شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی نے ایک نہایت غیر انقلابی حرکت کی یعنی کہ مر گئے۔ یہ جملہ پڑھ کر ایک زیر لب مسکراہٹ ابھری اور نظر آگے بڑھ گئ۔ خواجہ احمد عباس نے یہ تحریر جوش صاحب کے متلعق لکھی اور مزے کی تحریر ہے۔ لکھتے ہیں کہ انکی شاعری اور انکی ذات میں اتنا جوش، جوانی اور تازگی تھی کہ لگتا تھا کہ وہ اپنا برا چاہنے والوں کو مار کر مریں گے۔
شاید اس لئے کہ جوش صاحب نے ایک دفعہ دعا مانگی کی کہ
شاید اس لئے کہ جوش صاحب نے ایک دفعہ دعا مانگی کی کہ
معشوق کہے کہ آپ ہمارے ہیں بزرگ
وہ دن ہمیں یارب نہ دکھانا ہر گز
بڑے لوگوں کی باتیں بڑی۔ انکا تذکرہ بھی کریں تو بات میں خود بخود گلاب کھلتے ہیں۔ اپنی شعر گوئ کے بارے میں جوش کا خیال تھا کہ شاعری نے خود میرا پیچھا کیا اور نو برس کی عمر میں پکڑ لیا۔ عاشق تھے لیکن انسان دوست زیادہ تھے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
کہتا ہے کون پھول سے رغبت نہ چاہئیے
کانٹے سے بھی مگر تجھے نفرت نہ چاہئیے
وہ دن ہمیں یارب نہ دکھانا ہر گز
بڑے لوگوں کی باتیں بڑی۔ انکا تذکرہ بھی کریں تو بات میں خود بخود گلاب کھلتے ہیں۔ اپنی شعر گوئ کے بارے میں جوش کا خیال تھا کہ شاعری نے خود میرا پیچھا کیا اور نو برس کی عمر میں پکڑ لیا۔ عاشق تھے لیکن انسان دوست زیادہ تھے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
کہتا ہے کون پھول سے رغبت نہ چاہئیے
کانٹے سے بھی مگر تجھے نفرت نہ چاہئیے
نثر میں اس خیال کو اس طرح ادا کرتے ہیں کہ ' ایک مدت سے میرے سینے میں انسان کے باپ یعنی حضرت آدم کا دل دھڑک رہا ہے'۔ ویسے سنتے ہیں کہ جناب مولانا مودودی انکے ہم نشیں رہے ہیں۔
:)
یہ ساری تمہید، جوش صاحب کی ایک نظم پڑھانے کے لئے باندھی۔ میں نے یہ نظم اس وقت پڑھی جب آنرز فرسٹ ایئر کی طالب علم تھی۔ شعبہ ء کیمیاء سے ایک سالانہ رسالہ نکلا جس میں یہ شامل تھی۔ اسکے بعد وہ رسالہ شاید دوبارہ نہیں نکلا۔
نظم کا نام ہے 'پروگرام'۔ آئیے پڑھتے ہیں۔
:)
یہ ساری تمہید، جوش صاحب کی ایک نظم پڑھانے کے لئے باندھی۔ میں نے یہ نظم اس وقت پڑھی جب آنرز فرسٹ ایئر کی طالب علم تھی۔ شعبہ ء کیمیاء سے ایک سالانہ رسالہ نکلا جس میں یہ شامل تھی۔ اسکے بعد وہ رسالہ شاید دوبارہ نہیں نکلا۔
نظم کا نام ہے 'پروگرام'۔ آئیے پڑھتے ہیں۔
پروگرام
اے شخص ، اگر جوش کو تو ڈھونڈھنا چاہے
وہ پچھلے پہر حلقہ ء عرفاں میں ملے گا
اور صبح کو وہ ناظر نظارہ قدرت
اور صبح کو وہ ناظر نظارہ قدرت
طرف چمن و صحن بیاباں میں ملے گا
اور دن کو وہ سرگشتہ ء اسرار و معانی
شہرِ ہنر و کوئے ادیباں میں ملے گا
اور دن کو وہ سرگشتہ ء اسرار و معانی
شہرِ ہنر و کوئے ادیباں میں ملے گا
اور شام کو وہ مرد خدا رند خرابات
رحمت کدہ ء بادہ فروشاں میں ملے گا
رحمت کدہ ء بادہ فروشاں میں ملے گا
اور رات کو وہ خلوتی ء کاکل و رخسار
بزم طرب و کوچہ ء خوباں میں ملے گا
بزم طرب و کوچہ ء خوباں میں ملے گا
اور ہوگا کوئ جبر تووہ بندہ ء مجبور
مردے کی طرح کلبہ ء احزاں میں ملے گا
مردے کی طرح کلبہ ء احزاں میں ملے گا
واہ واہ، بہت خوب۔
بہت عمدہ۔۔۔۔۔
ReplyDeleteخواجہ احمد عباس کا جملہ بہت خوب ہے۔ مرنا ایک نہایت غیر انقلابی حرکت ہے ، شہید ہونے میں البتہ کافی انقلابیت اور رومانویت ہوتی ہے۔
ویسے درست شعر اس طرح سے ہے کہ:
مرضی ہو تو سولی پہ چڑھانا یا رب
سو بار جہنم میں جلانا یا رب
معشوق کہیں آپ ہمارے ہیں بزرگ
نا چیز کو یہ دن نہ دکھانا یا رب
اس شعر کا مطلب جلد یا بدیر ہر اس شخص کو سمجھ میں آجاتا ہے جو تازہ تازہ جوانی کی حدود پار کرکے بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ رہا ہو۔
شہید ہونے میں رومانویت ضرور ہوتی ہے۔ انقلابیت کی تصدیق کرنا مشکل ہے جیسے بے نظیر بھٹو کے شہید ہونے میں کیا انقلابیت تھی۔ پھر شہید کا لفظ استعمال کر کے آپ اس رومانویت کو محدود کر دیتے ہیں۔ درحقیقت جبر کے لڑتے ہوئے جان دینا ایک انقلابی قدم ہے اور یہ جان کوئ بھی دے سکتا ہے کوئ بھی جس میں انقلابی روح موجود ہو۔ دنیا ایسی داستانوں کی گواہ ہے۔
Deleteشعر کی درستگی کا شکریہ، میں نے کتاب سے اتارا تھا لیکن آپکا بند بہتر لگ رہا ہے اور پکار کر کہہ رہا ہے میں درست ہون۔
Delete