Wednesday, October 17, 2012

لٹل ریڈ رائڈنگ ہڈ گرل

فرض کریں کہ انصار عباسی صاحب دفتر سے اپنے گھر واپس جا رہے ہیں کہ راستے میں رک کر ایک ٹھیلے والے سے پھل لے کر اپنی گاڑی کی طرف واپس پلٹتے ہیں لیکن اسی اثناء میں ٹھیلے پہ لگا بم پھٹ جاتا ہے اور انصار عباسی سمیت بیس لوگ لقمہ ء اجل بن جاتے ہیں۔ لوگ افسوس کریں گے کہ انصار عباسی صاحب لا علمی میں کس طرح مارے گئے۔
اب یہی واقعہ ایک اور طرح سے پیش آتا ہے۔ انصار عباسی ساحب جس گروہ پہ تنقید کرتے ہیں اسکی طرف سے انہیں قتل کی دھمکیاں مل چکی ہیں وہ گاڑی میں جا رہے ہیں ۔ ٹھیلے والے کے پاس رک کر پھل خرید ہورہے ہوتے ہیں کہ ایک موٹر سائیکل پاس آ کر رکتی ہے اس پہ سوار افراد ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ انصار عباسی ہیں اور انکو گولی کا نشانہ بنا کر فرار ہوجاتے ہیں اگلے دن انکو دھمکی دینے والی تنظیم اس واقعے کی ذمہ داری قبول کر لیتی ہے۔
کیا ان دو واقعات پہ رد عمل ایک جیسا ہوگا؟
جی نہیں۔ پہلے واقعے میں پاکستان کے سیکیوریٹی کے حالات اور انکی وجوہات ڈسکس ہونگیں۔  دوسرے واقعے کو پاکستانی جرنلزم پہ اندوہناک وار کہا جائے گا۔ اور ہر شخص جو انکا نظریاتی طور پہ کتنا ہی مخالف ہو اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ جرنلسٹ کی حیثیئت سے انکا قتل ایک سانحے سے کم نہیں۔ یہ آزاد  صحافت پہ حملہ ہے۔
دھیرج رکھیں، انصار عباسی صاحب ابھی زندہ ہیں۔ خدا انہیں طویل عمر دے۔
بس یہیں سے ملالہ کا ملال شروع ہوتا ہے۔
ملالہ کی کہانی سن کر لٹل ریڈ رائڈنگ ہڈ گرل  کی کہانی یاد آتی ہے جسے اسکی ماں باسکٹ میں کھانے کی اشیاء دے کر بیمار نانی کے پاس جنگل کے اس طرف بھیجتی ہے اور راستے میں اسے ایک بھیڑیا مل جاتا ہے۔
ملالہ ، ملال یہ نہیں ہے کہ تمہیں کس نے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا۔ نہ ہی یہ ملال ہے  کہ اسلام کا نام لینے والوں نے یہ دعوی کیا کہ انہوں نے تمہیں گولی ماری۔ بہت عرصہ ہوا لوگ مر رہے ہیں اور ہم یہ دعوے سن رہے ہیں۔ نہ ہی یہ ملال ہے کہ انہوں نے یہ کہا کہ چونکہ تم نے شریعت کے خلاف جا کر کام کیا اس لئے تم اس سزا کی حقدار ہو۔ شرعی معاملات کو نافذ کرنے کے لئے اب ہمارے یہاں ٹھیلے پہ سبزی بیچنے والا بھی بے قرار ہے یہ جانے بغیر کہ شریعت کس چڑیا کا نام ہے۔  نہ ہی مجھے اس بات کا ملال ہے کہ طالبان نے کہا کہ کیا ہوا تم بچ گئ وہ دوبارہ تمہیں مارنے کی کوشش کریں گے۔ ہم دیکھ چکے کہ وہ اپنی بات میں کتنے اٹل ہیں۔ 
 میں تمہیں اتنا ہی جانتی ہوں جتنا میڈیا کے ذریعے پتہ چلا۔ یہاں بہت سارے لوگ معاشرے کی تباہ ہوتی اقدار کے بارے میں فکر مند ہیں مجھے تمہارے بارے میں جان کر کیا کرنا۔ وہاں وادی ء سوات میں بے شمار لڑکیاں ہونگیں جو اپنی تعلیم پہ فکر مند ہونگیں۔ جنہیں اپنے ساتھ یہ دوسرے درجے کا سلوک پسند نہیں ہوگا۔ بس یہ کہ تم ان لڑکیوں کے لئے ایک علامت بن گئیں۔ زیادہ تر لوگ تو اس علامت کو درپیش خطرے سے صدمے میں آئے۔ 
 در حقیقت میں تم سے زیادہ تمہارے والدین کی بہادری کی قائل ہوں۔ آخر تمہارے والدین نے تمہیں گیارہ سال کی عمر میں اس قسم کی مضامین لکھنے کی اجازت کیوں دی جس میں تم لڑکیوں کی تعلیم کی بات کرو وہ بھی ایسے علاقے میں، اس عہد میں جب کہ صرف اس فتوی کے آنے کی دیر تھی کہ بحیثیئت عورت پیدا ہونا ایک غیر شرعی عمل ہے۔ آخر انہوں نے تمہیں وہ سبق کیوں نہیں پڑھایا جو ہمارے یہاں اس وقت خواتین کو پڑھایا جانا پسند کیا جاتا ہے؟  
لیکن پھر بھی مجھے ایک ملال سا ہے۔ اور اس کے ذمہ دار وہ لوگ نہیں جنہوں نے تمہیں گولی ماری بلکہ وہ لوگ ہیں جو اس واقعے کے بعد سامنے آتے ہیں۔
لوگوں کا ایک گروہ کہتا ہے کہ طالبان نے یہ نہیں کیا امریکہ نے کیا ہے فوج نے کیا ہے۔ لیکن اس کے اگلے ہی لمحے وہ کہتے ہیں کہ کیا آپکو معلوم ہے کہ ملالہ  کی فیورٹ شخصیت اوبامہ ہے، یا یہ کہ کیا آپ نے ملالہ کے مضامین پڑھے ہیں؟ انہیں پڑھے بغیر آپ ملالہ کو مظلوم کیوں سمجھتی ہیں؟  ڈرون حملوں میں  بچے مارے جاتے ہیں آپ اسکی مذمت نہیں کرتیں تو ہم ملالہ کی مذمت کیوں کریں؟ پاکستان میں ایک نہیں لاکھوں ملالائیں ہیں ہم صرف اسکی مذمت کیوں کریں؟ وہ ہمارے یہاں کی ایک اور مختاران مائ ہے۔  ہم کیوں نہ کہیں کہ عافیہ صدیقی اور جامعہ حفصہ کی لڑکیوں سے اگر آپکو ہمدردی نہیں تو ہمیں بھی ملالہ سے ہمدردی نہیں؟
آخر ملالہ نے ایسا کون سا کام کیا ہے جس پہ اسکی اتنی شہرت ہے؟  ہمارے یہاں تو ایسی لاکھوں ذہین لڑکیاں ہیں۔ عین اسی وقت دوسرا سوال پوچھتے ہیں کہ وہ جو مضامین اس نے لکھے ہیں اس عمر کا بچہ تو لکھ ہی نہیں سکتا۔ اس عمر میں بچے نہ ایسی زبان استعمال کرتے ہیں اور نہ اتنا سوچتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ دراصل اس کے ساتھ جو ہوا اس کے اصل ذمے دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسکی باتوں پہ اس کی حوصلہ افزائ کی۔
یہیں پہ دل ٹھنڈا نہیں ہوتا بلکہ یہ تک کھوج کر نکال لاتے ہیں کہ کیا ہم جانتے ہیں کہ ملالہ کے دیندار دادا نے ملالہ کے سیکولر نظریات رکھنے والے والد کو اسکے کفر کی وجہ سے نوجوانی میں گھر سے باہر نکال دیا تھا۔
ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں، جو کہتے ہیں کہ طالبان تو وجود ہی نہیں رکھتے یہ تو امریکیوں کا پھیلایا ہوا وہم ہے۔  لیکن جب ان سے کہا جاتا ہے کہ پھر آپ طالبان کی مذمت کرنے سے کیوں گھبراتے ہیں تو پھر ایک آئیں بائیں شائیں۔
اس وقت ایک چودہ سالہ لڑکی برطانیہ کے کسی ہسپتال میں ہوش و خرد سے نا آشنا کسی بستر پہ مشینوں کے سہارے پڑی ہے۔ وہ اگر ایک طویل علاج کے بعد زندگی کی طرف لوٹ بھی آئے تو یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ کس حد تک تندرست ہوگی۔
لیکن میرے جیسے دلوں میں یہ خیال کروٹیں لے رہا ہے کہ بستر پہ پڑا وہ وجود ایک چودہ سالہ لڑکی کا ہے یا چونسٹھ سال کے ملک کا ہے۔ 
  

Sunday, October 14, 2012

مختار کا اسکول

مختار ، صفائ کرنے والی کا بیٹا ہے۔ وہ پانچویں جماعت میں پڑھتا ہے۔  ماسی کا کہنا تھا کہ اس کا بچہ خاصہ ذہین ہے کلاس میں ہمیشہ فرسٹ آتا ہے لیکن اسکول میں ٹیچر دو دو ہفتوں تک نہیں آتے اور بچے اسکول جا کر کھیل کود کر واپس آجاتے ہیں۔ بچہ اس وجہ سے اسکول جانے میں دلچسپی نہیں لیتا۔ میں اسے پرائیویٹ اسکول میں داخل کرانا چاہتی ہوں۔ میں نے اس سے کہا کہ تم اسے پڑھنے کے لئے صبح میرے پاس چھوڑ دو۔ دوپہر میں وہ اسکول چلا جائے گا۔ لیکن پرائیویٹ اسکول میں داخل مت کرانا۔ اس وقت تم جوش میں کرادوگی۔ چند مہینے کے بعد تمہارے پاس پیسے نہیں ہونگے تو تم اسے وہاں ہٹا لوگی اور اس طرح اسکی تعلیم ختم ہوجائے گی۔
ویسے بھی غریب بستیوں میں کھلے پرائیویٹ اسکولوں میں ٹیچرز خود بمشکل میٹرک پاس ہوتے ہیں۔ انہیں برائے نام تنخواہ ملتی ہے وہاں پہ بھی یہی ہوگا جو یہاں ہوتا ہے، لوگ تمہاری جہالت کا فائدہ اٹھائیں گے۔  میرے اس مشورے کے دو مہینے بعد مختار میرے پاس پہلی دفعہ پڑھنے کے لئے آیا۔
گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہوئے ایک مہینہ ہو چکا تھا لیکن اردو کی کتاب کے ابھی صرف تین سبق پڑھائے گئے تھے۔ حساب کا پہلا باب جیسے تیسے ہوا تھا۔ انگریزی کی حالت سب سے بری تھی۔ اس کے باوجود کہ اب گورمنمنٹ اسکولز میں انگریزی پہلی جماعت سے پڑھائ جاتی ہے۔ بچہ انگریزی کے سادہ ترین جملے مثلاً دز از آ ڈاگ اور دیٹ از ہر پینسل تک نہیں بول سکتا۔ یاد رہے مختار اپنی کلاس کا سب سے تیز بچہ ہے۔
ہفتہ بھر پڑھانے اور یہ جاننے کے بعد کہ دس دن سے انہیں کوئ استاد پڑھانے نہیں آیا۔ میں نے مختار کے اسکول جا کر خود صورت حال جاننے کا فیصلہ کیا۔ یہ اسکول میرے گھر کے نزدیک ہی ہے۔
اسکول کے باہر تو ایک اسکول کا نام لکھا تھا لیکن اندر داخل ہونے پہ چوکیدار نے استفسار کیا کہ کس اسکول جانا ہے اس احاطے کے اندر تین اسکول موجود ہیں۔ ایک عمارت میں تین مختلف اسکول، مجھے یہ سن کر اتنا ہی تعجب ہوا جتنا کہ یہ جان کر ہوتا ہے کہ ایک عورت نے ایک ساتھ پانچ  بچے جنم دئیے۔ ایسی کیا مصیبت ہے کہ گورنمنٹ ایک ہی علاقے میں ایک ہی عمارت میں تین مختلف اسکول چلا رہی ہے۔ یقیناً کچھ مال پانی کا چکر ہوگا۔
ان تینوں اسکولوں کے آفس اور اسٹاف الگ ہیں۔ وہاں کھڑے ہو کر میں نے اندازاً اشارہ کر دیا کہ اس اسکول جانا ہے لیکن آفس تک فاصلہ طے کرتے ہوئے میں یکسو ہو چکی تھی۔ پہلا آفس سیکنڈری اسکول کا تھا۔ اسکا نام کچھ اور تھا۔ وہاں سے میں دوسرے اسکول گئ جو کہ پرائمری تھا معلوم ہوا کہ یہی مختار کا اسکول ہے۔  ہیڈ مسٹریس صاحبہ سے ابتدائ معلومات لیں تو مزید معلوم ہوا کہ انکے اسٹاف میں پانچ اساتذہ ہیں۔ ہر استاد کے ذمے ایک کلاس ہے وہی سارے مضمون پڑھاتا ہے۔ ان میں سے بھی ایک استاد کا حال مہیں تبادلہ ہو گیا ہے اس لئے مختار کی کلاس باقاعدگی سے نہیں ہو پا رہی ہے۔ الیکشن متوقع ہیں اور الیکشن کے سلسلے میں اساتذہ کی ڈیوٹی لگتی ہے اس لئے بچے کھچے اساتذہ بھی اس کام میں لگنے کا امکان ہے۔ یعنی الیکشن کمیشن الگ سے اپنے لئے عارضی کارکن نہیں رکھ سکتا۔ اسکے لئے بچوں کی تعلیم قربان کی جاتی ہے۔
میرے سوال پہ کہ استاد تو حال ہی میں گئے ہیں جبکہ یہی حالت گرمیوں کی چھٹی سے پہلے بھی تھی۔ انکے پاس کوئ جواب نہ تھا۔ جب میں نے کہا کہ نئے سیشن کو شروع ہوئے دو مہینے سے زیادہ ہو گئے ہیں اور ایک ڈیڑھ مہینے بعد ششماہی امتحان شروع ہونگے جبکہ سلیبس اپنی ابتدائ حالت میں ہے تو جواب ملا کہ آپ کو اطلاع غلط ہے۔ ہم تو انیس سبق پڑھا چکے ہیں۔ یہ کہہ کر ایک استانی جی اٹھیں اور باہر چلی گئیں پھر اردو کی کتاب لےکر واپس داخل ہوئیں۔ اس میں کتاب کے فہرست والے صفحے پہ انیس اسباق میں نشان لگے ہوئے تھے۔ میں نے کہا یہ نہیں ہو سکتا۔ میں ان نشانات کو تسلیم نہیں کر سکتی۔ اگر پڑھایا ہوتا تو اس بچے کو تین سبق کے علاوہ کچھ تو آتا جبکہ وہ فرسٹ آتا ہے۔ جن تائثرات کے ساتھ اس گیارہ سال کے بچے نے مجھے سب بتایا وہ جھوٹ نہیں ہو سکتے۔
 جناب، اسکے بعد بیانات کا سلسلہ چلا۔ یہ لوگ تو اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکول میں پڑھانا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا اس لئے کہ وہ جاہل ہیں اور سمجھتے ہیں کہ گورنمنٹ اسکول میں تو پڑھائ ہوتی نہیں اس لئے محلے کے پرائیویٹ اسکول میں داخل کرا دیں۔ ورنہ خود سوچیں جس کے پاس کحانے کو پیسے نہیں وہ پرائیویٹ اسکول میں کیسے پڑھائے گا۔ پھر آپ نے اپنے اسکول میں بچوں کے لئے کوئ تحرک نہیں رکھا وہ یہاں آکر کیا کریں۔ استاد تک تو انہیں ملتا نہیں۔
ایک استاد نے کہا کہ بچے اتنے گندے حلئیے میں آتے ہیں۔ اتنے گندے بچوں کو کیسے پڑھایا جائے۔ اور میں صفائ دیتی ہوں کہ یہ کچی بستی میں نالے کے کنارے رہنے والے، جنکے ماں باپ گھروں صفائ کا کام کر کے بمشکل اپنا کھانے پینے کا خرچہ اٹھاتے ہیں وہ کیسے انہیں صاف ستھرے یونیفارمز اور جوتوں میں بھیج سکتے ہیں۔
او جی آپکو نہیں معلوم یہاں تو کسی بچے کو ایک تھپڑ مار دو تو انکے ماں باپ یہاں ہنگامہ کرنے کو کھڑے ہوتے ہیں ۔ اس پہ میں کہتی ہوں ، وہ بیچارے ویسے ہی ماں باپ سے بری طرح پٹتے رہتے ہیں اب انکو مار کر کیا کرنا۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ انہیں یتیم بچے سمجھ کر پڑھا لیا کریں۔ یہی سوچ کر پڑھا لیا کریں کہ کل آقپکا معاشرہ آجکے مقابلے میں اس لئے بہتر ہوگا کہ یہ بچے سمجھدار ہونگے۔لیکن آپ دیکھیں اتنے بچوں کو کوئ کب تک پیار سے پڑھا سکتا ہے؟ ایک اور بہانہ سامنے آتا ہے۔
میں نے مسکراتے ہوئے انہیں دیکھا، میری اطلاع کے مطابق مختار کی کلاس میں کل سات بچے ہیں جن میں سے دو تین تو روز غیر حاضر ہوتے ہیں۔  آپکے اسکول میں شاید کل سو بچے ہیں۔ ایک کلاس میں چار بچوں کو ہینڈل کرنا کیا مشکل ہے۔ میں یونیورسٹی میں ایک وقت میں سوا سو بچوں کو پڑھاتی رہی ہوں یہی نہیں میں نے خود گورنمنٹ اسکول سے پڑھا ہے اور ہماری کلاس میں پچاس اسٹوڈنٹس تھے۔ حتی کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایک استاد کے پاس پندرہ سے بیس اسٹوڈنٹ ہوتے ہیں اس لحاظ سے آپ کے پاس تو کافی گنجائش ہے جبکہ اگر آپ یہ دیکھیں کہ اس اسکول کے ساتھ ایک اتنی بڑی کچی آبادی ہے۔ غریب لوگ ہیں گورنمنٹ اسکول کی کوئ فیس ہی نہیں، آپکے پاس تو کافی بچے ہونے چاہئیں لیکن ایسا ہے نہیں۔ آپ کو تو کوشش کرنی چاہئیے کہ آپکے اسکول میں زیادہ سے زیادہ بچے آئیں۔ دل میں سوچا کہ کوشش کرنی چاہئیے کہ اپنی تنخواہ کو حلال کریں۔
اس پہ ایک کھسیانی مسکراہٹ۔
معاملے کا اہم پہلو یہ ہے کہ گورنمنٹ پرائمری اسکول کے ایک استاد کی تنخواہ سولہ سترہ ہزار ہوتی ہے۔ جبکہ ادھر سٹی یا بیکن ہاءوس جیسے پرائیویٹ اسکولز میں بھی تقریباً  اتنی ہی تنخواہ ہوتی ہے۔ وہ اپنے اساتذہ سے خوب کام لیتے ہیں۔ دن کا ایک لمحہ ضائع نہیں جانے دیتے۔ کلاس رومز میں کیمرے تک موجود ہوتے ہیں تاکہ پرنسپل اپنے کمرے سے تمام کلاس رومز کو چیک کرتی رہے کہ اساتذہ آرام سے بیٹھے ہیں یا پڑھا رہے ہیں۔ ان اسکولوں کے مقابلے میں گورنمنٹ اساتذہ پہ کام کا سرے سے کوئ دباءو ہی نہیں۔ ان اساتذہ  سے  نتیجہ خیز کام لینے والا کوئ نہیں۔ کوئ اس چیز کا ذمہ دار نہیں کہ یہ اساتذہ اسکول کی چار دیواری میں کیا کر رہے ہی  
قارئین ، اب یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پورے تعلیمی نظام میں کون کتنا سنجیدہ ہے۔ 
میرے وہاں جانے سے یہ ہوا کہ مختار کی کلاس کو ایک استاد نے توجہ دینا شروع کی۔ انگریزی میں اسے دو مضامین لکھوائے گئے۔ یہ دونوں مضامین نہ صرف ناقص تھے بلکہ استاد نے اسکول کے موضوع پہ جو مضمون لکھوایا اس کے لئے یہ بھی زحمت نہ کی کہ لفظ سیکنڈری کی جگہ پرائمری ہی کر دیتا کہ مختار پرائمری اسکول میں پڑھتا ہے۔  ناءون، پروناءون اور ایجیکٹو کی تعریفیں اور مثالیں لکھوائ گئیں البتہ انکی کسی بھی قسم کی مشق ندارد۔ حالانکہ یہ سب اساتذہ، ایجوکیشن میں بیچلرز کی اضافی ڈگری رکھتے ہیں۔ میتھس کی کتاب کچھ آگے بڑھی۔
چند دنوں بعد میں پھر جاءونگی۔ اور اب میں سوچتی ہوں کہ اگر ہم صرف اتنا کر لیں کہ اپنے علاقے میں موجود گورنمنٹ اسکولز کو جا کر چیک کریں اور انکے اساتذہ سے گفتگو کریں تو ان پہ دباءو پڑتا ہے کہ وہ اپنے کام کے معیار کو بہتر کریں۔ اس تحریر کا مقصد بھی یہی ہے کہ آپ بھی اس مہم میں شامل ہو جائیں۔  اس بات سے قطع نظر کہ آپکے خاندان کے بچے اس میں ہیں یا نہیں۔  اپنے علاقے  کے گورنمنٹ اسکول کےا ساتذہ  سے ملیں، کلاسز کو دیکھیں اور اگر موقع ملے تو یہ سب کام کسی بچے سے پہلے سے معلومات حاصل کر کے کریں۔ آپ میں سے جسے موقع ملتا ہے وہ جائے یا پھر علاقے میں نوجوانوں کی ایک ٹیم بنا لیں جو اسکولوں کا جائزہ لے۔
گورنمنٹ اسکول میں پڑھنے والے بچے بھی ہمارے ہی بچے ہیں اگر غریب بچوں کو بہتر تعلیم ملے تو ہی ہم معاشرے میں تبدیلی کی امید رکھ سکتے ہیں۔  

Tuesday, October 9, 2012

مفاد سے آگے

شادی کے کارڈز بانٹنا اور شاپنگ ، اس میں اتنی مصروف رہی کہ مجھے یاد ہی نہ رہا کہ آج آسٹریلیا اور پاکستان کا ٹی ٹوئنٹی میچ ہے۔ میں اپنی ساتھی خاتون کو نارتھ ناظم آباد چھوڑنے کے لئے جب فائیو اسٹار کے سگنل پہ پہنچی تو ٹریفک رکا ہوا تھا۔ رات کے سوا دس بج رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ شادیوں کی ٹریفک کا رش ہے۔ کیونکہ اس طرف درجنوں شادی ہالز ایک قطار میں موجود ہیں۔ لیکن سگنل کھل کے ہی نہ دے رہا تھا۔
 پندرہ منٹ بعد مجھے فضا میں پاکستان کے جھنڈَے لہراتے نظر آئے اور کچھ لڑکے ادھر ادھر بھاگتے دکھائ دئیے۔  تھوڑی دیر بعد ہماری گاڑی چوک پہ لڑکوں کے ایک ہجوم کے درمیان، دوسری گاڑیوں کے ساتھ پھنسی ہوئ تھی۔ لڑکوں کی تعداد یہی کوئ ایک ڈیڑھ ہزار ہوگی۔ آتشبازی ہو رہی تھی، لڑکے ہارن بجا رہے تھے۔ صاف لگ رہا تھا کہ انکے ذہن میں کوئ خاص پروگرام نہیں۔ بس ٹریفک کو روک کر انہیں مزہ آرہا تھا۔ اس اثناء میں ایک لڑکے نے عین گاڑی کے سامنے آکر پستول نکالا اور ہوائ فائرنگ شروع کر دی۔ آج بچ جائیں تو بڑی بات ہے۔ میں نے سوچا، اگر ذرا بھی اندازہ ہوتا تو اس طرف کا رخ نہ کرتے۔
چالیس منٹ کے اس ہنگامے میں پھنسے رہنے کے بعد نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ واپسی پہ میں نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ لیکن ایک چیز جس نے میری توجہ لی وہ یہ کہ نوجوانوں کے اس منتشر، چارجڈ لیکن بے مقصد ہجوم میں کسی بھی سیاسی جماعت کا جھنڈا نہیں تھا۔ صرف پاکستان کے تین چار جھنڈے نظر آئے۔ عجیب یوں لگی کہ اس سے پہلے نوجوان کوئ بھی موقع ہو ایم کیو ایم کا جھنڈا لانا فرض عین سمجھتے تھے۔
یہی نہیں اس سے دو دن بعد جب میں عزیز آباد کے قریبی علاقے میں گئ تو وہاں ایک پارک میں لوگوں کا ہجوم ایک بڑی سی اسکرین پہ میچ دیکھ رہا تھا۔ ہر تھوڑی دیر بعد ہجوم نعرے لگاتا اور جھنڈے لہراتا لیکن یہ جھنڈے صرف پاکستان کے جھنڈے تھے۔
کیا کوئ تصور کر سکتا ہے کہ کراچی میں ایسا ہو گا۔ ایسا کیوں ہوا؟
الیکشن ، مستقبل قریب میں متوقع ہیں۔ اس لئے اکثر لوگوں سے اس حوالے سے بات ہوتی ہے۔ کس جماعت کو ووٹ دینا چاہئیے اور کیوں؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سب سیاستداں چور ہیں اس لئے ہم الیکشن والے دن بیلٹ پیپر پر مہر اس طرح لگائیں گے کہ وہ خراب ہو جائے اور کوئ ہماری جگہ جعلی ووٹ نہ ڈال سکے۔
میں نے پوچھا کہ اس سے کیا ہوگا؟ ووٹ کی گنتی ہوگی تو وہ امیدوار جیت جائے گا جسکے سب سے زیادہ ووٹ ہونگے چاہے اسے پانچ سو ووٹ ملیں۔
ایم کو ایم کو اس صورت حال کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟
 اس کی وجوہات اتنی واضح ہیں کہ  عقل و خرد سے عاری شخص بھی بتا سکتا ہے۔ ایم کیو ایم کے حامی کو اب ایم کیو ایم اور دیگر سیاسی جماعتوں میں کوئ فرق نظر نہیں آتا۔  سب چور ہیں ، سب اپنی تجوریاں بھرنا چاہتے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت پہ مفاد پرست طبقے کا قبضہ ہے۔ یہ مفاد پرستی، ذاتی مالی مفاد سے جڑی ہے۔  جب ایم کیو ایم کا نام آتا ہے تو بابر غوری جیسے نام آتے ہیں جو پارٹی میں شامل ہوئے تو کیا تھے اور آج انکی جائدادیں امریکہ میں موجود ہیں۔ 
یوں جاگیرداری اور معاشرے کے استحصال کے خلاف آواز اٹھانے والے خود جاگیر داری کے نشے میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اسکی بنیادی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ پاکستان کی ہر دوسری سیاسی جماعت کی طرح، ایم کیو ایم نے بھی اپنے تھنک ٹینک یعنی حلقہ ء دانشوراں کو مضبوط کرنے کے بجائے شخصی سیاست کی راہ اپنا لی۔ یہ سیاست کا اگرچہ ایک آسان راستہ ہے لیکن بھونڈا راستہ ہے اور جمہوری روح سے دورہے۔ مفاد پرست طبقہ ایک شخصیت کو خوش کر کے فائدے اٹھاتا ہے۔ اس طرح سے جمہور کی آواز کہیں دور رہ جاتی ہے۔
تنظیم نے جس شخصیت کومرکزی شخصیت کے طور پہ چنا وہ اس ملک کی سرحدوں میں ایک طویل عرصے سے نہیں آیا۔ انہیں یہاں کے بارے میں جو بھی اطلاع ملتی ہے وہ کسی کے ذریعے سے ملتی ہے انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ مصطفی کمال کے بنائے ہوئے پلوں نے شہر کا نقشہ تبدیل کر کے کیا سے کیا کر دیا ہے۔ اڑتی خبریں ملتی ہیں کہ وہ خود ہوش و خرد سے عاری ہو چکے ہیں۔ اور در حقیقت اس وقت تنظیم کو پاکستانی ایجنسیز چلا رہی ہیں۔
اس وقت تنظیم کو لائق اور عالم افراد کے قحط کا سامنا ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت میں ایسے لوگوں کی شمولیت کو دیکھا جانا چاہئیے جو کہ زندگی کے مختلف میدانوں مِن مہارت رکھتے ہوں تاکہ ہمیں امید ہو کہ افراد کا یہ مجموعہ ہمارے مسائل سے کیسے نبرد آزما ہوگا۔  زیادہ تر افراد جو تنظیم کی سیکولر پالیسی کی وجہ سے اس سے بہتر امیدیں رکھتے تھے اب اس سے دور ہو چکے ہیں۔ اس طرح سے ایم کیو ایم بحیثیئت ایک سیاسی جماعت کراچی کے نوجوانوں کو کوئ مثبت امید ، راستہ اور سرگرمی دینے میں آہستہ آہستہ ناکام ہو رہی ہے۔ اور اسکی یہ ناکامی، نوجوانوں کو دوسری انتہا کی طرف لے جارہی ہے جو کہ مذہبی انتہا پرستی ہے۔
تنظیم کو اس حقیقت کو تسلیم کرکے مثبت سمت میں کام کرنا چاہئیے۔ انہیں اب اس چیز کو بھی تسلیم کرنا چاہئیے کہ محض پیپلز پارٹی سے اچھے تعلقات استوار کر کے یا صدر زرداری کو خوش رکھ کر یہ ممکن ہے کہ وہ آئیندہ الیکشن میں اسمبلی کے اندر اپنا وجود قائم رکھنے میں کامیاب ہو جائیں، ممکن ہے انہیں مالی مفادات مل جائیں لیکن اس سے وہ عوامی سطح پہ اپنی حیثیئت کم کرتے جا رہے ہیں۔
مجھے اپنے سیاستدانوں کی اس کوتاہ اندیشی پہ حیرت ہوتی ہے کہ وہ محض اپنے مالی مفاد کو محفوظ کرتے ہوئے اپنے  زیادہ فائدہ مند مستقبل کی قربانی دینے سے گریز نہیں کرتے۔ حالانکہ اگر وہ اپنے مالی مفاد میں تھوڑی سی کمی لے آئیں اور اسے عوامی فلاح پہ خرچ کریں تو وہ ایک لمبی مدت تک عوامی پذیرائ سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور زیادہ کما سکتے ہیں۔
بہر حال، باقی سب سے قطع نظر ایم کیو ایم کو یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ ایسے ملک میں جہاں سیاست پہ جاگیردار کا سب سے بڑا حق ہے اور جہاں یہ جاگیردار، ملک کی مضبوط طاقت یعنی فوج سے بھی مضبوط روابط رکھتا ہے۔ وہاں وہ اپنی بقاء کی جنگ عوام کی حمایت کے بغیر نہیں لڑ سکتی۔ لیاری امن کمیٹی، اسکا سب سے بڑا ثبوت ہے۔  جو منظر پہ اچانک ابھری اور اب کراچی کے امن و امان میں اپنا حصہ رکھتی ہے یعنی جب چاہے اس شہر کا امن ہلا سکتی ہے حالانکہ اسکا اثر لیاری سے آگے نہیں۔ 
سو انہیں عوام کے لئے کام کرنا پڑے گا، انہیں ترجیح دینی ہوگی اور تنظیم کو مفاد پرست طبقے سے ہی نہیں شخصی سیاست سے بھی باہر نکالنا ہوگا۔ انہیں دلجمعی سے ایک حلقہ ء دانشوراں قائم کرنا ہوگا جسے سوچ وبچار کی آزادی دینی ہوگی۔ لیکن  اگر وہ ریاستی قوتوں سے ہڈی لے کر اس سے خوش ہیں تو یاد رکھیں کہ کل وہ باہر ہونگے جبکہ دیگر طاقتیں اسی طرح کھیل میں شامل رہیں گی جیسے وہ پچھلے تریسٹھ سال سے ہیں۔

 

Wednesday, October 3, 2012

کہانی میں ٹوئسٹ

ماما ،  مجھے آپکو ایک اہم بات بتانی ہے۔
ہمم، پہلے کھانا ختم کرو۔
ماما، یہ بہت اہم بات ہے۔
اچھا کیا ہے یہ اہم بات؟
ماما آپکو پتہ ہے سب مٹی سے بنا ہے۔
اچھا ، کیا سب مٹی سے بنا ہے؟
انسان، بندے، سب مٹی سے بنے ہیں۔
یہ کس نے بتایا؟
مس نگہت نے۔ آج دینیات کا پیریڈ تھا ناں۔ مس نگہت نے بتایا کہ انسان کیسے بنا۔
اچھا تو مٹی سے انسان کیسے بنا؟
جی ہاں، اللہ میاں نے فرشتوں سے کہا کہ مجھے کچھ مٹی لاکر دو۔ جب فرشتوں  نے مٹی لا کر دی تو اللہ میاں نے اس سے انسان بنایا اور پھر اس میں روح ڈال دی۔
اچھا ، یہ تو انسان بنانے کا بڑا آسان طریقہ ہے۔
آپکو پتہ ہے ماما، شیطان جو ہوتا ہے نا وہ بہت برا ہوتا ہے۔ اس نے اللہ میاں سے کہا کہ انسان نہیں بناءو لیکن جب اللہ میاں نے انسان بنا لیا توکہنے لگا کہ دیکھنا اب میں کیسے انسان کو بری بری باتیں سکھاءونگا اور اسے برا بناءونگا۔
اچھا، شیطان ایسا ہے۔ وہ انسان کو کیسے برا بنا دیتا ہے؟
وہ کہنے لگا کہ میں انسان کو نماز نہیں پڑھنے دونگا اور نہ ہی اسے کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے دونگا۔ ایسے وہ برا بناتا ہے۔
اچھا یہ تو واقعی بڑا برا ہے۔
ماما، اتنا برا ہے کہ اس نے کہا کہ وہ اللہ میاں کو پانی میں پٹخ دے گا۔ یہ جملہ تخیل کی پرواز تھا اور شیطان کو حتی الامکان برا ثابت کرنے کی انتہائ کوشش۔
کس نے کہا یہ؟
ہممم، سر کھجایا اور پھر جواب دیا۔ چور نے۔ تخیل کی پرواز کے دوران شیطان کا خیال ذہن سے پھسل گیا۔
لیکن چور تو چوری کرنے آیا تھا یا اللہ میاں سے کشتی لڑنے۔
ماما، چور بہت برا ہوتا ہے۔ موضوع کو ٹال کر دوسری طرف لے جانے کی کامیاب کوشش۔
ہاں ہوتا تو ہے۔
کسی کی بھی چیز اس سے پوچھے بغیر نہیں لینی چاہئیے۔ یہ چوری ہوتی ہے۔ 
ہمم، یہ بات تو صحیح ہے۔


مشعل یہ باتیں کرتے ہوئے سوچ رہی ہے کہ کہانی میں یہ ٹوئسٹ کیسے آیا۔
ماما جانتی ہیں لیکن بتائیں گی نہیں۔

Monday, October 1, 2012

ڈنگ ڈونگ

ہر اچھا اور برا وقت گذر جاتا ہے کل کا دن بھی گذر گیا۔ ایک اور چبھتی ہوئ یاد۔ فیس بک پہ اب تک اسکی  چبھن باقی ہے۔ جب بھی ہم روائیتی حریف کے سامنے ہوتے ہیں دنیا کو لگ پتہ جاتا ہے کہ آج  کیا ہونے والا ہے۔ کسی زمانے میں شیر کی آ٘د کا پتہ رن کے کانپنے سے چلتا تھا۔ کس شیر کی ٘آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے اب یہ کام میڈیا انجام دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب روڈ پہ سے گذری تو حیران تھی کہ اتنا چھوٹا شامیانہ لگا کر اور اتنی ساری کرسیاں بچھا کر کس تقریب کا اہتمام ہو رہا ہے۔ نوجوان اب بھی ایم کیو ایم کے اتنے دیوانے ہیں۔ واپسی پہ معمہ حل ہوا،  شامیانے کا سائز اسکرین کے سائز جتنا تھا اور کرسیاں ہی کیا لوگ اسکے چاروں طرف کھڑے تھے۔ 
گھر واپس آکر دیکھا کہ لاءونج کا صوفہ ٹی وی سے ایک نامعقول فاصلے پہ رکھا ہوا ہے اور آگے پیر ٹکانے کے اسٹول رکھے ہوئے ہیں۔ آنکھیں جمی ہیں، میچ چل رہا ہے۔
مجھے تو ٹی ٹوئینٹی میچ  کرکٹ کا ساشے پیکٹ لگتا ہے۔ آخر اسکے لئے گیارہ کھلاڑیوں کی کیا ضرورت ہے؟ یعنی رومال بنانے کے لئے پورا تھان لیں۔ یہ اسی صورت نظر انداز کیا جا سکتا ہے جب فیس بک اور ٹوئٹر بھی ساتھ ساتھ رواں دواں ہوں۔ 
فیس بک سے اندازہ ہوا کہ میچ میں پاکستان کی ہار کا منظر ابھرتے ہوئے ہی کچھ کمزور دل حضرات ٹی وی کے آگے سے اٹھ گئے۔ کچھ نے جائے نماز سنبھالی لیکن میچ کے اختتام پہ کچھ دہرئیے والے کلمات کہتے پائے گئے۔ پاکستانی کھلاڑیوں کو سوچنا چاہئیے کہ انکی وجہ سے کچھ لوگ دعا اور رب دونوں سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ جسکا عذاب انکے سر پہ ہوگا۔ کچھ خواتین رونے لگ گئیں اور کچھ کے بچوں کی شامت آئ یعنی طویلے کی بلا بندر کے سر۔ اس دلچسپ صورت حال کی عکاسی کے لئے میں نے کچھ اسٹیٹس چوری کئے ہیں۔ حاضر ہیں۔
Feel like giving two chammats to the team

Kia game on hai? I didnot feel do :(

کوئ بات نہیں، بچہ سمجھ کر جیت دے دی، اگلی باری میں دیکھنا۔
پس ثابت ہوا کہ ٹُلّر ہر واری نہیں چل سکدا۔

اور جیسا کہ میں میچ شروع ہونے سے پہلے کہہ چکا تھا نتیجہ وہی نکلا
 
Chalo toss hu, jeetay or match tum! Baat baraber hoi :)
 
Lo Ji,
Pakistan har gaya.
Allah Hafiz
To boost the performance levels for time being, Pakistani team must presume for time being that they are working in a 3 hour long commercial
Prepare yourself for this song.

Tum Jeeto yaan haaroo
sunooooo
humain tum say piyar ha
 
Shahid Afridi didn't work, lets send Shakeel Afridi with polio drops, and then a drone attack + seal operation on top of that. All over!
 
اس سے بڑی زیادتی اور کیا ہوگی فراز 
ہم جیتیں تو وارم اپ، وہ جیتیں تو سپر 8 

کس عقیدت سے آئوٹ ھوتے ھیں

واہ وا واہ

کس عقیدت سے آئوٹ ھوتے ھیں
ھار جانا ثواب ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ھو جیسے

کیا رحمان ملک پاک بھارت میچ کا سودا کرنے گیا؟ رقم بٹورنے کا اچھا موقع سمجھتے ہوے؟
پاکستانی ٹیم کو کسی کوچ کی نہیں، بلکہ ایک اچھے سائیکیٹریسٹ کی ضرورت ہے۔
اور قارئِن، اس دھلائ سے فارغ ہو کر لوگ ایک دفعہ پھر خداکی طرف رجوع کرتے ہیں۔ کیوں؟ یہ نہیں معلوم۔
I am watching Madni Tv now !!!
میری دلچسپی تو کرکٹ میں اس وقت سے ختم ہو گئ ہے جب سے پاکستان میں کرکٹ کرپشن اپنے عروج پہ پہنچا۔ لیکن اس دفعہ جس چیز کی وجہ سے مجھے بار بار اسکرین کو دیکھنا پڑا۔ وہ ڈنگ ڈونگ کا اشتہار ہے۔ میرے بچپن سے یہ اب میری بیٹی کے بچپن تک آپہنچا۔ جب اشتہار اختتام پہ پہنچتا ہے تو بلی چوہوں کی پٹائ لگانے کے بعد اپنا ڈنگ ڈونگ ببل کا ذخیرہ لیتی ہے اور وہی سونگ گاتی ہے۔ میں سوچتی تھی کہ یہ نہیں پتہ چلتا کہ کون سا سونگ گاتی ہے؟ کچھ عرصے بعد ایک خیال آیا کہ یہ ڈنگ ڈونگ گاتی ہے۔ اب بھی یقین نہیں کہ یہ خِال درست تھا یا غلط۔
 اس میچ کے دوران ڈنگ ڈونگ ببل کا اشتہار پاکستان کی مختلف زبانوں میں آتا رہا۔
اور میں ہر دفعہ کمپیوٹر اسکرین سے نظریں پھیر سنتی کہ یہ اب کون سی علاقائ زبان ہے اور اس میں کیا الفاظ استعمال ہوءے ہیں۔ لیکن کل سے پہلے شاید ہی کبھی شک ہوا ہو کہ یہ اشتہار یا تو یہودیوں نے بنایا ہے یا پھر را کے ایجنٹوں نے۔ ایک مبصر کا کہنا تھا کہ ہر کھلاڑی کے آءوٹ ہونے پہ یہ اشتہار آیا اور بلی خوشی سے ناچتی پھری۔ بعض حقائق بڑی دیر سے پتہ چلتے ہیں۔


اب پھر ایک سوال ذہن میں ہے۔ اگر بلی نے چوہوں کی پٹائ لگائ اور ڈنگ ڈونگ لے کر اس نے پھر وہی سونگ گایا۔ تو اس دفعہ اس نے کون سا سونگ گایا؟ جواب منتخب کریں۔
۱
ڈنگ ڈونگ
۲
تم جیتو یا ہارو
سنو
ہمیں تم سے پیار ہے
۳
لخ لعنت

Monday, September 24, 2012

ریبیز اور اسکا عالمی دن

ایک عام خیال یہ ہے کہ ریبیز نامی بیماری صرف کتے کے کاٹنے سے ہوتی ہے۔ لیکن اور بھی بہت سے گرم خون والے جانور ہیں جن سے یہ بیماری ہو سکتی ہے۔ ان میں  گھوڑے، بندر، لومڑی، رکون، نیولا، بھیڑیا، بلیاں، خرگوش اور چمگادڑ بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ جی ہاں انکے کاٹنے سے بھی انسان ریبیز کا شکار ہو سکتا ہے۔ ریبیز ایسا مرض ہے جو ریبیز سے متائثر جانوروں سے انسان میں منتقل ہوتا ہے۔ اسکے جراثیم جانور کے تھوک میں یا اعصاب میں ہوتے ہیں۔ انسان سے انسان میں اگرچہ یہ ممکن نہیں لیکن ٹرانسپلانٹ سرجری کے بعد بعض لوگوں میں ریکارڈ کیا گیا۔ یعنی ایک ریبیز سے متائثر شخص کا کوئ عضو اگر غیر متائثر شخص کو لگا دیں تو اسے ہو سکتی ہے۔


اس طرح،  پہلے جانور کو ریبیز ہوتی ہے اور پھر وہ اس قابل ہوتا ہے کہ انسان میں منتقل کر سکے۔ اس لئے ہر کتے کے کاٹنے سے ریبیز نہیں ہوتا بلکہ صرف اس کتے کے کاٹنے سے ہوتا ہے جو اس مرض میں مبتلا ہو۔
اس مرض کا پہلا دستاویزی ثبوت، دو سو قبل از مسیح میں ملتا ہے۔ جہاں ایک کتے کے کاٹے سے مرض کی علامات ظاہر ہوئیں۔  اٹھرہویں صدی سے پہلے تحقیق کے لئے جانور کی زبان کاٹ کر محفوظ کر لی جاتی تھی۔ یہ بعد میں معلوم ہوا کہ درحقیقت اسکے جراثیم دماغی خلیات میں ہوتے ہیں زبان میں نہیں۔
دنیا بھر میں ہر سال تقریباً پچپن ہزار امواتیں ریبیز کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ جنکی اکثریت ایشیاء اور افریقہ سے تعلق رکھتی ہے۔ ستانوے فی صد ریبیز کے کیسز ، کتے کے کاٹنے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
ریبیز لاطینی زبان کا لفظ ہے جسکا مطلب ہے پاگل پن۔ کیونکہ یہ مرض جب اپنی انتہائ حالت پر پہنچتا ہے تو مریض جنونی حرکتیں کرنے لگتا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ اس مرض کا وائرس دماغ پہ اثر انداز ہوتا ہے اور اس میں سوجن پیدا کر دیتا ہے۔ مرض جب اس شدت پہ پہنچ جائے تو مریض چند دنوں کے اندر ختم ہوجاتا ہے۔
یہ وائرس دماغی اعصاب کے ذریعے سفر کرتا ہوا دماغ تک پہنچتا ہے۔ یوں کاٹے جانے والے مقام سے فاصلے کی بنیاد پہ اس مرض کے ظاہر ہونے میں اتنا وقت لگتا ہے۔ یہ مقام جتنا دماغ سے قریب ہوگا اور جتنا زیادہ کاٹنے کا زخم گہرا اور بڑا ہوگا اتنا جلد مرض کی علامتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ اور اس طرح چند دنوں سے لیکر چند مہینوں میں مرض کی علامتیں ظاہر ہو سکتی ہیں۔
مرض ظاہر ہونے کی کم سے کم مدت چار دن اور زیادہ سے زیادہ مدت چھ سال ریکارڈ کی جا چکی ہے۔
علامتیں  ظاہر ہونےسے پہلے اگر حفاظتی ٹیکے لے لئے جائیں تو مرض میں مبتلا ہونے کے امکانات ختم ہوجاتے ہیں  وائرس کے دماغ میں پہنچ جانے کی صورت میں یا علامات ظاہر ہونے کے بعد یہ ٹیکے یا کوئ اور دوا کام نہیں کرتی۔

مرض کی علامات؛
مرض کی ابتدائ علامات میں پہلے مرحلے میں، طبیعت گری سی محسوس ہوتی ہے۔ سر درد اور بخار ہو جاتا ہے آہستہ درد ہونا شروع ہوتا ہے، دوسرے مرحلے میں مریض اشتعال میں آجاتا ہے، غیر معمولی جوش، تناءو اور پانی کا خوف بھی ظاہر ہونے لگتا ہے۔ جانور ہونے کی صورت میں وہ ذرا سی حرکت میں اتنا اشتعال میں آسکتا ہے کہ کاٹ لے۔  مریض عجیب و غریب حرکتیں شروع کر دیتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں، فالج کا اثر ہو سکتا ہے۔ پاگل پن کی علامتوں کے ساتھ مریض کومے میں چلا جاتا ہے۔ علامات ظاہر ہونے کے دو سے چند دن کے اندر موت واقع ہوجاتی ہے۔ موت عام طور سے اعضائے تنفس کے کام چھوڑ دینے کی وجہ سے ہوتی ہے۔

بچاءو؛
 ریبیز سے محفوظ رہنے کے لئے، ریبیز پیدا کرنے والے جانور کے کاٹنے کے فوراً بعد ٹیکے لگوانا ضروری ہیں۔ ریبیز کا موئثر بچاءو یہ ٹیکے ہیں اگر ایک دفعہ علامات ظاہر ہوجائیں تو مریض کو بچانا ممکن نہیں رہتا۔
اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ جانور کو پکڑ کر اس میں بیماری تشخیص کی جائے اگر وہ ریبیز کا شکار نہیں ہے تو ٹیکے لگوانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن عام طور پہ کتے کے کاٹے کے واقعات آوارہ کتوں کے ہوتے ہیں جو کاٹنے کے بعد بھاگ جاتے ہیں اور انہیں ڈھونڈھ نکالنا آسان نہیں ہوتا۔ اگر یہ کوئ پالتو کتا ہے اور اسکی ویکسینیشن باقاعدہ ہوتی  ہے تو پھر ریبیز کے امکانات نہیں ہوتے۔
اٹھارہ سو پچاس میں ریبیز سے بچاءو کے ٹیکے وجود میں آئے۔ لوئ پاسچر اور ایمائل روکس کے سر اسکی دریافت کا سہرا جاتا ہے۔  یہ ویکسین متائچرہ جانور کے دماغی خلیات سے بنائ گئ تھی۔ انیس سو سڑسٹھ میں  جدید ویکسین وجود میں آئ۔ یہ نہ صرف سستی ثابت ہوئ بلکہ بنانے کا طریقہ بھی آسان تھا۔  ترقی یافتہ ممالک میں پالتو کتوں کے لئے ویکسینیشن ضروری ہے اس طرح امریکہ میں اب پالتو کتوں کی وجہ سے ریبیز عموماً نہیں ہوتی بلکہ اسکے ہونے کی بنیادی وجہ چمگادڑیں ہیں۔
بچاءو کے لئے جسب ذیل طریقے اختیار کئے جائیں۔
پالتو جانوروں مثلاً کتے، گھوڑے، خرگوش اور بلیوں کی ویکسینیشن کرائ جائے۔
گھریلو جانوروں پہ نظر رکھی جائے کہ وہ کس طرح کا رویہ رکھتے ہیں۔
آوارہ پھرنے والے جانوروں سے دور رہا جائے اور انہیں چھونے سے گریز کیا جائے۔
پاگل کتا نظر آنے کی صورت میں فوراً انتظامیہ کو اطلاع دی جائے۔
اگر ریبیز پیدا کرنے والے جانور کاٹ لیں تو زخم کو فوراً صابن ملے پانی سے اچھی طرح پانچ منٹ تک دھوئیں تاکہ زیادہ سے زیادہ جراثیم دھل جائیں اور جسم میں داخل نہ ہو سکیں۔ اگر ٹنکچر آئیوڈین یا الکوحل موجود ہو تو اس سے بھی دھو لیجئیے۔ جسم کے سوراخوں جیسے منہ اور ناک کے نتھنے اور آنکھوں کو بھی اچھی طرح پانی سے دھو لیں۔   ڈاکٹر سے فوری رجوع کریں۔
کتے کے کاٹنے کے فوراً بعد بچاءو کے لئے ٹیکے لگوانے چاہئیں۔ پہلے  جو ٹیکے استعمال کئے جاتے تھے وہ عام طور پہ چودہ دن تک مسلسل لگانے پڑتے تھے وہ بھی پیٹ میں۔ پیٹ میں موجود چربی کی موٹی تہہ اس ٹیکے کو جسم میں کنٹرولڈ مقدار میں داخل ہونے دیتی تھی۔  لیکن اب زیادہ مءوثر ٹیکے موجود ہیں جنہیں پیٹ میں نہیں لگانا پڑتا بلکہ بازو پہ لگاتے ہیں اور نہ روزانہ بلکہ چودہ دن میں چار دفعہ لگایا جاتا ہے۔ البتہ یہ کہ پیٹ میں لگانے والے ٹیکے سستے پڑتے ہیں۔

 علاج؛
کیا ریبیز ہو جانے کے بعد اسکا علاج ممکن ہے؟
ریبیز کے علاج کے لئے کوششیں اور تحقیق  جاری ہے۔ اس سلسلے میں پروٹوکول ترتیب دیا گیا جسکے نتائج حوصلہ افزاء ہیں لیکن واقعی کامیاب نہیں۔ اس طریقے سے اب تک چند افراد کو بچایا جا چکا ہے۔ اس سلسلے میں پہلا کیس ایک بچی کا تھا۔ جین گیز نامی اس بچی کو سن دو ہزار چار میں ایک چمگادڑ نے انگلی پہ معمولی سا کاٹ لیا تھا۔ جسے اس وقت صاف ستھرا کر کے چھوڑ دیا گیا کہ معمولی سا زخم ہے۔ تقریبا ایک مہینے بعد جینا میں بیماری کی علاتیں ظاہر ہونا شروع ہوئیں۔ اسے ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹڑ اسکے اعصابی رد عمل کو دیکھ کر پریشان تھے کہ معمولی بخار سے ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ پھر اسکے گھر والوں کو خیا آیا کہ اسے کچھ دن پہلے چمگادڑ نے کاٹ لیا تھا۔ جینا گیز ریبیز کا شکار ہو چکی تھِ اور اب ٹیکے کا استعمال اسے بچا نہیں سکتا تھا۔ اس لئے ڈاکٹرز نے خاندان والوں کی اجازت سے جینا کو کچھ عرصے کے لئے بے ہوش کر دیا یعنی اسے کومے والی صورت میں لے گئے جہاں دماغ کام کرنا بند کر دیتا ہے اس طرح دماغی خلیات کو تباہ ہونے سے بچایا جا سکتا ہے اسکے بعد جینا کو اینٹی وائرل دوائیں دے کر اسکے جسم کو اس قابل بنایا گیا کہ وہ قدرتی طور پہ ریبیز کے خلاف اینٹی باڈیز بنا سکے۔ چند دنوں کے بعد جب جسم میں اینٹی باڈیز بننے کا عمل شروع ہو گیا تو جینا کو کومے سے واپس لایا گیا۔
جینا کو مکمل طور پہ صحت یاب ہونے میں لمبا عرصہ لگا لیکن وہ اب زندگی کی تمام سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہے سوائے چند ایک کے۔ یہ پروٹوکول  مل واکی پروٹوکول کہلاتا ہے۔ اب تک چار افراد اس طریق علاج سے بچائے جا چکے ہیں۔ ابھی اس پہ تحقیق جاری ہے کہ کیا واقعی اس پروٹووکول سے ہی مریض بچے یا انکے بچنے کی وجوہات کچھ اور ہیں۔

دنیا بھر میں ریبیز سے آگہی کا عالمی دن اٹھائیس ستمبر کو منایا جاتا ہے۔  اس حوالے سے یہ تحریر معلومات عامہ کے لئے ہے۔
 
   

Saturday, September 22, 2012

کیا واقعی؟

اب کچھ بھی لکھنے سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ رسول اللہ پہ بنائے جانے والی فلم کے متعلق میرا کیا خیال ہے۔
 ٹیکنالوجی کے اس زمانے میں کسی بھی قسم کا فضول مواد نیٹ پہ ڈالنا کسی بھی شخص کے لئے کوئ مشکل کام نہیں۔ اسکی مثال وہ فحش مواد ہے جو خود مغربی معاشرے کے لئے ایک مصیبت سے کم نہیں۔
ہمارے یہاں اس فلم کے اوپر غم غصے کا ہونا بجا ہے۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلام  کے پیغمبر، کوئ تصوراتی شخصیت نہیں ہیں۔ انکی یہی خوبی جہاں ایک مسلمان کے لئے بے حد کشش کا باعث بنتی ہے وہاں نہ ماننے والوں کے لئے تنازعوں کا کھڑا کرنے کا باعث بھی بنتی ہے۔
میرے نزدیک یہ فلم  آزادی ء اظہار رائے کے ضمن میں نہیں آتی بلکہ اسکا تعلق ہیٹ میٹیریئل یعنی نفرت انگیز مواد سے ہے۔  سو اس سلسلے میں مسلمانوں کا یہ مطالبہ اپنی جگہ درست ہے کہ اسے نیٹ پہ سے ہٹایا جائے کیونکہ یہ مسلم دنیا سے نفرت کا اظہار کرتی ہے۔ اور جب تک اسے نیٹ پہ سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ مسلم دنیا یہ تسلیم کرنے میں حق بجانب رہے گی کہ یہ نفرت انگیز مواد ، مسلم دنیا کو مشتعل کرنے کے لئے پیش کیا گیا ہے۔
مسلم دنیا  اس سلسلے میں کیا کر سکتی ہے؟
یہ ایک اہم سوال ہے۔ ایک اجتماعی حل تو یہ ہے  کہ تمام مسلم ممالک کو اس سلسلے میں متحد ہو کر کسی ایسے بین الاقوامی قانون کے لئے کوشش کرنی چاہئیے جس سے اس قسم کے نفرت انگیز مواد کا پھیلاءو ممکن نہ رہے۔ 
لیکن اس سے پہلے ہمیں بحیثیئت پاکستانی خود سے بھی پوچھنا چاہئِے کہ کیا ہم دوسرے مذاہب کی تکریم کرتے ہیں۔ کیا ہم دوسرے انسانوں کو یہ آزادی دیتے ہیں کہ وہ اپنے مذہب پہ جیسے دل چاہے عمل کریں۔
کل میری نظر ایک مضمون پہ سے گذری جو کسی مغربی لکھاری کا لکھا ہوا تھا اور انہوں نے اس میں بے شمار چیزیں گنوائیں جو مسلمان ، غیر مسلموں کے لئے کہتے ہیں اور جو نفرت انگیز مواد میں شامل ہونا چاہئیے۔ جب ہم دل آزاری کے اس مرحلے سے بغیر کسی قباحت کے گذر جاتے ہیں تو اپنی باری میں پہ ہم کیوں پریشان ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے رسول کی تکریم ہو تو ہمیں اپنے اعمال کی بھی نگہداشت کرنی چاہئیے۔

ON CHRISTIANS Hasan Rahimpur Azghadi of the Iranian Supreme Council for Cultural Revolution: Christianity is “a reeking corpse, on which you have to constantly pour eau de cologne and perfume, and wash it in order to keep it clean.”http://www.memritv.org/clip/en/1528.htm — July 20, 2007.

Sheik Al-Khatib al-Baghdadi: It is permissible to spill the blood of the Iraqi Christians — and a duty to wage jihad against them.http://www.memri.org/report/en/0/0/0/0/0/0/5200.htm — April 14, 2011.

Abd al-Aziz Fawzan al-Fawzan, a Saudi professor of Islamic law, calls for “positive hatred” of Christians. Al-Majd TV (Saudi Arabia),http://www.memritv.org/clip/en/992.htm — Dec. 16, 2005.

ON SHIITES The Egyptian Cleric Muhammad Hussein Yaaqub: “Muslim Brotherhood Presidential Candidate Mohamed Morsi told me that the Shiites are more dangerous to Islam than the Jews.” www.memritv.org/clip/en/3466.htm — June 13, 2012.

The Egyptian Cleric Mazen al-Sirsawi: “If Allah had not created the Shiites as human beings, they would have been donkeys.” http://www.memritv.org/clip/en/3101.htm — Aug. 7, 2011.

The Sipah-e-Sahaba Pakistan video series: “The Shiite is a Nasl [Race/Offspring] of Jews.”http://www.memri.org/report/en/0/0/0/0/0/51/6208.htm — March 21, 2012.

ON JEWS Article on the Muslim Brotherhood’s Web site praises jihad against America and the Jews: “The Descendants of Apes and Pigs.”http://www.memri.org/report/en/0/0/0/0/0/51/6656.htm — Sept. 7, 2012.

The Pakistani cleric Muhammad Raza Saqib Mustafai: “When the Jews are wiped out, the world would be purified and the sun of peace would rise on the entire world.”http://www.memri.org/report/en/0/0/0/0/0/51/6557.htm — Aug. 1, 2012.

Dr. Ismail Ali Muhammad, a senior Al-Azhar scholar: The Jews, “a source of evil and harm in all human societies.” http://www.memri.org/report/en/0/0/0/0/0/51/6086.htm— Feb. 14, 2012.

ON SUFIS A shrine venerating a Sufi Muslim saint in Libya has been partly destroyed, the latest in a series of attacks blamed on ultraconservative Salafi Islamists.http://www.bbc.co.uk/news/world-africa-19380083 — Aug. 26, 2012.


عوام کی مذہب کے نام پہ  سلطان راہی بننے کی لگن دیکھتے ہوئے سیاستداں بھی اس سے کم فائدہ نہیں اٹھاتے۔ کیونکہ مذہب کا نام لے کر کسی کو قتل کر دیں یا کسی کی زمین چھین لیں یا کسی کو قید کرا دیں یہ کوئ مشکل کام نہیں۔ معاشرہ بھی اسے برا نہیں سمجھتا۔ جو اس چکر میں پھنستا ہے اسکی جاں بخشی اس ملک کی سرحدوں کے باہر ہی ممکن ہو پاتی ہے۔ سو وہ لوگ جو آجکل خواب میں بھی اپنے ہاتھ میں تلوار اور سامنے گستاخ کا سر دیکھتے ہیں انکو بلور صاحب نے پیغام دیا ہے کہ گستاخ فلم بنانے والے کے سر کی قیمت انہوں نے رکھ دی ہے۔ جسے ہو شوق جائے کرے شکار اسے۔ اس طرح صوبہ ء سرحد میں موجود طالبان کو انہوں نے ایک سخت چیلینج دیا ہے۔ دیکھتے ہیں طالبان  کیا زیادہ سخت سزا اس گستاخ کے لئے رکھتے ہیں۔ بلور صاحب سے معذرت کے ساتھ کیا یہ پیغام تشدد، شدت پسندی اور نفرت انگیز جذبات کو ہوا دینے والا نہیں ہے۔
ہمیں دیکھنا چاہئیے کہ مغربی ممالک میں کئ دہائیوں سے بسنے والے لوگوں کی زندگی کیا ان مغربی لوگوں نے اجیرن کی ہوئ ہے۔ کیا وہ انکے سامنے انکے نبی کی توہین کرتے ہیں۔ مجھے آج تک کوئ ایک شخص مغرب میں ایسا نہیں ملا جس نے مجھ سے میرا مذہب پوچھا ہو یا میرا مذہب جاننے کے بعد کوئ توہین آمیز ریمارک دیا ہو۔
کسی بھی ایسے گستاخ کے سر کی قیمت رکھ کر یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں پاگلوں کی کمی نہیں۔ کیا سلمان رشدی کے سر کی قیمت رکھنے کے بعد لوگوں نے مرنے کے ڈر سے گستاخی کرنے کی جراءت نہیں کی؟
مجھے یقین ہے کہ یہ اس سلسلے کا آخری واقعہ نہیں ہوگا جیسا کہ مجھے کارٹونز والے معاملے میں بھی یقین تھا کہ یہ سلسلہ ایسے نہیں رکے گا۔
  اب ہم پاکستان کی طرف آتے ہیں۔ کل ہمارے یہاں یوم عشق رسول  ایسے منایا گیا کہ لوٹ مار کے واقعات کے ساتھ چھبیس افراد اپنی جان سے گئے۔ یہ وہ بے گناہ ہیں جنہیں کوئ شہید بھی نہیں کہتا۔ مذہبی رجحان رکھنے والے لوگوں نے اس پہ مذمت سے زیادہ اس پہ مذمت کی کہ میڈیا نے پر امن ریلیوں کی کوریج کے بجائے ہنگامے کی کوریج زیادہ کی۔ مجھے جس چیز پہ انتہائ افسوس رہا وہ یہ کہ سوائے فضل الرحمن صاحب کے کسی اور مذہبی تنظیم نے جاں کے زیاں پہ اپنے افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ حتی کہ سوشل میڈیا پہ موجود دائیں بازو کا پروپیگینڈہ کرنے والوں کی اکثریت اس وقت ایسے خاموش ہوئ جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ جیسے یہ واقعہ پاکستان میں نہیں مریخ پہ پیش آیا ہو، جیسے مرنے والے ہمارے ہم مذہب اور ہم وطن نہیں بلکہ کسی جنگل میں شیر اور ہاتھی کے درمیان لڑی جانے والی جنگ میں کچلی ہوئ گھاس تھے۔
آخر یہ کیسے ہوا کہ اتنے لوگ ہلاک ہو گئے؟
ایک اسٹیٹس میری نظر سے فیس بک پہ گذرا۔ جس میں لکھنے والے نے لکھا کہ ریلیاں انتہائ پر امن تھی۔ ان میں ہر طرح کے لوگ شامل تھے لیکن معاملہ ان جگہوں پہ خراب ہوا جہاں افغان مہاجرین نے ریلیوں میں شرکت کی۔ یہ افغان توڑ پھوڑ اور ہلاکتوں میں شامل تھے۔ اسکے ساتھ ہی اسلام آباد کے ہنگامے کی تصویر تھی۔
تب مجھے یاد آیا کہ بے نظیر کے مرنے پہ کراچی میں ملیر کے علاقے میں سب سے زیادہ ہنگامہ ہوا۔ لوگوں نے کہا کہ انکے گھروں میں گھس کر نہ صرف لوٹ مار کی گئ بلکہ خواتین کو اٹھا لیا گیا۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس کا ذمہ دار افغان مہاجرین کو بتایا۔
ادھر کراچی میں میری آج ایک صاحب سے بات ہوئ جو حافظ قرآن ہیں اور لیاری کے علاقے میں رہتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ وہ عینی گواہ ہیں کہ کل صدر کے علاقے میں جو لوٹ مار اور جلاءو گھیراءو ہوا وہ لیاری کے امن کمیٹی والوں کا کیا دھرا ہے۔  چند سال پہلے بھی کراچی پیپر مارکیٹ میں آگ لگانے کا ذمہ دار امن کمیٹی کو بتایا گیا تھا۔ حتی کہ اس وقت کی جانے والی لوٹ مار کا سامان بعد میں لیاری کے ایک گودام سے بر آمد بھی کیا گیا۔ یہ پیپر مارکیٹ صدر کے ساتھ ہی ہے۔
 میں نے حیران ہو کر ان صاحب سے پوچھا، لیکن میڈیا اس سلسلے میں کچھ نہیں بتا رہا اور امن کمیٹی والوں کا اس سارے معاملے سے کیا تعلق؟
کہنے لگے، امن کمیتی کی خبریں میڈیا نہیں دے سکتا۔ مزید یہ کہ  یہ سب ایجنسیز یعنی پاکستانی فوج کے ایماء پہ ہوا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام مذہب کے نام پہ بڑھکوں اور قتل و غارت گری سے بھرپور ڈرامہ دیکھ کر اپنا خون گرم رکھے۔ کیونکہ وہ ایک طرف عوام کو مذہب کے نام پہ طیش میں لاتے ہیں اور دوسری طرف امریکہ بہادر کو جتاتے ہیں دیکھا، ہم نے کتنی مصیبتیں جھیل کر آپکو اپنے علاقے میں تحفظ دیا ہوا ہے۔ اور آپ ہمارے لئے کیا کرتے ہیں۔ اس سے نہ صرف فوج بلکہ حکومت کے بھی پو بارہ ہیں۔
سوسائٹی میں وہ جن لوگوں کو استعمال کر سکتے ہیں انہوں نے کیا، ایک طرف افغان ذرائع انکے قابو میں  دوسری طرف کراچی میں جو قوتیں انکے قابو میں ہیں ان سے بھی حتی الامکان کام لیا ہے۔ مذہبی جماعتیں جہاد کے نام پہ انکے قابو میں ایسے آتی ہیں جیسے تر نوالہ۔
مجھے تو انکی بات پہ شبہ ہی تھا یہ تو آئے دن کا معمول ہے کہ جب کچھ سمجھ نہیں آتا تو کہہ دیتے ہیں کہ اس میں ایجنسیز شامل ہیں۔  لیکن آج صبح جب میں نے کیانی صاحب کا یہ بیان ٹی وی پہ سنا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جہاد جاری رکھیں گے تو میں نے سوچا کہ جہاد اور جنگ میں معمولی سا فرق ہے وہ چاہتے تو اوبامہ کی طرح لفظ جنگ استعمال کر سکتے تھے۔ لیکن در حقیقت اس میں اتنا ہی فرق ہے جتنا خدا حافظ اور اللہ حافظ میں ہے۔ عوام کو کتنی آسانی سے سمجھ میں آیا کہ اللہ حافظ سے ہی اللہ ہمیں حفاظت دے گا۔ کیونکہ مسلمانوں کے خدا کا نام اللہ ہے۔ خدا تو ہر کس و ناکس کا ہو سکتا ہے۔ ہر کسی کا خدا خاص امت کا خدا کیسے ہو سکتا ہے۔ کیانی صاحب نے بڑا ناپ تول کر بولا۔
یہ پاک فوج ہے جس نے مذہبی شدت پسندی کا بیج بویا، اسکی آبیاری کی، اسے تناور بنایا، اسکے سائے میں بیٹھ کر اپنے لئے گلشن بنائے اور اب بھی اسکا کردار شفافیت سے محروم ہے۔ 
کیا واقعی؟ پاکستانی فوج  اب تک اس نشے کا شکار ہے کہ وہ بوتل کے جن کو جب چاہے گی اندر کر لے گی اور جب چاہے گی باہر کر لے گی۔ وہ جب چاہے گی مولوی صاحب کی خدمات حاصل کرے گی اور جب چاہے گی مولوی صاحب کو ایک طرف کر دے گی۔ کیا مولوی صاحب اتنے ہی بے وقوف ہیں؟

Monday, September 17, 2012

توہین کا غم

جہاں تین سو لوگ ایک دن میں جل کر مرجائیں اور کوئ سنوائ نہ ہو کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ مزدوروں کے حق میں کوئ تحریک نہ چلے۔ محنت کشوں کے لئے موجود ہمارے پالیسی سازوں کے اونچے اونچے محلوں پہ پتھر مارنے کے لئے ایک ہاتھ حرکت میں نہ آئے۔  جہاں ایک فلم  بننے کے ایک سال بعد اااس وقت اس پہ احتجاج شروع ہو جس وقت اسکا عربی ورژن ریلیز ہو۔ یہی نہیں بلکہ لوگ  سوشل میڈیا پہ یہ پیغام شیئر کر رہے ہوں کہ توہین پیغمبر کی سزا ، بس سر سے تن جدا، بس سر سے تن جدا، بس سر سے تن جدا۔ جہاں اس بات پہ خوشی منائ جارہی ہو کہ کراچی میں سفارت خانے پہ حملے میں ضائع ہونے والی جان، دراصل بازی لے جانے والے شخص کی ہے۔
ایسے زمانے میں چھٹی کا دن اور اس سے منسلکہ تفریح اسکے علاوہ کیا رہ جاتی ہے کہ آپ گھر میں سوئیں اور سوتے ہی رہیں۔ مر جائیں مرنے سے پہلے۔
لیکن اس اتوار میں نے یہ نہیں کیا۔ میں کسی بھی اتوار کو یہ کرنا پسند نہیں  کرتی۔ جب سے مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ زندگی انسان کی وہ سب سے قیمتی شے ہے جو اسے دوبارہ نہیں ملے گی۔ صرف ایک بارملے گی۔ اس احساس کے بعد سونا کافی مشکل لگتا ہے۔ ذرا سوچیں اس ایک زندگی میں وہ کیا دلچسپ کام ہیں جو ہم کر سکتے ہیں۔ جن سے کسی کو کوئ نقصان نہیں۔ جن سے کسی کی توہین نہیں ہوتی، جن سے دل تشکر کے احساس سے بھر جاتا ہے کہ خدا نے ہمیں زندگی جیسی نعمت سے نوازا۔ 
میں  کتابوں کی ایک دوکان پہ چلی گئ۔ یہاں نئ کتابیں کم اور پرانی زیادہ ہوتی ہیں۔ کتنی پرانی؟ اسکا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ایک صاحب نے بتایا کہ وہ علامہ راشد الخیری کے ایک رشتے دار کے ہمراہ اس دوکان پہ موجود تھے۔ وہاں انیس سو تیس میں چھپنے والی انکی سوانح عمری مل گئ۔ جس میں ان صاحب کے دادا کے بچپن کی تصویریں بھی شامل تھیں۔
کتابیں چھانتے ہوئے، ایک کتاب نظر آئ جس پہ مصنف کا نام لکھا تھا، مرزا غلام احمد۔ میں نے سوچا یہ تو کچھ سنا سنا سا نام لگتا ہے۔ ہاتھ میں اٹھا کر دیکھا تو یاد آیا کہ فیس بک پہ روزانہ ہی ان کے دین سے ہشیار کروایا جاتا ہے۔ اور میں انہی کا نام بھول گئ۔ مجھے یقین ہے کہ میں آخری عمر میں الزائمر کا شکار ہونگی۔ اسے اٹھا کر رکھ دیا۔ اپنے مذہب کی تفصیلات یاد نہیں رہتیں، انہیں پڑھ کر کیا کرونگی جبکہ دنیا میں ہر روز کے حساب سے دلچسپ باتیں علم میں آتی ہیں۔
اسی ڈھیر میں  میں ایک اور کتاب مرزا بشیر احمد کی تھی۔ یہ بھی ایک دم خستہ حال ہو رہی تھی۔ جسے ان کتابوں کے حوالے دینا ہوں وہ خریدے۔  یہ سوچ کر ہنسی آئ کہ  قادیانیوں کے خلاف تحریک چلانے والوں کو معلوم نہیں انکا لٹریچر، لوگوں کی لا علمی کی وجہ سے ابھی تک دوکانوں پہ موجود ہے۔ مجھے یقین ہے کہ دوکاندار نے بھی کبھی ان کتابوں میں دلچسپی نہ لی ہوگی۔ شاید اسے معلوم ہی نہ ہوگا کہ وہ قادیانیوں کا لٹریچر رکھتا ہے۔ اور اگر معلوم ہوا بھی تو اس نے سوچا ہوگا کہ جیسے اور لوگ اپنا دینی لٹریچر خریدتے اور پڑھتے ہیں ایسے ہی کوئ قادیانی بھی خرید لے گا۔ اسے کیا، یہ اس کا کاروبار ہے۔ جیسے فیکٹری میں کام کرنے والوں کو اس علم سے کیا غرض تھی کہ اگر آگ لگی تو وہ وہاں سے زندہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہونگے یا نہیں۔  انہیں کام چاہئیے تھا اور اسکے بدلے میں پیسے۔
وہاں ایک اور کتاب موجود تھی جس میں بتایا گیا تھا کی آغا خان اسمعیلیوں کے خدا کیسے؟ میں نے ایک نظر اس پہ ڈالی۔ آغا خانی ہمارے یہاں کی امیر  ترین اقلیت ہیں۔ کوئ انکو کافر قرار دے کر مار سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا؟  اس میں بھی  آغا خانیوں کے دین پہ لعنت بھیجی گئ تھی۔ لیکن شاید ننانوے فی صد آغا خانیوں کو اردو لٹریچر پڑھنے سے کوئ شغف نہیں۔  
نئ کتابوں پہ ایک نظر ڈالتے ہوئے میری نظر ایک کتاب پہ رکی۔ یہ خوشگوار اسلامی ازدواجی تعلقات پہ تھی۔ مجھے خیال آیا کہ ایک دوست کی شادی ہونے والی ہے انہیں تحفے میں دی جا سکتی ہے۔ لیکن پہلے اسے کھول کر تو دیکھوں کہ اس میں لکھا کیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم ایسی کتابوں میں اسلام کے حوالے سے کیا لکھا ہوتا ہے۔ اسلام کس طرح ازدواجی تعلقات کو خوشگوار بنانے میں مدد کر سکتا ہے۔
میں نے کتاب درمیان سے کھول لی۔ کس قسم کی عورت سے شادی کرنی چاہئیے؟ یہ صفحہ میرے سامنے تھا۔ احادیث اور قرآنی آیات کے حوالے موجود۔  مصنف نے جو کوئ مولانا تھے حدیث سے ثابت کیا کہ ویسے تو رسول اللہ نے دیندار عورت کو ترجیح دینے کو کہا ہے لیکن عورت کا خوب صورت ہونا ضروری ہے اگر عورت خوب صورت نہ ہو تو شوہر کا دل دوسری عورتوں میں لگا رہے گا۔ جسے سفید رنگت اور خوب صورت آنکھوں والی عورت دنیا میں مل گئ جو اپنے شوہر کا خیال رکھتی ہو اسے گویا دنیا ہی میں حور مل گئ۔
ان کے نزدیک عورت کا کنوارہ ہونا ضروری ہے۔ بیوہ  یا طلاق یافتہ عورت کا دل اپنے پہلے شوہر کے خیال میں ڈوبا رہتا ہے اور وہ دوسرے شوہر کے حقوق خوشدلی سے پورے نہیں کر سکتی۔ بکواسو، میں نے سوچا۔ جس پیغمبر نے اپنے سے پندرہ سال بڑی ایک بیوہ عورت کے ساتھ اپنی نوجوانی کے پچیس سال گذارے ہوں اور جسکی صرف ایک بیوی کنواری اور باقی سب پہلے سے شادی شدہ ہوں اسکے نام پہ یہ بات کرنا جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے۔ آگے صفحے پلٹتی ہوں۔
بانجھ عورت سے شادی نہیں کرنی چاہئیے۔  رسول اللہ سے منسوب ایک حدیث کے حوالے سے بتایا گیا کہ اگر کسی عورت کے متعلق پہلے سے پتہ ہو کہ وہ بانجھ ہے تو اس سے شادی نہ کرو۔ میرا دل ٹوٹ  سا گیا۔ میں نے وہ کتاب بند کر کے وہیں واپس رکھ دی۔
میں ایک عورت ہونے کے ناطے سوچتی ہوں۔ کیا میں صرف بچے پیدا کرنے کا ایک آلہ ہوں۔ کیا میرے جذبات نہیں، خواہشات نہیں۔ کیا بانجھ عورت کو شادی کا حق نہیں جبکہ وہ جسمانی طور پہ ایک دم درست ہو؟
کیا یہ منسلکہ حدیث صحیح ہو سکتی ہے؟ آخر ہمیں کیوں تامل ہے کہ حدیثوں کے ذخیرے میں بہت غلطیاں ہیں جن سے لوگ اس ہستی کا مذاق اڑاتے ہیں جس کے لئے آپ  کو کسی کا سر تن سے جدا کرنے میں کوئ عار نہیں۔  
میں کتاب کی دوکان سے واپس آئ، اور اب میرے دماغ میں آگ سے پیچھا چھڑانے والے لوگوں کی چیخوں کے ساتھ اس عورت کا غم بھی شامل ہے جو بانجھ ہے، بچے پیدا نہیں کر سکتی اور کوئ اس سے شادی بھی نہیں کر سکتا۔ گو غم اور چیخ، سانجھے ہیں لیکن کچھ انسان اپنی توہین کروا کر غمزدہ رہنا کیوں پسند کرتے ہیں؟  

Thursday, September 13, 2012

انا للہ

ٹورنٹو میں، میں کچن میں انڈہ فرائ کر رہی تھی۔ فرائ پین  سے دھواں اٹھا ہی تھا کہ ایک الارم بجنے کی آواز سارے گھر میں پھیل گئ۔ میں نے حیران ہو کر سوچا کہ یہ کس قسم کا الارم بجا اور کیوں؟ گھر کے ایک فرد کی آواز سنائ دی کہ کچن کے  باہر لاءونج میں چھت پہ سینسر موجود ہے اسکے پاس بٹن پہ ہاتھ مار دیں۔ الارم بند ہوجائے گا۔ دھویں سے بجا ہے اور بار بار بجے گا۔
کنیڈا میں جنگل اور یوں  لکڑی بہت ہے۔ گھر زیادہ تر لکڑی کے بنے ہوتے ہیں۔ اگر سیمنٹ اور اینٹ سے بنائے جائیں تو بھی اندرونی آرائش میں لکڑی استعمال ہوتی ۰ہے اس طرح شدید سردیوں میں یہ گرم رہتے ہیں۔ لکڑی جلدی آگ پکڑتی ہے اس پہ طرہ یہ کہ بجلی وافر مقدار میں دستیاب ہونے کی وجہ سے چولہے زیادہ تر بجلی کے ہوتے ہیں۔ روائیتی چولہوں سے الگ یہاں موجود جدید چولہوں پہ شیشے کی طرح کے مادے کی ایک تہہ موجود ہوتی ہے۔ یہ چولہے دیکھنے میں اور استعمال میں سادہ ہوتے ہیں  ان سے تپش بھی آسانی سے کنٹرول ہوتی ہے، آگ کے شعلے بھی نہیں ہوتے اس لئے نسبتاً محفوظ ہیں۔  لیکن سب سے بڑا خطرہ اس وقت ہوتا ہے جب انہیں بند کرنا بھول جائیں۔ مسلسل جلتے رہنے کی صورت میں یہ آتشزدگی کا باعث بن سکتے ہیں اس لئے ہر گھر میں آگ کا الارم موجود ہوتا ہے۔
یہی نہیں، کثیر المنزلہ بلڈنگزمیں نہ صرف الارم موجود ہوتے ہیں بلکہ ہر تھوڑے عرصے بعد آگ لگنے کا مصنوعی ڈرامہ رچا کر مکینوں کو اپنے اپارٹمنٹس سے بھاگ کر کم وقت میں نیچے پہنچنے کی مشق بھی کرائ جاتی ہے۔ ابھی دو ہفتے پہلے میں اسکائپ پہ اپنی ایک کینیڈا میں مقیم دوست سے بات کر رہی تھی تو پھولی ہوئ سانسوں کے درمیان انہوں نے بتایا کہ وہ ابھی آگ لگنے کی مشق سے واپس آرہی ہیں۔ انکا اپارٹمنٹ گیارہویں منزل پہ ہے۔ جہاں سے انہیں سیڑھیوں کے راستے بھاگنا پڑا۔

ایسی بلڈنگز میں یہ الارم فائر بریگیڈ کے محکمے سے جڑے ہوتے ہیں۔ خطرے کی پہلی علامت کے چند منٹوں کے اندر یہ جائے واقعہ پہ موجود ہوتے ہیں۔ میرے ایک عزیز نے اپنے اپارٹمنٹ میں پوری پکانے کا واقعہ بتایا، جس کا دھواں اپارٹمنٹ سے نکل کر کوریڈور میں پھیل گیا تھا۔ گھر میں موجود کسی مہمان نے نادانستگی میں اپارٹمنٹ کا دروازہ کھول دیا تھا۔  چند منٹ میں فائر بریگیڈ کی دو گاڑیاں اور ایک ایمبولینس موجود تھی جبکہ پوری بلڈنگ کے لوگ باہر نکال دئیے گئے تھے۔
اصل واقعہ پتہ چلنے کے بعد انہیں ان تینوں گاڑیوں کے آنے جانے کا خرچہ دینا پڑا۔
یہ واقعات بتانے کا مقصد صرف یہی ہے کہ یہ کتنی تکلیف دہ بات ہے کہ کراچی میں ایک فیکٹری میں تین سو سے زائد لوگ، فیکٹری میں آگ سے جل کر مر جائیں۔ تین سو انسان جن سے جڑے تین سو خاندان بھی تھے۔ ابھی بھی مرنے والوں کی تعداد اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ دماغ کو گھما دینے والے اس سانحے کے بعد مجھ جیسے لوگ جو بیرون ملک یہ سب دیکھ کر آتے ہیں انہیں کیا یہ احساس نہیں ہوتا کہ ہم کس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں انسان کو انسان نہیں سمجھا جاتا۔
 ذرا چشم تصور سے اس انسان کی بے بسی دیکھئیے جو کہ ایک ایسی کھڑکی کے سامنے تین منزل اوپر سے کود کر جان بچانے کی فکر میں ہو جسکے آگے لوہے کا ایک جنگلہ اسے زندگی سے دور کرنے کے لئے موجود ہو۔ اور دنیا میں کوئ ایسی طاقت، کوئ ایسا نظام موجود نہ ہو جو اسے کھڑکی سے نظر آنے والی،  سامنے موجود کھلی فضا میں لے جا سکے۔
سچ پوچھیں تو مجھ سے اس پہ انا للہ و انا الیہ راجعون بھی نہیں پڑھا جاتا۔ کیا میں خدا کے پاس اس طرح واپس جانا چاہتی ہوں، ایسی بے کسی ، بے بسی اور تکلیف کی موت۔
ہم اس شہر کے مکین، ایک ہی محلے سے سترہ جنازے اٹھنے کے بعد، اپنی ہر قسم کی مصروفیت میں بھی مسلسل  یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا ہم کسی ایسے واقعے کے دوبارہ پیش آنے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
جواب یہ ہے کہ محفوظ رہ سکتے ہیں اگر ہم یہ جان لیں کہ یہ واقعہ کیوں پیش آیا اور ان وجوہات کے تدارک کے لئے کام کریں۔
یہ واقعہ کیوں پیش آیا؟
اسکی مختلف ممکنہ وجوہات بتائ جارہی ہیں۔
نمبر ایک، بجلی فراہم کرنے والے جنریٹر میں خرابی کی وجہ سے آگ لگی۔  بجلی کی شدید کمی اب ہمارے لئے کوئ راز کی بات نہیں۔  عوام نے اس کا حل جنریٹرز میں ڈھونڈھا ہے۔ اس سے جہاں ایک طرف جنریٹرز در آمد کرنے کے ایک نئے کاروبار کو وسعت ملی اور اس سلسلے میں ایک نئ مارکیٹ وجود میں آئ وہاں حکومت بھی کسی دباءو سے آزاد ہو گئ۔ جب لوگوں نے اپنی پریشانیوں کے حل نکال ہی لئے ہیں تو حکومت کو کیا ضرورت کے وہ بجلی پیدا کرنے کے نئے منصوبے بنا کر بجلی پیدا کرنے والے ان جنریٹرز کی در آمد کرنے والے لوگوں کے پیٹ پہ لات مارے۔ انکے روزگار کو بند کرنے کے امکان پیدا کرے۔ حکومت اس سلسلے میں خاصی عوام دوست واقع ہوئ ہے۔
کراچی میں ایسی درجنوں مارکیٹس ہیں جہاں بجلی کی عدم موجودگی میں دوکانوں میں موجود جنریٹرز کام کرتے ہیں ، یہ عمارتیں ایک دم بند ہیں اور کسی بھی حادثے کی صورت میں یہاں حد سے زیادہ جانی و مالی نقصان ہو سکتا ہے۔ مثلاً گل پلازہ، صدر یا رابی سینٹر، طارق روڈ۔ ایک عام دن میں، بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے وقت جب یہ جنریٹرز چلنا شروع ہوتے ہیں تو ان مارکیٹس کے اندر سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے۔
دوسری اہم وجہ یہ بتائ جاتی ہے کہ تنخواہ بانٹنے کا دن تھا اور سیکوریٹی کی وجہ سے تمام داخلی دروازے بند کر دئے گئے تھے اسکے علاوہ، سیکیوریٹی کی ہی وجہ سے کھڑکیوں پہ لوہے کے جنگلے موجود تھے۔
جانی و مالی سیکیوریٹی اس وقت ہمارے ملک کے سر فہرست مسائل میں سے ایک ہے۔ اسکی وجہ سے غیر ملکی تو دور ملکی سرمایہ کار کاروبار کرتے ہوئے ڈرتا ہے۔ اور اسکی وجہ سیاسی اور معاشی دونوں ہیں۔ سیاسی سطح پہ لوٹ مار کرنے والے مجرمان کو نہ پکڑا جاتا ہے اور نہ انہیں سزا ہوتی ہے۔ یہ مجرمان جو ہر سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ معاشی سطح پہ ایسے ذرائع موجود نہیں جو لوگوں کو روزگار دیں نتیجتاً وہ لوٹ مار کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اسکی وجہ معاشرتی بھی ہے۔ ایک ایسے نظام میں جہاں لوٹ مار ہر سطح پہ موجود ہو اور لوگ اخلاقی اصولوں کی پامالی کرے ذرا نہ گھبراتے ہوں۔ وہاں اندھیر نگری ہی جنم میں آتی ہے۔ یہ سب عوامل لوگوں میں انکے سرمائے کے لئے عدم تحفظ پیدا کرتے ہیں۔ چونکہ نظام انہیں تحفظ دینے میں ناکام رہا ہے اس لئے وہ اپنے تئیں اسی طرح کے حل نکالتے ہیں۔ یہ فیکٹری ہی کیا خود میرے گھر کی ہر کھڑکی پہ لوہے کا جنگلہ موجود ہے۔ 
یہاں مجھے ایک دفعہ پھر کینیڈا یاد آتا ہے جہاں گھروں کی کھڑکیوں پہ کسی بھی قسم کے جنگلے کا تصور نہیں۔ یہی نہیں بلکہ گھر کے باہر چہار دیواری کا تصور کوئ خاص نہیں۔ انہیں فکر نہیں کہ لوگ باہر سے انکا گھر اور گھر والی دیکھ لیں گے۔ اگر کوئ سڑک  دیکھے تو اندازہ تک نہ ہو کہ کون سا گھر کہاں ختم ہو رہا ہے۔ گھر کے اطراف میں جو کھلے صحن ، گیراج یا ڈرائیو وے موجود ہیں اس میں بچوں کے کھلونوں سے لے کر گاڑیاں تک سبھی چیزیں پھیلی رہتی ہیں لیکن کوئ چیزوں کو ہاتھ تک نہیں لگاتا۔ لوگ  صرف وہی چیزیں اٹھا سکتے ہیں جو گھر کے باہر فٹ پاتھ پہ موجود ہوں۔
تیسری اہم وجہ اس قسم کی فیکٹریز کا فائر بریگیڈ سے کوئ ڈائریکٹ تعلق نہ ہونا ہے۔
چوتھی اہم وجہ فیکٹریز میں آگ بجھانے کے آلات کا نہ ہونا اور مزدروں کو اس بات کی تربیت نہ ہونا ہے کہ ان آلات کو بوقت ضرورت کیسے استعمال کیا جائے۔ اور نہ ہی انکی اس بات کی تربیت ہونا کہ ایمرجینسی کی صورت میں وہ کس طرح کم سے کم وقت میں فیکٹری کو خالی کر سکتے ہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ فیکٹری مالکان مزدوروں کے تحفظ کی فکر نہیں کرتے اور اس پہ اپنا سرمایہ خرچ نہیں کرنا چاہتے۔ اخباری اطلاع یہ بھی ہے کہ مشرف دور کے بعد سے سندھ میں ملز کی اس طرح کی انسپکشن نہیں ہوئیں جن میں مل کے مزدوروں کو دئے گئے ماحول پہ رپورٹ بنتی اور اسکے لئے وزیر اعلی قائم علی شاہ نے انکار کر دیا تھا۔
 اس نکتے سے اس واقعے کو دیکھئیے۔ اس فیکٹری سے زیادہ تر مصنوعات باہر کے ممالک جاتی تھیں۔ یہ خاصی بڑی فیکٹری تھی۔ آتشزدگی کے نتیجے میں یہ فیکٹری مکمل طور پہ تباہ ہو چکی ہے۔ اس میں موجود تمام مال ختم ہو چکا ہے۔ خود مل مالکان پہ چونکہ لاپرواہی کا مقدمہ دائر ہے اس لئے وہ اپنی جان بچانے کو فرار ہیں۔  اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر محنت کش کو یا مزدور کو تحفظ نہیں دیں گے تو سرمایہ اور سرمایہ کار دونوں ہی داءو پہ لگے رہیں گے۔ پھر مل مالکان، وقتی فائدے کے لئے دور کی کیوں نہیں سوچتے؟ اگر وہ یہ سوچتے کہ وزیر اعلی جائے بھاڑ میں ہم اپنی فیکٹری میں یہ انتظام رکھیں گے کہ مزدوروں کو پتہ ہو کہ آگ لگنے کی صورت میں انہیں آگ کیسے بجھانا ہے۔ ایمرجینسی میں نکلنے کے راستے کون سے ہونے چاہئیں۔ فیکٹری میں مختلف سامان کی اسٹوریج کیسی ہونی چاہئیے کہ کسی حادثے کے پیش آنے کی صورت میں کم سے کم نقصان ہو۔ تو یہ فیکٹری آج بھی چل رہی ہوتی۔
کیا اسکی وجہ یہ ہے کہ عام طور پہ لوگ کسی حادثے کے لئے نہ ذہنی طور پہ تیار نہیں ہوتے اور نہ ہی اسکے لئے کوئ متوقع لائحہ ء عمل سوچ کر رکھتے ہیں بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ بس ہر چیز اللہ کے کرم سے درست رہے گی۔ اس حادثے کی ایک اور وجہ کاروباری طرز فکر کی غیر موجودگی بھی نکلتی ہے۔ وہ طرز فکر جو یہ سمجھ دے کہ محض مال اور سیٹھ کا رشتہ ہی اہم نہیں بلکہ اس میں وہ لوگ بھی اہمیت رکھتے ہیں جو مال اور سیٹھ کے درمیان تعلق قائم رکھتے ہیں۔ انہیں تحفظ دئیے بغیر کیسے کوئ اپنی جان اور اپنے مال کا تحفظ کر سکتا ہے۔
اس طرح،  اس واقعے کے پیش آنے کی کوئ ایک وجہ نہیں ہے۔ اس میں پورا نظام شامل ہے کیونکہ پورا نظام منفی طرز فکر پہ چل رہا ہے۔ اس لئے جب کوئ حادثہ ہوتا ہے تو اتنا ہی اندوہناک ہوتا ہے کہ ذہن اسے تسلیم کرنے میں بھی وقت لیتا ہے۔ نہیں معلوم کہ فکر کی اس نہج کو تبدیل ہونے کے لئے کتنی جانوں کی قربانی دینی ہوگی۔ بے شک ہمیں پلٹ کر اللہ ہی کی طرف جانا ہے۔ لیکن قتل کا سامان کرنے والوں کو جہنم رسید کرنے کے بعد یا خود جہنم کا ایندھن بننے کے بعد۔

Saturday, September 8, 2012

شاعر کا پروگرام

شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی نے ایک نہایت غیر انقلابی حرکت کی یعنی کہ مر گئے۔ یہ جملہ پڑھ کر ایک زیر لب مسکراہٹ ابھری اور نظر آگے بڑھ گئ۔  خواجہ احمد عباس نے یہ تحریر جوش صاحب کے متلعق لکھی اور مزے کی تحریر ہے۔  لکھتے ہیں کہ انکی شاعری  اور انکی ذات میں اتنا جوش، جوانی اور تازگی تھی کہ لگتا تھا کہ وہ اپنا برا چاہنے والوں کو مار کر مریں گے۔
شاید اس لئے کہ جوش صاحب نے ایک دفعہ دعا مانگی کی کہ
معشوق کہے کہ آپ ہمارے ہیں بزرگ
وہ دن ہمیں یارب نہ دکھانا ہر گز
بڑے لوگوں کی باتیں بڑی۔ انکا تذکرہ بھی کریں تو بات میں خود بخود گلاب کھلتے ہیں۔ اپنی شعر گوئ کے بارے میں جوش کا خیال تھا کہ شاعری نے خود میرا پیچھا کیا اور نو برس کی عمر میں پکڑ لیا۔ عاشق تھے لیکن انسان دوست زیادہ تھے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
کہتا ہے کون پھول سے رغبت نہ چاہئیے
کانٹے سے بھی مگر تجھے نفرت نہ چاہئیے
نثر میں اس خیال کو اس طرح ادا کرتے ہیں کہ ' ایک مدت سے میرے سینے میں انسان کے باپ یعنی حضرت آدم کا دل دھڑک رہا ہے'۔ ویسے سنتے ہیں کہ جناب مولانا مودودی انکے ہم نشیں  رہے ہیں۔
:)
یہ ساری تمہید، جوش صاحب کی ایک نظم پڑھانے کے لئے باندھی۔ میں نے یہ نظم اس وقت پڑھی جب آنرز فرسٹ ایئر کی طالب علم تھی۔ شعبہ ء کیمیاء سے ایک سالانہ رسالہ نکلا جس میں یہ شامل تھی۔ اسکے بعد وہ رسالہ شاید دوبارہ نہیں نکلا۔
نظم کا نام ہے 'پروگرام'۔ آئیے پڑھتے ہیں۔
 
پروگرام
اے شخص ، اگر جوش کو تو ڈھونڈھنا چاہے
وہ پچھلے پہر حلقہ ء عرفاں میں ملے گا
اور صبح کو وہ ناظر نظارہ قدرت
طرف چمن و صحن بیاباں میں ملے گا
اور دن کو وہ سرگشتہ ء اسرار و معانی
شہرِ ہنر و کوئے ادیباں میں ملے گا
اور شام کو وہ مرد خدا رند خرابات
رحمت کدہ ء بادہ فروشاں میں ملے گا
اور رات کو وہ خلوتی ء کاکل و رخسار
بزم طرب و کوچہ ء خوباں میں ملے گا
اور ہوگا کوئ جبر تووہ بندہ ء مجبور
مردے کی طرح کلبہ ء احزاں میں ملے گا

واہ واہ، بہت خوب۔

Monday, September 3, 2012

چار ستمبر، یوم حجاب

ایک ساٹھ سالہ خاتون انتہائ غصے میں بتا رہی تھیں کہ وہ کسی مجبوری کی بناء پہ بس سے سفر کر رہی تھیں۔ بس والا اتنی تیز بس چلا رہا تھا اور مسافروں کو اتارنے کے لئے بھی بس آہستہ کرتا لیکن روک نہیں رہا تھا۔ یہ دیکھ کر انہوں نے اس سے کہا دیکھ بھال کر چلاءو۔ کیونکہ کچھ سال پہلے وہ چلتی بس سے گر کر اپنا ہاتھ تڑوا بیٹھی تھیں۔  اس پٹھان ڈرائیور نے انکی نصیحت پہ عمل کرنے کے بجائے ان سے کہا دوپٹہ سر سے اوڑھ کر بیٹھو۔ طیش میں انہوں نے بس ڈرائیور کو کہا  کہ تو کیا میرا باپ لگتا ہے۔ تیرا قصور نہیں، تیری ماں کا قصور ہے نہ اس نے اپنی عزت کرائ ہو گی نہ تجھے اسکی تربیت دی کہ تو کسی اور عورت کی عزت کرے۔ شاید اور کچھ بھی کہا ہوگا۔ خیر اسی وقت اس سے بس رکوائ اور اتر گئیں۔
یہاں ڈرائیور کی لسانی شناخت بتانی ضروری ہو گئ کہ اگر اردو اسپیکنگ ہوتا تو غصے میں کہتا' جاءو جاءو، ایسی نوابی ہے تو بس کے بجائے ٹیکسی سے سفر کیا کرو'۔ یہ ابھی ایک ہفتے پہلے کراچی میں پیش آنے والا واقعہ ہے۔
مجھے اس وقت کیوں یاد آیا؟
ابھی تفصیل سے بتاتی ہوں۔  چند دن پہلے میں ایک دفعہ پھر گوادر گئ تقریباً دس مہینے بعد۔ اس دفعہ مجھے ماحول میں ایک واضح تبدیلی محسوس ہوئ۔ اول تو ہری پگڑی والے لوگ دیکھے جو کہ موٹر سائکلوں پہ پھر رہے تھے۔ یہ تو میں پچھلی ایک پوسٹ میں بتا چکی ہوں کہ یہ جو گوادر کی دیواروں پہ مذہبی اجتماعات کی دعوتیں لکھی نظر آرہی ہیں۔ یہ کسی نئ سمت کا اشارہ کر رہی ہیں جو یقیناً مکران کے ماحول کو تبدیل کرے گا۔ اور اس دفعہ یہ تبدیلی واضح نظر آرہی تھی۔
کیونکہ پھر میرے ساتھ دو واقعات ہوئے۔
پہلا واقعہ دلچسپ ہے۔ ہوا کچھ یوں  کہ جس جگہ ہم رہائش پذیر تھے وہ جگہ سمندر سے چند قدم کے فاصلے پہ تھی۔
ساتھ ہی ایک پہاڑ ہے۔ میں جب بھی یہاں جاتی تھی تو اس پہاڑ کے ساتھ سمندر کنارے ضرور تنہا بیٹھتی کہ ایک دم مراقبے کا مزہ آجاتا۔ یوں معلوم ہوتا کہ میں زمین پہ نہیں بلکہ کائینات کے کسی لامتناہی نکتے سے زمین کو دیکھ رہی ہوں۔ پھر یہاں سے پتھرلیے فوسلز جمع کرتی اور گھر واپس آجاتی۔ گوادر میں یہ میری سب سے اہم اور بڑی عیاشی ہوتی۔ اسکے لئے میں ساڑھے سات سو کلومیٹر کا پر مشقت سفر کر کے یہاں آتی ہوں۔ اب یہ مشغلہ میری بیٹی کو بھی پسند آتا ہے۔
اس دن میرے ساتھ میری بچی، پالتو کتا اور مقامی بچے درجن بھر موجود تھے۔ ہم جلوس کی شکل میں پہاڑ کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ اگرچہ میری خواہش تو یہ تھی کہ یہ بچے ساتھ میں نہ ہوتے تاکہ تھوڑی دیر اپنے مراقبے کا مزہ لیتی۔  لیکن بہر حال بچے بہت زیادہ مشتاق تھے ساتھ چلنے کے۔ شاید اسکی ایک وجہ کتے کا ہمارے ساتھ ہونا بھی تھا۔ کتا بھی خوش تھا۔ بار بار تھوڑی دور تک دوڑ کر جاتا۔ اپنے پیشاب کی بو چھوڑتا اور پھر خوشی سے اچھلتا کودتا واپس آتا۔ پیشاب کی بو سے اسکے حصے کی زمین میں اضافہ جو ہو رہا تھا۔
راستے میں ایک صاحب نے قریب سے گذرتے ہوئے موٹر سائیکل روکی اور کہنے لگے۔ آپ اس طرح اکیلے نہ پھریں آجکل سیکیوریٹی کا مسئلہ ہے۔ میں نے اسکا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا میں صرف پہاڑ کے ساتھ جا کر سامنے والی جگہ پر جا کر واپس آجاءونگی۔ نہ بستی کی طرف جاءونگی اور نہ یہاں سے زیادہ دور۔ مجھے بھی اس بات کا احساس ہے۔  وہ خاموش ہو کر واپس پلٹ  گیا۔
ابھی چند ہی گز طے کئے ہونگے کہ ایک صاحب موٹر سائیکل پہ آئے انکے پیچھے ایک گن بردار شخص بیٹھا ہوا تھا۔ میں ٹھٹھک کر رک گئ۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کہاں جا رہی ہیں۔ میں نے انگلی کے اشارے سے بتایا کہ بس وہاں تک جا رہی ہوں۔ پھرمزید سوالات کے جواب دینے سے پہلے میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے۔  پتہ چلا کہ وہ پولیس سے تعلق رکھتا ہے۔ کس کے ساتھ آئ ہیں، کس جگہ رہ  رہی ہیں قسم کے سوالات کے بعد اس نے کہا کہ ہمیں اطلاع ملی کہ ایک انگریز عورت ادھر اکیلے پھر رہی ہے۔ مجھے ہلکی سی ہنسی آئ۔ آپ نے دیکھ لیا میں انگریز نہیں ہوں۔ ہاں وہ اس نے آپکے حلئے کو دیکھ کر کہا ہوگا۔ حلئے سے شاید اس کی مراد پیروں کے جاگرز اور سر کی ٹوپی ہوگی۔ دراصل یہ پسماندہ علاقہ ہے یہاں اس حلئے کو ہی انگریز سمجھ لیتے ہیں۔  بات یہ ہے کہ سیکوریٹی کا مسئلہ ہے آپ زیادہ دور تک نہ جائیں۔ میں نے اسے تسلی دی۔ میں بس سامنے ہی سے پتھرلے کر واپس آجاءونگی۔ یہاں کراچی میں پڑھنے لکھنے والے بچوں کو تحفے میں مجھے یہ پتھر دینا پسند ہیں۔
پھراس جگہ پہنچ کر ان بچوں کے ساتھ چند منٹ رک کر پتھر ڈھونڈھے اور جلدی ہی واپسی کا راستہ لیا کیونکہ میں نے دیکھا کہ وہ دونوں ایک چٹان پہ بیٹھے ہم لوگوں کی نگرانی کر رہے تھے۔ ایسے میں میرے دل دھڑکا بھی کم ہوگا اور انکی ڈیوٹی بھی ختم ہوگی۔
اگلے دن گھر کے سامنے ساحل پہ بچی کے ساتھ چلی گئ۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ماضی میں یعنی تین چار سال پہلے میں ایک ڈیڑھ میل تک تنہا چہل قدمی کر چکی ہوں۔ مقامی لوگوں سے گپ شپ کی اور کبھی کوئ مسئلہ نہیں ہوا۔ اس دن جب میں اپنی بچی اور محلے کے دیگر بلوچی بچوں کے ساتھ اپنے گھر واپس آنے لگی تو ایک موٹر سائیکل قریب سے گذری جس پہ دو افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے موٹر سائیکل کو آہستہ کیا۔ میں کچھ ہوشیار ہوئ۔ پھر ان میں سے ایک نے نفرت بھری نظر مجھ پہ ڈال کر کہا جاءو جا کر کچھ پہنو۔
قارئین کی تسلی کے لئے میں اس وقت تیراکی کے مغربی لباس میں نہیں تھی۔ بلکہ پاکستانی سوتی شلوار قمیض پوری آستین کا پہنے ہوئے تھی اور دھوپ سے بچنے کے لئے ڈھائ گز کے سوتی دوپٹے کو سر سے لپیٹ کر منہ بھی اطراف سے ڈھکا ہوا تھا۔ سو میں نے حیرانی سے انکی طرف دیکھا اور پھر غور کیا کہ وہ کچھ کیا ہو سکتا ہے جو میں پہنوں۔ سمجھ آیا کہ برقعہ قسم کی چیز ہی اب اس کے بعد بچ جاتی ہے۔
  دس سال سے یہاں آرہی ہوں اور اتنے لمبے عرصے کے تجربے کے بعد میں اس علاقے کو کافی بہتر سمجھتی تھی۔ مقامی لوگ مچھیرے ہیں جو اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ وہ خود کیسے بھی رہیں دوسروں کے کام میں مداخلت نہیں کرتے۔ حتی کہ عین اس وقت جب کراچی میں کسی ہوٹل میں بیٹھ کر سر عام شراب نہیں پی جا سکتی تھی یہاں ایسی کوئ منادی نہ تھی۔  اس وقت میں ساحل پہ تنہا بیٹھ کر گھنٹوں سمندر کی آتی جاتی لہریں دیکھا کرتی تھی۔ کراچی  کی مٹی سے جنم لینے کے باعث سمندر کی محبت میرے اندر ہمیشہ مءوجزن رہی ہے۔
 یہ وہ وقت تھا جب  یہاں کوئ مدرسہ  نہ تھا۔ پھر کوسٹل ہائ وے کی تعمیر کے ساتھ ہی زمین کے ایک بڑے رقبے پہ ایک بڑا مدرسہ وجود میں آگیا۔ اور اب جیسے جیسے یہاں مذہبی ماحول کو شہہ مل رہی ہے ویسے ویسے یہ شدت پسندی ماحول کا حصہ بن رہی ہے۔ معاشرے کے کمزور طبقات ہمیشہ شدت پسندی کا پہلا نشانہ ہوتے ہیں۔ تاکہ دوسرے لوگ ان سے سبق سیکھیں۔ خواتین اس لئے سب سے پہلا نشانہ بنتی ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گوادر میں یہ مذہبی شدت پسندی کون متعارف کرا رہا ہے؟ کیا بلوچستان کے مسائل کا حل مذہبی شدت پسندی کو ہوا دینے میں ڈھونڈھاجا رہا ہے؟
حیرت ہوتی ہے کہ گوادر میں ایک اچھا ہسپتال موجود نہیں ہے۔ اسکی وجہ سے عورتوں کو کس قدر مصائب کا سامنا ہے اسکا اندازہ اس عورت سے لگائیں جس نے بتایا کہ ابھی چند مہینے پہلے اسکی بچی پیدائیش کے دوران مر گئ۔ کوئ ماہر ڈاکٹر نہ تھا کہ وہ زندہ پیدا ہو پاتی۔ کسی ماہر ڈاکٹر کے موجود نہ ہونے سے وہ لیبر میں اتنا زیادہ عرصہ رہی کہ  اسے فسچولا ہو گیا۔ شوہر بھائ کے پاس چھوڑ گیا وہاں سے وہ کراچی کے جناح ہسپتال پہنچی جہاں ایک مہینہ علاج میں ناکامی کے بعد اسے کراچی کے مضافات میں واقع، کوہی گوٹھ کے فسچولا  ہسپتال بھیجا گیا وہاں وہ تین مہینے رہی اسکے تین آپریشن ہوئے  اور ابھی بھی بالکل تندرست نہیں ڈاکٹر نے اسے تین مہینے بعد پھر بلایا ہے۔
حیرانی ہوتی ہے ناں کے جس شہر میں عورتیں محفوظ طریقے سے بچہ نہ پیدا کر سکیں وہاں عورتوں کو پردے کی تبلیغ کرنے والے پیدا کئے جائیں۔ ایک بڑا مدرسہ بنانے والے تو موجود ہوں لیکن ہسپتال کا کوئ انتظام نہ ہو۔ یہی نہیں یہاں کوئ ڈھنگ کا اسکول موجود نہیں ہے۔ لیکن کوسٹل ہائ وے پہ جاتے ہوئے سنسان پہاڑوں پر خوبصورت ٹائلز کی بنی ہوئ بڑی مساجد نظر آئیں گی جو کہ پچھلے دو سالوں میں عرب بھائیوں کی فیاضی سے تعمیر ہوئ ہیں۔ اتنے سنسان علاقوں میں ان مساجد کا کیا کام؟
 ایک صاحب کا کہنا ہے کہ عرب اسکول کی تعمیر کے لئے پیسے خرچ نہیں کرتے وہ مسجدیں اور مدرسے بناتے ہیں بہت زیادہ فیاضی اگر کبھی دکھائ تو شاید ہسپتال بنا دیں لیکن اسکول، نو وے۔
عرب ہمارے ملک میں اسکے علاوہ کس چیز پہ پیسہ خرچ کرتے ہیں؟
اس کا اندازہ اس خبر سے ہوگا کہ ایک عرب شیخ ایک بلوچ کو پیسے دے رہے ہیں کہ وہ سو بچوں کو پیدا کرنے کا ریکارڈ قائم کر کے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام ڈال لے۔ اس سلسلے میں وہ بلوچ تیئیس شادیاں کر چکا ہے اسکے ترانوے بچے پیدا ہو چکے ہیں۔ ہر تھوڑے دنوں بعد ایک بیوی کو طلاق دے کر ایک اور شادی کر لیتا ہے۔ طلاق یافتہ بیوی کو وہ عرب پیسہ دیتا ہے کہ وہ اپنی باقی زندگی عسرت میں نہ گذارے۔
  اس بلوچ کو یہ یاد نہیں کہ اسکا کون سا بچہ کس بیوی سے ہے اسکے لئے اسے اپنی ڈائری دیکھنی پڑتی ہے۔ اور نہ اسے یہ معلوم ہوگا کہ اسکا کوئ بچہ پڑھتا لکھتا بھی ہے یا نہیں۔ یہ شخص پہلے فوج میں رہ چکا ہے اور ٹانگ سے معذور ہونے کے بعد وہاں سے نکل آیا۔ ہو سکتا ہے آپ میں سے کچھ کو اس سے کراہیئت آئے اور کچھ ہنس دیں ۔ لیکن ایک دفعہ پھر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ مسلمان مرد ، اپنی عورتوں کو کیا سمجھتے ہیں؟
خیر ہم موضوع کی طرف واپس پلٹتے ہیں۔ کراچی میں آجکل جماعت اسلامی کے زیر اہتمام چار ستمبر کو یوم حجاب منانے کی تیاریاں زور شور سے جاری ہیں۔ شہر میں ہر جگہ خواتین کو حجاب کی تلقین کے بینرز ملیں گے۔ یہی نہیں روزنامہ جنگ کے اس  دفعہ کے اتوار میگزین میں بھی، میں نے دیکھا کہ یوم حجاب کے حوالے سے چار مضامین موجود ہیں۔ گوادر میں میرے ساتھ پیش آنے والا واقعہ آپ پڑھ چکے۔ ملک ہی نہیں باقی دنیا میں بھی مسلمان مردوں کی شدت پسندی کو ہوا دینے والی یہ مذہبی جماعتیں ہیں اور کوئ نہیں۔ شاید اسی لئے بنگلہ دیش میں سیاسی جماعتوں پہ پابندی لگا دی گئ ہے کہ وہ اپنے نام کے ساتھ کوئ مذہبی نام استعمال نہیں کریں گی۔
اس بات کو خآطر میں لائے بغیر کہ ہمارے ملک میں عورتوں کی حالت کتنی دگرگوں ہیں۔ جماعت اسلامی کے زیر اہتمام منائے جانے والے اس طرح کے یوم مجھے تو مردوں کو مزید شدت پسندی کی ترغیب دیتے ہوئے ہی لگتے ہیں۔ جس وقت وہ یہ پیغام دیتے ہیں کہ حجاب عورت کی عزت کا ضامن ہے اس وت وہ مردوں کو بین السطور یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ اگر کوئ عورت بے حجاب ہے تو اسکی عزت پہ حملہ کوئ بری بات نہیں۔ اسکے ساتھ یہی ہوگا، کیونکہ مذہب اسکے بارے میں یہ پیشن گوئ کر چکا ہو۔ چاہے مذہب نے اس بات کو نکتہ بھی نہ بنایا ہو۔
بالکل ایسے ہی وہ انفوگرافکس جس میں مردوں سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو کس لباس میں دیکھنا پسند کریں گے۔ اور انتخاب میں شدید برقعے سے لیکر جینز ٹی شرٹ میں ملبوس خواتین دکھا دی جاتی ہیں۔ ایسے جیسے بازار میں آپ مختلف برانڈز کے کیچپ دیکھ رہے ہوں۔ پھر انہیں غیرت کے طعنے دے کر کہا جاتا ہے کہ دراصل تمہاری بیوی کو کس قدر حجاب میں ہونا چاہئیے۔ چاہے وہ اسکی اہلیت نہ رکھتے ہوں کہ اپنے خاندان کے معاشی مسائل حل کر سکیں لیکن ان میں یہ اہلیت ضرور پیدا کی جاتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کے لباس پہ غضب کی نظر رکھیں۔  
جماعت اسلامی سمیت، ہر مذہب کا ڈھنڈورہ پیٹنے والی جماعت سے ایک ہی سوال ہے کہ وہ کبھی خواتین کے حالات میں بہتری کے لئے بھی کچھ کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں یا مردوں کو خواتین کے نام پہ ہی غیرت دلاتے رہیں گے۔  معاشرے کو خواتین کے لئے مزید غیر محفوظ بنانے کے فول پروف انتظامات کرتے رہیں گے۔ یہ ملک جو پہلے ہی مسائلستان بنا ہوا ہے کیا اسکے مسائل میں وہ مثبت طریقے سے کوئ کمی لا سکتے ہیں۔ کیونکہ فلسفہ ء جہاد سے لے کر مرد و خواتین کی جہالت تک ہر ایک میں  وہ برابر کے حصے دار ہیں۔ 
آخری اہم سوال لوگوں کو خدا کے قہر اور عذاب سے ڈرانے والے کیا خود خدا کے عذاب اور قہر سے ڈرتے ہیں؟
 کیونکہ انکی پھیلائ ہوئ شدت پسندی کی وجہ سے جتنی انسانی جانیں جاتی ہیں اسکے ذمہ دار وہ ہوتے ہیں۔ جب کسی عورت پہ تیزاب پھینکا جاتا ہے، جب کوئ عورت کاروکاری کا شکار ہوتی ہے، جب کسی عورت کو اس لئے نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ انکے متعارف کرائے گئے فلسفہ ء حجاب پہ یقین نہیں رکھتی۔ ہر  ہر صورت میں وہ عذاب کے مستحق ہوتے ہیں اور ہونگے۔  خدا کے عذاب سے بچنے کے لئے وہ خود کیا کریں گے؟ کیونکہ جو تم کروگے وہ ہم کریں گے۔ 

Saturday, September 1, 2012

جیت کس کی ہوگی؟

یہ میرا آنرز کا پہلا سال تھا۔ عمر یہی کوئ سترہ سال۔ میں نے اپنا پریکٹیکل ختم کیا اور سامان دھو کر رکھنے لگی۔ اس دن ہم نے رنگ بنانے کا بنیادی طریقہ سیکھا تھا۔ اسکی دلچسپ بات یہ تھی کہ تیزابی پانی میں یہ گلابی رنگ دیتا تو اساسی پانی میں یہ اورنج رنگ کے ساتھ سبز چمک دیتا۔ جو بڑی خوبصورت معلوم ہوتی۔ اسکی ٹیسٹ ٹیوب کو میں نے خوب رگڑا۔ لیکن اس مرکب کا ایک چھوٹا سا غیر محسوس ٹکڑا تہہ میں ایسا چپک گیا تھا کہ نکلنے کا نام ہی نہ لے رہا تھا۔  اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا اور میں نے اس ٹیسٹ ٹیوب کو سکھا کر اوپر سے کاغذ کے ایک گولے سے بند کر کے اپنے بیگ میں رکھ لیا۔
گھر پہنچتے ہی چھوٹی بہن نے خوشی کا نعرہ مارا۔ اسکی عمر یہی کوئ چار پانچ تھی۔ اور وہ ہر روز اپنی سائینس کی ٹیچر کے فرمودات سنایا کرتی تھیں اورروز کے حساب سے حاصل ہونے والی اپنی  معلومات کو فوری طور پہ شیئر کرنا فرض عین سمجھتی تھیں کہ اس سے ہم سب کے منہ کھلے رہ جاتے۔ ہماری اس بے مثل ایکٹنگ سے وہ اپنے آپکو ایک علامہ سے کم نہیں سمجھتی تھیں۔ لیکن آجکا دن ان کی علمیت ہی کیا انکے مشاہدات  پہ بھاری تھا۔ کیونکہ اس سازش میں قدرت ہی نہیں انکی ہر دلعزیز ہمشیرہ بھی شامل تھیں۔ ہر دلعزیز اس لئے کہ زیادہ اچھی اداکاری کرتی تھیں۔
میں نے کھانے وغیرہ سے جب فراغت پائ تو انہیں بتایا کہ آج میرے پاس ایک جادو ہے انکے لئے۔  بیگ سے ٹیسٹ ٹیوب نکالی۔ ایک پیالے میں صابن کا پانی یعنی اساسی محلول تیار کیا اور اس بظاہر خالی ٹیسٹ ٹیوب میں ڈال دیا۔ انکے تجسس بھرے چہرے پہ ایک گہری سنجیدگی ابھری اور وہ میرے جادو کے سامنے چت ہو گئیں۔ اس خالی ٹیسٹ ٹیوب میں اب اورنج رنگ کا محلول موجود تھا جس میں سبز دلکش چمک موجود تھی۔
تو جناب، مجھے بچپن سے ولی بننے کا بہت شوق تھا۔ لوگوں کے دلوں کے راز جان لوں، جائے نماز کے نیچے سے پیسے بر آمد کر لوں، جو خواب دیکھوں سچ ثابت ہو، جسے جو دعا دوں وہ پوری ہوجائے۔ کائینات کے ہر علم سے آگاہ ہوجاءوں۔ اس کوشش میں اولیاء اکرام کی سوانح حیات پڑھیں۔ تاکہ انکے تجربات سے مستفید ہوں۔ 
تھوڑے بڑے ہونے پہ پتہ چلا کہ صرف تقوی وغیرہ سے کام نہیں چلے گا۔ وظیفوں کا گھوٹا بھی لگانا پڑے گا۔ لیجئِے جناب اب ہر روز کئ ہزار دفعہ درود شریف تو خدا جانے کتنی دفعہ اور اسماء کا ورد بھی شامل ہو گیا۔ ادھر چکی کی مشقت بھی جاری تھی۔ یعنی دنیاوی حقیر علوم , سائینس وغیرہ سے بھی نجات ممکن نہ تھی کہ  اس سلسلے میں تعلیمی اداروں کو روانہ ہوتے، فیس بھرتے، امتحان دیتے۔
 یہ وہ زمانہ تھا جب ہماری سائینس کی کتابوں میں پہلا سبق ان مسلمان سائینسدانوں کا شامل ہوا جنہوں نے سائینس کی دنیا پہ وہ عظیم احسانات کئے جس سے اب کئ ہزار سالوں کے لئے ہماری آنے والی نسلوں پہ سے یہ فرض ہٹ گیا۔
ایک طرف اولیاء اکرام کی سحر ناک ہستیاں ، لیکن انکے وظائف کے ساتھ یہ مسئلہ کہ جسے بخشیں بس اسی کو سمجھ میں آوے اور کرے تو ٹھینگا پاوے بلکہ وظائف کا اثر الٹا ہونے کی صورت میں دماغ میں خلل بھی ہو جاوے اور موکل اور جن ایسا قابو پاوے کہ کسی کو کچھ سمجھ میں نہ آوے۔ دل تو اس خبر سے بھی پگھلا جاتا کہ  خدا کے کلام کی برکت پانے کے لئے، ملک کا حکمراں تک ڈنڈا کھانے کو آوے۔
دوسری طرف سائینس کی کرشمہ سازیاں، تھوڑی بہت تربیت پاویں ، کوشش کرتے جاویں اور ایک دن ایسا آوے کہ خود بھی کوئ وظیفہ ، یعنی فارمولا، نظریہ یا ایجاد  بنانے کے قابل ہو جاویں۔ لیکن حکمران ایسا سامان کر جاویں کہ اسے حاصل کرنے میں ہم خون کے آنسو بہاتے جاویں اور ہرگز نہ حاصل کر پاویں۔
اگرچہ لوگوں نے بڑا زور دیا کہ ہمارا مذہبی تصوف بڑے بڑے کمالات دکھا سکتا ہے۔ اسکے بعد دنیا کو کسی علم کو حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔ مگر جناب ادھر تو لفظ 'سکنا' کے بجائے 'موجود' تھا۔ ادھر بے یقینی اور ادھر آنکھوں دیکھا یقین۔ ادھر جتنا سر مارو اسرار ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتے ، ہر چھوٹے سے قدم کے بعد حلق سے نکلنے والے مشکل الفاظ کی بھر مار، ادھر جتنا آگے بڑھو اتنا ہی اسرار کی دنیا کھل کر سامنے چلی آرہی ہے۔ ادھر ہر نعرہ ء تعجب کے بعد سبحان اللہ نکلتا ہے ادھر سبحان اللہ کہنے کے بعد نعرہ ء مستجاب۔
یہی نہیں آنکھوں دیکھی یہ کہ ہمارا تصوف ہی کیا دنیا کے ہر مذہب میں ایسے اسرار موجود۔ دنیا کے ہر مذہب میں خدا سے اپنی مرضِی کے کام کروانے کے وظائف حاضر۔ جیت کس کی ہونی تھی؟ میں بھی اپنی ہمشیرہ کی طرح سائِنس کے سامنے چت ہو گئ۔ فرق یہ تھا کہ وہ لا علمی میں ہوئ اور میں علم کے ساتھ اور علم کے ساتھ ہونا افضل ہے۔
آج بھی اعمال وظائف کی کتاب سرہانے دھری ہے۔ سوچتی ہوں اسکا حشر حضرت سلمان کی لاٹھی والا نہ ہوجائے۔ آخری دفعہ  آزمائیشی طور پہ محبوب کو قابو کرنا چاہا۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنا بنا کر چھوڑتا۔ اس سراب سے یوں نکل آئے جیسے بارش کے بعد سورج نکلتا ہے۔ زیادہ واضح ، چمکدار اور گرم۔ ہم قصور انکا سمجھتے تھے  اپنا نکل آیا۔ محبوب اپنے طور پہ سمجھتے ہونگے کہ وہ تاریک راہوں میں مارے گئے لیکن حقیقت میں یہ روشنی کی مار تھی۔
 وظائف کی اس دنیا کے اسیر اتنے ہیں کہ ایک  سے بات شروع کریں دو چار سو اور نکل آئیں گے۔
  مجھے یاد ہے ان دنوں لانڈھی کے علاقے میں خاصے حالات کشیدہ تھے۔ مجھے اپنی ایک عزیزہ کے ساتھ زندگی میں پہلی دفعہ  اس طرف ضروری کام سے جانا پڑا۔ باتوں کا سلسلہ روکنے کے لئے میں نے کہا بس اب چلتے ہیں حالات خراب ہیں، میں اس علاقے سے مناسب طور پہ واقف بھی نہیں اور ہم دو خواتین کو گاڑی خود لے کر جانی ہے۔ اندھیرا ہوجائے گا تو مشکل ہوگی۔ صاحب خانہ کہنے لگے کہ بھئ گھبرانے کی کیا بات ہے آیۃ الکرسی پڑھ کر دم کر لینا۔ میں تو روز صبح آیۃ الکرسی کا دم کر کے نکلتا ہوں آج تک کسی اچکے نے میرے اوپر ہاتھ نہیں ڈالا۔
 معاملات نازک تھے ورنہ کہتی کہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد ہوگی جو آیۃ الکرسی پڑھ کر گھر سے نہیں نکلتی اور آج تک کسی نے ان پہ ہاتھ نہیں ڈالا۔ اگر حفاظت محض آیۃ الکرسی کے پڑھنے سے ہوجاتی تو سزا اور قانون وجود نہ رکھتے اور قاضی صاحب کسی کھاتے میں ہوتے ۔ ایسے میں جو لٹتا تو صاف پتہ چل جاتا کہ یہ ہے وہ ناہنجار جو آیۃ الکرسی نہیں پڑھتا۔ اسی کو درے جڑے جاتے۔ یوں ٹارگٹ کلرز اور طالبان کو منہ چڑا کر بھاگ جاتے۔ ادھر فوجیوں کی سخت تربیت کی ضرورت نہ رہتی بلکہ فوج ہی کی ضرورت نہ رہتی۔ سرحد پہ لائین سے لوگ تسبیح لے کر بیٹھ جاتے اور آیۃ الکرسی پڑھا کرتے۔
ابھی دو سال پہلے مولانا صاحبان نے شہر میں ایک پمفلٹ بٹوایا کہ ملک میں بد امنی اور بے سکونی کی بنیادی وجہ آوارہ عورتیں ہیں۔ ایک تو انکا سد باب کیا جائے دوسرا یہ کہ سورہ والشمس اتنی ہزار دفعہ لوگ گروہ بنا کر پڑھیں۔ ان دنوں ہم جہاں جاتے پتہ چلتا کہ والشّمس کا ورد ہو رہا ہے۔ لیکن پھر بھی آوارہ عورتیں جیت گئیں یعنی ملک اسی طرح بد امنی کا شکار رہا۔
چونکہ آجکل وظائف کا فیشن ہے اس لئے ہر مسئلے کا حل ایک وظیفہ ہے جو ہر کسی کو معلوم ہے۔ جس طرح لوگ پہلے بیمار کو طبی مشورے مفت دیتے تھے اب لوگ مفت وظیفہ بتاتے ہیں۔ یہاں اسی سال کا بوڑھا انسان ہسپتال میں ہو یا خاتون بچے کی ڈلیوری کے سلسلے میں ہسپتال میں، گھر میں یا سلام کا ورد شروع ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد بوڑھآ آدمی مر جاتا ہے۔ یہ کہہ کر تسلی دیتے ہیں کہ انکی تو عمر ہی مرنے کی تھی۔   اور خاتون نارمل ڈلیوری کے بعد گھر میں موجود، جس روح کا آنا ہوتا ہے آکر رہتی ہے، ہم کہتے ہیں۔


مر کر بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے کا سوال بعد میں اٹھتا ہے مرنے کے بعد بھی وظائف کی ایک بھرمار رہتی ہے۔ کسی شخص کی موت کا اعلان ہوتے ہیں سات دفعہ سورہ بقرہ لازمی، اکتالیس دفعہ سورہ یسین، پھر خدا جانے کتنی بار سورہ ء ملک، پھر کئ لاکھ بار کلمہء طیب کا ورد، پھر پچیس ہزار بار قل شریف۔ کس واسطے کہ مرنے والے کی مغفرت ہو اور قبر میں آرام سے رہے۔ چاہے مرنے والا خدا پہ مناسب یقین بھی نہ رکھتا ہو۔ لیکن اس سامان کے بغیر اسکی رخصتی ممکن نہیں۔ یوں وہ لوگ جو دیار غیر میں رہتے ہیں اور وہیں دفن ہوتے ہیں یا وہ جن کا خاندان چھوٹا ہے انکے شدید خسارے میں رہنے کے امکان زیادہ ہیں۔ 
 صفر کا مہینہ آتا ہے تو سورہ مزمل کا وظیفہ، سارے سال کی بیماریوں اور مصائب سے چھٹکارا۔ لیکن پھر بھی احتجاج کے دوائیں مہنگی ہو رہی ہیں، ڈاکٹر لا پرواہ۔ حکومت ناکارہ، مصائب کا کوئ شمار نہیں۔
رجب سے رمضان تک جو وظائف ہیں انکا فوکس گناہوں سے نجات پانا ہے اعمال سے نہیں بلکہ وظائف سے۔ اگرچہ رمضان کے گیارہویں، بارہویں روزے پہ لڑکیوں کے رشتے کرانے کا وظیفہ بھی آتا ہے۔ پھر بھی والدین کو رشتے کرانے والے اداروں کی خاک چھاننی پڑتی ہے۔ لڑکیوں کو سنگھار کر کے چائے لے کر مہمانوں کے سامنے جانا پڑتا ہے اور میٹرک کس سن میں کیا تھا، بتانا پڑتا ہے۔
 شب براءت میں گناہوں کی بخشش کا وظیفہ، لمبی حیات کا وظیفہ، آفات و بلیات کو دفع کرنے کا وظیفہ، قبر کے عذاب سے نجات کا وظیفہ۔ ان سارے وظائف کی وجہ سے گناہوں کے کرنے کا حوصلہ ہے کہ بڑھا جاتا ہے اور مرنے کا خوف دل سے جاتا رہتا ہے۔
  یہی نہیں یا علیم پڑھیں علم حاصل کریں، کراچی گرامر اسکول، ماما پارسی، آئ بی اے یا فاسٹ پہ لعنت بھیجیں۔
 یا اول پڑھیں اور اولاد نرینہ حاصل کریں، سورہ ء واقعہ پڑھیں رزق حاصل کریں، جنت حاصل کرنے کے وظائف بے شمار، خدا کو راضی کرنے کے بھی اتنے ہی وظائف۔ اس سے بھی دل کی تسلی نہیں ہوتی یا یہ کہ آپکا فطری رجحان ریاضی یا شماریات کی جانب ہے تو وہ وظائف اختیار کریں جن میں ثواب کی گنتی بتائ گئ ہے مثلاً تین دفعہ سورہ ء اخلاص پڑھیں سال بھر کے قرآن کی تلاوت کا ثواب۔ باقی کا قرآن کیوں نازل کیا گیا، یہ معمہ حل طلب۔ فلاں دن کا روزہ رکھ لیں سال بھر کے روزوں کا ثواب۔ فلاں مہینے کا عمرہ کر لیں، حج کا ثواب۔ لیجئِے اس مہینے لوگ جوق درجوق عمرے کے لئے جا رہے ہیں۔ سعودیوں کے مزے، زائد آمدنی عمرے کے بہانے ہو رہی ہے۔


میں تو اللہ پاک بے نیاز کا شکر ادا کرتی ہوں۔ بر وقت ولی بننے کا ارادہ موقوف کر دیا۔ ورنہ وظائف کی سیچوریشن کے اس زمانے میں مقابلہ کرنا بڑا مشکل ہوجاتا۔ ہم تو اسی میں خوش، سنگ مر مر پہ تیزابی پانی ڈالو تو کاربن ڈائ آکسائیڈ گیس پیدا ہوتی ہے۔ بچوں، جار کو الٹا کر کے اسے جمع کرو کیونکہ یہ ہوا سے بھاری ہوتی ہے۔
بچے یہ سیکھنے کے لئے کوچنگ سینٹرز کے باہر ہزاروں روپے دے کر ہزاروں کی تعداد میں کھڑے ہیں جبکہ ماں باپ کسی وظیفے کی تسبیح لئے کھڑے ہیں کہ انکا بچہ اے ون گریڈ میں کامیاب ہو اور میڈیکل یا انجینیئرنگ میں داخلہ ہوجائے۔ قارِئین اکرام، اندازہ کریں جیت کس کی ہوگی؟
۔

Monday, August 27, 2012

مسیار نکاح

اپنے پہلے شوہر کے انتقال کے فوراً بعد وہ سعودی عرب میں ایک طویل عرصہ گذار کر پاکستان واپس آگئیں۔ جب گفتگو کے دوران مجھے پتہ چلا کہ انکی دوسری شادی کو بھی پانچ چھ سال کا عرصہ گذر چکا ہے لیکن انکے شوہر انکے ساتھ نہیں رہتے بلکہ اپنی پہلی مرحوم بیوی کے بچوں کے ساتھ اپنے گھر میں رہتے ہیں اور وہ اپنے پہلے شوہر کے بچوں کے ساتھ اپنے گھر میں رہتی ہیں تو مجھے نہایت اچنبھا ہوا۔
 یہ کیسا میاں بیوی کا تعلق ہے؟ میں نے بالکل پاکستانی ذہن سے سوچا۔ ایک تو یہی بات قابل اعتراض ہے کہ پچاس سال سے اوپر کی خاتون دوسری شادی کرے وہ بھی وہ جسکے پانچ بچے ہوں۔ بڑی بیٹی کی شادی ہو چکی ہو۔  اور دونوں ساتھ بھی نہ رہیں۔ کیونکہ اگرہمارے  یہاں کوئ خاتون دوسری شادی کرتی ہے تو بنیادی مقصد تحفظ اور پیسہ ہوتا ہے۔
لیکن گھر واپس آ کر میں نے سوچا، کیا شادی محض معاشرتی تحفظ اور معاشی حالات کو مستحکم رکھنے کے لئے کی جاتی ہے؟
 اسکے چند دنوں بعد ایک محفل میں ادھر ادھر کی باتیں ہو رہی تھیں کہ کسی نے تذکرہ چھیڑ دیا کہ یہ جو سنّی، شیعوں کو متعہ نکاح پہ اتنا برا بھلا کہتے ہیں  یہ اپنے سنّی مسیار نکاح کی بابت کیوں نہیں بات کرتے۔ ایک دفعہ پھر میں نے ہونّق ہو کر پوچھا کہ یہ مسیار نکاح کیا ہوتا ہے؟
 جواب ملا یہ بھی متعہ سے ملتی جلتی چیز ہوتی ہے آپ جا کر نیٹ پہ دیکھ لیں یا اپنے کسی اسکالر سے پوچھیں۔ تس پہ کسی اور نے بتایا کہ ایک صاحب نے کئ اسلامی مدرسوں کو مسیار نکاح کی بابت لکھا کہ انہیں معلومات بہم پہنچائ جائیں لیکن انہیں کہیں سے جواب نہیں ملا۔ اس لئے وہ نہیں جانتے کہ مسیار نکاح کیا ہوتا ہے البتہ یہ معلوم ہے کہ یہ سنّی نکاح کی ایک قسم ہے جو کچھ شیعہ متعہ نکاح سے مشابہت رکھتی ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ اس سارے کے بعد میں نے رات گھر واپس آکر نیٹ گردی کی۔ جناب، تو یہ اسلامی نکاح کی ایک قسم ہے۔
 تمام تر مطالعے کے بعد یہ بات سامنے آئ کہ مسیار نکاح اسلام میں حلال ہے۔ نہ صرف مسلمان آپس میں بلکہ اہل کتاب سے بھی کر سکتے ہیں۔ یہ عام نکاح سے کس طرح مختلف ہوتا ہے؟ یہ متعہ نکاح سے کیسے مختلف ہوتا ہے؟
نکاح مسیار، ایسا اسلامی معاہدہء نکاح ہے جس میں ایک خاتون اپنی مرضی سے اپنے بہت سارے حقوق سے دستبردار ہو جاتی ہے۔ مثلاً شوہر کے ساتھ رہنا، اگر اسکی ایک سے زائد بیویاں ہیں تو اوقات کی برابر تقسیم، نان نفقہ یعنی شوہر اسے گذر بسر کے لئے کوئ خرچہ نہیں دے گا اگرچہ کہ اسے بھی دونوں فریقین کی مرضی سے معاہدے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اور نہ ہی وہ رہائش مہیا کرے گا۔ 
 مہر کی رقم فریقین کی مرضی سے طے کی جاتی ہے۔ مہر اسلامی نکاح میں وہ رقم ہے جو لڑکی کو ادا کی جاتی ہے چاہے نکاح کے وقت یا نکاح کے بعد کسی بھی وقت لڑکی کے طلب کرنے پہ۔
یعنی عورت، اپنے والدین کے گھر یا اپنے ذاتی گھر میں رہتی ہے۔ شوہر اس سے ملنے کے لئے جاتا ہے جیسا وقت دونوں فریقین چاہیں منتخب کریں۔
شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے عام طور پہ عورت پالتی ہے۔ مجھے یہ نہیں پتہ چل سکا کہ آیا ان بچوں کا باپ کی وراثت پہ حق ہوتا ہے یا نہیں۔
 نکاح کے بعد بیوی اگر ان سب چیزوں کے لئے دعوی کرے تو اسکا دعوی صحیح ہوگا۔ اب اسکا انحصار شوہر پہ ہے کہ وہ اسے نتیجے میں یہ تمام اشیاء دے یا طلاق دے کر چھٹی پائے۔
اس ضمن میں اسلامی علماء کے درمیان اختلاف ہے کچھ اسے اخلاقی طور پہ اچھا نہیں سمجھتے اگرچہ حلال سمجھتے ہیں۔ الالبانی کے نزدیک یہ نکاح اسلامی روح سے متصادم ہے اس لئے ناجائز ہے۔ اسلامی شادی کی روح یہ بیان کی جاتی ہے کہ فریقین ایک دوسرے سے محبت کریں اور ایکدوسرے سے روحانی خوشی حاصل کریں۔  اگرچہ عملی سطح پہ ہم دیکھتے ہیں کہ محبت کی شادی ہمارے یہاں ایک لعنت سے کم نہیں اور ہم بنیادی طور پہ یہی سمجھتے ہیں کہ اسلامی شادی کا مقصد ایک مرد کی جنسی ضروریات کا حلال طریقے سے پورا ہونا ہے اور عورت محض جنس کا ایک ذریعہ ہے۔ 
 الالبانی کے نزدیک اسکے نتیجے میں ایک خاندان تشکیل نہیں پاتا اور نہ ہی عورت کو تحفظ مل پاتا ہے اور نہ ہی بچے ایک مستحکم خاندان سے آگاہ ہو پاتے ہیں۔ 
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ یہ شادیاں طلاق پہ ختم ہوتی ہیں کیونکہ مرد عام طور پہ یہ شادی اپنی جنسی ضرورت کے لئے کرتا ہے۔
متعہ اور مسیار نکاح میں صرف ایک فرق نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ متعہ ایک مقررہ مدت کے لئے کیا جاتا ہے مدت کے اختتام پہ معاہدے کی تجدید کی جا سکتی ہے۔
 اب فقہے سے ہٹ کر ہم دیکھنا چاہیں گے مسیار نکاح کی ضرورت کیسے وجود میں آئ۔ آج کے زمانے میں یہ عرب ریاستوں بالخصوص سعودی عرب اور مصر میں عام ہے۔ جہاں امیر مرد وقت گذاری کے لئے یہ شادیاں کرتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ بتائ جاتی ہے کہ یہاں عام اسلامی نکاح کے لئے مرد پہ بہت زیادہ معاشی دباءو ہوتا ہے۔
وہ عورتیں جنکی  شادی اس وجہ سے نہیں ہو پارہی ہو کہ کوئ مرد انکی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں مثلاً  بوڑھی یا بیوہ عورتیں یا وہ عورتیں جن پہ اپنے والدین یا بہن بھائیوں کی ذمہ داریاں ہیں۔ یہ سب مسیار نکاح سے مستفید ہو سکتی ہیں۔ اگرچہ اس بات کے امکان زیادہ ہیں کہ یہ مردوں کی زیادہ جنسی آزادی کا باعث بنیں گی اور معاشرے میں خآندانی استحکام کو نقصان پہنچائیں گی۔
یہ عین ممکن ہے کہ یہ نکاح اسلام سے پہلے بھی رائج ہو۔ اسلامی قوانین کی اکثریت عرب کے قبائلی معاشرے سے تعلق رکھتی ہے۔ ان میں سے بیشتر کو اصطلاحی طور پہ تبدیل کیا گیا ہے۔ 
 پاکستان، ہندوستان کے بر عکس عرب میں شادی کے بعد بیوی کو الگ گھر میں رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں مشترکہ خاندانی نظام ہندءووں کے زرعی معاشرے کی وجہ سے آیا جسکا عرب میں کوئ خاص تصور نہیں۔ اگر کوئ پاکستانی، مشترکہ خاندانی نظام کو بہتر سمجھتا ہے تو اسے جان لینا چاہئیے کہ یہ عرب میں نہیں ہوتا۔ اس لئے اسلامی ثقافت کا حصہ نہیں ہے۔
چونکہ اس نکاح کا بنیادی مقصد صرف جنسی ضرورت کو پورا کرنا ہی نظر آتا ہے اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں جنس کی بڑی اہمیت ہے اور اسے بنیادی انسانی ضرورت سمجھا جاتا ہے۔ یوں عام اسلامی نکاح کے ساتھ اس قسم کے نکاح کی بھی گنجائش رکھی گئ ہے۔   یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ عرب معاشرہ جنس کے معاملے میں اتنا ہی کھلا ہے جتنا کہ مغربی معاشرہ جس کی بے حیائ پہ ہم ہر وقت لعن طعن کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ عرب میں یہ باہر گلیوں میں نظر نہِں آتا۔ لیکن گھروں میں یہ اس سے کہیں زیادہ شدید حالت میں موجود ہے۔
قرآن پڑھتے ہوئے بھی میں اکثر سوچتی ہوں کہ جب ایک چھ سال کا عرب بچہ اسے پڑھتا ہوگا تو کیا وہ اسکے معنی نہیں سمجھتا ہوگا قرآن ایک ایسی کتاب جس میں جنس اور شادی کے معاملات کو کافی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
اسکے ساتھ ہی یہ خیال بھی آتا ہے کہ جب بھی ہمارے یہاں یہ مسئلہ سر اٹھاتا ہے کہ ہائ اسکول یا کالج کی سطح پہ بچوں کو جنس سے آگہی دینا ضروری ہے تو سب سے زیادہ مذہبی حلقے اسکے خلاف شور مچاتے ہیں۔ آخر یہ تضاد کیوں؟
آخر ایسا کیوں ہے کہ ویسے تو ہمارے یہاں عرب معاشرتی اقدار کو اسلامی معاشرتی اقدار کہہ کر پیش کیا جاتا ہے۔ عرب ثقافت کو اسلامی ثقافت کا متبادل سمجھا جاتا ہے۔  لیکن جب ان اقدار کی باری آتی ہے جو عرب کے ایک کھلے معاشرے کو پیش کرتے ہیں تو ہم صم بکم ہوجاتے ہیں ۔ اس وقت ہم عرب معاشرے کو پاکستانی معاشرے سے الگ کیوں سمجھتے ہیں؟

Tuesday, August 21, 2012

دلیل کے دشمن

انہیں اور ہیں کون  بہکانے والے
یہی آنے والے، یہی جانے والے
 لیکن بات جب اندیشے کی حد سے نکلتی ہے تو جادو کی حدوں میں داخل ہوجاتی ہے شاید اسی لئے کہتے ہیں جادو وہ جو سر چڑھ کے بولے۔ یعنی جادو جب بولتا ہے تو دنیا میں کچھ بھی باقی رہے اگلے کا سر باقی نہیں رہتا۔ جی ، میرا شارہ عقل ہی کی طرف ہے۔ ایک شخص جسے گمان ہو گیا ہو کہ اس پہ جادو کیا گیا ہے۔ اس کو کوئ بھی عقل کی بات سمجھاوی جاوے ہرگز اسکی عقل میں سما نہ پاوے۔
لوگ کہتے ہیں جادو برحق ہے اسکا نہ ماننے والا کافر ہے۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ اس قول کی ترویج کرنے والا یقیناً جادو کا توڑ جانتا ہے جبھی اپنے قول میں اتنا اٹل ہے۔
علم کی کمی سے اس کا تعلق نہیں۔  اچھے اچھے با شعور لوگ اس مرض میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ اس لئے نہ صرف یہ کہ جادو کا توڑ کرنے والوں کا کاروبار خوب پھل پھول رہا ہے بلکہ اب تو مختلف چینلز پہ بھی اسکے اثرات دور کرنے کے طریقے بتاءے جاتے ہیں۔
لیکن جب اخبار کے ایڈِٹوریل صفحے پہ ایسے مضامین ملیں جیسا کہ ابھی دو ہفتے پہلے کے ایکسپریس اخبار میں ایک ایڈوکیٹ اعوان صاحب کا مضمون تھا تو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔  شاید وہ عاملوں وغیرہ کی برائ میں لکھنا چاہ رہے تھے لیکن اس سے پہلے انہوں نے، انہی پرانے فرسودہ خیالات کی تصدیق میں لکھا جو کہ جنات کے لئے رائج ہیں۔ یعنی جنات ہوتے ہیں وہ گھوڑے کی لید، گوبر یا ہڈی وغیرہ کھاتے ہیں۔ وہ مسلمان بھی ہوتے ہیں تو ہندو بھی۔ انکا بھی یوم حساب ہوگا ، مسلمان جن چھتوں پہ رہتے ہیں اور غیر مسلم جنات سنسان مقامات پہ۔ ان سب حقائق پہ آمنا و صدقنا کہنے کے بعد انہوں نے جب عاملوں اور تعویذ کرنے والوں کو برا بھلا کہنا شروع کیا تو یہ بات ایک دم مذاق لگی۔
جب ایک شخص جادو اور جنات پہ یقین رکھتا ہے تو اسی کے بعد اس پہ یہ نوبت بھی آتی ہے کہ وہ ان عاملوں سے جو جنات پہ قابو پا لینے کا ہنر جانتے ہیں اور جادو کا توڑ کرتے ہیں، ان کی خدمات کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔
رسول اللہ نے جادو کا توڑ بتایا اور وہ ہے معوذتین سورتیں۔ ایک آسان  اور سادہ سا حل۔ یہ ذہن میں رکھنا چاہئیے کہ ڈیڑھ ہزار سال پہلے جب یہ جادو کا مرض بالکل عام تھا۔ معاشرے کو اس وباء سے نکالنے کے لئے یہ حل نفسیاتی لحاظ سے چنا گیا ہوگا۔ لیکن جیسا کہ ہم عملی سطح پہ دیکھتے ہیں کہ جو دماغ جادو کو بر حق جانتا ہے اسکی تسلی اس باب میں محض ان سورتوں سے نہیں ہوتی۔  وہ کسی پہنچے ہوئے عامل کی تلاش میں رہتا ہے۔ جادو جیسی اسرارکے رس  سے بھری چیز کی  کسی غیر اسراری عمل سے کیسے تسلی ہو سکتی ہے۔ حالانکہ یہ اسرار بھی کم نہیں کہ کیسے چند الفاظ کے بولنےسے جادو ٹوٹ جاتا ہے لیکن جب تک الو کا خون، بکرے کے شانے کی ہڈی، قبر کی مٹی، آدھی رات کا سناٹا، سیہ کا کانٹا، کالے رنگ کا کپڑا اور اس قماش کی دیگر اشیاء شامل نہ ہوں سچ پوچھیں تو اسرار کا اصرار بڑھے جاتا ہے۔
جادو کی کہانی بہت پرانی ہے۔  جب انسان نے پہلے پہل اپنے ماحول میں دلچسپی لینا شروع کیا۔ اس نے بولنا سیکھا، اس نے اپنے خیالات دوسروں تک پہنچانا سیکھا تو اس نے اپنے طور پہ یہ فرض کیا کہ اسکے اردگرد کے ماحول کو غیر مرئ طاقتیں کنٹرول کرتی ہیں۔ کیونکہ اسے کوئ بارش برساتا نظر نہیں آتا۔ اسے معلوم نہیں ہوا کہ زلزلے کیسے آتے ہیں۔ وہ نہیں جانتا کہ کیسے شکار کی فراوانی ہوتی ہے اور کیسے قحط آجاتے ہے۔ 
چونکہ وہ سوچ سکتا تھا  اس لئے اس نے جانا کہ ان طاقتوں کی توجہ کا مرکز وہ خود یعنی انسان ہے۔  اس نے یہ بھی فرض کیا کہ اسکے مصائب اور اسکی خوشیاں سب انہی کے مرہون منت ہیں وہ بارش بھی لاتے ہیں اور طوفان بھی۔ اس نے یہ بھی فرض کیا کہ جب یہ طاقتیں اس سے خوش ہوتی ہیں توکھانے کو اچھا ملتا ہے، زندگی سہولتوں سے بھرپور رہتی ہے، شکار ملتا ہے ، بہتر پناہ ملتی ہے   اور جب ناراض ہوتی ہیں تو بادل گرجتے ہیں، سیلاب آتے ہیں ، زلزلے آتے ہیں، آندھیاں چلتی ہیں، بیماریاں آتی ہیں، کھانے کو نہیں ملتا۔
یہاں پہنچ کر اس نے یہ بھی فرض کیا کہ اگر وہ چاہے تو ان طاقتوں کو اپنے قابو میں لا سکتا ہے تب وہ اس کے فائدے کے کام کریں گی اور اسکے نقصان میں جانے والے کام نہیں ہونگے۔ ان ماورائ طاقتوں کو قابو میں لانے کی سوچ نے جادو کو جنم دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی سوچ نے دوسری طرف سائینس کو بھی جنم دیا۔  جادو اور سائینس دو جڑواں لیکن متضاد خیالات کے ساتھ وجود میں آئے۔ لیکن سائینس نے اپنی بنیاد دلیل پہ رکھی, کسی ماورائ طاقت سے الگ دلیل جو قدرتی قوانین کو ایک دوسرے سے جوڑے۔ یعنی اگر ہم کسی عمل کے ہونے کے طریقے کو جان لیں تو اس پہ قابو پا سکتے ہیں۔ اگر ہم جان لیں سیلاب اور قحط کیسے آتے ہیں تو ہم ان پہ قابو پا لیں گے۔ اگر ہم جان لیں کہ ہم بیمار کیوں ہوتے ہیں تو بیماری پہ قابو پا لیں گے۔
دلیل کے ساتھ چلنے میں ایک بظاہر نقصان اسرار کے ٹوٹ جانے کا ہوتا ہے۔ اسرار، جو ہم پہ حکومت کرتا ہے اور جب یہ ٹوٹ جاتا ہے تو ہم اس پہ حکومت کرتے ہیں۔ اس مرحلے پہ پہنچ کر کیا آپکو یہ نہیں لگتا کہ ہم میں سے کچھ لوگ اسرار کے غلام بنے رہنے میں لذت پاتے ہیں اور کچھ لوگ اسرار کو محمود غزنوی کی طرح ڈھا دینے میں۔
آئیے ایک ویڈیو دیکھتے ہیں۔ دلیل کے دشمن۔