Thursday, December 31, 2009

تقلید اور جدیدیت

جیسا کہ کچھ لوگوں کے علم میں ہوگا کہ آجکل میرے زیر مطالعہ جو کتاب ہے اسکا نام ہے تاریخ فلاسفۃ الاسلام۔ یہ کتاب لکھے ہوئے دیباچے کے مطابق علامہ قفطی کی مشہور و معروف کتاب تاریخ الحکما ء کےبعد غالباً اس موضوع پہ کسی مسلمان مصنف کی پہلی وسیع کتاب ہے
اسکے مصنف ایک عرب عالم جناب لطفی جمعہ ہیں۔ اس کتاب میں جن مسلمان فلسفیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ وہ بالترتیب اس طرح ہیں۔
کندی، فارابی، اب سینا،غزالی،ابن ماجہ،ابن طفیل،ابن رشد،اب خلدون، اخوان الصفا کے افراد،ابن الہیثم، محی الدین عربی، ابن مسکویہ۔  کتاب میں میری دلچسپی کا باعث ابن رشد کا تذکرہ ہے جس پہ مصنف نے بھی سب سے زیادہ توجہ کی ہے۔
جہاں امام غزالی تقلیدی عناصر کو استقامت دینے والے مفکر قرار پاتے ہیں وہاں ابن رشد حریت فکر کا نام ہیں۔ مفکرین کا کہنا ہے کہ جدید علوم اور سائنس پہ مسلمانوں کی گرفت  اسی وقت تک مضبوط رہی جب تک مسلمانوں میں حریت فکر موجود تھی اور جب اسکا خاتمہ ہوا اور مسلمان علماء نے تقلیدی عناصر کو پسند کرنا شروع کیا تو ان چیزوں پہ انکی گرفت بھی کمزور پڑتی چلی گئ اور بالآخر وہ تاریکی میں چلے گئے۔ کیونکہ اس بارے میں کوئ دو رائے نہیں کہ تحقیق، اور تقلید ساتھ نہیں چل سکتے۔
 ابن رشد ایک اندلسی مفکر تھے۔ انکا زمانہ امام غزالی کے سو سال بعد شروع ہوتا ہے۔ مصنف کی نظر میں ابن رشد میں تین ایسی خصوصیات پائ جاتی ہیں جو کسی اور مسلمان فلسفی میں نہیں۔اول یہ کہ وہ عرب کے سب سے بڑے فلسفی، اور فلاسفہء اسلام میں سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ دوئم یہ کہ وہ عام طور پہ قرون وسطی کے جلیل القدر حکماء میں سے ہیں جو حریت فکر کے بانی ہیں۔اہل یوروپ کی نظر میں انکی خاص قدر و منزلت ہے۔ سوئم یہ کہ وہ اندلسی ہیں۔
جہاں غزالی نے فلسفے کے توڑ کے لئے کتاب' کتاب تہافہ' لکھی اور تقلیدی مذہب کو رائج کیا۔  وہاں ابن رشد نے سو سال بعد کتاب تہافہ کے رد میں تہافۃ التہافہ لکھی۔ کہا جاتا ہے کہ حاسدین نے خلیفہ کو اب رشد کے خلاف بھڑکایا اور اسکے نتیجے میں ایک لمبے عرصے تک انکی صلاحیتوں کے معترف خلیفہ نے انہیں ملحد قرار دیکرملک بدر کر دیا۔ اور انکی بیشتر کتابوں کو جلا ڈالا۔ اس ملک بدری کے دوران انہیں یہودیوں نے پناہ دی۔ اور انکی کتابوں کے عبرانی ترجمے کر کے یوروپ بھجوائے گئے۔ ایک سال بعد  خلیفہ کو اپنی زیادتی کا احساس ہوا اور اس نے انہیں واپس طلب کر لیا لیکن ہوا یوں کہ واپسی کے چند ہی مہینوں کے اندر خلیفہ اور ابن رشد دونوں ہی زندہ نہ رہے۔
اگرچہ کہ جدید زمانے میں یوروپ کی نشاۃ ثانیہ کا باعث کئ مغربی مفکرین کو بتایا جاتا ہے۔ اور کئ مسلمان علماء بھی ان مغربی مفکرین پہ لعن طعن کرتے رہتے ہیں۔ مگر تاریخ سے انصاف کرنے والے  مغربی یا مسلم دونوں مورخین اسکی وجہ ابن رشد کو قرار دیتے ہیں جس کی تعلیمات کے زیر اثر کلیسا کو ریاستی معاملات سے الگ کیا گیا۔
 اسلامی دنیا انکی تصنیفات اور اسکے اثرات سے محروم رہی۔ اسکی وجہ انکی بیشتر تصنیفات کو جلا دینا ہے جو عربی میں تھیں۔پہلے یہ کام خلیفہ ء وقت نے کیا انکی ملک بدری کے دوران اور بعد میں عیسائ فاتحین اندلس نے۔ خود یوروپ میں کلیسائ قوتیں ان سے ناراض تھیں۔ اور نتیجتاً ایک زمانے میں یوروپ کے بعض حصوں میں انکی کتب پڑھنے کی اجازت نہ تھی۔ بلکہ انہیں جلا بھی دیا گیا۔ لیکن ایک زمانہ وہ بھی آیا جب انکی کتابیں یوروپین تعلیمی اداروں میں نصاب کا حصہ بنیں۔
فی الوقت میں اس کتاب سے ایک اقتباس دیانا چاہونگی۔ یہاں یہ امر یا درہنا چاہئیے کہ ابن رشد کی پیدائش گیارہ سو چھبیس عیسوی کی ہے اور اندازاً انکا زمانہ ہم سے ایک ہزار سال قدیم ہے۔ لیکن خواتین سے متعلق انکا بیان حقیقت حال کی ترجمانی کرتا ہے۔۔'اسکے بعد ابن رشد نے ایک ایسی بات کہی ہے گویا اسکے نفس نے اسکے مرنے کے کے تقریباً نو سو برس بعد قاسم امین کے کانوں میں پھونکی۔ وہ کہتا ہے کہ ہماری اجتماعی حالت ہمیں ا س قابل نہیں رکھتی کہ ہم ان تمام فوائد کا استعمال کر سکیں جو ہمیں عورت کی ذات سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ بظاہر وہ حمل اور پرورش اطفال کے لئے کارآمد معلوم ہوتی ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ جس غلامی کی حالت میں ہم نے عورتوں کو پالاپوسا ہے۔ اس سے انکی تمام اعلی قوتیں مضمحل ہو گئ ہیں اور اسکے عقلی اقتدار کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ اس لئے اس وقت ہم کو کوئ ایسی عورت نہیں ملتی جو اعلی فضائل اور اخلاق رکھنے والی ہو۔ انکی زندگی گھاس پات کی طرح ختم ہوجاتی ہے اس طرح وہ اپنے شوہروں پہ بار ثابت ہوتی ہیں۔ یہ امر تمدن کی سخت ترین تخریب اور انحطاط کا موجب ہوا ۔ کیونکہ عورتوں کی تعداد مردوں کی تعداد کے مضاعف ہے گویا وہ وہ دنیا کی مجموعی آبادی کا دو ثلث ہیں لیکن وہ باقی ثلث کے جسم پہ مثل طفیلی حیوان کے زندگی بسر کرتی ہیں صرف اس وجہ سے کہ وہ اپنی ضروری قوتوں کی تکمیل سے عاجز ہیں'۔
تو میرے محترم قارئین، اس ایک ہزار سالہ پرانے خیالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ خواتین کی ابتر صورت حال کو مغرب میں پچھلی صدی میں  آزادیء حقوق نسواں کے نام سے کیش کرانے کے پیچھے چلنے والا تصوربھی کسی مسلمان مفکر سے ہی لیا گیا ہے۔ یہ الگ بات کہ پچھلے ایک ہزار سالہ  زمانے میں تقلیدی صفت نے ہم سے ہماری عقل کے تمام جوہر چھین کر مسلمان قوم کو اس عورت کی مانند بنا دیا ہے جیسی خوبیاں ابن رشد نے گنوائ ہیں۔  دوسروں پہ انحصار کرنے والی اور دوسروں کی طفیلی۔اور جس طرح ہم عورتوں کو انکی عقلی خوبیاں نہ استعمال کرنے کے عمل کو انکی خوبی اور معاشرے کے لئے سودمند سمجھتے ہیں اسی طرح ہم روائیت پسندی کے جال کو اپنے لئیے ایک تمغہ سمجھ کر اپنی جہالت پہ فخر کرتے پھرتے ہیں۔ اپنے اسلاف کے کارناموں کا تذکرہ تو کرتے ہیں مگر یہ جانے بغیر کہ ہمارے اور انکے درمیان نظریاتی اور عملی اختلاف کتنا زیادہ ہے۔ اگر وہ اس وقت ہمارے درمیان ہوتے تو یقین کامل ہے کہ ہم انہیں بھی دھتکار چکے ہوتے۔

 اس مضمون کی تیاری میں مددگار ذرائع درج ذیل ہیں۔
کتاب۔' تاریخ فلاسفۃ الاسلام'۔ مصنف لطفی جمعہ، ترجمہ ڈاکٹر میر ولی محمد، نفیس اکیڈیمی، اردو بازار کراچی۔





 

Tuesday, December 29, 2009

اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں


Monday, December 28, 2009

کراچی میں دھماکہ

دوپہر میں، میں نے سوچا کہ سر شام اپنی ایک پرانی دوست سے ملاقات کر لی جائے۔ گھر سے نصیحت ہوئ کہ باہر نکلنے کا کوئ بھی پروگرام مغرب سے پہلے نہ بنائیے گا۔ اگر کوئ دھماکہ ہوا تو پھنس جائیں گی۔ میں نے سوچا صحیح کہہ رہے ہیں۔ اور پروگرام ملتوی کر دیا۔
کچھ دیر پہلے فون آیا کہ شہر کے مرکز سے گذرنے والے ماتمی جلوس میں دھماکا ہو گیا ہے۔ یہ جلوس ہر سال نکلتا ہے۔ دل دھک سے رہ گیا۔ فوراً ٹی وی کھولا، خبر صحیح تھی۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق بیس افراد جاں بحق اور پینتالیس افراد زخمی ہوگئے۔ یہ ایک خود کش دھماکا تھا۔۔
ایک عرصے سے میں نے اس موضوع پہ لکھنا چھوڑ دیا تھا۔ آخر کب تک ہم بھی سیاسی لیڈران کی طرح مذمتی تحریریں لکھ لکھ کر اپنے دکھ کا اظہار کرتے رہیں گے۔ مرنیوالے مر جاتے ہیں اور جھیلنے والے جھیلتے رہتے ہیں۔ باقی لوگ اپنے حصے کے صفحے بھرتے رہتے ہیں۔
 لیکن مختلف چینلز کو سرف کرتی ہوئ جب میں ایک چینل پہ پہنچی تو عمران خان سے تاثرات پوچھے جا رہے تھے۔ اور انکا وہی کہنا کہ جناب یہ سب دوسروں کی جنگ میں جانے کی وجہ سے ہوا ہے۔ ان سے کوئ پوچھے دوسروں کی جنگ میں تو ہم انیس سو اناسی سے شامل ہیں آخر اس وقت یہ خیال کیوں اتنی شدت سے آرہا ہے۔ 
اب جبکہ حالات اس نہج پہ پہنچ چکے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف ہم میں سے ہر ایک کو بلا کسی تفرقے کے کھڑا ہوجانا چاہئیے۔ وہاں ایسے لیڈران کا اب بھی دہشت گردوں کا دفاع کرنا انکی عوام دشمنی کو ظاہر کرتا ہے۔ اور اگر ان رہنماءووں نے اپنا رویہ نہ بدلا تو وہ دن دور نہیں جب دھماکوں سے تنگ آئے عوام انہیں بتائیں گے کہ ایسے رہنماءووں کا اور اس سیاست کا انجام  کیا ہوگا۔

ہائے فیس بک

   لیجئیے جناب اب تو مجھے بھی یقین ہو گیا کہ فیس بک یہودیوں کی مشین ہے۔ کچھ تحریریں

اسکے متعلق لکھ ڈالی تھی۔ اپنے تئیں تو ہم سمجھ رہے تھے کہ یہ کسی کے خلاف نہیں بس
یوں
ہی سی گپ شپ ہے۔ لیکن پتہ چلا کہ یہ ایک گستاخی ہے اور سزا کے طور پہ  میری فیس بک تک پہنچ ممکن نہیں رہی۔ حالانکہ میری یہ تحریریں اردو میں تھیں اور ہم جیسے لوگ تو کسی غیر زبان بولنے والے سے محبت بھی کرنے لگیں تو اسی مشکل کا رونا رہتے ہیں کہ زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم۔ مگر یہ یہودی، کسی کے دشمن ہو جائیں تو اسکی زبان تک سیکھ لیتے ہیں۔
اب کوئ اس کہانی میں بھنگ ڈالنے کے لئیے کہہ دیگا کہ بی بی، کسی نے آپکا اکاءونٹ ہیک کر لیا ہے۔ تو انکی خدمت میں عرض ہے کہ میرا کوئ ہموطن ایسا کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ اگر کسی نے ایسا کیا ہے تو بھی وہ کوئ یہودی ہی ہوگا۔
 اب کیا کہوں جہنم میں جائے فیس بک اور اسکے چلانے والے۔  ان یہودیوں کا ککھ نہ رہوے جنہوں نے کریال میں غلیلہ مارا۔
لیکن اپنے ان  دوستوں کا کیا کروں جو ایک ایک کرکے جمع کئیے تھے۔ ہائے فیس بک، تونے وہ گنج ہائے گراںما کیا کئے۔ 

Sunday, December 27, 2009

صرف ایک بچی کی ماں

ابھی کچھ دنوں پہلے کسی نے میری طنزیہ تعریف فرمائ کہ بتاءوں آپ کیا ہیں، آپ ہیں ایک بچی کی ماں۔ اپنی دانست میں تو انہوں نے مجھے میری اوقات یاد دلائ۔ لیکن ہوا یوں کہ یہ میری زندگی میں حاصل ہونے والی سب سے بہترین تعریف ہے۔ آج کا دن میری زندگی کا شاید سب سے پر مسرت دن ہے کہ آج میری بیٹی ہماری دنیا میں آئ۔ آج اسکی تیسری سالگرہ تھی۔ سو آج کی یہ پوسٹ مشعل کے نام۔
لیکن اپنی اصل میں یہ ان تمام ماءووں کے نام ہے جو ایک یا کئ مشعلوں کی ماں ہیں۔ جو اپنی صلاحیتوں، اپنے علم،اپنے مرتبے کو اپنی اولادوں کی تربیت اور بہتر مستقبل کے لئے استعمال کرتی ہیں  یا اس پہ قربان کرتی ہیں۔   مائیں عظیم ہیں اور وہ محض تخلیق کا پرزہ نہیں بلکہ انکے ہاتھ میں اس کائنات کی باگ ہے۔ لیکن اسے مہارت سے پکڑے رکھے رہنے کے لئیے  اپنے آپکو گرد و پیش میں ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہ رکھنا جتنا ایک ماں کے لئے ضروری اتنا کسی کے لئے نہیں۔ اسی لئے تو کسی دانا نے کہا تھا کہ تم مجھے بہترین مائیں دو میں تمہیں بہترین قوم دونگا۔
ہاں تو آج میری بیٹی تین سال کی ہوگئ۔ ہر ماں باپ کی طرح مجھے بھی وہ غیر معمولی عادات اور دماغ کی حامل لگتی ہے۔ اور اسکی مسکان اور اسکا آ کر یہ کہنا کہ میں آپکو پیار کرنا چاہتی ہوں میرا دل پگھلا کر پانی بنا دیتا ہے۔
ویسے تو میں نے اسے گھر میں پڑھا پڑھا کر قابل بنانے میں کوئ کسر نہیں چھوڑی۔ اور اسکے لئے میں نے روائتی طریقے استعمال نہیں کئے۔ بلکہ گھر میں کھیل ہی کھیل میں، باتیں کرتے، واک کرتے، کھانا کھاتے،  ٹی وی دیکھتے، جہاں جہاں موقع ملتا ہے وہاں وہاں میں اسکے کان میں باتیں ڈالتی رہتی ہوں۔ ان تمام سرگرمیوں کو جاننے کے لئیے میں نے نیٹ پہ کافی سرچ کی۔ اور جتنی بھی دلچسپ اور کام کی ویب سائٹس تھیں انہیں مارک کر لیا۔ اور اب بھی مختلف سائٹس کو چیک کرتی رہتی ہوں۔ اس لحاظ سے نیٹ نے میری کافی مدد کی، اسکی دیکھ بھال سے لیکر تربیت تک میں۔  اور شاید اب اسکول والوں کا دماغ کھانے میں بھی۔
تو جناب یہ ساری چیز اتنے بہترین طریقے سے چل رہی تھی کہ ابھی تک اسے کسی اسکول میں ڈالنے کی ضرورت بھی نہیں پڑی اور میں سوچ رہی تھی کہ شاید پہلی کلاس تک ضرورت بھی نہ پڑے گی۔ لیکن اب انکی حد سے بڑھتی ہوئ سرگرمیوں اور ہم عصروں کے دباءو کی پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا  کہ انہیں کسی مناسب اسکول کے حوالے کیا جائے۔ اگرچہ کہ اب بھی سوچتی ہوں کہ پڑھائ کی مد میں وہ وہاں کیا کریں گی۔ اور اسکول والے کہیں اس سارے عمل کو سست نہ کر دیں۔
یہ ہم عصر انکے نہیں ہمارے ہیں۔ اور یوں لگتا ہے کہ جو بچے ڈیڑھ برس کی عمر میں کسی پلے اسکول یا ڈھائ برس کی عمر میں کسی اسکول کے حوالے نہ کئیے گئے تو انکے والدین کوئ جرم کر رہے ہیں۔ حالانکہ سچ پوچھیں تو مجھے اتنے چھوٹے بچوں پہ یہ ظلم لگتا ہے۔ یہ انکی عمر ہے کہ انہیں اپنے ارد گرد کے ماحول کو خود برت کر آزادی سے سیکھنے کا موقع دیا جائے۔ لیکن اتنی چھوٹی عمر میں انہیں اسکول کے ڈسپلن کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ مجھے یہ بالکل پسند نہیں۔ لیکن مری بیٹی کی اوسط سے تھوڑی زیادہ لمبائ اور انکی باتیں بنانے کی رفتار کی وجہ سے شاید ہی کوئ شخص ہو جو یہ نہ پوچھتا ہو کہ کونسی کلاس یا کونسے اسکول میں پڑھتی ہے آپکی بیٹی۔ اور جواب انکار کی صورت میں ہونے کے بعد وہ ہماری لاپرواہی پہ خاصہ حیران ہوتے ہیں۔

 چلیں یہ تو ابتدائ مشکلات ہیں۔ لیکن جس چیزکی مجھ سمیت ہر ذمہ دار ماں کو فکر رہتی ہے وہ ہمارے معاشرے کی زبوں حالی ہے۔ میں اپنی بیٹی کو کیا بنانا چاہتی ہوں۔ میں اسے صرف ایک عورت نہیں بنانا چاہتی۔ اس کائنات کے اندر پھیلے علم میں اسکا بھی حصہ ہے جو اسے ملنا چاہئیے۔ وہ عقل اور شعور  رکھتی ہے اور اسے کسی بھی بہترین انسان کی طرح اسے استعمال کرنا آنا چاہئیے۔ اسے محض ایک ذمہ دار عوت نہیں ذمہ دار انسان بننا ہے جو اپنے ماحول کی بہتری کے لئے اپنی قدرتی صلاحیتوں کو استعمال کر سکے۔ جسے اسے دینے میں خدائے پاک نے کسی بخل سے کام نہیں لیا۔
لیکن اس ٹہرے ہوئے معاشر ے کی بدبو دور کرنے کے لئے ہم جیسی ماءووں کو کیا کرنا چاہئیے۔ کیونکہ یہ تو واضح ہو رہا ہے کہ فی الحال ہم مزید بگاڑ اور مزید بگاڑ میں جا کر بھی شاید دم نہ لیں۔

Friday, December 25, 2009

ایک بلاگر کے لئے

آج کیا پکائیں، یہ سوال اکثر خواتین کو صبح سویرے پریشان کرتا ہے۔ وہ جو خود نہیں پکاتیں وہ بھی سوچتی ہیں آج کیا کھلائیں۔ ایسی ہی کیفیت اکثر بلاگرز کی بھی ہوتی ہیں۔ آج کیا لکھیں، اور جو لکھ رہے ہیں وہ سوچتے ہیں کیسے لکھیں۔ اسی ادھیڑ بن میں بننے سے پہلے ادھڑ جاتا ہے۔ اور ہوتا یہ ہے کہ اگلے ہی لمحے وہ خّود کو اس طرح کے کام کرتا پاتا ہے۔ موبائل پہ میسیجنگ یا فیس بک پہ کوئ گیم۔
آپ کسی عظیم موضوع پہ لکھنا چاہتے ہیں تو یاد رکھیں کہ اسکے لئے بلاگنگ کوئ آئیڈیل میڈیا نہیں۔ اس مقصد کے لئے آپکو ناول، دیوان وغیرہ سے نبرد آزمائ کرنی پڑے گی۔ جسکا آپکے پاس وقت نہیں ہوگا۔تو عظیم موضّوع کا خیال دل سے نکال دیں۔ لیکن یہاں میں احتیاطاً بتا دوں کہ اکثر اوقات عظمت کی راہ پہ قدم رکھ دینے کے باوجود چلنے والوں کو نہیں پتہ ہوتا کہ وہ کس قدر عظیم بننے جا رہے ہیں۔
کچھ لوگ اس فکر میں گھلتے رہتے ہیں کہ اگر انکے قلم سے منٹو، یوسفی یا مستنصر کے جیسے الفاظ نہ نکلے تو کیا فائدہ لکھنے کا۔  بلاگنگ کا تعلق تو ویسے بھی الیکٹرونک میڈیا سے ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ  انکی تحاریر پکوڑے لپیٹنے کے کام آجائیں۔ماحولیاتی آگہی کی اتنی فکر کرنیوالے جان رکھیں کہ  اس الیکٹرونک میڈیا میں آپ خود ایک پکوڑے سے کم نہیں۔
کچھ لکھنے والے تبصروں کی مار نہیں سہہ پاتے۔ اور اگر کوئ  نکتہ چیں انکی تحریر کی کرچیاں کرےتو انکا گھر سے بھی نکلنے کو دل نہیں چاہتا۔ اور وہ جا کر انتقاماً مافیا وارز جوائن کر لیتے ہیں۔ ایسے نازک دل اصحاب کو یہی مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ جب اوکھلی میں سر دیا تو موصلوں کا کیا ڈر۔   لکھتے رہیں اور مبصرین کے تاثرات نوٹ کرتے رہیں۔  کچھ دنوں میں تبصرہ نگار آپکی تربیت کر دیں گے کہ کیا لکھنا چاہئیے اور کیا نہیں۔ ورنہ آپ تو ان سے نبٹ ہی رہے ہیں۔
اور اگر آپ اس درد سر مِں نہیں پڑنا چاہتے تو تبصرہ نگاروں کے درمیان خود اترنے کی کوشش نہ کریں۔ انہیں آپس ہی میں سر پھٹول کرنے دیں۔ یہ تو آپکو معلوم ہونا چاہئیے کہ جو جیتا وہی سکندر۔
اگر برسوں اپنی تربیت آپ کرنے کے نتیجے میں لوگ آپکو بندہ ء گستاخ کہنے لگے ہیں تو بلاگنگ آپکے لئے بالکل موزوں ہے اپنے دل کے جلے یہاں پھوڑیں۔ گھر والوں کو خاصہ افاقہ رہیگا۔ اور آپکے پاس بھی لکھنے کے لئیے کچھ نہ کچھ آتا رہیگا۔
اسکے باوجود کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا لکھیں تو کچھ روائیتی مشورے حاضر ہیں۔
کسی کتاب سے اقتباس لکھ دیں۔
اخبار کی کسی خبر کو موضوع بنا لیں یا اسے ہی من و عن چھاپ دیں۔
کسی کالم نگار کا کالم چھاپ دیں ، ہو سکتا ہے اس طرح انکی شہرت میں اضافے کے ساتھ مستقبل میں آپکو انکا تعارف بھی حاصل جائے۔
لیکن ان سب سے بھی دلچسپ یہ ہوگا کہ آپ اپنے شب وروز مِں، اپنے ماحول میں، اپنی روزمرہ کی سرگرمیوں میں کیا چیز دلچسپ دیکھتے ہیں اس پہ لکھنا شروع کر دیں۔ بالکل ایسے جیسے آپ اپنے دوستوں کو یہ قصہ سنا رہے ہوں۔ اسکی آپ فکر نہ کریں کہ آپکی زبان نستعلیق انداز میں لکھی ہے یا وہی روزانہ کی بولی ہے۔ یہ بھی ضرورری نہیں کہ آپکو اس قصے میں جان نظر آرہی ہے یا نہیں۔
اسکی بھی فکر نہ کریں کہ فلاں فلاں بلاگر اتنا زبردست لکھتا ہے اور میں ویسا نہیں لکھ پاتا۔ زندگی کو جس رخ سے آپ برت رہے ہیں۔ وہ رخ انکے پاس نہیں ہوگا۔ مجھے دیکھیں، میں نے سمندر میں گم ہوتا سورج دیکھا ہے مگر درختوں کے جھنڈ میں نہر کنارے سونے والے سورج کو نہیں جانتی۔ برسوں سے رویت ہلال کمیٹی کے سارے جھگڑے کے بعد چاند کی خبر سن لیتی ہوں لیکن خود کسی میدان میں جا کر دیکھنے کے موقع سے محروم۔ نہیں معلوم کہ چلتے چلتے اگر گھوڑا گاڑی کا ٹآئر نکل جائے تو کیا کرتے ہیں۔
اس میں بھی جان تپانے کی ضرورت نہیں کہ میری تحریر پہ کوئ تبصرہ نہیں کرتا یا فلاں کے پاس اتنے لوگ آتے ہیں میرے پاس اتنے کم۔ میں نہیں لکھتا۔ لکھتے رہئیے۔ مجھے یقین ہے لوگ تبصرہ نہ بھی کرتے ہوں تب بھی انکی اکثریت پڑھتی ضرور ہو گی۔ خاص طور پہ وہ لوگ جو اپنی زبان میں کچھ پڑھنا چاہتے ہیں۔
اگر اب بھی آپکو کچھ سمجھ نہیں آرہا تو اپنے بلاگ کو اپنی ڈائری سمجھ کر لکھنا شروع کر دیں۔ لیکن اس میں بہت ذاتی باتیں نہ لکھ ڈالئیے گا۔ جو آپ کسی سے پوشیدہ رکھنا چاہتے ہوں کیونکہ یہ بات کئ صدیوں پہلے معلوم کی جا چکی ہے کہ دنیا گول ہے۔
 

نوٹ؛ مزید مشوروں کے لئیے خوش آمدید۔
 

Tuesday, December 22, 2009

کیا شہر کراچی ڈوب جائے گا؟

 یہ ایک تحقیقی مقالہ ہے جو کراچی میں وافع بحریات یا سمندریات پہ ریسرچ کرنے والے ادارے کی طرف سے شائع ہوا ہے۔ اس ادارے کا نام ہے۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشنوگرافی ۔ باقی تفصیل آپ نیچے دئیے گئے حوالے میں جا کر دیکھ سکتے ہیں۔ میری اس میں دلچسپی اسکے موضوع کی وجہ سے ہے جو سندھ ڈیلٹا کی فرسودگی کی وجوہات اور اسکے ساتھ ہی کراچی کے ساحلی علاقوں کو سطح سمندر کے بلند ہونے کی وجہ سے لاحق خطرات ہیں۔
اس سے پہلے یہ میں بتا دوں کہ یہ لکھنے کی نوبت ایک بلاگ پہ دی جانے والے اس بیان سے آئ کہ کراچی آئندہ پندرہ سے بیس سالوں میں ڈوب جائیگا۔
آئیے دیکھیں تحقیق داں اس موضوع پہ کیا کہتے ہیں۔
اس تحقیقی مقالے میں صفحہ آٹھ پہ دی گئ معلومات کے مطابق پچھلے سو سالوں میں کراچی میں ہر سال سطح سمندر ایک اعشاریہ ایک ملی میٹر سالانہ کے حساب سے بڑھی ہے۔ اور آئندہ پچاس سے سو سالوں میں یہ توقع کی جاتی ہے کہ یہ شرح دگنی سے زیادہ ہو جائے گی۔  خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بڑھکر چالیس سے پچاس سینٹی میٹر بھی ہو سکتی ہے۔ یہاں ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ ایک انچ میں تقریباً دو اعشاریہ پانچ سینٹی میٹر ہوتے ہیں اور ایک میٹر سو سینٹی میٹر یا تقریبا چھتیس انچز سے بنتا ہے۔
اب آجاتے ہیں شہر کراچی کی سطح سمندر سے بلندی کی طرف۔ یہ صحیح ہے کہ شہر کے کچھ علاقے جو ساحل سمندر سے کچھ فاصلے پہ ہیں سطح سمندر سے نیچے آتے ہیں لیکن شہر کا زیادہ تر حصہ سطح سمندر سے کچھ نہ کچھ بلندی پہ ہے جیسے ملیر اور ناظم آباد یا لانڈھی کے علاقے۔ نارتھ ناظم آباد اور اورنگی ٹاءون کا علاقہ سطح سمندر سے کوئ تیس فٹ کی بلندی پہ ہے۔ جبکہ ویکیپیڈیا کی اطلاع کے مطابق شہر کی، سطح سمندر سے اوسط بلندی آٹھ میٹر ہے۔
 اب اگر ہم آئندہ پچاس سالوں میں ایک متوقع سطح سمندر کی بلندی جو کہ چالیس سے پچاس سینٹی میٹر ہے کا سامنا کرتے ہیں تو اس حساب کتاب سے ایک عام شخص کو بھی پتہ چل سکتا ہے کہ آئندہ پچاس سالوں میں بھی شہر کراچی ڈوبنے نہیں جا رہا ہے۔کیونکہ شہر سے مراد پورا  تین ہزار تین سو مربع کلومیٹر پہ پھیلا ہوا شہر ہے۔ نہ کہ صرف  اسکے ساحلی علاقے۔
گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں دنیا کے تمام شہری علاقوں کو خطرے کا سامنا ہے۔ اور شاید اس وقت جس ملک کو سب سے زیادہ خطرہ ہے وہ جزائر مالدیپ ہیں۔اس ملک میں احتجاجا کیبنٹ کا حالیہ ہونے والا ایک اجلاس سمندر کے اندر منعقد کیا گیا ہے۔  
اسی طرح میں نے کراچی کے سمندر کے قریب باندھے جانیوالے بند کے متعلق اپنے طور پہ نیٹ پہ سرچ کی اور مختلف ادوار سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بھی معلوم کیا اور میں اس نتیجے پہ پہنچی کہ ایک مکمل ڈیم تو  نہیں البتہ دور دور تک  مٹی بچھا کر اسکی سطح کو بلند کیا گیا ہے۔ اسے انگریزی میں تو ریکلیمیشن  کہتے ہیں البتہ اسکے اردو مترادف سے میں واقف نہیں۔ اسی ٹیکنک کو استعمال کرتے ہوئے کراچی میں ڈی ایچ اے نے سمندر سے زمین حاصل کر کے اس پہ اپنے نئے فیز بنائے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ فاضل مصنف نے اس مٹی بچھانے کے عمل کو ڈیم سے تعبیر کیا ہے اور اسکے لئے یہ اصطلاح استعمال کی جو کہ ایک مناسب اصطلاح نہیں ہے۔


حوالے؛

متعلقہ تحقیقی مقالہ

کراچی کی سطح سمندر سے بلندی

لینڈ ریکلیمیشن



Sunday, December 20, 2009

ایک تحقیقی مقالہ

ایک تحقیقی مقالہ جسے ہم انگریزی میں ریسرچ پیپر کہتے ہیں۔ اس میں کچھ بنیادی ضروریات کا ہونا ضروری ہے اسکے بغیر اسے ایک معلوماتی مضمون تو کہا جا سکتا ہے مگر ایک ریسرچ پیپر نہیں کہا جا سکتا۔ یہ تحقیقی مقالے پی ایچ ڈی کرنے کی بنیادی ضرورت ہوتے ہیں۔ اور اپنے مضمون سے متعلق مخصوص جرائد میں شائع ہوتے ہیں جنہیں جرنلز کہا جاتا ہے۔ ان پیپرز میں عام طور سے اس مضمون سے متعلق کسی نئ معلومات کو پرانی معلومات سے جوڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ اور اسے تجرباتی طور پہ یا اعداد شمار کے ذریعے ثابت کیا جاتا ہے۔ یہ اعداد شمار بھی مستند مشینوں یا سروے یا اسی طرح کے ذرائع استعمال کر کے پیش کئے جاتے ہیں۔ سائنسی سطح پہ ان نتائج کا ان تمام حالات کو دہراتے ہوئے خود کو دہرانا ضروری ہوتا ہے۔ ورنہ اس حقیقیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ عام طور پہ جرنلز میں چھپنے سے پہلے انہیں ماہرین کا ایک گروپ چیک کرتا ہے کہ اس میں دی گئ اطلاعات کہاں تک درست ہو سکتی ہیں۔ نیز تمام پرانے دئے جانیوالے بیانات کو صراحت سے لکھا جاتا ہے کہ وہ کہاں سے لئیے گئے ہیں۔ اور کوشش کی جاتی ہے کہ ان بیانات کا اصل متن متائثر نہ ہونے پائے۔ کسی بھی مناسب جریدے میں شائع ہونے سے قبل ان تمام حوالوں کو بھی چیک کیا جاتا ہے اور اسے بالکل سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔
ایک اور صورتحال یہ ہوتی ہے کہ ان تحقیقی مقالات کو ان سے منسلکہ کانفرنسز میں پڑھا جائے۔ جہاں اس مضمون کے ماہرین اور طلباء سبھی موجود ہوتے ہیں۔ اس صورت میں اگر آپ کوئ نوبل انعام یافتہ یا غیر معمولی شہرت کے حامل اعلی تحقیق داں نہ ہوں تو بھی ماہرین کا ایک پینل آپکے اس تحقیقی مقالے کو پڑھ کر اسے کانفرنس کی پروسیڈنگز میں شامل ہونے کی اجازت دیتا ہے۔
ان تمام ریسرچ پیپر کو سیکولر طرز تحریر پہ لکھا جاتا ہے یعنی انکو پڑھکر آپکو یہ نہیں لگتا کہ وہ کسی خاص طبقے کی جانبداری میں لکھے گئے ہیں۔ یہ علم کا راستہ ہے، یہاں آپکو وہ چیز بھی مل سکتی جسکی آپکو توقع تھی اور وہ بھی جسکی آپکو توقع نہیں تھی۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ یہ علم پرانے علم کی ہر بنیاد کو اکھاڑ دے اور یہ بھی ممکن ہے کہ جسے ہم قدیم کہہ کر جھٹلا چکے ہوں انہیں صحیح ثابت کر دے۔
ان جرائد کے معیار کی بھی درجہ بندی ہوتی ہے۔ اور اس پہ کسی تحقیق داں کا معیار پرکھا جاتا ہے  اس معیار یا گریڈنگ کو امپیکٹ فیکٹر کہتے ہیں۔ عام طور پہ بے حد مستند اور اعلی جرائد کا امپیکٹ فیکٹر زیادہ ہوتا ہے۔ جیسے سائنسی جریدہ 'نیچر' ایک اعلی جریدہ ہے اسکے مقابلے میں ریڈرز ڈائجسٹ محض ایک ڈائجسٹ جس کا کوئ امپیکٹ فیکٹر نہیں بنتا۔ اور ڈان اخبار صرف ایک اخبار۔
جس سائنسداں  کا ریسرچ پیپر جتنے اعلی جرائد میں شائع ہو اسکا امپیکٹ فیکٹر اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ اور اس سے اسکی ریسرچ کا معیار ظاہر ہوتا ہے۔ بعض اوقات ایک ریسرچ پیپر کسی ایسے جریدے میں شائع ہو جاتا ہے کہ اسکا امپیکٹ فیکٹر تمام جریدوں پہ بھاری ہو کر اسے صف اول کے تحقیق دانوں میں شامل کر دیتا ہے جسے ڈی این اے کی مالیکیولی ساخت بتانے والا پیپر۔ اور بعض اوقات تحقیق داں ساری زندگی کام کرتا ہے مگر کوئ ایسا قابل ذکر نیا علم نہیں بڑھا پاتا کہ وہ اسے کسی معقول سطح پہ شائع کرا سکے۔ اور اس طرح سے اسکاامپیکٹ فیکٹر غیر متاثر کن رہتا ہے۔ جیسے ہمارے یہاں کے بہت سارے تحقیق داں۔

Saturday, December 19, 2009

ایک ہے ثریا

میں ثریا کو نہیں جانتی۔وہ یہیں کہیں رہتی ہوگی۔
میں نے سنا ہے وہ ملک کے کسی دورافتادہ علاقے سے اپنے گھر والوں کے ساتھ یہاں آئ تھی۔ پھر اسکا باپ ایک ایکسیڈنٹ میں مر گیا۔ اور وہ اپنے دو چھوٹے بھائیوں اور ماں کے ساتھ زندگی جھیلنے لگی۔ اسکی ماں نے کپڑے سی کر اپنا گھر چلانے کی کوشش کی لیکن کچھ عرصے میں پتہ چلا کہ اسے کالا موتیا ہوگیا ہے اور اب وہ بہت کم دیکھ پاتی تھی۔
 ثریا نے ایک مدرسہ میں پڑھانا شروع کر دیا۔ یہاں اسے قرآن حفظ کرنے کی سہولت بھی حاصل تھی اور پڑھانے کی وجہ سے کچھ تنخواہ اور دن کا کھانا بھی۔ لیکن اسکے اوقات بہت سخت تھے۔ وہ فجر سے پہلے ہی اٹھ کھڑی ہوتی اور جب شام ڈھلے منی بس میں ڈیڑھ گھنٹے کا سفر طے کرنے کو سوار ہوتی تو کبھی کبھی شدت تھکن اور نیند سے اسکی آنکھیں بالکل بند ہو جاتیں۔ نیند تو سولی پہ بھی آجاتی ہے۔
پر اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ سولی کی نیند، اس پہ آنیوالی موت کے مقابلے میں کتنی بھیانک ہوتی۔ یہ اسے اس دن پتہ چلا جب اسکی آنکھ کھلی تو وہ ایک بیابان علاقے میں گاڑی کے ڈرائیور اور کنڈیکٹر کے ساتھ موجود تھی۔  بہت رو دھو کر جب وہ گھر واپس لوٹی تو بھی اسے اندازہ نہ تھا کہ اب اسے کتنی مدت تک جاگنا ہوگا۔ اسکا صحیح اندازہ اسے اس دن ہوا جب اپنی ماں کے بےحد اصرار پہ کہ وہ ڈاکٹر کے پاس جائے آخر اتنے دنوں سے اسکی طبیعت کیوں صحیح نہیں ہے۔ وہ محلے کی ڈاکٹر کے پاس چلی گئ۔
لیڈی ڈاکٹر کی تشخیص پہ وہ بالکل ہکا بکا رہ گئ۔ اسکی عمر تو صرف سترہ سال تھی اور اسکا تو کوئ قصور بھی نہ تھا۔ مگر بیالوجیکل سائنس ان تمام حقائق سے نا واقف تھی۔
آخر اس لیڈی ڈاکٹر نے اسکی قابل ترس حالت کو دیکھتے ہوئے اسے ایک سینئیر ڈاکٹر کے پاس بھیج دیا۔ حالات اس مرحلے پہ تھے جہاں وہ جونئیر  ڈاکٹر کچھ نہ کر سکتی تھی۔
 بلکہ کوئ ذمہ دار ڈاکٹر کچھ نہ کر سکتا تھا۔ ڈاکٹر نے سب دیکھا بھالا۔ اسے تسلی دی اس تکلیف دہ اطلاع کے ساتھ۔ اس نئ آنے والی زندگی کو روکا نہیں جا سکتا البتہ وہ اسکی مزید مشکل آسان کر سکتی ہے۔ اس طرح کہ اسے آنیوالی زندگی میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اور اس آنیوالے بچے کو بھی زندگی کا حق حاصل رہے۔
چند مہینوں بعد ثریا کی ماں کو ایک ہسپتال سے فون آیا کہ کہ وہ فوراً پہنچے اسکی بیٹی کی حالت درست نہیں۔ ہسپتال پہنچنے پہ ڈاکٹر نے اسے خاصہ ڈانٹا کہ اس نے اپنی بیٹی پہ کوئ توجہ نہ کی۔  اسکی بیٹی کے پیٹ میں خطرناک رسولی ہو گئ تھی۔ وہ آج سڑک کے کنارے بیہوش ملی۔ اور بروقت آپریشن کر کے اسے بچا لیا گیا ہے۔
میں ثریا کو نہیں جانتی، اس لئے مجھے اس ساری کہانی سے کوئ خاص دلچسپی نہیں۔
 وقت کی کسی اکائ میں ہونے والے اس واقعے سے پہلے یا بعد میں میری ایک دوست کا فون آیا کہ انہوں نے ایک بچہ گود لے لیا ہے۔
میں انکے ساتھ انکے گھر میں موجود ہوں۔ بچے کے موجودہ والدین خوش نظر آرہے ہیں۔ انہیں بے اولادی کا عرصہ گذارتے ہوئے پانچ سال ہو گئے تھے وہاں کچھ رشتے دار بھی ہیں۔ کسی نے کہا کہ بڑا نیکی کا کام کیا ہے آپ نے ۔ وہ دونوں حیران ہوئے۔ ارے ہم نے کیا نیکی کا کام کیا ہے۔ یہ تواس بچے کی مہربانی ہے جس نے ہمیں مکمل کر دیا۔۔ یہ تو خدا کا تحفہ ہے۔ انکی سرشار آوازآئ۔
 وہیں ایک اور صاحب بھی بیٹھے ہیں وہ اپنی داڑھی پہ ہاتھ پھیرتے ہیں اور کہتے ہیں بھئ بچہ آپ نے گود لے لیا بہت اچھا کیا لیکن شرعی حکم یہ ہے کہ بچے کے باپ کا نام تبدیل نہیں ہونا چاہئیے۔ تو اس بچے کے باپ کا نام معلوم کر کے اسکے ساتھ وہی نام لگانا'۔
سب لوگ خاموش ہوجاتے ہیں۔ اس خاموشی کو اس بچے کے موجودہ باپ نے توڑا۔ ' نہ مجھے اس سے غرض اور نہ ہی اس ادارے کی یہ پالیسی ہے۔ جہاں سے یہ بچہ ہماری دنیا میں آیا ہے'۔'بھئ ہم نے تو تمہیں خدا کا حکم بتا دیا۔ اب تمہاری مرضی'۔ وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
 میں نے اپنی موجودگی کو زائد جان کر  اپنی دوست کی گود میں دنیا و مافیہا سے بے خبر نرم کمبل میں لپٹے اس بچے کی بندھی مٹھیوں میں شگون کے پیسے رکھے اور والدین کو مبارکباد دیکر نکل آئ۔ ہم میں سےکتنے لوگ اس اختیار کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں کہ ہم معلوم باپ کے گھر پیدا ہونگے یا نامعلوم باپ کے گھر۔
گاڑی سگنل پہ رکی تو وہاں بیٹھے بچوں کے غول میں سے ایک گیارہ بارہ برس کی بچی میرے منع کرنے کے باوجود تیزی سے گاڑی کا شیشہ صاف کرنے لگی۔
میں نے اسے دیکھا۔ اورمجھے لگا میں ثریا کو جانتی ہوں۔



Thursday, December 17, 2009

ترغیب، تقلید اورنتائج

ایک دفعہ ایسے ہی سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے ایک تجربہ کیا۔ جیسا کہ بعد کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسکا مقصد قدرت کے کسی کام میں دخل اندازی نہ تھا۔ بلکہ شاید یہ وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئ ہوگی کہ کچھ لوگ کیوں قدرت کے کاموں میں دخل اندازی پسند نہیں کرتے۔
چونکہ سائنسدان ہمیشہ کھیت کی بات کر کے کھلیان کے نتیجے نکالتے ہیں تو انہوں نے 
اس تجربے میں بھی پانچ بندر لئے ، جنہیں ایک پنجرے میں بند کر دیا گیا اور انکے درمیان ایک سیڑھی پہ چند کیلے لٹکا دئے گئے۔ اب آپ تو جانتے ہیں کہ بندروں کو کیلے کتنے پسند ہوتے ہیں تو ان میں سے فورا ہی ایک بندر نے سیڑھی پہ چڑھنے کی کوشش کی۔ جیسے ہی اس نے سیڑھی پہ قدم رکھا۔ باقی بندروں پہ خوب ٹھنڈا پانی پھینک دیا گیا۔ خوب ہلچل مچی اور وہ بندر بھی سراسمیہ ہو کر نیچے اتر آیا۔ اب جیسے ہی کوئ بندر سیڑھی پہ چڑھنے کی کوشش کرتا باقی بندروں پہ یہ ٹھنڈا پانی پھینک دیا جاتا۔
کچھ دیر بعد یہ حالت ہو گئ کہ جیسے ہی کوئ بندر کیلوں کو دیکھ کر للچاتا اور سیڑھی پہ پیر رکھتا، باقی بندر اسکی پٹائ شروع کر دیتے۔اچھی طرح پٹنے اور پیٹنے کے کچھ دیر بعد سب بندر سکون سے بیٹھ گئے۔ اور کسی نے بھی اوپر جانے کی خواہش چھوڑ دی۔
خیر ، یہ سائنسدان ایسے ہی شیطانی دماغ کے مالک ہوتے ہیں,  اس لیئے کچھ لوگ سائنس کو شیطانی علم بھی کہتے ہیں۔ تو انہوں نے اس مرحلے پہ سوچا کچھ نیا کیا جائے۔ اور انہوں نے ان میں سے ایک بندر کو نکال کر ایک نئے بندر کو شامل کر دیا۔ اب  اس نئے بندر نے وہی کیا جو اسے نہیں کرنا چاہئیے تھا۔ یعنی کیلا دیکھا اور سیڑھی کی طرف لپکا۔ اسے جاتا دیکھ کرباقی بندر اسکی پٹائ کرنے لگے۔  کئ دفعہ پٹنے کے بعد اس نے یہ سبق سیکھ لیا کہ سیڑھی پہ پیر نہیں رکھنا۔
اب سکون ہو گیا۔ اس سکون کے ساتھ ہی سائنسدانوں نے ایک اور بندر کو نکال باہر کیا اور اسکی جگہ ایک نیا بندر ڈالدیا۔ اس بندر نے بھی جیسے ہی سیڑھی پہ پیر رکھنے کی کوشش کی سب بندروں نے جس میں پہلا تبدیل شدہ بندر بھی تھا اس پہ ہلہ بول دیا دیا۔ کئ دفعہ پٹ کر ان بندر صاحب کا دماغ بھی ٹھکانہ آگیا۔
آہستہ آہستہ، ایک ایک کر کے پہلے سیٹ کے تمام بندروں کو تبدیل کر کے نئے بندر ڈال دئیے گئے۔ مگر وہ سب اسی طرح سیڑھی پہ پیر رکھنے والے بندر کی پٹائ شروع کر دیتے۔ حالانکہ ان میں سے کسی کے اوپر بھی ٹھنڈا پانی نہیں پھینکا گیا تھآ۔
کہا جاتا ہے کہ اگر ان نئے بندروں کے سیٹ کو قوت گویائ حاصل ہوتی اور ان سے پوچھا جاتا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو تو وہ جواب دیتے کہ'پتہ نہیں، بس یہ ہمیشہ سے ایسے ہی ہوتا آیا ہے۔ اس لئیے ہم بھی یہی کرتے ہیں'۔


ایک بلاگ پہ پول؛
آپکا کیا خیال ہے بندروں کو بول چال سکھانا نہایت ضروری ہے تاکہ یہ بات پایہ ء ثبوت کو پہنچے کہ وہ یہ جواب دیتے یا نہیں۔

میڈیا کے اہم سوالات؛
کیا بندروں کی مثال انسانوں پہ نافذ کرنا، قدرت کے قوانین میں مداخلت ہے یا ڈارون کو خراج تحسین پیش کرنا۔

مخالف گروپ؛بندر کو کبھی بولتے سنا ہے۔ اگر بندر بھی بولنے لگ جائیں تو ہم کیا بولیں گے۔ یہ قدرت کے قوانین میں مداخلت نہیں تو اور کیا ہے۔

میری پڑوسن بزرگ خاتون؛ لا حول ولا قوت، بندر بھی کبھی بولے گا۔ یہ تو  قیامت قریب ہونے کی نشانی ہے۔

میرا ڈرائیور؛
باجی،یہ سب امریکہ اور یہودی  کا گٹھ جوڑ ہے۔ یہاں بندر سے مراد مسلمان اے۔ یہ سب جھوٹ بولتا اے۔ جھوٹی تسلی دیتا اے۔ بندروں کو بولنا سکھائےگا۔ کافر کاپلا ہوا بندر کیا بولے گا۔

میری بیٹی: ماما، ایلیفنٹ کی دم ہوتی ہے، منکی کے ہوتی ہے ہماری کیوں نہیں ہوتی۔
میں؛ پھر تم ڈائپر کیسے پہنتیں بیٹا۔
کم سے کم میری بیٹی تو خاموش ہوئ۔ اس پہ آجکل واش روم استعمال کرنے کا بڑا معاشرتی دباءو ہے۔

Monday, December 14, 2009

بین السطور

میں بچوں کا ایک انگریزی رسالہ پڑھ رہی تھی۔ حیران مت ہوں، میں نے ابھی تک اپنے اندر کے بچے کو رخصت نہیں کیا۔ دراصل وہ جاتا ہی نہیں ہے۔ اپنے معصوم چہرے اور سوالیہ آنکھوں کے ساتھ میری دہلیز سے یوں لگا بیٹھا رہتا ہے کہ جیسی ہی میری نظر اس پہ پڑے  وہ اپنے دونوں ہاتھوں میں منہ چھپا کر کہتا ہے مجھے ڈھونڈیں میں کہاں ہوں۔ بس تو ہم اکثر آنکھ مچولی کھیلتے ہیں۔
ہاں تو، اس رسالے میں بچوں کے مسائل والے سیکشن میں ایک گیارہ بارہ سال کے بچے نے لکھا کہ اسکی تیرہ گرل فرینڈز ہیں اور وہ پریشان ہے کہ وہ کیا کرے۔ مجھے ہنسی آئ، اسکے مسئلے کی گھمبیریت سے قطع نظر،آجکل یہ لفظ گرل فرینڈ اتنا زیادہ استعمال ہونے لگا ہے کہ مجھے اکثر شبہ ہوتا ہے کہ پاکستانی یہ جانتے بھی ہیں کہ گرل فرینڈ کسے کہتے ہیں۔
دو دفعہ تو مجھے کچھ لوگوں کی تصحیح کرنی پڑی کہ میں انکی دوست تو ہو سکتی ہوں لیکن میں انکی گرل فرینڈ نہیں ہوں۔  گرل فرینڈ ایک مخصوص لفظ ہے اور خاصے مخصوص حالات میں استعمال ہو سکتا ہے۔ حتی کہ اردو کا لفظ محبوبہ، معشوقہ یا کوئ بھی رومانوی لفظ اسکی جگہ نہیں لےسکتا۔ کیونکہ یہ لفظ ہمارے معاشرے سے  اور ہماری اقدار سے تعلق نہیں رکھتا۔ لیکن بہر حال جس تواتر سے یہ استعمال ہوتا ہے۔ اس سے میں ابھی بھی یہی سمجھتی ہوں کہ لوگ اسکی تخصیص سے واقف نہیں جبکہ  مغربی معاشرے میں اس لفظ کے خاصے مختلف معنی ہیں۔
 اس سے ملتی جلتی چیز مجھے اکثر فیس بک پہ نظر آتی ہے۔ جب کبھی میں دوستی کے خواہشمند  لوگوں کے پروفائل چیک کرنے کی کوشش کرتی ہوں تاکہ انکو دوست بننے کی اجازت دینے سے پہلے مجھے انکے متعلق کچھ تو ابتدائ معلومات ہوں تو دلچسپی کے خانے میں اکثر مرد حضرات نے لکھا ہوتا ہے۔ 'خواتین'۔ یعنی انہیں خواتین میں دلچسپی ہے۔ یہاں تک بھی قابل برداشت گو کہ میں پھر ایسے لوگوں کی دوستی سے احتراز کرتی ہوں کہ بحیثیت خاتون کسی مرد سے دوستی نہیں کرنا چاہتی۔ البتہ بحیثیت انسان ایکدوسرے انسان کے خیالات سننا اور بحیثیت انسان آپکو اپنی بات کہنا چاہونگی۔ خاتون ہونا میرے ڈیفالٹ میں موجود خوبی یا خرابی ہے جبکہ میں نے عقل اور سمجھ بطور انسان حاصل کی ہے۔
لیکن اس سے آگے ایک اکثریت ان لوگوں کی بھی نظر آتی ہے جو دلچسپی کے خانے میں خواتین اور حضرات دونوں لکھتے ہیں۔ اب حسن ظن رکھتے ہوئے میں نے سوچا کہ میں غلط سمجھتی ہوں۔ اس لئیے یہ بات میں نے کچھ لوگوں سے پوچھنے کی جراءت بھی کی۔ کیونکہ میں یہ سمجھتی تھی کہ دلچسپی کا یہ خانہ ان لوگوں کے لئیے ہے جو ڈیٹنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ظاہر سی بات ہے کہ اس سے انکا جنسی رجحان معلوم کرنا مقصود ہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم جنس پرستی مغربی معاشرے میں ظاہر کرنا کوئ معیوب بات نہیں سمجھی جاتی۔
میری اس بات کی تصدیق باقی لوگوں نے کی کہ فیس بک کا آغاز ڈیٹنگ یعنی اپنی گرل فرینڈز یا بوائے فریندز ڈھونڈنے کے لئیے ہی کیا گیا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ اسکا زیادہ بہتر استعمال بھی سامنے آگیا۔ اگرچہ اب بھی لوگ اسے اس مقصد کے لئے خاصہ استعمال کرتے ہیں۔
تو اب وہ لوگ جو فیس بک کے خانے میں لکھتے ہیں کہ انکی دلچسپی مرد و خواتین دونوں میں ہے۔ اس پہ نظر ثانی کر لیں۔ اس سے لوگوں کی بڑی تعداد 'وہ نہیں سمجھتی' جو آپ سمجھانا چاہتے ہیں۔
وہ حضرات جو چاہتے ہیں کہ وہ خواتین کی فیس بک میں بھی جھانک سکیں۔ انہیں اپنے پروفائل میں سے دلچسپی کے خانے میں سےخواتین کا لفظ ہٹا دینا چاہئیے۔  پاکستانی خواتین کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات کہنا آسان ہے کہ یہ 'طریقہ صحیح نہیں ہے'۔ صحیح طریقوں کے لئیے ایک علیحدہ پوسٹ لکھنی پڑے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ 'اس طرح' کےتعلقات بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ بھی دوسروں کے بارے میں 'کچھ اندازہ' لگا کر اپنی پیشکش انہیں بھیجیں ورنہ یہی کہتے رہیں گے کہ سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ"یوں"؟۔ 

Saturday, December 12, 2009

کتاب خوانی

آج ادرہ معارف اسلامی کے پاس سے گذر ہوا تو سوچا کہ دیکھیں کون کون سی کتابیں ہیں۔ اندر کچھ کتابوں پہ سیل لگی ہوئ تھی۔ وہاں سے دو کتابیں اٹھائیں اور پھر مختلف شیلفس کو نظروں سے ٹٹولنا اور انکے اندر موجود فہرست کو جانچنا شروع کیا اورآہستہ آہستہ کچھ کتابیں جمع ہو گئیں۔ وہاں موجود صاحب نے آکر کہا کہ ہم اپنا کام جلدی کر لیں کیونکہ انہیں نماز کے لئے جانا ہے۔ میں نے انکی طرف دیکھا اور خیال آیا کہ میرے بیگ میں تو صرف بارہ تیرہ سو روپے ہونگے۔ گاڑی میں گیس ڈلوانی تھی اور باقی احتیاطاً ساتھ رکھ لئیے تھے۔ تو بس باقی چھان پھٹک وہیں روک دی۔ اب وہ صاحب پریشان ہو گئے ۔' آپ دس پندرہ منٹ اور لگا سکتی ہیں۔ میرا مطلب فوراً نہیں تھا۔' میں نے انہیں تسلی دی کہ بس فی الوقت مجھے یہی کتابیں لینی ہیں۔
اب باری آئ انکے بل بنانے کی۔ تو میں نے پیسوں کی حد اور کتابوں کی تعداد کے درمیان توازن رکھنے کے لئے، دو کتابیں اٹھا کر ایک طرف کر دیں اور ان سے کہا کہ ان کتابوں کو ہٹا کر باقی کتابوں کا بل پہلے بنا دیں۔ میرے پاس صرف ایک ہزار روپے ہیں۔ میں چاہتی ہوں میرا بل  بس اتنا ہی رہے۔ کہنے لگے بے فکر رہیں۔ میں آپکا بل بس ہزار روپے بنا دونگا۔  اس پہ میں نے ذرا محتاط رخ پہ رہتے ہوئے ان سے مزید التماس کی لیکن اگر اس سے کم بن رہا ہو تو پھر ایک ہزار مت کیجئیے گا۔ مسکرائے اور خاموشی سے اپنا کام کرنے لگے۔
خدا کا شکر بل نو سو انچاس بنا۔ کتابیں اور رسید ایک شاپر میں ڈالتے ہوئے کہنے لگے۔ ایک بات بتائیں گھر جا کر اپ اس بل کو چیک کرتی ہیں۔ میں  نے یاد کیا اور ان سے کہا نہیں صرف یہ دیکھتی ہوں کہ سب چیزیں موجود ہیں یا نہیں۔ باقی تو میں نے رسید بناتے ہوئے دیکھ لیا کہ آپ نے کیا لکھا۔ فرمایا۔ 'دیکھ لیا کریں، بھول چوک انسان سے ہی ہوتی ہے'۔
گھر آکر دیکھتی ہوں، اتنی ساری کتابیں صرف نو سو انچاس میں، آئیے آپ بھی دیکھیں میں نے اس رقم میں کیا کیا خریدا۔
مقدمہ تاریخ ابن خلدون مصنف مولانا عبدالرحمن
افکار ابن خلدون، مولانا محمد ھنیف ندوی
مسئلہ خلافت، مولانا ابوالکلام آزاد
تاریخ فلاسفۃ الاسلام، ڈاکٹر میر ولی محمد
خدا کے نام پہ لڑی جانیوالی جنگ، کیرن آرمسٹرونگ
فلسفہء سائنس اور کائنات،  ڈاکٹر محمد علی سڈنی
اسلامی نظریہ ء ادب سید اسعد گیلانی اور اختر حجازی کی مرتب کردہ
اسلام اور دہشت گردی، سید معروف شاہ شیرازی
ہندو علما ء و مفکرین کی قرآنی خدمات ترجمہ اورنگزیب اعظمی
اب میں نے سب سے پہلے ان میں سے پڑھنے کے لئیے جو کتاب اٹھائ ہے اسکا نام ہے تاریخ فلاسفۃ الاسلام۔ دیکھیں کب اختتام کو پہنچتی ہے۔ اسکے بعد تو آپکو اندازہ ہوگا کہ کیا ہوگا۔

Friday, December 11, 2009

باپو یا بابو

کچھ چیزیں دیکھنے اور سننے میں بہت معمولی اور غیر اہم لگتی ہیں لیکن یہ کسی انسان  یا معاشرے کی سوچ کے پیچھے چلنے والے عوامل کو ظاہر کرتی ہیں۔ ایسا ہی مجھے اس وقت محسوس ہوا جب ہمارے ایک ساتھی نے ایک صحافی کے مضمون کو اپنے بلاگ پہ جگہ دی اور اسکے ساتھ ایک ثانوی بحث نکل آئ کہ لفظ بابو کیا ہے۔
 ابتدا تو میرا مقصد ان صحافی موصوف کی جوش تحریر میں کی جانیوالی غلطی کی طرف توجہ دلانا تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ انگریز ہندوستانی مسلمانوں کی تحقیر کرنے کے لئے لفظ بابو استعمال کرتے تھے جو کہ انگریزی لفظ ببون سے لیا گیا ہے اور جسکے معنی بےوقوف نقال بندر کے ہوتے ہیں۔
یہ میرے لئیے ایک بالکل نئ خبر تھی، جہاں میرے ماحول میں لوگ اپنے والد صاحب کو بابو کہتے ہوں، میرے والد صاحب اپنے بچوں کو پیار سے بابو کہہ کر بلاتے ہوں، بھارت کے صوبے بہار میں اکثر  مسلمان گھرانوں میں لوگوں کے ناموں کو بغیر بابو لگائے نہ بلایا جاتا ہو وہاں لفظ بابو کو تحقیر اور نفرت کا لفظ سمجھنا خاصہ مشکل تھا۔
یہی نہیں اردو ادب میں، پرانی انڈین اور پاکستانی فلموں مین،  اور اب بھی ہندوستانی گاءووں دیہاتوں میں پڑھے لکھے لوگوں کو بابو کے لفظ سے بلایا جاتا ہے جیسے  ڈاک بابو، ڈاکٹر بابو، کلکٹر بابو وغیرہ۔
بات آگے چلی تو ہمارے سینئیر بزرگ بلاگر اور اس بلاگ کے ساتھی دونوں ہم زبان ہو گئے کہ نہیں یہ تو استعمال ہی حقارت کے لئیے ہوتا ہے اور مزید پیچیدگی اس میں یہ پیش کی گئ کہ یہ اگر اس مطلب میں استعمال ہوتا بھی ہے تو اسکا ماخذ لفظ بابا تو ہو سکتا ہے مگر باپو نہیں، جو کہ ہندی کا لفظ ہے۔
 اسکے ساتھ ہی مجھے اس بات کا طعنہ دیا گیا کہ دراصل میں چیزوں کے صحیح حوالے دیکھنے سے گریز کرتی ہوں اور اپنی علامیت جتاتی ہوں۔ تو صاحبو، اب ہم یہ بھی
مشکل کہہ پائے کہ ہمیں انٹر نیٹ پہ تو اس لفظ کا یہ مطلب نہیں ملا۔ چونکہ ملک سے باہر ہیں اس لئیے اپنی لغات اور ڈکشنریز بھی استعمال نہیں کر سکتے۔
پاکستان پہنچنے کے بعد اگلی صبح جب میں سو کر اٹھی تو میں نے سب سے پہلے ڈکشنریز کو چیک کیا۔ میں سنی سنائ باتوں سے زیادہ کسی مستند کتاب میں لکھی ہوئ بات کو ترجیح دیتی ہوں۔
اب دیکھئیے میں نے صرف تین لغات کو دیکھا اور اسکے معنی مدرجہ ذیل نکلے۔
فیرزاللغات ؛ ماخذ ہندی، معنی شہزادہ، بالک بچہ، انگریزی پڑھا لکھا جنٹلمین، فیشن پرست نوجوان، کلرک منشی
لانگ مین ڈکشنری آف کنٹیمپریری انگلش؛ انڈین انگلش میں احترام کا ایک لفظ،برٹش انگلش میں کم درجے کا کوئ بھی سرکاری ملازم یا کلرک۔ یہاں انہوں نے انڈین یا مسلم لفظ استعمال نہیں کیا۔
ویبسٹرزانسائکلوپیڈک ان ابرجڈ ڈکشنری آف انگلش لینگوایج؛  باس، ایک ہندو ٹائٹل جو کہ سر یا مسٹر کے برابر ہے، ایک ہندو جنٹلمین، کوئ بھی مقامی انڈین باشندہ جو کہ تھوڑی بہت انگلش پڑھ لکھ سکتا ہو، ہندی میں باپ کے لئیے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اردو کو ابتدا میں ہندی کے نام سے بھی بلایا جاتا تھا۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس میں کہیں بھی وہ معنی نہیں اور نہ ہی وہ پس منظر جو صاحب تحریر نے دینے کی کوشش کی۔ اسی باب میں جب میں نے لفظ ببون کو دیکھا تو صرف ویبسٹر والی ڈکشنری میں مجھے اسکے ایک معنی یہ بھی ملے کہ  خام اور کم ذہانت کا انگریز یا کوئ بہت سادہ شخص۔ یہاں پر بھی ہندوستانی ہونے کی تخصیص نہیں کجا کہ بے عزت کرنے کی۔
یہی نہیں اب بھی پاکستان میں وہ لوگ جنہیں اردو اسپیکنگ کہا جاتا ہے انکے یہاں اس قسم کے محاورے ملیں گے جس میں کسی کو کہتے ہیں کہ وہ بڑا بابو بنا پھرتا ہے۔ اس جملے سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ بہت بھنے ٹھنے رہتے ہیں۔
جہاں ان دونوں صاحبان کو یہ امر ماننے میں عار رہا کہ یہ بے عزتی کا لفظ نہیں اور نہ ہی ببون سے نکلا ہے۔وہاں انکا یہ اصرار رہا کہ یہ باپو سے نہیں بن سکتا بابا سے بنا ہوگا۔ اسکی وجہ شاید یہ ہے کہ ان میں سے ایک صاحب کا  ثقافتی تعلق پنجاب سے اور دوسرے کا ثقافتی  تعلق سندھ سے ہے اور ان دونوں زبانوں میں باپ کے لئیے لفظ بابا بھی استعمال ہوتا ہے اسکی دوسری وجہ جو مجھے سمجھ میں آتی ہے وہ بیشتر لوگوں کا یہ سمجھنا کہ لفظ بابا عربی سے آیا ہے۔  اسکی تیسری وجہ دییگر اقوام کے رہن سہن اور زبان سے نا واقفیت ہے۔
ان سب وجوہات سے ہٹ کر اس بات پہ اصرار کہ یہ لفظ باپو سے نہیں بابو سے بنا ہے اس طبقہ ء فکر کی نشاندہی بھی کرتا ہے جو ہمہ وقت اس چیز سے انکار کی حالت میں رہتے ہیں کہ ایک ہزار سال سے زائد عرصے برصغیر کی دیگر اقوام کے ساتھ رہنے کی وجہ سے مسلمانوں کی طرز رہائش، بود و باش اور زبان پہ انکا اثر ہے۔  یہ یاد رہے کہ برصغیر میں آنیوالے یہ مسلمان کسی ایک علاقے سے نہیں آئے تھے بلکہ ان میں ترک، عرب اور وسط ایشیا کے مسلمان بھی شامل ہیں اور ان میں سے ہر ایک جدا طرز زندگی رکھتا تھا۔
خیر جناب، فیروز اللغات کے مطابق یہ لفظ  بابا بھی اردو میں فارسی اور ہندی سے آیا ہے۔
اب جب کہ انگریزی اور اردو کی مستند لغات میں سے یہ الفاظ کے معنی ، میں نے دیکھ لئیے ہیں اور آپ میں سے کوئ بھی انہیں جا کر دیکھ سکتا ہے تو میں یہ بتانا ضروری سمجھتی ہوں کہ میرا مقصد انگریزوں کی حمایت نہیں بلکہ محض ہر وقت دوسروں کو اپنی حالت زار کا باعث سمجھنا اور اس نکتے کو ثابت کرنے کے لئیے غلط ترین بات بھی کرنے سے نہ چوکنا اسکی طرف آپکی توجہ دلانا ہے۔
تاریخ دنیا میں دوسرے لوگوں اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی جو کوششیں رہیں ہیں یا انکے جو بھی اثرات رہے ہیں انہیں انکے مسلمان نہ ہونے کی وجہ سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ اس دنیا کی جو بھی حالت آج ہے یا علم اور جہالت کے جس بھی مرحلے پہ ہم ہیں۔ اس میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقوام کا بھی حصہ ہے۔ ہم بہ حیثیت مسلمان آج جس طرح دنیا اور اپنی زندگی برتتے ہیں اس میں دوسروں کی طرز فکر کا اثر بھی ہے اور اسے تسلیم کئے بغیر نہ ہم اپنی غلطیوں کو جانچ سکتے ہیں اور نہ آگے کی سمت درست قدم رکھ سکتے ہیں۔
میرے ان ساتھی کی اس پوسٹ کے کچھ اور اہم نکات ہیں جن پہ آنیوالی تحریروں میں بات کرنا چاہونگی ان میں سر فہرست
کیا خلافت مسلمانی طرز حکومت ہے اور اسی میں ہماری بقا ہے
کیا سائنس اسلام سے متصادم اور قدرت کی راہ میں مزاحم ہے۔
کیا  دنیا بھر کی قوتیں صرف اسلام کو ختم کرنے کے درپے ہیں یا اس میں مسلمانوں کا  کئ صدیوں پہ مشتمل ایک طویل علمی اور تحقیقی جمود ہے۔

 حوالہ؛

Monday, December 7, 2009

آئیے فیس بک پہ اکاءونٹ بنائیے-۲


لوگوں کی توجہ حاصل کرنا ، یہ خواہش انسان میں پیدائش کے وقت سے ہوتی ہے۔ اسی لئیے نوزائیدہ بچوں کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ اپنے والدین اور دیگر رشتے داروں کو کیسے بے وقوف بنانا ہے۔ یہ طریقے زیادہ عرصے کارگر نہیں رہتے، خاص طور پہ جیسے جیسےملنے جلنے والے لوگوں کی تعداد بڑھتی ہے، طریقہ ءکار میں تبدیلی لانا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ فیس بک اس سلسلے میں آپکی کما حقہ تربیت کرتی ہے۔
ایک زمانے میں لکس بیوٹی سوپ کا اشتہار آتا تھآ۔ 'آخر لوگ ہمارا چہرہ  ہی تو دیکھتے ہیں'۔ تو اسی انسانی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے فیس بک والوں نے آپکو یہ موقع بھی دیا  ہے کہ آپ اپنے آپکو جس طرح چاہیں ظاہر کریں۔ اگرچہ کچھ لوگ اس میں دلچسپی نہیں رکھتے یا انہیں ماورائ حالت میں رہنا پسند ہوتا ہے تو وہ فیس بک کی طرف سے دی گئ خالی جگہ پہ ہی اکتفا کر لیتے ہیں۔ اس خالی جگہ میں ایک ہیولہ موجود ہے جس کے سر پہ آئسکریم کا کون موجود ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ کسطرح اس جمے ہوئے کون کو آتش شوق کو ہوا دینے والی قوت میں تبدیل کرتے ہیں۔ میں ہوں ناں، آپکی مدد کے لئیے۔  

 


کچھ اپنی کاہلی یا رسومات کو بادل ناخواستہ نبھاتے یا طبیعتاً  ہر جگہ دفتری التزامات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں اور  اس مصیبت کا حل بھی پاسپورٹ سائز تصویر کو سمجھتے ہیں۔ زیادہ تر پاکستانی اسکو ترجیح دیتے ہیں۔


پاکستانیوں کی ترجیحات میں جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں مذہب سب سے پہلے ہے اور ہم بہانے بہانے سے اسی لئیے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا اور گلے کاٹنا پسند کرتے ہیں  تو اگلے مرحلے میں اپنی شناخت اسی کے حوالے سے رکھنا آسان ہے۔

 کچھ عناصر نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ بلند کرنے کی کوشش کی اور جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کچھ لوگوں نے اس فیشن میں بھی حصہ لے ڈالا۔











لیکن تماشائے اہل کرم دیکھنا کا یہ معقول انداز نہیں ہے۔ اسی وجہ سے اہل دل نے یہاں بھی تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہئیے کے زیر عنوان اپنی شناختیں تیار کی ہیں۔ یہ دیکھئیے کسطرح محبت کے سمندر میں گرنے کے لئیے تیار ہیں۔ آئیے چلے آئیے۔
دیا باقی نہیں تو کیا، کسی کا دل تو جلتا ہے
چلے آءو جہاں تک روشنی معلوم ہوتی ہے






چند خوش قسمت جو اس مرحلے سے کامران گذر جاتے ہیں اپنی شادی کی تصویر ڈال رکھتے ہیں۔ ابھی جب سال بھر تک اپنے آپکو اور ساری دنیا کو یقین دلاتے رہیں گے کہ وی ڈڈ  اٹ، ہم نے کر دیا۔


تو ایک اور شناخت پیدا ہو جائے گی۔ واءو، وی ڈڈ اٹ۔ لیجئیے اسٹیٹس تبدیل ہو گیا۔ آئندہ آنیوالے سالوں میں اسی طرح آپکو اسٹیٹس کی تبدیلی سے انکی آبادی میں تبدیلی کا پتہ چلتا رہیگا۔۔


وہ لوگ جو اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ اور بھی مخلوقات ہیں دنیا میں انسانوں کے علاوہ۔ انکی شناختی تصاویر جانوروں سے مستعار لی گئ ہوتی ہیں۔ یہ نہیں معلوم کہ ان مخلوقات کو یہ پتہ ہوتا ہے یا نہیں کہ انکی تصاویر کہاں استعمال ہو رہی ہیں۔


جہاں کچھ لوگ صرف اپنی ناک کی نوک، پلکوں کے سرے اور ہونٹوں کے گوشے ڈالکر خوش ہوتے ہیں وہاں کچھ لوگوں کو اپنے نام کے کچھ ٹکڑے ڈالکر بھی لطف آتا ہے۔ ذرا بتائیے یہ کسکا نام ہے۔

کچھ اپنے شوق کے پیچھے اپنے آپکو چھپا لیتے ہیں ایسے کہ بوجھو تو جانیں۔ اب بتائیے یہ کون ہیں؟


کچھ قدرتی مناظر پہ جان دیتے ہیں، انکی تصویر میں کوئ قدرتی منظر اور انکی کوئ پسندیدہ چیز انکے ساتھ ضرور ہوتی ہے۔ اس میں بتائیں کیا پسندیدہ چیز ہے۔ ویسے ممکن ہے پسندیدہ چیز سامنے ہو اور تکنیکی وجوہات کی بناء پہ تصویر میں نہ آسکی ہو۔









ویسے تو کسی شاعر نے کہا تھا کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔ لیکن سمجھدار لوگ ایسے مواقع کیوں ضائع جانے دیں۔ انکا پروفائل انکا تعارفی کارڈ ہے۔ یقینا یہ صاحب مارکیٹنگ کی دنیا سے تعلق رکھتے ہونگے۔





اس قسم کے پروفائل فوٹو کون بنا سکتا ہے۔ وہی جو لنکس کے عشق میں سرتاپا غرق ہو۔



ویسے تو خواتین  کو بدنام کیا جاتا ہے کہ خوبصورت پھولوں اور خوبصورت چہروں کو وہ اپنا تعارف بنا لیتی ہیں لیکن اس میدان میں بھی درحقیقت مردوں کا ہی پلہ بھآری ہے۔ یہ پروفائل فوٹو ایک صاحب کا ہے۔  اس پھول کو دیکھکر مجھےہمیشہ وہ شعر یاد آیا، جس میں شاعر کہتا ہے
اے پھول میرے پھول کو یہ پھول دے دینا
کہنا کہ تیرے پھول نے یہ پھول بھیجا ہے



اس سرخ گلاب کا عقدہ ایک اور صاحب نے اپنے پروفائل فوٹو میں حل کیا۔ معلوم ہوا کہ پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کیا ہاتھ تک کٹ سکتا ہے۔











لیکن کچھ لوگ ایسی شناختیں رکھتے ہیں کہ وہ شناخت کم اور پہیلی زیادہ بن جاتی ہے۔ مثال کے طور پہ یہ شناخت کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا ہے۔ سچ پوچھیں تو لگ رہا ہے کہ کسی خاتون کی چوٹی دوپٹے میں سے نظر آرہی ہے۔لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ ڈبل روٹی ہو، تھیلی میں لپٹی ہوئ۔




جہاں کچھ لوگ اپنی حسین تصویروں پہ فدا ہو کر انہیں اپنے پروفائل میں ڈال  کر اتراتے ہیں۔ وہاں کچھ اپنے آپکو کارٹونز کے پردے میں پیش کر کے اٹھلاتے ہیں۔  انہیں اپنا آپ بھی کارٹونز میں ہی اچھا لگتا ہے۔  ذرا یہاں تو دیکھیں ایک تیر سے کتنے شکار ہوئے ہیں۔ میں بندہ ٹیکنالوجی کا، فرنچ فرائز کھاتا ہوں اپنا دل بہلاتا ہوں۔






بعض اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو پکاسو کا آرٹ بنا نے میں صرف کر دیتے ہیں۔ آخر میں کوئ ایسی تمثیلی چیز نکال لاتے ہیں کہ آپ سوچتے ہیں یہ آپ ہیں، میں ہوں یا وہ۔ کچھ سادہ دل انہیں خلائ مخلوق سمجھ کر ان پہ عاشق ہوجاتے ہیں۔ اسی لئیے ڈفر کہلاتے ہیں۔



جہاں کچھ لوگ اپنی شناخت کو اپنی برانڈ بنا لیتے ہیں وہاں کچھ سیماب صفت ہر روز ہی اپنی
شناخت تبدیل کرتے نظر آتے ہیں۔ بعض دفعہ جب بور ہو جاتے ہیں تو ایسے بہانے بناتے ہیں۔














اور اگر محبت قسمت سے ملتی ہے تو نفرت کو بھی پنپنے کے لئیے بہانے چاہئیے ہوتے ہیں۔ اور اسکے اظہار کو بھی فنکاری۔ تاکہ دل کی تسلی پوری طرح ہو جائے۔ فیس بک بھی اپنے چاہنے والوں کو یہ موقعے دینے میں تامل نہیں کرتی۔

اب جب کہ دل کی حسرتیں نکالنے کو اتنی ترغیبات موجود ہیں تو آپ بنا رہے ہیں فیس بک پہ اکاءونٹ۔ کیا کہا، میں نہیں مانتا، لیکن کیا؟، کیوں؟




Saturday, December 5, 2009

ارادے باندھتا ہوں

تو جناب، ہر طرح کے امکانی حالات کو شکست دینے کے بعد جو کہ وطن عزیز میں پہنچنے کے بعد پیش آسکتے تھے اور آئے۔ ہم پھر ایکدفعہ حاضر ہیں یہ بتانے کے لئیے کہ زندہ ہیں۔ اور ابھی ہماری مونگ کی دال ختم بھی نہیں ہوئ۔
ایک دو پوسٹس ہیں جن کی نوک پلک سنوارنے کا خیال ہے۔ امید ہے آپکو آئندہ دو تین روز میں مل جائیں گی۔
پچھلے ڈیڑھ مہینے کے دوران کچھ مزیدار موضوعات دیکھنے کو ملے۔ جن میں سے کچھ کا تعلق مکی صاحب کے بلاگ سے تھا۔ اور ان میں ہمارے ساتھی ابوشامل بھی شامل ہیں۔ انکی کچھ باتوں کا جواب لکھنا چاہ رہی تھی لیکن دیار غیر میں ناکافی ذرائع کی بناء پہ لکھنے میں التواء کیا۔ اب انشاء اللہ اس پہ بھی تفصیلی نظر ڈالیں گے۔
کچھ افتخار اجمل صاحب کی تحریریں ہیں جن پہ اپنے بلاگ پہ اظہار خیال کرنا چاہتی ہوں۔ انکی باری بھی آئیگی۔
سب سے اہم بات اس  سارے سفر کی روداد اور اس سے ہم نے زندگی کے کیا تجربات حاصل کئے اس میں بھی آپکو شامل کرنا ہے۔ تو اس طرح آئندہ چند مہینوں کا لائحہء عمل تیار ہوگیا ہے۔ اب دیکھیں، اس میں سے کتنے ارادے  تکمیل تک پہنچتے ہیں۔
ویسے واپس آئے ہوئے تین دن ہوئے ہیں اور دو دھماکوں کی اطلاع آچکی ہے۔ دن میں چار سے پانچ گھنٹے لوڈٰشیڈنگ ہو رہی ہے۔ تو اس سے پہلے کہ لائٹ پھر خدا حافظ کہے۔ ملتے ہیں ایک بریک کے بعد۔