Friday, December 30, 2011

شیر، درخت اور وہ

بال کترنے سے مردہ ہلکا نہیں ہوتا۔ اصل حقیقت تو مردہ ہی بتا سکتا ہے یا مردہ اٹھانے والا۔ ہم آپ تو محض گمان ہی کر سکتے ہیں۔  لیکن کچھ محاوروں تک پہنچ آسان ہوتی ہے یعنی ہاتھ کنگن کو آر سی کیا، سامنے نظر آرہا ہے۔
مجھے کیا آپ میں سے بھی کچھ کو یاد ہو گا جب اردو بلاگنگ کی دنیا میں ایک محاورے پہ دھمال مچی تھی۔ محاورہ تھا لکھے موسی پڑھے خدا۔ ایک بلاگی ساتھی نے اپنے پچاس سال پرانے ایک استاد کے توسط سے اس محاورے کو غلط بتایا اور کہا کہ اصل محاورہ ہے لکھے مُو سا پڑھے خود آ۔ معتقدین نے واہ واہ کی۔ مجھے بے قراری ہوئ تو میں نے اسے مختلف لغات میں دیکھا اور ہر کسی میں یہی ملا،  لکھے موسی پڑھے خدا۔
بلاگی ساتھی کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب ہے بال جیسا باریک لکھنا کہ خود ہی پڑھ سکے۔ میرا خیال تھا کہ یہ محاورہ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب تحریر اتنی خراب ہو کہ خود بھی نہ پڑھ سکے خدا ہی پڑھے کیونکہ وہی علیم و خبیر ہے۔
عوامی مبصرین نے موسی والے محاورے کو نبی اور خدا دونوں کی شان میں گستاخی قرار دیا۔  ایک ایسی  صالح حکومت کے آنے کی دعا کی جو لغت سے خلاف مذہب محاورے نکال کر باہر کرے۔ اور ایک دفعہ پھر ان بلاگی ساتھی کے لئے عوامی دعائے خیر کہ اصل محاورے سے روشناس کیا۔
ہم نے سوچا جان بچی، ایمان بچا اور دنیا میں کیا چاہئیے۔
توحید پہ یقین رکھنے والوں کے لئے میں یہ سمجھتی تھی کہ خدا کے سوا باقی سب محبوب ، بت ٹہرتے ہیں اس لئے اردو شاعری بتوں اور صنم پہ زیادہ بات کرتی ہے۔ لیکن دلوں کو جھانکیں  تو ایسا نہیں نظر آتا۔
یہ  اگر ایک محاورے میں خدا اور موسی کی حفاظت کرتا ہے تو دوسرے میں شیر کی حفاظت پہ بھی کمر بستہ نظر آتا ہے۔ محاورہ ہے بلی شیر کی خالہ ہوتی ہے۔ کیونکہ شیر درخت پہ نہیں چڑھ سکتا بلی چڑھ جاتی ہے۔ ہم نے مذاقاً کہا کہ یہ محاورہ غلط ثابت ہو گیا ہم نے ایسی دستاویزی فلمیں دیکھی ہیں جن میں شیر درخت پہ قیلولہ فرماتے ہیں۔
ہمارے ایک مبصر جو کہ ویسے ہمارے بلاگ کی طرف تھوکنا  بھی پسند نہ کریں اس بات پہ ایسے جوش میں آئے کہ  اپنے تھوک اور شیر کو  ہمارے علم اور جہالت  پہ قربان کر دیا۔ اول تو شیر درخت پہ چڑھ نہیں سکتا چار سو پاءونڈ وزنی ہوتا ہے اور اگر بالفرض محال ایسا ہوتا بھی ہے تو مادہ ہی چڑھ سکتی ہے نر نہیں۔  انہوں نے فرمایا۔ شیرنیوں کو ایشوریا رائے کی طرح اپنے وزن کا خیال رہتا ہے۔ اس خیال سے مجھے خاصہ حسد محسوس ہوا۔
 چنانچہ، شیر پنجاب کے آجکل کے نازک حالات کو ایک طرف کیا، حالیہ پر کشش سونامیوں سے بھی منہ موڑا اور یو ٹیوب پہ ایک ویڈیو کو جا لیا۔ شیر وہ بھی نر، درخت پہ اپنے شکار سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ پھر فاتحانہ جذبے سے اسے جواب  میں ڈال دیا۔

اس پہ دوسرا بیان آیا کہ سیدھے درخت پہ نہیں چڑھ سکتا، ٹیڑھے پہ چڑھ جاتا ہے۔ یہ خاصیت شیر اور ہمارے درمیان ملتی جلتی ہے۔ حالانکہ میرا وزن شیر کے چار سو پاءونڈ کا چوتھائ بھی نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹیڑھے درخت پہ ہی  جم کر چڑھ پاتے ہیں۔ سیدھے درخت کو صراط مستقیم سمجھ کر اس کا ارادہ بھی نہیں کرتے۔ کیا شیر جیسا بہادر جانور بھی صراط مستقیم سے گھبراتا ہے؟

باتوں میں لگا کر انہیں یہاں تک تو لائے کہ ٹیڑھے درخت پہ چڑھ جاتا ہے لیکن اب اس کا کیا ہو کہ انہی مبصر کو یہ  شیر کی توہین لگی کہ شیر اپنے بچے کھالیتا ہے۔ حالانکہ اس پہ لغت والوں کو زیادہ اعتراض ہونا چاہئیے کہ اس سے یہ محاورہ مشکوک لگتا ہے، شیر کا ایک بھلا۔ ایک بھلا، اگر وہ شیر کی دسترس سے بچ جائے۔
  شیر بے چارے پہ کیا موقوف، یہاں ایسے جانوروں کی ایک فہرست ہے جو اپنے بچے کھالیتے ہیں انسانوں کی طرح بیچتے نہیں۔ معاشی سطح پہ حیوان ، انسان سے کہیں پیچھے ہیں۔ جہاں یہ ان جانوروں کی بے غرض طبیعت کا حصہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ اپنے پرائے کی تمیز نہیں کرتے۔ کچھ لوگ اسے حیوانی جبلت بھی کہہ سکتے ہیں۔ اگرچہ اندیشہ ہے کہ شیر کو حیوان کہنے پہ بلاگنگ کی دنیا کسی انقلاب سے دوچار نہ ہوجائے۔
شیر اس فعل کو خوب سوچ سمجھ کر انجام دیتا ہے کہ شیرنیوں کو شکار کی اور بچوں کی حفاظت کی ذمہ داری دے کر وہ زیادہ وقت  اپنی تولیدی صلاحیتوں اور اپنی حکومت کی حفاظت کے غور و فکر میں گذارتا ہے۔  جب شیرنیوں کو اس پہ اعتراض نہیں تو کسی اور کو وہ بھی ایک انسان کو اس پہ تاءو کھانے کی کیا ضرورت۔ میری اس بات کو بعض طبقے کسی خاص طبقے کی طرف اشارہ نہ سمجھیں۔ بخدا شیر ایسا ہی ہوتا ہے۔
   بات یہ ہے کہ شیر کسی انتخابی پارٹی کا نشان ضرور ہو سکتا ہے۔ لیکن خود شیر کو انتخابات میں کھڑے ہونے سے دلچسپی نہیں۔ وہ آمریت کو بغیر کسی شرمندگی کے پسند کرتا ہے۔ اسے دھاڑنا  آتا ہے جس سے جنگل کے جانور ایک دم قابو میں آجاتے ہیں  وعدے کرنا نہیں آتا کیونکہ جنگل کے جانور نہیں جانتے کہ وعدہ کیا ہوتا ہے وفا کسے کہتے ہیں۔ اس لئےکوئ اسکے شخصی معاملات کی جتنی کرید کرے۔ شیر کو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ ویسے بھی شیر طاقت کے استعمال پہ اتنا زیادہ یقین رکھتا  ہے کہ شیر کا منہ چوم کر طمانچہ کھانا پڑتا ہے۔ کس سے؟  اس میں نر مادہ کی تخصیص  نہیں اسی سے جس کا منہ چوما ہوتا ہے میرا مطلب شیر ہے۔
۔
۔
محاوروں کے سلسلے میں مزید چُل اٹھی اور کچھ اور کے بخئیے ادھیڑے ہیں۔ متائثرہ قارئین سے پیشگی معذرت۔
زیادہ بولنے والا ڈھول کی طرح خالی ہوتا ہے یہ ایک محاورہ ہے اسکا رد ہے زیادہ وہی بولتا ہے جسکے پاس بولنے کے لئے کچھ ہوتا ہے۔
غیر جانبداری ایک اچھا وصف ہے، یہ ایک خیال ہے اسکے مخالفین کا کہنا ہے کہ غیر جانبداری کا مطلب ہے کہ آپ ظالم اور مظلوم دونوں کو یکساں سمجھتے ہیں۔
اور سب سے مشہور جو بولنے سے پہلے تولتا ہے وہ عقلمند ہوتا ہے نہیں جناب، جو بولنے سے پہلے تولتا ہے وہ غیر مخلص ہوتا ہے۔

Wednesday, December 28, 2011

اچھی بلاگ پوسٹس

متھ کا سائینس اور شماریات سے کوئ تعلق نہیں۔  یہ خیالات کچھ مخصوص ماحول میں تقویت پا جاتے ہیں اور پھر انہیں پھاڑ کر ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے متھ بسٹر کی اصطلاح   گھڑنی پڑی۔
متھ کیا ہے؟ اسکی تعریف میں جائے بغیر ایک مثال دیتی ہوں۔ اگر کسی جوڑے کے یہاں لگاتار بیٹیاں ہوئے جا رہی ہیں اور انہیں یہ فکر ہے کہ بغیر وارث کے ہی اپنی سلطنت چھوڑنی پڑے گی تو آخری بچی کا نام بشری رکھ دیں۔ انشاءاللہ، اسکے بعد بیٹا ہوگا۔ ویسے یہ ایک متھ ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بشری ون، بشری ٹو قسم  کے سیکوئیلز کے بعد بھی آپکا کام نہ بنے۔
بلاگنگ میں بھی اسی طرح کی بہت ساری متھس ہیں۔ بالخصوص اردو بلاگنگ میں۔ مثلاً اچھی پوسٹ وہ ہے جس پہ بہت سارے تبصرے ہوں۔ یا اچھی پوسٹ وہ ہے جسے بہت سارے لوگ ویو کرتے ہوں۔
اب ہم دیکھیں تو اس معیار پہ وہ تحاریر زیادہ آئیں گی جن میں ہمارے یہاں مذہب کے ایک خاص ورژن سے ہٹ کر لکھی جانے والی تحاریر پہ مخالفین نے مناظرہ کیا ہو۔ انسانی زندگی میں دلچسپی کے مقامات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس لئے ان تمام تحاریر کو اچھی بلاگ پوسٹ کے زمرے میں کیا اس لئے رکھا جائے کہ ان پہ تبصرے زیادہ ہیں یا انکو ایک مدت میں بار بار لوگوں نے دیکھا ہے۔ اس لئے میری نظر میں یہ رائے ایک متھ ہے۔
پھر اچھی بلاگ پوسٹ کیا ہوگی؟
اچھی بلاگ پوسٹ وہ ہونی چاہئیے جسے آپ بھول جائیں مگر اس پہ ویوز آتے رہیں۔ محض سال بھر بعد وہ ایک بچکانہ بات نہ لگے۔
میں کچھ پھولوں کے بیج کینیڈا سے لیکر آئ۔ یہاں زمین کے حوالے کرنے سے پہلے میں نے انکے بارے میں سرچ کرنا ضروری سمجھا۔ ایک کے بعد ایک جب انکے نام سرچ پہ ڈالے تو درجنوں بلاگز سامنے آگئے۔ یہ بلاگز سالوں پہلے لکھے گئے تھے۔ مگر آج بھی میں نے انہیں کھولا اورانہیں مددگار پایا۔ 
میں انہیں اچھے بلاگز سمجھتی ہوں۔ ایک دفعہ ان بلاگز پہ جانے کے بعد میں نے انہیں یاد رکھا کہ تاکہ مزید مدد کے لئے دوبارہ انہیں دیکھ سکوں۔ ان میں سے کچھ معلومات بہترین ثابت ہوئ اور اس طرح میرا ان پہ اعتماد قائم ہوا۔
اسی طرح بلاگ لکھنے کے لئے موضوعات کا انتخاب۔ اس سلسلے میں بیرون ملک ویب سائیٹس سے آپ جتنی چاہیں مدد لیں لیکن اگر آپ اپنے معاشرے میں صحیح سے جذب نہیں ہوئے تو بلاگ کا موضوع ہمیشہ ایک مسئلہ رہے گا۔ باہر دیکھنے سے پہلے اپنے آپ کو یعنی اپنے ماحول کو خوب اچھی طرح سمجھ لیں۔
آپ باہر سے وہ خیال لا کر یہاں نہیں بو سکتے ہیں جس کے لئے یہاں کا موسم سازگار نہیں۔ مثلاًبیوی کو خوش رکھنے کے دس مغربی طریقے یہاں نہیں چل سکتے جو مغرب میں زیر استعمال ہیں۔ یہاں کا شوہر اس بارے میں فکر مند نہیں ہوتا کہ کپڑے دھوتے وقت ہلکے اور گہرے رنگ کے کپڑے الگ الگ دھونا چاہئیں۔ اور بیگم صاحبہ ، میاں صاحب کا یہ سگھڑاپہ دیکھ کر خوشی سے کھل اٹھیں گی۔  یہ اسکا درد سر نہیں۔ اسے اپنے کپڑے صحیح جگہ اور مقام پہ چاہئیے ہوتے ہیں۔ اس لئے صابن کے اشتہاروں میں وہ بیویاں خوش ہوتی ہیں جنکے شوہر انکے دھلے ہوئے کپڑوں کی تعریف کرتے ہیں۔
اچھی تحریر کے لئے لوگوں سے ملیں جلیں، عوامی جگہوں پہ جائیں، ٹی وی کو وقت دیں مگر اسی طرح جیسے کسی کتاب کو پڑھتے وقت آپ اندازہ لگاتے ہیں کہ اسکا ہر حرف پڑھنا ہے یا بس سرسری سا۔ اخبار پڑھیں اور کتابیں ضرور۔
اپنے آپ سے ملاقات کیجئیے اور جانئیے کہ خود آپکی دلچسپی کس رخ میں ہے۔ یہ بالکل ضروری نہیں کہ چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی۔ آپ اپنی دلچسپی کے میدان میں جادوئ صلاحیتیں رکھتے ہیں۔اور الگ سمت میں چل کر ہوا کو بھی اسی سمت میں چلنے پہ مجبور کر سکتے ہیں۔
چلیں پھر ہم کچھ بلاگنگ متھس کی فہرست بناتے ہیں۔
اچھی بلاگ پوسٹ، زیادہ تبصرے
اچھی بلاگ پوسٹ، زیادہ ویوز
اچھی بلاگ پوسٹ، جس سے زیادہ مبصرین متفق ہوں
اچھی بلاگ پوسٹ، جس میں کسی کی دل شکنی نہ ہو
اچھی بلاگ پوسٹ،  جو معاشرے کے رجحانات کے مطابق ہو
اور اگر کچھ آپکے ذہن میں ہو تو جمع کیجئیے۔

Saturday, December 24, 2011

مریم کا بیٹا اور میری بیٹی

بوہری بازار سے گذرتے ہوئے میری نظر ایک  بڑے سے ہرے رنگ کے درخت پہ پڑی جس پہ سجاوٹ کی اشیاء ٹنگی ہوئ تھیں۔ اوہ کرسمس آنے والا ہے مجھے خیال آیا۔ یہ منظر آنکھوں کو بڑا بھلا لگا۔ میری بیٹی بھی شور مچاتی ہے 'کرسمس ٹری' نظر آرہا ہے کہیں سانتا کلاز بھی تحفے لئے کھڑا ہوگا۔ بچوں کو ہر الف لیلوی چیز میں کشش محسوس ہوتی ہے۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے یر سال اسکی سالگرہ ایکدن پہلے پچیس دسمبر کو منانا پڑتی ہے، اس دن ہمارے یہاں قائد اعظم ڈے جو ہوتا ہے۔ حضرت عیسی کی طرح یہ بات بھی یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ یہ قائد اعظم کی صحیح تاریخ پیدائیش ہے۔
کراچی کا یہ حصہ بالخصوص مجھے بہت پسند ہے۔ یہاں جو ثقافتی رنگا رنگی نظر آتی ہے وہ شاید ہی ملک کے کسی حصے میں نظر آتی ہو۔ عیسائ، ہندو، پارسی، آغاخانی، ، بوہری اور بھانت بھانت کے دیگر مذاہب اور زبانیں بولنے والے خرید و فروخت میں مصروف۔ خواتین اسکرٹس، ساڑھی، شلوار قمیض، دوپٹہ، بغیر دوپٹہ، برقعہ، بغیر برقعہ ہر طرح کے کپڑوں میں ملبوس اور موجود۔ یہیں ، چند غیر ملکی بھی نظر آسکتے ہیں جو سستی، عوامی  اور اچھی خریداری کے لئے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
یہاں کی عمارتوں پہ گوتھک اثر نظر آتا ہے کہ بیشتر خوبصورت عمارتیں انگریزوں کے دور میں بنی ہیں۔ لوگوں کا ہجوم جس سے میں بچپن میں خوفزدہ ہو جاتی تھی اور گاڑیوں کا ہجوم جن سے میں اب خوفزدہ ہو جاتی ہوں۔
کراچی  کے بازار میں کراچی پہ صدقے واری ہونے کے بعد جب میں رات کو اپنا کمپیوٹر کھولتی ہوں تاکہ اپنے فیس بک دوستوں کی سرگرمیاں دیکھ سکوں تو سائیڈ پہ ایک اشتہار نمودار ہوتا ہے۔ بائیکاٹ کرسمس یہ مسلمانوں کا تہوار نہیں۔  کچھ اس طرح کی تصاویر شیئر کی ہوئ نظر آتی ہیں جن پہ لکھا ہے کہ 'میری کرسمس' نہ کہیں یہ کہنے سے آپ دائرہ اسلام سے باہر ہو جائیں گے۔
میں دائرہ اسلام سے باہر نکالے جانے کے خوف میں جلدی سے 'میری کرسمس' کے معنی ویکیپیڈیا پہ چیک کرتی ہوں۔ یہاں بڑی دلچسپ معلومات ہیں۔ مثلاً حضرت عیسی کی پیدائیش کا سال یقین کے ساتھ متعین نہیں یہ سن دو یا سات  قبل از عیسی ہے۔
چوتھی صدی میں پہلی دفعہ حضرت عیسی کی پیدائیش کا دن پچیس دسمبر رکھا گیا۔ اسکے  انتخاب کے بارے میں متضآد رائے ہیں۔ مثلاً یہ حضرت عیسی کے حمل قرار پا جانے کی تاریخ سے ٹھیک نو مہینے بعد رکھی گئ۔ صدیوں پرانے دیہاتی میلے کی تاریخ کو سامنے رکھ کر نکالی گئ۔ یا پھر یہ کہ رومن  موسم سرما کے تہوار کے مد نظر تجویز کی گئ۔
خود اس تاریخ میں اتنے اختلاف ہیں کہ اکثریت اسے پچیس دسمبر کو مناتی ہے، ایک اور بڑی تعداد چھ جنوری کو جبکہ بعض ممالک میں سات اور انیس جنوری کو مذہبی جوش و جذبے اور احترام سے گذاری جاتی ہے اور اس سلسلے میں چھٹی ملتی ہے۔
اسکے پس منظر کو سامنے رکھیں تو یہ دراصل ایک ایسا تہوار بن گیا ہے جس میں حضرت عیسی سے پہلے کو تہوار کو ضم کر کے عیسائیت اور سیکولیرزم کا ملغوبہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ 
جدید صنعتی دور میں اسکی اہمیت یوں ہے کہ چھٹی ملتی ہے،اچھا کھانا کھایا جاتا ہے، خاندان جمع ہوتے ہیں، تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے اور کاروباری مواقع بڑھتے ہیں۔

اب میری کرسمس کے معنوں کی طرف آئیں۔ وکیپیڈا کے مطابق،
The word "Christmas" originated as a compound meaning "Christ's mass". It is derived from the Middle English Cristemasse, which is from Old English Crīstesmæsse, a phrase first recorded in 1038.[6] Crīst (genitive Crīstes) is from Greek Khrīstos (Χριστός), a translation of Hebrew Māšîaḥ (מָשִׁיחַ), "Messiah"; and mæsse is from Latin missa, the celebration of the Eucharist. The form "Christenmas" was also historically used, but is now considered archaic and dialectal;
سادہ سی اردو میں یہ کہ کرسمس دراصل دو الفاظ کا مجموعہ ہے جس کا مطلب ہے کرائسٹ کا کھانا یعنی 'میری کرسمس' کا مطلب خدا کا کھانا مبارک ہو۔ اور اس سارے چکر میں مجھے کہیں بھی یہ بات پڑھنے کو نہیں ملی کہ'میری کرسمس' کا مطلب ہے خدا نے کرائسٹ کو جنا۔ جبکہ کرائسٹ کا مطلب ہے مسیحا۔
تو جناب، ہمارے مذہبی جذبے میں بڑھے ہوئے لوگ کچھ کہنے سے پہلے اس چیز کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے کہ اپنی بنیادی معلومات درست کر لیں۔ دائرہ اسلام سے خارج کرنے سے پہلے یہ تو سوچنا چاہئیے کہ اسلام کا دائرہ آخر کتنا چھوٹا یا کتنا بڑا ہے۔ اگر وہ نہیں سوچیں گے تو جسے باہر نکال رہے ہیں وہ ضرور سوچے گا۔
اسکے ساتھ ہی 'میری کرسمس' ان لوگوں کو جو اسے منا رہے ہیں۔ خدا اس زمین پہ انسانوں کو خوشیوں کے ہر گذرتے لمحے سے محظوظ ہونے کی نعمت دے اور میری بیٹی کو پانچویں سال گرہ مبارک ہو۔ وہ مجھ سے پوچھتی ہیں کہ آپ اللہ میاں کے تحفے کو کیا تحفہ دیں گی؟
میں اپنے بچے کو ایک ایسی دنیا تحفے میں دینا چاہتی ہوں جہاں لوگوں میں بنیادی برداشت ضرور ہو کہ یہی محبت اور امن کی ضرورت ہے۔ یہ بات انہیں سمجھ میں نہیں آتی لیکن یہ انہیں سمجھنا پڑے گی۔
مریم کا بیٹا محبت کا پیغام لے کر آیا تھا اور یہ ستم ظریفی ہے کہ آج دو ہزار سال بعد بھی مجھے اپنے بیٹی کے لئے اسی تحفے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔    

Thursday, December 22, 2011

عوامی سونامی

کوئ کہتا ہے کہ جیسے عوام ہوتے ہیں ویسے ہی حکمراں ان پہ نافذ ہوتے ہیں کچھ کا ارشاد ہے کہ جیسے حکمراں ہوں عوام بھی ویسے ہی ہو جاتے ہیں۔
اب ایک تازہ خبر ہاتھ لگی ہے۔ جس سے ہم کچھ اس قابل ہوئے ہیں کہ ان دو میں سے ایک قول کو قول صحیح قرار دیں۔ ہوا یوں کہ قصور یہ پنجاب کے ایک شہر کا نام ہے کسی کا قصور نہیں۔  یہاں تحریک انصاف کا جلسہ آج منعقد ہوا۔ جس میں تحریک انصاف کے انصاف کے مطابق عوام کو بھی بیٹھنے کے لئے کرسیاں فراہم کی جاتی ہیں۔
عوام کو کرسیوں پہ بٹھانے کے لئے  پہلے کبھی کسی نے کیوں نہیں سوچا۔ یہ ہم نے بارہا سوچا۔ اسکا اندازہ آج  ہوا جب جلسے کے اختتام پہ عوام کرسیاں لے کر فرار ہو گئے۔


ہم نے قصور کے عوام سے دریافت کیا کہ انہوں نے ایسا قصور کیوں کیا؟ لوگ عاشقی میں عزت سادات گنواتے ہیں انہوں نے محض کرسی کے لئے یہ بدنامی مول لی۔  ایک بڑی اکثریت نے اس کا الزام ایک نامعلوم قلندر پہ ڈالا۔
کرسی، کرسی کر گئ سب کو قلندر کی یہ بات 
تو اگر اسکی نہیں لیتا نہ لے اپنی تو لے
نا معلوم قلندر کا اتا پتہ معلوم کرنے کی کوشش ہم نہیں کر رہے فائدہ کیا ہم بھی دانا ہیں حضرت۔
کچھ نے کہا ہم نے تو نشانی کے طور پہ یہ کرسیاں محفوظ کر لی ہیں۔ جب وہ اپنی کرسی سنبھالیں گے تو انہیں دکھا کر ہم کہیں گے کہ کبھی ہمارے اور آپکے درمیان کرسی کا تعلق تھا۔ وہ تعلق جو تعلق سے بڑھ کر تھا۔ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔
کچھ ان کرسیوں کو تفصیلی طور پہ خود  چیک کرنا چاہتے تھے کہ ان پہ کس جگہ آئ ایس آئ کی چھاپ لگی ہوئ ہے۔ تاکہ سند حاصل ہو جائے۔ وہ قتل تو کرتے ہیں تو لیکن لوگوں کو اندازے لگانے کے مواقع کے ساتھ۔ یقین سے وہ خود بھی نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے کیا ہے۔
کچھ نےسوال کیا  کہ کرسی میں ایسی کیا کشش ہوتی ہے کہ سب کرسی کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ نے بتایا کہ کئ گھنٹے ہو گئے کرسی  لے کر دوڑ رہے ہیں لیکن ابھی تک قلبی اور جیبی کیفیت جوں کی توں ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ بیچ ڈالیں، سنا ہے آٹھ سو روپے کی ہے ایک کرسی۔  جیبی کیفیت ضرور تبدیل ہو جائے گی، سنا ہے کہ قلب کی کیفیت کا جیب کی کیفیت سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔
کرسی کی درگت اور تحریک انصاف کے تعلق پہ شاعری میں نئ اصلاحات سامنے آرہی ہیں۔  ایک شاعر نے کہا ہے کہ
لوٹا، کرسی اور طوفان
عمران خان، عمران خان
 کراچی میں کچھ لوگوں کو دلچسپی  ہے یہ جاننے سے کہ کیا جلسوں کی کرسیوں کی انشورنس کروائ جاتی ہے۔ اگر نہیں کروائ جاتی تو کرسی فراہم کرنے والوں کا کیا ہوگا۔ انکو اطلاع ہو کہ جلسے کے لئے کرسیاں قصوری صاحب نے خرید کر فراہم کی تھی۔ گھوڑے کے منہ سے خبر لانے والوں کا کہنا ہے کہ یہ انہوں نے اپنی متوقع حکومت میں اپنی متوقع کرسی کا صدقہ نکال کر خریدی تھیں، ایک کروڑ ساٹھ ہزار کا صدقہ، اندازہ کریں کہ اصل کرسی کی قیمت کیا وصولی جائے گی۔
عمران خان کہہ رہے ہیں کہ قصور سے اب اس سونامی کا رخ کراچی کی طرف ہے۔  سوال پوچھنے والے پوچھ رہے ہیں کون سی سونامی، کرسیوں کی سونامی۔ یہ اس قوم میں اب سوال کرنے کی عادت جڑ پکڑ رہی ہے جو ایک صحیح شگن نہیں بالخصوص سیاست کے لئے۔
یہاں ہمارے شہر کراچی میں پچیس دسمبر کو جلسے کے انعقاد کے لئے ہر کرسی پہ آیت الکرسی پڑھی جا رہی ہے تاکہ وہ محفوظ رہیں۔ اندیشہ ہے کہ جلسہ شروع ہونے سے پہلے اس سلسلے میں ایک اجتماعی دعا بھی کروائ جائے گی۔
ادھر شہر کی فرنیچر مارکیٹ والے پہلے خوش تھے دھڑا دھڑ، ادھر ادھر سے کرسیاں منگا کر اسٹاک جمع کر رہے تھے۔ کرسیوں کی مارکیٹ میں اضافے کا امکان تھا۔ بس ایک مرد کراچی، قصوری صاحب جیسا ڈھونڈھا جا رہا تھا۔ لیکن قصور کے عوامی جوش و خروش کو دیکھ کر انکا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔ وسوسہ ہے کہ کہیں منتظمین کا ارادہ نہ بدل گیا ہو۔ سواب نہیں معلوم کہ کراچی میں جلسے کے عوام دری پہ بیٹھے گی یا پھر کرسی ملے گی۔
عوامی سطح پہ کرسیوں کی اس چھینا جھپٹی نے ایک بات ثابت کر دی کہ جیسے حکمراں ہوں عوام بھی ویسے ہی ہو جاتے ہیں۔ آپ بتائیے صحیح ہے یا غلط؟

Saturday, December 17, 2011

حاصل، لا حاصل

تمام لکھنے والے انسان کے متعلق لکھتے ہیں اور لکھنا چاہتے ہیں۔ جب وہ ظاہری طور پہ ایسا نہیں کرتے جب بھی وہ ایسا ہی کر رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ انسان اس کائینات میں جس چیز کو سب سے زیادہ جاننے کی  خواہش رکھتا ہے وہ بھی حیرتناک طور پہ خدا نہیں انسان ہے۔
بانو قدسیہ کا ناول ہے 'راجہ گدھ'۔ ایک ناول جس میں انسان کی نفسیات کو شاید رزق کے حوالے سے دیکھنے کی کوشش کی گئ ہے۔ بانو قدسیہ ایک کہنہ مشق لکھاری اور ہمارے ملک کی ایک بڑی ادیبہ ہیں۔ خوش قسمتی سے اپنے پڑھنے والوں پہ اپنا اثر بھی رکھتی ہیں۔ کیونکہ غضب کے لکھنے والے تو ہوتے ہیں مگر پڑھنے والوں کو اپنے اثر میں لے آنا یہ ہر ایک کی قسمت نہیں ہوتی۔
انکے اس ناول سے میں نے ایک اصطلاح کا تعارف لیا، عشق لا حاصل۔ لا حاصل کا عشق انسان کو دیوانگی میں مبتلا کر دیتا ہے مجھے انکی تحریر سے یہ سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن یہ سمجھ نہیں آتا کہ عشق میں حاصل اور لا حاصل کی حد تمیز کہاں ہوتی ہے۔
عشق لا حاصل نہیں ہو سکتا۔ جو لا حاصل ہو وہ عشق نہیں ہو سکتا۔ اور ریاضی کے اس کلئیے سے تو ہم واقف ہیں کہ صفر سے جو چیز ضرب کھائے وہ صفر ہو جاتی ہے۔
ویسے عشق کا حاصل کیا ہوتا ہے؟ عرفان ذات، میرے خیال سے اگر عشق انسان کو عرفان ذات نہیں دیتا تو یہ عشق نہیں ہوتا۔
 انکے ناول میں رزق حلال اور حرام کے انسانی نفسیات پہ اثرات کا مطالعہ بھی آتا ہے۔ ہو سکتا ہے اسے پڑھنے والے بیشتر قاری اس سے متفق ہوں۔ مگر چند ایک اختلاف بھی رکھتے ہونگے۔ جیسے میں۔
کیونکہ عملی دنیا میں جو ہم دیکھتے ہیں وہ اس سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو کہ حلال زندگی نہیں گذارتے لیکن انکی اولاد یہ رجحان نہیں رکھتی۔ مثلا حضرت ابراہیم کے والد ایک بت تراش تھے جبکہ حضرت ابراہیم ایک بت شکن۔
 اس طرح رزق حلال انسان میں روحانی اطمینان تو پیدا کرتا ہے لیکن دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو حلال کماتے کھاتے ہیں پھر بھی سخت ترین دنیاوی آزمائیشوں میں گھرے رہتے ہیں اور یہ پے درپے آزمائیشیں ان سے دل کا سکون چھین لیتی ہیں۔ اور انسان یہ کہنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے ہیں۔
کیا انسانی اخلاق یا تقدیر کا تعلق رزق سے ہوتا ہے ؟
کیا حلال رزق کھانے والے اعلی اخلاقی کردار رکھتے ہیں اور حرام کھانے والے  رذیل کردار؟ کیا حلال کھانے والے آسان تقدیر رکھتے ہیں اور حرام کھانے والے مشکل؟
کیا حلال اور حرام رزق انسان کے ڈی این اے پہ اثر انداز ہوتا ہے؟ کیا مکافات عمل واقعی کوئ وجود رکھتا ہے؟

انسانی نفسیات یا مختلف رویوں کے ماءخذ، لکھنے والے کے لئے اسرار کی اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک انسان یا انسانوں پہ مشتمل ایک معاشرہ کیوں ایک خاص رویہ یا رجحان رکھتا ہے؟ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی کیوں ان چیزوں کا شکار ہو جاتا ہے جو اسے نا پسند ہوتی ہیں اور کیوں پسند کی چیزیں اس کی پہنچ میں نہیں آپاتیں؟ کیا یہ سب تقدیر ہے؟ لیکن کیا انسانوں کے لئے کوئ خاص قدرتی نہج موجود ہے؟ کیا سورج چاند ستاروں کی طرح انسان کے لئے بھی کوئ ایک مقررہ رستہ ہے یا اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے قدرت انہیں  الگ نظر سے دیکھتی ہے؟ قدرت اپنا یہ پیمانہ کس طرح مقرر کرتی ہے؟
 کل میں ایک اردو بلاگ سے گذری۔ یہاں  بلاگر نے اپنی اس تفصیلی پوسٹ میں جنس سے متعلق مختلف چیزوں پہ اپنے خیالات کو پیش کرتے ہوئے لکھا کہ جو بچے نفرت کے رشتے سے پیدا ہوتے ہیں وہ ذہنی طور پہ غیر متوازن شخصیت رکھتے ہیں اور صحت مند نہیں ہوتے۔
مصنف جنسی تعلق کو عبادت کے مقابل لاتا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ اگر عبادت میں خشوع و خضوع نہ ہو تو عبادت رائگاں ہوتی ہے۔ جنسی عمل میں بھی اگر صداقت نہ ہو تو یہ کمزور انسانوں کو وجود میں لاتا ہے اور کمزور انسان کمزور معاشرے کو جنم دیتا ہے۔ انکی اس تحریر سے میں نتیجہ نکالتی ہوں کہ ایک ایسے تعلق، جس میں جذباتی وابستگی نہ ہو، محبت نہ ہو، حاصل  لا حاصل کے برابر ہوتا ہے۔   
اگر عشق لا حاصل دیوانگی دیتا ہے اور اگر نفرت کا تعلق کمزور انسان  اور اگر یہ انسان کے ڈی این اے کو بھی متائثر کرتے ہیں تو یہ سلسلہ زنجیر کی مانند چلتے رہنا چاہئیے اور مستقبل ہمیں تاریک نظر آنا چاہئیے۔ لیکن ہمارے دلوں پہ امید کیوں دستک دیتی ہے۔ اور ہم مستقبل سے اپنے لئے کیوں خوشی چاہتے ہیں؟

Sunday, December 11, 2011

بچوں سے بڑوں تک

میری بچی نے جیسے ہی سامنے پڑا ہوا کھلونا اٹھایا اسکی ہم عمر میزبان بچی نے لپک کر اسکے ہاتھ سے لینے کی کوشش کی۔ یہ دیکھ کرمشعل نے اس پہ اپنی گرفت اور سخت کر دی۔ 'مجھے یہ اچھا لگ رہا ہے میں اس سے کھیلونگی'۔ اس نے احتجاج کیا۔ میزبان بچی نے کہا نہیں یہ میرا ہے۔ میں اس سے کھیلتی ہوں ۔ ماں نے کہا وہ تمہارے گھر مہمان آئ ہے تھوڑی دیر میں چلی جائے گی۔ تم اسکے ساتھ کھیل لو لیکن بچی نے یہ تسلیم نہیں کر کے دیا۔ میں نے مشعل کو سمجھایا کہ یہ تمہارا نہیں ہے اسکا ہے۔ واپس رکھ دو۔ لیکن اسے یہ بات نہیں سمجھ آ رہی تھی کہ سامنے اتنے سارے کھلونے موجود ہیں تو وہ کیسے ان میں سے کسی کو ہاتھ نہیں لگا سکتی۔
یہ سب کچھ ترقی یافتہ،  پہلی دنیا کے اس حصے میں ہو رہا تھا جہاں ٹی وی پروگرامز میں یہ نصیحت بچوں کو ہی نہیں والدین کو بھی بار بار کی جاتی ہے کہ شیئر کرو، شیئر کرنے کی عادت ڈالیں۔ چاہے وہ بارنی شو ہو یا ڈورا دی ایکسپلورر۔ 
 صرف یہی ایک گھر نہیں،  بلکہ ہم وہاں رہتے ہوئے جس گھر میں بھی گئے وہاں بچوں کا کم و بیش یہی رویہ تھا۔ گھروں میں ہر طرح کے کھلونوں کا ایک ڈھیر لگا ہوا لیکن میزبان بچے کو یہ فکر کہ آنے والا مہمان بچہ کہیں اسکے کھلونوں سے کھیلنے نہ لگے۔ اکثر بچے اس کے لئے مار پیٹ پہ آمادہ۔ وہ کھیلنے سے زیادہ اس باتکے لئے فکر مند تھے کہ نیا آنے والا بچہ کہیں انکی چیزوں پہ قابض نہ ہو جائے۔ چیزیں انکے لئے بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔
اسکے چند مہینے بعد ہم پاکستان میں گوادر جیسی پسماندہ جگہ پہ موجود تھے۔ نیم دیہاتی سا علاقہ جہاں بچے سارا سارا دن گلیوں میں گھومتے رہتے ہیں ایک دوسرے کے گھروں میں ٹہلتے رہتے ہیں۔ یہ نہیں معلوم چلتا کہ یہ حقیقتاً کس بچے کا گھر ہے۔  انکی دنیا میں  بہت محدود تعداد میں کھلونے ہیں۔ مگر حیرت انگیز طور پہ میں نے یہاں یہ گردان نہیں سنی کہ یہ میرا ہے۔
در حقیقت کسی بچے کو اسکی فکر ہی نہیں تھی کہ کیا میرا ہے۔ وہ صرف کھیلنا چاہتے ہیں آزادی سے، گھر میں، گلیوں میں، سمندر کنارے، مٹی سے، پانی سے، دوسرے بچوں سے۔
مگر دونوں جگہ کے  بڑے اپنے بچوں سے اتنے مختلف کیوں ہیں؟

Tuesday, December 6, 2011

وینا ملک ہائے ہائے

اظہار بھی مشکل ہے کچھ کہہ بھی نہیں سکتے
مجبور ہیں اف اللہ، چپ رہ بھی نہیں سکتے
ویسے تو خاموشی سنا ہے ہزار بلائیں ٹالتی ہیں۔ لیکن یہ محاورہ خاصہ پرانا ہو گیا ہے۔ جدید لغت کہتی ہے،  سب کہہ دو۔ لیکن ہوا یہ کہ وینا ملک کے موجودہ سنسنی خیز انداز پہ عوام ایک گوماگوں حالت میں ہیں۔ سب دیکھ سکتے ہیں اور دیکھ رہے ہیں لبوں میں انگلیاں دبائے پرسب کہہ نہیں سکتے اور کہنے کو اتنا کچھ ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کھوہ میں جا کر نکالیں۔  حسین جب  دکھ دیتے ہیں تو ایسے جان لیوا دکھ دیتے ہیں جنہیں کبھی رو کر اور کبھی ہنس کر سہنا پڑتا ہے۔
یہ سب باتیں تو ڈھکے چھپے انداز میں تقریباً سبھی کے پاس پہنچ چکی ہیں کہ وینا ملک کو تحریک انصاف میں شامل ہوجانا چاہئیے کہ انہوں نے اپنے تمام اثاثے ظاہر کر دئیے ہیں۔
کچھ لوگوں نے عدالت عالیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وینا ملک کی شہریت کینسل کی جائے اس پہ کچھ اور لوگوں نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ عدالت عالیہ کو وینا ملک کو عدالت میں بلا کر اس بات کی تصدیق چند مفتیوں کے سامنے کرنی چاہئیے کہ آیا وہ انکی تصویر ہے بھی یا نہیں۔
ادھر عمران خان بار بار عندیہ دے رہے ہیں کہ وہ اپنے اثاثے ظاہر کریں گے اور چند دانا کہہ رہے ہیں کہ
ظاہر وہ سب کریں پر نہ خدا کرے کہ یوں
یہ تصویر ایک عجیب معمہ سی بن گئ ہے. حالانکہ اسے ان تصویروں کے خانے میں رکھا جا سکتا تھا جو ناصح کا منہ بند کرنے کے لئے پیش کی جاتی ہیں۔
یا تنگ نہ کر ناصح ناداں مجھے اتنا
یا چل کر دکھا دے دہن ایسا، کمر ایسی
پر ایسا کیوں ہے کہ مجھ ایسے اوسط روایت پسند پاکستانی کو جسے اسے دیکھ کر منہ چھپانا چاہئیے  اسے دیکھ کر ہنسی  آنے لگتی ہے۔ کیا یہ تصویر پہ موجود الفاظ آئ ایس آئ کا کمال ہے۔

آخر اس پہ آئ ایس آئ کیوں لکھا گیا ہے؟

کیا اسکا مطلب ہے ایسے آئ ہے؟
کیا میمو گیٹ اسکینڈل کی طرح وینا ملک کی اس کھُلی تصویر میں کوئ پوشیدہ پیغام چھپا ہوا ہے۔ اس تصویر کا حقانی کون بنے گا؟
کیا ہماری محبوب آئ ایس آئ اتنی ترغیب دینے والی ادا رکھتی ہے؟
کیا آئ ایس آئ اپنے حسن کی داد پانے کو کچھ بھی کر سکتی ہے؟
کیا آئ ایس آئ اتنی دلیر اور جراءت مند ہے؟
کیا آئ ایس آئ کی پروڈکٹس اتنی دل لبھانے والی ہوتی ہیں کہ دوسرے اپنے اوپر قابو نہیں رکھ سکتے؟
کیا آئ ایس آئ استعمال کرنے والے اوسان خطا کرنے والی قوت حاصل کر لیتے ہیں؟
یا اسکا مطلب ہے کہ ہشیار باش آئ ایس آئ کی اس نئ پروڈکٹ سے بچ کر دکھائیں؟

 وینا ملک نے پہلے کہا کہ آئ ایس آئ کا نام تو یونہی دل پشوری کے لئے لکھا گیا تھا کیونکہ انڈیا میں کسی کو چھینک بھی آجائے تو وہ آئ ایس آئ کا نام لیتا ہے۔ لیکن اپنے تازہ ترین بیان میں وہ اس سے پھر گئیں۔ ایسے ہی جیسے مرتے وقت آنکھیں پھر جاتی ہیں۔ زمانے بھر کے حسینوں میں کچھ ادائیں کتنی مشترکہ ہوتی ہیں۔ اس لئے آرٹ مشترکہ وراثت کہلاتا ہے۔
  دنیا میں پچاس ادارے ایسے ہیں جنکا نام آئ ایس آئ ہے۔ انکا کہنا اب یہ ہے۔ یہ پٹی غالباً انکے وکیل نے پڑھائ ہے۔ حالانکہ وہ شرما کر یہ بھی کہہ سکتی تھیں کہ یہ اتفاق ہی ہے کہ میرے محبوب کے نام کا مخفف بھی آئ ایس آئ ہے مگر ایک تو اس سے انکی پبلک ڈیمانڈ میں کمی آجاتی۔ دوسرا یہ کہ تصویر کا تعلق اب تک کبیر شرما سے ہی جوڑا گیا ہے شرم سے نہیں۔  شرم، شرما اور اس تصویر کو اکٹھا کرنے سے فریم خاصہ ٹیڑھا ہو جاتا ہے۔ نیوڈ آرٹ کو سراہنے کے لئے شرم ایک بے جا چیز ہے۔ جس نے کی شرم اسکے پھوٹے کرم۔ 
سنتے ہیں کہ وزیر داخلہ رحمن ملک کو اس بارے میں تحقیات کا حکم ہے۔ تحقیقات شروع کرنے سے پہلے انہوں نے یقین دلایا کہ انہوں نے یہ تصویر نہیں دیکھی ہے اور 'اگر' وینا ملک کی کوئ ایسی تصویر موجود ہے تو انکے خلاف کارروائ ہو گی، 'سخت کارروائ'۔ یہ دھمکی انکے منہ سے بالکل وہی تائثر دے رہی ہے جو امریکہ کو دھمکی دیتے وقت معلوم ہوتا ہے۔
میں صرف یہ جاننا چاہتی ہوں کہ تحقیق کی وجہ سے رحمن ملک صاحب کو یہ تصویر دیکھنا پڑے گی۔ اسکا گناہ کس کے سر جائے گا؟
یہ نہیں معلوم کہ تحقیق کس بات کی کریں گے۔ اس کی کہ تصویر اصلی ہے یا نقلی؟ یا یہ کہ اسے توہین آئ ایس آئ کہا جائے کہ توہین حُسن؟
وینا ملک اس سے پہلے بھی ایسے صدمے دے کر خود کمال مہارت سے اپنے آنسو بہا اور دوسروں کے پونچھ چکی ہیں۔ چال چلن کہتا ہے کہ اگر وہ میدان سیاست میں صدق دل سے قدم رکھ دیں توعمران خان کے چھکے چھڑا دیں گی۔ آخر ان دونوں میں فرق ہی کیا ہے۔ وہ آ کے بیٹھے ہیں میکدے میں، وہ اٹھ کےآئے ہیں میکدے سے اور دونوں پہ ہی آئ ایس آئ کی چھاپ ہے۔ بس چند ندامتی آنسو ، سر پہ دوپٹہ، امریکہ کے خلاف نعرے وینا ملک ہائے ہائے کو وینا ملک آئے آئے میں تبدیل کر دے گا۔
  اب صرف یہی دلچسپ بات نہیں کہ اس دفعہ وہ کیسے اس سے جان چھڑاتی ہیں بلکہ یہ بھی کہ تخلیق کار کیسے اس ہائ اینٹرٹیمنٹ کو استعمال کر پاتے ہیں۔ کیونکہ اس راہ میں نکتہ ء تخلیق کچھ زیادہ واضح مقامات پیچ و خم سے گذر کر آ رہا ہے۔ ایسے میں تخلیقی الجھن یہ ہے کہ اس خطرناک چلمن کے کتنے قریب ہوں جو صاف دکھے بھی نہیں اور کچھ چھپے بھی نہیں مزید یہ کہ تخلیق کار کا دین و دل اپنی جگہ قائیم رہیں۔ 
پاکستانی زبان و بیان میں ایک نئ علامت بن کر ابھرنے والی اداکارہ کی ایک پچھلی ایک یاد۔
   
 


Sunday, December 4, 2011

کراچی میں محرم

اب یہ تو دینیات والے جانیں یا سوشیالوجی والے کہ کیسے مختلف رسوم و رواج مذاہب میں نہ صرف شامل ہوجاتے ہیں بلکہ اسکے جوش و خروش میں اضافے کا باعث بن جاتے ہیں مثلا میٹھی عید پہ سویاں یا شیر خورمہ بننا اور محرم میں حلیم بنانا۔
محرم میں حلیم کیوں بنایا جاتا ہے؟
اسکے بارے میں جو روایت ہم تک پہنچتی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ قافلہ ء حسین  جب ظلم یزید کا شکار دریائے فرات کے کنارے خیمہ زن تھا تو غذا کی کمی کو پورا کرنے کے لئے بچا کھچا تمام اناج ملا کر کھانا پکایا گیا تھا۔ اب یہ ارتقاء ہی کہلائے گا کہ شدید الم کے عالم میں بنایا جانے والا کھانا ہزار سال بعد حلیم جیسی لذیذ شے میں تبدیل ہو گیا اور آج ہم حلیم نائٹ مناتے ہیں۔
میری ایک جاننے والے خاتون ایک دن کہنے لگیں کہ سنّی مذہب میں ایک بنیادی بات بڑی اچھی ہے۔ وہ کیا؟ ہم نے استفسار کیا ۔ جواب ملا، وہ یہ کہ تمام مذہبی رسومات کھانے پینے سے تعلق رکھتی ہیں۔ گیارہویں شریف ہو، عید، بقر عید ہو یا رمضان شب براءت۔ ہر ایک کے ساتھ کھانا پینا جڑا ہوا ہے۔ اب محرم ہی کو دیکھ لو سنّی اس میں بھی حلیم پکاتے ہیں، کھلاتے ہیں اور کھاتے ہیں۔ حلیم تو حلیم، شربت کتنا بانٹتے ہیں۔
مگر یہ کام تو شیعہ بھی کرتے ہیں۔ ہم نے تو شیعوں کا حلیم بھی خوب کھایا ہے۔ میں نے انکی بات پہ حیرانی کا اظہار کیا۔ کہنے لگیں ارے پہلے انکے جتنی محنت تو کرو۔ پورے ڈھائ مہینے مجلسوں میں پے در پے شرکت کرنا، ڈھائ مہینے سوگ کے کرب میں مبتلا رہنا اور پھر کھانا پینا کرنا۔ اگر ایک دفعہ اس سارے عمل سے گذر جاءو تو پتہ لگ جائے گا۔ کتنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس کے مقابلے میں سنّی ہونا آسان اور مزے کا کام ہے۔
اچھا تو پھر یہ بات آپ بھی تسلیم کریں کہ صدیوں سے اس واقعے کو تصوراتی طور پہ قائم کرنا اور پھر اسکی منظر کشی میں سننے والوں کو شامل کرنا اس فعل نے انکی تخلیقی سلاحیتوں کو اتنی جلا دی ہے کہ آج پاکستان، ہندوستان میں نمایاں لکھنے والوں کی بڑی تعداد شیعہ مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔ میں نے ان سے کہلوانا چاہا۔ لیکن اسکے بعد تخیل اور تخلیق پہ ایک الگ گفتگو چلی۔ جو اس تحریر کے دائرے سے باہر ہے۔
بہر حال ایک سوال یونہی ذہن میں آگیا کہ کیا عقیدہ اپنے ماننے والوں پہ کوئ بنیادی اثر چھوڑتا ہے؟
 سنی اور شیعہ دونوں ہی محرم الحرام مناتے ہیں گو کہ الگ نظریات کے ساتھ لیکن اس سے شہر میں بڑی ہمہ رنگیت اور رونق  رہتی ہے۔ بقر عید کے مہینے سے ہی دوکانوں پہ کالے کپڑوں کا اسٹاک لگ جاتا ہے۔ اس دفعہ میرے ذہن سے بالکل نکل ہی گیا تھا اور بازار جا کر میں نے سوچا کہ اس دفعہ سردیوں میں لگتا ہے کہ کالا رنگ فیشن کے افق پہ چھایا رہے گا ہر دوکان پہ یہ رنگ ڈھیروں ڈھیرہے۔ لیکن نہیں یہ محرم کی تیاری تھی۔
ہم جہاں رہتے ہیں یہاں قریبی ہر نکڑ پہ امام بارگاہ موجود ہے۔ محرم  سے لے کر ربیع الاول تک ان امام بارگاہوں میں بڑی رونق رہتی ہے۔ امام بارگاہوں پہ روشنی کا خاص انتظام ہوتا ہے۔ اور ساتھ ساتھ اب سیکیوریٹی کا بھی۔ اگرچہ قریبی امام بارگاہ تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پہ ہے لیکن رات کو ایک بجے بھی میں نعرہ ء حیدری سن سکتی ہوں۔
اب سے چند سال پہلے تک سنّی بھی ان جلوسووں میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ پانچ چھ سال پہلے مجھے بھی نو محرم کو صدر کے علاقے میں جسے شاید محلہ خراساں کہتے ہیں رات گذارنے کا موقع ملا۔ ایک شیعہ دوست ساتھ میں تھے۔ سبیلیں لگی ہوئ ہیں۔ شربت بٹ رہا ہے۔ لوگ ایک قافلے کی صورت کالے کپڑے پہنے رواں ہیں۔  زنجیروں کا ماتم ہو رہا ہے۔ تعزئیے آ جا رہے ہیں۔ بچے ،خواتین ، بوڑھے جوان سب ان میں شریک ہیں۔  ساری کمیونیٹی اکٹھا ہے۔ سب اپنی سرگرمیوں میں مصروف۔ باہر نکلے تو  قائد اعظم کے مزار کے پاس دیگیں لائن سے لگی ہوئیں جانے کتنی۔ حلیم کی تیاری زوروں پہ۔
اب اس سارے قصے میں حلیم پھر سے آگیا۔ حالانکہ  محرم کا بنیادی الم کا موضوع پانی کی عدم دستیابی وہ بھی ایسی کہ دریا کا پانی چند گز کے فاصلے پہ موجیں مار رہا ہے مگر اس تک پہنچنے کے لئے خون کا دریا پار کرنا ہے۔
اور جبکہ ہمارے شیعہ دوست بتا رہے تھے کہ کس طرح انکا سلسلہ ء نسب کس امام سے جا کر ملتا ہے۔ میں اپنی والدہ کا بچپن دیکھ رہی تھی جو لکھنوء میں گذرا۔ اور جہاں انکے بقول محرم میں چاہے گھر والے جائیں یا نہ جائیں ہم بہن بھائ مجلسوں میں جاتے تھے تبرکات کھانے کے لئے چپکے سے گھر سے فرار ہو کر۔
اس وقت ایسی کوئ منادی نہیں تھی کہ  شیعہ مجالس میں سنّی نہیں جائیں گے۔ لکھنوء میں تعزئیے بڑے خوبصورت بنائے جاتے تھے اور انکے والد یعنی ہمارے نانا اپنے بچوں کو تعزئیے دکھانے بھی لے جاتے تھے۔ان تعزیوں اور جلوسوں کا تذکرہ رجب علی بیگ نے بڑے اہتمام سے اپنی ایک تحریر میں کیا ہے۔ یہ تقسیم ہندوستان کے خاصے بعد کی بات ہے۔ آجکل تو وہاں بھی ان جلوسوں پہ پابندی ہے۔ 
البتہ یہ کہ میرے والد صاحب ہجوم والی جگہوں پہ بچوں کو نہیں جانے دیتے۔ انہیں اس بات  کی پریشانی رہتی تھی کہ بچے ادھر ادھر نہ ہو جائیں۔ ہم   نےبھی مختلف پالے ہوئے خوف کی بناء پہ کبھی والدین کی آنکھوں میں دھول جھونک کر  ان جلوسوں کو دیکھنے کی کوشش نہ کی۔
ادھر لکھنوء میں تو تعزئیے سنّی بھی بنایا کرتے تھے۔ خود میرے بچپن میں، یہاں کراچی میں ایک دوست کے گھر میں محرم میں اجرت پہ تعزئیے بناتے تھے۔ انکے گھر میں، میں نے بڑے خوبصورت تعزئیے رکھے دیکھے۔ مجھے تو وہ اس وقت پریوں کے گھر لگا کرتے تھے۔
وقت گذر گیا، ہر طرح کا وقت گذر ہی جاتا ہے۔ اب بھی اس شہر میں حلیم کی دیگیں چڑھتی ہیں، بچے سبیلوں کے چندے مانگتے ہیں، شربت بانٹا جاتا ہے۔ لیکن اب دل میں یہ خوف رہتا ہے کہ دیکھیں کہاں سے کس وقت دھماکے کی یا فساد کی خبر آتی ہے۔
روڈ پہ میں نے بڑے بڑے بینرز لگے دیکھے عشرہ ء عمر و حسین۔ مذہبی رواداری پیدا کرنے کی ایک اچھی مثبت کوشش۔ اس بات کو دوہراتے ہوئے کہ نہ ایک نظریہ مکمل طور پہ ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ دوسرا نظریہ مکمل طور پہ چھا سکتا ہے۔ اختلاف میں خوبصورتی ہے۔ ہم  نعرہ ء حیدری کے درمیان حلیم کھاتے ہیں۔ پانی کے لئے یہ کہ پانی پیو تو یاد کرو پیاس حسین کی۔

Thursday, December 1, 2011

میرے مسائل اور انکا حل

جس طرح ماہر جدی پشتی حکیم یہ دعوی کرتے نظر آتے ہیں کہ ہر مرض کاعلاج موجود ہے اسی طرح میں بھی کہہ سکتی ہوں کہ ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔
حالانکہ کبھی کبھی گمان گذرتا ہے کہ اکثر ہمارے مسائل اس لئے پیدا ہوتے ہیں کہ انکے حل ہمارے پاس نہیں ہوتے۔ اس طرح سے انسان مکڑی کی طرح خلوت کی زندگی گذارنے کے بجائے چیونٹیوں کی طرح سماجی جانور بننے پہ مجبور ہو جاتا ہے۔
اگر آپ یہ جانتے ہیں کہ آپکے کسی مسئلے کا حل کہاں سے ملے گا تو یہ ایک خوش قسمتی ٹہرتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ ذریعہ آپکی پہنچ میں ہے یا نہیں۔
مجھے بھی آجکل کچھ مسائل کا سامنا ہے۔ مسئلہ نمبر ایک تو یہ کہ میرے بلاگ کی فیڈز مختلف ایگریگیٹر پہ آنا بند ہو گئیں۔ سب سے پہلے میں یہ بات اردو سیارہ پہ نوٹ کی۔ خیال گذرا کہ انہیں مجھ سے کچھ دبی دبی سی شکائیتیں رہتی ہیں۔ اس لئے شاید اب جان چھڑانی چاہی ہو۔ لیکن نہیں اس بد گمانی کے ساتھ یہ بھی تھا کہ انکی بلاگر لسٹ پہ میرا نام اور اسکی فیڈ اب بھی موجود ہے۔
فیس بک پہ یہ الجھن عرض کی تو جناب محمد بلال محمود صاحب نے خیال ظاہر کیا کہ ہو سکتا ہے فیڈ برنر کے ساتھ کچھ مسئلہ ہو۔ انکے دئیے ہوئے لنک پہ دیکھا تو معلوم ہوا کہ اگر آپکا بلاگ ۵۱۲ کلو بائیٹس سے زیادہ بڑھ جاتا ہے تو آپکی فیڈ بند ہو جائے گی اور یہ دوبارہ اسی صورت بحال ہو گی جب اس میں توسیع کی جائے۔ اسکے لئے طریقہء کار دیا ہوا تھا۔ اس پہ عمل کیا۔  توسیع تو مل گئ لیکن پتہ تبدیل ہو گیا۔ یہ نیا پتہ عثمان، کو دیا کہ سیارہ کی انتظامیہ کو دے دیں۔ کیونکہ ہم نے ان سے جس پتے پہ  رابطہ کیا اس پہ  جواب ندارد۔ عثمان نے اطلاع دی کہ وہ دے چکے ہیں۔ شاگرد عزیز کا شکریہ۔
اب اس بات کو بھی کافی دن گذر گئے ہیں۔ اس لئے اپنے قارئین سے گذارش ہے کہ اس بلاگ سے رابطے میں رہنے کے لئے چاہیں تو سبسکرائیب کر لیں ۔
ادھر ٹی بریک والوں سے بھی بات کی جس دن انہیں ای میل بھیجی اسی دن جواب آگیا کہ آپ اپنا بلاگ ایڈریس بھیجیں ہم چیک کرتے ہیں کیا مسئلہ ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ انکے اپنے گوگل کے ساتھ مسائل چل رہے ہیں اور وہ اسے نبٹا رہے ہیں۔ اسکے بعد وہ ہمارے مسئلے کو دیکھیں گے۔
خیر مستقل قارئین کا بے حد شکریہ کہ وہ اس بلاگ سے رشتہ استوار رکھے ہوئے ہیں۔

دوسرا مسئلہ ذرا دلچسپ ہے۔  بلاگ سے ہٹ کر ایک تحریر کے لئے کچھ تحقیق کرنی ہے۔ اسکے لئے ان لوگوں کا تعاون درکار ہے جنکے والدین یا بزرگ انیس سو سینتالیس میں تقسیم کے نتیجے میں پاکستان آئے اور جو مشرقی پنجاب یا راجستھان سے تعلق رکھتے ہوں۔ میں ان سے گفتگو کرنے میں دلچسپی رکھتی ہوں۔ اگر آپکے ارد گرد کوئ ایسا شخص موجود ہے تو میں اس سے اسکائپ کے ذریعے  یا کسی ایسے ذریعے سے بات کرنا پسند کرونگی جس تک وہ بآسانی پہنچ سکیں اور انکا کوئ خرچہ بھی نہ ہو۔ مجھ سے رابطے کے لئے یہ ای میل ایڈریس ہے۔
 aniqaamar@yahoo.com
آجکل ایک بلاگی ساتھی کے کینیڈا میں مقیم ایک بزرگ سے اسی طرح، اس موضوع پہ بات ہو رہی ہے
اس مسئلے کا ایک اور حل بھی سامنے آیا جب کسی نے مجھے یہ بتایا کہ کراچی میں اورل ہسٹری کے نام سے ایک پروجیکٹ پہ سٹیزن آرکائیو والے کام کر رہے ہیں اور انکے پاس ایسے لوگوں کے ریکارڈ کئے ہوئے انٹرویوز اور تصویریں موجود ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ انکے پاس ایسے لوگوں سے رابطہ کرنے کے لئے پتے بھی موجود ہوں۔ انکے ایک نمائیندے سے معلومات کیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ انہیں ای میل کر کے درخواست بھیجیں۔ وہ ضرور اسکا جواب دیں گے۔
بات تو صحیح ہے انہوں نے یہ ہسٹری جمع تو اسی لئے کی ہو گی کہ جو اس سے مستفید ہونا چاہے اسے آسانی سے مل جائے۔ چنانچہ انہیں ایک ای میل کر دی۔ اب دو دن سے منتظر ہوں کہ کیا وہ بھیجتے ہیں جواب میں۔
ہر مسئلے کا حل موجود ہے نہیں ہے تو نکل آئے گا۔ نہ نکلے تو ایک مسئلے کو کیا دل سے لگا کر بیٹھیں رہیں۔ اگلے والے کو پکڑ لیں۔ بعض اوقات اگلے والوں پہ کام کرنے سے پیچھے والے خود درست ہو جاتے ہیں۔ کیا خیال ہے؟ 

Monday, November 28, 2011

سوشل میڈیا کے عہد میں محبت

شاعر نے صحیح کہا تھا کہ مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ۔
تصور کریں، چند سال پہلے جو شخص آپکی محبت میں مبتلا ہونے کے دعوے کرتا ہو وہ ایک دن یہ بہانہ بنا کر آپکی زندگی سے چھلاوے کی طرح غائب ہو جائے کہ میں اپنے والدین سے بغاوت نہیں کر سکتا، اماں بیلن سے پٹائ لگادیں گی ابا اٹھک بیٹھک کرنے سے لگا دیں گے۔  پھوپھی کی بیٹی کے نندوئ کو ہماری شادی پہ شدید اعتراض ہوگا۔  محلے کا کتا آپکو دیکھ کر عجیب طرح سے بھونکتا ہے۔ آپ مدنی برقعہ پہن کر چل نہیں پائیں گی  جبکہ والد صاحب کو اس برقعے میں کیٹ واک کرتی بہو چاہئیے۔ آپکی نشیلی آنکھیں پہلے عشق کی یاد دلاتی ہیں، ہم کہاں تک اسے یاد کرتے جائیں۔  چڑیل یا لنگور منگیتر کو یہ آئیڈیا زہر لگتا ہے۔
پھر ایک عرصے کے بعد جب اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا کہہ کر اپنے کام دھندوں میں لگ جاتے ہیں، وہ اچانک فیس بک پہ نمودار ہوتا ہے اور یہ جاننا چاہتا ہے کہ آپ وہی ہیں ناں جن سے کبھی دل کا رشتہ استوار ہوا تھا۔ اور جب آپ اسکا جواب اثبات میں دیتے ہیں تو وہ اگلا پیغام اس طرح کا دیتا ہے میں آجکل فلاں ملٹی نیشنل کمپنی میں سالانہ لاکھوں روپے کما رہا ہوں۔ ایک خوبصورت اور محبت کرنے والی بیوی ہے اور دو انتہائ پیارے بیٹے۔ بس یہ سب اللہ کا فضل و کرم ہے۔ 
اگر آپ ایک مرد ہیں تو ایسا شاذ ہی ہوگا کہ آپ پہ ایک زمانے میں واری کوئ خاتون  آپکو فیس بک پہ ڈھونڈھ نکالے محض یہ بتانے کے لئے کہ اسکا شوہر ایک مالدار شخص ہے حسین بچے ہیں جو اعلی اسکولوں میں پڑھتے ہیں اور پروردگار کے کرم سے اسے دنیا کی ہر آسائیش میسر ہے۔ لیکن پھر بھی ایسا ہو تو آپ کیا کریں گے؟
کیا عشق کے عین، شین اور لام قسم کی تحاریر پہ دو حرف بھیج کر پروردگار کا شکر ادا کریں گے کہ بر وقت شادی کر کے آجکے دن اپنی ساکھ بچا لی۔ اپنے جیون ساتھی پہ ایک پیار بھری نظر ڈالیں گے جس سے وہ بےساختہ پوچھ بیٹھے گا کہ بدلے بدلے میرے سرکار نظر آتے ہیں اور آپ زیر لب گنگنائیں گے یہ اسکی دین ہے جسے پروردگار دے۔
کوئ شخص اگر نوجوانی میں مر جائے تو یاد کرنے والوں کے دل میں ہمیشہ جوان رہتا ہے مگر خدا ایسا دشمن کے ساتھ بھی نہ کرے کہ محبت یوں ڈراءونا بھوت بن کر سامنے آکھڑی ہو۔ اور آپ دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کریں کہ چلو اچھا ہوا بارہ آنے کا گلاس یعنی ایک دل ہی ٹوٹا، مستقبل بچا رہا۔ دل کے متعلق تو غالب نے پہلے ہی تاکید کر رکھی ہے  اور لے آئیں گے بازار سے اگر ٹوٹ گیا۔ اور جہاں میں کون ایسا ہے جو غالب کا طرفدار نہیں۔
ویسے اکثر یہ سوال بھی ذہن میں آتے ہیں کہ یہ اللہ کا فضل و کرم مطلقاً کیا چیز ہوتی ہے؟ کیا ایسی چیز جو ایک شخص کے لئے ستم کا باعث بن جائے دوسرے کے لئے فضل اور کرم کہلائ جا سکتی ہے؟ کیا اللہ کا فضل وکرم کوئ آفاقی چیز نہیں؟ کیا دوسری محبت آجانے کے بعد پہلی محبت حرف غلط کی طرح مٹ جاتی ہے؟ چلیں اچھا اگر مٹ بھی جاتی ہو تو کیا پہلی محبت پہ اپنی موجودہ خوشحالی اور خوشی و انبساط کو ظاہر کرنا ضروری ہوتا ہے؟
کتا کچھ لوگوں کو دیکھ کر عجیب طریقے سے کیوں بھونکتا ہے؟
پھوپھی کی بیٹی کا نندوئ ایسے مواقع پہ اتنا مددگار کیوں ہوتا ہے؟ 
بچپن کا / کی منگیتر اتنی اچانک کہاں سے وارد ہوجاتا / ہو جاتی ہے؟
جو والدین کے خلاف بغاوت نہیں کر سکتے وہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنے پہ کیوں آمادہ رہتے ہیں؟
برقعے میں کیٹ واک سکھانے کے ادارے کیوں نہیں ہیں؟
شراب کو حرام کہنے والے نشیلی آنکھوں پہ کیوں فدا رہتے ہیں؟
پہلی اور دوسری محبت کا فیصلہ کیا تاریخ دیکھ کر ہوتا ہے؟
واللہ، بس اسی لئے مجھے فلسفہ ء محبت کی گہرائیوں میں جانے سے گریز رہا۔
 اب یہ نہ سمجھئیے گا کہ
 بلاگنگ کر رہا ہوں، کبھی فیس بک پہ جا رہا ہوں
کسی بے وفا کی خاطر سوشل میڈیا آزما رہا ہوں
مجھے تو صرف یہ کہنا ہے اللہ تیرا شکر ہے۔

Friday, November 25, 2011

تبدیلی کا ایوارڈ

بلاگرز کی اکثریت بلاگ ایوارڈز میں مصروف ہے۔ میں نے اسے پہلے نظر انداز کئے رکھا کہ میرے ذاتی خیال میں ایوارڈز میں لابنگ کا خاصہ حصہ ہوتا ہے اور جب بلاگ ایوارڈز والے خود ہی کہہ رہے ہیں کہ ووٹ کے لئے اندھا دھند لوگوں پہ چڑھ دوڑیں تو یہ تو ہمارے ایک دوست کے بقول جمہوری ایوارڈ ہو گئے۔ اور پاکستان کی  جمہوریت ہم سب کی دیکھی بھالی ہے۔  پھر ایک اور ساتھی کے اصرار پہ نومینیشن کی کوشش کی، ایجنٹ آف چینج کی کٹیگری میں اپنے بلاگ کو ڈالنے کی ہمت کی۔ یہ نومینیشن شاید ہماری کسی غلطی کی وجہ سے نہ ہو سکی۔ اب ہم آرام سے ہیں۔
سو آجکل فیس بک پہ لوگ ووٹ مانگتے نظر آتے ہیں۔ ان سے جان چھڑانے کے لئے لوگوں نے اپنی دیواروں پہ یہ نہیں لکھا کہ دیکھو یہاں کتا پیشاب کر رہا ہے۔ البتہ جعلی ووٹ ڈالنے کے طریقے بتا دئیے ہیں۔ ہائو سوئیٹ۔ میں نے نوٹ کیا کہ اسکے بعد ووٹ مانگنے کے اسٹیٹس کم نظر آئے۔
ایک بلاگ اسٹیٹس ایسا بھی نظر آیا جو اپنے لئے نہیں میڈیا کے ایک مشہور صاحب کے لئے ووٹ مانگ رہا تھا۔ یہ صاحب انگلش میں بلاگنگ کرتے ہیں۔  کیا آپکو نہیں لگتا کہ جب انسان دنیا میں بہت کچھ حاصل کر لیتا ہے تو اسے کم از کم چھوٹی موٹی چیزوں کو اس لئے چھوڑ دینا چاہئیے کہ خاص طور پہ نوجوان کم از کم اسی کی تگ و دو میں مصروف رہیں۔ آخر تبدیلی کا عمل کہاں سے شروع ہوگا؟ جن کی طرف سے یہ اسٹیٹس تھا وہ پاکستان میں انقلابی تبدیلی کے خواہاں ہیں۔
ویسےسوشل میڈیا پاکستان میں کافی سرگرم ہے۔ لیکن پاکستان میں اسکے وہ اثرات نظر نہیں آتے جو ہم باقی ممالک میں دیکھتے ہیں۔ کیونکہ سوشل میڈیا پہ جو لوگ تبدیلی کے متعلق بہت زیادہ بات کرتے ہیں یہ وہ ہیں جو اپنے رابطے کی زبان اردو کو اپنی سوچ کی ترسیل کے لئے استعمال نہیں کرتے۔
اس سے میں تو یہی اندازہ لگاتی ہوں انہیں عوامی پیمانے پہ تبدیلی کی خواہش نہیں۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ عوام کے دیوتاءووں میں تبدیلی آجائے،ایسی تبدیلی جس میں انکے طبقے کو کوئ نقصان نہ پہنچے۔
اس لئے جب شعیب صفدر صاحب نے یہ بتایا کہ پچھلے سال ان ایوارڈز کی انتظامیہ کی توجہ انہوں نے اس طرف دلائ کہ اردو بلاگنگ بھی اپنا ایک منحنا وجود رکھتی ہے اور اسکے لئے بھی کسی خاص ایوارڈ کا اعلان ہونا چاہئیے۔  انتظامیہ نے انکی اس التماس پہ اردو کے لئے بھی ایک حصہ مختص کیا ۔ تو اس سے مجھے برصغیر میں انگریزوں کا دور یاد آگیا۔ ان سے بھی بر صغیر کے عوام کے لئے ایسی ہی درخواستیں کرنی پڑتی تھیں۔ انکا بنیادی مسئلہ تو یہ تھا کہ وہ یہاں سے تعلق نہیں رکھتے نہ جسمانی نہ جذباتی۔
مزے کی بات یہ ہے کہ یہ وہی اردو زبان ہے جسے بچانے کا ایجنڈا تحریک پاکستان کا حصہ تھا۔ تحریک کی صرف ایک چیز یاد رہی پاکستان کا مطلب کیا اور باقی سب بھول گئے۔ اسی پہ آج تک سارے جھگڑے چل رہے ہیں۔
میں اپنے ایک اور دوست کو یہ بات بتا رہی تھی کہنے لگے یہ ایوارڈز کروا کون رہا ہے۔ میں نے بتایا کہ یہ گوگل والے مرکزی کردار ہیں۔ کہنے لگے جو کروا رہے ہیں یہ سب سی آئ اے کے ایجنڈے پہ کام کرتے ہیں۔ انہیں عوام سے کیا مطلب، انکا مقصد پاکستان میں خواص کو خوش اور مصروف رکھنا ہے۔ اس لئے وہ اردو کی طرف کیوں توجہ کریں گے؟ کیا آپ نے یہ نہیں نوٹس کیا کہ اردو کو اب تک گوگل پہ سپورٹ حاصل نہیں۔ اردو میں بلاگنگ کرنے کے لئے مقامی نوجوانوں کے تجربات کی بھٹی سے گذرنا پڑتا ہے۔ وہ تپے ہوئے تھے۔ حالانکہ وہ بلاگر بھی نہیں ہیں۔
ہاں لیکن وہ کہتے ہیں کہ اردو مواد اتنا موجود نہیں ہے۔ میں نے دفاع کیا۔ اچھا تو تیلگو مواد موجود ہے جو بھارت کی علاقائ زبان ہے۔ انہوں نے مجھ سے سوال کیا۔ جس خطے میں انہیں جیسی تبدیلی چاہئیے ہوتی ہے وہ ویسی ہی سپورٹ رکھتے ہیں۔ یہاں ابھی وہ عوامی سطح کی تبدیلی نہیں چاہتے، اس لئے سوشل میڈیا پہ انگریزی کا قبضہ ہے۔ انگریزی کا جو نہ صرف اشرافیہ کے رابطے کی زبان ہء بلکہ جو ان اشرافیہ کو بیرونی طاقتوں سے فنڈنگ حاصل کرنے میں بھی مدد دیتی ہے۔ آپ کوشش کر لیں کہ اردو بلاگنگ کو آسان بنانے کے لئے کہیں سے فنڈنگ مل جائے۔ نہیں ملے گی۔ یہ انکا دعوی ہے۔ لیکن میں ایسی کوشش نہیں کرنے جا رہی۔ اسکی وجہ میرا ٹیکنیکلی زیرو ہونا ہے۔
یہ بیرونی طاقتوں کی بات تو ایک طرف خود اردو بلاگنگ انتہائ مخدوش حالت میں ہے۔ حالانکہ میرے اندازے کے مطابق اسے کوئ دس سال کا عرصہ ہو رہا ہے۔ لیکن اردو بلاگنگ نے جو مواد دیا ہے وہ قطعی ایسا نہیں کہ کوئ اس سے بار بار مستفید ہونے کے لئے آئے۔ قطعی غیر متائثر کن۔
اب اردو بلاگرز کو دیکھیئے، ان کی اکثریت ناپختہ ذہن کی مالک ہے یا یہ کہ وہ اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو پچھلے چالیس سالوں کی سیاسی اور مذہبی جدو جہد کے نتیجے میں آئ ہے یا یہ کہ انکی اکثریت بلاگنگ کو غیر سنجیدہ لیتے ہیں۔اور وہ انتہائ بے کار کی باتوں پہ بخوشی اپنا وقت لگاتے ہیں۔ اسکا فیصلہ میں آپ پہ چھوڑتی ہوں۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ چند ایک بلاگز کو چھوڑ کر انگریزی بلاگرز بھی کوئ تیر نہیں مار رہے ہیں۔ لیکن یہ کہ بہرحال انگریزی بلاگرز موضوعات کا تنوع رکھتے ہیں۔ کل ہی ایک خاتون بلاگرہ سے ملاقات ہوئ جنکے بلاگ کا موضوع ہے گملوں میں پودے کیسے اگائیں۔  
جبکہ اردو بلاگز صرف دو طرح کے رجحانات رکھتے ہیں ایک جگت بازی، یعنی آئیے مل کر مذاق اڑائیں اور اگر وہ کوئ اور اردو بلاگر ہو جو مشترکہ طور پہ برا لگتا  ہو تو رنگ چوکھا دوسرا، آئیے مذہب کی تبلیغ کریں۔
ایک اور سوچ یہ ہے کہ اردو بلاگرز لگتا ہے اردو سیارہ کے لئے لکھتے ہیں۔ہم خیال بلاگرز ایکدوسرے کی ہاں میں ہاں ملا کر داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے ہیں اور اللہ اللہ خیر صلّا۔  یہی وجہ ہے کہ اردو بلاگرز کے درمیان چپقلش اتنی بڑھ جاتی ہے کہ سیارہ پہ بلاگرز کے گروپ بن جاتے ہیں۔ بلکہ گروپ والی میری یہ بات بھی غلط ہی ہوگی کہ سیارہ بظاہر ایک خاص طبقے کا مرکز لگتا ہے چاہے وہ ایسا شعوری طور پہ  نہ کرتے ہوں۔
نتیجتاً اکثریت کے مزاج کے خلاف بات کرنے والے کو سیارہ سے باہر ہونا پڑتا ہے بعض دفعہ انکی انتظامیہ ایسا کرنے پہ مجبور ہوتی ہے اور بعض اوقات وہ بلاگر ہی اس جنجال پورے سے نکلنے میں عافیت سمجھتا ہے۔ ہر دو صورت میں وہ بلاگر اردو بلاگنگ چھوڑ دیتا ہے۔ 
مجھے نہیں معلوم کہ انگریزی بلاگنگ کے کسی ایگریگیٹر پہ یہ صورت حال پیدا ہوئ ہو اور لوگ اس ایگریگیٹر پہ صرف لڑائ کا مزہ لینے جاتے ہوں۔ اس لئے میں اسے ناپختہ رجحان میں رکھتی ہوں۔ اپنے آپکو بین الاقوامی سطح پہ دیکھنے کے بجائے کسی کچی آبادی کے کسی متوقع ڈیڈ اینڈ پہ دیکھنا اور خوش ہونا کہ خدا کا شکر ہے یہ دنیا یہی تک ہے اور میں اس چھوٹی سی دنیا میں محفوظ و مامون ہوں۔

ہم واپس ایوارڈز کی طرف آتے ہیں، ویسے تو ایوارڈز بانٹنا کوئ آسان کام نہیں۔
اگر آپ پاکستان میں کسی تبدیلی کے خواہاں ہیں تو ان ایوارڈز میں ووٹ ڈالتے وقت بلاگ کی کارکردگی کو ضرور دیکھیں ، چاہے آپ بلاگر کے نانا یا بھانجے یا دوست یا قبیلے کے ہوں اگر آپ اپنا یہ ووٹ صرف دوستی کا خراج ادا کرنے کے لئے دیتے ہیں تو پھر یاد رکھیں کہ جب حکمرانوں کی باری آئے گی تب بھی آپ یہی کریں گے۔ 
کیا میں امید کروں کہ کسی ایسے بلاگ کو ایوارڈ نہیں ملے گا جسے اس فہرست میں دیکھ کر میں سوچوں کہ اسے کس وجہ سے ایوارڈ ملا؟ اور اسکا پہلا جواب ہو اقرباء پروری۔



Saturday, November 19, 2011

مہمان کچھوے

 کیا آپ کراچی کی ایک اہم خوبی سے واقف ہیں جو آپ نہیں جانتے مگر کچھوے جانتے ہیں؟
دنیا کے بڑے شہروں میں کراچی کو ایک امتیازی حیثیت یہ بھی حاصل ہے کہ اسکے ساحل کو سبز سمندری کچھوے انڈے دینے کے لئے پسند کرتے ہیں۔
یہ کچھوے تیزی سے ختم ہوتی ہوئ حیاتیاتی نسل میں شامل ہیں۔ عالمی تحفظ حاصل ہونے کے بعد انہیں بچانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اور وہ ساحل جہاں یہ انڈے دیتے ہیں وہاں انکے انڈوں اور نکلنے والے بچوں کو بچانے کا معقول انتظام کیا جاتا ہے۔
کراچی کے سینڈز پٹ کے ساحل پہ ایک ایسی ہی حفاظتی حیات گاہ موجود ہے۔
یہاں مجھے چھ سال پہلےدسمبر کی ایک سردرات جانے کا اتفاق ہوا۔ ساحل پہ رات کو دو بجے ہم یہ دیکھنے کے لئے موجود تھے کہ انڈوں سے کچھووں کے بچے کیسے نکلتے ہی سمندر کی طرف دوڑ لگاتے ہیں اور کیسے مادہ کچھوا انڈے دیتی ہے۔ تین بچوں کو مٹی کے ایک گڑھے سے سمندر کی طرف جاتےدوڑ لگاتے دیکھا۔ یہ اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ بآسانی آپکی ہتھیلی پہ سماجائیں۔
ایک کچھوا انڈے دینے کی تکلیف میں مبتلا ایک ریت کا گڑھا بنائے اسکے سرے پہ بیٹھا تھا۔ ان مناظر کو دیکھنے کے بعد دسمبر کی سمندری سرد ہواءووں کی چھیڑ چھاڑ ذرا بری نہ لگ رہی تھی۔
جی ہاں، یہ کچھوے اتنی ہی بڑی تعداد میں یہاں کا رخ کرتے ہیں کہ نومبر اور ددسمبر کی راتوں میں آپ بھی وہاں جانے کا منصوبہ بنا سکتے ہیں۔ ان مہینوں میں یہ یہاں آتے ہیں انڈے دینے اور پھر چند دن بعد ساحل انکے بچوں سے بھرا ہوتا ہے کہ ہر مادہ تقریباً سو انڈے دیتی ہے۔  امید ہے کہ آپکو کوئ نہ کوئ کچھوے کی سرگرمی دیکھنے کو مل جائے گی۔ جیسا کہ ہمیں کل ایک بار پھر حاصل ہوئ۔
کل شام کو خبر ملی کہ ایک اسکول کے بچے رات کو وہاں پہنچ رہے ہیں اور ہم اور مشعل چاہیں تو قسرت کی اس فیاضہ سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ آتا ہو تو ہاتھ سے جانے نہ دیجیئو۔ ہم نے فوراً ہاں کہا۔
ہم اور مقامی اسکول کے یہ بچے تقریباً سوا آٹھ بجے تک سینڈز پٹ کی ایک ہٹ میں اکٹھا ہوئے۔ بچوں کو انکی ٹیچرز نے پہلے بٹھا کر کھانا کھلایا۔ ہم مشعل کو پہلے ہی کھلا چکے تھے۔ پھر نگراں وائلڈ لائف کے آفیسر نے بچوں کو مصروف رکھنے کے لئے سوالوں جواب کئے۔ بچوں کی عمر یہی کوئ آٹھ نو سال کے درمیان تھی۔ اس دوران انکا آدمی ساحل پہ یہ پتہ لگا آیا کہ کوئ کچھوا کہاں موجود ہے۔ سمندر جب ہائ ٹائڈ پہ ہو تو کچھووں کو ساحل تک پہنچنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اس لئے توقع ہوتی ہے کہ ہائ ٹائڈ کے وقت وہ ضرور ساحل کا رخ کریں گے۔

لکھنے کے شوقین ہر جگہ قلم کاغذ پکڑ لیتے,

پاکستان کے سمندر میں دو طرح کے سمندری کچھوے پائے جاتے ہیں ایک اولیو ریڈلی کچھوے اور دوسرے سمندر سبز کچھوے۔  اولیو ریڈلی کچھوے چھوٹے ہوتے ہیں، یعنی محض چالیس کلو گرام کے۔ انکا رنگ اولیو یعنی  گہرے زیتون کے رنگ کا ہوتا ہے ان پہ دھاریاں ہوتی ہیں اور انکی موجودگی کو ریڈلی نامی سائینسداں نے معلوم کیا۔
سبز کچھوے بڑے ہوتے ہیں اوسط وزن تقریباً ایک سو پچاس کلوگرام کے لگ بھگ ہوتا ہے۔ انکا رنگ سرمئ ہوتا ہے۔ پھر یہ سبز کچھوے کیوں کہلاتے ہیں؟
اس لئے کہ انکے جسم میں پائ جانے والی چربی خوبصورت سبز رنگ کی ہوتی ہے۔ اسکا یہ رنگ خیال کیا جاتا ہے کہ سمندری پودے کھانے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ سبز کچھوا سمندری پودے اور کائ وغیرہ کھاتا ہے۔
یہ سمندری کچھوے زمینی کچھووں سے مختلف ہوتے ہیں کہ انکے ہاتھ پاءووں کی جگہ تیرنے میں مدد دینے کے لئے چپو سے ہوتے ہیں انہیں فلپرز کہتے ہیں۔ زمینی کچھووں کی طرح سندری کچھوے نہ اپنا سر اپنے خول کے اندر کر سکتے ہیں نہ فلپرز اور نہ دم۔ اس لئے انہیں شارک اور ڈولفنز بڑے آرام سے شکار کر سکتی ہیں۔ یہ سمندری جال میں پھنس کر ہلاک ہو سکتے ہیں یا ٹرالرز اور بوٹس کے نیچے کا بلیڈ انہیں ختم کر سکتا ہے۔
کچھووں کا خول انکی پسلیوں سے بنا ہوتا ہے اور کارٹونز فلموں کی طرح کچھوے اپنا خول چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتے۔ یہ اچھا تیر سکتے ہیں لیکن ساحل کی ریت پہ انہیں چلنے کے لئے بڑی محنت کرنا پڑتی ہے اور ہر دو تین گز کے فاصلے پہ رک کرسکون کی سانس لینی پڑتی ہیں۔
سمندر میں بھی سانس لینے کے لئے ان کچھووں کو سمندر کی سطح پہ آنا پڑتا ہے۔ گوادر میں سمندر کی سطح پہ آنے والے کچھووں کو میں نے دیکھا کہ وہ کیسے سطح پہ ڈول رہے ہوتے ہیں۔
چونکہ مادہ کچھوا ہی انڈے دیتے ہیں اس لئے مادہ کچھوا ہی ساحل پہ آتی ہے۔ نر کچھوا کبھی ساحل نہیں دیکھ پاتا اس لحاظ سے مادہ کچھوے کا علم نر کچھوے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن انکے یہاں معلومات عامہ کے امتحانات ہی نہیں ہوتے ہی نہیں ہوتے اس لئے مادہ کچھوا اسکا فائدہ نہیں اٹھا پاتی۔
کہتے ہیں کہ مادہ کچھوہ جس جگہ انڈے دے ، دوبارہ انڈے دینے کے لئے اسی ساحل کا رخ کرتی ہے۔ جب یہ ان ساحلوں پہ پہنچتی ہیں تو وائلڈ لائف کے لوگ انکے فلپرز پہ ایک ٹیگ پیوست کر دیتے ہیں۔ یہ ٹیگ نہ صرف انکی پہچان کے لئے کار آمد ہوتا ہے بلکہ اس کی وجہ سے سمندر میں انکی موجودگی بھی معلوم کی جا سکتی ہے۔
یہ کچھوے آخر کیوں اتنی تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ اسکی وجہ انسان اور اسکی سرگرمیاں ہیں۔ اول تو بعض ممالک میں کچھووں کے بچوں کا سوپ بہت پسند کیا جاتا ہے۔ اور یہ ایک قیمتی خوراک ہوتی ہے۔ کود کچھووں کے گوشت کی بڑی مانگ ہے۔ ہمارے ساحل پہ انہیں پکڑنے کی ممانعت ہے لیکن اطلاع ہے کہ ساحل سے چند میل کے فاصلے پہ ٹرالر انہیں پکڑتے ہیں اور ٹرالر کے اندر ہی انکا گوشت علیحدہ کر کے کیماڑی پہنچا دیا جاتا ہے جہاں پر پھر انہیں کوئ نہیں پوچھتا۔
دوسرا یہ کہ ساحل پہ موجود کتے بلیاں یا تو انکے انڈوں کو کھالیتے ہیں یا پھر نکلنے والے بچوں کا شکار کرتے ہیں۔  ساحل پہ موجود کچرے میں پھنس کر بھی بعض اوقات یہ بچے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ادھر سمندر میں پہنچ جانے والے بچے بھی ایک خاص عمر تک پہنچ کر اپنے شکاریوں سے محفوظ رہ پاتے ہیں۔ یوں ہزار بچوں میں سے ایک ہی بچ پاتا ہے جو بلوغت تک پہنچے۔
کچھوے کی آمد کی اطلاع کے ساتھ ہی بچوں نے لائن بنائ۔ انکی ٹیچرز ان پہ عقابی نظریں رکھے ہوئے تھیں کہ رات کی تاریکی میں کوئ بچہ ادھر ادھر نہ ہو جائے۔ کچھوے روشنی اور شور  سے بھاگتے ہیں۔ اس لئے اتنے بچوں کی موجودگی کے باوجود کامیاب خاموشی برقرار رہی۔


تھوڑا سا فاصلہ طے کر کے ہم وہاں پہنچے۔ سمندر سے اس جگہ تک کچھوے کے رگڑ کر آنے والے نشانات کا راستہ موجود تھا۔  کچھوا اپنا گڑھا بنانے میں مصروف تھا۔ ویڈیو اور کیمرے کی لائیٹس سے گھبرا گیا۔ ادھر وائلڈ لائف والوں نے اسے پکڑ لیا کہ اسے ٹیگ کر لیا جائے۔
بچوں کی چیخیں نکل گئیں۔ مشعل  تیزی سے مشاق فوٹوگرافر کی طرح تصاویر لینے میں مصروف ہو گئ۔ ادھر اسکول کی ٹیچرز انتہائ تشویشناک حالت میں بچوں کو کچھوے سے دور رکھنے کی کوشش میں مصروف تھیں۔ جبکہ کچھوا ایک بے ضرر اور شرمیلا جانور ہے۔



وائلڈ لائف کے عملے نے کچھوے کو قابو کر کے چیک کیا کہ وہ ٹیگ ہوا ہے یا نہیں۔ ٹیگ نہ پاکر انہوں نے اسکے فلپر میں ایک دھاتی ٹیگ پیوست کیا ، اسکی لمبائ نوٹ کی، اکتالیس اعشاریہ تین پانچ۔ پھر اسے آزاد چھوڑ دیا۔
ٹیگ کرنے کے لئے ہشیار


   اس ہنگامے سے گھبرا کر خلوت پسند کچھوے نے انڈے دینے کا ارادہ ترک کیا اور سمندر کی راہ لی۔ جب وہ اپنے کھودے ہوئے گڑھے سے باہر کی طرف چلا تو بچوں اور انکی ٹیچرز نے جلدی سے دور تک اسکے لئے راستہ صاف کر دیا۔ اور لائن بنا کر خود بھی واپسی کے سفر پہ روانہ ہو گئے کہ اس وقت رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ ہم اسکے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ کچھوے نے بیچ میں دو مرتبہ رک لگا کہ اپنے فیصلے پہ نظر ثانی کرنے کاسوچا لیکن چونکہ دستاویزی فلم بنانے والا عملہ اسکے ساتھ ساتھ تھا اس لئے یہ  سوچ بھی عملی جامہ نہ پہن سکی۔ پھر وہ آگے بڑھ کر سمندر کی تاریکی میں گم ہو گیا اور ہم روشنیاں بُجھا کر شہر کی تاریکی میں۔
توقع ہے کہ وہ پھر لوٹ کر آئے گا۔ لیکن اپنے ان معصوم اور شرمیلے مہمانوں کے لئے ہمیں اپنے ساحل صاف رکھنے ہونگے۔ اور ان لوگوں پہ کڑی نظر رکھنی ہوگی جو اپنے تھوڑے سے فائدے کے لئے  ان نایاب جانوروں کی نسل کے لئے خطرہ بن رہے ہیں۔

کبھی الوداع نہ کہنا

Thursday, November 17, 2011

لبیک یا کپتان

ضیاء الحق کے دور میں جلا وطنی اختیار کرنے والی پیپلز پارٹی کی رہنما خاتون جب انیس سو اٹھّاسی میں وطن واپس آرہی تھیں تو پاکستان میں یہ نعرہ گونج رہا تھا۔ بے نظیر آئے گی انقلاب لائے گی۔ جس وقت بے نظیر نے لاہور ائیر پورٹ پہ قدم رکھا۔ لوگوں کی ایک کثیر تعداد موجود تھی جو نعرہ لگا رہی تھی۔ بے نظیر آئ ہے انقلاب لائ ہے۔ بے نظیر آئیں، دو دفعہ حکمرانی پہ فائز ہوئیں، اور اس دنیا سے چلی بھی گئیں۔ انقلاب نہ آنا تھا نہ آیا۔ نعرے لگوانے والے اپنا اپنا حصہ لے کر الگ ہوئے اور نعرہ لگانے والے پھر ایک کنارے بیٹھ گئے کہ کب انکی ضرورت دوبارہ پڑتی ہے۔
وطن عزیز میں ایک دفعہ پھر اسی قسم کے نعروں کا زور ہے۔ اس دفعہ انقلاب کے ان نعروں کے لئے عمران خان کا نام تجویز کیا گیا ہے۔ اسکی وجوہات پہ بھی لوگوں کلو غور کرنا چاہئیے۔ لیکن جب دعوت دیا ہوا, انقلاب سر پہ کھڑا ہو تو ان باتوں کا ہوش کہاں رہتا ہے۔
عمران خان کے لاہور میں ہونے والے جلسے کے بعد انکے حامیوں نے اور اس نادیدہ ہاتھ کے کھلاڑیوں نے جو اقتدار کا ہما اپنے پاس رکھتا ہے انکی تحریک کو اگر وہ کوئ ہے  تحریک پاکستان سے اور انکی شخصیت کو قائد اعظم اور بھٹو سے تشبیہہ دینا شروع کر دی ہے۔
ابھی بھی خیر ہے کہ اسے دنیا کی سب سے بڑی انقلابی تحریک ، تحریک اسلام سے نہیں ملایا گیا۔ 'آ رینکنگ آف دی موسٹ انفلوئینشل پرسن ان دا ہسٹری' کو ترتیب دیتے ہئے جب مائیکل ہارٹ رسول اللہ کو پہلا نمبر دیتا ہے تو وہ انہیں نبی کی حیثیت س نہیں ایک انسان کی حیثیت سے دیکھتا۔ دنیا کے سو اہم با اثر افراد میں شامل ہمارے نبی، اپنے پیروکاروں کے لئے کوئ مثال نہ بن سکے۔ کیونکہ انکی ذہانت، ، بصیرت ، انتظامی صلاحیتیں سب ماورائ طاقت کے سامنے ماند پڑ گئیں۔ انکی ذات عقیدت کے غلاف میں ایسی لپیٹی گئ کہ اب انکا پیروکار انکے لئے کسی کی جان تو لے سکتا ہے۔ لیکن انکی تحریک کی فلاسفی کو سمجھنے کو تیار نہیں۔
اس متنازعہ موضوع کو ہم ایک طرف رکھتے ہیں۔
اور صرف یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس وقت جن شخصیات اور تحاریک کا تذکرہ جوش و خروش سے لیا جا رہا ہے کیا وہ اتنی کامیاب رہیں۔ کہ ہم امید کریں کہ انکی طرز پہ جو تحاریک چلائ جائیں گی وہ بھی کامیابی سے ہمکنار ہونگیں۔
تحریک پاکستان کا مقصد، کیا مسلمانوں کے لئے محض ایک علیحدہ ریاست بنانا تھا یا مسلمانوں کی ایک ایسی فلاحی ریاست بنانا مقصود تھا جہاں ملک کا ہر شہری اپنے بنیادی حقوق برابری کی بنیاد پہ حاصل کر سکے۔ اگر محض ریاست بنانا مقصد تھا تو یہ تحریک پاکستان کے قیام کے ساتھ ختم ہو جانی چاہئیے تھی۔ لیکن یہ بات صحیح نہ ہوگی کیونکہ تحریک کے دوران عوام سے کچھ وعدے بھی کئیے گئے تھے۔ جن پہ پاکستان بننے کے بعد ، انکی سمت میں کام کرنے سے ہی عمل ہو سکتا تھا۔
جس طرح میں عمران خان کی لاہور والی تقریر میں تاریخی اعلانات کا انتظار کرتی رہی مگر تقریر ختم ہو جانے کے بعد بھی وہ سامنے نہ آسکے۔ اسی طرح قیام پاکستان کے فوراً بعد قوم نے بھی مسلم لیگی رہنماءووں بالخصوص قائد اعظم سے تاریخی اعلانات کی توقع رکھی ہو گی مگر وہ سامنے نہ آسکے۔ انہوں نے اس تاریخی موقع پہ اگر کچھ کہا تو قوم اب اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
یہ بھی قائد اعظم کی بد قسمتی یا ناکامی ہے کہ انہیں بانی ء پاکستان کا خطاب تو دیا جاتا ہے لیکن انکی شخصیت کے اکثر پہلو نہ صرف عوام سے چھپائے جاتے ہیں بلکہ انکے ارشادات تک کو حذف کا جاتا ہے۔   کیا مصطفی کمال پاشا اتا ترک کے ساتھ ترک ایسا ہی کرتے ہیں۔ قائد اعظم بحیثیت بانی ء پاکستان ، پاکستانیوں کے خیال و فکر پہ اتنا رسوخ بھی نہیں رکھتے جتنا کہ گاندھی، ہندوستانیوں پہ رکھتے ہیں۔  
کیا قائد اعظم ایک ناکام سیاستداں یا ایک ناکام حاکم یا ایک ناکام رہ نماء  اعلی ثابت ہوئے؟
تقسیم ہندوستان کے فوراً بعد جواہر لال نہرو کی سربراہی میں ہندوستان میں زمینداری نظام ختم کرنے کا انقلابی فیصلہ کیا گیا۔  ہم کسی بھی ایسے فیصلے سے محروم رہے۔ کیونکہ لیگی رہنماءووں کا مقصد پاکستان کا حصول ہر قیمت پہ  تھا انہوں نے مذہبی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے مذہب کو استعمال کیا، پھر مغربی پاکستان میں زمینداری نظام بہت مضبوط تھا سو انہوں نے جاگیرداروں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ان سے بھی ڈیل کی، ادھر نارتھ انڈیا کے لوگ جو سب سے زیادہ بے تاب تھے ان کے نوابوں کو بھی ایک آسرا دیا۔ بھان متی کے کنبے میں عملی اقدامات کے لئے گنجائش ہی نہیں بچی تھی۔
وہ بس شدت سےایک علیحدہ ملک چاہتے تھے مگر انکے پاس اس ملک کو چلانے کے لئے کوئ حکمت عملی پہلے سے موجود نہ تھی۔ انہیں یہ تک معلوم نہ تھا کہ جب پاکستان وجود میں آجائے گا تو انہیں سویت بلاک کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنا ہونگے یا امریکن مفادات کو دیکھنا ہوگا۔
کیا قائد اعظم ایک کامیاب رہنما رہے؟
کیا جو وعدہ انہوں نے کیا اسے پورا کر دکھایا؟ 
نہیں۔ سوائے یہ کہ حکومت سازی کا حق مسلمانوں کے چند گروہوں کے پاس آگیا، ہندوستانی عام مسلمان ۔ پاکستانی عام مسلمان کہلایا، وہ کسی انقلابی تبدیلی سے نا آشنا رہا۔
اب پاکستان کی دوسری کرشماتی شخصیت پہ بات کرتے ہیں جن سے عمران خان کو ملایا جا رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو، ایک ذہین تعلیم یافتہ انسان جو عمران خان کے بر عکس سیاست کے ایوانوں میں خاصی جدو جہد کے بعد مقام اعلی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ بنیادی طور پہ سوشلسٹ نظریات سے متائثر تھے اس لئے انہوں نے ملک کے رجحان کو دیکھتے ہوئے اسلامی سوشلزم کا نعرہ بلند کیا۔
لیکن جب انہیں لگا کہ اقتدار کا ہما انکے سر پہ بیٹھنے کے بجائے کہیں اور کا رخ کر رہا ہے تو انہوں نے صبر سے کام لینے کے بجائے، ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ بلند کیا۔
اسٹیبلشمنٹ نے انکا ساتھ دیا۔ یہ وہ اسٹیبلشمنٹ تھی جومغربی پاکستان کی حکمرانی چاہتی تھی۔ کیوں؟ اسکی وجوہات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ دیگر اور حقائق کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ شاید اس بات کے لئے راضی نہ تھی کہ  معمولی جسامت اور شکل و صورت کے بنگالی ان پہ حکومت کریں۔
یہ در حقیقت تاریخی جھوٹ ہے کہ بھٹو کی تحریک انقلابی تحریک تھی اور اسے عوامی پذیرائ حاصل تھی۔ کیونکہ جمہوری قواعد میں عوامی پذیرائ مجیب الرحمن کو حاصل تھی۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ نے اسکا ساتھ نہ دیا۔ بنگالی الگ ہو گئے۔
بنگالیوں نے الگ ہونے کے بعد سیکولر بنگلہ دیش کی بنیاد رکھی۔ آج انکی کرنسی کی قیمت ہم سے زیادہ ہے۔ اسکے باوجود کہ وہ ہر کچھ عرصے بعد سیلاب جیسی قدرتی آفت کا شکار ہوتے ہیں۔ پستہ قد، کم صورت بنگالی اپنا استحکام حاصل کرنے میں
کامیاب ہوئے۔
بھٹو کو مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی، سو بنگلہ دیش بننے کے بعد ان سب کو کسی انکوائری کے سامنے حاضر ہونے اور اس سارے واقعے کے وقوع پذیر ہونے کی وجوہات معلوم کرنےکے بجائے انہیں حکومت کرنے کا حق دیا گیا۔
کیا بھٹو ایک کامیاب سیاستداں تھے؟ 
انہوں نے جو نعرہ دیا کیا اسے پورا کر دکھایا؟ 
انہوں نےاسلامی سوشلزم اور روٹی کپڑا مکان کا نعرہ دیا۔ وہ اسے پورا نہیں کر پائے۔ پاکستان کسی بھی انقلابی تبدیلی سے نا آشنا رہا۔ مغربی پاکستان کے جذبے ٹھنڈے ہوئے اور بھٹو اپنے انجام سے دوچار ہوئے۔
پاکستان میں ایک اور تحریک چلی جس نے زبردست عوامی حمایت حاصل کی۔ اور اس نے کراچی شہر کا مزاج ہی بدل دیا۔ لوگوں نے دیوانہ وار اسکے لئے کام کیا۔ وہ ایم کیو ایم کی تحریک تھی۔ لیکن یہ تحریک بھی اسٹیبلشمنٹ کا شکار ہوئ۔ اور اس سے جو امیدیں وابستہ تھیں وہ اب تک پوری نہ ہو سکیں۔
اب انقلاب کا نعرہ ایک دفعہ پھر۔ 
عمران خان کی حالیہ تقریر میں  وہی وعدے اور وہی دعوے جوقیام پاکستان سے اب تک دوہرائے گئے ہیں اسکے علاوہ کیا تھا۔
چند اہم نکات جو مجھے یاد آرہے ہیں۔
ہم پولیس کو غیر سیاسی کریں گے کیسے؟ کیا آپ پاکستانی مزاج سے تعصب کا باہر نکال دیں گے۔  جو کراچی میں لوگ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے مزاج میں بھی ہے۔ 
مجھے یاد ہے کہ  اسّی کی دہائ میں کراچی کے لوگوں کا شدید مطالبہ تھا کہ پولیس مقامی ہونی چاہئیے۔ اور پنجاب سے پولیس بھرتی کا سلسلہ بند ہونا چاہئیے کیا ایسا ممکن ہوا۔ کیا یہ مذاق نہیں تھا کہ کراچی شہر کی پولیس میں بڑی تعداد پنجاب سے ہو۔ کرپشن کی ایک بڑی وجہ تو یہی بنتی ہے کہ پولیس مقامی نہ ہو۔
دوسرا اہم نکتہ اس تقریر کا، خواتین کی تعلیم ایمرجینسی بنیادوں پہ عام کی جائے گی۔  اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہیں انکا شرعی حق دیا جائے گا۔
یہ شریعت کے مسائل اسی وقت کھڑے کئے جاتے ہیں جب نیت میں کھوٹ ہو۔ ایک تعلیمیافتہ عورت کے معاشی استحکام کا آپ بندو بست کریں گے یا پاکستانی علماء کی شریعت کے مطابق انہیں ایمرجینسی میں تعلیم دینے کے بعدگھرتک محدود کریں گے۔ کیا ملازمت پیشہ خواتین کے بچوں کی دیکھ بھال کے لئے ریاستی سطح پہ ادارے قائم کریں گے۔ کیا ایک تعلیم یافتہ عورت کو فیصلہ سازی میں شامل کریں گے یا پھر جنوبی ایشیائ اسلامی شریعت کے مطابق اسے مرد کا تابعدار بنائیں گے؟ کیا ایک عورت کا اپنی پسند کے مرد سے شادی کا اختیار دیں گے یا پھر وہی ولی اور کفو والا مسئلہ چلے گا؟  سو یہ کہنا کہ شرعی حقوق دیں گے یہ کافی مشکوک  بیان ہے۔
سب سے اہم بیان جس پہ انہوں نے زور دیا اور جو انکے مطابق غریب دیہات کے مسائل کی جڑ ہے وہ پٹواری نظام ہے اسے وہ تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن اصل مسئلہ جسکی طرف سے وہ تجاہل عارفانہ برت رہے ہیں وہ وہی زمینداری نظام ہے جسکے خلاف قاءد اعظم نے بھی بر وقت فیصلہ کرنے سے گریز کیا۔ جب تک کوئ شخص اس نظام کے خلاف نہیں کھڑا ہوگا اسکے انقلاب کا ہر نعرہ جھوٹا ہوگا۔ اس نظام کی جڑیں ہلائے بغیر غریب کی فلاح کی بات کرنا یونہی ہے جیسے کینسر کے مریض کو درد کم کرنے والی دواءووں پہ رکھنا۔ درد کم کرنے کی یہ دوائیں شوکت خانم کینسر ہسپتال کے لئے کام کر سکتی ہیں لیکن پاکستان کے لئے نہیں۔
یہ نہیں معلوم کہ ہمارے ملک میں جواہر لال نہرو کون بنے گا۔
دوسری طرف ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان اسی اسٹیبلشمنٹ کا ڈالا ہوا دانہ ہیں جو وہ عوام کو سراب کے پیچھے دوڑانے کے لئے ڈالا کرتی ہے۔ ورنہ عمران خان کے جلسے میں نہ انکے لئے شاہی کرسی ہوتی اور نہ مجمعے کے لئے کرسیاں۔ تبدیلی کے سیلاب کی باتیں سنہری کرسیوں پہ بیٹھ کر نہیں کی جاتیں اور نہ اشرافیہ کے لاڈلوں کے ساتھ۔ اور نہ ہی کوئ ایسی جماعت تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے جس میں  ملکی انٹیلیجنس کے نمائندے شامل ہو رہے ہوں۔ کیونکہ اب تک ہم نے یہ نہیں سنا کہ عمران خان کوئ ایسی روحانی طاقت رکھتے ہیں کہ جو انکی جماعت میں شامل ہو جائے اسکی قلبی حالت چشم زدن میں بدل جاتی ہے۔ ابھی تک کسی نے یا شیخ یا عمران کا نعرہ مار کر دھمال نہیں ڈالا۔ کیونکہ جاننے والے جانتے ہیں کہ یا شیخ کون ہے۔
 اسٹیبلشمنٹ ایسا کیوں کرتی ہے کہ جب عوام حد سے زیادہ تبدیلی کی خواہش کرنے لگتے ہیں وہ انکے سامنے اپنی پسند کے ایک شخص کو کھڑا کر دیتی ہے؟
جواب بالکل سادہ ہے وہ یہ چاہتے ہیں کہ رند کے رند رہیں اور ہاتھ سے جنت بھی نہ جائے۔ انکے مفادات کو ٹھیس بھی نہ پہنچے اور لوگ بھی کچھ عرصے کے لئے مطمئن ہو جائیں کہ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ۔ بس اسی نکتے پہ کامیابی سے پچھلے باسٹھ سال سے پاکستان کو چلایا گیا ہے۔
تاریخ کہتی ہے کہ انقلاب کسی کے مفادات کی نگرانی نہیں کرتا۔جو مفادات کی حفاظت کرے وہ چالاکی تو ہو سکتی ہے انقلاب نہیں۔ انقلاب جب آتا ہے تو کمزور طاقتور بن جاتا ہے ، غریب، کو مالداروں کے مال تک رسائ ہوتی ہے۔ انقلاب جب آتا ہے تو ساری دنیا کو عجم یعنی گونگا کہنے والے عرب اسی دنیا کا علم ہر ذریعے سے جمع کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ اپنے آپکو کم سمجھتے ہیں جبھی تو اکٹھا کرتے ہیں۔ 
انقلاب کے لئے، کیا عمران خان، جواہر لال نہرو بننے کو تیار ہیں اور پاکستان میں زمینی اصلاحات کریں گے۔ پٹواری نظام کے بجائے کیا وہ کسان کی حق ملکیت کو تسلیم کروائیں گے۔ کیا وہ کمزوروں کے داتا بنیں گے، دیوتا بنیں گے  یا کمزوروں کو طاقتور بنائیں گے تاکہ انکی رسائ اپنے حصے کے مال میں تو ہو۔ اگر نہیں تو ایک دفعہ پھر چہرے بدل کر نظام کو بدلنے کی کوششیں عوام کو مبارک ہوں۔ ہم آپکو لبّیک کہتے ہیں یا کپتان۔ لبّیک یا کپتان۔

Monday, November 14, 2011

دس ڈالر میں

ابھی ڈھونڈھ ہی رہی تھی تمہیں یہ نظر ہماری
کہ تم آگئے اچانک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زندگی میں محبوب سے لے کر بس تک پہ یہ بات صادق آسکتی ہے۔ لیکن ہمارے ساتھ یوں ہوا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹہریں پہلے یہ بتادوں کہ قصہ کیا چل رہا تھا۔
ہم گوادر ہی میں تھےرات کو واپسی کے سامان کو صبح کے سفر کے لئے پیک کر کے نادر بلوچ کے یہاں پہنچ گئے کہ ان  کی بھاوج کے یہاں اس دن صبح ایک نئے بچے کی آمد ہوئ تھی۔ خیال تھا کہ انہیں مبارکباد دے کر ، کراچی واپسی کے لئے خدا حافظ کہہ دیں۔
نادر کی بیوی ،خدیجہ بڑے تپاک سے ملی۔  میں نے اسے بتایا کہ اسکا بیٹا بڑا شیطان ہے پچھلی دفعہ اس نے مجھے کیکڑوں کی لڑائ دکھائ تھی۔ اور کیکڑے کے بچے کندھے پہ رکھ کر پھر رہا تھا۔ 'ہاں یہ بہت شیطان ہے۔ اب اسکو گوادر کے سب سے مہنگے اسکول میں داخل کرا دیا ہے۔ فیس اسکا بہت زیادہ ہے۔  نادر کی آمدنی تو زیادہ نہیں کبھی کام ہوتا ہے کبھی نہیں ہوتا۔ میرے بھائ نے کہا کہ وہ اسکا اسکول کا خرچہ اٹھائے گا'۔ 
بڑا اسکول کہتے وقت اسکے چہرے پہ بڑا فخر تھا۔  اسکا بیٹا اویس، دوڑا دوڑا گیا اور اپنی کتابیں کاپیاں اٹھا لایا مجھے دکھانے کے لئے۔ میں نے انہیں بڑے شوق سے دیکھا۔ وہ مونٹیسوری کی لگ رہی تھیں۔  اسے تھوڑا بہت لکھنا آگیا تھا۔ میں نے پوچھا کون سی کلاس میں پڑھتے ہو۔ اپنے ٹوٹے پھوٹے دانتوں والی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔ 'ایڈوانس میں، ایڈوانس میں'، اسکی مراد شاید مونٹیسوری کا آخری سال تھا۔
اس لمحے اچانک مجھے خیال آیا کہ میری ایک  نو عمر پاکستانی نژاد کینیڈیئن دوست نے چند ماہ پہلے مجھ سے کہا تھا کہ وہ پاکستان میں ایک بچے کا تعلیمی خرچہ اٹھانا چاہتی ہے ، کیا میں کسی مستحق بچے کی تلاش میں مدد کر سکتی ہوں۔ میں اس وقت سے ایک بچے کو ڈھونڈھ رہی تھی جو پڑھنے لکھنے میں واقعی دلچسپی رکھتا ہو۔ اور اسکی تعلیم کی راہ میں صرف پیسے کی کمی حائل ہو۔
گھر میں آنے والی ماسیوں کے بچوں کو میں نے اس لسٹ سے نکال دیا تھا کہ ان میں سے کچھ مقامی اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ انکے والدین مار مار کر بھیجتے ہیں مگر یہ پڑھ کر نہیں دیتے۔
سو، میں نے خدیجہ سے پوچھا کہ اسکی بیٹی کون سے اسکول میں پڑھتی ہے۔ کہنے لگی یہیں سُر بندر کے گورنمنٹ اسکول میں۔ اس اسکول کے متعلق مجھے اندازہ تھا کہ انتہائ بے کار ہے ۔ متعدد لڑکیاں یہاں سے دوسری تیسری پڑھ کر چھوڑ چکی ہیں۔ اور انہیں دس تک گنتی بھی نہیں آتی۔اس لئے میں نے اس سے کہا تم عائیشہ کو بھی کیوں نہیں بحریہ ماڈل اسکول میں داخل کرا دیتیں۔
'عنیقہ، اسکی فیس بہت زیادہ ہے، چار ہزار داخلہ فیس ہے'۔ اس نے ذرا منہ پھیلا کر کہا تاکہ مجھے اندازہ ہو کہ کتنی زیادہ ہے۔ چھ سو روپے مہینے کے ہیں' اس دفعہ اس نے چھ سو پہ زور دیا اور  مزید کہا صرف وردی آٹھ سو روپے کی ہے'۔ نادر تو اتنا نہیں کر سکتا'۔  میں خاموش بیٹھی رہی۔ 
یہاں کراچی میں ایسے اسکول ہیں جنکی ماہانہ فیس پچیس ہزار روپے ہے۔ اور ایسے اسکول تو عام ہیں جہاں داخلہ فیس پچاس ہزار سے زائد ہے۔ کیا خدیجہ جیسوں کو معلوم ہے کہ جتنی انکی ماہانہ آمدنی نہیں پاکستان کے کچھ علاقوں میں اتنی ایک بچے کے اسکول کی فیس ہوتی ہے۔
ویسے اچھا ہی ہے اسے معلوم نہیں۔ ورنہ یہ صدمہ شاید اسے زندگی کے سکھ سے دور  کر دے۔
چلو عائشہ کی فیس کا بند و بست ہم کر دیتے ہیں۔ میں نے اس سے کہا۔ 'نئیں نئیں، عنیقہ، تکلیف نہ کرو۔'۔ 'مجھے کوئ تکلیف نہیں ، مجھ سے کسی نے کراچی میں کہا تھا کہ وہ ایک بچے کو پڑھانا چاہتا ہے۔  پیسے وہ دے گا۔ میں نہیں۔  اس لئے مجھے کوئ تکلیف نہیں پہنچ رہی۔ ' نئیں پھر بھی تم ایسا نہ کرو'۔ دیکھو اگر تم نہیں لوگی تو کوئ اور لے لے گا۔ تم چاہتی ہو کہ تمہاری بیٹی ایک اچھے اسکول میں  پڑھے تو موقعے سے فائدہ اٹھا لو۔ یقین رکھو، نہ یہ پیسے میرے ہیں ، نہ میں یہ کسی سے مانگ رہی ہوں اور نہ مجھے اس میں کوئ تکلیف ہے'۔ تھوڑی پس و پیش  کے بعد وہ خاموش ہو گئ۔ خاموشی نیم رضامندی ہوتی ہے۔ اٹھتے وقت میں نے نادر سے بات کی کہ وہ عائشہ کو بھی اسی اسکول میں داخل کرا دے۔ داخلہ فیس اور تین مہینے کی فیس اسکے ہاتھ میں رکھی اور نصیحت کی کہ اسکول کارڈ اور ٹیسٹ رپورٹس سنبھال کر رکھے کہ جو شخص پیسے دے گا وہ انہیں دیکھنا چاہتا ہے۔
میں چلنے لگی تو نادر نے ہاتھ مصافحے کے لئے آگے بڑھا دیا۔ اسکے انداز میں تشکر نمایاں تھا۔ میں جو غیر مردوں سے ہاتھ ملانے سے گریز کرتی ہوں۔ اسکے بڑھے ہوئے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیتی ہوں۔ میرے اندر احساس ندامت تھا کہ اس سارے سلسلے میں میرا عملی حصہ نہ ہونے کے برابر ہے پھر بھی انہیں اپنا احسان مند بنا رہی ہوں۔
گھر واپس آکر میں نے سوچا کہ ڈالرز میں داخلہ فیس تقریباً پچاس ڈالر بنتی ہے اور ماہانہ فیس میں  اگر دیگر خرچے بھی ڈال لیں تو دس ڈالر بنتے ہیں۔ میری دوست نے کہا تھا کہ وہ پچاس ڈالرتک مہینے کے اس مد میں دے سکتی ہے۔ اتنے پیسوں میں تو ایک اور بچے کا خرچ نکل سکتا ہے۔ کیونکہ مجھے نادر کی بھانجی کا بھی خیال آیا جو عائشہ کی ہم عمر ہے۔ اسکا باپ اسکی ماں کو بھائ کے پاس چھوڑ گیا ہے نہ طلاق نہ خرچہ۔
کراچی آکر میں نے اپنی دوست کو ای میل کی۔ وہ فوراً تیار ہو گئ۔ اس طرح دو بچیوں کے لئے ایک بہتر اسکول کا بند و بست ہو گیا۔ 
آپ میں سے بیشتر نہیں جانتے ہونگے کہ کینیڈا میں ایک وقت کا اوسط معیار کا کھانا  دس ڈالر میں مل جاتا ہے۔  درحقیقت کراچی کے بہترین ہوٹل میں بھی ایک وقت کا اچھا کھانا اتنے پیسوں میں مل جاتا ہے۔ صرف دس ڈالر میں، میں محسن کی قطار میں اور اگلا احسان مندی کی قطار میں۔
کسی  کے ایک وقت کا کھانا ، کسی دوسرے کے پورے مہینے کے اسکول کا خرچہ۔ قدرت کا مذاق ہے یا انسانوں کا؟

Friday, November 11, 2011

گوادر میں بقر عید

انسان فطرتاً تغیر پسند ہے اسی فطرت کی وجہ سے جنت سے بے دخلی پسند کی اور زمین جیسی پست جگہ کو اپنے تخیل کی اڑان کے لئے مناسب پایا۔ اقبال نے اسی زمین سے خدا سے یہ مکالمہ کیا کہ
تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا ، نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی
وائے افسوس اقبال کی اس آزاد روی کو زمانہ شناس لوگوں نے زنداں کا رخ دکھایا۔ اگر انسان کو اتنی ہی آزادی مل جائے کہ وہ کسی دل پسند موقع سے مستفید ہو لے تو وہ خوش قسمت کہلائے گا۔ سو میں ہوں۔
بقر عید سے محض چار دن پہلے مجھے اطلاع ملی کہ چاہوں تو عید کراچی سے باہر منا سکتی ہوں۔ کتنے باہر؟ یہی کوئ سات سو کلو میٹر۔ موسم کیسا ہوگا وہاں؟ بدلتے موسم کو ذہن میں رکھا۔ جواب ملا ایسا ہی جیسا کراچی کا ہے اور یہی نہیں کراچی جیسا سمندر بھی ملے گا۔ را عقلمند اشارہ کافی است۔ بھئ صاف کیوں نہی کہہ دیتے کہ آئیں چلیں اس دفعہ عید گوادر میں مناتے ہیں۔ ہم بھی یہ کہتے ہیں ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں،اس دفعہ عید ذرا مختلف انداز میں۔
تو جناب، جمعہ کے مبارک دن ہم اپنے جمع جتھہ سامان کے ساتھ کوسٹل ہائ وے پہ رواں دواں تھے۔ شہر سے نکلے تو سڑک پہ اسکول کی بسوں کا رش تو تھا ہی لیکن سوزوکیاں بھی چلتی نظر آئیں جن میں جانور جا رہے تھے۔ یعنی بکرا منڈی رات بھر کھلی رہی جبھی صبح ساڑھے سات بجے لوگ خریداری کر کے لوٹ رہے ہیں۔ شہر کے مکینوں کا یہ فخر بے جا نہیں کہ یہ شہر کبھی نہیں سوتا۔
جانور اندر لوگ باہر

اہل ہوس کے ہزار رستے ہوں مگر گودار جانے کا زمینی رستہ بس ایک ہی ہے اور وہ ہے کوسٹل ہائ وے۔ اس ہائ وے تک کراچی سے پہنچنے کے لئے آر سی ڈی ہائ وے سے ہو کر گذرنا پڑتا ہے۔ اور آر سی ڈی ہائ وے کا رستہ حب شہر سے نکلتا ہے۔ یوں کراچی، حب، وندر سےہوتے ہوئے جب اوتھل پہنچتے ہیں تو کوسٹل ہائ وے شروع ہوتی ہے۔ یہاں تک پہنچنے میں تقریباً پونے دو گھنٹے لگتے ہیں۔
حب شہر سے نکل کر جب سومیانی کے قریب تھے تو خانہ بدوشوں کی بستیاں نظر آئیں۔ جنکے پاس مٹی کے بڑے بڑے الٹے پیالےسے بنے ہوئے تھے۔ ان پیالوں میں لکڑی کو بند کر کے جلاتے ہیں تاکہ کوئلہ بنے۔ کوئلے کی اس تہوار میں بڑی مانگ ہوتی ہے کہ ہر گھر میں کچھ نہ کچھ بار بی کیو ہوتا ہے۔ میں نے انکی تصویریں بنائیں اس نصیحت کے ساتھ کہ خواتین کی نہ بنائیے گا۔ قبائلی اس پہ بڑا ناراض ہوتے ہیں۔ معلوم ہے، بھئ معلوم ہے۔ تو بھی پاکستان ہے میں بھی پاکستان ہوں۔

کوئلے کی تیاری


رستے میں دو جگہ رکے۔ ایک ہنگول دریا کے مقام پہ مگر مچھ دیکھنے کے لئے جو وہاں نہیں ملے۔ نومبر میں جبکہ ٹھنڈ ابھی ساحلی پٹی پہ شروع نہیں ہوئ۔ مگر مچھ کا دوپہر تک وہاں موجود ہونا ویسے بھی مشکل ہی تھا۔


پہاڑ کی تہہ میں خراماں دریائے ہنگول

آگے ہم ماکولا کے قریب پیٹ پوجا کے لئے رکے۔ سالن ہمارے پاس موجود تھا۔ پانی کی بوتلیں بھی حاضر تھیں بس روٹی چاہئیے تھی وہ گرما گرم مل گئ وہاں موجود ایک جھونپڑا ہوٹل سے۔ جنت کے عوض دانہ ء گندم برا سودا نہیں، میں نے زمین پہ پھیلی چٹائ پہ اپنے پاءوں پھیلاتے سوچا۔
شام کو چھ بجے ہم گوادر کی مضافاتی بستی سر بندر میں اپنا سامان گاڑی سے اتار رہے تھے۔ ابھی سامان اتار کر فارغ ہوئے کہ لوڈ شیڈنگ کے اوقات شروع ہو گئَے۔  اوپر پانی کی ٹینکی میں پانی نہیں، گھر مہینوں سے بند پڑا ہوا۔ ہمارے پاس اسکے علاوہ کوئ چارہ نہیں کہ صبر سے لائٹ آنے کا انتظار کریں۔ لائٹ اس علاقے میں پانچ سال پہلے ہی آئ ہے۔ اس چھوٹے سے قصبے میں ابھی لوگ اسکے اتنے عادی نہیں کہ اس کے یوں چلے جانے پہ خفا ہو کر کہیں کہ یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے، ساتھ چل موج ہوا ہو جیسے۔
چھت کا رخ کیا۔  گھر سمندر کے بالکل کنارے ، کشتیاں دور تک سمندر کے پانی میں ٹہری ہوئیں۔ اگر اقبال ہوتے تو کہتے کہ اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے، سرخ سرخ قمقمے قطار اندر قطار۔ یہ جلتے بجھتے قمقمے ان کشتیوں پہ سمندر میں شکار کے وقت مختلف اشاروں کی زبان کے طور پہ استعمال ہوتے ہیں لیکن اس وقت انہوں نے سمندر اور لوڈ شیڈنگ کی تاریکی میں ایک سماں باندھ  دیا تھا۔ اوپر آسمان  پہ آلودگی نہ ہونے کی وجہ سے ستارے جیسے ہنس رہے تھے۔ ٹمٹماتے، جھلملاتے، نزاکت سے کانپتے اترا رہے تھے۔ ایسی سحر انگیز اترتی رات صرف سُر بندر کے حصے میں ہی آ سکتی ہے۔
دو گھنٹے بعد لائٹ نے درشن کرائے۔ ہم نے یوں پرنام کیا کہ فوراً دوڑ کر پانی کی موٹر آن کی۔ سب نے مل کر جلدی جلدی صفائ شروع کی  تاکہ رات کو سونے کا انتظام ہو سکے۔ پڑوسی نے بھی مدد کی۔ رات کا کھانا انکے یہاں سے آپہنچا۔ حالانکہ کہا بھی تھا کہ ہم کراچی سے دو وقت کا کھانا ساتھ لے کر چلے ہیں۔ لیکن بلوچ اپنی روایت سے مجبور۔
اگلے دن تفصیلی طور پہ صفائ کر کے تمام چیزیں اپنے مقامات پہ پہنچائیں۔ کھانے پینے کے چکر سے فارغ ہوئے۔ بکرے کا دیدار ہوا۔ جو کہ میزبان ہمارے لئے لے چکے تھے۔ یہاں قربانی کے لئے بکرے کا رواج ہے جبکہ کراچی میں گائے پہ زیادہ لوگوں کا دل آتا ہے۔ یہ تو پہاڑی بکرا ہے، میں نے اپنے ساتھی سے کہا۔ 'لوگ کہتے ہیں کہ پہاڑی بکرے کا گوشت سخت ہوتا ہے اور اس میں ہلکی سی بد بو ہوتی ہے'۔ اب اس وقت تو یہی ہے۔ یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ کم عمر ہے اسکا گوشت نرم ہوگا۔ 'چلیں یہی سہی۔ ہمیں تو قربانی کی رسم نبھانی ہے ، میں یونہی ایک خیال بتا رہی تھی'۔
مشعل کو پہلے ہی نادر بلوچ نے ڈرا دیا تھا کہ بکرا بڑا خطرناک ہے ٹکر مارتا ہے اس سے دور رہنا۔ مشعل نے بکرے کے تیور دیکھے تو بالکل اسکے قریب جانے سے انکار کر دیا۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش بھی کہ بیٹا  پہاڑی بکرا اس برج کی علامت ہے جس سے تم اور تمہاری اماں دونوں تعلق رکھتے ہیں۔
شام کو محلے کی خواتین آگئیں۔ انکی بیشتر تعداد کو اردو بالکل نہیں آتی۔ میری ترجمان نازنین تو اپنے شوہر کے پاس مسقط جا چلی گئ۔ لیکن دو ایسی لڑکیاں نکل آئیں جو ٹوٹی پھوٹی اردو بول سکتی تھیں۔ بس وہ دونوں بے چاری ترجمہ کرتی رہیں۔ بلوچی زبان پہ فارسی کا اثر ہے ویسے بھی اردو کی بہن زبان ہے۔ اس لئے کہیں نہ کہیں میں بھی بلوچی پکڑ ہی لیتی۔ اس سے وہ خواتین بڑی متائثر ہوئیں کہ تھوڑی بہت بلوچی مجھے آتی ہے۔
میں ان کے لئے کچھ تحائف لے کر گئ تھی جس سے وہ بڑی خوش ہوئیں۔ چلتے چلتے کہنے لگیں کہ تم عید پہ مہندی لگاتی۔ ہاں، میں نے گردن ہلائ۔ کیا مہندی یہاں ملتی ہے۔ جواب ملا مہندی یہاں ملتی، دس روپے کی ٹیوب ملتی۔ کل ہم لائے گی اور تمہیں اور مشعل کو لگائے گی۔
پتہ نہیں کیا چیز ہوگی اور یہ کیا لگائے گی۔ میں نے دل میں سوچا۔ اگلے دن دوپہر میں ہم گوادر شہر کی طرف چلے گئے۔ وہاں سنگھار پہاڑی کے ساحل کی طرف اترے اور سورج ڈوبنے کا نظارہ کیا۔ ایک خوبصورت اور پر سکون ساحل جو سورج ڈوبنے کے وقت ہر طرف سے جلنے لگا۔ ساحل سے اس آگ کی لپٹیں آسمان کے مرکز کی طرف پہنچے جا رہی تھیں۔ آگ اور پانی کا یہ ملن چاند ایک طرف کھڑا دیکھ رہا تھا۔ سورج اور چاند کا بیک وقت ایسا طلوع اور غروب بھی بس گوادر میں ہی نظر آ سکتا ہے۔ بعض لوگوں کو اپنی خوبیوں اور خوش قسمتی  کا اندازہ نہیں ہوتا اور بعض جگہوں کو بھی۔


غروب آفتاب کے وقت طلوع مہتاب


رات دس بجے جب کھانا کھا کر سُر بندر واپس پہنچے اور میں ابھی سوئ ہوئ مشعل کو سونے کے کپڑوں میں ڈال رہی تھی کہ وہ لوگ مہندی لے کر پہنچ گئیں۔
اوہ، مشعل تو سو گئ۔ اب مجھے ہی اپنے ہاتھوں میں ان سے نقش و نگار بنوانے پڑیں گے۔ وہ اتنے شوق سے آئیں ہیں کیسے منع کر دوں۔ گھر والے میرا المیہ جان کر مسکرا رہے تھے۔ میرا ہاتھ، ہاتھ میں لے کر اس نے مہندی کی کون جیسا کہ ہم کراچی میں کہتے ہیں جب چلانی شروع کی تو خاصہ اچھا ڈیزائین بنا ڈالا۔ یہ تم نے کہاں سے سیکھا؟ میں نے پوچھا۔  اسکول سے۔ اس نے سر جھکائے جھکائے بتایا۔  بڑا اچھا اسکول ہے۔ پڑھنا لکھنا چاہے سکھائے نہ سکھائے مہندی لگانا سکھا دی۔ ہنسنے لگیں۔ کیا میں عید کے کپڑے لائ ہوں اس نے پوچھا۔ ہاں، ہاں سب لائ ہوں اور چوڑیاں بھی؟ ہاں چوڑیاں بھی۔
مشعل کی مہندی رکھ کر وہ چلی گئیں۔
میں عید کی نماز والوں کے کپڑے استری کرنے لگی۔ اور مشعل کے کپڑوں تک اس قدر نیند آ رہی تھی کہ میں نے سوچا کہ صبح اٹھ کر کر لونگی۔
بستر پہ لیٹی تو مسلسل لوگوں کے کچھ زور سے پڑھنے کی آواز آرہی تھی۔ یہ ذکری ہیں۔ گوادر میں مسلمانوں کے دو فرقے پائے جاتے ہیں ایک نمازی اور دوسرے ذکری۔ نمازی نماز پڑھتے ہیں اور ذکری نماز نہیں پڑھتے صرف ذکر کرتے ہیں۔ جس جگہ وہ ذکر کرتے ہیں وہ ذکر خانہ کہلاتی ہے۔ جو کہ ہمارے گھر سے خاصی قریب تھی۔ اس لحاظ سے گوادر میں بڑی مذہبی رواداری پائ جاتی ہے۔
لیکن اپنی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے امید کی جاتی ہے کہ یہ مذہبی ہم آہنگی بس کچھ اور سالوں کی بات ہے وجہ یہ کہ اس دفعہ میں نے وہاں ایک بہت بڑا بورڈ دیکھا جس پہ لکھا تھا تبلیغی اجتماع گاہ اور اس پہ ایک تیر کا نشان بنا ہوا تھا۔ یعنی مقام کی نشان دہی۔ کافی ساری کشتیوں پہ اس دفعہ میں نے جماعت اسلامی کے جھنڈے دیکھے۔ آج سے آٹھ سال پہلے جب میں گوادر گئ تو وہاں کوئ بڑا مدرسہ نہیں تھا لیکن اب وہاں ایک بہت بڑا دارالعلوم ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کتنے وقت میں گودار کی دیواروں پہ ذکری کافر، نمازی کافر، سنی کافر اور شیعہ کافر جیسے نعرے وجود میں آتے ہیں ابھی تو وہاں، ہندءووں کے ایجنٹوں کے نام ،  پاکستان مردہ باد اور پاکستان زندہ باد جیسے نعروں کی اکثریت ہے۔



بہر حال ذکری  ساری رات ذکر کرنے کے بعد، فجر سے پہلے قربانی کے فریضے سے فارغ ہو جاتے ہیں۔
صبح لوگ قصبے کی عید گاہ میں نماز عید کے لئے جمع ہوئے۔  لائوڈ اسپیکر کا انتظام خاصہ خراب تھا۔ کچھ کو آواز پہنچی اور کچھ نمازیوں کو آواز نہیں پہنچی۔ نماز کی ادائیگی میں مسئلہ ہوا اور نماز کے اختتام پہ کچھ نمازیوں نے مطالبہ کیا کہ دوبارہ نماز پڑھائ جائے یعنی لوٹائ جائے۔ یوں نماز دوبارہ پڑھی گئ۔
یہاں ہمارے ساتھ کیا ہوا کہ آٹھ بجے ہم نے سوچا کہ مشعل ابھی سو رہی ہے اسکے کپڑے استری کر لئیے جائیں۔ لیکن یہ کیا؟ عین اسی وقت لائٹ چلی گئ۔ کوئ بات نہیں ایک دو گھنٹے میں اجائے گی۔ دل کو تسلی دی۔  مگر وہ نہ آئ۔ حتی کہ بارہ بجے دو پہربکرا قربان ہو گیا۔ میں نے احتیاطاً مشعل کے لئے دو زرق برق کپڑے رکھ لئیے تھے جو اس وقت کام آ گئے۔
بکرے کے حصے کیسے بنوانے ہیں آپکو؟ سوال آیا۔  کیسے حصے؟ میں نے دریافت کیا۔'یہاں کا طریقہ یہ ہے کہ سارے گوشت کے تین حصے کر دئیے جاتے ہیں ایک غریبوں اور ہمسایوں کا دوسرا رشتہ داروں کا اور تیسرا اپنے لئے'۔ مزید تفصیل حاصل ہوئ۔  اچھا کراچی میں تو قصائ بس گوشت بنانے کا کام کرتا ہے۔ خیر ہم وہی کریں گے جو یہاں رائج ہے۔ جب روم میں ہو تو وہی کرو جو رومی کرتے ہیں۔
سارے گوشت کو اچھی طرح ملا دیا گیا پھر اسکے برابر کے حصے لگے، اس میں سے غریبوں کا حصہ کر کے وہاں موجود لوگوں نے اسے بھیجنے کے لئےخود ہی حصے بنا کر بھیج بھی دئیے۔ چلیں جی اس ذمہ داری کی بھی چھٹی ہوئ۔  گوادر میں غربت زیادہ ہے۔ لیکن، اچھی بات یہ ہے کہ سمندر کے کنارے ہونے کی وجہ سے کوئ بھوکا نہیں مرتا کہ سمندر سب کو کھانا تو دیتا ہے۔ لیکن مچھلی کے علاوہ کھانے کی دیگر اشیاء عام انسان کی پہنچ سے باہر ہیں۔ دیگر جانوروں کا گوشت ایک عیاشی ہے۔ قربانی بہت کم لوگوں نے کی۔ اس لئے جانوروں کی وہ چہل پہل نہیں تھی جو کراچی میں نظر آتی ہے۔
بکرے کے سری پائے پھینک دئیے گئے اور اوجھڑی کو اسی وقت سامنے سمندر میں لے جا کر دھو کر صاف کر لیا گیا۔ رات کو جب میں نے رخسار سے پوچھا کہ آج کیا پکایا تو جواب ملا اوجھڑی۔ مجھے ایک جھٹکا لگا۔ کراچی میں اوجھڑی پھینک دی جاتی ہے۔ البتہ سری پائے بنوا کر رکھ لیتے ہیں۔ اوجھڑی کی وجہ سے شہر میں آلائیشیں پھیل جاتی ہیں۔ مگر یہاں سب نے پہلے دن اوجھڑی پکائ۔ کہنے لگی نادر بلوچ سے کہا تھا کہ آپکو اوجھڑی کا سالن دے دے۔ لیکن کہنے لگا کہ عنیقہ کہاں اوجھڑی کھائے گی۔
میں ہنسنے لگی۔ میں اوجھڑی کھاتی ہوں۔ اچھی طرح پکی ہو تو بڑے مزے کی ہوتی ہے لیکن عید والے دن، ذبح کئے ہوئے جانور میں اتنا کچھ ہوتا ہے کہ ہم لوگ اوجھڑی بالکل نہیں کھاتے۔ جب بھی کھاتے ہیں خرید کر پکاتے ہیں۔ بعد میں، میں نے اپنی اور انکی اس ادا پہ غور کیا تو خیال آیا  اسکی وجہ شاید اسکی صفائ کی پیچیدگی ہے۔ سمندر ہمارے پاس ہے لیکن ایک تو بڑی دور ہے دوسرا پونے دو کروڑ آبادی کے لوگ اگر اسے عید پہ اوجھڑی دھونے کے لئے استعمال کریں تو سوچ لیں کیا ہوگا۔
اپنے حصے میں آنے والے گوشت پہ سے چربی اچھی طرح صاف کی۔ یوں اس گوشت میں مزید ڈیڑھ دو کلو کی کمی واقع ہو گئ۔ نادر سے ڈرتے ڈرتے بات کی کہ کہیں اسے برا نہ لگے کہ وہ اگر چاہے تو یہ چربی لے سکتا ہے ورنہ ہم اسے پھینک ہی دیں گے۔ چربی کا یہ ڈھیر وہ بخوشی لے گیا۔
سارا دن گھر محلے بچوں سے بھرا رہا یا خواتین وقفے وقفے آتی رہیں۔ بچوں کے لئے تو گھر کے لیونگ روم میں موجود چھ ضرب چار فٹ کا جھولا سب سے بڑی کشش تھا۔ ایک وقت میں آٹھ دس بچے اس پہ لدے مزے لے رہے ہوتے۔ خواتین کے لئے شاید صوفے میں بڑی کشش تھی۔ وہ ایک دن میں دو دو بار آتیں۔ شام تک بچوں کے اس ہنگامے کی وجہ سے تھکن ہو گئ۔ اگرچہ اس دن میں نے ایک بلوچی لفظ سیکھا۔ بورو، مطلب باہر جاءو۔

عید گاہ کی طرف لوگوں کی روانگی





مشعل بچوں کے اس ہجوم میں کہیں غائب تھی۔ کبھی کبھی مجھے اسکی شکستہ بلوچی جملوں کی آوازیں آتیں۔ وہ زبان سیکھنے کے معاملے میں کافی تیز ہے۔ محض دو دن میں بلوچی لہجہ اور جملے سیکھ لئے تھے۔ جہاں الفاظ نہیں آتے وہاں لہجے سے کام چلاتی۔
آنے والی مہمان خواتین کے آگے جب میں نے دودھ سویاں رکھیں تو وہ اسے کھاتے ہوئے بادام کی ہوائیاں نکال کر ایک طرف رکھنے لگیں مجھے اندازہ ہوا کہ وہ اس بات سے واقف نہیں کہ بادام بھی کوئ چیز ہوتی ہے۔ 
لائیٹ اب تک لا پتہ تھی۔ معلوم یہ ہوا کہ پی ایم ٹی اڑ چکا ہے۔ واپڈا والوں سے بات ہوئ ہے وہ اس پہ کام کر رہے ہیں رات تک آئے گی۔ رات مطلب، گیارہ بجے آئ۔ کبھی آپ نے نوٹ کیا کہ صحیح وقت کے بجائے رات، صبح،  دوپہر کہہ لیا جائے تو ذمہ داریوں کے تناءو سے کیسے نجات مل جاتی ہے۔
رات کے لئے میں نے پلاءو بنانے کے پروجیکٹ پہ کام شروع کیا۔ گوشت کا قورمہ تیار کر لیا اور چاول ابالنے کی باری آئ تو پتہ چلا کہ سلنڈر میں گیس ختم ہو گئ ہے۔ اسے کہتے ہیں غربت میں آٹا گیلا۔ عید کی چھٹی گیس کہاں سے ملے گی۔ یہ ایک الگ کہانی کہ پلاءو کس طرح اپنی منزل کو پہنچا۔ بہر حال ہم نے اسے کھایا بھی اور پڑوسیوں کو بھی دیا۔ اور ہاں نہ گوشت میں بُو تھی اور نہ ہی یہ سخت تھا۔ مزے سے گھنٹہ بھر میں گل گیا۔
بجلی رات کو شکر ہے کہ گیارہ بجے آگئ۔ یوں گوشت  ریفریجریٹر میں گیا۔
رات کو بارہ بجے جب ہم بستر پہ ڈھیر ہوئے تو ذکری ورد کی آوازیں ایک بار پھر آ رہی تھیں۔ یہ شاید تین راتوں تک جاری رہے۔ میں نے سوچا۔  سارا دن کے ہنگامے میں پتہ ہی نہ چلا کہ ہم ایک تہوار پر اپنے شہر، گھر اور رشتے داروں سے دور ایک اجنبی جگہ پر ہیں۔ انسان اگر مختلف کاموں میں شدید مصروف ہو تو ایسے خیالات کیسے راستہ پائیں۔ خالی ذہن چاہے افراد کے ہوں یا قوم کے شیطان کا گھر ہی بنتے ہیں۔


گوادر کے متلعق مزید تحاریر پڑھنے کے لئے اس لنک پہ جائیں۔