ایک ساٹھ سالہ خاتون انتہائ غصے میں بتا رہی تھیں کہ وہ کسی مجبوری کی بناء پہ بس سے سفر کر رہی تھیں۔ بس والا اتنی تیز بس چلا رہا تھا اور مسافروں کو اتارنے کے لئے بھی بس آہستہ کرتا لیکن روک نہیں رہا تھا۔ یہ دیکھ کر انہوں نے اس سے کہا دیکھ بھال کر چلاءو۔ کیونکہ کچھ سال پہلے وہ چلتی بس سے گر کر اپنا ہاتھ تڑوا بیٹھی تھیں۔ اس پٹھان ڈرائیور نے انکی نصیحت پہ عمل کرنے کے بجائے ان سے کہا دوپٹہ سر سے اوڑھ کر بیٹھو۔ طیش میں انہوں نے بس ڈرائیور کو کہا کہ تو کیا میرا باپ لگتا ہے۔ تیرا قصور نہیں، تیری ماں کا قصور ہے نہ اس نے اپنی عزت کرائ ہو گی نہ تجھے اسکی تربیت دی کہ تو کسی اور عورت کی عزت کرے۔ شاید اور کچھ بھی کہا ہوگا۔ خیر اسی وقت اس سے بس رکوائ اور اتر گئیں۔
یہاں ڈرائیور کی لسانی شناخت بتانی ضروری ہو گئ کہ اگر اردو اسپیکنگ ہوتا تو غصے میں کہتا' جاءو جاءو، ایسی نوابی ہے تو بس کے بجائے ٹیکسی سے سفر کیا کرو'۔ یہ ابھی ایک ہفتے پہلے کراچی میں پیش آنے والا واقعہ ہے۔
مجھے اس وقت کیوں یاد آیا؟
ابھی تفصیل سے بتاتی ہوں۔ چند دن پہلے میں ایک دفعہ پھر گوادر گئ تقریباً دس مہینے بعد۔ اس دفعہ مجھے ماحول میں ایک واضح تبدیلی محسوس ہوئ۔ اول تو ہری پگڑی والے لوگ دیکھے جو کہ موٹر سائکلوں پہ پھر رہے تھے۔ یہ تو میں پچھلی ایک پوسٹ میں بتا چکی ہوں کہ یہ جو گوادر کی دیواروں پہ مذہبی اجتماعات کی دعوتیں لکھی نظر آرہی ہیں۔ یہ کسی نئ سمت کا اشارہ کر رہی ہیں جو یقیناً مکران کے ماحول کو تبدیل کرے گا۔ اور اس دفعہ یہ تبدیلی واضح نظر آرہی تھی۔
کیونکہ پھر میرے ساتھ دو واقعات ہوئے۔
پہلا واقعہ دلچسپ ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ جس جگہ ہم رہائش پذیر تھے وہ جگہ سمندر سے چند قدم کے فاصلے پہ تھی۔
ساتھ ہی ایک پہاڑ ہے۔ میں جب بھی یہاں جاتی تھی تو اس پہاڑ کے ساتھ سمندر کنارے ضرور تنہا بیٹھتی کہ ایک دم مراقبے کا مزہ آجاتا۔ یوں معلوم ہوتا کہ میں زمین پہ نہیں بلکہ کائینات کے کسی لامتناہی نکتے سے زمین کو دیکھ رہی ہوں۔ پھر یہاں سے پتھرلیے فوسلز جمع کرتی اور گھر واپس آجاتی۔ گوادر میں یہ میری سب سے اہم اور بڑی عیاشی ہوتی۔ اسکے لئے میں ساڑھے سات سو کلومیٹر کا پر مشقت سفر کر کے یہاں آتی ہوں۔ اب یہ مشغلہ میری بیٹی کو بھی پسند آتا ہے۔
اس دن میرے ساتھ میری بچی، پالتو کتا اور مقامی بچے درجن بھر موجود تھے۔ ہم جلوس کی شکل میں پہاڑ کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ اگرچہ میری خواہش تو یہ تھی کہ یہ بچے ساتھ میں نہ ہوتے تاکہ تھوڑی دیر اپنے مراقبے کا مزہ لیتی۔ لیکن بہر حال بچے بہت زیادہ مشتاق تھے ساتھ چلنے کے۔ شاید اسکی ایک وجہ کتے کا ہمارے ساتھ ہونا بھی تھا۔ کتا بھی خوش تھا۔ بار بار تھوڑی دور تک دوڑ کر جاتا۔ اپنے پیشاب کی بو چھوڑتا اور پھر خوشی سے اچھلتا کودتا واپس آتا۔ پیشاب کی بو سے اسکے حصے کی زمین میں اضافہ جو ہو رہا تھا۔
راستے میں ایک صاحب نے قریب سے گذرتے ہوئے موٹر سائیکل روکی اور کہنے لگے۔ آپ اس طرح اکیلے نہ پھریں آجکل سیکیوریٹی کا مسئلہ ہے۔ میں نے اسکا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا میں صرف پہاڑ کے ساتھ جا کر سامنے والی جگہ پر جا کر واپس آجاءونگی۔ نہ بستی کی طرف جاءونگی اور نہ یہاں سے زیادہ دور۔ مجھے بھی اس بات کا احساس ہے۔ وہ خاموش ہو کر واپس پلٹ گیا۔
ابھی چند ہی گز طے کئے ہونگے کہ ایک صاحب موٹر سائیکل پہ آئے انکے پیچھے ایک گن بردار شخص بیٹھا ہوا تھا۔ میں ٹھٹھک کر رک گئ۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کہاں جا رہی ہیں۔ میں نے انگلی کے اشارے سے بتایا کہ بس وہاں تک جا رہی ہوں۔ پھرمزید سوالات کے جواب دینے سے پہلے میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے۔ پتہ چلا کہ وہ پولیس سے تعلق رکھتا ہے۔ کس کے ساتھ آئ ہیں، کس جگہ رہ رہی ہیں قسم کے سوالات کے بعد اس نے کہا کہ ہمیں اطلاع ملی کہ ایک انگریز عورت ادھر اکیلے پھر رہی ہے۔ مجھے ہلکی سی ہنسی آئ۔ آپ نے دیکھ لیا میں انگریز نہیں ہوں۔ ہاں وہ اس نے آپکے حلئے کو دیکھ کر کہا ہوگا۔ حلئے سے شاید اس کی مراد پیروں کے جاگرز اور سر کی ٹوپی ہوگی۔ دراصل یہ پسماندہ علاقہ ہے یہاں اس حلئے کو ہی انگریز سمجھ لیتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ سیکوریٹی کا مسئلہ ہے آپ زیادہ دور تک نہ جائیں۔ میں نے اسے تسلی دی۔ میں بس سامنے ہی سے پتھرلے کر واپس آجاءونگی۔ یہاں کراچی میں پڑھنے لکھنے والے بچوں کو تحفے میں مجھے یہ پتھر دینا پسند ہیں۔
پھراس جگہ پہنچ کر ان بچوں کے ساتھ چند منٹ رک کر پتھر ڈھونڈھے اور جلدی ہی واپسی کا راستہ لیا کیونکہ میں نے دیکھا کہ وہ دونوں ایک چٹان پہ بیٹھے ہم لوگوں کی نگرانی کر رہے تھے۔ ایسے میں میرے دل دھڑکا بھی کم ہوگا اور انکی ڈیوٹی بھی ختم ہوگی۔
اگلے دن گھر کے سامنے ساحل پہ بچی کے ساتھ چلی گئ۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ماضی میں یعنی تین چار سال پہلے میں ایک ڈیڑھ میل تک تنہا چہل قدمی کر چکی ہوں۔ مقامی لوگوں سے گپ شپ کی اور کبھی کوئ مسئلہ نہیں ہوا۔ اس دن جب میں اپنی بچی اور محلے کے دیگر بلوچی بچوں کے ساتھ اپنے گھر واپس آنے لگی تو ایک موٹر سائیکل قریب سے گذری جس پہ دو افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے موٹر سائیکل کو آہستہ کیا۔ میں کچھ ہوشیار ہوئ۔ پھر ان میں سے ایک نے نفرت بھری نظر مجھ پہ ڈال کر کہا جاءو جا کر کچھ پہنو۔
قارئین کی تسلی کے لئے میں اس وقت تیراکی کے مغربی لباس میں نہیں تھی۔ بلکہ پاکستانی سوتی شلوار قمیض پوری آستین کا پہنے ہوئے تھی اور دھوپ سے بچنے کے لئے ڈھائ گز کے سوتی دوپٹے کو سر سے لپیٹ کر منہ بھی اطراف سے ڈھکا ہوا تھا۔ سو میں نے حیرانی سے انکی طرف دیکھا اور پھر غور کیا کہ وہ کچھ کیا ہو سکتا ہے جو میں پہنوں۔ سمجھ آیا کہ برقعہ قسم کی چیز ہی اب اس کے بعد بچ جاتی ہے۔
دس سال سے یہاں آرہی ہوں اور اتنے لمبے عرصے کے تجربے کے بعد میں اس علاقے کو کافی بہتر سمجھتی تھی۔ مقامی لوگ مچھیرے ہیں جو اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ وہ خود کیسے بھی رہیں دوسروں کے کام میں مداخلت نہیں کرتے۔ حتی کہ عین اس وقت جب کراچی میں کسی ہوٹل میں بیٹھ کر سر عام شراب نہیں پی جا سکتی تھی یہاں ایسی کوئ منادی نہ تھی۔ اس وقت میں ساحل پہ تنہا بیٹھ کر گھنٹوں سمندر کی آتی جاتی لہریں دیکھا کرتی تھی۔ کراچی کی مٹی سے جنم لینے کے باعث سمندر کی محبت میرے اندر ہمیشہ مءوجزن رہی ہے۔
یہ وہ وقت تھا جب یہاں کوئ مدرسہ نہ تھا۔ پھر کوسٹل ہائ وے کی تعمیر کے ساتھ ہی زمین کے ایک بڑے رقبے پہ ایک بڑا مدرسہ وجود میں آگیا۔ اور اب جیسے جیسے یہاں مذہبی ماحول کو شہہ مل رہی ہے ویسے ویسے یہ شدت پسندی ماحول کا حصہ بن رہی ہے۔ معاشرے کے کمزور طبقات ہمیشہ شدت پسندی کا پہلا نشانہ ہوتے ہیں۔ تاکہ دوسرے لوگ ان سے سبق سیکھیں۔ خواتین اس لئے سب سے پہلا نشانہ بنتی ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گوادر میں یہ مذہبی شدت پسندی کون متعارف کرا رہا ہے؟ کیا بلوچستان کے مسائل کا حل مذہبی شدت پسندی کو ہوا دینے میں ڈھونڈھاجا رہا ہے؟
حیرت ہوتی ہے کہ گوادر میں ایک اچھا ہسپتال موجود نہیں ہے۔ اسکی وجہ سے عورتوں کو کس قدر مصائب کا سامنا ہے اسکا اندازہ اس عورت سے لگائیں جس نے بتایا کہ ابھی چند مہینے پہلے اسکی بچی پیدائیش کے دوران مر گئ۔ کوئ ماہر ڈاکٹر نہ تھا کہ وہ زندہ پیدا ہو پاتی۔ کسی ماہر ڈاکٹر کے موجود نہ ہونے سے وہ لیبر میں اتنا زیادہ عرصہ رہی کہ اسے فسچولا ہو گیا۔ شوہر بھائ کے پاس چھوڑ گیا وہاں سے وہ کراچی کے جناح ہسپتال پہنچی جہاں ایک مہینہ علاج میں ناکامی کے بعد اسے کراچی کے مضافات میں واقع، کوہی گوٹھ کے فسچولا ہسپتال بھیجا گیا وہاں وہ تین مہینے رہی اسکے تین آپریشن ہوئے اور ابھی بھی بالکل تندرست نہیں ڈاکٹر نے اسے تین مہینے بعد پھر بلایا ہے۔
حیرانی ہوتی ہے ناں کے جس شہر میں عورتیں محفوظ طریقے سے بچہ نہ پیدا کر سکیں وہاں عورتوں کو پردے کی تبلیغ کرنے والے پیدا کئے جائیں۔ ایک بڑا مدرسہ بنانے والے تو موجود ہوں لیکن ہسپتال کا کوئ انتظام نہ ہو۔ یہی نہیں یہاں کوئ ڈھنگ کا اسکول موجود نہیں ہے۔ لیکن کوسٹل ہائ وے پہ جاتے ہوئے سنسان پہاڑوں پر خوبصورت ٹائلز کی بنی ہوئ بڑی مساجد نظر آئیں گی جو کہ پچھلے دو سالوں میں عرب بھائیوں کی فیاضی سے تعمیر ہوئ ہیں۔ اتنے سنسان علاقوں میں ان مساجد کا کیا کام؟
ایک صاحب کا کہنا ہے کہ عرب اسکول کی تعمیر کے لئے پیسے خرچ نہیں کرتے وہ مسجدیں اور مدرسے بناتے ہیں بہت زیادہ فیاضی اگر کبھی دکھائ تو شاید ہسپتال بنا دیں لیکن اسکول، نو وے۔
عرب ہمارے ملک میں اسکے علاوہ کس چیز پہ پیسہ خرچ کرتے ہیں؟
اس کا اندازہ اس خبر سے ہوگا کہ ایک عرب شیخ ایک بلوچ کو پیسے دے رہے ہیں کہ وہ سو بچوں کو پیدا کرنے کا ریکارڈ قائم کر کے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام ڈال لے۔ اس سلسلے میں وہ بلوچ تیئیس شادیاں کر چکا ہے اسکے ترانوے بچے پیدا ہو چکے ہیں۔ ہر تھوڑے دنوں بعد ایک بیوی کو طلاق دے کر ایک اور شادی کر لیتا ہے۔ طلاق یافتہ بیوی کو وہ عرب پیسہ دیتا ہے کہ وہ اپنی باقی زندگی عسرت میں نہ گذارے۔
اس بلوچ کو یہ یاد نہیں کہ اسکا کون سا بچہ کس بیوی سے ہے اسکے لئے اسے اپنی ڈائری دیکھنی پڑتی ہے۔ اور نہ اسے یہ معلوم ہوگا کہ اسکا کوئ بچہ پڑھتا لکھتا بھی ہے یا نہیں۔ یہ شخص پہلے فوج میں رہ چکا ہے اور ٹانگ سے معذور ہونے کے بعد وہاں سے نکل آیا۔ ہو سکتا ہے آپ میں سے کچھ کو اس سے کراہیئت آئے اور کچھ ہنس دیں ۔ لیکن ایک دفعہ پھر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ مسلمان مرد ، اپنی عورتوں کو کیا سمجھتے ہیں؟
خیر ہم موضوع کی طرف واپس پلٹتے ہیں۔ کراچی میں آجکل جماعت اسلامی کے زیر اہتمام چار ستمبر کو یوم حجاب منانے کی تیاریاں زور شور سے جاری ہیں۔ شہر میں ہر جگہ خواتین کو حجاب کی تلقین کے بینرز ملیں گے۔ یہی نہیں روزنامہ جنگ کے اس دفعہ کے اتوار میگزین میں بھی، میں نے دیکھا کہ یوم حجاب کے حوالے سے چار مضامین موجود ہیں۔ گوادر میں میرے ساتھ پیش آنے والا واقعہ آپ پڑھ چکے۔ ملک ہی نہیں باقی دنیا میں بھی مسلمان مردوں کی شدت پسندی کو ہوا دینے والی یہ مذہبی جماعتیں ہیں اور کوئ نہیں۔ شاید اسی لئے بنگلہ دیش میں سیاسی جماعتوں پہ پابندی لگا دی گئ ہے کہ وہ اپنے نام کے ساتھ کوئ مذہبی نام استعمال نہیں کریں گی۔
اس بات کو خآطر میں لائے بغیر کہ ہمارے ملک میں عورتوں کی حالت کتنی دگرگوں ہیں۔ جماعت اسلامی کے زیر اہتمام منائے جانے والے اس طرح کے یوم مجھے تو مردوں کو مزید شدت پسندی کی ترغیب دیتے ہوئے ہی لگتے ہیں۔ جس وقت وہ یہ پیغام دیتے ہیں کہ حجاب عورت کی عزت کا ضامن ہے اس وت وہ مردوں کو بین السطور یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ اگر کوئ عورت بے حجاب ہے تو اسکی عزت پہ حملہ کوئ بری بات نہیں۔ اسکے ساتھ یہی ہوگا، کیونکہ مذہب اسکے بارے میں یہ پیشن گوئ کر چکا ہو۔ چاہے مذہب نے اس بات کو نکتہ بھی نہ بنایا ہو۔
بالکل ایسے ہی وہ انفوگرافکس جس میں مردوں سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو کس لباس میں دیکھنا پسند کریں گے۔ اور انتخاب میں شدید برقعے سے لیکر جینز ٹی شرٹ میں ملبوس خواتین دکھا دی جاتی ہیں۔ ایسے جیسے بازار میں آپ مختلف برانڈز کے کیچپ دیکھ رہے ہوں۔ پھر انہیں غیرت کے طعنے دے کر کہا جاتا ہے کہ دراصل تمہاری بیوی کو کس قدر حجاب میں ہونا چاہئیے۔ چاہے وہ اسکی اہلیت نہ رکھتے ہوں کہ اپنے خاندان کے معاشی مسائل حل کر سکیں لیکن ان میں یہ اہلیت ضرور پیدا کی جاتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کے لباس پہ غضب کی نظر رکھیں۔
جماعت اسلامی سمیت، ہر مذہب کا ڈھنڈورہ پیٹنے والی جماعت سے ایک ہی سوال ہے کہ وہ کبھی خواتین کے حالات میں بہتری کے لئے بھی کچھ کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں یا مردوں کو خواتین کے نام پہ ہی غیرت دلاتے رہیں گے۔ معاشرے کو خواتین کے لئے مزید غیر محفوظ بنانے کے فول پروف انتظامات کرتے رہیں گے۔ یہ ملک جو پہلے ہی مسائلستان بنا ہوا ہے کیا اسکے مسائل میں وہ مثبت طریقے سے کوئ کمی لا سکتے ہیں۔ کیونکہ فلسفہ ء جہاد سے لے کر مرد و خواتین کی جہالت تک ہر ایک میں وہ برابر کے حصے دار ہیں۔
اس بات کو خآطر میں لائے بغیر کہ ہمارے ملک میں عورتوں کی حالت کتنی دگرگوں ہیں۔ جماعت اسلامی کے زیر اہتمام منائے جانے والے اس طرح کے یوم مجھے تو مردوں کو مزید شدت پسندی کی ترغیب دیتے ہوئے ہی لگتے ہیں۔ جس وقت وہ یہ پیغام دیتے ہیں کہ حجاب عورت کی عزت کا ضامن ہے اس وت وہ مردوں کو بین السطور یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ اگر کوئ عورت بے حجاب ہے تو اسکی عزت پہ حملہ کوئ بری بات نہیں۔ اسکے ساتھ یہی ہوگا، کیونکہ مذہب اسکے بارے میں یہ پیشن گوئ کر چکا ہو۔ چاہے مذہب نے اس بات کو نکتہ بھی نہ بنایا ہو۔
بالکل ایسے ہی وہ انفوگرافکس جس میں مردوں سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو کس لباس میں دیکھنا پسند کریں گے۔ اور انتخاب میں شدید برقعے سے لیکر جینز ٹی شرٹ میں ملبوس خواتین دکھا دی جاتی ہیں۔ ایسے جیسے بازار میں آپ مختلف برانڈز کے کیچپ دیکھ رہے ہوں۔ پھر انہیں غیرت کے طعنے دے کر کہا جاتا ہے کہ دراصل تمہاری بیوی کو کس قدر حجاب میں ہونا چاہئیے۔ چاہے وہ اسکی اہلیت نہ رکھتے ہوں کہ اپنے خاندان کے معاشی مسائل حل کر سکیں لیکن ان میں یہ اہلیت ضرور پیدا کی جاتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کے لباس پہ غضب کی نظر رکھیں۔
جماعت اسلامی سمیت، ہر مذہب کا ڈھنڈورہ پیٹنے والی جماعت سے ایک ہی سوال ہے کہ وہ کبھی خواتین کے حالات میں بہتری کے لئے بھی کچھ کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں یا مردوں کو خواتین کے نام پہ ہی غیرت دلاتے رہیں گے۔ معاشرے کو خواتین کے لئے مزید غیر محفوظ بنانے کے فول پروف انتظامات کرتے رہیں گے۔ یہ ملک جو پہلے ہی مسائلستان بنا ہوا ہے کیا اسکے مسائل میں وہ مثبت طریقے سے کوئ کمی لا سکتے ہیں۔ کیونکہ فلسفہ ء جہاد سے لے کر مرد و خواتین کی جہالت تک ہر ایک میں وہ برابر کے حصے دار ہیں۔
آخری اہم سوال لوگوں کو خدا کے قہر اور عذاب سے ڈرانے والے کیا خود خدا کے عذاب اور قہر سے ڈرتے ہیں؟
کیونکہ انکی پھیلائ ہوئ شدت پسندی کی وجہ سے جتنی انسانی جانیں جاتی ہیں اسکے ذمہ دار وہ ہوتے ہیں۔ جب کسی عورت پہ تیزاب پھینکا جاتا ہے، جب کوئ عورت کاروکاری کا شکار ہوتی ہے، جب کسی عورت کو اس لئے نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ انکے متعارف کرائے گئے فلسفہ ء حجاب پہ یقین نہیں رکھتی۔ ہر ہر صورت میں وہ عذاب کے مستحق ہوتے ہیں اور ہونگے۔ خدا کے عذاب سے بچنے کے لئے وہ خود کیا کریں گے؟ کیونکہ جو تم کروگے وہ ہم کریں گے۔
زندہ باد..
ReplyDeleteویسے نام نہاد دین وغیرت کے فوبیا میں مبتلا مجاہدین تاویلات کے ڈھیر لے کر آئی بائیں اور شائیں شائیں کرنے آتے ہی ہوں گے.. اگرچہ آپ کی اس ببانگ دہل "بے غیرتی" پر آپ پر ایک عدد تگڑا فتوی ہائے کفر بنتا ہے تاہم یہ نوٹ کیا گیا ہے کہ طوطوں، بکروں، اور کھٹملوں نے ماضی میں اتنے کفر کے فتوے جاری کیے ہیں کہ اب حیرت انگیز طور پر انہیں کچھ کچھ شرم آنے لگی ہے، وہ بھی ایسی کہ بقول غالب کہ:
شرمِ رسوائی سے جا چھپنا نقابِ خاک میں
ختم ہے الفت کی تجھ پر پردہ داری ہائے ہائے
شعر اچھا ہے۔ حجاب سے متعلق بھی اور حجاب کی تبلیغ والوں کے لئے بھی۔ غالب کو شاعر مشرق کیوں نہیں کہا جاتا؟
Deleteاس لیے کہ وہ خودی کو بلند نہیں کرتا....
Deleteحکومت کی بدانتظامی کا نزلہ مذہبی جماعتوں پر گرانے سے مسائل حل نہیں ہونے والے۔ ویسے بھی ہمارے اکثر معاشرتی مسائل کی بنیادی وجہ ہماری ہندوستانی و آریائی تہذیب و ثقافت ہے، جس کو ہم خود ہی اسلامی رنگ میں رنگ کر، اسلام کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں اور آپ جیسے ناقدین کو اسلام پر انگلی اٹھانے کا موقع میسر آجاتا ہے۔
ReplyDeleteیہ روایت پسندوں نے نیا شوشہ چھوڑآ ہے کہ ہمارے معاشرتی مسائل کی وجہ ہندوستانی آریائ تہذیب ہے۔ چلیں ابھی بھی ہندوستان کے اصل باشندوں یعنی دراوڑوں کو آپ نے بخش دیا۔ اگرچہ کہ مجحے یہ نہیں معلوم کہ دراوڑوں پہ یہ مہربانی کیوں ہے جبکہ دراوڑ بھی مسلمان نہ تھے۔
Deleteسعودی ثقافت جو آپکے ملک میں داخل کر دی گئ ہے اسکے متعلق آپ نے کچھ ارشاد نہیں فرمایا۔
خود عرب اس وقت جس اخلاقی زبوں حالی کا شکار ہیں اور اس وقت ہی کیا، انکی تاریخ اٹھآ کر دیکھیں تو ہر دور میں اخلاقی کجی ان میں موجود رہی۔ کیا یہ بھی بر صغیر کی آریائ تہذیب کا شاخسانہ ہے؟
یہ نیا شوشہ آپ ہی کی مندرجہ بالا تحریر سے نکالا گیا ہے، بہتر تھا کہ بے مقصد اعتراض جڑنے کے بجائے میرے الفاظ کی تہ تک پہنچ نے کی کوشش کرتیں۔
Deleteخیر ذرا پھر سے اپنی ہی تحریر کو میرے سابقہ تبصرے کی روشنی میں پڑھ لیں، امید ہے کہ بات واضح ہوجائے گی، اور اگر نہیں ہوئی تو بھی خیر ہے، کیونکہ اس موضوع پر مزید تبصرے در تبصرے کرنے کا موڈ نہیں بن رہا ہے۔
آپ اتنا تہہ دار بیان کیوں دے رہے ہیں جبکہ بات ایک دم سیدھی سادھی ہے۔ کیا آپکے خیال میں جماعت اسلامی، آریائ تہذیبی ورثے کی تقلید میں یوم حجاب منا رہی ہے کیونکہ جس قسم کا پردہ وہ چاہتے ہیں یہ کسی زمانے میں ہندءووں میں رائج تھا۔ والللہ اگر آپ اس پس منظر میں جماعت کی کوششوں کو دیکھ رہے ہیں تو اس دفعہ تو جماعت یہودیوں کی ایجنٹ ہونے کے بجائے ہندءووں کی ایجنٹ نکل آئے گی۔
Deleteہمممم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ReplyDeleteمجھے شک ہو رہا ہے کہ
۔۔۔۔
میں
۔۔۔
روشن خیال ہوتا جارہا ہوں؛ڈڈڈ
پنجاب کی ملائيت يہاں بھی پھيل گئی ہے
ReplyDeleteپردہ پر غصہ کا جواب ادھر ادھر کی جذباتی باتیں اور واقعات سنا کر نہیں دیا جا سکتا.آپ نے ایک پردہ کے امر کے جواب میں عورت پر ھونے والے سارے مظالم کا ذمہ دار مذھبی طبقہ کو قرار دے دیا، حالانکہ معاملہ الٹ ھے. ویسے بھی جتنی ذمہ داری مذھبی لوگوں کی رفاعی کاموں کی بنتی ہے اتنی ھی آپ کے 'غیر مذھبی لبرل' لوگوں پر بھی عائد ہو تی ہے. مذہبی تنظمیوں کے رفاعی کاموں کی تعریف تو مخالفین نے بھی کی. میرا اشارہ زلزلہ کے دوران کیے جانے والے الرشید ٹرسٹ اور الخدمت فاؤنڈیشن کے کاموں کی طرف ہے جنکی تعریف پرویز مشرف نے بھی کی تھی. دوسری طرف آپ کے طبقے کی این جی اوز کو ڈانس پارٹیاں اور فیشن شو کرانے سے ھی فرصت نہیں ملتی. آۓ روذ انکے بلیک لسٹ ہونے اور اسکینڈلز کی خبریں آتی رہتی ہیں کہ یہ اپنے غیر ملکی آقاؤں کی کچھ ذیادہ ہی تابعدار ہیں، ڈالروں کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہیں، جیسے آپ کی شرمین عبید نے ایک تیزاب سے جلائ جانے والی مظلوم عورت سے علاج اور مالی سپورٹ کے وعدے کیے پھر اسکو سامنے رکھ کر اپنے آقاؤں کی خواھش کے مطابق اک ایسی ڈاکیو مینٹری بنائ جس سے ظاہر ھوتا ھے کہ پاکستان میں ھر عورت کیساتھ شاید یہی کچھ ھوتا ہے. اس کے بدلے آسکر ایوارڈ لیا اور غائب ھو گئ ، اس غریب عورت کو اتنا ذلیل ھونے کے بعد کیا ملا ؟
ReplyDeleteباقی پردے کے قرانی حکم پر عمل کو شدت پسندی قرار دینا آپ کی انتہا پسندی اور آپ کا اپنا فلسفہ ھے.
بنیاد پرست
قرآنی پردے کا حکم خود اتنا متنازعہ ہے کہ مصر میں الزہر یونیورستی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے والے عالم نے اسے اپنے تھِسس کا موضوع بنا کر یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام میں عام مسلمان عورت کے لئے وہ پردہ ہے ہی نہیں جسے اسلامی حجاب کے نام پہ پہناءے جانے کی خواہش جماعت اسلامی جیسی تنظیموں کے حامیوں کے دل میں مچلتی رہتی ہے۔
Deleteلنک دیکھئیے۔
http://somalilandpress.com/al-azhar-wearing-hijab-islamic-duty-32603/
کیا مذہبی جماعتوں سے فلاحی کام کروانے کے لئے ملک میں ہر چند مہینوں بعد زلزلہ لانا ضروری ہے۔ زلزلے کے دوران دنیا بھر سے لوگوں نے آکر کام کیا۔ ان میں دہرئیے تک شامل تھے۔ انکے بارے میں آپکا کیا خیال ہے۔ مصیبت کے وقت تو ہاتھ ہر انسان ہی بڑھا دیتا ہے۔ سیاسی جماعت کو اسکی مستقل پالیسی کے لحاظ سے دیکھآ جاتا ہے۔
یہ آپ کو ادھر ادھر کے واقعات لگ رہے ہیں جبکہ یہ واقعہ میں آپکو اس شہر کے متعلق بتا رہی ہوں جس سے پاکستان کے مستقبل کی بڑی امیدیں ہیں اور دوسری طرف وہ شہر ہے جو کہ پاسکتان کا سب سے بڑا اور سہولیات کے لحاظ سے سب جدید شہر ہے۔
آپ اپنے آپکو خوامخواہ ہی بنیاد پرست کہتے ہیں جبکہ آپ دراصل بنیاد کی نہیں بلکہ کچھ روایات کی پابندی چاہتے ہیں۔ اس لئے اپنے آپکو روایت پسند لکھا کریں۔
الازہر سے ڈاکتریٹ کا معاملہ متنازعہ لگتا ہے۔ ۔ دیکھیے: http://www.moheet.com/2012/06/11/%D8%A7%D9%84%D8%A3%D8%B2%D9%87%D8%B1-%D9%8A%D9%86%D9%81%D9%8A-%D9%85%D9%86%D8%AD-%D8%AF%D9%83%D8%AA%D9%88%D8%B1%D8%A7%D9%87-%D8%AD%D9%88%D9%84-%D8%AF%D8%B1%D8%A7%D8%B3%D8%A9-%D8%AA%D8%B2%D8%B9%D9%85/
Deleteاس کا ترجمہ کسی نے یوں کیا ہے:
Al-Azhar denies granting PhD on a thesis claiming that Hijab is not an Islamic Injunction
Written By: Ayaat Abdulbaqi
In an attempt to ascertain the facts, Sheikh Al-Azhar Osama El-Sayed followed up on the news reported by print and online editions of some newspapers claiming that Damanhor Branch of Sharia College at Al-Azhar University has granted a doctoral degree with distinction to a researcher named Mustafa Muhammad Rashid who established that Hijab is not mandatory in Islam. The Sheikh has verified that the news item is fabricated, emphasizing that it is impossible for Al-Azhar to give any credence to such bizarre and alien studies which contradict the principles and injunctions of Islam.
Through a statement on his Facebook page, the Sheikh has questioned the veracity and timing of the news, suggesting that it might have been linked to the recent presidential elections amid calls for implementing the Islamic Sharia.
The Sheikh emphasized that he contacted the administration of the College of Sharia, and discovered that this incident is devoid of any truth and such a thesis has not even been discussed.
On his part, Dr. Mustafa Al-Arjawi, Dean of the College of Sharia, Damanhor Branch has submitted a report to Sheikh Osama refuting the alleged incident.
It is worth mentioning that, it was reported some time back that a researcher named Mustafa Muhammad Rashid had been awarded a PhD by the Damanhor Branch of Sharia College at Al-Azhar University. The thesis of the researcher negated the obligation of Hijab. The news was carried by some news sites and we had also published it under the title of : “Disaster: Al-Azhar grants PhD on a study claiming that Hijab is not mandatory in Islam”. The news caused wide spread uproar in Egypt, especially since it was timed to coincide with the first elections in which the Islamic bloc was running for the presidency. We had been waiting to get a response from Al-Azhar and we have reported the same in the above lines.
تصدیق اس ترجمے کی مکی صاحب سے کروا لیں۔ وہ عربی جانتے ہیں مہرے خیال میں
روایت پسندی نہیں بلکہ روایت پرستی۔
ReplyDeleteیہ کوئی بیرونی روایت پرستی ہے کہ اپنی تہذیب اور اس میں فطری عمل سے وقوع پذیر ہونے والی ہر تبدیلی سے بیزاری جبکہ مذہب کے نام پر درآمد شدہ کچھ دوسری اجنبی روایات کو مقدس جان کر پرستش کی جا رہی ہے۔
بچپن میں لاہور کے ایک لوئر مڈل کلاس محلے میں رہتا تھا۔ ارد گرد کی گلیوں میں صرف ایک شیعہ گھرانے کی خواتین برقع اوڑھتی تھیں۔ باقی تمام محلے کی خواتین وہی دوپٹے ، چادریں ہی اوڑھتی دیکھیں۔
اب یہ "آریائی تہذیب" ٹھہری ، اور کچھ نئی روایات کی پرستش "الہامی تہذیب" ؟
اسے کہتے ہیں تاویل پہ تاویل، تاویل پہ تاویل، تاویل پہ تاویل، تاویل پہ تاویل، تاویل پہ تاویل، تاویل پہ تاویل، تاویل پہ تاویل، تاویل پہ تاویل، تاویل پہ تاویل، تاویل پہ تاویل، تاویل پہ تاویل، تاویل پہ تاویل، تاویل پہ تاویل، تاویل پہ تاویل، تاویل پہ تاویل، تاویل پہ تاویل، تاویل پہ تاویل، تاویل پہ تاویل، تاویل پہ تاویل، تاویل پہ تاویل، تاویل پہ تاویل، تاویل پہ تاویل...... وہلم جراً.......
Deleteمیری نانی، والدہ اور خالہ نے کبھی عام ذرا لمبی چادر کے علاوہ کوئی برقعہ نہیں کیا۔ نانی اور خالہ کو زمینوں پر روٹی لے کر جانا پڑتی تھی ماموں اور نانا کے لیے۔ میرے سارے ننھیالی گاؤں کی خواتین ایسی ہی چادر لیتی تھیں۔ کسی کو بری لگے یا اچھی، بات ہے اتنی سی کہ جب روزی روٹی کی پڑتی ہے تو کوئی پردہ نہیں، تب روزی کمانی ہوتی ہے، پھر ان مولویوں کے فتوے بھی وفات پا جاتے ہیں۔ پردہ ان کا ہے جن کی عورتوں کو گھر سے نکلنے کی حاجت نہیں ہوتی۔
ReplyDeleteقرآن میں پردے کے ذیل میں جو آیات بیان کی جاتی ہیں ان میں ازواج مطہرات اور مستوراتِ مدینہ کو ایک خاص موقع پر ایک خاص انداز میں نقاب کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ منافقین کی شرارتوں سے بچا جا سکے۔ احادیث میں کئی درجوں کا پردہ موجود ہے، جن میں چہرہ، ہاتھ کھلے رکھنے والی حضرت اسماء رض والی حدیث بھی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں چونکہ 'اجماع' ہو چکا ہے اس لیے صدیوں سے رائج چادر چنی دوپٹہ پردہ نہیں، پردہ وہی ہے جب سر تا پیر سیاہ کپڑے میں پیک کر دیا جائے عورت کو۔
خرابی عورت کے لباس میں نہیں مرد کی نظر میں ہے
ReplyDeletehttp://t.co/rP7PG7wE
ایک چینل پر قاضی حسین احمد سے سوال کیا گیا تھا کہ آپ پاکستان میں مخلوط تعلیم کے خلاف ہیں جبکے آپکی اپنی اولادیں امریکہ سے مخلوط تعلیم حاصل کر کے آئے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کے وہ ہماری مجبوری ہے۔ ان منافقوں کو اپنی اولاد کے لئیے مجبوری یاد آگئی اپنی اولاد کے لئیے اسلام کی غلط تشریحات یاد کیوں نہیں آتیں؟۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی والوں کو لوگ منافق کہتے ہیں اور بلکل درست کہتے ہیں۔
ReplyDeleteیہ ہمشہ تنقید ہی کیوں ہماری تحریروں میں حاوی ہو جاتی ہے اور اس پر زیادتی یہ کہ یہ تنقید تبصروں میں ذاتی تنقید کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
ReplyDeleteبہتر ہو اگر ہم مسئلہ بیان کرنے کے بعد اس کا تجویز کریں اور پھر تبصروں میں حل پر بحث کریں۔
مجھے جو چیز پسند نہیں ہے اس پہ تو تنقید ہی کرونگی۔ میں نے تو حل پیش کیا ہے کہ تمام مذہبی ہی نہیں دیگران کو بھی اگر خواتین کو موضوع بحث بنانے کا شوق ہے تو انکے اصل مسائل حل کریں اور حجاب اور غیر حجاب کو خدا حافظ کہیں۔
Deleteتبصروں میں حل آنا نہیں آتا بلکہ اس موضّع سے متعلق عوامی رائَ ہوتی ہے کہ وہ اس بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ وہ حل بھی دیتے ہیں جس پہ وہ یقین رکھتے ہیں جیسے کچھ کے نزدیک مسائل کا حل یہ ہے کہ شریعت محمدی نافذ کی جائے، کچھ سمجھتے ہیں کہ بے راہ روی ختم کی جائے، کچھ کا خیال یہ ہے کہ مسائل کا حل یہ ہے کہ مذہب اور ریاستی امور کو الگ کر دیا جائے، کچھ سمجھتے ہیں کہ روایات کی پاسداری ضروری ہے کیونکہ وہ روایات کو مذہب سمجھتے ہیں، کچھ کا خیال ہے کہ تعلیم عام کی جائے، کچھ سمجھتے ہیں کہ معلومات عام کی جائیں۔ سب جو سمجھتے ہیں اسی کے مطابق کام کرتے ہیں۔
اب رائے اور حل کے درمیان تعلق نکالنے کا کام تو قاری کا ہے۔
ایک تبصرہ سیارہ پر [ حجاب اور ہم ] کی صورت میں بھی ہے پڑھ کر دیکھیں ۔ اسلام الدین ۔
ReplyDeleteوہاں میرا جواب موجود ہے پرھ کر دیکھیں۔
Deleteجواب اور جواب پر لاجواب پڑھ کر سخت حیرت ہوئی ہے ۔ ایک صاحب جوکہ عامر لیاقت کے مداح ہیں نے تبصرہ کیا تھا کہ آپ کا وظیفہ جیت گیا ہے ۔ اس لاجواب والی حیرت نے مجھے بھی کچھ کچھ شک میں مبتلا کردیا ہے ۔ اسلام الدین
Deleteایسے معمے والے تبصرے تو ابھی تک ہمارے ایک ہی مبصر لکھتے ہیں اور انکا نام ہے جاہل اور سنکی۔ اکثر لوگ انکے معموں میں الجھے رہتے ہیں، جس کا فائدہ اٹھا کر وہ جو دل چاہے کہتے رہتے ہیں۔ لیکن اب آپکے تبصرے کو پڑھ کر لگا کہ انکو بھی کوئ انکی زبان میں جواب دینے والا مل گیا۔ اب سنکی صاحب کو بھی لگ پتہ جائے گا کہ وہ کتنے پانی میں ہیں۔ تشکر۔
Deleteاگر میرا تبصرہ معمہ بن گیا ہے تو اسکی وضاحت یہ ہے کہ آپ کے تبصرے نے بلاگر کو لاجواب کر دیا، وہ اتنے لاجواب ہوئے کہ ان سے کوئی جواب ہی نہ بن پڑا تو ان کو معزرت خواہی اور آئیں بائیں شائیں میں آپ کے تبصرے کا جواب دینا پڑا ۔ اسلام الدین۔
ReplyDeleteارے ہاں یاد آیا ابھی معمے کی آدھی وضاحت باقی ہے وہ یہ کہ یہی بلاگر صاحب آپ کے بلاگ پر آپ سے چومکھی لڑائی لڑتے تھے یہ ہی رویہ آپ کے بارے میں ان کی موجودہ تحریر میں بھی تھا۔ پھر یہ کیا ہوا کہ آپ کے ایک ہی تبصرے پر چاروں خانے چت ہوگئے تو ایسے میں شک تو گُذرتا ہے کہ کہیں ہو نہ ہو یہ کسی وظیفے کا چمتکار تو نہیں (: کہئیے معمہ حل ہُوا یا ابھی اور وضاحت درکار ہے (: اسلام الدین ۔
ReplyDeleteمجھے تو صرف ایک ہی وظیفہ پسند ہے وہ جس کے نتیجے میں محبوب آپکے قدموں میں ہو۔ باقی سب ہیر پھیر ہے۔
Delete:)