سرکاری اسکول کی کارکردگی کے معائینے کو ایک انسپکٹرصاحب پہنچے اور ایک کلاس کا معائینہ کرتے ہوئے انہوں نے کلاس کے سب سے ذہین بچے سے پوچھا۔ 'ہمم، یہ بتاءو سومنات کا مندر کس نے توڑا؟'۔ گڈو میاں کا چہرہ فق ہو گیا۔ ایکدم روہانسے ہو گئےہکلاتے ہوئے کہنے لگے،' سر، قسم لے لیجئیے، میں نے نہیں توڑا'۔
انسپکٹر حیران ہوا کلاس ٹیچر سے کہنے لگا یہ گڈو میاں کیا کہہ رہے ہیں۔ ٹیچر نے انکی شکل دیکھی اور فرمایا' گڈو ایک بہت ذہین اور تمیز دار بچہ ہے میں اسے ذاتی طور پہ جانتا ہوں۔ یہ کبھی کسی توپھوڑ یا شرارت میں شامل نہیں ہوتا'۔
انسپکٹر نے انہیں ترحم والی نظروں سے دیکھا اور ہیڈ ماسٹر کے پاس پہنچا۔ اور انہیں گڈو میاں اور انکے ٹیچر کے جوابات سے مطلع کیا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے پوری سنجیدگی سے انکی بات سنی اور ایک خاموشی کے بعد بولے۔' میں خود بھی اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ گڈو ایسا بچہ نہیں ہے۔ میں اسے اور اسکے ٹیچر کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ گڈو نے آج تک ایسا توڑ پھوڑ کا کوئ کام نہیں کیا۔
انسپکٹر حیران ہوا کلاس ٹیچر سے کہنے لگا یہ گڈو میاں کیا کہہ رہے ہیں۔ ٹیچر نے انکی شکل دیکھی اور فرمایا' گڈو ایک بہت ذہین اور تمیز دار بچہ ہے میں اسے ذاتی طور پہ جانتا ہوں۔ یہ کبھی کسی توپھوڑ یا شرارت میں شامل نہیں ہوتا'۔
انسپکٹر نے انہیں ترحم والی نظروں سے دیکھا اور ہیڈ ماسٹر کے پاس پہنچا۔ اور انہیں گڈو میاں اور انکے ٹیچر کے جوابات سے مطلع کیا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے پوری سنجیدگی سے انکی بات سنی اور ایک خاموشی کے بعد بولے۔' میں خود بھی اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ گڈو ایسا بچہ نہیں ہے۔ میں اسے اور اسکے ٹیچر کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ گڈو نے آج تک ایسا توڑ پھوڑ کا کوئ کام نہیں کیا۔
اب تو انسپکٹر صاحب کو اور تاءو آیا۔ اپنے آفس پہنچے اور محکمہ ء تعلیم کے نام خط لکھ ڈالا۔ اور اس میں تمام واقعے کا تذکرہ لکھا۔جواب آیا۔ محترم ہمیں آپکا خط ملا۔ اس میں کچھ توڑ پھوڑ کا تذکرہ تھا۔ اس لئے ہم نے اسے محکمہ ء تعمیرات کو بھیج دیا۔ امید ہے وہ آپکو تسلی بخش جواب دیں گے۔
یہی گڈو جب اسی تعلیمی نظام کے زیر سایہ پل کر بڑے ہوئے تو ملک میں ایک خاص نظریاتی ماحول تشکیل پا چکا تھا۔ اسکی رو سے ملک کے اندر مروجہ مذہبی تاریخ اور چیدہ چیدہ واقعات کے علاوہ تمام باتیں قابل سزا ٹہریں۔ ان سزاءووں کی بھی مختلف سطحیں بنادی گئیں تھیں۔ ملک کے انتظامی معاملات ہوں یا خارجہ امور، باشندوں کا رہن سہن ہو یا میل ملاپ، تفریح ہو یا تحقیق، ادب ہو یا تخلیق کا کوئ بھی میدان، وہ اس اثر سے خالی نہ تھا۔ اور نظام ان گڈو میاءووں سے بھرا ہواتھا۔ یوں سب ہنسی خوشی رہ رہے تھے۔
مگر ایک دن ٹیکنالوجی اپنی ڈھٹائ کی وجہ سے ملک میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئ۔
مگر ایک دن ٹیکنالوجی اپنی ڈھٹائ کی وجہ سے ملک میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئ۔
گڈو میاں اور انکے ساتھیوں کے لئے یہ بڑا لمحہ ء فکریہ تھا۔ اس سے معاشرے کے تار پود بکھرنے کا اندیشہ تھا۔ سو وہ اپنی بساط بھر کوششیں کرنے میں مصروف ہو گئے۔ یعنی کسی طرح تار وپود بچ جائیں وہ جو اس نظام کے تحت بنائے گئے جس میں انکی پرورش ہوئ تھی۔
لیکن ٹیکنالوجی اتنی خبیث چیز تھی کہ وہ ایکدن اسکا سر کاٹ کر قلع قمع کرتے اور دوسرے دن پھر وہ سر پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتی۔ یہ ایک راز تھا۔ جو گڈو میاں اور ہمنواءووں کی سمجھ سے باہر تھا۔ اسکا حل انکے نزدیک بس اسکا سر کاٹنا ہی ٹہرا تھا۔ یوں ملک میں سر کاٹنے کے مختلف طریقوں پہ بحث اور عملدر آمد شروع ہوا۔
ایک دفعہ، گڈو میاں اور ساتھیوں نے اس ساری صورت حال پہ تبادلہ ء خیال کے لئے میٹنگ بلائ۔ جس میں ظاہری سی بات ہے کہ صرف وہ لوگ شامل تھے جو سر کاٹنے کے عمل سے متفق تھے۔ اس میں کسی نے یہ خیال پیش کیا کہ چونکہ ٹیکنالوجی سرحد پار کسی علاقے سے آئ ہے اس لئے اسکا سر کاٹنے کے مناسب طریقے بھی انکے پاس ہونگے۔ یہ سوچنے کے بعد انہوں نے اپنے درمیان سے سب سے زیادہ سرگرم شخص کو ملک سے باہر بھیجا۔ تاکہ اس راز سے پردہ اٹھ سکے۔
وہ شخص ایکدن بعد ہی واپس آگیا۔ گڈو میاں خوش ہوئے انہیں اپنے ساتھی کی ذہانت پہ مکمل یقین تھا۔
لیکن ساتھی نے بتایا کہ وہ جیسے ہی سرحد سے باہر نکلا اسے ایک شخص ملا۔ اس نے جب اس سے بات کی تو اس شخص نے بتایا کہ وہ ٹیکنالوجی کے خالق ہیں۔ سو وہ وہیں رک کر اس سے معلومات حاصل کرنے لگا۔ اس نے بڑی عجیب بات کی اور کہا کہ مسلسل فکر اور عقل کے استعمال سے عقل اس سطح تک پہنچ جاتی ہے جہاں یہ وجدان کا روپ دھار لیتی ہے۔ بس پھر اسکے بعد مسائل کے حل بھی سامنے آنے لگتے ہیں۔
پھراس شخص نے اپنے ایک دانشور کا قصہ سنایا کہ کس طرح وہ پانی کے ٹب میں بیٹھا نہا رہا تھا کہ ایک مسئلے کے بارے میں اس پہ ایکدم وجدان طاری ہوا۔ اور وہ فکر کی سر خوشی کے عالم میں یہ تک بھول گیا کہ وہ کپڑے نہیں پہنے ہوا اور اسی حالت میں گھر سے باہر نکل کر ناچنے اور گانے لگا۔ یوریکا، یوریکا، میں نے پا لیا، میں نے پا لیا۔
پھراس شخص نے اپنے ایک دانشور کا قصہ سنایا کہ کس طرح وہ پانی کے ٹب میں بیٹھا نہا رہا تھا کہ ایک مسئلے کے بارے میں اس پہ ایکدم وجدان طاری ہوا۔ اور وہ فکر کی سر خوشی کے عالم میں یہ تک بھول گیا کہ وہ کپڑے نہیں پہنے ہوا اور اسی حالت میں گھر سے باہر نکل کر ناچنے اور گانے لگا۔ یوریکا، یوریکا، میں نے پا لیا، میں نے پا لیا۔
وہ کہہ رہا تھا کہ جب تک انسان فکر میں اتنا نہ ڈوب جائے کہ اپنی ذات کو بھول جائے کسی کام کی چیز کا حاصل ہونا مشکل ہے۔ فکر کی اس گہرائ سے جب کوئ پردہ ہٹتا ہے تو انسان مست ہو کر ناچ اٹھتا ہے۔ اس کیفیت کو اب ہم یوریکا کہتے ہیں۔
گڈو میاں اور ہمنواءووں کا چہرہ فق ہو گیا۔ وہ روہانسے ہو کر بولے تو کیا اب ہمیں ننگا ہو کر گلی میں ناچنا پڑے گا۔
اسکے بعد کیا ہوا؟
کہانی ابھی جاری ہے۔ کیا گڈو میاں اور ہمنوا اصل راز جاننے میں کامیاب ہو گئے؟ کیا ٹیکنالوجی کا قلع قمع ہو گیا؟ کیا وہ لوگ ایک دفعہ پھر ہنسی خوشی رہنے لگے؟ یہ جاننے کے لئے پڑھئیے گڈو میاں کے کارنامے۔
بہت عمدہ تحریر ہے،زبردست!
ReplyDeleteبہت اچھا لکھا
ReplyDeleteلیکن یه داد دیتے هوئے میں اسی گمان میں هوں که میں ان کڈو لوگوں میں شامل نهیں هوں
لیکن حقیقت تو وھ ہے ناں جی جو اصل والے سیانے جانتے هیں
اصلی والے سیانے جی
جو فکر کرتے هیں جو سوچ رکھتے هیں
آخری پیرا بہت مزے کا لگا۔ گڈو میاں کے کارنا مے پڑھنے کا اشتیاق پیدا ہو چلا ہے اب تو دل میں۔
ReplyDeleteاس فقرے میں سے اگر کو کو حذف کردیں تو رو انی درست ہو جائے گی:
اس نے بڑی عجیب بات کی اور کہا کہ مسلسل فکر اور عقل کے استعمال سے عقل کو اس سطح تک پہنچ جاتی ہے ۔۔۔
شکریہ
ہاہاہا۔۔
ReplyDeleteیہ تحریر عنیقہ ناز ہال آف فیم کی زینت ہونی چاہیے۔
عوام الناس کی سہولت کے لئےگڈو میاں کا لنک بھی چھوڑے جارہا ہوں
لیکن نہیں
ReplyDeleteوہ لنک صرف ایک گڈو میاں کا ہے۔ ایسے میاؤں ہرطرف موجود ہیں۔
آپ طالبان کے عشقِ يا ان کے فوبيا ميں اس قدر گرفتار ہيں کہ آپ کی ہر تحرير ميں ان کا ذکر نام لے کر يا بغير نام لئے ملتا ہے ۔ جتنی اشتہار بازی طالبان کی آپ نے کی ہے اتنی کسی اور نے نہ کی ہو گی
ReplyDeleteگڈو کی کہانی ميں طالبان کا دورِ حکومت تو آپ نے محبت کی وجہ سے شامل کر ديا ہے ۔ ہيڈماسٹر صاحب تک کی کہانی ميں نے بچپن ميں يعنی آج سے 6 دہائياں قبل سُنی تھي مگر ايسا کوئی سکول ديکھنے کا تجربہ آج تک نہ ہو سکا
رہی علم کيلئے غرق ہونے کی بات تو علامہ اقبال صاحب نے آج سے 8 دہائياں قبل فرمايا تھا
اپنے من ميں ڈوب کر پا جا سراغ زندگي
تو اگر ميرا نہيں بنتا نہ بن اپنا تو بن
افتخار اجمل صاحب، میں نے کہیں بھی طالبان کا نام استعمال نہیں کیا۔ یہ آپکا تدبر ہے جو آپ وہاں تک پہنچے۔ کچھ تدبر عثمان نے بھی کیا ہے وہ کہیں اور پہنچے ہیں۔
ReplyDeleteعلامتی کہانیاں اپنے قارئین کو تخیل کی پرواز پہ مجبور کر دیتی ہیں۔ اور انکے نکالے گئے نتائج انکی پرواز کی خوبیاں بیان کرتی ہے۔
آپ نے ایسا کوئ اسکول نہیں دیکھا۔ جس طرح دیگ میں چاول کا ایک دانہ دیگ کے اندرونی حالات بتاتا ہے اسی طرح ان اسکولوں کے لائق طالب علم زندگی میں متعدد بار ٹکراتے ہیں۔ خیر، آپ نے نہ دیکھے ہوں، ہم نے تو دیکھے ہیں اور کوئ ایک نہیں کئ دیکھے۔
ارشمیدس سے منسوب یہ الفاظ یعنی یوریکاآج سے تقریباًسوا دو ہزار سال قبل کے ہیں۔
بہت خوب....ٹیکنالوجی اور وجدان کا ملاپ. عقل کے وجود سے وجدان کا جنم. تخیلی پرواز کی حد تک تو اچھا آئڈیا ہے پر سمجھ نہیں آتا کہ وجدان کی سائنسی تعریف کیا ہوگی؟ اور وجدان کی حیثیت سائنسی علوم میں کیا ہے؟ کیا ہم کہ سکتے ہیں کہ e=mc(square)+ wajdan .
ReplyDeleteمست ہو کر ناچنا تو سمجھ آتا ہے مگر وجدانی حالت میں ننگا پھرنا ؟ موجودہ دور کے صوفی ازم (حیقی تصوف نہیں) میں تو ایسی بہت ساری مثالیں ہیں. لیکن انکی باتیں عوام الناس تو کیا سمجھیں گے. ایک جینیس کے لئے بھی سمجھنا نا ممکن ہے. مجھ پر جب بھی وجدانی کفیت طاری ہوئی ہے تو کچھ لوگوں نے میری مذمت کی ہے کہ یہ کیا بکواس بات کر رہے ہو اور کچھ لوگ زیر لب مسکراتے ہوۓ آگے بڑھ گئے ....
پھر وجدان کا پتا کیسے چلے گا. ہمارے یہاں ایک شخص ہے جس کا نام عارف پوّا ہے. پوّا اسکی عرفیت ہی نہیں بلکہ اسکا شغل بھی ہے اسکا دعویٰ ہے کہ پوّا اسکو وجدان کی بلندیوں پر لے جاتا ہے. مگر اس کفیت میں جو اسکے فرمودات ہوا کرتے ہیں اسے سن کر یار لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجاتے ہیں. ایک بات اور سمجھ نہیں آئی کہ وجدانی کیفیت میں کوئی یوریکا یوریکا کا نعرہ کیوں لگاتا ہے. یاااا ہوووو کا نعرہ کیوں نہیں بلند کرتا. بہت سارے وجدانیوں کو جنہیں میں نے مزارات پر دیکھا ہے وہ ایک الگ نعرہ لگاتے ہیں ...علی حیدر ییییییی. لیکن وجہ غور فکر نہیں بلکہ پوّا سے ملتی جلتی کوئی شے ہوتی ہے.
روشن خیال اگر سائنس اور ٹیکنالوجی کی بات کرے تو مرے تو کان کھڑے ہو جاتے ہیں. کیونکہ مجھے یہ ڈر لگنے لگتا ہے کہ کہیں ہمارے ایٹمی پروگرام کی شامت تو نہیں آنے والی. کیونکہ میں نے دو روشن خیال ایٹمی سائنسدانوں پرویز ھود بھائی اور ڈاکٹر اے ایچ نیر کو اپنی فیلڈ چھوڑ کر معاشرتی " اصلاح" اور تعلیمی نصاب میں "تبدیلیوں" کی بات کرتے کئی بار سنا ہے. ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بین القوامی نشریاتی چینلوں پر تنقید کرتے سنا ہے. ماشا الله انتہا درجے کا خدا واسطے کا بیر ہے ہمارے روشن خیال ایٹمی سائنس دانوں اور ایٹمی پروگرام میں.
اور یہ بھی ایک ستم ظریفی ہے کہ وہ ملک جو خود سے ایک موٹر سائکل نہیں بنا سکتا/ سکا . یورنیم کو افزودہ کرنے میں کامیاب ہوا تو وہ بھی سائنس دشمن انتہا پسندوں کی وجہ سے . روشن خیال سائنس دانوں، علم و دانش کے قدر دانوں، عقل دشمنی کے تار و پود بکھیر دینے والوں کو ٹی وی مباحثوں سے ہی فرصت نہیں ملی.
آپنے اچھا نہیں کیا جو کہانی ادھوری چھوڑ دی اور گڈو میاں اور ہمنواؤں کا ذکر تشنہ رہ گیا....تجسس کے مارے مجھے تو اختلاج قلب ہو رہا ہے ........
ڈاکٹر جواد احمد خان، آپکا یہ تبصرہ پوّا کے زیر اثرلگ رہا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی اور گڈو میاں کے تذکرے سے آپ ایٹمی پروگرام پہ کیسے چھلانگ لگا گئے۔ ایک ملک جو اپنی ریاست کے عوام کی فلاح کے لئے سائینس استعمال نہیں کر سکتا ہو وہ دوسروں سے حاصل کردہ ایٹمی دھماکہ کرنے کی صلاحیت پہ اتنا غرور کرے یہ کسی پوّے کا کمال ہی ہو سکتا ہے۔ جہاں ملک میں بجلی کے بحران کا یہ عالم ہو کہ ملک کے سب سے بڑے صنعتی شہر میں روزانہ چار گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہو۔ آئے دن بجلی کی کمی وجہ سے ہنگامے ہوتے ہوں۔ ملک کے طول و عرض میں کاروبار ٹھپ پڑا ہو۔ وہاں عوام ایٹمی بجلی کے بجائے ایٹم بم پہ شادیانے بحائے یہ کسی پوّے کا ہی کمال ہو سکتا ہے۔
ReplyDeleteتجسس سے اختلاج قلب اور آپ، چہ معنی دارد۔ آپکو تو کہنا چاہئیے تھا کہ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا۔
جناب تو پھر بسم الله کیجیے ....اوہ معافی چاہتا ہوں . شروع کیجیے . اب تو ماشاللہ روشن خیالوں کا دور دورہ ہے.کس نے ہاتھ روکا ہے.
ReplyDeleteجس طرح سے آپنے ایٹمی صلاحیت کو لوڈ شیڈنگ کے کھاتے میں ڈالا ہے اس پر یوریکا یوریکا کرتے اور کپڑے پھاڑتے ہوۓ مست ہو کر وجدانی حالت میں طارق روڈ کے چکر لگانے کا دل چاہ رہا ہے. ماشا الله ...بہت خوب
ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب، یہ آپکا نہیں بہت سارے اور لوگوں کا مسئلہ بھی ہے۔ جب آپ ایک محدود نکتے کے گرد زندگی بتا دیتے ہیں تو بالکل عام سے خیالات بھی سمجھ میں نہیں آتے۔ اس لئے یہ نوبت آئ کہ گڈو میاں پہ لکھنا پڑا۔
ReplyDeleteآپ اس لنک کو ضرور دیکھئیے گا تاکہ کچھ اور چیزوں سے بھی آشنائ حاصل ہو۔ بخدا، میں جان بوجھ کر لوگوں کا مذاق نہیں اڑاتی لیکن اگر کوئ مینڈک کو دیکھ کر مجھے اسکی طرف اشارہ کر کے کہے کہ یہ ہوتی ہے بھینس۔ دیکھ لو اور پہچان لو تو یہ کیفیت مجھ پہ طاری ہو جاتی ہے۔ جسسے کچھ لوگ اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ لنک یہ ہے۔
http://www.mindtools.com/brainstm.html
بہت اچھا لکھا روشن خیالی پر ،گڈومیاں اگے کیا کرتے ہیں ۔ اب یہ دیکھنا ہے ۔۔ یہ کہانی تو میری پوسٹ کی جانب اشارہ کر رہی ہے ۔۔
ReplyDeleteتحریر پڑھی، آپ نے ایک لطیفے کو خوبصورتی کے ساتھ اپنے مقصد کی کہانی میں تبدیل کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ اچھا لگا سارے روشن خیال بھی خوش ہوگئے اور واہ واہ بھی ہوگئی کیونکہ جزاک اللہ تو آپ کے یہاں متروک ہے. لیکن کچھ باتیں ایسی ہیں جو اس بچے کے پلے ہی نہیں پڑرہیں ہیں۔ ویسے آپ کی زیادہ تر تحاریر بنیادپرستوں اور اتتہاپندوں کو کسی نہ کسی طرح نیچا دیکھانے کی کوششوں پر مبنی ہوتا ہے لیکن اس دفعہ تو آپ نے کمال ہی کردیا کہ وجدان اور سائنس کا باہم میلاپ۔ بہت خوب کیا بات ہے آپ کی. میں نے ایم بی اے کیا ہے کاش ایم ایس سی کمیاء کرتا تو اس طرح کی کمیائی ترکیب کو کچھ سمجھ پاتا.
ReplyDeleteبات تو ڈاکٹر جواد نے ساری کردی ہیں بس میں آپ کو یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوں کہ سائنس و ٹکنالوجی کہ ہر شعبے میں انتہاپسند اور بنیاد پرست مسلمان نہ صرف موجود ہیں بلکہ روشن خیالوں کی کرپٹ، مادہ پرست اور بے مقصد زندگی کے مقابلے میں پرمقصد اور کامیاب زندگی گزار رہے ہیں، ہزاروں مثالیں آپ کے سامنے موجود ہونگی بس ذرا کبھی تخیل کی بلند پرواز سے کبھی زمین پر اتر کہ بھی دیکھا کریں.
ویسے تھوڑا سا زیادہ انتہا پسندوں کو دیکھنا ہو تو القائدہ کے رہمنا اور کارکنوں کی سی وی پر نظر ڈال لیں، آپ کو دنیا کی بہترین یونیورسٹی سے اعلی تعلیم یافتہ نوجوان نظر آئیں گے اور پھر آپ کہئے گا کہ سارے احمق، الو کے پٹھے ہیں۔ سطحی مطالعہ کررکھا ہے سبوں نے بڑے ہی نہیں ہوئے۔ بس میں اکیلی ہوں جو بڑی ہوگئی ہوں اور مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ "عافیہ صدیقی ایک جسم فروش عورت سے بدتر ہے۔"
اچھی مزیدار پوسٹ لگائی آپ نے۔ لیکن کسی چیز کے مزیدار ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ حقیقی بھی ہو اور بالخصوص روشن خیالی اور عقلیت کے تقاضوں پر پورا بھی اترتی ہو۔
ReplyDeleteاچھا کیا کہ آپ نے یوریکا کا وکی لنک بھی ساتھ دے دیا۔ میں نے وہاں جا کر یہ تحریر پڑھی تو حیرت ہوئی کہ خود اس کے مصنف کے بقول یہ کہانی اپنے مفروضہ وقوع پذیری کے دو سو سال بعد ایک کتاب میں لکھی گئی اور اسکی صحت پر کئی علما کو شبہ ہے۔ پھر بھی آپ اس پر اسقدر یقین رکھتی ہین اور اسے بنیاد بنا کر ایک مزیدار کہانی تحریر کر دیتی ہیں جس کے اگلے حصے کی آمد کا ہم سب کو بچپن والے اشتیاق احمد کی جاسوسی کہانیوں کی طرح شدید اشتیاق ہے۔
خیر مجھے زیادہ حیرت تو اس بات پر ہے کہ آپ روشن خیال لوگ احادیث کو تو اس بنا پر مسترد کر دیتے ہیں کہ ان کی تدوین و تحریر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بہت بعد ہوئی تھی۔ لیکن دوہزار سال پرانی غیر مصدقہ کہانیوں کو اپنی تحریروں کی بنیاد بنانے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔ کیا یہ جیو کے سہیل وڑائچ کے الفاظ می کھلا تیضاد نہیں ہے؟
اور ہاں کچھ روز قبل آپ نے گیلی دھوپ والے بلاگ پر ۔۔۔ پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔ پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا مودودی صاحب مرحوم پر الزام لگایا کہ انھوں نے قائدِ اعظم کو کافرِ اعظم قرار دیا تھا۔ میں نے اس پر جوابا کچھ عرض کیا تھا جو غالبا آپ کی نظر سے نہیں گزرا۔ بہر حال لگے ہاتھوں اپنے اس الزام کی تاریخی سند بھی عطا فرما دیجیے۔ مولانا مرحوم کی جانب سے تحریک پاکستان کی مخالفت ایک تاریخی حقیقت ہے لیکن عظیم قائد پر کافر اعظم کی تہمت مولانا جیسی شخصیت سے سرزد نہیں ہوئی۔ ازراہِ کرم تاریخی دستاویز کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیے۔
بہت شکریہ
ابو احمد
یوریکا کی کہانی کا متعلقہ حصہ بھی وکیپیڈیا سے کاپی کر کے یہاں پیسٹ کر رہا ہوں۔
This story first appeared in written form in Vitruvius's books of architecture, two centuries after it supposedly took place.[1] Some scholars have doubted the accuracy of this tale, saying among other things that the method would have required precise measurements that would have been difficult to make at the time.[2] For the problem posed to Archimedes, though, there is a simple method which requires no precision equipment: balance the crown against pure gold in air, and then submerge the scale with crown and gold in water to see if they still balance.
دلچسپ لکھا اور مزید دلچسپ یہ کہ کسطرح فوری طور پر آپ کے مقدمہ کی درستگی تبصروں میں ہی ثابت ہوگئی۔ کچھ تبصرے پڑھ کر یہ شعر یاد آیا کہ
ReplyDeleteوہ سارے فسانے میں ذکر جس کا نا تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار کزری ہے۔
ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔
ReplyDeleteاو خدایا!۔۔ یہ تبصرے تو تحریر سے بڑھ کر گڈو میاؤں کی حقیقت واضح کرتے چلے جارہے ہیں۔ یار بڑی دلچسپ سچوئشن ہوگئی ہے یہ تو۔ کچھ گڈو میاں بیچارے تو یوریکا کی ی میں ہی پھنس گئے ہیں۔
فی الحال میں اپنے دوست سے یہ سوال پوچھنا چاہوں گا کہ القائدہ کے ڈگری یافتہ راہنما جن کا ذکر انہوں نے بڑے فخریہ انداز میں کیا ہے۔ وہ اور دوسرے ہرطرف پھیلے گڈومیاؤں نے دریافت و ایجاد ، تخلیق و تحقیق کا وہ کونسا کارنامہ انجام دیا ہے کہ جس لے کر وہ وجدانی کیفیت میں یوریکا ، یا اللہ ہو کا نعرہ بلند کربیٹھیں؟
ابو احمد دیکھا آپکے ساتھ بھی وہی مسئلہ ہے۔ اس پوری تحریر ،ہ٘ ہپ لپاں لکضا ہے کہ یہ واقعہ ایکدم سولہ آنے درست ہے۔ حتی کہ اوپر کسی تبصرے میں، میں نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ ان سے منسوب ہے۔ مگر خدا بھلا کرے مذہب پرستی کے جھوٹے بت کا آپ سب کسی بھی بات کے مطلب کو جانے بغیر اسی طرح کے نتائج اخذ کرنے لگ جاتے ہیں۔ آپ سب کے ساتھ بنیادی مسئلہ گڈو میاں اور اس نظام کا ہی ہے۔
ReplyDeleteجہاں تک فکر پاکستان کی اس پوسٹ کا تعلق ہے اس زمانے کے سب بزرگ مر نہیں گئے زندہ ہیں۔ مودودی صاحب کی اس زمانے کی کتابوں کی ایڈیٹنگ کے نام پہ تحریف کر کے انکے موءقف کو تبدیل کر ڈالا۔ بہر حال آپ میں ہمت ہے تو قبل از تقسیم انکی تصنیفات تلاش کریں۔ اس سلسلے میں، میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتی۔ نہ فی الوقت ہم اس پہ بات کر رہے ہیں۔
مجھے یہ نہیں پتہ چلا کہ احادیث اور ارشمیدس سے منسوب اس قصے کا آپ کیا لنک بنانا چاہ رہے ہیں۔ یہ قصہ یونانی کہانیوں سے تعلق رکھتا ہے۔ دنیا بھر کا ادب اور خاص طور پہ علامتی ادب، یونانی کہانیوں سے بہت زیادہ مستفید ہوتا رہا ہے۔ پینڈورا بکس کی اصطلاح بھی وہیں سے آئ ہے اور لا تعداد اصطلاحیں وہاں سے حنم لے چکی ہیں۔ لیکن آپ اپنے مذہب پرستی کے نشے سے ہوش میں آئیں تو حقائق کا پتہ چلے۔
کاشف نصیر صاحب، آپ نے ایم بی اے کیا ہے۔ حیرت ہے بات کرنے کا انداز تو آپکا بالکل میٹرک کے بچوں سا ہے۔ اگر آپ کیمیاء میں ایم ایس سی کر لیتے تو بھی آپ کا کچھ نہیں بگڑتا۔ ایک ڈھیر کیمیا میں پی ایچ ڈی کرنے والوں کا آپکی باتوں پہ جزاک اللہ کہنے کے لئے تیار رہتا۔ انہی باتوں پہ جو آپ ایم بی اے کر کے کر رہے ہیں۔
جہاں تک لوگوں کے سی وی کا تعلق ہے تو جناب، گیلیو کی باتوں کو غلط کہنے والے ان پڑھ نہیں تھے۔ علم رکھتے تھے ان اشیاء کا اور ان خیالات کا جو انکے مفاد میں تھے۔ امریکہ اور دیگر ترقی یافتی ممالک کی مثال اس وقت خدا جانے آپکو کیوں یاد آتی ہے۔ جس طرح عیسائ بنیاد پرستوں کی کمی نہیں اور وہ مذہبی جنگوں پہ اپنے اندر ایک نیا جوش محسوس کرتے ہیں اسی طرح یہ لوگ ہیں۔ عیسائ بنیاد پرست کوئ ان پڑھ نہیں ہوتے امریکہ کی یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ لیکن دنیا بھر کے نوجوان اس ایڈوینچرزم میں مزہ لیتے ہیں۔ پمارے یہاں خود کش دھماکے کرتے ہیں لوگوں کو اڑاتے ہیں۔ امریکہ میں ہر سال یونیورسٹیز ، کالجز اور اسکولوں میں لوگ اندھا دھند فائرنگ میں مارے جاتے ہیں۔
آپ اب تک عافیہ والی بات دل سے لگا کر بیٹھے ہیں۔ آج کل تو لوگ وکی لیکس میں مصروف ہیں اور وہ تو کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ کیا آپکو معلوم ہے کہ میری اس پوسٹ کے شائع ہونے سے لے کر اب تک کتنی چھوٹی بچیوں کو ریپ کر کے مار دیا گیا ہے۔ آپکو اس چیز کی خبر نہیں ہوگی کیونکہ آپ یہ سمجھتے ہونگے کہ ایسی خبریں پڑھنے کے لئے کیمیاء میں ایم ایس سی کرنا ضروری ہے یا یہ کہ امریکی اگر ریپ کرتے تو ان خبروں میں جان ہوتی ۔ کیوں ہے ناں؟
باقی سب کے لئے، گڈو میاں کے کارنامے لکھنے کی مجھے ضرورت نہیں۔ وہ خود اسے تندہی سے لکھنے میں مصروف ہیں۔ بس پڑھنے والے کو یہ یقین ہونا چاہئیے کہ یہ ان کا کارنامہ ہے۔ انکی زبانی انکے کارنامے سننے میں جو مزہ ہے وہ میری زبانی سننے میں کہاں۔
ReplyDeleteکاشف نصیر صاحب، آپ بھی غاکٹر جواد احمد خان صاحب کو دئیے گئے لنک کو پڑھنے کی کوشش کریں۔ اس سے گناہ نہیں ہوگا، بالکل عام معلومات کی باتیں ہیں۔ اسکو پڑھ کر آپ روش خیال بھی نہیں ہونگے بس کچھ ایسی باتیں ضرور پڑھنے کو ملیں گی جو آپ نے ایم بی اے کر کے بھی نہیں پڑھیں۔ بر سبیل تذکرہ آپ ایم بی اے کس ادارے سے کر رہے ہیں۔ لنک یہ ہے۔
ReplyDeletehttp://www.mindtools.com/brainstm.html
بی بی!
ReplyDeleteویسے اگر عزت و جان کی امان پاؤں تو عرض کروں اس ہوسٹ کا ایک نہائت مناسب سا نام ذرا مختلف بھی ہوسکتا تھا۔
"کھسیانی بلی کھمبا نوچے"
سچھ کہا تھا اُس نے روشن خیالی وہم خیالی کی بھی امآں ثابت ہوری ہی ہے ۔ پاکستان کے نام نہاد روشن خیالوں کو نہ جانے کیوں وہم سا ہوگیا ہے کہ دنیا بھر میں صرف وہی ایک عالم فاضل باقی بچے ہے۔
محترمہ ۔۔۔۔ میں ایک عام مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والا شخص ہوں۔اپنی بے پناہ غفلت اور ہوس پرستی کے سبب میں تو اپنے سچےخالق، مالک ، اور ان داتا کی کی عبادت نہیں کرپاتا کسی جھوٹے بت کی پوجا کیاکر وں گا؟ میں نہیں جانتا کہ مذہب پرست سے آپ کیا مراد لیتی ہیں۔لفظِ مذہب کے عربی مفہوم سے قطع نظر ، اردو زبان میں دین اور مذہب تقریبا ہم معنی الفاظ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ہمارے سرکاری کاغذات میں بھی دین کے معنوں میں لفظ مذہب ہی رائج ہے۔ مذہب کے کالم میں اندراج مسلم، ہندو ، سکھ ، عیسائی وغیرہ ہوتا ہے۔ نہ کہ عربی مفہوم کے حوالے سے مذہبی دبستان یا مکتبِ فکر یعنی شیعہ سنی اہلِ حدیث وغیرہ کا۔ اس لیے سب سے پہلے تو یہ وضاحت کہ میں اپنی موجودہ بے عملی کی بنا پر مذہب پرست ہر گز نہیں ہوں۔ اگر مذہب سے آپ کی مراد دین ہے تو اپنی تمام تر کوتاہیوں اور بد اعمالیوں کے ساتھ میرے دل کے نہاں خانے میں ایک جذبہ اور ایک خواہش ضرور ہے کہ اللہ کریم اپنی رحمت کے صدقے میں مجھے سچی توبہ کی توفیق عطا فرمائے ،اپنے دین کے راستے پر گامزن کر دے۔ اورمیں ایک سچےمذہب یا دین پرست کے حیثیت سےمروں ۔
ReplyDeleteمجھے معذرت سے کہنا ہے کہ میری گزارش کے جواب میں آپ کا رویہ کسی جویائے علم ،سکالر، عقل پسند یا لبرل کے بجائےکسی ایسے انتہا پسندکا لگتا ہےجو دلائل، شواہد ، مصدقہ دستاویزات کی مدد سے اپنا نکتہ نظر ثابت کرنے کے بجائے دوسروں پر اپنی زبردستی اپنی رائے ٹھونسنے پر یقین رکھتا ہو۔
یہ بھی خوب رہی کہ اتنا علم حاصل کر جانے اور کسی نہ کسی صورت اس کا رعب جمانے کے باوجود آپ بعض بنیادی مغالطوں کا شکار ہیں۔ مجھے ارشمیدس اور احادیث کا لنک قائم کرنے کی کوشش کا طعنہ دینے والے کو خود دیو مالائی خیالی داستانوں اور تاریخی واقعات کا بنیادی فرق معلوم ہی نہیں۔ ارشمیدس خود سے منسوب تمام جھوٹے سچے اقوال و واقعات کے با وجود بہر حا ل ایک تاریخی شخصیت تھا جو اندازاً ۲۸۷ سے ۲۱۲ قبل مسیح کے درمیان یونانی شہر ی ریاست سیرا کیوس میں جیا اور رومیوں کے ہاتھوں اس کی فتح کے بعد قتل ہوا ۔جبکہ پنڈورا سمیت یونان کے ہزاروں دیوی دیوتاوں اور ماورائی کرداروں کا تعلق دیو مالائی داستانوں سے ہے۔ اور تاریخ و حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔جبکہ بقول آپ کے ــ ’’ یہ قصہ یونانی کہانیوں سے تعلق رکھتا ہے۔ دنیا بھر کا ادب اور خاص طور پہ علامتی ادب، یونانی کہانیوں سے بہت زیادہ مستفید ہوتا رہا ہے۔ پینڈورا بکس کی اصطلاح بھی وہیں سے آئ ہے اور لا تعداد اصطلاحیں وہاں سے حنم لے چکی ہیں۔ لیکن آپ اپنے مذہب پرستی کے نشے سے ہوش میں آئیں تو حقائق کا پتہ چلے۔‘‘
اب کیا فرماتی ہیں آپ اس بیچ؟
نظام ہائے عدل کی تمامتر ممکنہ خربیوںکے باوجود دنیا بھر کے پسماندہ اور ترقی یافتہ ممالک کی تمام عدالتوںایک ہی اصول ہے کہ مدعی اور الزام لگانے والا اپنے دعوے اور الزام کو ثابت بھی کرے نہ کہ اسے تھونپنے کے بعد اُلٹا مدعاعلیہ پر اسے جھوٹا ثابت کرنے کی ذمہ داری عائد کرے ۔ تمام علمی ، سائنسی اور عقلی اداروں اور انجمنوں میں بھی الزام، نظریہ، تاریخی واقعات اور شخصیات کے حوالے سے بھی یہی دستور رائج ہے۔ لیکن آپ عجیب روشن خیال اور لبرل ہیں کہ ایک تو بے گناہوں پرتہمت لگاتی ہیں اور جب آپ سے اس کا دستاویزی ثبوت مانگا جائے جو نا معلوم بقید حیات شخصیات کا ذکر کرتی ہیں اور سائل کو خود تحقیق کرنے پر لگا دیتی ہیں۔ کیا کہنے آپ کی روشن خیالی ، لبرلزم اور سائنسی سوچ کے!!!!دیکھیے اگر آپ کے پاس اس تہمت کا کوئی ثبوت ہے تو پیش کیجیے۔ ورنہ ایک سکالر کی حیثیت سے مان لیجیے کہ آپ سے غلطی ہوئی۔
آپ کا یہ دعویٰ بھی سرےسے غلط ہے کہ’’ در حقیقت تحریک پاکستان کے بڑے بڑے رہنما ترقی پسند تھے۔ ‘‘ ارے بھئی کون تھے وہ؟؟ اکثر و بیشتر تونواب، زمین دار اور تعلق دار تھے۔ ان کا ترقی پسندی سے کیا واسطہ؟ وہ تو قائد اعظم نے مسلم عوام کی امنگو ں کا درست ادراک کرتے ہوئے ایک ڈرائنگ روم پارٹی کو ایک زبردست عوامی تحریک میں بدل کر پاکستان بنا ڈالا۔
دیکھیے ذاتی رائے یا سنی سنائی بات نہیں،، دستاویزی دلیل کے ساتھ جواب دینا آپ پر قرض ہے۔
بو احمد (غلام مرتضیٰ علی)(
Just a few days ago I was watching a show on Express TV. I dont know whats with these tv anchors these days and why they so want to exploit the secular thingie even though they already know that its not supported by many. And hosting such a show in Lahore I mean what you can expect? The program was filled with Jamiat students wearing full darhis and had single track minds, the arguments were so silly that it made me wonder whats going to happen to our country if our highly educated youth can not even think properly.
ReplyDeleteThis is a fantastic post, the narrative was awesome, fromatting made it a bit un interesting can you please increase the number of paragraphs in your posts this makes reading easier. But the over all thought and the misery of guddos was hillarious. Keep them coming
"وہ سارے فسانے میں ذکر جس کا نا تھا
ReplyDeleteوہ بات ان کو بہت ناگوار کزری ہے۔"
اس سے بہتر يہ ہے کہ فلاں کی داڑھی ميں تنکا۔ پوسٹ پڑھتے ہی ہر مولوی نے يہ اعلان کرديا کہ تنکا اسکی داڑھی ميں تو ہر گز نہيں۔
آپ کے بلاگ کے دائیں طرف جو لائیو ٹریفک فیڈ ہے اس کے مطابق آپ کا بلاگ کینیڈا کے شمالی حصے نارتھ ویسٹ ٹیریٹری میں بھی پڑھا جاتا ہے۔ حالانکہ وہاں تو پاکستانیوں کی تعداد شائد ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جاسکے۔
ReplyDeleteبہرحال میری آپ سے درخواست ہے کہ اپنی فن تحریر کے تین سو ساٹھ گروں میں سے کم از کم ایک گر تو مجھے سکھا دیں۔ دیکھیں نا۔۔۔میرا اپنے بلاگ پر لکھنے کو دل ہی نہیں کرتا۔ اس تحریر کے مقابلے میں مجھے تو اپنا بلاگ بھی گڈو میاں کا بلاگ لگتا ہے۔
آپ ہر اس بات کو غلط کہتی ہيں اور ايسی بات کرنے والے کے ذہن کو گھٹيا ہونے کی سند جاری کرتی ہيں جو آپ کے مفروضات سے ميل نہ کھاتی ہو جبکہ آپ کے زيادہ تر استدلال فرضی ہوتے ہيں
ReplyDeleteآپ کے مندرجہ ذيل بيان نے واضح طور پر ثابت کر ديا ہے کہ آپ کے پاس سند تو ہے مگر علم کا مکمل فقدان ہے
"ایک ملک جو اپنی ریاست کے عوام کی فلاح کے لئے سائینس استعمال نہیں کر سکتا ہو ۔ وہ دوسروں سے حاصل کردہ ایٹمی دھماکہ کرنے کی صلاحیت پہ اتنا غرور کرے"
آپ کے ان دونوں فقروں کا حقيقت سے کوئی تعلق نہيں ۔ نہ انرچمنٹ کسی غير ملک کی مدد سے کی گئی اور نہ اِگنائٹنگ ڈِيوائس کسی غير ملک کی مدد سے ڈيويلوپ گئی تھی ۔ اولالذکر کا سہرا ڈاکٹر عبدالقدير خان اور ان کے ساتھی انجنيئروں اور آخرالذکر کا سہرا ڈاکٹر مبارک ثمر مند اور ان کے ساتھی انجنيئروں اور فِیزکس ميں ڈاکٹوريٹ سائنسدانوں کے سر ہے
اليکٹرک پاور کی فيلڈ ميں شاہدرہ ۔ ملتان اور حيدرآباد ميں گيس پاور سٹيشن اور شادی وال اور اس طرح کے کئی ہائيڈرو پاور سٹيشن پاکستانی انجيئروں نے ڈيزائين کئے اور بنائے
منگلا ڈيم اور تربيلہ ڈيم اور ان کے پاور پلانٹس بنانے والے انجنيئر پاکستانی تھے مگر منافع کمانے والی کمپنياں غير ملکی تھيں کيونکہ ورلڈ بنک سے قرضہ ليا گيا تھا اور ان کی شرائط کے مطابق ٹھيکہ غيرملکی کمپنيوں کو دينا پڑا
کينوپ بنانے ميں پھر بھی غير ملکی فنی امداد لی گئی تھی مگر چشنوپ کے وقت امريکا نے پابندياں لگا دی تھيں تو پاکستانی انجنيئروں نے اسے اپنے ذمہ ليا اور کينوپ سے بہتر معيار اور زياد ايفيشينسی والا بنايا
کراچی ميں شپ يارڈ ۔ پاکستان مشين ٹول فيکٹری اور بہت سی فيکٹرياں پاکستانی انجنيئرز نے بنائيں ۔ پاکستان ميں ساری انڈسٹريل ايسٹيٹس پاکستانيوں کے اپنے دماغ اور محنت کا صلہ ہيں ۔ پاکستان کی ٹيکسٹائل انڈسٹری جو پاکستانيوں کی محنت کا نتيجہ ہے بين الاقوامی معيار کی ہے اور بھارت سے بہت بہتر ہے
زرعی سيکٹر ميں ہمارے محنتی زرعی سائينسدانوں نے پھلوں ۔ سبزيوں اور دوسری اجناس کی نئی نئی بہتر قسميں دريافت کيں ۔ اس وقت سُپر باسمتی چاول دنيا کا بہترين چاول ہے جو زرعی کالج فيصل آباد کی دريافت ہے جو کب سے جامعہ بن چکا ہے
آپ کو يہ سن کر شايد صدمہ پہنچے کہ مندرجہ بالا پروجيکٹس اور غوری ۔ شاہين اور دوسرے ميزائل ڈيولوپ کرنے والے انجنيئر اور سائينسدانوں کی اکثريت بنياد پرست مسلمان ہيں
اس ملک کا بيڑا غرق روشن خيالوں نے کيا ہے ہے جيسے بينظير بھٹو ۔ پرويز مشرف اور آصف علی زرداری ۔ اور وہ گڈو بھائی برطانيہ کی شہريت لے کر لندن کا باسی اور برطانوی وظيفہ پر پلنے والا سوائے اس کے کيا کرتا ہے کہ ٹيليفون پر دو دو منٹ کے وقفہ سے ايک فقرہ بول کر عوام کے کئی کئی گھنٹے ضائع کرتا ہے ؟
ابھی بہت سے پروجيکٹ رہ گئے ہيں مگر تحرير بہت لمبی ہو گئی ہے اسلئے مزيد نہيں لکھ رہا
افتخار اجمل صاحب، جب معمولی معمولی بات لوگوں کو سمجھانی پڑے اور انکی سمجھ میں نہ آئے تو اس کیفیت کو کیا کہنا چاہئیے۔
ReplyDeleteایٹم بم بنانے کے پیچھے جو نظریہ کام کر رہا ہے۔ وہ آئیسٹائین نے پیش کیا تھا۔ ہمارے ملک کے کسی سائینسداں نے نہیں۔ حقیقت جس سے آپ آنکھیں چراتے ہیں وہ یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے دماغ کا یہ برین چائلڈ نہیں ہے۔ وہ خود ایک ویسٹرن کنٹری کے ایٹامک ادارے میں کام کر رہے تھے جب بھٹو نے انہیں استعمال کیا اور انہیں ملک میں ایٹمی ٹیکنالوجی کو لانے کی دعوت دی۔ آسان الفاظ میں جو ایٹمی ٹیکنک آپ کے ملک میں استعمال ہو رہی ہے اسکے تمام کے تمام بنیادی قواعد باہر کے ممالک سے چرائے گئے ہیں۔
حیرت ہے دوسروں کا علم استعمال کرنے کے بعد آپ اتنے زعم سے ہر غلط بات کہتے ہیں اور علم کے فقدان کا سہرا میرے سر باندھتے ہیں۔ پاکستان کے تمام نام نہاد تحقیقی اداروں میں اس وقت جو بھی تحقیق ہو رہی ہے اسکے بنیادی قواعد آپ نے نہیں، اور نہ آپکے سائیسدانوں نے بنائے ہیں اس سب چیز کی تربیت وہ باہر سے لے کر آتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ آپ معلومات حاصل کریں کہ ہر سال مختلف ٹیکنالوجیز کو سیکھنے کے لئے آپکے ملک سے کتنے لوگ باہر جاتے ہیں۔ مغربی ممالک آپکے لوگوں کو اس مد میں کتنی رقم وظیفے کی صورت دیتے ہیں۔ تاکہ آپ خود اس لاعلمی سے باہر آجائیں۔
آپکے تحیقیقی اداروں میں، میں بھی کام کر چکی ہوں۔ اس مد میں میں کچھ کہنا نہیں چاہتی کہ وہاں کیا ہوتا ہے۔ لیکن میری معلومات خوب اچھی طرح سیر حاص ہیں اس بارے میں جنکا یہ بلاگ متحمل نہیں۔
جاوید گوندل صاحب، اس میں کھسیانی بلی پڑھ کر آپکو ہی طیش آتا اور آپ کہتے کہ میں دوسروں کی بے عزتی کرتی ہوں۔
ابو احمد صاحب۔ آپ بنیادی سمجھ دانی پہلے پیدا کریں تو بات آپکو سمجھ میں آئے۔ اس بے سرو پا بات میں الجھے رہئیے۔ مجھے اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا۔ میں نے خود آپکو ارشمیدس کا لنک دیا ہے۔ خیال تو یہی ہے کہ آپکے علم میں بھی نہ ہوگا کہ وہ ذات تھی کون۔ اب آپ اس لنک کی دی ہوئ معلومات سے مجھے پڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں وہ سب کچھ پڑھ چکی ہوں اس لئے آپکو مطلع کرنا ضروری سمجھا، یوریکا، فی زمانہ ایک کیفیت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اسکے علاوہ یونانی مائیتھلوجی سے کیا چیزیں لی گئ ہیں انکی ایک لمبی فرست ہے۔ آپکا دماغ یہ سب سمجھنے سے قاصر ہے کہ یونان ایک لمبے عرصے تک تخلیقی علم کا منبع رہا ہے۔ آجکی ماڈرندنیا میں بھی یونانی مفکرین کے خیالات استعمال ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں آپکو بہت کچھ جاننے کی ضرورت ہے۔ جائیے اپنے طور پہ کوشش کریں پھر پلٹ کر آئیے گا۔
نومان، میں نے کچھ عرصے یونیورسٹی میں بھی پڑھایا ہے۔ اور مجھے خوب اچھی طرح اندازہ ہے کہ اس وقت نوجوان نسل میں بالکل عام چیزیں سمجھنے کا کتنا فقدان ہے۔ اس لئے کہ انکی بنیاد ہی کوئ نہیں ہے ان بے چاروں کو تو روشن خیال اور تاریک خیال ہی پتہ ہے۔ یہاں جن لوگوں کو یہ الفاظ پتہ چل گئے ہیں وہ مکھی پہ مکھی مارتے رہتے ہیں اور ہر بات پہ اسے دوہراتے رہتے ہیں۔
اس بگاڑ میں ٹی وی اینکرز کا بہت ہاتھ ہے۔ لیکن وہ کیا کریں وہ بھی تو اسی گڈو میاں والے نظام کی پیداوار ہیں۔
راشد کامران صاحب، بس آپ تبصروں کی صورت انکے کارنامے پڑھتے رہئیے۔ وہ خود نہیں جانتے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ اور جب ہم یہ کہیں تو برا مان جانتے ہیں۔
عثمان، میں کبھی بلاگ ٹریفک پہ دھیان نہیں دیتی۔ ایک دفعہ غلطی سے دیا تو پتہ چلا کہ افغانستان قندھار سے بھی کوئ آیا۔ یہ دیکھ کر 'خوشی' ہوئ کہ وہاں بھی اردو پڑھی جاتی ہے بس اسکے بعد دلچسپی لینا چھوڑ دی۔
:)
آپ نے لکھا ہے "حقیقت جس سے آپ آنکھیں چراتے ہیں وہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے دماغ کا یہ برین چائلڈ نہیں ہے ۔ وہ خود ایک ویسٹرن کنٹری کے ایٹامک ادارے میں کام کر رہے تھے جب بھٹو نے انہیں استعمال کیا"۔
ReplyDeleteآپ کی معلومات تو بالکل صفر ہيں ۔ ڈاکٹر عبدالقير خان نے کبھی ملک سے باہر کسی نيوکليئر رِيليٹڈ کمپنی ميں کام نہيں کيا ۔ اور بھٹو صاحب نے اُنہيں استعمال نہيں کيا ۔ استعمال اُنہيں معافی مانگنے کيلئے پرويز مشرف نے کيا ۔ ہوا يوں تھا کہ بھٹو صاحب بادشاہ بننے کے بعد يورپ کے دورے پر تھے ۔ ايک ملک ميں انہوں نے پاکستانيوں سے خطاب کيا ۔ بعد ميں ڈاکٹر عبدالقير خان نے بھٹو صاحب سے کہا "ميں اپنے ملک اور قوم کی خدمت کرنا چاہتا ہوں ۔ مجھے ايسا موقع مل جائے تو وطن واپس آ جاؤں"۔ بھٹو صاحب نے وعدہ کيا اور بعد ميں ڈاکٹر عبدالقدير خان کو پاکستان بلا ليا ۔ پاکستان آنے کے بعد ڈاکٹر عبدالقير خان نے کچھ سال دوسرا ڈيويلوپمنٹ کا کام کيا جس کا نيوکليئر بم يا انرجی سے کوئی تعلق نہ تھا ۔ يہ کام پاکستان اٹامک انرجی کميشن والے کر رہے تھے جو کامياب نہيں ہو پا رہے تھے ۔ چنانچہ 1976ء يا 1977ء ميں انرچمنٹ کا کام بطور تجربہ ڈاکٹر عبدالقير خان کو ديا گيا مگر اس پر کام اواخر 1977ء ميں ضياء الحق کے دور ميں شروع ہوا ۔
ڈاکٹر عبدالقير خان يا اُن کا کوئی ساتھی کوئی ڈاکومنٹس باہر سے چرا کر نہيں لايا تھا ۔ يہ پاکستان کے دشمنوں کا جھوٹا پروپيگنڈہ ہے اور آپ جھوٹے معاندانہ پروپيگنڈہ کا مکمل شکار ہيں
محترمہ آپ کونسے تحقيقی اداروں کام کرتی رہی ہيں ؟ کم از کم اتنا ميں جانتا ہوں کہ اُن کے نام بتانا تو کوئی سيکرٹ نہيں ہوتا ۔
جسے آپ ایک محدود نکتہ کہ رہی ہیں مرے نزدیک وہ اتنا لا محدود ہے کے انسانی عقل اسکا احاطہ نہیں کر سکتی لیکن اس نکتے کا کمال یہ ہے کہ باوجود اپنے غیر محدود پھیلاؤ کہ وہ آپکو بھٹکنے نہیں دیتا. برخلاف آپ لوگوں کہ جو ہمیشہ بھول بھلیوں میں بھٹکتے رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے بہت سارا فاصلہ طے کر لیا ہے. میرا تو نیوکلیس یا مرکز ایک ہے لیکن جب میں آپ لوگوں کو ان گنت مراکز کے گرد چکر لگاتے طواف کرتے دیکھتا ہوں تو خود ہی ایک لمحے کہ لئے چکرا جاتا ہوں. اور سوچتا ہوں کہ یا خدا یہ کیسی مخلوق ہے اور فلسفوں ، نظریات اور اور چکرادینے والے خیالات کو فلاح کا راستہ سمجھ لیا ہے. نہ صرف خود اس پر دوڑے جا رہے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی دوڑیں لگوا رہے ہیں.
ReplyDeleteرہی بات مینڈکی اور بھینس کی تو مجھے معاف فرمائیے گا میں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی آپکی منطق اور فلسفیانہ استعاروں کو سمجھ نہیں سکا. شاید شاگرد عزیز اس پر روشنی ڈال سکیں.
آپکا لنک دیکھا اور بیحد محظوظ ہوا. تو گویا آپ برین سٹورمنگ کر رہی ہیں. مجھے بھی یہی لگا تھا شروع میں پر معافی چاہتا ہوں کہ جوں جوں آپ لوگوں سے مکالمہ ہوا اور آپ کی تحریر اور اسکے کھلے اور یقینی نتائج دیکھے تو میں بھی کاشف نصیر صاحب کی طرح اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور ہو گیا ہوں . پہلی بات کہ برین اسٹورمنگ کے لئے ایک مرتکز ذہن ضروری ہے. ایک تضادات سے متاثر ذہن یہ کام نہیں کر سکتا. پھر معافی چاہتا اگر برا لگے
مگر کہنا ضروری ہے. میں وہ وجوہات بیان کر دوں کہ جن کی بنیاد پر آپ کا دعویٰ باطل ٹھہرتا ہے.
١) ایک طرف آپنے ایک انتہائی محدود علاقے میں موجود مختلف قوموں کے افراد جنہیں مہاجر کے نام سے جانا جاتا ہے (اور جن میں آپ مجھے بھی شامل کر سکتی ہیں) انکی ترجمانی کے فرائض ایک تشدد پسند جماعت کے حوالے سے کر رہی ہیں. اور دوسری طرف عالمگیریت کا دعویٰ بھی کرتی ہیں.
٢) پھر یہ عصبیت بھی قطعی نہیں ہے بلکہ روشن خیالی سے آلودہ ہے اسکی وجہ آپکی اردو بولنے والی عافیہ صدیقی سے نفرت اور( اگر میں غلط نہیں ہوں تو) ایک پنجابی بولنے والی آسیہ بی بی سے ہمدردی. براۓ مہربانی اگر میں آسیہ بی بی کے معاملے میں آپکو غلط سمجھا ہوں تو تصیح فرمائیے گا.
٣) سائنسی عقائد ( سائنسی قوانین نہیں )جیسے نظریہ ارتقا وغیرہ کے معاملے ایک بالکل کٹر مذھبی نوعیت کا رویہ. ارے جناب ہمارے ساتھ تو مجبوری ہے ہم وحی کو حرف آخر ماننے پر مجبور ہیں. آپ کے ساتھ ایسی کیا مجبوری ہے؟
٤) وجدان پر یقین اور وحی کا انکار. زبان سے بھلے ہی نہ کریں مگرآپکی تحریریں صاف تقاضا کرتی ہیں کہ مذھب میں "جدید دور کے تقاضوں" کے مطابق تبدیلی ہونی ضروری ہے.
٥) اگر آپ برا نہ مانیں تو میں کہوں کہ منافقت اور کم ہمتی ....آپ لوگ خود کو مسلمان بھی کہلوانا چاہتے ہیں اور دین کی بنیادی شرائط کی خلاف ورزی اپنا فرض سمجھتے ہیں. یہ بالکل ایسا ہے کہ میں کسی کلب یا پارٹی کو جوائن کروں لیکن ساتھ ساتھ یہ اعلان کرتا رہوں کہ پارٹی یا کلب کے قوانین مجھے منظور نہیں.
آخر میں معذرت کے ساتھ پھر کہوں گا کہ جہاں سے میں آپ لوگوں کو دیکھتا ہوں وہاں سے مجھے آپ لوگ برین اسٹورمنگ کی جگہ سوشل انجینیرنگ کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں.
I apologize for giving comments in English but I cant write urdu. I am a medical student and I want to know ur views regarding ur Muslims liberal fellow that what they are doing for Pakistan. Let the fundos make ballistic missiles and nuclear bombs, ask ur liberal fellows to use nuclear energy for electricity. I hope they will do this.
ReplyDeleteIf u cant do this then u should accept that u are just the brain child of westerners..U can just praise them and cant do anything (sorry I forgot that u can talk a lot)..
Why u want to force fundos to do good for society????? You should keep on doing good and let them in their dreams.
Plus if u say that foundation of nuclear bomb was given by Einstein then foundation of western science was given by Muslims. so the ultimate credit should be given to Muslims. Plus theory of Relativity was first given by a Muslims scientist Al-Kindi in 11 th century (according to dr. Zakir Naik) so you should given the credit of all the modern applications of Relativity to Al-Kindi...
see the full video here
http://www.youtube.com/watch?v=ox2iZOKStCk
So you should give all the credit of discoveries made by west to Muslims!!!
We admire AQ Khan for making a bomb without any resources, in country where u cant make a bicycle. SO this is the reason that we admire him.
Plus it is better if u write ur qualifications also so that we can know what u have contributed to science & technology or you are just talking like ur fellow Hoodboy and Nayyar... As for as I guess I think u will have some degree in arts..and talking abt lectures on science like ur Javed Ghamidi (he gives lectures on Evolution with his BA degree...!!)
Plus where u read that Mawdudi declared the Quaid e Azam as Kafir e Azam?????? It was NOT Mawdudi it was Ahmed Raza Khan Barelvi. I know being a liberal-extremist u will never reply to these points...
I also know that u will not let my comment appear on your blog like my previous comments...May be u have allergy from Aasia Bibi article on my blog ...
anyhow best of luck....
@Hauman
ReplyDeleteplz post the link of program u are referring to..
افتخار اجمل صاحب، آپ پھر اسی انداز میں باتیں کر رہے ہیں۔ لیجئیے یہ لنک دیکھیں جسکے مطابق انکی اعکی تعلیم جرمنی میں ہوئ اور نیدر لینڈز میں وہ جس پروجیکٹ پہ کام کرتے تھے وہ یورونیئم کی افزودگی کا ہے۔
ReplyDeletehttp://en.wikipedia.org/wiki/Abdul_Qadeer_Khan
صرف یہ لنک نہیں آپ کسی بھی جگہ اگر انکا پروفائیل چیک کرنے کی ذرا سی بھی کوشش کرتے تو آپکو یہی معلومات ملتیں۔ ایک تو اس ساری چیز کا تعلق اس موضوع سے نہیں دوسرے خدا جانے کن بنیادوں پہ آپ اپنی غلط ترین باتوں کو نافذ کرتے رہتے ہیں۔ یہ بات تو تاریخ پاکستان کا حصہ بن چکی ہے کہ ڈاکٹر قدیر کو پاکستان آ کر اس پروجیکٹ پہ کام کرنے کی ترغیب ذوالفقار علی بھٹو نے دی تھی۔
آپکی ان سے عقیدت اپنی جگہ مگر عقیدت کی روشنی میں آپ واقعات کو بگاڑ نہیں سکتے۔
ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب ، آپ اور جاوید گوندل صاحب کا مسئلہ مجھ سے نظریاتی اختلاف نہیں بلکہ آپ دونوں کی جڑوں میں جماعت اسلامی کے نظریات سے وابستگی اور ایم کیو ایم سے نفرت ہے۔ اس وجہ سے ہر وہ شخص جو ایم کیو ایم کی درست چیزوں کو ہی صحیح کہہ دے تو آپ لوگ اپنے قابو سے باہر نکل کر ہوش و خرد کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔
مومن صاحب،اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت۔ جہاں آپ صرف بچ جائیں وحی پہ ایمنا لانے والے۔ یہ آپ جیسے لوگوں کی برکت ہے کہ جو شخص آپ لوگوں سے اختلاف کرے وہ اب صف کفار میں نظر آتا ہے۔ جس وحی پہ آپ یقین رکھتے ہیں اسکا تقاضہ یہ ہے کہ دوسروں کے ایمان کے بارے میں اپنا فتوی نہ دیں۔ مگر آپکی خودی نے تو ایمان کے سارے تقاضوں کو شکست دے کر ایسے نشے میں مبتلا کر دیا ہے جہاں پہ آپ لوگوں کی باتوں کو مجذوب کی باتیں سمجھ کر ہمیں درگذر کرنا پڑتا ہے کیونکہ ہم کسی کا سر قلم کرنے کا فتوی جاری نہیں کرتے۔
جمشید زبیری، تو آپ بھی مومنین کے گروہ سے آرہے ہیں۔ اگر آپ نے اپنے تبصرے میں دیسی گالیاں نہیں استعمال کی تھی تو وہ یہاں ضرور آتا۔ اگر مجھے آپکا عظیم تبصرہ روکنے سے ذرہ برابر بھی دلچسپی ہوتی تو آُکا یہ تبصرہ بھی جگہ نہیں پاتا۔ اس دھند سے باہر آجائیں کہ میں آپکے تبصرے روکوں گی۔ لیکن در اصل آپ لوگوں میں کچھ سمجھنے یا تجزیہ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی اس لئے اس طرح کے بیانات داغتے رہتے ہیں۔
خیر، تو آُکا خیال ہے کہ یورونیئم افزودہ کرنے کا طریقہ ڈاکٹر عبدالقدیر خآن نے آج سے بارہ سو سال پہلے الکندی سے سیکھا تھا۔
دلچسپ۔
مذہبی انتہاپسندوں کی کم علمی کا طعنہ دینا دینا گویا آپ جیسے دہریہ سفت طبقے کا فیشن بن گیا ہے، محترمہ کبھی تخیل کی بلندی سے زمین پر اتر کر بھی دیکھا کریں آپ کے غرور کے سارے بت پاش پاش ہوجائیں گے۔
ReplyDeleteانتہاپسندوں کے طعنے دینے سے پہلے آپ کبھی یہ سوچ لیا کریں کہ نام نہاد روشن خیالوں نے پچھلے ساٹھ سال میں اس ملک کو کیا دیا ہے۔ کس شخص کا نام آپ فخر سے لے لیا ہے۔ آپ اپنی بات کریں آپ نے کیا اکھاڑ لیا ہے سوائے مذہبی انتہاپسندوں کو لعن طعن کرنے کہ۔ روشن خیال آج تک کتنے سائنس دان پیدا کرلئے اور کتنے دیگر کامیاب لوگ۔ معذرت کے ساتھ روشن خیالوں نے سوائے باتوں آج تک کچھ نہیں کیا، انتہا پسندوں نے اس ملک کو کم از ایٹمی قوت بنادیا، آپ کہیں گی یہ بھی بچوں سی باتیں ہیں تو سمجھتی رہیں۔ جو اس دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لئے آئیں اور جنہیں مر کے اللہ کو منہ نہیں دیکھانا وہ ایسی ہی باتیں کرسکتے۔
سی آئی اے والے ڈاکٹر قدير کو گرفتاری سے بچاتے رہے؛
ReplyDelete"Why did the CIA resist the arrest of Dr. Abdul Qadeer Khan"
http://www.rakhapura.com/rohingya/why-did-the-cia-resist-the-arrest-of-dr.-abdul-qadeer-khan.asp
ویسے ایک بات ماننی پڑے گی کہ آپ ذہنی طور پر ایک نہایت مضبوط خاتون ہیں. آپکی جگہ میں ہوتا اور اپنی بات کے رد میں وہ دلائل سننے کو ملتے جو آپکو ملے ہیں تو اب تک بلاگنگ پر تین حرف بھیج کر روزی روٹی کی فکر میں گھر سے باہر نکل جاتا.
ReplyDeleteکاشف نصیر صاحب، جس شخص نے اس ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کا فیصلہ کیا وہ تو اسلمی سوشلزم کا نعرہ لے کر اٹھا تھا۔ آپکا کیا خیال ہے تحریک طالبان یا جماعت اسلامی نے اس منصوبے کا آغاز کیا تھا۔
ReplyDeleteاب آپکہ اس بات کو غلط ثابت کیا جائے تو آپکو دکھ پہنچے گا کہ مجھے کم علمی کا طعنہ دیا۔ میرے ننھے بھیا، کسی بھی موضوع پہ کچھ کہنے سے پہلے تھوڑا سا پڑھ لیا کریں تو اور سوچ لیا کریں کہ میں لکھنے کیا جا رہا ہوں تو آپکو ایسے بے کار کے دکھ نہ ملیں۔ مجھے بھی قطعا کسی کو یہ کہنا پسند نہیں کہ محترم جا کر پہلے صحیح بات معلوم کریں۔ لیکن آپ لوگ بغیر کسی تیاری کے بیانات دینا شروع کر دیتے ہیں۔
ویسے کسی شخص کو جو اپنے آپکو مسلمان کہتا ہو۔ کس ہستی نے آپکو اس بات کا اختیار دیا ہے کہ اسے کافر یا دہریہ کہیں۔ ان سب باتوں کا بھی میرے چندا سے بھائ روز قیامت جواب دینا ہوگا۔ خدا محض آپکی اس لئے بخشش نہیں کرے گا کہ آپ انتہا پسندوں کی لولی لنگڑی حمایت کر رہے تھے۔ خدا آپ سے یہ بھی پوچھے گا کہ کس استحقاق کی بناء پہ آپ عنیقہ ناز کو دہریہ کہا۔ یاد رکھیں میں اس وقت آپکو قطعاً معاف نہیں کرونگی۔ یہ تو آآپ سمجھتے ہیں ناں یا اسکے لئے احادیث پیش کروں۔
ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب، کیا دلائل سننے کو ملے ہیں ان میں سے کسی ایک چیز کو دلیل نہیں کہا جا سکتا۔ لطائیف ضرور ہیں۔ مثلاً آپ روشن خیال ہیں، آُ دہریہ ہیں، آپ وحی پہ یقین نہیں رکھتیں۔ آپ تو ایم کیو ایم کی ایجنٹ ہیں،
ReplyDeleteہم مضبوط ایمان والے ہیں، ہم تو صرف وحی کو ماننے والے ہیں، ارتقاء کے قوانین تو آپکے لئے ہیں، ایٹمی طاقت انتہا پسندوں کی وجہ سے حاصل ہوئ، پاکستان کی 'ترقی' انتہا پسندوں کی وجہ سے ہے، میرا تبصہ نہیں شائع کیا ورنہ لگ پتہ جاتا، آپکو معلوم ہی کیا ہے ڈاکٹر عبدالقدیر کبھی ملک سے باہر کسی ایٹمی پلانٹ میں نہیں گئے، انہوں نے تو یہ علم کندی سے حاصل کیا، مزید لطائیف بیان کرنے میں دلچسپی نہیں۔ لطیفوں سے کوئ ذہنی طور پہ کمزور ہوتا ہے کیا۔
میں نے کہا تھآ ناں کہ میں گڈو میاں کے کارنامے نہیں لکھنا چاہتی وہ خود تندہی سے لکھنے میں مصروف ہیں۔ اور کہیں جانے کی ضروورت نہیں یہ سارے تبصرے پڑھ لیں۔ میری پوسٹ پہ ہمیشہ تبصرے تحریر سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔ تخیل کی پرواز میری تحریر سے زیادہ انکے تبصروں میں نظر آتی ہے۔ تو میں نے اسکا عنوان صحیح رکھا ناں۔ یوریکا، میں نے پا لیا۔
I admire the way you find time and energy to respond to the opinions expressed by people who have imprisoned their minds in innumerable chains. Whereas just skimming through them leaves me rather frustrated.
ReplyDeleteMost degree holders amongst us are ignorant of the subtle differences between (to name a few so as to limit the scope) philosophy (scientific or social) and technicality, progress and development, research and development. The root lies in our mentality and personality being shaped by a society in which, to question (at every level, in every issue pertaining to any aspect of life) is to sin. This augmented by the firm belief since childhood that associating our name with Islam makes us perfect, leaves no room for personal catharsis and social evolution. Such a mindset is not in a state of denial, it has accepted its delusion as belief.
I must say though that in such debates as r normally carried out as comments after your posts, the reader feels trapped in a circle as both the comments and counter comments become repetitive. Please allow me to suggest that at a certain point, it would perhaps be more lucrative to invest your time and effort in a new post rather than a comment. thank you
فائز ایس احمد صاحب،
ReplyDeleteآپکی تجویز پر تو مجھے ایک محاورہ یاد آگیا. " بھس میں چنگی ڈالی جمالو دور کھڑی دیکھ رہی" . بڑی "بی جمالو" قسم کی تجویز ہے آپکی. اور بلاگ کی ٹیگ لائن کے لحاظ سے بھی بڑی مناسب ہے. ہم کہ سکیں گے کہ صرف تخیل کہ ہی نہیں بلاگر کے بھی پر ہوتے ہیں اسکی اڑان کو کوئی نہیں روک سکتا.
میں نے آپکو دہریہ کب کہا، بس دہریہ سفت کہا
ReplyDeleteڈاکٹر جواد احمد صاحب
ReplyDelete:)
یہ آج صبح سے آپ اس بلاگ کے آگے بھس بنے کیوں پڑے ہیں۔ بلاگ پہ موجود ٹیگ لائن صرف بلاگر کے لئے نہیں تبصرہ نگار کے لئے بھی ہے۔ پر لگائیے تاکہ آپ آرام سے سو سکیں۔ شب بخیر۔ نہیں اللہ حافظ۔
:)
یوریکا، میں نے پا لیا۔
ReplyDeleteمیں پوچھنا چاہوں گا کہ کیا پا لیا آپ نے؟
انتہاپسندوں کو مزیداپنی کاٹدار قلم کی نوک کے نیچے پامال کرنت سے پہلے میرے ایک سوال کا جواب ضرور دیں کہ روشن خیالوں نے پچھلے ساٹھ سالوں میں کیا تیر مار لئے ہیں؟ یہ روشن خیالئے نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔
================================================
محترمہ ڈاکٹر عنیقہ صاحبہ ! قائدِ اعظم کو مودودی صاحب مرحوم کی جانب سے کافرِ اعظم قرار دینے کے بہتان پر آپ کے غیر متعلقہ اور سرزنش آمیز جواب کو آپ ہی کی کہانی میں بیان کردہ سکول سے ملتے جلتےنام نہاد لبرل سکول کی عالم فاضل مگر سخت گیر ہیڈمسٹرس کی وارننگ سمجھ کر میرے جیسا جاہلِ مطلق دبک کر بیٹھ گیا تھا۔ لیکن اب کاشف صاحب کے تبصرے پر آپ کا جواب پڑھ کر میں دوبارہ بولنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔ اگرچہ یہاں آپ سے اختلاف رائے رکھنے والے ہر شخص کے ساتھ آپ کا رویہ بقولِ غالب یہی ہے:
ReplyDelete(ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تُو کیا ہے ۔۔۔۔۔۔ تمہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟)۔ مجھے بتائیے کہ یہ کیسی روشن خیالی ہے؟ یہ کہاں کا لبرلزم ہے؟
کاشف صاحب کی طرف سے آپ کو(آپکے بیان کے مطابق) کافر قرار دینے پر آپ کو جو تکلیف ہوئی میں اس کا اندازہ کر سکتا ہوں۔ شاید اسی لیے آپ نے انھیں روزِ قیامت بھی معاف نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ محترمہ آپ ہی کے انھی جذبات و خیالات کی روشنی میں مَیں بھی آپ سے پوچھتا ہوں کہ قیامت کے دن جب مولانا مودودی صاحب مرحوم اللہ پا ک کی بارگاہ میں آپ کی شکایت کریں گے کہ اس بی بی نے بغیر ثبوت کے مجھ پر کافر گر ہونے کی تہمت لگائی تھی تو تب آپ کیا کریں گی؟ کاشف صاحب کے پاس تو آپ سے معافی مانگنے کی صورت ابھی موجود ہے (اور میرا انھیں برادرانہ مشورہ ہو گا کہ اگر اُن سے غلطی سرزد ہو گئی ہو تو ابھی معافی تلافی کی کوئی صورت نکال کر خود کو روزِ قیامت کی سخت آزمائش سے بچا لیں)۔ مودودی صاحب مرحوم کے معاملے میں آپ کا دعویٰ غلط ثابت ہونے کی صورت میں آپ کے پاس بچنے کی کتنی گنجائش ہے اس کا اندازہ میں خود آپ ہی پر چھوڑتا ہوں۔
دوسرے یہ کہ کاشف صاحب پر آپ کے جوابی تبصرے میں آپ کے الفاظ میں ’’ میرے ننھے بھیا، کسی بھی موضوع پہ کچھ کہنے سے پہلے تھوڑا سا پڑھ لیا کریں تو اور سوچ لیا کریں کہ میں لکھنے کیا جا رہا ہوں تو آپکو ایسے بے کار کے دکھ نہ ملیں۔ مجھے بھی قطعا کسی کو یہ کہنا پسند نہیں کہ محترم جا کر پہلے صحیح بات معلوم کریں۔ لیکن آپ لوگ بغیر کسی تیاری کے بیانات دینا شروع کر دیتے ہیں۔
آپ ہی کے بیان کی روشنی میں میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ نےمودودی صاحب مرحوم پر یہ تہمت لگانے سے پہلے کچھ پڑھا تھا ، کوئی تیاری کی تھی؟۔ اگر پڑھا تھا تو ہمیں بھی وہ مستند سورس بتائیے۔
(ابو احمد) غلام مرتضیٰ علی
محترمہ!
ReplyDeleteنیز یہ آپ نے کہاں پڑھا ہے کہ در حقیقت تحریک پاکستان کے بڑے بڑے رہنما ترقی پسند تھے۔ بھئ کوئی ہمیں بتائےکہ قائدِ اعظم، محترمہ فاطمہ جناح، نوابزادہ لیاقت علی خان، نواب بہادر یار جنگ، سردار عبدالرب نشتر، نواب صدیق علی خان، خواجہ ناظم الدین، راجہ صاحب محمود آباد، مولوی فضل الحق، حسین شہید سہروردی، چودہری خلیق الزمان، سر عبداللہ ہارون، مولانا حسرت موہانی، قاضی محمد عیسیٰ، سر غلام حسین ہدایت اللہ اور مولانا ظفر علی خان، سر فیروز خان نون، آئی آئی چندریگر، مولاناشبیر احمد عثمانی (و غیرہم) مرحومین ومغفورین میں سے کون کون معروف معنوں میں ترقی پسند(پروگریسو یا سوشلسٹ) سوچ کا حامل تھا۔ان میں سے اکثر کا تعلق تو اس زمانے کی مسلم اشرافیہ سے تھا۔کچھ مڈل کلاس سے متعلق تھے۔ قائد اعظم کی قیادت کے دورِ ثانی سے قبل مسلم لیگ زیادہ ترانگریزوں کے وفادار نوابوں اور تعلقداروں کی جماعت تھی جس کا قیام بھی ڈھاکا کے رئیس اعظم نواب سلیم اللہ خان کے گھر میں عمل میں آیا تھا۔ قائد اعظم نے سن تیس کے عشرے کے اوائل میں برصغیر کے حالات سے مایوس ہو کر جو جلاوطنی اختیار کی اس کا ایک سبب مسلم لیڈروں کی مایوس کن انگریز پرستی قرار دیا تھا۔
ترقی پسند تو سارے کے سارے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں تھے جس کا انتخابی سیاست میں کوئی کردار نہ تھا۔ غیر سیاسی لوگ انجمن ترقی پسند مصنفین میں تھے۔ یا پھر بعد میں نہرو نے نام نہاد سوشلزم کا نعرہ لگایا تھا جس سے علامہ محمد اقبال نے مسلمانوں کو خبر دار کیا تھا۔قیامِ پاکستان کے قریب اپنے قبلہ سوویت یونین سے لال جھنڈی ملنے پر بعض ترقی پسند ضرور مسلم لیگ سے منسلک ہو ئے تھے لیکن وہ سب کارکن رینک کے یا دوسرے تیسرے درجے کی قیادت میں شمار ہوئے ۔ اُن میں سے کوئی بھی تحریکِ پاکستان کا بڑا لیڈر نہ بن پایا۔ کیا واقعی آپ لفظ ترقی پسند کے معنوںاور بر صغیر میں اس تحریک کی تاریخ سے واقف ہیں یا یونہی روانی میں بغیر پڑھے اور تیاری کیے تاریخ دانی کے اتنے بڑے بڑے دعوے کر گئی ہیں۔ محترمہ کیمسٹری اور ہسٹری میں بڑا فرق ہے۔ کیمسٹری پر آپ کا ہر ہر حرف مجھ ایسے جاہلِ مطلق گڈوؤں کی سر آنکھوں پر، مستند ہے تیرا فرمایا ہوا۔ لیکن اگر آپ اس کے ساتھ ساتھ ہسٹر ی پر بھی ہاتھ صاف کرنا چاہتی ہیں تو آپ کو اس سے کوئی روک نہیں رہا لیکن پلیز اپنے ہی روشن خیال علمی اصولوں کے عین مطابق اپنے تاریخی دعووں کا مستند ثبوت پیش کیجیے ۔محض سنی سنائی باتیں یا آپ کی خواہش یہاں چل نہیں سکتیں۔
نوٹ: اگر آپ مستند دستاویزی ثبوت پیش کرنے سے قاصر ہیں تومیرے اس تبصرے کو حذف ہی کر دیں۔ مجھ پر آپ کی روشن خیالی کی حقیقت اور بھی زیادہ عیاں ہو جائے گی۔
(ابو احمد) غلام مرتضیٰ علی
فکرِ پاکستان کا متعلقہ لنک درجِ ذیل ہے۔
http://fikrepakistan.wordpress.com/2010/11/12/%d9%be%d8%a7%da%a9%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86-%da%a9%d8%a7-%d9%85%d8%b7%d9%84%d8%a8-%da%a9%db%8c%d8%a7%d8%9f/#comments
افغانستان سے غزنوی بھی آیا اور ہجویری بھی۔ ایک نے سومنات توڑا۔ دوسرے نے شرک کا قلع قمع کیا- کون سی ایکسپورٹ بہتر؟ ہمارے کچھ کرم فرما توجدید افغان ایکسپورٹوں کے شیدائی ہیں۔
ReplyDeleteڈاکٹر جواد صاحب، سرسید کے حامیوں پر وحی کے انکار کا الزام تو لگاتے ہیں۔ آپ خود بھی تو وحی اور الہام کو ختم مانتے ہیں۔ فرق کیا ہوا دونوں میں؟
ابو احمد صاحب، آپ پہلے تو یہ بتا دیں کہ ترقی پسند سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟ اس سے آگے ہی کہا جا سکتا ہے کہ قائد اعظم ترقی پسند تھے یا نہیں لیاقے علی خان ترقی پسند تھے یا نہیں۔ میرا خیال ہے کہ آپ ترقی پسندی کے متعلق کافی الجھن کا شکار ہیں۔ اور بلاگستان کے معروف نظرئیے میں آپکو یہ سمجھ میں آتا ہے۔ شراب پیوم گرل فرینڈز اور بوائے فرینڈز رکھو، ڈیٹنگ کرو، برہنہ پھرو یہ ہے ترقی پسندی۔
ReplyDeleteتو جب تک آپ اس چیز کی تعریف نہیں کریں گے۔
مودودی صاحب کے متعلق میں نے کم ازکم اتنا پڑھا ہوگا جتنا آپ نے پڑھا ہے۔ میرے اطراف ایسے بہت سے لوگ ہیں جو اس زمانے میں سیاسی طور پہ سرگرم رہے جب آپ کیا میں بھی پیدا نہیں ہوئ تھی۔ تو اسلامی لحاظ سے وہ گواہ کے برابر ہوئے یا نہیں۔
جبکہ موصوف کاشف نصیر میرے متعلق شمہ برابر بھی نہیں جانتے۔ اور اسکے بعد تہمت دھرتے، بلکہ یہی نہیں ہمیشہ اپنے آپکو مومنین کے گروہ میں شامل رکھتے ہیں مگر مومن ہونے کے کڑے امتحان سے واقف نہیں۔ جب وہ مجھ کو دہریہ قرار دیتے ہیں تو پھر مجھ سے کس اخلاق کی توقع رکھتے ہیں اور جب اپنے آُکو اس حد تک مومن سمجھتے ہیں کہ بس عشرہ ء مبشرہ میں شامل ہونے کی کسر رہ گئ تو کیا یہ انکا اخلاق ہونا چاہئیے۔
جناب غلام علی مرتضی۔ انسان کو کم از کم اپنے آُکو چاہے ظاہری طور پہ ہی سہی اس نظرئیے کے ساتھ ضرور ہم آہنگ رکھنا چاہئیے جس کی حمایت میں وہ بڑے بڑے بول بولتے ہیں۔ ورنہ ان جیسے مومنین اور دیگر عاصیوں میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔
محترم کاشف نصیر، ترقی پسندوں کی باری تو بعد میں آتی ہے۔ آج ذرا تفصیل سے انتہا پسندوں کی وجہ سے پاکستان نے جو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کی ہے اسکے متعلق ہم لا علموں کو مطلع کریں مجھ سمیت دیگر قارئین یہ جاننے میں خاصی دلچسپی رکھتے ہونگے۔
اس ملک پہ ہمیشہ، آپ کے مظریات رکھنے والے لوگوں کا قبضہ رہا ہے۔ اسکے باوجود اگر کچھ کہیں ہو پایا تو اسکی وجہ انتہا پسند نہیں۔ انتہا پسندوں نے جو کچھ دیا وہ پچھلے چند سالوں میں ان معصوم لوگوں کو خود کش بموں سے اڑنے سے شہید ہونے والی موت ہے جسکے بارے میں انہیں علم نہیں کہ وہ کیوں اسکا شکار ہوئے۔ یہ تعداد سینکڑوں نہیں ہزاروں بنتی ہے۔ آج آپ جس ایٹم بم پہ ناز کرتے ہیں اس پروجیکٹ کو بنیاد دینے والا ذوالفقار علی بھٹو،، ایک سوشلسٹ تھا۔ انتہا پسند تو ہمیشہ جہاد میں مصروف رہے۔ پاکستان بننے کے بعد سے ضیاءالحق کے زمانے تک ہندوستان سے جہاد، پھر افغانستان کا جہاد اور پھر طالبان کا جہاد۔ ترقی، عوام کی فلاح، معیشت اور معاشرے کا استحکام، یہ انکے موضوعات کب رہے ہیں۔
او جی مولانا مودودی اور اے کیو خان کو چھوڑیے۔ یہاں تو نئی مصیبت پڑ گئی ہے۔ میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا چکا ہے۔ ہاتھ پاؤں سن اور زبان گنگ ہوچکی ہے۔ میں علم دانش کی کسی اندھری کوٹھری میں پڑا آخری سانسیں لے رہا ہوں۔ دراصل ہوا یہ ہے کہ یہ اوپر ایک مذہب پرست کے دیے گئے لنک کو دیکھنے پہ مجھ پر صرف چھ منٹ کی ویڈیو میں ایسے ایسے انکشافات ہوئے ہیں کہ میری موجودہ حالت بیان سے باہر ہے۔
ReplyDeleteمثلا یہی کہ شائد آپ جانتی نہ ہوں کہ مسئلہ فیثا غورث کسی قدیم یونانی نے نہیں بلکہ تیرہویں صدی کے ایک مسلمان نصیر الدین طوسی نے ثابت کیا۔ زمین کے گول ہونے کے ثبوت بھی چند سوسال پہلے کچھ عرب ماہرین نے دیے۔ اور یہ جو نظریہ اضافیت ہے۔ جس کے متعلق مغربی میڈیا پروپیگینڈا کرتا ہے کہ آئن سٹائن کی دریافت تھی۔ تو جناب یہ کارنامہ بھی الکندی صاحب کے سر ہے۔ ویسے تو تاریخ کے مطابق موصوف علم نجوم پر یقین رکھتے تھے اور اس بات کے قائل تھے کہ زمین کائنات کا مرکز ہے۔ اور معدودے چند سیاروں ، ستاروں بشمول سورج کو اپنے ارد گرد گھماتی ہے۔ لیکن ویڈیو دیکھ کر انکشاف ہوا ہے کہ موصوف نے فارغ اوقات میں نظریہ اضافیت پر بھی ہاتھ پاؤں مار رکھے تھے۔ وہ تو گورے سائنسدانوں نے کاری گری دکھا کر سارا کریڈٹ یہودی سائنسدان آئن سٹائن کے سر مونڈھ دیا۔ ورنہ سائنس اپنی لونڈی تھی۔
یہ ویڈیو اور تبصرے پڑھ کر میرا میٹر مکمل طور پر گھوم چکا ہے۔ مجھے تو یقین ہوچلا ہے کہ یہ پہیہ بھی غالبا دارلعلوم دیوبند کی ایجاد تھی۔نظریہ سٹرنگ تھیوری غالبا کشف المعجوب سے ثابت ہے۔ سٹیم سیل شائد مولانا تھانوی صاحب اپنی بہشتی زیور میں فرما گئے ہونگے۔ اور یہ ڈیزل وغیرہ کا کیا چکر ہے۔ میرا مطلب ہے کسی مولانا کا ادھر بھی کچھ رپھڑ ہے ؟
فی الحال مجھے آپ سے یہ پوچھنا ہےکہ اپنا ذہنی توازن درست رکھنے کے لئے کونسی پھکی استعمال کروں؟ آپ کے بلاگ کے تبصروں نے میری یہ حالت بنائی ہے۔ اب آپ ہی یہ ذمہ داری قبول کیجئے۔
ایک کام اور کریں۔ مذہب پرستوں کے تبصروں کے لئے بھی ایک ٹیگ لائن لگا دیں۔ کہ نیچے لگے مذہب پرست تبصرے مضر علم ہیں۔ صحیح الدماغ لوگ نظر ڈالنے سے پرہیز کریں۔
یہ بات بزات خود ایک لطیفہ ہے کہ پاکستان پر پچھلے ساٹھ برسوں سے انتہاپسندوں کا گہرا اثر ہے۔ پاکستان کے سارے حکمران اور انکے سارے چمچے روشن خیال اور مغرب پرست رہیں ہیں، ایوب خان، بھٹو، ضیاء الحق اور نواز شریف اور محترمہ سب روشن خیال مغرب پرست تھے اور ہیں بہرحال سب نے اپنے مقاصد کے لئے اسلام کو استعمال کو بھی استعمال کیا جیسا کہ روشن خیالوں کا وطیرہ رہا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان اپنی کتاب (جو انہوں نے دوران اسیری مشہور روشن خیال صحافی روف کلاسرا صاحب سے لکھوائی تھی) میں لکھتے ہیں کے میاں صاحب اپنے دور حکومت میں آرٹیکل 259 سی ختم کرانا چاہتے تھے لیکن اسکی راہ میں سب سی بڑی رکاوٹ محترمہ تھیں تو کیا آپ یہ کہیں گی محترمہ بھی بنیاد پرست تھیں؟ اوف کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا.
ReplyDeleteاصل میں پاکستان جس مقصد کے لئے حاصل کیا گیا تھا، یا جو نعرہ لگایا گیا تھا
وہ کبھی پورا ہی نہیں ہوا اور اسی لئے بھارت اور پاکستان کے مسلمانوں کی حالت کم و بیش ایک جیسی ہی ہے.
علامہ اقبال کہتے ہیں
نگاہِ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز،
یہی ہے رختہ سفر میر کارواں کے لئے
کیا ہمارا کوئی بھی حکمران ان اصولوں پر اترتا تھا۔
اقبال تو یہ بھی کہتے ہیں کہ
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو حاضر و موجود سے بیزاز کرے
لیکن اس ملک میں جتنے بھی امام ہوئے وہ بیزار کیا کرتے خود بھی اسی مغرب پرستی پر چلے جس کی مذمت اقبال کی شاعری کا خاصہ ہے.
جس مغرب کے نام نہاد وجدان کی آپ ترانے گارہی ہیں اقبال نے لینین کی زبان سے اس مغرب کے بارے میں کچھ کہلوایا تھا کہ
مشرق کے خداوند سفیدانِ فرنگی
مغرب کے خداوند درخشندہ فلزات
یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے ظلمت
رعنائی تعمیر میں، رونق میں، صفا میں
گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کے عمارات
خیر اقبال کو کبھی یورکا نہیں ہوا، وہ تو اسکول کے بچوں والی باتیں کرتے تھے. انہیں تو کچھ بھی نہیں آتا جاتا تھا، آتا جاتا تو صرف ایک ہی شخص کو ہے جو اردو بلاگستان کا جگمگاتا ستارہ ہیں بلکہ آسمانوں پر اٹرتا تخیل کا جہاز ہیں، پرندہ اس لئے نہیں کہا کہ وہ ننا منا ہوتا میری طرح. اور اس خاتون پر یہ وجدان ہوا کہ عافیہ صدیقی ایک جسم فروش سے بدتر ہیں اور پھر اس نے کہا یورکا میں نے پالیا
ویسے آپ عالم فاضل ہیں لیکن گستاخی معاف
ReplyDeleteترقی پسند اور رواشن خیال کی اسطلاح میں بہت فرق ہے۔
کمیونسٹ اور کارل مارکس کے فلسفہ کے حامی خود کو ترقی پسند کہتے ہرے ہیں جبکہ وہ روشن مغرب پرست ٹولہ ہوا کرتا ہے جو سرمایہ درانہ نظام کے تمام لوازمات اختیار کرتے ہوئے بھی خود کو مسلمان کہلواتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ میں نے آپ کو دہریہ سفت کہا، دہریہ نہیں کیونکہ دلوں کے حال اللہ بہتر جانتا ہے اور ہم صرف ظاہر میں نظر آنی والی چیزوں پر ہی بات کرسکتے ہیں اور دوسری بات کہ میں کب خود کو سچا پکا مومن کہا، میں تو محترمہ سر تا پیر گناہوں میں لپٹا ہوا ہوں لیکن ہاں خود کو انہتا پسند اور بنیاد پرست مسلمان سمجھتا ہوں اور مجایدین و طالبان کی وکالت کو اپنا دینی فریضہ سمجھتا ہوں۔،
بہت اچھے بہت ہی اچھے ۔ مجھے بار بار سوچنا پڑ رہا ہے کہ کيا اس خاتون نے واقعی ڈاکٹريٹ کيا ہوا ہے ؟
ReplyDeleteميرے پہلے تين تبصروں ميں جو نقطے اُٹھائے گئے ابھی تک کسی کا بھی ڈھنگ سے مددل جواب نہيں ديا گيا
جو آپ کی ياوا گوئی سے متفق نہيں ہوتا اُس سے آپ ٹھوس حوالے مانگتيں ہيں مگر اپنے کردار پر نظر ڈالنے کی آپ فرصت نہيں ۔ آپ کسی بھی مبصر کو براہِ راست جواب نہيں ديتيں اور آپ کا جواب ارد گرد فضا ميں ناچتا رہتا ہے
ايک عبدالقدير خان کو لے کر بيٹھ گئی ہيں باقی جن فيلڈز کا ميں نے ذکر کيا وہ آپ مکمل نظر انداز کر رہی ہين
آپ نے دعوٰی کيا تھا کہ آپ ملک کے تحقيقی اداروں کے کام کو جانتی ہيں کيونکہ آپ اُن ميں کام کيا تھا مگر کسی نام نہيں بتايا تھا ۔ ميں نے آپ سے نام پوچھے تھے جو آپ حسبِ عادت گول کر گئی ہيں
ميں نے آپ کے قاعد کے بارے ميں پوچھا تھا کہ اس نے آج تک پاکستان کيلئے کيا کيا ہے ؟ مگر جواب نہ دارد
آپ سے مبصرين نے پوچھا ہے کہ کسی ايک روشن خيال پاکستانی کا نام بتا ديں جس نے پاکستان ميں سوائے اپنے بزنس کے کوئی کام قوم يا ملک کيلئے کيا ہو ؟ آپ اتنا بھی نہيں کر پائيں
آخر اپ کس بات پر بھری پھرتی ہيں ؟
آپ نے کيمياء ميں ڈاکٹريٹ کيا ہوا ہے ۔ کہيں تو آپ سے کچھ کيمياء کے سوال پوچھ لوں ؟
افتخار اجمل صاحب، بزرگوار، میں آپ کے کسی ایسے سوال کا جواب دینے کی پابند نہیں جسے میں ذاتیات میں شامل سمجھتی ہوں۔ کل آپ مجھ سے میری رہائش کا پتہ اور میرے نکاح کی تاریخ پوچھنے لگیں اور میں جواب نہ دوں تو فرمائیں کہ مجھے آپکی ڈگری پہ شبہ ہے۔ اگر آپکو شبہ ہے تو ہوا کرے۔ میری ڈگری کی شہرت بھی آپکی مرہون منت ہے اور بدنامی بھی آپکی کوششوں کی محتاج ہوگی۔ دل باندھ کر رکھیں، میں کوئ پارلیمنٹ کے الیشن میں نہیں کھڑی ہو رہی کہ آپ سارے پارلیمینٹیریئنز بشمول آپکے صدر سب کو چھوڑ کر میری ڈگری پہ تاءو کھاتے رہتے ہیں۔
ReplyDeleteمیرے قائد ، میرے قائد تو آپ ہیں۔ ۔ آپ نے کیا کیا ہے پاکستان کے بارے میں۔ نوجوان نسل کو انتہا پسندی کا سبق پڑھاتے ہیں، اپنی ذات پہ غرور فرماتے ہیں، غلط علم کی ترویج کرتے ہیں۔ میں تو آپ سے یہ سب کچھ بہترین طریقے سسے سیکھ چکی ہوں۔ اب آپکو کس بات پہ اعتراض ہے۔ نہیں نہیں، آپکا اشارہ شاید الطاف حسین کی طرف ہے۔ محترم، ہمیشہ کی طرح آپ اس موضوع میں بھی ان صاحب کو کسی طرح فٹ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ کیونکہ یہ موضوع چھڑنے کے بعد آپکی معلومات کا خزانہ کھلتا ہے۔ مجھے تو اس سے کوئ دلچسپی نہیں۔
البتہ مجھے اس سے ضرور دلچسپی ہے کہ، عمر عزیز کا اتنا طویل سفر طے کرنے کے بعد بھی آپکو یہ اندازہ نہیں کہ اگر آپ دوسروں کے تیار کئے ہوئے تعمیراتی عمارت پہ اپنی عمارت کھڑی کرتے ہیں تو اس عمارت کے بارے میں آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کلیتاً آپکی بنائ ہوئ ہے۔ آپ یہ سمجھنے سے کیوں انکاری ہیں کہاگر آپ نے دوسروں سے سیمنٹ بنانے کی ٹیکنیک سیکھ کر اپنے یہاں سیمنٹ بنانے کا کارخآنہ کھول بھی لیا ہے اور اپنے طور سے بنانا بھی شروع کر دیا ہے تو بھی اس ٹیکنیک کے مءوجد آپ نہیں ٹہرتے۔
مگر اس سادہ سی چیز کو سمجھنے میں دو چیزیں مانع ہیں۔ ایک تو میری ڈگری سے نفرت، کیونکہ یہ آپکے پاس نہیں ہے اور دوسری ایم کیو ایم سے نفرت، کیونکہ میرا تعلق کراچی سے ہے۔ اور ہاں تیسری ایک چیز اور ہے اور وہ یہ کہ میں آپکی ہر بات پہ سبحان اللہ نہیں کہتی۔
کاشف نصیر صاحب، بات وہی ہے ، انتہا پسندوں کی وجہ سے پاکستان میں ہونے والی ترقی کے راز کھول جائیں۔ یہی سوال افتخار اجمل صاحب سے بھی ہے۔ پچھلے باسٹھ تریسٹھ سال میں انہوں نے پاکستان کی ترقی کے لئے کیا کیا۔ آج کے پاکستان میں انتہا پسند پاکستان کو کن بلندیوں پہ لے جا رہے ہیں یہ بھی بتاتے جائیے گا۔
یہ بتایا جائے کہ جب آپ خدائ احکامات کے بجائے انتہا پسندوں کی ہر بات پہ لبیک کہنے کو تیار ہیں تو آپکو کیوں نہ دہریہ صفت کہا جائے۔ یہ بھی تو خدا کے وجود سے انکار کرنے کے برابر ہے۔
عثمان،
:) :) :)
مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ کاش اے کاش ، میں اس افیون کا توڑ جانتی ہوتی جسے کھا کر یہ سب وہ سب لکھتے ہیں۔
:(
یہ جو کندی پہ اچانک ان لوگوں کی مہربانی ہوئ ہے یہ بھی سمجھ میں نہیں آئ۔ اپنی ایک پوسٹ میں جب میں نے کندی کو عالم اسلام کا پہلا فلسفی بتایا تھآ کہیں سے پڑھ کر تو افتخآر اجمل صاحب کو اس بات پہ اتنا غصہ آیا تھآ کہ کندی تو کوئ چیز نہیں اور اسکے بعد انہوں نے موسی الخوارزمی کو پیش کیا کہ میں نے کس طرح کندی جیسے غیر معروف شخص کو اس پہ ترجیح دی۔
آج وہ مجھے ایک بار پھر نشانے کی زد پہ رکھے ہوئے ہیں۔ اور انکے ہمنوا کندی کو نظریہ ء اضافت جیسے نظرئیے کا بانی تک بتا رہے ہیں۔ اب میں ہنسوں کہ روءوں یا آپکی طرح سن دماغ سے یہ سب پڑھوں۔
:( :)
سارا قصور اس سائنسدان کا ہے جس نے خود تو ملاوٹ کا سبب جان لیا ۔ لیکن آپ سب کو مشکل میں ڈال دیا ۔ اب 1800سال پہلے کا واقعہ۔۔۔۔ بحث اب چل نکلی ۔ لیکن انجام کو ابھی تک نہیں پہنچی ۔۔۔نا وہ ڈئب میں بیٹھتا ۔ نا اس کو پانی کے گرنے کا احساس ہوتا ۔ اور نا وہ ننگہ باہر بھاگتا ۔۔چلو دیکھتے جاو ۔۔ہوتا کیا ہے ۔ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے
ReplyDeleteآپکو یہ اندازہ نہیں کہ اگر آپ دوسروں کے تیار کئے ہوئے تعمیراتی عمارت پہ اپنی عمارت کھڑی کرتے ہیں تو اس عمارت کے بارے میں آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کلیتاً آپکی بنائ ہوئ ہے۔ آپ یہ سمجھنے سے کیوں انکاری ہیں کہاگر آپ نے دوسروں سے سیمنٹ بنانے کی ٹیکنیک سیکھ کر اپنے یہاں سیمنٹ بنانے کا کارخآنہ کھول بھی لیا ہے اور اپنے طور سے بنانا بھی شروع کر دیا ہے تو بھی اس ٹیکنیک کے مءوجد آپ نہیں ٹہرتے۔
ReplyDelete_______________________________________________
بالکل صحیح اور مناسب بات ہے ....اسی لئے موٹر کار کے موجد کے لئے لازم ہے کہ وہ پہیہ ایجاد کرنے والے کی تکریم کرے. اور آپ بھی یہ نہ کہیں کہ پہیہ بنا کر کیا تیر مار لیا.
محترمہ اگر ہم میں رجائیت پسندی کے جراثیم پائے جاتے ہیں تو تنکیر و تکذیب کے مرض آپ بھی محفوظ نہیں.
تانیہ رحمان،
ReplyDelete:) :) :)
ساری خرابی اسکے ننگا ہو کر بھاگنے میں ہے اگر وہ بھاگتے وقت ایک لنگوٹی ہی لے لیتا تو آج صرف اس بات پہ بحث ہوتی کہ ایک مسلمان سائینسداں نے ملاوٹ معلوم کرنے کا طریقہ سب سے پہلے معلوم کیا یا اس لنگوٹئیے نے۔
:) :)
عنقیہ میں صرف یہی کہوں گی کہ اسلام کو پتا نہیں ہم نے اتنا کمزور کیوں سمجھ رکھا ہے ۔ اسلام میں تو بہت وسعت ہےاب جہاں تک اس سائنسدان کا تعلق تھا ۔ اس کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ کس حالت مٰن ہے ۔ اور ناہی اس کے ذہن میں یہ تھا ۔۔۔ اس کی ساری توجہ اپنے کام پر تھی ۔ اب وہ ننگہ تھا یا لنگوٹ پہنا تھا ۔۔۔ ہم نے کون سا اس کو ٹی وی پر دیکھا ہے
ReplyDelete@ Mam Aneeqa You didn't replied a single point raised by me and Soo my prediction again
ReplyDelete[I know being a liberal-extremist u will never reply to these points..]
So I knew ur attitude. Plus I dont use language that you use (especially when it comes to punjabis)So dont think everyone like u...
A man with common sense can understand that I said foundation of western science was made by Muslims. They used our books and attended our universities. When u give credit of Dr. Khan's bomb to Einstein (just because he attended their institutes) then Why cant u give the credit of modern technology to Muslims because the foundation of all of this was given by us..
Sorry for late reply ( I am a student, so.....)
@Usman......u are also a liberal fundo so I don't expect any sanity from u....so keep it up.
ReplyDeleteThe disease u r suffering from has the medicine but you don't want that. People like u cry for medicine but when we bring in front of them then they say: I don't like it, is bitter in taste.
They don't even care abt it's efficacy and therapeutic value...
محترمہ تانیہ رحمان صاحبہ،
ReplyDeleteآپ نے تو ماشا الله ٢-٣ حج اور عمرے کیے ہیں.آپ تو ایسی باتیں نا کریں.
@Aneeqa
ReplyDeleteI wonder how insane lady you are???? You said that u jealous of my PhD coz u dont have it...lolz
I am doing MBBS ant is has 1000 time more respect in Pakistani society. Many others reading ur blog will be FCPS or even MCPS, what they will think abt u????
If I show you the reality of merit that is required to get ur PhD is Chemistry then u will be embarrassed...
بی بی!
ReplyDeleteبات شروع کرنے سے پہلے ایک بات کی وضاحت کردوں مجھے آپ کی ذات سے کبھی ضد نہیں رہی۔ مگر آپ کی بات سے اکثر و بیشتر اختلاف رہا ہے۔ جو میری رائے میں میرا حق ہے۔لہٰذا میری کیس بات کو قطع طور پہ ذاتی مت لی جئیے گا ۔نوازش ہوگی۔
بی بی! میں نے اکثر محسوس کیا ہے کہ آپ لکھتے ہوئے تیاری تو دور کی بجائے اپنے موضوع اور دوسروں کو جوابات سے مرحمت فرمانے کے لئیے درست الفاظ وغیرہ کے انتخاب سے قاصر ہیں۔ ایک عام سی بات کو آپ اسقدر الجھا دیتی ہیں کہ بحث کا مز ہ کر کرہ ہوجاتا ہے۔ جب جزبات کی تلخی اور روانی میں کی گئی کسی بات کا جواب آپ سے نہ بن پڑے تو آپ ذاتیات اور مخاطب کے عام عقیدے (قاری کا عقیدہ جو عام طور پہ زیر بحث نہیں ہوتا)پہ حملہ کرنے سمیت ہر وہ حربہ استعمال کرتی ہیں۔ جس آپ کی دانست میں فریق مخالف ڈی گرٰیڈ کر دیا جاتا ہے اور آپ سمجھتی ہیں کہ وہ لاجواب ہوگیا ہے۔
ایسے میں آپ اپنے ایک آدھ کاسہ لیسوں پہ انحصار کرتی ہیں جو بوجوہ آپ کی ہر جائز اور ناجائز بات پہ آپ میں ہوا بھرنے سے باز نہیں آتے۔ اور آپ سمجھتی ہیں کہ وہ کسی اصولی موقف پہ آپ کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ آپ شعوری یا لاشعوری طور پہ ان کی تائید کوتائیدغیبی سمجھتی ہیں جس سے آپ کے فرمودات مزید مضحکہ خیز صورتحال کی عکاسی کرتےہیں۔
یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ سوال گندم جواب چنے کی صورت، آپ ہمیشہ جواب طلب امور کو ایک نئی اور لایعنی بحث چھیڑ کر بات ٹالنے کی کوشش کرتی ہیں۔اسے فی زمانہ ایک خاص حربی و عسکری تکنیک کے طور پہ بھی استعمال کیا جاتا ہے کہ دھوئیں کے کے بم چلا کر اس قدر کثیف دھوئیں کا پردہ قائم کر دیا جاتا ہے تانکہ حریف آپکی کمزوری اور خامیوں کو دھوئیں کی دبیز تہہ کے پیچھے جھانک کر نہ دیکھ سکے۔
دو مثالیں اسی پوسٹ پہ موجود ہیں۔ اس پوسٹ میں افتخار اجمل صاحب نے دوتین باتیں نہائت واضح طور پہ پوچھیں ہیں جس کا جواب آپ نے حسب معمول اپنے گھر کے پتے وغیرہ سے منسوب کرتے ہوئے ٹال دیا ہے۔جس سے آپکے اس موقف کی حمایت نہیں ہوتی کہ آپ نےپاکستان کے کسی تحقیقی ادارے میں کام کیا ہے۔
دوسری مثال ۔غلام مرتضٰی علی ابو احمد کے باوجود جائز استفسار کے (استفسار جس کا جواز آپ نے ایک غلط بیانی کر کے مہیا کہ قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ کو سید ابو اعلٰی مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے کافر اعظم کہا تھا( بی بی! آپ کی اس حرکت سے بہت سے لوگوں کو حیرت ہوئی تھی کیونکہ سید ابو اعلٰی مودودی رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں نہ صرف میں بلکہ بہت سے لوگ گواہی دیں گے کہ اور بہت سی خوبیوں کے علاوہ سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ میں ایک یہ وصف بھی نہائت نمایاں تھا کہ انھوں نے دوسروں کی ذات پہ کیچڑ اچھالنے سے ہمیشہ گریز کیا۔ اور ایسی نابغہ روزگار شخصیت پہ اسطر ح کا بے بنیاد الزام کم ازکم میرے لئیے حیرت و اچنھپے کا باعث تھا۔ اسلئیے شروع سے آخر تک یہ مباحثہ میرے لئیے بڑی اہمیت کا حامل تھا کہ آپ کونسا حوالہ اپنے الزام کی صحت کے لئیے پیش کرتی ہیں۔ مگر آفرین ہے آپ پہ کہ آپ نے ادھر ادھر کی تاویلات اور ان دیکھے لوگوں کا ذکر کر کے انکی گواہی کو اسلامی نکتہ نظر سے غلام مرتضیٰ ابو احمد اور دیگر پڑھنے والوں پہ تھوپنے کی لا حاصل کوشش کی ہے۔ بی بی ! بحث میں نہیں پڑنا چاہتا اسلام میں الزام ،گواہوں کا تعین اور الزام کی صداقت پرکھنے کے بارے میں بھی آپ جانتی ہونگی؟
نتیجتا اول تو ایک صاحب علم ہونے کا دعواٰی کرنے والے کو فضول بات سے گریز کرنا چاہئیے اور بغیر کسی پیشگی وجہ سے کسی مشہور شخصیت پہ سنے سنائے الزامات سے گریز کرنا چاہئیے اور اس صورت میں تو قطعی طور پہ ایسا الزام جوش بیانی میں نہیں رکھنا چاہئیے جس کا کوئی مصدقہ حوالہ نہ ہو۔
دوئمَ اگر کسی غلط فہمی کی بناء پر یوں ہوجائے تو اہل علم کا شیوہ ہے کہ وہ فورا پہلی فرصت میں اپنے الفاظ واپس لے لیتے ہیں۔ نہ کہ اس پہ لایعنی تاویلات سے کہ جو وہ فلاں نے کہا۔ فلاں جگہ پڑھا تھا ۔۔۔ نہیں بلکہ کوئی بات کر رہا تھا۔ وغیرہ۔ اس طرح کرنے سے آپ خود اپنی بات کا وزن اور اپنے فرموادت کا اعتبار ختم کر دیتی ہیں۔
ایک بات ی وضاحت کرو دوں کہ میں کبھی بھی جماعت اسلامی کا رکن یا رفیق نہیں رہا اور نہ ہی ہوں۔ مگر سید ابو اعلٰی مودودی رحمتہ اللہ علیہ کو ایک اہم سیاسی رہنماء اور قد آور مفکر جان کر پڑھا ضرور ہے۔ اسلئیے میں جاننا چاہتا تھا کہ آپ کے پاس اپنے الزام کی صداقت کے لئیے کونسا حوالہ ہے؟ جس سے یہ الزام ثابت کرنے میں آپ ناکام رہی ہیں۔ یہ وضاحت بھی اسلئیے کردی ہے کہ مبادا میری کسی کے ساتھ عقیدت کی وجہ سے آپکے چہیتے شاگرد کو رحمۃ اللہ علیہ ہوئے لوگوں کو سوقیانہ طرز تخاطب سے کوسنے کی زحمت نہ کرنی پڑ جائے۔
مزید حیرانی آپ کے اس تغافل پہ ہوئی ہے کہ آپ پاکستان میں معروف معانی میں استعمال ہونے والی اصطلاح "ترقی پسند" کو تحریک پاکستان کے رہنماؤں پہ لاگؤ کرنے کے بعد اب اس موقف پہ پیچھے ہٹتی نظر آتی ہیں ۔ حالانکہ اس دفعہ بھی آپ نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے اپنے الفاظ واپس لینے کی بجائے "ترقی پسند" کی اصطلاح کے معروف معانی کو اپنی تاویلات کے تحت ایک نیا مضحکہ خیز رنگ دینے کی کوشش کی ہے ۔ جس پہ بہت سے لوگوں کو "ہاسہ" آیا ہے۔
ReplyDeleteبی بی! اور آپ کے ھٹیل اور ہٹ دھرم بے بنیاد تخیلات پہ آپ کی چاپلوسی نہ کرنے والے آپ کو گڈو میاں نظر آتے ہیں۔ مگر مندرجہ بالا تمام مباحثے کو مدنظر رکھتے ہوئی کسی نے مٖفت کے بلاگ پہ "مُنی بی بی! لگی رھئیے" نام کی ھجو لکھ ڈالی تو پھر آپ کو شکائت نہیں ہونی چاہئیے۔ :)
یہ واضح رہے کہ واللہ یہ طنز نہیں بلکہ نہائت صدق دل سے نصیحتا لکھا ہے۔کہ غلطی تسلیم کر لینے سے عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔ کمی نہیں ہوتی
جمشید زبیری، چاید آپکو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ عثمان پنجابی ہیں۔ ابھی تک تو ہم چونوں کے بیچ یہ نوبت نہیں آئ کہ انہیں یہ کہنا پڑے کہ آپ پنجابیوں سے نفرت کرتی ہیں۔ البتہ آپکے اس بیان سے پتہ چلا کہ آپ پنجابی ہیں۔ اور آپکہ اس اپروچ پہ سر ہی دھنونگی۔ واللہ میں میں رومن اردو سے کبھ یہ اندازہ لگانے میں کامیاب نہیں ہوئ کہ کوئ پنجابی ہے یا پشتون۔ در حقیقت مجھے رومن اردو پڑھنے میں بے حد دشواری ہوتی ہے اور اگر شروع کی دو تین لائینیں میں کامیابی سے نہ پڑھ پاءوں تو چھوڑ دیتی ہوں۔
ReplyDeleteایم بی بی ایس، یعنی بیچلرز اان میڈیکل سائینس۔ یعنی گریجوایشن۔ گیجوایشن کر رہے ہیں آپ۔ تو کجیئیے۔ کسی پیا یچ ڈی کیمسٹری کی پول کھولیں گے تو کھولیں۔ کوئ آپکا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ جو دل میں حسرت ہے اسے نکال دیجیئیے، کیونکہ کل ہو یا نہ ہو۔
کاوید صاحب، آپکے اتنے لمبے ایک جیسے تبصرے پڑھنے کو اس وقت موڈ نہیں۔
میں نے کہہ تو دیا کہ آپ بڑی مشکل سے کچھ سمجھتے ہیں اور اپنے طور پہ کچھ سمجھ کر اس پہ ہنستے رہتے ہیں۔ جیسے یوریکا والے واقعے سے آپ نے یہ سمجھا کہ دراصل ننگے ہو کر پھرنے کی بات ہو رہی ہے۔ اب خدا جانے کس چیز کو ترقی پسندی سے پیچھے ہٹنے کا نام دے کر آپکو ہنسی آرہی ہے۔ گڈو میاں کا بہترین جواب آپ کو منی بی بی ملا۔ آپ تو بلاگستان کی دو مشہور و معروف ہستیوں کی بد تیمیزیوں کے مقابلے پہ اتر آئے ہیں ۔ اسکا کیا جواب ہے۔ کچھ بھی سمجھ کر ہنستے رہیں۔ اسلے بعد آپکی خواہش ہے کہ تلوار نہ نکالی جائے۔ تلوار کسی کے ہنسنے پہ نہیں کوڑھ مغزی کے روشن مظایروں پہ نکالنے کا دل چاہتا ہے۔
ایک وہ صاحب آگئے، میں ایم بی بی ایس کر رہا ہوں میں آپکے مقابلے میں زیادہ عزت والا ہوں، ابھی پی ایچ ڈیز کی پول کھول دونگا۔ بندی پوچھے کیا ابھی ایم بی بی ایس پڑھنے کے دوران بھنگ مفت ملتی ہے۔ میں امریکہ کی منتظم اعلی نہیں اور آپ وکی لیکس کے بانی نہیں۔ ایسے تاءو مجھے کیوں دکھا رہے ہیں۔
پرائمری اسکول کے بچوں کی طرح، ہمیں گڈو میاں کہا ہے تو ہم آپکو منی بی بی کہیں گے۔ اس پہ اعتراض ہوگا کہ یہ کہہ دیتی ہیں کہ بڑے ہو جاءو۔ نہیں بڑے ہو، بڑا ہونا ایک ارتقائ عمل ہے کوئ اچانک بڑا نہیں ہو جاتا۔ میری یہ بات بالکل غلط ہے یہ میں تسلیم کرتی ہوں۔
ایک اندھوں میں کانا راجہ ہوتا ہے مزے سے رہتا ہے۔ ایک بچوں میں کوئ بڑا ہوتا ہے ، جیسے مونٹیسوری کا ٹیچر۔ وہ اگر انکی سطح پہ رہے تو بھی مشکل ہی میں رہتا ہے۔
ویسے یہ بات غلط ہے عنیقہ آپا پنجابیوں کو رگڑتی ہیں مثال میرے اور وقار اعظم کی صورت میں موجود ہیں۔ ہم دونوں جدی پشتی مہاجر ہیں لیکن محترمہ اپنے عالمانہ و مفکرانہ انداز میں ہماری جہالت اور کم علمی کی خوب خبر لیتی ہیں۔ البتہ جو چیز مجھے پریشان کرتی ہے وہ یہ ہے کہ میری ہمشیرہ جو ایم فل ہے اور جامعہ کراچی کے شعبہ نباتیات میں لکچرار ہے کہ پاس اتنا وقت بھی نہیں ہوتا ہے کہ وہ اپنے سائنسی بلاگ کو اپڈیٹ کرسکے لیکن یہ کیمیا میں پی ایچ ڈی کرنے والوں کے پاس اتنا وقت کہاں سے آجاتا ہے کہ دے دھڑا تھوک کے حساب سے پوسٹیں اور طویل ترین تبصروں کے دے دھڑا دھک جواب۔ واہ رے واہ کیا خدمت ہورہی ہے اس ملک کی بلاگنگ کی زریعے!
ReplyDeleteڈاکٹر صاحب آپ کو پتا ہے ھج کی وجہ سے میں نیٹ پر بھی نقاب میں اتی ہوں کہ کوئی ایسا لفظ نا پڑھ لوں ، جس سے میری عبادت پر اثر پڑے ۔ خدا کے لیے مجھے یہ مت کہیں کہ میں نے حج اور عمرے کیے ہیں ۔ وہ میرا اور خدا کے درمیاں ہے ۔۔۔ باقی میرا اپنا خیال ہے کہ جب انسان ذیادہ عبات کرتا ہے ۔اسکے خیالات مین زیادہ وسعت آ جاتی ہے ۔
ReplyDeleteکاشف نصیر صاحب، آپکی ہمشیرہ، آپ سے بھی سبق نہیں سیکھتیں۔ کہ میرا بھائ اتنا وقت نکال کر نیٹ پہ جہاد لڑ رہا ہے اور میں صرف جامعہ میں پڑھا رہی ہوں۔ بر سبیل تذکرہ، وہ اسکے علاوہ کیا کرتی ہیں۔ میں نے بھی جامعہ کے در وبام اچھی طرح چھانے ہیں۔ معلوم ہے وہاں ڈپارٹمنٹ سے ایم فل پی ایچ ڈی کس طرح ہوتا ہے اور لیکچرارز کی عظیم مصروفیات کیا ہوتی ہیں۔
ReplyDeleteخدارا، یہ کیمسٹری کی فکر میں گھلنا چھوڑ دیں۔ آپکے ملک میں کیمسٹری کا تیسری دنیا کا سینٹر آف ایکسیلینس موجود ہے وہ کافی ہیں اسکی فکر کو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آپکو پتہ ہے کہ آپکے ملک میں ایسا کچھ ہے۔ یا ملا کی دوڑ مسجد تک۔
میرے بھیا، آپ اب اپنے بلاگ پہ لکھیں۔ وہاں بہت دنوں سے آپ نے حاضری نہیں دی۔ بہت سارے لوگ وہاں تبصرہ کرنے کو بے قرار ہونگے۔
تانیہ رحمان،
اگر میں آپکی بات کو اس طرح کہہ دوں کہ جب انسان خدا کو زیادہ قریب محسوس کرتا ہے تو اس میں زیادہ وسعت آجاتی ہے تو غلط تو نہیں ہوگا۔
:)
@mam Aneeqa
ReplyDeleteSorry for spelling mistakes!
You said above yourself that people are jealous of your PhD. I just wanted to mention that PhD is not a big deal that people will be jealous of you...Although MBBS is a Bachelor degree but when I said that I feel proud of it???? I just mentioned the attitude of Public in Pakistan.
The reason I mentioned your language towards Punjabis was one of your comments on sister Taniya's Blog in which used indecent language for Punjabi women..
محترمہ !
ReplyDeleteآپ نے میرے قطعی غیر ذاتی اور علم و تاریخ سے متعلق سوالات کا ابھی تک جواب دینا گوارا نہیں کیا۔ آپ کیسی روشن خیال اور لبرل ہیں کہ دلیل اور دستاویزی حوالے سے بات کرنے کی بجائے آئیں بائیں شائیں کرنے، دوسروں کو اُن کی کمتر علمی اوقات یاد دلانے اور کوسنے دینے کے سوا کچھ کر نہیں پاتیں۔ اس بلاگ کے قارئین آپ کے جواب کے منتظر ہیں۔
آپ نے مجھ سے ترقی پسند کا مطلب پوچھا۔ میری نظر میں اس کا وہی مطلب ہے جو رشید جہاں ، محمودالظفر، منٹو اور فیض احمد فیض جیسے انجمن ترقی پسند مصنفین سے منسلک لوگوں کا تھا۔ اس لفظ کا یہی مطلب ہمارے اس خطہ برصغیر میں رائج ہے۔ مزید تفصیل اپنے مرغوب وکیپیڈیا پر دیکھ سکتی ہیں۔ یہ لوگ برصغیر کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو رجعت پسند سمجھتے تھے اور سماج میں سوشلسٹ تبدیلی لانے کے خواہشمند تھے۔ ان میں سے بعض کی یہی خواہش ۱۹۵۱ کی ناکام پنڈی سازش کی صورت میں سامنے آئے جس کے ذریعے فیض احمد فیض اور میجر اسحاق محمد صاحبان وغیرہ نے جنرل اکبر کی قیادت میں آپکے بیان کے مطابق ’’تحریک پاکستان کےترقی پسند‘‘ قائد نوابزادہ لیاقت علی خان اور ان کے ساتھی ترقی پسند قائدین کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کی اور پکڑے گئے۔
خدا کا شکر کہ میں اس لفظ کا وہی مطلب لیتا ہوں جو ہے نہ کہ جو آپ نے بلاگستان کے حوالے سے میرے سر مڑھنے کی کوشش کی ہے۔ منٹو جیسوں سے قطع نظر ان میں سے کئی ترقی پسند ذاتی زندگیوں میں بڑے شریف، مہذب اور خوش خلق انسان تھے۔ شراب و کباب اور بداخلاقی کا انکی زندگیوں میں کوئی گزر نہ تھا۔ یہاں ذکر ذاتی زندگی کا نہیں نظریات کا ہے۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ میں قائد اعظم کے دستِ راست شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خان کی دل کی گہرائی سے عزت کرتا ہوں اور قیامِ و استحکامِ پاکستان کے لیے انکی خدمات اور قربانیوں کے حوالے سے انھیں اپنا اور پوری قوم کا محسن سمجھتا ہوں۔ لیکن اگر کوئی کہے کہ روشن خیالوں اور ترقی پسندوں کی محبوب تختۂ مشق ’’قراردادِ مقاصد‘‘ پیش اور منظور کروانے والا یہ سچا مسلمان مروجہ معنوں میں ترقی پسند تھا تو مجھے اسے ماننے میں بجا طور پر تردد ہے۔ یاد رہے کہ غیر مسلم ارکان اسمبلی کے علاوہ اس قرارداد کی مخالفت صرف ایک مسلمان رکن نے کی تھی اور خیر سے وہ لاہور کے ایک ترقی پسند اور پاکستان ٹائمز کے مالک میاں افتخار الدین تھے۔
اُمید ہے کہ اب مجھے آپ کی جانب سے قائدِ اعظم پر مودودوی تکفیری بہتان اور تحریکِ پاکستان کے قائدین کی ترقی پسندی کے مصدقہ تاریخی دستاویزی ثبوت مل جائیں گے۔
’’ابو احمد‘‘
جمشید زبیری صاحب، میرا خیال ہے کہ میری کل پوسٹس کی تعداد تین سو سے زیادہ ذرا انکو چھان پھٹک کر دیکھیں کہ کس جگہ پہ میری ڈگری کی داستان موجود ہے۔ یہ ہمارے 'بزرگ' افتخار اجمل صاحب کی خوبی ہے کہ جب بھی وہ مجھ سے گفتگو فرماتے ہیں اس میں میری ڈگری اور الطاف حسین کا تذکرہ لے آتے ہیں۔ میں ان سے یہ کہنے میں بالکل حق بجانب ہوں کہ وہ ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ڈگری انکے پاس نہیں ہے۔
ReplyDeleteآپکی ایم نی نی ایس ڈگری سے مجھے کیا فرق پڑتا ہے۔ البتہ جو آپ لکھتے اور بولتے ہیں اس میں میری دلچسپی ضرور ہے۔
غلام علی مرتضی صاحب، اگرچہ ہم اس وقت اس موضوع پہ بات نہیں کر رہے۔ لیکن مختصراً یہ کہنا ہے کہ جب بھی لفظ تقلید پسندی آتی ہے اسکے مقابل لفظ جو کھڑا ہوتا ہے وہ ترقی پسندی کا ہے۔ یہ تقلید پسندی مذہب اسلام سے متعلق ہوتی ہے اس لئے لازما اگر اسکے مقابل جو لفظ لایا جا رہا ہے ترقی پسندی کا وہ بھی مذہب اسلام میں اس نکتہ ء نظر سے ہے جو جمود کے خلاف ہے۔ اسکا قطعا کوئ تعلق کارل مارکس سے نہیں بنتا۔ یہ پروگریسو مومنٹ سیاسی اور ریاست کے انتظامی امور سے متعلق ہے۔
اس لئے جب ہم یہ کہتے ہیں کہ قائد اعظم یا لیاقت علی خان، تقلید پسندوں کے گروہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے اور نہ انتہا پسندوں کے گروہ سے تو اسکا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ کمینسٹ یا سوشلسٹ تھے۔
یہ ہمارے ننھے منّے بچوں کے ذہن کی اختراع ہے۔ جب وہ اس بات کے ماہر ہیں کہ یوریکا والے واقعے سے یہ نتیجہ اخذ کریں کہ ہمیں اس تہذیب کے حوالے دئیے جاتے ہیں جس میں ننگے لوگ پھرتے ہیں تو وہ باقی نتائیج بھی ایسے ہی بے دروپا قسم کے نکال سکتے ہیں۔
اور ہاں آپ میرے وائیوا ایگزامنر نہیں ہیں کہ میں آپکے سوال آئیں بائیں شائیں کر دوں۔ نہ میں کسی ملک کی سفیر ہوں اور نہ آپ امریکی وزیر خارجہ کہ میرا آپکے سامنے دم نکل جائے۔
آپ نے دستاویزی ثبوت کی بات کی ہے اسکے لئے یہی کافی ہے کہ مودودی صاحب کی اس وقت کتاب مسلمان اور موجودہ عہد کی کشمکش اپنی اصل شکل میں دستیاب نہیں۔ اسکی ابتداء میں لکھا ہوا ہے کہ اس میں ایڈیٹنگ کی گئ ہے۔ ایسی کیا ضرورت پڑ گئ کہ مولانا صاحب کی کتاب کی ایڈیٹنگ کرنی پڑ گئ۔
مولانا صاحب کے یہ تمام بیانات قیام پاکستان سے پہلے کے ہیں۔ لیکن انکے اسی پس منظر سے ملتے جلتے بیانات انکی بعد کی تقریروں میں نظر آتے ہیں۔ مولانا صاحب کا قیام پاکستان پہ اختلاف ہی اس بات کا تھآ کہ وہ یہ چاہتے تھے کہ پاکستان اس وعدے پہ لیا جائے کہ وہاں اسلامی شریعت نافذ ہوگی اور تحریک پاکستان کے رہنماءووں کو اس بات سے کوئ غرض نہ تھی۔
مولانا صاحب کے نزدیک تحریک پاکستان کے مسلمان مثالی مسلمان نہ تھے۔ جو انکی نظر سے دیکھا جائے تو صحیح تھا۔ اس بیان پہ آپ لوگ کیوں اعتراض کرتے ہیں۔ وہ جس نظرئیے پہ یقین رکھتے تھے اسکے مطابق وہ یہ تو نہیں کہہ سکتے تھے کہ قائد اعظم پکے سچے مومن ہیں۔ مسئلہ کس بات کا ہے؟ ابتدا تو وہ جہاد کشمیر کے بھی مخالف تھے اور چونکہ یہ واقعہ قیام پاکستان کا ہے تو یہ بیان تو آپ کسی بھی جگہ سے بآسانی حاصل کر سکتے ہیں۔ میرے پاس بھی ایک کتاب پڑی ہے مودودی صاحب کی کچھ تقاریر کا مجموعہ ہے وہاں انہوں نے اپنے اس موءقف کی صفائ بھی دی ہے۔
غلام علی مرتضی، میں اس موضع پہ مزید کچھ نہیں کہنا چاہتی۔ اس پہ پہلے بہت بحث ہو چکی ہے۔ اور یہ ساری بحث اس لئے ہوتی ہے قیام پاکستان کی مخالف جماعت اب صرف اپنے آپکو پاکستان کا خیر خواہ کیوں سمجھتی ہے اور اسکا پروپیگینڈہ کرتی ہے۔
@mam Aneeqa
ReplyDeletethanks for some positive comments...
@Mam Aneeqa
ReplyDeleteYou again mentioned the camel urine hadith and when someone asks you to do some research then you start laughing. This is bad.
Being a medical student and I do NOT see any problem in this Hadith because camel urine (as I remember) contains some antibodies but the problem is that this commandment was given 1400 yrs ago when NO filtration techniques were available. Prophet PBUH did NOT had any filtration techniques so he prescribed crude urine.
Actually this Hadith is the source of knowledge for Muslims that we can separate such active ingredients from camel urine and make new medicines. Keep in mind that urine is haram and haram things can only be used when you do NOT HAVE ANY OTHER OPTION.
Now a days we can easily separate these antibodies and other chemicals from urine so urine will not be allowed. Plus there may be many medications available that can cure such conditions. The most imp thing is that Hadith does NOT mention the name of disease so NO Muslim can prescribe urine but we can do research on it.
see this like also plz
http://www.answering-christianity.com/urine.htm
(plz don't reply me with "wine to horse" reference, ur historical knowledge is very deficient)
جمشید زبیری،
ReplyDeleteکیوں بھئ نور الدین زنگی والے واقعے میں ایسی کون سی تاریخی غلطیاں ہیں جو آپکو یہ کہنے کی ضرورت پیش آئ۔
جس جگہ آپ نے یہ پڑھا وہاں میں نے شاید یہ بھی لکھا ہے کہ پیشاب کا استعمال مختلف انسانی تہذیبوں کا حصہ رہا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ جب تک میڈیکل سائینس نے ترقینہیں کی تھی اس وقت تک مختلف تہذیبیں اپنے ماحول میں موجود پودوں اور جانوروں کو علاج کے لئے استعمال کرتی تھیں۔ آج بھی، جنوبی ایشیا میں انسانی پیشاب، مختلف جانوروں کا پیشاب اور انکا فضلہ علاج کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ پنجاب کے کچھ رلاقوں میں تو پولیو کے علاج کے لئے مریض کو گائے کے گوبر سے ڈھک دیتے ہیں۔ اور یہ وہاں اب بھی ہوتا ہے۔
http://www.jci.org/articles/view/105183/pdf
گائے یہاں کا ایک عام جانور ہے اور ہندءووں کے یہاں مقدس بھی اس لئے وہ اسکا پیشاب اور گوبر نہایت عقیدت سے استعمال کرتے ہیں۔
عرب میں اونٹ مقامی طور پہ بکثرت پایا جاتا ہے اس ءے عرب وہاں اونٹ کا پیشاب ایک لمبے عرصَ سے استعمال کرتے چلے آرہے ہونگے۔
اب آپکی میڈیکل کی تعلیم کا مجھے نہیں معلوم بحیثیت ایک کیمیاداں مجھے یہ معلوم ہے کہ اینٹی باڈیز انسانی جسم میں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب آپکے جسم میں کوئ بیرونی حملہ آور داخل ہوتا ہے۔ اگر یہ بیرونی حمل آور جسم میں داخل نہیں ہوگا تو یہ اینٹی باڈیز جسم میں نہیں پائیں جائیں گی۔
یہ جسم انسان کا بھی ہو سکتا ہے اور حیوان کا بھی۔ اسکی مثال ایسے ہے کہ اگر میرے جسم میں چیچک کے جراثیم داخل ہوں تو میرا جسم اپنے قدرتی دفاعی نظام کے تحت اسکے خلاف ایک فوج ایک خاص فارمولے سے تیار کرے گا۔ انہیں اینٹی باڈیز کہتے ہیں۔ یہ اینٹی باڈیز ہر مرض کے لئے علیحدہ ہوتی ہیں۔ اگر میرے جسم میں کبھی چیچک کے جراثیم داخل نہیں ہوئے تو اسکے اندر یہ اینٹی باڈیز نہیں ہونگے۔ اس لئے آپ بالکل یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ہر اونٹ میں وہ اینٹی باڈیز پائے جاتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اگر انہیں احتیاط سے پالا جائے تو ان میں ایسے اینٹی باڈیز سرے سے پیدا ہی نہ ہوں۔
دوسری طرف انسان سمیت کوئ جانور بھی گردے، مثانے اور پیشاب کی نالی کے انفیکشن کا شکار ہو سکتا ہے۔ اکثر اوقات یہ انفیکشن اس طرح ہوتا ہے کہ انسانوں کو بھی اندازہ نہیں ہو پاتا کہ انہیں پیشاب کی تکلیف ہے۔ اس طرح سے جانور کا پیشاب جراثیم سے آلودہ ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
اسکے علاوہ مندرجہ ذیل لنک پہ جا کر دیکھیءے گا اور ایک میڈیکل کے طالب علم ہونے کے ناطے آپ شاید گور نہ فرما سکیں مگر ایک کیمسٹ ہونے کے ناطے میں یہ ضرور سوچوں گی کہ کہ کیا ہر اونٹ کے پیشاب کا فارمولا یکساں رہ سکتا ہے۔
یہ لنک بھی دیکھئیے گا۔
http://www.wikiislam.net/wiki/Camel_Urine_and_Islam
یہ صورتے حال صرف اسی وقت قابل غور ٹہرے گی جب اونٹ کے پیشاب کو آپ جائز سمجھیں گے۔ کیا گائے اور انسانی پیشاب کے استعمال کو آپ انہی بنیادوں پہ جائز سمجھیں گے۔
@Mam Aneeqa
ReplyDeleteread my above answer again. I said Haram things can only be used when you don't have any other option. so now a days you can NOT use camel or any other urine when you have so many other options in a modern society.
But if you are living in a remote area then you can use SUCH THINGS for treatment purposes because otherwise you will die.
I see blessing of Allah in this Hadith because this Hadith not only inspires Muslims to do research on such things but it also allows Muslims living in remote and backward areas to use such things to save their life.
So Urine of other animals can also be used under the SAME conditions that are required to use camel urine.
As for as you said that antibodies will not be present under good hygienic conditions and infectious agents can be present under poor hygienic conditions that is a very difficult question and even FDA can NOT answer this. There are MANY alternative treatment options have not been approved by FDA on the basis of this question. I was discussing very same things (alternative medicine) with my teacher three days ago. (He was GP in USA and then returned and now is a surgeon in PIMS Islamabad).
He told me that when he was in USA, a paper was submitted to FDA in support of honey bee therapy for Hepatitis C. But FDA rejected it on terms that honey bee may be sitting on dirty places so even it will cure hepatitis C, it can induce some other disease so they didn't approved it. But as Muslims we know that Honeybee does NOT sit on dirty places coz Allah almighty has told the honey bee to follow the ways that ALLAH has defined for it, and of course Allah can NOT ask it to sit on some dirty places. see verse of Quran Chapter 16:68-69
68. And your Lord inspired the bee, saying: "Take you habitations in the mountains and in the trees and in what they erect.
69. "Then, eat of all fruits, and follow the ways of your Lord made easy (for you)." There comes forth from their bellies, a drink of varying colour wherein is healing for men. Verily, in this is indeed a sign for people who think.
But FDA rejected this therapy just because of this reason. And you should know that Hepatitis C is one of the most expensive therapy in Pakistan (400000-500000 RS)and a poor man can NOT afford it. But this therapy is USED in Germany, although they are more advanced than us still they use it. In the same way Germans use leech therapy also. People get leeches on rent and use them and then return them.
He said that these leeches can transmit diseases from one person to other so he didn't like it. But when I told him that leeched were used by Prophet PBUH also then he became silent and said that I AGREE WITH PROPHET PBUH. (I don't remember whether Prophet PBUH used to discard leeches after use or they were recycled but I remember that prophet PBUH used them.)
here you can purchase leeches ONLINE:
http://www.leeches.biz/buy-leeches.htm
جمشید زبیری صاحب، یہ بتانے کی ضرورت تو ہ تھی کہ آپ عیسائیوں سے مناظرے کرتے رہے ہیں کیونکہ یہ آپکی تحریر کے انداز اور جذبے سے ظاہر ہے۔
ReplyDeleteیہاں میں یہ بتانا ضروری سمجھتی ہوں کہ میرے تحقیقی میدان کا تعلق محض کیمیاء نہیں بلکہ کیمیاء کے اس میدان سے ہے جہاں تمام قدرتی ذرائع جس میں پودے اور جانوردونوں شامل ہیں ان سے ایسے اجزاء کا حصول ہے جو انسانوں کے علاج معالجے میں کام آتے ہیں۔
اس لئے جب آپ اونٹ کے خام پیشاب کو گھوڑے سے حاص ل کردہ ہارمونز سے ملاتے ہیں تو مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں کہ آپ ابھی میڈیکل کو زیادہ گہرائ سے پڑھیں۔
کسی بھی ذریعے سے یعنی حیوان یا پودے سے حاص کردہ اجزاء کو جب خالص کیا جاتا ہے تو یہ ایک آسان عمل نہیں ہوتا یہ مختلف پیچیدہ مراحل سے گذرتا ہے اور اسکے نتیجے میں اسکی صفائ اس حد تک کی جاتی ہے کہ ذرائع سے حاصل شدہ جراثیم اس میں بالکل موجود نہیں ہو سکتے۔
آپ نے اینٹی باڈیز کی کہانی کو شہد کی مکھیوں پہ توڑا۔ صحیح بات یہ ہے کہ شہد کی مکھیاں جس قسم کا خام مال استعمال کرتی ہیں شہد میں ویسی ہی تاثیر ہوتی ہے۔ ادھر ترقی یافتہ ممالک میں شہد کی مکھیوں کو مخصوص درختوں کے قریب پالا جاتا ہے اس طرح آُ صرف کیکر کے پحولوں کے خواص رکھنے والا شہد حاص کر لیتے ہیں یا دوسروں اور پھولوں کے۔ اس طرح شہد میں جو خام مال استعمال ہوتا ہے وہ اسی کی خصوصیات زیادہ رکھتا ہے اور نختلف ذرائع کے شہد ایک جیسی خصوصیات نہیں رکھتے۔ دوسری طرف پاکستان میں جو شہد ملتا ہے اسکی بڑی تعداد اس طرح حاصل کی جاتی ہے کہ شہد کے چھٹے کے پاس چینی کا شیرہ رکھ دیا جاتا ہے۔ اس شہد کے کیا فوائد ہوتے ہیں اسکا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ یہ تو اس شہد کی بات ہے جس پہ اصلی لکھا ہوتا ہے۔ جو شہد کسی کاص فارمولے سے انسانی ہاتھوں سے تیار کئیے جاتے ہیں انکی کہانی الگ ہے۔
آپکی تمام باتیں ان اعتراضات سے میل نہیں کھاتیں جو کہ میں نے کئیے۔
میں اب آپ سے اس موضوع پہ بحث میں وقت جائع نہیں کرنا چاہتی۔ آپ پہلے اپنا ایم بی بی یاس کامیابی سے مکمل کر لیں۔
یہاں بنیادی پیشہ ورانہ نظریات کو درست کرنے کی خاصی ضرورت ہے۔
You said [آپکی تمام باتیں ان اعتراضات سے میل نہیں کھاتیں جو کہ میں نے کئیے۔
ReplyDeleteمیں اب آپ سے اس موضوع پہ بحث میں وقت جائع نہیں کرنا چاہتی۔ ]
I was also thinking the same. Plus I wrote in support of Hadith NOT to correct ur views. I don't care them. People like u are growing like mushroom....How can I debate with all of them????peace....
Don't forget to see latest article on my blog..
ReplyDeleteLiberalism is a Disease of the Frontal Lobe
http://truthexposed123.blogspot.com/2010/12/liberalism-is-disease-of-frontal-lobe.html?spref=fb
may be it helps you to cure urself.......
@Mam Aneeqa
ReplyDeleteCheap shot.....u already used one by calling me mentally sick....
Although I think same abt you but I never declared you publicly...
I do NOT reply for you but for others who will be fooled by....
It is better if you write on your blog that you are a Hadith rejector so that people like me should not bother you ........
جمشید فرشوری 'صاحب'،میں نے تو اپنے بلاگ پہ یہ کہیں نہیں لکھا کہ آپ میری باتوں پہ صدقے واری جائیں۔ دوسرا کوئ شخص ایسا کرے تو مجھے بالکل مزہ نہیں آئے گا۔ میں تو خود دل وجان سے چاہتی ہوں کہ لوگ اعتراضات کیا کریں۔ اعتراض دراصل سوال ہوتا ہے اور ملک کے دانشور کہتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی طریقے میں جو خرابی ہے اسکی بنیاد سوال نہ کرنا ہے۔
ReplyDeleteدانشور تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جواب دینا دانش کی علامت نہیں ہوتا بلکہ سوال کرنا دانش اور جراءت کی علامت ہے۔
اب ہم آپکی پسندیدہ حدیث کی طرف پلٹتے ہیں۔
اس سے جو نتیجے اخذ کئے جاتے ہیں وہ یوں ہیں کہ رسول اللہ نے اسکا حکم دیا اس میں انکی کوئ دانش ہے اور اس سے مسلمانوں کو فائدہ اٹھانا چاہئیے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ ایک اہل مغرب سے تعلق رکھنے والا عالم اسے کیسے دیکھتا ہے۔
اول یہ کہ جانوروں اور اپنے فضلے سے علاج کرنا زمانہ ء قدیم سے انسانوں کے یہاں رائج رہا ہے۔ اس سے رسول اللہ نے یہ کوئ نیا حکم نہیںدیا ہوگا۔ چونکہ اونٹ وہان کا ایک مقامی اور بکثرت ملنے والا جانور تھا اس لئے دنیا کی دیگر اور تہذیبوں کی طرح مقامی لوگ اسکی چیزوں کو اپنے علاج میں زیادی استعمال کرتے ہونگے۔ علاج کا یہ طریقہ اب فوک میڈیسز کہلاتا ہے۔
فول میڈیسز در اصل لوک ذہانت کا ہی حصہ ہوتی ہے۔ ج وقت رسول اللہ نے ان لوگوں کو اس حدیث کے مطابق یہ حکم دیا اس وقت دنیا کی دیگر تہذیبوں میں آنکھوں کے علاج کے لئے دیگر طرقیے موجود ہونگے۔
فوک میڈیسنز اکثر اوقات کامیاب ہوتی ہیں بالکل ایسے ہی جیسے گھریلو ٹوٹکے کام کرتے ہیں۔ لوگ ان سے تندرست ہو جاتے ہیں لیکن انکا اثر ہمیشہ ایک جیسا نہیں ہوتا۔ اور بعض اوقات اسکے نتائج سنگین ہوتے ہیں۔ اس میں دوسری اور قطحتیں بھی ہیں جیسے اس اونٹ کے سلسلے میں ہی فارمولے کا ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہنا اور اسکے جراثیم سے آلودہ ہونے کے قوی امکان۔
آپ نے اپنے امریکی جی پی کے حوالے یہ لکھدیا کہ شہد کی مکھی کا شہد علاج اس لئے معتبر نہیں کہ وہ گند پہ بھی بیٹھ سکتی ہے۔ حالانکہ ان سرجن صاحب نے ایک اہم بات نہیں بتائ کہ جو میں نے آپ سے کہی اور وہ یہ کہ شہد کے فارمولے کا یکساں نہ رہنا۔۔ اسی طرح، شہد کے حصول کے دوران دراصل اس بات کا خیال نہیں رکھا جاسکتا کہ شہد کہیں جراثیم سے آلودہ نہ ہوجائے۔
دنیا بھر میں فوک میڈیسنز پہ تحقیق جاری ہے ۔ اس وقت ہم جتنی بھی ایلو پیتھک دوائیں استعمال کرتے ہیں انکا ایک بڑا حصہ ان فوک میڈیسنز پہ تحقیق کا نتیجہ ہے۔ ااور ایہ سب کیمیاء کے میدان تحقیق نیچرل پروڈکٹ کیمسٹری سے جڑا ہوا ہے۔ اس پہ میں کبھی فرصت ملنے پہ ایک علیحدہ پوسٹ لکھنا چاہتی ہوں۔
یوں یہ بات سامنے آتی ہے اونٹ کے پیشاب سے آنکھوں کے امراض کا علاج ایسی کوئ خاص اہمیت نہیں رکھتا۔ بلکہ یہ آنکھوں کے لئے خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ حتی کہ اگر آپ کسی دوردراز علاقے میں موجود ہوں تو آپ خود اسے استعمال کرتے ہوئے ہچکچائیں گے۔ چاہے آپ اس حدیث کے مندرجات پہ جتنا مرضی یقین رکھتے ہوں۔
اور اگر کوء شخص اونٹ کا پیشاب اپنی آنکھوں کے علاج کے لئے استعمال کر لے اور اسے کوئ سنگین نْقصآن پہنچ جائے تو اسکا لازمی نتیجہ اسکا اس حدیث سے انکار یا رسول اللہ پہ شک کی صورت نکلے گا۔
اب اس ساری وضاحت کے بعد میں اس موضوع پہ کوئ بات نہیں کرنا چاہتی۔