Thursday, September 13, 2012

انا للہ

ٹورنٹو میں، میں کچن میں انڈہ فرائ کر رہی تھی۔ فرائ پین  سے دھواں اٹھا ہی تھا کہ ایک الارم بجنے کی آواز سارے گھر میں پھیل گئ۔ میں نے حیران ہو کر سوچا کہ یہ کس قسم کا الارم بجا اور کیوں؟ گھر کے ایک فرد کی آواز سنائ دی کہ کچن کے  باہر لاءونج میں چھت پہ سینسر موجود ہے اسکے پاس بٹن پہ ہاتھ مار دیں۔ الارم بند ہوجائے گا۔ دھویں سے بجا ہے اور بار بار بجے گا۔
کنیڈا میں جنگل اور یوں  لکڑی بہت ہے۔ گھر زیادہ تر لکڑی کے بنے ہوتے ہیں۔ اگر سیمنٹ اور اینٹ سے بنائے جائیں تو بھی اندرونی آرائش میں لکڑی استعمال ہوتی ۰ہے اس طرح شدید سردیوں میں یہ گرم رہتے ہیں۔ لکڑی جلدی آگ پکڑتی ہے اس پہ طرہ یہ کہ بجلی وافر مقدار میں دستیاب ہونے کی وجہ سے چولہے زیادہ تر بجلی کے ہوتے ہیں۔ روائیتی چولہوں سے الگ یہاں موجود جدید چولہوں پہ شیشے کی طرح کے مادے کی ایک تہہ موجود ہوتی ہے۔ یہ چولہے دیکھنے میں اور استعمال میں سادہ ہوتے ہیں  ان سے تپش بھی آسانی سے کنٹرول ہوتی ہے، آگ کے شعلے بھی نہیں ہوتے اس لئے نسبتاً محفوظ ہیں۔  لیکن سب سے بڑا خطرہ اس وقت ہوتا ہے جب انہیں بند کرنا بھول جائیں۔ مسلسل جلتے رہنے کی صورت میں یہ آتشزدگی کا باعث بن سکتے ہیں اس لئے ہر گھر میں آگ کا الارم موجود ہوتا ہے۔
یہی نہیں، کثیر المنزلہ بلڈنگزمیں نہ صرف الارم موجود ہوتے ہیں بلکہ ہر تھوڑے عرصے بعد آگ لگنے کا مصنوعی ڈرامہ رچا کر مکینوں کو اپنے اپارٹمنٹس سے بھاگ کر کم وقت میں نیچے پہنچنے کی مشق بھی کرائ جاتی ہے۔ ابھی دو ہفتے پہلے میں اسکائپ پہ اپنی ایک کینیڈا میں مقیم دوست سے بات کر رہی تھی تو پھولی ہوئ سانسوں کے درمیان انہوں نے بتایا کہ وہ ابھی آگ لگنے کی مشق سے واپس آرہی ہیں۔ انکا اپارٹمنٹ گیارہویں منزل پہ ہے۔ جہاں سے انہیں سیڑھیوں کے راستے بھاگنا پڑا۔

ایسی بلڈنگز میں یہ الارم فائر بریگیڈ کے محکمے سے جڑے ہوتے ہیں۔ خطرے کی پہلی علامت کے چند منٹوں کے اندر یہ جائے واقعہ پہ موجود ہوتے ہیں۔ میرے ایک عزیز نے اپنے اپارٹمنٹ میں پوری پکانے کا واقعہ بتایا، جس کا دھواں اپارٹمنٹ سے نکل کر کوریڈور میں پھیل گیا تھا۔ گھر میں موجود کسی مہمان نے نادانستگی میں اپارٹمنٹ کا دروازہ کھول دیا تھا۔  چند منٹ میں فائر بریگیڈ کی دو گاڑیاں اور ایک ایمبولینس موجود تھی جبکہ پوری بلڈنگ کے لوگ باہر نکال دئیے گئے تھے۔
اصل واقعہ پتہ چلنے کے بعد انہیں ان تینوں گاڑیوں کے آنے جانے کا خرچہ دینا پڑا۔
یہ واقعات بتانے کا مقصد صرف یہی ہے کہ یہ کتنی تکلیف دہ بات ہے کہ کراچی میں ایک فیکٹری میں تین سو سے زائد لوگ، فیکٹری میں آگ سے جل کر مر جائیں۔ تین سو انسان جن سے جڑے تین سو خاندان بھی تھے۔ ابھی بھی مرنے والوں کی تعداد اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ دماغ کو گھما دینے والے اس سانحے کے بعد مجھ جیسے لوگ جو بیرون ملک یہ سب دیکھ کر آتے ہیں انہیں کیا یہ احساس نہیں ہوتا کہ ہم کس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں انسان کو انسان نہیں سمجھا جاتا۔
 ذرا چشم تصور سے اس انسان کی بے بسی دیکھئیے جو کہ ایک ایسی کھڑکی کے سامنے تین منزل اوپر سے کود کر جان بچانے کی فکر میں ہو جسکے آگے لوہے کا ایک جنگلہ اسے زندگی سے دور کرنے کے لئے موجود ہو۔ اور دنیا میں کوئ ایسی طاقت، کوئ ایسا نظام موجود نہ ہو جو اسے کھڑکی سے نظر آنے والی،  سامنے موجود کھلی فضا میں لے جا سکے۔
سچ پوچھیں تو مجھ سے اس پہ انا للہ و انا الیہ راجعون بھی نہیں پڑھا جاتا۔ کیا میں خدا کے پاس اس طرح واپس جانا چاہتی ہوں، ایسی بے کسی ، بے بسی اور تکلیف کی موت۔
ہم اس شہر کے مکین، ایک ہی محلے سے سترہ جنازے اٹھنے کے بعد، اپنی ہر قسم کی مصروفیت میں بھی مسلسل  یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا ہم کسی ایسے واقعے کے دوبارہ پیش آنے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
جواب یہ ہے کہ محفوظ رہ سکتے ہیں اگر ہم یہ جان لیں کہ یہ واقعہ کیوں پیش آیا اور ان وجوہات کے تدارک کے لئے کام کریں۔
یہ واقعہ کیوں پیش آیا؟
اسکی مختلف ممکنہ وجوہات بتائ جارہی ہیں۔
نمبر ایک، بجلی فراہم کرنے والے جنریٹر میں خرابی کی وجہ سے آگ لگی۔  بجلی کی شدید کمی اب ہمارے لئے کوئ راز کی بات نہیں۔  عوام نے اس کا حل جنریٹرز میں ڈھونڈھا ہے۔ اس سے جہاں ایک طرف جنریٹرز در آمد کرنے کے ایک نئے کاروبار کو وسعت ملی اور اس سلسلے میں ایک نئ مارکیٹ وجود میں آئ وہاں حکومت بھی کسی دباءو سے آزاد ہو گئ۔ جب لوگوں نے اپنی پریشانیوں کے حل نکال ہی لئے ہیں تو حکومت کو کیا ضرورت کے وہ بجلی پیدا کرنے کے نئے منصوبے بنا کر بجلی پیدا کرنے والے ان جنریٹرز کی در آمد کرنے والے لوگوں کے پیٹ پہ لات مارے۔ انکے روزگار کو بند کرنے کے امکان پیدا کرے۔ حکومت اس سلسلے میں خاصی عوام دوست واقع ہوئ ہے۔
کراچی میں ایسی درجنوں مارکیٹس ہیں جہاں بجلی کی عدم موجودگی میں دوکانوں میں موجود جنریٹرز کام کرتے ہیں ، یہ عمارتیں ایک دم بند ہیں اور کسی بھی حادثے کی صورت میں یہاں حد سے زیادہ جانی و مالی نقصان ہو سکتا ہے۔ مثلاً گل پلازہ، صدر یا رابی سینٹر، طارق روڈ۔ ایک عام دن میں، بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے وقت جب یہ جنریٹرز چلنا شروع ہوتے ہیں تو ان مارکیٹس کے اندر سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے۔
دوسری اہم وجہ یہ بتائ جاتی ہے کہ تنخواہ بانٹنے کا دن تھا اور سیکوریٹی کی وجہ سے تمام داخلی دروازے بند کر دئے گئے تھے اسکے علاوہ، سیکیوریٹی کی ہی وجہ سے کھڑکیوں پہ لوہے کے جنگلے موجود تھے۔
جانی و مالی سیکیوریٹی اس وقت ہمارے ملک کے سر فہرست مسائل میں سے ایک ہے۔ اسکی وجہ سے غیر ملکی تو دور ملکی سرمایہ کار کاروبار کرتے ہوئے ڈرتا ہے۔ اور اسکی وجہ سیاسی اور معاشی دونوں ہیں۔ سیاسی سطح پہ لوٹ مار کرنے والے مجرمان کو نہ پکڑا جاتا ہے اور نہ انہیں سزا ہوتی ہے۔ یہ مجرمان جو ہر سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ معاشی سطح پہ ایسے ذرائع موجود نہیں جو لوگوں کو روزگار دیں نتیجتاً وہ لوٹ مار کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اسکی وجہ معاشرتی بھی ہے۔ ایک ایسے نظام میں جہاں لوٹ مار ہر سطح پہ موجود ہو اور لوگ اخلاقی اصولوں کی پامالی کرے ذرا نہ گھبراتے ہوں۔ وہاں اندھیر نگری ہی جنم میں آتی ہے۔ یہ سب عوامل لوگوں میں انکے سرمائے کے لئے عدم تحفظ پیدا کرتے ہیں۔ چونکہ نظام انہیں تحفظ دینے میں ناکام رہا ہے اس لئے وہ اپنے تئیں اسی طرح کے حل نکالتے ہیں۔ یہ فیکٹری ہی کیا خود میرے گھر کی ہر کھڑکی پہ لوہے کا جنگلہ موجود ہے۔ 
یہاں مجھے ایک دفعہ پھر کینیڈا یاد آتا ہے جہاں گھروں کی کھڑکیوں پہ کسی بھی قسم کے جنگلے کا تصور نہیں۔ یہی نہیں بلکہ گھر کے باہر چہار دیواری کا تصور کوئ خاص نہیں۔ انہیں فکر نہیں کہ لوگ باہر سے انکا گھر اور گھر والی دیکھ لیں گے۔ اگر کوئ سڑک  دیکھے تو اندازہ تک نہ ہو کہ کون سا گھر کہاں ختم ہو رہا ہے۔ گھر کے اطراف میں جو کھلے صحن ، گیراج یا ڈرائیو وے موجود ہیں اس میں بچوں کے کھلونوں سے لے کر گاڑیاں تک سبھی چیزیں پھیلی رہتی ہیں لیکن کوئ چیزوں کو ہاتھ تک نہیں لگاتا۔ لوگ  صرف وہی چیزیں اٹھا سکتے ہیں جو گھر کے باہر فٹ پاتھ پہ موجود ہوں۔
تیسری اہم وجہ اس قسم کی فیکٹریز کا فائر بریگیڈ سے کوئ ڈائریکٹ تعلق نہ ہونا ہے۔
چوتھی اہم وجہ فیکٹریز میں آگ بجھانے کے آلات کا نہ ہونا اور مزدروں کو اس بات کی تربیت نہ ہونا ہے کہ ان آلات کو بوقت ضرورت کیسے استعمال کیا جائے۔ اور نہ ہی انکی اس بات کی تربیت ہونا کہ ایمرجینسی کی صورت میں وہ کس طرح کم سے کم وقت میں فیکٹری کو خالی کر سکتے ہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ فیکٹری مالکان مزدوروں کے تحفظ کی فکر نہیں کرتے اور اس پہ اپنا سرمایہ خرچ نہیں کرنا چاہتے۔ اخباری اطلاع یہ بھی ہے کہ مشرف دور کے بعد سے سندھ میں ملز کی اس طرح کی انسپکشن نہیں ہوئیں جن میں مل کے مزدوروں کو دئے گئے ماحول پہ رپورٹ بنتی اور اسکے لئے وزیر اعلی قائم علی شاہ نے انکار کر دیا تھا۔
 اس نکتے سے اس واقعے کو دیکھئیے۔ اس فیکٹری سے زیادہ تر مصنوعات باہر کے ممالک جاتی تھیں۔ یہ خاصی بڑی فیکٹری تھی۔ آتشزدگی کے نتیجے میں یہ فیکٹری مکمل طور پہ تباہ ہو چکی ہے۔ اس میں موجود تمام مال ختم ہو چکا ہے۔ خود مل مالکان پہ چونکہ لاپرواہی کا مقدمہ دائر ہے اس لئے وہ اپنی جان بچانے کو فرار ہیں۔  اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر محنت کش کو یا مزدور کو تحفظ نہیں دیں گے تو سرمایہ اور سرمایہ کار دونوں ہی داءو پہ لگے رہیں گے۔ پھر مل مالکان، وقتی فائدے کے لئے دور کی کیوں نہیں سوچتے؟ اگر وہ یہ سوچتے کہ وزیر اعلی جائے بھاڑ میں ہم اپنی فیکٹری میں یہ انتظام رکھیں گے کہ مزدوروں کو پتہ ہو کہ آگ لگنے کی صورت میں انہیں آگ کیسے بجھانا ہے۔ ایمرجینسی میں نکلنے کے راستے کون سے ہونے چاہئیں۔ فیکٹری میں مختلف سامان کی اسٹوریج کیسی ہونی چاہئیے کہ کسی حادثے کے پیش آنے کی صورت میں کم سے کم نقصان ہو۔ تو یہ فیکٹری آج بھی چل رہی ہوتی۔
کیا اسکی وجہ یہ ہے کہ عام طور پہ لوگ کسی حادثے کے لئے نہ ذہنی طور پہ تیار نہیں ہوتے اور نہ ہی اسکے لئے کوئ متوقع لائحہ ء عمل سوچ کر رکھتے ہیں بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ بس ہر چیز اللہ کے کرم سے درست رہے گی۔ اس حادثے کی ایک اور وجہ کاروباری طرز فکر کی غیر موجودگی بھی نکلتی ہے۔ وہ طرز فکر جو یہ سمجھ دے کہ محض مال اور سیٹھ کا رشتہ ہی اہم نہیں بلکہ اس میں وہ لوگ بھی اہمیت رکھتے ہیں جو مال اور سیٹھ کے درمیان تعلق قائم رکھتے ہیں۔ انہیں تحفظ دئیے بغیر کیسے کوئ اپنی جان اور اپنے مال کا تحفظ کر سکتا ہے۔
اس طرح،  اس واقعے کے پیش آنے کی کوئ ایک وجہ نہیں ہے۔ اس میں پورا نظام شامل ہے کیونکہ پورا نظام منفی طرز فکر پہ چل رہا ہے۔ اس لئے جب کوئ حادثہ ہوتا ہے تو اتنا ہی اندوہناک ہوتا ہے کہ ذہن اسے تسلیم کرنے میں بھی وقت لیتا ہے۔ نہیں معلوم کہ فکر کی اس نہج کو تبدیل ہونے کے لئے کتنی جانوں کی قربانی دینی ہوگی۔ بے شک ہمیں پلٹ کر اللہ ہی کی طرف جانا ہے۔ لیکن قتل کا سامان کرنے والوں کو جہنم رسید کرنے کے بعد یا خود جہنم کا ایندھن بننے کے بعد۔

7 comments:

  1. جب ہم کہتے ہیں تو کوئی نہیں مانتا ہے، مگر، اللہ کا شکر ہے کہ آپ نے بھی اس بات کا اقرار کرلیا کہ "پورا نظام منفی طرز فکر پہ چل رہا ہے۔"

    ReplyDelete
    Replies
    1. ہم بھی ہمیشہ یہی کہتے آئے ہیں اور ہمیشہ آپکے اور ہمارے درمیان نظریاتی فرق حائل رہا ہے۔ آپ اسے مذہب سے جوڑٹے ہیں اور ہم انسان سے۔

      Delete
    2. ھا ھا ھا ، محترمہ ہمارے نظریات کا یہی تو وہ بنیادی فرق ہے، کہ میری نظر میں اللہ کی ذات ہی ہر فکر و عمل کا منبع و محور ہے جبکہ آپ ہر شئے کو انسان کی ذات کے حوالے سے سمجھتی ہیں، اور یہی وہ اختلاف ہے کہ جس کے سبب ہم ایک ہی بات کو اپنے اپنے نُقطعہء نظر سے اور الگ الگ زاویہ سے کرتے ہیں۔

      تصور خدا کے حوالے سے جاوید احمد غامدی کا یہ جملہ ہر بحث کا خلاصی ہے کہ "یا تو اِس کائنات کا خدا مان لُو نہیں تو اِس کائنات کو خدا مان لُو، آپ کے پاس کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے۔" اس بات پر غور کرنے کے بعد آپ خود سوچ لیجیئے کہ عقلمندی کس بات میں ہے؟

      کائنات کو خدا ماننے کے دلائل اردو میں آپ کو "محمد علی مکی" کے بلاگ پر سے مل جایئں گے، یہ روابط ملاحظہ فرمایئں، ساتھ ساتھ اس بات کا خیال بھی رکھیں کہ مکی کے بلاگ پر جس خدا کی بات ہو رہیر ہے وہ عیسائیت کا خدا ہے ناکہ اسلام کا۔ اگرچہ کہ انہوں نے تو بہت زور لگایا ہے کہ اسلام کے خدا کو عیسائیت کے خدا کی طرح باور کراکر پھر اسکی بھی ہجو کرسکیں، مگر پھر بھی اہل نظر بھانپ لیتے ہیں کہ وہ بُری طرح سے ناکام رہے ہیں:
      (01. پہلی وجہ: http://makki.urducoder.com/?p=2540
      02. ہستی: http://makki.urducoder.com/?p=2457)
      مگر کائنات کا خدا ماننے کے لیئے آپ کو خود محنت کرنی ہوگی، کیونکہ اس ضمن میں مذاہب اور انکے خداؤں کا کافی لمبا سلسلہ اور ان میں سے آپ کو سچا دین اور اسکا خدا خود ہی تلاشنا ہے۔ اور اگر آپ اس سلسلے میں اپنی عقل کا غیرجانبداری سے استعمال کریں گیئں تو بہت جلد حقانیت کو پالیں گیئں کیونکہ حقیقت کبھی پوشیدہ تھی ہی نہیں، یہ تو ہماری آنکھوں اور عقلوں پر پردہ پڑا ہوا ہوتا ہے جسکی عجہ سے ہم کو لگتا ہے کہ حقیقت کہیں کھوگئی ہے!

      یقین جانیئے کہ یہ بہت ہی کارآمد اور آزمودہ نسخہ ہے، میں نے بھی کچھ ایسی ہی تحقیق کی تھی اور نتیجتاً میرے نزدیک "اللہ" کی ذات ہی اول و آخر ہے، اسی نے انسان سمیت یہ پوری کائنات اور اس میں موجود ساری چیزیں عدم سے وجود میں لائی ہیں، اور یہ بھی اسی کا ظرف و کمال ہے کہ جہاں بقیہ پوری کائنات کو ایک مخصوص اور لگے بندھے نظام کا پابند کر رکھا ہے، وہیں انسان کو اپنی (خدائی) رضا کے خلاف بھی من مانی کرنے کا اختیار دے رکھا ہے۔

      آپ دیکھئے کہ جب ہم کسی انسان کی بنائی ہوئی کوئی مشین استعمال ہیں تو پھر اس مشین اور اپنی بہتری کے لیئے اس کے موجد کی دی ہوئی ہدایات کا بھرپور خیال رکھتے ہیں۔ اور اسکے برعکس عمل کرنے کی صورت میں کوئی بھی کسی خرابی یا نقصان کے لیئے موجد کو مورد الزام نہیں ٹہراتا ہے۔ اِس مثال کے تحت انصاف کی بات تو یہ ہے کہ اِسی طرح انسان بھی اللہ کی بڑائی کا اقرار کرکے اُس کی دنیا میں اُسی کے بتائے ہوئے نظام کو نافذ کردے اور اللہ کے دربار میں ُسرخرؤ ہو، اور اگر انسان سمجھے تو اس عمل میں اِس دنیا اور خود انسان کی ہی بہتری ہے۔

      اگر سمجھیئے تو یہی انسان کا مقصد حیات ہے اور یہی اسکا اصل امتحان ہے کہ اللہ کی نافرمانی کا اختیار رکھنے کے باوجود بھی کون ہے جو اس مختصر و فانی زندگی میں اپنی خواہشات کے خلاف اور اپنی مکمل آزادانہ مرضی سے اللہ کی فرمابرداری اختیار کیئے رکھتا ہے؟

      Delete
    3. آپ نے تو مودودی صاحب کی تحاریر کی اقتباسات دینا شروع کر دیا۔
      میں اس چزی پہ یقین نہیں رکھتی کہ دنیا میں صرف دو رنگ ہیں کالا اور سفید۔
      اگر آپکی اس مثال کو درست مان لیا جائے تو جارج بش بھی اپنے مءوقف میں بالکل درست تھا کہ آپ یا تو اسکے دوست ہیں یا دشمن۔
      جب تک آپ انسان کو انسان تسلیم نہ کریں ، کدا تک پہنچ ناممکن ہے۔ اس لئے قرآن کہتا ہے کہ جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے گویا اللہ کو پہچان لیا۔
      آپ چاہتے ہیں کہ انسان پہچان کا سفر خدا سے شروع کرے جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ انسان کو خدا کا سفر خودی سے شروع کرنا پڑے گا۔
      اور آپ تو جانتے ہیں ہیں کہ اگر اقبال کو حکیم الامت کہا جا سکتا ہے تو صرف خودی کا نام لینے پہ۔
      حالانکہ غالب تو پہلے کہہ چکے تھے کہ الٹے پھر آئیں گے در کعبہ اگر وا نہ ہوا۔ لیکن پھر بھی حکیم اقبال ہی کہلائے۔

      Delete
    4. یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے کہ آپ میرے تبصرہ میں "جاوید احمد غامدی" کی بات کے حوالے کو نظر کررہی ہیں اور مودودی کی تحاریر کے اقتباسات کا ُرونا ُرو رہی ہیں، جو کہ میں نے پچھلے والے تبصرہ میں کہیں دی ہیں نہیں تھی۔

      ویسے یہ بات علم میں لادُوں کہ جمیعت یا جماعت اسلامی سے کوئی تعلق نہیں ہونے کے باوجود بھی مودودی صاحب کی بہت سی تحاریر پڑھی ہیں، مگر ابھی بھی بہت سی ایسی ہیں جن کا صرف نام ہی ُسنا اور پڑھنے کو نہیں ملیں، خیر یہ بات میرے لیئے خوش کا باعث ہے کہ لوگوں کو میری تحریر میں مودودی صاحب کی تحاریر کی اقتباسات کی جھلک دکھائی دے رہی ہے۔

      آپ کی یہ بات درست ہے کہ دُنیا میں صرف دو ہی رنگ نہیں ہیں، مگر میں نے دُنیا کی نہیں بلکہ "تصور خدا" کی بات کی تھی، اور آپ جب بھی "تصور خدا" کی بات کریں گی تو آپ کو صرف دو ہی رنگ ملیں گے، ایک انکا رنگ جو کہ "اللہ" پر کامل ایمان رکھتے ہوں اور دوسرا رنگ انکا جو کہ "اللہ" پر کامل ایمان نہیں رکھتے ہیں۔ اب جو "اللہ" پر کامل ایمان نہیں رکھتے ہیں چاہے کچھ بھی نام رکھ لیں، اور جس بھی مذہب کے پیروکار بن جایئں، بنیادی طور پر ایک ہی گروہ میں گنے جایئں گے۔ اسکی مثال بلکل ایسی ہے جیسی کہ مسلمانوں کے فرقوں کی، ہم چاہیں اپنے آپ کو سنی، شیعہ، وہابی، سلفی، اہلحدیث، مرزائی، قادیانی، زکری، پرویزی، علوی، اسماعیلی اور نجانے کن کن گروہوں میں بانٹتے رہیں، غیر مسلمین کے لیئے ہماری صرف ایک ہی پہچان ہے کہ ہم انکے مذہب کے منکر اور اسلام کے پیروکار ہیں۔

      واضح رہے کہ میرے نزدیک جو کوئی بھی "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" کا قولی یا عملی لحاظ سے منکر ہے، وہ مسلمان نہیں ہے، اس وضاحت کی ضرورت اس لیئے پڑی کہ کہیں لوگ اوپر والے پیراگراف سے غلط معنٰی نا اخذ کرنا شروع کردیں۔

      اور ہاں یہ بات بلکل درست ہے کہ جارج بش اپنے موقف میں بالکل درست تھا کہ آپ یا تو اسکے دوست ہیں یا دشمن۔ آپ کے تبصرے کی بقیہ باتوں سے متفق ہوں اور میں نے اپنے پہلے تبصرے میں ان باتوں کے خلاف کچھ بھی نہیں لکھا تھا۔ اپنی نفس کی پہچان اور خودی کا یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ آپ خود ہی اپنے "خدا" بن جایئں یا پھر نعوذ باللہ "خدا" آپ کا نوکر لگا ہوا ہے کہ "الٹے پھر آئیں گے در کعبہ اگر وا نہ ہوا"۔ بلکہ نفس کی پہچان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اپنی اوقات کو پہچانا جائے اور اپنے وجود کی حقیقت کو جانا جائے تاکہ پھر اس وجود کے خالق و مالک حقیقی کا شکرگزار ہوا جائے۔

      ویسے تو ہم موضوع سے کافی ہٹ چکے ہیں، مگر چونکہ آپ نے "اقبال" اور انکے فلسفہ "خودی" کا حوالہ دیا ہے اس لیئے اگر آپ کی طبعیت پر ناگوار نا گذرے تو ذرا علامہ اقبال کے اس شعر کی تشریح کردیں:
      خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
      خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
      مکمل نظم/غزل جو بھی ہے، ادھر سے ملاحظہ فرمالیں:
      http://files.qern.com/iqbal/bal-e-jibreel/B0003-a33.html

      Delete
  2. بلاگ پڑھا تو پہلا تبصرہ یہی ذہن میں آیا .. کہ چلیں کوی تو مانتا ہے کے نظام غلط ہے ...

    ا لیکن عبدالرؤف صاحب لکھنے میں بازی مار گہے...

    رہی بات بشری یا خداۓ نظام کی ... اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اس پر عمل ہو گا یا نہیں ...

    جہاں تک آپکی بات ""وہ طرز فکر جو یہ سمجھ دے کہ محض مال اور سیٹھ کا رشتہ ہی اہم نہیں بلکہ اس میں وہ لوگ بھی اہمیت رکھتے ہیں جو مال اور سیٹھ کے درمیان تعلق قائم رکھتے ہیں۔ انہیں تحفظ دئیے بغیر کیسے کوئ اپنی جان اور اپنے مال کا تحفظ کر سکتا ہے۔""

    کا تعلق ہے ...یہ کام مہذب معاشروں میں حکومت کا رہتا ہے ... جو یا تو خود کرتی ہے یا ایسے ادارے بناتی ہے جو عام آدمی کے مفاد کا خیال رکھتے ہیں ...

    ایسے مواقعے پر میرے ذہن میں صرف یہ بات گھومتی ہے کبھی تو ذمہ داروں یا مجرم کو سزا ملے ...

    عجب ریت ہے میرے وطن کی یہاں بڑے سے بڑا یا چھوٹا جرم کرنے والے کے ذہن میں پہلی بات یہی ہوتی ہے....
    کچھ نہیں ہوتا ..پکڑے بھی گہے تو چھوٹ جایں گے

    آخری بات ....
    موجودہ یا صحیح کہیں تو مستعفی وزیر رؤف صدیقی صاحب نے ہی اس شعر کو بدلا تھا
    نا آے پولس کے تشدد سے لیکن
    موت سے کس کو رستگاری ہے

    ReplyDelete
  3. بہت خوب!
    یہاں ایمرجنسی سروس سے دو بار میرا واسطہ پڑ چکا ہے۔ دونوں دفعہ کا تجربہ بہترین رہا۔
    خدا کی رضا اپنی جگہ لیکن انسان کو تدبیر کا بھی اختیار اس نے دے رکھا ہے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ