر گئیں جہاں عام طریقے سے پہنچنا مشکل تھا۔ مددگاروں کو اس جگہ تک پہنچنے کے لئے ایک راستہ بنانا پڑا کہ پہلے سے کوئ راستہ اس پہاڑی پیچیدہ علاقے میں موجود نہ تھا۔ بارش کی وجہ سے پھسلن شدید تھی اورمدد کا پہنچنا مزید مشکل ہو گیا۔
 میڈیا کے وارے نیارے ہو گئے۔ بہت دنوں بعد ایسی خبر ملی جس میں لوگوں کی دلچسپی ہوتی کہ باقی خبروں کہ ہم عادی ہو گئے ہیں۔وارے نیارے کیوں؟  ایک منہ چرانے والی حقیقت یہ بھی ہے کہ عام لوگوں کو ایسے منظر اپنی طرف کھینچ کر رکھتے ہیں جس میں لوگ رو رہے ہوں، تڑپ رہے ہوں، بے بس نظر آرہے ہوں۔
اگر کاروباری نظر سے دیکھا جائے تو بہت دنوں بعد کسی خود کش حملے کے بجائے کسی اور ذریعے سے اتنے بہت سے لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سو میڈیا نے حسب کاروبار اس پہ سارا دن خرچ کر دیا۔ ایک ہی فوٹیج کو بار بار دکھانا، بربادی اور اندوہناکی کو اس جگہ سے دکھانا جہاں سے وہ زیادہ ہولناک لگیں۔ غمزدہ خاندانوں کے گھر پہنچ کر انکے رشتے داروں سے تاءثرات لینے کی کوشش میں سبقت حاصل کرنے میں لگے رہنا۔ حالانکہ ابھی تو انہوں نے مرنے والے کو دیکھا بھی نہیں ہوگا اور شاید ابھی تو وہ یقین کرنے کے مراحل سے گذر رہے ہونگے کہ ایسا ہوا بھی ہے۔ لاشیں نہیں دکھا سکتے تو کیا  شناختی کارڈ تودکھا سکتے ہیں۔ چینلز کے درمیان شناختی کارڈ کی تعداد کا مقابلہ۔
 اس افراتفری میں کسی مددگار کے منہ سے جو نکلا اسے خبر بنا کر نشر کر دیا۔ ایک چینل پہ دی جانے والی خبر کہ ایک خاتون زندہ بچ  گئیں غلط ثابت ہوئ۔ کسی چینل نے فوراً ہی یہ قیاس ظاہر کیا کہ طیارہ نو فلائ زون میں اڑ رہا تھا۔ یعنی حادثہ راکٹ کے لگنے سے بھی ہو سکتا ہے۔ یہ خبر بھی غلط نکلی کیونکہ  جہاز رن وے پہ جگہ نہ ہونے کے باعث فضا میں چکر کاٹ رہا تھا۔  ویسے بھی ایئر پورٹ سے اتنے قریب نو فلائ زون کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ دونوں خبریں تو میں نے دیکھیں۔
ایک بلاگ پہ یہ قیاس تک ظاہر کیا گیا کہ جعلی ڈگریوں کے سلسلے سے توجہ ہٹانے کے لئے شاید یہ حادثہ کیا گیا۔ حادثے ساری دنیا میں ہوتے ہیں اصل بات یہ معلوم کرنا ہوتی ہے کہ  اس میں انسانی لا پرواہی تھی یا کوئ ٹیکنیکل خرابی۔ 
 ایسے حادثوں کے فوراً بعد جن اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں مدد کا فوری طور پہ جائے حادثہ تک پہنچنا  اور جہاز میں موجود لوگوں کے بارے میں آگاہ ہونا۔ تاکہ انکے رشتے داراور دوستوں  کومعلوم ہو کہ متعلقہ شخص جہاز میں تھا یا نہیں۔
اس سلسلے میں میڈیا کو کچھ باتوں کا پابند ہونا چاہئیے۔ مثلاً مرنے والوں کی تعداد کا جب تک تصدیق نہ ہوجائے اپنے طور پہ اعلان نہ کریں۔ ایک شدید زخمی بے ہوش شخص اور مردہ جسم کے درمیان ایک اخباری رپورٹر دور سے دیکھ کر کیسے رائے دے سکتا ہے۔ یہ تو ایک ڈاکٹر ہی بتا سکتا ہے۔ اپنی سنسنی خیز خبروں کو کم از کم ایک دن کے لئے تو معطل رکھیں تاکہ وہ جو اس اندوہناک حادثے سے گذرے ہیں وہ اس چیز کو تسلیم کرنے کے قابل ہو سکیں۔ ہم لاکھ کہیں کہ انکا غم ہمارا غم ہے یہ محض الفاظ ہی رہیں گے کہ جو اس سے گذرتا ہے وہی جانتا ہے اور صبر بھی آتے آتے ہی آتا ہے۔ اس قسم کی خبروں کے دوہرانے کی تعداد اور انکے درمیان وقفے کو بھی مقرر کیا جانا چاہئیے۔ ایک ہی فوٹیج، ایک ہی رپورٹ کو اتنی دفعہ دکھایا جاتا ہے کہ سنجیدہ ترین بات کی بھی اہمیت نہیں رہتی۔ یوں ایک اندوہناک حادثہ بھی زندگی کا روزمرہ بن جاتا ہے۔
اسکے علاوہ ایک ہی خبر کو مرکز توجہ بنا لینا کہاں تک درست ہے۔
 پشاور میں  بارشوں  اورسیلابی ریلوں میں کل سے اب تک ایک سو دس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ مگر اس سے آگے ہم نہیں جانتے کہ یہ کون لوگ ہیں انکے اہل خانہ پہ کیا گذری۔ ایسا کیا ہوا کہ اتنے لوگ سیلابی ریلے کا شکار ہوئے۔ کیا سیلابی ریلے سے بچاءو کی کوئ صورت ہے عوام اپنے آپکو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں اور کیسے اپنے پیاروں کو بچا سکتے ہیں۔  پچھلے ہفتے بلوچستان میں سیلابی ریلوں میں پچاس سے زیادہ افراد مر گئے،متعدد لا پتہ ہو گئے اور ہزاروں بے گھر۔ بچ جانے والےلوگوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ آخر اس میں انسانی زندگی کا نقصان بھی تو نقصان ہے اور اتنا ہی ہولناک ہے۔ میڈیا کسی خبر کو ترجیحات دینے میں کیا چیزیں سامنے رکھتا ہے؟
کل ہی کے دن کراچی میں ایک گھر کے گر جانے کی وجہ سے ایک ہی خاندان کےسات لوگ جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں مر گئے۔ معلوم نہیں کہ اس طرح کے دھچکے سے گذرنے کے بعد باقی بچ جانے والے لوگ کس حالت میں ہیں۔ یہ نہیں معلوم کہ وہ لوگ اب تک اس مخدوش عمارت میں کیسے رہ رہے تھے ۔ اس حادثے سے کیسے بچا جا سکتا تھا۔ معلومات زیرو۔  ہر سال بارش میں ایک ایسی خبر ضرور آتی ہے۔ جس سے مناسب اقدامت کے ذریعے بچا جا سکتا ہے۔  اسی طرح کراچی میں حالیہ بارشوں میں دو افراد بجلی کا کرنٹ لگنے سے مر گئے۔ ہر موسم برسات میں ایسا بھی ضرور ہوتا ہے۔
یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ میڈیا کن لوگوں کے مرنے کو اہمیت دیتا ہے اور کن لوگوں کے اہل خانہ کے پیچھے بھاگنے سے انکی قیمت صحیح سے وصول ہوتی ہے؟
لوگ میڈیا کو بے حس قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ ہم سب کا مجموعی رویہ ہے۔ میڈیا یہ سب چیزیں جنہیں بیچ رہا ہے وہ ہم ہیں۔ ہم ہیں اسکے خریدار۔ 

Tuesday, July 27, 2010

ایک شکریہ

بچوں کی شخصیت کی تشکیل میں صرف جینزاور ماحول کا ہی اثر نہیں ہوتا۔ ان کتابوں کا بھی اثر ہوتا ہے جو انہیں پڑھنے کے لئے میسر آتی ہیں۔ اس طرح سے ہمارے یہاں دہشت گردی، کرپشن اور اخلاقی زبوں حالی کا ایک باعث اگر بچوں کی بڑی تعداد کا اسکول تک نہ پہنچ پانا ہے تو وہیں  بچوں کا بہتر کتابوں تک رسائ نہ ہونا  بھی  ہے یہاں بہتر کتابوں سے میری مراد وہ کتابیں جو بچوں کے تخیلاتی عمل کو جِلا دیتی ہے۔
ہمارے جن اسکولوں میں بچوں کو لائبریری کی سہولت  ہے۔ انکی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوگی. ۔ یوں اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکلنے والے لوگ ایک مخصوص نصاب سے آگے شاید ہی کچھ جانتے ہوں۔ نصاب کا بھی اتنا ہی پڑھنا روا ہے جتنا امتحانی نکتہ ء نظر سے ضروری ہو۔ جبکہ ریاست نصاب کو اپنے پس منظر سے تشکیل دینے کی کوشش میں لگی رہتی ہے۔ یوں ایک جنریشن چندر گپت موریہ کو پڑھنے میں کامیاب ہوتی ہے اور دوسری محمد بن قاسم سے تاریخ پاکستان شروع کرتی ہے۔ ایک کی اسلامیات بنیادی اخلاقیات پہ مشتمل ہوتی ہے اور دوسری کی جہاد کے فضائل پہ۔
کتاب پڑھنے کی عادت بچوں میں بچپن سے ہی ڈالنی پڑتی ہے۔  ٹیکنالوجی کے اس زمانے میں جبکہ والدین کمپیوٹر بچوں کے حوالے کر کے سمجھتے ہیں کہ اس پہ گیمز کھیل کر انکے لاڈلے کوئ غیر معمولی کام کر رہے ہیں، وہاں وہ اپنے بچوں کے اندر مطالعہ کا شوق پیدا کرنے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ کسی سے پوچھیں کہ بچے کتاب پڑھنے میں کیوں دلچسپی نہیں لیتے جواب ملے گا کہ کمپیوٹر کا  دور ہے صاحب۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی معاشرہ جو ٹیکنالوجی میں ہم سے کہیں آگے ہے، وہاں اب تک مطالعے کی عادت ترک نہیں ہوئ۔ ہر اسکول لائبریری رکھتا ہے۔ اسکول کے ٹائم ٹیبل میں لائبریری کے پیریڈز ہوتے ہیں۔ ہر بچے کو ٹارگٹ ملتا ہے کہ اتنی کتابیں پڑھنی ہیں۔اسکول سے باہر نکلیں،  ائیر پورٹ سے لیکر تمام عوامی مقامات پہ  آپ کو لوگ مطالعہ کرتے نظر آئیں گے۔
صاحب حیثیت والدین، کے ایف سی اور مکڈونلڈز قسم کے ریسٹورنٹ سے جنک فوڈ تو بہ رضا و رغبت بچوں کو دلاتے ہیں اور کسی محفل میں فخریہ بتاتے ہیں کہ انکے بچے کون سی جنک فوڈ یا کپڑوں کا کون سا برانڈ پسند کرتے ہیں۔ مگر ایک کتاب خرید کر دینا انہیں پیسے کا زیاں لگتا ہے اور اسکا شاید ہی کوئ تذکرہ ہم کبھی سنتے ہوں۔
یہ سب باتیں مجھے کیوں اس وقت یاد آرہی ہیں؟
ابھی چار پانچ دن دن پہلے مجھے ایک دعوت نامہ ملا۔ جو مسعود احمد برکاتی صاحب کی نونہال کے ادارت کے پچاس سال پورے ہونے پہ ایک اعزازی تقریب کے سلسلے میں تھا۔ میں اس میں شریک ہوئ بمعہ  اپنی بیٹی کے۔ وہ اگرچہ ابھی ساڑھے تین سال کی ہے لیکن میں سمجھتی ہوں کہ کتاب کا شوق پیدا کرنا اور ایسی محافل میں جو کتاب لکھنے والے سے اسے تعارف دیں۔ جانا ضروری ہے۔
پاکستان میں بچوں کی ایک بڑی تعداد نونہال پڑھ کر بڑی ہوئ ہے۔ ان میں سے ایک میں بھی ہوں۔ میرے ایک عزیز، اخبارات و رسائل کی ترسیل کا کام کرتے تھے۔ انکی وجہ سے اپنے بچپن میں کراچی کا شاید ہی کوئ اخبار ہو جو میں نے نہ پڑھا ہو اور پاکستان کا شاید ہی کوئ میگزین ہو جو میری نظر سے نہ گذرا ہو۔ اس میں میرا شوق اور انکی مہربانی شامل رہی۔ انکے گھر جانا مجھے پسند تھا کہ میں اس ڈھیر میں گم ہو جاتی تھی جو وہاں جمع ہوتا۔
نونہال، آنکھ مچولی، تعلیم و تربیت اور نجانے کتنے بچوں کے رسالے۔ ان میں نونہال بہت باقاعدگی سے آتا رہا۔ اگرچہ عین اس زمانے میں، میں سسپنس ڈائجسٹ اور نسیم حجازی کے ناول بھی پڑھ لیتی تھی۔ مگر کبھی نونہال کا ناغہ نہیں ہوتا۔ یہ بلا شرکت غیرے ہم بچوں کا رسالہ ہوتا اور یہ بھی نہیں سننا پڑتا کہ بچوں کو بڑوں کے رسالے نہیں پڑھنے چاہئیں۔
بچوں کا ادب لکھنا آسان نہیں۔ پہلے بچوں جیسی حیرت اور تجسس پیدا کریں۔ دنیا کو ایک اجنبی آنکھ سے دیکھیں اور پھر لکھیں۔ بچوں کے ادب کی درجہ بندی بھی بڑوں کے ادب کی طرح کی جا سکتی ہے۔ ان میں سب سے پہلے وہ کہانیاں جو مافوق الفطرت، طلسماتی کرادر رکھتی ہیں اور زمانہ ء قدیم سے سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہیں، یہ بچوں میں تصوراتی دنیا سجانے کی اہلیت پیدا کرتی ہیں اور انہیں اخلاقی خوبیاں بھی بتاتی ہیں۔ پھر وہ کہانیاں جو کسی علاقے کی ثقافت کے زیر اثر وجود میں آتی ہیں اور اپنے ماحول، رواج اور جغرافیہ سے روشناس کراتی ہیں۔ پھر انکے موجودہ مسائل سے متعلق کہانیاں۔ کہانیوں سے باہر نکلیں تو مختلف لوگوں کی سوانح حیات اور زندگی کی جدو جہد۔ اور آجکے زمانے پہ نظر کریں تو سائینس اور ٹیکنالوجی کی دنیا۔ اور دنیا کا کوئ ادب شاعری کے بغیر مکمل ہو سکتا ہے کیا۔  تو جناب مزے مزے کی نظمیں۔
ان سب چیزوں کو اگر سستے طریقے سے بچوں تک پہنچانا ہو تو بچوں کے رسائل اسکا ایک بہترین ذریعہ ہیں۔ نونہال بھی ایک ایسا ہی رسالہ ہے۔ جو حکیم محمد سعید مرحوم کے ادارے ہمدرد کے زیر سایہ شائع ہونا شروع ہوا۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن  کے تعاون سے ہونے والی یہ سادہ سی تقریب پی ایم اے ہاءوس کراچی  میں  منعقد ہوئ۔   اس سادہ سی تقریب نے بچپن کو سامنے لا کھڑا کیا۔ مسعود صاحب کا کہنا تھا کہ کھیل کے میدان میں کھلاڑیوں کو تو پھر بھی تحفے تحائف سے نوازا جاتا ہے۔ کسی میچ کے جیتنے کی صورت میں انہیں لاکھوں روپے ملتے ہیں۔ مگر یہ ادیب ہیں جنہیں ہمارے یہاں اپنی کاوشوں کا کوئ صلہ نہیں ملتا ۔ اور بچوں کے ادیب کو تو ادیب بھی نہیں سمجھا جاتا۔

 انکا کہنا ہے کہ حکمراں طبقہ جس چیز ، قدر یا صلاحیت کو ابھارنا چاہتا ہے وہ علم و ادب نہیں۔ موجودہ صورت حال میں آخر علم کی طرف کوئ کیوں جائے، اور اپنی جان کھپائے۔
انکے الفاظ میں ہمارا معاشرہ اب جرم کش نہیں رہا بلکہ جرم قبول ہو گیا ہے اور اب جرم پروری کی طرف بڑھ رہا ہے۔
برکاتی صاحب نے پچاس سال، نونہال کی ادارت کی۔ اور اس رسالے کے پڑھنے والے ننھے منے قارئین اب پختہ شخصیات کے روپ میں دنیا کی بساط پہ جانے کہاں کہاں، جہد زندگی سے نبرد آزما ہیں۔ ان لوگوں کے بچپن کو کتاب کی خوشبو سے مہکانے والے اس  شخص کا شکریہ ان سب پہ واجب ہے۔ شکریہ برکاتی صاحب۔

Friday, July 23, 2010

معالج

ڈاکٹر محبوب میرے ساس سسر کے یونیورسٹی کے زمانے کے  دوست ہیں۔  نظریاتی طور پہ بائیں بازو سے قربت رکھنے والے۔  شادی کے بعد میری ان سے جان پہچان ہوئ اور میری بیٹی کی پیدائش کے بعد وہ میرے بھی دوست بن گئے کیونکہ وہ بچوں کے معالج یعنی ایک پیڈیئٹریشن ہیں۔ وہ  بچوں کے ایسے ڈاکٹر ہیں کہ والدین  کچھ عرصے میں خود اپنا کلینک چلانے لگ جائیں۔ میرے کیس میں دوا کے اجزاء تک بھی بتا دیتے  اور موڈ آف ایکشن بھی۔  پچھتر سال سے زائد  عمر اور ریٹائر ہوئے عرصہ ہوا، مگر اب بھی اپنے کلینک  جاتے ہیں اور خاصی کم فیس میں اپنے مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ ہر مریض اپنی پوری توجہ حاصل کرتا ہے اور تربیت بھی۔   اتنا زیادہ کہ اکثر لائن میں لگے بوریت ہوا کرتی کہ کیا کرتے رہتے ہیں وہ مریضوں کے ساتھ۔
وہ اگرچہ ہمارے خاندان کے اتنے ہی دوست ہیں کہ دوست کم رشتےدار زیادہ لگتے ہیں۔ لیکن میں انکے کلینک پہ اپنی باری کا انتظار کرتی ہوں۔ نہ میں نے ان سے اس تعلق کی وجہ سے کوئ آسانی چاہی اور نہ انہوں نے کبھی آفر کی کہ پہلے مجھے بلا لیا جائے۔
ایک دفعہ ، انکی ملک سے غیر موجودگی میں مجھے اپنی بچی کو کراچی کے مشہور پرائیویٹ ہسپتال کے مشہور پیڈیئٹریشن کے پاس لے جانا پڑا۔  ڈاکٹر کے کمرے میں ایک ساتھ تین والدین اور انکے چار بچوں نے وہ افراتفری مچائ کہ وہ ہمیں بمشکل پانچ منٹ دے پائے۔ جلدی سے ایک اینٹی بائیوٹک لکھی اور ہماری چھٹی ہو گئ۔ اس دن بحیثیت ڈاکٹر انکی خوبیاں زیادہ سامنے آئیں۔
ڈاکٹر محبوب کو اندازہ ہے کہ مجھے اینٹی بائیوٹک دینا پسند نہیں۔ اس لئیے پہلےدو تین دن انتظار میں رکھتے اور پھر جب لکھتے تو اچھی طرح بتا دیتے کہ اب دینا کیوں ضروری ہے۔ ایک دفعہ میری بچی کا سینہ خاصہ جکڑا ہوا تھا اور بخار ایک سودو، عمر دو مہینے ، اتفاقاً گھر کے تمام لوگ ملک یا شہر سے باہر تھے۔ ساری رات وہ مجھے فون کر کے اپ ڈیٹ لیتے رہے۔ انہیں سخت ٹینشن تھی کہ کہیں اسے نمونیا نہ ہو جائے، ہسپتال میں نہ داخل کرانا پڑ جائے، ایسی صورت میں، میں اکیلے کیا کرونگی۔   اگلے دن گھر پہ حاضر۔ 
ایسے حالات میں جب گھر پہ کوئ نہ ہو تو وہ اسکی ویکسینیشن بھی کچھ دنوں کے لئے ملتوی کر دیتے۔ بخار ہو گیا اسے تو کہاں اکیلی سنبھالتی پھروگی۔ حالانکہ میں انہیں اتنا یقین دلاتی کہ باقی لوگ ہوں تو بھی سنبھالنا تو مجھی کو ہوگا۔ لیکن ایک 'نہیں'۔ میری بیٹی  کی دیکھ بھال میں وہ میرے بہترین رفیق رہے۔
ایکدم چست، توانا اور مصروف، لیکن ہفتے بھر پہلے اطلاع ملی کہ انہیں پھیپھڑوں کا کینسر ہو گیا ہے۔ ہم سب کو صدمہ ہوا۔ انکی بیگم اور بچے سب ہی مختلف میدانوں کے ڈاکٹر ہیں۔ چالیس سال سے برٹش قومیت رکھنے کے باوجود پاکستان میں ہی رہتے رہے۔ وہ تو شوکت خانم ہسپتال کے لئے روانہ ہو رہے تھے کہ سب نے زور دیا ، مزید علاج کے لئے اب جلد سے جلد لندن چلے جائیں، آسانی رہے گی۔
تین دن پہلے وہ چلے گئے۔ بیگم محبوب کی بیمار والدہ یہاں اکیلی ہیں ۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہیں سو اس سفر پہ انکے ساتھ  اپنی نوے سالہ بیمار ماں کی وجہ سے نہ جا سکیں۔  ایک غیر یقینی سفر کے لئے خدا حافظ کہہ کر آئیں تو دل گرفتہ کہنے لگیں کہ پینتالیس سال سے زیادہ ہو گئے ہماری شادی کو دو دفعہ محبوب کو روتے دیکھا۔ ایک ڈھاکہ فال کے وقت اور دوسرے آج ائیر پورٹ پہ۔

Thursday, July 22, 2010

خود کشی اور دور جدید

ایک دانا کا کہنا ہے کہ خودکشی انسان کا خدا کو جواب ہے کہ آپ مجھے نہیں نکال سکتے، میں خود نکل رہا ہوں۔ آسان زبان میں ہم نہیں مانتے ظلم کے ضابطے کا نعرہ لگائیں، ایک خود کشی نوٹ چھوڑیں کہ پیچھے رہ جانے والوں کو آسانی ہو اور میں نہیں کھیل رہا کہہ کر باہر۔
اسی طرح خود کشی کو عارضی مسائل کا مستقل حل کہا جاتا ہے۔ کچھ تخلیق کار بھی اپنے عروج کے دور میں خود کشی کر لیتے ہیں، انہیں شبہ ہوتا ہے کہ وہ اس سے بہتر تخلیق نہ دیں پائیں گے, تو کیوں نہ خود کشی کر لیں۔ شاید اس لئے گانا بنا کہ آ خوشی سے خود کشی کرلیں۔ کچھ جسمانی طور پہ ہمیشہ کے لئے تخلیق کے کرب سے نجات پا لیتے ہیں  اور کچھ تخلیقی طور پہ خود کشی کر کے اپنے آپ کو اس مقام تک لے جاتے ہیں جہاں ان پہ دوسروں کو رحم آنے لگتا ہے۔ کچھ ذی حس اس لئے خود کشی کرنے پہ آمادہ ہوجاتے ہیں کہ ہائے میں نے تو ویسے بھی خود کو ختم کر دیا ہے، اب جسمانی رسم بھی پوری کئے لیتے ہیں۔ 
یہ تحریر ان خودکشیوں کے متعلق نہیں،  جو کوڑے کے ڈھیر سے کھانا اٹھا کر کھانے کی ہمت نہ پیدا ہونے کی وجہ سے کی جاتی ہیں کہ مرنے والے کو آخری وقت تک اپنے انسان ہونے کا یقین ہوتا ہے۔ اور نہ ان کے متعلق جو  حیات ابدی کی خوشی کے یقین اور بھروسے پہ جدید ٹیکنیکل سہولیات سے مستفید ہوتے ہوئے اپنے ساتھ کئ لوگوں کو بالجبر حیات بعد الموت میں اپنا ہم سفر چن لیتے ہیں۔ اس پہ بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اور ابھی لکھنے والے بہت کچھ  لکھیں گے۔
کچھ تہذیبیں آپ اپنے خنجر سے خود کشی کر لیتی ہیں یہ الگ بات کے دم آخر بھی یہ خنجر انہیں دوسری تہذیب  کےہاتھ میں نظر آتا ہے اور وہ اسے قتل عمد میں ڈال کر وقت رخصت کے ساتھیوں کو اسکا بدلہ لینے کی نصیحت بلکہ وصیت کرتے ہیں۔ یوں نصیحت اور وصیت کا یہ سلسلہ کئ سو سالوں تک کامیابی سے چل سکتا ہے ۔ ساتھی ایسی نصیحتوں پہ دل و جان سے عمل کرتے ہوئے کیوں اس شمع کو اپنی پوری توانائیوں سے  جلائے رکھتے ہیں یہ ایک معمہ ہے۔ ایسے معموں کو سلجھانے میں نفسیات داں ہی مدد کر سکتے ہیں۔
مجھے تو سارا قصور اس میں خنجر کا ہی نظر آتا ہے کہ نہ ہوتا اور نہ اتنے خیالات فاسدہ ذہن میں آتے۔ اب آپ میں سے کوئ اس مِیں جدید تہذیب کا ہاتھ بتائے تو یقیناً وہ صحیح ہوگا۔ یہ جدید تہذیب وہ شاطر ہے جو مختلف تہذیبوں کو وقفے وقفے سے ایکدوسرے کے سامنے کھڑا کر رہی ہے۔
کچھ نا آسودہ خواہشات بھی اسکا باعث ہوتی ہیں۔ مثلاً جب دوسری تہذیبیں ہاتھ میں خنجر رکھنے اور  مسلسل بد دعاءووں کے باوجود  اس سے خود خود کشی نہیں کرتیں  تو تنگ آکر اس خنجر کو کارآمد بنانے کے لئے اس خنجر کو بد دعا دینے والا ہی استعمال کر لیتا ہے۔  اس دوسری تہذیب سے اس خنجر کی چھین جھپٹ ایک الگ داستان ہے۔ نفسیات داں اسے فرسٹریشن کہتے ہیں۔ اور غالب کہتے ہیں کہ
جب دیکھا کہ وہ ملتا نہیں
اپنے ہی کو کھو آئے
کبھی کبھی، کسی خودکشی کا انداز عوام الناس کو اتنا بھاتا ہے کہ یکے بعد دیگرے اس طرح سے خودکشی کرنے کے واقعات سامنے آجاتے ہیں۔ اسے کاپی کیٹ سوسائیڈ  بھی کہتے ہیں جس پہ وردر اثر ہوتا ہے۔ اس میں لوگ خودکشی کرنے والے کے ماحول اور حالات سے اپنی یکسانیت دیکھتے ہیں، پسند آیا کہتے ہیں اور عدم کے سفر پہ روانہ ہو جاتے ہیں۔
اب صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ خودکشی کرنے کی جلدی کیا ہے یہ کام  کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے اور امکان غالب یہ ہے کہ جب بھی کریں گے کامیابی قدم چومے گی کہ ایک دفعہ یہ سوچ لیا جائے کہ یہ ہم کر سکتے ہیں تو آدھی فتح تو ویسے بھی حاصل ہو جاتی ہے۔  اس وقت تک  ایک مناسب آلہ ء خود کشی دریافت کریں۔
مناسب آلہ ء خود کشی  مرنے کے بعد کسی شخصیت کا مکمل اظہار ہوتا ہے ۔ اگرچہ تحقیق داں اسکا تعلق معیشت سے بھی جوڑتے ہیں۔ اور بزبان شاعر کہلواتے ہیں کہ
غریب شہر تو فاقوں سے مر گیا عارف
امیر شہر نے ہیرے سے خود کشی کر لی
 فی الوقت جو آلات میسر ہیں ان میں سر فہرست خودکار بم کہ بعد از مرگ حیات میں بھی کٹ لگانے والوں کی ایک تعداد ساتھ ہی ساتھ روانہ ہوگی یوں عقابی روح، آسمانوں میں بعد از مرگ بھی مصروف بہ عمل رہے گی، اپنا خنجر، دوسروں کی تہذیب،یا اپنی تہذیب دوسروں کا خنجر اگر پوری قوم ایک ساتھ خودکشی کرنا چاہ رہی ہو تو انتہائ مناسب، کیڑے مار ادویات ، ٹرین کے آگے یا پل پر سے دریا یا سمندر میں چھلانگ لگا دینا یہ بچوں کے ساتھ خاندانی  طور پہ خودکشی کرنے کے لئے کافی آزمودہ ہے حکومت اسکی ترویج کے لئے مناسب انتظامات بھی کر رہی ہے، اس لئے کم سے کم مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا، ہیرے وغیرہ سے خود کشی کرنا آسان نہیں کہ ہیرے کے حصول سے پہلے کئ بار مرنا پڑے گا۔

یہ موضوع ذہن میں تھا کہ  میں ایکدن ادارہ ء معارف اسلامی جا پہنچی۔ مقصد تو کچھ اور تھا۔ مگر برآمدے میں ایک میز پہ کچھ کتابوں کے ساتھ پچاس فی صد سیل کا بورڈ نظر آیا۔  کسی بھی چیز پہ سیل کا بورڈ، مجھ جیسوں کو صراط مستقیم سے ہٹا سکتا ہے۔ سو اگلے لمحے میں وہاں اپنے آپکو کچھ کتابوں کی خریداری کے لئے راضی کرتی ہوئ پائ گئ۔ سیل سے کچھ نہ لینا نعمت سے انکار ہے۔  میں منکروں میں سے نہیں۔ اور پچاس فی صد سیل پہ شکر گذاروں میں بآسانی شامل ہوا جا سکتا ہے۔
کچھ کتابیں ہاتھ لگیں ان میں  پچپن صفحوں کی ایک کتاب خود کشی کے موضوع پہ ملی۔ میں نے اسے فوراً لے لیا۔  گھر آکر پڑھا تو پتہ چلا کہ 'خود کشی اور دور جدید'، جناب راشد نسیم نے لکھی ہے۔ یہ مضمون پہلے پہل فرائیڈے اسپیشل میں تین اقساط میں شائع ہوا اور پذیرائ ملنے کی وجہ سے انیس سو ننانوے میں کتاب کی شکل میں چھاپ دیا گیا۔ اسکا دیباچہ جناب منور حسن موجودہ امیر جماعت اسلامی نے لکھا ہے۔
یہاں اسکے دو صفحات کا عکس حاضر ہے۔  یہاں آپ خود اندازہ لگائیں کہ تجزیہ اور نتائج کس طرح مرتب کئے جاتے ہیں۔ اور پھر انکی نظریاتی ترویج کیسے کی جاتی ہے۔


نوٹ؛  تصویر کو واضح دیکھنے کے لئے اس پہ کلک کریں۔

Tuesday, July 20, 2010

آشنائیاں کیا کیا

بنگلہ دیش کبھی پاکستان کا ہی حصہ تھا۔ اور آزادی کی جدو جہد دونوں حصوں کے لئے کی گئ اور دونوں ممالک کے لوگوں نے تاریخی طور پہ حصہ لیا۔ لیکن حالات ایسے رہے کہ مشرقی پاکستان انیس سو اکہتر میں بنگلہ دیش بن گیا۔ اور اس واقعے پہ مسرور اس وقت کی بھارتی رہ نما اندرا گاندھی نے اس دن کہا کہ آج کے دن نظریہ ء پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا گیا ہے۔
اسی بنگلہ دیش سے موصول حالیہ دو خبریں پاکستانی منظر نامے کے لئے اہم ہیں۔
پہلی خبر سیاسی پس منظر رکھتی ہے۔

مولانا مودودی صاحب کی تمام تصنیفات پہ بنگلہ دیش میں پابندی لگا دی گئ ہے۔

اور تقریباً چوبیس ہزار لائبریریوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ انکی کتابیں ہٹادیں۔
وجہ یہ بتائ گئ ہے کہ انکی تصنیفات عسکریت پسندی اور دہشت گردی کی ترویج کرتی ہیں۔ اور یہ کہ انکے نظرئیے پہ چلنے والی جماعت حصول اقتدار کے لئے اسلام کا نام استعمال کرتی ہے۔ مزید تفصیلات کے لئے یہ لنک  دیکھ سکتے ہیں۔
یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ بنگلہ دیش بننے کے بعد نئے ملک نے اپنے آئین کو سیکولر رکھا کہ ملک میں غیر مسلموں کی خاصی بڑی تعداد موجود ہے۔ لیکن نئ مملکت بننے کے چالیس سال بعد اس پابندی کی کیا ضرورت آ پڑی؟ پچھلےپندرہ بیس سالوں میں بنگلہ دیش میں بھی انتہا پسندی میں خاصہ اضافہ ہوا ہے۔ اسکی وجہ؟
ایک اور اہم سوال، کیا اس قسم کی پابندیاں بنیادی حقائق کو تبدیل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں؟
دوسری خبر، معاشرتی حالات سے متعلق ہے۔ اور وہ ہے بنگلہ دیش میں خواتین کو جنسی بنیاد پہ ہراساں کرنے کے واقعات میں شدت۔ اسکی وجہ سے خواتین میں خودکشی کا رجحان بہت زیادہ  بڑھا ہے اور نہ صرف نو عمر لڑکیاں بلکہ انکے والدین بھی بدنامی کے خوف سے ایسا کرنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس سال اب تک بائیس لڑکیاں اس سلسلے میں خودکشی کر چکی ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق اسی طرح کے واقعے میں ایک ٹین ایجر لڑکی کو پٹرول ڈال کر آگ لگا دی گئ۔ کیونکہ اس نے آگ لگانےنے والے کے بھیجے گئےشادی کے رشتے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ لڑکی مر گئ یہ کہہ کر کہ اسے اس حالت تک پہنچانے والے کو ہر ممکن سزا دی جائے۔ یہ خبر ہم میں سے بیشتر  کو سنی سنی سی لگے گی۔ صرف پٹرول کو تیزاب سے بدلنے کی ضرورت ہے۔

ایک خاتون وکیل کے بقول اس طرز عمل نے ہمارے لئے بے پناہ مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ ایک طرف یہ جارحانہ رویہ ہے اور دوسری طرف ان حالات میں والدین اور معاشرہ لڑکیوں میں ہی خامیاں نکالتا ہے اور انہیں مزید دباءو میں رکھتا ہے۔ مثلاً ہنسی کیوں تھیں۔ سر جھکا کر کیوں نہیں چلتیں،   مردوں کے جارحانہ ردعمل  کی وجہ خواتین کی لاپرواہی ہوتی ہے۔  یہ بھی آپکو سنا سنا سا لگے گا۔
ہمارے ساتھ آزادی حاصل کرنے والے تیسرے ملک کے حالات بھی اس سے مختلف نہیں۔
بھارتی فلموں کی آزاد روی سے الگ دہلی جیسے دارالحکومت میں کوئ خاتون رات کو آٹھ بجے کے بعد تنہا نہیں نکل سکتی۔ یہ بات میں نے ایک محفل میں ایک ایسی خاتون سے سنی جو کسی پروجیکٹ کے سلسلے میں دہلی گئ تھیں۔
ان حالات کو جان کر مجھے تو کراچی ایکدم جنت لگتا یے جہاں خواتین کی اکثریت تعلیمی اور پیشہ ورانہ سرگرمیوں سے وابستہ ہے روزانہ خواتین لاکھوں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکلتی ہیں اور اکثر بس اسٹاپس پہ خواتن تنہا کھڑے نظر آتی ہیں۔ اورعمومی طور پہ ایک ایسی ہراساں کر دینے والی صورت نہیں کہ ابا ، بھائ اور شوہر کے حفاظتی حصار کے بغیر کچھ نہ کیا سکے۔
لیکن بنگلہ دیش میں ہونے والے یہ واقعات ہمیں کیوں سنے سنے سے لگتے ہیں؟ 

Sunday, July 18, 2010

ایک شام

 ٹریفک جام دنیا کے اکثر بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ لیکن کراچی کا ٹریفک جام  کا مرکز اگر معلوم کریں تو وہاں کئ گاڑیاں غلط سمت سے آ کر ایکدوسرے کے سامنے کھڑی ہونگیں، یوں کسی کے بچ نکلنے کا رستہ نہیں رہتا۔  ہمیں رشین سینٹر آف سائینس اینڈ کلچر پہنچنا تھا جو کہ عرف عام میں فرینڈ شپ ہاءوس کہلاتا ہے۔ وہاں ایک موسیقی کے پروگرام کی دعوت تھی۔ اس پروگرام کی دو خصوصیات تھیں۔ ایک تو اس میں روسی لوک موسیقی کوطبلے کے ساتھ مدغم کر کے پیش کیا جا رہا تھا۔ اور دوسرے طبلہ بجانے کا کام ایک خاتون انجام دے رہی تھیں۔
لیکن ہفتے کے دن کراچی میں ٹریفک کا رش معمول سے زیادہ ہوتا ہے کہ اسی دن شوہروں کی بڑی تعداد بیگمات کے ہاتھ لگتی ہے یوں شاپنگ سے لے کر رشتے داروں کے یہاں ہفتے وار چکر کے لئے ایک موقع نکل آتا ہے۔ دوسرا اگلا دن چونکہ چھٹی کا ہوتا ہے اس لئے شادی کی تقریبات کے لئے خاصہ آسان قرار پاتا ہے۔ لیکن کراچی کی سڑکوں پہ ہفتے کی شام خاصی بھاری گذرتی ہے۔ یوں شہر کی مختلف سڑکوں پہ ٹریفک جام کو برداشت کرتے ہوئے طارق روڈ کی ایک جانبی سڑک پہ بیس منٹ سگنل پہ اپنی باری کا انتظار کرنے کے بعد جب ہم دوسری طرف کی جانبی سڑک میں داخل ہوئے تو آدھی سڑک کھدی ہوئ تھی اور مٹی کے پہاڑ کو عین درمیان میں انتہائ سلیقے سے  جما کر مہم جو ڈرائیورز کوایک چیلینج دیا گیا تھا کہ گذرو تو جانیں۔ ہمارے ڈرائیور نامدار یہاں اگر آپ انہیں ہمارے شوہر نامدار سمجھیں تو بالکل صحیح ہونگے انہوں نے بھی اسے قبول کیا کہ ازل سے بس گئ ہے مہم جوئ میری فطرت میں۔ لیکن مرفی کا قانون اس قبولیت کا منتظر تھا۔ جیسے ہی جناب نے احتیاط سے اس پہاڑ کے ایک طرف چلنا شروع کیا دوسری طرف موجود پیپل کے درخت کی لٹکتی جڑوں نے گاڑی کی چھت سے کہا، کہاں میاں، ہم بھی تو کھڑے ہیں راہوں میں۔ ہماری اونچی گاڑی نےان سے شکست کھائ۔  قریب میں ایک گلی نظر آئ۔ پیچھے جا نہیں سکتے تھے کہ مزید گاڑیاں اس چیلیج کا سامنا کرنے کے لئے لائن بنائے کھڑی تھیں۔ اس گلی میں مڑ گئے۔ اب یہاں دو گاڑیاں آرام سے گذرنے کی جگہ تھی۔ لیکن کسی نے لوگوں کے صبر و قرار کا امتحان لینے کے لئے ایک گاڑی کو کچھ اس طرح ترچھے انداز میں کھڑاکیا گیا تھا کہ اگلی گاڑی جان کی امان پا کر ہی اسکے قریب سے گذر سکتی تھی۔ نیم اندھیرے میں اس مرحلے سے سرخرو ہوئے تو پتہ چلا کہ بیچ گلی میں مزید دو گاڑیاں اس طرح پارک ہوئ ہیں کہ آگے جانے کا رستہ نہیں رہا۔ کسی کے اس نیک عمل پہ اسے دعائیں دیتے ہوئے گاڑی کو ریورس گیئر میں ڈالا۔ اور ہمارے ڈرائیور نے جنکی خوبیوں میں سے ایک یعنی ڈرائیونگ میں مہارت کی میں ہمیشہ معترف رہی ہوں اس تنگ گلی میں آڑی ترچھی پارک کی ہوئ گاڑیوں کے درمیان ملی میٹرز کا صحیح حساب رکھتے ہوئے گاڑی کو وہاں سے نکال ہی لیا۔
اس ساری تگ ودو کے بعد یہ خیال پیدا ہو چلا تھا کہ اب شاید ہی یہ پروگرام ہمارے لئے بچا ہو۔  کیونکہ ہم تو روڈز پہ پرفارمنس دینے میں مصروف تھے۔ بہر حال مقررہ وقت کے تقریباً پچاس منٹ بعد ہم وہاں پہنچے تو پروگرام جاری تھا۔
روسی الیکسی اپنا گٹار اور پاکستانی لینا احمد اپنا طبلہ سنبھالے ہوئے تھے۔ موسیقی کے ایسے پروگرامز لاِئیو دیکھنا ایک الگ لطف رکھتا ہے۔ ہال میں گنجائش سے زیادہ مہمان موجود تھے۔ 
گٹار کے ساتھ طبلے کی سنگت میں الیکسی  نے روسی شاعری اور موسیقی کا تعارف دیا۔ ہر گیت سے پہلے وہ اسکا ترجمہ اور پس منظر بتاتے جاتے۔ الیکسی خوش آواز بھی ہیں۔ لینا بہت اچھا طبلہ بجاتی ہیں اور انہوں نے الیکسی کی لے میں اپنی لے خوب ملائ۔  یوں مزہ آیا۔


پروگرام کے آخر میں ایک سرپرائز ملا جب استاد دلاور نے پکھاوج پہ اپنی پرفارمنس پیش کی۔ انکے تعارف میں کہا گیا کہ پکھاوج طبلے سے پہلے رائج تھا۔ امیر خسرو نے طبلہ متعارف کروایا اور جلد ہی یہ اتنا رائج ہو گیا کہ پکھاوج متروک ہو گیا۔ میرا یہ پہلا موقع تھا اسے سننے کا۔ اور صحیح بات تو یہ ہے کہ میں اس سے بہت متائثر ہوئ۔ فنکار صاحب ہر پرفارمنس سے پہلے اس سے منسلکہ منظر کھینچ دیتے۔ اور پھر جب تا تھئ کی تال دیتے تو سماں باندھ دیتے۔ اسکی وجہ اس پرفارمنس کا اردو میں ہونا بھی تھا۔

Friday, July 16, 2010

طاقت

میں بنکاک ایئر پورٹ پہ جب اتری تووہاں سے تھائ لینڈ کے شہر پھوکٹ جانے والی پرواز میں ابھی چار گھنٹے باقی تھے۔ میرے ساتھ ایک پاکستانی دوست فیملی بھی تھی۔ ہم ایئر پورٹ پہ ونڈو شاپنگ کرنے لگے۔ یعنی چیزیں دیکھ  دیکھ کر انکی تصوراتی خریداری سے دل بہلانا۔ چاہے جیب میں دھیلا نہ ہو۔ میرا دل تو دنیا کی بیشتر چیزوں سے اسی طرح بہل کر بھر گیا۔ ہم ٹہلتے ہوئے ایک دوکان میں داخل ہوئے جہاں سچے موتیوں کے زیورات تھے۔ لیکن ہمارے ساتھ موجود خاتون جو میری والدہ کی عمر کی ہونگیں۔ انکی نظریں، سیلز پرسن کے چہرے سے چپک گئیں۔ پھر وہ سرگوشی میں بولیں۔ ائے کیسا ملک ہے۔ یہاں ہیجڑے بھی کام کرتے ہیں۔ انکے لہجے میں ایک کراہیت تھی۔ تو کیا ہوا، اچھی بات ہے کچھ تو کرتے ہیں ہمارے یہاں کی طرح جسم فروشی اور بھیک مانگنے کا کام تو نہیں کرتے۔ یہ دوسرا جملہ میں نے دل میں سوچا۔  بآواز بلند کہتی تو لبرل ہونے کا طعنہ ملتا۔
پھوکٹ میں ایکدن ہمیں اتنا وقت ملا کہ پھوکٹ کے نزدیک واقع پی پی آئلینڈ کا بوٹ ٹرپ لے لیا۔ یہ ٹرپ بہت زیادہ مزے کا تھا۔ لیکن ہماری بڑی خاتون جیسے ہی بوٹ میں داخل ہوئیں ایک دفعہ پھر جھٹکے سے دو چار ہوئیں کہ ٹرپ کا گائڈ یا لیڈر ایک ہیجڑا تھا۔ وہ اسی طرح وقفے وقفے سے ناز ا ادا دکحا کر اور کبھی سنجیدہ ہو کر ہم سب کی توجہ اپنی طرف رکھے رہا۔


جب ہم سب سمندر میں مچھلیوں کو کھانا کھلاتے سینکڑوں مچھلیوں کو اچھلتے کودتے دیکھ رہے تھے ہماری بزرگ خاتون اس گائڈ کے اوپر نظر رکھی بیٹھی رہیں۔ جب ہم سمندر میں آڑی ترچھی اسنارکلنگ  کی کوششیں کر رہے تھے اور مشعل یہ ثابت کرنے کے لئے کہ وہ کتنی اچھی تیراک ہیں اپنے دونوں ہاتھوں کو جوڑتیں اور سمندر میں چھلانگ لگانے سے قبل ہم سب کوڈانٹ کر توجہ چاہتیں ہماری بزرگ خاتون  ریتیلے ساحل پہ پڑے ہجوم میں اس گائڈ کو تلاش کر رہی ہوتیں۔ 
حتی کہ پاکستان  واپس آکر بھی انہیں یاد آتا رہا کہ تھائ لینڈ کتنا عجیب ملک ہے وہاں ہیجڑے بھی کام کرتے ہیں۔
چار دن پہلے میں اپنے گھر کے نزدیک لگنے والے بچت بازار گئ۔ یہ ہفتے میں تین دن لگتا ہے اور میں یہاں سے پورے ہفتے کی سبزیاں اور پھل لے لیتی ہوں۔ یہاں افغانی بچے پھرتے رہتے ہیں جنکی عمریں پانچ سال سے لیکر چودہ پندرہ سال تک ہوتی ہیں۔ چھوٹے بچے پلاسٹک کی تھیلیاں بیچتے ہیں اور ذرا بڑے بچے سامان بھی اٹھا لیتے ہیں۔ غربت کی سطح اتنی بڑھ چکی ہے کہ جب میں ان میں سے کسی مناسب عمر کے بچے کوسامان اٹھانے میں مدد کے لئے ڈھونڈھ رہی ہوتی ہوں تو چھ سات سال کے بچے بھی سامان اٹھانے کے لئے منتیں کر رہے ہوتے ہیں۔
بہر حال ، ایک بچے نےمجھے ڈھونڈ لیا کہ ہر ہفتے جاتی ہوں۔ اور باقی بچوں کو مجھ سے دور کر دیا۔
خریداری کے بعد جب میں اسکے ساتھ سامان رکھنے میں مصروف تھی تو وہاں پہ ایک ہیجڑا آگیا۔ اور پیسے مانگنے لگا۔ بازار میں آجکل ایسے چار پانچ ہیجڑے پھرتے رہتے ہیں۔ پھر اس نے اپنا سبق شروع کر دیا۔ اللہ تیرے صاحب کو اور دے۔ خدا تجھے چاند سا بیٹا دے۔ اللہ تیری خوشیوں کو قائم رکھے۔ ہم غریبوں کو ہمارا حق دیتی جا۔ میں نے معاف کرنے کا کہا اور خاموشی سے سنی ان سنی کر کے اس بچے کے ساتھ مصروف رہی۔ پھر وہ کہنے لگا کہ روپے دو روپے دینے میں تمہاری دولت کم نہیں ہو جائے گی۔ ہماری تو زندگی ہی تم لوگوں کی خیرات سے ہے۔ تب میں نے اس سے کہا کہ  کیوں ہے تمہاری زندگی ہماری خیرات سے۔ اس بچے کو دیکھا تم نے بمشکل دس گیارہ سال کا ہے میرے ساتھ سامان اٹھا کر بازار سے گاڑی تک اٹھا کر لایا ہے۔ آخر تم میں اس سے زیادہ طاقت ہے۔ تم کیوں نہیں سامان اٹھانے کا کام شروع کر دیتے۔ میں اس بچے کو پچیس روپے دیتی ہوں۔ وہی تمہیں دے دونگی۔ ارے میں اپنی چھوٹی بہن کے صدقے، ہم ہیجڑوں میں کہاں طاقت ہوتی ہے۔ یہی تو رونا ہے کہ ہم میں طاقت نہیں ہوتی۔ خدا نے تو ہمیں خالی ہی پیدا کر دیا ہے۔
مجھے تھائ لینڈ کا سیلزمین یاد آگیا جب وہ مجھے اپنے لمبے سنہرے کئے ہوئے بالوں سے ڈھکی گردن پہ سچےموتیوں کی مالا سجا کر دکھا رہا تھا۔ یا وہ گائڈ جو ہنس ہنس کر پورا دن ہمیں مصروف رکھے رہا۔ ان لوگوں میں کہاں سے طاقت آتی ہے۔

نوٹ؛ ان تصویروں میں، میں کہیں نہیں ہوں، البتہ یہ تصاویر میرے کیمرے کی ہیں۔

Wednesday, July 14, 2010

ورنہ

پنجاب اسمبلی میں میڈیا کے خلاف قرار داد پاس ہوئ جس میں میڈیا کی مذمت کی گئ۔  پنجاب جو ہمارے ملک کی آبادی کا ساٹھ فی صد ہے۔ اس ساٹھ فی صد آبادی کے اقتدار میں موجود نمائندوں نے میڈیا کے روئیے کی مذمت کی ہے۔
کیوں؟ 
اس کی نمایاں وجوہات میں یہ کہ میڈیا نے جعلی ڈگریوں کے ضمن میں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔  میڈیا ، حکومت مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہے جس سے جمہوریت کو خطرہ ہے۔ یہ جعلی ڈگریوں اور جمہوریت والا مسئلہ چونکہ عام لوگوں کو سمجھ میں نہیں آتا اور نہ یہ انکا 'روزمرہ' ہے۔ تو اس میں عوام کو بھی شامل رکھنے کے لئے ایک وجہ اور بیان کی گئ ہے وہ پارلیمنٹ کی خواتین کے حوالے سے میڈیا میں ایک فضول  ویڈیو کی تشہیر، جو میں نے ابھی تک نہیں دیکھی۔
یہ اس پنجاب اسمبلی کی قرارداد مذمت ہے جس نے ایک آمر کی حکومت کو گرانے کے لئے میڈیا کی پیٹھ ٹھونکی۔ جس نے لال مسجد کو ایک سانحے میں تبدیل کرنے کے لئے میڈیا کو شاباش کہا۔ اور جس نے انتہا پسند گروہوں کو عوامی ہیرو بنانے میں میڈیا کے تعاون خیر پہ انہیں بھی جنت میں اپنے ساتھیوں میں شامل کہا ہوگا۔
آج پنجاب ، جبکہ سیاسی ماحول کے حساب سے ایک گرم صورت حال میں ہے۔ جناب نواز شریف اور شہباز شریف پہ الزام ہے کہ وہ انتہا پسند گروپوں کی حمایت حاصل کرنے اور انہیں تحفظ دینے میں سرگرم عمل ہیں۔   یہی نہیں بلکہ جھوٹی جعلی ڈگریوں کے بل بوتے پہ سیاسی طاقت حاصل کرنے والے، ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کے دعوے دار اور معاشرے کو عدل اور انصاف کی صبح نو کا پیغام دینے والے ہیں۔ یقیناً، میڈیا کو اس چیز کو بے نقاب کرنے اور اس پہ شور وغوغا کرنے پہ، مذمت کا سامنا کرنا چاہئیے۔ 
کیوں؟
اس لئے کہ اس سے جمہوریت کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس جمہوریت کو جس کے نتیجے میں ہماری اسمبلیوں میں، ملک کے امیر ترین اشخاص اپنے غلیظ ترین ذہنوں کے ساتھ ہمارے مستقبل کا سہارا لے کراسکی لگامیں تھامتے ہیں۔ جب کہ انہیں  یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ہمارا مستقبل انکے مستقبل سے کتنا الگ ہے۔ کیونکہ وہ اس خزانے پہ جسے ہمارے مستقبل کے تحفظ پہ خرچ ہونا چاہئیے۔ اپنی اور اپنی نسل کے مستقبل کی بقا کے  لئے وقف سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک کے عوام کا فرض ہے کہ وہ اس اقتدار کے مسند پہ براجمان گروہ کی حفاظت کے لئے اپنے مسائل بھول جائے اور اپنے وسائل ان پہ نچھاور کرتا رہے۔ جسکے نتیجے میں، نسل در نسل بادشاہی خاندان جنم لیتے ہیں۔ چند شاہی خاندان آپس میں حکومتی طاقت کو مل بانٹ کر استعمال کرنے کے عمل کو جمہوریت کا نام دیتے ہیں۔ اور جب انکی یہ پول پٹی کھلنے لگتی ہے تو لازماً اس سے اس جمہوریت کو نقصان پہنچتا ہے۔ ہر وہ عمل جس سے انکے اثر و رسوخ کو ذرہ برابر بھی نقصان پہنچے، وہ جمہوریت کی راہ میں حائل ہے۔
وہ تمام لوگ جو اس ملک میں عوام کی حاکمیت اعلی دیکھنا چاہتے ہیں۔ جو سمجھتے ہیں کہ  جمہوریت اسکا نام ہے کہ عوام کی حکومت، عوام کے لئے عوام کے ذریعے سے۔  وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا اس طرح طاقت کے سہارے پہ میڈیا سنسر ہونا چاہئیے؟ کیا کسی کو یہ حق ہونا چاہئیے کہ جب تک اسکے مفادات کے حق میں کوئ چیز جا رہی ہو تو وہ ہر غلط اور صحیح چیز کی حمایت کرتا رہے اور جب اسے اسی طرز عمل سے نقصان پہنچنے لگے تو وہ قرار داد مذمت پاس کرے؟ کیا ہمیں ایک ایسی جمہوریت کی حفاظت کی تگ و دو میں لگا رہنا چاہئیے جو تمام مجرمین کو، جھوٹے اور کرپٹ لوگوں ، نظام کو محض با اثر لوگوں کی بقاء اور انکی نسلوں کی فلاح کے لئے استعمال کرنے والوں کو تحفظ دینے کے لئے قوانین بناتا رہے؟
مجھ سے پوچھیں، جوتے پڑنے چاہئیے انہیں۔ ان سب کو۔ اور انہیں ان اسمبلیوں سے گندے انڈوں کی طرح نکال کر باہر پھینک دینا چاہئیے۔  انہیں وہاں ہم نے اپنے بچوں کا مستقبل بہتر بنانے کے لئے، اپنے مسائل کے حل کے لئے بھیجا ہے اور یہ ہمارا بنیادی حق ہونا چاہئیے کہ وہ اگر ہم سے جھوٹ بولتے ہیں، وہ اپنے ذاتی مفادات کو ہمارے مفادات پہ ترجیح دیتے ہیں، وہ حکومتی مصارف کو ادا کرنے کے لئے ہمارے ٹیکس کی صورت میں جمع کردہ چندے کو اپنی اور اپنے خاندانوں کی عیاشی پہ خرچ کر کے ہمیں دن بہ دن حقیر فقیر بنا کر ہمارا مذاق اڑانے پہ تلے ہوئے ہیں تو ہم اپنی طاقت استعمال کر سکتے ہیں۔ ہم ان سے کہہ سکتے ہیں۔ اب بہت ہو گیا، اب دفع ہو جاءو ہمیشہ کے لئے۔ جان چھوڑو ہماری، ورنہ-----------۔  


Friday, July 9, 2010

محافظ

مظفر گڑھ، میر والا میں دو خواتین جو کہ ماں بیٹی تھیں۔ چودہ افراد نے برہنہ کر کے سر بازار پھرایا اور پھر انکی اچھی طرح پٹائ لگائ۔ ماں کی عمر پچاس کے قریب اور بیٹی کی عمر محض چودہ سال تھی۔
یہ واقعات یا اس سے ملتے جلتے واقعات تیسری دنیا کے غریب ممالک میں پیش آتے رہتے ہیں۔
 اس قسم کا پہلا واقعہ جس نے شہرت حاصل کی ضیاء الحق کے زمانے میں نواب پور میں پیش آیا۔ پچھلے چند سالوں میں اس قسم کے واقعات کی شدت میں اضافہ ہو اہے۔ آخر خواتین کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اس ضمن میں اگر ہم دیکھیں تو  بھارت میں بھی ایسے واقعات پیش ہوتے نظر آتے ہیں۔ خاص طور پہ ان ممالک میں جہاں زمینداری کا نظام قائم ہے ہے یا کچھ عرصے پہلے تک قائم تھا۔ خواتین کے ساتھ اس ہتک آمیز سلوک کی بنیادی وجہ انہیں مال مویشی کی طرح جائداد کا حصہ سمجھنا ہوتا ہے۔ جس طرح ایک زمیندار اپنی زمین کے بارے میں، اپنے مویشیوں کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اسی طرح وہ اپنی عورتوں کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور ٹھیک اسی طرح اگر کسی زمیندار کو اسکی زمین پہ کھڑی فصل کو تباہ کر کے نقصان سے دوچار کیا جا سکتا ہے اسی طرح ایک مرد کو زیادہ بہتر طور پہ ذلت سے دوچار کرنے کے لئے انکی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی سے لیکر برہنہ پھرانے کے واقعات سمیت تک ہر چیز روا رکھنا جائز ہے بلکہ افضل ہے کہ مخالف پہ ایسی چوٹ لگتی ہے جس کے عذاب سے وہ ساری زندگی کیا کئ نسلیں نہیں نکل سکتا۔
ہمارے یہاں اسے غیرت اور عزت کے ساتھ وابستہ قرار دیا جاتا ہے اور یوں قبیلے اور خاندان کی عزت کی ضامن عورتیں ہو جاتی ہیں۔ اغوا ہونے والی عورت اگر رہائ بھی پالے تو اسکا احسن انجام موت ٹہرتا ہے کہ اسکی زندگی پورے قبیلے اور خاندان کی غیرت کی موت ہوتی ہے۔ عصمت کا تصور خالصتاً ایک عورت کے ساتھ وابستہ ہے، مرد اس سے مبرا ہیں۔ اور اس وجہ سے مرد جتنے چاہے ناجائز جنسی تعلقات رکھیں،یہ انکی امارت کی علامت یا مردانگی کی تعریف تو ہو سکتا ہے مگر اس سے خاندان کی نیک نامی پہ دھبہ نہیں آتا۔ اسکی شادی کے مسائل یا معاشرے میں با عزت زندگی گذارنے کے خواب چکنا چور نہیں ہوتے۔  اسکے اس جرم کی وجہ سے کوئ اور قبیلہ یا قوم انہیں موت کے گھاٹ اتار سکتی ہے لیکن اسکے اپنے قبیلے والے ایسا نہیں کریں گے۔ وہ جواں مرد اپنے قبیلے کی آنکھ کا تارا ہوتا ہے۔
یہ سوچ، زمینداری کے نظام سے اس لئے جنم لیتا ہے کہ ایک جسمانی طور پہ طاقتور مرد اپنی زمین سے زیادہ پیداوار حاصل کر سکتا ہے۔ جسمانی طور پہ زیادہ طاقتور مرد، زیادہ خوشحالی کا باعث بنیں گے جبکہ خواتین نئے مرد بچے پیدا کر کے زیادہ خوشحال میں اضافہ کر سکتی ہیں۔ اس لئے ایک مثالی زمیندار نظام میں اس عورت کی آءو بھگت بھی زیادہ ہوتی ہے جو زیادہ مرد بچوں کو پیدا کر چکی ہو۔ یا کم از کم ایک وارث مرد بچہ تو رکھتی ہو۔
اگر افریقی ممالک کی طرف نظر کریں ۔ جہاں کچھ قبائل میں عورت اور مرد کی تخصیص نہیں ہے وہاں مجھے ایک افریقن ملک کیمرون کی خاتون نے بتایا کہ شادی کے لئے ہمارے یہاں اس لڑکی کو ترجیح دی جاتی ہے جسکے شادی سے پہلے بچے ہوں۔ چاہے کسی بھی مرد سے ہوں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بچے پیدا کر سکتی ہے۔ اس طرح اس سوچ سے متائثرہ نظام میں ایک ایسی عورت کی اہمیت نہیں رہتی جو بچے پیدا نہیں کر سکتی۔ کسی بھی قدرتی وجہ سے۔ خیر یہ اایک الگ موضوع ہے۔
سر دست، ہمیں معاشرے کے اس اٹھان پہ غور کرنا ہے جہاں خواتین کو بھی انسان تصور کیا جائے۔ ایسا انسان جسے سر بازار، بقائمی ء ہوش و حواس، بزور قوت برہنہ گھمائے جانے پہ نفسیاتی اور روحانی تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ صرف عورت کے اوپر عزت اور غیرت کی بھاری ذمہ دریاں نہ ڈالی جائیں  جسکے نتیجے میں اسے زندگی جیسی مسحور کن نعمت سے محروم کر دیا جائے۔ زندگی کی مسرتوں پہ ہر ایک کا حق ہے۔ انسان ہونے کا احترم اور شرف ہر ایک کو حاصل ہے۔ 

Friday, July 2, 2010

نا معلوم

نواز شریف خانہ ء کعبہ کا طواف کر رہے تھے کہ اچانک دل میں شدید تکلیف اٹھی۔ لگا کہ شاید دل کا دورہ پڑنے والا ہے۔ جس وقت انہیں ایمبولینس میں منتقل کیا جا رہا تھا انہوں نے اپنے ایک ایک چاہنے والے سے کہا فوراً لاہور فون کر کے کہو کہ داتا دربار پہ چالیس دیگیں چڑھا دیں۔
یہ ایک لطیفہ ہے جو آپ میں سے بیشتر لوگ برسوں سے سنتے آرہے ہونگے۔ یہ یقیناً اس عقیدت کی مبالغہ آرائ ہے جو اہلیان لاہور داتا دربار سے رکھتے ہیں۔ لیکن اسی دربار میں کل رات ایک خود کش حملہ آور نے جو کسی نا معلوم قومیت کا تھا اور ہم میں سے بیشتر اس خیال کے حامی ہیں کہ اسکا کوئ مذہب نہ تھا۔ اپنے آپکو بم سے اڑا دیا اور ساتھ ہی چالیس سے زائد معصوم، بے گناہ لوگوں کی جو اپنے مسائل کے حل کے لئے یا داتا صاحب کی محبت میں وہاں موجود تھے انہیں بھی خدا کی عطا کردہ بیش قیمت نعمت، زندگی سے محروم کر دیا۔
ابھی ابھی میں ایک پتلی سی کتاب پڑھ کر فارغ ہوئ ہوں جو انیس سو ننانوے میں ادارہ ء معارف اسلامی کی سرپرستی میں شائع ہوئ۔ جس میں مصنف نے سارا زور اس بات پہ دیا کہ خود کشی سیکولر سماج کی پیداوار ہے۔ اور پاکستان میں جہاں کہیں خودکشی ہوتی ہے یہ وہ علاقے ہیں جہاں سیکولیرزم اپنے قدم جما چکا ہے۔ اس کتاب کے دلچسپ اقتباسات پھر کبھی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں اس واقعے کی مذمت کرنی چاہئیے؟
یہ مذمت حکومت وقت کے خلاف ہونی چائیے؟ پاکستان کے ایک عملی طور پہ اسلامی مملکت نہ ہونے کے خلاف ہونی چاہئیے؟ خود کش حملوں کے خلاف ہونی چاہئیے؟ خود کش حملہ آوروں کے خلاف ہونی چاہئیے؟
نامعلوم خودکش حملہ آوروں کے خلاف ہونی چاہئیے یا معلوم خود کش حملہ آوروں کے خلاف؟
اگر ہم یہ مذمتی بیان نامعلوم خودکش حملہ آوروں کے خلاف کرتے ہیں جنکی قومیت اور مذہب نہیں معلوم، تو کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے آپکو اول درجے کامنافق نہ کہیں؟ 
کیا مذمت کرتے وقت ایسے نامعلوم خود کش حملہ آوروں کا تذکرہ کر کے  ہم مرنے والوں کا اور انکے لواحقین کا مذاق نہیں اڑاتے؟
ان نامعلوم حملہ آوروں کی جنکی کوئ قومیت اور مذہب نہیں ہے مذمت اور مرنے والوں کی تعزیت ہم کب تک کرتے رہیں گے؟
وہ کون سے فضائ، بری اور بحری راستے ہیں جنکے ذریعے یہ خود کش حملہ آور ہمارے ملک میں داخل ہو کر ہمارے شہریوں کو جان سے ختم کر دیتے ہیں؟
 مختلف علاقوں میں جو نام نہاد خود کش حملہ آور تیار کرنے کے کیمپس ہیں اور جہاں سے کچھ انتہائ بے وقوف لوگوں کی اطلاعات کے مطابق  یہ دھڑا دھڑ پھٹنے کے لئے بھیجے جا رہے ہیں کیا وہ سب کچھ بالکل جھوٹ پہ مبنی ہے؟
اور کیا کسی اور قوت نے انسانی کلوننگ کے ذریعے خود کش حملہ آور تیار کرنے کا طریقہ معلوم کر لیا ہے؟ کیا ہم یہ طریقہ اپنے دشمن پہ نہیں لگا سکتے؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم خود کش حملہ آور بھیج کر دنیا بھر میں موجود اپنے دشمنوں کا قلع قمع کر دیں تاکہ ہمارے شہری اپنی عبادت گاہوں میں تو سکون سے جا سکیں؟
ان سوالوں کی فہرست خاصی طویل ہوتی جاتی ہے۔ لیکن میرا خیال ہے بجائے کسی واقعے پہ اپنے تاثرات لکھنے کے میں صرف ذہن میں آنے والے چند سوالات لکھ دیتی ہوں۔ تاکہ ہمارے دیگر لوگ جو زیادہ بہتر طریقے سے کسی مسئلے کو حل کر لیتے ہیں وہ انکے مناسب جوابات دے سکیں۔
کیونکہ یہ سوالات ہیں جنہیں جانے بغیر ہم اپنا دفاع کرنے سے محروم ہیں۔ ایک خود کش حملہ آور کہیں بھی، کسی بھی وقت نمودار ہوگا اور خود جنت حاصل کر کے اپنے پیچھے سینکڑوں لوگوں کی زندگی جہنم بنا جائے گا۔
مذمتی بیانات تو سب ہی ڈال کر اپنا فرض پورا کرتے ہیں۔ اس وقت یہ مذمت ذرا الگ انداز سے کرتے ہیں۔ جس سے مجھ جیسے کم علم لوگ بھی مستفید ہو سکیں۔ اور انہیں صحیح سے معلوم ہو کے انہیں کیا کرنا ہے۔ مذمت کرنی ہے، تعزیت کرنی ہے، تبرہ کرنا ہے، یا لعنت بھیجنی ہے۔ اور ان سب کا ٹارگٹ کسے بنانا ہے۔
اور ہاں ایم کیو ایم اور الطاف حسین کو خدا پوچھے۔ وہ  ایک نمبر کے دہشت گرد ہیں بس ان میں اوردیگر دہشت گردوں میں  یہ فرق ہے کہ انکے خود کش حملہ آور عام لوگوں کے درمیان نہیں پھٹتے۔ لیکن یہ بھی میں غلط ہی کہتی ہوں یہ دوسرے دہشت گرد ہمارے ملک سے تعلق ہی کہاں رکھتے ہیں۔ یہاں تو صرف ایک ہی طرح کے دہشت گرد ہیں اور وہ ہیں الطاف حسین کے دہشت گرد۔ 


Thursday, July 1, 2010

دیر آید

اگرچہ کہ میں کھانا دن میں ضرورتاً ہی کھاتی ہوں مگر تیسری دنیا کے ایک پسماندہ اور اپنے ہوش و حواس کی دنیا بحال ہونے کے بعد سے اسے حالت جنگ میں دیکھ دیکھ کر میں سارا سارا دن بھی لکھتی رہوں تو اس میں اچنبھے یا حیرانی کی بات نہیں ہونی چاہئیے۔ تیسری دنیا کا ایک غریب ملک، حالت جنگ، نامساعد سیاسی حالات، جہالت، دقیانوسیت, جذباتیت، اور ترقی کے لئے کام کرنے کے بجائے کام کرنے والوں سے حسد،  یہ سب مل کر ایک ایسا جادوئ جوہر بناتے ہیں  کہ جو شخص معمولی سی بھی حساسیت رکھتا ہو یہ اسے تخلیق کی سطح پہ خاصہ سرگرم کر دیتی ہے۔ ایسے حالات سے گذرنے کے بعد اگر کسی لکھنے والے کو لکھنے کے موضوعات کی قلت کا سامنا ہے تو یہ یقیناً وہ ہونگے جو صاحبان تسلیم و رضا سے ہیں۔
اس ہفتے دو دلچسپ خبریں سامنے آئیں۔ پہلی خبر کا تعلق سندھ سے ہے۔ جہاں ایک پینتالیس سالہ خاتون شہزادی چانڈیو  نے ایک سترہ سالہ لڑکے کو شادی کرنے کی غرض سے اغواء کر لیا۔ پولیس اسٹیشن میں لڑکے نے بیان دیا کہ وہ تو اسے جانتا تک بھی نہیں۔ یہ زیادتی ہے کوئ آپکو جانتا بھی نہ ہو اور اسے اغواء کر لیا جائے۔ مگر پھر بھی صد شکر کے اجتماعی زیادتی نہیں ہے۔
دوسری خبر  انڈیا کے شہر لکھنوء سے ہے ایک مسلم خاتون نشاط فاطمہ نے شہر میں واقع ایک شریعت کورٹ میں فتوی دینے مولوی صاحب کی پٹائ لگادی۔ یقیناً پڑھی لکھی نہیں ہونگیں ورنہ صرف لفّاظی کرتی رہ جاتیں۔ اور اسی فلسفے پہ غور کرتی رہتیں کہ جب اس خبیث شوہر نے ہی خباثت دکھا ڈالی تو کسی مولوی کا اس میں کیا قصور۔ اس تمام تر ہاءو ہو کے بعد  پھر انہوں نے  جو کچھ کہا  اسکا مطلب یوں نکلتا ہے کہ  ٹھنڈ پے گئ۔ 
دل کو کتنا سکون ملا ہے ان لوگوں کو پیٹ کر بتا نہیں سکتی۔
خاتون شیعہ فقہے سے تعلق رکھتی ہیں اور پڑوسیوں کی زبانی یہ جان کر کہ انکے شوہر نے انہیں طلاق دے دی ہے وہ سخت صدمے میں تھیں۔ شیعہ قوانین کے مطابق بیوی کو صفائ کا موقع دئِے بغیر طلاق نہیں ہو سکتی۔  خاتون کے شوہر صاحب عرصہ ء دو سال سے ایک اور خاتون کے ساتھ عارضہ ء قلب میں مبتلا تھے۔ اسکا علاج انہوں نے یہ نکالا کہ ان سے شادی کر لی جائے۔ لیکن اس سلسلے میں ماضی کی غلطی کو ان ڈو کرنے کے لئے انہیں مولوی صاحب سے خدمت لینی پڑی۔  تاکہ زمانہ ء حال میں یہ غلطی دوبارہ کر سکیں۔  لکھنوء کے سلطان المدارس کے مولوی صاحب نے مبلغ ڈھائ ہزار روپے انہیں پہلی بیوی سے علیحدگی کا سرٹیفیکیٹ دیا۔  نشاط آپا نے یہ سنتے ہی آءو دیکھا نہ تاءو کہ اب اسکا وقت نہیں رہا تھا اس شریعت عدالت میں گھس کر مولوی صاحب کی پٹائ لگا دی۔  نہ رہے بانس اور نہ ہی بانسری۔  ہماری خاتون نے اسی پہ بس نہیں کی بلکہ مزید خواتین کو مشورہ دیا کہ وہ جو ان مولویوں کے قوانین سے تنگ آئی ہوئ ہیں وہ بھی باہر نکلیں اور انہیں سبق سکھائیں۔
باقی مسلمان خواتین چاہے انکے مشورے پہ عمل کریں یا نہ کریں ایک خیال یہ  آتا ہے کہ بچپن میں اماں جان و ابا جان سے پٹنے کے بعد عین بڑکپن میں دوسرے کی بیگم سے پٹنے کے انوکھے تجربے کے بعد مولوی صاحب کی  ذہانت میں بیش بہا اضافہ ہوا ہوگا اور اب وہ مولوی صاحبان یقیناً اس کار خیر کی فیس بڑھا دیں گے کہ اس میں بعد از پٹائ علاج معالجہ کا خرچہ بھی شامل ہوگا۔
میری ہمدردیاں مولوی صاحب کے ساتھ ہیں اس لئے برائے مہربانی اس پوسٹ کے سلسلے میں مجھ پہ دین کے خلاف جانے کا الزام نہ لگایا جائے۔ حالات کہہ رہے ہیں کہ مبینہ شوہر صاحب نے بھی اسی طرح باری باری اماں، ابا اور بیگم سے پِٹ پِٹ کر ذہانت استعمال کرنا سیکھی ہوگی۔ بہر حال دیر آید درست آید۔