Saturday, July 25, 2009

شاہین بچے

اقبال کہتے ہیں کہ
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہو بے داغ، ضرب ہو کاری

لیکن فی زمانہ آنکھ کا تارا اسے کہا جاتا ہے جو آنکھوں کے آگے تارے روشن کر دے اور کاری ضرب سے مراد شاید ہاتھ کی وہ صفائ ہے جس سے آپ پر وہ کاری ضرب لگے کہ آپ یہ کہنے پر مجبور ہوں، رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو۔

ایک تو ہمارا دل پہلے ہی دکھا ہوا تھا کہ ہمارا قیمتی ڈیجیٹل کیمرہ کراچی چڑیا گھر میں کسی نے انتہائ مہارت سے اڑالیا۔ لوگوں نے کہا کہ ایسی جگہوں پر ایسی چیزیں لیکر نہیں جاتے۔ حالانکہ ہم اپنی نیچرل فوٹوگرافی کے شوق میں اسے لے گئے تھے۔
پھر اس مور کی مہربانی کہ وہ سارے پر پھیلا کر ناچا بھی۔ بس اسکے بعد جب تالاب میں تیرتے ہنس کی کسی ادا پر ہمارا دل آیا تو کیمرہ ندارد۔ ہماری ساتھی خاتون نے کہا کہ چڑیا گھر کے شعبہ ء بازیافت سے معلوم کر لیں وہاں کسی نے پہنچا دیا ہوگا۔ میں انکو غیر یقینی انداز سے دیکھتی ہوں کیا یہاں پر کسی ایسے شعبے کا وجود ہوگا اور فرض کریں کہ کسی زمانے میں کسی خوش امید نے ایسا شعبہ قائم بھی کیا ہوتو یقیناً مہینوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھنے کے بعد انہوں نے اس نیک کام سے ہاتھ اٹھا لیا ہوگا۔ بھلاہاتھ آئ نعمت سے کوئ اس طرح بھی ہاتھ دھوتا ہے کیا۔پھر بھی انکا دل رکھنے کو معلوم کیا۔ اور ہمارا خیال صحیح نکلا۔ ایسا کوئ شعبہ وجود نہ رکھتا تھا۔ پتہ نہیں لوگ کیوں ہمارے اندازوں کو بغیر اپنےتجربے کے ماننے سے انکار کر دیتے ہیں بلکہ کہتے ہیں۔ اوہو تو آپ دلوں کے حال بھی جانتی ہیں۔
کچھ دن افسوس رہا اس میں کچھ ایسی یادگار تصویروں کا لوڈ موجود تھا جو ابھی اپ لوڈ بھی نہ کیا گیا تھا۔ بس دل ہی میں محفوظ رہ گئیں۔ اب گردن جھکا کر دیکھنے کا تکلف تو کر لیں مگر ہمارے دل کی تصویریں کوئ اور بھلا کیسے دیکھ سکتا ہے۔ پھر اپنے مسلمان ہونے کا شکر بجا لائے کہ خدا اس سے بہتر کوئ چیز دیگا، اور ہر کام میں اوپر والے کی کوئ مصلحت ہوتی ہے اس لئے وہ نیچے والوں کے کام پر مصلحتاً خاموشی اختیار کر لیتا ہے۔ اگر روز قیامت اپنے ساتھ ہونے والی یہ نا انصافی یاد رہی تو اس بد بخت کی نیکیوں کا کچھ حصہ اپنے پلڑے میں ڈال کر حساب چکتا کروالیں گے۔
ابھی دماغ میں سود زیاں اور حساب کتاب کی یہ کھچڑی مناسب طور پر دم سے بھی نہ لگی تھی کہ گھر میں اعلان ہوا کہ کچھ لوگوں کو دعوت پہ بمعہ ء اہل و عیال بلایا گیا ہے۔ وہ سب ملا کر بارہ لوگ تھے۔ جن میں ان دو خاندانوں کے سات بچے بھی شامل تھے۔ چار بچے بڑے تھے جن کی عمریں تیرہ سے اٹھارہ سال تھیں۔
دعوت اپنے اختتام پر پہنچی سب لوگ رخصت ہو گئے۔ اور اسکے بعد جب میں چیزوں کو جگہ ٹھکانے سے لگا رہی تھی تو مجھے احساس ہوا کہ کھانے کے کمرے میں جس جگہ میرا موبائل فون ہمیشہ اپنے چارجر کے ساتھَ پڑا رہتا تھا وہ وہاں نہیں ہے۔ یہ ایچ پی کا ایک خاصہ قیمتی فون تھا۔ اگر مجھے تحفے میں نہ ملا ہوتا تو میں اپنے آپ کو یہ عیاشی کبھی نہ کراتی۔ پہلا خیال تو یہ آیا کہ میں نے شاید بازار میں کہیں گرادیا ہے۔ نہیں، پھر یاد آیا کہ صبح میں نے اسے چارج کرنے کے لئے لگایا تھا اور ان لوگوں کے آنے سے آدھ گھنٹہ پہلے تک یہیں موجود تھا۔ اور اگر کہیں باہر گرایا تو چارجر کہاں ہے۔ یہ کام تو کسی بےحد ہوشیار اور معلوماتی شخص کا تھا کہ اسنے وہ فون چارجر کے ساتھ اٹھایا۔ تمام حقائق کو جوڑتی ہوں تو یقین آجاتا ہے کہ یہ ان تین لڑکوں میں سے ایک کا کام ہے جو دعوت کھانے آئے تھے۔ اور باقی چیزوں کو حل کرتی ہوں تو ایک اور چیز کا یقین ہو جاتا ہے کہ یہ سب سے بڑے بچے کا کام ہے جس کی عمر اٹھارہ سال تھی۔
گھر کے بزرگ حضرت نے فوراً انکی نانی کو فون کیا اور ماں سے بھی بات کی کیونکہ والد صاحب گھر پر موجود نہ تھے۔ انکا جواب یہ تھا کہ بڑے بچے کو تو ابھی ایک ہفتہ پیشتر نیا بلیک بیری خرید کر دیا گیا ہے وہ نہیں اٹھا سکتا۔ ویسے بھی وہ گھر بھر کا لاڈلا اور پسندیدہ بچہ ہے۔کیا ایسی پیاری شکل والا بچہ ایسا مکروہ کام کر سکتا ہے۔۔ دوسرے بچے کو فون سے کوئ دلچسپی نہیں ہے اور اس نے اپنا ذاتی فون بھی نہیں لیا ہے۔ باقی کے بچے بھی ایسی حرکت نہیں کرسکتے وہ سب بے حد تمیز دار بچے ہیں۔ یہ آپکی ماسی کا کام ہے یا آپ کہیں رکھ کر بھول گئی ہیں۔ جبکہ ماسی اس پورے عرصے کے دوران کچن میں میرے ساتھ مصروف رہی۔ بزرگ ان سے یہ کہتے ہیں کہ فون چلا گیا کوئ بات نہیں لیکن اگر آپ نے بروقت اپنے بچے کو نہیں پکڑا تو اسکی زندگی تباہ ہو جائے گی۔
گھر کا لاڈلا بچہ اٹھارہ سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان دیتا ہے اور بغیر لائسنس کے گاڑی اعتماد سے چلاتا ہے۔ والدین کیوں سمجھتے ہیں کہ اسطرح بچوں کی زندگی کو آسانیوں سے بھر دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اب مزید کی طلب نہیں کریں گے اور اس مزید کے لئیے غلط ذرائع استعمال نہیں کریں گے۔ہر شخص اپنے ہی تجربے سے سیکھنا چاہتا ہے۔اور بعض نہ تجربہ کرنا چاہتے ہیں اور نہ سیکھنا۔ زندگی جس طرح بغیر چھیڑ چھاڑ کے گذر رہی ہے اچھی ہے۔
میں اداس ہوں میرے پاس جدید ٹیکنالوجی کی دو چیزیں تھیں اور اب نہیں ہیں۔ میں حیران ہوں میرے گھرسےدعوت کھا کر جانے والے مجھے نقصان پہنچا کر گئے۔ اب اپنے لیپ ٹاپ کو دیکھتی ہوں یہ اس ٹیکنالوجی کے زمانے میں میرے موجود ہونے کی واحد نشانی ہے یہ ایسی نشانی ہے جس میں دوسری اور نشانیاں محفوظ ہیں۔ خدا نہ کرے اس پہ کوئ بد نظر ڈالے۔ورنہ میں بھوں بھوں رو پڑونگی اور بہانہ بھی نہیں کرونگی کہ مجھے نزلہ ہوگیا ہے۔ روئیں گے ہم ہزار بار کوئ ہمیں رلائے کیوں۔

Wednesday, July 22, 2009

ترسا ہوا معاشرہ یا خود ترسیت

ہو سکتا ہے اس سے کچھ لوگوں کو شدید صدمہ ہو اور کچھ فخر سے کہیں کہ ہمیں تو معلوم تھا کہ یہ ایسے ہی ہیں۔ جب میں یہ کہوں کہ مجھے پرویز مشرف پسند ہے۔ لیکن اس ساری پسندیدگی کے باوجود مجھے اس دن بڑا آصدمہ پہنچا تھا جب انہوں نے نیو یارک میں بیٹھ کر کہا کہ خواتین ملک سے باہر جانے کے لئَے ریپ کرواتی ہیں۔ باتوں کو اس طرح عمومی طور سے لینے سےکچھ کو صدمہ ہوتا ہے۔ حالانکہ ان تمام خواتین میں سے میں نہیں ہوں لیکن لگتا ایسا ہے جیسے یہ بات میرے متعلق کہی گئی ہے۔کیونکہ یہ میری کمیونٹی کے ایک شخص کے متعلق کہی گئی تھی۔اگر بالفرض محال کسی نے واقعتاً اپنے مقصد کے حصول کے لئےایسا بھی کیا ۔ پھر بھی ذمہ داری کا تقاضہ یہ ہے کہ ان باتوں کو عمومی شکل دینے سے گریز کیا جائے۔خاص طور پہ وہ لوگ جنکے رتبے ہیں سوا۔
ایسا ہی اکثر ہم جیسے ناچیزوں کی تحریروں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔
ہمارے کچھ ساتھیوں کے خیال میں پاکستانی معاشرہ ایک ترسا ہوا معاشرہ ہے۔ شاید کچھ خواتین بھی ایسا سوچتی ہوں۔ لیکن یہ نکتہ ء نظر فی الحال میرے سامنے کچھ مرد حضرات کے توسط سے آیا۔ یہ بات اس ضمن میں بالخصوص کہی جاتی ہے جب پاکستانی مردوں کی اخلاقی گراوٹ کی بات ہوتی ہے۔میں اس چیز سے اختلاف رکھتی ہوں۔ میرا خیال ہے کہ پاکستانی معاشرہ اپنے بنیادی رویئے میں ہندو معاشرہ سے زیادہ متاثر ہے۔ ہندءووں کے یہاں عورتوں کا وجود مردوں کی دل پشوری کے لئے پیدا کیا گیا ہے اسکا الگ سے کوَئ وجود نہیں ہے۔ قدرت نے اسے جن خوبیوں سے نوازا ہے وہ سب مرد کو خوش رکھنے کے لئیے ہیں۔ انکے عبادت کے مراکز میں داسیوں کا تصور، عورت کا پتی ورتا ہونا، عورت کا ستی ہوناحتی کہ شوہر کی لمبی حیات کے لئے یہ عورت ہی ہوتی ہے جو سارا دن ایک طرح کا روزہ رکھتی ہے۔ مرد کو اپنی بیوی کی لمبی حیات سے کوئ سروکار نہیں۔ بھگوان کے چاک پر ایسی ہزاروں چیزیں روزانہ بنتی ہیں۔ یہ سب خیالات اور رسومات معاشرے میں مردوں کی برتری قائم رکھنے کے لئے بنائیں گئ ہیں۔ سینکڑوں سال انکے ساتھ گذارنے کے بعد ہمارے اندر بھی کچھ اسی قسم کی روایات نے جنم لے لیا ہے۔ اور یہ کوئ ابھی کی بات نہیں ہے بلکہ ان سب چیزوں کو جنم لئے ہوئے بھی صدیاں گذر گئیں۔
یہاں پر بھی مرد کو ہر اچھائ اور برائ کا اختیار حاصل ہے وہ اگر کسی برائ کا شکار ہے تو یا تو اس میں کہیں نہ کہیں سے عورت کا قصور ہوتا ہے یا پھر یہ اسکی جبلت کا حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ یا پھر معاشرے کی گھٹن۔ جس سے کچھ نامعلوم وجوہات کی بناء پر خواتین کو امیونٹی حاصل ہے۔

میں اپنی ماسی سے پوچھتی ہوں تمہارے کتنے بچے ہیں جواب ملتا ہے چار بیٹے ہیں جی۔ مگر کچھ دنوں پہلے تو تم کہہ رہی تھیں کہ تمہاری بیٹیاں بھی ہیں دو۔ وہ جواب دیتی ہے۔ہیں جی پر بیٹیاں تو پرائ ہوتی ہیں۔ کیوں تم نے انہیں پیدا نہیں کیا تھا ۔ مجھے غصہ آگیا۔ میرے تیور دیکھ کر وہ تھوڑا پریشان ہو گئ۔ سوچ رہی ہوگی اس میں ناراض ہونے والی کون سی بات ہے۔ یہ باجیاں بھی بس غصہ ہونے کا بہانہ تلاش کرتی ہیں۔
نذیراں ، میری ماسی یہ پورا معاشرہ نہیں ہے۔ لیکن وہ اس معاشرے کی اکثریت کو ظاہر کرتی ہے۔ سماج کا نظام انہی سوچوں پہ چلتا ہے جو اکثریت روا رکھنا چاہتی ہے ۔ جدید زبان میں اسے جمہوریت کہتے ہیں۔ میری دوست جس کی عمر تیرہ سال تھی اور وہ ہمارے گھر کے نزدیک کچی آبادی میں رہا کرتی تھی۔ اسے ہماری کالونی کے ایک کھاتے پیتے گھرانے کے سترہ اٹھارہ سالہ لڑکے نے پریشان کرنا شروع کر دیا۔ لڑکی کی والدہ جب اس لڑکے کے والد کے پاس پہنچیں اور دبے لفظوں میں انہیں اس زیادتی کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے جواب دیا۔ لڑکا ہے ابھی اسکی عمر ہی کیا ہے۔ کر لیتے ہیں مرد ایسے بھی۔ تم اپنی بیٹی سے کہو ذرا خود احتیاط برتا کرے۔ کس کس کے گھر جا کر شکائیتیں لگاءوگی۔ اب یہاں اس لڑکے سے میری مراد ہمارے بلاگر ساتھیوں میں سے کوئ نہیں ہے۔ لیکن وہ لڑکا اسکے گھر والے، ہمارے معاشرے کی ایک عمومی سوچ کو ظاہر کرتے ہیں۔
یہ سن کر اگر میں یہ کہوں کہ مرے بھائ اور میرے شوہر یا مجھ سے منسلک مرد تو ایسا نہیں کرتے ، اور کسی نے اسے گھڑا ہے۔تو یہ اتنا ہی غلط ہوگا جتنا کہ یہ بات کہ اب اس معاشرے کا ہر مرد اورا سکے گھر والے اتنے ہی غیر ذمہ دار ہیں۔ ایسا نہیں ہے یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جن سے مل کر زندگی سے محبت ہو جاتی ہے اور میں دوسروں کو یہاں انعام لینے کا موقع کیوں دوں۔ دراصل میں وہ انسان ہوں جس سے مل کر آپ کو زندگی سے محبت ہو جائے۔ چاہے میری عداوت میں ہی کیوں نہ ہو۔
یہا ں لڑکے دھڑلے سے اپنی ساتھی یا رشتےدار خواتین کے ساتھ اپنے تصوراتی افئیرز کے بارے میں گفتگو اور مذاق کریں کوئ اس بات کا برا نہیں مانتا۔ لیکن اگر کوئ خاتون اپنے کسی تصوراتی عشق کے بارے میں اس طرح کوئ بات مذاقاً کہے تو سب کی پیشانی پر بل پڑ جاتاہے۔ مرد حضرات چاہے تنقید کے لئیے ہی سہی خواتین کے جسمانی تذکرے اتنی تفصیل سے کریں گے کہ تفصیلات میں ہی نفسانی مزہ آنے لگے تو کسی کو کچھ احساس نہیں ہوتا لیکن اگر میں یہ کہوں کہ مرد حضرات سڑکوں کے کنارے جب قدرتی ضروریات سے فارغ ہو رہے ہوتے ہیں تو کتنی بےحیائ لگتی ہے تو لوگ الٹا مجھے ہی بے حیا بنا دیں گے کیوں کہ میں خاتون ہوں۔ ایسی باتیں کرتی ہوں۔
ہمارے ہی ملک میں وہ گھرانے جہاں اس قسم کا رویہ نہیں رکھا جاتا وہاں مرد ایسی سوچ نہیں رکھتے۔ آخر یہ جو عورتوں کی ایک بڑی تعداد یہاں نکل رہی ، علم حاصل کر رہی ہے، اپنی صلاحیتیں استعمال کر رہی ہے تو انکے پیچھے ایسے ہی مردوں کی حوصلہ افزائ بھی شامل ہے۔ ورنہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں خواتین اپنے گھر کے مردوں کی پسند کے کپڑے پہنتی ہوں، انکی پسند کا کھانا کھاتی ہوں، انکے دئیے ہوئے پیسوں سے اپنا گھر چلاتی ہوں۔ وہاں اتنی بڑی تبدیلی کچھ مردوں کے ساتھ دینے پر ہی آسکتی ہے۔ ان گھرانوں کے مرد بھی خدا جانے کیوں ایسی گھٹن کا شکار نہیں ہوتے۔ اور اس گھٹن سے لیس وہ گھرانے ہی کیوں نظر آتے ہیں جہاں خواتین کی اخلاقیات پر بڑی نظر رکھی جاتی ہے۔
ہاں تو میں نے یہ کہا کہ ہم یعنی عورتیں اور مرد مل کر اپنے مردبچوں کی تربیت اس طرح کرتے ہیں کہ ان میں موجود خامیوں کو بھی انکی مردانہ خوبیاں بنا کر پیش کریں۔ چاہے ہمارے اس طرز عمل سے ہمیں سماجی بنیادوں پر کتنا ہی نْقصان اٹھانا پڑے۔لوگ اپنی بیٹیوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرتے ہوئے کہیں گے بیٹیاں بڑی شریف ہوتی ہیں درپردہ یہ کہنا ہوتا ہے کہ بیٹیوں کو شریف ہو نا چاہئیے۔ پھر ایک زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ، تمتماتے ہوئے گالوں کے ساتھ ایک ایک بڑی گالی اور پھر اس قسم کا جملہ لڑکے تو ہوتے ہی بڑے خبیث ہیں۔ یعنی اب وہ جو کچھ بھی کریں انہیں اجازت ہے یہ تو دراصل ہوتے ہی ایسے ہیں۔ کیا کریں جناب انکو کون سیدھا کر سکتا ہے۔
مجھے اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا کہ میرا کوئ بیٹا نہ ہو لیکن اب میں سوچتی ہوں کہ ایک تو ہونا چاہئیے چاہے اڈاپٹ کر لوں تاکہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو بتایا جا سکے کہ کس طرح ہوتی ہے مرد بچوں کی تربیت۔ لیکن اسکا صحیح حل مرد بچوں کو اڈاپٹ کرکے انہیں بہترین انسان بنانا نہیں ہے۔ بلکہ خدا نے جنہیں اولاد جیسی نعمت سے نوازا ہے انہیں یہ کرنا ہوگا کہ اپنے بچوں کو انکی جنس سے الگ بنیادی انسانی خوبیوں سے بہرہ مند کریں۔ ہمیں ایک خااتون سے لڑائ جھگڑا یا گالی گلوچ نہیں کرنا چاہئیے اسکے بجائے بیان یہ ہونا چاہئیے کہ ہمیں کسی سے بھی گالی گلوچ نہیں کرنا چاہئیے اور زبان کو بہتر طور پہ استعمال کرنا چاہئیے۔ ہماری بچیوں کو حیا سے رہنا چاہئیے، اسکے بجائے یہ ہونا چاہئیے کہ حیا انسانی خواص میں سے بہترین خاصیت ہے اور ہمارے ایمان کا جز ہے اسے ہر انسان کو اختیار کرنا چاہئیے۔ مرد کو بے غیرت نہیں ہونا چاہئیے، اسکے بجائے یہ ہونا چاہئیے کہ ہر انسان کے اندر غیرت، عزت نفس اور خود داری ہونا چاہئیے۔ لڑکی کی عزت آبگینے سے زیادہ نازک ہوتی ہے اور اس طرح محض ایک لڑکی کو سراسمیہ حالت میں رکھنے کے بجائے یہ ہونا چاہئیے کہ جسمانی تعلقات میں ہر انسان کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئیے۔ کیونکہ یہ نسل انسانی کو آگے چلانے کا ایک ذریعہ ہے۔اسے خواتین سے منسلک کر کے بھونڈے مذاق کرنےکے بجائےبچوں کو اس بات کی آگاہی دیں کہ ہر آنیوالا بچہ اپنے حقوق رکھتا ہے زندہ رہنے کے اور بہتر طور پہ زندگی گذارنے کے، اپنے تعلقات میں لا پرواہی کرکے اس بچے کی حق تلفی نہ کریں۔
ان سب باتوں سے بھی بڑی بات اپنے بچوں کا اعتماد حاصل کرنا ہے تاکہ وہ اپنے کسی بھی قسم کے مسئلہ کو اپنے والدین سے شیئر کرنے میں جھجھک محسوس نہ کریں۔ انکے ساتھ شریک ہوں ایک نئے سرے سے زندگی دریافت کرنے کے لئے اس سے پہلے کہ وہ اپنے ماحول سے ایک ضروری معلومات غلط طریقے سے لیں۔ یہ آپ ہوں جو انہیں وہی بات ایسے طریقے سے سمجھائیں کہ ان میں کسی قسم کا ہیجان پیدا نہ ہو۔ اگر ہم اپنے طور پر چیزیں صحیح کرنا شروع کریں تو ایک نسل کے فاصلے کے بعد بہت سی چیزیں آج سے بہت مختلف اور بہتر ہو سکتی ہیں۔

اب آخیر میں یہ کہ یہ سب اپنے ایک بلاگر ساتھی کی وضاحت کے لئے لکھنا پڑا۔ وہ جان گئے ہونگے کیوں نام لیا جائے۔

رقص مار


یہ وہ رقص نہیں ہے جو مارنے پر کیا جاتا ہے اسے رقص بسمل کہتے ہیں۔ اور اسکے نتیجے میں مضروب جان سے گذر جاتا ہے۔ یہاں جان کسی بس اسٹاپ کا نام نہیں ہے نہ یہ وہ ہے جس کے متعلق ایک بچے نے اپنی امی سے پوچھا کہ جان کہاں سے جاتی ہے۔ ماں بہت دیر سوچتی رہی اور پھر کچھ ہکلاتے ہوئے کہنے لگیں۔ پیروں سے۔ جی نہیں بچے نے انتہائ وثوق سے کہا۔ کھڑکی سے جاتی ہے۔ اب ماں حیران ہو گئیں۔ تمہیں کیسے پتہ چلا بیٹا۔ انہوں نے اپنے معصوم بچے پر صدقے واری ہوتے پوچھا۔ کہنا لگا۔ ابو کل آنٹی کو کہہ رہے تھے۔ جان، کھڑکی سےچلی جاءو وہ دروازے پر موجود ہے۔ یقیناً اسکے بعد وہ اپنے شوہر کی معصومیت پر بھی فدا ہوئیں ہونگیں۔ لیکن ہم اس واقعے کی جو کہ بعد میں ایک سانحے میں تبدیل ہوگیا مزید تفصیلات میں اس پوسٹ کے طویل ہونے کی وجہ سے نہیں جا سکتے۔ حالانکہ مجھے معلوم ہے کچھ لوگوں کو دراصل ابھی مزہ آنا شروع ہوا ہوگا۔ لیکن ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اسی لئے شاعر کہتا ہے کہ یہ دنیا ہے یاروں۔ حالانکہ وہ، وہ دنیا ہے یاروں بھی کہہ سکتا تھا۔ لیکن محض یہ کہہ دینے سے جو معنوی حسن پیدا ہوا ہے وہ، وہ کہہ دینے سے کہاں پیدا ہو سکتا تھا۔ ایسے ہی شاعروں کے آگے وہ کیا کہتے ہیں زانوئے تلمذ تہہ کرنے کو دل کرتا ہے۔ مشکل لفظ ہےلیکن کچھ مشق کے بعد نہ صرف بولنا ، لکھنا بلکہ تہہ کرنا بھی آجائے گا۔ کچھ لوگوں کو شاعری کا بالکل پسند نہیں ہوتی اور وہ اسے دنیا میں سوائن فلو سے کم نہیں سمجھتے جبکہ کچھ لوگ ایک ہاتھ میں اپنا دل اور دوسرے میں دیوان لئے پھرتے ہیں۔ اگر دونوں ایکدوسرے کے ساتھ بیٹھے ہوں تو لگتا ہے کہ کسی بھی وقت بھینس کے آگے بین بجنا شروع ہو جائے گی۔ ایسے موقعوں پر سمجھدار افراد کسی نقص امن کے پیدا ہونے کے ڈر سے کچھ کرتے ہیں۔ ہاں لیکن کیا ہے کہ بین پر یاد آیا کہ مجھے رقص مار کے متعلق کچھ بتانا تھا۔ اور باتیں ہیں کہ سانپ کی طرح ہاتھ سے پھسلے جا رہی ہیں۔ ہاں تو مار، سانپ کو بھی کہتے ہیں۔ اب یہ تو مجھے یاد آرہا ہے کہ کئ شاعروں نے محبوب کی زلف کو مار سیاہ سے تشبیہ دی ہے لیکن شعر کی پٹاری خالی ہے کیونکہ اس وقت وہاں ایک عدد سانپ براجمان ہے۔ میں نے اسے ہلکا سا ہش کیا تو وہ چل پڑا۔ جی میں آئ کہ سپیرن بن کر دیکھوں کیا میری دھن پر بھی یہ لہرائے گا۔ یہ تو جا رہا ہے۔
یہ دھن اگرچہ انتخاب میرا ہے لیکن کہیں اور سے اٹھائ گئ ہے۔ پانی میں کیمرہ مینی امر محبوب نے کی ہے۔ اس مختصر سی فلم کی ایڈیٹنگ کرنے کا موقع بھی مجھے ملا۔ یہ ملائیشیا کے سمندر میں پایا جانے والا دھاریدار سانپ ہے۔ ہمارے ملک کے پانیوں میں بھی ملتا ہے آئیے دیکھیں رقص مار۔


Sunday, July 19, 2009

چھم چھم کا غم


بات شروع ہوئ تھی گھنگھور گھٹاءوں سے بیچ میں برئ پراٹھے اور آم آئَے۔ ابھی بھی عذاب نہیں آئے۔ ہم اپنی قسمت پہ اترائے۔ سوچا کہ خدا ہم ناہنجاروں سے کچھ زیادہ ناراض نہیں۔ رحمت بھی ہے اور نعمت بھی۔ اپنے آپ کو بنی اسرائیل سے افضل جانا۔
پھر نیرہ نور نے بڑا ساتھ دیا اور ہم کافی دیر انکی آواز میں بولتے امیرخسرو کو سنا کئے،
جھولا کنے ڈالا رے ہمریاں
دو سکھی جھولیں، دو ہی جھلائیں
دو سکھی جھولیں ، دوہی جھلائیں
چاروں مل گئیاں، بھول بھلیاں
جھولا کنے ڈالا رے ہمریاں
پھر برآمدے میں بیٹھے مشتاق یوسفی کے مضمون کراچی کی بارش کے جملوں کو یاد کرتے رہے۔ پھر اسکےبعد------------------چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
غرور کا سر نیچا، اندھیرا جب حد سے آگے بڑھا تو تسلی دی کہ یہ تو لوڈشڈنگ ہے ابھی کچھ دیر میں باری آنے پر ہماری قسمت کا ستارہ چمکے گا۔ اور یہ رو سیاہی جس میں اپنی قسمت اور دوسروں کی تدبیر کا بھی دخل ہے، دور ہوگی لیکن ہمارے گھر میں موجود بجلی بابا نے کہا رات بغیر بجلی کے گذارنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ کیونکہ جنریٹر کام نہیں کر رہا ہے۔ آپ کے منہ میں خاک۔ ابھی تو ساون کے کے اتنے گیت باقی ہیں۔ لیکن مرفی کا قانون ہمارے اوپر مسکرا رہا تھا۔ساری رات میں جہاں آئنسٹائن کے نظریہ ء اضافت کے پر پیچ گوشے کھلے وہاں یہ اندازہ ہوا کہ بجلی کے نہ ہونے سے کتنا وقت نکل آتا ہے۔
کہاں وقت ہے کہ دوڑا جاتا ہےاور ہماری اور اسکی رفتار میں دوستانہ تعلقات پیداہونے سے قبل ہی لمحہ ء فراق آجاتا ہے اور کہاں رات ایک پہاڑ کی طرح سامنے کھڑی ہے۔ایک ایک جھینگر، اور مینڈک کے ٹرانے کا فرق پتہ چل گیا۔ سات جھینگر اور دو مینڈکوں کے سروں کے درمیان اڑوس پڑوس کی آوازیں کہ یہ کس گھر سے آرہی ہیں۔ درمیان میں اپنے گھر کی آوازیں نفی کرتی جاتی ہوں۔ مگر رات اسی طرح پل پل گذر رہی ہے۔ تھوڑی دیر میں اتنی مہارت حاصل ہو جاتی ہے کہ باہر برسنے والی بارش کا اندازہ کر سکوں کہ اتنی دیر میں کتنے ملی میٹر برس چکی ہے اور ابھی کتنی باقی ہے۔ اتنا علم حاصل ہو جانے کے بعد بھی محکمہ ء بجلی کی تسلی نہ ہوئ۔ وہ ہمیں علم کے ثریا کے بام عروج پہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر انہیں گالیاں دینے کے بجائے ہم اسی طرح صبر و تحمل سے علم کے حصول میں لگے رہیں تو کچھ دنوں میں مسلمان دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر لیں گے۔
اب اندازہ ہوا کہ یہ کم بخت ویلیئم گلبرٹ نے ۱۵۵۰ میں بجلی دریافت کر کے مسلمانوں کے خلاف سازش کی بنیاد رکھی۔ اگر وہ یہ نہ دریافت کرتا تو آج ہم کتنے آگے ہوتے۔ ان ناہنجار سوچوں کا بھی کوئ فائدہ نہیں۔ ایڈیسن کے ایجاد کئے ہوئے بلب اسی طرح بجھے ہوئے ہیں۔ ڈرائیو وے میں بلی کے بچے کو کھانا چاہئیے یہ پتہ نہیں کہاں سے تین دن پہلے آگیا ہے۔ اسکی میاءوں پر غور کرتی ہوں۔ مگر پہلو سے آواز آتی ہے اماں پنکھا کیوں نہیں چل رہا۔ میں اس آواز کو ویلئم گلبرٹ کے بارے میں بتانا چاہتی ہوں، لیکن رک جاتی ہوں۔ جھینگر، مینڈک، بلی، پڑوسی، بارش کی چھم چھم ۔، اور دور تک چھائے اندھیرے میں ایک نا معقول شخص کا نام کیوں لیا جائے جس نے ہمیں ترقی کی راہ سے بھٹکا دیا اور فحاشی، بے غیرتی اور بے حیائ کے رستے پہ روانہ کردیا۔ میں اسے تسلی دیتی ہوں۔ پنکھا سو رہا ہے تھک گیا ہے۔
صبح ہو گئ، دوپہر، سہ پہر اور اب رات ہونے کو ہے۔ سوچتی ہون یہ اتنی بیکلی کیوں ہے، وہ مجھے بھول گیا ہو جیسے۔کیا ایک اور رات فطرت کے قریب رہنے کا موقع ملے گا۔ وہی جھینگر، مینڈک اور بلی، پڑوسی---------
ادھر ادھر فون کرتی ہوں۔ کچھ لوگوں کی لائٹ آگئ ہے۔ سسٹم آہستہ آہستہ بحال ہو رہا ہے۔ نئ توقع باندھتی ہوں۔۔
اماں پنکھا اٹھ گیا، لائٹ آگئ۔ ایک باریک آواز نے اطلاع دی۔ ویسے بھی مجھے اندازہ ہوگیا تھا۔ وہ ساری آوازیں گم جو ہو گئ تھیں۔ جھینگر ، مینڈک، بلی، پڑوسی اور ہاں بارش کی چھم چھم بھی۔ کیا مصیبت ہوتی ہے یہ بارش بھی۔ میں پھر نیرہ نور کو سنتی ہوں۔

ہاں یاد مجھے تم کرلینا، آواز مجھے تم دے لینا
اس راہ محبت میں کوئ در پیش جو مشکل آجائے
اے جذبہ ء دل گر میں چاہوں، ہر چیز مقابل آجائے

نوٹ؛ چونکہ یہ واقعہ کراچی میں پیش آیا ہے اس لئے اس شہر کا نام لیا گیا ہے۔ دوسرے شہروں کے رہنے والے کسی بھی قسم کے احساس محرومی کا شکار نہ ہوں۔ میں نے کسی بھی قسم کا تعصب برتنے کی کوشش نہیں کی ہے۔

ریفرنس؛
ویلیئم گلبرٹ


Friday, July 17, 2009

تین مزار، تین کہانیاں

یہ سردیوں کی ایک ٹھٹھرتی رات تھی۔ جب میں نے لاہور ائیر پورٹ پر قدم رکھا۔ ہمارے میزبان وہاں پر ایک ایسا جوڑا تھا جو حال ہی میں امریکہ سے پاکستان سیٹل ہونے کے ارادے سے واپس آگئے تھے ۔ صاحب کا تعلق سندھ سے تھا۔ ہمارے پاس چار دن تھے اور لاہور میں درجہء حرارت تین ڈگری سینٹی گریڈ۔ کوئ لاہوری جس نے کچھ سردیاں کراچی کی بھی دیکھی ہوں اندازہ کرسکتا ہے کہ میری کیسی قلفی جمی ہوگی۔حالت یہ تھی یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زبان میری۔ کیونکہ منہ کھلنے میں اندیشہ تھا کہ سرد ی منہ سے اندر چلی جائے گی۔
ایک شام جب ہم داتا گنج بخش کے مزار کے قریب سے گذرے تو میں نے اور انکی نومسلم انڈین بیگم نے نہایت شدت سے مزار کے اندر جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ہمیں مزار کے داخلی دروازے پہ اتار دیا گیا۔ جب ہم اپنی سینڈلیں جمع کرا رہے تھے اسوقت وہاں شور مچ گیا تھا کہ کراچی والے آئے ہیں بھئ۔ یہ مجھے نہیں معلوم کہ کراچی والوں کی پہچان کیا ہے۔ یہ میرا کسی پاکستانی مزار میں جانے کا پہلا اتفاق تھا۔ ان سب کو نظر انداز کر کے ہم دونوں اندر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے حجلہء خاص میں پہنچ گئے احاطے میں بہت سارے لوگ ادھر ادھر لیٹے بیٹھے ہوئے تھے۔ حجلہءخاص میں اندھیرا سا تھا کچھ لوگ کھڑے تھے اور کچھ دو زانو بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے سوچا جب یہاں تک آئے ہیں تو فاتحہ بھی پڑھ لیتے ہیں۔ ابھی فاتحہ کے لئے ہاتھ اٹھا کر ابتدائ کلمات پڑھے تھے کہ ایک چھڑی کی نوک کندھے میں چبھی۔ اور آوز آئ۔ عورتیں یہاں سے چلی جائیں۔ ہم دونوں نے ایکدوسرے کو دیکھا اور خاموشی سے باہر آگئے۔ کچھ مذاق اڑا۔معلوم نہیں تھا آپکو کہ انہوں نے تمام عمر شادی نہیں کی تھی۔ اور انہی کے مزار پر فاتحہ پڑھنے کھڑی ہوگئیں۔
میں سردی اور صدمے سے خاموش رہی۔
اس بات کو کچھ عرصہ بیت گیا۔ کسی نے کہا۔ شاہ عبدالطیف کے مزار ہر ہر روز بڑے اچھے راگ گائے جاتے ہیں۔ یہ راگ شاہ صاحب کے ترتیب دئیے ہوئے ہیں اور انکی وفات سے اب تک بلا ناغہ انکے مزار میں ہوتے ہیں۔ جمعرات کے دن خاص سر گائے جاتے ہیں۔ہم نے بھی پلان بنا لیا ایک رات وہاں خرچ کرنے کا۔ کراچی سے تقریباً ڈھائ تین گھنٹےکی مسافت طے کرکے بھٹ شاہ پہنچے۔ مزار کے احاطے میں واقع ایک کمرہ رات بھر کے لئے کرائے پہ لیا۔ یہیں احاطے میں سندھ کے مشہور شاعرشیخ ایاز کا مقبرہ بھی ہے۔ ایک فٹپاتھی ہوٹل سے کھانا کھایا اور مزار پہ پہنچ گئے۔ وہاں شیعوں کی ایک مجلس جاری تھی۔ پتہ چلا کہ راگ رات کو بارہ بجے شروع ہوتے ہیں۔ کچھ وجوہات کی بنای پر اب شیعہ فقہے کے لوگ بھی مزار کے احاطے میں اپنی سرگرمیاں انجام دینے لگے ہیں۔ یہ ختم ہو جائے گی تو روزانہ کی چیزیں شروع ہونگیں۔ پونے بارہ بجے کے قریب راگ گانے والے اپنے ساز وسامان کے ساتھ آئے۔ ایک نیم دائرہ بنا کر حجلہء خاص کے سامنے بیٹھ گئے کچھ رسومات انجام دی گئیں۔ چھوٹی چھوٹی کٹوریوں میں دودھ بھر کر تمام حاضرین محفل کو پیش کیا گیا۔ ہمارے علاوہ وہاں چند اور لوگ تھے۔ مزار کے احاطے میں کچھ لوگ سو رہے تھے بچے کھیل رہے تھے۔ اور پھر انہوں نے اپنا راگ چھیڑا۔ ایک کے بعد ایک کئ راگ پیش کئے گئے۔اور ان راگوں نے ایسا سماں باندھا ک سب اسکے کیف سے فجر کے وقت باہر نکلے راگ کے اختتام پر حجلے کے سامنے فاتحہ پڑھی گئ اور ہم ہوٹل واپس آگئے تاکہ تین گھنٹے آرام کر کے واپسی کا سفر شروع کریں۔
یہ ایک اور مزار ہے اسکے لئے ہمیں پاکستان سے باہر نکلنا پڑا اور استنبول پہنچ کر ٹور ارینج کرانے والون سے بڑی بحث کرنی پڑی۔ جن جگہوں پہ ہم جانا نہیں چاہتے تھے ان ٹور پروگرامز میں یہ جگہ شامل تھی۔ اور جہاں ہم جانا چاہتے تھے ان میں نہیں تھی۔ بہر حال ایک ٹور پروگرام کو توڑ مروڑ کرہم قونیہ پہنچنے کے قابل ہو گئے۔ جہاں مولانا جلال الدین رومی کا مزار ہے۔ ہمیں یہاں ٹہرنے کے لئے ایکدن ملا تھا پورے شہر میں اور کوئ قابل ذکر جگہ نہ تھی۔ اور اتنی بڑی شخصیت کے بعد کسی اور کے رکنے کی جگہ بھی کہاں ہو سکتی تھی۔مزار کے چاروں اطراف میں پارک ہے۔ ایک مسجد ہے وضو خانہ ہے۔ داخلی دروازے پہ بڑے بڑے ٹوکرے رکھے ہیں۔ ان میں اسکارف موجود ہیں۔ کچھ پیسے لیکر ایک شاپر مل جائے گا جس میں جوتے ڈال کر بند کرلیں اب آپ اندر بھی اس تھیلے کو لیکر پھر سکتے ہیں۔اندر داخل ہونے سے پیشتر ان میں سے اسکارف اٹھالیں۔ مجھے دوپٹے کی وجہ سے ضرورت نہیں پڑی اندر سر ڈھنکنے کی کوئ پابندی نہیں۔ اندر ایکطرف ایک بڑی سی قبر ہے جو انکی ہے۔اس کے ساتھ اور قبریں بھی ہیں۔ جو انکے ساتھیوں کی ہیں۔ دیواروں پہ فارسی اشعارجابجا تحریر ہیں یا طغروں میں لگے ہیں۔ ایک خاتون کھڑی مثنوی مولانا روم پڑھ رہی تھیں اور کئ صاحبان قرآن پاک۔ ایک خاتون مکمل طور پر مغربی لباس میں، آنکھیں کاجل، مسکارا اور آئ شیڈو سے سجی ہوئیں لیکن اشکبار۔ اندر بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے۔ کھڑے رہیں یا چلتے رہیں یہاں میں نے دیوار پہ لکھی ہوئ عبارتیں اپنی نوٹ بک میں اتاریں۔ میرے قریب کھڑے تیرہ چودہ سالہ بچے نے انتہائ حیرت سے اپنی ماں کو بتایا۔ شی نوز دی اسکرپٹ۔ یعنی میں وہ تحریر جانتی ہوں۔ ترکی اب انگریزی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ اس کمرے سے باہر نکلیں توایک اور ہال ہے جہاں انکی یادگاریں شوکیسوں میں لگی ہوئ ہیں۔
یہاں سے باہر آکر اسکارف واپس ٹوکروں میں ڈالدیں۔مزار کے باہر ایک نمائش لگی ہوئ ہے خطاطی کےمختلف نمونوں کی اور سوینیئرز کے طور پہ لیجانے والی چیزوں کی۔ جہاں سے میں نے چینی کے کپ لئے جن پر انکا ایک مشہور بند لکھا ہوا ہے۔

آءو آءو، تم جو کوئ بھی ہو اس سے فرق نہیں پڑتا
چاہے تم ایک کافر ہو، بت پرست یا آتش پرست
آءو، یہ جگہ مایوسی کی نہیں آءو، حتی کہ
اگر تم اپنی توبہ سو بار بھی توڑ چکے ہو، پھر آءو

ہم ہوٹل چھوڑ چکے تھے بقیہ سارا دن اسی احاطے میں گذارا۔ کتابیں پڑھتے ہوئے۔ شام کے وقت پارک لوگوں سے بھرگیا۔ زیادہ تر خواتین اسکارف باندھے ہوئے اپنے ساتھیوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گھوم رہی تھیں۔ بچے دوڑ رہے تھے۔ قریب ہی وہ جگہ ہے جہاں ہفتے کے مخصوص دنوں میں رقص درویش ہوتا ہے جو ہم نہ پا سکے ویسے بھی اسکا ٹکٹ اتنا مہنگا تھا کہ ہم جیسے سیاحوں کی جیب اسکا خرچہ برداشت نہیں کر سکتی۔
میں تمام نمازوں کے لئے وضو خانے میں جاکر وضو کرتی ہوں اور آرام سے مسجد میں مخصوص خواتین کے حصے میں نماز پڑھ آتی ہوں۔وضو خانہ اگر چہ کچھ فاصلے پر تھا مگر یہاں مجھے گھورنے والا اور آوزیں کسنے والا کوئ نہ تھا۔ میں بلا کھٹکے اکیلے مزار کا پورا احاطہ دیکھ ڈالتی ہوں۔کیونکہ میرے ساتھی پر سستی سوار تھی۔
یہ سیکولر ترکی ہے جسے ہم سب حقارت سے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ ہم سے کم مسلمان ہیں۔

خیال جلوہء گل سے خراب ہیں میکش
شرابخانے کے دیوار و در میں خاک نہیں

نوٹ؛ رومی کے بند کا ترجمہ اس کپ پر لکھے ہوئے انگریزی ترجمے سے کیا گیا ہے۔ اگر کسی کے پاس اس سے زیادہ اچھاترجمہ موجود ہے تو براہ مہربانی ہمیں بھی شریک کریں۔

Wednesday, July 15, 2009

مجھے اماں چاہئیں


یہ میری ڈھائ سالہ بیٹی کا سمر کیمپ فن میں پہلا دن تھا۔ یہاں وہ اس لئے ہے کہ میں محسوس کرتی ہوں کہ اسے دیگر بچوں کے ساتھ رہنا پسند ہے۔ مگر کلاس میں ماں کے ساتھ ہونے پر پابندی کی وجہ سے میں باہر برآمدے میں بیٹھی ہوئ تھی۔ مبادا اسکول والوں کو اسے بہلانے میں پریشانی کا سامنا ہو۔ مجھے اندر سے اسکے رونے کی آوازیں آرہی تھیں۔ اسے اماں چاہئیں۔ مگر میں دل کڑا کئے بیٹھی رہی۔ دس منٹ بعد آیا اسے میرے پاس واپس لے آئ۔ رونے سے اسکی آواز بیٹھی ہوئ تھی۔ وہ آتے ہی میرے گھٹنوں سے لپٹ گئ۔ میں نے اسے تسلی دی اور پوچھا کیا ہوا تھا۔ اس نے آنسو بھری آنکھیں میری طرف کیں اور سسکیاں لیتی کہنے لگی۔ 'اماں، آپ کہا ں چلی گئ تھیں۔ مشعل لوئ۔ مشعل بہت لوئ۔ مشعل نے کہا۔ اماں کہاں ہیں۔ اماں کہاں ہیں'۔ میں اسے سمجھاتی ہوں کچھ وقت بچوں کو دوستوں کے ساتھ بھی رہنا چاہئے۔ اماں ہر وقت ساتھ نہیں ہوتیں۔ دوستوں کے ساتھ بڑا مزہ آتا ہے۔ اسکول میں ٹیچر بڑے مزے کے گیمز کھیلتی ہیں، کتابیں پڑھتی ہیں اور پنسل بھی دیتی ہیں لکھنے کے لئے۔ اسے پنسلوں سے بڑی محبت ہے۔ مگر وہ میری یہ ساری باتیں سمجھنے سے انکار کر دیتی ہے اگر اماں نہیں تو پھر کچھ نہیں۔ وہ جواب دیتی ہے'اماں , یہ اچھا نہیں لگتا'۔
دفعتاً مجھے خیال آتا ہے اگر کوئ میرے جسم میں اسکے سامنے تیز خنجر سے اٹھارہ وار کرے کہ ہر وار سے میرے جسم کے سوتوں سے خون کی دھار پھوٹ پڑے اور میرے شوہر جب مجھے بچانا چاہیں تو ارد گرد کھڑے پولیس والے بجائے مجرم کو پکڑنے کہ گولی میرے شوہر پہ چلادیں۔ خنجر کے ان واروں کی تاب نہ لا کر میں موقع پر ختم ہو جاءوں۔ اور میرے شوہر کو ہسپتال کے انتہائ نگہداشت کے شعبے میں پہنچا دیا جائے۔میرا وجود اس دنیا میں نہیں رہے۔ میری بیٹی کسی گوشے میں کھڑی سسک رہی ہو اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہوگی کہ کسی نے اسکی ماں کو دوپٹہ سر سے نہ پہننے کی پاداش میں جان سے ختم کردیا ہے۔ اسے اماں چاہئیں۔ کیونکہ اماں کے بغیر اتنے بڑے بچے کو کچھ اچھا نہیں لگتا۔

لیکن میں ابھی زندہ ہوں۔ البتہ مجھ سے ملتی جلتی ایک مصری مسلمان عورت ماروا ایک تین سالہ بچے کی ماں جو ایک ترقی یافتہ ملک جرمنی کی ایک عدالت میں موجود تھی اپنے بچے کے سامنے اسی انجام سے دوچار ہوئ۔ایک احساس سے عاری خنجر کے اٹھارہ وار اسے زندگی جیسی خوبصورت نعمت سے محروم کر گئے جبکہ اسکی کوکھ میں ایک اور زندگی بھی پل رہی تھی۔ اس بچے نے اپنی ماں کو کھونے کا سانحہ کیوں دیکھا۔ کیونکہ اس کی ماں نے اپنے سر کو چار گرہ کپڑے سے لپیٹے ہوا تھا۔ جسے اس معاشرے کا ایک طبقہ سخت نہ ناپسند کرتا ہے۔ ایک ترقی یافتہ معاشرہ جو کپڑوں سے آزاد عورت کو اپنے اندر سمونے میں کوئ جھجھک محسوس نہیں کرتا لیکن چند کپڑے زیادہ پہن لینے پر ایسا ردعمل سامنے آتا ہے۔ ایک ہمارا معاشرہ ہے جہاں خواتین کی اکثریت نہ صرف کپڑوں بلکہ دیواروں کے اندر لپٹی ہوئ ہیں وہاں کچھ عورتوں کے ذرا سا کپڑے کم کر دینے ، ان دیواروں سے باہر آنے پہ ایک شور و غل مچ جاتا ہے۔ جہاں میں اور میری جیسی مزید عورتیں جو اس چار گرہ کپڑے کوسر سے لپیٹنے سے دلچسپی نہیں رکھتیں۔ وہاں ماروا جیسی عورتیں ہیں جو اسے اپنانا چاہتی ہیں۔ آخر معاشرہ عورتوں کو اپنے حساب سے زندگی گذارنے کی اجازت دینے میں کیوں اتنا شدت پسند ہے۔
آخر دنیا عورتوں کے کپڑوں کے بارے میں کیوں فکرمند رہتی ہے۔۔
صاحبو، میں اپنی بیٹی کی طرف پلٹتی ہوں ۔ اسے اماں چاہئیں۔چاہے اس نے دوپٹہ سر سے اوڑھا ہو یا نہ اوڑھا ہو۔ اسے اماں کے بغیر کچھ اچھا نہیں لگتا۔

ریفرنس؛

مصری خاتون کا قتل


مصری خاتون کا قتل ایک رپورٹ

Saturday, July 11, 2009

بات وہ آدھی رات کی

آدھی رات کو جب یہ دنیا والے خوابوں کی سیج سجاتے ہیں تو ایسے میں ہم شہروں کے رہنے والے ایکدوسرے کے فون کھڑ کھڑاتے ہیں۔ کیا کریں یہی وہ وقت ہوتا ہے جب اپنے آپ سے ملاقات کرنے کا موقع ملتا ہے اورپھرکسی بہانے دوسرے ساتھیوں کو یادکرنے لگتے ہیں ۔یہ کچھ اوکھی سی گفتگو کا خلاصہ ہے۔ آنکھوں پر عقیدت کی پٹی باندھ کر پھرنے والے اور انسانی محبوبوں کو خدا سمجھنے والے اگر نہ پڑھیں تو انکا کچھ نقصان نہیں ہوگا۔ یہ دوسرا شخص، ایک ہمراہی ہیں۔ انکی اور میری ہم آہنگی ایسی ہے کہ باوجود مختلف طرز فکر رکھنے کے میں انہیں غدار پاکستان اور کافر نہیں سمجھتی اور وہ بھی مجھے اس وطن کے وفاداروں میں اور مسلمانوں میں خیال کرتے ہیں۔ یاد رہے اردو گرامر میں اگر تانیث ظاہر کرنا مقصود نہ ہو تو مذکر کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے۔ تو یہ کوئ بےوقوف خاتون بھی ہو سکتی ہیں اور عقلمند مرد بھی۔

شش،آرام سے سنیں۔

میں؛ کیا ہو رہا ہے سونا تو یقیناً نہیں چل رہا ہوگا۔
ہمراہی؛ نہیں کل کی تیاری چل رہی ہے۔ کس لئے یاد فرمایا آپ نے۔
میں: بھئ ایک موضوع چھڑا ہوا ہے۔قاضی صاحب کے حوالے سے۔
ہمراہی ؛ کون سے قاضی؟
میں؛ جناب قاضی حسین احمد، انہوں نے اقبال اور قائد اعظم کے حوالے سے اپنے ایک مضمون میں جس کے اقتباسات ڈان میں بھی کچھ دنوں پہلے شائع ہوئے تھے۔ یہ کہا ہے کہ اس ملک کو دراصل اسلامی مملکت بننا ہے ورنہ یہاں کا مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔ انہوں نے اقبال کی نظم وطنیت کے ان اشعار کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات کہی کہ اقبال وطنیت کے سخت مخالف تھے۔
ان تازہ خداءوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیراہن ہےاس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے

میرے ہاتھ میں اس وقت کلیات اقبال ہے۔ انکی نظم وطنیت بانگ درا میں موجود ہے اور اس نظم سے کوئ سو صفحے پہلے انکی نظم ہندی ترانہ موجود ہے جس میں انہوں نے ہندوستاں کو اپنا وطن قرار دیتے ہوئے اسے اپنی محبتوں کا مرکز قرار دیا ہے۔

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اسکی یہ گلستاں ہمارا
غربت میں ہوں اگر ہم، رہتا ہے دل وطن میں
سمجھو وہیں ہمیں بھی، دل ہو جہاں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا

میں الجھن میں ہوں۔ علامہ کی بات میں تضاد کیوں ہے۔

ہمراہی؛ دراصل علامہ ابتدائ طور پر تو نہیں البتہ بعد میں پین اسلام ازم کی طرف مائل ہو گئے تھے ان کی دوسری نظم وطنیت اسی دور کی ہے اور اپنے انتقال کے وقت تک وہ اسی پر قائم رہے۔ جبکہ نظم ہندی ترانہ پہلے دور سے تعلق رکھتی ہے۔

میں؛ مزید بات قائد اعظم کی اس پالیسی ساز تقریر کے حوالے سے جو انہوں نے قیام پاکستان سے دو دن قبل دی تھی۔
’آپ آزاد ہیں عبادت کے لیے اپنے مندروں میں جانے میں آزاد ہیں ،آپ اپنی مسجدوں میں جانے میں آزاد ہیں آپ مملکت پاکستان میں اپنے عقیدے کے مطابق اپنی عبادت گاہوں میں جانے میں آزاد ہیں آپ خواہ کسی مذہب،فرقے یا عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں امور مملکت کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ۔ ۔ ہم سب ایک ہی مملکت کے شہری ہیں اوربرابر کے شہری۔ ۔ ۔ پس ہمیں اس نصب العین کو ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور آپ وقت کے ساتھ ساتھ دیکھیں گے کہ نہ ہندو،ہندو رہے گا اور نہ مسلمان ،مسلمان ،مذہب کے معنوں میں نہیں کیونکہ یہ تو ذاتی عقیدت کا معاملہ ہے بلکہ سیاست کے معنوں میں جب ہر شخص مملکت کا شہری ہوتا ہے ‘‘۔

اسکے بارے میں قاضی صاحب کا کہنا ہے کہ صرف اس تقریر کے پیچھے سب پڑ گئے ہیں حالانکہ اس سے پہلے اور اسکے بعد انہوں نے کتنی دفعہ ایسی باتیں کیں جس سے یہ نتیجہ نکالنا چاہئے کہ وہ ایک اسلامی مملکت چاہتے تھے۔ ایک اسلامی مملکت جہاں اسلامی قوانین کا نفاذ ہو۔ مجھے تو قاضی صاحب کی یہ بات صحیح لگتی ہے۔

ہمراہی؛ تو ان سے آپ نے یہ نہیں پوچھا کہ خود قائد اعظم کسطرح کے مسلمان تھے اور وہ اسلام کو کیسا سمجھتے تھے۔ محترمہ شاید آپ نے وہ واقعہ نہیں سنا کہ جناح صاحب کو نماز پڑھنا نہیں آتی تھی۔ ایکدفعہ کسی اجلاس کے دوران جب انہیں جماعت نماز پڑھنی پڑی تو عین نماز کے دوران جب سب لوگ رکوع میں چلے گئے تو وہ کھڑے رہ گئے اور انتہائ حیرت سے بولے کہ واٹ اے ڈسپلن۔

میں؛ یہ تو ایکدم مذاق ہے گھڑا ہوا۔
ہمراہی؛ جب انسان صدمے سے زیادہ حیرت میں ہو تو اسے چیزیں یونہی مذاق لگتی ہیں۔ وہ تو کہتے تھے کہ رسول اللہ نے آج سے تیرہ سو سال پہلے جمہوری طرز حکومت کی بنیاد رکھ دی تھی۔ وہ خودتو سرتاپا ایک سیکولر انسان تھے۔امیر اتنے کہ اصلی ریشم کی ٹائ بھی ایکدفعہ کے بعد دوسری نہیں پہنتے تھے۔مغربی پینٹ کوٹ کے ہاتھ کے سلے ہوئے سینکڑوں سوٹ انکے پاس اس وقت موجود تھے۔
میں؛ انہوں نے مسلمانوں کے لئے پاکستان حاصل کرنے کی جنگ لڑی آپ کو معلوم ہے انکے جلسوں میں لوگ نعرے لگایا کرتے تھے کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ اللہ۔
ہمراہی؛ اول تو انہوں ے یہ نعرہ کبھی خود نہیں لگایا اور دوئم انہوں نے یہ نعرے بھی کبھی نہیں لگوائے۔ مختلف تحریکوں میں جذبہ پیدا کرنے کے لئے نعرے تخلیق کئے جاتے ہیں۔ انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں نام نہاد جیت میں بھی ملکہء ترنم نورجہاں کے گانوں کا بڑا حصہ ہے۔ کیا آپ اس سے واقف نہیں۔ اب آپ کہیں جنگ اور اسکے لوازمات جیسے کھڑاگ کی کیا ضرورت ہے۔ دو چار نورجہانوں سے کام چل جائے گا۔ اور مزید یہ کہ حکومت وقت نے جنگ کو اسی مْصد کے لئے جیتا کہ نورجہاں اور گانے گائیں۔
میں؛ تو آپ سمجھتے ہیں کہ وہ سیکولر پاکستان چاہتے تھے۔
ہمراہی؛ میرا خیال ہے کہ وہ مسلمانوں کے لئے ایک ایسی مملکت چاہتے تھے جس کے قاعدے قوانین مسلمان اپنے فائدے، نقصان اور اپنی ثقافت کو مد نظر رکھ کر بنائیں۔ آپ یا دوسرے لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ پاکستان محض جناح کی کوششوں سے نہیں بنا۔ کوئ بھی تحریک صرف لیڈر کے بل بوتے پہ نہیں چل سکتی بلکہ ان لوگوں کا عزم بھی اس میں کام کرتا ہے جو اس سے متاثر ہوتے ہیں جن کے لئے وہ تحریک چلائ گئ ہوتی ہے۔ اب آپ بتائیں۔ پاکستان کی تحریک کی اصل جنگ ان علاقوں میں لڑی گئ جو آج پاکستان میں شامل نہیں۔ وہاں کے مسلمان، مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ مسلمان خود جیسی زندگی گذار رہے تھے ویسی ہی زندگی گذارنا چاہتے ہونگے یا اپنے مزاج سے الگ کسی نئے اسلام کی طلب کر رہے تھے۔ وہ اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتے تھے ناں۔ یا پاکستان بننے کے بعد سب نئے سرے سے مسلمان ہونا چاہتے تھے۔ انکی پریشانی یہ نہیں تھی کہ انگریز حکومت انہیں انکے مذہب پر عمل پیرا نہیں ہونے دے رہی تھی بلکہ انکی پریشانی یہ تھی کہ انگریزوں کے جانے کے بعد وہ ہندو اکثریت کے رحم و کرم پہ رہ جائیں گے۔ اور اس صورت میں انہیں معاشی اور ثقافتی طور پہ ہراساں کیا جائے گا۔ مسلمان کمیونٹی کے مفادات کو ضرب لگتی تھی نہ کہ اسلام کو۔ اب جناح صاحب شراب بھی پیتے تھے، غیر مسلمانوں کے ساتھ ہوتے تو ایسا کوئ حلال حرام کا بھی خیال نہ رکھتے تھے۔ کوئ ایسے نماز روزے کے پابند نہ تھے۔ اب وہ کیسا اسلامی ملک چاہتے ہونگے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے پہلا وزیر قانون ایک ہندو کو اور پہلا وزیر خارجہ ایک قادیانی کو بنایا۔ آج لوگ انہیں ایک مذہبی شخصیت بنانے پہ تلے ہوئے ہیں۔ مجھے حیرت ہے قاضی صاحب ایسا کہہ رہے ہیں۔ انکی جماعت کے جد اعلی مولانا مودودی تو کہتے تھے کہ جس جماعت کی قیادت ’جناح جیسے آدمی‘ کے ہاتھوں میں ہے اس سے ایک اسلامی ریاست کے قیام کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟
میں؛ انہوں نے آخری عمر میں شراب چھوڑ دی تھی۔ باقی چیزوں کے بارے میں مجھے معلوم نہیں اور نہ کوئ خواہش ہے معلوم کرنے کی۔ انکی شخصیت پاکستان کی تخلیق کی جدوجہد میں سب سے نمایاں اور اہم ہے۔ میں نے تو کسی کی رائے یہ بھی پڑھی کہ اگر کانگریس کے پاس جناح جیسا ایک بھی لیڈر ہوتا تو پاکستان نہ بن پاتا۔ تو پاکستان کی تخلیق انکی دانائ اور زیرک شخصیت کی وجہ سے ممکن ہوئ۔

ہمراہی؛ انکا انتقال پھیپھڑوں کی ٹی بی کی وجہ سے ہوا تو وہ تو ڈاکٹری ہدایت ہوگی کہ ترک کر دیں۔ البتہ میں آپکی بات سے متفق ہوں کہ کسی شخص کی ذاتی زندگی کو اسکی قابلیت اور اہلیت سے الگ رکھنا چاہئیے۔ لیکن آپ اسی دنیا میں رہتیں اور دیکھتی ہونگیں کہ جب کسی کے خلاف کچھ بن نہیں پڑتا تو پھر ایسے ہی باتیں کی جاتیں ہے کہ وہ شراب پیتا ہے وہ یہ غیر اسلامی کام کرتا ہے وہ، وہ غیر اسلامی کام کرتا ہے اور پھر آخر میں یہ کہ وہ تو مسلمان یہ نہیں ہے کافر ہے۔۔ میرا سوال تو یہ ہے کہ جناح بھی یہ کرتے تھے اب انکی شخصیت کو اتنا مذہبی کیوں بنایا جارہا ہے۔ جناح کی پیدائش ایک کھوجے شیعہ گھرانے میں ہوئ اور وہ بعد میں اثناء عشری شیعہ میں چلے گئے۔ پاکستانیوں کی اکثریت سنی فقے سے تعلق رکھتی ہے۔ اب یہاں پہ کس فقہ کی حکومت ہوگی۔ وہ جس پر عوام کی اکثریت رضا مند ہے یا وہ جس پہ ہمارے قائد عمل پیرا تھے۔
میں: مجھے تو نہیں معلوم۔
ہمراہی؛ توپھر آپ جا کر بھنڈی پکائیں۔ ایک تو عورتیں، مردوں کی سیاست سے واقف ہوتی نہیں ہیں۔ اور چلی آتیں ہیں بیچ میں لقمہ دینے۔ اب ناراض ہونگی کہ مجھ جیسی علامہ کو یہ کہہ دیا۔
میں؛ آپ مجھے زیادہ طعنے نہ دیں۔ کبھی کبھی معاملات کو قابو میں رکھنے کے لئے بھی لاعلمی کا ڈرامہ کرنا پڑتا ہے۔ سنا نہیں آپ نے لا علمی ایک نعمت ہے۔مجھے معلوم ہے یہ قرار داد مقاصد کا بھی اس میں کچھ چکر ہے۔ اب میں اتنی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتی۔ میں صرف یہ جاننا چاہتی تھی کہ یہ تضاد ان بڑے ناموں کے کردار کا حصہ تھا یا اب کچھ لوگ معاملات کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لئے انکا نام استعمال کرتے ہیں۔
ہمراہی؛ تو آپ نے مجھے عام لوگوں میں سے نکال کر قاضی صاحب کے مد مقابل کھڑا کر دیا۔
میں؛ جی، میری خواہش ہے کہ ہر عام آدمی ان خاص لوگوں کے سامنے کھڑا ہو جائے۔
ہمراہی؛ اس طرح تو بڑی مشکل ہو جائے گی۔ عام آدمی کے لئے بھی اور خاص آدمی کے لئے بھی۔ سو میری دعا ہے تیری آرزو بدل جائے۔


ریفرنس؛

قاضی حسین احمد کا مضمون

قائد اعظم کی سوانح حیات ۱

قائد اعظم کی سوانح حیات
۲
پاکستان ایک مذہبی ریاست

فیصلے کا مرحلہ







Thursday, July 9, 2009

ایک تعارف

آتے جاتے خوبصورت آوارہ سڑکوں پہ۔ کبھی کبھی اتفاق سےکتنے انجان لوگ مل جاتے ہیں۔ اس سے آگے جو مرحلہ ہوتا ہے وہ تعارف کا ہے۔ خوبصورتی بذات خود ایک اچھا تعارف ہے۔ اگر تعارف ہو جائے تو خوبصورت سڑکوں پہ اچھی آوارگی ہو سکتی ہے یا آوارہ سڑکیں بھی خوبصورت لگنے لگتی ہیں۔ خوبصورتی اور بد صورتی سے الگ کبھی کبھی یہ تعارف زندگی کے معنی تبدیل کر دیتے ہیں اور کبھی اسے بے معنی بنا دیتے ہیں۔
اجنبی کو آشنا بننے کے لئے بھی ایک تعارف کی ضرورت ہوتی ہے کبھی کوئ واقعہ ہمیں نئے لوگوں سے متعارف کراتا ہے۔ کبھی ہمارے جاننے والوں کے طفیل ہمیں نئے تعارف حاصل ہوتے ہیں اور کبھی کچھ ہٹ کر کرنے میں زندگی کے نئے تعارف سامنے آتے ہیں۔ جیسے اس بلاگ کے طفیل مجھے کتنے سارے لوگوں سے واقفیت حاصل ہوئ اور جنہیں نہیں ہے انہیں بتادوں کہ میرا نام عنیقہ ناز ہے۔ حالانکہ شیکسپیئر نے کہا تھا کہ نام میں کیا رکھا ہے گلاب کو کسی نام سے پکارو وہ گلاب ہی رہے گا۔ لیکن ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ جولیا رابرٹس، رچرڈ گیئر، کترینہ کیف اور ٹام کروز کے نام پہ دل کی دھڑکن کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے وہ لیاقت کیبل والے یا جمیلہ پاپڑ والی کے نام سے نہیں ہوتا۔
اب شیکسپیئر سے کون بحث کرے۔ لیکن میں یہ خود کلامی کیوں کر رہی ہوں۔ آں، یاد آیا، یہ ایک نظم ہے ن م راشد کی اس کا عنوان ہے تعارف۔ اسکے مطالعے میں آپ سب کو شریک کرنا تھا۔ یہ ایک عجیب سا تعارف ہے، شاید آج ہم سب اس سے واقف ہیں۔ چلیں اسے پڑھتے ہیں۔

اجل، ان سے مل،
کہ یہ سادہ دل
نہ اہل صلٰوت اور نہ اہل شراب،
نہ اہل ادب اور نہ اہل حساب،
نہ اہل کتاب۔۔۔۔
نہ اہل کتاب اور نہ اہل مشین
نہ اہل خلاء اور نہ اہل زمین
فقط بے یقین
اجل ان سے مت کر حجاب
اجل، ان سے مل،
بڑھو، تم بھی آگے،
اجل سے ملو،
بڑھو، نو تونگر گداءو
نہ کشکول دریوزہ گردی چھپاءو
تمہیں زندگی سے کوئ ربط باقی نہیں
اجل سے ہنسو اور اجل کو ہنساءو
بڑھو، بندگان زمانہ بڑھو بندگان درم
اجل، یہ سب انسان منفی ہیں،
منفی زیادہ ہیں، انسان کم
ہو ان پر نگاہ کرم


ریفرنس؛
ن م راشد
ن م راشد

Monday, July 6, 2009

کچھ خرابات


آج کچھ لوگوں کی فرمائش پہ چند اشعار کی تشریح حاضر ہے۔ چونکہ ان اشعار کے تخلیق کار اب اس دنیا میں نہیں رہے تو کسی اور کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ ان سے اتفاق نہ کرے.

لیجئیے پہلا شعر حاضر خدمت ہے۔

جو تمہاری مان لیں ناصحا تو بچے گا دامن دل میں کیا
نہ کسی عدوکی عداوتیں، نہ کسی صنم کی حکائیتیں

یہاں کچھ الفاظ کا تعارف پہلے سے دینا ضروری ہے۔ جیسے ناصحا یا نا اور صحا، اس کا مطلب بظاہر یہ لگتا ہے، وہ شخص جو کبھی صحیح نہیں ہو سکتا۔ اب اسکے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ یا تو یہ کہ اسکی بات کبھی صحیح ثابت نہیں ہو سکتی اور یا یہ کہ انکی شخصیت کے ٹیڑھ پن کو کبھی صحیح نہیں کیا جا سکتے۔ بادی النظر میں یہ کوئ سیاستداں لگتے ہیں۔ لیکن شعر میں کیا مراد ہے اس پہ ہم بعد میں بحث کرتے ہیں۔

دامن دل، اس پہ کچھ اصحاب کو حیرت ہوتی ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ دل کا دامن کیسے ہو سکتا ہے۔ تو جناب اگر دل کو قمیض کی طرح پہن لیا جائے تو دامن تو کیا اسکا گلا اور آستین بھی بن جاتے ہیں۔ اور کچھ لوگ تو سراپا دل ہوتے ہیں۔ ایسے دل عوامی جگہوں پہ بہ کثیر دستیاب ہوتے ہیں۔ دل اگر سینے سے نکل جائے تو اسکی غیر حاضری کو عقلمندی سے عشق و محبت کے خانے میں ڈالا جا سکتا ہے۔ کیونکہ دماغ کو کاسہء سر سے نکالنا خاصہ دقت طلب اور محنت کا کام ہے اسلئے دماغ سے اس قسم کی کوئ چیز تیار کرنا مشکل ہے۔ اتنی محنت کے بعد اسے صرف کھایا جا سکتا ہے۔ اسے فرائ کر لیا جائے تو بھیجا فرائ کہلاتا ہے۔ کچھ دماغ بغیرنکالے فرائ ہو جاتے ہیں نہیں معلوم کہ اس میں خوبیءدماغ ہوتی ہے یا خوبیءترکیب ۔

دوسرے مصرعے کے پہلے حصے میں لگتا ہے کہ کچھ دعوتوں کا تذکرہ ہے، کیونکہ حروف کی ترتیب ادھر ادھر ہے اس لئے کچھ الجھن پیدا ہو گئ ہے۔ ہوسکتا ہے یہ دواتوں کے بارے میں کچھ کہا گیا ہو۔ فی زمانہ دوات تو استعمال ہوتی نہیں اس لئے اب صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ کچھ احباب کا خیال ہے کہ ان الفاظ کا دشمنی اور دشمنوں سے بھی تعلق ہوتا ہے۔ لیکن ہم چونکہ صرف محبت کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں اس لئے اس خیال کے پیچھے نہیں جاتے۔ اسکے پیچھے جائیں ہمارے دشمن جو ایک نہیں کئ ہیں۔ اس بہانے کچھ دنوں تک ہماری جان ان سے چھوٹی رہے گی۔

اب رہا حکائتیں اور صنم کا تعلق۔ یہ سب سے زیادہ مشکل تعلق ہے۔ حکائیتیں وہ باتیں ہوتی ہیں جو حقہ پیتے ہوئے کی جاتی ہیں۔حقے کئ اقسام کے ہوتے ہیں اور باتیں کئ طرح کی۔ جتنے حقے اتنی باتیں۔ اب بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ صنم کی ان باتوں کا تذکرہ ہو رہا ہے جو وہ حقہ پیتے ہوئے کرتا ہے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حقہ کوئ اور پی رہا ہو اور باتیں صنم کر رہا ہو۔ یااسکے برعکس صورتحال ہو۔ دراصل اس
سارے شعر کی جان اور مطلب انہی دو الفاظ میں پوشیدہ ہے۔ کہاں ہے میرا حقہ، اسکے بغیر دماغ
فرائ کرنے میں مزہ نہیں آتا۔ ایک لمبی گڑ گڑ کے بعد۔ میرا خیال ہے کہ اب اس شعر کا مطلب بالکل
واضح ہے۔ اس سے زیادہ وضاحت سے شعر کی شعری خوبصورتی ختم ہو جائے گی۔

یہ دوسرا شعر ہے

تونے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کردیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینہء کائنات میں

لیکن اس سے پہلے میں آپکی شکل کی طرف دیکھتی ہوں ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ منہ میں نیم کی پتیوں کا بھرتہ دبائے بیٹھے ہیں۔ ایک اور گڑ گڑ۔ اور میرے حقے کو اتنی خشمناک نگاہوں سے کیوں دیکھ رہے ہیں۔ یہ تو اقبال کے شعر کی تشریح کرتے وقت پینا پڑتا ہے۔ ورنہ ماحول کیسے بنے گا۔ کیا کہا بہت بری بات ہوتی ہے عورتوں کا حقہ پینا۔ چلئیے بھئ ایسا ہے تو لے جا یہ حقہ۔اب اس دوسرے شعر کی تشریح کسی اور دن، جب یہ والے صاحب نہیں ہونگے۔ کیا کہایہ ہمیشہ موجود رہتے ہیں اور جہاں انکی پسند کے خلاف کام ہورہا ہو۔ وہاں سے تو ٹلتے نہیں۔ اوئے، فیر یہ حقہ ان باءو جی کو دے ۔ تھوڑی گڑ ہی گڑ ہی کرلیں۔ پرشان نہ ہوں جی، جب تک نیم کی پتیوں کے بھرتے کا اثر زائل ہوتا ہے کچھ انکی سنتے ہیں۔ غالب سے معذرت کے ساتھ،

پھر دیکھئے انداز گل افشانی گفتار
رکھدے کوئ حقہ وچلم میرے آگے

امید ہے دوسرے شعر کا مطلب بھی سمجھ آگیا ہوگا


Sunday, July 5, 2009

ایک تعلق کی بابت


سائنس اور تجربات سے تنگ آجانے والے لوگ چاہیں تو یہ پیرا نہ پڑھیں۔تو ایک دفعہ یوں ہوا کہ ایک سائنسداں تھا۔ وہ ایک مینڈک پر تجربہ کر رہا تھا۔ اس نے مینڈک کی ایک ٹانگ کاٹی، اسے میز پہ رکھا اور میز پہ ایک زور کا ہاتھ مارا اور کہا اچھل۔ مینڈک اچھلا اور دھپ سے میز پر بیٹھ گیا۔ اگلے مرحلے میں
اس نے دوسری ٹانگ کاٹی اور دوبارہ اسے میز پہ رکھا اور زور سے میز پہ ہاتھ مارتے ہوئے کہا اچھل۔ مینڈک موصوف پہلے کے مقابلے میں تھوڑا کم اچھلے اور پھر میز پہ آرہے۔ اس سائنسداں نے باری باری چاروں ٹانگوں کے ساتھ ایسا ہی کیا اور اخیر میں جب انہوں نے مینڈک کو اچھلنے کا حکم دیا تو اس نے اپنی جگہ سے جنبش بھی نہ کی۔آپ میں سے بیشتر کو اندازہ ہوگیا ہوگاکہ ایسا کیوں ہوا۔ اس سائنسدان کو بھی اندازہ ہوا۔ اس نے اپنی نوٹ بک نکالی اور اس پر ان تجربات کا نتیجہ لکھا جو کچھ یوں تھا کہ اگر مینڈک کی چاروں ٹانگیں کاٹ دی جائِں تو اسے کچھ سنائ نہیں دیتا۔

خدامزید مینڈکوں کو ایسے سائنسدانوں سے بچائے۔ یہ میں ان لوگوں کی تسلی کے لئے کہہ رہی ہوں جو سائنس اور اس کی سفاکیت پہ اب تک افسردہ ہونگے۔ کچھ ایسے نتائج ہم بھی اخذ کرتے ہیں جیسے پسند کی شادیوں کی وجہ سے طلاق کا تناسب بڑھ گیا ہے۔یہ اکثر ان لوگوں کا اخذ کیا ہوا نتیجہ ہوتا ہے جو اس سلسلے کے خلاف ہیں۔ اب اگر میں اپنے اطراف میں ہونے والی پسند کی شادیوں پہ نظر ڈالوں اور ان کی خوشحال زندگیوں پہ رشک کرتے ہوئے یہ بیان دوں کہ کہ طلاق کا تناسب اس لئے بڑھ گیا ہے کہ اب تک زیادہ تر شادیاں والدین کی مرضی سے ہوتی ہیں اور فریقین اسے غلط ثابت کرنے کے لئے معاملات کو اس مقام تک لیجاتے ہیں یعنی طلاق لینا اور دینا چاہتے ہیں تو یہ میری کوتاہ نظری ہو گی ۔یعنی یہ بات بھی کچھ ایسی صحیح نہ ہوگی۔

اس بات پہ مزید آگے بڑھنے سے پہلے میں یہ ضرور چاہوں گی کہ آپ اپنے نزدیک اتوار کا جنگ اور ڈان کا اشتہارات کا اخبار رکھ لیں۔ جنگ اخبار کے سلسلے میں آپ کو فیصلہ کرنا مشکل ہوگا کہ اخبار اور اشتہار کے درمیان حد بندی کہاں ہوتی ہے تو اس سلسلے میں مزید اشارے دیدوں کہ ضرورت رشتہ کا اشتہار والا اخبار لے لیں۔اور اس میں ضرورت رشتہ کے وہ اشتہار پڑھئیے گا جوکسی میرج بیورو کی طرف سے نہیں بلکہ لڑکے یا لڑکی کے والدین کی طرف سے ہوتے ہیں۔

لڑکے کے سلسلے میں اکثر اشتہارات میں یہ مطالبہ ہو گا کہ لڑکی بہت خوبصورت، لمبی، دبلی، پتلی اور واقعی گوری ہو۔ یا لکھا ہوگا کہ واقعی خوبصورت ہو۔۔ اس کےعلاوہ کم عمر، تعلیم یافتہ اور اچھے مختصر گھرانوں سے تعلق ہو۔ مختصر گھرانوں سے مراد لڑکی کے بہن بھائ زیادہ نہ ہوں۔ اور اگر اکلوتی ہو تو کیا بات ہے نہیں تو اس کے نام کوئ زمین جائیداد ہو یا بزنس میں سپورٹ کر سکتے ہوں۔

دوسری طرف ایک آیئڈیل لڑکے میں کیا خصوصیات ہونی چاہئیں ان کا اندازہ بھی ان کو پڑھ کر ہو سکتا ہے۔ ان کو میں ترجیح کے لحاظ سے ایسے لکھ سکتی ہوں۔
تنخواہ، چھ، سات ہندسوں میں ہو۔
کسی باہر ملک، یعنی امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، انگلینڈ یا کسی بھی فرسٹ ورلڈ دنیا کی شہریت ہو۔
کوئ پیشہ ورانہ ڈگری ہو۔
اور اگر یہ سب چیزیں نہ بھی ہوں اور وہ صرف ہماری بیٹی سے شادی کرنے کے لئیے تیار ہو تو ہم دیکھیں گے کہ ہم اس کے لئے کیا کر سکتے ہیں۔ ہم صرف دیکھیں گے نہیں بلکہ جو بھی مال مصالحہ خرچ کر سکتے ہیں ضرور کریں گے۔

ان دونوں فہرستوں میں ہم دیکھیں گے کہ ایسی کسی بات کا مطالبہ نہیں کیا گیا جو ایک کامیاب شادی شدہ زندگی کے لئے چاہئیے ہوتی ہے۔ یہاں یہ بات سمجھ لینا ضروری ہے کہ اس باب میں بھی کامیابی کے اصول اور ضابط سب کے لئے یکساں نہیں ہوتے۔ اگرکسی لڑکی کی شادی ایک ایسے گھرانے میں ہوئ ہو جہاں پیسے کی ریل پیل ہو تو وہاں کسی کو اس بات کی فکر نہیں ہوگی کہ آپ پلاءو کتنا شاندار بناتی ہیں اس کے لئے ان کے پاس ایک باورچی ہوگا۔ البتہ سب یہ ضرور دیکھیں گے کہ آپ بات چیت کسطرح کرتی ہیں اور سماجی تعلقات کس طرح نبھاتی ہیں۔ اسی طرح اگر آپ کےجیون ساتھی نے اپنی زندگی خود تعمیر کی اور وہ ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اسے آپ کا بچت کرنا، کھانا پکانا، سلائ کرنا یہ سب چیزیں خاصا سمجھداری کا کام لگے۔ اسی طرح اگرآپکی جیون ساتھی ایک گھریلو خاتون ہوں تو شاید وہ آپکی انکے حسن یا کھانے یا بہتر طور پہ گھر سنبھالنے کی تعریفوں سے خوش ہو جائیں۔ لیکن اگر آپکی بیگم خود بھی جاب کرتی ہیں تو پھر انہیں آپ کا گھریلو امور میں ہاتھ بٹانا، مل بیٹھ کر بجٹ بنانا بہت اچھا لگے۔ لیکن ان سارے امور میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ظاہری خصوصیات کا اثر کچھ دنوں کے لئے ہی ہوتا ہے۔ اور باہمی ہم آہنگی کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔

چونکہ بیشتر شادی کے یہ اشتہارات والدین کی طرف سے ہیں تو یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ والدین کتنی ذمہ داری سے اپنا یہ فرض نبھا رہے ہیں۔ اب کوئ ایک ہزار لڑکیاں دیکھنے کے بعد انہیں ایک صحیح لڑکی مل جاتی ہے تو شادی کے ایک مہینے بعد وہی صحیح لڑکی ایک دم غلط ہوتی ہے۔ توبہ، بات کرنے کی تمیز نہیں اسے تو، انڈہ تک ابالنا نہیں آتا، کیا ڈگری کو لیکر چاٹے گا ہمارا بیٹا، اپنے بستر کی چادر تک ٹھیک کرنے کی تو فیق نہیں ہوتی۔ ہر وقت بیوٹی پارلر کے چکر، اےتنا پیسہ برباد کرتی ہیں، لگتا ہے ماں باپ نے کوئ تمیز نہیں سکھائ۔ لڑکے کے سلسلے میں یہ سننے کو ملے گا کہ ہماری بیٹی کا کوئ خیال نہیں کرتا، بہت مذہبی ہیں یا بہت آزاد خیال، کنجوس ہے یا فضول خرچ اسی طرح کی دیگر باتیں۔ اب اگر ان سے کوئ پلٹ کر پوچھے کہ دیکھتے وقت تو آپ نےیہ سب نہیں دیکھا تھااس وقت آپ کی ترجیحات کچھ اور تھیں۔ خریدتے وقت آپ کو ٹماٹر چاہئیے تھے اور اب آپ اس میں آلو کی خصوصیات تلاش کر رہی ہیں۔ یعنی غالب کی زبان میں عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا۔ دنیا کی بنیادی سائنس جس میں کوئ اختلاف نہیں یہ کہتی ہے کہ ٹماٹر ہمیشہ ٹماٹر رہے گا اور آلو ہمیشہ آلو۔۔

جس چیز کی بنیاد ہی غلط ہو وہ کیسے مضبوطی کی طرف جا سکتی ہے۔ نتیجتاً وہی ماں با بہن بھائ جو کچھ عرصے پہلے تک رشتہ کرانے میں تندہی سے مصروف ہوتے ہیں۔ وہی اب دونون فریقین کے اوپر زورآزمائ کرنے سے لگ جاتے ہیں۔ یہ بات آپ نے بھی اکثر لڑکوں کے والدین کو کہتے سنی ہے کہ ہمارے لڑکے کو لڑکیوں کی کوئ کمی نہیں۔ ابھی چھوڑ دے تو چار اور مل جائیں گی جبکہ لڑکیوں کے والدین بس یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری لڑکی ہم پہ بوجھ نہیں یا یہ کہ وہ خود اپنا بوجھ اٹھا سکتی ہے۔

پسند کی شادیاں بھی اسی صورت میں ناکام ہوجاتی ہیں جب آپ ٹماٹر پسند کرکے اسے آلو بننے پہ مجبور کریں ۔ دوسری اہم وجہ ہمارے معاشرے میں پسند کی شادیوں کو نا پسند کرنا ہے۔ اسے عام طور پہ لڑکیوں کی بے حیائ سے وابستہ کیا جاتا ہے حالانکہ رسول اللہ کے زمانے میں بھی خواتین اورمردحضرات اپنےپسند کے مرد اور خواتین کو اپنا رشتہ بھیجا کرتے تھے۔ لیکن خدا جانے کیوں اب ہمارے یہاں اس کے لئے اتنے سنگین الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ جہاں خواتین کا اپنی پسند کے متعلق کچھ کہنا نری بے حیائ ہے وہاں جیسے ہی کوئ لڑکا اپنے والدین کے سامنے یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ فلاں لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ اب چاہے اس لڑکی کو خود بھی نہ پتہ ہو کہ وہ موصوف ایسا چاہتے ہیں۔ لڑکے کے گھر میں ایک ناگواری پھیل جاتی ہے۔ اور کئ صورتوں میں تو میں نے یہ دیکھا کہ لڑکے کی والدہ اور بہنیں فوری طور پہ ایک عدد لڑکی کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی ہیں کہ کسی صورت اس لڑکی سے شادی نہ ہوجائے۔ وجہ پوچھیں کیوں؟ انتہائ تگ و دو کے بعد جو جواب نکلے گا وہ کچھ اس طرح سے ہو گا کہ شادی سے پہلے اگر ان کا بیٹا اسےکے لئے انکی مرضی کے خلاف جانے کو تیار ہے تو شادی کے بعد تو انکے بالکل قابو میں نہیں رہے گا۔ ایک تو یہ لفظ قابو ، قابو میں ہی نہیں آتا اور زندگی بے قابو ہوجاتی ہے۔

یہاں پسند کی شادیوں سے میری مراد مغربی انداز کی کورٹ شپ نہیں ہے۔ نہ ہی میری مراد ٹین ایجرز کےانفیچوایشن سےہے۔ جو وہ اپنے زمانے کے فلمی ہیرو اور ہیروئن سے متائثر ہو کر کرتے ہیں۔
بلکہ یہ وہ پسندیدگی ہے جس میں ہم اپنے ارد گرد کےماحول میں کسی شخص کو زندگی بسر کرتے دیکھتے ہیں اور اس کے انداز اور شخصیت کو اپنے لئے پسندیدہ پاتے ہیں۔ اور یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں اسکے ساتھ زندگی گذارنے میں آسانی ہو گی۔

طلاق کی شرح کے بڑھنے کا تعلق اپنی یا والدین کی پسند سے شادی کرنے سے نہیں ہے بلکہ جیسا کہ من حیث القوم ہم زندگی کے ہر شعبے میں یہ کرتے ہیں کہ ہماری ضرورت تو کچھ اور ہوتی ہے لیکن بھیڑچال یا لالچ میں لیتے کچھ اور ہیں، اسی میں مضمر ہے کچھ صورت خرابی کی۔۔ جب نیت میں فتور ہو تو تعلق میں برکت کیسے ہو سکتی ہے۔