Wednesday, June 29, 2011

انقلاب کا اسقاط

آپکو بتاءووں یہاں مجھے کینیڈا آ کر اندازہ ہوا کہ ہمارا نظام تعلیم کتنا ناقص ہے۔
کیوں ایسا کیا ہو گیا؟
بس یہاں آکر مجھے اتنا وقت مل جاتا ہے کہ اپنا کتاب پڑھنے کا شوق پورا کروں یا دستاویزی فلمیں دیکھوں۔ پاکستان میں تو نوکری کے نام پہ غلامی کراتے تھے۔ گھر آکر بھی کام جاری رہتا تھا۔  ابھی چند دن پہلے میں نے فرانس کی ایک ملکہ ماریا اینٹونیٹ کے بارے مِں ایک دستاویزی فلم دیکھی۔
وہی ملکہ جسکے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے قحط کے دنوں میں روٹی نہ ملنے پہ کیک کھانے کا مشورہ دیا؟
ہاں وہی۔
لیکن اسکے بارے میں یہ بات غلط منسوب ہے۔
ہاں آپکا کہنا صحیح ہے۔ یہ بات خاصی متنازعہ ہے۔
لیکن ایسے افسانے ہی تاریخ کو دلچسپ بناتے ہیں، اچھا پھر کیا ہوا؟
تین چار دن بعد لنچ بریک میں ہم لوگ گپ شپ کر رہے تھے تو میں نے اس کا تذکرہ چھیڑ دیا۔ ادھر سے ایک چینی لڑکی آئ کہ تم لوگ اس ملکہ کا تذکرہ کر رہے ہو جسکے سولہ بچے تھے۔ میں نے اسکی تصحیح کی کہ اسکے سولہ نہیں چار بچے تھے۔ سولہ بچے اسکی ماں کے تھے۔ پھر ایک انڈیئن اس میں شامل ہوا کہ کس طرح اس ملکہ پہ مظالم ہوئے۔ اتنے میں ایک کیوبا کی لڑکی آگئ وہ بھی انقلاب فرانس کے بارے میں بات کرنے لگی۔ آپ سوچیں، میں نے اب تک کی زندگی میں انقلاب فرانس کے بارے میں تفصیل سے چار دن پہلے پڑھا تھا۔
تو ایسا کیوں ہوا کہ آپ نے محض چار دن پہلے یہ چیز پڑھی؟
وہ اس لئے کہ اسکول میں ہمیں سوشل استڈیز یا جغرافیہ نہیں پاکستان اسٹڈیز پڑھائ جاتی تھی۔ اسکول سے لیکر ہائیر کلاسز تک ہم پاکستان اسٹڈیز پڑھتے رہے جس میں سارا زور دو قومی نظرئیے پہ رہا۔ اور سچ بتاءووں اتنا عرصہ کینیڈا میں رہنے کے بعد میرا اس نظرئیے سے یقین اٹھ سا گیا ہے۔
اچھا، ایسا کیوں ہوا؟
آپ سوچیں یہاں اتنی قومیتوں کے لوگ رہتے ہیں بالکل ہم آہنگی کے ساتھ۔ ایک ہی میز پہ تین لوگ بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایک سوءر کا گوشت کھاتا ہے دوسرا حلال اور تیسرا سبزی خور۔ سب مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے ایک جگہ رہ رہے ہیں ناں۔ اس لئے کہ سب کی اقتصادیات صحیح ہیں۔ سب کو پیسہ مل رہا ہے؟
ہمم، میں نے اسے غور سے دیکھا۔ ایک چوبیس ، پچیس سال کا شخص جس نے اپنی تمام تعلیم پاکستان میں حاصل کی۔ پاکستان سے باہر نکل کر چند برس دوسری قوموں کے ساتھ رہا اور ایسا ہو گیا۔  برسوں سب گھول کے پلایا گیا تو ضائع ہو گیا؟
اس نے اپنی گفتگو جاری رکھی۔ مجھے اس وقت اتنی شرمندگی  ہوئ ان لوگوں کی معلومات ہر چیز کے بارے میں مجھ سے کہیں بہتر ہیں۔ آخر ہمیں یہاں کیا  پڑھایا جاتا ہے۔ ادب ہمیں نہیں معلوم ہوتا کیا بلا ہے، جغرافیہ ہمارا کمزور، تاریخ میں ہمیں صرف تحریک پاکستان پڑھائ جاتی ہے وہ بھی اپنے مطلب کی۔ حتی کہ اسلامیات میں ہمیں پچاس ، سو صفحوں کی ایک کتاب پوری زندگی پڑھائ جاتی  رہی۔ وہ بھی اپنے مطلب کی۔  دنیا کے مختلف ادیان کا تعارف تو چھوڑیں ہم اسلامی تاریخ سے بھی جان بوجھ کر لا علم رکھے جاتے ہیں۔ موسیقی، مصوری سے ہم نا آشنا۔ ہم ایک لگے بندھے علم کے علاوہ کچھ نہیں جانتے، ارد گرد پھیلی دنیا کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔  سوچیں ذرا، چوبیس ، پچیس سال کی عمر میں، سوفٹ ویئر انجینیئر ہونے کے باوجود مجھے انقلاب فرانس کے بارے میں کھکھ بھی نہیں پتہ تھا۔ اور یہ  چین ، ہمارے پڑوسی انڈیا اور حتی کہ کیوبا تک کے لوگوں کو پوری کہانی ازبر تھی۔
لیجئیے یہ انقلاب فرانس کی کہانی ہمیں اگر ازبر ہوتی تو ہم آنے والے انقلاب کی راہیں تک رہے ہوتے؟ بس یہی تو چلن ہیں، اسی طرح انقلاب کا اسقاط ہوتا ہے۔ 

Monday, June 27, 2011

ایسے کیوں؟

آج کا دن کوئ پوسٹ لکھنے کا ارادہ نہیں تھا۔ اگلے سات آٹھ دن کے لئے مصروفیات کا تناسب کچھ نکل آیا ہے کہ بلاگ کی طرف زیادہ نظر نہ ہو پائے۔ بہر حال، اطلاع ملی کہ مکی صاحب نے اپنے بلاگ کو سیارہ سے الگ کرنے کی درخواست کی ہے۔ کیوں کی ہے ، یہ وہ بہتر جانتے ہونگے۔ لیکن میں اپنی ذاتی حیثیت میں انکے اس فعل سے مطمئن نہیں۔
کوئ آئیڈیئل معاشرہ وہ نہیں ہوتا جہاں سب ایک جیسی سوچ رکھتے ہوں۔ ایک مقولہ ہے کہ جہاں سب ایک جیسی سوچ رکھتے ہوں وہاں کسی کے پاس کرنے کو کچھ خاص نہیں ہوتا۔ دنیا میں وہی معاشرے ترقی کی طرف جاتے ہیں اور مثبت  طرز زندگی کی طرف گامزن ہوتے ہیں جہاں تنوع ہوتا ہے۔ انسانوں کا، بنیادی فکرات کا اور بنیادی اعمال و کردار کا۔
اگر ایک خاص سوچ کسی معاشرے پہ طاری کر دی جائے تو ایک شدت پسندی کو جنم دیتی ہے۔  اس شدت پسندی کو قابو میں رکھنے کے لئے اسکی مخالف قوت کا موجود رہنا ضروری ہے اور معاشرے کی ایک قوت کو مہمیز رکھنے کے لئے دوسری  مخالف قوت کو حاضر رہنا چاہئیے۔
جمہوریت کی ساری خوبی یہی ہے کہ معاشرے کے ہر طبقے کو آواز اٹھانے کی اجازت ہوتی ہے جو آمریت یا مارشل لاء میں نہیں ہوتی۔
اگر آج ہمارے ملک میں عدم برداشت کا رویہ اپنے عروج پہ ہے تو اسکی جڑیں ضیاء الحق کی اس گیارہ سالہ حکومت میں ملتی ہیں جب پاکستان کے بد ترین مارشل لاء میں ایک نظرئیے کو پروان چڑھانے کے لئے تمام ریاستی وسائل بروئے کار لائے گئے۔ اسکے نتیجے میں دوسرا مخالف گروہ ختم کر دیا گیا یا خاموش کرا دیا گیا۔ اور اب یہ عالم ہے کہ نہ لوگوں میں علم ہے، نہ برداشت، ترقی تو دور۔ ترقی اور فلاحی ریاست ایک مبہم خواب کے سوا کچھ نہیں۔ ہم معاشی اور معاشرتی سطح پہ دن بہ دن تنزلی کا شکار ہیں۔
ہم مسلسل آمریت کے زیر سایہ رہنے سے مزاجاً خود بھی آمر ہو چکے ہیں۔ رہی سہی کسر، متعارف کرائے گئے جذبہ جہاد نے پوری کی اور اب ہماری اکثریت میں یہ اہلیت ہے کہ وہ ظلم میں ہٹلر اور چنگیز خاں کو بھی مات دے دے۔
ہماری ایک پوری نسل نہیں جانتی کہ اسکے باہر کی دنیا میں کیا ہوتا ہے، اس دنیا میں کیسی کیسی ثقافتیں، مذاہب موجود ہیں۔ اور اسی دنیا میں کیسے کیسے ممالک ہیں جہاں مختلف النوع مذاہب اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں مگر سکھ چین کے ساتھ، زندگی میں آگے کی سمت چلے جا رہے ہیں۔
عدم برداشت کا رویہ آخر کیسے ختم ہوگا؟ ایسے کہ لوگوں کو اپنے مخالف کی بات سننے کی عادت پڑے۔ ایسے کہ انہیں معلوم ہو کہ وہ کوئ پھنّے خان نہیں ہیں۔ دنیا میں عظیم لوگ انکے مذہب، فرقے، ذات ، برادری، نسل اور لسان سے الگ ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں۔ وہ سب اسی دنیا کے دسترخوان سے اپنا روزی روزگار حاصل کرتے ہیں۔ ایسے کہ انہیں معلوم ہو کہ وہ خود کتنے حقیر ہو چکے ہیں۔ جس سوچ پہ انہوں نے اپنے آپکو کھڑا کیا ہے وہ حضرت سلیمان کی وہ دیمک کھائ ہوئ لاٹھی بن چکی ہے۔ کہ جب گرے گی تو پتہ چلے گا کہ وہ مر چکے ہیں۔
بلاگستان کی اکثریت، اس پاکستانی نسل سے تعلق رکھتی ہے جو خود کچھ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ سوائے دوسروں پہ کیچڑ اچھالنے کہ وہ بھی مذہب کے نام پہ۔ دیکھنے کو انکی زندگیاں بھی ان مسائل سے بھری پڑی ہوئ ہیں جن سے ایک عام پاکستانی دوچار ہے۔ مگر اسے حل کرنے کی طرف تو دور انکا تذکرہ تک کرنے میں انکی دلچسپی نہیں۔ ان کا غم اگر ہے تو یہ کہ ہمارے ملک میں ہم جنس پرست کیا کیر رہے ہیں؟ یہ ہم جنس پرستی ایک علاقے کی ثقافت کا سینکڑوں برس سے حصہ ہے مگر اس پہ روشن خیال کا نام لے کر ماتم کرنے میں ایک عجیب مزہ آتا ہے۔ یہ نہیں جانتے کہ اس علاقے میں خواتین کو حقیر بنائے جانے سے ہم جنس پرستی کے مسئلے نے وہاں شدت پکڑی ہے۔
یہی لوگ ، یہ نہیں جاننا نہیں چاہتے کہ پاکستان کی عورتوں کی ایک بڑی تعداد اوسٹیو پوریسس کی وجہ معذوری کا شکار ہو رہی ہے ، بچے پولیو کی وجہ سے معذور ہو رہے ہیں۔ دنیا کے تقریباً دو سو ممالک میں پاکستان ان آخری ممالک میں شامل ہے جہاں مرنے والوں بچوں کی تعداد سب زیادہ ہے۔ یہ سوچ کر انہیں اپنے اوپر شرمندگی نہیں ہوتی کہ پاکستان کے ایک دیہات میں ایک عورت اپنی چھاتی کا زخم چھپائے چھپائے پھرتی رہی، شرم کی وجہ سے حتی کہ اسکی چھاتی کینسر کی وجہ سے پھٹ گئ ۔ تشویشناک بات یہ نہیں ہے کہ ایک پچاس سالہ عورت کو اسکے دس سال کے بچے کے سامنے برہنہ گلیوں میں پھرایا گیا۔ انکے نزدیک انکے ملک کی اہم اور تشویشناک خبر یہ نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ کسی جگہ  منافقوں کے پیدا کردہ نام نہاد مجاہدین کو متوقع تباہی پھیلانے میں متوقع کامیابی کیوں حاصل نہیں ہو پائ۔
ہم جنس پرستی کیا ہے؟ قدرتی طریقوں سے منہ موڑ کر ایسی طرز کو اختیار کرنا، جس میں نسل انسانی کو کوئ فائدہ نہیں۔ جس سے نسل انسانی آگے  نہیں بڑھتی۔ ایک ایسی بے سمت عیاشی جس سے بدلے میں کوئ مثبت چیز نہیں بر آمد ہوتی۔
فدائیوں اور نام نہاد مجاہدین کی فتح کی دعائیں مانگنا بھی فکراً ہم جنس پرستی سے الگ چیز نہیں۔ قدرتی طرز زندگی سے انحراف۔ ایسے عمل کا حصہ بننا جس میں نسل انسانی کی ہماری پاکستانی نسل کی بقاء نہیں تباہی ہے۔
یہ ہے ہماری موجودہ نسل کی اکثریت جو اس وقت اس بلاگستان کا حصہ ہے۔
اس عالم میں اگر کوئ اس روش سے ہٹ کر بات کہنا چاہ رہا ہے تو اسے اختیار ملنا چاہئیے۔ اسے اپنا اختیار استعمال کرنا چاہئیے۔ ہم سب کی تربیت ہونی چاہئیے کہ ہم ایکدوسرے کی غلط ترین بات کو سنیں ، اسے برداشت کریں۔ اس پہ سوچیں اور ہمیں نہیں پسند تو تو آگے بڑھ جائیں۔ ہمیں اب لوگوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کو دبانے سے روکنے کی کوشش میں حصہ ڈالنا پڑے گا۔ اس لئے نہیں کہ ہم بعیّنہ وہی خیالات رکھتے ہیں جیسے کہ وہ رکھتے ہیں بلکہ اس لئے کہ ہم ایک متوازن معاشرے کے طور پہ پنپ سکیں۔
توازن، کسی ایک قوت کے حاوی ہونے میں نہیں۔ توازن تمام قوتوں کے ایک ساتھ موجود رہنے سے پتہ چلتا ہے۔ کم از کم کائینات اپنے مظاہر میں یہی کہتی نظر آتی ہے۔




تو مکی صاحب ، میں تو نہیں سمجھتی کہ آپکو بلاگستان سے علیحدہ ہونے کی ضرورت ہے۔    باقی کچھ لوگوں کا یہاں رد عمل ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ برصغیر میں اسلام محمد بن قاسم لے کر آیا کیا انکی اس غلط فہمی کی تصحیح ضروری نہیں ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ محمود غزنوی ایک عظیم مسلمان فاتح تھا۔ کیاانکی اس غلط فہمی کی تصحیح ضروری نہیں کہ وہ ایک بہترین جنگجو تھا۔ اور بس۔ 
وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اگر ایک اسلامی ملک بن گیا تو یہاں عورتیں جسم فروشی نہیں کریں گی، لوگ ہم جنس پرست نہیں ہونگے، شراب نہیں پی جائے گی، زنا نہیں ہوگا، جھوٹ نہیں ہوگا،  چوری نہیں ہوگی۔ امن وامان ہوگا، شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پئیں گے۔ یہاں سے وہاں تک صرف  مسلمان پائیں گے وہ بھی کسی ایک فرقے کے۔  فرقہ واریت پہ جنگ ختم ہو جائے گی۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اگر لوگوں کے گروہ خدا کا انکار کریں تو اس سے انکا ایمان خطرے میں پڑ جائے گا۔ حالانکہ انکاا کرنے والے بھی ہزاروں سال سے موجود ہیں اور ایمان والے بھی اپنے ایمان پہ جمے ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب، کمزوری انکے ایمان میں ہے یا مضبوطی انکار کرنے والے کے بیان میں۔ اسکا ایک اور مطلب ہے کیونکہ وہ اپنے ایمان کا دفاع کرنے سے آگاہ نہیں اس لئے انہیں انکار کرنے والے سے ڈر لگتا ہے۔ اسکی ایک اور وجہ ہے وہ اپنے ایمان میں کشش نہیں پیدا کرتے بلکہ ہیبت پیدا کرتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ ہیبت سے دل مسحور کئے جا سکتے ہیں۔
کیا انہِیں اس چیز پہ مجبور نہ کیا جائے کہ اصل کتابوں کی طرف رجوع کرو۔ اور اپنے ایمان کو مضبوط۔ جو ایمان ایسے ہر کس و ناکس کے بیان پہ ڈول جائے اسے سپلیمنٹس کی بے حد ضرورت ہے۔ اسے یہ معلوم ہونے کی بے حد ضرورت ہے کہ وہ کیوں کمزور ہے اور اسے کیسے مضبوط ہونا ہے۔ اسے معلوم ہونا چاہئیے کہ انکار کرنے والا کیا دلائل رکھتا ہے جسکی بناء پہ وہ اسے، مضبوط ایمان والے کو چت کر دیتا ہے۔ اور مضبوط ایمان کا دعوی کرنے والے یہ کہنے کے علاوہ کچھ نہیں کہہ پاتے کہ اپنا علاج کرائیے۔ حالانکہ  انہیں دوسروں کو یہ مشورہ دینے کی نہیں اپنے علاج کی آپ ضرورت ہے۔ اور انکا علاج اپنے دین سے خود آگہی حاصل کرنے میں ہے جو وہ نہیں کر پاتے اور نہ کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ دین اس سلسلے میں خاصہ کڑا ہے۔
کیا انہیں یہ نہیں بتایا جائے کہ جب تک معاشرے میں انصاف نہیں ہوگا اور معاشی خوشحالی نہیں ہوگی ان میں سے کوئ چیز ختم نہیں ہوگی اور نہ کوئ نئ مثبت چیز جنم لے گی۔  سوائے اسکے کہ ہم منافقین کے گروہ در گروہ تخلیق کریں۔
انہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ جب تک انسان زندہ ہے، ان کے خیالات اور زندگی سے انکے مطالبات ایک دوسرے سے الگ رہیں گے۔ یہی اس دنیا کا حسن ہے، آزمائیش ہے،اور مقصود۔
جب ہی  کائینات میں تین قوتیں بر سر پیکار نظر آتی ہیں۔ خدا ، انسان اور شیطان۔ اگر ان میں سے صرف ایک قوت بچ جائے تو کائینات میں نہ نمو ہوگا نہ استحکام۔

Friday, June 24, 2011

جلوے کا حلوہ

بدلتے وقت کے ساتھ الفاظ اپنے معنی بدل دیتے ہیں ۔ الفاظ ایکسٹرنل یو ایس بی ہوتے ہیں۔ یہ وہ انسانی عضو ہوتے ہیں  جو جسم کے ساتھ جسمانی طور پہ منسلک نہیں ہوتے۔ سو انسان کی ذہنی سوچ کے ساتھ یہ بھی بظاہر وہی ہوتے ہیں مگر معنوں میں وہ نہیں رہتے۔ مگر عطاءالحق قاسمی صاحب شاید اس سے واقف نہیں۔ اس لئے جب صدر زرداری نواز شریف کو مولوی  نواز شریف کہتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ کیونکہ نواز شریف شراب نہیں پیتے، ڈانس نہیں کر سکتے اور خواتین کے ساتھ تعلقات نہیں بناتے اس لئے زرداری نے انہیں مولوی کہا ہوگا۔ عطاء صاحب الفاظوں سے پیچھے رہ گئے۔ در حقیقت عطاء الحق قاسمی صاحب، حرم کا مطلب بھی بھول گئے ہیں۔ حالانکہ یہ اب تک اپنے اصل معنوں کے ساتھ رائج ہے۔
ڈانس تو پپو سالا بھی نہیں کر سکتا ، لیکن وہ مولوی پپو سالا نہیں کہلاتا۔  شراب پینے والے کہتے ہیں کہ بات شراب نہ پینے میں نہیں  بلکہ پی کر نہ لڑکھڑانے میں ہے۔  اب کیا کیا جائے، وہ بن پئیے ہی  بد مست ہاتھی بنے ہوءے ہیں پی لیں تو خدا جانے کیا حشر ڈھا دیں۔ گمان ہے کہ اکثر لوگوں کو گناہ کرنے پہ عذاب ہوتا ہے اور کچھ کو نہ کرنے پہ۔ خواتین کے متعلق میں کچھ نہیں کہتی۔ ایک انگریز خاتون صحافی نے بہت کچھ کہا ہے مگر سب بکواس ہوگی۔ خواتین ایسی باتیں مردوں کی نفرت میں کہتی ہیں۔ خاص طور پہ گوری عورتیں تو پاکستانی مرد رہ نماءووں کی کم آمیزی کا بدلہ اسی طرح لیتی ہیں۔
صدر زرداری نے اپنے تازہ بیان سے قوم کو ایک نئے امتحان میں ڈال دیا ہے اور لگتا ہے کہ ہر ایک دو تصویریں لے کر بیٹھا ہوا ہے اور مقامات فرق معلوم کر رہا ہے۔ نواز شریف اور مولوی نواز شریف میں۔ حالانکہ آج کل نواز شریف اس حالت میں ہیں کہ مقامات آہ فغاں بآسانی معلوم کئے جا سکتے ہیں۔ مگر یہ تو ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستانی کوئ آسان کام نہیں کرتے۔ اگر قسمت کوئ آسان کام ہمارے اوپر ٹھونس ہی دے تو کوشش کرتے ہیں کہ  اسے پہلے مشکل بنادیا جائے پھر ہم اس سلسلے میں کچھ کریں۔ لوگ بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑاتے ہیں اور اس پہ فخر کرتے ہیں ہم گھوڑوں میں بحر ظلمات نکالتے ہیں ، اور پھر بھی کوئ نعرہ ہائے تحسین بلند نہ کرے تو اسے گھوڑا بلکہ گدھا بنا دیتے ہیں۔
خیر، تازہ ترین سوال یہ ہے کہ صدر زرداری نے مولوی نواز شریف کا لقب انہیں کیوں دیا؟
کیا اس لئے کہ ایک زمانے میں وہ بڑے ہو کر  وزیر اعظم نہیں امیر المومنین بننا چاہتے تھے۔
اس لئے کہ وہ ہمارے مقدس مقامات پہ اتنا عرصہ گذار چکے ہیں اور وہاں انکے اتنے قلبی تعلقات ہیں کہ انہیں اب مولوی نہ کہا جائے تو اس ناہنجار قوم پہ ہتک عزت کا دعوی کر دینا چاہئیے۔
اس لئے کہ  وہ رائے ونڈ جیسے مقدس مقام کے پہلو میں اپنے فارم ہاءوس میں رہتے ہیں۔ اس فارم ہاءوس کو کچھ بد طینت بادشاہ کا محل کہتے ہیں  جبکہ وہ نہییں جانتے کہ فارم ہاءوس پہ تو ٹیکس بھی واجب نہیں ہوتا۔ اور مولوی صاحب کو بالآخر جنت میں جانا ہے تو دنیا میں کیا وہ جنت کا مزہ چکھ نہیں سکتے۔ جبکہ کسی سُرخے شاعر نے یہ مسئلہ بھی کھڑا کر رکھا ہے کہ
آپکو جنت اور مجھے دوزخ عطا ہوگی
بس اتنی سی بات پہ کیا محشر بپا ہوگی
ایسے عقل کے اندھوں کے لئے تو محشر دنیا میں ہی بپا ہونی چاہئیے۔ یہ ہے نئے مولوی صاحبان کا ایجینڈا بمعہ ایک ڈنڈا۔
 اچھا تو کیا اس لئے کہ وہ مرد مومن مرد حق  مولوی ضیاءالحق کی ان سائینسی کوششوں کا کامیاب نتیجہ ہیں جس میں وہ ایک ماں اور ٹیسٹ ٹیوب کے بغیر ایک نظریاتی اولاد پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔انکی اس دانش سے حیران ہو کر بعض ان دیکھی قوتوں کو انکا جہاز فضا میں پھاڑنا پڑا۔ ناکام لوگ ، کامیاب لوگوں کے ساتھ یہی سلوک روا رکھتے ہیں۔
کیا اس لئے کہ وہ اپنے آقائے سیاست کے فلسفے اور باقیات کو کمال صبر اور جراءت سے سنبھالے ہوئے ہیں۔ اور انکی وفاداری کا ثبوت یہ ہے کہ وہ پاکستان کی سالمیت تو کیا خود پاکستان کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔
میں ان پیش کئے گئے نظریوں سے کسی طور مطمئن نہیں۔ بھلا یہ بھی کوئ باتیں ہیں جن پہ کسی کو مولوی کہہ دیا جائے۔ میں تو آج تک مولوی، حلوے وغیرہ سے شغف رکھنے والے اس بے ضرر شخص کو سمجھتی رہی جس سے اگر کوئ خار کھاتا ہے تو وہ بچے جو قرآن ناظرہ کی تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ اماں مولوی صاحب کو حلوہ بنا کر بھیجتی ہیں اور مولوی صاحب ڈنڈے یا پائپ سے بھی پٹائ لگا دیں تو اماں جان فرط عقیدت سے انکے دست و بازو کو دیکھتی ہیں۔ کیا محنت کی ہے میرے بچے پہ۔ ماں صدقے ، ماں واری۔ اور مزید حلوہ نذر کرتی ہیں۔ مولوی صاحب  اپنی سادگی کے باعث حلوے اور عقیدت سے بہلے رہتے تھے۔ ادھر بچے کے سینے میں انتقام کا ایک الاءو روشن رہتا ہے اور حلوے کی محبت۔ یہ روائیتی مولوی صاحب تھے اور یہی روائیتی مولوی صاحب بنانے کا طریقہ۔
مگر اب لگتا ہے امتداد زمانہ سے مولوی کے معنی تبدیل ہو گئے ہیں۔


سو کچھ کا کہنا ہے کہ بچپن میں مولوی صاحب کے ڈنڈے کو زرداری صاحب اب تک نہیں بھولے۔ اور اس کا تعلق کچھ کچھ اڈیپس کمپلیکس سے ملتا ہے۔ فرائڈ کو کیونکہ مولوی صاحب میسر نہیں تھے اس لئے وہ اسکا کوئ مناسب سا نام نہ رکھ پایا۔ مولوی صاحب کا ڈنڈا، طالب علم کی پیٹھ اور اماں جان کا حلوہ وہ بھی مولوی صاحب کے لئے۔ اس مثلث کے کیا اتنے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔ اس پہ تو ایک فلم بن سکتی ہے۔
کوئ کہہ رہا تھا کہ مولوی اب ایک شخص نہیں کیفیت کا نام ہے. یہ کچھ خاص لوگوں پہ جن میں خاص جینیاتی ریسپٹر ہوتے ہیں کسی بھی وقت طاری ہو سکتی ہے۔ اس وقت آپکو پتہ چلتا ہے کہ ایسے ویسے لوگ کیسے کیسے ہو گئے۔ یہ عجیب اثر ہے کہ اس کیفیت میں  لوگ ہر قسم کی غیر اسلامی حرکات اور سکنات کے لئے اپنے آپکو آمادہ پاتے ہیں۔  لیکن منہ سے اسلام اسلام ہی نکلتا ہے۔
کچھ اور لوگوں کا خیال ہے کہ مرد مومن اپنے کامیاب تجربے کے بعد اسکے سائینسی رازوں سے کسی مرد ناداں کو مطلع کر گئے تھے۔ وہی والے جنکے متعلق اقبال بہت عرصہ پہلے با خبر کر چکے تھے کہ مرد ناداں پہ کلام نرم و نازک بے اثر۔ لیکن اس وقت بھی ہماری انٹیلیجنس ایجنسیز کے یہی لچھن تھے۔  اقبال نےخفگی میں کہا بھی کہ تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن۔ انٹیلیجنس والوں نے اسے پیش سے پڑھکر سازشوں کے جال بننا شروع کر دئیے۔ اور اپنے پرائے ہر ایک کے لئے بُن ڈالے۔ آجکل اپنے والے ادھیڑنے کی کوششوں میں ہیں۔ سو اسکے بعد  عام لوگوں میں مولوی کیفیت کو ابھارنا اور پھیلانا  نیت اور فتور نیت کے ساتھ جڑ گیا۔ جب جب نیت میں فتور آئے کوئ شخص تب تب مولوی بن جاتا ہے۔ 
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ فوج کے خلاف محاذ آرائ کی وجہ سے انہیں یہ عظیم لقب ملا۔ اگرچہ کہ ہمیں اب تشویش ہو چلی ہے کہ ایک تو طالبان کے لئے نرم گرم جذبہ رکھنے پہ ہی نواز شریف کو لوگوں کے طعنے سننے پڑ رہے تھے اور حالت یہ تھی کہ جب سے تونے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے۔ وہاں نواز شریف نے یقیناً کسی بد خواہ کے کہنے پہ فوج سے اڑنگا لے لیا۔ اگر انہوں نے کبھی دھوبی کے کتے کی زندگی دیکھی ہوتی تو اس  مرحلہء سودوزیاں پہ انہیں سمجھنے کی آسانی بہم ہوتی ہے۔  یہ فارم ہاءوس میں رہنے کا نقصان ہے۔
دوسری طرف وہ لوگ جو  طالبان اور فوج کو ایک ہی سکے کے دو رخ سمجھتے رہے اور بیک وقت ان دونوں کی زلف کے اسیر ہیں اور اس وجہ سے نواز شریف کو بھی عزیز رکھتے تھے۔ اب  انکے لئے مرحلہ ء سخت ہے کسے عزیز رکھیں کس کو مستعفی چاہیں۔  
لیکن بات وہیں آکر رک جاتی ہے کہ یہ تمغہ  نواز شریف کو کیوں دیا گیا ہے۔ نورجہاں یا معین اختر کو کیوں نہیں دیا گیا۔
کچھ اور کھوجی، اسکے تانے بانے پنجابی طالبان کی پنجاب حکومت کے ساتھ خوشگوار تعلقات میں دیکھتے ہیں۔ یہ بری بات ہے۔ حاسدی ہی ایسا کر سکتے ہیں و من شرّ حاسد اذا حسد۔ جذبہ ء مفاہمت کو عام کرنے والے لوگوں کو یہ بات کرنا زیبا نہیں۔
کچھ اور لوگ اسکی وجہ مفتی رانا ثناءاللہ کو گردانتے ہیں۔ یعنی طویلے کی بلا بندر کے سر۔ اس پہ رانا ثناء اللہ  صاحب کے عقیدت مند مجھ سے ناراض نہ ہو جائیں میں نے انہیں قطعاً بندر نہیں کہا۔ یہ محاورہ بنانے والے کی نیت کی خرابی ہے۔ وہ ہر مسکین کو بندر سمجھانا چاہتا ہے۔
یہ لوگ کہتے ہیں کہ ایک ایسا مفتی جو لوگوں کے واجب القتل ہونے پہ فتوی دینے کو تیار رہتا ہو۔ اور قتل ہو بھی جاتا ہو تو اس کا گرو تو مولوی ہی کہلائے گا۔ زرداری صاحب، سلمان تاثیر کا غم کھائے بیٹھے تھے اور ابھی رانا ثناء اللہ  کے فتوے اور سلمان تاثیر کے قتل کے مابین گتھیاں سلجھ بھی نہ پائں کہ رانا ثناء اللہ نے اس دفعہ بابر اعون کو بھی واجب القتل قرار دے دیا۔ بابر اعوان صاحب کا نہیں معلوم کس کھوہ میں بیٹھے ہیں البتہ رانا ثناء اللہ سنا ہے مونچھوں کی اصلی گھی سے مالش کراتے ہیں۔ مونچھیں ہوں تو رانا ثناء اللہ جیسی ہوں ورنہ نہ ہوں۔
دیکھا آپ نے حلوہ کھانے والے مولوی صاحب، خدا غارت کرے زمانے کی بد چلنی وغیرہ کو کہ  قتل وغیرہ سے بھی پہچانے جانے لگے ہیں۔ حلوے سے اٹھنے والے مولوی صاحب کا خمیر اب خدائ جلوے کے برابر ہو چکا ہے۔ جسکے بارے میں خدا کہتا ہے کہ تاب نہ لا سکو گے ہمارے جلوے کی۔
عطاء الحق قاسمی صاحب، نے آخر میں صدر زرداری کی اس تقریر کو غیر صدارتی قرار دیا ہے۔ میں اس سے اتفاق کرتی ہوں۔ صدر زرداری کو اسکا حل ، حلوے میں نکالنا چاہئیے تھا جلوے میں نہیں۔ ہو سکتا ہے مولوی صاحب کی یادداشت کام کرنے لگ جاتی۔ لیکن ایسا ہوتا تو عطاء الحق قاسمی جیسا سینیئر قلم کار اور مجھ جیسا نو آموز لکھنے والا  کس چیز کے متعلق لکھتے۔  انہی کے دم سے ہیں آباد یہ قلم کے مے خانے۔ یہ مصرعہ ابھی تخلیق کیا ہے۔ میں اسکا دوسرا مصرعہ جوڑتی ہوں۔ آپ حلوہ  سوچئیے اور قسمت میں ہو تو جلوہ۔

Wednesday, June 22, 2011

ٹھرکی

شادی کے پندرہ دن بعد ہم دونوں سیر وتفریح کی غرض سے ترکی روانہ ہوئے۔  ہمارا وہاں قیام پندرہ دن کے لئے تھا۔ اس لئے ایک گائڈڈ ٹور لے لیا جس میں چھ شہر شامل تھے۔ یوں ہم ان پندرہ دنوں میں گھڑی پہ نظر رکھے، بسوں اور ٹور گائیڈز کے پیچھے دوڑتے رہے اور ان شہروں میں جابجا بکھری ہوئ تاریخِ کو ازبر کرتے رہے۔  یہ ہمارا ہنی مون نہیں بلکہ اسٹڈی ٹور ثابت ہوا۔
استنبول پہنچنے کے دوسرے دن جب ہم نیلی مسجد، آیہ صوفیہ اور ٹوپ کاپی کا محل دیکھ کر فارغ ہوئے تو سہ  پہر کو ہم استنبول کے گرانڈ بازار کی طرف نکل گئے۔ یہ سب جگہیں ہماری رہائش گاہ اور ایکدوسرے سے اتنے قریب تھیں کہ ہم پیدل ہی چکر لگا رہے تھے۔
جیسے ہی ہم گرانڈ بازار میں داخل ہونے لگے میرے شوہر صاحب نے کہا کہ آپ ذرا اس گلی کو چیک کریں میں ابھی آتا ہوں۔ میں گلی میں سیدھی چلتی چلی گئ۔ گرانڈ بازار خاصہ بڑا بازار ہے کہا جاتا ہے کہ اس مِں چار ہزار سے زائد دوکانیں ہیں۔ خوبصورتی اس بازار کی یہ ہے کہ ایک چھت تلے دور تک پہلا ہوا ہے اسکی چھت میں گنبد اور محرابیں بنی ہوئ ہیں۔ جن پہ خوبصورت، رنگین نقش و نگار ہیں۔ جو کہ ترک قدیم تعمیری ثقافت کا حصہ ہے۔
صراط مستقیم پہ کوئ زیادہ دور مستقل مزاجی سے چل پائے یہ کم ہوتا ہے۔ راستے کے  موڑ کے اسرار اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔
میں بھی ایک گلی میں مڑ گئ۔
دوکاندار آوازیں لگا لگا کر اپنی جانب متوجہ کرانا چاہتے تھے۔ لیکن انہیں اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ میں ہوں کہاں کی۔ انکی اکثریت نجانے کیوں مجھے عرب سمجھ رہی تھی اور وہ بار بار کہہ رہے تھے اسماء، اسماء۔ جیسے ہمارے یہاں پٹھان ہر نوجوان لڑکی کو شمائلہ کہتے ہیں۔
اسی شور میں ایک دوکاندار نے کہا آر یو فرام پاکستان، کراچی۔ میں خوشی میں رک گئ۔ ترکی میں زبان بڑا مسئلہ ہے۔ یوروپی نقوش رکھنے والے ترک انگریزی سے تقریباً نابلد ہیں۔ استنبول، ترکی کا ایک بڑا سیاحتی شہر ہے اس سمیت باقی پانچ شہروں میں بھی زبان ایک مسئلہ رہی۔ خریداری کے لئے کیلکولیٹر استعمال ہوتا ہے۔ بیشتر لوگ انگریزی گنتی بھی نہیں جانتے۔ یہ دوکاندار دو تین دفعہ کراچی آ چکا تھا۔ اس نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں جو بتایا وہ یہ تھا کہ وہ کراچی سے قالین لا کر یہاں بیچتا ہے۔ اسکے علاوہ زینب مارکیٹ ، کراچی سے چیزیں لے کر آتا ہے اس سے انہیں بڑی آمدنی ہوتی ہے۔
خیر جناب، اس دوکاندار سے باتیں بگھارنے کے بعد جب میں پلٹی تو وہی ہوا ، جسکی توقع کی جانی چاہئیے تھی۔ میں راستہ بھول چکی تھی۔
کوئ انگریزی نہیں جانتا تھا، زیادہ لوگوں سے راستہ پوچھ کر میں اپنے آپکو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی اس لئے طے کیا کہ باہر جانے کے لئے کسی ایک سیدھے راستے پہ چلتے چلے جانا چاہئیے۔ ترکیب کامیاب رہی۔ میں بازار سے باہر نکل آئ۔ لیکن یہ وہ دروازہ نہیں تھا جہاں سے اندر داخل ہوئے تھے۔
تھوڑی دور چلنے کے بعد کوشش کی کہ نیلی مسجد کے مینار نظر آجائیں۔ استنبول کی پہچان خوب صورت نیلی مسجد ہے۔ لیکن زمین آسمان کی سرحدیں اس نظارے  سے محروم تھیں۔ یعنی میں خاصی دور نکل آئی تھی۔
اب رسک لینا ہی پڑے گا۔ میں نے ایک جوس کارنر قسم کی دوکان پہ رک کر ایک جوس کا ڈبہ لیا اور اس بہانے دوکاندار سے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ نیلی مسجد کس طرف ہے۔ اسے انگریزی بالکل نہیں آتی تھی۔ اس نے ایک اور شخص کی طرف اشارہ کیا۔ وہ بھی اشاروں ہی سے سمجھا ۔ اور پھر اشاروں میں اس نے ایک طرف اشارہ کیا۔ سمجھ میں آئ کہ اس طرف سیدھے چلتے رہنا ہے۔
کوئ دس منٹ چلنے کے بعد نیلی مسجد کے مینار نظر آئے۔ اب میں ہوٹل تک پہنچ سکتی تھی۔ خاصی دیر ہو چکی تھی اور میرا خیال تھا کہ موصوف ہوٹل پہنچ چکے ہونگے۔ ریسیپشن سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ ابھی نہیں آئے۔ چابی میرے پاس نہیں تھی۔ متعلقہ شخص بھی وہاں نہیں تھا۔ میں لابی میں رک گئ۔
وہاں ایک پندرہ سولہ سال کی لڑکی اپنی ماں کے ساتھ موجود تھی۔ ان سے باتیں شروع ہوئیں۔ جب انہیں پتہ چلا کہ میں اپنے شوہر کو گرانڈ بازار میں کھو آئ ہوں تو بے اختیار زور زور سے ہنسنے لگیں۔ پندرہ دن کی دولہن شوہر گم کر کے آرہی ہے۔ ماں اپنی بیٹی کی ایسی ہی باتیں بتانے لگی وہ یہودی النسل خواتین اسرائیل سے گرمیوں کی چھٹیاں  گذارنے آئے ہوئے تھیں۔
پاکستان میں تو ہم نے صرف را کے ایجنٹوں کا نام سنا ہے کبھی کسی یہودی سے ملاقات نہ ہونے پائ۔
تھوڑی دیر میں متعلقہ شخص آیا اور مجھے کمرے تک چھوڑ گیا کہ وہ چابیوں کا نچارج تھا۔
میں جا کر بالکونی میں کھڑی ہو گئ۔ تاکہ شوہر صاحب کو آتے ہوئے دیکھ سکوں۔ عقل مندی کا تقاضہ تھا کہ وہ ہوٹل واپس آئیں۔ نیچے سڑک پہ نظر جمائے جمائے مجھے احساس ہوا کہ ترکی ہمارے ملک سے کس قدر مختلف ہے حالانکہ یہاں کی آبادی کی اکثریت مسلمان ہے۔ سڑک پہ خواتین مغربی مختصرلباس میں گھوم رہی ہیں۔ ایک لڑکی منی اسکرٹ، گہرے گلے اور بغیر آستین کی ٹی شرٹ پہنے اپنے ساتھی مرد کی کمر میں ہاتھ ڈالے جا رہی ہے۔ اسی روڈ پہ ایک لڑکی عبایہ اور اسکارف پہنے اپنے ساتھی مرد کا ہاتھ پکڑے چل رہی ہے جبکہ مرد کا ہاتھ اسکی کمر میں حمائل ہے۔ سر عام اپنی خواتین سے التفات دکھانا چاہے وہ حجاب میں ہوں یا بے حجاب، محرم ہوں یا نامحرم ترکی میں برا نہیں سمجھا جاتا۔ روڈ کے کنارے گھنے درختوں کے نیچے نوجوان جوڑے ایک دوسرے کی بانہوں میں گم ہیں۔ وہ اتنے گم تھے کہ، انکے چہرے نظر نہیں آرہے تھے۔
ایک  گھنے درخت کے نیچے ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ نظر آرہا ہے۔ ایسے رسیٹورنٹ استنبول میں بہت ہیں۔ جن میں اچھی شراب اور جوس سب دستیاب ہیں۔ ارد گرد کی میزوں پہ لوگ اپنے مطلب کے مشروب سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ 
یہ اتنی عجیب جگہ ہے کہ ٹوپ کاپی محل جسے ایک میوزیم میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔ اور اسکے ایک حصے میں اسلامی نوادرات کا مجموعہ ہے۔ جس میں رسول پاک کے موئے مبارک سے لیکر وہ قرآن پاک موجود ہے جسکی تلاوت حضرت عثمان وقت شہادت کر رہے تھے۔ اور اس حصے میں احترام کے پیش نظر ہر وقت قرآن پاک کی تلاوت ہوتی رہتی ہے۔ باہر اس سے چند گز کے فاصلے پہ ریسٹورنٹ میں لوگ ترکی کے مشہور ڈونلڈ اور شیش کباب بیئر اور سرخ شراب کے ساتھ بیٹھے کھا رہے ہیں۔ ادھر نیلی مسجد کے اردگرد پھیلے پارک میں نوجوان انگوروں کی بیلوں تلے ایک دوسرے کو فسانہ ء عشق سنانے میں مصروف۔
شاید اسی کے لئے شاعر نے کہا کہ 
بھوں پاس قبلہ ء حاجات چاہئیے
مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہئیے
ترکی تو ٹھرکی ہے۔ کسی نے ترکی جانے سے پہلے میرے کان میں سرگوشی کی تھی۔
 یہیں ایسی دوکانیں بھی نظر آتی ہیں جہاں دیواروں پہ اسلامی طغرے نصب ہیں اور جہاں کسی بھی قسم کا نشہ آور مشروب نہیں ملتا۔ اذان تمام مساجد سے ایک وقت میں ہوتی ہے اور اسکا وقت مقرر ہے۔ تمام مساجد میں خواتین کے لئے جگہ موجود ہے۔ تمام مساجد کے ساتھ صاف ستھرے وضو خانے موجود ہیں۔ تمام وضو خانوں کے ساتھ صاف ستھرے بیت الخلاء موجود ہیں۔
چھ مختلف شہروں کو بسوں کے سفر کے ذریعے دیکھا۔ ترکی ایک جدید ترقی یافتہ ملک ہے۔ ترکی ترقی میں کسی مغربی ملک سے کم نہیں۔ سیاحتی نظام اتنا مضبوط ہے کہ کسی جگہ ہمیں ایک منٹ کی بھی دیر نہیں ہوئ۔ کوئ افراتفری نہیں۔ ٹرانسپورٹ انتہائ منظم،  روڈ صاف ستھرے، ہوٹلز صاف ستھرے ، کھانا بہترین، جو انکے ٹور میں موجود ہے وہ سب مہیا ہوگا۔
  سوائے کونیہ کے جہاں مولانا رومی کا احترام بہت زیادہ ہے۔ کسی اور شہر میں سر عام شراب پینے پہ کوئ منادی نہیں۔ اور اناطولیہ کا گائڈ کونیہ کے لوگوں کو منافق کہتا ہے۔ گھروں میں شراب پیتے ہیں باہر نہیں۔
آج مجھے ترکی پھر یاد آیا۔ جب میں دیکھتی ہوں کہ پاکستان کے شدت پسند مذہبی عناصر ترکی کے حالیہ الیکشن میں اسلام پسندوں کی لگاتار تیسری بار کامیاب ہونے کی خوشی کواپنی فتح سمجھتے ہیں ۔
ترکی کی اسلام پسند حکومت اپنے عوام کی مذہبی طرز زندگی پہ زور زبردستی نہیں دکھاتی۔ وہ مسجد کے زیر سایہ خرابات دینے کو معیوب نہیں سمجھتی۔ کیا ایسی اسلام پسندی ہمارے مذہبی حلقوں کے حلق سے نیچے اتر سکتی ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ ترکی میں تیسری بار اسلام پسندوں کی آنے والی حکومت کا منشور کیا ہے۔
جسٹس پارٹی کے طیب اردگان ،  ترکی کے موجودہ وزیر اعظم اپنا ویژن ۲۰۲۳پیش کرتے ہیں۔ 
اس کے تحت وہ ترکی کو دنیا کا بے مثال ملک بنانا چاہتے ہیں۔ وہ ترکی کو دنیا کی پہلی دس معیشتوں میں لا کر کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ برآمدات میں اضافہ، اوسط آمدنی میں اضافہ، غیر ملکی تجارت میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ جسکے نتیجے میں توقع ہے کہ مزید تین کروڑ نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔ اس منصوبے میں توانائ بڑھانے اور بچانے کے منصوبے شامل ہیں۔ خارجہ پالیسی کے لئے ترکی کو یوروپی یونین کا فعال ترین کارکن بنایا جائے گا۔ وہ یوروپی یونین جو ترکی کو یوروپ کا حصہ تسلیم کرنے سے ہچکچاتی ہے۔ ترکی عالمی امن و استحکام کو بڑھانے میں اپنا فعال ترین کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ اسکے تحت عوام کے لئے معالجین یعنی ڈاکٹرز  کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا اس ویژن میں یہ چیز شامل ہے کہ کوئ ایک ترک شہری بھی ایسا نہ ہو جسےہیلتھ انشورنس حاصل نہ ہو۔ٹرانسپورٹ کے شعبے میں گیارہ ہزار کلو میٹر ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ ہے۔ایسی بندرگاہ بنانے کا منصوبہ ہے جو دنیا کی پہلی دس بندر گاہوں میں شامل ہو۔ ہوائ جہاز کہ صنعت میں خود کفالت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دو ہزار تئیس تک ترکی کو دنیا کا پانچوں بڑا سیاحتی مرکز بنایا جائے گا۔ جس سے اسے پچاس ارب ڈالر کا ریوینیو ملے گا۔
یہ پورا ویژن، ترکی کو معاشی، سطح پہ مضبوط بنانے کے ارادے کو ظاہر کرتا ہے۔ کساد بازاری کے اس دور میں جب دہشت گردی اور جنگ کی وجہ سے ہماری معیشت بد حالی کا شکار ہے۔ ترکی اس وقت دنیا کی بلند ہوتی ہوئ معیشتوں میں سے ایک ہے۔
اس ویژن دو ہزار تئیس میں جو ترکی کی اسلام پسند جماعت کی طرف سے پیش کیا گیا ہے ایسی کوئ ایک شق نظر نہیں آتی جس میں ملک میں نظام شریعت کے قیام زور دیا گیا ہو۔ جس میں جہاد اور جہادی قوتوں کی پشت پناہی کا عزم کیا گیا ہو۔ جس میں دفاعی طاقت کو بڑھانے کا اظہار ہو۔  جس میں اسکولوں یا تعلیمی سطح پہ نصاب کو اسلامی بنانے کا ارادہ ظاہر کیا گیا۔ جس میں خواتین کو چادر اور چار دیواری میں بند کرنے کا عندیہ دیا گیا ہو۔ جس میں مغربی قوتوں سے نفرت کا اظہار کیا گیا ہو۔
ایک ایسے ترکی میں جو اب سے چند سال پہلے میں نے دیکھا اور جو اب بھی کم و بیش ایسا ہی ہے کہ میرے ایک عزیز پچھلے سال وہاں گئے اور اسے ویسا ہی پایا۔ جیسا میں نے دیکھا تھا۔ اسلام پسندوں کی کامیابی کیا وہ معنی رکھتی ہے جو ہمارے یہاں کے شدت پسند سمجھ رہے ہیں اور سمجھانا چاہتے ہیں۔ میرا تو خیال ہے کہ ہمارے مذہب پرست وہاں کی عام زندگی کو دیکھیں تو ترکوں کے اسلام پہ لعنت بھیج کر فی الفور انہیں کافر قرار دے دیں گے۔
میں تو سمجھتی ہوں کہ ہم میں سے ہر وہ شخص جو ترکی جانے کے وسائل برداشت کر سکتا ہو اسے ضرور صرف چار دن ہی سہی استنبول میں ضرور گذارنے چاہئیں۔ بالخصوص وہ جو شدت پسندوں سے ہمدردی کا رجحان رکھتے ہیں۔ انہیں وہاں جا کر اندازہ ہوگا کہ باوجود تمام آزادی اور مذہب کے عدم پروپیگینڈے کے ترکی میں مذہب پسند اپنی مرضی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ اور غیر مذہب پسند اپنی مرضی کی۔ ترکی ایک سیکولر ملک ہے۔
کہیں پر بھی لوگوں نے ہمیں اس وجہ سے اہمیت نہیں دی کہ ہم پاکستانی مسلمان ہیں۔ کسی نے ہم سے ہمارا فقہ نہیں پوچھا۔ کسی نے ہم سے دینی مسائل پہ بات نہیں کی۔ کسی کو فکر نہیں تھی کہ ہم نماز پڑھتے ہیں یا نہیں، ہم شراب پیتے ہیں یا نہیں۔ میں سر پہ دوپٹہ اوڑھتی ہوں یا نہیں۔ کوئ میری نماز کی وجہ سے مجھ پہ صدقے واری نہیں ہو رہا تھا۔ کوئ مجھے شراب نہ پینے کی وجہ سے ستائشی نظروں سے نہیں دیکھ رہا تھا۔  کسی کو ملت اسلامیہ کے پارہ پارہ ہوجانے کا صدمہ نہیں تھا۔ کسی کو خلافت کی تجدید سے دلچسپی نہیں تھی۔
یہ بھی حیرانی کی بات ہے جسٹس پارٹی نے الیکشن کے دوران مذہب کو اپنی تشہیری مہم میں استعمال نہیں کیا۔ بلکہ انکا موٹو ترکی کی مجموعی ترقی رہا۔
کیا یہاں مجھے یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہمارے یہاں مذہبی جماعتیں کیا رول ادا کرتی ہیں اور وہ ملکی سطح پہ کسی بھی قسم کے ویژن سے کیسے بالکل محروم ہیں۔ اتنی محروم ہیں کہ ایسا کوئ قانون بنانے میں مدد نہیں کر سکتیں جسکی رو سے خواتین کو سر عام برہنہ پھرانے والے کے لئے عبرت ناک سزا رکھی جا سکے یا خواتین پہ تیزاب پھینکنے والوں کو خوفناک انجام کے سامنے کا ڈر ہو۔ درحقیقت وہ اور انکے پیروکار ایسے واقعات کی مذمت تک کرنے سے گھبراتے ہیں۔ یہ مذہبی جماعتیں نوجوانوں کو ملک کی ترقی کی توانائ بنانے کے بجائے اپنے مفادات کی جنگ کو جہاد کا نام دے کر ان نوجوانوں کو اس کا ایندھن بناتی ہیں۔ 
میں حیران ہوتی ہوں۔ جب یہ لوگ ترکی کے اسلام پسندوں کی ترکی میں فتح پہ تالیاں بجاتے ہیں تو آخر یہ کیا سوچ رہے ہوتے ہیں۔ کیا سوچتے ہیں یہ لوگ؟  سمجھ میں نہیں آتا کہ ٹھرکی کون ہے؟

Tuesday, June 21, 2011

چھاتی کا کینسر

میں خواتین کے خاص ملبوسات کے اسٹور پہ ایک ساتھی خاتون کے ساتھ موجود تھی۔ جب میری ساتھی خاتون نے مجھے ٹہوکا دیا۔ ان خاتون کو کچھ خاص چیز چاہئیے۔ انہوں نے سرگوشی کی۔ اسکی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ لڑکی عبایہ پہنے ہوئے تھی اور سر پہ سختی سے اسکارف باندھا ہوا تھا۔ لیکن اس چھبیس ستائیس سال کی پیلاہٹ مائل سفید رنگت والی لڑکی کے چہرے پہ نظر پڑتے ہی میری نگاہ اسکی آنکھوں کے گوشوں  میں گم آنسوءووں پہ ٹہر گئ۔
میری چھٹی حس نے کہا ، وہ چھاتی کے کینسر کا شکار ہے۔ اسکی ایک چھاتی کو آپریشن کر کے کاٹ کر نکالا جا چکا ہے ۔ ابھی اسکی کیمو تھراپی یا چل رہی ہے یا حال میں ختم ہوئ ہے۔ جسکی وجہ سے اسکے سر کے سارے بال جھڑ چکے ہیں اس لئے اس نے اتنی سختی سے اسکارف لپیٹ رکھا ہے۔
یہ سب باتیں،  پلک جھپکتے میں  میرے ذہن میں آگئے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ میں اس بارے میں تفصیل سے پڑھ چکی ہوں جو معلومات مجھے حاصل ہوتی ہیں انہیں یاد رکھتی ہوں۔ جبکہ میری ساتھی خاتون کو اس بارے میں اتنا علم نہیں تھا  اس لئے وہ سمجھیں کہ وہ لڑکی اپنے جسم کی ساخت کو بہتر بنانے کے لئے کوئ خاص قسم کا زیر جامہ چاہتی ہے۔
ہم دونوں، اپنے علم کی بنیاد پہ دو مختلف رائے  پہ پہنچے۔ اس اثناء میں اسٹور کا دروازہ کھلا اور ایک اور لڑکی اندر داخل ہوئ۔ وہ اس لڑکی کو دیکھ کر بے حد خوش ہوئ اور ایک دم گلے لگ گئ۔  وہ دونوں دوستیں بہت عرصے بعد مل رہی تھیں۔ لیکن اسکے گلے لگتے ہی عبایہ والی لڑکی رونے لگ گئ۔ اسے اسٹول پہ بٹھا کر دوست اس کا احوال پوچھنے لگی۔
یوں انکی ہلکی ہلکی باتوں سے پتہ چلا کہ اس لڑکی کی شادی کو پانچ سال ہوئے ہیں ۔ تیسرے بچے کی پیدائش کے تین مہینے بعد اسے لگا کہ چھاتی میں گٹھلی ہے۔ ڈاکٹر کو دکھایا ٹیسٹس ہوئے اور پتہ چلا کہ اسے چھاتی کا کینسر ہو گیا ہے۔
 وہ نوجوان لڑکی اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے اپنی دوست سے کہہ رہی تھی۔ ابھی تو میرے بچے بہت چھوٹے ہیں۔ حالانکہ وہ خود بھی اس مرض کے لئے چھوٹی تھی۔ پچھلے چھ مہینے میں ، میں چھ خواتین کے بارے میں سن چکی ہوں کہ وہ اس کا شکار ہو گئیں۔
 پاکستان میں ہر نو میں سے ایک خاتون اس جان لیوا بیماری کا شکار ہوتی ہے۔ لاحق ہونے کی صورت میں کسی ترقی یافتہ ملک کی نسبت جان سے گذرنے کا امکان بھی کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
کسی بھی قسم کا کینسر ہونے کی سب سے بنیادی وجہ زندگی گذارنے کا انداز ہے اور دوسری اہم وجہ خاندان میں  اس مرض کا پایا جانا ہے۔
بریسٹ کینسر جن خواتین میں پائے جانے کا زیادہ امکان ہے وہ یہ ہیں۔
جن کے خاندان میں یہ مرض پہلے کسی کو ہو چکا ہو، ماں اور باپ دونوں کی طرف سے۔ ایک غلط خیال یہ ہے کہ صرف ماں کے خاندان میں  پایا جائے تو ہی امکان ہوتا ہے۔
وراثتی طور پہ ہی منتقل نہیں ہوتا۔ بلکہ  دیگر خواتین بھی زیادہ رسک پہ ہوتی ہیں۔ ان میں وہ جو بے اولاد ہوں۔ یا جنکے بچے تیس سال کی عمر کے بعد ہوئے ہوں۔
جنکے مخصوص ایام کم عمری میں ہی شروع ہو گئے ہوں جیسے دس گیارہ سال کی عمر میں۔
جنکے مخصوص ایام زیادہ عرصے تک چلتے رہے ہو۔ جیسے پچپن سال کی عمر کے بعد بھی۔
سن یاس یعنی ایام بند ہو جانے کے بعد اسکے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس طرح نوجوان خواتین کے مقابلے میں زیادہ عمر کی خواتین زیادہ شکار ہوتی ہیں۔
جو خواتین اپنے بچوں کواپنا دودھ نہیں پلاتی ہیں  وہ  زیادہ خطرے میں ہوتی ہیں۔
وہ خواتین جو شراب نوشی کرتی ہیں۔

امکان زیادہ ہونے کا ایک مطلب یہ ہے کہ ایسی خواتین کو معمولی علامتوں کو بھی سنجیدگی سے لینا چاہئیے۔ یہ بالکل ضروری نہیں کہ اگر خاندان میں کسی کو ہو چکا ہو تو لازماً دوسری خواتین کو بھی ہوگا ۔  اسی طرح جنکے اولاد نہیں یا جنہوں نے اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلایا انہیں ضرور ہوگا۔ انہیں نہیں  بھی ہو سکتا اور اسکو ہو سکتا ہے جس کے ایک درجن بچے ہوں جن میں سے ہر ایک کو اس نے دودھ پلایا ہو۔  جنکے خاندان میں کسی کو کبھی نہیں ہوا انکو بھی ہونے کے امکانات ہوتے ہیں اور اس طرح ایک اور وجہ طرز زندگی نکل آتی ہے۔
آپ کس طرح زندگی گذارتے ہیں اس پہ آپکی صحت کا دارومدار ہوتا ہے۔ بریسٹ کینسر کے سلسلے میں وہ خواتین جو  غذا کو رکھنے کے لئے پلاسٹک کی اشیاء کا استعمال کرتی ہیں زیادہ اس کا شکار ہوسکتی ہیں۔ پانی کی بوتل جو دھوپ میں دیر تک رکھی رہے زہر بن جاتی ہے۔ ان دوکانوں سے جہاں یہ باہر دھوپ میں رکھی ہوتی ہیں لینے سے گریز کریں اور دوکانداروں کو نصیحت کریں کہ پانی کی بوتلوں کو اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء جو پالسٹک پیکنگ میں ہوتی ہیں دھوپ میں نہ رکھیں۔ اسی طرح مائکرو ویو اون میں کھانا گرم کرنے کے لئے پلاسٹک کی اشیاء کا استعمال، ہوٹل سے کھانے یا روٹی لانے کے لئے پلاسٹک کی تھیلوں یا پلاسٹک کے برتن کا استعمال یہ سب ایک خطرہ ہے آپکی صحت کے لئے۔
تنگ زیر جامہ کا استعمال، چھاتیوں میں خون کی ترسیل کو آہستہ کر دیتا ہے۔ جس سے زہریلے مواد کے جمع ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ یہ یاد رہنا چاہئیے کہ خواتین میں تولیدی ہارمون کا سب سے زیادہ ذخیرہ چھاتیوں اور بچہ دانی میں پایا جاتا ہے۔ یہ ہارمون دیگر  زہریلے مرکبات کو بھی آسانی سے دوست بنا لیتا ہے۔ یوں آہستہ آہستہ ان میں کینسر کے خلئیے جنم لینے لگتے ہیں۔ صرف چھاتی ہی نہیں اکثر لوگوں کو ازار بند ٹائیٹ باندھنے کی عادت ہوتی ہے یہ بھی کینسر کو جنم دے سکتا ہے۔ کوشش کریں رات کو سوتے وقت ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنیں۔
ہم وہ ہوتے ہیں جو ہم کھاتے ہیں۔ ایک کہاوت ہے۔ لیکن درست ہے۔ سادہ کھانوں کی عادت ڈالیں۔ کھانا جتنا بھونا جاتا ہے، تلا جاتا ہے، بیک کیا جاتا ہے یا کوئلوں پہ سینکا جاتا ہے اتنا اس میں زہریلے مرکبات زیادہ بنتے ہیں۔ یعنی ایسے مرکبات جو کینسر پیدا کر سکتے ہیں۔ 
سادہ کھانا کھائیے، تازہ پھل اور سبزیوں کو اپنی روز کی خوراک کا حصہ بنائیے۔ بازار سے لانے کے بعد سبزی اور پھلوں کو اچھی طرح دھولیں۔ تاکہ ان پہ موجود کیمیائ کھاد اور جراثیم کش ادویات  اچھی طرح صاف ہو جائیں۔

تیل یا چکنائ کا ستعمال کم کریں۔ تیل یا چکنائ میں زہریلے مرکبات جذب کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ وہ اسے جسم میں زیادہ دیر تک رکھ سکتے ہیں۔ یوں خلیوں کے عمل میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں۔

اپنے وزن کو مقررہ حدوں کے اندر رکھنے کی کوشش کریں۔ سو بیماریوں کی ایک بیماری موٹاپا ہے۔

لائف اسٹائل میں سب سے اہم چیز ورزش ہے۔  اگر ہم ایک ایسی زندگی گذارتے ہیں جس میں حرکت کم ہوتی ہے تو ہمارے جسم کے تمام حصوں تک خون کی ترسیل مناسب نہیں ہو پاتی۔ وہ حصے جہاں خون کی ترسیل آہستہ ہوتی ہے وہاں زہریلے مرکبات کے جمع ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ ورزش ہمیں یہ فائدہ دیتی ہے کہ جسم کے تمام اعضاء حرکت میں آتے ہیں۔ اور بہتر خون اور آکسیجن حاصل کرتے ہیں۔
خواتین عام طور پہ سمجھتی ہیں کہ گھریلو امور کو انجام دینا ہی ورزش ہے۔ یہ خیال اتنا درست نہیں ہے۔ ورزش کے نتیجے میں آپکے دل کی دھڑکن بڑھنی چاہئیے۔ اور جسم کے تمام اعضاء کو کام کرنا چاہئیے۔ چھاتی کے کینسر سے بچاءو کے لئے ایسی ورزشیں کیجئیے جسکے نتیجے میں آپکے بازو اور چھاتیوں میں کھنچاءو پیدا ہو۔
خواتین کی ورزش کے حوالے سے ہم کسی اگلی پوسٹ میں بات کریں گے۔
چھاتیوں کی جانچ ہر مہینہ ایام مخصوصہ ختم ہونے کے بعد ایک خاتون خود بھی کر سکتی ہے۔ اسکے لئے چھاتیوں اور اپنی بغل کے غدودوں کو چیک کرنا ہوتا ہے۔ ان میں کسی بھی قسم کی گٹھلی کی موجودگی یا درد کی صورت میں قابل اعتماد ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ بیشتر خواتین خاص طور پہ وہ جو شادی شدہ نہیں ہوتیں  بے جا شرم کی وجہ سے اتنا بڑھا لیتی ہیں کہ پھر یہ علاج سے باہر ہو جاتا ہے۔ اگر کینسر کا اثر لمف نوڈز یا ہڈی کے گودے تک بڑھ جائے تو یہ ایک خطرناک حالت ہوتی ہے۔
 چھاتی ایک خطرناک جگہ ہے۔ یہاں ایسٹروجن اور چربی سب سے زیادہ موجود ہونے کی وجہ ایک معمولی عام گٹھلی بھی اگر اسکا علاج نہ کیا جائے تو کینسر کا باعث بن سکتی ہے۔
چھاتی میں اگر گٹھلی محسوس ہو تو اسکی گرم سینکائ کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ گرم سینکائ جسم کے اندرونی زخم کو کینسر کے زخم میں تبدیل کر سکتی ہے۔  مستند ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ اگر ڈاکٹر میمو گرافی ٹیسٹ کرانے کا مشورہ دے تو بلا تاخیر کرائیے۔ 
چھاتی میں موجود تمام گٹھلیاں کینسر نہیں ہوتیں۔ اس لئے گٹھلی موجود ہونے کی صورت میںجب تک ٹیسٹس کی رپورٹ نہ آجائیں اور ڈاکٹر کوئ حتمی رائے نہ دے دے۔ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔
چھاتی کے کینسر کی تشخیص میمو گرافی کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اس میں خاص ٹیکنیک کے ذریعے چھاتی کا ایکسرے اور الٹرا ساءونڈ ہوتا ہے۔ اور مٹر جتنے چھوٹے سائز کی گٹھلی کا بھی پتہ چلایا جا سکتا ہے۔ میموگرافی ایک مہنگا ٹیسٹ ہے اسکی فیس تین سے پانچ ہزار روپے تک ہو سکتی ہے۔ ہر جگہ یہ سہولت میسر بھی نہیں ہے۔ پاکستان میں تیزی سے پھیلتے اس جان لیوا مرض کی تشخیص کے لئے اس ٹیسٹ کوجہاں سستا کرنے کی ضرورت ہے۔ وہاں اس امر کی بھی ضروت ہے کہ ایسی موبائل وینز ہوں جو دیہی علاقوں میں جا کر وہیں پہ یہ ٹیسٹ انجام دے سکیں۔
کراچی میں ، میں نے سنا کہ ڈاکٹر شیر شاہ کی زیر نگرانی سول ہسپتال میں ایک ایسی وین بنائ جا چکی ہے۔
کچھ گٹھلیاں ایسی جگہ موجود ہوتی ہے جہاں سے وہ اس ایکسرے میں بھی نہیں آپاتیں۔ لیکن ایسے کیسز بہت کم ہوتے ہیں۔ زیادہ تر حالات میں اس ٹیسٹ سے خاصی مدد مل جاتی ہے۔
پینتالیس سال کے بعد احتیاطاً میمو گرافی کرا لینی چاہئیے۔ وہ خواتین جو سن یاس میں داخل ہو چکی ہیں انہیں ۔ میموگرافی کرانی چاہئیے۔ تاکہ اس قسم کی کسی صورت حال کو ابتداء ہی میں پکڑا جا سکے۔
مرض اگر زیادہ پھیل گیا ہو تو سی ٹی اسکیننگ بھی کی جاتی ہے۔ تاکہ مزید متاثرہ حصوں کی تفصیلات سامنے آجائیں۔ اس کا درست مشورہ ایک ڈاکٹر ہی دے سکتا ہے۔
ایک دفعہ گٹھلی کا مقام پتہ چل جائے تو اسکی حتمی تشخیص کے لئے بائیوپسی کی جاتی ہے۔ اسکے لئے گٹھلی میں سرنج داخل کر کے تھوڑا سا مواد حاصل کرتے ہیں جسے بعد ازاں کینسر سیلز کی موجودگی معلوم کرنے کے لئے چیک کیا جاتا ہے۔ یہ نیڈل بائیوپسی بھی کہلاتی ہے۔ اسکے علاوہ اوپن بائیوپسی بھی کی جاتی ہے۔
اسکے علاج کا انحصار مرض کی شدت اور مریض کی حالت پہ ہوتا ہے۔ اگر مرض ابتدائ حالت میں ہو تو ریڈیو تھراپی یعنی شعاعوں کے ذریعے علاج،  کیمو تھراپی یعنی دواءوں کے ذریعے علاج  یا لمپیکٹومی یعنی گٹھلی کو آپریشن کے ذریعے الگ کردیتے ہیں۔ زیادہ محفوظ صورت حال میں رہنے کے لئے بعض اوقات  میسٹیکٹومی یعنی متائثرہ حصے کو مکمل طور پہ کاٹ کر الگ کر دینے  سے مرض سے چھٹی حاصل کی جا سکتی ہے۔  بعض اوقات دو مختلف طریقے ایک ساتھ استعمال کئے جاتے ہیں۔ اگر یہ بعد کے مراحل میں داخل ہو جائے تو مریض کا عرصہ ء حیات ہی بڑھانے کی کوشش کی  جا سکتی ہے۔
کیمو تھراپی یا ریڈیو تھراپی کے ذیلی اثرات خاصے شدید ہوتے ہیں۔ اسکے لئے پہلے سے ذہنی طور پہ مریض اور گھر والوں کو تیار رہنا چاہئیے۔
علاج کے لئے ایک ڈاکٹر جو بھی مشورہ دے بہتر ہے کہ اسے شروع کرنے سے پہلے کسی اور ڈاکٹر سے بھی مشورہ لے لیا جائے۔ صرف بریسٹ کینسر ہی نہیں بلکہ کسی بھی سنگین مرض میں ایک سے زائد ڈاکٹر سے مشورہ ایک مریض کا حق ہے۔ 
جن مریضوں کی چھاتی الگ کر دی جائے انکے لئے یہ خاصہ مورال کم کر دینے والا سانحہ ہوتا ہے۔ عورت کی ظاہری خوب صورتی میں اسکی ظاہری ساخت کو ہر معاشرے میں بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ چھاتی کاٹ کر الگ کر دینے کی صورت میں  ایک عورت کی ظاہری خوبصورتی اس سے خاصی متائثر ہوتی ہے۔  بعض آپریشن کے ذریعے چھاتی کی ساخت کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔ اسکے علاوہ اب ایسے زیر جامے موجود ہیں جو دیکھنے  میں اسکی ظاہری شخصیت کو کم نہیں کرتے۔ لیکن بہر حال اسکا نفسیاتی اثر رہتا ہے۔
کسی بھی قسم کے کینسر کے مریض کو ہماری توجہ، محبت اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔  ایک عورت جب اس سانحے سے گذرتی ہے تو اسکا خاصہ امکان ہوتا ہے کہ اس کا جیون ساتھی اس سے منہ موڑ جائے، علاج کا خرچہ گھرانے پہ بوجھ بن جاتا ہے۔ خاص طور پہ ہمارے معاشرے میں جہاں عورتیں معاشی طور پہ خود کفیل نہیں ہوتیں اور اپنے تمام مسائل اور وسائل کے لئے اپنے گھر والوں کی طرف دیکھتی ہیں۔  خواتین کو اس نظام میں وہ اہمیت حاصل نہیں جو ایک مرد کو حاصل ہوتا ہے تو ایک بیمار ، اور جسمانی ساخت سے محروم عورت کا یہ مہنگا علاج کروانے کی ہمت بھی ہر کسی میں نہیں ہو پاتی۔
یہ بھی ہوتا ہے کہ مریض کے ڈپریشن سے دیگر لوگ گھبرا جائیں اور وہ بھی حوصلہ چھوڑ دیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں اس صورت حال سے نبٹنے کے لئے رضاکاروں کے گروپ ہوتے ہیں یا ہسپتال ہی میں ایسے یونٹ ہوتے ہیں جہاں مریض اور اس  کے اہل خانہ کی بھی نفسیاتی  تربیت ہوتی ہے۔
یہاں یہ بات جاننا ضروری ہے کہ بریسٹ کینسر کا شکار، مرد بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن ان میں اسکی شرح غیر معمولی طور پہ کم ہوتی ہے۔
چھاتی کے کینسر کی مریض عورت کو  بھی توجہ، محبت اور حوصلہ چاہئیے ہوتا ہے۔ اسے بے جا شرم  کی وجہ سے اس سے محروم نہ کریں۔

نوٹ؛ اس مضمون کی تیاری میں مختلف ذرائع سے مدد لی گئ ہے۔ پھر بھی کسی قسم کی غلطی کی نشاندہی یا مزید معلومات کے لئے مشکور ہونگی۔


Saturday, June 18, 2011

بنا ہے عیش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹی وی پہ ایک خبر گذر رہی تھی کہ کراچی میں  پاکستان کی سب سے بڑی فوڈ اسٹریٹ کا افتتاح ہو گیا ہے۔ ہمیں بھی خواہش ہوئ کہ  لاہور کی فوڈ اسٹریٹ کے درشن تو حاصل کر چکے۔ اب دیکھیں کہ کراچی کی فوڈ اسٹریٹ کیسی ہے جس کا نام ہے پورٹ گرانڈ۔ نام سے تو شاہوں کی چیز لگتی ہے، لیکن کراچی کی فوڈ اسٹریٹ شاہانہ کیسے ہو سکتی ہے؟  تین دن  ارادے باندھنے اور توڑنے کے بعد بالآخر ہم گھر سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
ایکسپریس وے سے نیچے اترے تو پولیس کی گاڑیاں موجود تھیں۔ ٹریفک بالکل رینگ رہا تھا۔ لگتا ہے ہم نے غلط دن چن لیا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بند ہو۔ اگلے دن معلوم ہوا کہ لیاری کے معروف باکسر ابرار حسین شاہ کو کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ میں مار دیا گیا۔ ٹریفک کے ہجوم سے باہر نکلے ہوٹل بیچ لگژری کی طرف گاڑی مڑی تو مجھے حیرانی ہوئ۔ یہ فوڈ اسٹریٹ اتنی خاص الخاص جگہ پہ کیوں ہے۔ یہاں عام لوگ کیسے پہنچ سکتے ہیں۔ اسے تو کسی عوامی جگہ پہ ہونا چاہئیے تھا۔


لیکن آگے چل کرجب شہر کی جدید ماڈل کی گاڑیاں  نظر آنے لگیں تو دل میں اور وسوسے آنے لگے۔ ہم تو عوامی ہونے کے چکر میں کچھ ایسے اہتمام سے نہ نکلے تھے۔ لیکن داخلی دروازے پہ اترتے ہی ہمارے سب وسوسے حقیقت کا روپ دھار چکے تھے۔

کراچی کے اور بیرون ملک ڈیزائینرز کے کپڑوں میں ملبوس لوگ، اپنے شیر خوار بچوں سے انگریزی میں گفتگو فرماتے لوگ۔ ہمارا دل تو یہ منظر دیکھ کر ہی ہٹ سا گیا۔


 
داخلہ ٹوکن فی آدمی تین سو روپے کا، اگر اندر کچھ کھالیں تو دو سو روپے اس میں سے منہا ہو جائیں گے یعنی ایڈ جسٹ ہو جائیں گے۔ اگر نہیں کھاتے تو آپ کا ہی نقصان ہے واپس نہیں ملیں گے۔ چھوٹے بچوں کے لئے رعایت۔ چھوٹے سے کیا مراد ہے یہ معلوم نہیں ہوا۔ ہمیں مل گئ۔ ہماری بیٹی ابھی چار سال کچھ مہینے کی ہے۔
داخل ہوتے ہی سامنے ایک چھوٹا سا شاپنگ ایریا بنا ہوا ہے جہاں مغربی ملبوسات اور   مغربی پرفیوم کی دوکان نظر آئ، جس پہ بڑا بڑا  لکھا تھا ماشاء اللہ۔ باقی دوکانوں کو دیکھنے کی ہم نے ضرورت محسوس نہیں کی۔ اندازہ ہو چلا تھا کہ کراچی کے طبقہ ء اشرافیہ یعنی ایلیٹس کے ذوق نظر کو سامنے رکھتے ہوئے مال مصالحہ رکھتی ہونگیں۔

ادھر اس طرف بڑھے جہاں ایک قطار میں کھانے پینے کی دوکانیں بنی ہوئیں ہیں تو  زیادہ تر بیرون ملک فاسٹ فوڈ کی دوکانیں نظر آئیں مثلاً ون پوٹیٹو، ٹو پوٹیٹو، اومور کا آئس کریم پارلر، سوشی جاپانی کھانا اور اسی طرح کی چنداور دوکانیں۔ سمندر کے ساتھ والے حصے پہ شیشے کی چھوٹی سی دیوار بنادی گئ ہے۔ اسکے ساتھ نوجوانوں کی ٹولیاں بیٹھی ہوئیں تھیں۔ خوش باش، آسودہ اور پر تعیش زندگی گذارنے والے نوجوان۔





چونکہ ہم لوگ بالکل بھی سینڈ وچز اور برگر کھانے کے موڈ میں نہیں تھے تو نظر انتخاب وہاں کی واحد مقامی کھانوں کی ایک دوکان پہ پڑی شیخ عبدالغفار کباب ہاءوس۔  لوگوں کی اکثریت کے ساتھ  شاید یہی مسئلہ تھا۔ اس وجہ سے وہاں خاصہ رش تھا۔ پتہ چلا کہ چالیس منٹ بعد باری آئے گی کہ بیٹھنے کی جگہ ملے۔


ہم نے سوچا اس سے تو بہتر ہے کہ انسان، بار بی کیو ٹونائٹ چلا جائے۔ وہ یہاں سے نزدیک ہے۔ لیکن پھر ٹوکن کے پیسوں کا خیال آیا اور رک گئے۔ چالیس منٹ مشعل کے ساتھ آرٹ اینڈ کرافٹ  فار کڈز میں گذارے۔
باری پہ اندر گئے۔ مزید صدمہ، مینو میں صرف چار  چیزیں شامل تھیں۔  آرڈر دیا۔ آدھ گھنٹے بعد جب وہ آئیں تو اندازہ ہوا کہ سرونگ خاصی کم ہے ایک شخص ، خاص طور پہ ایک مرد پیٹ بھر کے نہیں کھا سکتا۔ مزید کے لئے آرڈر دیا۔ کھانا بالکل عام مزے کا۔ پیسے چار سو روپے فی پلیٹ۔ تیس روپے ایک چپاتی۔
باہر نکل کر سوچا کہ سامنے گولا گنڈے والا کھڑا ہے اسے ٹرائ کرنا چاہئیے۔ لاہور کی فوداسٹریٹ پہ بڑے مزے کا ، خوب بڑا گولا گنڈا بناتا ہے۔ اپنے بچپن میں بھی گولے گنڈے پہ جان دیتے تھے۔ وہاں پہنچے تو معلوم ہو اکہ ایک گلاس میں  برف چور کر کے بھر کے اوپر سے مختلف سیرپ ڈال کر دے رہے ہیں۔ گولے گنڈے کی یہ توہین برداشت نہ ہوئ۔ ان سے پوچھا کہ ڈنڈی پہ نہیں ملے گا۔ فرمایا، ہم اسٹک پہ نہیں لگاتے۔
چناچہ ہم وہاں سے سٹک گئے۔ پر تعیش زندگی کے عادی لوگوں کے نخرے دیکھے۔ اور واپسی کا سوچا۔
رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ حساب لگایا کہ گھر پہنچنے میں ساڑھے گیارہ بج جائیں گے۔ساڑھے نو سے، ساڑھے گیارہ بجے والا لوڈ شیڈنگ کا ٹائم ختم ہو جائے گا۔ بس اس آءوٹنگ میں ایک مثبت  بات یہی نکلے گی۔
داخلی دروازے سے باہر کھڑے ویلے پارکنگ سے گاڑی کے باہر آنے کا انتظار کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ فٹ پاتھ پہ تین خواتین بڑے بڑے مدنی برقعے پھیلائے فٹ پاتھ پہ بیٹھی تھیں۔ انکے پاس ایک آٹھ نو سال کی بچی کھڑی تھی۔ اس نے بھی کالے رنگ کا عبایہ پہنا ہوا تھا اور اسکارف باندھا ہوا تھا۔
ایک طرف مغربی اور جدید لبادوں میں ملبوس فیشن ایبل خواتین کی لمبی قطار، درمیان میں ، میں اور دوسری طرف مدنی برقعے جو کہ ایک ایک بچی بھی پہنے ہوئے تھی۔  میں نے سوچا ہم تینوں ہی یہاں آکر مایوس ہوئے ہونگے۔ مدنی برقعے، مغربی لبادوں کو دیکھ کر اور مجھے بے حجاب دیکھ کر، مغربی لبادے مدنی برقعوں کو دیکھ کر یہ بھی یہاں موجود ہیں اور میں یہ سوچ کر  کہ کیا اب حکام کے پاس ہم جیسے عوام کے لئے پروجیکٹس ختم ہو گئے ہیں۔ شہر میں ہم اکثریت میں ہیں اور کثیر سرمائے سے عیاشی کے پروجیکٹس اقلیت کے لئے۔
جن  افضل لوگوں کے لئے آپ نے یہ سب کچھ بنایا، انہیں تو اب بھی اس میں کوئ قابل ذکر بات نہیں نظر آئے گی سوائے اسکے کہ لیٹسٹ ٹرینڈز فیشن کے دیکھنے اور دکھانے ہوں تو یہاں آجائیں۔  اندازہ ہے یہ اس طبقے کے نوجوان کو مصروف رکھنے کے لئے تیار کی گئ ہے۔ جو چائے کی پیالی میں طوفان اٹھائیں یا بیٹھ کر نیرو کی طرح بانسری بجائیں۔ البتہ یہ کہ الکوحل اور نشہ آور اشیاء پہ پابندی ہے۔ یہ زیادتی ہے۔ اس ماحول اور طبقے کے ساتھ۔




عام لوگوں کے لئے اول تو یہاں پہنچنا ہی مشکل ہے۔ یہاں پہنچ جائیں تو اس مہنگے، بے مزہ کھانے پہ اتنا کیوں خرچ کریں۔ پاکستان تو دور، فی الحال تو اسے کراچی کی بھی سب سے بڑی فوڈ اسٹریٹ نہیں کہا جا سکتا۔ اس سے تو بہتر ہے کہ بوٹ بیسن کی فوڈ اسٹریٹ چلے جائیں۔ وہ کہیں گے، اتنی دیر میں یہ بات سمجھ میں آئ۔ بوٹ بیسن آپکے لئے ، پورٹ گرانڈ ہمارے لئے۔
لیکن خیر، ہمارے کراچی کے بلاگرز چاہیں تو ایک میٹ اپ یہاں رکھ لیں۔  سمندر کے کنارے تازہ ہوا کے ساتھ رات کو پورٹ کی روشنیاں دیکھیں۔ احتیاط سے گفتگو فرمائیں۔ دل چاہے تو کچھ ہلا گلا کریں اور کھانے میں اپنے ٹوکن کے دو سو روپے استعمال کریں ۔ الگ سے کچھ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں۔ 
شاپنگ ایریا میں وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ غیر شادی شدہ، خوش شکل، خوش پوش، انگلش بہتر طور پہ بول لینے والے نوجوان چاہیں تو کسی اعلی خاندان کی حسینہ سے میل جول پیدا کرنے کے لئے یہاں پہ کوشش کر سکتے ہیں. ۔
اسکی مشہوری کرنے والے ادارے اپنا سلوگن تبدیل کر لیں۔ پاکستان میں ایلیٹس کے لئے مخصوص سب سے بڑی فوڈ اسٹریٹ۔ جسکی تعمیر میں امریکہ، اٹلی اور تھائ لینڈ کے ماہر اداروں نے حصہ لیا ہے۔
اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو عوام وہاں پہنچ کر صدمے کا شکار ہوتے رہیں گے۔ اور واپس آ کر کہیں گے  سب شہنشاہوں نے پیسے کا سہارا لے کر، ہم غریبوں کی بھوک کا اڑایا ہے مذاق۔ عوام کی بھوک کا مذاق اڑانا، اشرافیہ کے مستقبل کے لئے اچھا نہیں ہے۔ یہ تمام الہامی و اساطیری دانش کا کہنا ہے۔

شام آرہی ہے، ڈوبتا سورج بتائے گا
تم اور کتنی دیر ہو ، ہم اور کتنی دیر

Friday, June 17, 2011

زر، زمین، زن

کہتے ہیں  دنیا میں تمام جھگڑوں کا باعث تین چیزیں ہیں۔ زر، زمین اور زن۔ مجھے نہیں معلوم کہ نظریاتی اور مذہبی جھگڑے انکے درمیان کہاں فٹ ہوتے ہیں۔ اس لئے ممکن ہے کہ یہ مقولہ، معاشرتی جھگڑوں پہ زیادہ جچتا ہو۔ 
آپ میری اس رائے سے اختلاف کریں یا انکار، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ جھگڑے اپنی رفتار سے جاری ہیں اور جاری رہیں گے۔ آج ایک وجہ کو ختم کریں کل کسی اور نام سے اٹھ کھڑے ہونگے۔ اس لئے عقلمند لوگ، پرانے جھگڑے نہیں نبٹاتے۔  یہ جتنے پرانے ہوں، اتنی ہی مہارت سے لٹکائے رکھے جا سکتے ہیں۔ یوں بہت سے لوگوں کی دانش اور مہارت کا سکہ جما رہتا ہے۔ اگر پرانے جھگڑے  فی الفور نبٹا دئیے جائیں۔ تو ہر نئے جھگڑے پہ نئ مہارت حاصل کرنی پڑے گی۔ اس سے ارتقاء کی رفتار بڑھ جانے کا اندیشہ ہوگا۔ جس سے نئ مخلوقات سامنے آئیں گی۔ وہ دعوی کریں گی کہ یہ  جھگڑا ہمارا ہے اور ہم اسے بہتر طور پہ حل کر سکتے ہیں۔ لیجئیے  پھر نسلی تفاخر کی جگہ بننا مشکل ہو جائے گی۔ اس طرح، معاشرے کے تارو پود بکھر جانے کا خطرہ پیدا ہو جائے۔
تارو پود کے بکھرنے  سے ، غریب، ترقی پذیر معاشروں کو سب سے زیادہ ڈر لگتا ہے۔ کیونکہ ان تاروں کے بکھرنے میں  تبدیلی کا کرنٹ بہتا ہے۔ انہیں واپس انہی بنیادوں پہ ایستادہ نہیں کیا جا سکتا۔ جس سے پرانے جھگڑے مر جاتے ہیں۔ اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے ہیں اب رہائ ملی تو مر جائیں گے۔  اور پود کے متعلق مجھے بھی کچھ اندیشہ ہائے دراز لا حق ہیں۔ پورب جاءو یا پچھم، وہی کرم کے لچھن۔

اس سلسلے کو یہیں فل اسٹاپ لگا کر اپنے اصل موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ زر، زمین اور زن۔
پچھلے دنوں میں نے دوتحریریں پڑھیں۔ ایک مصری  ادیب علاء الاسوانی کی کہانی اور دوسرے ایک پاکستانی ادیب محمد اقبال دیوان کی کہانی۔ ایک کے پیچھے مصر  کا پس منظر اور اسکے سیاسی، معاشی و معاشرتی حالات جھانک رہے ہیں اور دوسرے میں پاکستان اپنی انہی تلخ حقیقتوں کے ساتھ موجود ہے۔ لیکن ان دو تحریروں میں ایک چیز مشترک لگتی ہے وہ مرد کا عورت سے رشتہ۔ اور یوں لگتا ہے دنیا کا  ہر انقلاب ان دونوں کے اس رشتے سے ہو کر گذرتا ہے۔ تو کیا دنیا کا ہر جھگڑا زر، زمین اور زن کے گرد گھومتا ہے۔
میری تو خواہش تھی کہ اقبال دیوان کی کہانی کو پورا ڈال دیتی ہے۔ کہ اس میں آجکا پاکستان جھلکتا ہے۔ لیکن یہ تیس صفحوں پہ مشتمل ہے۔
علاء الاسوانی کی تحریر کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی مسئلہ ہے۔ اس لئے دونوں کہانیوں کے کچھ صفحات کے اسکین شدہ حصے ہی مل پائیں گے۔ آج مصری ادیب کو پڑھیں۔ مصر کی تہذیب میں ویسے ہی  بڑی سحر انگیزیاں ہیں اسکے ادیب کا سحر دیکھیں۔ یہ حصہ انکے ناول عمارت یعقوبیان کے  دوسرے باب سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ مترجم ہیں محمد عمر میمن۔  شائع ہوا ہے دنیا زاد میں۔ اب دنیا زاد والوں کو مجھے اپنے ایڈورٹائزنگ سیکشن کاحصہ سمجھنا چاہئیے۔
:)




یہ اسکین شدہ صفحات ہیں۔ بہتر طور پہ پڑھنے کے لئے تصویر پہ کلک کیجئیے۔

Wednesday, June 15, 2011

ایک لیڈی ڈاکٹر کی ڈائری

احمد فراز نے کہا تھا کہ کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں، تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو۔
جس طرح بارش کا پانی مکان میں موجود ہر کمزوری کو عیاں کر دیتا ہے اور چھپانے کو کچھ باقی نہیں بچتا۔ اسی طرح پچھلے سال سیلاب نے ہماری معاشرتی اور معاشی ہر کمزوری کو سامنے لا کھڑا کیا۔ اسی میں سے ایک دیہی خواتین کی حالت زار ہے۔
دیہی خواتین جنہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انکی اپنی عمر کتنی ہے، وہ کتنے بچے پیدا کر چکی ہیں، ابھی کتنے اور پیدا ہونگے،  اگر حاملہ ہیں تو کتنا عرصہ گذر چکا ہے، اکثر اوقات اپنے بچوں کی تعداد سے بھی نا واقف ہوتی ہیں، نہیں جانتیں کہ انکے بچوں کی عمر کتنی ہے، انہیں اور انکے بچوں کو اگلے وقت کھانا ملے گا یا نہیں۔ سارا سارا دن انکے بچے جانوروں کے بچوں کی طرح کس کس گلی کی مٹی میں رلتے ہیں۔ یہ سب وہ نہیں جانتی، اور اس لئے وہ پاکستان کی قابل فخر روائیتی خواتین ہیں۔
اگر شہر کی کوئ عورت خواتین کے مسائل پہ بات کرنا چاہتی ہے تو یقیناً مغربیت پھیلانا چاہتی ہے۔ مغرب کی آزادی ء نسواں کی تحریک سے متائثر ہوگی اس لئے کہ افسردہ ترین بات یہ ہے کہ مغرب کے ذریعے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کون سی کمزوری کس سطح تک ہے۔ کیونکہ نہ ہم اپنے معاشرے سے آگاہ ہونا چاہتے ہیں۔ کوئ زبردستی ہمیں یہ سب سنا دے تو  نہ ہم انہیں تسلیم کرنا چاہتے ہیں ، نہ انہیں اپنے معاشرے کے لئے برا سمجھتے ہیں، نہ ان میں تبدیلی کے خواہشمند ہیں۔ 
سو میرے جیسی عام عورت جو نہ کسی این جی او سے تعلق رکھتی ہے نہ طبقہ ء اشرافیہ سے، اسے بھی یہ  کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے کہ خود تو ایک بچہ پیدا کرتی ہے باقی ملک کی عورتوں کے لئے چاہتی ہے کہ ایک بھی بچہ نہ پیدا کرے، مردوں سے نفرت کرتی ہے۔ جبکہ وہ اس بات سے ناواقف ہوں کہ میرا ایک بچہ کیوں ہے۔ اب ان ذہنوں کا کیا کیا جائے؟ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ جیسے ہی ایک خاتون، خواتین کو پیش آنے والے مسائل کا تذکرہ کرتی ہے ایک خاص طبقے کے مرد اس سے یہ معنی کیسے اخذ کر لیتے ہیں کہ اس خاتون کو مردوں سے نفرت ہے۔
یہ سب تبصرے ان  عام مردوں کے ہوتے ہیں جو غیرت مند ہوتے ہیں اسے بے حس پڑھا جائے۔
جو با شعور ہوتے ہیں اسے با سرور پڑھا جائے۔
جو روایت پسند ہوتے ہیں اسے اذیت پسند پڑھا جائے۔
جو مذہب پرست ہوتے ہیں اسے مذہب کش پڑھا جائے۔
جو معاشرے کا استحکام چاہتے ہیں اسے انکی انا کا استحکام پڑھا جائے۔
مگر یہ سب پڑھنے سے پہلے ایک  لیڈی ڈاکٹر کی ڈائری کے چند اوراق ضرور پڑھئیے جو انہوں نے سیلاب زدہ علاقے میں لوگوں کو طبی امداد فراہم کرتے ہوئے لکھے۔
ڈاکٹر نگہت شاہ کی اس تحریر کا ترجمہ ڈاکٹر آصف فرخی نے کیا ہے۔ عنوان اس کا ہے خیر پور ریلیف کیمپ۔ شائع ہوا ہے دنیا زاد کے مجموعے، 'جل دھارا' میں۔ پبلشر ہیں  اسکے شہر زاد۔
یہ اسکین شدہ صفحات ہیں۔ بہتر طور پہ دیکھنے کے لئے ان صفحات کو کلک کریں۔


Monday, June 13, 2011

بینک الحبیب فی الروایت المحدود

خواتین سے متعلق موضوعات کچھ زیادہ ہی ہیں۔ سوچتی ہوں ایک ہفتہ ء خواتین منانا پڑے گا۔ سب سے پہلے اپنے بالکل پاس سے شروع کرتی ہوں۔
کوئ چار پانچ سال پہلے میں نے سوچا کہ گھر کے قریب کسی بینک میں اکاءونٹ کھول کیا جائے۔ گورنمنٹ بینکس اکثر مشکوک رہتے ہیں سو نظر انتخاب بینک الحبیبب پہ پڑی۔ جب میں نئے اکاءونٹ کے لئے فارم لے آئ تو کسی نے  کہا کہ ایک اطلاع آپکو ہو کہ بینک الحبیب اپنے عملے میں کسی خاتون کو نہیں رکھتے۔ میں نے سوچا ٹھیک کہہ رہے ہیں میں نے بھی برانچ میں کسی خاتون کو نہیں دیکھا۔
چند دنوں بعد میری ملاقات ایک صاحب سے ہوئ جو بینک الحبیب میں کام کرتے تھے۔ ان سے دریافت کیا کہ سنا ہے آپ کے بینک میں خواتین کو جاب نہیں دی جاتی۔ ناراضگی سے کہنے لگے۔ بینک الحبیب ایک بہت بڑا ادارہ ہے۔ ہمارے سیٹھ، دنیا کا اور کاروبار کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ 
تو اس بیچ انکی کیا رائے ہے؟ میں نے اشتیاق سے پوچھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ملازمت کی ذمہ داری خواتین پہ نہیں آتی۔ 
اس بات کا فیصلہ وہ کیسے کر سکتے ہیں؟ میں نے پھر سوال داغا۔ کہنے لگے انہیں کاروبار کا تجربہ ہے، دنیا دیکھی ہے۔ میں نے کہا، دنیا تو میں نے بھی دیکھی ہے۔ آپ بھی ابھی فوراً گھر سے نکل کر دیکھ سکتے ہیں کہ شہر میں ایک بڑی تعداد ان خواتین کی ہوتی ہے جنکے مرد رشتے دار نہیں ہوتے۔ خواتین جنکے شوہر مرجاتے ہیں اور انکے بچے بھی ہوتے ہیں۔ خواتین جن کے مرد اتنا نہیں کما پاتے کہ انکی کمائ سے گھر عزت کے ساتھ چل سکے۔ کیا انہیں لاوارث چھوڑ دیا جائے۔ وہاں بنگلہ دیش میں تو یونس صاحب، انہی عورتوں کی وجہ سے ایسا نظام چلانے میں کامیاب ہوتے ہیں کہ خواتین کی خوشحالی کمیونٹی کی خوشحالی بن جائے اور نوبل پرائز حاصل کر لیتے ہیں ادھر آپکے سیٹھ  خدا جانے  کون سی دنیا دیکھنے کے بعد ایسی دانش سے بھر پور پالیسی بناتے ہیں۔
  ایسی بات پہ انہیں دیوار سے لگنا پڑا۔ سو اس سے چپک کر کہنے لگے اسکی وجہ ایک اور بھی ہے۔ وہ کیا ہے؟
جو وجہ انہوں نے بتائ وہ دیوار سے لگنے کے بعد کھائ میں گرنے والی تھی۔ ایسی وجہ بینک الحبیب کا نمک کھانے کے بعد ہی پیش کیا سکتی تھی۔
خواتین کی وجہ سے دفتری ماحول خراب ہوتا ہے۔ کام کی رفتار سست ہوتی ہے اور معیار خراب۔ پھر دفتری عملہ بےکار کے چکروں میں الجھا رہتا ہے۔ جس سے لوگوں کے اخلاقیات خراب ہوتے ہیں۔ 
  اگرچہ مجھے لوگوں کو انکے خاندانی حوالے دینا مناسب نہیں لگتا۔  لیکن جب مرد حضرات غیر خواتین کے بارے میں اتنے غیر ذمہ دارانہ بیانات دیں تو انکی قریبی خواتین کی یاد دلانا ضروری ہو جاتا ہے۔ تس پہ میں نے ان سے کہا کہ دو سال پہلے آپکی چھوٹی بہن نے ہاءوس جاب مکمل کیا اور پچھلے دو سال سے وہ آن جاب ہے۔ اکثر رات کو بھی ہسپتال میں رکنا پڑتا ہے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ انکی وجہ سے ہسپتال کا ماحول خراب ہو رہا ہے۔ اس پہ انہوں نے مجھے گھورا اور کہا کہ بہر حال بینک الحبیب کی پالیسی یہی ہے۔ ہم کیا کر سکتے ہیں۔
میں نے یہ کہنا مناسب نہیں سمجھا کہ آپ ایک آسان سا کام کر سکتے ہیں اور وہ یہ کہ اپنے سیٹھ کی اس بے وقوفانہ پالیسی کا دفاع کرنا چھوڑ دیں۔ دیوار اور کھائ سے نجات پانے کا آسان اور ہزاروں سال سے آزمودہ نسخہ۔
اس وقت میں نے اس بینک میں اکاءونٹ کھولنے کا ارادہ ختم کردیا۔ یہ کھلی منافقت ہے کہ ایک بینک خواتین سرمایہ کاروں کا سرمایہ تو لینے کو تیار ہو لیکن بدلے میں انہیں نوکری کی سہولت دینے کو تیار نہ ہو۔ یعنی میرا سرمایہ میری ہم جنسوں کے استعمال میں نہیں آ سکتا۔ تف ہے ایسے بینک پہ۔
قسمت کا چکر،  گذشتہ دنوں ایسی مجبوری آن پڑی کہ ہمیں ایک جوائینٹ اکاءونٹ کھولنا پڑ گیا۔ میں اور میرے شوہر دونوں ایک ساتھ بینک گئے اور اپنا عندیہ بتایا کہ ایک جوائینٹ اکاءونٹ کھولنا ہے۔ جو ہم دونوں کے نام پہ ہوگا لیکن اسے دراصل انہیں ہینڈل کرنا ہوگا۔ میرے شوہر صاحب نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ نو پرابلم، وہاں موجود شخص نے کہا۔ اور فارم نکال کر خود بھرنے بیٹھ گیا۔ جب اس نے لکھنا شروع کیا تو سب سے پہلے میرے شوہر کا نام لکھا۔ میرے شوہر صاحب نے پھر اسکی تصحیح کی کہ پہلے میری بیگم کا نام ڈالا جائے فرمایا۔ کسی کا نام بھی پہلے ہو کوئ فرق نہیں پڑتا۔ یہ آپکا جوائینٹ اکاءونٹ ہے۔ اچھا وہ خاموش ہو گئے۔
دس پندرہ دن بعد  میں نے کریڈٹ کارڈ کے لئے درخواست دی۔  فارم بھر کر دیا۔ کہنے لگے اس پہ توآپکا نام لکھا ہے۔ اکاءونٹ تو آپکے شوہر کے نام پہ ہے۔ منٹو کی طرح اس وقت میرا دل چاہا کہ اس پہ ایک چھوٹا سا ایٹم بم پھینک دوں۔ ابھی دس دن پہلے تو آپ کہہ رہے تھے کہ اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا۔ اور آج پڑتا ہے۔
ایسا کریں ناں ہم کریڈٹ کارڈ آپکے شوہر کے نام پہ جاری کر دیتے ہیں اور اسکے ساتھ آیک سپلیمینٹری کارڈ بھی ایشو کر دیتے ہیں۔ جوآپ استعمال کر سکیں گی۔
کیا آپکو یاد نہیں کہ آپکو بتایا گیا تھا کہ عملی طور پہ یہ میرا اکاءونٹ ہے۔ میں غصے میں مینیجر کے پاس گئ۔ کہنے لگے، مسکرا کر۔ آپ کا اور آپکے شوہر کا پیسہ ایک ہی تو ہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کریڈٹ کارڈ کس کے نام پہ ہے۔ جی، آپ مجھے یہ فلاسفی سمجھا رہے ہیں۔ یہ اکیسویں صدی ہے اور اس سے بہت فرق پڑتا ہے کہ کریڈٹ کارڈ کس کے نام پہ ہے۔ آپ یہ نہیں سمجھ رہے ہیں کہ کریڈٹ کارڈ میری ضرورت ہے۔ میں ملک سے باہر جاءوں تو کیا کرونگی۔ 
کیوں آپکے شوہر آپکے ساتھ نہیں جائیں گے۔ 
مسٹر مینیجر، یہ بالکل ضروری نہیں ہے کہ وہ میرے ساتھ جائیں۔ مجھے پہلے سمجھ لینا چاہئیے تھا کہ بینک الحبیب، جہاں خواتین کو نوکری نہیں دی جاتی۔ وہاں خواتین کلائینٹس کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوگا۔ 
نہیں نہیں، آپ ہماری قابل قدر کلائینٹ ہیں لیکن ایسا ہے کہ اکاءونٹ بنتے وقت آپکے شوہر کا نام پہلے آگیا ہے۔ پھر یہ کہ عام طور پہ کریڈٹ کارڈ شوہر کے نام پہ ہوتا ہے۔
جن خواتین کی شادی نہیں ہوتی یا بیوہ ہوتی ہیں انہیں آپ لوگ کریڈٹ کارڈ ایشو کرتے ہیں۔
جی ہاں کرتے ہیں، مگر اس صورت میں شوہر کا نام نہیں ہوتا۔
اس میں ہمارا قصوور، ان صاحب سے کہا بھی۔ مگر وہ اپنی بات پہ اڑ گئے کہ اس سے فرق نہیں پڑتا۔
جی بس ہمارے معاشرے میں رواج ہے کہ جب جوائینٹ اکاءونٹ کھولا جاتا ہے تو پہلے شوہر کا نام ہوتا ہے۔ اس لئے اس نے دھیان نہیں دیا۔ 
عجیب بات ہے عملے میں کوئ خاتون موجود نہیں پھر بھی اسکا دھیان ادھر ادھر گھوم رہا تھا۔  ایسا نہ ہو اسٹاف کا دماغ صحیح جگہ رکھنے کے لئے بینک کو صرف مرد حضرات کے لئے بینکنگ مخصوص کرنی پڑے۔ نئیں اس میں تو ان کا نقصان ہو جائے گا۔ وہ یہ کر سکتے ہیں کہ طالبانی قوتوں کے ہاتھ مضبوط کریں اور خواتین کے بجائے حوروں کے لئے بینکنگ کریں۔ میں نے یہ صرف سوچا، لیکن ان سے اتنا ہی کہا کہ
دھیان نہیں دیا، جبکہ ہم اس سے کہہ رہےتھے کہ ہمیں اس طرح چاہئیے۔
جی بس، میں معذرت خواہ ہوں یہ غلطی ہو چکی ہے۔
ٹھیک ہے میں کھڑی ہو گئ۔ اگر آپ مجھے میرے نام سے کریڈٹ کارڈ نہیں دے سکتے تو میں اپنی ساری انویسٹمنٹ واپس لے کر اپنا اکاءونٹ بند کرنا چاہونگی۔
اس بات پہ انکے مزاج ٹھکانے آئے۔ نہیں میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ چلیں ہم دیکھتے ہیں اس سلسلے میں کیا کیا جا سکتا ہے۔ آپ ایساکریں کہ کل آ کر معلوم کر لیں۔
اگلے دن انہوں نے اطلاع دی کہ ٹھیک ہے آپکو کریڈٹ کارڈ جاری کر دیا جائے گا۔ اگر میرے پاس وقت ہوتا تو ایک دفعہ پھر میں بینک الحبیب پہ تف بھیج دیتی۔
اگلے دن میں پھر اس سلسلے میں انکے پاس موجود تھی۔ اس دفعہ انہوں نے فارم خود بھرنا شروع کیا۔ نام کے لئے جب ٹائٹل کے انتخاب کا خانہ آیا تو خواتین کے لئے تین آپشنز موجود تھے۔ مس، مسز یا مز۔ جب وہ مسز کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا رہے تھے تو میں نے ان سے کہا کہ مسز نہیں مز۔
لیکن انہوں نے حیرانی سے کہا آپ تو شادی شدہ ہیں۔ جی ہاں شادی شدہ ہوں اور ایک خوشگوار شادی شدہ زندگی گذار رہی ہوں۔ لیکن بینک کو اس بات کی فکر نہیں ہونا چاہئیے کہ میں شادی شدہ ہوں یا نہیں ۔ اور اسٹاف کو پتہ ہونا چاہئیے کہ خواتین شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی یہ آپشن استعمال کر سکتی ہیں۔ اکیسویں صدی کے بینک الحبیب کو یہ تو سیکھنا پڑے گا۔
اب میں انتظار میں ہوں کریڈٹ کارڈ کے نہیں، بلکہ اسکے کہ اپنی اگلی اہم بینکنگ، بینک الحبیب کے ساتھ نہ کروں۔ اور موقع ملتے ہی یہاں سے بھاگ لوں۔   

Saturday, June 11, 2011

بے ننگ و نام

اس وقت جبکہ میں یہ لائینیں لکھ رہی ہوں۔ میرے چاروں طرف اندھیرا ہے۔  اگر آپ اکیسویں صدی کے پاکستانی ہیں تو سمجھ گئے ہونگے، یہ  اندھیرا چراغوں میں روشنی نہ ہونے کے باعث ہے۔  آٹھ گھنٹے روزانہ بجلی یہ آنکھ مچولی ہمارے ساتھ کھیلتی ہے۔ میں اپنے اردگرد رہنے والوں سے پوچھتی ہوں کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم اپنی باقی کی زندگی میں کوئ ایسا دن جی پائیں کہ سارا دن بجلی موجود رہے؟ وہ ہنس دیتے ہیں، چپ ہو جاتے ہیں۔ کسی کے پردے کی خاطر نہیں بلکہ اس لئے کہ تقدیر پہ  راضی برضا ہیں ۔
لیکن کیا کے ای ایس سی کے ان چار ہزار ملازمین کو بھی تقدیر پہ راضی ہوجانا چاہئیے۔ جنہیں کے ای ایس سی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بوجھ قرار دیتی ہے اور انہیں ملازمت سے فارغ کرنا چاہتی ہے۔ کیا واقعی کے ای ایس سی اتنی کنگال ہے کہ وہ چھوٹے گریڈ کے مزدوروں کی تنخواہ ادا نہ کر سکے۔ آئیے دیکھتے ہیں اس میں کتنا سچ ہے۔
پاکستان ٹو ڈے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق  نجی ملکیت میں جانے کے بعد کے ای ایس سی کی نئ انتظامیہ نے بجلی کی فراہمی کو بہتر بنانے کے بجائے ، کمپنی کی بہتری کے لئے جس نکتے پہ زور دیا وہ اشرافیہ کے طبقے کے لئے پر تعیش روزگار کا مہیا کرنا ہے۔ یوں کے ای ایس سی مزدوروں کی تنخواہ تو ادا کرنے کے قابل نہیں ۔ وہ انکی تحریک کے خلاف کروڑوں روپے خرچ کر کے اشتہارات  چلا سکتی ہے مگر وہ انہیں ملازمت پہ رکھنے سے قاصر ہے۔
یہاں ایک فہرست ہے جس میں چند چیدہ چیدہ شخصیات کے منظور نظر کس طرح اسی کنگال کے ای ایس سی سے  اپنی راتیں شب برات اور دن عید کر رہے ہیں۔
نوید حسنین ، پی ایم ایل کیو کے ایم این اے ہمایوں اختر  کے قریبی رشتے دار گروپ ہیڈ آف ریکوری کے طور پہ انتیس لاکھ لے رہے ہیں۔
نیات حسین، جو کہ پی پی کی ایم این اے شیری رحمن کے ایک رشتے دار ہیں، ٹیکنیکل گروپ ہیڈ کے طور پہ پچیس لاکھ روپے سے بہر مند ہو رہے ہیں۔
آئ ایس آئ کراچی کے سابق ہیڈ بریگیڈیئر مظہر احمد  اور ریاٹائرڈ بریگیڈیئر مسعود احمد، سیکیوریٹی چیف کے طور پہ پندرہ، پندرہ  لاکھ روپے ماہانہ لے رہے ہیں۔ انکی تقرری ایوان صدر سے براہ راست ہوئ۔
عاسر منظور، گروپ ہیڈ آف ہیومین ریسورسز کی حیثیت میں بیس لاکھ روپے ماہانہ لے رہے ہیں۔ یہ پہلے اتفاق فونڈری میں کام کرتے رہے۔ وہی اتفاق فونڈری جو شریف برادران کی ملکیت ہے۔ منظور صاحب پہ یہ الزام بھی ہے کہ وہ کے ای ایس سی انتظانیہ اور ورکرز کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
ضرار ناصر خان، جنرل مینیجر، عاسر کے بہنوئ ہیں انکی خوش قسمتی کے اٹھارہ مہینوں میں دو بار ترقی کے مزے چکھے۔ جبکہ انکی تقرری غیر قانونی سمجھی جاتی ہے۔ وہ بھی پانچ لاکھ حاص کرنے میں کامیاب۔ 
ایم کیو ایم کے صوبائ وزیر، عادل صدیقی کے بھائ آصف حسین  سات لاکھ تنخواہ لے رہے ہیں۔
اٹھارہ ریٹائرڈ فوجی کرنلز، کمپنی میں کام کرتے ہوئے پانچ لاکھ مہینہ تنخواہ لے رہے ہیں۔
ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والی ممبر اسمبلی ، شہر کے مشہور صنعت کار کی بیگم اور شو بز میں نام کمانے والی خاتون، خوشبخت شجاعت کے فرزند ارجمند جناب شہباز بیگ بطور ٹریننگ ڈائریکٹر، کنگال کے ای ایس سی سے پانچ لاکھ ماہانہ تنخواہ لے رہے ہیں۔
پی پی کے پیر مظہر الحق کے صاحبزادے بھی پانچ لاکھ روپے حاصل کرنے کی گنتی میں ہیں۔
یہ تقریباً ساڑھے سات سو لوگوں میں سے چند لوگوں کے نام ہیں جو کے ای ایس سی میں سیاسی جانبداریوں کے نتیجے میں موجود ہیں اور جنہیں لاکھوں روپے دے کر، کے ای ایس سی کے حکام سمجھتے ہیں کہ اب بیٹھ کر چین کی بنسی بجائیں
کے ای ایس سی کے وہ ملازمین جو اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں وہ ہنر مند ہیں جنکی تنخواہیں دس سے تیس ہزار کے درمیان ہیں۔
اس رپورٹ کو پڑھ کر چند سوال ذہن میں اٹھتے ہیں ۔ مثلاً ایسا کیوں ہے کہ ملک بھر میں جتنی ایگزیکیٹو پوسٹس ہوتی ہیں جہاں کام کرنے کو ککھ نہیں ہوتا اور پیسہ ہُن کی طرح برستا ہے یہ ساری پوسٹس چند خاندانوں کے درمیان کیسے بٹتی رہتی ہیں۔
یہ کیا بات ہوئ کہ  وہ لوگ جو ہنر مند ہوں جن پہ دراصل ایک ادارہ چل رہا ہو ان کے راضی یا ناراضی ہونے کی تو پراوہ نہ ہو اور وہ جو عہدے اور روپوں سے آگے کچھ نہیں جانتے انہیں راضی رکھنے کی کوشش میں تن من دھن سب لگا دیا جائے۔
یہ کہ ادارہ اپنے اصل کام پہ تو خرچ کرنے کو تیار نہ ہو۔ یعنی کے ای ایس سی بجلی کی پیداوار بڑھانے کے بارے میں تو کچھ خرچ کرنا نہ چاہتی ہو،  لیکن چند لوگوں کو خوش کرنے کے لئے اپنی آمدنی کا بیشتر حصہ ان پہ لگادے۔
کہانی یہیں پہ بس نہیں ہوتی۔ کے ای ایس سی کے پاس ان سارے اللے تللوں کے بعد جو پیسہ بچتا ہے وہ اپنے انہی نچلے طبقے کے ملازمین کے خلاف مہم چلانے اور اشتہار بازی پہ خرچ کرنے کو بھی غیر اخلاقی نہیں سمجھتی۔ وہ ملازمین، جو اس ملازمت سے علیحدہ ہوں تو اپنے خاندان کے لئے انکے پاس کچھ نہ ہو۔
مختلف سیاسی جماعتوں  سے استفادہ حاصل کرنے والے بادشاہ اور شہزادے یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ سونے کے انڈے دینے والی مرغی کو زندہ رکھنا ضروری ہوتا ہے وہ اگر اپنی عیاشیوں میں سے صدقے کے برابر بھی کمی کر لیں تو نچلے طبقے کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
اس معاملے کا مزید دلچسپ پہلو اس وقت سامنے آتا ہے جب مولوی صاحب بھی فتوی جاری کرتے ہیں کہ کے ای ایس سی کی انتظامیہ کے خلاف ورکرز کی تحریک غیر اسلامی ہے۔ 
لو وہ بھی کہتے ہیں کہ  یہ بے ننگ و نام ہے۔
 

Thursday, June 9, 2011

جانور وں کی تفریح

یہ آج کا قصہ نہیں۔ ہمیشہ کا دستور ہے کہ بلاگستان کی دنیا ویسے تو کراچی سے متعلق معمولی خبروں کے حوالے تلاش کرتی ہے اور اس سلسلے میں امّت جیسے  جانبدار صحافت کرنے والے اخبار کے حوالوں سے بھری تحاریر اکثر و بیشتر نمودار ہوتی ہیں ۔ لیکن کل کراچی میں جس طرح رینجرز کے ہاتھوں ایک نوجوان کو دل سوز طریقے مارا گیا اس پہ یہ سارے عناصر خاموش ہیں۔ شاید انہیں علم ہی نہیں کہ کس بربریت کے ساتھ کراچی کے ایک تفریحی پارک میں ایک نوجوان کو جو کہ اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا، موت کی گولی نصیب ہوئ۔
اس جانبداری کی وجہ یہ ہے کہ اس واقعے سے ایم کیو ایم کی مٹی پلید کرنے کا کوئ موقع نہیں بن رہا تھا۔ جبکہ ہماری بلاگی دنیا کی اکثریت اس بڑی جگہ سے تعلق رکھتی ہے جہاں پہ کراچی کی صرف وہ خبر پہنچ پاتی ہے جس کے ساتھ ایم کیو ایم  لگا ہو۔ اسکی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہی عناصر جو متعصب دل و دماغ کے ساتھ تمام انسانی احساسات سے محروم ہو چکے ہیں۔ انہیں یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں اس سے ایجنیسیز کا وقار مجروح نہ ہو جائے۔ ان ایجنسیز کا جس میں انکے پیارے بڑی تعداد میں شامل ہونگے۔
نتیجہ یہ ہے کہ اس خبر کو شاید اردو بلاگی دنیا میں  صرف ان لوگوں نے سنا ہوگا جو کراچی سے تعلق رکھتے ہیں وہ بھی اردو اسپیکنگ۔ نسلی تعصب آپ جانتے نہیں کیا ہوتا ہے، تو اب دیکھ لیجئیے۔
ان سب بے چاروں کو انکی حالت پہ چھوڑتے ہوئے، یہ چیز سمجھنے سے کم از کم میں قاصر ہوں کہ اس نہتے نوجوان کو سر عام گولی مارنے کی کیا ضرورت تھی۔ خروٹ آباد، کوئٹہ کے واقعے میں انہوں نے بات بنائ کہ وہ پانچوں چیچنز انہیں شبہ تھا کہ دہشت گرد تھے۔  یہ سوچا جا سکتا ہے کہ وہاں رینجر اہلکار خود کش حملہ آور کے ہونے کے احساس سے خوفزدہ ہو گئے تھے اور انہوں نے اپنے دفاع میں گولی چلا دی۔ اگرچہ کہ یہ بھی ایک کمزور دلیل ہی ہو سکتی ہے۔ سیکیوریٹی اہل کاروں کی تربیت آخر کس چیز کی ہوتی ہے۔
لیکن کراچی کے ایک بھرے پرے پارک میں ایک تلنگا سا نوجوان چھ سات رینجرز کے اہل کاروں کے درمیان مارا جائے اس طرح مارا جائے کہ وہ ہر ایک سے زندگی کی بھیک مانگ رہا ہو۔ یہ پورا منظر دیکھا نہیں جا سکتا۔ اس نوجوان پہ بھی الزام لگایا گیا  کہ وہ ڈکیتی یا چھیننے جھپٹنے کے واقعے میں ملوث تھا۔ یہ مان لیا جائے کہ وہ چور تھا ڈاکو تھا لیکن وہ رینجرز کے قابو میں آچکا تھا۔ فوٹیج بتاتی ہے کہ وہ نہتا بھی تھا۔ تو رینجرز کے بہادروں کو چھٹانک بھر کے لڑکے پہ یہ مردانگی دکھانے کی کیا ضرورت تھی؟ 
کیا انکی اس نفسیات کے پیچھے وہی نسلی تعصب تھا جو ہماری بلاگی دنیا میں بھی نظر آتا ہے، کیا یہ طاقت کا شو آف تھا یا یہ کہ  تیس سال سے مسلسل حیوانی سطح پہ سفر کرتے کرتے ہمارے اندر اب جینیاتی  میوٹیشن ہو چکی ہے اور دلی تسکین اور تفریح بس انسان کے خون  سے حاصل ہو سکتی  ہے زندہ انسان کے بہتے خون سے۔
میں آدھے درجن جانوروں کے درمیان ایک نوجوان کی ویڈیو دکھانے سے معذور ہوں۔ در حقیقت میں خود بھی دیکھ نہیں پائ۔

Wednesday, June 8, 2011

جن پہ تکیہ تھا

کچھ کتابوں کے کچھ صفحات اسکین کر کے ڈالنے کا ارادہ ہے۔ سوچا کس سے شروع کیا جائے۔ 
ٹی وی پہ آجکل ایک ٹاک شو میری دلچسپی لئے ہوئے ہے۔ یہ ہے سی این بی سی سے نشر ہونے والا پروگرام ایجینڈا تین سو ساٹھ۔ اسکی پہلی خوبی تو مجھے اسکے میزبان لگتے ہیں ۔ دو میزبان، دونوں  نوجوان۔ لیکن جتنی سادگی سے وہ اپنے مہمان کو گرفت میں لاتے ہیں ، وہ مزے کی چیز ہے۔ خاص طور پہ اسکا ایک میزبان عبدالمعید جعفری، اتنے سادہ اور پپو والے انداز میں کسی بھی گرم سوال کو اٹھالیتا ہے کہ شاید مہمان کو توقع بھی نہیں ہوتی۔
ابھی کچھ دنوں پہلے عمران خان اس پروگرام میں موجود تھے۔ معید ، نے اسی سادگی سے  پوچھا۔ یہ ہم مانتے ہیں کہ آپ میں کوئ کرپشن نہیں۔ لیکن الیکشن میں آپکو کسی نہ کسی کو تو ساتھ رکھنا پڑے گا۔ آپ کرپشن نہیں کرتے نہ اسلحہ استعمال کرتے ہیں لیکن کراچی کے دھرنے میں آپ نے سنی تحریک کی حمایت استعمال کی۔ انکی شہرت تو یہ نہیں ہے۔ پھر الیکشن میں یا اسکے بعد آپ کیا کریں گے۔
اس سوال پہ مجھےایک کتاب یاد آگئ۔  اسکا نام ہے مولانا مودودی کی تقاریر۔  جماعت اسلامی نے انیس سو پچاس میں پنجاب میں ہونے والے انتخابات میں حصہ لیا۔ جس کے لئے مولانا مودوددی صاحب نے انتھک محنت کی۔ انہوں نے اس سلسلے میں کیا اسٹریٹجی اپنائ ، وہ ان صفحات سے ظاہر ہے۔


 لیکن انتخابات کے بعد ہوا کیا۔ اسکا اندازہ اس صفحے سے لگایا جا سکتا ہے۔

نوٹ؛
تصاویر بہتر طور پہ دیکھنے کے لئے ان پہ کلک کیجئیے۔

Sunday, June 5, 2011

دروغ دروغ

کہتے ہیں جھوٹ کے پاءوں نہیں ہوتے اس لئے یہ زیادہ دیر قائم نہیں رہ پاتا لیکن کچھ اور لوگ کہتے ہیں کہ ایک سچ اپنے تسمے باندھ ہی رہا ہوتا ہے کہ جھوٹ ساری دنیا کی سیر کر کے آجاتا ہے۔ اب ایمانداری سے بتائیے آپکو کونسا کنکشن پسند آئے گا۔
جھوٹ بولا ، بنایا یا بَکا ہی نہیں جاتا بلکہ پکڑا بھی جاتا ہے۔ مگر کچھ لوگ اسے گھر پہنچا کر بڑا خوش ہوتے ہیں اور ہرجگہ سینہ پھلائے پھرتے ہیں کہ جھوٹے کو اسکے گھر تک پہنچایا، جھوٹا نہ ہوا محلے کی سب سے خوبصورت لڑکی ہو گیا۔
خوبصورت لوگ وہ بھی جنس مخالف کے اگر جھوٹ بولیں تو بالکل برا نہیں لگتا۔ خواتین کے معاملے میں جتنی کم عمر ہوں جھوٹ بولتے ہوئے اتنی حسین لگتی ہیں۔ مشرقی خواتین کو ماچو مردوں کا جھوٹ پسند آتا ہے۔ منمناتے ہوئے جھوٹے سے ڈپارٹمنٹ کے پیچھے والی دوکان سے صرف چھولوں کی پلیٹ منگوائ جا سکتی ہے۔ وہ بھی اسی کے خرچے پہ۔
یوں
بولے تو سہی جھوٹ ہی بولے وہ بلا سے
ظالم کا لب و لہجہ دل آویز بہت ہے
اس ظالم اور اسکے جھوٹ پہ اردو شاعری میں دیوان کے دیوان لکھے جا چکے ہیں۔ جو لگتا ہے کہ سب کے سب جھوٹ کے پلندے ہونگے۔ لیکن شاعر انہیں نسخہ ہائے وفا کہتے ہیں۔
جھوٹ کے پتلے بھی ہوتے ہیں۔ یہ  صرف جھوٹ سے بنے ہوتے ہیں اور جھوٹ کے پل بناتے رہتے ہیں۔ اگر وہ جھوٹ نہ بولیں تو پیٹ اپھر جائے۔ انکا نہیں پل بنوانے والوں کا۔ یہ دوسروں کو اتنی آسانی سے جھوٹا بناتے ہیں کہ بننے والے کو اپنے جھوٹا ہونے پہ صداقت کا احساس ہوتا ہے۔ انکا نعرہ ہوتا ہے کہ جھوٹ اتنا بولو کہ سچ معلوم ہونے لگے۔ ایسے لوگ اچھے درباری موءرخ ثابت ہوتے ہیں۔ اپنے زمانے میں بڑا نام کماتے ہیں۔ مگر بعد کے زمانے کے موءرخ ان سے دشمنی دکھاتے ہیں۔ اس طرح یہ سراب کی مانند مٹ جاتے ہیں۔ یوں ایک جھوٹا موءرخ دوسرے جھوٹے موءرخ کے حق میں سم قاتل ہوتا ہے۔  اس قتل و غارت گری کے بعد  تاریخ کا مضمون پڑھنے میں آسانی بھی ہوتی ہے اور دشواری بھی۔کیوں اس لئے کہ کس کا یقیں کیجئیے کس کا نہ کیجئیے۔ لائے ہیں اسکی بزم سے یار خبر الگ الگ۔  اس لئے ہم کتابوں کے بجائے سینہ بہ سینہ اور منہ بہ منہ چلی آنے والی تاریخ کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ سینہ اور منہ وہ جو ہمارے قبیلے کا ہو۔
حیران کن طور پہ، جھوٹ کے دفتر بھی ہوتے ہیں۔ جبکہ ایک عمر ہم یہی سمجھتے رہے کہ دفتر میں جھوٹ ہوتا ہے۔ دیکھا خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا۔ ایسے موقعوں پہ یقین آتا ہے کہ لا علمی کتنی بڑی نعمت ہوتی ہے۔ آخر کو ہم اس آگ کے دریا کو آگ کا دریا پڑھتے ہوئے پار کر آئے۔
مگر گھبرائیے نہیں جھوٹ ایکدم خالص نہیں ہوتا زیادہ تر باتیں جھوٹ سچ کے زمرے میں آتی ہیں۔ یعنی تھوڑا سا پگلا تھوڑا سیانا۔ اسی میں عافیت ہے۔
کسی زمانے میں  لوگ باگ عاجز تھے کہ جھوٹا مرے نہ شہر پاک ہو۔ بعد میں نہ معلوم وجوہات کی بناء پہ شہر پاک کرنے کی کوششیں ترک کر دی گئیں۔  کچھ لوگوں کو اس روایت سے اختلاف ہے کہتے ہیں کہ شہر نہیں ایک ملک تھا اور ایک نہیں سب ہی جھوٹے تھے۔   اللہ کی باتیں اللہ ہی جانے ہم تو یہ جانتے ہیں کہ جھوٹے کے آگے سچا روتا ہے۔  جہاں سچا روتا ہوا واپس آتا ہے وہاں جھوٹا ہنستا ہوا نکل جاتا ہے۔
اگر آپ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ جھوٹے کا منہ کالا اور سچے کا بول بالا تو  اس جھوٹ کی ناءو نہیں چل سکتی۔  اس جھوٹ کی پوٹ اس دن کھلے گی جس دن جھوٹا بات بنا لے گا اور پانی میں آگ لگا لے گا۔ اس لئے کہنے والوں نے اڑائ کہ سچے مر گئے جھوٹوں کو تاپ بھی نہ آئ۔ یہاں مرنے والوں سے میری مراد وہ صحافی سلیم شہزاد نہیں ہے، اور جھوٹے کون ہیں اس بارے میں ، میں اشارتاً بھی بات نہیں کرنا چاہتی۔ جسکو ہو دین و دل عزیز اسکی گلی میں جائے کیوں۔
ہم اور تیری گلی سے سفر، دروغ دروغ
کہاں  دماغ ہمیں اس قدر، دروغ دروغ


وضاحت؛
اس تحریر کی انسپیریشن فیروز اللغات سے حاصل کی گئ، سچی مچی۔

Saturday, June 4, 2011

او رے گیمی بولے تو اوری گیمی

وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی تو یاد ہوگا۔ لیکن کاغذ  ، ہاتھ اور خوشی کا تعلق،  بچپن کی ان کشتیوں  پہ نہیں ختم ہوتا۔  یہ مجھے اس وقت پتہ چلا جب ہمیں ایک جاپانی استاد ملے۔ یہاں وہ پہنچے تو انکی بیگم بھی ہمراہ تھیں۔ یہ  ستّر سالہ خاتون اکیلے یہاں کیا کرتی رہتی ہیں۔ جاپانی تو خدا پہ یقین نہیں رکھتے،  ایسا بھی نہیں کہ تسبیح گھماتے ہوئے آخری وقت کے سہل ہو جانے کا بندو بست کرتی رہتی ہوں۔ ہمارے شہر میں کوئ ڈھنگ کی تفریحی جگہ، میوزیم یا لائبریری کچھ بھی تو نہیں ہے۔ رشتے دار بھی نہیں کہ انکی غیبت کر کے وقت گذاریں، زبان بھی انہیں یہاں کی نہیں آتی کہ نوکروں سے حال احوال معلوم کرتی رہیں۔  آخر یہ کیا کرتی رہتی ہیں۔
کسی نے بتایا  بیشتر اوقات کاغذ کے کھلونے تیار کرتی ہیں۔ جب ایک معقول تعداد میں بن جاتے ہیں تو انہِن جاپان کے کسی اسکول بھجوا دیتی ہیں۔ کس قدر عجیب سنَکی ہوئ قوم ہے۔ کس قدر غیر دلچسپ چیز میں وقت لگاتی ہیں۔ کھلونے وہ بھی کاغذ کے۔
کاغذ کی جاپان میں بڑی اہمیت ہے۔ ہم چند لائینیں لکھ کر کاغذ کو پھینک دینے میں کوئ حرج نہیں سمجھتے۔ ہمارے جاپانی پروفیسر، جب کچھ سمجھانے بیٹھتے تو کاغذ کا سینٹی میٹر بھی نہ بچ پاتا۔ جب تک وہ اچھی طرح بھر نہ جاتا دوسرے صفحے پہ نہیں لکھتے تھے۔
خیر، میں کاغذ کے کھلونوں کے متعلق بتا رہی تھی۔ جاپانی زبان میں اس کے لئے ایک لفظ مخصوص ہے اور وہ ہے اوریگیمی۔ اس مخصوص طریقے میں کاغذ کو اس طرح تہیں دی جاتی ہیں کہ وہ ایک کھلونے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
اگرچہ کہ اسکے آغاز کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کیا جا سکتا کہ کاغذ کو محفوظ رکھنا مشکل ہوتا ہے اور اسکے قدیم نسخے اس وجہ سے دستیاب نہیں۔ اس لئے چین اور یوروپ کا بھی نام لیا جاتا ہے کہ وہاں پہ  یہ ایک ہزار عیسوی کے دوران موجود تھی۔ لیکن ثبوت اس کا موجود ہے کہ اس کا باقاعدہ آغاز جاپان میں سترہویں صدی میں ہوا اور انیسویں صدی میں اسکی شہرت جاپان سے باہر پھیلنا شروع ہوئ۔ ایہارا سائکاکو ایک کی نظم میں کاغذ کی تتلیوں کا تذکرہ ہے یہ سترہویں صدی کا ایک جاپانی شاعر ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تقریباً ایک ہزار عیسوی میں میں جاپان میں شادیوں میں کاغذ کو تہہ کر کے تتلیاں بنانے کی روایت موجود تھی۔
اوریگیمی کے لئے جاپان میں مخصوص کاغذ استعمال ہوتا ہے جسے واشی کہتے ہیں۔ یہ مخصوص کاغذ اس طرح تیار کیا جاتا ہے کہ  تہوں کو برداشت کر سکے ۔ یہ ڈھائ سینٹی میٹر سے پچیس سینٹی میٹر تک کے سائز میں ملتے ہیں۔ عام طور پہ ایک سطح سفید اور دوسری رنگدار ہوتی ہے لیکن ڈیزائن والے کاغذ بھی ملتے ہیں۔
روائیتی جاپانی اوریگیمی سے الگ  کاغذ کے علاوہ کسی بھی ایسی چیز کو استعمال کر سکتے ہیں جس کی تہہ بنائ جا سکے اور وہ تہہ قائم رہ سکے۔ مثلاً ایلومینیئم فوائل۔ ایک اور خاص مادہ ملتا ہے جس میں ایلومینیئم فوائل کے اوپر ٹشو کو اچھی طرح چپکا لیا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ  ہمم، نوٹوں کا کاغذ بھی استعمال ہو سکتا ہے۔
اگرچہ کے روائیتی اوریگیمی میں اوزار استعمال کرنے کا تصور نہیں۔ لیکن تہوں کو بہتر بنانے کے لئے اسکیل اور ٹوئزر کی مدد لی جا سکتی ہے۔ ہاتھ کی انگلیاں ناکافی پڑ رہی ہوں تو کلپس کام میں لائے جا سکتے ہیں۔
اوریگیمی سے حرکت کرنے والے کھلونے بنائے جا سکتے ہیں اس طرح کے انکی حرکت کے لئے آپ اپنے ہاتھ کی انگلیاں استعمال کر سکیں۔ جیسے ہاتھ کی پتلیاں ہوتی ہیں۔ اس طرح ایک اڑتا ہوا پرندہ یا کھلتا ہوا پھول بنانا کوئ مشکل کام نہیں۔
سہہ جہتی کھلونے بنانا بھی اوریگیمی میں ممکن ہے، جبکہ تہوں کو بالکل واضح رکھنے کے بجائے نرمی کا تائثر دینے کے لئے کاغذ کو بھگویا جا سکتا ہے۔



معذور بچوں کی دلچسپی کے لئے ایسی اوریگیمی کے طریقے بھی موجود ہیں جن میں کاغذ کی تہہ کو پلٹا نہیں جاتا۔ اس طرح تہہ کے اندر پیچیدگی نہیں پیدا ہو پاتی۔ اور ایک ذہنی طور پہ سست بچے کو بھی یہ کرنا آسان ہوتی ہے۔ اس طرح اوریگیمی ذہنی طور پہ معذور بچوں کے لئے بھی ایک دلچسپ مشغلہ ثابت ہو سکتی ہے۔
بہت سارے حصوں کو الگ الگ  بنا کر کسی چیز کی مدد سے جوڑا جا سکتا ہے اس طرح ایک خاصہ بڑا ماڈل تیار ہو سکتا ہے۔
 اب اتنی تفصیلات کے بعد آپ  کے اندر اگر تھوڑی سی بھی خواہش پیدا ہوئ ہے کچھ بنانے کی تو اس سادہ سے ماڈل سے شروع کریں۔

مزید کے لئے ان لنکس کو دیکھیں 


اور جب مہارت حاصل ہو جائے تو یہ ویڈیو دیکھنا مت بھول جائیے گا۔ اس سے آپکو پتہ چلے گا کہ جاپانی ذہنی اور جسمانی مشقت کے کیوں عادی ہوتے ہیں۔ وہ اس نشے کا شکار قوم ہے۔ جیسے ہم جنگ کے نشے میں چور ہیں وہ محنت کے نشے میں مست ہیں۔ ہماری اکثریت ایکدوسرے کو جعلی نصیحتوں کے علاوہ کوئ مشغلہ پالنے میں دلچسپی نہیں رکھتی اور وہ مشغلے کے طور پہ ایک کاغذ کے پرزے پہ بھی اتنی محنت کر ڈالتے ہیں۔


اس کا فائدہ کیا ہوگا؟ جسم سے فاسد خون نکالنے کے لئے ایک زمانے میں جونکیں استعمال کی جاتی تھیں۔ دماغ سے فاسد خیالات  دور رکھنے کے لئے اسے کسی تخلیقی کام میں مصروف کر لیں اس سے آپکی تخلیقی صلاحیت کو جِلا ملے گی۔ تخلیقی کام ایسا ہو جسے کر کے آپکو خوشی اوردوسروں کو حیرانی ہو تو کیا بات ہے۔ تحقیق کہتی ہے کہ جو لوگ تخلیقی کاموں میں لگے رہتے ہیں وہ اپنے آپ سے زیادہ باہردیکھنے لگتے ہیں تاکہ انسپیریشن ملنے کا کوئ لمحہ ضائع نہ چلا جائے۔ 
لیکن کچھ لوگ اتنی زیادہ تانکا جھانکی کرتے ہیں کہ باہر سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ سو یہ بھی ممکن ہے کہ کاغذ کی تہیں لگاتے ہوئے آپ کی  اپنی تہیں کھلنے لگ جائیں۔ اور آپ اپنے آپ سے ملاقات کے قابل ہو سکیں۔
اگر آپ استاد ہیں تو کلاس میں  دلچسپی پیدا کرنے کے لئے مددگار اور طالب علم  متائثر الگ ہونگے۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ گرمیوں کی طویل چھٹیوں میں اپنے گھر کے بچوں کو مصروف رکھیں آجکل بہت سے والدین اسکی تلاش میں ہونگے ۔
وہ پوچھتے ہیں آخر گرمیوں کی چھٹیاں اتنی لمبی کیوں ہوتی ہیں؟