Tuesday, December 28, 2010

کراچی، کتابوں کا میلہ

کراچی میں ایکسپو سینٹر میں کتابوں کا میلہ جاری ہے۔ وقت  کو کھینچ تان کر اتنا کیا کہ اس میں سے آج وہاں جانے کا وقت نکال ہی لیا۔ ہم دو خواتین چاہتے تھے کہ بچوں کو ایسی جگہوں پہ ضرور جانا چاہئیے۔
ادھر میری بیٹی کو تو باغیوں کا سرغنہ بننے کا شوق ہے اُدھر باقی چار بچے کل ہی سات سمندر پار سے ایک لمبا سفر طے کر کے یہاں پہنچے۔ ابھی سفری تھکن اور جیٹ لیگ سے باہر بھی نہیں نکلے کہ ہم انہیں ساتھ لے گئے۔
یوں میں ایک اسٹال پہ، میری ساتھی خاتون دوسرے اسٹال پہ، میری بیٹی صاحبہ اپنی ہم عمر بچی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے بڑوں کی سرپرستی سے آزاد رہ کر میلہ دیکھنے کی خواہش مند۔ باقی بچے نیم حالت نیند اور تھکن میں۔
اب یہ خاصہ چیلینجنگ کام بن گیا تھا کہ کتابیں بھی دیکھتے جائیں اور بچوں کی حدود بھی متعین کرتے جائیں۔
ایک وقت مشعل نے کہیں سے ایک کتاب لا کر ہاتھ میں تھما دی کہ وہ انہیں لینا ہے کیونکہ اس میں بہت بیوٹی فل اسٹیکرز ہیں اور ایک مر میڈ کی تصویر بھی موجود ہے۔ یہ کتاب ٹیچرز کے لئے تھی، یا بڑے بچوں کے لئے۔ پھر ایک بحث و مباحثے کے بعد ان سے لیکر واپس رکھنے لگے تو سوال پیدا ہوا کہ اسے کہاں رکھا جائے۔ چاروں طرف اسٹالز تھے اور اب انہیں یہ یاد نہیں تھا کہ کہاں سے اٹھائ ہے۔ خیر جناب، اس طرح کے حالات سے گذرنے کے بعد ہم نے سوچا کہ جلدی جلدی ایک نظر ڈال کر نکل چلیں۔
  اس دفعہ ایک بات جو میں نے محسوس کی کہ اردو کتابوں کا خاصہ بڑا ذخیرہ موجود تھا۔ ان میں روائیتی اردو ناول یا فکشن کی کتابیں یا اسلامی کتابیں ہی نہیں تھیں بلکہ بچوں کے لئے اردو میں بڑی کتابیں موجود تھیں کہانیوں سے لے کر عام معلوماتی اور سائینسی کتابیں بھی۔ شاید پچھلے کچھ عرصے میں ان کتابوں کی اشاعت میں اضافہ ہوا ہے۔ یوں انگریزی کتابیں اتنی نہیں تھیں جتنی کہ پہلے نظر آتی تھیں۔ کتابوں پہ رعایت کچھ خاص نہیں اس سے زیادہ تو اردو بازار میں مل جاتی ہے۔
اس بھاگ دوڑ میں، میں نے بھی یونہی کچھ کتابیں لے لیں۔ ان میں ایک کتاب شاہ بلیغ الدین کی روشنی ہے۔ دوسری تہذیبی نرگسیت، حالانکہ میں اسے نیٹ پہ پڑھ چکی ہوں مگر مصنف کو کاپی رائیٹ کا حق دیتے ہوئے خریدی۔ اس سے یقیناً راشد کامران صاحب کو خوشی ہوگی۔
شہرزاد پبلشر پہ تمام ادبی کتابوں پہ  پچاس فی صد رعایت تھی۔ وہاں سے خالد جاوید کا ایک ناول  'تفریح کی ایک دوپہر' لیا نجانے کیوں مجھے اسکا عنوان دلچسپ لگا۔ ایک مجموعہ کشمیری کہانیوں کا لیا جو حمرہ خلیق نے بیان کی ہیں۔ لیکن وہاں مجھے ایک کتاب اور ملی، جو اپنے عنوان سے بہت دلچسپ لگی اسکا نام ہے نوجوان ناول نگار کے نام خط۔
مشعل کے لئے میں نے پچھلے مہینے کافی ساری کتابیں لیں بلکہ اس دفعہ انکی سالگرہ پہ انکے کلاس فیلوز کو تحفے میں ایک ایک کتاب دی۔ لیکن  فیروز سنز پہ بچوں کی کہانیوں کا  خزانہ موجود تھا۔  ہر کتاب تیس روپے کی اور ان پہ کچھ رعایت بھی۔  سو، کچھ کتابیں انکے لئے پھر لیں لیکن اس بار،  یہ سب اردو میں تھیں۔
گھر آکر سب سے پہلے کتاب 'نوجوان ناول نگار کے نام خط' نکال کر سرسری سی دیکھی۔
 یہ ایک کتاب کا ترجمہ ہے۔ جس میں ناول نگاری کے اجزائے ترکیبی بیان کئے گئے ہیں۔ ابتدائیے میں مترجم لکھتے ہیں کہ
یہ اجزائے ترکیبی یا رموز، علی الترتیب یہ ہیں، اسلوب، راوی اور بیانیہ مکان، زمان یا وقت، حقیقت کی سطحیں، انتقالات اور کیفی زقندیں، چینی ڈبے یا روسی گڑیاں، پوشیدہ حقیقت اور کم یونی کیٹنگ وے سلز۔ 
آخر میں وہ نوجوان کو نصیحت کرتا ہے کہ
میرے  عزیز دوست، میں جو کہنے کی کوشش کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ تم نے ہر وہ چیز جو میرے خطوں میں ناول کی وضع کے بارے میں پڑھی ہے اسے بھول جاءو، بس کمر باندھ کر بیٹھ جاءو اور لکھنا شروع کردو۔

سر سید، تبیین الکلام اور علی گڑھ


سر سید اپنی نو عمری سے یہ دیکھ رہے تھے کہ عیسائ مشنری کے علماء ہندوستان میں پھیلے ہوئے ہیں اور مسلمانوں سے مناظرہ اور مباحثہ کرتے پھرتے ہیں۔ مسلمان علماء بھی ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اسکی وجہ سے ایک جانب تو لوگ ان مشنریز کے زیر اثر آنے سے بچ گئے تھے مگر دوسری جانب یہ فریقین کے درمیان تلخی کا باعث بنتا تھا۔ جبکہ سر سید اپنے فہم پہ سمجھتے تھے کہ ان دونوں فرقوں کے عقائد میں فرق زیادہ نہیں ہے۔ جتنےدونوں طرف کے مولویوں نے بنا رکھے ہیں۔
اس پہ انہیں خیال آیا کہ ایسی کتاب لکھنی چاہئیے جس سے پتہ چلے کہ بائبل اورقرآن دونوں آسمانی کتابیں بہت سے معاملات میں ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان علماء جو کہ تحریف کی وجہ سے بائبل کو سراسر غلط سمجھتے ہیں اور عیسائ علماء جو قرآن کو سرے سے آسمانی کتاب تسلیم کرنے کو تیار نہیں  ان میں اس گمراہی کی اصلاح ہونی چاہئیے۔
اسے لکھنے کے لئے سرسید نے تفصیلی طور پہ بائبل کا مطالعہ کیا، عبرانی زبان سے واقفیت پیدا کی۔ تاکہ اسے اصل زبان میں پڑھ کر معلوم کریں کہ عیسائیوں نے کہاں کہاں تحریف کی ہے۔
عیسائ تین خداءووں کے قائل ہیں جبکہ بائبل میں تثلیث کا تذکرہ نہیں ملتا۔ اسی طرح مسلمان نسخ آیت قرآنی کے قائل ہیں لیکن سر سید نےنے اپنی کتاب تبین الکلام اور خطبات احمدیہ میں ثابت کیا کہ قرآن حکیم کی کوئ آیت منسوخ نہیں ہوئ۔
بہر حال عیسائیت اور اسلام کے تعلق پہ انہوں نے کتاب تبیین الکلام لکھی۔ اس بارے میں مسلمانوں اورعیسائیوں دونوں میں شبہات اٹھے۔ سر آرنلڈ کے خط کے جواب میں سر سید لکھتے ہیں کہ

بایں ہمہ مجھ کو یقین ہے کہ میری زندگی میں عام مسلمانوں کی گالیوں اور نفرت سے مجھے نجات نہ ملے گی۔ عیسائ بھی میری تفسیر سے خوش نہیں ہو سکتے کہ جس طرح میں انجیل کی تعلیم کو صحیح اور درست سمجھتا ہوں اسی طرح تثلیث کے مسئلے کا قائل نہیں اس لئے کہ میں انجیل میں کہیں اسکی تائید یا وجود نہیں پاتا ہوں۔
مجھ کو یقین ہے کہ  مذہب اسلام صحیح ہے اور اسکی صحت اور وجود دونوں انجیل سے ثابت ہیں۔ اس لئے مجھے کچھ پرواہ نہیں کہ کسی گروہ کے لوگوں کو خواہ وہ مسلمان ہوں یا عیسائ خوش کروں۔ میں حق پہ ہوں اور اس خدا کو خوش کرنا چاہتا ہوں جس کے روبرو سب کو ایک دن جانا ہے۔ البتہ یہ میری خواہش رہی ہے کہ مسلمان اور عیسائیوں میں محبت پیدا ہو کیونکہ قرآن مجید کے موافق اگر کوئ فرقہ ہمارا دوست ہو سکتا ہے تو وہ عیسائ ہیں۔

وقت کے دھارے سے گذرتے ہوئے سر سید احمد خان کو یہ احساس ہوا کہ جب تک ہندوستان میں علم کی روشنی نہیں پھیلتی انکے ترقی کرنے کی امید نہیں کی جا سکتی۔ ادھر علوم جدیدہ، کے خزانے انگریزی میں دستیاب تھے۔ مسلمان انگریز سے نفرت کرتے تھے اور انگریزی سیکھنے کی طرف مائل نہ تھے۔ جبکہ ہندو بھی صرف اسی قدر انگریزی سیکھنے میں دلچسپی رکھتے تھے جو ملازمت کے حصول کو آسان بنادے۔
ان علوم کی طرف توجہ دلانے کی غرض سے سر سید نے یہ تجویز پیش کی کہ ایک سائینٹیفک سوسائیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے۔ جس کا اہم کام، اہم علمی و سائینسی کتابوں کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرا کے انکی اشاعت ہو۔
اس طرح سے ۱۸۶۳ میں غازی پور، جہاں سر سید بغرض ملازمت موجود تھے، میں یہ سوسائٹی وجود میں آئ۔ اس وقت کے وزیر ہند کو اسکا پیٹرن بنایا گیا، پنجاب اور یوپی کے گورنر اسکے وائس پیٹرن بنے۔ ملک بھر سے رئیس اور علم دوست لوگوں کو اسکا ممبر بنایا گیا۔
سر سید اگرچہ اس سوسائیٹی کے روح رواں تھے مگر انہوں نے خود کو اسکا سیکریٹری کہلوانا پسند کیا۔ 
اس سلسلے میں انہوں نے مختلف شہروں کا دورہ کیا تاکہ اسے متعارف کرایا جا سکے۔
 انہی بنیادوں پہ انہوں نے غازی پور میں ایک مدرسہ بھی قائم کیا۔اسکی تعمیر کے لئے چندہ اکٹھا کیا گیا اور اسّی ہزارروپے کی لاگت سے ایک شاندار عمارت تعمیر کی گئ۔ اس مدرسے کا موجودہ نام وکٹوریہ ہائ اسکول ہے۔ ۱۸۶۴ میں سر سید کا تبادلہ غازی پور سے علی گڑھ ہو گیا۔
علی گڑھ جاتے ہوئے وہ سائینٹیفک سوسائیٹی کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ اور علیگڑھ میں علاقے کے رئیسوں سے چندہ اکٹھا کر کے  اسکے لئےایک عالی شان عمارت تعمیر کروائ۔
اس انسٹیٹیوٹ میں ہر ماہ علمی اجلاس اور مذاکرے ہوتے۔ مختلف موضوعات پہ لیکچر کا اہتمام کیا جاتا۔ سائینسی آلات کی مدد سے مختلف سائینسی علوم کی وضاحت اور تشریح کی جاتی۔ بہت سی کتابوں کے تراجم ہوئے۔ مفید اور علمی کتابوں کی ایک لائبریری قائم کی گئ۔
حالی لکھتے ہیں کہ رئیسہ ء بھوپال نواب سکندر بیگم نے سر سید کی خدمات کے اعتراف میں ایک قیمتی انگوٹھی بطور تحفہ بھجوائ جسے سرسید نے ایک ہزارروپے میں بیچ کر ساری رقم انسٹیٹیوٹ کے فنڈ میں جمع کروادی۔ سر سید نے تبیین الکلام کی طباعت کے لئےآٹھ ہزار روپے اس زمانے کے لحاظ سے  کثیر رقم خرچ کر کے اپنا پریس خریدا تھا۔ وہ بھی اس انسٹیٹیوٹ کے حوالے کیا اور یوں سوسائیٹی کی کتابیں، اخبار، رسالے اور اطلاع نامے اسی پریس سے چھپنے لگے۔
اس ادارے کے دارالمطالعہ میں لندن اور ہندوستان کے اطراف و جوانب کے اٹھارہ انگریزی اور چھبیس اردو اخبارات و رسائل آیا کرتے تھے جو اس وقت کے لحاظ سے ایک خاصی بڑی تعداد تھی۔ یوں اسکی روشنی ملک کے طول و عرض میں اہل بصیرت تک پہنچنے لگی۔

جاری ہے 

Saturday, December 25, 2010

جناح اور تحریک پاکستان، یادوں کا مزار

قائد اعظم جوانی میں


قائد اعظم اور مسلم لیگی رہ نما




قائد اعظم اپنے دوستوں کے ساتھ



قائد اعظم کی پہلی بیوی، ایمی بائ جو انکی والدہ کی پسند تھیں اور شادی کے کچھ عرصے بعد انتقال کر گئیں جبکہ وہ لندن میں اپنی وکالت کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔


قائد اعظم کی دوسری بیوی رتی بائ، جن سے انہوں نے پسند کی شادی کی۔ ان سے انکی اکلوتی اولاد دینا جناح تھیں۔

قائد اعظم اپنی بہن فاطمہ جناح کے ساتھ

قائد اعظم اور فاطمہ جناح اپنے دوستوں کے ساتھ

قائد اعظم اپنی اکلوتی بیٹی دینا کے ساتھ
قائد اعظم اپنی بیٹی اور بہن کے ساتھ



 قائد اعظم اپنے خاندان کے لوگوں کے ساتھ

قائد اعظم حیدرآباد دکن کی خواتین کے ساتھ







Wednesday, December 22, 2010

اختیار

میں گھر سے نکلی اور ابھی گاڑی تک پہنچ ہی رہی تھی کہ  پڑوسیوں کی بہو صاحبہ مل گئیں۔ سلام دعا کے بعد انہوں نے شکوہ کیا کہ اب تو ہم سے ملنا ہی نہیں ہو پاتا، پھراصرار کہ ذرادیر کو ان کے ساتھ بھی بیٹھ جائیں۔ میں نے سوچا  مشعل تو اپنے بابا کے ساتھ ہے۔ موقع اچھا ہے۔ چلیں کچھ وقت انکے ساتھ بھی گذار لیا جائے۔
باتوں باتوں میں میں نے پوچھا آپ کی شادی کو تو چار سال ہو رہے ہونگے۔ بچوں کا پلان نہیں ہے ابھی۔ کہنے لگیں نہیں ہماری طرف سے تو ایسا  کچھ نہیں ہے۔ ایک دفعہ آثار بنے مگر تیسرے مہینے ہی ختم ہو گیا۔ اب ڈاکٹر کہتے ہیں کہ میری ایک ٹیوب بند ہے اور ایک کھلی۔ ادھر میرے شوہر کے ساتھ جرثوموں کا بھی کچھ مسئلہ ہے۔ میں نے انہیں تسلی دی۔ ایک ٹیوب کھلی ہے تو بھی بڑی بات ہے۔ ایک ہی راستہ چاہئیے ہوتا ہے اور ایک ہی اسپرم۔
 پھر ان سے پوچھا کہ وہ اس سلسلے میں کیا کچھ کروا چکی ہیں تاکہ اندازہ تو ہو انکا اپنے بارے میں علم کتنا ہے۔
اس بارے میں بتاتے وہ دفعتًا کہنے لگیں کہ آپ تو ادھر ادھر آتی جاتی ہیں۔ کسی اچھی گائینا کولوجسٹ کا پتہ ہے تو مجھے بتائیں۔ میں نے انہیں ایک گائیاکولوجسٹ کا پتہ دیا کہ ان سے ضرور ملیں۔ اور پھر کہا کہ اور اگر ایسے بھی کچھ نہ ہو تو ٹیسٹ ٹیوب بے بی کر والیں۔ کراچی میں اب بآسانی ہوتا ہے۔ اور یہ جن گائیناکولوجسٹ کا پتہ میں نے آپکو دیا ہے یہ بھی کرتی ہیں اور دیگر جگہوں کے مقابلے میں انکے پاس خرچہ کم آتا ہے۔ ویسے تو زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے لیکن  یاد رکھیں ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے لئے بھی خواتین کی عمر خاصی اہمیت رکھتی ہے۔
جواب ملا آپکی سب باتیں اپنی جگہ صحیح مگر میرے شوہر ٹیسٹ ٹیوب بے بی کو غیر اسلامی کہتے ہیں۔ اچھا، میں نے ان سے کہا پاکستان میں جس طرح کیا جاتا ہے یہ سارا عمل اس میں اسے غیر اسلامی نہیںکہا جا سکتا۔ خیر، یہ انکا ذاتی فیصلہ ہے۔ ہر ایک کا اپنا فقہ۔ آپ کوئ بچہ کیوں نہیں گود لے لیتیں۔ ایک دفعہ پھر سرد آہ۔ وہ کہتے ہیں کہ سگے بہن بھائیوں کے علاوہ کسی کا بچہ گود نہیں لیا جا سکتا۔ وہ بڑا ہو کر نامحرم ہو جائے گا۔  انکے تو ایک ہی بھائ ہیں انکی بھی ایک ہی بچی ہوئ اسکے بعد کوئ اولاد نہیں۔ ادھر میرے بہن بھائیوں میں بھی کوئ اب بچے پیدا کرنے کے حالات میں نہیں۔ یہ تو نہیں ہو سکتا۔
میں نے ان پہ ترس کھایا۔ ہمدردی کے الفاظ بولے اور نکل آئ۔ انسان صرف ایک دفعہ زندگی جیسی نعمت پاتا ہے اور اس میں بھی وہ  سب لوگوں کی اطاعت میں وہ بھی نہیں کر پاتا۔ جس سے کوئ اخلاقی قدر ختم نہیں ہوتی۔ معاشرہ غیر مستحکم نہیں ہوتا۔ صرف اسکی زندگی میں خوشی سے جینے کا تحرک پیدا ہوتا ہے۔

والدین بننا، دنیا کی سب سے بڑی خوشی ہے۔  مرد یا عورت کواپنی زندگی میں شادی کو ترجیح دینا چاہئیے۔ اس لئے نہیں کہ آپکو ایک ساتھی ملے گا۔ بلکہ اس لئے بھی کہ یہی وہ پاک طریقہ خدا نے رکھا ہے جس کے ذریعے نسل انسانی آگے بڑھتی ہے۔ 
شادی شدہ جوڑوں میں سے تقریباً پندرہ فیصد افراد کسی بھی وجہ سے بے اولادی کا شکار ہوتے ہیں۔ شادی کے ایک سال بعد تک اگر آپکے یہاں اولاد کے آثار نہیں تو فوراً گائیناکولوجسٹ سے رابطہ کریں۔ بے اولادی کے ٹیسٹ مرد کے لئے بھی کرانا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ عورت کے لئے۔ مرد کا ٹیسٹ بہت سستا اور آسان ہوتا ہے۔ بے اولادی کی وجہ مردوں کے اندر بھی اسی نسبت سے ہوتی ہے جتنی کہ عورتوں میں۔ 
اگر کسی بھی وجہ سے خدا آپکو بچوں جیسی نعمت سے نہیں نوازتا تو دل چھوٹا نہ کریں۔ یہاں لا تعداد بچے ماں کی گرم گود اور باپ کی شفقت کے منتظر ہیں۔ اپنے دل میں نرمی پیدا کیجئیے اور انہیں گود لے لیں۔

بچے، زندگی میں سب سے بڑا تحرک ہیں۔ وہ آپکو، آپکی زندگی کی ان باریکیوں سے آشنا کراتے ہیں جن سے بحیثیت انسان بھی آپ اس وقت تک آشنا نہیں ہو پاتے جب تک انکی معصوم مسکراہٹ اور بے لاگ تجزیہ کی قوت آپکو نہیں ملتی۔ انکے ساتھ رہنا ایک بالکل مختلف دنیا ہے۔  وہ  دنیا میں  امید کا نشان اور خدا کا سب سے انمول تحفہ ہیں۔ وہ بچے بھی جو آپ نے پیدا نہیں کئیے لیکن خدا نے انکی محبت سے آپکے دلوں کو معمور کیا۔ پیدا کرنا آپکے اختیار میں نہیں مگر سنوارنا،سنبھالنا اور محبت کرنا یہ آپکے اختیار میں ہے۔

Monday, December 20, 2010

خدا کے قریب

رمضان کا مہینہ تھا اور تیرہ اگست کا دن کہ مجھے اپنی بیٹی کے اسکول سے نوٹس ملا۔ کل سکول میں چودہ اگست منایا جا رہا ہے اور یہ بات خوشی کا باعث ہوگی کہ آپ اپنے بچے کو قومی لباس میں بھیجیں۔ میری بچی کے پاس یوں تو شلوار قمیض ہیں مگر مجھے خیال آیا کہ اگر ہرے سفید رنگ میں بنا لیا جائے تو موقعے کی مناسبت سے اچھا ہے۔ گھر میں سفید شلوار اور دوپٹے کا کپڑا موجود ہے قمیض کا لینا پڑے گا۔ باقی سلائ مجھے خود آتی ہے  گھنٹے بھر میں سل جائے گا۔  کل وہ تیار ہو کر بڑی اچھی لگے گی۔ میں فوراً گھر کے قریب لگنے والے بچت بازار چلی گئ۔
بازار میں سب سے پہلی دوکان ملی جو افغانی پٹھان کی تھی۔ اسکے پاس مجھے ہرے سفید پرنٹ میں اپنے مطلب کا کپڑا مل گیا پوچھا کیا حساب ہے۔ کہنے لگا ایک سو تیس روپے گز۔ میں نے کہا، ساری مارکیٹ میں یہ کپڑا عام ہے اور سو روپے گز ملتا ہے۔ کہنے لگا کہ لیکن ہے بھی تو ہرے سفید رنگ میں۔ یہ افغانی پٹھان کتنے تیز کاروباری ہوتے ہیں۔ میں نے سوچا اور  اس سے کہا کہ سو روپے گز نہیں دوگے تو نہیں لونگی۔ کسی اور جگہ سے لے لونگی۔ خیر، وہ راضی ہو گیا۔ کہنے لگا کتنا چاہئیے۔ میں نے جواب دیا۔ دو گز ، یہ کہہ کر میں اپنا پرس چھاننے لگی اور وہ خاموشی سے کپڑا ناپ کر کاٹنے لگا۔ اتنے میں ذرا فاصلے پہ بیٹھا اسکا اسسٹنٹ لڑکا جسکی عمر انیس بیس سال ہوگی، کلین شیوڈ، آکر میرے سامنے بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ باجی رمضان کا مہینہ ہے کیا ہمیں نیک اور اچھا نہِں بننا چاہئیے۔
میں نے یہ جملہ سن کر سر اٹھایا۔ میں نے صبح اٹھ کر سحری کی تھی۔ نماز پڑھی، تھوڑا سا سیپارہ پڑھا اپنے روز کے امور انجام دئیے۔ اس دوران کسی مرد کو ترغیب دینے کی کوشش کی نہ خیال آیا، نہ جھوٹ بولا ، نہ غیبت کی نہ چوری اور نہ غبن، نہ کسی پہ بہتان لگایا، نہ تہمت دھری، نہ کسی کی حق تلفی کی، نہ کسی کو نقصان پہنچایا، نہ اپنی نیکیوں کا ڈھنڈھورا پیٹا نہ کسی اور سے اسکی نیکیوں کا حساب پوچھا۔  صرف اس دن ہی نہیں بلکہ بقیہ تمام دنوں میں ، میں نے  ہمیشہ اپنے آپکو ان تمام اخلاقی برائیوں سے دور رکھنے کی کوشش کی۔ 
یہ مجھے بالکل نہیں جانتا، پھر یہ مجھ سے یہ سوال کیوں کر رہا ہے؟
میں نے اسکی آنکھوں میں دیکھا اور سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں سمجھ آگیا کہ وہ مجھے دوپٹہ سر سے اوڑھنے کے بارے میں نصیحت کرنے والے ہیں۔ میں نے اس سے ترنت کہا۔ رمضان کا مہینہ ہے کیا تمہیں نیک اور اچھا نہیں بننا چاہئیے۔ کیا تمہیں یقین ہے کہ تم نیکی اور اچھی کے اس درجے پہ پہنچ گئے ہوں جہاں تم دوسروں سے یہ سوال کرو۔ وہ ایکدم خاموش میری طرف خالی آنکھوں سے دیکھنے لگا۔ 
حالات کی یہ صورت اسکے ذہن میں نہیں تھی۔ اتنی دیر میں اس پہلے دوکاندار نے صورت حال کو بھانپا اور جلدی سے کپڑے کی تھیلی میرے ہاتھ میں دی۔ یہ کہتے ہوئے کہ سب کو نیک اور اچھا بننا چاہئیے۔ سب کو ضرورت ہے۔
راہ چلتی کسی انجان خاتون سے یہ کہنے والے آپ کون ہوتے ہیں؟ آپ کون ہوتے ہیں کہ آپ کسی بھی خاتون کو کھڑے ہو کر اس بات پہ لیکچر دینے بیٹھیں کہ اسے اسلام کے مطابق کیسی زندگی گذارنی چاہئیے۔ جبکہ وہ اپنے کام سے  لگی ہوئ ہو۔ آپ اس سے واقف نہیں، اسکے شب وروز نہیں جانتے۔ 
کیا اس لئے کہ کسی بحر بیکراں کے عالم نے آپکے کانوں میں یہ طلسم پھونکا کہ اب آپ نیکی اور اچھائ کی اس معراج پہ پہنچ گئے ہیں جہاں اب آپکو حق ہے جسے چاہیں اسے دین کی اپنی سمجھ عطا کرتے جائیں۔ یا خدا نے آپکو الہام کیا ہے۔ خاص طور پہ اگر آپ ایک مرد ہیں تو اب آپکو یہ خدائ حق مل گیا ہے کہ ہر عورت کو خدا کے اس حکم سے آگاہ کریں جو اسکے متعلق ہے۔
کل ہی فیس بک پہ میری پوسٹ ایک سودے کا سواد میں جو کہ وکی لیکس کے بارے میں ہے۔ ایک صاحب تبصرہ کرتے ہیں کہ خدا کس قسم کی خواتین کے قریب ہوتا ہے؟
وہ جو گھر میں رہ کر اپنے بچوں کی تربیت میں لگی ہو۔
ایک دفعہ میں پھر حیران ہوئ کہ اسکی یہاں کیوں ضرورت۔ اس پوری پوسٹ کا اس ساری چیز سے کوئ تعلق نہیں۔  ان موصوف نے اسی پہ بس نہیں کی بلکہ ایک اور اسٹیٹس کے تھریڈ پہ اسے ڈالا۔ یعنی اتنا اہم تھا کہ اسے دو جگہ ڈالنا پڑا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ وہ موصوف میرے فیس بک دوستوں میں شامل نہیں ہیں۔  فوری طور پہ انہیں تائیدی رکن بھی مل گئے۔ کیونکہ یہ اسٹیٹس کس کا تھا ایک خاتون کا۔ اورجب انہیں گھر میں بٹھا کر  خالصتاً بچوں کی پرورش میں مصروف ماں  بنا لیں گے تو ہزار نفلوں کا بیٹھے بٹھائے محض چند ِکلکس پہ ثواب مل جائے گا۔  
کیا کہوں، کہ ان موصوف نے اپنے ماں باپ کے پیسوں پہ عیاشی کر کے آرام کی زندگی گذاری ہوگی۔ ورنہ اگر تھر کی گرمی میں کمر سے بچہ باندھ کر روڈ کوٹتی عورتوں کو دیکھتے تو معلوم ہوتا کہ خدا کن عورتوں کے قریب ہوتا ہے۔ ریگستانوں میں میلوں دور سے اپنے گھر والوں کے لئے پینے کا پانی لاتی عورت کو دیکھتے تو معلوم ہوتا کہ خدا کن عورتوں کے قریب ہوتا ہے۔ 
اسی ریگستان میں جب مرد سینکڑوں فٹ گہرا کنواں کھودرہا ہوتا ہے تو عورت اس سے مٹی لے لے کر پھینک رہی ہوتی ہے اور یوں سارا دن اسکے ساتھ لگی ہوتی ہے۔ کراچی کی مضافاتی بستیوں سے گھنٹوں کا فاصلہ طے کر کے گارمنٹ فیکٹریوں میں کام کر کے اپنے بچوں کو پالتی عورت کو دیکھتے تو معلوم ہوتا کہ خدا کن عورتوں کے قریب ہوتا ہے۔
اقبال نے کہا تھا کہ ہند کے شاعر و افسانہ نویس صورت گر، آہ بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار، یہاں اقبال صاحب نے نجانے کیوں ہند کے  ان لوگوں کو تذکرہ نہیں کیا جن پہ جب اسلام کی پاسداری کا شوق چڑھتا ہے تو فورا اپنی منجنیقوں کا رخ عورتوں کی طرف موڑ لیتے ہیں۔ اور تان لا کر توڑیں گے لبرلزم پہ۔ 
لا علم، صرف چند الفاظ سیکھ لیتے یہ تک نہیں جانتے کہ انکی ارد گرد کی دنیا میں ہو کیا رہا ہے۔ کیا  تھر میں روڈ کوٹنے والی عورت یہ سب کچھ لبرلزم کی وجہ سے کرتی ہے۔ نیو کراچی سے تعلق رکھنے والی عورت کسی گارمنٹ فیکٹری میں دھاگے کاٹنے لبرلزم کی وجہ سے جاتی ہے، کیماڑی کی بندرگاہ پہ برف سے ٹھنڈے جھینگوں اور مچھلیوں کو صاف کر کے اپنی انگلیاں گلاتی عورت ہوئی سب کچھ لبرلزم کی وجہ سے کرتی ہے۔ یہ تو بہت محدود مثالیں ہیں اگر حقیقی زندگی کو برتیں تو ان گنت مثالیں اور رخ ہیں جنہیں جاننے والے جانتے ہیں۔
کیوں کی جاتی ہیں یہ لایعنی باتیں ہر وقت اس لئے کہ ایک طبقے کی عورت تو یہ تمام سختیاں سہتی رہے اور پھر بھی اس خوف کا شکار رہے کہ خدا اسکے قریب ہے یا نہیں اوردوسرے طبقے کی عورت کو اس ذریعے سے بالکل ختم کر دیا جائے کہ اگر اسکے علاوہ کچھ بھی کیا تو خدا تمہارے قریب نہیں ہوگا۔
یہ سب پیٹ بھرے  نئے مسلمانوں کے خیالات جدیدہ ہیں جو کسی کو کچھ سوچنے کے قابل نہیں رکھنے نہیں دینا چاہتے۔ وہ اور انکے بحر بیکراں کے عالم ہیں ناں سب کچھ سوچنے اور کہنے کے لئے۔

نوٹ؛ فی الوقت اس پوسٹ پہ تبصرے پبلش نہیں کئیے جائیں گے۔

Friday, December 17, 2010

ایک سودے کا سواد

کارا فلم فیسٹیول والوں کی طرف سے کراچی میں بین الاقوامی فلموں کا میلہ جاری تھا کہ ایک دن ہمیں ایک دوست کی دستاویزی فلم میں شرکت کا دعوت نامہ ملا۔ حالات کچھ ایسے بنے کہ  کچھ مراعات کی وجہ سے ہمیں ایکدن کی فلمیں دیکھنے پہ رعایت بھی مل گئ۔ انکی دستاویزی فلم دیکھ کر فارغ ہوئے اور پھر کچھ اور فلمیں لگاتار دیکھ ڈالیں۔ اب ایک ایسا شخص جو دو ڈھائ گھنٹے کی فلم ٹکڑوں میں یا ٹہل ٹہل کر دیکھتا ہواسکے لئے سارا دن سینما اسکرین کے آگے گذار دینا ایک درد سر ہی بننا تھا۔ شام کو چار بجے جب ایک اور فلم دیکھنے کے لئے بیٹھے تھے تو میں نے دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ لائیٹس بند ہوتے ہی آنکھیں بند کر کے پڑ جاءونگی۔ یہ ایک دستاویزی فلم تھی اور نام بھی ایسا غیرروائیتی سا۔ باءولنگ فار کولمبائین۔  کون دیکھے گا۔ خدا جانے اس  میلے کے منتظمین کن بنیادوں پہ  فلمیں منتخب کرتے ہیں۔  صبح سے اب تک میں وہ بنیاد تلاش کرنے میں ناکام ہو چکی تھی۔
فلم شروع ہوئ اور لائیٹس بند ہونے کے بعد بھی میری آنکھیں بند نہ ہو سکیں۔
 کیا مزے کی فلم ہے۔ میلے کی منتظمین کی تمام خامیاں پس پردہ چلی گئیں۔ اور یوں لگا کہ سارے دن کی قیمت وصول ہو گئ۔ دستاویزی فلم اور اس قدر دلچسپ، کیا ممکن ہے اگر یہ دیکھنا ہو تو یہ فلم ضرور دیکھیں۔  جہاں فلم میکر امریکہ میں مار دھاڑ کے بڑھتے ہوئے جحانات کی چھان پھٹک کرتا ہے وہاں وہ اسے اتنے پر مزاح انداز میں پیش کرتا ہے کہ پردے پہ سے نظر ہٹانا ممکن نہیں۔  یہ جگتیں نہیں، نہ پھبتیاں بلکہ اس ساری چیز کے لئے خاصی ریسرچ کی گئ ہے جو فلم کا مواد دیکھ کر ہی پتہ چلتی ہے۔ جہاں فلم میکر اپنے موضوع کو اپنی گرفت میں رکھتا ہے وہاں وہ اس چیز کا پروپیگینڈہ کرتا بالکل نظر نہیں آتا کہ امریکی عظیم قوم ہیں۔ یہ فلم میکر مائیکل مور سے میرا پہلا تعارف تھا۔
 وہ ایک دستاویزی فلم میکر ہے اور انکے کریڈٹ پہ اسکے علاوہ بھی دیگر فلمیں جن میں وہ امریکن معاشرے کی سرجری کرتے نظر آتے ہیں۔
تو کیا میں مائیکل مور کا تعارف یا اس فلم کا ریویو لکھنے جا رہی ہوں۔ نہیں جناب ، ایسا کچھ نہیں ہے۔ بلکہ ہوا یوں کہ جب میں نے یہ خبر سنی کہ وکی لیکس کے بانی اسانژ نے خود کو  گرفتاری کے لئے پیش کر دیا ہے اس مقدمے کا سامنا کرنے کے لئے جسکے متعلق خیال یہی کیا جاتا ہے کہ انکی لیکس کو لگام دینے کے لئے گھڑا گیا ہے۔ تو ساتھ ہی یہ خبر بھی آگئ کہ اسانژ کی ضمانت ہو گئ ہے۔ اور اس  ضمانت  میں حصہ ڈالنے والے مائیکل مور بھی ہیں۔ بیس ہزار ڈالر ضمانت کی رقم میں ڈالتے ہوئے آخر مائیکل مور نے کیا سوچا؟
 مائیکل مور کہتا ہے کہ
I am publicly offering the assistance of my website, my servers, my domain names and anything else I can do to keep WikiLeaks alive and thriving as it continues its work to expose the crimes that were concocted in secret and carried out in our name and with our tax dollars. 
یعنی میں اپنی ویب سائیٹ، اپنے سرور، اپنے ڈومین اور ہر وہ چیز جو وکی لیکس کو زندہ اور متحرک رکھے اسکی پیش کش کرتا ہوں جب تک کہ یہ، ان جرائم کو سامنے لانے کا کام کرتی رہے گی جو کہ ہمارے نام اور ہمارے ٹیکس کے ڈالرز سے خفیہ طور پہ کئے جاتے رہے۔

وکی لیکس کیا چاہتے ہیں؟
WikiLeaks states that its "primary interest is in exposing oppressive regimes in Asia, the former Soviet bloc, Sub-Saharan Africa and the Middle East, but we also expect to be of assistance to people of all regions who wish to reveal unethical behaviour in their governments and corporations." 
 وکی لیکس کا کہنا ہے کہ انکی بنیادی دلچسپی   ایشیا، سابق سوویئت بلاک، صحرائ افریقہ اور مشرق وسطی کی جارحانہ حکومتوں کا پول کھولنے میں ہے۔ لیکن ہم تمام خطوں کے لوگوں کی مدد کرنے کی توقع کرتے ہیں جو کہ اپنی حکومتوں اور کارپوریشنز کے غیر اخلاقی رویوں کو سامنے لانا چاہتے ہیں۔

یہ سائیٹ وکی پیڈیا کی طرح ہے جس پہ کوئ بھی جا کر راز افشاء کر سکتا ہے اور افشا شدہ رازوں کا تجزیہ کر سکتا ہے۔ چاہے تو ایڈٹ بھی کر سکتا ہے۔ لیکن انکا وکی پیڈیا سے کوئ تعلق نہیں۔
 اسکے بانی جولین اسانژ کے بارے میں امریکی اراکین پارلیمنٹ اور سینیٹ اور امریکی معاشرے کے دیگر معززین کے بیانات اگر ہم پڑھیں تو حیران رہ جاتے ہیں۔ یہ بیان ویسے ہی ہیں جن سے بچنے کے لئے ہم اپنے بلاگ کے تبصروں میں کچھ اخلاقی نصیحتیں یا دھمکیاں لکھتے ہیں۔مثلاً اس کتیا کے بچے کو  غیر قانونی طور پہ شوٹ کر دینا چاہئیے۔ مزید یہ کہ وہ ایک ذہنی، نفسیاتی مریض ہے، دماغ چلا ہوا ہے اسکا، وہ ایک دہشت گرد ہے۔ اسکے ساتھ بالکل اسی طرح نبٹنا چاہئیے جیسا کہ القاعدہ اور طالبان کے ساتھ کیا گیا۔ وکی لیکس دہشت گردوں کی تنظیم ہے۔ 
مائیکل مور کے خیال میں وہ یقیناً دہشت گردہے جو ان  جھوٹے امریکیوں پہ دہشت لائے ہوئے ہے جنہوں نے امریکی قوم  کو تباہ کردیا اور دوسروں کو بھی۔ اب جنگ کے ان شیدائیوں کے لئے  اگلی جنگ کرنا اتنا آسان نہیں رہا۔ جھوٹ بولنا اب آسان نہیں رہا۔ مائیکل کے خیال میں وکی لیکس وجود میں آئ اس لئیے کہ امریکی مین اسٹریم جرنلزم نے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کیں۔ حیرت ہے دنیا بھر کی صحافتی دنیا وہ کچھ نہیں کر سکی جو وکی لیکس نے کیا۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اگر آج سے دس سال پہلے وکی لیکس کا وجود ہوتا تو صدر بش عراق پہ اس بہانے سے حملہ نہ کر پاتے کہ وہاں بڑی تباہی کے اسلحہ کا ذخیرہ ہے۔
مجھے تویوں لگتا ہے امریکی سفیر ہالبروک پہ بھی وکی لیکس کی دہشت تھی۔ وکی لیکس کے دباءو کی وجہ سے انکے دل کی بڑی شریان سے خون لیک کر گیا۔ اور وہ چٹ پٹ چلے گئے۔
ادھر روسی میڈیا میں خبر گرم ہے کہ امن کا نوبل پرائز جولین اسانژ کو دینے کی تجویز زیر غور ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو اس سال کسی صحیح شخص کو یہ انعام ملے گا۔
جولین اسانژ کو دنیا بھرکےپچاس با اثر لوگوں میں شامل کیا گیا ہے جبکہ اسے ان پچیس افراد میں بھی رکھا گیا ہے جو اپنی مستقبلیاتی ذہانت کی وجہ سے دنیا کو بدل کر رکھ سکتے ہیں۔
کیا دنیا کی تاریخ اور ترجیحات بدلنے کو ہیں؟ کیا جولین اسانژ اس بدلی ہوئ دنیا کا ایک نمائندہ ہے؟ کیا دنیا بھر کے انسانوں کو اب جنگ کی معیشت سے نجات مل جائے گی؟
اگر ان سب سوالوں کا جواب ہاں میں ہے تو مائیکل مور نے بیس ہزار ڈالر میں بڑا سستا سودا کیا۔ کیا خیال ہے؟    

Tuesday, December 14, 2010

زندہ روشنی-۲

بائیو لیئو می نیسنس سے جو روشنی پیدا ہوتی ہے وہ ٹھنڈی روشنی بھی کہلاتی ہے کہ یہ زیادہ توانائ نہیں رکھتی۔ بہت کم دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ یہ توانائ تھرمل اخراج سے ہو، جس سے کہ گرمی پیدا ہوتی ہے۔
گہرے پانیوں میں رہنے والی نوے فی صد مخلوقات یہ روشنی پیدا کرتی ہیں یا اسے استعمال کرتی ہیں۔ وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ گہرے سمندروں میں اتھاہ تاریکی ہوتی ہے۔ تو آخر اپنے ماحول اور آپس میں تعارف کیسے حاصل ہو۔ یوں یہ بزبان روشنی ہوتا ہے۔
سمندری مخلوقات زیادہ تر نیلی یا سبز روشنی پیدا کرتی ہیں کہ سمندر کا نمکین پانی انہیں آسانی سے منتقل کر دیتا ہے۔ لیکن کچھ جاندار، سرخ، پیلی اور انفرا ریڈ روشنی بھی پیدا کرتے ہیں۔
زمین پہ یہ عمل خاصے کم جانداروں میں ہوتا ہے۔ جگنو ، گلوورمز، کچھ حشرات، لاروا، اینیلڈز، ایرایکنیڈز اور کچھ بیکٹیریا اور پھپھوند بھی یہ روشنی پیدا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ بعض مخلوقات اپنی اس خصوصیات کو صرف رات کے وقت ہی ظاہر کرتی ہیں اور ایک دوری عمل سے گذرتی ہیں۔ یعنی دن کے وقت کچھ اور رات کے وقت کچھ اور۔

گلو ورم


ایک اینیلڈ

اس عمل کا بنیادی مقصد تو توجہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔   پروین شاکر نے کہا کہ
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
بچوں کی طرح دیگر جاندار بھی توجہ حاصل کرنے کا فن سیکھتے ہیں۔  کبھی اداءوں سے اور کبھی کچھ مختلف خصوصیات پیدا کر کے۔ روشنی  میں انسان کے لئے شاید سب سے زیادہ کشش ہے۔ حضرت موسی بھی جسے روشنی سمجھ کر بڑھے تھے وہ خدائے پاک کی تجلی تھی۔ مگر میرا یہ بیان غلط ہوگا اگر میں یہ نہ کہوں کہ دیگر جاندار بھی روشنی کے لئے رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ کچھ اس سے محظوظ ہوتے ہیں اور کچھ اس سے خوفزدہ۔ کچھ اسے گفتگو کی زبان کے طور پہ استعمال کرتے ہیں۔
 اس طرح بائیولومی نیسنس کے جو فائدے نظر آتے ہیں وہ یہ ہیں۔
اپنی برادری کے جاندار کو اپنی طرف راغب کرنا، اس طرح زوجگی کا مرحلہ آسان ہوتا ہے۔ اور بہت دور سے بھی ایک جاندار کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اسکا جوڑی دار کہاں موجود ہے۔ تو یہ روشنی ملن کی روشنی ہوئ۔ یہ روشنی صرف ملن کی نہیں موت کی روشنی بھی ہو سکتی ہے اگر جاندار اپنے شکار کو رجھانے کے لئے اس روشنی کا اخراج کر رہا ہے تو وہ اپنے شکار کی نفسیات سمجھتا ہے۔ یوں ایسی روشنی کی طرف لپکنے والے جلد ہی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں اور جیت چالاکی کی ہوتی ہے۔ سو چمکتا جو نظر آتا ہے سب سونا نہیں ہوتا۔
کچھ جاندار اپنے بچاءو کے لئے اس روشنی کو خارج کرتے ہیں کہ انکے شکاری جاندار اس روشنی سے خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ جیسے ہی شکاری جاندار قریب آتا ہے۔ شکار ہونے والا جاندار یہ روشنی خارج کرتا ہے اور وہ بھاگ جاتا ہے۔ یہ عمل کچھ اسکوئڈز میں پایا جاتا ہے۔ یہاں ایک کیچوے کے بارے میں بھی یہی کہانی موجود ہے۔
کچھ جاندار خود تو یہ خاصیت نہیں رکھتے مگر انکے جسم پہ ایسے بیکٹیریا موجود ہوتے ہیں جو یہ روشنی پیدا کرتے ہیں۔ یہ جاندار اپنے بدن پہ موجود ان بیکٹیریا سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور دوسرے جانداروں کو دھوکے سے شکار کر لیتے ہیں۔اینگلر فش یہ تیکنیک  کیسے استعمال کرتی ہے۔  یہ ویڈیو حاضر ہے۔

 

کچھ جاندار مثلاً بلیک ڈریگن فش اس روشنی کو ٹارچ کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ اور اسکی مدد سے شکار تلاش کرتے ہیں۔
بیکٹیریا اس عمل کو کورم سینسنگ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ کورم سینسنگ جیسا کہ اصطلاح سے ظاہر ہوتا ہے بیکٹیریا کی ایک مخصوص تعداد یا کم از کم مخصوص تعداد ہوتی ہے۔ جو انہیں اپنی بقاء کے فیصلے ، ، مجموعی طور پہ کرنے کے لئے چاہئیے ہوتی ہے۔ اس سے یوں لگتا ہے کہ بیکٹیریا میں بھی جمہوری طرز عمل کسی حد تک پایا جاتا ہے۔ مذاق بر طرف، جب بیکٹیریا ایک مخصوص تعداد پہ پہنچ جاتے ہیں تو وہ روشنی کے اخراج سے ظاہر کرتے ہیں کہ اب ہم متفقہ فیصلے کرنے کے لئے تیار ہیں۔
 بائیو لیئومی نی سینس پیدا کرنے والی مخلوقات،اس سلسلے میں بھی اپنی انفرادی خصوصیات رکھتی ہیں۔ سو وہ مختلف طول موج کی روشنیوں کا اخراج کرتے ہیں، جن کی مدت اخراج، اور وقفہ ء اخراج مختلف ہوتا ہے۔
کیا ہمیں اپنے رب کی ان نشانیوں پہ حیرت کا اظہار کر کے سجدہ ء شکر بجا لانا چاہئیے اور اسکی صناعی کو تسلیم کر کے بیٹھ جانا چاہئیے۔ خدا نے انسان کو اس خمیر سے نہیں بنایا۔
اہل تحقیق، قدرت کے ان مظاہر کو انسانوں کی فلاح اور بہبود میں کام لانا چاہتے ہیں۔ یہ یقیناً نشانیاں ہیں کہ انسان مزید کیا کچھ کر سکتا ہے۔ سو اس عمل کو جان لینے کے بعد انسان میں یہ خواہش پیدا ہوئ کہ ہم خدا کی طرف سے عطا کردہ ان نشانیوں یا علامتوں کو بطور انسان اپنے کن مقاصد میں استعمال کر سکتے ہیں۔
انسان کا خیال ہے کہ وہ جینیٹک انجینیئرنگ سے مختلف جانوروں یا پودوں یا زندگی کی دوسری حالتوں میں روشنی پیدا کرنے والے جینز ڈال سکتا ہے۔ اس طرح وہ انہیں مختلف مقاصد کے لئے کام میں لا سکتا ہے۔
مثلاً ایسے درخت پیدا کئے جا سکتے ہیں جو روشنی پیدا کرتے ہوں اور انہیں سڑکوں کے کنارے لگایا جا سکے۔ اور اس طرح اسٹریٹ لائٹس کی شکل میں ضائع ہونے والی توانائ بچائ جا سکے۔


ایسی فصلیں اور گھریلو پودے جنہیں جب پانی کی ضرورت ہو روشنی خارج کریں۔ اس طرح پانی کی بچت ہوگی۔
غذائ اجناس میں جراثیم کی آلودگی  یعنی بیکٹیریا آسانی سے معلوم کیئے جا سکیں گے۔
قیدیوں اور ذہنی مریضوں میں ایسے شناختی نشان پیدا کئے جا سکیں جو فرار ہونے کی صورت میں انکی نشاندہی کر سکیں۔
اور ہاں مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کرنے والی فلم میں 'اویٹار' میں  کیا آپ نے بائیو لومی نیسنس کا استعمال دیکھا، اگر یاد نہیں آرہا تو پھر سے دیکھیں۔ اس میں موجود خلائ مخلوق کے جسم پہ منور نشانات شاید اس خیال سے متائثر ہوں۔ ریسرچ کہتی ہے کہ انسان بھی ایک حد میں روشنی کا اخراج کرتا ہے۔ پڑھئیے یہ تحریر۔

 ۔
۔
۔
اقبال اپنی نظم جگنو کے آخر میں سوال رکھتے ہیں کہ
یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو
ہر شے میں جبکہ پنہاں خاموشی ازل ہو

اس سوال کا جواب آپ پہ چھوڑتے ہوئے، مزید مطالعے کے لئے دیکھئیے یہ لنکس۔
یہ کتاب

  http://www.oregonlive.com/environment/index.ssf/2009/08/flamboyant_deepsea_worms_disco.html
نیلی ٹائڈ
http://www.scientificamerican.com/slideshow.cfm?id=bioluminescent-avatar&photo_id=A2922CB3-A0F2-C2E4-154E3CF177F773FB
http://www.scientificamerican.com/slideshow.cfm?id=bioluminescent-avatar&photo_id=A2922CB9-D6FF-DE0E-E98AE3D4C9862ECF
http://www.quantum-immortal.net/physics/biolum.php

زندہ روشنی-۱

میری بچپن کی یادوں میں اقبال کی ایک نظم جگنو بھی ہے جسے میں خوب لہک لہک کر پڑھا کرتی تھی۔
جگنو کی روشنی ہے کاشانہ ء چمن میں یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں
کیا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا، یا جان پڑ گئ ہے مہتاب کی کرن میں
یہ ایک لمبی نظم ہے۔ آگے کسی بند میں اقبال لکھتے ہیں کہ
پروانہ ایک پتنگا، جگنو بھی اک پتنگا
وہ روشنی کا طالب، یہ روشنی سراپا
  اس حقیقت کو اسی طرح قبول کرنے کے بجائے کہ قدرت نے جگنو کو چمک دی اور پروانے کو بے نوری، اللہ کے کام اللہ ہی جانے۔ کچھ کیمیا دانوں نے اس عمل کو جاننے جی کوشش کی کہ دونوں میں یہ فرق کیسے پیدا ہوتا ہے۔ آخر خدا نےایسا کیا راز اس میں رکھا کہ جگنو ہمیں رات کے وقت چمکتا نظر آتا ہے۔
جگنو
معلوم ہوا کہ بعض جانداروں کو قدرت نے ایک خاص عمل پیدا کرنے کی صلاحیت دی ہے۔ جسکے نتیجے میں انکاجسم منور ہو جاتا ہے۔ سائینس کی زبان میں یہ عمل بائیو لومی نی سنس کہلاتا ہے۔
بائیو کا مطلب زندہ اور لومن کا مطلب روشنی یعنی زندہ روشنی یا زندگی سے پیدا ہونے والی روشنی۔ یہ روشنی جانداروں میں ایک کیمیائ عمل کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ جگنو، اینگلر فش اور دیگر کچھ جانداروں میں  موجود مرکب لوسی فیرن اور خامرے لوسی فیریز سے یہ کیمیائ عمل وجود میں آتا ہے۔،
 

اب یہ عمل تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوسی فیرن نامی مرکب، اس خامرے لوسی فیریز کی موجودگی میں زیادہ توانائ کا حامل مرکب آکسی لوسی فیرن بناتا ہے جو کہ روشنی کی ایک مخصوص مقدار کو خارج کرنے کے بعد کم توانائ والے آکسی لوسی فیرن میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ بات ہم پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ ہر زیادہ توانائ والا نظام کم توانائ والی حالت کو پسند کرتا کیونکہ یہ اسے مستحکم بناتا  ہے، یہ اس کائینات کا ایک سادہ سا اصول ہے۔
لیکن جگنو ہی صرف ایک ایسا جاندار نہیں جو یہ روشنی پیدا کر سکتا ہے بلکہ گہرے سمندروں  کی اتھاہ تاریکیوں میں رہنے والی سمندری مخلوقات کی ے تقریباً نوے فی صد تعداد بائیولومینیسنس پیدا کرتی ہے۔ کیونکہ یہی وہ طریقہ ہے جس سے وہ ایکدوسرے کو اپنی موجودگی سے آگاہ کر سکتے ہیں۔
تو کیا  بائیو لومینیسنس کچھ مخلوقات میں گفتگو کا ایک طریقہ ہے؟


یہ ایک جیلی فش سے خارج ہونے والی روشنی کا کرشمہ ہے۔


Wednesday, December 8, 2010

بزرگ ہونا

پچھلے چند دن کچھ قریبی شادیوں کی مصروفیت میں گذرے۔ پھر کچھ دوستوں کی شادیاں بھی اس میں شامل ہو گئیں۔ اور یوں میں شادیوں کے ہاتھوں یرغمال ہو گئ۔ شادیوں کی اس بھاگ دوڑ سے ہٹ کر ایک نکاح کی تقریب دلچسپ رہی۔ 
کراچی میں اب یہ رواج ہو گیا ہے کہ نکاح کی تقریب ایک دو روز پہلے قریبی رشتے داروں کی موجودگی میں ہو جاتی ہے اور رخصتی بعد میں شادی ہال یا لان سے ہوتی ہے۔ فائدہ یہ کہ رخصتی کی تقریب میں کچھ دیر سویر ہو تو کوئ پریشانی نہیں ہوتی۔
یوں ایکدن ہم ایک نکاح کی تقریب میں بھی شامل تھے۔ نکاح کی یہ تقریب گھر پہ ہوئ اور تمام خواتین و حضرات ایک ہی جگہ موجود تھے۔
قاضی صاحب کے آنے کے بعد فارم بھرنے کا مرحلہ شروع ہوا۔ پہلے دولہا اور انکے گواہان کے نام پتے لکھے گئے پھر دولہن کی باری آئ۔ نام پوچھا گیا۔ جواب ملا رومیصہ احمد خان۔ قاضی صاحب نے کہا صرف دولہن کا نام بتائیں۔ جواب ملا کہ یہ صرف دولہن کا نام ہے۔ انہوں نے اسی سنجیدگی سے کہا یہ دولہن کا نام کیسے ہو سکتا ہے۔ میں صرف رومیصہ لکھ رہا ہوں۔ لیکن آپ صرف رومیصہ کیسے لکھ سکتے ہیں۔ دولہن کا پورا نام رومیصہ احمد خان ہے۔ دستاویزات میں یہی نام ہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ احمد خان تو والد صاحب کا نام ہوگا۔ جبکہ اس وقت صرف دولہن کا نام چاہئیے۔ پھر حاضرین محفل میں سے کسی نے مداخلت کی یہ والد صاحب کے نام کے ساتھ بھی ہے اور دولہن کے نام کے ساتھ بھی ہے۔ دولہن کا نام شناختی کارڈ میں یہی ہے۔ چلیں جناب، عوام کے بے حد اصرار پہ قاضی صاحب بہ مجبوری رومیصہ احمد خان لکھنے پہ تیار ہوئے۔
 اب  باقی گواہان اور وکیل کے نام اور پتے لکھے گئے اور مہر کی مقدار لکھ کر باقی فارم کے بارے میں قاضی صاحب نے کہا اسے چھوڑ دیں اس سارے پہ ایک کراس لگ جائے گا۔
یہ سن کر میرے کان کھڑے ہوئے۔ کیونکہ دولہن صاحبہ نے نکاح سے پہلے مجھ سے کہا تھا کہ میں نکاح کے وقت وہاں موجود رہوں اور نکاح کی جو شقیں ہیں انہیں بھرنے پہ اصرار کروں۔ میں نے دولہن سے کہا مگر میں  یہ کیسے کر سکتی ہوں۔ جانے دو یار، سب کا نکاح ایسے ہی ہوتا ہے۔
کہنے لگیں میں نہیں جانے دے سکتی۔ مجھے یاد ہے آپکے نکاح پہ کیا ہوا تھا۔
دراصل میرے نکاح پہ ، دودن پہلے میرے سسر صاحب نے نکاح فارم کی ایک کاپی کروائ اور کہا کہ وہ پینسل سے بھر کر یہ کاپی دیں گے اور اصل نکاح فارم اسی طرح بھرا جائے گا۔ جب وہ فارم واپس آیا تو ہم سب کو ایک خوشگوار حیرت ہوئ کہ انہوں نے فارم کی ایک ایک شق کو پر کیا تھا۔ اور شق نمبر اٹھارہ جسکے تحت طلاق کا حق بیوی کو تفویض کیا جاتا ہے اس میں ہاں لکھا تھا۔ اسکے بعد ایک اور شق جس میں پوچھا گیا تھا کہ کس صورت میں بیوی طلاق کی درخواست کر سکتی انہوں نے لکھا کہ اگر وہ اپنے شوہر کو نا پسند کرتی ہو۔
ہم میں سے  کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ فارم اس طرح بھرا جائے گا اور ایک عمومی طریقہ یہی ہے کہ تمام شقوں پہ ایک کراس ڈال دیا جاتا ہے۔ خیر یہ میرے سسر صاحب کے کھلے دل کے ہونے کی ایک نشانی تھا۔   میرے گھر سے کسی نے ان سے یہ مطالبہ نہیں کیا تھا۔ یہ انکا مجھے سب سے پہلا تحفہ تھا۔
لیکن دولہا والوں سے اس چیز کا مطالبہ کرنا ذرا مشکل لگتا ہے۔ عمومی حالت یہ ہے کہ انکا پلّہ بھاری ہوتا ہے۔ خیر جب نکاح فارم بھرا جا چکا تو دولہن کی والدہ نے دستخط ہونے سے پہلے کہا کہ وہ اسے دیکھنا چاہتی ہیں اور فارم قاضی صاحب سے لے کر میرے ہاتھ میں دے دیا۔ میں تھوڑی دیر پہلے ہونے والی گفتگو سے یہ اشارہ سمجھ گئ کہ مجھے کیا کہنا ہے۔ ایک نظر اس فارم پہ ڈالی اور کہا کہ میں یہ درخواست کرنا چاہتی ہوں کہ چاہے سارے فارم پہ آپ کراس ڈال دیں لیکن شق نمبر اٹھارہ میں ہاں لکھ دیں۔ ایک دم محفل میں سنّاٹا  ہو گیا اور پھر بھنبھناہٹ۔ 
یہ شق نمبر اٹھارہ کیا ہے؟ میں نے پڑھ کر سنایا۔ کیا بیوی کو طلاق کا حق تفویض کردیا گیا ہے؟ باراتیوں میں سے ایک صاحب نے کہا یہ تو غیر شرعی ہے۔ اسکی کوئ اہمیت نہیں۔ یہاں ہمارے خاندان کی جتنی خواتین بیٹھی ہیں۔ انہوں نے سبکے نام گنوائے ان سے پوچھیں کسی کے نکاح میں ایسا نہیں کیا گیا۔ سب ہنسی خوشی رہ رہی ہیں۔
اس پہ میں نے ان سے کہا کہ چونکہ یہ فارم اور اسکی شقیں حکومت پاکستان کی منظورہ شدہ ہیں اور کسی بھی قانونی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہیں اس لئے انکا بھرنا ضروری ہے۔ اس وقت ہم اسکے شرعی اور غیر شرعی پہلو میں نہیں پڑ رہے۔ حکومت پاکستان نے اگر یہ رکھا ہے تو اسکا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک دفعہ پھر سب خاموش۔ 
پھر دوسرے باریش صاحب جو دولہا کے بھائ تھے بولے۔ یہ حق تو خلع کے برابر ہوتا ہے اور اسے غیر شرعی کہنا درست نہیں۔ میں تو نہیں سمجھتا کہ اسے ہاں کہہ دینے سے کوئ فرق پڑتا ہے۔ پھر ہنس کر کہنے لگے کہ آج ہی اخبار میں اسکے بارے میں ایک مضمون پڑھا  کہ تمام شقوں کو بھرنا چاہئیے۔ مگر ان رشتے دار نے پھر مداخلت کی، باقی تو کسی کا بھی نہیں ہوا۔ آخر وہ بھی تو رہ رہے ہیں۔ میں نے ان سے کہا فکر نہ کریں۔ پھر اپنے شوہر صاحب کی طرف اشارہ کیا۔ میرے نکاح کے فارم میں بھی یہ شق بھری گئ ، ہاں کے ساتھ۔ اتنا عرصہ ہو گیا ہماری شادی کو اور ہم خدا کا شکر ہے باہمی ہم آہنگی کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ 
آخرطے ہوا کہ معاملہ دولہا پہ چھوڑ دیا جائے۔ دولہا نے کہا، مجھے تو کوئ اعتراض نہیں۔
 یوں ایجاب و قبول کا سلسلہ شروع ہوا۔ دعا ہے کہ دونوں اسی طرح ہم آہنگی اور سمجھ داری سے زندگی گذاریں۔
میں اپنے گھر واپس آتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ یہ میرے سسر صاحب کی وسعت قلبی اور سمجھداری تھی جس نے آج مجھے اتنا حوصلہ دیا کہ میں نے ایک اور لڑکی کو یہ حق لینے میں مدد کی۔
معاشرے کے بگاڑ اور سنوار میں بزرگوں کے روئیے،  فیصلے اور دور اندیشی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ وہ آنے والی نسل کو مضبوطی سے کھڑے ہونے کے قابل بناسکتے ہیں اور وہی انہیں کمزور کر کے بھٹکنے کے لئے چھوڑسکتے ہیں۔ آج میرے سسر صاحب  کو اس دنیا کو چھوڑےتین مہینے ہو رہے ہیں۔  دعا ہے کہ خدا ہمیں کردار اور عمل کی مضبوطی دے  تاکہ ہم انکے انسانی قدروں کے مضبوط بنانے کے عمل کو جاری رکھیں۔

Monday, December 6, 2010

یوریکا، میں نے پا لیا

سرکاری اسکول کی کارکردگی کے معائینے کو ایک انسپکٹرصاحب پہنچے اور ایک کلاس کا معائینہ کرتے ہوئے انہوں نے کلاس کے سب سے ذہین بچے سے پوچھا۔ 'ہمم، یہ بتاءو سومنات کا مندر کس نے توڑا؟'۔ گڈو میاں کا چہرہ فق ہو گیا۔ ایکدم روہانسے ہو گئےہکلاتے ہوئے کہنے لگے،' سر، قسم لے لیجئیے، میں نے  نہیں توڑا'۔
انسپکٹر حیران ہوا کلاس ٹیچر سے کہنے لگا یہ گڈو میاں کیا کہہ رہے ہیں۔ ٹیچر نے انکی شکل دیکھی اور فرمایا' گڈو ایک بہت ذہین اور تمیز دار بچہ ہے میں اسے ذاتی طور پہ جانتا ہوں۔ یہ کبھی کسی توپھوڑ یا شرارت میں شامل نہیں ہوتا'۔
انسپکٹر نے انہیں ترحم والی نظروں سے دیکھا اور ہیڈ ماسٹر کے پاس پہنچا۔ اور انہیں گڈو میاں اور انکے ٹیچر کے جوابات سے مطلع کیا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے پوری سنجیدگی سے انکی بات سنی اور ایک خاموشی کے بعد بولے۔' میں خود بھی اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ گڈو ایسا بچہ نہیں ہے۔ میں اسے اور اسکے ٹیچر کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ گڈو نے آج تک ایسا توڑ پھوڑ کا کوئ کام نہیں کیا۔

اب تو انسپکٹر صاحب کو اور تاءو آیا۔ اپنے آفس پہنچے اور محکمہ ء تعلیم کے نام خط لکھ ڈالا۔ اور اس میں تمام واقعے کا تذکرہ لکھا۔جواب آیا۔ محترم ہمیں آپکا خط ملا۔ اس میں کچھ توڑ پھوڑ کا تذکرہ تھا۔ اس لئے ہم نے اسے محکمہ ء تعمیرات کو بھیج دیا۔ امید ہے وہ آپکو تسلی بخش جواب دیں گے۔
یہی گڈو جب  اسی تعلیمی نظام کے زیر سایہ پل کر بڑے ہوئے تو ملک میں ایک خاص نظریاتی ماحول تشکیل پا چکا تھا۔ اسکی رو سے ملک کے اندر مروجہ مذہبی  تاریخ اور چیدہ چیدہ واقعات کے علاوہ تمام باتیں قابل سزا ٹہریں۔ ان سزاءووں کی بھی مختلف سطحیں بنادی گئیں تھیں۔ ملک کے انتظامی معاملات ہوں یا خارجہ امور، باشندوں کا رہن سہن ہو یا میل ملاپ، تفریح ہو یا تحقیق، ادب ہو یا تخلیق کا کوئ بھی میدان، وہ اس اثر سے خالی نہ تھا۔ اور نظام ان گڈو میاءووں سے بھرا ہواتھا۔ یوں سب ہنسی خوشی رہ رہے تھے۔
مگر ایک دن ٹیکنالوجی اپنی ڈھٹائ کی وجہ سے ملک میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئ۔
گڈو میاں اور انکے ساتھیوں کے لئے یہ بڑا لمحہ ء فکریہ تھا۔ اس سے معاشرے کے تار پود بکھرنے کا اندیشہ تھا۔ سو وہ اپنی بساط بھر کوششیں کرنے میں مصروف ہو گئے۔ یعنی کسی طرح تار وپود بچ جائیں وہ جو اس نظام کے تحت بنائے گئے جس میں انکی پرورش ہوئ تھی۔
لیکن ٹیکنالوجی اتنی خبیث چیز تھی کہ وہ ایکدن اسکا سر کاٹ کر قلع قمع کرتے اور دوسرے دن پھر وہ سر پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتی۔ یہ ایک راز تھا۔ جو گڈو میاں اور ہمنواءووں کی سمجھ سے باہر تھا۔ اسکا حل انکے نزدیک بس اسکا سر کاٹنا ہی ٹہرا تھا۔ یوں ملک میں سر کاٹنے کے مختلف طریقوں پہ بحث  اور عملدر آمد شروع ہوا۔
ایک دفعہ، گڈو میاں اور ساتھیوں نے اس ساری صورت حال پہ تبادلہ ء خیال کے لئے میٹنگ بلائ۔ جس میں ظاہری سی بات ہے کہ صرف وہ لوگ شامل تھے جو سر کاٹنے کے عمل سے متفق تھے۔ اس میں کسی نے یہ خیال پیش کیا کہ چونکہ ٹیکنالوجی سرحد پار کسی علاقے سے آئ ہے اس لئے اسکا سر کاٹنے کے مناسب طریقے بھی انکے پاس ہونگے۔ یہ سوچنے کے بعد انہوں نے اپنے درمیان سے سب سے زیادہ سرگرم شخص کو ملک سے باہر بھیجا۔ تاکہ اس راز سے پردہ اٹھ سکے۔ 
وہ شخص ایکدن بعد ہی واپس آگیا۔ گڈو میاں خوش ہوئے انہیں اپنے ساتھی کی ذہانت پہ مکمل یقین تھا۔
لیکن ساتھی نے بتایا کہ وہ جیسے ہی سرحد سے باہر نکلا اسے ایک شخص ملا۔ اس نے جب اس سے بات کی تو اس شخص نے بتایا کہ وہ ٹیکنالوجی کے خالق ہیں۔ سو وہ وہیں رک کر اس سے معلومات حاصل کرنے لگا۔ اس نے بڑی عجیب بات کی اور کہا کہ  مسلسل فکر اور عقل کے استعمال سے عقل اس سطح تک پہنچ جاتی ہے جہاں یہ وجدان کا روپ دھار لیتی ہے۔ بس پھر اسکے بعد مسائل کے حل بھی سامنے آنے لگتے ہیں۔
پھراس شخص نے اپنے ایک دانشور کا قصہ سنایا کہ کس طرح وہ پانی کے ٹب میں بیٹھا نہا رہا تھا کہ ایک مسئلے کے بارے میں اس پہ ایکدم وجدان طاری ہوا۔ اور وہ فکر کی سر خوشی کے عالم میں یہ تک بھول گیا کہ وہ کپڑے نہیں پہنے ہوا اور اسی حالت میں گھر سے باہر نکل کر ناچنے  اور گانے لگا۔ یوریکا، یوریکا، میں نے پا لیا، میں نے پا لیا۔
وہ کہہ رہا تھا کہ جب تک انسان فکر میں اتنا نہ ڈوب جائے کہ اپنی ذات کو بھول جائے کسی کام کی چیز کا حاصل ہونا مشکل ہے۔ فکر کی اس گہرائ سے جب کوئ پردہ ہٹتا ہے تو انسان مست ہو کر ناچ اٹھتا ہے۔ اس کیفیت کو اب ہم یوریکا کہتے ہیں۔
گڈو میاں اور ہمنواءووں کا چہرہ فق ہو گیا۔ وہ روہانسے ہو کر بولے تو کیا اب ہمیں ننگا ہو کر گلی میں ناچنا پڑے گا۔
اسکے بعد کیا ہوا؟
کہانی ابھی جاری ہے۔ کیا گڈو میاں اور ہمنوا اصل راز جاننے میں کامیاب ہو  گئے؟ کیا ٹیکنالوجی کا قلع قمع ہو گیا؟ کیا وہ لوگ ایک دفعہ پھر ہنسی خوشی رہنے لگے؟  یہ جاننے کے لئے پڑھئیے گڈو میاں کے کارنامے۔


Thursday, December 2, 2010

منی بدنام ہوئ----استغفراللہ

اکثر ایسی میلز یا فیس بک پہ ویڈیوز ملتی ہیں۔ جنکا مقصد تو بظاہر یہ لگتا ہے کہ لوگوں کے اندر یہ احساس پیدا کیا جائے کہ وہ مذہبی طور پہ کتنے نکمے ہیں۔ اور ان سے اس سلسلے میں کیا کیا کوتاہیاں ہوتی ہیں۔ لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے یہ بہت مسخرہ پن لگتا ہے کہ ایک طرف وینا ملک ٹھمکے لگاتیں سلمان خان سے داد و تحسین وصول کررہی ہیں اور پس منظر میں حمد سے ملتی جلتی چیز سنائ دے رہی ہے۔ اس تمام ویڈیو کو دیکھنے کے بعد کیا ایک عام شخص مذہبی غیرت کھا کر اس تمام مواد کو واہیات کہہ کراٹھ جاتا ہے یا  استغفراللہ کہہ کر ہل من مزید کہتا ہے۔ ایسی ایک ویڈیو میں نے فیس بک پہ دیکھی۔ ابتداً تو صرف شروع کے کلپس دیکھ کر چھوڑ دی کہ بے کار کا قصہ ہے۔ لیکن  عوام الناس کو اپنی بلّو کے لئے لائن لگاتے ہوئے  ساتھ ساتھ  وینا ملک  پہ غیرت کھاتے دیکھا تو سوچا دیکھیں تو وینا ملک کرنٹ پاکستانی سینسیشن، آخر کیا چیز ہے۔ جس پہ منی بد نام ہو رہی، اور ہر کس و ناکس استغفراللہ  بھی پڑھ رہا ہے اور اسی دلجمعی سے وینا ملک کی ویڈیوز یو ٹیوب پہ جمع ہوئ جا رہی ہیں۔ جنہیں لاکھوں کی تعداد میں دیکھا بھی جا رہا ہے۔ 
ایک ایسی ویڈیو حاضر ہے۔ کیا استغفراللہ کہہ دینے سے یا ان کلپس کے پیچھے حمد نما شاعری لگانے سے انہیں دیکھنا جائز ہو جاتا ہے۔