Monday, February 27, 2012

ایک شہر، تین اجتماعات

ابھی تقدس سے باہر کے لئے لکھی گئ ایک تحریر کے حوالہ جات کو ایک آخری نظر سے دیکھنا چاہ رہی تھی کہ اس اتوار کے ندیم ایف پراچہ کے مضمون پہ نظر پڑ گئ۔ مضمون مزے کا تھا۔ 
گذشتہ دنوں کراچی میں چند دلچسپ اجتماعات ہوئے۔ ایک  کراچی لٹریچر فیسٹیول،  اسکے متوازی چلنے والا دوسرا دفاع پاکستان کا اجتماع اور تیسرا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی سیاسی جماعت کی طرف سے خواتین کے لئے کیا گیا پہلا اجتماع۔
کراچی لٹریچر فیسٹیول کے بارے میں کیا کہوں، کراچی کے سب سے پوش علاقے ڈیفینس ہاءوسنگ سوسائیٹی کے بھی ایک دور افتادہ  کونے میں منعقدہ کسی تقریب کے لئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ اسکے منعقد کرنے میں یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ کہیں غلطی سے بھی کوئ ایرا غیرا نتھو خیرا ایسا اس میں  نہ آجائے جس کا ہائ کلاس سے کوئ تعلق نہ ہو، اردو لکھنے پڑھنےوالے اس سے جتنا دور رہیں اتنا اچھا ہے ، ایسا نہ ہو کہ عام لوگوں کو اس سے کوئ انسپیریشن حاصل ہو جائے یا یہ کہیں واقعی پاکستان میں لٹریچر کو عام نہ کر ڈالے۔ اور صورت حال کچھ ایسی بنی رہتی ہے  کہ ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں۔ وہ تو تقریب کے احوال اردو میں اتنی تفصیل سے نہیں پہنچ پاتے اس لئے لوگوں کو پتہ نہیں چل پاتا کہ اس بہانے کیسے کیسے غیر ملکی ایجنٹ ہمارے یہاں گھوم پھر کر چلے جاتے ہیں۔
دوسرا اجتماع دفاع پاکستان والوں کا تھا۔  
مقام تھا اسکا قائد اعظم کا مزار۔ خدا جانے کیوں چونسٹھ سال کے بعد قائد اعظم کے سر پہ سب سوار ہونے کو تیار ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ سب کیا دھرا انہی کا تھا اس لئے مر کر بھی چین نہیں پا سکتے۔ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ بہت پاءوں پھیلا کر سو لئے کنج مزار میں۔  ایک کے بعد ایک اجتماع وہیں ہو رہا ہے۔ اب انہیں بھی لگ پتہ گیا ہوگا  بالکل براہ راست کے پاکستان میں ہو کیا رہا ہے۔
دفاع پاکستان کے متعلق میرا خیال تھا کہ جماعۃ الدعوۃ والے کر رہے ہیں۔ جی وہی جماعت جس پہ حکومت کی طرف سے پابندی ہے۔ پھر شہر میں لگے اشتہاروں سے پتہ چلا کہ جماعت اسلامی والے بھی شامل ہیں۔ پھر معلوم ہوا کہ شیخ رشید جیسی سیاسی ہستی  اور اعجاز الحق بھی تشریف لا رہے ہیں۔
اوہ تو یہ آئ ایس آئ والوں کا جلوہ ہے۔ میں نے ہی نہیں بیشتر دیگر لوگوں نے بھی یہی خیال کیا۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہم میں کوئ غیر معمولی ذہانت پائ جاتی ہے۔ بلکہ آپ نے اس سکھ کا لطیفہ تو سنا ہوگا جو ایک الماری پہ فدا ہو گیا تھا۔ لیکن دوکاندار اسے دینے کو تیار نہیں تھا کہ ہم سکھوں کو نہیں دیتے۔ پھر اسکے بعد وہ کئ دفعہ ہندو ، عیسائ اور مسلمان کے بھیس بدل کر اسکے پاس پہنچا۔ لیکن ہر دفعہ اس نے ایک ہی جواب دیا۔ ہم سکھوں کو نہیں دیتے۔ 'او تجھے پتہ کیسے لگ جاتا ہے کہ میں سکھ ہوں'۔ سکھ نے عاجز آکر پوچھا۔ 'تم ہر دفعہ فریج کو الماری کہتے ہو'۔ دوکاندار نے عجز سے جواب دیا۔
دفاع پاکستان میں ہونا کیا تھا وہی پاکستان کے دشمنوں کی آنکھیں پھوڑ دینے کا دعوی، جبکہ یہاں ابھی ہمیں ہی کچھ نظر نہیں آرہا۔ تاریخ سے گن گن کر ان واقعات کے حوالے جن سے خون میں ویسا ہی ابال پیدا ہو جیسا باسی کڑھی میں پیدا ہوتا ہے۔  اور پھر انتقام در انتقام سے انکی بینڈ بجانے کا تہیہ۔ اللہ جانتا ہے کہ مجھے نہیں معلوم ، یہاں بینڈ سے کیا مراد ہے۔
اس اجتماع میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی، اسکی وجہ یہ تھی کہ لٹریچر فیسٹیول والوں کے مقابلے میں دفاع پاکستان والوں کو اپنے پیغام کے عام ہونے کا کوئ خوف نہ تھا۔ حالانکہ انکا پیغام سنا ہے کہ حرف بحرف نفرت کا پیغام تھا۔ لیکن اسے سننے کے لئے لوگ ون ڈی، ٹو کے اور ڈبلیو گیارہ جیسی بسوں سے بآسانی پہنچ سکتے تھے۔ حتی کہ جو اس میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے وہ بھی اس جگہ سے اسے سنے بغیر نہیں گذر سکتے تھے۔ تقریریں کرنے والے اور سننے والے انگریزی نہیں اردو میں رواں تھے۔ کیونکہ انکی دل سے خواہش تھی کہ وہ جس جذبے سے بول رہے ہیں وہ جذبہ انکے سامعین کے رگ و ریشے میں اتر جائے اور جب جلسہ ختم ہو تو یہاں موجود ہر شخص ایک مرد مجاہد ہو۔ موسیقی سے اجتناب کیا گیا اور صرف اپنی بغلیں اور دوسروں کی اینٹ سے اینٹ بجانے پہ ہی اکتفا کیا گیا۔ 
سب سے اہم بات یہ تھی کہ جلسے کی پوری کارروائ میں ایک بھی خاتون موجود نہ تھی۔ دفاع جیسا اہم موضوع خواتین کی سمجھ میں کیا خاک آئے گا۔ انہیں تو اپنے دفاع کے لئے بھی بچاءو بچاءو کا نعرہ بلند کرنا پڑتا ہے۔ پھر اللہ کا کوئ بندہ انکا دفاع کرتا ہے یہ الگ بات کے اللہ ہی کا ایک اور بندہ انہیں مورچہ بند ہونے پہ مجبور کرتا ہے۔ یوں اگر خواتین کے دفاع کی بات ہو رہی ہو تو بھی کہانی آخیر میں دو مردوں کے درمیان جنگ کی صورت بن جاتی ہے۔
قسمت کی یہ ستم ظریفی کراچی جیسے ظالم شہر میں ہی نظر آسکتی ہے کہ کہاں تو ایک مقام پہ خون کی ندیاں بہائ جا رہی تھیں کہاں اسی مقام پہ ایک ہفتے بعد بھنگڑے ڈالے جا رہے تھے۔  میں تو بھنگڑے جیسا محتاط لفظ استعمال کر رہی ہوں لیکن لوگوں کے خیال میں اس کے لئے درست لفظ مجرا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ مرد اگر مجرا کر رہے تو بھی کبھی وہ محفل سماع جیسا نیک نام حاصل کرتا ہے، کبھی جدید موسیقی جیسے راک اینڈ رول کہلاتا ہے  یا کبھی شغل اور لوک ڈانس  وغیرہ کہلاتا ہے مثلاً خٹک ڈانس، بھنگڑا۔ اً لیکن خواتین اگر شغلاً بھی ہاتھ پیر ، کولہے ہلا لیں مثلاً لڈی بھی ڈال لیں تو اسے مجرے جیسا پُر شوق نام کیوں دیا جاتا ہے؟
اچھا بہر حال ناقدین کی نظر میں خواتین کا مجرا کرایا گیا ۔ کچھ لوگوں کو یہ اعتراض ہے کہ وہ بھی ننگے سر۔ یعنی اگر سر پہ دوپٹہ ہوتا تو اتنا مکروہ نہ ہوتا۔
بہر حال جلسہ کیوں کہ خواتین سے متعلق تھا اس لئے جو رنگینی اس میں نہ ہوتی وہ کم ہوتی کہ وجود زن سے ہے تصویر کائینات میں رنگ۔ دفاع پاکستان کے خون کے دھبے دھونے کے لئے یا یہ کہ منتظمین نے دفاع پاکستان والوں کے سینے پہ مونگ دلنے کے لئے خواتین کو اسی مقام پہ چوڑیاں بیچیں، پہنائیں اور مہندیاں بھی لگوائیں۔
پونے دو کروڑ کی آبادی رکھنے والے شہر کی خواتین کی توجہ حاصل کرنا ایک  نئے رجحان یا تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں سیاسی پارٹیاں اس بات پہ متفق ہوتی ہوں کہ  ملک کے بعض حصوں میں خواتین کو ووٹ نہیں ڈالنے دیا جائے گا۔ اس میں مسلم لیگ سے لے کر پی ٹی آئ والے بلکہ اے این پی بھی شامل ہوتی ہے۔ وہاں خواتین کی بحیثیت ووٹر آءو بھگت ہونا اانکے لئے خاصہ پر جوش ہے۔
خواتین کے مسائل کے حوالے سے اگرچہ کچھ زیادہ نہیں کہا گیا۔  جلسہ کراچی میں ہوا تھا اور یہاں خواتین کی بڑی تعداد ملازمت پیشہ ہے جو مختلف صنعتوں میں نہ صرف کام کر رہی ہیں بلکہ گھریلو صنعتیں بھی چلا رہی ہیں۔ انکے مسائل بھی اسی حساب سے ہیں۔  بہر حال ہم اس آواز میں شامل ہیں  کہ خواتین پہ تیزاب پھینکنے والوں کے لئے سزائے موت سے کم سزا نہیں ہونی چاہئیے۔
اچھا تو ان تین اجتماعات کے بعد میں کیا سوچ رہی ہوں؟ بس یہ کہ خواتین اور مرد وں کے دلوں تک پہنچنے کے لئے کتنے مختلف راستے اختیار کرنا پڑتے ہیں۔ کیا کسی ایک سیاسی پارٹی کے لئے یہ دونوں راستے بیک وقت اختیار کرنا ممکن ہے؟

Thursday, February 23, 2012

بلوچستان؛ سرادر کی فوج یا فوج کی سرداری

 امریکیوں نے آزاد بلوچستان کے لئے اپنی سینیٹ میں ایک قرارداد پاس کی۔ وجہ یہ ہے کہ خنجر چلے کسی پہ تڑپتے وہ ہیں، سارے جہاں کا درد انکے جگر میں ہے۔ اسکی دوسری وجہ یہ ہے کہ جنگ ہو یا دوسرے ممالک کے حصے بخرے کرنے کا معاملہ یہ دونوں ہی مشغلے انہیں بھاتے ہیں۔ انکے جنگی بحری بیڑے سمندروں پہ حاضر رہتے ہیں اور انکے مقاصد میں آسانی پیدا کرنے والے صحافی اور سیاستداں اپنی زمینوں میں سرنگیں بنائے انکے منتظر۔
بی بی سی اردو سروس میں وسعت اللہ خان صاحب کا ایک مضمون بلوچستان کے متعلق پڑھ رہی تھی۔  جسے پڑھ کر مجھ جیسے پاکستانی کو لگتا ہے کہ یا تو باغی بلوچ سرداروں نے املا کرایا ہے یا پھر امریکی کانگریس مین نے اپنی قرارداد کے ساتھ اس قسم کے مضامین بھی نتھی کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ بلوچستان کے ساتھ سیاسی غلطیاں اور زیادتیاں ہوئ ہیں لیکن کیا ان سیاسی غلطیوں اور زیادتیوں میں وہ سردار شامل نہیں جو آج آزاد بلوچستان کا نعرہ بلند کر رہے ہیں۔
پچھلے چونسٹھ سال میں اگر حکومت پاکستان کی ملی بھگت سے بلوچستان میں سڑکوں کا جال نہیں بچھا، انگریزی میڈیم اسکول نہیں بنائے گئے، ہسپتال قائم نہیں ہوئے تو کیا پچھلے چونسٹھ سال میں  مری، بگتی اور مینگل سردار اس جہد مسلسل میں اپنی جانیں گنواتے رہے کہ انکے ہم قوموں کو یہ زندگی کی سہولیات مل جائیں۔ یہ بات سوچتے ہوئے بھی ہمیں شرمندگی ہوتی ہے کہ آزاد بلوچستان کا نعرہ بلند کرنے والے یہ سردار آزادی صرف اپنے لئے چاہتے ہیں۔ اور اسکے لئے انہوں نے کیا امریکہ اور کیا لندن ہر جگہ ان لابیز سے گٹھ جوڑ کیا ہوا ہے جو انکے مقاصد تک انہیں پہنچا سکیں۔
یہ سب سردار ااور انکی نسلیں پاکستان ہی نہیں پاکستان سے باہر بھی عیاشی کرتی رہیں اور رونا اس بات کا رہا کہ بلوچستان کے ساتھ بڑی زیادتی ہوتی ہے۔ جس بلوچ کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے اس سے کیا مینگل، کیا بگتی اور کیا مری ان سب سرداروں میں سے کسے دلچسپی ہے؟
ان لوگوں کی دلچسپی اگر کسی چیز میں ہے تو وہ یہ کہ بلوچستان میں قدرتی دولت کے جو بھی ذخائر ہیں اسکی آمدنی ان میں اس طرح تقسیم  ہو جائے کہ  کسی اور کے حصے میں آنے نہ پائے۔ یہ 'کسی اور' جسے وہ اپنی قوم کے سامنے پیش کرتے ہیں ہر وہ شخص ہوتا ہے جو بلوچ نہیں ہے۔ دوسری قومیتوں کا خوف پیدا کر کے اپنے خوفزدہ لوگوں کو کس چیز سے خوفزدہ کرتے ہیں۔  کیا ایک عام بلوچ کو اس بات سے ڈرنا چاہئیے کہ وہ اپنے سردار کی گولی کھا کر بے گناہ مرنے کے اعزاز سے محروم ہوگا اور فوج کی گولی سے مارا جائے گا۔ فوج کی گولی سے مرنا حرام موت اور سردار کی گولی سے مرنا رتبہ ء عالی ہے۔
اختر مینگل صاحب جو اس وقت کسی ترقی یافتہ ملک میں بیٹھے گلچھرے اڑا رہے ہونگے کیا انکے منصوبوں میں کبھی بلوچستان میں سڑک بنانے، اسکول بنانے اور ہسپتال بنانے کے منصوبے شامل رہے۔ کیا انکے مطالبات میں کبھی یہ چیز شامل رہی کہ انکے صوبے کے عوام کو یہ سہولیات دی جائیں۔ نواب بگتی کے پوتے براہمداغ بگتی فرماتے ہیں کہ آزاد بلوچستان ایک اٹل حقیقت ہے۔ ذرا وہی اپنے دادا کے بلوچوں پہ احسان گنوا دیں۔ کوئ ایک اسکول، کوئ ایک روڈ، کوئ ایک ہسپتال ، کوئ ایک  عوامی فلاح کا کام جو ایڈوینچر کے شوقین انکے دادا نے بلوچوں کو عظیم قوم بنانے کے لئے انجام دیا۔  بخدا، مجھ جیسا ہر پاکستانی ان سے نا آشنا ہے۔ چلیں وسعت اللہ خان صاحب ہی بتا دیں کہ سرداروں نے اپنی قوم پہ جو احسانات کئے یا کرنے کی کوشش کی۔ جسکی بنیاد پہ آج بلوچ قوم کو انکے پیچھے کھڑے ہو کر آزاد بلوچستان کی جنگ لڑنی چاہئیے۔ جی وسعت اللہ خان صاحب، ہم سب ان کارہائے نمایاں کو جاننے کے لئے بے تاب ہیں۔
اس وقت بھی بلوچستان کی صورت حال کا نقشہ ایسا کھینچا جاتا ہے جیسا کہ بنگلہ دیش کا سقوط کے وقت تھا۔ حالانکہ بنگلہ دیش اور بلوچستان اور بنگلہ دیش میں ایک واضح فرق موجود ہے اور وہ یہ کہ بنگلہ دیش میں آزادی کے لئے عوامی شعور موجود تھا اور انہیں معلوم تھا کہ انہیں آزادی کے بعد کیا کرنا ہے۔ بلوچستان میں عوام اس بات سے واقف ہی نہیں کہ انسان شعور رکھتا ہے۔ انکی بڑی تعداد گٹکے اور چرس کے کے نشے میں گم ہے۔  یہی نہیں بنگالی ، بنگالی قومیت کا مضبوط تصور رکھتے تھے، انکی زبان اور ادب موجود تھا۔  بلوچستان میں بلوچ قومیت کا تصور ہی چند سرداروں تک محدود ہے جو کہ اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اپنی مٹی یا اپنے لوگوں سے وفاداری کی جنگ انہیں کیا معلوم۔ بھلا کوئ کیڑے مکوڑوں کی خود مختاری کے لئے لڑتا ہے۔ 
دوسری ظالمانہ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ تو پشتون ہیں۔ پھر یہاں کی آبادی کا دوسرا بڑا حصہ ان قبائل سے تعلق رکھتا ہے جو لاسی کہلاتے ہیں اور اپنی بنیاد میں یہ سندھی بلوچ ہیں۔ اسکے بعد یہاں پنجابیوں کی باری آتی ہے جو کہ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ایک ایسے بلوچستان کو کس آزاد ملک میں تخلیق کیا جائے گا۔
اچھا ہم یہ تصور کر لیتے ہیں کہ یہ خود غرض، ظالم سردار عوامی حمایت کے ساتھ آزاد بلوچستان حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے. کیونکہ فوج نے ان کو آزادی سے محروم کر رکھا ہے۔  تو انکے آزاد ملک کا انتظام کون چلائے گا۔ وہ کیڑے مکوڑے تو نہیں چلا پائیں گے جو انہوں نے پچھلے چونسٹھ سالوں میں اپنی غلامی کے کوکون میں محفوظ کر کے اپنی بادشاہت کی تسکین کے لئے رکھے ہوئے ہیں۔ پھر یقیناً یہ امریکی سینیٹرز یا لندن کے صحافی آکر ہی انکی مدد کریں گے۔ ایک دفعہ پھر قدرتی دولت میں انہیں ساجھے دار بنانا پڑے گا۔ تو اب کیا مسئلہ ہے؟
مجھ جیسے پاکستانیوں کو یہ بھی سمجھنا ہے کہ سردار اپنی رعایا پہ زندگی تنگ کر دے انہیں انسان تسلیم کرنے سے انکار کر دے، انکے خاندان کے خاندان ختم کر دے تو کوئ نکتہ ء اعتراض نہیں ابھرتا۔ کوئ اللہ کا بندہ نہیں کہتا کہ انسانی حقوق کی پاسداری کی جائے اور ان زمینی فرعونوں کے خلاف کارروائ کی جائے۔ لیکن جب سیاسی بساط پہ چالیں چلی جاتی ہیں , فوج یا حکومتی ایسے رد عمل پہ امریکی کانگریس مین قرار دادیں پاس کرتے ہیں تو کیا مینگل، کیا بگتی اور کیا وسعت اللہ خان سب ہی ایک آواز ہو جاتے ہیں۔ 
جس طرح پاکستانیوں کو کسی چیز سے نفرت دلانے کے لِئے ایک ہی نعرہ کافی ہے کہ یہ امریکیوں نے کیا ہے اسی طرح یوں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان سے باہر ایک حلقہ صرف یہ نعرہ لگانے میں دلچسپی رکھتا ہے کہ یہ ظلم پاکستانی فوج کا کام ہے۔ کیا ان دو انتہائ صورتوں کے درمیان پاکستانی عوام کے لئے کوئ امید موجود ہے؟

Saturday, February 18, 2012

اہم تعلیمی مسئلہ، رمضان کی چھٹیاں

فروری کا مہینہ صرف ویلینٹائینز ڈے کا مہینہ نہیں۔ جب کچھ جوڑے سوچتے ہیں کہ انکے آنگن میں بچوں کی صورت پھول کھلیں گے۔ بلکہ ان والدین کے لئے بھی لمحہ ء فکریہ  ہے جن کے بچے موجود ہیں اور انہیں اسکول میں داخلہ چاہئیے۔ جیسے میری بیٹی اب اپنی مونٹیسوری ختم کر کے پہلی جماعت میں جائے گی۔ میرے لئے اہم سوال ہے  کس اسکول میں؟
ابھی مہینہ بھر پہلے میں اپنی بچی کی مونٹیسوری ٹیچر پہ خفا ہوئ کہ یہ کیا طریقہ ہے ایک کے بعد ایک پہاڑے رٹائے جا  رہے ہیں۔ ایک مونٹیسوری کے بچے کے لئے چھ تک پہاڑے یاد کرنا بالکل ضروری نہیں ہے۔  سال کے بارہ مہینوں سے لے کر جانوروں، پھولوں، سبزیوں، پرندوں اور خدا جانے کن کن چیزوں  کے ناموں کے ہجے انگلش اور اردو میں۔ یہ تو زیادتی ہے۔ جواب ملا کیونکہ ماما پارسی اور بی وی ایس میں داخلے کے وقت یہ سب پوچھا جاتا ہے۔  اور پھر وہ پہلی جماعت میں ان بچوں کو جب لے لیں گے تو یہ سب دو سال بعد پڑھائیں گے۔ میں ناراض ہو کر بھی ہنس دی۔ ان سے کوئ نہیں پوچھے گا کہ آپکا پہلی جماعت کا سلیبس کیا ہے اور آپ نے کیوں والدین کو مجبور کیا کہ وہ آپکے داخلہ ٹیسٹ کے لئے اپنے بچوں سے انکا بچپن چھین لیں۔
اچھا وہ والدین کیا کریں جنہیں اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں داخل نہیں کروانا ہے۔ وہ بھیڑ چال میں پھنسے ہوئے سر پکڑے بیٹھے ہیں۔
ان مشنری اسکولوں کی طرف والدین کے بھاگنے کی ایک بنیادی وجہ انکا بہتر طریقہ ء تعلیم اور مناسب فیس ہے۔ کہنے کو ہمارے ملک میں لوگوں کا ایک پسندیدہ مشغلہ اپنے مذہب کی تبلیغ اور جہاد ہے  لیکن تعلیمی میدان میں بہتر کارکردگی اور مناسب فیس جو اسکول دیتے ہیں وہ عیسائ تبلیغیوں کے ہاتھوں چلنے والے اسکول ہیں۔ مذاق؟ میں نہیں کر رہی یہ حقیقت ہے۔
کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں جنریشنز نامی اسکول ہے جو علاقے میں بڑی اچھی شہرت رکھتا ہے۔ ایک وجہ بہتر تعلیمی معیار اور دوسری وجہ اسکول انتظامیہ کا مذہبی رجحان۔ تمام خواتین اساتذہ کا اسکارف پہننا ضروری ہے۔ فیس ہے اس اسکول کی تقریباً دس  ہزار ماہانہ، داخلہ پیکیج تقریباً پچاس ساٹھ  ہزار بنتا ہے۔
جبکہ ماما پارسی، سینٹ جوزف، سینٹ پال، سینٹ لارنس،  بی وی ایس، سینٹ پیٹرکس ان سب اسکولوں کی ماہانہ فیس تین سے چار  ہزار بنتی ہے اور اس بات کا میں آپکو یقین دلادوں کہ جنریشنز کی تعلیمی کارکردگی ان تمام مشنری اسکولوں سے بہتر نہیں ہے سوائے اسکے کہ یہاں پڑھنے کے بعد آپکا بچہ گھر میں یہ اعلان کرے گا کہ امّاں آپ آدھی آستین کی قمیض نہیں پہن سکتیں، یہ غیر اسلامی ہوتا ہے۔
جنریشنز سے ہٹ کر فاءونڈیشن اسکول بھی فیس کی مد میں اس سے زیادہ مطالبات رکھتا ہے۔ ادھر بیکن ہاءوس اور سٹی اسکول بھی اپنی ابتداء آٹھ ہزار سے کرتے ہیں۔ ہر سال ان اسکولوں کی فیس میں دس فی صد اضافہ ہوتا ہے۔ یعنی اگر ایک بچہ ان اسکولوں سے میٹرک کر رہا ہے تو دس سال بعد اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسکی کتنی فیس ہوگی۔
  مشنری اسکولوں کے لئے اتنی کم فیس میں اتنی معیاری تعلیم اور ڈسپلن پیدا کرنا کیسے ممکن ہو جاتا ہے؟ اس میں بھی کوئ کفار کی سازش سمجھ میں آتی ہے۔ کیونکہ ہمارے عمران خان بھی جب ایک تعلیمی ادارہ بناتے ہیں تو اسکی فیس کم رکھنا ممکن نہیں ہو پاتا۔
اب ہم اپنے بنیادی مسئلے کہ طرف واپس آتے ہیں۔ ہمارا بچہ کس اسکول میں جائے گا۔ یہ تمام مشنری اسکول میرے گھر سے اتنے فاصلے پہ ہیں کہ ایک اسکول وین کو اسکول شروع ہونے سے تقریباً سوا گھنٹے پہلے اسے گھر سے لینا ہوگا اور جب وہ اسے گھر واپس چھوڑے گی تو دن کے ساڑھے تین بج رہے ہونگے۔ مجھے اپنی بیٹی اس ساری مشقت کے لئے چھوٹی لگتی ہے۔ میں سوچتی ہوں اس ساری محنت کے بعد بچے کے پاس کتنا وقت بچے گا کہ وہ اپنے ماحول پہ بھی ایک نظر ڈال لےاور یہ جانے کے کتاب اور اسکول سے الگ بھی ایک دنیا اسکے اطراف میں بستی ہے۔
اس سارے بحران کی وجہ حکومت کی ناقص تعلیمی پالیسی ہے اگر کوئ تعلیمی پالیسی ہے تو۔ ہر سال تعلیمی سیشن شروع ہونے سے پہلے حکومت کا سر درد پچھلے کئ سالوں سے صرف ایک مسئلہ لگتا ہے اور وہ یہ کہ رمضان کے پورے مہینے چھٹیاں دی جائیں یا نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ڈیڑھ ہزار سال کے بعد اب کوئ نئے رمضان آنا شروع ہوئے ہیں۔ یہی قوم رمضان میں پیٹ پہ پتھر باندھ کر جنگیں لڑتی تھی اور اسی قوم کے منتظمین یہ چاہتے ہیں کہ رمضان میں اب اسکول بند رہیں تاکہ قوم زیادہ خشوع خضوع سے رمضان میں روزے رکھ سکے۔  چونکہ تعلیم کے دیگر معاملات پہ سوچنے کے لئے کچھ نہیں رہا۔ اس لئے اس سال پھر صرف ایک مسئلہ ہے کہ گرمیوں کی چھٹیاں جولائ میں ہوں یا جون میں۔ کیونکہ رمضان جولائ کے اخیر میں شروع ہو رہے ہیں۔
لوگ پھر بھی  ہم سے پوچھتے ہیں کہ جناب جہادی اور تبلیغی سوچ کیسے علمی سرگرمیوں کو متائثر کر سکتی ہے؟
 ہم والدین حکومت سے یہ سوال نہیں کر سکتے کہ اسکے لئے یہ کیوں ممکن نہیں کہ ہر یونین کونسل میں صرف ایک معیاری اسکول بنا دے جس کی فیس غریب طبقے کے لئے ادائیگی کے قابل ہو۔ جہاں میرٹ پہ داخلہ ہو اور ہر امیر یا غریب کا بچہ صرف میرٹ پہ داخلہ پا سکے۔ جہاں اساتذہ بچوں کو تعلیم دینے کے لئے باقاعدگی سے اسکول آ سکیں۔ ہم تو اب یہ عیاشی بھی نہیں چاہ رہے ہیں کہ ہر بچے کو تعلیم دی جائے۔ لیکن جو اپنے آپکو اہل ثابت کر رہے ہیں انکے لئے تو کچھ کیا جائے۔  کچھ کو تو دی جائے۔
اسکی وجہ یہ ہے کہ ابھی ہفتہ بھر پہلے گھر میں صفائ کا کام کرنے والی ماسی نے بتایا کہ اسکا بچہ گورنمنٹ اسکول میں پڑھتا ہے۔ کتنی مشکل سے اسے اسکول بھیجتی ہوں اور ایک ہفتے سے اسکول میں کوئ پڑھائ نہیں ہوئ کیونکہ کوئ ٹیچر ہی نہیں آرہا۔ یہ کراچی میں واقع گورنمنٹ اسکول کا حال ہے۔ دور دراز کے علاقے تو کسی گنتی میں نہیں جہاں اسکول صرف کاغذ پہ موجود ہیں اورانہیں بھوت اسکول کہا جاتا ہے۔
 سر دست پیٹ بھرے لوگوں اور انتظامیہ دونوں کے نزدیک اہم تعلیمی مسئلہ یہ ہے کہ گرمیوں کی چھٹیاں رمضان سے  پہلےیا بعد میں۔ جب تک انتظامیہ اس معاملے پہ سوچ و بچار کر کے فارغ ہو  میں اپنے بیلینس کا حساب ایک دفعہ پھر لگاءوں  میری بیٹی کو اس سال پہلی جماعت میں داخلہ لینا ہے۔

Tuesday, February 14, 2012

سائینس کا مومن

سائینس اور بالخصوص کیمیاء پڑھنے والوں کے لئے کیکولے کا نام اجنبی نہیں۔ کیکولے کے حصے میں بینزین مالیکیول کی ساخت کی دریافت کا سہرا جاتا ہے۔ جسکے بعد کیمیاء میں ایرومیٹک مرکبات کی ایک نئ گروہ بندی سامنے آئ۔  یہ مرکبات ڈبل بانڈز رکھتے ہیں لیکن یہ ڈبل بانڈ رکھنے والے مرکبات کی نسبت نہ صرف کہیں زیادہ مضبوط ساخت رکھتے ہیں بلکہ انکے کیمیائ تعاملات بھی ان سے مختلف ہوتے ہیں۔
کیکولے نے اسے کیسے حل کیا؟
یہ اسے معلوم تھا کہ بینزین میں چھ کاربن ہوتے ہیں اور چھ ہائڈروجن، جبکہ کاربن ایک وقت میں چار ایٹموں سے جڑ سکتا ہے۔ اس طرح سے اس مالیکیول کی ساخت بنانا ایک لاینحل مسئلہ بن گیا تھا کہ  چھ کاربن اور چھ ہائڈروجن اگر ایک زنجیر کی شکل میں ہوں بھی تو بچ جانے والی ویلینسیاں کیسے پوری کی جائیں۔
اسی ادھیڑ بن میں اسکی لیب اسکے لئے خانقاہ بن چکی تھی۔ پھر ایک دن اس عالم میں اسکی آنکھ لگ گئ۔ خواب میں کیا دیکھتا ہے کہ ایک سانپ ہے جس نے اپنے منہ میں اپنی دم لی ہوئ ہے۔ اور اس طرح ایک حلقہ بنا ہوا ہے۔ آنکھ کھلی تو  وہ جان چکا تھا کہ بینزین ایک کھلی زنجیر کا مالیکیول نہیں ہے بلکہ ایک بند حلقہ ہے۔ بچ جانے والے الیکٹران 
حلقے پہ بادل کی طرح گھومتے رہتے ہیں اسی میں اسکی زائد مضبوطی کا راز چھپا ہے۔

خواب بشارت، خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ، لیکن کیکولے کو یہ حصہ کیوں ملا؟
کانسٹینٹن فالبرگ ایک کیمیاء داں، کول تار کو نئے طریقے سے استعمال کرنے کے طریقوں پہ کام کر رہا تھا ایک  تھکا دینے والے دن وہ آفس سے ہاتھ دھوئے بغیر گھر آیا اور کھانا کھاتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ اس میں ایک مٹھاس ہے اس نے اپنی بیوی سے پوچھا تو اس نے صاف انکار کر دیا کہ کوئ مٹھاس شامل نہیں کی۔ فالبرگ نے اپنے کالے ہاتھ دیکھے کچھ سوچا اور اگلے دن پھر جا کر اپنی لیب میں لگ گیا۔ یہ مٹھاس سیکرین کی تھا شکر کی طرح کی ایک مصنوعی مٹھاس جو شکر نہیں ہوتی اور کول تار میں موجود ہوتی ہے۔
 الیکزینڈر فلیمنگ، ایک حیاتیات داں جراثیم پہ تحقیق کر رہا تھا۔ جراثیم پہ تحقیق کرنے کے لئے انہیں خاص قسم کی پلیٹوں پہ اگانا پڑتا ہے جنہیں پیٹری ڈش کہتے ہیں۔ جیسے جیسے انکی آبادی بڑھتی ہے پلیٹوں پہ گچھے نمودار ہوتے ہیں۔ جنہیں مختلف تحقیقات کے لئے کام میں لایا جاتا ہے۔ وہ ایک بہت اچھا تحقیق داں تھا لیکن لیب اتنی صاف نہیں رکھ پاتا تھا۔ ایک دفعہ وہ ان ساری پلیٹوں کو ایک جگہ جمع کر کے چھٹیوں پہ چلا گیا جب واپس لوٹا تو کیا دیکھتا ہے کہ جراثیم کی ایک پلیٹ پہ پھپھوند لگ گئ تھی۔ جب اس نے غور کیا تو اسے اندازہ ہوا کہ پھپھوند نے ان جراثیم کو کھا لیا ہے جو اس نے اگائے تھے۔ یہ ایک بہت بڑی دریافت تھی۔
ایک پلیٹ پہ جراثیم کی اگائ ہوئ آبادیاں


 فلیمنگ نے پھپھوند میں سے اس مرکب کو الگ کیا اور اسے پینسلین کا نام دیا۔ لیکن وہ اسے اس مقدار میں نکالنے میں ناکام رہا جس سے اسے کسی بیماری کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔  اس مرکب پہ ایک اور کیمیاء داں نے کام کیا اور پینسلین کو زیادہ مقدار میں خالص کرنے کے قابل ہوا اس طرح سے اسکی دریافت کے دس سال بعد وہ دوا سامنے آئ جس نے لاکھوں لوگوں کو ان بیماریوں سے بچایا جو جراثیم سے ہوتی ہیں۔ یہ پہلی اینٹی بائیوٹک یا ضد حیاتیات دوا تھی۔
تابکاری  کی دریافت بھی ایک ایسے ہی اتفاقی حادثے کا نتیجہ تھی۔ جس سے آج دنیا کے بڑے ممالک میں نہ صرف بجلی پیدا کی جا رہی ہے بلکہ علاج میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ دل کے مریضوں کا دل چلانے والا پیس میکر بھی اسکے موءجد کی ایک  غلطی کی وجہ سے اپنی موجودگی سامنے لانے میں کامیاب ہوا۔ آج دنیا بھر میں لاکھوں لوگ اسے استعمال کرتے ہیں۔  
یہ تو چند مثالیں ہیں جو مجھے اس وقت یاد آئیں۔ سائینس کی دنیا میں ایسے بہت سے واقعات بھرے ہوئے ہیں۔ جنہیں جان کر 
خوشی ہوگی، حیرانی ہوگی۔ آپ میں سے شاید کچھ کہیں کہ انسان محنت کرے تو اسکا صلہ اسے ضرور ملتا ہے۔


فلیمنگ کا کہنا تھا کہ اتفاقی دریافت ان ذہین لوگوں کے حصے میں آتی ہے جو اسکے لئے پہلے سے تیار ہوتے ہیں۔ اتفاقی
 دریافت ہی نہیں ایک اچانک مل جانے والے اچھے موقع سے بھی وہی فائدہ اٹھا پاتے ہیں جو ذہنی طور پہ فائدہ اٹھانے کے
لئے تیار ہوتے ہیں

 لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک لمحے کے لئے سوچیں اگر میں ان سارے سائینسدانوں کے اصل نام دینے کے بجائے مسلمان نام دے
دوں۔ کیکولے کو خلیل بنادوں، فلیمنگ کو فہیم کر دوں  اور آپ اس تحریر کو دوبارہ سے پڑھیں تو مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے کچھ کہہ اٹھیں گے مومن جب کام کرنے کا ارادہ کرتا ہے خدا اسکی فہم و فراست بن جاتا، خدا اسکی آنکھ بن جاتا ہے، خدا اسکے ہاتھ بن جاتا ہے اور اسے  ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے وہ تصور بھی نہیں کر سکتا۔
 ہممم، انسان اگر سچ کی جستجو کے لئے کام کرنے کا ارادہ کرے تو اللہ اسکا رتبہ مومن کے برابر کر دیتا ہے۔ پھر وہ اسکی فہم و فراست بن جاتا ہے، اسکی آنکھ بن جاتا ہے، اسکے ہاتھ بن جاتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے وہ تصور بھی نہیں کر سکتا۔

Saturday, February 11, 2012

تقدس سے باہر-۳


عرب معاشرہ اس وقت بنیادی طور پہ جن مسائل کا شکار تھا وہ معاشرتی اور معاشی دونوں تھے۔
معاشرتی مسائل دراصل معاشی حالات کی دین تھے یا جیسا کہ قبائلی نظام کا خاصہ ہوتا ہے انسان کی آزاد روی کو روکنے کے لئے وہ شخصی بت تراشتی ہے اور عام انسان کی قدر کم کرتی ہے۔ یہ قبائلی معاشرہ جیسا کہ دنیا کے بیشتر حصوں میں رواج ہے مرد کی سربراہی میں چلتا تھا۔ ایسے میں اگر عورت کی کوئ حیثیت متعین ہوتی تھی تو وہ بھی مرد کی نسبت سے۔ اور مرد سے اسکا ایک تعلق مسلم سمجھا جاتا ہے وہ ہے جنسی تعلق۔
سو اس عرب معاشرے میں عورت کی حیثیت جنس کے گرد گھومتی تھی۔  اگر اسے کچھ قبائل میں عزت حاصل تھی تو اسکی بنیادی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اسکی طرف مرد کا جنسی التفات زیادہ ہوتا تھا۔  یوں قبائل کے درمیان اگر عورت کی وجہ سے جنگ بپا ہوجاتی تو اسی کی وجہ سے امن بھی قائم ہوجاتا۔
طبقہ ء اشرافیہ میں عورت کے لئے ضروری تھا کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہ کرے۔   اسکے علاوہ جنسی تعلق کے جو طریقے رائج تھے وہ نہ صرف آجکے اسلامی معاشرے میں زنا کی ضمن میں آتے ہیں بلکہ انکا مقصد بھی عیاشی یا جنس تک سستے طریقے سے پہنچنے کے علاوہ کچھ نہیں لگتا۔
عورت اپنے مرد کی جاگیر تصور کی جاتی یہی وجہ ہے کہ جنگ میں ہارنے والے فریق کی عورتیں فاتح قوم کے حرم میں داخل کی جاتیں۔ باپ کے مرنے پہ ماں بیٹے کی ملکیت تصور ہوتی۔
یہ تو آزاد عورتوں کا حال تھا۔  عرب قبائلی نظام میں لونڈیوں اور غلاموں کا رواج بھی تھا۔ لونڈی صرف گھریلو امور میں مددگار نہ ہوتی بلکہ چونکہ اسکی حیثیت ایک فروخت شدہ انسان کی ہوتی اس لئے مالک جب چاہے اس سے جنسی تعلق قائم کر لیتا۔ پیدا ہونے والی اولاد کا مرتبہ آزاد عورت سے پیدا ہونے والی اولاد کے مقابلے میں  کم ہوتا۔ اس سب کے بعد مالک جب چاہے اسے کسی بھی نئے مالک کے حوالے کر سکتا تھا۔

معاشرے میں مرد کی اہمیت مسلم تھی اور اولاد سے مراد بالعموم مرد اولاد ہوتی تھی۔ لڑکیوں کو اولاد تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ اس لئے اگر ایک شخص کی درجن بھر بیٹیاں ہوتیں اور لڑکا نہ ہوتا تو اسے بے اولاد ہی سمجھا جاتا۔ جیسا کہ سورہ کوثر میں اللہ تعالی ، رسول اللہ کو تسلی دیتے ہیں کہ تمہارا دشمن ہی بے اولاد مرے گا۔ حالانکہ اس وقت رسول اللہ کی بیٹیاں موجود تھیں۔ لیکن بیٹے کی وفات پہ رسول اللہ کے غم کو ہلکا کرنے کے لئے یہ الفاظ کہے گئے۔ اگر ہم فوٹون کی نظر سے دیکھیں تو یہ رسول اللہ کی وہ کوشش لگتی ہے جو انہوں نے معاشرے میں خواتین کی حیثیت بلند کرنے کے لئے کی۔ یعنی انسان کا نام اور عزت اولاد کی محتاج نہیں ہوتی بلکہ اسکے اپنے اعمال اسے اس قابل بناتے ہیں کہ لوگ اسے تا دیر عزت اور احترام سے یاد رکھیں۔ اس لئے قرآن کی زبانی یہ کہا گیا کہ بے شک تمہارا دشمن ہی بے اولاد رہے گا۔ وہ دشمن جو نبی کی اس جدو 
جہد میں رکاوٹ تھے جو وہ اس معاشرے کے گرے پڑے، کمزور انسانوں کے لئے کر رہے تھے۔ 

زیادہ بیٹے زیادہ عزت کا باعث ہوتے کیونکہ قبائلی جنگوں میں وہ لڑنے کے کام آتے تھے۔ زیادہ لڑکے، زیادہ لڑنے والے ہاتھ زیادہ جان کا نذرانہ پیش کرنے والے لوگ۔ جبکہ لڑکیاں اس صورت میں زیادہ کار آمد نہ ہوتیں سوائے اسکے جنگ کے میدان میں مردوں کے حوصلے بڑھانے کے لَئے جنگی گیت گائیں یا زخمی سپاہیوں کی دیکھ ریکھ کر لیں۔ معاشرہ اس قدر زیادہ مرد کے حق میں بڑھا ہوا تھا کہ غیرت کو بنیاد بنا کر بعض قبائل میں لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا۔
جنگ ان قبائل کا پسندیدہ مشغلہ تھی اور انکی اقتصادی حالات کی خرابی کا ذمہ دار بھی۔ زراعت اور گلہ بانی دو ممکنہ ذرائع آمدنی تھے۔ عرب کا یہ خطہ زراعت کے حساب سے اتنا زرخیز نہیں تھا کہ اس پہ انحصار کیا جا سکتا۔ اس لئے آمدنی کا بڑا ذریعہ تجارت تھی یا زائرین جو مکہ آیا کرتے تھے۔
جہاں تک صنعتوں کا تعلق ہے عرب اس میدان میں ساری دنیا سے پیچھے تھے۔ اگر کسی جگہ کپڑے کی بنائ یا چمڑے کی دباغت کی ابتدائ صنعتیں پائ جاتی تھیں تو یہ وہی علاقے تھے جو زیادہ جدید تہذیبوں کے قریب واقع تھیں۔ عرب کے اس خطے میں بالکل موجود نہ تھیں۔  خواتین بھی اپنے طور پہ اس معاشی جدو جہد کا حصہ تھیں وہ سوت کاتنے کا کام کرتیں اور آمدنی پیدا کرتیں۔ لیکن تین قابل احترام مہینوں کو چھوڑ کر سال کے نو مہینے جاری رہنے والی جنگ پہ بیشتر آمدنی لٹا دی جاتی اور یوں عام انسان فقر اور فاقے سے باہر نہ نکل پاتا فقر کا عالم یہ تھا کہ پہننے کو کپڑے اور کھانے کو خوراک موجود نہ تھی۔
جنگ اس قدر دلچسپ مشغلہ تھا کہ عربی ادب کا ایک بڑا حصہ اسکے لئے وقف تھا۔ اس میں جنگوں کے حالات سچ جھوٹ ملا کر لکھے جاتے اور اپنے قبائل کے بہادر جنگی لوگوں کی تعریفوں کی شان میں قصیدے کہے جاتے تاکہ قوم میں لڑنے کا جذبہ قائم رہے۔ شعراء کی اس لئے عرب معاشرے میں بڑی حیثیت تھی۔ جنگ کے یہ قصےمغازی کہلاتے تھے۔
یوں اس معاشرے کی جو بنیادی خرابیاں فوٹون کو سمجھ میں آتی ہیں وہ اقتصادی، جنگی اور جنسی افراط و تفریط ہے۔ ان کا 
شرک یا توحید سے کیا تعلق بنتا ہے؟ فوٹون اس پہ سوچتا ہے فوٹون جو اپنے بنیادی نظریات میں ایک لا دین شخص ہے۔


جاری ہے۔

نوٹ؛ اس تحریر کی تیاری میں جن کتب سے مدد لی گئ ہے وہ یہ ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی کی کتاب سیرت النبی، اسکے پبلشر ہیں الفیصل ناشران و تاجران کتب اور مولانا صفی الرحمن مبارکپوری کی الرحیق المختوم جسکے پبلشر ہیں المکتبہ السلفیہ لاہ


شبلی نعمانی کی سیرت النبی یہاں سے ڈاءونلوڈ کیجئیے۔
الرحیق المختوم یہاں سے ڈاءونلوڈ کریں۔

Sunday, February 5, 2012

وہ ایک سجدہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قوم کو پھر کرکٹ کے بخار نے گھیر لیا ہے۔  آجکا دن بہت سے لوگوں کے لئے آزمائیش کا دن ہے کہ ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر۔ یہاں کرکٹ کے شائقین کی وضاحت کے لئے یہ واضح کردوں کہ کفر سے میری مراد کرکٹ نہیں ہے۔ شعراء اور مولانا صاحبان میں ایک یہی قدر مشترک ہے دونوں ایک ہی چیز کو کفر کہتے ہیں مگر نیت کے فرق کے ساتھ۔ لمحہ ء موجود میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو یا نبی سلام علیک  پڑھنے کے بجائے کرکٹ کے میدان میں حاضری دئیے ہوئے ہیں۔ پھر شاید احساس گناہ سے باہر نکلنے کے لئے فیس بک پہ عید میلاد النبی مبارک کے پیغامات لکھ لکھ کر ڈال رہے ہیں۔
کچھ لوگ  منہ کا مزہ بدلنے کو اس بحث میں بھی حصہ لئے ہوئے ہیں کہ کیا عید میلاد النبی منانا درست ہے۔ مجھے تو صرف ایک اعتراض ہے اور وہ یہ کہ ولادت رسول تو صحیح تاریخ کو منائیں۔ 
فیس بک سے سرسری گذرنے کے بعد ہم حقیقی زندگی میں واپس آئے اور ایک صاحب سے دریافت کیا کہ آج کے میچ کے بارے میں انکا کیا خیال ہے؟
جواب ملا ، آج کے مبارک دن، پیغمبر کے یوم ولادت پہ فرنگیوں کو شکست فاش ہوگی۔
اچھا ہم نے سکون کا سانس لیا۔  پھر تو قوم شکر ادا کرنے کے لئے سجدے میں گر جائے گی۔
انہوں نے 'وہ مارا' کا نعرہ بلند کیا اور ٹی وی پہ نظر جمائے ہم سے سوال کیا، قوم اٹھی کب تھی؟

اس وقت سے میں یہ سوچ رہی ہوں وہ ایک سجدہ اتنا لمبا کیوں ہے؟

Thursday, February 2, 2012

تقدس سے باہر-۲

گذشتہ سے پیوستہ

اس مقام پہ یہ ضروری لگتا ہے کہ ہم اپنے بنیادی کردار کا کوئ نام رکھ لیں۔ فوٹون کیسا ہے؟ فوٹون دراصل روشنی کے وہ یونٹس ہوتے ہیں جن میں وہ سفر کرتی ہے۔  روحانیت کہتی ہے کہ یہ کائینات روشنی سے بنی ہوئ ہے حتی کہ خدا بھی ایک نور ہے۔
سائینس کہتی ہے کہ انسان ان ستاروں سے بنا ہوا ہے جو اربوں سال پہلے ختم ہو چکے ہیں۔ تو یہ روشنی میں بھی ہوں اور آپ بھی۔
فوٹون، عرب کے اس تعارف کے بعد آگے بڑھتا ہے اور یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ رسول اللہ کی بعثت کے وقت عرب میں رائج مذاہب کون سے تھے اور کیا اسلام ان سب سے الگ کوئ اجنبی دین تھا جو آیا اور چھا گیا۔
عرب میں اس وقت مختلف طرح کے مذہاب رائج تھے۔ بعض قوانین فطرت کو سب کچھ سمجھتے تھےبعض خدا کے قائل تھےلیکن قیامت اور جزا و سزا کے انکار کرنے والے، بعض جزا و سزا کے بھی قائل تھے لیکن نبوت سے انکاری۔ قرآن کے الفاظ میں یہ کیسا رسول ہے کہ کھاتا پیتا ہےاور بازار میں چلتا پھرتا ہے۔ انکا خیال تھا کہ اگر کوئ نبی ہو سکتا ہے تو اسے فرشتہ ہونا چاہئیے تمام حاجات انسانی سے مبرّا۔ فوٹون سمجھتا ہے کہ چونکہ انسان نبی کو ایک خدائ نمائندہ سمجھتا ہے اس لئے وہ اسے انسان اور خدا کے مابین کوئ مخلوق ماننا چاہتا ہے۔
اس طرح سے مختلف قبائل تھے جو مختلف ستاروں اور سیاروں کی پرستش کیا کرتے تھے۔مشہور بتوں کے نام تھے۔ لات، عزّی، منات،ودّ، سواع، یغوث، یعوق۔ سب سے بڑا بت 'ہبل' تھا۔ جو کعبے کی چھت پہ نصب تھا۔ قریش لڑائیوں میں اسکی جے پکارتے تھے۔ جیسے آجکل مسلمان لڑائیوں میں اللہ اکبر یا شیعہ یا علی کہتے ہیں۔ فوٹون کو اس نام پہ ہبل ٹیلی اسکوپ یاد آجاتی ہے۔ لیکن وہ اپنے اس خیال کو جھٹک دیتا ہے۔ جدید دنیا کے یہ آلات خدا نہیں ہیں اگرچہ ہبل ٹیلی اسکوپ کائینات کے عظیم راز کھولتی ہے لیکن وہ انسان کی بس ایک مددگار ہے۔ اسکا خدا نہیں۔ انسان اسکے مشاہدے سے اپنے نتائج اخذ کرتا ہے اور یہ مشین اس میں دخل اندازی نہیں کرتی۔ دیکھا جائے تو ہبل کا بت اس سے بھی کم تر تھا۔ مگر انسانی یقین نے اسے خدا بنا رکھا تھا۔
عرب میں اس بت پرستی کا بانی ایک شخص عمرو بن لحئ کو بتایا جاتا ہے۔ وہ حرم کا متولی تھا۔ اس سے پہلے جرہم حرم کے متولی تھے۔ عمرو نے ان سے لڑ کر انہیں نکال باہر کیا۔
خانہ کعبہ کی عرب سیاست اور معاشرے میں بڑی اہمیت تھی۔ جن قبائل کو اسکے انتظام کے لئے مناسب حاصل تھے دراصل اسکی حکومت ہوتی تھی۔ حج کے لئے آنے والے زائرین کی آمد سے علاقے کے لوگوں کو آ٘مدنی ہوتی تھی۔ آج بھی حج کے لئے آنے والے زائرین سعودی عرب کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہیں۔ اگرچہ بیسویں صدی کے وسط میں تیل کی دریافت نے انکی دولت میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ اس وقت اسکے لئے بھی قوانین بنائے ہوئے تھے مثلاً بیرون حرم سے شہر آنے والے اپنا کھانا نہیں لا سکتے تھے۔ کہ اسکا کھانا مذہب کی رو سے درست نہ ہوتا۔ کپڑوں کے لئے یہ کہ  حمس سے کپڑوں کے علاوہ اگر کپڑے نہ ہوں تو طواف برہنہ کرنا پڑتا۔
بہر حال عمرو ایک دفعہ شام گیا وہاں لوگوں کو بتوں کی پوجا ہوتے دیکھی۔ حیران ہوا اور دریافت کیا کہ یہ ماجرا کیا ہے۔ لوگوں نے کہا یہ حاجت روا ہیں، لڑائیوں میں فتح دلاتے ہیں، قحط پڑتا ہے تو پانی برساتے ہیں۔ عمرو حرم کا متولی تھا اور فوٹون کو لگتا ہے کہ خاصہ ذہین بھی اسنے وہاں سے چند بت لئے اور اور کعبے کے آس پاس قائم کئے۔ شاید وہ سمجھتا تھا کہ اس سے کعبے کی اہمیت اور بڑھے گی اور چونکہ وہ کعبے کا متولی ہے اس لئے اسے زیادہ فائدہ ہوگا۔
کعبہ ایک بڑی عبادت گاہ ہونے کی وجہ سے اہمیت رکھتا تھا۔ اسکی اہمیت حضرت ابراہیم سے منسوب ہونے کی وجہ سے بھی تھی۔ وہاں سارے عرب سے قبائل آیا کرتے تھے۔ یہ قبائل جب یہاں حج کو آتے تو واپس جاتے ہوئے حرم کے پتھر اٹھا لیتے۔ ان پتھروں کو با برکت سمجھتے ہوئے ان پہ کعبے میں موجود بتوں کی شکل تراشتے اور انکی عبادت کرتے۔ اس طرح سے بت پرستی یہاں سے نکل کر سارے عرب میں پھیل گئ۔
کیا اللہ اسلام کا متعارف کرایا ہوا معبود  ہے؟
اگرچہ کہ عرب بت پرست تھے۔ لیکن انکے دل سے یہ خیال کبھی نہیں گیا کہ برتر اور عظیم قوت ان سب سے الگ ہے اور وہ ایک ہے۔ تمام مشرک قومیں ایک برتر قوت کا تصور رکھتی ہیں۔ ہندو بھی جسے بھگوان کہتے ہیں وہ کائینات کی سب سے عظیم قوت ہے۔ اس خالق کو وہ اللہ کہتے تھے۔ قرآن انکی اس کیفیت کو اس طرح بیان کرتا ہے
پھر جب یہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ ہی کو خلوص کے ساتھ پکارتے ہیں پھر جب خدا انکو نجات دے کر خشکی کی طرف پہنچا دیتا ہے تو تو شرک کرنے لگتے ہیں [ عنکبوت، ۴]۔
مئورخین کہتے ہیں کہ اللہ جو صفا کے کتبوں میں ہلّہ لکھا ہوا ہے۔ نباتی وہ دیگر باشندگان عرب شمالی کے نام کا ایک جز تھا مثلاً زید اللہی۔۔۔۔۔۔۔۔ نباتی کتبات میں اللہ کا نام ایک علیحدہ معبود کے طور پہ نہیں ملتا۔ لیکن صفا کے کتبات میں ملتا ہے۔ متاخریرین مشرکین مکہ میں اللہ کا نام عام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ کانام جو پہلے مختلف معبودوں کے لئے استعمال ہوتا تھا رفتہ رفتہ بعد کے زمانے میں صرف ایک عظیم معبود  کے لئے بطور علم کے مخصوص ہو گیا۔
فوٹون نے سوچا، ارے یہ کیا اللہ نام کا معبود تو پہلے سے موجود تھا۔
نصرانیت یعنی عیسائیت، یہودیّت اور مجوسیت یہ تینوں مذاہب بھی عرب میں ایک خاصی مدت سے موجود تھے۔ عیسائیت اتنی ترقی کر چکی تھی کہ مکہ میں ایسے لوگ موجود تھے جو عبرانی زبان میں انجیل پڑھ سکتے تھے، مثلاً ورقہ بن نوفل جنہوں نے پہلی وحی کے بعدرسول اللہ کی نبوت کی تصدیق کی۔ متعدد ایسے لوگ تھے جنہوں نے ملک شام جا کر اسکی تعلیم پائ تھی۔ یہودیوں کے متعدد قبائل تھے  حتی کہ یہود نے مدینہ پہ قابو پا لیا تھا۔ تورات کی تعلیم کے لئے متعدد درسگاہیں قائم تھیں  جن کو بیت المدارس کہتے تھے۔ قلعہ خیبر کی تمام آبادی یہودی تھی۔
اہل کتاب کی روائیتیں مکہ میں رواج پا چکی تھیں۔ اس لئے قرآن کے وہ واقعات جن میں بنی اسرائیل کا تذکرہ ہوتا کفار انکے متعلق کہتے کہ کوئ یہودی محمد کو یہ سب سکھاتا ہے۔
ان سب کے علاوہ دین ابرہیمی بھی موجود تھا یعنی وہ دین جوتوحید خالص پہ مبنی تھا۔ ایسے صاحب عقل لوگ موجود تھے جو بت پرستی کو ایک برائ سمجھتے تھے اور حق کی تلاش میں تھے۔
ابن اسحق نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ کسی بت کے سالانہ میلتے میں ورقہ بن نوفل، عبداللہ بن حجش، عثمان بن ایحویرث اور زید بن عمرو شریک تھے دفعتاً ان لوگوں کے دل میں خیال آیا کہ یہ کیا بیہودہ پن ہےکہ ہم ایک پتھر کے سامنے سر جھکاتے ہیں۔ جو نہ سنتا ہے نہ دیکھتا ہے نہ کسی کا نقصان کر سکتا ہے نہ فائدہ پہنچا سکتا ہے۔  اگرچہ اس مرحلے پہ فوٹون ایک لا دین ہونے کے ناطے یہ  سوچتا ہے کہ ایک ان دیکھا واحد خدا بھی تو یہ سب نہیں کرتا پھر وہ لوگ کس خدا کو تلاش کرنا چاہتے تھے؟
یہ چاروں قریش کے خاندان سے تھے۔ ورقہحضرت خدیجہ کے پھوپھی زاد بھائ، زید حضرت عمر کے چچا، عبداللہ حضرت حمزہ کے بھانجے، عثمان عبدالعزی کے پڑ پوتے تھے۔
زید بنعمرو دین ابراہیمی کی تلاش میں شام گئے وہاں یہودیوں اور عیسائ پادریوں سے ملے مگر تسلی نہیں ہوئ۔ دل میں کہا کہ میں دین ابراہیم کا مذہب قبول کرتا ہوں۔
صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ نے نبوت سے پہلے حضرت زید کو دیکھا تھا۔ اور ان سے دوستی بھی تھی۔ یہ وہ صاحب تھے کہ جب کوئ اپنی بیٹی کو زندہ دفن کرنے کا ارادہ کرتا تو اس سے بچی کو مانگ لیتے اور خود اسکی پرورش کرتے۔
انکے علاوہ باقی تینوں لوگ عیسائ ہو گئے۔
بعثت رسول کے قریب امیہ بن ابی الصلت نامی طائف کا ایک مشہور رئیس اور شاعر تھا۔ وہ بھی بت پرستی کا شدید مخالف تھا۔ کتابوں میں مذکور ہے کہ امیہ نے آسمانی کتابیں پڑھی ہوئ تھیں اور دین ابراہیمی  اختیار کر لیا تھا۔
امیہ کا دیوان اب بھی موجود ہے۔ وہ غزوہ ء بدر تک زندہ رہا۔ عتبہ جو رئیس مکہ اور امیر معاویہ کا نانا تھا  جب مسلمانوں کے خلاف جنگ میںمارا گیا تو امیہ نے ایک پر درد مرثیہ لکھا۔ کہا جاتا ہے کہ اسی وجہ سے امیہ نے اسلام قبول نہیں کیا۔
رسول اللہ کو امیہ کی شاعری پسند تھی اور اسے سنتے ہوئے انہوں نے کہا کہ، 'امیہ مسلمان ہوتے ہوتے رہ گیا'۔ یہ شاید امیہ کی شاعری میں موجودان نظریات کی وجہ سے تھا جس کی جھلک اسلام کے بنیادی نظریات میں نظر آتی ہے۔ فوٹون نے خیال کیا۔ رسول اللہ پہ تنقید کرنے والے ایک طبقے کا خیال ہے کہ محمد نے اپنے بنیادی نظریات ایسے ہی مقامات سے لئے۔
دین ابراہیمی کو ہی دین حنیفی بھی کہا جاتا ہے۔ کیوں کہا جاتا ہے اسکے بارے میں قطعیت سے نہیں کہا جا سکتا۔  ایک رائے یہ ہے کہ حنیف، حنف سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے انحراف۔ مفسرین کے نزدیک چونکہ بت پرستی سے انحراف ہے اس لئے حنیفی کہلایا۔ ایک اور رائے میں عبرانی اور سریانی زبان میں حنیف کے معنی منافق یا کافر کے ہیں۔  ممکن ہے کہ یہ لقب بت پرستوں نے دیا ہو اور توحید پرستوں نے فخریہ قبول کیا۔
ان کے علاوہ چند لوگ اور تھے جو اس وقت بت پرستی سے منکر ہو چکے تھے۔ اس بناء پہ اہل یوروپ کا کہنا ہے کہ توحید خالص کا تصور اسلام سے پہلے عرب میں موجود تھا۔ شبلی صاحب ایک حیرانی میں پوچھتے ہیں کہ پھر اسلام کے ظہور پہ اتنا ہنگامہ کیوں ہوا؟
فوٹون اس مرحلے پہ سمجھتا ہے کہ توحید خالص کے لئے تحریک چلانے والی سوچ بعثت نبوی سے پہلے پیدا ہو چکی تھی سوال یہ تھا کہ پہلا پتھر کون مارے؟ لیکن فوٹون کے لئیے اہم بات یہ ہے کہ آخر اس تصور کے حق میں تحریک چلانے کی ایسی کیا ضرورت آ پڑی تھی؟ 


نوٹ؛ اس تحریر کی تیاری میں جن کتب سے مدد لی گئ ہے وہ یہ ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی کی کتاب سیرت النبی، اسکے پبلشر ہیں الفیصل ناشران و تاجران کتب اور مولانا صفی الرحمن مبارکپوری کی الرحیق المختوم جسکے پبلشر ہیں المکتبہ السلفیہ لاہور۔