جہاں تین سو لوگ ایک دن میں جل کر مرجائیں اور کوئ سنوائ نہ ہو کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ مزدوروں کے حق میں کوئ تحریک نہ چلے۔ محنت کشوں کے لئے موجود ہمارے پالیسی سازوں کے اونچے اونچے محلوں پہ پتھر مارنے کے لئے ایک ہاتھ حرکت میں نہ آئے۔ جہاں ایک فلم بننے کے ایک سال بعد اااس وقت اس پہ احتجاج شروع ہو جس وقت اسکا عربی ورژن ریلیز ہو۔ یہی نہیں بلکہ لوگ سوشل میڈیا پہ یہ پیغام شیئر کر رہے ہوں کہ توہین پیغمبر کی سزا ، بس سر سے تن جدا، بس سر سے تن جدا، بس سر سے تن جدا۔ جہاں اس بات پہ خوشی منائ جارہی ہو کہ کراچی میں سفارت خانے پہ حملے میں ضائع ہونے والی جان، دراصل بازی لے جانے والے شخص کی ہے۔
ایسے زمانے میں چھٹی کا دن اور اس سے منسلکہ تفریح اسکے علاوہ کیا رہ جاتی ہے کہ آپ گھر میں سوئیں اور سوتے ہی رہیں۔ مر جائیں مرنے سے پہلے۔
لیکن اس اتوار میں نے یہ نہیں کیا۔ میں کسی بھی اتوار کو یہ کرنا پسند نہیں کرتی۔ جب سے مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ زندگی انسان کی وہ سب سے قیمتی شے ہے جو اسے دوبارہ نہیں ملے گی۔ صرف ایک بارملے گی۔ اس احساس کے بعد سونا کافی مشکل لگتا ہے۔ ذرا سوچیں اس ایک زندگی میں وہ کیا دلچسپ کام ہیں جو ہم کر سکتے ہیں۔ جن سے کسی کو کوئ نقصان نہیں۔ جن سے کسی کی توہین نہیں ہوتی، جن سے دل تشکر کے احساس سے بھر جاتا ہے کہ خدا نے ہمیں زندگی جیسی نعمت سے نوازا۔
میں کتابوں کی ایک دوکان پہ چلی گئ۔ یہاں نئ کتابیں کم اور پرانی زیادہ ہوتی ہیں۔ کتنی پرانی؟ اسکا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ایک صاحب نے بتایا کہ وہ علامہ راشد الخیری کے ایک رشتے دار کے ہمراہ اس دوکان پہ موجود تھے۔ وہاں انیس سو تیس میں چھپنے والی انکی سوانح عمری مل گئ۔ جس میں ان صاحب کے دادا کے بچپن کی تصویریں بھی شامل تھیں۔
ایسے زمانے میں چھٹی کا دن اور اس سے منسلکہ تفریح اسکے علاوہ کیا رہ جاتی ہے کہ آپ گھر میں سوئیں اور سوتے ہی رہیں۔ مر جائیں مرنے سے پہلے۔
لیکن اس اتوار میں نے یہ نہیں کیا۔ میں کسی بھی اتوار کو یہ کرنا پسند نہیں کرتی۔ جب سے مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ زندگی انسان کی وہ سب سے قیمتی شے ہے جو اسے دوبارہ نہیں ملے گی۔ صرف ایک بارملے گی۔ اس احساس کے بعد سونا کافی مشکل لگتا ہے۔ ذرا سوچیں اس ایک زندگی میں وہ کیا دلچسپ کام ہیں جو ہم کر سکتے ہیں۔ جن سے کسی کو کوئ نقصان نہیں۔ جن سے کسی کی توہین نہیں ہوتی، جن سے دل تشکر کے احساس سے بھر جاتا ہے کہ خدا نے ہمیں زندگی جیسی نعمت سے نوازا۔
میں کتابوں کی ایک دوکان پہ چلی گئ۔ یہاں نئ کتابیں کم اور پرانی زیادہ ہوتی ہیں۔ کتنی پرانی؟ اسکا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ایک صاحب نے بتایا کہ وہ علامہ راشد الخیری کے ایک رشتے دار کے ہمراہ اس دوکان پہ موجود تھے۔ وہاں انیس سو تیس میں چھپنے والی انکی سوانح عمری مل گئ۔ جس میں ان صاحب کے دادا کے بچپن کی تصویریں بھی شامل تھیں۔
کتابیں چھانتے ہوئے، ایک کتاب نظر آئ جس پہ مصنف کا نام لکھا تھا، مرزا غلام احمد۔ میں نے سوچا یہ تو کچھ سنا سنا سا نام لگتا ہے۔ ہاتھ میں اٹھا کر دیکھا تو یاد آیا کہ فیس بک پہ روزانہ ہی ان کے دین سے ہشیار کروایا جاتا ہے۔ اور میں انہی کا نام بھول گئ۔ مجھے یقین ہے کہ میں آخری عمر میں الزائمر کا شکار ہونگی۔ اسے اٹھا کر رکھ دیا۔ اپنے مذہب کی تفصیلات یاد نہیں رہتیں، انہیں پڑھ کر کیا کرونگی جبکہ دنیا میں ہر روز کے حساب سے دلچسپ باتیں علم میں آتی ہیں۔
اسی ڈھیر میں میں ایک اور کتاب مرزا بشیر احمد کی تھی۔ یہ بھی ایک دم خستہ حال ہو رہی تھی۔ جسے ان کتابوں کے حوالے دینا ہوں وہ خریدے۔ یہ سوچ کر ہنسی آئ کہ قادیانیوں کے خلاف تحریک چلانے والوں کو معلوم نہیں انکا لٹریچر، لوگوں کی لا علمی کی وجہ سے ابھی تک دوکانوں پہ موجود ہے۔ مجھے یقین ہے کہ دوکاندار نے بھی کبھی ان کتابوں میں دلچسپی نہ لی ہوگی۔ شاید اسے معلوم ہی نہ ہوگا کہ وہ قادیانیوں کا لٹریچر رکھتا ہے۔ اور اگر معلوم ہوا بھی تو اس نے سوچا ہوگا کہ جیسے اور لوگ اپنا دینی لٹریچر خریدتے اور پڑھتے ہیں ایسے ہی کوئ قادیانی بھی خرید لے گا۔ اسے کیا، یہ اس کا کاروبار ہے۔ جیسے فیکٹری میں کام کرنے والوں کو اس علم سے کیا غرض تھی کہ اگر آگ لگی تو وہ وہاں سے زندہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہونگے یا نہیں۔ انہیں کام چاہئیے تھا اور اسکے بدلے میں پیسے۔
وہاں ایک اور کتاب موجود تھی جس میں بتایا گیا تھا کی آغا خان اسمعیلیوں کے خدا کیسے؟ میں نے ایک نظر اس پہ ڈالی۔ آغا خانی ہمارے یہاں کی امیر ترین اقلیت ہیں۔ کوئ انکو کافر قرار دے کر مار سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا؟ اس میں بھی آغا خانیوں کے دین پہ لعنت بھیجی گئ تھی۔ لیکن شاید ننانوے فی صد آغا خانیوں کو اردو لٹریچر پڑھنے سے کوئ شغف نہیں۔
نئ کتابوں پہ ایک نظر ڈالتے ہوئے میری نظر ایک کتاب پہ رکی۔ یہ خوشگوار اسلامی ازدواجی تعلقات پہ تھی۔ مجھے خیال آیا کہ ایک دوست کی شادی ہونے والی ہے انہیں تحفے میں دی جا سکتی ہے۔ لیکن پہلے اسے کھول کر تو دیکھوں کہ اس میں لکھا کیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم ایسی کتابوں میں اسلام کے حوالے سے کیا لکھا ہوتا ہے۔ اسلام کس طرح ازدواجی تعلقات کو خوشگوار بنانے میں مدد کر سکتا ہے۔
میں نے کتاب درمیان سے کھول لی۔ کس قسم کی عورت سے شادی کرنی چاہئیے؟ یہ صفحہ میرے سامنے تھا۔ احادیث اور قرآنی آیات کے حوالے موجود۔ مصنف نے جو کوئ مولانا تھے حدیث سے ثابت کیا کہ ویسے تو رسول اللہ نے دیندار عورت کو ترجیح دینے کو کہا ہے لیکن عورت کا خوب صورت ہونا ضروری ہے اگر عورت خوب صورت نہ ہو تو شوہر کا دل دوسری عورتوں میں لگا رہے گا۔ جسے سفید رنگت اور خوب صورت آنکھوں والی عورت دنیا میں مل گئ جو اپنے شوہر کا خیال رکھتی ہو اسے گویا دنیا ہی میں حور مل گئ۔
ان کے نزدیک عورت کا کنوارہ ہونا ضروری ہے۔ بیوہ یا طلاق یافتہ عورت کا دل اپنے پہلے شوہر کے خیال میں ڈوبا رہتا ہے اور وہ دوسرے شوہر کے حقوق خوشدلی سے پورے نہیں کر سکتی۔ بکواسو، میں نے سوچا۔ جس پیغمبر نے اپنے سے پندرہ سال بڑی ایک بیوہ عورت کے ساتھ اپنی نوجوانی کے پچیس سال گذارے ہوں اور جسکی صرف ایک بیوی کنواری اور باقی سب پہلے سے شادی شدہ ہوں اسکے نام پہ یہ بات کرنا جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے۔ آگے صفحے پلٹتی ہوں۔
بانجھ عورت سے شادی نہیں کرنی چاہئیے۔ رسول اللہ سے منسوب ایک حدیث کے حوالے سے بتایا گیا کہ اگر کسی عورت کے متعلق پہلے سے پتہ ہو کہ وہ بانجھ ہے تو اس سے شادی نہ کرو۔ میرا دل ٹوٹ سا گیا۔ میں نے وہ کتاب بند کر کے وہیں واپس رکھ دی۔
میں ایک عورت ہونے کے ناطے سوچتی ہوں۔ کیا میں صرف بچے پیدا کرنے کا ایک آلہ ہوں۔ کیا میرے جذبات نہیں، خواہشات نہیں۔ کیا بانجھ عورت کو شادی کا حق نہیں جبکہ وہ جسمانی طور پہ ایک دم درست ہو؟
کیا یہ منسلکہ حدیث صحیح ہو سکتی ہے؟ آخر ہمیں کیوں تامل ہے کہ حدیثوں کے ذخیرے میں بہت غلطیاں ہیں جن سے لوگ اس ہستی کا مذاق اڑاتے ہیں جس کے لئے آپ کو کسی کا سر تن سے جدا کرنے میں کوئ عار نہیں۔
اسی ڈھیر میں میں ایک اور کتاب مرزا بشیر احمد کی تھی۔ یہ بھی ایک دم خستہ حال ہو رہی تھی۔ جسے ان کتابوں کے حوالے دینا ہوں وہ خریدے۔ یہ سوچ کر ہنسی آئ کہ قادیانیوں کے خلاف تحریک چلانے والوں کو معلوم نہیں انکا لٹریچر، لوگوں کی لا علمی کی وجہ سے ابھی تک دوکانوں پہ موجود ہے۔ مجھے یقین ہے کہ دوکاندار نے بھی کبھی ان کتابوں میں دلچسپی نہ لی ہوگی۔ شاید اسے معلوم ہی نہ ہوگا کہ وہ قادیانیوں کا لٹریچر رکھتا ہے۔ اور اگر معلوم ہوا بھی تو اس نے سوچا ہوگا کہ جیسے اور لوگ اپنا دینی لٹریچر خریدتے اور پڑھتے ہیں ایسے ہی کوئ قادیانی بھی خرید لے گا۔ اسے کیا، یہ اس کا کاروبار ہے۔ جیسے فیکٹری میں کام کرنے والوں کو اس علم سے کیا غرض تھی کہ اگر آگ لگی تو وہ وہاں سے زندہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہونگے یا نہیں۔ انہیں کام چاہئیے تھا اور اسکے بدلے میں پیسے۔
وہاں ایک اور کتاب موجود تھی جس میں بتایا گیا تھا کی آغا خان اسمعیلیوں کے خدا کیسے؟ میں نے ایک نظر اس پہ ڈالی۔ آغا خانی ہمارے یہاں کی امیر ترین اقلیت ہیں۔ کوئ انکو کافر قرار دے کر مار سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا؟ اس میں بھی آغا خانیوں کے دین پہ لعنت بھیجی گئ تھی۔ لیکن شاید ننانوے فی صد آغا خانیوں کو اردو لٹریچر پڑھنے سے کوئ شغف نہیں۔
نئ کتابوں پہ ایک نظر ڈالتے ہوئے میری نظر ایک کتاب پہ رکی۔ یہ خوشگوار اسلامی ازدواجی تعلقات پہ تھی۔ مجھے خیال آیا کہ ایک دوست کی شادی ہونے والی ہے انہیں تحفے میں دی جا سکتی ہے۔ لیکن پہلے اسے کھول کر تو دیکھوں کہ اس میں لکھا کیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم ایسی کتابوں میں اسلام کے حوالے سے کیا لکھا ہوتا ہے۔ اسلام کس طرح ازدواجی تعلقات کو خوشگوار بنانے میں مدد کر سکتا ہے۔
میں نے کتاب درمیان سے کھول لی۔ کس قسم کی عورت سے شادی کرنی چاہئیے؟ یہ صفحہ میرے سامنے تھا۔ احادیث اور قرآنی آیات کے حوالے موجود۔ مصنف نے جو کوئ مولانا تھے حدیث سے ثابت کیا کہ ویسے تو رسول اللہ نے دیندار عورت کو ترجیح دینے کو کہا ہے لیکن عورت کا خوب صورت ہونا ضروری ہے اگر عورت خوب صورت نہ ہو تو شوہر کا دل دوسری عورتوں میں لگا رہے گا۔ جسے سفید رنگت اور خوب صورت آنکھوں والی عورت دنیا میں مل گئ جو اپنے شوہر کا خیال رکھتی ہو اسے گویا دنیا ہی میں حور مل گئ۔
ان کے نزدیک عورت کا کنوارہ ہونا ضروری ہے۔ بیوہ یا طلاق یافتہ عورت کا دل اپنے پہلے شوہر کے خیال میں ڈوبا رہتا ہے اور وہ دوسرے شوہر کے حقوق خوشدلی سے پورے نہیں کر سکتی۔ بکواسو، میں نے سوچا۔ جس پیغمبر نے اپنے سے پندرہ سال بڑی ایک بیوہ عورت کے ساتھ اپنی نوجوانی کے پچیس سال گذارے ہوں اور جسکی صرف ایک بیوی کنواری اور باقی سب پہلے سے شادی شدہ ہوں اسکے نام پہ یہ بات کرنا جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے۔ آگے صفحے پلٹتی ہوں۔
بانجھ عورت سے شادی نہیں کرنی چاہئیے۔ رسول اللہ سے منسوب ایک حدیث کے حوالے سے بتایا گیا کہ اگر کسی عورت کے متعلق پہلے سے پتہ ہو کہ وہ بانجھ ہے تو اس سے شادی نہ کرو۔ میرا دل ٹوٹ سا گیا۔ میں نے وہ کتاب بند کر کے وہیں واپس رکھ دی۔
میں ایک عورت ہونے کے ناطے سوچتی ہوں۔ کیا میں صرف بچے پیدا کرنے کا ایک آلہ ہوں۔ کیا میرے جذبات نہیں، خواہشات نہیں۔ کیا بانجھ عورت کو شادی کا حق نہیں جبکہ وہ جسمانی طور پہ ایک دم درست ہو؟
کیا یہ منسلکہ حدیث صحیح ہو سکتی ہے؟ آخر ہمیں کیوں تامل ہے کہ حدیثوں کے ذخیرے میں بہت غلطیاں ہیں جن سے لوگ اس ہستی کا مذاق اڑاتے ہیں جس کے لئے آپ کو کسی کا سر تن سے جدا کرنے میں کوئ عار نہیں۔
میں کتاب کی دوکان سے واپس آئ، اور اب میرے دماغ میں آگ سے پیچھا چھڑانے والے لوگوں کی چیخوں کے ساتھ اس عورت کا غم بھی شامل ہے جو بانجھ ہے، بچے پیدا نہیں کر سکتی اور کوئ اس سے شادی بھی نہیں کر سکتا۔ گو غم اور چیخ، سانجھے ہیں لیکن کچھ انسان اپنی توہین کروا کر غمزدہ رہنا کیوں پسند کرتے ہیں؟
محترمہ آپ یہ محسوس کر سکتی ھیں کہ اک خوبصورت عورت جسکی شادی انتہائ بدصورت مرد سے ھوجاۓ جو اسے ایک نطر نہ بہاتا ہو، یا ایسی عورت جس کو اولاد کی خواھش ھو اسکی شادی اک بانجھ مرد سے ھوجاۓ تو اس پر کیا گزرے گی اور اس سے گھریلو نظام کے خراب ھونے یا تباہ ہونے کا کتنا خطرہ ھوسکتا ہے، اسی طرح یہی حالت اک مرد کی بھی ھو سکتی ہے جس کی شادی اک بدصورت یا بانجھ مرد سے ہوجاۓ، ہمارے معاشرے میں دوسری شادی کو ویسے بھی گناھ کبیرہ سمجھا جاتاہے. لوگ چور اچکوں، رشوت خوروں اور گمراہوں کو اپنی بیٹیاں دے دیتے ہیں مگر دوسری شای کرنے والے شریف آدمی کو نہیں دیتے .اب وہ غیر عورتوں میں منہ نی مارے گا اس کی گارنٹی کوئ نہیں دے سکتا.
ReplyDeleteویسے احادیث میں بانجھ عورت سے شادی کرنے سے منع کرنا تحريم كے ليے نہيں بلكہ صرف كراہت كى بنا پر ہے، علماء كرام نے بيان كيا ہے كہ زيادہ بچے جننے والى عورت اختيار كرنا مستحب ہے واجب نہيں.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور مستحب يہ ہے كہ عورت ايسى ہو جو زيادہ بچے جننے ميں معروف ہو "
جس طرح عورت كے ليے بھى بانجھ مرد سے شادى كرنا جائز ہے، اسى طرح مرد كے ليے بانجھ عورت سے شادى كرنا جائز ہے..
ں بانجھ عورت سے شادی کرنے سے منع کرنا یا غیر بانجھ عورت سے شادی کی ترغیب کی اصل وجہ افرادی قوت اور عددی کثرت ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے ان احسانات میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے بطور خاص جتلائے ہیں، سورہ اعراف میں ارشادہے:
”واذکروا اذ کنتم قلیلافکثر کم… الآیة۔(الاعراف:۸۶) ترجمہ:”اوریادکروجب تم تھوڑے تھے،پھر تمہیں بڑھادیا“
،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تقاضے کو کبھی ترغیب کی صورت میں، کبھی دعاء کی صورت میں اور کبھی صریح تاکید کی صورت میں بیان فرمایا ہے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم شادى ايسى عورت سے كرو جو زيادہ محبت كرنے والى ہو اور زيادہ بچے جننے والى ہو، كيونكہ ميں تمہارے ساتھ باقى امتوں سے زيادہ ہونے ميں فخر كرونگا "
سنن نسائى حديث نمبر ( 3227 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2050 ).
اسے ابن حبان ( 9 / 363 ) اور علما نے اسے صحيح قرار ديا ہے.
ظاھری طور پر حکمت کے خلاف لگنے والی یا ناسمجھ آنے والی صریح حدیثوں کے مقابلے میں بغیر تحقیق کے کوئی رائے نہیں قائم کرن چاہیے,ایک نظریہ قائم کرکے اس کے تحت دلائل جمع کرنے اور اس کے معارض دلائل کو رد کردیناٹھیک نہں
آپ یہ بھول رہے ہیں کہ یہ بات صرف ہمارے معاشرے کے لئے نہیں ہے۔ چونکہ اسے رسول سے منسوب کیا گیا ہے اس لئے یہ ساری دنیا کے لئے ہے۔ یعنی اگر اسلام واحد مذہب بن جائے تو معاشرے میں شادی کے بنیادی اصول یہ ہونگے۔
Deleteدوسری بات جو آپ نے مد نظر نہیں رکھی کہ جس رسول کو رحمت اللعالمین کہا جائے اس سے ایسی باتیں کیسے منسوب کی جا سکتی ہیں۔
اب آپکی دوسری باتوں کی طرف آتے ہیں۔ اکثر خوب صورت خواتین کے بد صورت شوہر ہوتے ہیں۔ آجکل یہ بالکل عام ہے۔ اس لئے کہ سوسائٹی شوہر کی مالی حیثیئت دیکھتی ہے اسکی شکل نہیں۔ اور انکی اکثریت انکے ساتھ ہنسی خوشی رہتی ہے۔ کیونکہ شادی محض شکل سے نہیں کی جاتی۔
اگر محض خوبصورت عورتوں کی ہی شادی ہو تو کم صورت عورتیں شادی کے بغیر رہ جائیں گی۔ کیا اس سے معاشرہ مستحکم ہوگا کیا یہ ظلم نہ ہوگا۔
اسی طرح دنیا میں لا تعداد لوگ ایسے ہیں جو بانجھ ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بلکہ دنیا میں ایک عام پریکٹس یہی ہوتی ہے کہ مرد اگر بانجھ ہو تو بھی عورت اس سے علیحدگی اس بنیاد پہ نہیں کرتی۔ البتہ ہمارے معاشرے میں مرد اس بناید پہ طلاق دیتا ہے اور دے سکتا ہے۔
بانجھ عورت کیا انسان نہیں ہوتی۔ کیا اسے شوہر کی رفاقت اور محبت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر کوئ ایسی عورت سے شادی نہیں کرے گا تو کیا وہ عورت اپنی خواہش پوری کرنے کے لئے حرام کرنے کے لئے آزاد ہوگی۔
قیامت کا مجھے نہیں معلوم کیا ہوگا لیکن اس وقت دنیا میں مسلمان عیسائیوں کے بعد تعداد میں سب سے زیادہ ہیں۔ کیا انہیں اپنی عددی طاقت کی بناء پہ دنیا کی قوموں میں اس وقت کوئ فضیلت حاصل ہے۔ پرانے زمانے میں ہی نہیں اب بھی ایک محاورہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک ہو پر نیک ہو۔
عددی برتری رکھنا ڈیڑھ ہزار سال پرانے معاشرےء میں اہمیت رکھتا تھا جہاں جنگ و جدل ایک معمول کی کارروائ تھی جس میں ہزاروں کی تعداد مِن لوگوں کو مرنا بھی ایک معمول تھا۔ اور جنگیں عام طور پہ آمنے سامنے رہ کر لڑی جاتی تھیں۔
اگر اسلام دنیا کا واحد مذہب بن جائے یا دنیا کا نمبر ون مذہب بن جائے عددی لحآط سے تو بھی کیا شادی کے بعد اسی عورت کو ترجیح ملے گی جو مسلسل بچے پیدا کرے۔ اس وقت کیا کریں گے اتنی آبادی بڑھا کر؟
کیونکہ اگر رسول کی ہر بات کو ہر زمانے کے لئے درست مانا جائے تو ہم اپنے زمانے میں محدود رہ کر کیوں دیکھیں۔ ہم یہ بھی تو دیکھیں کہ ایسا کہاں تک ہو سکتا ہے۔ یا یہ کہ آپکو یقین نہیں کہ ایسی دنیا بھی ہوگی جہاں اسلام دنیا کا واحد مذہب ہوگا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ رسول اللہ کی نو ، یا گیارہ یا تیرہ شادیوں میں سے صرف ایک خاتون کنواری تھیں۔ باقی سب بیوہ تھیں۔ ان میں سے کتنی خواتین ایسی تھیں جو شادی سے پہلے کئ بچوں کا کسی ایک بچے کی ماں تھیں۔ مجھے ایسی کوئ روایت یاد نہیں آرہی جس میں ام المومنات میں سے کسی کی کوئ اولاد رسول اللہ کے علاوہ کسی اور سے ہو۔ یعنی رسول اللہ نے ایسی عورتوں سے شادی کی جنکے متعلق زیادہ امکان یہ تھا کہ انکے بچے نہیں ہونگے۔
یہاں ایک اور دلچسپ معلومات دیتی چلوں کہ افریقہ وہ برا اعظم ہے جہاں تمدن دنیا میں سب سے زیادہ دیر سے پہنچا۔ وہاں اب بھی افریقی قبائل میں یہ دستور عام ہے کہ شادی اس عورت سے کرتے ہیں جسکے پہلے سے بچے ہوں۔ چاہے شادی کے بغیر ہوں۔ اس آدمی سے نہیں جو اس سے شادی کررہا ہو بلکہ کسی سے بھی۔ کس لئے؟ اس لئے کہ وہ شادی کو محض بچوںکے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور اگر عورت کے پہلے سے بچے ہوں تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ بانجھ نہیں ہے۔ ایسی عورت کی ڈیمانڈ زیادہ ہوتی ہے۔
کیا آپ ان افریقی قبائل کے اس طرز عمل کو درست قرار دیں گے۔
پھر اسلام کے اس دعوے کے بارے میں کیا ہوگا جس میں شادی محض جسمانی عمل نہیں بلکہ روحانی برکتیں رکھتی ہے۔ اور یہ فرقیقین کے درمیان روحانی تعلق پیدا کرتی ہے۔
اسکے علاوہ آپ نے یہ نہیں بتایا کہ بیوہ عورت سے شادی اگر نہیں کرنی چاہئیے تو رسول اللہ نے خود کیوں بیوہ عورتوں سے شادی کی اور اسلام میں اس بات کی تاکید کیوں ہے کہ عورت کی دوسری شادی ، کنواری کی شادی کے مقابلے میں جلد ہونی چاہئیے۔
ان معصوموں کو اتنی سامنے کی بات سمجھہ نہیں آرہی کے اگر اج برتری تعداد کی ہی ہوتی تو یہودی محض ڈیڑھہ کروڑ ہونے کے بعد بھی ڈیڑھہ ارب مسلمانوں کی ایسی تیسی نہ پھیر رہے ہوتے۔ یہ دنیا اب تعداد کی رہی ہی نہیں ہے یہ دنیا اب استعداد کی دنیا ہے مگر انکے زنگ لگے ذہن آج بھی صرف بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کو ہی استعداد سمجھتے ہیں۔
ReplyDeleteفکرِ پاکستان صاحب، یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے بلکہ انسانیت کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہ دنیا ہمیشہ سے "استعداد کی دُنیا ہے" یہ اور بات بھی تاریخ سے ثابت ہوتی ہے کہ حالات کے تغیر سے "استعداد" کا معیار بھی تبدیل ہوجایا کرتا ہے، اور جہاں بھی جنگل کا قانون نافذ ہوگا وہاں تعداد اور طاقت کو ہی "استعداد" سمجھا جائے گا۔ اور جنگل کا بھی کوئی نا کائی قانون ہوا کرتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے پیارے مملکت خداد پاکستان میں جنگل جیسا بھی کوئی قانون نہیں ہے، لہذا آپ سے درخواست ہے کہ آپ ڈیڑھ کروڑ یہودیوں کی مدح سرائی کرنے اور دیڑھ ارب مسلمانوں کی فکر کرنے کے بجائے صرف "پاکستان" کے بچاؤ کی فکر کریں کہ آپ جیسے مفکرین کی قلابازیوں کی وجہ سے اس مملکت خداد کی کشتی ڈانواں ڈول ہے، اور کسی بھی وقت ہم کو لاوارث چھوڑ کر ڈوب سکتی ہے۔
Deleteاگر تعداد اور طاقت کو آپ جنگل کا قانون سمجھتے ہیں تو یہ بات تو خاصی غور طلب ہے کہ مسلم علماء اسے اسلام کا قانون کیسے سمجھتے ہیں۔
Deleteمحترمہ بجاۓ حدیث کی سند و متن سے اس کو وضعی یا ضعیف ثابت کرنے کے جوکہ اک علمی طریقہ ہے اس سے کسی بھی حدیث کی حقیقت کا پتا چل جاتا ہے' صرف ظاھری عقلی بنیاد پر صریح احادیث کا انکار کر دینا بہت خطرے کی بات ہے. اگر یہی معیار رھا تو پھر تو سارا دین ہی آؤٹ ڈیٹڈ لگے گا کیونکہ لازمی نہیں کہ ہر حکم کی حکمت صرف حدیث پرھنے سے ہر بندے کی سمجھ میں آجاۓ. اس مسئلے کی حکمت پر بھی آپ کو مزید ڈیٹیل مل سکتی ہے لیکن آپ اپنے موقف کو حتمی سمجھنے کے بجاۓ تحقیق تو کریں.
ReplyDeleteمیں نے اوپر تین پوائنٹ سے مسئلے کی وضاحت کی تھی حیرت ھے میری پہلی بات کو تو آپ آفاقیت کے خلاف کہہ رھی ہیں (حالانکہ یہ مسئلہ کہیں بھی ھوسکتا ھے، اگر برصغیر کے پچاس کڑوڑ لوگوں کے معاشرے میں دوسری شادی کا مسئلہ درپیش ھے تو کیا ان کے لیے اسلام کی یہ نصیحت فاعدہ مند نہیں دے رھی) اور دوسری طرف آپ خود کثرت اولاد کو اس زمانے تک محدود کہہ رھی ہیں حالانکہ اس نعمت کو قرآن میں بھی گنایا گیا ہے، یہاں قرآن و حدیث دونوں کے پیغام کی آفاقیت سے انکار کیوں ھے ؟ اگر پاکستان یا چند دوسرے ملک اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اپنی افرادی قوت سے فاعدہ اٹھا نی سک رہے تو اس سے افرادی قوت کو موجودہ دور کے لیے بے فاعدہ اور صرف پرانی جنگوں کے لیے فاعدہ مند کہنا کہاں کی عقلمندی کی بات ہے. ویسے تو قرآن وحدیث ، تاریخ اور موجودہ دور سے بھی اس عددی قوت کا فاعدہ مند ھونا ثابت ھوتا ہے ھی حدیث میں ویسے حضور علیہ السلام کا یہ حکم جیسا کہ حدیث کے الفاظ سے ظاھر ھے انکی حشر کے میدان میں دوسری امت پر عددی برتری کی خواھش کے لیے ہے.
آپ کی یہ بات ٹھیک ہے کہ ھمارے ملک میں مرد کی خوبصورتی کے بجاۓ اسکی امارت کو دیکھا جاتا ہے، لیکن میں نے یہ محسوس کیا ھے کہ مذھبی یا مڈل کلاس کی شریف گھرانوں کی عورتیں تو اک بدصورت یا بانجھ مرد کے ساتھ اپنی عصمت پر داغ لگاۓ بغیر ساری زندگی گزار سکتی ھیں، ایلیٹ کلاس کی ماڈلز نہیں، الا ماشااللہ. ابھی میڈیا کے ذریعے جس کلچر کو ہم پر مسلط کیا گیا ہے اس سے مڈل کلاس میں بھی عجیب عجیب واقعات پڑھنے، سننے کو ملتے ہیں... اللہ سب کی عزتوں کی حفاظت فرماۓ.. مزید ھم دیکھتے ہیں کہ حضور کے دور میں تو نکاح زنا سے سستا تھا اک سے ذیادہ شادیاں بھی عام تھیں، پھر بھی آپ کا برابر کی زوج تلاش کرنے کی نصیحت کرنا تعلیم کے آفاقی ھونے کی دلیل ھے. کہ آخر زمانہ میں ایسے لوگ آئیں گے جنکے معاشرہ میں معاملہ الٹ ھو گا.
میں نے دوسرے پوائنٹ میں اس نصحیت یا تاکیدی نصیحت کی شرعی حیثیت بھی بیان کر دی تھی کہ غیر بانجھ خوبصورت عورت سے شادی کرنا کوئ فرض یا واجب نہیں، مستحب ھے. بانجھ اور بیوہ سے بھی شادی کی جاسکتی ہے. حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے اسوہ حسنہ کی احادیث کے علاوہ کئ ایسی احادیث بھی موجود ہیں جن میں آپ نے بیوہ عورت سے شادی کو پسند فرمایا ہے جیسے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ھے. مزید انکے پیروکار چاھے وھ انکے زمانے کے تھے یا بعد کے تھے انہوں نے تقوی و خیر خواھی کی بنیادوں پر ایسی عورتوں سے شادیاں کی ھیں اگر کسی میں بعد میں بھی نقص نظر آیا ہے پھر بھی انکے ساتھ زندگیاں گزاری ہیں، بانجھ اور بدصورت عورت سے شادی کے سلسلے میں رابعہ بصریہ اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ مشھور ھے.
بنیاد پرست
حدیث کے صحیح یا درست ہونے کے علمی طریقے کو علماء ہی نے وضع کیا ہے۔ کسی اور نے نہیں۔ یعنی اللہ کی طرف سے نازل نہیں ہوئیں۔
Deleteرسول اللہ کی اپنی عملی زندگی اگر احادیث سے بالکل الگ معلوم ہوتی ہے تو ایسا کیوں ہے۔ اگر اس وقت آپ رسول اللہ سے منسلکہ اقوال کو انکی سوانح عمری سے نکال دیں تو ایک انتہائ مختلف شخصیت سامنے آئے گی۔
اگر ان دونوں کو ملا دیں تو دو مختلف شخصیات سامنے آتی ہیں جو اپنی عملی زندگی میں اور اپنے کاز میں خاصی مختلف ہے۔ جو اپنے کاز میں آفاقیت رکھتی ہیں، انقلاب رکھتی ہے لیکن جیسے ہی ان سب اقوال کو اس سے ملا دیا جائے تو وہ عرب کے خطے میں محدود ہو جاتی ہے۔
فکر پاکستان نے بنیاد پرست کو معقول جواب دیا ہے ۔اسلام الدین
ReplyDeleteمحترم ذرا ان تینوں ناموں (فکرِ پاکستان، بُنیاد پرست اور اسلام الدین) کے مفھوم پر غور فرمایئے ، یہ گرہ خود بخود کھل جایئے گی کہ کس نے کس کو کس حد تک معقول جواب دیا ہے۔
Deleteکیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ہماری اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں کتنی فیشن ماڈلز ہیں۔
ReplyDeleteگستاخی معاف مذہبی گھرانوں کی آپ نے بات کی ہو تو مذہب کو استعمال کر کے مذہبی گھرانوں کی لڑکیاں کیا بے حیائیاں کرتی ہیں اس پہ میں ایک پوسٹ لکھونگی۔ جن لوگوں کو بنیادی اخلاقی تربیت نہ دی جائے وہ مذہبی ہونے اور مذہبی گھرانوں سے تعلق رکھنے کے باوجود کوئ عمدہ مثال نہیں بن پاتے۔ یہاں تو ہم دیکھتے ہیں کہ عام لڑکیاں جوائینٹ فیملی میں رہ لیتی ہیں لیکن مذہبی لڑکیا ں نہیں رہ پاتیں۔
خیر یہ ایک الگ موضوع ہے۔
اگر زیادہ بچے پیدا کرنا کوئ مثبت بات ہوتی تو یہ کیسے ممکن ہوا کہ آہستہ آہستہ ہمارے خطے میں بچوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے اور گاءوں یا دیہاتوں کے علاوہ یا جاہل جوڑوں کے علاوہ لوگ اب بچوں کی تعداد کم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسکی وجہ آپکو معلوم ہے؟
جس دن آپ اسکی صحیح وجہ جان جائیں گے۔ اس دن آپکو اندازہ ہوگا کہ اصول وقت کے ساتھ بدلتے ہیں۔ آپ نے اس بات کا جواب نہیں دیا کہ جب اسلام اس دنیا کا واحد مذہب بن کر چھآ جائے گا تو اس وقت زیادہ آبادی کا کیا مقصد ہوگا۔
ٹھیک اسی طرح آُ نے نہیں بتایا کہ ان افریقی ممالک کی اس رسم کو درست کپا جا سکتا ہے جہاں شادی کے وقت اس عورت کو ترجیح دی جاتی ہے جسکے پہلے سے بچے ہوں۔
جب ہمارے رسول نے اپنی عملی زندگی میں ان باتوں کے خلاف مثالیں پیش کی ہیں تو یہ احادیث اور انکی تشہیر کیسے ہوئ؟
آپ کیسے اسلام سے ناواقف اور عرب معاشرے سے ناواقف شخص کو ان باتوں کے ذریعے قائل کر سکتے ہیں کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے۔
سبحان اللہ، عنیقہ جی فرماتی ہیں کہ "اصول وقت کے ساتھ بدلتے ہیں" محترمہ دلیل کیا ہے؟
Deleteاور وہ اصول ہی کیا جو کہ وقت کے ساتھ بدل جائے؟ اصول کے لغوی معنٰی ادھر سے ملاحظہ فرمالیں: http://www.clepk.org/oud/ViewWord.aspx?refid=1178
اسلام سے ناواقف شخص کی نجات کس میں ہے؟ اسلام سے آگاہی میں یا یہ جاننے میں کہ اسلام ایک آفاقی دین ہے؟
Deleteاور واضح رہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہء حیات اور دین ہے ناکہ محض ایک مذہب جیسا کہ آپ نے فرمایا!
تو آپکے خیال میں اصول نہیں بدلتے۔ آئیے اس تاریخ کو دیکھتے ہیں جو ہمیں مذہبی ذرائع سے ملی ہے۔
Deleteحضرت آدم علیہ السلام کی اولادوں میں شادیاں اس طرح ہوتی تھیں کہ صبح پیدا ہونے والے بچوں کی شادیاں شام کو پیدا ہونے والے بچوں سے ہوتی تھی۔ یعنی اس وقت خدا کا اصول یہ تھا کہ انسان شام تک شادی کے قابل ہوجاتا تھا۔ اصول یہ بھِ تھا کہ ایک لڑکا اور ایک لڑکی صبح پیدا ہوتے تھے اور ایک لڑکا اور ایک لڑکی شام کو پیدا ہوتے تھے۔
وہ کون سے نبی تھے جنکی دو سگی بہنوں سے شادی ہوئ تھی۔ میں انکا نام بھول رہی ہوں۔ اصول بدلا اور اسلام کے نزول کے وقت خدا نے اسے حرام قرار دے دیا۔
اسلام کے ابتدائ عرصے میں عرب میں باندی اور کنیزوں کا رواج تھا جن سے انکے مالک بغیر نکاح کے جنسی تعلق رکھتے تھے اور اسلامے کے لحاظ سے جائز تھا۔ آج ڈیڑھ ہزار سال بعد مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اگر کوئ شخص گھر کی نوکرانی کے ساتھ ایسے تعلقات پیدا کرے تو اسکے خلاف قانونی چارہ جوئ کی جا سکتی ہے اور نکاح کے بغیر ایسے تعلقات نہیں رکھ سکتے۔
ہاروت اور ماروت کو مذہبی معلومات کے مطابق جادو سکھانے کے لئے بھیجا گیا، حضرت موسی کو مصر کے جادو گروں کا مقابلہ کرنے کے لئے معجزاتی عصا دیا گیا جو وقت ضرورت سانپ بھی بن جاتا تھا۔ لیکن حضرت محمد مصطفی تک آتے آتے اللہ نے اپنا اصول بدلا اور جادو حرام قرار پا گیا۔
یہ تو اس وقت یادداشت میں آنے والی باتیں ہیں۔
آپ سمجھتے ہیں کہ کسی شکص کو یہ کہہ کر راضی کر لیں گے کہ تمہاری نجات اسلام کی آگہی ہمیں ہے۔ کون سا اسلام جو عرب ثقافت کو پیش کرتا ہے یا وہ اسلام جسے مکمل دین کہہ دیا گیا ہے۔
مکمل دین اور مکمل ضابطہ ء حیات کو آفاقی ہونا چاہئیے۔ کم از کم اسکے بنیادی اصولوں میں۔
اب افریقی قبائل تو سمجھ سکتے ہیں کہ ایک بانجھ عورت ایک بے کار عورت ہے۔ لیکن دنیا کے باقی خطوں میں لوگ اسے کیسے سمجھ پائیں گے جبکہ دوسرے لمحے ہی آپ اسکو اسلام کا یہ بنیادی اصول بھی بتائیں گے کہ اسلام میں ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے اور کوئ اور مذہبی عالم یا نیک شخص اسکی بخشش نہیں کرا سکتا۔ اسکا مطلب کا ہر شخص کو اپنی زندگی جینے کا حق حاصل ہے۔ اگر وہ گناہ کرتا ہے تو اسکی سزا بھِ اسے ملے گی اور نیکی کرتا ہے تو اسکا فائدہ بھی اسی کو ملے گا۔ اور محض بچوں کا پیدا کرنا یا نہ کرپانا اسکی بنیادی خوبی نہیں ہو سکتی۔
محترمہ نفسِ مضمون سے شدید اختلاف رکھنے کے باوجود بھی آپ کو ایک بہترین تحریر کےلیئے داد دیتا ہوں کہ مضمون تو صرف ایک ہی ہے اور مگر موضوعات بہت سے چھیڑے گئے ہیں، اور سوال صرف دُو، تاکہ قاریئن اِدھر اُدھر بھٹکنے کے بجائے وہی نتائج اخذ کریں جوکہ صاحب بلاگ انکو "اسپون فیڈنگ" کرنا چاہتی ہیں۔
ReplyDeleteبنیاد پرست صاحب کے جوابات معقول ہیں ، مگر انکو یہ جان لینا چاہیئے کہ جیسے لوہے کو لوہا کاٹتا ہے اسی طرح انکو بھی یہ فن سیکھنا چاہیئے کہ کسطرح وہ اپنے نظریات کا پرچار ایسے دندان شکن دلائل سے کرسکتے ہیں کہ مخالفین محض اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان سے متفق ناہومگر پھر بھی انکے نظریات و دلائل کی دھجیاں نا بکھیر سکیں، اور کفار مکہ کی طرح یہ کہنے پر مجبور ہوجایئں کہ باتیں تو درست ہیں مگر ہم نہیں مانتے۔
خیر بیکار کی بحث میں الجھنے کے بجائے میں عنیقہ صاحبہ کے پوچھے گئے دُونوں سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ مجھ سیمت سب کے وقت کی بچت ہو:
سوال : کیا یہ منسلکہ حدیث صحیح ہو سکتی ہے؟
جواب : کسی بھی حدیث کے صحیح یا غلط ہونے کو پرکھنے کا ایک میعاری طریقہ کار رائج ہے، اور بغیر اس مخصوص طریقہء کار میں مہارت حاصل کیئے اور پھر اس کو اختیار کرے بغیر ہم کسی بھی حدیث کی مصداقیت کو نہیں جانچ سکتے ہیں۔ بصورت دیگر اپنی جہالت کے ثبوت دیں گے۔ جب حدیث کے سلسلے میں غلام احمد پرویز اور جاوید احمد غامدی جیسے صاحبان علم نے یہی غلطیاں کی تھیں، تو آپ اور ہم کس کھیت کی مولی ہیں؟
سوال : کچھ انسان اپنی توہین کروا کر غمزدہ رہنا کیوں پسند کرتے ہیں؟
جواب : یہ بات اس بنیاد پر جانچی جاسکتی ہے کہ وہ انسان اپنی توہین کروانا کیوں پسند کر رہے ہیں؟ اور آیا جس بات کو ہم اور آپ توہین سمجھ رہے ہیں تو کیا وہ درحقیقت خود انکی کی نظر میں توہین ہے بھی یا تحسین ہے؟ کیا کامیڈین ادکار اپنی حرکات سے لوگوں کو اپنے اوپر ہنسنے کا موقع فراہم کروا کر اپنے ناظرین سے اپنی توہین نہیں کروا رہے ہوتے ہیں؟ ان کامیڈین ادکاروں سمیت ہم سبھی انکی ادکاری کو انکا فن سمجھتے ہیں اور سجمھتے ہیں کہ وہ لوگوں کو ہنسا کر معاشرے کی خدمت کررہے ہیں، اور انکی مزاحیکہ خیز حرکات کی وجہ سے انکے اُوپر ہنسنے کو انکو سراہنا سمجھا جاتا ہے ناکہ انکی توہین۔
اور اس بات کا فیصلہ بھی کہ توہین کی صورت میں کوئی غمزدہ ہوتا کہ خوش یہ بھی ہر انسان کے حالات و نظریات کے حساب مختلف ہوتا ہے، مثلاً واقعہء طائف میں نبی پاک کو بہت تکلیفیں دی گیئں تھیں اور انکی بہت توہین ہوئی تھی مگر رحمتہ للعالمین نے غمزدہ ہونے اور اختیار دیئے جانے کے باوجود بھی اہل طائف کی ہدایت کی دُعا کی تھی، حجاج بن یوسف کہ جس نے قرآن پر عجمیوں کی سہولت کے لیئے اعراب لگوائے اور اسکا بھتیجا محمد بن قاسم کہ جس نے سندھ کو فتح کیا، دونوں ہی طائف کے قبیلے ثقیف سے تھے۔ تو آخر کار جیت کس کی ہوئی؟ جس کی توہین کی گئی یا پھر جس نے توہین کی تھی؟
لہذا اگر آپ حق پر ہوں مگر آپ کے حالات کی وجہ سے آپ کی توہین کی جارہی ہو تو بھی آپ کو صبر کرنے کا ثواب ملتا ہے، یہ شعر تو ُسب سنا ہی ہوگا کہ:
اس شرط کھیلونگی پِیا پیار کی بازی
جیتی تو تم میرے، ہاری تو تمھاری !
بلکل اسی طرح حق پرست بھی ہر حال میں کامیاب ہی رہتے ہیں ،کہ جیتے ہیں تو غازی ،اور دین پے مٹ جایئں تو شہید۔
توہین ہونا اور کسی کا کسی دوسرے پہ ہنسنا میرا خیال ہے کہ دو مختلف چیزیں ہیں۔ آپ نے کامیڈیئن کی مثال دی ہے۔ کامیڈیئن ہی کو نہیں بلکہ دیکھنے والے کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ یہ سب ایک ڈرامہ ہے۔ اس لئے دونوں ہنستے ہیں۔ اسی کامیڈیئن کو اگر حقیق زندگی میں اپ یہ کہہ کر دھتکار دیں کہ بھائ ٹی وی ہی پہ تجھے ہم عزت دیتے ہیں اسکے علاوہ تیری آبرو کیا ہے تو یہ اسکی توہین ہوگی۔ توہین کا تعلق عزت نفس سے ہوتا ہے۔ کھیل تماشے سے نہیں۔ اتنی بات تو میری پانچ سال کی بیٹی بھی سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب میں اسے کھیل ہی کھیل میں ایک بات کہوں تو وہ بالکل برا نہیں مانتی لیکن جیسے ہی میں سنجیدہ الفاظ میں وہ بات کہوں تو اسے تیر کی طرح لگتی ہے۔
Deleteحق کیا ہے؟
دنیا میں ان گنت لوگوں نے اپنے کاز کے لئے جانیں دی ہیں۔ آئیے اسلام کی ہی جانب دیکھتے ہیں جب دو مختلف فرقوں کے لوگ ایکدوسرے کی جان اللہ کے نام پہ لیتے ہیں تو دونوں ہی اپنے آپکو حق پہ سمجھتے ہیں۔ دونوں ہی گروہ کے لوگ مرنے پہ اپنے آپکو شہید اور زندہ رہ جانے غازی جانتے ہیں۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ دونوں حق پہ ہوں۔
ویسے نکمے پن اور صبر میں بھی بال برابر فرق ہے۔
آپ نے فرمایا کہ حدیث کے صحیح اور غلط ہونے کا فیصلہ میں اور آپ نہیں کر سکتے۔ اسکا مطلب میں اپنے دین کو ایک ایسے عالم کے حوالے کر دوں جو قرآن کی پیشن گوئ کے مطابق روز قیامت خدا کے حضور اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کرے گا کہ میری گمراہی میں اسکا حصہ ہے۔
اگر ہر شخص کو اپنے اعمال کا بوجھ خود اٹھانا ہے تو میرے لئے تو عقلمندی اس میں ہوگی کہ اپنی پیدا کردہ گمراہی کی وجہ سے پکڑی جاءوں نہ کہ مودودی یا غامدی صاحب کی وجہ سے۔
لیکن اگر آپ اس باتکی تصدیق کرتے ہیں کہ روز قیامت میری جاں بخشی اس بات پہ ہوجائے گی کہ یا اللہ، میں نے جو کچھ کیا تیرے اس عالم کی وجہ سے کیا جو فلاں مدرسے سے قرآنن کا علم لے کر نکلا اور اس نے جو کچھ پڑھا اور سمجھا وہ میری عقل سے زیادہ تھا تو سو بسم اللہ۔ یہ تو دین ایک دم آسان ہوگیا۔ بس ذرا آسان والا فرقہ منتخب کرنا پڑے گا۔
ویسے حجاج بن یوسف کے متعلق جو ظلم کی داستانیں مشہور ہیں ان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ طائف ہی کا ہوگا۔ سنتے ہیں اس نے محمد بن قاسم کو بلوا کر مار دیا تھا۔ اور محمد بن قاسم عین جوانی کے عالم میں بری موت مارا گیا۔ کیا کسی علاقے میں رہنے سے انسان کے جینز میں بھی اثر آجاتا ہے اور وہ نسلوں چلتا ہے۔ میں پہلے اس پہ یقین نہیں رکھتی تھی۔
Deleteمیں فی الحال موبائل سے نیٹ استعمال کرنے پر مجبور ھوں اس لیے ذیادہ لمبی بحث کا متحمل نہیں ھوسکتا. ویسے بھی بحث جتنی طویل ھوتی جاتی ہے بات کا بتنگڑ بنتا جاتا ہے اور اصل موضوع سے بندہ دور ھوتا جاتا ہے جیسے افرادی قوت کے فاعدہ پر بات نکل پڑی ھے اس موضوع پر قرآن وحدیث کے حوالے کیساتھ ضروری بات میں کرچکا ہے سمجھنے کے لیے شاید وہ کافی ہے، تفصیلی بات اس سے متعلقہ کسی تحریر میں کر لیں گے. یہ میرا آخری تبصرہ ہے.
ReplyDeleteآپ نے میری ایلیٹ کلاس والی بات پر غصہ کا اظہار کیا حالانکہ میں نے نا وھاں ساری ایلیٹ کلاس کو کرپٹ قرار دیا ہے اور نہ موجودہ سارے مذھبی طبقے کو بالکل پارسا کہا ،آپ میری پوسٹ دوبارہ پڑھ لیں. مجھے آپ کے دوسرے ریپانسز سے بھی محسوس ھوتا ھے کہ آپ میری پوسٹ مکمل پڑھے بغیر جواب لکھتی ہیں.مزید آپ اگر چند عورتوں کو بنیاد بنا کر سارے مذہبی طبقے کو کرپٹ ثابت کرنا چاہتی ہیں تو وہ آپ کی مرضی اور ضمیر ہے. .
میرا خیال ہے اس خوبصورت اور غیر بانجھ عورت سے شادی کی ترغیب والی حدیث پر بات ضرورت سے زائد ھو چکی ھے.. مجھے حیرت ہے کہ اسلام انسانوں کی بہتری اور خاندانی نظام کی مضبوطی کے لیے لوگوں کو انکی اچھی چیز کو پسند کرنے والی فطرت کے مطابق ایک مناسب صورت (دوسری حدیث کے مطابق) اچھی سیرت والی عورت سے شادی کو مستحب قرار دے رھا ہے اور آپ اس کو خلاف اسلام یا خلاف خیر خواھی قرار دینے پر تلی ھوئی ہیں، اگر اس کے برعکس اسلام اک بدصورت یا بانجھ مرد یا عورت سے شادی واجب قرار دے دیتا تو تب بھی سب سے پہلے آپ لوگ ہی اس کو ظلم اور زبردستی قرار دے کر اس کا انکار کرتے نظر آتے..
دیکھیں محترمہ اک حدیث سارے عالم پر فٹ ھوسکتی ھے اور نہ اس اک سے ہی ساری دنیا کے مسائل حل ھوسکتے ھیں، اس نکاح کے موضوع پر سیکڑوں احادیث موجود ہیں، جن میں ہر طبقہ کے لوگوں کے لیے گائیڈینس موجود ہے. آپ نے افریقہ کی بات کی کہ اسلام ان کو کیسے اپنے نظام کے تحت لاۓ گا. آپ کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام ایسے دور میں افریقہ سمیت ساری دنیا پر حکومت کر چکا ہے جب انسانیت جانوروں کی طرح رہ رہی تھی، حضور خود ایسے علاقے میں پیدا ھوۓ جن کے لوگوں پر کوئ حکومت کرنا پسند نہیں کرتا تھا، تاریخ میں ان لوگوں کی اپنی زبان گواہ ھے کہ اسلام نے ھی نہ صرف انہیں انسان بنایا بلکہ انہیں ساری دنیا کا آئیڈیل اور حاکم بنا دیا.، کہنے کا مطلب یہ ھے کہ مسلمانوں کو اگر پوری دنیا میں حکومت ملی تو وہ کوئ پہلی دفعہ نہیں ہوگی کہ اسلام کو ان کے لیے کوئ علیحدہ سے سلوشن نکالنا پڑے، اسلام میں اتنی لچک اور وسعت ہے کہ وھ کسی بھی معاشرے کے لوگوں کو ان کی خواھش اور ضرورت کے مطابق بہتر نظام دے سکتا ھے... دیکھیں اسلام نے صرف حرمت والے رشتوں ماں، سوتیلی ماں، بہن، بیٹی، خالہ، پھوپھی دو بہنوں سے اکٹھی شادی ، ساس وغیرہ سے شادی حرام کی ہے اور زنا اور چار سے ذیادہ شادیوں سے منع کیا ہے. باقی انسانوں کی مرضی جس سے ان کا دل چاہے شادی کریں، چاھے وہ گوری ہے یا کالی، کنواری یا بیوہ. بانجھ ھے یا غیر بانجھ. ھاں اسلام نے ان کے خاندانی نظام کی ترقی، بڑھوتری اور استحکام کے لیے عورت کے انتخاب کے سلسلے میں علیحدہ سے کچھ ٹپس یا ھدایات بھی دی ہیں، اوپر بیان کی گئی کے علاوہ جیسے خوب سیرت عورت کو خوبصورت اور مال والی عورت پر ، مومنہ باندی کو آزاد کافرہ (اھل کتاب) پر فوقیت دو، لیکن جیسا کہ اوپر دو دفعہ یہ بات دوھرا چکا پھر دوھرارہا ھوں کہ اس ترغیب پر عمل مستحب کے درجے میں ہیں فرض نہیں. امید ہے اب بات سمجھ آجاۓ گی.
بنیاد پرست
میں فی الحال موبائل سے نیٹ استعمال کرنے پر مجبور ھوں اس لیے ذیادہ لمبی بحث کا متحمل نہیں ھوسکتا. ویسے بھی بحث جتنی طویل ھوتی جاتی ہے بات کا بتنگڑ بنتا جاتا ہے اور اصل موضوع سے بندہ دور ھوتا جاتا ہے جیسے افرادی قوت کے فاعدہ پر بات نکل پڑی ھے اس موضوع پر قرآن وحدیث کے حوالے کیساتھ ضروری بات میں کرچکا ہے سمجھنے کے لیے شاید وہ کافی ہے، تفصیلی بات اس سے متعلقہ کسی تحریر میں کر لیں گے. یہ میرا آخری تبصرہ ہے.
ReplyDeleteآپ نے میری ایلیٹ کلاس والی بات پر غصہ کا اظہار کیا حالانکہ میں نے نا وھاں ساری ایلیٹ کلاس کو کرپٹ قرار دیا ہے اور نہ موجودہ سارے مذھبی طبقے کو بالکل پارسا کہا ،آپ میری پوسٹ دوبارہ پڑھ لیں. مجھے آپ کے دوسرے ریپانسز سے بھی محسوس ھوتا ھے کہ آپ میری پوسٹ مکمل پڑھے بغیر جواب لکھتی ہیں.مزید آپ اگر چند عورتوں کو بنیاد بنا کر سارے مذہبی طبقے کو کرپٹ ثابت کرنا چاہتی ہیں تو وہ آپ کی مرضی اور ضمیر ہے. .
میرا خیال ہے اس خوبصورت اور غیر بانجھ عورت سے شادی کی ترغیب والی حدیث پر بات ضرورت سے زائد ھو چکی ھے.. مجھے حیرت ہے کہ اسلام انسانوں کی بہتری اور خاندانی نظام کی مضبوطی کے لیے لوگوں کو انکی اچھی چیز کو پسند کرنے والی فطرت کے مطابق ایک مناسب صورت (دوسری حدیث کے مطابق) اچھی سیرت والی عورت سے شادی کو مستحب قرار دے رھا ہے اور آپ اس کو خلاف اسلام یا خلاف خیر خواھی قرار دینے پر تلی ھوئی ہیں، اگر اس کے برعکس اسلام اک بدصورت یا بانجھ مرد یا عورت سے شادی واجب قرار دے دیتا تو تب بھی سب سے پہلے آپ لوگ ہی اس کو ظلم اور زبردستی قرار دے کر اس کا انکار کرتے نظر آتے..
دیکھیں محترمہ اک حدیث سارے عالم پر فٹ ھوسکتی ھے اور نہ اس اک سے ہی ساری دنیا کے مسائل حل ھوسکتے ھیں، اس نکاح کے موضوع پر سیکڑوں احادیث موجود ہیں، جن میں ہر طبقہ کے لوگوں کے لیے گائیڈینس موجود ہے. آپ نے افریقہ کی بات کی کہ اسلام ان کو کیسے اپنے نظام کے تحت لاۓ گا. آپ کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام ایسے دور میں افریقہ سمیت ساری دنیا پر حکومت کر چکا ہے جب انسانیت جانوروں کی طرح رہ رہی تھی، حضور خود ایسے علاقے میں پیدا ھوۓ جن کے لوگوں پر کوئ حکومت کرنا پسند نہیں کرتا تھا، تاریخ میں ان لوگوں کی اپنی زبان گواہ ھے کہ اسلام نے ھی نہ صرف انہیں انسان بنایا بلکہ انہیں ساری دنیا کا آئیڈیل اور حاکم بنا دیا.، کہنے کا مطلب یہ ھے کہ مسلمانوں کو اگر پوری دنیا میں حکومت ملی تو وہ کوئ پہلی دفعہ نہیں ہوگی کہ اسلام کو ان کے لیے کوئ علیحدہ سے سلوشن نکالنا پڑے، اسلام میں اتنی لچک اور وسعت ہے کہ وھ کسی بھی معاشرے کے لوگوں کو ان کی خواھش اور ضرورت کے مطابق بہتر نظام دے سکتا ھے... دیکھیں اسلام نے صرف حرمت والے رشتوں ماں، سوتیلی ماں، بہن، بیٹی، خالہ، پھوپھی دو بہنوں سے اکٹھی شادی ، ساس وغیرہ سے شادی حرام کی ہے اور زنا اور چار سے ذیادہ شادیوں سے منع کیا ہے. باقی انسانوں کی مرضی جس سے ان کا دل چاہے شادی کریں، چاھے وہ گوری ہے یا کالی، کنواری یا بیوہ. بانجھ ھے یا غیر بانجھ. ھاں اسلام نے ان کے خاندانی نظام کی ترقی، بڑھوتری اور استحکام کے لیے عورت کے انتخاب کے سلسلے میں علیحدہ سے کچھ ٹپس یا ھدایات بھی دی ہیں، اوپر بیان کی گئی کے علاوہ جیسے خوب سیرت عورت کو خوبصورت اور مال والی عورت پر ، مومنہ باندی کو آزاد کافرہ (اھل کتاب) پر فوقیت دو، لیکن جیسا کہ اوپر دو دفعہ یہ بات دوھرا چکا پھر دوھرارہا ھوں کہ اس ترغیب پر عمل مستحب کے درجے میں ہیں فرض نہیں. امید ہے اب بات سمجھ آجاۓ گی.
بنیاد پرست
A/alykum
DeleteI think bunyad parast ne jo dalail dye hain bilkul drust dye hain,,,
Islam ALLAH ka banaya hua deen hai na k kisi insaan ka banaya hua hai k koi bhi insaan ghar hi main beth kr Quran pare aur hadayt pa le,,,
Thanks
Kashif
London
یہاں ایک اور دلچسپ معلومات دیتی چلوں کہ افریقہ وہ برا اعظم ہے جہاں تمدن دنیا میں سب سے زیادہ دیر سے پہنچا۔؟
ReplyDeleteیہ بات واقعی دلچسپ ہے کہ مصر کسی زمانہ میں افریقہ سے باہر تھا، حالانکہ تحقیق دان اور سائنسدان ایک اور ہی دلچسپ بات بتاتے ہیں کہ زندگی کا آغاز افریقہ سے ہوا اور بعد میں انسان نے وہاں سے دیگر براعظموں کی طرف ہجرت کی۔
پتہ نہیں آپ کو یہ دلچسپ باتیں کہاں سے پتہ چل جاتی ہیں جو کسی اور کو معلقم نہیں ہوتی؟
شائد ایمیزون کے جنگلات کو آپ غلطی سے افریقہ میں سمجھ رہی ہوں۔
آپ تو ایسے خفا ہو گئے جیسے روز ازل سے ہی نہیں اب بھی افریقی ہی ہوں۔
Deleteجی ہاں سائینس یہ کہتی ہے کہ انسانی زندگی کا آغاز افریقہ سے ہوا لیکن زندگی اور تمدن میں کچھ فرق ہے۔ زندہ تو شیر، چیتے اور بندر بھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح انسان نما جانور اور انسان بننے کے بھِ کچھ مراحل ہیں۔ یہ وہی افریقہ ہے نا، جہاں آدم خور انسانی قبائل بھی پائے جاتے تھے اور امکان ہے کہ اب بھی موجود ہونگے۔ کیا دوسرے انسانوں کو کھا جانا انسانی تمدن ہے۔
اس وقت دنیا کے قدیم ترین قبائل کو اگر آپ ڈھونڈھنا چاہیں تو افریقہ میں ہی ملیں گے۔ ایسے قبائل جہاں لباس کا کوئ تصور نہیں، مذہب اپنی انتہائ خام اور ابتدائ حالت میں۔ آخر افریقہ ان چیزوں کو اکیسویں صدی تک قائم رکھنے میں کیسے کامیاب ہوا؟
آخر کیوں دنیا بھر میں افریقیوں کا استحصال کیا گیا۔ حتی کہ انکی اپنی زمین پہ گوروں نے ایسی جگہیں بنائ ہوئ تھیں جہاں انکا داخلہ ممنوع تھا۔ جنوبی افریقہ کیا افریقہ سے باہر ہے۔ انہی افریقیقں کو ایک زمانے میں افریقہ کی سر زمین سے اٹھا کر غلام بنا کر امریکہ پہنچایا گیا۔ افریقیں کو اپنے حقوق کی لمبی جنگ کیوں لڑنی پڑی، جبکہ دنیا کے باقی انسانوں نے یہ حقوق ان سے پہلے حاصل کئے؟
دنیا بھر میں سب سے ایدز کے متائثرین وہاں پائے جاتے ہیں۔
قحط سے بار بار متائثر ہونے والا خطہ بھی افریقہ ہی ہے۔
میں نے جو اطلاع دی ہے وہ کیمرون سے تعلق رکھنے والی ایک قبیلے کی شہزادی نے مجھے بتائ تھیں۔
کیا واقعی ایمزون کے جنگلات میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ مجھے آپکی بات پہ شک نہیں کہ آپ کافی عرصے سے اس ملک میں آباد ہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ آپ دراصل ایمیزون کے جنگلات میں رہتے ہیں۔
خیر ایمیزون کے جنگلات سے کیمرون کے باغات تک کسی معاملے میں تو یکسانیت ہے۔
آپکو افریقہ کی اس رسم کے متعلق اب علم ہوا مجھے بھِ ایمیزون کے جنگل کی یہ کہانی اب پتہ چلی۔
یہ تو ٹیکنالوجی کا کمال ہے۔
عبدالروف فرماتے ہیں، جہاں بھی جنگل کا قانون نافذ ہوگا وہاں تعداد اور طاقت کو ہی "استعداد" سمجھا جائے گا۔ محترم کا یہ خود ساختہ انتہائی احمقانہ اصول ہے جسکی کم از کم اسلام میں کہیں کوئی گنجائش نہیں بنتی، اعلان نبوت سے پہلے عرب کی حالت پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں جنگل سے بھی بدتر قانون تھے، جو طاقتور تھا صرف اسے ہی عزت سے جینے کا حق تھا، اخلاقی بدحالی کے لئیے تو اتنا ہی کافی ہے کے عضوء تناسل تک کی عبادت کی جاتی تھی۔ ایسے میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اعلان نبوت کرتے ہیں مگر نہ صرف اعلان نبوت کے اوائل میں بلکے فتح مکہ کے بعد جب کے اسلام اور مسلمان مکمل طور پر ایک حقیقت بن چکے تھے اس وقت بھی حضور پاک صلی علیہ وسلم نے طاقت کو استعداد کا درجہ نہیں دیا، اعلان نبوت کے بعد کیسے کیسے مظالم نہ ڈھائے گئے شعب ابی طالب کے تین سال صبر و تحمل سے مظالم جھیلے، طائف کا ذکر کیا آپ نے تو طاقت تو اس وقت بھی تھی حضور پاک صلی علیہ وسلم کے پاس فرشتے آپ کے حکم کے منتظر تھے کہ کب آپ حکم دیں اور ان لوگوں کے پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھہ دیا جائے مگر حضور پاک نے تو اس وقت بھی طاقت کو معیار نہیں بنایا۔ فتح مکہ کے وقت کی صدائیں یاد کیجئیے، جو اپنے اپنے گھروں میں ہیں وہ محفوظ ہیں جو ابو سفیان کے گھر میں ہیں وہ بھی محفوظ ہیں میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو مکمل طاقت حاصل کرنے کے بعد بھی طاقت کو معیار نہیں بنایا، انکا معیار ہمیشہ صبر تحمل برداشت در گزر رہا۔ اسلئیے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور عمل سے تو آپکی یہ دلیل انتہائی بونگی اور طالبانی لگتی ہے۔ یہودی ڈیڑھہ کروڑ ہوکر بھی ڈیڑھہ ارب مسلمانوں کی ایسی تیسی پھیر رہے ہیں یہ ہی سچ ہے اور اس سچ کو کھلے دل سے قبول کریں، وقت کے ساتھہ ساتھہ طاقت کے معیارات بدلتے رہتے ہیں کبھی مسلمانوں کی طاقت جذبہ ایمانی کے ساتھہ ساتھہ تیر تلوار اور منجنیق ہوا کرتے تھے، علم سے دوری اور ٹیکنالوجی کو کفر قرار دینے کی وجہ سے ہماری طاقت کا معیار آج بھی چودہ سو سال پہلے تک ہی محدود ہے، جبکے حریف پینٹاگون کے ایک کمرے میں بیٹھہ کر تیر اور تلوار کا جواب ڈرون سے دے رہے ہیں آج طاقت کا معیار تیر اور تلوار نہیں جدید ٹیکنالوجی ہے، دس لاکھہ جذبہ ایمانی والے میدان جنگ میں کھڑے ہوں وہ پچاس ہزار فٹ کی بلندی سے بم مارے گا تو کہاں جائے گا دس لاکھہ کا جذبہ ایمانی؟ اسلئیے کہا ہے کہ یہ دنیا اب تعداد کی نہیں استعداد کی دنیا ہے، بغیر پائلٹ کا ڈرون سینکڑوں لوگوں کو روند کے نکل جاتا ہے کیا کرنا ہے ایسی تعداد کا؟۔ بنیاد پرست صاحب نے جس حدیث کا ذکر کیا ہے اس میں نبی پاک صلی علیہ وسلم نے لفظ امت فرمایا ہے۔ زرا تعریف پڑھنے کی ذہمت تو گوارا کریں امتی کی کے امتی کہتے کسے ہیں؟ یہ ملاوٹ کرنے والے، بیٹیاں بیچنے والے، رشوت اور سود کا کاروبار کرنے والے، یہ کاروکاری کرنے والے، ونی کرنے والے، یہ جھوٹ دھوکہ فریب کرنے والے، دنیا کا کونسا ایسا گناہ ہے کونسا ایسا جرم ہے جو ہم لوگ نہیں کرتے ہم تو نئے نئے جرم ایجاد کرنے والے لوگ ہیں، بنیاد پرست صاحب کیا ایسے لوگوں کو امتی فرمایا ہوگا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے؟ امتی پر تہمت ہیں ہم لوگ ان میں اضافہ نہ صرف پاکستان بلکے ساری دنیا کے لئیے ناسور ثابت ہوگا۔ یہاں ان لوگوں میں اضافے کی نہیں بلکے صبح دوپہر شام بغیر کسی وقفے کے انکی تعداد میں کمی کرنے کی ضرورت ہے۔
ReplyDeleteمحترم فکرِ پاکستان صاحب، آپ مجھ کو ایک انتہائی جذباتی انسان لگ رہے ہیں، جس کو خود بھی اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ وہ جذبات کی رُو میں کیا کیا بُکتا جا رہا ہے، (ابتسامہ)
Deleteآپ ذرا پھر سے ٹھنڈے دل و کھلے دماغ کے ساتھ اپنے تبصرے کو پڑھیئے اور دیکھیئے کہ میری بات کا انکار کرنے کے لیئے آپ نے کیا کیا لغو باتیں فرمایئں ہیں۔ اور نام رکھا ہے "فکرِ پاکستان"۔
کیا صرف آپ ہی ایک ایسے انسان ہیں جس کو پاکستان کی فکر لگی ہوئی ہے؟ اور کیا پاکستان کی فکر کرنے والے کا ایسا بچکانہ طرز عمل ہونا چاہیئے؟
خیر اب آتے ہیں آپ کے اعتراضات کی طرف:
01. آپ نے فرمایا کہ "اعلان نبوت سے پہلے عرب ۔ ۔ ۔ (میں) جنگل سے بھی بدتر قانون تھے، جو طاقتور تھا صرف اسے ہی عزت سے جینے کا حق تھا، اخلاقی بدحالی کے لئیے تو اتنا ہی کافی ہے کے عضوء تناسل تک کی عبادت کی جاتی تھی۔" ذرا غور کیجیئے کہ کیا آپ بھی اس حقیقت کا اقرار نہیں کررہے ہیں کہ اس دُور میں "استعداد" کا معیار "طاقت" ہی تھا؟
02. شعب ابی طالب کے تین سال، ذرا یہ بھی تو بتلایئے کہ مسلمانوں کی پوری تعداد کتنی تھی اس وقت؟ اور اُسوقت اہلیانِ مکہ سے جنگ کی صُورت میں کتنے بچتے؟
03. واقعہء طائف: آپ یہاں پر یہ انتہائی اہم نقطہ نظر انداز کررہے ہیں کہ اللہ کے نبی پاک صلی اللہ و علیہ وسلم خاتم الانبیاء اور رحمتہ للعالمین ہیں، لہذا یہ بات انکے منسب کے خلاف ہے کہ وہ کسی پوری قوم کو صفحہء ہستی سے مٹادینے کی بددُعا کریں۔ مزید یہ کہ سیرت کا مطالعہ ہمیں یہ بتلاتا ہے کہ اللہ کے نبی پاک صلی اللہ و علیہ وسلم کبھی بھی اپنی ذات کے لیئے کسی سے بدلہ نہیں لیا۔ اور واقعہء طائف میں انکی ذات کو ہی تکالیف دی گیئں تھیں۔
04. فتح مکہ: محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک کے لیئے خاتم الاانبیاء ہیں، انکو اپنی ُسنت سے اپنے پیروکاروں کو ایک فاتح کا طرز عمل سیکھانا تھا، سوچیئے ذرا اگر اُس دن اہلیان مکہ کا قتل عام کیا جاتا تو شائد آج آپ اس دُنیا میں نہیں ہوتے ، کیونکہ محمد بن قاسم، یا احمد شاہ ابدالی، یا پھر شہاب الدین محمد غوری، یا پھر محمود غزنوی کوئی نا کوئی تا مسلمان فاتح اس ُسنتِ نبوی پر عمل کرتا نا اور اسطرح آپ کے آباءو اجداد صفحہء ہستی سے ہی مٹادیئے جاتے، کیا خیال ہے آپکا؟
05. طالبانی دلیل : طالبان نے افغانستان میں جو کارنامہ سر انجام دیا ہے، اور پاکستان پر انکے جو احسانات ہیں اور انکے بدلے میں پاکستانی حکام نے دوستی کا جو صلہ انکو دیا ہے، تو میرے خیال میں اگر وہ پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بھی بجادیں پھر بھی شائد کم ہی ہوگا۔ نہایت غور طلب بات ہے، لیکن آپ رہنے دیجیئے کیونکہ شائد ایسا کرنا آپ کے بس سے باہر ہو۔
06. آپ کے اس جملے کہ "وقت کے ساتھہ ساتھہ طاقت کے معیارات بدلتے رہتے ہیں" اور میرے اس جملے کہ "انسانیت کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہ دنیا ہمیشہ سے "استعداد کی دُنیا ہے" یہ اور بات بھی تاریخ سے ثابت ہوتی ہے کہ حالات کے تغیر سے "استعداد" کا معیار بھی تبدیل ہوجایا کرتا ہے" کے مفھوم میں کیا فرق ہے بھلا؟ لیکن شائد آپ سوچ کر نہیں لکھتے ہیں! کوئی بات نہیں، آپ جیسے اور بھی بہت سے ہیں، اس فانی دُنیا میں۔
07. اگر آپکے اس جملے "کبھی مسلمانوں کی طاقت جذبہ ایمانی کے ساتھہ ساتھہ تیر تلوار اور منجنیق ہوا کرتے تھے" میں "استعداد" کی تعریف میرے تبصرے کے عین مطابق "طاقت" کے مترادف نہیں تو اور کیا ہے؟
جاری ہے ۔ ۔ ۔
گذشتہ سے پیوستہ ۔ ۔ ۔
Delete08. علم سے دوری؟، پہلے علم کی تعریف تو کیجیئے جناب، کہ علم کہتے کس کو ہیں، پھر مزید بات ہوگی، اس ضمن میں!
09. ٹیکنالوجی کو کفر قرار دینا : این الدلیل؟ دلیل کدھر ہے، یعنی کس نے ، کس ٹیکنالوجی کو کفر قرار دیا تھا اور کیوں؟
10. "ہماری طاقت کا معیار آج بھی چودہ سو سال پہلے تک ہی محدود ہے"؛ اطلاعاً عرض ہے کہ مسلمانوں کے پاس "منجنیق" چودہ سو سال پہلے نہیں ہوتی تھی، یہ نعمت عربوں کے ہاتھ بہت بعد میں لگی تھی۔ اور اگر اس بات کو درست مان لیا جائے کہ "ہماری طاقت کا معیار آج بھی چودہ سو سال پہلے تک ہی محدود ہے" تو پھر آپ کو پاکستان کے "اسلامی ایٹم بم" کو چودہ سو سال پہلے بھی موجود ثابت کرنے میں پسینے آجایئں گے۔
11. "حریف پینٹاگون کے ایک کمرے میں بیٹھہ کر تیر اور تلوار کا جواب ڈرون سے دے رہے ہیں"، ایک ہی جملے میں کئی غلطیااں بھری پڑی ہیں، اول یہ کہ آج تک کوئی بھی مائی کا لال ایسا ڈرون ایجاد نہیں کرپایا ہے کہ وہ پینٹاگون کے ایک کمرے میں بیٹھ کر افغانستان اور پاکستان پر ڈرون حملے کرسکے، اس کے لیئے ہم نے خود انکو آپ جیسے مفکرین پاکستان کے مشوروں کے تحت "شمسی ایر بیس" اور "جیکب آباد کا ہوائی اڈا" کرائے پر دے رکھا ہے کہ آؤ اور یہاں سے بحفاظت بیٹھ کر ہمارے ہموطونوں کو مارو، بدلے میں ہمیں کچھ بھیک دے دینا تاکہ ہمارا ملک ترقی کرسکے، سبحان اللہ کیا عقل پائی ہےہمارے مفکرین نے۔ دوئم یہ کہ کسی بھی ایک آدمی کا نام بتلائیے جوکہ آج کی جنگ میں "تیر اور تلوار" استعمال کررہا ہو۔ کیا آپ کو اتنا بھی علم نہیں ہے کہ آج یہ "تیر اور تلوار" صرف کھیلوں میں اور ڈارئینگ رُوم کی سجاوٹ کے کام آتے ہیں؟
12. سوال: دس لاکھہ جذبہ ایمانی والے میدان جنگ میں کھڑے ہوں وہ پچاس ہزار فٹ کی بلندی سے بم مارے گا تو کہاں جائے گا دس لاکھہ کا جذبہ ایمانی؟ جواب: جنت میں، مگر بم مارنے والا ناتو تاحیات پچاس ہزار فٹ کی بلندی پر رہئے گا اور ناہی تاحیات اپنے بل میں چُھپا بیٹھا رہے گا، کبی نا کبھی تو زمین پر بھی اُترے گا، تو اُن دس لاکھہ جذبہ ایمانی والوں کا کوئی نا کوئی ہمدرد اور کوئی نہیں تو بروز قیامت اللہ خود ہی، اُس پچاس ہزار فٹ کی بلندی سے بم مارنے والے کو کہاں پہنچائے گا؟ جہنم میں، تو بتلایئے کہ کامیاب کُون ہوا؟ شائد آپ ٹیپو سلطان شہید کا یہ فرمان بُھلا بیٹھے ہیں کہ "شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے"۔ اب فیصلہ آپ کے ہاتھ ہے کہ "شیر" کی طرح کم ہی سہی مگر عزت کی زندگی گذاریئے یا پھر "گیدڑ" کی طرح بے عزتی کی! مولانا محمد علی جوہر نے بھی ایک نعرہء مستانہ لگایا تھا "آزادی یا مُوت"، جناب کیا فرماتے ہیں اس بارے میں، اگر سن 1900 کے اوائل میں مولانا محمد علی جوہر "آزادی یا مُوت" کا نعرہء مستانہ نہیں لگایا ہوتا تو کیا آج آپ "فکرِ پاکستان" کا نام اختیار کرسکنے کے قابل ہوتے؟
جاری ہے ۔ ۔ ۔
گذشتہ سے پیوستہ ۔ ۔ ۔
Delete13. سوال: بغیر پائلٹ کا ڈرون سینکڑوں لوگوں کو رُوند کے نکل جاتا ہے کیا کرنا ہے ایسی تعداد کا؟ جواب: قسم سے آپ کے اس جملے نے فلم "ُخدا کے لیئے" کی یاد دلادی، اُس میں بھی کچھ ایسا ہی جملہ تھا، مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ آپ ڈرون کا جواب دینے کی بات کرنے کے بجائے ڈرون کے شکار ہونے والوں کی "تعداد" کو رُو رہے ہیں، کہ آخر کار یہ کمبخت اتنی زیادہ تعداد میں کیوں ہیں کہ آپ کے مائی باپ امریکہ و نیٹو کے اتنی ساری دولت تو محض "ڈرون" چلانے میں ہی غرق ہوجاتی ہے اور ان کمبختوں کی تعداد میں کوئی خاص کمی بھی نہیں آتی! کہیں آپ کے نام "فکرِ پاکستان" کے ماسک کے پیچھے آپ کا اصلی نام "فکرِ امریکہ" تو نہیں ہے؟
14. سوال: امتی کہتے کسے ہیں؟ جواب: خاتم الانبیاء محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعثت کے بعد تاقیامت ہر جاندار انکا امتی ہے، چاہے اچھا مسلمان ہو یا گناہگار مسلمان ، چاہے نبی کو مانتا ہو یا نہیں مانتا ہو، چاہے ختم نبوت کا منکر ہو یا پھر حدیث کا منکر ہو، رہے گا نبی کا امتی ہی، کیونکہ انکے بعد کسی اور نبی نے آنا جو نہیں ہے۔
15. "فکر پاکستان" صاحب نے بلکل درست فرمایا کہ " کونسا ایسا جرم ہے جو (فکر پاکستان جیسے) لوگ نہیں کرتے (فکر پاکستان جیسے) تو نئے نئے جرم ایجاد کرنے والے لوگ ہیں" اور یہ کہ "امتی پر تہمت (فکر پاکستان جیسے) لوگ"، اور یہ کہ "(فکر پاکستان جیسے لوگوں کی تعداد) میں اضافہ نہ صرف پاکستان بلکہ ساری دنیا کے لئیے ناسور ثابت ہوگا۔ یہاں ان لوگوں میں اضافے کی نہیں بلکہ صبح دوپہر شام بغیر کسی وقفے کے انکی تعداد میں کمی کرنے کی ضرورت ہے" ، اور مزے کی بات ہے کہ صاحبان ایمان یہ کام پہلے ہی سے کررہے ہیں، جبھی تو انکو "ڈرون" میں شھید ہونے والوں کی فکر کے بجائے "ڈرون" گرانے والوں کی فکر کھائے جارہی ہے۔
خلاصہ: لگے رہیئے جناب "فکر پاکستان" صاحب، آپ جیسے بہت سے اور بھی تھے جو 1979 میں پاکستان میں سرخ انقلاب لانے کی فکر میں دن و رات تڑپتے تھے، مگر جب "صاحبان ایمان" نے سرخ انقلاب کو اپنے خون سے ہمیشہ کے لیئے دفنا دیا تو ان ابن الوقت قسم کے مفکرین پاکستان نے اپنا خدا، قبلہ و کعبہ تبدیل کردیا اور رُوس کو چُھوڑ کر امریکہ بہادر کے قدموں میں بیٹھ گئے، مگر کیا کیجیئے کہ ایک طرف تو "صاحبان ایمان" کی تعداد ہے کہ کم ہوکر نہیں دے رہی ہے تو دوسری طرف انکو تاریخ بھی خوب اچھی طرح سے یاد ہے، تو ایسی کسی صورت میں آپ جیسوں کی دال تو گلنے والی نہیں ہے، لٰہذا آپ بھی "جنگ کے حسن نثار" اور "بی بی سی اردو کے محمد حنیف" کی طرح اپنی بھڑاس نکالتے رہیئے، کبھی نا کبھی تو آپ کا بھی وقت آہی جایئے گا، آخر کب تک "بکرے کی ماں خیر منائے گی؟
ختم شُد
عنیقہ صاحبہ:
Deleteآپ کے مندرجہ بالا تمام تبصروں کا ایک ہی جواب:
آج ایسا کریئے کہ آدھ کلو چم چم اور گلاب جامن کی مٹھائی بمعہ شیرے کے لیکر اس کو چنا چاٹ کی ایک پلیٹ میں مِکس کریں اور اوپر نمک و مرچ کا تڑکا لگایئے اور پھر بمعہ اہل و عیال کے نوش فرمایئے اور ہمیں بتلایئے کہ کیسا رنگ اور ذائقہ تھا؟ کیونکہ ایسا ہی کچھ کچھ آپ کے تبصروں کا حال ہے۔
یقین جایئے ہم پہلے ہی سے آپ کی ذہانت کے قائل ہیں جبھی تو آپ کے مراسلے کو پڑھنے والوں میں سرفہرست ہوتے ہیں، مگر اسکا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ آپ کہیں کی مٹی اور کہیں کا روڑا ڈال کر ہمیں متاثر کرنے کی کوشش کریں۔
اور یہ مطلب بھی قطئ نہیں ہے کہ ہم آپ کے نظریات سے صد دیصد متفق ہیں، جبھی ہم ادھر آیا کرتے ہیں بلکہ ہم تو ادھر اس لیئے آتے ہیں کہ ہم آپ کے طرز تحریر کے فین ہیں اور یہ دیکھنے کو آتے ہیں کہ دیکھو ذرا محترمہ نے کون سی نئی "چول" ماری ہے۔
جتنی پابندی سے آپ آتے ہیں اس سے ہ م یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نظریہ ء اتفاق نہیں ہے۔ آپکی بتائ ہوئ ترکیب سے کسی ٹھوس چیز کے بننے کے امکان زیادہ ہیں اسے نوش کیسے کر پائیں گے کیونکہ آج تک میں یہی سمجھتی رہی ہوں کہ ٹھوس چیزوں کو تناول کیا جاتا ہے۔
Deleteآپ اتنے طویل تبصرے کر کے ایسی تراکیب بتائیں گے تو اس سے فائدہ صرف اشتیاق احمد کو ہوگا۔ وہی جو بچوں کے جاسوسی ناول لکھتے ہیں۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ اس سے میرے بلاگ کی ریٹنگ بہتر ہوجائے۔ قارئین کو یہ ترکیب اپنی ذ٘ہ داری پہ استعمال کرنی ہوگی یا پھر محترم عبدالرءوف کی مدد لینی ہوگی۔ کیونکہ اسکے صحیح مزے سے اس وقت وہی واقف ہیں۔
اچھا یہ بتائیے کہ اصول والی بات پہ متفق ہوئے یا نہیں؟
Delete:)
آپکے پچھلے تبصرے کو ابھی دیکھآ نہیں۔ وقت نہیں ہے اس وقت۔ بعد میں دیکھتی ہوں۔
بلاگ کی ریٹنگ تو شائد بڑھ ہی جائے، مگر جو بھی میرے تبصرے پڑھے گا، تو اسکو تصویر کا دُوسرا رُخ بھی دکھائی دے، باقی ہدایت دینا تو اللہ کا کام ہے۔
Deleteآپ بھی کتنی بھولی ہیں نا؟، اگر اصول والی بات پہ متفق ہوتا تو پھر آپ کے مراسلوں اور تبصروں کو نمکین و میٹھی اشیاء کے مسکچر سے تشبیہ نہیں دے رہا ہوتا۔
اور ترکیب دینے کے ساتھ ساتھ ایک ادھورا محاورہ بھی تو لکھا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ آپ "کہیں کی مٹی اور کہیں کا روڑا" استعمال کرکے اپنی من پسند خیالی "ڈش" تو تیار کرلیتی ہیں مگر کبھی اسکا رنگ، خوشبو یا ذائقہ جاننے کی بھی کوشش کی ہے؟
میں نے آپ کو اصول کی لغوی معنیٰ کا ربط دیا تھا، جس کو دیکھنے کی زحمت کیئے بغیر ہی آپ نے نجانے کہاں کہاں کے دلائل اکھٹے کرکے اپنے تیئں معرکہ سر کرلیا، تو میں نے مزید مباحثہ میں پڑنے کے بجائے آپ کو آپ کے تبصروں حقیقت دکھادی، اسں ترکیب کو آپ ایک اشارہ سمجھتیں کہ عقلمند کے لیئے تو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے، اب یہ آپ پر منحصر تھا کہ آپ اشارے کو سمجھ کر اپنے آپ کو عقلمند مخلوق ثابت کرتیں، مگر آپ نے ترکیب کا مذاق بنا کر اپنے آپ کو ناقص العقل خاتون ثابت کروایا ہے، اور اپنی کمزوری سمجھے بغیر ہی الزام دین اسلام پر تھوپ دیاا جاتا ہے کہ اس نے "عورت" کو ناقص العقل قرار دیا ہے۔
بقول شاعر:
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کی نگہ کرشمہ ساز کرے
آپ نے مجھَ دنیا کے کس معیار پہ رکھ کر تبصروں کی حقیقت دکھا دی۔ آپکے تبصروں کی حقیقت اس وقت مصالحہ چینل پہ کسی نوآموز خاتون کے کھانے کی ترکیبب لگ رہی ہے۔ آپ نے مذہب سے نکل کر کھآنے کی ترکیب میں پناہ لے لی اور اب دوسرے کو ناقص العقل بھی قرار دے دیا۔ میں نے کبھِ نہیں کہا کہ دین نے عورت کو نا قص العقل کہا ہے۔ اگر مجھے یقین ہوتا تو میں اس وقت دائرہ اسلام سے خارج ہوجاءوں۔
Deleteلیکن اگر میں اس بات کو تسلیم کرلوں کے دراص رسول اللہ نے مرد کو تو بتا دیا کہ ایسی عورت سے شادی کرو جو بچے پیدا کر سکتی ہو تو اسی رسول نے عورت کو کیوں نہیں کہا کہ اس مرد سے شادی کرو جو باپ بن سکتا ہو اور ایسے مرد سے شادی نہ کرو جو بانجھ ہو۔
کیا دین میں مرد اس لئے شادی کرتا ہے کہ اسکے بچے ہوں اور عورت اس لئے شادی کرتی ہے کہ وہ مرد کی فرمان بردار کنیز بنے۔ اور مدر اسے دو وقت کا کھانا دے۔
کیا آپ نہیں سمجھتے کہ آُ نے خرد کا نام جنوں رکھ دیا ہے اور جنوں کا خرد۔
محترمہ ، مزید بے فائدہ مباحثہ کرنے کو وقت کا ضیاع سمجھتا ہوں، کیونکہ آپنی بات آپ تک احسن انداز میں پہنچا چکا ہوں اور ماشاء اللہ سے آپ کے پاس علم بھی ہے اور قلم بھی، بس جس چیز کی ضرورت ہے، اُسکو دل کا گداز یا نظر کہتے ہیں، اللہ سے دُعا ہے کہ وہ بھی آپ کو جلد از جلد نصیب ہوجائے، آمین۔
Deleteمحترم بنیاد پرست صاحب۔ آپ کا کہنا ہے کہ اسلام میں اتنی "لچک اور وسعت " ہے کہ وہ کسی بھی معاشرے کے لوگوں کو ان کی خواھش اور ضرورت کے مطابق بہتر نظام دے سکتا ھے.بیشک لچک اور وسعت ہی میں تمام مسائل کا ہوتا حل ہے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ "لچک اور وسعت" اور" بنیاد پرستی" کے الفاظ متضاد سوچ کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ اسلام الدین۔
ReplyDeleteاسلام کا اپنا ایک مکمل نظام ہے، جوکہ لوگوں کی خواہشات کے تابع نہیں ہوتا ہے۔
Deleteمحترم عبدالروف صاحب آپ کا کہنا ہے کہ اسلام کا اپنا ایک مکمل نظام ہے ۔ تو پھر آپ اس سوال کا جواب دینا پسند فرمائیں گے کہ ایک "مکمل نظام" میں سے اتنے سارے فرقے کیسے نکل پڑے ؟ اسلام الدین
Deleteدین اسلام میں فرقے نہیں اور فرقوں میں اسلام نہیں ہے۔
Deleteاس لحاظ سے سوائے جماعت اسلامی کے شرکاء کے باقی تمام لوگ اسلام سے نا بلد ہو گئے اور اسلام سے باہر۔ چنانچہ دین اسلام کے اصل ماننے والے انتہائ قلیل تعداد میں آگئے۔
Deleteکیا اصل معاملہ یہی ہے؟
ادھر جماعت اسلامی کا ذکر کہاں سے آگیا؟ اور ہم تینوں (میں ، آپ اور جناب اسلام الدین) میں سے کون جماعت اسلامی کا ممبر ہے؟
Deleteدینی لحاظ سے فرقے اور گروہ/جماعت میں فرق ہوتا ہے، اللہ اور رسول نے فرقے بنانے سے منع فرمایا ہے، مگر جماعت/گروہ بنانے سے نہیں!، فرقہ دین سے خارج ہوتا ہے، جبکہ جماعت/گروہ نہیں۔
فرقہ اسکو کہتے ہیں جوکہ دین کے بنیادی اصولوں سے ہٹ جائے، مثلاً علوی یا قادیانی دین کے اصولوں سے ہٹ گئے ہیں۔ مگر جعفری یا حنفی فروعات میں اختلاف رکھنے کے باوجود بھی دین کے بنیادی اصولوں پر قائم ہیں۔
فکر پاکستان صاحب لکھتے ہیں :
ReplyDelete"دس لاکھہ جذبہ ایمانی والے میدان جنگ میں کھڑے ہوں وہ پچاس ہزار فٹ کی بلندی سے بم مارے گا تو کہاں جائے گا دس لاکھہ کا جذبہ ایمانی؟ اسلئیے کہا ہے کہ یہ دنیا اب تعداد کی نہیں استعداد کی دنیا ہے، بغیر پائلٹ کا ڈرون سینکڑوں لوگوں کو روند کے نکل جاتا ہے کیا کرنا ہے ایسی تعداد کا؟۔"
جناب یہ جذبہ ایمانی کی ھی تو کمی ہے کہ آپکے اٹامک پاور کے حامل ملک کو ڈرون گرانے کی ھمت نہیں ھورھی اور یہ جذبہ ایمانی ھی ہے کہ آپ کے پڑوس میں طالبان بے سروسامانی کی حالت میں دوسری دفعہ اک سپرپاور کو تنگی کا ناچ نچا رہے ہیں، آپکی دنیا کی سب سے زبردست ٹیکنالوجی کی حامل سپرپاور کبھی مذاکرات کا ڈھونگ رچاتی نظر آتی ہے اور کبھی پاکستان پر الزام بازی شروع کردیتی ہے.. جناب یہ باتیں کم ازکم اک مسلمان کو زیب نہیں دیتیں، ہماری تو تاریخی جنگوں کی امتیازی بات ہی یہی ھے کہ مسلمان جذبہ ایمانی کی بنیاد پر ہر لحاظ سے اپنے سے ذیادہ قوت رکھنے والے لشکر پر غالب آجاتے تھے. آپ اسلام کی ساری تاریخ نہیں پڑھتے پہلے تیس سال میں ھونے والی جنگوں کا حال ھی پڑھ لیں. اقبال نے ان کو دیکھ کر فرمایا تھا
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
میں ٹیکنالوجی کا انکار نہیں کررھا. اسباب کا بالکل انکار کرنا جہالت ھے اور صرف انہی پر اعتبار کرتے ھوۓ انہی کو نجات کا ذریعہ سمجھنا گمراہی ہے.
جہاں تک افرادی قوت کی بات ہے، اس کی اھمیت تو قرآن وحدیث سے ظاھر ہے ہی موجودہ دور میں بھی اسکی اھمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا. مسئلہ صرف مینجمنٹ کا ہے. how we manage our manpower اگر خراب حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے بیروزگاری بڑھ رہی ہے تو اس میں قصور حکومت کا ہے نہ کہ مین پاور کا. چائنہ جیسے ملکوں نے اپنی افرادی قوت کو استعمال کیا، آج وہ سب سے بڑی اکنامک پاور بن رہے ہیں. اگر ذیادہ آبادی غربت کی بنیاد ہوتی تو چائنہ سب سے غریب ملک ھوتا
بنیاد پرست
چائینہ کی آبادی اور ان کا رقبہ اور انکے وسائل ان سب کو آپ نے نثر انداز کر دیا۔ یہ بھی نظر انداز کر دیا کہ چائینہ نے اپنے اتنے بڑے رقبے اور وسائل کے باوجود اپنی آبادی کو بہت زیادہ سخت قوانین کے پابند رکھا اور اب بھی ہے۔ اگر وہ اپنی آبادی کو خرگوشوں کی طرح بڑھنے کے لئے چھوڑ دیتے تو آج آپ انکی مثال دینے کے قابل نہ ہوتے۔
DeleteMuslim Mobs Insult Muhammad's Legacy
ReplyDeleteby Dr. David Liepert, Canadian Muslim Leader and Spokesperson, Interfaith Advisor to the Canadian Council of Imams
How can we expect non-Muslims to believe that Islam is a religion of peace, when Muslim mobs around the world make liars of us all, Muhammad included?
http://www.huffingtonpost.com/dr-david-liepert/muslim-mobs-insult-muhammad-legacy_b_1881514.html
عبدالروف صاحب کتنا ہی اچھا ہوتا کہ آپ میری ذاتیات پر توجہ دینے کے بجائے تحریر پر توجہ دیتے، آپکی معلومات پر ماتم کرنے کا جی چاہ رہا ہے، انتہائی ناقص اور کنویں کے مینڈک کی مانند سوچ کا مظاہرہ کر رہے ہیں آپ۔
ReplyDeleteطاقت علم سے آتی ہے بھائی کفار مکہ بلا کے ذہین اور اس وقت کے دور کے لحاظ سے تعلیم یافتہ تھے کفار مکہ کا سردار ابو سفیان اسکی واضع مثال ہے، جنگ بدر میں وہ میں کفار کی شکست کو بھانپ چکا تھا اسلئیے ہی اس نے بدر میں حصہ نہیں لیا، ایسے ہی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں سے نہیں فرمایا تھا کے جو پڑھائے گا مسلمانوں کو وہ قیدی آزاد ہوگا۔ آج طاقت کے معیار بدل چکے ہیں مسلمانوں کی ایجادات تیر تلوار اور منجنیق تک ہی محدود رہ گئیں دنیا کہاں سے کہاں نکل گئی۔ یہ جو آج جتنے بھی ہتھیار یہ میزائل یہ ایٹم بم یہ جنگی طیارے یہ ریڈار سسٹم یہ ڈرون یہ سب کیا مسلمانوں کی ایجاد ہیںِِ؟ آپ نے فرمایا کے ایٹم بم کو چودہ سو سال پہلے سے ثابت کرنا پڑے گا تو بھائی کیا ایٹم بم کا موجد پاکستان ہے کیا ؟ اسکا موجد بھی امریکہ ہی ہے۔ جتنے ہتھیار میں نے گنوائے ہیں ان میں سے کتنے مسلمانوں کی ایجاد ہیں زرا آپ ہی بتا دیجئیے۔
باقی رہی طالبان کے احسان کی بات تو پتہ نہیں آپ کس دنیا میں رہتے ہیں، کونسا احسان کیسا احسان؟ امریکہ سے ڈالر لے کر کرائے کے قاتلوں والی سروسز دی ہیں بھائی طالبان نے امریکہ کے لئیے جہاد میں مال غنیمت بعد میں آتا ہے یہ کیسا جہاد تھا جہاں ڈالر اور لمبی لمبی گاڑیاں پہلے مل گئیں یعنی مال غنیمت پہلے ملا اور جہاد بعد میں یہ پری پیڈ جہاد تھا بھای، کل جب تک امریکہ سے ڈالر مل رہے تھے تو امریکہ دوست تھا اب جب امریکہ دشمن ہوگیا، امریکہ کو تنہا سپر پاور بنانے میں ان ہی طالبان کا ہاتھہ ہے اب رونا کس بات کا ہے پھر مال کھایا ہے تو مار بھی کھاو اب۔
آپ نے علم کی تعریف پوچھی ہے تو بھائی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علم میں دین اور دنیا کی کوئی تفریق نہیں کی علم کو مومن کی کھوئی ہوئی میراث بتایا ہے یہ نہیں فرمایا کے دینی علم مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہے۔ یہ دینی اور دنیاوی علم کی تفریق بھی آپ جیسے اور آپ جیسوں کے رہنماوں نے کی ہے کیوں کے وہ جانتے تھے کے وہ جتنے ہیر پھیر کرسکتے ہیں وہ دین سے مطعلق علم میں ہی کرسکتے ہیں عمومی علم کی نہ انہیں کوئی معلومات تھیں نہ وہ اس میدان میں کبھی تیر چلا سکے ہیں اسسلئیے ان لوگوں نے علم میں ہی تفریق پیدا کردی کے علم تو صرف دین کا ہوتا ہے دنیا کا تو ہنر ہوتا ہے، جب کے اللہ کے رسول صلی علیہ وسلم سے ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہے، قرآن میں تو مومن کو اپنے دور کے لحاظ سے تیاری کرنے کا حکم دیا گیا ہے اگر یورپ اور امریکہ نے مادی ترقی نہ کی ہوتی تو ہم تو آج بھی جنگ کے لئیے گھوڑے ہی تیار کر رہے ہوتے۔
ReplyDeleteپھر آپ فرما رہے ہیں کے کسی بھی ایک آدمی کا نام بتلائیے جوکہ آج کی جنگ میں "تیر اور تلوار" استعمال کررہا ہو۔ کیا آپ کو اتنا بھی علم نہیں ہے کہ آج یہ "تیر اور تلوار" صرف کھیلوں میں اور ڈارئینگ رُوم کی سجاوٹ کے کام آتے ہیں؟
اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کے جتنے بھی جنگی ہتھیار آج پاکستان اور مسلم دنیا کے پاس ہیں ان میں سے کسی ایک ہتھیار کا نام بتا دیجئیے جو کسی پاکستانی یا کسی مسلم کنٹری کی ایجاد ہو، یہ ایٹم بم پاکستان کی ایجاد لگتی ہے آپکو؟ یہ جنگی جہاز اور جنگی جہاز ہی کیا سادے سے سادہ جہاز بھی کیا پاکستان یا کسی مسلم ملک کی ایجاد ہے ؟ یہ میزائل یہ ریڈار سسٹم یہ جی تھری وغیرہ ان میں سے کسی ایک ہتھیار کا موجد کوئی پاکستانی یا کوئی مسلم کنٹری ہے تو پلیز نام بتائیے تاکے قارئین کی معلومات میں اضافہ ہوسکے۔
اور آپکی اطلاع کے لئیے عرض ہے کے ڈرون اڑے کہیں سے بھی لیکن وہ مونیڑ پینٹاگون سے ہی ہوتا ہے۔
آپ کے ١٢ نمبر والے سوال کے جواب میں علامہ نے کچھہ اسطرح دیا تھا۔
ReplyDeleteہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔
یہ جذباتیت کی سوداگری اب بند کر دیں آپ لوگ، "شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے" بہت مروا لیا غریب لوگوآں کے بچوں ں، جو انہیں اپنے گھر میں پناہ دے گا تو ظاہر ہے دہشت گردوں کے ساتھہ وہ بھی کام میں آئے گا۔
امتی کہتے کسے ہیں؟ جواب: خاتم الانبیاء محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعثت کے بعد تاقیامت ہر جاندار انکا امتی ہے، چاہے اچھا مسلمان ہو یا گناہگار مسلمان ، چاہے نبی کو مانتا ہو یا نہیں مانتا ہو، چاہے ختم نبوت کا منکر ہو یا پھر حدیث کا منکر ہو، رہے گا نبی کا امتی ہی، کیونکہ انکے بعد کسی اور نبی نے آنا جو نہیں ہے
پھر آپ فرماتے ہیں کہ ،
کیا خوب تعریف کی ہے آپ نے امتی کی، امتی ہونے کے لئیے آپ نے تو نبی صلی اللہ علیہ سلم تک کو ماننے کی شرط سے آزاد کر دیا، اس لحاظ سے تو سارے امریکن ساری یورپین اور سارے یہودی بھی نیی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہوئے، پھر تو یہ جہاد نہ ہوا کیوں کے اگر نبی صلی علیہ وسلم کا ایک امتی دوسرے امتی سے لڑے گا تو یہ تو آپس کی لڑائی ہوئی جہاد تو نہ ہوا۔ مجھے ہنسی آرہی ہے آپکی معلومات پر۔
ڈرون امریکہ مار رہا ہے جسکا بدلہ یہ دہشت گرد امریکہ سے تو لے نہیں سکتے تو الٹا اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی مسجدوں مزاروں اور بازاروں میں خود کش حملے کر کے لے رہے ہیں، ان کنجروں نے کبھی کسی شراب خانے کسی جوئے کے اڈے کسی فحاشی کے اڈے پر خود کش حملہ کیوں نہیں کیا؟ یہ کیسے مومن ہیں جو صرف معصوم مسلمانوں کو ہی مارے ہیں؟ یہ دہشتگرد تھے دہشگرد ہیں اور ایسے ہی کتے کی موت مرتے رہیں گے انشاءاللہ۔
محترمہ اصول ہر مذھب کے اپنے ھوتے ہیں جو جب تک وہ مذہب ویلیڈ رھتا ہے تبدیل نہیں ہوتے. آپ مختلف مذاہب کے اصولوں کو آپس میں کیوں کمپیر کر رہی ہیں ؟
ReplyDeleteآپ نے تاریخی حوالوں میں بھی سخت غلطی کی ہے جیسے محمد بن قاسم کا قاتل حجاج کو بنا دیا حالانکہ محمد کو بھی اسی حکمران نے قتل کرایا جس نے حجاج کو قتل کرایا تھا اور اس کی وجہ محمد کی حجاج سے رشتہ داری تھی.
دوسری بات دین کے معاملے میں صحابہ، تابعین و مستند علما پر اعتماد کیے بغیر دین پر چلا جا ہی نہیں سکتا. کیونکہ ھم تک دین باحفاظت پہنچا ھی ان لوگوں کے اخلاص، قربانی اور جہد سے ہے. اور قرآن نے بھی عوام کو علم والوں سے ھی رجوع کرنے کا حکم دیا ھے.
آپ نے بجا کہا کہ حجاج محمد بن قاسم کا قاتل نہیں تھا۔ لیکن محمد بن قاسم کے قتل کی اور بھی وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ حجاج بن یوسف قتل نہیں ہوا تھا بیماری سے مرا تھا۔ کم از کم اس وقت جو حوالے مجھے ملے ہیں اس میں حجاج کا قتل کہیں موجود نہیں۔ ویسے حجاج بن یوسف خود ایک ظالم بادشاہ کی شہرت رکھتا ہے۔
Deleteبحیثیئت مسلمان ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم یہ جانیں کہ اصل مذہب ابتداء ہی سے اسلام تھا۔ آپ نے کہا کہ اصول نہیں بدلتے۔ میں نے تو آپکو بتا دیا کہ حالانکہ اللہ نے ابتداء ہی سے اسلام کو تمام مذاہب کی بنیاد رکھا اسکے باوجود اس نے اپنے اصول نہیں بدلے۔
یہ مسئلہ مذہب کی ارتقائ ہیئت کو تسلیم کے ساتھ حل ہو سکتا ہے۔ لیکن اسے آپ تسلیم نہیں کریں گے۔ یوں اصول کی زد کیں اب بھی آپ آتے ہیں۔
البتہ یہ کہ سائینس اس بات کو اپنی بنیاد بناتی ہے کہ اصول نہیں بدلنا چاہئیے۔ اس لئے جب کوئ بات اصول کے خلاف ہوتی ہے تو ساءینس پھر ایسے اصول کی کھوج میں لگ جاتی ہے جو نئے اور پرانے مشاہدے دونوں کی بنیاد بن جائے۔
۔دین کے سلسلے میں مستند علماء پہ یقین کر کے ہی اسلام میں فرقے بنائے گئے ہیں۔ مجھے تو صرف یہ بتائیے کہپ یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول اللہ نے اپنے قول میں کچھ اور کہا ہو اور عملی زندگی میں کچھ اور کیا ہو۔
Deleteمیں نے تو آپکو بتا دیا کہ حالانکہ اللہ نے ابتداء ہی سے اسلام کو تمام مذاہب کی بنیاد رکھا اسکے باوجود اس نے اپنے اصول نہیں بدلے۔
اس جملے کو درست کر کے یوں پڑھیں،
میں نے تو آپکو بتا دیا کہ حالانکہ اللہ نے ابتداء ہی سے اسلام کو تمام مذاہب کی بنیاد رکھا اسکے باوجود کیا اس نے اپنے اصول نہیں بدلے؟
اللہ نے اپنے اصول کبھی نہیں بدلے ہیں، مگر اس بات کو جاننے کے لیئے آپ کو سب سے پہلے اصول کی تعریف سمجھنی ہوگی، ایک مثال سے واضح کرتا ہوں کہ دین اسلام کا ایک اصول ہے کہ "ساری کائنات کا کوئی خالق و مالک ہے، اور وہ ایک ہے، اور وہ اللہ کی ذات ہے"۔ مجھ کو ذرا بتلا دیجئے کہ آدم علیہ سلام کے وقت سے لیکر آج تک اس اصول میں کیا تبدیلی ہوئی ہے؟"
Deleteمیں نے یہ نہیں کہا کہ اللہ نے ہر اصول بدلا ہے۔ لیکن اصول بدلے گئے ہیں۔ جنکی مثال میں نے دی ان میں سے آپ کتنوں کو رد کرتے ہیں۔ انکو رد کئے بغیر آپ ایک نئ مثال لے آئے۔ میں تو کہہ رہی ہوں کہ اسے تسلیم کرنے کے لئَ آپکو ارتقاء کو ماننا پڑے گا۔ اور ارتقاء میں کوئ نئ چیز پرانی چیز کو یکسر ختم کر کے جنم نہیں لیتی بلکہ اسکی نحئ تعریف پرانی میں سے نکلتی ہے۔
Deleteآپ نے دین اسلام کا ایک اصول بتایا کہ لیکن اتفاق کی بات ہے کہ تمام الہامی مذاہب کا بنیادی اصول یہی ہے جو دین اسلام کا ہے۔ یہ اتفاق کیونکر جنم لے سکا، اب یہ بتائے۔
مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے اپنے اصولوں کے بدلاؤ کے نظریے کی دلیل میں جتنی بھی مثالیں دی ہیں، اول تو وہ سب کی سب شریعتِ محمدی سے باہر کی ہیں، جبکہ میں صرف شریعتِ محمدی کی بات کررہا ہوں، دوئم یہ کہ وہ سبھی مثالیں اصول کی تعریف کے تحت نہین آرہی ہیں، جبھی تو میں نے آپ کے تبصرے کو مکس پلیٹ سے تشبیہ دی تھی، اور اصول کی تعریف بھی دی تھی بمعہ درست مثال کے ساتھ۔
Deleteارتقاء کے سلسلے میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اسلام ارتقاء کا مخالف نہیں ہے، مگر اسلام میں ارتقاء کا وہ مفھوم نہیں ہے جوکہ ڈارؤن اور اسکے پیروکار سمجھتے اور سمجھاتے ہیں۔ مخلوقات میں ارتقاء ایک الگ اور طویل بحث ہے، جوکہ پھر کبھی کرلیں گے، ادھر فلحال اس بات کو واضح کرنا ضروری ہے کہ میرے نزدیک مذہب کے ارتقاء کا نظریہ درست نہیں ہے۔
میں نے اسلام کا جو اصول بیان کیا ہے، اسکا دیگر الہامی مذایب کا بھی بنیادی اصول ہونا اتفاق نہیں بلکہ حقیقت ہے، اور قرآن کی اس بات کی سچائی کی دلیل ہے کہ "پہلے سبھی لوگ ایک دین پر تھے، مگر پھر بعد میں انھوں نے آپس میں اختلاف کیا اور آپس میں فرقے فرقے ہوگئے"۔ آپ کے سوال کا جواب بھی یہی ہے۔
mohtarma Aneeqa mje sirf us dookan ka pata maloom krna hai jahan aap ko purani kitaben mil jati hain.....
ReplyDeleteZaheer Abbas
شہر میں کئ جگہیں ہیں جہاں یہ دوکانیں موجود ہیں جیسے ایک تو بوٹ بیسن کے قریب لبرٹی بک شاپ کے پاس بھی ہے۔
Deleteاسکے علاوہ ، فریئر ہال میں ہر اتوار کو کتابوں کا میلہ لگتا ہے۔ یہاں کچھ دوکانیں ایسی بھی ہیں جہاں سے آپ پرانی کتاب خرید کر پڑھ کر آدھی قیمت پہ واپس کر سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ بچوں کے لئے سستی کتابی آسانی سے مہیا ہیں۔
محترم عتیقہ ناز صاحبہ۔۔ اردو زبان میں اس قدر عمدہ اور عقل سے بھرپور تحریریں ایک جگہ ملناآپ کی بہت ہی عمدہ کاوش ہے۔ آپ کی تحریروں کے خلاف کمٹس پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ لوگوں نے بلاگز کی دنیا میں بھی خلافت قایم کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ بہر حال ہر کسی کو اظہار رائے کی آزادی کے۔ مغربی آلات استعمال کر کے مغرب کو برا کہنا ہم لو گوں کا ہی خاصہ ہے۔ مگر ان کمنٹس کا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں یہ بتانا ہے کہ میں جامعہ کراچی کا طالبعلم ہوں اور آپ کے بلاگ بہت شوق سے پرھتا ہوں اور مجھ جیسے کئی اور طالبعلم بھی۔ اس سماجی گھٹن میں آپ کی سوچ میری اور مجھ جیسے کئی ظالبعلموں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ برائے مہربانی کبھی زندگی میں تھکن محسوس ہو یا مخالفین کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے پہلے میرا اور مجھ جیسے کئی طالبعلموں کا سوچ لیجے گا جو اپنا آگے آنے والا سماج عقل اور سائینس کی بنیادوں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ ہم کو آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ پرانا اور کھوکھلا معاشرہ جس میں ہر مذہب اور قوم کے خلاف نفرت بھی ہو ہم کو نہیں چاہئے۔۔
ReplyDeleteنامعلوم ا
پیارے نامعلوم!
Deleteچونکہ آپ جامعہ کراچی کے طالبعلم ہیں تو امید ہے کہ عُمر کے لحاظ سے آپ میرے چھوٹے بھائی ہوئے، آپ تو جواب اس لیئے لکھ رہا ہوں کیوں کہ آپ نے میرے تبصروں پر بلاواسطہ مگر متعصب تبصرہ کیا ہے، آپ کو برادرآنہ مشورہ ہے کہ آپ بلاتفریق سبھی لوگوں کی تحاریر پڑھا کریں، مگر تعصب سے بالا تر ہوکر، کیونکہ تعصب آپ کو کبھی بھی سچائی کو قبول نہیں دے گا۔
میں عنیقہ جی کا بہت احترام کیا کرتا ہوں مگر اسکا قطعئی یہ مطلب نہیں ہے کہ انکی اندھی عقیدت میں انکی اُن باتوں کو بھی انکھ بند کرکے قبول کرلوں جن سے مختلف پاتیں مجھ کو دوسری زیادہ قابل اعتماد زرائع سے معلوم ہیں۔ پھر میں اِن سے معلومات اکسچینج کرتا ہوں مگر ایک مسئلہ ہمارے رویوں کا بھی ہے کہ جلد ہی ہم علمی مباحثہ سے ذاتیات پر آجاتے ہیں۔ اس سے جہاں دوسرے لوگ بُور ہوتے ہیں، وہیں ہم لوگوں کا قیمتی وقت بھی ضائع ہوتا ہے۔
مگر آپ اپنی آنکھیں ، کان اور دماغ کا کُھلا رکھیں، جلد یا بدیر آپ کے علم میں یہ بات آجائے گی کہ اس دنیا کی نجات دینِ اسلام کے مکمل نفاذ میں ہی ہے، اور خلافت کا نظام ہی دراصل اسلام کے سیاسی نظام کا نام ہے۔ تو جب آپ اسلام کو مکمل نافذ کرنے کی کوشش کریں گے تو لامحالہ آپ کو خلافت کا نظام نافذ کرنا پڑے گا، اور اگر ایسا نہیں کریں گیں تو آپ کو پاکستان جیسی ہی صورت حال سے واسطہ پڑے گا، جہاں اسلام کا نام تو ہے مگر اسلام کا نظام نہیں! یعنی آدھا تیتر اور آدھا بٹیر، کیا اِسی کو مُنافقت نہیں کہتے ہیں ؟
ویسے بھی قرآن کا حُکم ہے کہ "اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ"، اور ایک جگہ آتا ہے کہ "کیا تم دین کے کچھ حصے پر عمل کرتے ہو اور کچھ کو چھوڑتے ہو؟" اب ان احکامات کا مفھوم جاننے کے لیئے آپ عنیقہ سے یا مجھ سے یا کسی بھی مُلا سے رابطہ کرنے کے بجائے اپنی عقل سے قرآن کی ان باتوں پر غور کریں، حقیقت خود بخود آشکار ہو جائے گی۔ انشاء اللہ۔ اور جب یہ بات سمجھ میں آجائے تو ادھر ضرور لکھیئے گا تاکہ دُوسروں کو بھی نفع ہو۔
وسلام